سُوْرَۃ يُوسُف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

الٓرٰ- تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِﭦ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

’’الر‘‘، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں ۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{ تِلْكَ:یہ۔} یعنی اس سورت میں جو آیات بیان ہوئیں یہ روشن کتاب یعنی قرآنِ مجید کی آیتیں ہیں۔ مبین کا معنی ہے روشن و ظاہر کردینے والی۔ قرآنِ پاک کا مبین ہونا یوں ہے کہ اس کا اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا ہونا ظاہر ہے نیز اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا واضح ہے نیز اس کے معانی روشن اور و اضح ہیں کہ قرآنی آیات کے معانی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں نیز اس قرآن میں حلال و حرام،حدود و تعزیرات کے اَحکام صاف بیان فرمائے گئے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں سابقہ امتوں ،ان کے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال روشن طور پر مذکورہیں اور اس میں حق و باطل کو ممتاز کردیا گیا ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۱۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲، ملتقطاً)

 

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا تا کہ تم سمجھو۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا:بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا کیونکہ عربی زبان سب زبانوں سے زیادہ فصیح ہے اور جنت میں جنتیوں کی زبان بھی عربی ہو گی اوراسے عربی میں نازل کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ تم اس کے معنی سمجھ کر ان میں غوروفکر کرو اور یہ بھی جان لو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۹۴۱)

قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غورو فکر کریں اور اسے سمجھنے کے لئے عربی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں یا جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہئے کہ اہلِ حق کے مُسْتَنَد علما کے تراجم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تاکہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ سکیں۔ افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کی کثیر تعداد قرآنِ مجید کو سمجھنے اور اس میں غور وفکر کرنے سے بہت دور ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ عربی کا سیکھنا بحیثیت ِ مجموعی اُمت ِمُسلمہ کیلئے فرضِ کفایہ ہے۔

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ ﳓ وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اس کے ذریعے ہم تمہارے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں اگرچہ اس سے پہلے تم یقینا اس سے بے خبر تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ:ہم تمہارے سامنے سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم آپ کے سامنے سابقہ امتوں اور گزشتہ زمانوں کا سب سے اچھا واقعہ بیان کرتے ہیں جو کہ بہت سی عجیب و غریب حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس میں دین و دنیا کے بہت فوائد ، بادشاہوں ، رعایا اور علماء کے اَحوال، عورتو ں کی عادات، دشمنوں کی ایذاؤں پر صبر اور ان پر قابو پانے کے بعد ان سے درگزر کرنے کا نفیس بیان ہے جس سے سننے والے میں نیک سیرتی اور پاکیزہ خصلتیں پیدا ہوتی ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲-۳ )نیز اس سورت کے ضمن میں ایک انسان کی زندگی کے جملہ مراحل کو بیان کردیا گیا کہ زندگی کے کن مراحل پر کیا کیا چیزیں انسان کو پیش آسکتی ہیں اور ان سے وہ بہترین انداز میں سبکدوش کیسے ہوسکتا ہے۔

{وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ:اگرچہ اس سے پہلے تم یقینا اس سے بے خبر تھے۔}یعنی یہ سورت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طر ف وحی کرنے سے پہلے آپ کو اس واقعے کی خبر تھی اور نہ آپ نے اس واقعے کو کبھی سنا تھا۔( ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۷۸)

           علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’یہ تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے سب سے اچھے انداز اور بہترین طریقے سے گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبر دی ہے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۹۴۱)

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمانے کی وجوہات:

            حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘ فرمانے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3 وجوہات درج ذیل ہیں۔

(1)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں جس قدر عبرتیں اور حکمتیں بیان کی گئی ہیں اتنی اور کسی سورت میں بیان نہیں کی گئیں۔

(2)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنے بھائیوں سے انتہائی اچھا سلوک فرمانے ،ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرنے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود انہیں معاف کر دینے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔

(3)… حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں انبیاءِ کرام، صالحین، فرشتوں ، شیطانوں ، جنوں ، انسانوں ، جانوروں اور پرندوں کا ذکر ہے اور اس میں بادشاہوں ، تاجروں ، عالموں ، جاہلوں ، مَردوں اور عورتوں کے طرزِ زندگی کا بیان اور عورتوں کے مکر وفریب کا ذکر ہے، اس کے علاوہ اس واقعے میں توحید، رسالت، فقہی اَحکام، خوابوں کی تعبیر، سیاست، مُعاشرت، تدبیرِمَعاش اور ان تمام فوائد کا بیان ہے جن سے دین و دنیا کی اصلاح ممکن ہے ،اس لئے اس واقعے کو ’’ اَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘فرمایا گیا۔ (تفسیرقرطبی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۸۳، الجزء التاسع)

اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا: اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔}  یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ  اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا خواب:

             مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳)

قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدًاؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: اے میرے بچے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا ورنہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں گے ۔بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ یٰبُنَیَّ:فرمایا: اے میرے بچے!} مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہت زیادہ محبت تھی ، اس لئے ان کے ساتھ ان کے بھائی حسد کرتے تھے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ یہ بات جانتے تھے ، اس لئے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خواب دیکھا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا  اے میرے بچے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا  کیونکہ وہ اس کی تعبیر کو سمجھ لیں گے تووہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں گے اور تمہاری ہلاکت کی کوئی تدبیر سوچیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴)

             حضرت علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے لئے منتخب فرمائے گا اور دونوں جہان کی نعمتیں اور شرف عنایت کرے گا اس لئے آپ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلاف ان کے بھائیوں کی طرف سے حسد کا اندیشہ ہوا اور آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ اگر آپ نے اپنے بھائیوں سے اپنا خواب بیان کیا تو وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ص۵۲۰)

خواب کس سے بیان کرنا چاہئے؟

            اس سے معلوم ہو اکہ انسان جب کوئی اچھا خواب دیکھے تو ا س کے بارے میں صرف اس شخص کو خبر دے کہ جو اس سے محبت رکھتا ہو یا عقلمند ہو اور اس سے حسد نہ کرتا ہو اور اگر برا خواب دیکھے تو اسے کسی سے بیان نہ کرے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۹۴۲)صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف ) تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب ما اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴، مسلم، کتاب الرؤیا، ص۱۲۴۲، الحدیث: ۳(۲۲۶۱))

{اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ:بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔} آیت کے اس حصے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اذیت اور تکلیف پہنچانےکی کوشش کریں گے تو اس کا سبب شیطانی وسوسہ ہوگا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴)

وَ كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اسی طرح تیرا رب تمہیں منتخب فرمالے گااور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا اور تجھ پر اور یعقوب کے گھر والوں پراپنا احسان مکمل فرمائے گا جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی بیشک تیرا رب علم والا،حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’جس طرح اس عظمت و شرافت والے خواب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تیرا مقام بلند کیا اسی طرح تیرا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں نبوت و بادشاہت یا اہم کاموں کے لئے منتخب فرما لے گا۔

         بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ’’ اِجْتِبَاءُ یعنی اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چن لینا ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو فیضِ رَبّانی کے ساتھ خاص کرے جس سے اس کو طرح طرح کے کرامات و کمالات، محنت و کوشش کے بغیر حاصل ہوں ، یہ مرتبہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص ہے اور ان کی بدولت ان کے مقربین ،صدِّیقین ، شُہدا اور صالحین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی اس نعمت سے سرفراز کئے جاتے ہیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴، بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۲۷۴، ملتقطاً)

{وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ:اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا۔} آیت میں مذکور ’’ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘‘ سے خوابوں کی تعبیر نکالنا مراد ہے کیونکہ خواب اگر سچے ہوں تو وہ فرشتوں کی باتیں ہیں اور اگر سچے نہ ہوں تو وہ نفس یا شیطان کی باتیں ہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ’’ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ‘‘ سے سابقہ آسمانی کتابوں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اَحادیث کی مُبْہَم باتوں کو ظاہر فرمانا مراد ہے۔ پہلا قول صحیح ہے۔(ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۸۱)

{وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ: اور وہ اپنا احسان مکمل فرمائے گا۔}امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں ’’ یَجْتَبِیْكَ‘‘ سے نبوت کے لئے منتخب فرمانا مراد لیا جائے تو اس صور ت میں نعمت پوری کرنے سے مراد دنیا اور آخرت کی سعادتیں عطا فرمانا ہے، دنیا کی سعادتیں یہ ہیں۔ (1) اولاد کی کثرت۔ (2) خدمت گاروں اور پیروی کرنے والوں کی کثرت۔ (3) مال اور شان وشوکت میں وسعت۔ (4) مخلوق کے دلوں میں عظمت و جلال کی زیادتی۔ (5) اچھی ثنا اور تعریف۔ آخرت کی سعادتیں یہ ہیں۔ (1) کثیر علوم۔ (2) اچھے اَخلاق۔ (3) اللہ تعالیٰ کی معرفت میں اِستغراق۔ اور اگر ’’ یَجْتَبِیْكَ‘‘ سے بلند درجات تک پہنچانا مراد لیا جائے تو اس صورت میں نعمت پوری کرنے سے مراد نبوت عطا فرمانا ہے، اس کی تائید ان باتوں سے ہوتی ہے۔

(1)…نعمت پورا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نعمت کو اس طرح کامل کر دیاجائے کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہو اور انسان کے حق میں ایسی نعمت صرف نبوت ہے مخلوق کے تمام مَناصب ،نبوت کے منصب کے مقابلے میں ناقص ہیں۔

(2)…حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی، یہ بات واضح ہے کہ وہ نعمتِ تامہ جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باقی انسانوں سے اِمتیاز حاصل ہوا ،وہ نبوت ہے ،لہٰذا اس آیت میں تکمیلِ نعمت سے مراد نبوت ہے۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۴۲۱، ملتقطاً)

لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىٕلِیْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک یوسف اور اس کے بھائیوں (کے واقعے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ:بیشک۔} یعنی بے شک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائیوں کے واقعے میں پوچھنے والوں کے لئے عظیم الشان نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت ِقاہرہ پر دلالت کرتی ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۸۲)

آیت’’ لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ‘‘ سے متعلق دو باتیں :

            اس آیت کے تعلق سے دو باتیں قابلِ ذکر ہیں

(1)… حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پہلی بیوی لِیَا بنتِ لَیَان آپ کے ماموں کی بیٹی ہیں ، ان سے آپ کے 6 فرزند ہوئے (1) رُوْبِیلْ، (2) شمعون، (3) لاوِی ، (4) یہوذا (یا،یہودا)، (5) زبولون، (6) یَشْجُرْ جبکہ چار بیٹے (7) دَانْ، (8) نَفْتَالی، (9) جادْ، (10) آشر، دوسری دو بیویوں زلفہ اور بلہہ سے ہوئے۔ لیا کے انتقال کے بعد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی بہن راحیل سے نکاح فرمایا ان سے دو فرزند ہوئے (11) حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور (12) بنیامین ۔ یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارہ صاحب زادے ہیں انہیں کو اَسباط کہتے ہیں۔

(2)…آیت میں سائلین یعنی پوچھنے والوں سے وہ یہودی مراد ہیں جنہوں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حال اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کے خطّۂ کنعان سے سرزمینِ مصر کی طرف منتقل ہونے کا سبب دریافت کیا تھا، جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان فرمائے اور یہود یوں نے ان کو توریت کے مطابق پایا تو انہیں حیرت ہوئی کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کتابیں پڑھنے اور علماء کی مجلسوں میں بیٹھنے اور کسی سے کچھ سیکھنے کے بغیر اس قدر صحیح واقعات کیسے بیان فرمائے۔ یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ضرور نبی ہیں اور قرآنِ پاک ضرور اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اوراللہ تعالیٰ نے آپ کو قُدسی علم سے مشرف فرمایا علاوہ بریں اس واقعہ میں بہت سی عبرتیں ، نصیحتیں اور حکمتیں ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۵)

اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰۤى اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌؕ-اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ ﹰ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاد کرو جب بھائی بولے :بیشک یوسف اور اس کا سگا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں بیشک ہمارے والد کھلی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالُوْا:یاد کرو جب انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے والدِ محترم حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے سگے بھائی بِنیامین کی طرف بہت مائل ہیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتے ہیں تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! یوسف اور اس کا سگا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اوروہ انہیں محبت میں ہم پر ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ دونوں چھوٹے ہیں اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جبکہ ہم دس مرد ہیں ، مضبوط ہیں ، زیادہ کام آسکتے ہیں ، زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں لہٰذا ہم اپنی کثیر تعداد اور زیادہ فائدہ مند ہونے کی وجہ سے ان دونوں بھائیوں کی بجائے محبت کے زیادہ حقدار ہیں ، بیشک ہمارے والد ان کی کھلی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے یہ کہہ تو دیا لیکن یہ بات ان کے خیال میں نہ آئی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی کو صرف محبت میں ان پر ترجیح دی ہے اور دلی محبت کو دور کر دینا انسان کے بس میں نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ محبت و شفقت کا سبب یہ ہو کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ان کی چھوٹی عمر میں انتقال فرما گئی تھیں نیز شفقت کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں ہدایت اور اچھی صفات کی وہ نشانیاں ملاحظہ فرما لیں جو دوسرے بھائیوں میں نہ تھیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵-۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸، ص۵۲۱، ملتقطا

اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا یَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف کو مار ڈالو یا کہیں زمین میں پھینک آؤ تاکہ تمہارے باپ کاچہرہ تمہاری طرف ہی رہے اور اس کے بعد تم پھر نیک ہوجانا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ:یوسف کو مار ڈالو ۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کو اپنے والد ماجد کا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ محبت فرمانا شاق گزرا توانہوں نے باہم مل کر یہ مشورہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہیے جس سے ہمارے والد صاحب ہماری طرف زیادہ مائل ہوں۔ بہرحال مشورہ میں گفتگو اس طرح ہوئی کہ ’’والد محترم کی محبت حاصل کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں پہلی یہ کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک ہی بار مار ڈالو اور دوسری یہ کہ اگر مارنا نہیں تو کہیں دور دراز کی زمین میں پھینک آؤ جہاں بھیڑیے یادرندے کے کھا جانے یا اسی سرزمین میں انتقال کر جانے کی وجہ سے ان کا حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس واپس آجانا ممکن نہ رہے ۔ اگر تم نے ان دو صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل کر لیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی توجہ تمہاری طرف ہو جائے گی اور وہ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کردینے یا آبادیوں سے دور چھوڑ آنے کے بعد تم پھر توبہ کر کے نیک ہو جانا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۶، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۱۹، ملتقطاً)

آیت’’اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)…حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کی یہ ساری حرکات صرف حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامَ کو اپنی طر ف مائل کرنے کیلئے تھیں ، نفس کی خاطر نہ تھیں ، اس لئے ان کو سچی توبہ نصیب ہوگئی، قابیل کی حرکات چونکہ نفسِ اَمارہ کے لئے تھیں ، اس لئے اسے توبہ نصیب نہ ہوئی ۔

(2)… یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی جائز بلکہ اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کیلئے بھی ناجائز ذریعہ اخ تیار کرنے کی اجازت نہیں جیسے یہاں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کامقصد والد کی محبت کا حصول تھا جو کہ منصبِ نبوت پر فائز بھی تھے لیکن اس کیلئے ناجائز ذریعہ اختیار کیا اور اس کی مذمت کی گئی.

قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَ اَلْقُوْهُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف کو قتل نہ کرو اور اسے کسی تاریک کنویں میں ڈال دو کہ کوئی مسافر اسے اٹھالے جائے گا ۔ اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ:ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں میں سے یہودا یارُوبیل نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو کیونکہ قتل گناہِ عظیم ہے  اور اسے کسی تاریک کنویں میں ڈال دو کہ  کوئی مسافر وہاں سے گزرے اور انہیں کسی دوسرے ملک میں لے جائے، اس سے مقصد بھی پورا ہو جائے گا کہ نہ وہ یہاں رہیں گے اور نہ والد صاحب کی نظر عنایت ان پر ہوگی ، لہٰذا اگر تم کچھ کرنے والے ہو تو یہ کرو۔ اس میں اشارہ ہے کہ چاہئے تو یہ کہ کچھ بھی نہ کرو لیکن اگر تم نے ارادہ ہی کرلیا ہے تو بس اتنے ہی پر اکتفا کرو۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۱۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۶، ملتقطاً)

قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مَا لَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰى یُوْسُفَ وَ اِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ(11)اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَ یَلْعَبْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

بھائیوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معاملے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم یقینااس کے خیر خواہ ہیں ۔آپ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ وہ پھل کھائے اور کھیلے اور بیشک ہم اس کے محافظ ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} اس آیت اورا س سے اگلی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے جب آپس میں مشورہ کر لیا اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان جدائی کروا دینے پر متفق ہو گئے تو انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’ اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معاملے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور جب ہم شہر سے باہر صحرا کی طرف جائیں تویوسف کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے حالانکہ ہم یقینااس کے خیر خواہ ہیں۔آپ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ وہ تفریح مثلاً شکار اور تیر اندازی وغیرہ کے ذریعے لطف اندوز ہوں ، بیشک ہم اس کی پوری نگہداشت کریں گے ۔ (تفسیرطبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۱۵۵، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ص۵۲۲، ملتقطاً)

قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْۤ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَ اَخَافُ اَنْ یَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَ اَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک تمہارا اسے لے جانا مجھے غمگین کردے گا اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھالے اور تم اس کی طرف سے بے خبر ہوجاؤ۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ساتھ بھیجنے کا مطالبہ کیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے ساتھ نہ بھیجنے کی دو وُجوہات بیان فرمائیں ، ایک یہ کہ  تمہاراحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو لے جانا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تمہارے ساتھ چلے جانا مجھے غمگین کر دے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کچھ دیر کے لئے بھی ان سے جدا ہونا گوارا نہ تھا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی کہ  مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم اپنے کھانے پینے اور کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے غافل ہو جاؤ گے اور کوئی بھیڑیا آ کر انہیں کھا جائے گا۔یہ وجہ آپ نے اس لئے بیان فرمائی تھی کہ اس سرزمین میں بھیڑیے اور درندے بہت تھے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۷)

قَالُوْا لَىٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّاۤ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: اگر اسے بھیڑیا کھا جائے حالانکہ ہم ایک جماعت (موجود ) ہوں جب تو ہم کسی کام کے نہ ہوئے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے جواب دیا ’’ہم دس مردوں کے وہاں موجود ہوتے ہوئے اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جب تو ہم کسی کام کے نہ ہوئے لہٰذا انہیں ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یونہی تھی کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اجازت دی اور روانگی کے وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ قمیص جوجنتی ریشم کی تھی اور جس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا گیا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے وہ قمیص آپ کو پہنائی تھی اور وہ قمیص مبارک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان سے ان کے فرزند حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہنچی تھی، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وہ قمیص تعویذ بنا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گلے میں ڈال دی۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۷، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۲۲، ملتقطاً)

فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَ اَجْمَعُوْۤا اَنْ یَّجْعَلُوْهُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ هٰذَا وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب نے اتفاق کرلیا کہ اسے تاریک کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اسے وحی بھیجی کہ تم ضرور انہیں ان کی یہ حرکت یاد دلاؤ گے اور اس وقت وہ جانتے نہ ہوں گے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ:پھر جب وہ اسے لے گئے۔} جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا تو جب تک حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں دیکھتے رہے تب تک تو وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے کندھوں پر سوار کئے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ لے گئے اور جب دور نکل گئے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظروں سے غائب ہوگئے تو انہوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر دے ٹپکا اور دلوں میں جو عداوت تھی وہ ظاہر ہوئی، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس کی طرف جاتے تھے وہ مارتا اور طعنے دیتا تھا اور خواب جو کسی طرح انہوں نے سن لیا تھا اس پر برا بھلاکہتے تھے اور کہتے تھے اپنے خواب کوبلا، وہ اب تجھے ہمارے ہاتھوں سے چھڑائے۔ جب سختیاں حد کو پہنچیں تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہود اسے کہا: خدا سے ڈر، اور ان لوگوں کو ان زیادتیوں سے روک ۔ یہودا نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ تم نے مجھ سے کیا عہد کیا تھا کہ انہیں قتل نہیں کیا جائے گا، تب وہ ان حرکتوں سے باز آئے اور سب نے اتفاق کرلیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تاریک کنویں میں ڈال دیں چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ یہ کنواں کنعان سے تین فرسنگ (یعنی 9میل) کے فاصلہ پراُرْدُن کی سرزمین کے اَطراف میں واقع تھا، اوپر سے اس کا منہ تنگ تھا اور اندر سے کُشادہ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاتھ پائوں باندھ کر قمیص اتار کر کنوئیں میں چھوڑا ،جب وہ اس کی نصف گہرائی تک پہنچے تو رسی چھوڑ دی تاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پانی میں گر کر ہلاک ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام پہنچے اور انہوں نے آپ کو کنویں میں موجود ایک پتھر پر بٹھا دیا اور آپ کے ہاتھ کھول دیئے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۲۳)

