سُوْرَۃ طٰهٰ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

طٰهٰ(1)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى(2)اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

طه۔ اے حبیب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہیں نازل فرمایا کہ تم مشقت میں پڑجاؤ۔ مگر یہ اس کے لئے نصیحت ہے جو ڈر تا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{طٰهٰ}یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں  ،ان میں  سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَسماءِ مبارکہ میں  سے ایک اسم ہے اور جس طرح  اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۷۲، الجزء الحادی عشر)

{ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى:اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہیں  نازل فرمایا کہ تم مشقت میں  پڑجاؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں  فرمایا کہ آپ مشقت میں  پڑجائیں  اور ساری ساری رات قیام کرنے کی تکلیف اٹھائیں ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  بہت محنت فرماتے تھے اور پوری رات قیام میں  گزارتے یہاں  تک کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قدم سوج جاتے ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام نے حاضر ہو کر  اللہ تعالیٰ کے حکم سے عرض کی :آپ اپنے پاک نفس کو کچھ راحت دیجئے کہ اس کا بھی حق ہے ۔ شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں  کے کفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ افسوس اور حسرت کی حالت میں  رہتے تھے اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قلب پر اس وجہ سے رنج و ملال رہا کرتا تھا، تو اس آیت میں  فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ رنج و ملال کی کوفت نہ اٹھائیں  کیونکہ قرآنِ پاک آپ کی مشقت کے لئے نازل نہیں  کیا گیا ہے۔( مدارک ، طہ ، تحت الآیۃ: ۲ ، ص۶۸۶ ، خازن ، طہ ، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۴۸-۲۴۹، ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت:

            اس آیتِ مبارکہ میں  سرکارِ دوعالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت اور شوقِ عبادت کا بیان بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی  اللہ تعالیٰ کی آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت اور اس کی بارگاہ میں  آپ کی عظمت کا بیان بھی ہے کہ حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو  اللہ تعالیٰ کی محبت اور عبادت کے شوق میں  کثرت سے عبادت کرتے او رمشقت اٹھاتے ہیں ، جبکہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مشقت پر آپ کی راحت و آسانی کا حکم نازل فرماتا ہے۔

{ اِلَّا تَذْكِرَةً:مگر یہ اس کیلئے نصیحت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں  فرمایا کہ آپ مشقت میں  پڑجائیں  بلکہ یہ قرآن اُس کے لئے نصیحت ہے جو  اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۳،۵ / ۳۶۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۴۹، ملتقطًا)

تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰىﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جس نے زمین اور اونچے آسمان بنائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تَنْزِیْلًا:نازل کیا ہوا ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی کہ یہ قرآن اس  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جس نے زمینوں  اور بلند آسمانوں  کو پیدا فرمایا اور جس نے اتنی عظیم مخلوق پیدا فرمائی وہ خالق کتنا عظیم ہو گا اور جب ایسی عظیم ذات نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے تو یہ قرآن کتنا عظمت والا ہو گا۔

قرآنِ مجید کی عظمت بیان کرنے کا مقصد:

            یہاں  قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کے معانی میں  غورو فکر کریں  اور اس کے حقائق میں  تَدَبُّر کریں  کیونکہ اس بات کا مشاہدہ ہے کہ جس پیغام کو بھیجنے والا انتہائی عظیم ہو تو اس پیغام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور پوری توجہ سے اسے سنا جاتا ہے اور بھر پور طریقے سے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ اور جب قرآن کریم کو نازل فرمانے والا سب سے بڑا عظیم ہے تو اس کی طرف سے بھیجے ہوئے قرآن عظیم کوسب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سننا چاہئے اور اس میں  انتہائی غورو فکر کرنا اور کامل طریقے سے ا س کے دئیے گئے احکام پر عمل کرنا چاہئے ۔ افسوس! آج مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جو تلاوتِ قرآن کرنے سے ہی محروم ہے اور جو تلاوت کرتے بھی ہیں  تو وہ درست طریقے سے تلاوت نہیں  کرتے اور صحیح طریقے سے تلاوت کرنے والوں  کا بھی حال یہ ہے کہ وہ نہ قرآن مجید کو سمجھتے ہیں  ، نہ اس میں  غورو فکر کرتے ہیں  اور نہ ہی اس کے اَحکام پر عمل کرتے ہیں۔

            حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :ہماری مصیبت سے بڑی کوئی مصیبت نہیں ، ہم میں  سے ایک شخص دن رات قرآن مجید پڑھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں  کرتا حالانکہ یہ مکمل قرآن مجید ہماری طرف ہمارے رب کے پیغامات ہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی  اللہ عنہم کثرۃ الاستغفار وخوف المقت ۔۔۔ الخ، ص۲۶۱)

            اور حضرت محمد بن کعب قرظی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : جس تک قرآن مجیدپہنچ گیا تو گویا  اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا۔ جب وہ ا س بات پر قادر ہو جائے تو قرآن مجید پڑھنے ہی کو اپنا عمل قرار نہ دے بلکہ اس طرح پڑھے جس طرح کوئی غلام اپنے مالک کے لکھے ہوئے خط کو پڑھتا ہے تاکہ وہ اس میں  غوروفکر کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثالث فی اعمال الباطن فی التلاوۃ، ۱ / ۳۷۸)

اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(5)لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ بڑا مہربان ہے ،اس نے عرش پر اِستواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ اس گیلی مٹی (زمین) کے نیچے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلرَّحْمٰنُ:وہ بڑا مہربان ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید نازل کرنے والے کی شان یہ ہے کہ وہ بڑا مہربان ہے اور اس نے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمایا ہے اور جو کچھ آسمانوں  میں  ہے، جو کچھ زمین میں  ہے ،جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے اور جو کچھ اس گیلی مٹی یعنی زمین کے نیچے ہے سب کا مالک بھی وہی ہے، وہی ان سب کی تدبیر فرماتا اور ان میں  جیسے چاہے تَصَرُّف فرماتا ہے۔

عرش پر اِستوا فرمانے سے متعلق ایک اہم بات:

             اللہ تعالیٰ کے اپنی شان کے لائق عرش پر اِستواء فرمانے کی تفصیل سورۂ اَعراف کی آیت نمبر 54 کی تفسیر کے تحت گزر چکی ہے، یہاں  اس سے متعلق ایک اہم بات یاد رکھیں  ،چنانچہ حضرت امام مالک رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے آکر اس آیت کامطلب دریافت کیا کہ  اللہ تعالیٰ نے عرش پر کس طرح اِستواء فرمایا تو آپ نے تھوڑے سے تَوَقُّف کے بعد فرمایا ’’ ہمیں  یہ معلوم ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا لیکن اس کی کَیفیت کیا تھی وہ ہمارے فہم سے بالاتر ہے البتہ اس پرایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں  گفتگو کرنا بدعت ہے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۱۳۷)

وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر تم بلند آواز سے بولو تو بیشک وہ آہستہ آواز کو جانتا ہے اور اسے (بھی) جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى: تو بیشک وہ آہستہ آواز کو جانتا ہے اور اسے (بھی)جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔} اس آیت کے دو الفاظ ’’اَلسِّرَّ‘‘ اور ’’ اَخْفٰى‘‘ کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، جیسے ایک قول یہ ہے کہ سِروہ ہے جسے آدمی چھپاتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘وہ ہے جسے انسان کرنے والا ہے مگر ابھی جانتا بھی نہیں  اور نہ اُس سے اِس کے ارادے کا کوئی تعلق ہوا ، نہ اس تک اس کاخیال پہنچا ۔ ایک قول یہ ہے کہ سِر سے مراد وہ ہے جسے بندہ انسانوں  سے چھپاتا ہے اور ’’اس سے زیادہ چھپی ہوئی‘‘ چیز وسوسہ ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ بندے کا راز وہ ہے جسے بندہ خود جانتا ہے اور  اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور’’ اس سے زیادہ پوشیدہ ‘‘ربّانی اَسرار ہیں  جنہیں   اللہ تعالیٰ جانتا ہے بندہ نہیں  جانتا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۴۹، ملتقطًا)

 برے کاموں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب:

            اس آیت میں  بیان ہوا کہ  اللہ تعالیٰ ہماری آہستہ آواز کو جانتا ہے اور جو اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے اسے بھی جانتاہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ بندوں  کے ظاہری باطنی اَحوال ،آنکھوں  کی خیانت ، سینوں  میں  چھپی باتیں  اور ہمارے تمام کام جانتا ہے اور ہمارے تمام اَفعال کو دیکھ بھی رہا ہے،چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(مائدہ:۹۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور  اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘(مومن:۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اللہ آنکھوں  کی خیانت کوجانتا ہے اور اسےبھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا

’’اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم جو چاہو کرتے رہو ۔بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

ان آیات میں  ہر بندے کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ خفیہ اور اِعلانیہ، ظاہری اور باطنی تمام گناہوں  سے پرہیز کرے کیونکہ کوئی ہمارے گناہوں  کو جانے یا نہ جانے اور کوئی انہیں  دیکھے یا نہ دیکھے لیکن وہ  اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے جو دنیا میں  کسی بھی وقت اس کی گرفت فرما سکتا ہے اور اگر اس نے دنیا میں  کوئی سزا نہ دی تو وہ آخرت میں  جہنم کی دردناک سزا دے سکتا ہے۔ نیز ان آیات میں  نیک اعمال کرنے کی ترغیب بھی ہے کہ لوگ  اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے کوئی نیکی چھپ کر کریں  یا سب کے سامنے ،  اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں  اس کی جزا عطا فرمائے گا۔

بلند آواز سے ذکر کرنے کا مقصد:

            ابو سعید عبد اللہ بن عمر رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے تفسیر ِبیضاوی میں  اس آیت میں  مذکور لفظ’’قول‘‘ سے  اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا مراد لی ہے اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں  اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ذکر و دعا میں  جَہر  اللہ تعالیٰ کو سنانے کے لئے نہیں  ہے بلکہ ذکر کو نفس میں  راسخ کرنے اور نفس کو غیر کے ساتھ مشغول ہونے سے روکنے اور باز رکھنے کے لئے ہے۔( بیضاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۱)

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ سب اچھے نام اسی کے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:وہ  اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔}یعنی  اللہ تعالیٰ معبودِ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں  اوروہ حقیقتاً واحد ہے اور اَسماء و صِفات کی کثرت اس کی ذات کو تعبیر کرنے کے مختلف ذرائع ہیں  ۔یہ نہیں  کہ صفات کی کثرت ذات کی کثرت پر دلالت کرے جیسے کسی آدمی کو کہیں  کہ یہ عالم بھی ہے اور سخی بھی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے عالم بھی کہہ سکتے ہیں  اور سخی بھی ، نہ یہ کہ دو نام رکھنے سے وہ ایک سے دو آدمی بن گئے۔

وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰىﭥ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیا تمہارے پاس موسیٰ کی خبر آئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى:اور کیا تمہارے پاس موسیٰ کی خبر آئی۔}اس سے پہلی آیات میں  قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کئے جا رہے ہیں  تاکہ اس سے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو تَقْوِیَت حاصل ہو اور اس سلسلے میں  سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا کیونکہ انہیں  نبوت و رسالت کے فرائض کی ادائیگی میں  جس قدر مشقتوں  اور سختیوں  کا سامنا کرنا پڑا ہے اس میں  حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کے لئے بہت تسلی ہے، چنانچہ یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس سفر کا واقعہ بیان فرمایا جارہا ہے جس میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجازت لے کرمَدْیَن سے مصر کی طرف اپنی والدہ ماجدہ سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے تھے ، آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اہلِ بیت ہمراہ تھے اور آپ نے شام کے بادشاہوں  (کی طرف سے نقصان پہنچنے) کے اندیشہ سے سڑک چھوڑ کر جنگل میں  مسافت طے کرنا اختیار فرمایا ،اس وقت زوجۂ محترمہ حاملہ تھیں  ، چلتے چلتے طور پہاڑکے مغربی جانب پہنچے تویہاں  رات کے وقت زوجۂ محترمہ کو دردِ زہ شروع ہوا ، یہ رات اندھیری تھی، برف پڑ رہی تھا اور سردی شدت کی تھی ،اتنے میں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دور سے آگ معلوم ہوئی۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۹، ۸ / ۱۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۲۴۹-۲۵۰، ملتقطًا)

اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب اس نے ایک آگ دیکھی تو اپنی اہلیہ سے فرمایا: ٹھہرو، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی چنگاری لے آؤں یا آگ کے پاس کوئی راستہ بتانے والا پاؤں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ رَاٰ نَارًا:جب اس نے ایک آگ دیکھی۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آگ دیکھی تواپنی زوجۂ محترمہ سے فرمایا: آپ یہیں  ٹھہرو، میں  نے ایک جگہ آگ دیکھی ہے، اس لئے میں جا تا ہوں ، شاید میں  تمہارے پاس اس آگ میں  سے کوئی چنگاری لے آؤں  یا مجھے آگ کے پاس کو ئی ایسا شخص مل جائے جس سے درست راستہ پوچھ کر ہم مصرکی طرف روانہ ہو سکیں ۔

زوجہ اہلِ بیت میں  داخل ہے:

            اس آیت میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ کو’’ اہل ‘‘فرمایا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ بیوی اہلِ بیت میں  سے ہوتی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہّرات رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُنَّ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت میں  داخل ہیں  ۔ 

فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰىﭤ(11)اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىﭤ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر وہ جب آگ کے پاس آئے تو ندا فرمائی گئی کہ اے موسیٰ۔ بیشک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار دے بیشک تو پاک وادی طویٰ میں ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا:پھر وہ جب آگ کے پاس آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس آگ کے پاس تشریف لائے تو وہاں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک سرسبز و شاداب درخت دیکھا جو اوپر سے نیچے تک انتہائی روشن تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جتنا اس کے قریب جاتے اتنا وہ دور ہوجاتا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ٹھہر جاتے ہیں  تو وہ قریب ہوجاتا ، اس وقت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا فرمائی گئی کہ اے موسیٰ! بیشک میں  تیرا رب ہوں  تو تو اپنے جوتے اتار دے کہ اس میں  عاجزی کا اظہار، مقدس جگہ کا احترام اور پاک وادی کی خاک سے برکت حاصل کرنے کا موقع ہے ، بیشک تو اس وقت پاک وادی طُویٰ میں  ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۶۸۷)

آیت’’ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت اور ا س کی تفسیر سے چار باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…پاک اور مقدس جگہ پر جوتے اتار کر حاضر ہونا چاہئے کہ یہ ادب کے زیادہ قریب ہے۔

(2)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  دعا اور مُناجات کرتے وقت جوتے اتار دینے چاہئیں ۔

(3)…مقدس جگہ سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے ساتھ اپنابدن مَس کرسکتے ہیں ۔

(4)…مقدس جگہ کا ادب و احترام کرنا چاہئے کہ یہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ اسی وجہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ کے مزارات اور اس سرزمین کا ادب کیا جاتا ہے جہاں  وہ آرام فرما ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین مقدس مقامات کا ادب کس طرح کیا کرتے تھے اس سلسلے میں ایک حکایا ت ملاحظہ ہو ، چنانچہ

             حضرت امام شافعی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  : میں  نے (مدینہ منورہ میں ) حضرت امام مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے دروازے پر خراسان کے گھوڑوں  کا ایک ایسا ریوڑ دیکھا کہ میں  نے اس سے اچھا نہیں  دیکھا تھا۔ میں  نے حضرت امام مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے عرض کی: یہ کتنا خوبصورت ہے۔ انہوں  نے فرمایا ’’اے ابو عبداللّٰہ! یہ میری طرف سے تمہارے لئے تحفہ ہے۔ میں  نے عرض کی: آپ اس میں  سے ایک جانور اپنی سواری کے لئے رکھ لیں ۔ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے فرمایا: مجھے  اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں  اس مبارک مٹی کو جانور کے (اوپر سوار ہو کر اس کے) کھروں  سے روندوں  جس میں   اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ(کا روضۂ انور) موجود ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الثانی فی العلم المحمود والمذموم واقسامہما۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۸)

وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِـعْ لِمَا یُوْحٰى(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ:اور میں  نے تجھے پسند کیا ۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا کہ میں  نے تیری قوم میں  سے تجھے نبوت و رسالت کے لئے پسند کر لیا اور تجھے اپنے ساتھ کلام کرنے کے شرف سے مشرف فرمایا تواب اسے غور سے سن جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۶۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۲۵۰، ملتقطاً)

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس فضیلت کا ذکر ایک اور مقام پر صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ ‘‘(اعراف:۱۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے موسیٰ! میں  نے اپنی رسالتوں  اور اپنےکلام کے ساتھ تجھے لوگوں  پر منتخب کرلیاتو جو میں  نے تمہیں  عطا فرمایاہے اسے لے لو اور شکر گزاروں  میں  سے ہوجاؤ۔

            نیز حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے جو ندا سنی اس کی کیفیت کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ ندا اپنے بدن کے ہر جُزْو سے سنی اور سننے کی قوت ایسی عام ہوئی کہ پورا جسمِ اَقدس کان بن گیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۲۵۰)

اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک میں ہی اللہ ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ:بیشک میں  ہی  اللہ ہوں ۔}ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک میں  ہی  اللہ ہوں  اور میرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تم میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھو تاکہ تم اس میں  مجھے یاد کرو اور میری یاد میں  اخلاص ہوا ور میری رضا کے علاوہ کوئی دوسری غرض مقصود نہ ہو، اسی طرح اس میں  ریا کا دخل نہ ہو۔آیت کے آخری حصے ’’وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ تم میری نماز قائم رکھو تاکہ میں  تجھے اپنی رحمت سے یاد فرماؤں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۵۰، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۸۸، ملتقطاً)

آیت’’وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… ایمان کے بعد سب سے اہم فریضہ نماز ہے۔

(2)… نماز کی ادائیگی اخلاص کے ساتھ،  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد کیلئے ہونی چاہیے نہ کہ لوگوں  کو دکھانے کیلئے۔

(3)… نمازادا کرنے والے بندے کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنی رحمت کے ساتھ یاد فرماتا ہے ۔

اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک قیامت آنے والی ہے ۔ قریب ہے کہ میں اسے چھپارکھوں تاکہ ہر جان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ:بیشک قیامت آنے والی ہے ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت لازمی طور پر آنے والی ہے اور قریب تھا کہ  اللہ تعالیٰ اسے سب سے چھپا کر رکھتا اور یہ فرما کر بندوں  کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ دیتا کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، یعنی لوگوں  کو اِس بات کا علم ہی نہ ہوتا کہ کوئی قیامت کا دن بھی ہے (اگر ایسا ہوتا تو لوگ بالکل ہی غفلت و لاعلمی میں  مارے جاتے)۔ لیکن اس کے برعکس انہیں  قیامت آنے کی خبر دی گئی ہے جس میں  حکمت یہ ہے کہ لوگوں  کو معلوم ہو جائے کہ ہر جان کو اس کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیاجائے گا البتہ اِس کے ساتھ انہیں  مُتَعَیَّن وقت نہیں  بتایا گیا (کہ وہ بھی کئی اعتبار سے اکثر لوگوں  کیلئے غفلت کا سبب بن جاتا لہٰذا) اِس کی جگہ بغیر مُعَیَّن وقت بتائے محض قیامت کی خبر دیدی تاکہ اُس کے کسی بھی وقت آنے کے خوف سے لوگ گناہوں  کوترک کردیں ، نیکیاں  زیادہ کریں  اور ہر وقت توبہ کرتے رہیں ۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۶۸۸، ملتقطاً)

موت اور قیامت کا وقت چھپائے جانے کی حکمت:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  یہ تو بتایا گیا ہے کہ قیامت آئے گی لیکن یہ نہیں  بتایا گیا کہ کب آئے گی، اسی طرح دیگر آیات میں  یہ تو بتایا گیا ہے کہ ہر جاندار کو موت آئے گی لیکن یہ نہیں  بتایا گیاکہ کب اور کس وقت آئے گی، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت اور موت دونوں  کے آنے کا وقت بندوں  سے چھپایا گیا ہے اور ان کا وقت چھپانے میں  بھی حکمت ہے، جیسے قیامت آنے کا وقت چھپانے کی جو حکمت اوپر بیان ہوئی کہ لوگ اس وجہ سے خوفزدہ رہیں  گے اور گناہ چھوڑ کر نیکیاں  زیادہ کریں  گے اور توبہ کرنے میں  مصروف رہیں  گے یہی حکمت موت کا وقت چھپانے میں  بھی ہے کیونکہ جب کسی انسان کو اپنی عمر ختم ہونے اور موت آنے کا وقت معلوم ہو گا تو وہ اس وقت کے قریب آنے تک گناہوں  میں  مشغول رہے گا اور جب موت کا وقت آنے والا ہو گا تو وہ گناہوں  سے توبہ کر کے نیک اعمال کرنے میں  مصروف ہو جائے گا اور اس طرح وہ گناہوں  کی سزا پانے سے بچ جائے گا اور جب انسان کو اپنی موت کا وقت ہی معلوم نہ ہو گا تو وہ ہر وقت خوف اور دہشت میں  مبتلا رہے گا اور یا تو گناہوں  کو مکمل طور پر چھوڑ دے گا یا ہر وقت اس ڈر سے گناہوں  سے توبہ کرتا رہے گا کہ  کہیں  ابھی موت نہ آ جائے۔

            افسوس! فی زمانہ لوگوں کی اکثریت حشر کے ہولناک دن اور اپنی موت کو یاد کرنے، اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی جستجو کرنے اور اپنی موت کے لئے تیاری کرنے سے انتہائی غفلت کا شکار ہے اور قیامت کے دن راحت و چین مل جانے اور دنیا میں  اپنی عمر زیادہ ہونے کی لمبی لمبی امیدیں  باندھے ہوئے ہے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے اور اپنی قبر و آخرت کی بہتری کے لئے فوری طور پر بھرپور کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو قیامت پر ایمان نہ لانے والا اور اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا ہرگز تجھے اس کے ماننے سے باز نہ رکھے ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا:تو قیامت پر ایمان نہ لانے والا ہرگز تجھے اس کے ماننے سے باز نہ رکھے ۔} یہاں  آیت میں  خطاب بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہے اور اس سے مراد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُمت ہے۔ چنانچہ گویا  کہ ارشاد فرمایا :اے میرے کلیم موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے امتی! قیامت پر ایمان نہ لانے والا اور  اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں  اپنی خوفَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا ﱏ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان (لوگوں ) سے ادھر ایک پردہ کرلیا تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی (جبرئیل) بھیجا تووہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کی صورت بن گیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا:تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاخَلْوَت میں  تشریف لے گئیں  تو آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے اپنے اور گھر والوں  کے درمیان پردہ کر لیا، اس وقت  اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی طرف حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو بھیجا تو آپ عَلَیْہِ  السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے سامنے نوجوان، بے ریش، روشن چہرے اور پیچ دار بالوں  والے آدمی کی صورت میں  ظاہر ہوئے۔حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کے انسانی شکل میں  آنے کی حکمت یہ تھی کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا ان کے کلام سے مانوس ہو جائیں  اور ان سے خوف نہ کھائیں  کیونکہ اگر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام اپنی ملکوتی شکل میں  تشریف لاتے تو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا خوفزدہ ہو جاتیں  اور آپ عَلَیْہِ  السَّلَام کا کلام سننے پر قادر نہ ہوتیں ۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۷۰، ملتقطاً)

نوری وجود بشری صورت میں  آ سکتا ہے:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور ی وجود بشری صورت میں  آسکتا ہے۔ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام فرشتہ ہیں  ،نور ہیں  اور حضرت مریم کے پاس بشری شکل میں  ظاہر ہوئے، اس وقت اس بشری شکل کی وجہ سے (حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام) نورانیت سے علیحدہ نہیں  ہو گئے ۔صحابہ کرام نے حضرت جبریل کو بشری شکل میں  دیکھا، سیاہ زلفیں ، سفید لباس ، آنکھ، ناک، کان وغیرہ سب موجود ہیں ، اس کے باوجود بھی وہ نور تھے ، اسی طرح حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت داؤدعَلَیْہِمُ السَّلَام کے خدمات میں  فرشتے شکلِ بشری میں  گئے۔ رب فرماتا ہے: ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ‘‘(ذاریات:۲۴ ،۲۵)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں  کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آئے تو کہا: سلام،(حضرت ابراہیم نے)فرمایا، ’’سلام ‘‘(تم)اجنبی لوگ ہو۔)