{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِ:اور ہم نے اسے وحی بھیجی۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے یا اِلہام کے ذریعے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی  کہ آپ غمگین نہ ہوں ،ہم آپ کو گہرے کنویں سے نکال کر بلند مقام پر پہنچائیں گے اور تمہارے بھائیوں کو حاجت مند بنا کر تمہارے پاس لائیں گے اور انہیں تمہارے زیرِ فرمان کریں گے اور اے پیارے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ایک دن ایسا آئے گا کہ تم ضرور انہیں ان کایہ ظالمانہ کام یاد دلاؤ گے جو انہوں نے اِس وقت تمہارے ساتھ کیا  اور وہ اُس وقت تمہیں نہ جانتے ہوں گے کہ تم یوسف ہو کیونکہ اس وقت آپ کی شان بلند ہوگی اور آپ سلطنت و حکومت کی مسند پر ہوں گے جس کی وجہ سے وہ آپ کو پہچان نہ سکیں گے۔ (ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۶، ملخصاً) قصہ مختصر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی انہیں کنوئیں میں ڈال کر واپس ہوئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص جو اتار لی تھی اس کو ایک بکری کے بچے کے خون میں رنگ کر ساتھ لے لیا۔

وَ جَآءُوْۤ اَبَاهُمْ عِشَآءً یَّبْكُوْنَﭤ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور رات کے وقت اپنے باپ کے پاس وہ روتے ہوئے آئے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءُوْ:اور وہ آئے۔} مفسرین فرماتے ہیں کہ جب بھائیوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں ڈال دیا تو رات کے وقت اپنے والد کی طرف لوٹے تاکہ رات کے اندھیرے میں انہیں جھوٹا عذر پیش کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو، جب وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان کے قریب پہنچے تو انہوں نے رونا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا، جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے چیخنے کی آواز سنی تو گھبرا کر باہر تشریف لائے اور فرمایا، ’’اے میرے بیٹو !میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں بکریوں میں کچھ نقصان ہوا؟ انہوں نے کہا :نہیں۔ پھر فرمایا ’’تو کیا مصیبت پہنچی اور یوسف کہاں ہیں ؟ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۶، 

قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

کہنے لگے: اے ہمارے باپ ! ہم دوڑکا مقابلہ کرتے (دور)چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ کسی طرح ہمارا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہوں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:کہنے لگے۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پوچھنے پر انہوں نے جوا ب دیا ’’اے ہمارے باپ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دوڑ لگا رہے تھے کہ ہم میں سے کون آگے نکلتا ہے، اس دوڑ کے چکر میں ہم دور نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا، اسی دوران جب ہم یوسف سے غافل ہوئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور ہمیں علم ہے کہ آپ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شدید محبت کی وجہ سے کسی طرح ہمارا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہوں اور ہمارے ساتھ کوئی گواہ ہے نہ کوئی ایسی دلیل و علامت ہے جس سے ہماری سچائی ثابت ہو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹، ملخصاً)

وَ جَآءُوْ عَلٰى قَمِیْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍؕ-قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًاؕ-فَصَبْرٌ جَمِیْلٌؕ-وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ اس کے کر تے پر ایک جھوٹا خون لگا لائے۔ یعقوب نے فرمایا: بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لئے ایک بات گھڑ لی ہے تو صبر اچھا اور تمہاری باتوں پر اللہ ہی سے مدد چاہتا ہوں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءُوْ عَلٰى قَمِیْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ:اور وہ اس کے کر تے پر ایک جھوٹا خون لگا لائے۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’انہوں نے بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کا خون حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص پر لگا دیا تھا لیکن قمیص کو پھاڑنا بھول گئے ، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہ قمیص اپنے چہرہ مبارک پر رکھ کر بہت روئے اور فرمایا ’’ عجیب قسم کا ہوشیار بھیڑیا تھا جو میرے بیٹے کوتو کھا گیا اور قمیص کو پھاڑا تک نہیں۔ مزید فرمایا ’’حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لئے ایک بات گھڑ لی ہے تومیرا طریقہ عمدہ صبر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ تعالیٰ ہی سے مدد چاہتا ہوں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۹-۱۰)

وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗؕ-قَالَ یٰبُشْرٰى هٰذَا غُلٰمٌؕ-وَ اَسَرُّوْهُ بِضَاعَةًؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ایک قافلہ آیا تو انہوں نے اپنا پانی لانے والا آدمی بھیجا تو اس نے اپنا ڈول ڈالا ۔ اس پانی لانے والے نے کہا: کیسی خوشی کی بات ہے ،یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور انہوں نے اسے سامانِ تجارت قرار دے کر چھپالیا اور اللہ جانتا ہے جو وہ کررہے تھ

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ:اور ایک قافلہ آیا۔} ایک قافلہ جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہ راستہ بہک کر اُس جنگل کی طرف آ نکلا جہاں آبادی سے بہت دور یہ کنواں تھا اور اس کا پانی کھاری تھا مگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے میٹھا ہوگیا ، جب وہ قافلہ والے اس کنوئیں کے قریب اترے تو انہوں نے اپنا پانی لانے والا کنویں کی طرف بھیجا، اس کا نام مالک بن ذعر خزاعی تھا اور یہ شخص مدین کا رہنے والا تھا، جب وہ کنوئیں پر پہنچا  اور اس نے اپنا ڈول ڈالا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وہ ڈول پکڑلیا اور اس میں لٹک گئے ، مالک نے ڈول کھینچا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کنویں سے باہر تشریف لے آئے۔ جب اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عالَم افروز حسن دیکھا تو نہایت خوشی میں آکر اپنے ساتھیوں کو مُژدہ دیا کہ  آہا کیسی خوشی کی بات ہے، یہ تو ایک بڑا حسین لڑکا ہے۔ مالک بن ذعر اور اس کے ساتھیوں نے انہیں سامانِ تجارت قرار دے کر چھپالیا تاکہ کوئی اس میں شرکت کا دعویٰ نہ کر دے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی جو اس جنگل میں اپنی بکریاں چراتے تھے اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نگرانی بھی کررہے تھے ، آج جو انہوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنوئیں میں نہ دیکھا تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے، وہاں انہوں نے مالک بن ذعر کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ اس سے کہنے لگے کہ یہ غلام ہے، ہمارے پاس سے بھاگ آیا ہے ، کسی کام کا نہیں ہے اور نافرمان ہے، اگر خرید  لو تو ہم اسے سستا بیچ دیں گے اور پھر اسے کہیں اتنی دور لے جانا کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کچھ نہ فرمایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰، ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۸۹، ملتقطاً)

وَ شَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍۚ-وَ كَانُوْا فِیْهِ مِنَ الزَّاهِدِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بھائیوں نے بہت کم قیمت چند درہموں کے بدلے میں اسے بیچ ڈالا اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ شَرَوْهُ:اور بھائیوں نے اسے بیچ ڈالا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے انہیں مالک بن ذعر خزاعی کے ہاتھ بہت کم قیمت والے چند درہموں کے بدلے بیچ دیا ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ بیس درہم تھے۔ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی پہلے سے ہی ان میں کچھ رغبت نہ رکھتے تھے۔ پھر مالک بن ذعر اور اس کے ساتھی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مصر میں لائے، اس زمانے میں مصر کا بادشاہ ریان بن ولید بن نزدان عملیقی تھا اور اس نے اپنی عِنانِ سلطنت قطفیر مصری کے ہاتھ میں دے رکھی تھی، تمام خزائن اسی کے تحتِ تَصَرُّف تھے ، اس کو عزیزِ مصر کہتے تھے اور وہ بادشاہ کا وزیر اعظم تھا، جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کے بازار میں بیچنے کے لئے لائے گئے تو ہر شخص کے دل میں آپ کی طلب پیدا ہوئی اور خریداروں نے قیمت بڑھانا شروع کی یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزن کے برابر سونا، اتنی ہی چاندی، اتنا ہی مشک اور اتنا ہی ریشم قیمت مقرر ہوئی اور عمر شریف اس وقت تیرہ یا سترہ سال کی تھی۔ عزیزِ مصر نے اس قیمت پر آپ کو خرید لیا اور اپنے گھر لے آیا۔ دوسرے خریدار اس کے مقابلہ میں خاموش ہوگئے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۹۴۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۱۱، ملتقطاً

 

وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: انہیں عزت سے رکھو شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ہم انہیں بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں ٹھکانا دیا اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖ:اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مصر کے جس شخص نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خریدا اسے لوگ عزیزمصر کہتے تھے اور اس کا نام قطفیر تھا، اس نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عزت سے رکھو ، ان کی قیام گاہ نفیس ہو، لباس اور خوراک اعلیٰ قسم کی ہو، شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے اور ہمارے کاموں میں اپنے تدبر و دانائی سے ہمارے لئے نفع مند اور بہتر مددگار ثابت ہو نیز ہوسکتا ہے کہ سلطنت اور حکومت کے کاموں کو سر انجام دینے میں ہمارے کام آئے کیونکہ رُشد کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہیں یا پھر ہم انہیں بیٹا بنالیں۔ یہ قطفیر نے اس لئے کہا کہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۹۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱، ملتقطاً)

{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح ۔}یعنی جس طرح ہم نے قتل سے محفوظ کرکے اور کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر لا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر احسان فرمایا اسی طرح ہم نے انہیں مصر کی سرزمین میں ٹھکانا دیا تاکہ ہم اسے مصر کے خزانوں پر تسلط عطا کریں اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے ،وہ جو چاہے کرے اور جیسا چاہے حکم فرمائے، اس کے حکم کو کوئی روکنے والا ہے نہ اس کی قضا کو کوئی ٹالنے والا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس پر غالب ہے ،مگر اکثر آدمی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کیا کرنے والا ہے اور وہ ان سے کیاچاہتا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱)

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچے۔} یعنی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۱-۱۲)

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عمومی علم مبارک علمِ لدنی ہوتا ہے:

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدنی بخشا کہ استاد کے واسطے کے بغیر ہی علم و فقہ اور عملِ صالح عنایت کیا۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عمومی یا اکثر علم مبارک علمِ لدنی ہوتا ہے۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ (کہف:۶۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔

         اور ہمارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں فرمایا

’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ (النساء:۱۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔

         اور فرمایا

’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ‘‘ (رحمٰن:۱، ۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:رحمٰن نے۔ قرآن سکھایا۔

لہٰذا دنیا کا کوئی علم والا نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ لوگ دنیاوی استادوں کے شاگرد ہوتے ہیں اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ سے سیکھتے ہیں۔

وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اُس نے اُنہیں اُن کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کردئیے اور کہنے لگی: آؤ ، (یہ) تم ہی سے کہہ رہی ہوں ۔ یوسف نے جواب دیا: (ایسے کام سے) اللہ کی پناہ۔ بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ فِیْ بَیْتِهَا:وہ جس عورت کے گھر میں تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی پاکدامنی بیان فرمائی ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں لالچ کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں زلیخا رہتی تھی، اس لئے زلیخا نے موقع پاکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے مُقَدّس نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تا کہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے، زلیخا نے ساتوں دروازے بند کر کے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’میری طرف آؤ ،یہ میں تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کی بات سن کر فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور اسی سے اپنی حفاظت کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ بے شک عزیز مصر قطفیر میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے مجھے رہنے کے لئے اچھی جگہ دی ہے اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہلِ خانہ میں خیانت کروں ، جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۴۳۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۲، ملتقطاً)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہونا چاہیے اور اپنے مربی کا احسان ماننا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے۔

وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ وَ قَدَّتْ قَمِیْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ وَّ اَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَا الْبَابِؕ-قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْٓءًا اِلَّاۤ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(25)ترجمہ: کنزالعرفاناور وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے ان کی قمیص کو پیچھے سے پھاڑ دیا اور دونوں نے دروازے کے پاس عورت کے شوہر کو پایا تو عورت کہنے لگی۔ اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ یہی کہ اسے قید کردیا جائے یا دردناک سزا (دی جائے)۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ:اور وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے۔}جب زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی بُرہان دیکھی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دروازے کی طرف بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے انہیں پکڑنے کے لئے بھاگی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس جس دروازے پر پہنچتے جاتے تھے اس کا تالا کھل کر گرتا چلا جاتا تھا۔ آخر کار زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچی اور اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پکڑ کر آپ کو کھینچا تاکہ آپ نکلنے نہ پائیں لیکن آپ غالب آئے اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ زلیخا کے قمیص کھینچنے کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص پیچھے سے پھٹ گئی تھی۔

 

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے ہی باہر نکلے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیچھے زلیخا بھی نکلی تو انہوں نے زلیخا کے شوہر یعنی عزیز مصر کو دروازے کے پاس پایا، فوراً ہی زلیخا نے اپنی براء ت ظاہر کرنے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے مکر سے خوفزدہ کرنے کے لئے حیلہ تراشا اور شوہر سے کہنے لگی:  اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ اتنا کہہ کر زلیخا کو اندیشہ ہوا کہ کہیں عزیز طیش میں آکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کے درپے نہ ہوجائے اور یہ زلیخا کی شدّتِ محبت کب گوارا کرسکتی تھی اس لئے اس نے یہ کہا ’’یہی کہ اسے قید کردیا جائے یا دردناک سزا دی جائے یعنی اس کو کوڑے لگائے جائیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۵، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۶، ملتقطاً)

 

قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(26)وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(27)فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَیْدِكُنَّؕ-اِنَّ كَیْدَكُنَّ عَظِیْمٌ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف نے فرمایا: اسی نے میرے دل کو پھسلانے کی کوشش کی ہے اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں ۔اور اگر ان کا کر تا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں ۔ پھر جب عزیز نے اس کا کر تاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو کہا: بیشک یہ تم عورتوں کا مکر ہے۔ بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ زلیخا الٹا آپ پر الزام لگاتی ہے اور آپ کے لئے قید و سزا کی صورت پید ا کرتی ہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے   اپنی براء ت کا اظہار اور حقیقت ِحال کابیان ضروری سمجھا اور فرمایا ’’یہ مجھ سے برے فعل کی طلب گار ہوئی تو میں نے اس سے انکار کیا اور میں بھاگا۔ عزیز نے کہا’’ اس بات پر کس طرح یقین کیا جائے؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اس گھر میں ایک چار مہینے کا بچہ جھولے میں ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ عزیز نے کہا کہ’’چار مہینے کا بچہ کیا جانے اور کیسے بولے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو گویائی دینے اور اس سے میری بے گناہی کی شہادت ادا کرا دینے پر قادر ہے۔ عزیز نے اس بچہ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ بچہ بولنے لگا اور اس نے کہا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں۔ یعنی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۱۵-۱۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۵۲۶-۵۲۷، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان:

اس واقعے سے سرکار ِدوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگی تو ان کی پاکیزگی کی گواہی بچے سے دلوائی گئی اگرچہ یہ بھی عظیم چیز ہے لیکن جب سیّدالمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا پر تہمت لگی تو چونکہ وہ معاملہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت کا بھی تھا اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی عِفت و عِصمت اور پاکیزگی کی گواہی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی۔

دودھ پینے کی عمر میں کلام کرنے والے بچے:

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ چند شیر خوار بچوں نے کلام کیا ہے۔(1)حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ گواہ ۔ (2) ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیدا ہوتے ہی حمدِ الہٰی کی۔ (3) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔(4)حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا۔(5) حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (6) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔ (7) اس عورت کا بچہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی تھی اور وہ بے گناہ تھی۔ (8) خندق والی مصیبت زَدہ عورت کا بچہ یعنی اَصحابِ اُخدود۔ (9) حضرت آسیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کنگھی کرنے والی کا بچہ ۔ (10) مبارک یمامہ ، جس نے پیدا ہوتے ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے گواہی دی۔(11)جریج راہب کی گواہی دینے والا بچہ۔

{فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ:پھر جب عزیز نے اس کا کر تاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا۔} یعنی جب عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا اور جان لیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے ہیں اور زلیخا جھوٹی ہے تو زلیخا سے کہا ’’تمہاری یہ بات کہ اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ یہ صرف تم عورتوں کا مکر ہے ، بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے جس کی وجہ سے تم مردوں پر غالب آ جاتی ہو۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۲۷)

یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاٚ-وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ ۚۖ-اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـٕیْنَ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ ۔بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے ہے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُوْسُفُ: اے یوسف!} جب عزیز ِمصر کے سامنے زلیخا کی خیانت اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی براء ت ثابت ہو گئی تو عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہو کر اس طرح معذرت کی ’’اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور اس پر مغموم نہ ہو بے شک تم پاک ہو ۔ اس کلام سے یہ بھی مطلب تھا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرو تاکہ چرچا نہ ہو اور شُہرہ عام نہ ہوجائے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶)

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برأت کی مزید علامتیں :

            اس آیت کے علاوہ بھی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برأت کی بہت سی علامتیں موجود تھیں ایک تو یہ کہ کوئی شریف طبیعت انسان اپنے مُحسن کے ساتھ اس طرح کی خیانت روا نہیں رکھتا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اچھے اَخلاق کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہوئے کس طرح ایسا کرسکتے تھے۔ دوسری یہ کہ دیکھنے والوں نے آپ کو بھاگتے آتے دیکھا اور طالب کی یہ شان نہیں ہوتی بلکہ وہ درپے ہوتا ہے، آگے نہیں بھاگتا ۔بھاگتا وہی ہے جو کسی بات پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے گوارا نہ کرے۔ تیسری یہ کہ عورت نے انتہا درجہ کا سنگار کیا تھا اور وہ غیر معمولی زیب و زینت کی حالت میں تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رغبت و اہتمام محض اس کی طرف سے تھا ۔ چوتھی یہ کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تقویٰ و طہارت جو ایک دراز مدت تک دیکھا جاچکا تھا اس سے آپ کی طرف ایسے برے فعل کی نسبت کسی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتی تھی ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)

{وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ  :اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ ۔}  یعنی عزیز مصر زلیخا کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا ’’ اے عورت! تو اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگ جو تو نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائی حالانکہ وہ اس سے بری ہیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ خیانت کا ارادہ کرنے کی وجہ سے بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)

 

وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖۚ-قَدْ شَغَفَهَا حُبًّاؕ-اِنَّا لَنَرٰىهَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور شہر میں کچھ عورتوں نے کہا: عزیز کی بیوی اپنے نوجوان کا دل لبھانے کی کوشش کرتی ہے، بیشک ان کی محبت اس کے دل میں سماگئی ہے، ہم تو اس عورت کو کھلی محبت میں گم دیکھ رہے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ:اور شہر میں کچھ عورتوں نے کہا۔} عزیز ِمصر نے اگرچہ اس قصہ کو بہت دبایا لیکن یہ خبر چھپ نہ سکی اور اس کا چرچا اورشہرہ ہو ہی گیا۔ شہر میں شُرفاء ِمصر کی عورتیں زلیخا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی زلیخا اپنے نوجوان کا دل لبھانے کی کوشش کرتی ہے، بیشک ان کی محبت اس کے دل میں سماگئی ہے، ہم تو اس عورت کو کھلی محبت میں گم دیکھ رہے ہیں کہ اس دیوانے پن میں اس کو اپنے ننگ و ناموس اور پردے و عفت کا لحاظ بھی نہ رہا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۶-۱۷، ملخصاً)

فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً وَّ اٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُ جْ عَلَیْهِنَّۚ-فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی تو ان عورتوں کی طرف پیغام بھیجااور ان کے لیے تکیہ لگا کر بیٹھنے کی نشستیں تیار کردیں اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی اور یوسف سے کہا: ان کے سامنے نکل آئیے توجب عورتوں نے یوسف کو دیکھا تواس کی بڑائی پکار اُٹھیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے اورپکار اٹھیں سُبْحَانَ اللہ ،یہ کوئی انسان نہیں ہے یہ تو کوئی بڑی عزت والا فرشتہ ہے

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ:تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی۔} یعنی جب زلیخانے سنا کہ اَشرافِ مصر کی عورتیں اسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت پر ملامت کرتی ہیں تو اس نے چاہا کہ وہ اپنا عذر ان کے سامنے ظاہر کردے،چنانچہ اس کے لئے اس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس دعوت میں اشراف ِمصر کی چالیس عورتوں کو مدعو کرلیا، ان میں وہ سب عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس پر ملامت کی تھی، زلیخا نے ان عورتوں کو بہت عزت و احترام کے ساتھ مہمان بنایا اور ان کیلئے  نہایت پرتکلف  نشستیں تیار کردیں جن پر وہ بہت عزت و آرام سے تکیے لگا کر بیٹھیں ، دستر خوان بچھائے گئے اور طرح طرح کے کھانے اور میوے اس پرچنے گئے۔ پھر زلیخا نے  ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی تاکہ وہ اس سے کھانے کے لئے گوشت کاٹیں اور میوے تراش لیں ، اس کے بعد زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عمدہ لباس پہننے کیلئے دیا اور کہا ’’ان عورتوں کے سامنے نکل آئیے۔ پہلے تو آپ نے اس سے انکار کیا لیکن جب اِصرار و تاکید زیادہ ہوئی توزلیخا کی مخالفت کے اندیشے سے آپ کو آنا ہی پڑا۔ جب عورتوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا توان کی بڑائی پکار اُٹھیں کیونکہ انہوں نے اس عالَم افروز جمال کے ساتھ نبوت و رسالت کے اَنوار ،عاجزی و اِنکساری کے آثار ،شاہانہ ہَیبت واِقتدار اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور حسین و جمیل صورتوں کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی تو تعجب میں آگئیں اور آپ کی عظمت وہیبت دلوں میں بھر گئی اور حسن و جمال نے ایسا وارفتہ کیا کہ ان عورتوں کو خود فراموشی ہو گئی اور ان کے حسن و جمال میں گم ہوکر پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور ہاتھ کٹنے کی تکلیف کا اصلاً احساس نہ ہوا۔ وہ پکار اٹھیں کہ سُبْحَانَ اللہ، یہ کوئی انسان نہیں ہے کہ ایسا حسن و جمال انسانوں میں دیکھا ہی نہیں گیا اور اس کے ساتھ نفس کی یہ طہارت کہ مصر کے اعلیٰ خاندانوں کی حسین و جمیل عورتیں ، طرح طرح کے نفیس لباسوں اور زیوروں سے آراستہ وپیراستہ سامنے موجود ہیں اور آپ کی شانِ بے نیازی ایسی کہ کسی کی طرف نظر نہیں فرماتے اور قطعاً اِلتفات نہیں کرتے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷-۱۸، تفسیر کبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۴۴۸، ملتقطاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس واقعے کی طرف اشارہ کر کے بڑے حسین انداز میں شانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زَناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پر مردانِ عرب

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن میں فرق:

         علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا تھا اور ان کا حسن ظاہر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن کو اپنے جلال کے پردوں میں نہیں چھپایا ،اسی لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن کا نظارہ کر کے عورتیں فتنے میں مبتلا ہو گئیں جبکہ حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کامل حسن عطا کیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جمال کو اپنے جلال کے پردوں میں چھپا دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا حسنِ کامل دیکھ کر بھی کوئی عورت فتنے میں مبتلا نہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سراپا اَقدس کی تفصیلات بڑے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مروقَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْهِؕ-وَ لَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَؕ-وَ لَىٕنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَاۤ اٰمُرُهٗ لَیُسْجَنَنَّ وَ لَیَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ(32)ترجمہ: کنزالعرفانزلیخا نے کہا: تو یہ ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے طعنہ دیتی تھیں اور بیشک میں نے ان کا دل لبھانا چاہا تو اِنہوں نے اپنے آپ کو بچالیا اور بیشک اگر یہ وہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں ڈالے جائیں گے اور ضرور ذلت اٹھانے والوں میں سے ہوں گے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ:زلیخا نے کہا۔} عورتوں نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ ان کے حسن و جمال میں گم ہو گئیں ، یہ دیکھ کر زلیخا نے ان سے کہا ’’یہ ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے طعنہ دیتی تھیں ،اب تم نے دیکھ لیا اور تمہیں معلوم ہوگیا کہ میرا دیوانہ پن کچھ قابلِ تعجب اور ملامت نہیں اور بیشک میں نے ان کا دل لبھانا چاہا تو اِنہوں نے اپنے آپ کو بچالیا اور کسی طرح میری طرف مائل نہ ہوئے۔ اس پر مصری عورتوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ زلیخا کا کہنا مان لیجئے ۔ ان کی بات سن کرزلیخا بولی ’’  بیشک اگر یہ وہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں ڈالے جائیں گے اور ضرور ذلت اٹھانے والوں میں سے ہوں گے  اور چوروں ، قاتلوں اور نافرمانوں کے ساتھ جیل میں رہیں گے، کیونکہ انہوں نے میرا دل مجھ سے چھین لیا اور میری نافرمانی کی اور فراق کی تلوار سے میرا خون بہایا تو اب انہیں بھی خوشگوار کھانا پینا اور آرام کی نیند سونا میسر نہ ہوگا، جیسا میں جدائی کی تکلیفوں میں مصیبتیں جھیلتی اور صدموں میں پریشانی کے ساتھ وقت کاٹتی ہوں یہ بھی تو کچھ تکلیف اٹھائیں ،میرے ساتھ ریشم میں شاہانہ چارپائی پر عیش گوارا نہیں ہے تو قید خانے کے چبھنے والے بوریئے پر ننگے جسم کو دُکھانا گوارا کریں ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ سن کر مجلس سے اٹھ گئے اور مصری عورتیں ملامت کرنے کے بہانے سے باہر آئیں اور ایک ایک نے آپ سے اپنی تمنّائوں اور مرادوں کا اظہار کیا ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی گفتگو بہت ناگوار ہوئی تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۵۲۸-۵۲۹، ملتقطاً)ی نہیں بلکہ چھوٹے صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے منقول ہیں کیونکہ بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہبیت و جلال اس قدر تھی کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف نظر نہ اٹھا سکتے تھے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۹۴۸، ملخصاً)

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(33)فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(34)ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اس کام کی بجائے قید خانہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلارہی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر وفریب نہ پھیرے گاتو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکروفریب پھیردیا، بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔ پھر سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی انہیں یہی سمجھ آئی کہ وہ ضرور ایک مدت تک کیلئے اسے قیدخانہ میں ڈال دیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ بَدَا لَهُمْ:پھران کیلئے یہی بات ظاہر ہوئی۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھی تو مصری عورتوں نے زلیخا سے کہا کہ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب دو تین روز حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کرلیں۔ زلیخا نے اس رائے کو مانا اور عزیز ِمصر سے کہا کہ میں اس عبرانی غلام کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے ،مناسب یہ ہے کہ ان کو قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھ لیں کہ وہ خطاوار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں۔ یہ بات عزیز کے خیال میں آگئی اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانے میں بھیج دیا۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۵۲، ملخصاً)

وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِؕ-قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚ-وَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ-نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِهٖۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کررہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں ۔ (اے یوسف!) آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک آدمی دیکھتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ:اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔} ان دو جوانوں میں سے ایک تو مصر کے شاہِ اعظم ولید بن نزدان  عملیقی کے باورچی خانے کا انچارج تھا اور دوسرا اس کاساقی، ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اور اس جرم میں دونوں قید کر دئیے گئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب قید خانے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے علم کا اظہار شروع کردیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔ ان دو جوانوں میں سے جو بادشاہ کا ساقی تھا اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور وہاں ایک انگور کی بیل میں تین خوشے لگے ہوئے ہیں ، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ان انگوروں کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلایا تو اس نے پی لیا۔ دوسرا یعنی کچن کا انچارج بولا ’’ میں نے خواب دیکھا کہ میں بادشاہ کے کچن میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ اے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے ہیں ، ساری رات نماز میں گزارتے ہیں ، جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کرتے ہیں اور اس کی خبر گیری رکھتے ہیں ، جب کسی پر تنگی ہوتی ہے تو اس کے لئے کشائش کی راہ نکالتے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں تعبیر بتانے سے پہلے اپنے معجزے کا اظہار اور توحید کی دعوت شروع کردی اور یہ ظاہر فرما دیا کہ علم میں آپ کا درجہ اس سے زیادہ ہے جتنا وہ لوگ آپ کے بارے میں سمجھتے ہیں کیونکہ علمِ تعبیر ظن پر مبنی ہے اس لئے آپ نے چاہا کہ انہیں ظاہر فرما دیں کہ آپ غیب کی یقینی خبریں دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور اس سے مخلوق عاجز ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے غیبی عُلوم عطا فرمائے ہوں اس کے نزدیک خواب کی تعبیر کیا بڑی بات ہے، اس وقت معجزے کا اظہار آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ ان دونوں میں ایک عنقریب سولی دیا جائے گا ،اس لئے آپ نے چاہا کہ اس کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کریں اور جہنم سے بچا دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم اپنی علمی منزلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۲۹-۵۳۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۹-۲۰، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳۸، ۴ / ۲۵۷، ۲۶۰، ملتقطاً)سُبْحَانَ اللہ! حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جیل کی تنگ وتکلیف دِہ زندگی میں بھی کس قدر پیارا اور دلنواز کردار ہے ۔ کاش کہ ہم عافیت کی زندگی میں ہی ایسے کردار کو اپنانے کی کوشش کرلیں۔

قید کی حالت میں بھی تبلیغ:

            تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اَکابر اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی جہاں عافیت کی حالت میں دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے وہیں قیدو بند کی صعوبتوں میں بھی انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے تبلیغِ دین کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا، جن میں ایک بہت بڑا اور عظیم نام سیدنا مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے ، جب اکبر بادشاہ نے ملحدین اور بے دینوں کے ذریعے ایک نیا دین یعنی دینِ اکبری ایجاد کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ملک کے طُول وعَرض میں دینِ اکبری کے خلاف اور دینِ اسلام کے دفاع میں مکتوبات اور مریدین کی جماعت کے ذریعے اپنی تبلیغی کوششوں کو عام کر دیا پھر جب اکبر بادشاہ مر گیا اور اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کی زِمامِ کار سنبھالی تو اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے بعد حضرت مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے دربار میں بلا یا اور تادیب کرنے ،تہذیب سکھانے اور دربارِ شاہی کی تعظیم نہ کرنے کو بہانا بنا کر انہیں قلعہ گوالیار میں قید کر دیا، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وہاں قیدیوں میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزاروں کافر و مشرک قیدی مشرف باسلام ہو گئے ، اسی طرح قید خانے سے مکتوبات کے ذریعے اپنے اہل و عیال، مریدوں اور اہلِ محبت کو اَحکامِ اسلام پر عمل کی دعوت دیتے رہے، ان میں سے ایک خط مُلاحظہ ہو، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے صاجزادوں خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماکے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں ’’فرزندانِ گرامی! مصیبت کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہے لیکن اس میں فرصت میسر آ جائے تو غنیمت ہے، اس وقت تمہیں چونکہ فرصت میسر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور ایک لمحہ بھی فارغ نہ بیٹھو، تین باتوں میں سے ہر ایک کی پابندی ضرور ہونی چاہئے (1) قرآنِ پاک کی تلاوت۔ (2) لمبی قراء ت کے ساتھ نماز۔ (3) کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہْ‘‘ کی تکرار۔ کلمہ لَا کے ساتھ نفس کے خود ساختہ خداؤں کی نفی کریں ، اپنی مرادوں اور مقصدوں کی بھی نفی کریں ، اپنی مرادیں چاہنا (یعنی جو ہم چاہیں وہی ہوجائے گویا) خدائی کا دعویٰ کرنا ہے ا س لئے چاہئے کہ سینے میں کسی مراد کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہوس کا خیال تک نہ آنے پائے تاکہ حیات کی حقیقت متحقق ہو۔ نفسانی خواہشات جو کہ جھوٹے خدا ہیں کو کلمہ’’ لَا‘‘ کے تحت لائیں تاکہ ان سب کی نفی ہو جائے اور تمہارے سینے میں کوئی مقصد و مراد باقی نہ رہے حتّٰی کہ میری رہائی کی آرزوبھی جو اس وقت تمہاری سب سے اہم آرزوؤں میں ہے، نہ ہونی چاہئے، تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل و مشیت پر راضی رہیں ، جہاں بیٹھے ہوئے ہیں اسے اپنا وطن سمجھیں۔ یہ چند روزہ زندگی جہاں بھی گزرے اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرنی چاہئے۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ ہشتم، مکتوب دوم، ۲ / ۷-۸)

            جیل میں تبلیغ کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ مُلا حظہ فرمائیں ،چنانچہ امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر نگہبانوں میں سے ایک شخص حسن بن قحطبہ نے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: میرا کام آپ سے مخفی نہیں ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے پر نادم ہو، اور جب تجھے کسی مسلمان کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں اختیار دیا جائے تو تم اسے قتل کرنے پر اپنے قتل ہونے کو ترجیح دو اور اللہ تعالیٰ سے پختہ ارادہ کرو کہ آئندہ تم کسی مسلمان کو قتل نہیں کرو گے اور تم نے اس عہد کو پورا کر لیا تو سمجھ لینا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی ہے۔(مناقب الامام الاعظم للکردری، الفصل السادس فی وفاۃ الامام رضی اللہ عنہ، ص۲۲، الجزء الثانی)

قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَاؕ-ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْؕ-اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے وہ تمہارے پاس نہیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان دونوں سے فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتا دوں گا جو تم نے میرے سامنے بیان کیا ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۸۷-۲۸۸) دوسری تفسیر یہ ہے کہ تم نے خواب میں جو کھانا دیکھا اور اس کے بارے میں مجھے خبر دی ہے، میں حقیقت میں اس طرح ہونے سے پہلے ہی تمہیں اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ تمہارے گھروں سے جو کھانا تمہارے لئے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی مقدار ، اس کا رنگ ، تمہارے پاس آنے سے پہلے اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا ،کتنا کھایا اور کب کھایا بتا دوں گا۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۹۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰، ملتقطاً)

{ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ:یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔}حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر ان دونوں قیدیوں نے کہا ’’یہ علم تو کاہنوں اور نجومیوں کے پاس ہوتا ہے ،آپ کے پاس یہ علم کہاں سے آیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں کاہن یا نجومی نہیں ہوں ، جس کے بارے میں ، میں تمہیں خبر دوں گا وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف فرمائی اور یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰)

         یہاں خواب کی تعبیر سے متعلق ذکر ہوا،اس مناسبت سے ہم یہاں خواب بتانے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اور اس موضوع پر مشتمل کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک معمول بھی بیان کرتے ہیں :

خواب کے بارے میں تین اَحادیث :

(1)… صرف اس کے سامنے خواب بیان کیا جائے جو اس کی صحیح تعبیر بتا سکتا ہو یا وہ اس سے محبت رکھتا ہو یا وہ قریبی دوست ہو، حاسدوں اور جاہلوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف )تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴)

(2)…اپنی طرف سے خواب بنا کر بیان نہ کیا جائے کہ اس پر حدیث پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ایسی خواب گھڑے جو اس نے دیکھی نہ ہو تو اسے اس چیز کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَوکے دو دانوں میں گرہ لگائے اوروہ ہر گزایسا نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب من کذب فی حلمہ، ۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۷۰۴۲)

(3)…ڈراؤنے خواب دیکھنے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے تو کہہ لے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُونِ‘‘ میں اللہ کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانوں کے وسوسوں اور ان کی حاضری سے۔‘‘ تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۳-باب، ۵ / ۳۱۲، الحدیث: ۳۵۳۹)

خوابوں کی تعبیر بتانے کے آداب:

         یاد رہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنا نہ ہر شخص کا کا م ہے اور نہ ہی ہر عالم خواب کی تعبیر بیان کر سکتا ہے بلکہ خواب کی تعبیر بتانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسے قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی خواب کی تعبیروں پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، کنایا ت اور مجازات پر نظر ہو، خواب دیکھنے والے کے اَحوال اور معمولات سے واقفیت ہو اور خواب کی تعبیر بیان کرنے والا متقی و پرہیزگار ہو ۔موضوع کی مناسبت سے یہاں خواب کی تعبیر بیان کرنے کے 5آداب درج ذیل ہیں :

(1)…جب تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے کوئی اپنا خواب بیان کر نے لگے تو وہ دعائیہ کلمات کے ساتھ اس سے کہے:جو خواب آپ نے دیکھا اس میں بھلائی ہو، آپ اپنا خواب بیان کریں۔

(2)…اچھے طریقے سے خواب سنے اور تعبیر بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔

(3)…خواب سن کر ا س میں غور کرے ،اگر خواب اچھا ہو تو خواب بیان کرنے والے کو خوشخبری دے کر اس کی تعبیر بیان کرے اور اگر برا ہو تو اس کے مختلف اِحتمالات میں جو سب سے اچھا احتمال ہو وہ بیان کرے اور اگر خواب کا اچھا یا برا ہونا دونوں برابر ہوں تو اصول کی روشنی میں جسے ترجیح ہو وہ بیان کرے اور اگر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو خواب بیان کرنے والے کا نام پوچھ کر اس کے مطابق تعبیر بیان کر دے اور خواب بیان کرنے والے کو تعبیر سمجھا دے۔

(4)…سورج طلوع ہوتے وقت، زوال کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت تعبیر بیان نہ کرے ۔

(5)…تعبیر بیان کرنے والے کو بتائے گئے خواب اس کے پاس امانت ہیں اس لئے وہ ان خوابوں کو کسی اور پر بلا ضرورت ظاہر نہ کرے۔

خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اورتعبیر پر مشتمل کتابیں :

         خوابوں کی تعبیر بیان کرنے میں مہارت رکھنے والے علما نے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ،ان میں سے ایک امام المعبرین حضرت امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب’’ تَفْسِیْرُ الْاَحْلَامِ الْکَبِیرْ‘‘ہے جو کہ’’ تعبیرُ الرُّؤیا‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ایک کتاب علامہ عبد الغنی نابُلسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ہے جو کہ ’’تَعْبِیْرُ الْمَنَامْ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

خواب کی تعبیر سے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معمول اور دو خوابوں کی تعبیریں:

         اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں احادیثِ صحیحہ سے ثابت کہ حضورِ اقدس، سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ اسے (یعنی خواب کو) امرِ عظیم جانتے اور اس کے سننے، پوچھنے، بتانے، بیان فرمانے میں نہایت درجے کا اہتمام فرماتے ۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ صبح پڑھ کر حاضرین سے دریافت فرماتے: آج کی شب کسی نے کوئی خواب دیکھا؟ جس نے دیکھا ہوتا (وہ ) عرض کرتا (اور) حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس خواب کی ) تعبیر فرماتے ۔(بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶)۔(فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۲۷۰-۲۷۱)

         اسی سلسلے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ ا س کی سیرابی میرے ناخنوں سے بھی نکلنے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دے دیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا (اس سے مراد) علم (ہے)۔(بخاری، کتاب التعبیر، باب اللبن، ۴ / ۴۱۱، الحدیث: ۷۰۰۶)

حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان میں ایک ستون ہے جس کی چوٹی پر ایک حلقہ ہے، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھو، میں نے کہا: مجھ میں اتنی طاقت نہیں ، پھر میرے پاس ایک ملازم آیا اور اس نے میرے کپڑے سنبھالے تو میں چڑھ گیا اور میں نے اُس حلقے کو پکڑ لیا، جب میں بیدار ہوا تو میں نے حلقہ پکڑ اہوا تھا، پھر میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ خواب بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’وہ باغ تواسلام کا باغ ہے اور وہ ستون بھی اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے یعنی آخری وقت تک تم اسلام کو ہمیشہ پکڑے رہو گے۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب التعلیق بالعروۃ والحلقۃ، ۴ / ۴۱۳، الحدیث: ۷۰۱۴)

وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین ہی کی پیروی کی۔ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں ، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْ:اور میں نے اپنے باپ دادا کا دین اختیار کیا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے معجزے کا اظہار فرمانے کے بعدیہ بھی ظاہر فرما دیا کہ آپ خاندانِ نبوت سے ہیں اور آپ کے آباء و اَجداد انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، جن کا بلندمرتبہ دنیا میں مشہور ہے۔ اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقصد یہ تھا کہ سننے والے آپ کی دعوت قبول کریں اور آپ کی ہدایت مانیں اور فرمایا کہ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائیں۔ نیز توحید اختیار کرنا اور شرک سے بچنا ہم پر اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ اُن نعمتوں پر شکر نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں اور ان کی ناشکری یہ ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت بجانہیں لاتے اور مخلوق پَرستی کرتے ہیں۔( تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۴۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۲۰-۲۱، ملتقطاً)

یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُﭤ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو! کیا جدا جدا رب اچھے ہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو!۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے قید خانے کے ساتھیوں سے فرمایا کہ کیا جدا جدا رب  جیسا کہ بت پرستوں نے بنا رکھے ہیں کہ کوئی سونے کا ، کوئی چاندی کا ، کوئی تانبے کا ، کوئی لوہے کا ، کوئی لکڑی کا ، کوئی پتھر کا، کوئی اور کسی چیز کا، کوئی چھوٹا کوئی بڑا، مگر سب کے سب نکمے بے کار، نہ نفع دے سکیں نہ ضرر پہنچاسکیں ، ایسے جھوٹے معبود  اچھے ہیں یا ایک اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے کہ نہ کوئی اس کا مقابل ہوسکتا ہے نہ اس کے حکم میں دخل دے سکتا ہے ، نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر، سب پر اس کا حکم جاری اور سب اس کی ملک میں ہیں۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱، ملخصاً)

تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل مضبوط استعمال کرنے چاہئیں :

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل قوی استعمال کرنے چاہئیں جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نرم الفاظ کے ساتھ ان دو افراد کو اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا۔

مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں ، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً:تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان قیدیوں کو جدا جدا خداؤں کے فساد پر آگاہ کیا توان کے سامنے بیان کیا کہ اِن بتوں کا معبود ہونا دور کی بات ہے ان کی تو اپنی کوئی حقیقت ہی نہیں چنانچہ فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی جہالت اور گمراہی کی وجہ سے تراش لیے ہیں ،خارج میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں کہ وہ ان ناموں کے مِصداق قرار پائیں ، تم جن کی عبادت کرتے ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے درست ہونے پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے اور بتوں کی عبادت کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم وہ ہے جو اس نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے   ذریعے دیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور یہی عقلمندی کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عبادت کے لئے خاص ہونا ہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ دلائل سے جہالت کی وجہ سے نہیں جانتے کہ یہی سیدھا دین ہے اور وہ فرضی ناموں کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۰۹)

وَ قَالَ الْمَلِكُ اِنِّیْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍؕ-یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(43)قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۚ-وَ مَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(44)وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا وَ ادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِیْلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں اور دوسری خشک بالیاں دیکھیں ۔ اے درباریو! اگر تم خوابوں کی تعبیر جانتے ہو تو میرے خواب کے بارے میں مجھے جواب دو۔ انہوں نے کہا: یہ جھوٹے خواب ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے (یوسف کے پاس) بھیج دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا:اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا۔} یعنی شراب پلانے والا کہ جس نے اپنے ساتھی کچن کے انچارج کی ہلاکت کے بعد قید سے نجات پائی تھی اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا تھا کہ  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا تھا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر کرنا، اس نے کہا ’’ میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے قید خانے میں بھیج دو، وہاں خواب کی تعبیر کے ایک عالم ہیں ،چنانچہ بادشاہ نے اسے بھیج دیا اور وہ قید خانہ میں پہنچ کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں عرض کرنے لگا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۳، ملخصاً)

یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِـعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے یوسف! اے صدیق! ہمیں ان سات موٹی گایوں کے بارے میں تعبیر بتائیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیوں اور دوسری خشک بالیوں کے بارے میں تاکہ میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تاکہ وہ جان لیں 

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُوْسُفُ:اے یوسف!} یعنی اے یوسف! اے صدیق! ہمارے بادشاہ نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور دوسری خشک بالیاں ، ملک کے تمام علماء و حکماء اس کی تعبیر بتانے سے عاجز رہے ہیں ، حضرت! آپ اس کی تعبیر ارشاد فرما دیں تاکہ میں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ بادشاہ اور اس کے درباریوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تو وہ اس خواب کی تعبیر جان لیں اور آپ کے علم و فضل اور مقام و مرتبہ کو جان جائیں اور آپ کو اس مشقت سے رہا کرکے اپنے پاس بلالیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۳۳، ملتقطاً)

قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف نے فرمایا: تم سات سال تک لگاتار کھیتی باڑی کرو گے تو تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو سوائے اس تھوڑے سے غلے کے جو تم کھالو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے خواب کی تعبیر بتادی اور فرمایا تم سات سال تک کھیتی باڑی کرو گے، اس زمانے میں خوب پیداوار ہوگی، سات موٹی گائیوں اور سات سبز بالیوں سے اسی کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو تاکہ خراب نہ ہو اور آفات سے محفوظ رہے البتہ کھانے کیلئے اپنی ضرورت کے مطابق تھوڑے سے غلے سے بھوسی اتار کر اسے صاف کرلو اور باقی غلے کو ذخیرہ بنا کر محفوظ کرلو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۳، ملخصاً)

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دین و دنیا کے رازوں سے خبردار ہوتے ہیں :

             اس سے معلوم ہوا کہ نبی دنیاوی اور دینی تمام رازوں سے خبردار ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کاشت کاری کا ایسا قاعدہ بیان فرمایا جو کامل کاشت کا ر کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ بالی یا بھوسے میں گندم کی حفاظت ہے،  پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بادشاہِ مصر سے فرمانا کہ مجھے خزانے سپرد کردو ، اور پھر تمام دنیا میں غلہ کی تقسیم کا بہترین انتظام فرمانا ، اس سب سے پتہ چلا کہ نبی سلطنت کرنا بغیر سیکھے ہوئے جانتے ہیں ، ان کا علم صرف شرعی مسائل میں محدود نہیں ہوتا اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُمورِ سلطنت چلانا بھی دین میں داخل ہیں۔

ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(48)ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْهِ یَعْصِرُوْنَ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اس کے بعد سات برس سخت آئیں گے جو اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے ان سالوں کے لیے پہلے جمع کر رکھا ہوگا مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم بچالو گے۔ پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی اور اس میں رس نچوڑیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ:پھر اس کے بعد آئیں گے۔} یعنی ان سات سرسبز سالوں کے بعد لوگوں پر سات سال سخت قحط کے آئیں گے جن کی طرف دبلی گائیوں اور سوکھی بالیوں میں اشارہ ہے، جو غلہ وغیرہ تم نے ان سات سالوں کے لئے جمع کر رکھا ہو گا وہ سب ان سالوں میں کھا لیا جائے گا البتہ تھوڑا سا بچ جائے گا جو تم بیج کے لئے بچا لو گے تاکہ اس کے ذریعے کاشت کرو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۴، ملخصاً)

حفاظتی تدابیر کے طور پر کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں :

اس سے معلوم ہوا کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر آئندہ کے لئے کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اناج اور دیگر ضروریات کے حوالے سے ملکی ذخائرکا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دیں بلکہ زرِ مبادلہ کے جو ذخائر جمع کر کے رکھے جاتے ہیں ان کی اصل بھی اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے۔

اسی طرح کسی شخص کا ان لوگوں کے لئے کچھ بچا کر رکھنا جن کا نان نفقہ اس کے ذمے ہے ،یہ بھی توکل کے خلاف نہیں۔جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے  ہیں ’’جہاں تک عیال دار کا تعلق ہے تو بال بچوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کرنے سے توکل کی تعریف سے نہیں نکلتا۔ (احیاءعلوم الدین ، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عیال کی کفایت (کفالت)شرع نے اس پر فرض کی، وہ ان کو توکل و تبتل و صبر علی الفاقہ پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو جتنا چاہے کُسے مگر اُن کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’کَفٰی بِالْمَرْ ءِ اِثْمًا اَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوْتُ‘‘ آدمی کے گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کا قُوت (یعنی نفقہ ) اس کے ذمہ ہے اُسے ضائع چھوڑ دے( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، ۲ / ۱۸۴، الحدیث: ۱۶۹۲)(ت)۔(فتاوی رضویہ، ۱۰ / ۳۲۳)

         اسی مقام پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ذکر کردہ مزید کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور پر نور سَیِّدُ الْمُتَوَکِّلِینْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نفس کریم کے لیے کل کا کھانا بچا کر رکھنا پسند نہ فرماتے۔ ایک بار خادمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پرندے کا بچا ہوا گوشت دوسرے دن حاضر کیا تو ارشاد فرمایا ’’اَلَمْ اَنْہَکِ اَنْ تَرْفَعِی شَیْئًا لِغَدٍ اِنَّ اللہَ یَاْتِی بِرِزْقِ کُلِّ غَدٍ‘‘ کیا ہم نے منع نہ فرمایا کہ کل کے لیے کچھ ا ٹھاکرنہ رکھنا، کل کی روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ کل دے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ نجیح ابو علی عن انس، ۳ / ۴۳۳، الحدیث: ۴۲۰۸)

         اور اپنے اہل و عیال کے معاملے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ان کے لئے سال بھر کاغلہ جمع فرما دیتے تھے چنانچہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اَموال اُن اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر لوٹادئیے تھے، مسلمانوں نے انہیں حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ، یہ اموال خاص طور پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تصرف میں تھے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان اموال سے ایک سال کا خرچ نکال لیتے اور جو مال باقی بچتا اسے جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب حکم الفیئ، ص۹۶۴، الحدیث: ۴۸(۱۷۵۷))

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا دل یا آپ کے اہلِ خانہ کے دل کمزور تھے بلکہ ( آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ کام) امت کے کمزور لوگوں کے لئے سنت بنانے کی خاطر ایسا کیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جس طرح عزیمت (یعنی اصل حکم) پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح کمزور لوگوں کی دلجوئی کے لئے رخصت پر بھی عمل کیا جائے تاکہ ان کی کمزوری ان کو مایوسی تک نہ لے جائے اور وہ انتہائی درجہ تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے آسان نیکی بھی چھوڑ دیں۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳-۳۴۴)

{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ:پھر ان کے بعد ایک سال آئے گا۔} یعنی سخت قحط والے سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی، اس میں لوگ انگوروں کا رس نچوڑیں گے اور تل اور زیتون کا تیل نکالیں گے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سال بڑی برکت والا ہوگا، زمین سرسبز وشاداب ہوگی اور درخت خوب پھلیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۴)

وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۚ-فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْــٴَـلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب ان کے پاس قاصد آیا تو یوسف نے فرمایا: اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا رب ان کے مکر کو جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے حکم دیا۔} ساقی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ تعبیرسن کر واپس ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں جا کر تعبیر بیان کی ،بادشاہ کو یہ تعبیر بہت پسند آئی اور اسے یقین ہوا کہ جیسا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ہے ضرور ویسا ہی ہوگا۔ بادشاہ کو شوق پیدا ہوا کہ اس خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک سے سنے ،چنانچہ اس نے حکم دیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں ان کی زیارت کروں کیونکہ انہوں نے خواب کی اتنی اچھی تعبیر بیان کی ہے۔ جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ نے فرمایا ’’اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے درخواست کرو کہ وہ تفتیش کرے کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ ان کے مکر کو جانتا ہے۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے فرمایا تاکہ بادشاہ کے سامنے آپ کی براء ت اور بے گناہی ظاہر ہوجائے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ لمبی قید بلا وجہ ہوئی تاکہ آئندہ حاسدوں کو الزام لگانے کا موقع نہ ملے۔  اس سے معلوم ہوا کہ تہمت دور کرنے میں کوشش کرنا ضروری ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۴، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۳۳، ملتقطاً)

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍؕ-قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٴٰـنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ٘-اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

بادشاہ نے کہا: اے عورتو! تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا۔ انہوں نے کہا: سُبْحَانَ اللہ ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز کی عورت نے کہا: اب اصل بات کھل گئی۔ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ سچے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:بادشاہ نے کہا۔}  جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے پیام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو بادشاہ نے پیام سن کر ہاتھ کاٹ لینے والی عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ عزیز ِ مصرکی عورت کو بھی بلایا، پھر بادشاہ نے ان سے کہا: اے عورتو! اپنے صحیح حالات مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا ، جب تم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دل لبھانا چاہا ،کیا تم نے ان کی جانب سے اپنی طرف کوئی میلان پایا۔ عورتوں نے جواب دیا: سُبْحَانَ اللہ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز ِ مصرکی عورت یعنی زلیخانے کہا: اب اصل بات ظاہر ہو گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ اپنی بات میں سچے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۴)

حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے:

            یاد رہے کہ اس آیت میں حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی توبہ کا اعلان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اورذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ(52)ترجمہ: کنزالعرفانیوسف نے فرمایا: یہ میں نے اس لیے کیا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدمِ موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ:یہ۔} بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پیام بھیجا کہ عورتوں نے آپ کی پاکی بیان کی اور عزیز کی عورت نے اپنے گناہ کا اقرار کرلیا ہے، اس پر حضرت  یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میں نے قاصد کو بادشاہ کی طرف اس لیے لوٹایا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی میں کوئی خیانت نہیں کی اوراگر بالفرض میں نے کوئی خیانت کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے ا س قید سے رہائی عطا نہ فرماتا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کو فروغ نہیں ہوتااور سانچ کو آنچ نہیں آتی، مکار کا انجام خراب ہوتا ہے

 اَخلاقی خیانت مذموم وصف اور اخلاقی امانتداری قابلِ تعریف وصف ہے:

            اس سے یہ بھی معلوم ہوا اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم وصف ہے اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اخلاقی امانتداریایک قابلِ تعریف وصف ہے جسے ہر ایک کو اختیار کرنا چاہئے ،آنکھ کی خیانت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘ (مومن:۱۹)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان : اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔

            اخلاقی خیانت کرنے والوں سے متعلق حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گھروں میں بیٹھ رہنے والوں پر مجاہدین کی عورتوں کی حرمت ان کی ماؤں کی حرمت کی طرح ہے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے گھروالوں میں (اس کا) نائب بنے(اور اس کے گھر بار کی دیکھ بھال کرے)  اور وہ اس مجاہد کے اہلِ خانہ میں خیانت کرے تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کی نیکیوں میں سے جو چاہے گا لے لے گا ، اب (اس مجاہد کے نیکیاں لینے کے بارے میں ) تمہارا کیا خیال ہے؟ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب حرمۃ نساء المجاہدین واثم من خانہم فیہنّ، ص۱۰۵۱، الحدیث: ۱۳۹(۱۸۹۷))\

            حضرت فُضالہ بن عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کر دیا جائے گا، ان میں سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی دنیوی ضروریات (جیسے نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔ (الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہ، ترہیب العبد من الاباق من سیّدہ، ۳ / ۱۸، الحدیث: ۴)

          اور اخلاقی خیانت سے بچنے والوں کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)

            اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاقی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور اخلاقی طور پر بھی امانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین قصور کا اقرار توبہ ہے لہٰذا اب حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔

وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتابیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ:اور میں  اپنے نفس کو بے قصور نہیں  بتاتا۔} زلیخا کے اقرار اور اعتراف کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب یہ فرمایا کہ میں  نے اپنی براء ت کا اظہار اس لئے چاہا تھا تاکہ عزیز کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں  نے اس کی غیر موجودگی میں  خیانت نہیں  کی اور اس کے اہلِ خانہ کی حرمت خراب کرنے سے بچا رہا ہوں  اور جو الزام مجھ پر لگائے گئے ہیں  میں  اُن سے پاک ہوں  تو اس کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خیال مبارک اس طرف گیا کہ میری ان باتوں  میں  اپنی طرف پاکی کی نسبت اور اپنی نیکی کا بیان ہے، ایسا نہ ہو کہ اس میں  کسی قسم کی خودپسندی کا شائبہ آنے کی کوشش کرے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ’’اے میرے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں  اپنے نفس کو بے قصور بتاتا ہوں  نہ مجھے اپنی بے گناہی پر ناز ہے اور نہ میں  گناہ سے بچنے کو اپنے نفس کی خوبی قرار دیتا ہوں ،نفس کی جنس کا تویہ حال ہے کہ وہ برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، لیکن میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے جس مخصوص بندے کو اپنے فضل وکرم سے معصوم کردے تو اس کا برائیوں سے بچنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے اور معصوم کرنا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہے،بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے بندوں  کے گناہوں  کوبخشنے والا اور ان پر مہربان ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۳۴، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۵-۲۶، ملتقطاً)

نیک اعمال پر نازاں  نہیں  ہونا چاہئے:

         اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں  نہ ہو بلکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اس نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس کی بارگاہ میں  اپنی عاجزی اور بے بسی کااظہار کرے اور گناہوں  سے بچنے کو اپنا ہنر و کمال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے اسے گناہ سے بچا لیا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے اعمال پر ناز کرنا اور خود پسندی میں  مبتلا ہونا بہت ساری آفات کا مجموعہ ہے ،ان آفات کو بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’خود پسندی گناہوں  کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ وہ بعض گناہوں  کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیوں کہ وہ ان کی تلاش سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئے جاتے ہیں  اور جن گناہوں  کو یاد رکھتا ہے ان کو بھی معمولی جانتا ہے اور انہیں  کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ان کے تَدارُک کی کوشش نہیں  کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں  گے جبکہ اس کے برعکس عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا، ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللّٰہ تعالیٰ پرایک قسم کا احسان جانتا ہے اور توفیقِ عمل کی صورت میں  ملنے والی نعمت ِخداوندی کو بھول جاتا ہے، پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہوجاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہوجاتی ہے کیوں کہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہوں ، نفع بخش نہیں  ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خود پسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں  ایک مقام حاصل ہے ، نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ اعمال کی توفیق ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  میں  سے ایک نعمت اور اس کے عطیات میں  سے ایک عطیہ ہے لیکن خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے ،عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں  اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچھا نہیں  سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں  گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں  یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں  کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اِصرارکرتا ہے، کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت نہیں  سنتا اور نہ ہی کسی واعظ کا وعظ سنتا ہے بلکہ دوسروں  کو یوں  دیکھتا ہے کہ گویا وہ جاہل ہیں  اور اپنی خطا پر ڈٹ جاتا ہے اگر اس کی رائے کسی دنیوی معاملے میں  ہو تو اسے اس پر یقین ہوتا ہے اور اگر اُخروی معاملے بالخصوص عقائد سے متعلق ہو تو اس کے باعث تباہ ہوجاتا ہے جبکہ اگرایسا شخص اپنے نفس پر تہمت لگاتا ، اپنی رائے پر اعتماد نہ کرتا، نورِ قرآن سے روشنی حاصل کرتا ، علماءِ دین سے مدد لیتا، علم کے پڑھنے پڑھانے میں  مصروف رہتا اور اہلِ بصیرت سے مسلسل پوچھتا رہتا تو یہ بات اسے حق تک پہنچادیتی۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان آفۃ العجب، ۳ / ۴۵۳)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  خود پسندی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِیْۚ-فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَكِیْنٌ اَمِیْنٌ(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ تاکہ میں انہیں اپنے لیے منتخب کرلوں پھر جب بادشاہ نے یوسف سے بات کی تو کہا۔ بیشک آج آپ ہمارے یہاں معزز،امانتدارہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے کہا۔} جب بادشاہ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم اورآپ کی امانت کا حال معلوم ہوا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسنِ صبر، حسنِ ادب ،قید خانے والوں  کے ساتھ احسان ،مشقتوں  اور تکلیفوں  پر ثابت قدمی اور اِستقلا ل رکھنے پر مُطلع ہوا تواس کے دل میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  بہت ہی عظمت پیدا ہوئی اور اس نے کہا: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں  انہیں  اپنے لیے منتخب کرلوں ، چنانچہ بادشاہ نے معززین کی ایک جماعت بہترین سواریاں  ،شاہانہ سازو سامان اورنفیس لباس دے کر قیدخانے میں  بھیجی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو انتہائی تعظیم اورتکریم کے ساتھ ایوانِ شاہی میں  لائیں  ۔ان لوگوں  نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں  حاضر ہو کر بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمالیا اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں  کے لئے دعا فرمائی۔ جب قید خانے سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازے پر لکھا ’’یہ بلا کا گھر، زندوں  کی قبر ، دشمنوں  کی بدگوئی اور سچوں  کے امتحان کی جگہ ہے۔ پھر غسل فرمایا اور پوشاک پہن کر ایوانِ شاہی کی طرف روانہ ہوئے ،جب قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا ’’میرا رب عَزَّوَجَلَّ مجھے کافی ہے، اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثنا برتر اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں  ہے۔ پھر قلعہ میں  داخل ہوئے اور جب بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی کہ’’ یارب! عَزَّوَجَلَّ،میں  تیرے فضل سے بادشاہ کی بھلائی طلب کرتا ہوں  اور اس کی اور دوسروں  کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ جب بادشاہ سے نظر ملی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عربی میں  سلام فرمایا۔بادشاہ نے دریافت کیا ’’یہ کون سی زبان ہے ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’یہ میرے چچا حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان ہے۔ پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ کے سامنے عبرانی زبان میں  دعا کی تواُس نے دریافت کیا’’یہ کون سی زبان ہے؟حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’یہ میرے والدِ محترم کی زبان ہے۔ بادشاہ یہ دونوں  زبانیں  نہ سمجھ سکاحالانکہ وہ 70 زبانیں  جانتا تھا ،پھر اُس نے جس زبان میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے گفتگو کی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُسی زبان میں  بادشاہ کو جواب دیا۔ اُس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف تیس سال کی تھی، اس عمر میں  علوم کی ایسی وسعت دیکھ کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور اُس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے برابر جگہ دی۔ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس  کے خواب کی تعبیر اپنی زبانِ مبارک سے سنائیں  ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس خواب کی پوری تفصیل بھی سنادی کہ اس اس طرح سے اس نے خواب دیکھا تھا حالانکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ خواب اس سے پہلے تفصیل سے بیان نہ کیا گیا تھا۔ اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ کہنے لگا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تو میرا خواب جیسے میں  نے دیکھا تھا ویسے ہی بیان فرما دیا ،خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے، اب اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرما دیں  ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تعبیر بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا ’’اب لازم یہ ہے کہ غلّے جمع کئے جائیں  اور ان فراخی کے سالوں  میں  کثرت سے کاشت کرائی جائے اور غلّےبالیوں  کے ساتھ محفوظ رکھے جائیں  اور رعایا کی پیداوار میں  سے خُمس لیا جائے، اس سے جو جمع ہوگا وہ مصر اور ا س کے اَطراف کے باشندوں  کے لئے کافی ہوگا اورپھر خلقِ خدا ہر طرف سے تیرے پاس غلہ خریدنے آئے گی اور تیرے یہاں  اتنے خزانے اور مال جمع ہو جائیں  گے جو تجھ سے پہلوں  کے لئے جمع نہ ہوئے ۔ بادشاہ نے کہا یہ انتظام کون کرے گا؟(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۲۶-۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۵۳۴-۵۳۵، ملتقطاً)حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ کے ا س سوال کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں  مذکور ہے۔

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف نے فرمایا: مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو ، بیشک میں حفاظت والا، علم والا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا:  اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک میں  خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟ چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔

عہدہ اور امارت کا مطالبہ کب جائز ہے؟

         یاد رہے کہ احادیث میں  مذکور مسائل میں  جو امارت یعنی حکومت یا بڑا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے اس کے معنی یہ ہیں  کہ جب ملک میں  اہلیت رکھنے والے موجود ہوں  اور اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکام نافذ کرناکسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہ ہو تو اس وقت امارت طلب کرنا مکروہ ہے لیکن جب ایک ہی شخص اہلیت رکھتا ہو تو اس کو اللّٰہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے کے لئے امارت طلب کرنا جائز بلکہ اسے تاکید ہے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہی حال تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رسول تھے، اُمت کی ضروریات سے واقف تھے ،یہ جانتے تھے کہ شدید قحط ہونے والا ہے جس میں  مخلوق کو راحت اور آسائش پہنچانے کی یہی صورت ہے کہ عنانِ حکومت کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ میں  لیں  اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے امارت طلب فرمائی ۔

امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل:

         یہاں  امارت سے متعلق 3 اَہم مسائل یاد رکھئے:

(1)… عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے قبول کرنا جائز ہے۔

(2)…اگر دین کے احکام کو جاری کرنا کافر یا فاسق بادشاہ کی طرف سے عہدہ لئے بغیر نہ ہو سکے گاتو اس میں  اس سے مدد لینا جائز ہے۔

(3)…فخر اور تکبر کے لئے ـاپنی خوبیوں  کو بیان کرنا ناجائز ہے لیکن دوسروں  کو نفع پہنچانے یا مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے اگر اپنی خوبیوں  کے اظہار کی ضرورت پیش آئے تو ممنوع نہیں  اسی لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا کہ میں  حفاظت و علم والا ہوں ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۲۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۳۵، ملتقطاً)

 عہدہ قبول نہ کرنے میں  عافیت کی صورت:

         یاد رہے کہ عدل قائم کرنے کی نیت سے ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے کو قبول کرنا جائز ہے اور اگر عہدہ ملنے کے باوجود عدل قائم کر سکنا ممکن نہ ہو تو ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدہ قبول نہ کرنے میں  ہی عافیت ہے اور یہی ہمارے بزرگانِ دین کا طرزِ عمل رہا ہے، چنانچہ حضرت ربیع بن عاصم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’یزید بن عمر امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیتُ المال کا نگران مقرر کرنا چاہتا تھا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے انکار کر دیا تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بیس کوڑے مارے۔‘‘اسی طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امانت داری کی وجہ سے بادشاہ نے اپنے خزانے کی چابیاں  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حوالے کرنے کاارادہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر انکار کیا تو وہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب پر بادشاہ کی سزا کو ترجیح دی (اور خزانے کی چابیاں  نہ لیں ) اسی طرح ایک مرتبہ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قاضی بننے کی دعوت دی گئی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میں  اس کی صلاحیت نہیں  رکھتا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا ’’اگر میں  سچا ہوں  تو واقعی اس کی صلاحیت نہیں  رکھتا اور اگر جھوٹا ہوں  تو جھوٹا شخص بھی قاضی بننے کاا ہل نہیں  ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الثانی فی العلم المحمود والمذموم۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸-۴۹)

وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ:اور بیشک آخرت کا ثواب۔} یعنی آخرت کا اجر و ثواب ان کے لئے دنیا کے اجر سے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آخرت کا اجر وثواب اس سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں  دُنیا میں  عطا فرمایا ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۲۹)

دنیا و آخرت میں  اجر:

            اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں  بھی اجر عطا فرماتا ہے اور آخرت میں  دنیوی اجر سے بہتر اجر عطا فرمائے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے  ہیں  کہ مومن اپنی نیکیوں  کا پھل دنیا و آخرت دونوں  میں  پاتا ہے اور کافر جو کچھ پاتا ہے دنیا ہی میں  پاتا ہے آخرت میں  اس کا کوئی حصہ نہیں  ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۵۳۵)

اخروی ثواب حاصل کرنے کیلئے ایمان اور نیک اعمال دونوں  ضروری ہیں :

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اخروی اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال ہونا بھی ضرور ی ہیں  اس لئے فقط ایمان پر بھروسہ کر کے خود کو نیک اعمال سے بے نیاز جاننا درست نہیں  ،ہمارے بزرگانِ دین جن کا ایک ایک پل اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیک اعمال میں  مصروف گزرتا تھا، اس سلسلے میں  ان کے حال کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک مرتبہ حمام میں  داخل ہونے کا ارادہ کیا تو حمام کے مالک نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ اجرت کے بغیر حمام میں  داخل نہیں  ہونے دے گا، یہ سن کر حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ رونے لگے اور فرمایا ’’جب شیطان کے گھر میں  مجھے عِوض کے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں  دی گئی تو (اخلاص کے ساتھ کئے ہوئے نیک اعمال کے بغیر) مجھے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صدیقین کے گھر (یعنی جنت) میں  کس طرح داخل ہونے دیاجائے گا۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۲۸۴)

وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَ هُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یوسف کے بھائی آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف نے توانہیں پہچان لیا اور وہ بھائی ان سے انجان رہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ:اور یوسف کے بھائی آئے۔} مفسرین فرماتے ہیں  کہ جب قحط کی شدت ہوئی اور بلائے عظیم عام ہوگئی، تمام شہر قحط کی سخت تر مصیبت میں  مبتلا ہوگئے اور ہر جانب سے لوگ غلہ خریدنے کے لئے مصر پہنچنے لگے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں  دیتے تھے تاکہ مساوات رہے اور سب کی مصیبت دور ہو۔ قحط کی جیسی مصیبت مصر اور دیگر ملکوں  میں  آئی، ایسی ہی کنعان میں  بھی آئی اُس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کے سوا اپنے دسوں  بیٹوں  کو غلہ خریدنے مصر بھیجا۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی مصر میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حاضر ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  دیکھتے ہی پہچان لیا لیکن وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ پہچان سکے کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنوئیں  میں  ڈالنے سے اب تک چالیس سال کا طویل زمانہ گزر چکا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا انتقال ہوچکا ہوگا جبکہ یہاں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تخت ِسلطنت پر ،شاہانہ لباس میں  شوکت و شان کے ساتھ جلوہ فرما تھے اس لئے انہوں  نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ پہچانا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عبرانی زبان میں  گفتگو کی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی زبان میں  جواب دیا ،پھر فرمایا ’’تم کون لوگ ہو؟ انہوں  نے عرض کی ’’ہم شام کے رہنے والے ہیں ، جس مصیبت میں  دنیا مبتلا ہے اسی میں  ہم بھی ہیں  اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے غلہ خریدنے آئے ہیں  ۔حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’کہیں  تم جاسوس تو نہیں  ہو۔ انہوں  نے کہا ’’ ہم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہیں  کہ ہم جاسوس نہیں  ہیں  ،ہم سب بھائی ہیں ، ایک باپ کی اولاد ہیں ، ہمارے والد بہت بزرگ ،زیادہ عمر والے اور صدیق ہیں  ، ان کا نامِ نامی حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نبی ہیں ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم کتنے بھائی ہو؟ انہوں  نے جواب دیا’’ ہم بارہ بھائی تھے لیکن ایک بھائی ہمارے ساتھ جنگل گیا تو وہ ہلاک ہوگیا تھا، وہ والدصاحب کو ہم سب سے زیادہ پیارا تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’اب تم کتنے ہو؟ عرض کی’’ دس۔ پھر فرمایا’’ گیارہواں  کہاں  ہے؟ انہوں  نے جواب دیا’’وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ ہمارا جو بھائی ہلاک ہوگیا تھاوہ اسی کا حقیقی بھائی ہے، اب والد صاحب کی اسی سے کچھ تسلی ہوتی ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۲۹)

وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِیْكُمْۚ-اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(59)فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِهٖ فَلَا كَیْلَ لَكُمْ عِنْدِیْ وَ لَا تَقْرَبُوْنِ(60)قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ اَبَاهُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب یوسف نے ان کا سامان انہیں مہیا کردیا تو فرمایا کہ اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ، کیا تم یہ بات نہیں دیکھتے کہ میں ناپ مکمل کرتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں ۔ تواگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں لاؤ گے تو تمہارے لیے میرے پاس کوئی ماپ نہیں اور نہ تم میرے قریب پھٹکنا۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے باپ سے اس کے متعلق ضرور مطالبہ کریں گے اور بیشک ہم ضرور یہ کریں گے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ:اور جب ان کا سامان انہیں  مہیا کردیا۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن بھائیوں  کی بہت عزت کی اور بڑی خاطر و مُدارات سے اُن کی میزبانی فرمائی، ان میں  سے ہر ایک کا اونٹ غلے سے بھر دیا اور سفر کے دوران جس چیز کی ضرورت درپیش ہو سکتی تھی وہ بھی عطا کر دی۔ ‘‘ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کا سامان انہیں  مہیا کر دیا تو ان سے فرمایا ’’تم اپنے جس بھائی کو والد محترم کے پاس چھوڑ آئے ہو اسے میرے پاس لے آؤ ،کیا تم یہ بات نہیں  دیکھتے کہ میں  ناپ مکمل کرتا ہوں  اور اس میں  کوئی کمی نہیں  کرتا ،اگرتم اس کو لے آؤ گے تو ایک اونٹ غلہ اس کے حصہ کا اور زیادہ دوں  گا اور کیا تم دیکھتے نہیں  کہ میں  سب سے بہتر مہمان نواز ہوں ، اور اگر تم اس بھائی کو میرے پاس نہیں  لاؤ گے جو تمہارے والد کے پاس موجود ہے تو تمہارے لیے میرے پاس کوئی غلہ نہیں  اور نہ تم غلہ حاصل کرنے کے لئے میرے قریب پھٹکنا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۹-۶۰، ۳ / ۲۹-۳۰)

{ قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  نے کہا: ہم اس کے باپ سے اس کے متعلق ضرور مطالبہ کریں  گے اور خوب کوشش کریں  گے یہاں  تک کہ ہم اسے لے آئیں  اور بیشک ہم ضرور یہ کام کریں  گے جس کا آپ نے ہمیں  حکم دیاہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۰)

وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَهُمْ فِیْ رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُوْنَهَاۤ اِذَا انْقَلَبُوْۤا اِلٰۤى اَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یوسف نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (بھی) ان کی بوریوں میں واپس رکھ دو تاکہ جب یہ اپنے گھر واپس لوٹ کر جائیں تو اسے پہچان لیں تاکہ یہ واپس آئیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ لِفِتْیٰنِهِ:اور اپنے غلاموں  سے فرمایا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے غلاموں  سے فرمایا کہ ان لوگوں  نے غلے کی جو قیمت دی ہے ، غلے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی ان کی بوریوں  میں  واپس رکھ دو تاکہ جب وہ اپنا سامان کھولیں  تو اپنی جمع شدہ رقم انہیں  مل جائے اور قحط کے زمانے میں  کام آئے ،نیز یہ رقم پوشیدہ طور پر اُن کے پاس پہنچے تاکہ اُنہیں  لینے میں  شرم بھی نہ آئے اور یہ کرم و احسان دوبارہ آنے کے لئے اُن کی رغبت کا باعث بھی ہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۰، ملخصاً)

ضرورت کے وقت رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی ترغیب:

اس سے معلوم ہوا کہ جب رشتہ داروں  کو کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہو تواس میں  ان کی مدد کرنی چاہئے ، قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں باقاعدہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے ،چنانچہ رشتہ داروں  کو دینے سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(نحل:۹۰)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ عدل اور احسان اور رشتےداروں  کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں  نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دینار تو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرے اور جو دینار تو (غلام کی) گردن آزاد کرنے میں  خرچ کرے اور جو دینار تو کسی مسکین پر صدقہ کرے اور جو دینار تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ان سب میں  زیادہ ثواب اس کا ہے جو تو اپنے گھر والوں  پر خرچ کرے ۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال والمملوک۔۔۔ الخ، ص۴۹۹، الحدیث: ۳۹(۹۹۵))

حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عام مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے رشتہ دار پر کرنا دو صدقے ہیں  ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔(ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے اُمتِ محمد! قسم ہے اُس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں  فرماتا، جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں  اور یہ غیروں  کو دے، قسم ہے اُس کی جس کے دستِ قدرت میں  میری جان ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ مقدام، ۶ / ۲۹۶، الحدیث: ۸۸۲۸)

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  ضرورت مند رشتہ داروں  کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

رشتہ داروں  کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ :

اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ کسی رشتہ دار کی مالی یا کوئی اور مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس انداز میں  اس تک رقم یا کوئی اور چیز پہنچائی جائے جس میں  اسے لیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہ ہو اور اس کی غیرت و خودداری پربھی کوئی حرف نہ آئے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سات شخص ہیں ، جن پر اللّٰہ تعالیٰ اس دن سایہ کرے گا جس دن اُس کے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں  سے ایک) وہ شخص ہے جس نے کچھ صدقہ کیا اور اسے اتنا چھپایا کہ بائیں  کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں  نے کیا خرچ کیا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)

حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اپنے شاگرد پر خفیہ احسان:

ہمارے بزرگانِ دین اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں  کی امداد کس طرح کیا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اکثر ’’طَرَسُوْس‘‘ کی طرف جاتے اور وہاں  ایک مسافر خانے میں  ٹھہرتے، ایک نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں  حاضر ہو کر حدیث سنا کرتا، جب بھی آپ ’’رِقَّہ‘‘(نامی شہر میں) تشریف لاتے تووہ نوجوان حاضرِ خدمت ہوجاتا ۔ ایک مرتبہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’رِقَّہ‘‘ پہنچے تو اس نوجوان کو نہ پایا۔ اس وقت آپ جلدی میں  تھے کیونکہ مسلمانوں  کا ایک لشکر جہاد کے لئے گیا ہوا تھا اور آپ بھی اس میں  شرکت کے لئے آئے تھے۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (اس کی معلومات کرنے کی بجائے) لشکرمیں  شامل ہوگئے ۔اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں  کو فتح نصیب ہوئی اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غازی بن کر واپس طَرَسُوْس آئے اور ’’رِقَّہ‘‘ پہنچ کر اپنے اس نوجوان شاگرد کے بارے میں  پوچھا تو پتا چلا کہ نوجوان مقروض تھا اور ا س کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ وہ قرض ادا کرتا لہٰذا قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا: ’’میرے اس نوجوان شاگرد پر کتنا قرض تھا ؟کہا گیا کہ’’دس ہزار درہم۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پوچھتے پوچھتے قرض خواہ کے گھر پہنچے ، اسے دس ہزار درہم دے کراپنے شاگرد کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا ’’جب تک میں  زندہ رہوں  اس وقت تک کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ دینا ۔ پھر راتوں  رات آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں  سے رخصت ہوگئے ۔قرض خواہ نے صبح ہوتے ہی مقروض نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان جب باہر آیا تو لوگو ں  نے اس سے کہا: حضر ت عبداللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے متعلق پوچھ رہے تھے ، اور اب وہ واپس جاچکے ہیں۔ یہ سن کر نوجوان آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش میں  نکل پڑا اور تین دن کی مسافت طے کرکے آپ   کے پاس پہنچا ۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے دیکھا تو پوچھا:’’اے نوجوان ! تم کہاں  تھے؟میں نے تمہیں  مسافرخانے میں  نہیں  پایا۔ نوجوان نے کہا: ’’اے ابو عبد الرحمٰن! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ،مجھے قرض کے عوض قید کرلیا گیا تھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا ’’پھر تمہاری رہائی کا کیا سبب بنا؟ نوجوان نے عرض کی :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے کسی نیک بندے نے میرا قرض ادا کردیا، اس طرح مجھے رہائی مل گئی۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’اے نوجوان ! اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے کسی کو تیرا قرض ادا کرنے کی توفیق دی اور تجھے رہائی عطا فرمائی ۔راوی کہتے ہیں : جب تک حضرت عبد اللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ زندہ رہے تب تک اس قرض خواہ نے کسی کو بھی خبر نہ دی کہ نوجوان کاقرض کس نے ادا کیا ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وصال کے بعداس نے سارا واقعہ لوگوں  کو بتا دیا۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والسبعون بعد المائتین، ص۲۵۴-۲۵۵)

فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْهِمْ قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَیْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَكْتَلْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ کر گئے تو کہنے لگے: اے ہمارے باپ! ہم سے غلہ روک دیا گیا ہے لہٰذا ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لاسکیں اور ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا رَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْهِمْ:پھر جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ کر گئے۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی اپنے والد محترم حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لوٹ کر گئے تو بادشاہ کے حسنِ سلوک اور اس کے احسان کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے ہماری وہ عزت و تکریم کی کہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے کوئی ہوتا تو وہ بھی ایسا نہ کرسکتا ۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اب اگر تم بادشاہِ مصر کے پاس جاؤ تو میری طرف سے سلام پہنچانا اور کہنا کہ ہمارے والد تیرے حق میں  تیرے اس سلوک کی وجہ سے دعا کرتے ہیں ۔ انہوں  نے عرض کی ’’اے ہمارے باپ! شاہ ِمصر نے ہم سے کہہ دیا ہے کہ اگر ہم بنیامین کو نہ لے کر آئے تو آئندہ ہمیں  غلہ نہیں  ملے گا اس لئے اب بنیامین کا جانا ضروری ہے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لاسکیں  ، ہم ضرور اس کی حفاظت کریں  گے اور انہیں  بخیریت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس واپس لائیں  گے ۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۳۰)

قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَیْهِ اِلَّا كَمَاۤ اَمِنْتُكُمْ عَلٰۤى اَخِیْهِ مِنْ قَبْلُؕ-فَاللّٰهُ خَیْرٌ حٰفِظًا۪-وَّ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

یعقوب نے فرمایا: کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھاتو اللہ سب سے بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کی یہ بات سن کر حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میں  اپنے بیٹے بنیامین کے بارے میں  تمہارا اعتبار کیسے کر لوں  حالانکہ اس کے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تم نے جو کچھ کیا وہ جانتے ہو اور اب بنیامین کے بارے میں  بھی ویسی ہی بات کر رہے ہو، تمہارے بنیامین کی حفاظت کرنے کے مقابلے میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حفاظت سب سے بہتر ہے اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۰)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حفاظت سب سے بہتر ہے:

            مخلوق کے مقابلے میں  یقینا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت ہی سب سے بہتر ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی جان،مال، اولاد اور دین و ایمان وغیرہ کی حفاظت سے متعلق حقیقی اعتماد اور بھروسہ اللّٰہ تعالیٰ پر ہی کرے کیونکہ دیگر لوگ حفاظت کے معاملے میں  آلات اور اسباب کے محتاج ہیں  جبکہ اللّٰہ تعالیٰ تمام اُمور اور ہر طرح کے حالات میں  اسباب و آلات سے غنی اور بے نیاز ہے اورجن کی حفاظت اللّٰہ تعالیٰ اپنے ذمہِ کرم پر لے لے ،،یا،،جنہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت میں  دیاجائے ان کی حفاظت سے متعلق دو حیرت انگیز واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضور پر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قضاءِ حاجت کا ارادہ فرماتے تو(آبادی سے کافی) دور تشریف لے جاتے، ایک دن آپ قضاءِ حاجت کے لئے تشریف لائے، پھر وضو فرمایا اور ایک موزہ پہن لیا تو اچانک ایک سبز رنگ کا پرندہ آیا اور دوسرے موزے کو لے کر بلند ہو گیا، پھر اس نے موزے کو پھینکا تو اس میں  سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکلا، (یہ دیکھ کر) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’یہ وہ اعزاز ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے ۔پھر آپ نے کہا ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعٍ‘‘اے اللّٰہ !میں  اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو دو ٹانگوں  پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں  جو چارٹانگوں  پر چلتا ہے ۔ (معجم الاوسط، باب الہاء، ذکر من اسمہ ہاشم، ۶ / ۴۳۲، الحدیث: ۹۳۰۴)

(2)…حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے والد نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطا ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لوگو ں  کے درمیان جلوہ فرما تھے کہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزرا جس نے اپنے بچے کو کندھوں  پر بٹھا رکھا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا ’’جتنی مشابہت ان دونوں   میں  پائی جارہی ہے میں  نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں  نہیں  دیکھی۔یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : ’اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میرے اس بچے کا واقعہ بہت عجیب وغریب ہے، اس کی ماں  کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ سن کر آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ پورا واقعہ بیان کرو۔ وہ شخص عرض کرنے لگا: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں  جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی، میں  نے جاتے وقت دعا کی : اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میری زوجہ کے پیٹ میں  جو حمل ہے میں  اُسے تیرے حوالے کرتا ہوں ، توہی اس کی حفاظت فرمانا۔ یہ دعا کر کے میں  جہاد کے لئے روانہ ہوگیا، جب میں  واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے ،مجھے بہت افسوس ہوا ۔ ایک رات میں  نےاپنے چچا زاد بھائی سے کہا :مجھے میری بیوی کی قبر پر لے چلو۔ چنا نچہ ہم جنت البقیع میں  پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی۔ جب ہم وہاں  پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں  باہر آرہی ہیں ۔ میں  نے اپنے چچازاد بھائی سے کہا : یہ رو شنی کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا: اس قبر سے ہر رات اسی طر ح روشنی ظاہر ہوتی ہے ، نہ جانے اس میں  کیا راز ہے؟ جب میں  نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں  ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو ں  گا ۔ چنانچہ میں  نے پھاؤڑا منگوایا اور ابھی قبر کھود نے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں  نے اس میں  جھانکا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں  کی گو د میں  بیٹھا کھیل رہا تھا ،جب میں  قبر میں  اتر ا تو کسی ندا دینے والے نے ندا دی ’’ تو نے جو امانت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پا س رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے ، جا! اپنے بچے کو لے جا، اگر تواس کی ماں  کو بھی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر جاتا تو اسے بھی صحیح وسلامت پاتا۔‘‘پس میں  نے اپنے بچے کو اٹھا یا اور قبر سے باہر نکالا ، جیسے ہی میں  قبر سے باہر نکلا تو قبر پہلے کی طرح دوبارہ بند ہوگئی۔( عیون الحکایات، الحکایۃ الثانیۃ والسبعون، ص۹۵)

            یہاں  یہ بات یاد رہے کہ جان و مال کی حفاظت کے ظاہری اسباب اختیار کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ کرنے کے خلاف نہیں  کیونکہ تَوکل نام ہی اسی چیز کا ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللّٰہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے ،لہٰذا جن لوگوں  نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھے یا دیگر اسباب اختیار کئے تو ان کے بارے میں  یہ نہیں  کہاجا سکتا کہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ نہیں ۔

وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ اِلَیْهِمْؕ-قَالُوْا یٰۤاَبَانَا مَا نَبْغِیْؕ-هٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَاۚ-وَ نَمِیْرُ اَهْلَنَا وَ نَحْفَظُ اَخَانَا وَ نَزْدَادُ كَیْلَ بَعِیْرٍؕ-ذٰلِكَ كَیْلٌ یَّسِیْرٌ(65)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تواپنی رقم کو بھی موجود پایا کہ انہیں وہ رقم بھی واپس کردی گئی ہے۔ کہنے لگے : اے ہمارے باپ! اب ہمیں اور کیا چاہیے۔ یہ ہماری رقم ہے جوہمیں واپس کردی گئی ہے اورہم اپنے گھر کے لیے غلہ لائیں اورہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں ، یہ بہت آسان بوجھ ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَهُمْ:اور جب انہوں  نے اپنا سامان کھولا۔} یعنی جب انہوں  نے اپنا وہ سامان کھولا جو مصر سے لائے تھے تو اس میں  اپنی رقم کو بھی موجود پایا جو انہیں  واپس کر دی گئی تھی ،رقم دیکھ کر کہنے لگے ’’اے ہمارے والد محترم ! اس سے زیادہ کرم و احسان اور کیا ہو گا کہ بادشاہ نے سامان کے ساتھ وہ رقم بھی ہمیں  واپس کر دی ہے جوہم نے سامان کی قیمت کے طور پر دی تھی لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے بھائی کو ساتھ جانے کی اجازت دے دیں  تاکہ ہم جائیں  اور اپنے گھر والوں  کے لیے غلہ خرید کر لائیں  اور ہم اپنے بھائی بنیامین کی حفاظت کریں  گے اور ہم اپنے بھائی کی وجہ سے اس کے حصے کا ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں  ، یہ اونٹ کے بوجھ کا غلہ دینا بادشاہ کے لئے بہت آسان بوجھ ہے کیونکہ اس نے ہم پر اس سے زیادہ کرم و احسان فرمایا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۳۱)

قَالَ لَنْ اُرْسِلَهٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ لَتَاْتُنَّنِیْ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّحَاطَ بِكُمْۚ-فَلَمَّاۤ اٰتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

یعقوب نے فرمایا: میں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے اللہ کا یہ عہد نہ دیدو کہ تم ضرور اسے (واپس) لے کر آؤ گے سوائے اس کے کہ تم (کسی بڑی مصیبت میں ) گھر جاؤ پھر انہوں نے یعقوب کو عہددیدیا تو یعقوب نے فرمایا: جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا ’’میں  اس وقت تک ہر گز بنیامین کو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں  گا جب تک تم اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ عہد نہ دو کہ تم ضرور اسے واپس بھی لے کر آؤ گے سوائے اس کے کہ تمہارا انتقال ہو جائے یا تم مغلوب ہو جاؤ اور بنیامین کو لے کر آنا تمہاری طاقت سے باہر ہوجائے۔ جب انہوں  نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کی قسم کھا کر عہد دے دیا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ جو ہم کہہ رہے ہیں  اس پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  نگہبان ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۳۱)

ظاہری اسباب کو اختیار کرنا تَوکل کے خلاف نہیں :

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’اس سے معلوم ہو اکہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا توکل کے خلاف نہیں  لہٰذا ہر انسا ن کو چاہئے کہ وہ اس عالَم میں  موجود معتبر اَسباب اختیار کرے اور صرف ان اسباب کو اختیار کرنے اور ان ہی پر بھروسہ کرنے کو کافی نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کو اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کی تقدیر کی طرف متوجہ رکھے ،اللّٰہ تعالیٰ پر اور اس کی تدبیر پر اعتماد رکھے اور اس کے سوا ہر چیز سے اپنی امید ختم کر دے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۲۹۱-۲۹۲)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اسباب ترک کر دینا اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف اور اس کے طریقے سے جہالت ہے اور جب آدمی اسباب کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے اور یوں  وہ اللّٰہ تعالیٰ کے طریقے کے مطابق عمل کرے تو یہ بات توکل کے خلاف نہیں ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الفن الاول فی جلب النافع، الدرجۃ الثانیۃ، ۴ / ۳۲۹)

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍؕ-وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ-وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور فرمایا: اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا ،میں تمہیں اللہ سے بچا نہیں سکتا ،حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ:اور فرمایا۔}جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مصر جانے کے ارادے سے نکلے توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب بیٹوں  کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے میرے بیٹو! مصر میں  ایک دروازے سے نہ داخل ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں  سے جانا تاکہ بری نظر لگنے سے محفوظ رہو۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۱)

یاد رہے کہ پہلی مرتبہ جب یہ لوگ مصر گئے تھے تو اس وقت حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ نہیں  فرمایا تھا کیونکہ اس وقت تک کوئی یہ نہ جانتا تھا کہ یہ سب بھائی اور ایک باپ کی اولاد ہیں  لیکن اب چونکہ جان چکے تھے اس لئے بری نظر لگ جانے کا اِحتمال تھا اس وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کوعلیحدہ علیحدہ ہو کر داخل ہونے کا حکم دیا۔(صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۸-۹۶۹)

مصیبتوں  سے بچنے کی تدبیریں  اختیار کرنا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ آفتوں  اور مصیبتوں  سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنا اور مناسب احتیاطیں  اختیار کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے،سیِّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آفتوں  اور مصیبتوں  سے بچنے کے لئے خود بھی مناسب تدبیریں  فرمایا کرتے اور دوسروں  کوبھی بتایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ امام حسن اورامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پر یہ کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ کلمات (پڑھ کر) دم کیا کرتے تھے ’’اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ‘‘(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)

         اور حضرت عابس جُہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  تمہیں  وہ کلمات نہ بتاؤں  جو (شریر جنّات اور نظر ِبد سے) اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے میں  سب سے افضل ہیں  ؟ انہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں  نہیں  (آپ ضرور بتائیے) ارشاد فرمایا ’’وہ کلمات یہ دونوں  سورتیں  ہیں (1) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ (2) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔(سنن نسائی، کتاب الاستعاذۃ، ۱-باب، ص۸۶۲، الحدیث: ۵۴۴۲)

بری نظر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے:

         نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ بری نظر سے بچنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے،بری نظر سے متعلق حدیث پاک میں  ہے ،حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نظرحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی ہے تو وہ نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لئے) غسل کرنے کا کہا جائے تو غسل کر لو۔ (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقی، ص۱۲۰۲، الحدیث: ۴۲(۲۱۸۸))

         حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے، بے شک بری نظر مرد کو قبر میں  اور اونٹ کو ہنڈیا میں  پہنچا دیتی ہے۔ (مسند الشہاب، ۶۷۸- انّ العین لتدخل الرجل القبر، ۲ / ۱۴۰، الحدیث: ۱۰۵۹)

بری نظر کا علاج:

       حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنّات اور انسانوں  کی بری نظر سے پنا ہ مانگا کرتے تھے یہاں  تک کہ سورۂ فَلق اور سورۂ ناس نازل ہوئیں ، جب یہ سورتیں  نازل ہوئیں  تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان دونوں  کو اختیار فرما لیا اور دیگر دعاؤں  کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فی الرقیۃ بالمعوّذتین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۵)

مفتی احمد یارخاں  نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشا دفرماتے ہیں  کہ بد نظر ی سے بچنے کے لئے یہ آیتِ کریمہ (بھی) اکسیر ہے’’وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(القلم ۵۱، مر اٰۃ المناجیح، کتاب الطب والرقی، الفصل الاول، ۶ / ۱۹۵، تحت الحدیث: ۴۳۲۶)

{وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ:اور میں  تمہیں  اللّٰہ سے بچا نہیں  سکتا ۔} یعنی جس چیز کی طرف میں  نے تمہیں  اشارہ دیا وہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر فرما دی ہے تو میں  تمہیں  اس سے بچا نہیں  سکتا کیونکہ تدبیر تقدیر کو نہیں  ٹال سکتی ، میں  نے اپنا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے ،میں  اسی پر بھروسہ کرتا ہوں  اور اپنی اس بات پر بھروسہ نہیں  کرتا جس کا میں  نے تمہیں  حکم دیا ہے کیونکہ توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنا اسباب چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۲۹۹، صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۹۶۹، ملتقطاً)

         اس آیت سے بھی ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنے سے توکل میں  کوئی فرق نہیں  پڑتا وہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔

وَ لَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَهُمْ اَبُوْهُمْؕ-مَا كَانَ یُغْنِیْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰىهَاؕ-وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب وہ وہیں سے داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا، وہ انہیں اللہ سے کچھ بچا نہ سکتے تھے البتہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی اور بیشک وہ صاحب علم تھا کیونکہ ہم نے اسے تعلیم دی تھی مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا دَخَلُوْا:اور جب وہ داخل ہوئے۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹوں  کا مختلف دروازوں  سے شہر میں  داخل ہونا ان سے وہ چیز دور نہیں  کرسکتا جو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقدر فرما دی ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کو دیکھا جائے تو ان کا ایک ہی دروازے سے داخل ہونا یا مختلف دروازوں  سے داخل ہونا دونوں برابر ہے، ان کا مختلف دروازوں  سے جانا اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں  ٹال سکتا لیکن بد نظری سے بچنے کی یہ تدبیر اختیار کرنا حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل کی ایک تمنا تھی جو انہوں  نے پوری کر لی ۔حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صاحبِ علم تھے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  تعلیم دی تھی مگر اکثر لوگ وہ علم نہیں جانتے جو اللّٰہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بندوں کو دیتا ہے۔(جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۹۶۹)

وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّیْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب وہ سب بھائی یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے اپنے سگے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی (اور) فرمایا: بیشک میں تیرا حقیقی بھائی ہوں تو اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ:اور جب وہ یوسف کے پاس گئے۔} یعنی جب وہ سارے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنے بھائی بنیامین کو لے آئے ہیں  توحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ تم نے بہت اچھا کیا ،پھر انہیں  عزت کے ساتھ مہمان بنایا اور جا بجا دستر خوان لگائے گئے اور ہر دستر خوان پر دو دو بھائیوں  کو بٹھایا گیا ۔بنیامین اکیلے رہ گئے تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے ’’اگر میرے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہوتے تو وہ مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ‘‘ تمہارا ایک بھائی اکیلا رہ گیا ہے، یہ فرما کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو اپنے دستر خوان پر بٹھالیا اور اس سے فرمایا ’’ تمہارے فوت شدہ بھائی کی جگہ میں  تمہارا بھائی ہوجاؤں  تو کیا تم پسند کرو گے؟ بنیامین نے کہا ’’ آپ جیسا بھائی کس کو مُیَسَّر آئے گا! لیکن حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرزند اور (حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ) راحیل کا نورِنظر ہونا آپ کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے! یہ سن کرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رو پڑے اور بنیامین کو گلے سے لگایا اور فرمایا: بیشک میں  تیرا حقیقی بھائی یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں ، تم اس پر غمگین نہ ہونا جو یہ کررہے ہیں ، بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں  بھلائی کے ساتھ جمع فرما دیا اور ابھی اس راز کی اپنے بھائیوں  کو اطلاع نہ دینا ۔یہ سن کر بنیامین فرطِ مُسَرّت سے بے خود ہوگئے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے’’ اب میں  آپ سے جدا نہیں  ہوں  گا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ والد صاحب کو میری جدائی کا بہت غم پہنچ چکا ہے، اگر میں  نے تمہیں  بھی روک لیا تو انہیں  اور زیادہ غم ہوگا اور آپ کو روکنے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت بھی نہیں  کہ آپ کی طرف کوئی غیر پسندیدہ بات منسوب کر دی جائے۔ بنیامین نے کہا ’’اس میں  کوئی مضائقہ نہیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۳۸-۵۳۹)

فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْهِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُهَا الْعِیْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب انہیں ان کا سامان مہیا کردیا تو اپنے بھائی کی بوری میں پیالہ رکھ دیا پھر ایک منادی نے ندا کی: اے قافلے والو! بیشک تم چور ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ:پھر جب انہیں  ان کا سامان مہیا کردیا۔} یعنی پھر جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  ان کا سامان مہیا کر دیا اور ان میں  سے ہر ایک کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ دیدیا اور ایک اونٹ کا بوجھ بنیامین کے لئے خاص کر دیا تو اپنے بھائی بنیامین کی بوری میں  بادشاہ کا وہ پیالہ رکھ دیا جس میں  وہ پانی پیتا تھا، وہ پیالہ سونے کا تھا اور اس میں جواہرات لگے ہوئے تھے اور اس وقت اس پیالے سے غلہ ناپنے کا کام لیا جاتا تھا ۔ قافلہ کنعان جانے کے ارادے سے روانہ ہوگیا ۔جب قافلہ شہر سے باہر جاچکا تو انبار خانہ کے کارکنوں  کومعلوم ہوا کہ پیالہ نہیں  ہے، اُن کے خیال میں  یہی آیا کہ یہ پیالہ قافلے والے لے گئے ہیں ، چنانچہ اُنہوں  نے اس کی جستجو کے لئے آدمی بھیجے، ان میں  سے ایک مُنادی نے ندا کی: اے قافلے والو! بیشک تم چور ہو۔(روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۲۹۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۳-۳۴، ملتقطاً)

قَالُوْا وَ اَقْبَلُوْا عَلَیْهِمْ مَّا ذَا تَفْقِدُوْنَ(71)قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَ لِمَنْ جَآءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے پکارنے والوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا: کیاچیز تمہیں نہیں مل رہی؟ ندا کرنے والوں نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں مل رہا اور جو اُسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ:نداکرنے والوں  نے کہا: ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا۔} ندا کرنے والوں  نے انہیں  جواب دیا کہ ہمیں  بادشاہ کا پیمانہ نہیں  مل رہا اور جو ہمارے تلاشی لینے سے پہلے ہی اسے ظاہر کر دے گا یا اسے چوری کرنے والے کے بارے میں  ہمیں  بتائے گا تواس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ انعام ہے اور اسے دلانے کا میں  ضامن ہوں ۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۹۹)

کفالت جائز ہے:

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ کفالت جائز ہے ،حدیث پاک سے بھی اس کا جواز ثابت ہے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کفیل بننے والاقرضدار ہے ۔ (ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء انّ العاریۃ مؤدّاۃ، ۳ / ۳۴، الحدیث: ۱۲۶۹) نیز اس کے جائز ہونے پر اِجماع بھی منعقد ہے۔

کفالت کا معنی:

            شریعت کی اصطلاح میں  کفالت کے معنی یہ ہیں  کہ ایک شخص اپنے ذمہ کو دوسرے کے ذمہ کے ساتھ مطالبہ میں  ضَم کر دے( یعنی مطالبہ ایک شخص کے ذمہ تھا اور دوسر ے نے بھی مطالبہ اپنے ذمہ لے لیا ۔) (ردّ المحتار مع الدرّالمختار، کتاب ا لکفالۃ،  ۷ / ۵۸۹)

          مشورہ: کفالت کے مسائل کی تفصیلی معلومات کیلئے بہار شریعت حصہ 12 سے  ’’کفالت کا بیان‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

ضمانت دینے کی ترغیب:

            ہمیں  بھی چاہئے کہ اگر کوئی مسلمان بھائی قرض یا کسی اور مصیبت میں  گرفتار ہو تو ممکنہ بہتر صورت میں  اس کی ضمانت دے کر اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کریں  اس سلسلے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت سے ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔

            حضرت عبداللّٰہ بن ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص کو لایا گیا تاکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں  توحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم خود ا س کی نماز جنازہ پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے۔ حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: وہ قرض (ادا کرنا) میرے ذمے ہے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے دریافت فرمایا ’’تم وہ قرض ادا کرو گے؟ انہوں  نے عرض کی:میں  وہ قرض پورا ادا کروں  گا، تب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھا دی۔( ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی المدیون، ۲ / ۳۳۶، الحدیث: ۱۰۷۱)

قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كُنَّا سٰرِقِیْنَ(73)قَالُوْا فَمَا جَزَآؤُهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِیْنَ(74)قَالُوْا جَزَآؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَآؤُهٗؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(75)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں ۔ اعلان کرنے والوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟ انہوں نے کہا: اِس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (وہ پیالہ ) ملے وہی خود اس کا بدلہ ہوگا ۔ ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:اعلان کرنے والوں  نے کہا۔} ارشاد فرمایا کہ اعلان کرنے والوں  نے کہا ’’اگر تم اس بات میں  جھوٹے ہوئے اور پیالہ تمہارے پاس نکلے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۵۳۹)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  نے کہا’’اِس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں  وہ پیالہ ملے تو اِس کے بدلے میں  وہ اپنی گردن چیز کے مالک کے سپرد کر دے اور وہ مالک ایک سال تک اسے غلام بنائے رکھے ۔ حضرت یعقوب  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں  چونکہ چوری کی یہی سزا مقرر تھی اس لئے انہوں  نے کہا کہ ہمارے یہاں  ظالموں  کی یہی سزا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۴-۳۵)پھر یہ قافلہ مصر لایا گیا اور ان صاحبوں  کو حضرت یوسف  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دربار میں  حاضر کیا گیا۔

فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْهِؕ-كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَؕ-مَا كَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاهُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِكِ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے دوسروں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اس پیالے کو اپنے بھائی کے سامان سے نکال لیا ۔ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی تھی ۔بادشاہی قانون میں اس کیلئے درست نہیں تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ہم جسے چاہتے ہیں درجوں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَبَدَاَ:تو تلاشی لینا شروع کی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی بنیامین کے سامان کی تلاشی لینے سے پہلے دوسروں  کے سامان کی تلاشی لینا شروع کی، تلاشی لیتے ہوئے جب بنیامین کے سامان تک پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا گمان ہے کہ پیالہ اس کے ہی سامان میں  ہو گا۔ بھائیوں  نے کہا: خدا کی قسم ! ہم اسے نہیں  چھوڑیں  گے جب تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ا س کے سامان کی تلاشی نہ لے لیں ، اسی میں  آپ کے لئے اور ہمارے لئے بہتری ہے۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیا مین کے سامان کی تلاشی لی توپیالے کو اس کے سامان سے برآمد کر لیا ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۳۹-۵۴۰)

شرعی حیلے درست ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ شرعی حیلے درست ہیں  کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کو روکنے کا ایک حیلہ ہی اختیار فرمایا اور یہ بالکل جائز حیلہ تھا کسی پر ظلم نہ تھا۔

{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی اپنے بھائی کو لینے کی ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہی تدبیر بتائی تھی کہ  اس معاملہ میں  بھائیوں  سے اِستفسار کریں  تاکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کا حکم بتائیں  جس سے بھائی مل سکے۔ بادشاہی قانون میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے درست نہیں  تھا کہ اپنے بھائی کو لے لیں  کیونکہ بادشاہِ مصر کے قانون میں  چوری کی سزا مارنا اور دگنا مال لے لینا مقرر تھی۔ یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت سے ہوئی کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں  ڈال دیا کہ سز ابھائیوں  سے دریافت کریں  اور بھائیوں  کے دل میں  ڈال دیا کہ وہ اپنی سنت اور طریقے کے مطابق جواب دیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۵)

{وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ: اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی علماء تھے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے زیادہ علم والے تھے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)خیال رہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس حیلہ میں  نہ تو جھوٹ بولا کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خادم نے کہا تھا کہ تم چور ہو اور خادم بے خبر تھا، نہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائی پر چوری کا بہتان لگایا، بلکہ جو کچھ کیا گیا خود بنیامین کے مشورہ سے کیا گیا، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی تعریف فرمائی اور فرمایا’’ كَذٰلِكَ كِدْنَا لِیُوْسُفَ‘‘ یہ تدبیر یوسف کو ہم نے سکھائی۔

ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے:

            یاد رہے کہ مخلوق میں  ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہونے کے سلسلے کی اِنتہا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہے اور ان سے بے انتہا زیادہ خالق و مالک کا علم ہے ،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں  کہ ہر عالِم کے اُوپر اس سے زیادہ علم رکھنے والا عالم ہوتا ہے یہاں  تک کہ یہ سلسلہ اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اس کا علم سب کے علم سے برتر ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۳۶)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’علم کے مدارج بے حد متفاوت ،’’ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘عالَمِ امکان میں  نہایت ِنہایات حضور سید الکائنات عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلَواتِ وَالتَّحِیَّات۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۶۱۹) یعنی لوگوں  کے علم کے درجات میں  بے حد فرق ہے کیونکہ ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے اوراس کائنات میں  سب کے علم کی انتہا کائنات کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہے۔

            ایک اور مقام پر فرماتے ہیں  ’’بلاشبہ غیرِخدا کا علم معلوماتِ الٰہیہ کو حاوی نہیں  ہوسکتا، مساوی درکنار تمام اولین و آخرین و انبیاء و مرسلین و ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الٰہیہ سے وہ نسبت نہیں  رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں  سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں  حصے کو، کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں  حصہ دونوں  متناہی ہیں ، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے بخلاف علومِ الٰہیہ کہ (وہ) غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں ۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، شرق و غرب و جملہ کائنات از روزِ اول تا روزِآخر کو محیط ہوجائیں  آخر متناہی ہیں  کہ عرش و فرش دو حدیں  ہیں ، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں  ہیں  اور جو کچھ دو حدوں  کے اندر ہو سب متناہی ہے۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۰)