 (اور فرماتا ہے)

’’وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ(۲۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ‘‘(ص:۲۱ ،۲۲)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارے پاس ان دعویداروں  کی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر مسجد میں  آئے ۔جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا۔ انہوں  نے عرض کی: ڈرئیے نہیں  ہم دو فریق ہیں  ، ہم میں  سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔)

(اور فرماتا ہے)

’’ وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ‘‘(عنکبوت:۳۳)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے توانہیں  فرشتوں  کا آنا برا لگا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اورفرشتوں  نے کہا: آپ نہ ڈریں  اور نہ غمگین ہوں ، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں  کو بچانے والے ہیں  سوائے آپ کی بیوی کے کہ پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے ہے۔)

         ان تمام آیتوں  سے معلوم ہوا کہ فرشتے انبیاءِ کرام کی خدمت میں  انسانی شکل بشری صورت میں  حاضر ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ نور بھی ہوتے تھے، غرضیکہ نورانیت و بشریت ضدیں  نہیں ۔( رسائل نعیمیہ، رسالہ نور، ص۷۸۷۹)

اہش کی پیروی کرنے والا ہرگز تجھے قیامت کو ماننے سے باز نہ رکھے ورنہ تو ہلاک ہوجائے گا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۸۸)

قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا(18)قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

مریم بولی: میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ کہا: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ:مریم بولی: میں  تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے خَلْوَت میں  اپنے پاس ایک بے ریش نوجوان کو دیکھا تو خوفزدہ ہوگئیں  اور فرمایا کہ میں تجھ سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ مانگتی ہوں ، اگر تم میں  کچھ خدا خوفی ہے تویہاں  سے چلے جاؤ۔ اس کلام سے آپ کی انتہائی پاکدامنی اور تقویٰ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے چیخ کر کسی او ر کو آواز نہ دی بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگی تاکہ اس واقعہ کی کسی کو خبر نہ ہو ۔

{قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ: کہا:میں  توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا خوفزدہ ہوئیں  تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے کہا کہ میں  فرشتہ ہوں  اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں  تاکہ میں  تمہیں  ایک ستھرا اور پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

آیت’’لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…  اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے  اللہ تعالیٰ کے بعض کاموں  کو اپنی طرف منسوب کر سکتے ہیں ، جیسے کسی کوبیٹا دینا در حقیقت  اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے فرمایا کہ میں  تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔

(2)… اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے بندوں  کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے اَولیاء اولاد دیتے ہیں، وغیرہ۔

(3)…  اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں  کو اولاد عطا کرنے کی طاقت اور اجازت دیتا ہے اور وہ  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت واجازت سے اولاد عطا بھی کرتے ہیں ، جیسے  اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو بیٹا دینے کی طاقت اور اجازت دی اور آپ عَلَیْہِ  السَّلَام نے  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور اجازت سے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو بیٹا عطا کیا۔

قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّا(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

مریم نے کہا: میرے لڑکا کہاں سے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی آدمی نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ:کہا: میرے لڑکا کہاں  سے ہوگا؟} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکوبیٹے کی خوشخبری دی توآپ حیران ہوگئیں  اور کہنے لگیں : کسی عورت کے ہاں  اولاد ہونے کا جو ظاہری سبب ہے وہ مجھ میں  پایا نہیں  جا رہا کیونکہ نہ تو میرا کسی سے نکاح ہوا ہے اور نہ ہی میں  بدکار عورت ہوں  تو پھر میرے ہاں  لڑکا کہاں  سے ہو گا؟ یاد رہے کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکی یہ حیرانی اس وجہ سے نہ تھی کہ آپ  اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کام بعید سمجھتی تھیں  بلکہ آپ اس لئے حیران ہوئی تھیں  کہ باپ کے بغیر اولاد کا ہونا خلافِ عادت تھا اور عادت کے برخلاف کام ہونے پر حیرت زدہ ہو جانا ایک فِطرتی امر ہے۔

قَالَ كَذٰلِكِۚ-قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌۚ-وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّاۚ-وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

جبرئیل نے کہا : ایسا ہی ہے۔ تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے اوپر بہت آسان ہے اور تاکہ ہم اسے لوگوں کیلئے نشانی بنادیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں ) اور یہ ایسا کام ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ كَذٰلِكِ:جبرئیل نے کہا : ایسا ہی ہے۔} حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے جواب دیا: اے مریم! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ وہ آپ کو کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی لڑکا عطا فرمائے اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کے رب عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا ہے کہ آپ کو بغیر باپ کے بیٹا دینا میرے اوپر بہت آسان ہے، کیونکہ میں  اَسباب اور واسطوں  کا محتاج نہیں  ہوں  اور آپ کو اس طرح بیٹا دینے میں  ایک حکمت یہ ہے کہ ہم اسے لوگوں  کیلئے نشانی اور اپنی قدرت کی بُرہان بنا دیں  اور اُن لوگوں  کے لئے اپنی طرف سے ایک رحمت بنا دیں  جو اِس کے دین کی پیروی کریں  اور اِس پر ایمان لائیں  اور یہ ایسا کام ہے جس کا  اللہ تعالیٰ کے علم میں  فیصلہ ہوچکا ہے جو کہ اب نہ رد ہو سکتا ہے اور نہ بدل سکتا ہے ۔ جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  کو اطمینان ہوگیا اور ان کی پریشانی جاتی رہی تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے ان کے گریبان میں ،، یا،، آستین میں  ،، یا،، دامن میں ،، یا،، منہ میں  دم کیا اور آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی وقت حاملہ ہوگئیں ۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۳ / ۲۳۱، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۷۰، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً)

فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر مریم حاملہ ہوگئیں تواسے لے کر ایک دور کی جگہ چلی گئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا:پھر مریم حاملہ ہوگئیں  تواسے لے کر ایک دور کی جگہ چلی گئی۔} جب حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کوحمل کے آثار ظاہر ہوئے تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو اِلہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علیحدہ چلی جائیں  ،اس لئے وہ بیتُ اللّحم میں  چلی گئیں ۔

یوسف نجار کے سوال کا جواب:

            منقول ہے کہ سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے حمل کا علم ہواوہ ان کا چچا زاد بھائی یوسف نجار تھا جو مسجد بیت المقدس کا خادم تھا اور بہت بڑا عابد شخص تھا ۔ اس کو جب معلوم ہوا کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا حاملہ ہیں  تواسے نہایت حیرت ہوئی ۔ وہ جب چاہتا کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر تہمت لگائے تو اُن کی عبادت و تقویٰ، ان کا ہر وقت کا حاضر رہنا اور کسی وقت غائب نہ ہونا یاد کرکے خاموش ہوجاتا تھا اور جب حمل کا خیال کرتا تو اُن کو بَری سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ۔ بالآخر اُس نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے کہا کہ میرے دِل میں  ایک بات آئی ہے ہر چند چاہتا ہوں  کہ زبان پر نہ لاؤں  مگر اب صبر نہیں  ہوتا ہے ، آپ اجازت دیجئے کہ میں  کہہ گزروں  تاکہ میرے دل کی پریشانی رفع ہو۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے کہا کہ اچھی بات کہو۔ تو اُس نے کہا کہ اے مریم! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، مجھے بتاؤ کہ کیا کھیتی بغیر بیج کے اور درخت بغیر بارش کے اور بچہ بغیر باپ کے ہوسکتا ہے؟ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے فرمایا کہ ہاں ، کیا تجھے معلوم نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلے کھیتی پیدا کی وہ بغیربیج ہی کے پیدا کی اور درخت اپنی قدرت سے بغیر بارش کے اگائے، کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ پانی کی مدد کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ یوسف نے کہا :میں  یہ تو نہیں  کہتا بے شک میں  اس کا قائل ہوں  کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر قادر ہے ،جسے کُن فرمائے وہ ہوجاتی ہے۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے کہا کہ کیا تجھے معلوم نہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی بیوی کو بغیر ماں  باپ کے پیدا کیا۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکے اس کلام سے یوسف کا شُبہ رفع ہوگیا اور حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا حمل کے سبب سے ضعیف ہوگئیں  تھیں  اس لئے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کی نِیابَت کے طور پر مسجد کی خدمت وہ سر انجام دینے لگا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۲،۳ / ۲۳۲)

تمام مخلوقات کو پہلی بار  اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ نے کائنات میں  جتنی مخلوقات پیدا فرمائیں  ان تمام کی پہلی بار پیدائش اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فرمائی اور اس کے بعد جن مخلوقات کی افزائش منظور تھی ان کی افزائش کے لئے ظاہری اَسباب مقرر فرمائے اور ان اَسباب کے ذریعے مخلوقات کی افزائش ہوئی، نیز اَسباب مقرر کرنے کے بعد بھی  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اِظہار کے لئے بعض مخلوقات کو ان کے ظاہری سبب کے بغیر پیدا فرمایا جیسے حضرت حوّا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پسلی سے پیدا فرما یا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا۔ کائنات میں  اَشیاء کے پہلی بار وجود میں  آنے سے متعلق یہ وہ مُعْتَدِل نظریہ ہے جو عقل اور شریعت کے عین موافق ہے جبکہ اس کے برعکس دَہْرِیّوں  کے نظریات عقل و نظر کے صریح مخالف ہیں  کہ ان کے نظریات کی رُو سے کسی شے کی کوئی ابتداء بنتی ہی نظر نہیں  آتی۔

            یہاں  یہ بھی یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی چیزوں  میں  غورو فکر کرنا اور ان چیزوں  میں   اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل تلاش کرنے کے لئے تحقیق اور جستجو کرنا بہت عمدہ کام ہے کیونکہ اس سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت دلائل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے اور یوں  کفار کے لئے  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کی وحدانیت کا اعتراف کرنے اور  اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی راہیں  کھلتی ہیں  اور مسلمانوں  کا اپنے رب تعالیٰ پر ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے۔

فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ-قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر بچے کی پیدائش کا درد اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا تو اس نے کہا: اے کاش کہ میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور میں کوئی بھولی بسری ہوجاتی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِۚ:پھر بچے کی پیدائش کا درد اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔} جب ولادت کاوقت قریب آیا اور درد کی شدت زیادہ ہوئی تو حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکھجور کے ایک سوکھے درخت کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ اب درد کی بھی شدّت تھی اور دوسری طرف مستقبل کے معاملات بھی تھے کہ اگرچہ میں  تو مطمئن ہوں  مگرلوگوں  کوکیسے مطمئن کروں  گی چنانچہ اسی پریشانی کی شدّت سے کہا کہ اے کاش میں  اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی یابھولی بسری ہوجاتی تا کہ یہ تمام معاملات پیش نہ آتے ۔

فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اسے اس کھجورکے درخت کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا بیشک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بنا دی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ:تو اسے اس کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا۔} جب حضرت مریم رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے درد کی شدت سے مرنے کی تمنا کی تواس وقت حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام نے وادی کے نیچے سے پکاراکہ غم نہ کرو، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے لیے آپ کے قریب ایک نہر بنا دی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یا حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو میٹھے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ، کھجور کا درخت سرسبز ہو کرپھل لایا اور وہ پھل پختہ اور رس دار ہو گئے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس جگہ ایک خشک نہر تھی جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جاری کر دیا اور کھجور کا خشک درخت سرسبز ہو کر پھل دار ہوگیا۔( مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۷۱، خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۳۲، ملتقطاً)

وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّا(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ، وہ تم پر عمدہ تازہ کھجوریں گرائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُزِّیْۤ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ:اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ۔} حضرت مریم!رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا، سے کہا گیا کہ آپ جس سوکھے تنے کے نیچے بیٹھی ہیں  اسے اپنی طرف حرکت دیں  تو اس سے آپ پر عمدہ اور تازہ پکی ہوئی کھجوریں  گریں  گی ۔

            اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی حالت میں  عورت کے لئے کجھور کھانا فائدہ مند ہے۔ کھجور میں  آئرن بہت ہوتا ہے جو بچے کی صحت و تندرستی میں  بہت معاونقَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ(25)وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْ(26)وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ(27)یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے ۔اور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ وہ میری بات سمجھیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ:موسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب!}اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سر کش فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جان گئے کہ انہیں  ایک ایسے عظیم کا م کا پابند کیا گیا ہے جس کے لئے سینہ کشادہ ہونے کی حاجت ہے تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور اسے رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لئے وسیع فرما دے اور اسباب پیدا فرما کر دیگر رکاوٹیں  ختم کر کے میرے لیے میرا وہ کام آسان فرما دے جس کاتو نے مجھے حکم دیا ہے اور میری زبان کی گرہ کھول دے جو بچپن میں  آگ کا انگارہ منہ میں  رکھ لینے سے پڑ گئی ہے تاکہ وہ لوگ رسالت کی تبلیغ کے وقت میری بات سمجھیں ۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ص۶۸۹-۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۳ / ۲۵۲-۲۵۳، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۸، ۵ / ۳۷۸، ملتقطاً)

{وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ:اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان میں  لُکْنت پیدا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں  ایک دن فرعون نے آپ کواٹھایا تو آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مار دیا، اِس پر اُسے غصہ آیا اور اُس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، یہ دیکھ کر حضرت آسیہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے کہا: اے بادشاہ! یہ ابھی بچہ ہے اسے کیا سمجھ؟ اگر تو تجربہ کرنا چاہے تو تجربہ کرلے۔ اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں  آگ اور ایک طشت میں  سرخ یاقوت آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش کئے گئے۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منہ میں  دے دیا اس سے زبان مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔( بغوی، طہ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۸۲)

 ہوتا ہے، البتہ اس حالت میں  کھجوریں  اپنی طبعی حالت کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کم یا زیادہ کھائی جائیں ۔

حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا پر  اللہ تعالیٰ کی عنایت و کرم نوازی:

            اگر بنظر ِغائر دیکھا جائے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی  پیدائش کے وقت سے ہی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکواپنی قدرتِ کاملہ کے کئی نظارے دکھا کر تسلی دی کہ دیکھوجوذات تیرے لئے خشک نہر سے پانی جاری کرسکتی ہے اور خشک درخت سے پکی ہوئی کھجوریں  ظاہر کرسکتی ہے وہ آئندہ بھی تمہیں  بے یارو مددگار نہیں  چھوڑے گی لہٰذا تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کرامتوں  ،عنایتوں  ،شفقتوں  پر نظر کرو اور غم وپریشانی کا اِظہار مت کرو۔

وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ(29)هٰرُوْنَ اَخِی(30)اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ(31)وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ(32)كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا(33)وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاﭤ(34)اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ میرے بھائی ہارون کو ۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما۔ اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔ تاکہ ہم بکثرت تیری پاکی بیان کریں ۔ اور بکثرت تیرا ذکر کریں ۔ بیشک تو ہمیں دیکھ رہا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ:اور میرے لیے میرے گھر والوں  میں  سے ایک وزیر کردے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید عرض کی: میرے لیے میرے گھر والوں  میں  سے ایک وزیر کر دے جو میرا معاون اور مُعتمد ہواور وہ میرا بھائی ہارون ہو، اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما اور اسے رسالت کی تبلیغ اور نبوت کے کام میں  میرا شریک کردے تاکہ ہم بکثرت تیری پاکی بیان کریں  اور نمازوں  میں  اور نمازوں  کے علاوہ بھی بکثرت تیرا ذکر کریں  بیشک تو ہمیں  دیکھ رہا ہے اور ہمارے اَحوال کو جانتا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۵، ص۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۵، ۳ / ۲۵۳، ملتقطاً)

سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 29 تا 35 سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے8 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقام اتنا بلند ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سے ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت جیسا عظیم منصب عطا فرما دیا۔

(2)… اپنے عزیز کو اپنا جانشین بنا نا حرام نہیں ، اصل مدار اہلیّت پر ہے، اگر اولاد اہل ہے تو اسے جانشین بنانا درست ہے کہ اہل آدمی کا اولاد ہونا کوئی ایسا جرم نہیں  کہ اسے جانشین نہ بنایا جاسکے ،ہاں  کسی خارجی وجہ سے یہ فعل نہ کیا جائے تو وہ جدا بات ہے۔ اس معاملے میں  لوگوں  کی آراء میں  بہت اِفراط و تفریط پایا جاتا ہے ، لہٰذا انہیں  اِعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔

(3)…  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے قوت اور مدد حاصل کرنا نہ توکّل کے خلاف ہے اور نہ توحید کے مُنافی ہے۔

(4)…بہترین اور قابل لوگوں  کی صحبت اختیار کرنا اور انہیں  اپنا وزیر بنانا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پسندیدہ عمل ہے۔

(5)…اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا اور اپنی قوت و شوکت پر غرور کرنا درست نہیں  ہے۔

(6)…جو چیز اپنے لئے پسند ہو وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرنی چاہئے۔

(7)…نیکیاں  زیادہ کرنے کے معاملے میں  نیک آدمی کی صحبت اختیار کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔

(8)…  اللہ تعالیٰ کا ذکر جماعت کے ساتھ مل کر کرنا اور بزرگوں  کے پاس بیٹھ کرکرنا بہت افضل ہے۔

قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ نے فرمایا: اے موسیٰ! تیرا سوال تجھے عطا کردیا گیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ: اللہ نے فرمایا: تجھے عطا کردیا گیا۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس درخواست پر  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تجھے وہ تمام چیزیں  عطا کر دی گئیں  جن کا تو نے ہم سے سوال کیا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۶۹۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۵۳، ملتقطاً)

علماء اور نیک بندوں  کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو جاہلوں  کی صحبت سے محفوظ فرما دے اور علماء و صلحا کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا کر دے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان اور انعام ہے کیونکہ یہ حضرات بندے سے گناہوں  کے بوجھ اتارنے میں  معاون و مددگار اور نیک اعمال کی راہ پر آسانی سے چلنے میں  ہادی و رہنما ہوتے ہیں  لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ علماء اور نیک لوگوں  کی صحبت اختیار کرے اور جو لوگ نیک اور پرہیزگار ہیں  وہ بھی علماء اور نیک لوگوں  کو ہی اپنا ہم نشین بنائیں  کیونکہ تلوار جتنی بھی عمدہ اور اعلیٰ ترین ہو اسے تیز کرنے کی ضرورت بہر حال پڑتی ہے۔ نیز ان آیات میں  ارباب ِاختیار اور سلطنت و حکومت پر قائم افراد کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے کہ وہ اپنی وزارت اور مشاورت کے لئے ان افراد کا انتخاب کریں  جو نیک اور پارسا ہیں ۔ سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ تاجدار رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں  سے جو شخص حاکم ہو پھر  اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی چاہئے تو  اللہ تعالیٰ اس کے لئے نیک وزیر بنا دے گا، اگر حکمران کوئی بات بھول جائے تو وہ اسے یاد دلا دے گااور اگر وہ یاد رکھے تو وہ اس کی مدد کرے گا۔( نسائی، کتاب البیعۃ، وزیر الامام، ص۶۸۵، الحدیث: ۴۲۱۰)

وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ مَرَّةً اُخْرٰۤى(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی احسان فرمایا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْكَ:اور بیشک ہم نے تجھ پر احسان فرمایا۔} اس آیت میں  گویا کہ  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم نے آپ کے سوال کرنے سے پہلے بھی آپ کی مَصلحت کی نگہبانی فرمائی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کے سوال کرنے کے بعد ہم آپ کی مراد آپ کو عطا نہ کریں ، اور جب ہم نے آپ کو پچھلے زمانے میں  آپ       کی ضرورت کی ہر چیز آپ کو عطا فرمائی اور پہلی حالت سے بلند درجہ عطا کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے آپ کو اس بلند، اہم اور عظیم رتبے پر فائز کیا ہے کہ جس پر فائز شخص کو اس کی طلب کی گئی چیز سے منع نہیں  کیا جاتا۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۴۶)

اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ مَا یُوْحٰۤى(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب ہم نے تمہاری ماں کے دل میں وہ بات ڈال دی جو اس کے دل میں ڈالی جانی تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ:جب ہم نے تمہاری ماں  کے دل میں  وہ بات ڈال دی ۔} اس سے پہلی آیت میں   اللہ تعالیٰ نے جس احسان کا تذکرہ فرمایا یہاں  سے اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب آپ کی ولادت کے وقت آپ کی ماں  کویہ اندیشہ ہوا کہ فرعون آپ کو قتل کر ڈالے گا تو ہم نے اس کے دل میں  ڈال کر یا خواب کے ذریعے سے اِلہام کیا کہ اس بچے کو صندوق میں  رکھ کر دریائے نیل میں  ڈال دے، پھر دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا تاکہ اسے وہ فرعون اٹھالے جو میرا بھی دشمن ہے اور اس کا بھی دشمن ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے ایک صندو ق بنایا اور اس میں  روئی بچھائی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس میں  رکھ کر صندوق بند کر دیا اور اس کی درزیں  قیر کے روغن سے بند کر دیں ، پھر اس صندوق کو دریائے نیل میں  بہا دیا۔ اس دریا سے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں  سے گزرتی تھی ۔ فرعون اپنی بیوی آسیہ کے ساتھ نہر کے کنارہ بیٹھا تھا ، اس نے نہر میں  صندوق آتا دیکھ کر غلاموں  اور کنیزوں  کو اسے نکالنے کا حکم دیا ۔ وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا اور جب اسے کھولا گیا تو اس میں  ایک نورانی شکل کا فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اِقبال کے آثار نمودار تھے نظر آیا،اسے دیکھتے ہی فرعون کے دل میں  بے پناہ محبت پیدا ہوئی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۳ / ۲۵۳)

اَنِ اقْذِفِیْهِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْهِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّهٗؕ-وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ ﳛ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَیْنِیْﭥ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے پھردریا اسے کنارے پر ڈال دے گاتا کہ اسے وہ اٹھالے جو میرا دشمن ہے اور اس کا (بھی) دشمن ہے اور میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈالی اورتاکہ میری نگاہ کے سامنے تمہاری پرورش کی جائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ:اور میں  نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈالی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا محبوب بنایا اور مخلوق کا محبوب کر دیا۔‘‘ اور جسے  اللہ تعالیٰ اپنی محبوبیت سے نوازتا ہے تودلوں  میں  اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں  وارد ہوا، یہی حال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تھا کہ جو آپ کو دیکھتا تھا اسی کے دل میں  آپ کی محبت پیدا ہو جاتی تھی ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آنکھوں  میں  ایسی مَلاحت تھی جسے دیکھ کر ہر دیکھنے والے کے دل میں  محبت جوش مارنے لگتی تھی۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۵۳، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۹۱، ملتقطاً)

                اس سے معلوم ہوا کہ محبوبیت و مقبولیت ِخَلق بھی بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے۔ ہمارے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیشہ مخلوق کے محبوب ہیں  اور یہ محبوبیت بھی حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔نیز آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں  کی پرورش کاانتظام بھی خود فرما دیتا ہے۔

اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى مَنْ یَّكْفُلُهٗؕ-فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ۬ؕ-وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ﲕ فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ ﳔ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى(40)وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب تیری بہن چلتی جارہی تھی پھر وہ کہنے لگی : کیا میں تمہیں ایسی عورت کی طرف رہنمائی کروں جو اس بچہ کی دیکھ بھال کرے تو ہم تجھے تیری ماں کے پاس پھیر لائے تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور وہ غمگین نہ ہو اور تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا تو ہم نے تمہیں غم سے نجات دی اور تمہیں اچھی طرح آزمایا پھر تم کئی برس مدین والوں میں رہے پھر اے موسیٰ! تم ایک مقررہ وعدے پر حاضر ہوگئے۔اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کیلئے بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ:جب تیری بہن چلتی جارہی تھی ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن کانام مریم تھا، جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوصندوق میں  بندکرکے دریا میں  ڈال دیا تھا تو اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن صندوق کے متعلق معلوم کرنے کہ وہ کہاں  پہنچتا ہے ا س کے ساتھ چلتی رہی یہاں  تک کے صندوق فرعون کے محل میں  پہنچ گیا، وہاں  فرعون اور اس کی بیوی آسیہ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے پاس رکھ لیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنا بیٹابنالیا مگر جب دودھ پلانے کے لیے دائیاں  حاضر کی گئیں  تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی بھی دائی کادودھ قبول نہ کیا، اس پر آپ کی بہن نے کہا کہ مصر میں  ایک اور دائی بھی ہے جس کا دودھ نہایت عمدہ ہے، یہ بچہ اس کادودھ پی لے گا۔ چنانچہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کوبلایا گیا تو آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دودھ پینا شروع کردیا، یوں  آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوپرورش کے لیے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کے سپرد کر دیا گیا اور  اللہ تعالیٰ کافرمان پورا ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوئیں ۔