قَالُـوْۤا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُۚ-فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ یُبْدِهَا لَهُمْۚ-قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًاۚ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

بھائیوں نے کہا: اگراس نے چوری کی ہے تو بیشک اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں چھپارکھی اور ان پر ظاہر نہ کی (اور دل میں ) کہا تم انتہائی گھٹیا درجے کے آدمی ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم باتیں کررہے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:بھائیوں  نے کہا۔} جب پیالہ بنیامین کے سامان سے نکلا تو بھائی شرمندہ ہوئے ، اُنہوں  نے سرجھکائے اور کہا ’’ سامان میں  پیالہ نکلنے سے سامان والے کا چوری کرنا تو یقینی نہیں  لیکن اگر یہ فعل اس کا ہو تو بیشک اس سے پہلے اس کےبھائی  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی چوری کی تھی۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب ایک واقعہ:

            جس کو انہوں  نے چوری قرار دے کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب کیا وہ واقعہ یہ تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نانا کا ایک بت تھا جسے وہ پوجتے تھے ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چپکے سے وہ بت لیا اور توڑ کر راستے میں  نجاست کے اندر ڈال دیا۔ یہ حقیقت میں  چوری نہ تھی بلکہ بت پرستی کا مٹانا تھا۔ بھائیوں  کا اس کے ذکر سے یہ مقصد تھا کہ ہم لو گ بنیامین کے سوتیلے بھائی ہیں  اور یہ فعل ہو تو شاید بنیامین کا ہو ،نہ ہماری اس میں  شرکت نہ ہمیں  اس کی اطلاع۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۶، ملتقطاً)

{فَاَسَرَّهَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِهٖ:تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں  چھپارکھی۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں  کی طرف سے اپنے بارے میں  کہی گئی بات دل میں  ایسے چھپا لی جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سنی ہی نہ ہو اور اپنے قول یا فعل سے کسی طرح اس کا اظہار نہ ہونے دیا اور اپنے دل میں  کہا ’’تم حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی کے مقابلے میں  انتہائی کم درجے کے آدمی ہو کیونکہ تم نے اپنے بھائی کو اپنے والد سے چرا لیا اور اپنے بھائی پر ظلم کیا، تم اپنے بھائی کے معاملے میں  جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۴ / ۳۰۱-۳۰۲، جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۹۶، ملتقطاً)

قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَهٗۤ اَبًا شَیْخًا كَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(78)قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهٗۤۙ-اِنَّـاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ(79)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: اے عزیز! بیشک اس کے بہت بوڑھے والد ہیں تو آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کولے لیں ، بیشک ہم آپ کواحسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں ۔ یوسف نے فرمایا: اللہ کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑ یں ۔ (ایسا کریں ) جب تو ہم ظالم ہوں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت میں  اگرچہ چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا لیا جائے لیکن فدیہ لے کر معاف کر دینا بھی جائز تھا، اس لئے بھائیوں  نے کہا ’’اے عزیز! اس کے والد عمر میں  بہت بڑے ہیں ، وہ اس سے محبت رکھتے ہیں  اور اسی سے ان کے دل کو تسلی ہوتی ہے۔ آپ ہم میں  سے کسی ایک کو غلام بنا کر یا فدیہ ادا کرنے تک رہن کے طور پر رکھ لیں  بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں  کہ آپ نے ہمیں  عزت دی، کثیر مال ہمیں  عطا کیا، ہمارا مطلوب اچھی طرح پورا ہوا اور ہمارے غلے کی قیمت بھی ہمیں  لوٹا دی۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۶ / ۴۹۱، جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۱۹۶، ملتقطاً)

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اس بات سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑ یں  کیونکہ تمہارے فیصلہ کے مطابق ہم اسی کو لینے کے مستحق ہیں  جس کے کجاوے میں  ہمارا مال ملا ہے، اگر ہم اس کی بجائے دوسرے کو لیں  تو یہ تمہارے دین میں  ظلم ہے ، لہٰذا تم ا س چیز کا تقاضا کیوں  کرتے ہو جس کے بارے میں  جانتے ہو کہ وہ ظلم ہے ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۰)

فَلَمَّا اسْتَایْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ-قَالَ كَبِیْرُهُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَ مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَۚ-فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى یَاْذَنَ لِیْۤ اَبِیْۤ اَوْ یَحْكُمَ اللّٰهُ لِیْۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(80)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ بھائی اس سے مایوس ہوگئے تو ایک طرف جاکر سرگوشی میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں بڑا بھائی کہنے لگا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں کوتاہی کرچکے ہو تو میں تویہاں سے ہرگز نہ ہٹوں گا جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیدیں یا اللہ مجھے کوئی حکم فرما دے اور وہ سب سے بہتر حکم دینے والا ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا اسْتَایْـٴَـسُوْا مِنْهُ:پھر جب وہ بھائی اس سے مایوس ہوگئے ۔} یعنی جب وہ بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے مایوس ہو گئے اور انہیں  اس بات کا یقین ہو گیا کہ بنیامین واپس نہیں  ملیں  گے توسب بھائی لوگوں  سے ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے اور آپس میں  مشورہ کرنے لگے کہ اب اپنے والد صاحب کے پاس کیا منہ لے کر جائیں  گے اور اپنے بھائی بنیامین کے بارے میں  کیا کہیں  گے۔ ان میں  سے علم و عقل یا عمر میں جو بھائی بڑا تھا وہ کہنے لگا ’’کیا تمہیں  معلوم نہیں  کہ تمہارے والد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تم سے اللّٰہ تعالیٰ کا عہد لیا تھا کہ تم اپنے بھائی کو واپس لے کر جاؤ گے اور اس سے پہلے تم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معاملے میں کوتاہی کی اور اپنے والد سے کئے ہوئے عہد کی پاسداری بھی نہ کی۔ میں  تو مصر کی سرزمین سے ہر گز نہ نکلوں  گا اور نہ ہی اس صورتِ حال میں  مصر چھوڑوں  گا یہاں  تک کہ میرے والد مجھے مصر کی سرزمین چھوڑنے کی اجازت دے دیں  اور مجھے اپنے پاس بلا لیں  یا اللّٰہ تعالیٰ میرے بھائی کو خلاصی دے کر یا اس کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلنے کامجھے کوئی حکم فرما دے اور وہ سب سے بہتر حکم دینے والا ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۳۷، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۵۴۱، ملتقطاً)

اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ فَقُوْلُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَۚ-وَ مَا شَهِدْنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَ مَا كُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ(81)وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ الَّتِیْ كُنَّا فِیْهَا وَ الْعِیْرَ الَّتِیْۤ اَقْبَلْنَا فِیْهَاؕ-وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں جتنی ہمیں معلوم ہے اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے۔اور اس شہر والوں سے پوچھ لیجیے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے (معلوم کرلیں ) جس میں ہم واپس آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِرْجِعُوْۤا اِلٰۤى اَبِیْكُمْ:تم اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ۔} جس بھائی نے مصر میں  ہی ٹھہرنے کا عزم کیا تھا ا س نے بقیہ بھائیوں  سے کہا کہ تم اپنے والدحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لوٹ کر جاؤ اور ان سے عرض کرو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کی طرف چوری کی نسبت کی گئی  اور ہم اتنی ہی بات کے گواہ ہیں  جتنی ہمیں  معلوم ہے کہ پیالہ اُن کے کجاوے میں  سے نکلا  اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے اور ہمیں  خبر نہ تھی کہ یہ صورت پیش آئے گی، حقیقتِ حال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  ہی جانے کہ کیا ہے اور پیالہ کس طرح بنیامین کے ساما ن سے برآمد ہوا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۳۷-۳۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۴۱، ملتقطاً)

{وَ سْــٴَـلِ الْقَرْیَةَ:اور شہر والوں  سے پوچھ لیجیے۔} بھائیوں  کو یہ باتیں  والد صاحب سے کہنے کا حکم دینے سے ا س کا مقصد یہ تھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے ان بھائیوں  پر سے تہمت اچھی طرح زائل ہو جائے کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں  یہ تہمت کا سامنا کر چکے تھے۔ پھر یہ لوگ اپنے والد کے پاس واپس آئے اور سفر میں  جو کچھ پیش آیا تھا اس کی خبر دی اور بڑے بھائی نے جو کچھ بتادیا تھا وہ سب والد صاحب سے عرض کر دیا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۳۸)

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًاؕ-فَصَبْرٌ جَمِیْلٌؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِهِمْ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

یعقوب نے فرمایا: بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے کچھ حیلہ بنادیا ہے تو عمدہ صبر ہے۔ عنقریب اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا بیشک وہی علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ چوری کی نسبت بنیامین کی طرف غلط ہے اور چوری کی سزا غلام بنانا ، یہ بھی کوئی کیا جانے اگر تم فتویٰ نہ دیتے اور تم نہ بتاتے ،  تمہارے نفس نے تمہارے لئے کچھ حیلہ بنا دیا ہے تو اب بھی میرا عمل عمدہ صبر ہے۔ عنقریب اللّٰہ  تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور اُن کے دونوں  بھائیوں  کو میرے پاس لے آئے گا۔ بیشک وہی میرے افسوس اور غم کی حالت کو جانتا ہے اور اس نے کسی حکمت کی وجہ سے ہی مجھے اس میں  مبتلا کیا ہے۔(روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۳۰۴-۳۰۵)

وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰى عَلٰى یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ(84)قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ یُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْهٰلِكِیْنَ(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یعقوب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف کی جدائی پر اور یعقوب کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں تو وہ (اپنا) غم برداشت کرتے رہے۔ بھائیوں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ مرنے کے قریب ہوجائیں گے یا فوت ہی ہوجائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ:اور یعقوب نے ان سے منہ پھیرا۔} یعنی حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنیامین کی خبرسن کر اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حزن و ملال انتہا کو پہنچ گیا، جب بیٹوں  سے منہ پھیرا تو فرمایا ’’ ہائے افسوس! یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی پر۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غم میں  روتے رہے یہاں  تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آنکھ کی سیاہی کا رنگ جاتا رہا اور بینائی کمزور ہوگئی ۔ حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی میں  حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام 80برس روتے رہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۳۹)

            یاد رہے کہ عزیزوں  کے غم میں  رونا اگر تکلیف اور نمائش سے نہ ہو اور اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  شکایت و بے صبری کا مظاہرہ نہ ہو تو یہ رحمت ہے، اُن غم کے دنوں  میں  حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانِ مبارک پر کبھی کوئی بے صبری کاکلمہ نہ آیا تھا۔

{قَالُوْا:بھائیوں  نے کہا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  نے اپنے والد محترم سے کہا ’’ اللّٰہ کی قسم! آپ ہمیشہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کرتے رہیں  گے اور ان سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت کم نہ ہوگی یہاں  تک کہ شدّتِ غم کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مرنے کے قریب ہوجائیں  گے یا فوت ہی ہوجائیں  گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۹)

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(86)

ترجمہ: کنزالعرفان

یعقوب نے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:یعقوب نے کہا۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیٹوں  کی بات سن کر ان سے کہا ’’ میری پریشانی اور غم کم ہو یا زیادہ ،میں  اس کی فریاد تم سے یا اور کسی سے نہیں  بلکہ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ  ہی سے کرتا ہوں  اور اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت اور احسان سے مجھے وہاں  سے آسانی عطا کرے گا جہاں  سے میرا گمان بھی نہ ہو گا۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ا س فرمان ’’ میں  تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللّٰہ ہی سے کرتا ہوں ‘‘ سے معلوم ہوا کہ غم اور پریشانی میں  اللّٰہ تعالیٰ سے فریا دکرنا صبر کے خلاف نہیں  ، ہاں  بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنا یا لوگوں  سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔ نیز آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس فرمان ’’اور میں  اللّٰہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں  جو تم نہیں  جانتے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں  اور ان سے ملنے کی تَوقّع ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اُن کا خواب حق ہے اور ضرور واقع ہوگا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام سے دریافت کیا کہ تم نے میرے بیٹے یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روح قبض کی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں ، اس سے بھی آپ کو اُن کی زندگانی کا اِطمینان ہوا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزندوں  سے فرمایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۴۰-۴۱، ملخصاً)

یٰبَنِیَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْهِ وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے بیٹو! تم جا ؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبَنِیَّ:اے بیٹو!} یعنی اے میرے بیٹو! تم مصر کی طرف جاؤ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی بنیامین کو تلاش کرو۔ بیٹوں  نے کہا ’’ہم بنیامین کے معاملے میں  کوشش کرنا تو نہیں  چھوڑیں  گے البتہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اب زندہ نہیں  ا س لئے ہم انہیں  تلاش نہیں  کریں  گے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں  کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو نہیں  جانتے اور مومن چونکہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کی صفات کو جانتا ہے ا س لئے وہ تنگی آسانی، غمی خوشی کسی بھی حال میں اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس نہیں  ہوتا۔ (روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۷، ۴ / ۳۰۹، ملخصاً)

اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں  ہو نا چاہئے:

اس سے معلوم ہوا کہ زندگی میں  پے در پے آنے والی مصیبتوں ،مشکلوں  اور دشواریوں  کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں  ہونا چاہئے کیونکہ حقیقی طور پر دنیا و آخرت کی تمام مشکلات کو دور کرنے والا اور تنگی کے بعد آسانیاں  عطا کرنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْهِ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَ اَهْلَنَا الضُّرُّ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَیْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَیْنَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ(88)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو کہنے لگے :اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت پہنچی ہوئی ہے اور ہم حقیر سا سرمایہ لے کر آئے ہیں تو آپ ہمیں پورا ناپ دیدیجئے اور ہم پر کچھ خیرات بھی کیجئے، بیشک اللہ خیرات دینے والوں کو صلہ دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْهِ:پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے۔} حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حکم سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی پھر مصر کی طرف روانہ ہوئے، جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو کہنے لگے : اے عزیز! ہمیں  اور ہمارے گھر والوں  کو  تنگی ، بھوک کی سختی اور جسموں  کے دبلا ہوجانے کی وجہ سے مصیبت پہنچی ہوئی ہے ، ہم حقیر سا سرمایہ لے کر آئے ہیں  جسے کوئی سودا گر اپنے مال کی قیمت میں  قبول نہ کرے۔ وہ سرمایا چند کھوٹے درہم اور گھر کی اشیاء میں  سے چند پرانی بوسیدہ چیزیں  تھیں ، آپ ہمیں  پورا ناپ دیدیجئے جیسا کھرے داموں  سے دیتے تھے اور یہ ناقص پونجی قبول کرکے ہم پر کچھ خیرات کیجئے بیشک اللّٰہ تعالیٰ خیرات دینے والوں  کو صلہ دیتا ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۴۱، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۵۴۳، ملتقطاً)

قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَ اَخِیْهِ اِذْ اَنْتُمْ جٰهِلُوْنَ(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

یوسف نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے جو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب تم نادان تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:یوسف نے فرمایا۔} بھائیوں  کا یہ حال سن کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر گریہ طاری ہوگیا اور مبارک آنکھوں  سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا کیا  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مارنا ،کنوئیں  میں  گرانا، بیچنا، والد صاحب سے جدا کرنا اور اُن کے بعد اُن کے بھائی کو تنگ رکھنا، پریشان کرنا تمہیں  یاد ہے اور یہ فرماتے ہوئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تبسم آگیا اور اُنہوں نے آپ کے گوہرِ دندان کا حسن دیکھ کر پہچانا کہ یہ تو جمالِ یوسفی کی شان ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۵۴۳، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۳ / ۴۲، ملتقطاً)

قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90)قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(91)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ فرمایا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ بیشک اللہ نے ہم پر احسان کیا۔ بیشک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! بیشک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بیشک ہم خطاکار تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں  ، میں  یوسف ہوں  اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں  جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین و دنیا کی نعمتوں  سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں  سے بچے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی نیکیوں  کا ثواب اورا س کی اطاعت گزاریوں  کی جزا ضائع نہیں  کرتا۔ (تفسیر طبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۷ / ۲۹۰، ملخصاً)

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  نے اپنی خطاؤں  کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ’’خدا کی قسم! بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منتخب فرمایا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہم پر علم ، عقل، صبر، حلم اور بادشاہت میں  فضیلت دی، بے شک ہم خطاکار تھے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کوعزت دی، بادشاہ بنایا اور ہمیں  مسکین بنا کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے لایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۴۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۵۴۳، ملتقطاً)

قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(92)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا آج اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے ،لیکن میری جانب سے تم پر آج اور آئندہ کوئی ملامت نہ ہوگی، پھر بھائیوں سے جو خطائیں  سرزد ہوئی تھیں  ان کی بخشش کے لئے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  معاف کرے اور وہ سب مہربانوں  سے بڑھ کر مہربان ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۵۴۳)

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کے بارے میں  ناشائستہ کلمات کہنے کا حکم:

آج کل لوگ باہمی دھوکہ دہی میں  مثال کیلئے برادرانِ یوسف کا لفظ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں  اس سے اِحتراز کرنا چاہیے۔ برادرانِ یوسف کا ادب و احترام کرنے کا حکم ہے اور ان کی تَوہین سخت ممنوع و ناجائز ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ان کی نسبت کلماتِ ناشائستہ لانا بہر حال حرام ہے، ایک قول ان کی نبوت کا ہے ۔۔۔اور ظاہرِ قرآنِ عظیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:قَالَ تَعَالٰی:

قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(بقرہ:۱۳۶)

( اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے)تم کہو: ہم اللّٰہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں  ان میں  سے کسی کے درمیان فرق نہیں  کرتے اور ہم اللّٰہ کے حضور گردن رکھے ہوئے ہیں ۔(ت)

         اَسباط یہی اَبنائے یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، اس تقدیر پر تو ان کی تَوہین کفر ہوگی ورنہ اس قدر میں  شک نہیں  کہ وہ اولیائے کرام سے ہیں  اور جو کچھ ان سے واقع ہو ا اپنے باپ کے ساتھ محبت ِشدیدہ کی غیرت سے تھا پھر وہ بھی ربُّ العزت نے معاف کردیا۔ اور یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خود عفو فرمایا

قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ

فرمایا: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللّٰہ تمہیں  معاف کرے اور وہ سب مہربانوں  سے بڑھ کر مہربان ہے۔(ت)

         اور یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا

سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ

عنقریب میں  تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں  گا ، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔(ت)

بہر حال ان کی توہین سخت حرام ہے اور باعثِ غضب ِذوالجلال والاِکرام ہے، رب عَزَّوَجَلَّ نے کوئی کلمہ ان کی مذمت کا نہ فرمایا دوسرے کو کیا حق ہے، مناسب ہے کہ توہین کرنے والا تجدیدِ اسلام وتجدیدِ نکاح کرے کہ جب اِن کی نبوت میں  اختلاف ہے اُس کے کفر میں  اختلاف ہوگا اور کفر اختلافی کا یہی حکم ہے۔ (فتاوی رضویہ، کتاب السیر، ۱۵ / ۱۶۴-۱۶۵)

اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ-وَ اْتُوْنِیْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِیْنَ(93)

ترجمہ: کنزالعرفان

میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا:میرا یہ کرتا لے جاؤ۔} جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں  سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں  نے کہا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی کے غم میں  روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں  رہی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا یہ کرتا لے جاؤ جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرےگلے میں  ڈال دیا تھا اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں  گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ تاکہ جس طرح وہ میری موت کی خبر سن کر غمزدہ ہوئے اسی طرح میری بادشاہت کا نظارہ کر کے خوش ہو جائیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۴۴، ملخصاً)

بزرگوں  کے تبرکات بھی دافعِ بلا ، مشکل کشا ہوتے ہیں :

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں  کے تبرکات اور ان کے مبارک جسموں  سے چھوئی ہوئی چیزیں  بیماریوں  کی شفا، دافع بلا اور مشکل کشا ہوتی ہیں ۔ قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں  تو ایسے واقعات بکثر ت مل جائیں  گے جن میں  بزرگانِ دین کے مبارک جسموں  سے مَس ہونے والی چیزوں  میں  شفا کا بیان ہو۔ سرِ دست 2واقعات یہاں  ذکر کئے جاتے ہیں ۔

(1)…حضرت اُمِّ جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں’’میں  نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے دن بطنِ وادی کی جانب سے جمرۂ عقبہ کی رَمی فرمائی، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمی سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو خَثْعَمْ قبیلے کی ایک خاتون گود میں  بچہ اٹھائے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے گھرانے میں  ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے اور اس پر بھی کچھ اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں ۔ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تھوڑا سا پانی لاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے پانی پیش کر دیا، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پانی سے دونوں  ہاتھوں  کو دھویا، منہ میں  پانی لے کر کلی کی اور اس عورت سے فرمایا ’’یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دیا کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ا س کے لئے شفا طلب کرو۔ حضرت اُمِّ جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں  نے اس عورت سے ملاقات کی اور اس سے کہا ’’تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا ’’یہ پانی بچے کی صحت کے لئے ہے اس لئے میں  نہیں  دے سکتی۔ حضرت ام جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں’’دوسرے سال جب اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں  نے اس سے بچے کا حال پوچھا۔ اس نے جواب دیا ’’وہ بچہ بہت تندرست، ذہین اور عقل مند ہو گیا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الطب، باب النشرۃ، ۴ / ۱۲۹، الحدیث: ۳۵۳۲)

(2)… اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چند موئے مبارک تھے جنہیں  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے چاندی کی ایک ڈبیہ میں  رکھا ہو اتھا۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان گیسوؤں  سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گیسوؤں  کو پانی کے پیالے میں  رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں  شفا مل جایا کرتی۔(عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵ / ۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)

اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ-وَ اْتُوْنِیْ بِاَهْلِكُمْ اَجْمَعِیْنَ(93)ترجمہ: کنزالعرفانمیرا یہ کرتا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْهَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا:میرا یہ کرتا لے جاؤ۔} جب تعارف ہو گیا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھائیوں  سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا ۔ اُنہوں  نے کہا ’’آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جدائی کے غم میں  روتے روتے اُن کی بینائی بحال نہیں  رہی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’میرا یہ کرتا لے جاؤ جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرےگلے میں  ڈال دیا تھا اوراسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دینا وہ دیکھنے والے ہوجائیں  گے اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آؤ تاکہ جس طرح وہ میری موت کی خبر سن کر غمزدہ ہوئے اسی طرح میری بادشاہت کا نظارہ کر کے خوش ہو جائیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۴۴، ملخصاً)

 

بزرگوں  کے تبرکات بھی دافعِ بلا ، مشکل کشا ہوتے ہیں 

 

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں  کے تبرکات اور ان کے مبارک جسموں  سے چھوئی ہوئی چیزیں  بیماریوں  کی شفا، دافع بلا اور مشکل کشا ہوتی ہیں ۔ قرآن و حدیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کریں  تو ایسے واقعات بکثر ت مل جائیں  گے جن میں  بزرگانِ دین کے مبارک جسموں  سے مَس ہونے والی چیزوں  میں  شفا کا بیان ہو۔ سرِ دست 2واقعات یہاں  ذکر کئے جاتے ہیں ۔

 

(1)…حضرت اُمِّ جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں’’میں  نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قربانی کے دن بطنِ وادی کی جانب سے جمرۂ عقبہ کی رَمی فرمائی، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمی سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو خَثْعَمْ قبیلے کی ایک خاتون گود میں  بچہ اٹھائے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے گھرانے میں  ایک ہی بچہ باقی رہ گیا ہے اور اس پر بھی کچھ اثر ہے جس کی وجہ سے یہ بولتا نہیں ۔ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تھوڑا سا پانی لاؤ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے پانی پیش کر دیا، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پانی سے دونوں  ہاتھوں  کو دھویا، منہ میں  پانی لے کر کلی کی اور اس عورت سے فرمایا ’’یہ پانی اس بچے کو پلا دیا کرو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دیا کرو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ا س کے لئے شفا طلب کرو۔ حضرت اُمِّ جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’میں  نے اس عورت سے ملاقات کی اور اس سے کہا ’’تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ اس عورت نے جواب دیا ’’یہ پانی بچے کی صحت کے لئے ہے اس لئے میں  نہیں  دے سکتی۔ حضرت ام جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں’’دوسرے سال جب اس عورت سے میری ملاقات ہوئی تو میں  نے اس سے بچے کا حال پوچھا۔ اس نے جواب دیا ’’وہ بچہ بہت تندرست، ذہین اور عقل مند ہو گیا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الطب، باب النشرۃ، ۴ / ۱۲۹، الحدیث: ۳۵۳۲)

 

(2)… اُمّ المومنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے پاس حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چند موئے مبارک تھے جنہیں  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے چاندی کی ایک ڈبیہ میں  رکھا ہو اتھا۔ لوگ جب بیمار ہوتے تو وہ ان گیسوؤں  سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا طلب کرتے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گیسوؤں  کو پانی کے پیالے میں  رکھ کر وہ پانی پی جاتے تو انہیں  شفا مل جایا کرتی۔(عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، ۱۵ / ۹۴، تحت الحدیث: ۵۸۹۶)فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاۚ-قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ﳐ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب خوشخبری سنانے والا آیا تو اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈال دیا، اسی وقت وہ دیکھنے والے ہوگئے۔ یعقوب نے فرمایا: میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ:پھر جب خوشخبری سنانے والا آیا۔} جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ خوشخبری سنانے والے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی یہودا تھے ۔ یہودا نے کہا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں  ہی لے کر گیا تھا، میں  نے ہی کہا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیڑیا کھا گیا، میں  نے ہی اُنہیں غمگین کیا تھا اس لئے آج کُرتا بھی میں  ہی لے کر جاؤں  گا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں  گا ۔ چنانچہ یہودا برہنہ سر اور برہنہ پا کُرتا لے کر 80 فرسنگ (یعنی240میل) دوڑتے آئے ، راستے میں  کھانے کے لئے سات روٹیاں  ساتھ لائے تھے، فَرطِ شوق کا یہ عالَم تھا کہ اُن کو بھی راستہ میں  کھا کر تمام نہ کرسکے ۔ الغرض یہودا نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چہرے پر ڈالی تو اسی وقت ان کی آنکھیں  درست ہوگئیں  اور کمزوری کے بعد قوت اور غم کے بعد خوشی لوٹ آئی، پھر حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں  نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بات جانتا ہوں  جو تم نہیں  جانتے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ ہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  آپس میں  ملا دے گا۔(تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶ / ۵۰۸، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۸۰، ملتقطاً)

قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـٕیْنَ(97)قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(98)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیٹوں نے کہا: اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے ،بیشک ہم خطاکار ہیں ۔ فرمایا: عنقریب میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا، بیشک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:بیٹوں  نے کہا۔} یعنی جب حق بات ظاہر اور واضح ہو گئی تو بیٹوں  نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے اپنی خطاؤں  کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کی ’’اے ہمارے باپ! آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ سے ہمارے گناہوں  کی بخشش طلب کیجئے بے شک ہم خطاکار ہیں ۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۹۸۰)

{قَالَ:فرمایا۔} مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں  کے لئے دعا اور استغفار کو سحری کے وقت تک مؤخر فرمایا کیونکہ یہ وقت دعا کے لئے سب سے بہترین ہے اور یہی وہ وقت ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ میں  اس کی دعا قبول کروں ، چنانچہ جب سحری کا وقت ہوا تو  حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں  اپنے صاحبزادوں  کے لئے دعا کی، دعا قبول ہوئی اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں  کی خطا بخش دی گئی ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد کو اور اُن کے اہل واولاد کوبلانے کے لئے اپنے بھائیوں  کے ساتھ 200 سواریاں  اور کثیر سامان بھیجا تھا ، حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہلِ خانہ کو جمع کیا جو کل مرد وعورت 72 یا73 افراد تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُن میں  یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ ان سے صرف 400 سال بعد کا ہے، الحاصل جب حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر کے بادشاہِ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکری اور بہت سے مصری سواروں  کو ہمراہلے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صدہا ریشمی پھریرے اُڑاتے اور قطاریں  باندھے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے ،جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نظر لشکرپر پڑی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ صحرا زَرق بَرق سواروں  سے پُر ہورہا ہے تو فرمایا ’’ اے یہودا! کیا یہ فرعونِ مصر ہے جس کا لشکر اس شان وشوکت سے آرہا ہے ؟یہودا نے عرض کی’’ نہیں  ،یہ حضور کے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو متعجب دیکھ کر عرض کیا ’’ہوا کی طرف نظر فرمایئے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشی میں  شرکت کے لئے فرشتے حاضر ہوئے ہیں  جو کہ مدتوں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غم کی وجہ سے روتے رہے ہیں  ۔ فرشتوں  کی تسبیح ، گھوڑوں  کے ہنہنانے اور طبل و بگل کی آوازوں  نے عجیب کیفیت پیدا کردی تھی ۔یہ محرم کی دسویں  تاریخ تھی ۔جب دونوں  حضرات یعنی حضرت یعقوب اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریب ہوئے تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا کہ آپ توقف کیجئے اور والد صاحب کو پہلے سلام کا موقع دیجئے، چنانچہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ‘‘ یعنی اے غم و اَندو ہ کے دور کرنے والے سلام ! اور دونوں  صاحبوں  نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے، پھر اس مزین رہائش گاہ میں  داخل ہوئے جو پہلے سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کرکے آراستہ کی گئی تھی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۴۴-۴۵، جمل مع جلالین، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۸-۹۹، ۴ / ۸۰-۸۱، ملتقطاً) یہ داخل ہونا حدودِ مصر میں  تھا اس کے بعد دوسری بار داخل ہونا خاص شہر میں  ہے جس کا بیان اگلی آیت میں  ہے۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَﭤ(99)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے تواس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا: تم مصر میں داخل ہوجاؤ، اگر اللہ نے چاہا (تو) امن وامان کے ساتھ ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ:اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی۔} ماں  سے مراد خالہ ہے، (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۴۵)اور اس کے علاوہ بھی مفسرین کے اس بارے میں  کئی اقوال ہیں ۔

{اُدْخُلُوْا مِصْرَ:تم مصر میں  داخل ہوجاؤ۔} یہاں  داخل ہونے سے خاص شہر میں  داخل ہونا مراد ہے یعنی شہر ِمصر میں  داخل ہو جاؤ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا تو ہر ناپسندیدہ چیز سے امن وامان کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔ (جلالین مع صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۹۸۱، ملخصاً)

وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ-وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(100)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوراس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب اس کے لیے سجدے میں گرگئے اور یوسف نے کہا: اے میرے باپ! یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے، بیشک اسے میرے رب نے سچا کردیا اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالااور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کروادی تھی۔ بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے، بیشک وہی علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ:اوراس نے اپنے ماں  باپ کو تخت پر بٹھایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والدین اور بھائیوں  کے ساتھ مصر میں  داخل ہوئے اور دربارِ شاہی میں  اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا، اس کے بعد والدین اور سب بھائیوں  نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کیا ۔ یہ سجدۂ تعظیم اور عاجزی کے اظہار کے طور تھا اور اُن کی شریعت میں جائز تھا جیسے ہماری شریعت میں  کسی عظمت والے کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا، مصافحہ کرنا اور دست بوسی کرنا جائز ہے۔(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۵۴۵)

یاد رہے کہ سجدۂ عبادت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اورکسی کے لئے کبھی جائز نہیں  ہوا اورنہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ سجدۂ تعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 22ویں  جلد میں  موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ ‘‘(غیر اللّٰہ  کے لئے سجدۂ تعظیمی حرام ہونے کا بیان) مطالعہ کیجئے۔

{وَ قَالَ:اور یوسف نے کہا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب انہیں  سجدہ کرتے دیکھا تو فرمایا : اے میرے باپ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں  نے بچپن کی حالت میں  دیکھا تھا۔ بیشک وہ خواب میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے بیداری کی حالت میں  سچا کردیا اور بیشک اس نے قید سے نکال کر مجھ پر احسان کیا ۔ اس موقع پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کنوئیں  کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں  کو شرمندگی نہ ہو ۔ مزید فرمایا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں  میں  حسد کی وجہ سے ناچاقی کروا دی تھی تو اس کے بعد میرا رب عَزَّوَجَلَّ آپ سب کو گاؤں  سے لے آیا۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ جس بات کو چاہے آسان کردے، بیشک وہی اپنے تمام بندوں  کی ضروریات کو جاننے والااور اپنے ہر کام میں  حکمت والا ہے۔

حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات:

تاریخ بیان کرنے والے علما فرماتے ہیں  کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس مصر میں  چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں اور خوش حالی کے ساتھ رہے، جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کووصیت کی کہ آپ کا جنازہ ملک ِشام میں  لے جا کر ارضِ مقدّسہ میں  آپ کے والد حضرت اسحٰق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے ۔اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور وفات کے بعد ساج کی لکڑی کے تابوت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسد ِاطہر شام میں  لایا گیا ،اسی وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی عیص کی وفات ہوئی ،آپ دونوں  بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ایک ہی قبر میں  کئے گئے اور دونوں  صاحبوں  کی عمر147(یا 145)سال تھی۔ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد اور چچا کو دفن کرکے مصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی جو اگلی آیت میں  مذکور ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۴۶-۴۷)

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَـوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(101)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھادیا۔ اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا مددگار ہے، مجھے اسلام کی حالت میں موت عطا فرما اور مجھے اپنے قرب کے لائق بندوں کے ساتھ شامل فرما۔\

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبِّ:اے میرے رب!} اس آیت میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اسلام کی حالت میں  موت عطا ہونے کی دعا مانگی، ان کی یہ دعا دراصل امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں ۔

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات اور تدفین:

حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد ماجد کے بعد 23 سال زندہ رہے، اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ دفن کے بارے میں  اہلِ مصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں  دفن کرنے پر مُصر تھے، آخر یہ رائے طے پائی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں  دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مصر فیض یاب ہوں  چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سنگِ رِخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں  دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں  رہے یہاں  تک کہ 400 برس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ملکِ شام میں  دفن کیا۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۴۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَۚ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْكُرُوْنَ(102)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے پختہ ارادہ کرلیا تھا اور وہ سازش کررہے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ:یہ کچھ غیب کی خبریں  ہیں  ۔}اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو واقعات ذکر کئے گئے یہ کچھ غیب کی خبریں  ہیں  جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ تھیں  کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کے پاس نہ تھے جب انہوں  نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں  میں  ڈالنےکا پختہ ارادہ کر لیا تھا اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  سازش کر رہے تھے ، اس کے  باوجود اے اَنبیاء  کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۴۷-۴۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۵۴۶-۵۴۷، ملتقطاً)

وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ(103)وَ مَا تَسْــٴَـلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(104)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ آپ کو کتنی ہی خواہش ہو۔ اور آپ اس (تبلیغ) پر ان سے کوئی اجرت نہیں مانگتے۔ یہ تو سارے جہان کیلئے صرف نصیحت ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَكْثَرُ النَّاسِ:اکثر لوگ ۔} یہودیوں  اور کفارِ قریش نے سرورِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قصہ دریافت کیا تھا، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی طرح حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قصہ ان کے سامنے بیان کر دیا جیسا تورات میں  لکھاتھا تو بھی وہ ایمان نہ لائے، ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت دکھ ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اکثر لوگ ایمان نہیں  لائیں  گے اگرچہ آپ کو ان کے ایمان کی کتنی ہی خواہش ہو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۴۸)

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ(105)وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ(106)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمانوں اور زمین میں کتنی نشانیاں ہیں جن کے پاس سے گزرجاتے ہیں اور ان سے بے خبر رہتے ہیں ۔اور ان میں اکثر وہ ہیں جو اللہ پر یقین نہیں کرتے مگر شرک کرتے ہوئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ:اور کتنی نشانیاں  ہیں ۔} آسمانی نشانیوں  سے مراد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی قوت و قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  یعنی آسمان کا وجود، سورج، چاند اور ستارے ہیں  اور زمینی نشانیوں  سے ہلاک شدہ امتوں  کے آثار مراد ہیں ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان لوگوں  کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منہ موڑنے پر آپ تعجب نہ کریں  کیونکہ ان لوگوں  کا اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں  کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان سے منہ پھیرلینا اور غورو فکر کر کے عبرت حاصل نہ کرنازیادہ عجیب ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۵۴۷، صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۹۸۴، ملتقطاً)

{وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ:اور ان میں  اکثر وہ ہیں  جو اللّٰہ پر یقین نہیں  کرتے۔} جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں  نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کرکے غیروں کو عبادت میں  اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۵۴۷)

اَفَاَمِنُوْۤا اَنْ تَاْتِیَهُمْ غَاشِیَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ اَوْ تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(107)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر اللہ کے عذاب سے چھاجانے والی مصیبت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَاَمِنُوْا:کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں ۔} یعنی جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار نہیں  کرتے اور غیرُ اللّٰہ کی عبادت کرنے میں  مصروف ہیں  کیا انہیں  اس بات کا کوئی خوف نہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کی وجہ سے ان پر اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا عذاب نازل ہو جائے جو مکمل طور پر انہیں  اپنی گرفت میں  لے لے یا اسی شرک اور کفر کی حالت میں  اچانک ان پر قیامت آ جائے اور اللّٰہ تعالیٰ دائمی عذاب کے لئے انہیں  دوزخ میں  ڈال دے۔ (تفسیر طبری، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۷ / ۳۱۴)

قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﱘ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(108)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤیہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔میں اور میری پیروی کرنے والے کامل بصیرت پر ہیں اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور میں شرک کرنے والا نہیں ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اِن مشرکین سے فرما دیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت اور دینِ اسلام کی دعوت دینا یہ میرا راستہ ہے ، میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی توحید اور اس پر ایمان لانے کی طرف بلاتا ہوں ۔ میں  اور میری پیروی کرنے والے کامل یقین اور معرفت پر ہیں  ۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی فضیلت:

         حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں  کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم احسن راستے اور افضل ہدایت پر ہیں ، یہ علم کے معدن، ایمان کے خزانے اوررحمٰن کے لشکر ہیں  ۔

         حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’طریقہ اختیار کرنے والوں  کو چاہئے کہ وہ گزرے ہوؤں  کا طریقہ اختیار کریں ، گزرے ہوئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ، ان کے دِل اُمت میں  سب سے زیادہ پاک، علم میں  سب سے گہرے، تَکلُّف میں  سب سے کم ہیں ، وہ ایسے حضرات ہیں  جنہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت اور اُن کے دین کی اشاعت کے لئے چن لیا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۴۸-۴۹)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰىؕ-اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(109)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب شہروں کے رہنے والے مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو کیا یہ لوگ زمین پرنہیں چلے تاکہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوااور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے کہا تھا کہ  اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں  کو نبی کیوں  نہ بنا کر بھیجا، اس آیت میں  انہیں  جواب دیا گیا کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انسان ہونے پر حیران کیوں  ہیں  حالانکہ ان سے پہلے جتنے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے رسول تشریف لائے سب ان کی طرح انسان اور مردہی تھے ،کسی فرشتے ،جن، عورت اور دیہات میں  رہنے والے کو نبوت کا منصب نہیں  دیا گیا ۔ کیا یہ جھٹلانے والے مشرکین زمین پر نہیں  چلے تاکہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے جن لوگوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کے رسولوں  کو جھٹلایا تھا انہیں  کس طرح ہلاک کر دیا گیا اور بے شک آخرت کاگھر یعنی جنت پرہیزگاروں  کے لئے دنیا سے بہتر ہے تو کیا تم غوروفکر نہیں  کرتے اور عبرت حاصل نہیں  کرتے تاکہ ایمان قبول کر سکو۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۹۸۵، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۴۹، ملتقطاً)

حَتّٰۤى اِذَا اسْتَایْــٴَـسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَآءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآءُؕ-وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(110)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے تو اس وقت ان کے پاس ہماری مدد آگئی تو جسے ہم نے چاہا اسے بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{حَتّٰۤى اِذَا اسْتَایْــٴَـسَ الرُّسُلُ:یہاں  تک کہ جب رسولوں  کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی۔}یعنی لوگوں  کو چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب میں  تاخیر ہونے اور عیش و آسائش کے دیر تک رہنے پر مغرور نہ ہوجائیں  کیونکہ پہلی اُمتوں  کو بھی بہت مہلتیں  دی جاچکی ہیں  یہاں  تک کہ جب اُن کے عذابوں  میں  بہت تاخیر ہوئی اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے رسولوں  کو اپنی قوموں  پر دنیا میں  ظاہری عذاب آنے کی اُمید نہ رہی تو قوموں  نے گمان کیا کہ رسولوں  نے انہیں  جو عذاب کے وعدے دیئے تھے وہ پورے ہونے والے نہیں   تو اس وقت اچانک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں  کے لئے ہماری مدد آگئی اور ہم نے اپنے بندوں  میں  سے اطاعت کرنے والے ایمانداروں  کو بچالیا اور مجرمین اس عذاب میں  مبتلا ہوگئے۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۱۴۲-۱۴۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۵۴۸، ملتقطاً)

لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰـكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(111)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے ۔ یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو خود بنالی جائے لیکن (یہ قرآن) ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے تھیں اور یہ ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ:بیشک ان رسولوں کی خبروں میں ۔} یعنی بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اور ان کی قوموں  کی  خبروں میں  عقل مندوں  کیلئے عبرت ہے جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعہ سے بڑے بڑے نتائج نکلتے ہیں  اور معلوم ہوتا ہے کہ صبر کا نتیجہ سلامت و کرامت ہے اور ایذا رسانی و بدخواہی کا انجام ندامت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے والا کامیاب ہوتا ہے ۔ بندے کوسختیوں  کے پیش آنے سے مایوس نہ ہونا چاہئے ،ر حمت ِالٰہی دست گیری کرے تو کسی کی بد خواہی کچھ نہیں  کرسکتی۔ اس کے بعد قرآنِ پاک کے بارے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ قرآن کوئی ایسی بات نہیں  کہ جسے کسی انسان نے اپنی طرف سے بنالیا ہو کیونکہ اس کا عاجز کر دینے والا ہونا اس کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کو قطعی طور پر ثابت کرتا ہے البتہ یہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی کتابوں  توریت اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہے اور قرآن میں  حلال، حرام، حدود و تعزیرات، واقعات، نصیحتوں  اور مثالوں  وغیرہ ہر چیز کا مفصل بیان ہے اور مسلمانوں  کے لیے ہدایت اور رحمت ہے کیونکہ وہی اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۵۴۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۳ / ۵۰-۵۱، ملتقطاً)

Scroll to Top