{وَ قَتَلْتَ نَفْسًا:اور تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔} یہاں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گزشتہ زمانے میں  ہونے والا ایک اور واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کی قوم کے ایک کافر کو مارا تو وہ مرگیا تھا ۔ اس واقعہ پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو  اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کے غم سے نجات دی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا:اور تمہیں  اچھی طرح آزمایا۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ فُتون کا معنی ہے ایک آزمائش کے بعد دوسری آزمائش میں  مبتلا ہونا اور  اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوان آزمائشوں  سے نجات عطا فرمائی۔ ان میں  سے پہلی آزمائش تویہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ محترمہ کو اس سال حمل ہوا جس سال فرعون ہر پیدا ہونے والے بچے کو ذبح کروا دیتا تھا۔ دوسری آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں  ڈال دیا گیا۔ تیسری آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی والدہ کے سوا کسی کا دودھ قبول نہ کیا۔ چوتھی آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بچپن میں  فرعون کی داڑھی کھینچی جس کی وجہ سے اس نے آپ کوقتل کرنے کا اراد کرلیا۔ پانچویں  آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے موتی کے بدلے انگارہ منہ میں  لے لیا۔ چھٹی آزمائش یہ تھی کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ظالم قبطی (فرعونی) کو تھپڑ مار کر قتل کر دیا اور فرعون کے خوف سے آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَدْیَن کی طرف تشریف لے گئے۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ:پھر تم کئی برس مدین والوں  میں  رہے۔} مدین ، مصر سے آٹھ منزل (تقریباً 144 میل) کے فاصلہ پر ایک شہر ہے، یہاں  حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہتے تھے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر سے مدین آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اقامت فرمائی اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نکاح ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ یّٰمُوْسٰى: پھر اے موسیٰ! تم ایک مقررہ وعدے پر حاضر ہوگئے۔} یعنی اپنی عمر کے چالیسویں  سال حاضر ہو گئے اور یہ وہ سال ہے کہ اس میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی کی جاتی ہے۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۲۵۴)

{وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْ :اور میں  نے تجھے خاص اپنی ذات کیلئے بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میں  نے تجھے خاص اپنی وحی اور رسالت کے لئے بنایا تاکہ تو میرے ارادے اور میری محبت کے مطابق تَصَرُّف کرے اور میری حجت پر قائم رہے اور میرے اور میری مخلوق کے درمیان خطاب پہنچانے والا ہو۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۱

اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْ(42)اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔دونوں فرعون کی طرف جاؤ بیشک اس نے سرکشی کی ہے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ:تم اور تمہارا بھائی دونوں  میری نشانیاں  لے کر جاؤ ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ!عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم اور تمہارا بھائی میرے دئیے ہوئے معجزات اور نشانیاں  لے کر جاؤ اور ہر حال میں  میرا ذکر کرتے رہنا،تم دونوں  فرعون کے پاس جاؤ بیشک اس نے رب ہونے کا دعویٰ کر کے سرکشی کی ہے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۳،۵ / ۳۸۶-۳۸۸)

                اِس آیت سے ذکرِ الٰہی کے نہایت مرغوب و مطلوب ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مُبَلِّغ کو تبلیغ کے ساتھ ذکر ِ الٰہی کو بھی اپنا معمول رکھنا چاہیے۔

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

توتم اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا:توتم اس سے نرم بات کہنا ۔} یعنی جب تم فرعون کے پاس جاؤ تو اسے نرمی کے ساتھ نصیحت فرمانا۔ بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کے ساتھ نرمی کا حکم اس لئے تھا کہ اس نے بچپن میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت کی تھی اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ نرمی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سے وعدہ کریں  کہ اگر وہ ایمان قبول کرے گا تو تمام عمر جوان رہے گا کبھی بڑھاپا نہ آئے گا ، مرتے دم تک اس کی سلطنت باقی رہے گی ، کھانے پینے اور نکاح کی لذتیں  تادمِ مرگ باقی رہیں  گی ا ور مرنے کے بعد جنت میں  داخلہ نصیب ہو گا ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے یہ وعدے کئے تو اسے یہ بات بہت پسند آئی لیکن وہ کسی کام پر ہامان سے مشورہ لئے بغیر قطعی فیصلہ نہیں  کرتا تھا اور اس وقت ہامان موجود نہ تھا (اس لئے ا س نے کوئی فیصلہ نہ کیا) جب وہ آیا تو فرعون نے اسے یہ خبر دی اور کہا کہ میں  چاہتا ہوں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت پر ایمان قبول کر لوں ۔ یہ سن کر ہامان کہنے لگا: میں  تو تجھے عقلمند اور دانا سمجھتا تھا (لیکن یہ کیا کہ ) تو رب ہے اور بندہ بننا چاہتا ہے ، تو معبود ہے اور عابد بننے کی خواہش کرتا ہے ؟ فرعون نے کہا: تو نے ٹھیک کہا (یوں  وہ ایمان قبول کرنے سے محروم رہا)۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۴)

{لَعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى:اس امید پر کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈرجائے۔} یعنی آپ کی تعلیم اور نصیحت اس امید کے ساتھ ہونی چاہیے کہ آپ کواجر و ثواب ملے اور اس پر حجت لازم ہو جائے اور اس کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے اور حقیقت میں  ہونا تو وہی ہے جو  اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۵۵، ملتقطاً)

نرمی کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کی تبلیغ نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے اور تبلیغ کرنے والے کوچاہیے کہ وہ پیار محبت سے نصیحت کرے کیونکہ اس طریقے سے کی گئی نصیحت سے یہ امید ہوتی ہے کہ سامنے والا نصیحت قبول کر لے یا کم از کم اپنے گناہ کے معاملے میں   اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے۔ نیز یاد رہے کہ دین کی تبلیغ کے علاوہ دیگر دینی اور دُنْیَوی معاملات میں  بھی جہاں  تک ممکن ہو نرمی سے ہی کام لینا چاہئے کہ جو فائدہ نرمی کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے وہ سختی کرنے کی صورت میں  حاصل ہو جائے یہ ضروری نہیں ۔ ترغیب کے لئے یہاں  نرمی کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت جریر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص نرمی سے محروم رہاوہ بھلائی سے محروم رہا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۴(۲۵۹۲))

(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصے سے محروم رکھا گیا اسے بھلائی کے حصے سے محروم رکھا گیا۔( ترمذی، کتاب البرّ والصلۃ، باب ما جاء فی الرفق، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۲۰)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا،  اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور رِفق یعنی نرمی کو پسند فرماتا ہے اور  اللہ تعالیٰ نرمی کی وجہ سے وہ چیزیں  عطا کرتا ہے جو سختی یا کسی اور وجہ سے عطا نہیں  فرماتا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۷(۲۵۹۳))

(4)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نرمی جس چیز میں  بھی ہوتی ہے وہ اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بد صورت کر دیتی ہے۔(مسلم، کتاب البرّ الصلۃ والآادب، باب فضل الرفق، ص۱۳۹۸، الحدیث: ۷۸(۲۵۹۴))

رحمت ِالٰہی کی جھلک:

            اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جھلک بھی نظر آتی ہے کہ اپنی بارگاہ کے باغی اور سرکش کے ساتھ کس طرح اس نے نرمی فرمائی اور جب اپنے نافرمان بندے کے ساتھ اس کی نرمی کا یہ حال ہے تو اطاعت گزار اور فرمانبردار بندے کے ساتھ اس کی نرمی کیسی ہو گی۔ حضرت یحیٰ بن معاذ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت کی گئی تو آپ رونے لگے اور عرض کی : (اے اللّٰہ!) یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے کہ میں  معبود ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا حال ہو گا جو کہتاہے کہ صرف تو ہی معبود ہے اور یہ تیری اس بندے کے ساتھ نرمی ہے جو کہتا ہے: میں  تم لوگوں  کا سب سے اعلیٰ رب ہوں  تو اس بندے کے ساتھ تیری نرمی کا کیا عالَم ہو گا جو کہتا ہے :میرا وہ رب پاک ہے جو سب سے بلند ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۶۹۲)

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ اَوْ اَنْ یَّطْغٰى(45)قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰى(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! بیشک ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا سرکشی سے پیش آئے گا۔ اللہ نے فرمایا: تم ڈرو نہیں ، بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں میں سن رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَا رَبَّنَا:دونوں  نے عرض کیا: اے ہمارے رب!} جب  اللہ تعالیٰ نے موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ وحی فرمائی  اس  وقت حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر میں  تھے،  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکم دیا کہ وہ حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئیں  اور حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی کی کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملیں ، چنانچہ وہ ایک منزل (یعنی تقریباً 18 میل) چل کر آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملے اور جو وحی انہیں  ہوئی تھی اس کی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی ۔فرعون چونکہ ایک ظالم وجابر شخص تھا اس لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے ہمارے رب! بیشک ہم اس بات سے ڈرتے ہیں  کہ وہ ہمیں  رسالت کی تبلیغ کرنے سے پہلے ہی قتل کر کے ہم پر زیادتی کرے گایا مزید سرکشی پر اتر آئے گا اور تیری شان میں  نازیبا کلمات کہنے لگے گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۵۵، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۳۹۰، ملتقطاً)

مخلوق سے اِیذا کا خوف توکّل کے خلاف نہیں :

             اس سے معلوم ہوا کہ اَسباب ، مُوذی انسان اور موذی جانوروں  سے خوف کرنا شانِ نبوت اور توکل کے خلاف نہیں ۔ وہ جو کثیر آیتوں  میں  ’’لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ‘‘فرمایا گیا ہے ،وہ اس کے خلاف نہیں  کیونکہ ان آیات میں  خوف نہ ہونے سے مراد قیامت کے دن خوف نہ ہونا ہے ،یااِس سے اُس خوف کا نہ ہونا مراد ہے جو نقصان دِہ ہو اور خالق سے دور کردے، جبکہ انہیں  مخلوق کی طرف سے ایذاء پہنچنے کا خوف ہو سکتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں  ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ کسی شخص نے حضر ت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ سے کہا کہ عامر بن عبد اللہ اپنے ساتھیوں  کے ساتھ ایک مرتبہ شام کی طرف جا رہے تھے کہ ان کو پیاس لگی اور وہ ایک جگہ پانی پیناچاہتے تھے مگر پانی اور ان کے درمیان ایک شیر حائل تھا وہ پانی کی طرف گئے اور پانی پی لیا تو ان سے کسی نے کہا کہ آپ نے اپنی جان خطرہ میں  ڈالی تو عامر بن عبداللّٰہ نے کہا کہ اگر میرے پیٹ میں  نیزے گھونپ دئیے جائیں  تووہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہیں  کہ میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی سے ڈروں ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے اس شخص کوجواب دیا کہ جوشخص عامر بن عبد اللہ سے بہت افضل تھے وہ تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے غیر سے ڈرے تھے اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔(قرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۹۹، الجزء الحادی عشر)

            مراد یہ ہے کہ خوفِ خدا کا یہ مطلب نہیں  کہ آدمی دُنْیَوی مُوذی اَشیاء سے بھی نہ ڈرے ، اگر یہ مطلب ہوتا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوف کا اظہار نہ کرتے۔ البتہ یہاں  یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بعض بندگانِ خدا پر بعض اوقات بعض خاص اَحوال طاری ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے وہ اس طرح کے بے خوفی کے افعال کرتے ہیں  اور وہ احوال بھی ناپسندیدہ نہیں  ہیں  بلکہ بہت مرتبہ وہ کرامت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔

{قَالَ لَا تَخَافَا:فرمایا: تم ڈرو نہیں ۔} حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عرض کے جواب میں   اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم ڈرو نہیں ، بیشک میں  اپنی مدد کے ذریعے تمہارے ساتھ ہوں  اور میں  سب سن رہا ہوں  اور سب دیکھ بھی رہا ہوں ۔

فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْؕ-قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ-وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى(47)اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

پس تم اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں تکلیف نہ دے بیشک ہم تیرے رب کی طرف سے ایک نشانی لائے ہیں اوراس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بیشک ہماری طرف وحی ہوتی ہے کہ عذاب اس پر ہے جو جھٹلائے اور منہ پھیرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاْتِیٰهُ:پس تم اس کے پاس جاؤ ۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ تم ڈرو نہیں  اور فرعون کے پاس جاکر کہو : ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کے بھیجے ہوئے ہیں  ،لہٰذا اے فرعون ، تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں بندگی و اَسیری سے رہا کر دے اور ان سے محنت و مشقت کے سخت کام لے کر انہیں  تکلیف نہ دے۔ بیشک ہم تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے معجزات لے کر آئے ہیں  جو ہماری نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں ۔ فرعون نے کہا: وہ معجزات کیا ہیں ؟ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہاتھ روشن ہونے کا معجزہ دکھایا (اور فرمایا) جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے لئے دونوں  جہان میں  سلامتی ہے اور وہ عذاب سے محفوظ رہے گا ۔بیشک ہماری طرف وحی ہوتی ہے کہ عذاب اس پر ہے جو ہماری نبوت کو اور ان اَحکام کو جھٹلائے جو ہم لائے ہیں  اور ہماری ہدایت سے منہ پھیرے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۶۹۲، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۲۶۳، ملتقطاً)

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى(49)قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرعون بولا: اے موسیٰ ! تو تم دونوں کارب کون ہے؟ موسیٰ نے فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خاص شکل و صورت دی پھر راہ دکھائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرعون بولا۔} حضرت موسیٰ و حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب فرعون کو یہ پیغام پہنچا دیا تو وہ بولا : اے موسیٰ ! تو تم دونوں  کارب کون ہے جس نے تمہیں  بھیجا ہے؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ  وہ ہے جس نے محض اپنی رحمت سے ہر چیز کو اس کی خاص شکل و صورت دی ،جیسا کہ ہاتھ کو اس کے لائق ایسی شکل دی کہ وہ کسی چیز کو پکڑ سکے ، پاؤں  کو اس کے قابل کہ وہ چل سکے ، زبان کو اس کے مناسب کہ وہ بول سکے ، آنکھ کو اس کے موافق کہ وہ دیکھ سکے اور کان کو ایسی شکل و صورت دی کہ وہ سن سکے ، پھر راہ دکھائی اور اس کی معرفت دی کہ دنیا کی زندگانی اور آخرت کی سعادت کے لئے  اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں  کو کس طرح کام میں  لایا جائے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ص۶۹۲-۶۹۳، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۵ / ۳۹۴، ملتقطاً)

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرعون بولا: پہلی قوموں کا کیا حال ہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرعون بولا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت اور اس کے رب عَزَّوَجَلَّ ہونے پر اتنی واضح دلیل دی توفرعون گھبرا گیا اور اس کواپنی خود ساختہ خدائی تباہ ہوتی نظر آئی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی توجہ بدلنے کے لیے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کودوسری باتوں  میں  الجھانے لگا اور کہنے لگا کہ جو پہلی قومیں  گزر چکی ہیں  مثلاً قومِ عاد، قومِ ثمودوغیرہ اور وہ بتوں  کوپوجتی تھیں  اور مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کی منکر تھیں  ان کا کیا ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۵۵)

قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ كِتٰبٍۚ-لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} فرعون کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: پہلی قوموں  کے حال کا علم میرے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ایک کتاب لَوحِ محفوظ میں  ہے جس میں  ان کے تمام اَحوال لکھے ہوئے ہیں  اور قیامت کے دن انہیں  ان اعمال پر جزا دی جائے گی ۔

         یہاں  یہ بات ذہن میں  رہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو جواب دیا کہ اس کاعلم لوحِ محفوظ میں  ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کوگذشتہ قوموں  کے حالات معلوم نہ تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوتبلیغ ِدین سے نہ پھیر سکے ۔ مزید فرمایا کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ گویا فرمایا کہ تمام اَحوال کا لوحِ محفوظ میں  لکھنا، اس لئے نہیں  کہ رب تعالیٰ کے بھولنے بہکنے کا اندیشہ ہے بلکہ یہ تحریر اپنی دوسری حکمتوں  کی وجہ سے ہے جیسے فرشتوں  اور اپنے محبوب بندوں  کو اطلاع دینے کیلئے ہے جن کی نظر لوحِ محفوظ پر ہے۔

الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ سَلَكَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًؕ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے آسان کردئیے اور آسمان سے پانی نازل فرمایا تو ہم نے اس سے مختلف قسم کی نباتات کے جوڑے نکالے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا:وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا تاکہ تمہارے لئے اس پر زندگی بسر کرنا ممکن ہو اور تمہارے لیے اس میں  راستے آسان کردیے تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں  تمہیں  آسانی ہو اوراس نے آسمان سے پانی نازل فرمایا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام تو یہاں  پورا ہو گیا اب اس کلام کو مکمل کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ اہلِ مکہ کو خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اے اہلِ مکہ !تو ہم نے اس پانی سے مختلف قسم کی نباتات کے جوڑے نکالے جن کے رنگ،خوشبوئیں  اور شکلیں  مختلف ہیں  اور ان میں  سے بعض آدمیوں  کے لئے ہیں  اور بعض جانوروں  کے لئے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۵۶، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۲۶۳)

كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ، بیشک اس میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ:تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں  کو چراؤ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے جو یہ نباتات نکالی ہیں ، ان میں  سے تم خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں  کو بھی چراؤ۔ یاد رہے کہ اس آیت میں  جو حکم دیا گیا ہے یہ اِباحت اور  اللہ تعالیٰ کی نعمت یاد دلانے کے لئے ہے یعنی ہم نے یہ نباتات تمہارے لئے اس طور پر نکالی ہیں  کہ انہیں  کھانا اور اپنے جانوروں  کو چَرانا تمہارے لئے مباح و جائز ہے۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۶۹۳)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى:بیشک اس میں  عقل والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں ۔} یعنی زمین کو بچھونا بنانے، اس میں  سفر کے لئے راستوں  کو آسان کرنے، آسمان سے پانی نازل کرنے اور زمین سے مختلف اَقسام کی نباتات اگانے میں  عقل رکھنے والے لوگوں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کے صانع ہونے، اس کی وحدت، اس کی عظیم قدرت اور اس کی ظاہر و باہر حکمت پر دلالت کرنے والی کثیر، واضح اور عظیم نشانیاں  ہیں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۵ / ۳۹۶)

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ:ہم نے زمین ہی سے تمہیں  بنایا ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے جد ِاعلیٰ ،حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین سے پیدا کر کے تمہیں  اس سے ہی بنایا اور تمہاری موت اور دفن کے وقت اسی زمین میں  تمہیں  پھر لوٹائیں  گے اور قیامت کے دن اسی زمین سے تمہیں  دوبارہ نکالیں  گے۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۲۶۳)

میت کی تدفین کے بعد ایک مُسْتحب عمل:

         یہاں  ایک بات یاد رہے کہ جب کسی مسلمان کو انتقال کے بعد دفن کر دیا جائے اور اس کی قبر پرتختے لگانے کے بعد مٹی دی جائے تو اس وقت مستحب یہ ہے کہ ا س کے سرہانے کی طرف دونوں  ہاتھوں  سے تین بار مٹی ڈالیں ۔ پہلی بار کہیں ’’مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ‘‘ دوسری بار ’’ وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ‘‘ اورتیسری بار ’’ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى‘‘ کہیں۔( عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس، ۱ / ۱۶۶)

وَ لَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى(56)قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰى(57)فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَاۤ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے اس کواپنی سب نشانیاں دکھائیں تو اس نے جھٹلایا اور نہ مانا ۔ کہنے لگا: اے موسیٰ! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے ذریعے ہماری سرزمین سے نکال دو۔ تو ضرور ہم بھی تمہارے آگے ویسا ہی جادو لائیں گے تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک وعدہ مقرر کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں اور نہ تم۔ایسی جگہ جو برابر فاصلے پر ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَرَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا كُلَّهَا:اور بیشک ہم نے اس کواپنی سب نشانیاں  دکھائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے فرعون کو وہ تمام نو نشانیاں  دکھا دیں  جو  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی تھیں  تو اس نے انہیں  جھٹلایا اور نہ مانا اور ان نشانیوں  کو جادو بتایا اور حق قبول کرنے سے انکار کیا اور کہنے لگا: اے موسیٰ! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں  اپنے جادو کے ذریعے ہماری سرزمین مصرسے نکال کر خود اس پر قبضہ کرلو اور بادشاہ بن جاؤ۔ تو ضرور ہم بھی تمہارے آگے ویسا ہی جادو لائیں  گے اور جادو میں  ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا تو ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت اور جگہ مقرر کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں  اور نہ تم اور وہ جگہ ہموار ہو اور اس میں  دونوں  فریقین کے درمیان برابر فاصلہ ہو تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مقابلہ دیکھ سکیں ۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۸، ۳ / ۲۵۶، مدارک، ، طہ، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۸، ص۶۹۴، ملتقطاً)

            فرعون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر سمجھ تو گیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر ہیں  اور جادوگر نہیں  ہیں  کیونکہ اس کے ملک میں  اس سے پہلے بھی کئی جادوگر موجود تھے جو خود اس کے ماتحت تھے اور کسی نے بھی کبھی ایسی بات نہ کی تھی لیکن پھر بھی اس نے کوشش کی کہ کسی طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست ہوجائے اور اس کی سلطنت بچ جائے۔

قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:موسیٰ نے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور اس دن یہ بھی ہونا چاہئے کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں  تاکہ خوب روشنی پھیل جائے اور دیکھنے والے اطمینان کے ساتھ دیکھ سکیں  اور انہیں  ہر چیز صاف صاف نظر آئے ۔ اس آیت میں  جس میلے کا ذکر ہوا اس سے فرعونیوں  کا وہ میلہ مراد ہے جو ان کی عید تھی اور اس میں  وہ بہت سج سنور کر جمع ہوتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ وہ دن عاشوراء یعنی دسویں  محرم کا تھا۔ اس سال یہ تاریخ ہفتے کے دن واقع ہوئی تھی اور اس دن کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے معین فرمایا کہ یہ دن ان کی انتہائی شوکت کا دن تھا اور اسے مقرر کرنے میں  اپنی قوت کے کمال کا اظہار ہے، نیز اس میں  یہ بھی حکمت تھی کہ حق کا ظہور اور باطل کی رسوائی کے لئے ایسا ہی وقت مناسب ہے جب کہ اَطراف و جوانب کے تمام لوگ اکھٹے ہوں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۵۶-۲۵۷، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۶۹۴، جمل، طہ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۵ / ۸۰، ملتقطاً)

کفار کے میلے میں  جانے کا شرعی حکم:

         اس سے معلوم ہوا کہ شرعی ضرورت کے وقت مسلمان کو کفا رکے میلے میں  جانا جائز ہے جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مقابلہ کے لئے کفار کے میلہ میں  گئے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت شکنی کے لئے بت خانہ میں  گئے۔ اور شرعی ضرورت کے علاوہ تجارت یاکسی اور غرض سے جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ میلہ کفار کا مذہبی ہے جس میں  جمع ہوکر اعلانِ کفر اور شرکیہ رسمیں  ادا کریں  تو تجارت کی غرض سے بھی جانا ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہر صغیرہ اِصرار سے کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اور اگر وہ مجمع کفار کا مذہبی نہیں  بلکہ صرف لہوولعب کامیلہ ہے تو محض تجارت کی غرض سے جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں  جبکہ یہ کسی گناہ کی طرف نہ لے جاتا ہو۔ پھر بھی کراہت سے خالی نہیں  کہ وہ لوگ ہروقت مَعَاذَ اللہ لعنت اترنے کامحل ہیں  اس لئے اُن سے دوری ہی بہتر ہے۔۔۔نیز یہ جواز بھی اُسی صورت میں  ہے کہ اسے وہاں  جانے میں  کسی معصیت کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اس جلسے سے دور اور لاتعلق علاقے میں  جگہ نہ ہو تو یہ جانا معصیت کو مستلزم ہوگا اور ہر وہ چیز جو معصیت کومستلزم ہووہ معصیت ہوتی ہے اور یہ جانا محض تجارت کی غرض سے ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت سے کیونکہ اس نیت سے جانا مطلقاً ممنوع ہے اگرچہ وہ مجمع غیرمذہبی ہو۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۲۳-۵۲۶،ملخصاً)

فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَیْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى(60)قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍۚ-وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو فرعون منہ پھیر کر چلا گیا تو اپنے مکروفریب کو جمع کرنے لگا پھر آیا ۔ان سے موسیٰ نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو ، تم اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کردے گا اور بیشک وہ ناکام ہوا جس نے جھوٹ باندھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ:تو فرعون منہ پھیر کر چلا گیا۔} جب مقابلہ کادن طے ہوگیا تو فرعون منہ پھیر کر چلا گیا اور اس نے مقابلے کے لیے کثیر تعداد میں  جادوگروں  کوجمع کیا اور انہیں  طرح طرح کے انعامات کا لالچ دیا حتّٰی کہ انہیں  اپنا مُقرب بنانے کا وعدہ کیا ۔ اس کے بعد پھر بڑی شان وشوکت کے ساتھ اپنی فوج کولے کر وعدے کے دن میدان میں  پہنچ گیا۔

{قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ:ان سے موسیٰ نے فرمایا: تمہاری خرابی ہو۔} جب فرعون اور اس کے جمع کردہ جادو گر مقابلہ کے لیے پہنچ گئے توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان جادو گروں  سے فرمایا ’’ تمہاری خرابی ہو ، تم کسی کو  اللہ تعالیٰ کا شریک کر کے اس پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ وہ تمہیں  اپنے پاس موجود عذاب سے ہلاک کردے گا اور بیشک وہ ناکام ہوا جس نے  اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا۔( جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۲۶۳-۲۶۴)

فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰى(62)قَالُـوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ یَذْهَبَا بِطَرِیْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى(63)فَاَجْمِعُوْا كَیْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّاۚ-وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ اپنے معاملہ میں باہم مختلف ہوگئے اور انہوں نے چھپ کر مشورہ کیا۔ کہنے لگے: بیشک یہ دونوں یقینا جادوگر ہیں ، یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سرزمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں اور تمہارا بہت شرف و بزرگی والا دین لے جائیں ۔ تو تم اپنا داؤ جمع کرلو پھر صف باندھ کر آ جاؤ اور بیشک آج وہی کامیاب ہوگا جو غالب آئے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ:تو وہ اپنے معاملہ میں  باہم مختلف ہوگئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادوگروں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ کلام سنا تو آپس میں  ان کا اختلاف ہو گیا ، بعض کہنے لگے کہ یہ بھی ہماری طرح جادوگر ہیں  ، بعض نے کہا کہ یہ باتیں  جادوگروں  کی ہیں  ہی نہیں  ، کیونکہ وہ  اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے منع کررہے ہیں  ۔ انہوں  نے چھپ کر مشورہ کیا تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معلوم نہ چلے اور ا س مشورے میں  بعض جادو گر دوسروں  سے کہنے لگے: بیشک حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں  یقینا جادوگر ہیں  ، یہ چاہتے ہیں  کہ اپنے جادوکے زور سے تم پر غالب آ کر تمہیں  تمہاری سرزمین مصر سے نکال دیں  اور تمہارا بہت شرف و بزرگی والا دین لے جائیں  ۔تو تم اپنے لائے ہوئے جا دو کے تمام داؤ جمع کرلو پھر صف باندھ کر آ جاؤ تاکہ تمہاری ہیبت زیادہ ہو اور بیشک آج وہی کامیاب ہوگا جو غالب آئے گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۴، ۵ / ۴۰۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۶۲-۶۴، ۳ / ۲۵۷، ملتقطاً)

قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰى(65)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: اے موسیٰ ! یا تم (عصا نیچے) ڈالو یا ہم پہلے ڈالتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا یٰمُوْسٰى:انہوں  نے کہا اے موسیٰ!} جب جادو گروں  نے صف بندی کر لی تو انہوں  نے کہا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ پہلے اپنا عصا زمین پر ڈالیں  گے یاہم پہلے اپنے سامان ڈال دیں  ۔ جادوگروں  نے ادب کی وجہ سے مقابلے کی ابتداء کرنا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رائے مبارک پر چھوڑا اور اس کی برکت سے آخر کار  اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کی دولت سے مشرف فرما دیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۹۵)

قَالَ بَلْ اَلْقُوْاۚ-فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى(66)فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى(67)قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا: بلکہ تمہی ڈالو تواچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کے خیال میں یوں لگیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں ۔ تو موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ توہم نے فرمایا: ڈرو نہیں بیشک تم ہی غالب ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ بَلْ اَلْقُوْا:موسیٰ نے فرمایا: بلکہ تمہی ڈالو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو گروں  سے یہ اس لئے فرمایا کہ اُن کے پاس جو کچھ جادو کے مکر و حیلے ہیں  پہلے وہ سب ظاہر کرلیں  اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنا معجزہ دکھائیں  اور جب حق باطل کو مٹائے اور معجزہ جادو کو باطل کردے تو دیکھنے والوں  کو بصیرت و عبرت حاصل ہو۔ چنانچہ جادوگروں  نے رسیاں  لاٹھیاں  وغیرہ جو سامان وہ لائے تھے سب ڈال دیا اور لوگوں  کی نظر بندی کر دی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ زمین سانپوں  سے بھر گئی اور میلوں  کے میدان میں  سانپ ہی سانپ دوڑ رہے ہیں  اور دیکھنے والے اس باطل نظر بندی سے مَسحور ہو گئے، اور کہیں  ایسا نہ ہو کہ بعض لوگ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی اس نظر بندی کے گرویدہ ہو جائیں  اور معجزہ نہ دیکھیں  ،اس وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے دل میں  قوم کے حوالے سے خوف محسوس کیا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انسانی فطرت کے مطابق اپنے دل میں  اس بات کا خوف محسوس کیا کہ  کہیں  وہ سانپ ان کی طرف ہی نہ آ جائیں ۔  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: تم ڈرو نہیں  ،بے شک تم ہی ان پر غالب آؤ گے اور تمہیں  ہی ان پر غلبہ و کامیابی نصیب ہو گی۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۸، ص۶۹۵-۶۹۶، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۸، ۳ / ۲۵۷-۲۵۸، ملتقطاً)

وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْاؕ-اِنَّمَا صَنَعُوْا كَیْدُ سٰحِرٍؕ-وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰى(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم بھی اسے ڈال دو جو تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے وہ ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو نگل جائے گا۔ بیشک جو انہوں نے بنایا ہے وہ تو صرف جادوگروں کا مکروفریب ہے اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آجائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِكَ:اور تم بھی اسے ڈال دو جو تمہارے دائیں  ہاتھ میں  ہے۔}  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم ان کی رسیوں  لاٹھیوں  کی کثرت کی پرواہ نہ کرو اور تم بھی اپنا وہ عصا ڈال دو جو تمہارے دائیں  ہاتھ میں  ہے، وہ ان کی بنائی ہوئی چیزوں  کو نگل جائے گا۔ بیشک جو انہوں  نے بنایا ہے وہ تو صرف جادوگروں  کا مکر وفریب ہے اور جادوگر کامیاب نہیں  ہوتا جہاں  بھی آجائے۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ جادوگروں  کے تمام اژدہوں  اور سانپوں  کو نگل گیا اور آدمی اس کے خوف سے گھبرا گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو پہلے کی طرح عصا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر جادوگروں  کو یقین ہوگیا کہ یہ معجزہ ہے جس سے جادو مقابلہ نہیں  کر سکتا اور جادو کی فریب کاری اس کے سامنے قائم نہیں  رہ سکتی۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۶۹۶، تفسیر کبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۷۴-۷۵، ملتقطاً)

فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُـوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو سب جادوگر سجدے میں گرا دئیے گئے، وہ کہنے لگے: ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا:تو سب جادوگر سجدے میں  گرا دئیے گئے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامعجزہ دیکھ کر جاد وگر اتنی تیزی سے سجدے میں  گئے کہ اس سے یوں  محسوس ہوا جیسے انہیں  پکڑ کر سجدے میں  گرا دیا گیا ہو، پھروہ کہنے لگے کہ ہم حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لائے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ! کیا عجیب حال تھا کہ جن لوگوں  نے ابھی کفر و انکار اور سرکشی کے لئے رسیاں  اور لاٹھیاں  ڈالی تھیں ، ابھی معجزہ دیکھ کر انہوں  نے شکر و سجود کے لئے اپنے سر جھکا دیئے اور اپنی گردنیں  ڈال دیں  ۔ منقول ہے کہ اس سجدے میں  انہیں  جنت اور دوزخ دکھائی گئی اور انہوں  نے جنت میں  اپنے منازل دیکھ لئے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۹۶)

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرعون بولا: کیا تم اس پر ایمان لائے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں ، بیشک وہ تمہارا بڑاہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا تو مجھے قسم ہے میں ضرورتمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دیدوں گااور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب زیادہ شدید اورزیادہ باقی رہنے والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ:فرعون بولا: کیا تم اس پر ایمان لائے۔} فرعون نے جادو گروں  کے ایمان لانے کا منظر دیکھ کرانہیں  ڈانٹتے ہوئے کہا: کیا تم میری اجازت ملنے سے پہلے ہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے ہو! بیشک وہ جادو میں  استادِ کامل اور تم سب سے فائق ہے اور اس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے ، (اور سورۂ اَعراف میں  یہ بھی ہے کہ فرعون نے کہا کہ یہ تم سب کی سازش ہے جو تم نے میرے خلاف بنائی ہے تاکہ یہاں  کے رہنے والوں  کو اِس سرزمین سے نکال دو) تو مجھے قسم ہے، میں  ضرور تمہارے دائیں  طرف کے ہاتھ اور بائیں  طرف کے پاؤں  کاٹ دوں  گا اور تمہیں  کھجور کے تنوں  پر پھانسی دیدوں  گا اور اس وقت ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں  کس کا عذاب زیادہ شدید اور زیادہ باقی رہنے والاہے ۔اس سے فرعون ملعون کی مراد یہ تھی کہ اس کا عذاب سخت تر ہے یا ربُّ العالَمین کا عذاب زیادہ سخت ہے۔

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍؕ-اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاﭤ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: ہم ان روشن دلیلوں پر ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں گے جو ہمارے پاس آئی ہیں ۔ ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ! تو تُوجو کرنے والا ہے کر لے۔ تو اس دنیا کی زندگی میں ہی توکرے گا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} فرعون کا یہ مُتکبّرانہ کلمہ سن کر ان جادوگروں  نے کہا: ہم ان روشن دلیلوں  پر ہرگز تجھے ترجیح نہ دیں  گے جو ہمارے پاس آئی ہیں ۔ روشن دلیلوں  کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک ان سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا روشن ہاتھ اور عصا مراد ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جادو گروں  کا اِستدلال یہ تھا : اگر تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزہ کو بھی جادو کہتا ہے تو بتا وہ رسّے اور لاٹھیاں  کہاں  گئیں  اور بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ روشن دلیلوں  سے مراد جنت اور اس میں  اپنی مَنازل کا دیکھنا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۲۵۸)

{وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا:ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم !} جادوگروں  نے فرعون سے کہا کہ ہمیں  اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ! تو جو کرنے والا ہے کر لے ہمیں  اس کی کچھ پرواہ نہیں  اور تو ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کرے گا اس دنیا کی زندگی میں  ہی توکرے گا ، اس سے آگے تو تیری کچھ مجال نہیں  اور دنیا کا حال تو یہ ہے کہ وہ زائل اور یہاں  کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اگر تو ہم پر مہربان بھی ہو تو ہمیں  ہمیشہ کے لئے بقا نہیں  دے سکتا، پھر دنیا کی زندگانی اور اس کی راحتوں  کے زوال کا کیا غم، خاص طور پر اسے جو جانتا ہے کہ آخرت میں  دنیا کے اعمال کی جزا ملے گی۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۸ / ۷۷-۷۸)

            اس آیت میں  بیان ہو اکہ جادوگروں  نے مومن ہو کر فرعون سے کہہ دیا کہ جو ہو سکے تو کرلے ہمیں  اس کی پرواہ نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں  جرأت ہوتی ہے اور وہ ایمان لانے کی صورت میں  مخلوق کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کی پرواہ نہیں  کرتا۔ اس سے واضح ہوا کہ قادیانی کا نبی ہونا تو بڑی دور کی بات وہ تو مومن بھی نہیں  تھا کیونکہ وہ لوگوں  سے اتنا ڈرتا تھا کہ ان کے خوف کی وجہ سے حج ہی نہ کر سکا۔

اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(73)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں اور وہ جادو بخش دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا اور اللہ بہتر ہے اور سب سے زیادہ باقی رہنے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا:بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے۔} جادوگروں  نے کہا کہ بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّپر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں  بخش دے اور وہ جادو بھی جس پر تو نے ہمیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں  مجبور کیا تھا ۔اور اگر ہم  اللہ تعالیٰ کی طاعت کریں  تو وہ تیرے مقابلے میں  فرمانبرداروں  کو ثواب دینے میں  بہتر ہے اور اگر ہم اس کی نافرمانی کریں  تو وہ نافرمانوں  پر عذاب کرنے کے لحاظ سے سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

             فرعون نے جادوگروں  کو جو جادو پر مجبور کیا تھا اس کے بارے میں  بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون نے جب جادوگروں  کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بلایا تو جادوگروں  نے فرعون سے کہا تھا کہ ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں  ،چنانچہ اس کی کوشش کی گئی اور انہیں  ایسا موقع فراہم کر دیا گیا ، انہوں  نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خواب میں  ہیں  اور عصاء شریف پہرہ دے رہا ہے۔ یہ دیکھ کر جادوگروں  نے فرعون سے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جادوگر نہیں ، کیونکہ جادوگر جب سوتا ہے تو اس وقت اس کا جادو کام نہیں  کرتا مگر فرعون نے انہیں  جادو کرنے پر مجبور کیا ۔ اس کی مغفرت کے وہ جادوگر  اللہ تعالیٰ سے طالب اور امیدوار ہیں ۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۲۵۹)

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَؕ-لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَ لَا یَحْیٰى(74)وَ مَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰى(75)جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰى(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جو اپنے رب کے حضور مجرم ہوکر آئے گاتو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ (ہی چین سے)زندہ رہے گا۔ اور جو اس کے حضور ایمان والا ہوکر آئے گاکہ اس نے نیک اعمال کئے ہوں تو ان کیلئے بلند درجات ہیں ۔ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ،ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا:بیشک جو اپنے رب کے حضور مجرم ہوکر آئے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ یہ جادو گروں  کے کلام کا حصہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں  سے  اللہ تعالیٰ کا کلام شروع ہو رہا ہے، اور ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور فرعون کی طرح کافر ہوکر آئے گا تو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں  نہ مرے گا کہ مرکر ہی اس سے چھوٹ سکے اور نہ ہی اس طرح زندہ رہے گا جس سے کچھ نفع اٹھا سکے اور جن کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہو اور انہوں  نے اپنی زندگی میں  نیک عمل کئے ہوں  ، فرائض اور نوافل بجا لائے ہوں  تو ان کیلئے بلند درجات ہیں  اور وہ درجات ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں  جن کے نیچے نہریں  جاری ہیں ، ہمیشہ ان میں  رہیں  گے اور یہ اس کی جزا ہے جو کفر کی نجاست اور گناہوں  کی گندگی سے پاک ہوا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۲۵۹)

{فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰى:تو ان کیلئے بلند درجات ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے نیک اعمال کئے ان کے لئے بلند درجات ہیں ۔ بلند درجات والوں  کے مقام کے بارے میں  سننِ ترمذی اورا بنِ ماجہ میں  حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’بلند درجات والوں  کو نچلے درجات والے ایسے دیکھیں  گے جیسے تم اُفق میں  طلوع ہونے والے ستاروں  کو دیکھتے ہو۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا ان میں  سے ہیں  اوریہ اسی کے اہل ہیں ۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی  اللہ عنہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۷۲، الحدیث: ۳۶۷۸)

{وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰى:اور یہ اس کی جزا ہے جو پاک ہوا۔} اس آیتِ مبارکہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر عقلمند کو چاہئے کہ اگر وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہے تو وہ  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار کر کے اور اسلام کے بیان کردہ عقائد اختیار کر کے کفر و شرک کی نجاست سے فوری طور پر پاک ہو جائے اور اس کے بعد خود کوگناہوں  کی گندگی سے پاک صاف رکھے، یونہی ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تمام گناہوں ، مذموم نَفسانی اَخلاق اور برے شیطانی اَوصاف سے خود کو پاک کرے تاکہ قیامت کے دن اسے  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ ملے اور اس کے فضل وکرم کے صدقے جنت میں  بلند درجات نصیب ہوں ۔

         اے  اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہمارے تمام گناہوں  اور ساری خطاؤں  کو معاف فرما، ہمیں  گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مَرحمت فرما، ہماری زندگی اور موت دونوں  کو بہتر فرما، دینِ اسلام پر ہمیں  ثابت قدمی نصیب فرما، حشر کے دن ہمیں  اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت اور ان کے صدقے میزانِ عمل اور پل صراط پر آسانی عطا فرما اور ہم تیرے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے تجھ سے جنت ،اس میں  بلند درجات اور تیرے حبیب  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس مانگتے ہیں ،اے  اللہ !عَزَّوَجَلَّ، اپنی رحمت اور فضل و کرم کے صدقے ہمیں  یہ عطا فرما۔اٰمین۔

وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى ﳔ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًاۙ-لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چلو اور ان کے لیے دریا میں خشک راستہ نکال دو۔ تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون پکڑ لے اور نہ تجھے خطرہ ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى:اور بیشک ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر فرعون راہ پر نہ آیا اور اس نے نصیحت حاصل نہ کی اور وہ بنی اسرائیل پر پہلے سے زیادہ ظلم و ستم کرنے لگا تو  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ راتوں  رات میرے بندوں  کو مصر سے لے چلو اور جب آپ لوگ دریا کے کنارے پہنچیں  اور فرعونی لشکر پیچھے سے آئے تو اندیشہ نہ کرنا اور ان کے لیے اپنا عصا مار کر دریا میں  خشک راستہ نکال دو۔ تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون پکڑ لے اور نہ تجھے دریا میں  غرق ہونے کا خطرہ ہوگا۔( ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۴۷۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۶۹۸، ملتقطاً)

فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْﭤ(78)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے چل پڑا تو انہیں دریا نے ڈھانپ لیا جیساانہیں ڈھانپ لیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ:تو فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے چل پڑا ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کا حکم پا کررات کے پہلے وقت میں  بنی اسرائیل کو اپنے ہمراہ لے کر مصر سے روانہ ہو گئے تو فرعون قبطیوں  کا لشکر لے کر ان کے پیچھے چل پڑا اور جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریا میں  بنے ہوئے راستوں  میں  داخل ہوگیا تو انہیں  دریا نے اس طرح ڈھانپ لیا اور اس کا پانی ان کے سروں  سے اس طرح اونچا ہو گیا جس کی حقیقت  اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، یوں  فرعون اور اس کا لشکر غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کے ساتھ فرعون کے ظلم و ستم اور دریا میں  ڈوبنے سے نجات پا گئے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۹۸، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۲۵۹، ملتقطاً)

وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَ مَا هَدٰى(79)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور راہ نہ دکھائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ:اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا۔} یعنی فرعون نے اپنی قوم کو ایسا راستہ دکھایا جس پر چل کر وہ دین اور دنیا دونوں  میں  نقصان اٹھا گئے کہ کفر کی وجہ سے وہ دنیا میں  ہولناک عذاب میں  مبتلا ہو کر مر گئے اور اب وہ آخرت کے اَبدی عذاب کا سامنا کر رہے ہیں  اور فرعون نے اپنی قوم کو کبھی ایسا راستہ نہ دکھایا جس پر چل کر وہ دین اور دنیا کی بھلائیوں  تک پہنچ جاتے۔(ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۷۹،  ۳ / ۴۸۰)

         اس سے معلوم ہو ا کہ قوم کے دینی اور دُنْیَوی نقصان یا بھلائی میں  قوم کے سربراہ اور حکمران کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے، اگر یہ سدھر جائے تو قوم دنیا میں  بھی حقیقی کامیابی پا سکتی ہے اور آخرت میں  بھی حقیقی فلاح سے سرفراز ہو سکتی ہے اور اگر یہ بگڑ جائے تو قوم دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے بے پناہ نقصان اٹھاتی ہے ۔

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَ وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى(80)كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبِیْۚ-وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰى(81)وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے بنی اسرائیل! بیشک ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تمہارے ساتھ کوہِ طور کی دائیں جانب کا وعدہ کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔ جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترآئے اور جس پر میرا غضب اترآیا توبیشک وہ گرگیا۔ اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل!} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور ا س کی قوم کے غرق ہونے کے بعد  اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اے بنی اسرائیل! بیشک ہم نے تمہیں  تمہارے دشمن فرعون اور ا س کی قوم سے نجات دی جو تمہارے بیٹوں  کو ذبح کرتے ،بیٹیوں  کو زندہ رکھتے اور تم سے انتہائی محنت و مشقت والے کام لیتے تھے، اور ہم نے اپنے نبی عَلَیْہِ  السَّلَام کے ذریعے تمہارے ساتھ کوہِ طور کی دائیں  جانب کا وعدہ کیا کہ ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وہاں  توریت عطا فرمائیں  گے جس پر عمل کیا جائے اور ہم نے تم پر تیہ کے میدان میں  مَنّ و سَلْویٰ اتارا اور فرمایا ’’ ہم نے جو پاکیزہ رزق تمہیں  دیا ہے اس میں  سے کھاؤ اور اس میں  ناشکری اور نعمت کا انکار کر کے اور ان نعمتوں  کو مَعاصی اور گناہوں  میں  خرچ کر کے یا ایک دوسرے پرظلم کر کے زیادتی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب اتر آئے گااور جس پر میرا غضب اتر آیا توبیشک وہ جہنم میں  گرگیا اور ہلاک ہوا اور بیشک میں  اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں  جس نے شرک سے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر آخری دم تک ہدایت پر رہا۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۵ / ۴۱۰-۴۱۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ۳ / ۲۵۹-۲۶۰، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۰-۸۲، ص۶۹۸-۶۹۹، ملتقطاً)

توبہ کی اہمیت اور ا س کی قبولیت:

         اس سے معلوم ہوا کہ توبہ ایسی اہم ترین چیز ہے جس سے بندہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور مغفرت کا پروانہ حاصل کر سکتا ہے ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :جان لو کہ توبہ صابن کی طرح ہے تو جس طرح صابن ظاہری میل کچیل کو دور کر دیتا ہے اسی طرح توبہ باطنی یعنی گناہوں  کے میل اور گندگیوں  کو صاف کر دیتی ہے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۴۱۲)البتہ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ وہی توبہ مقبول اور فائدہ مند ہے جو سچی ہو اور سچی توبہ اپنے گناہ کا اقرار کرنے ، اس پر نادم و شرمسار ہونے اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کے پختہ ارادے کا نام ہے اور جو لوگ فقط زبان سے توبہ کے الفاظ دہرا لینے یا ہاتھ سے توبہ توبہ کے اشارے کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں  تو وہ یاد رکھیں  کہ یہ حقیقی توبہ نہیں  ہے۔

وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(83)قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤى اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى(84)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے کس چیز نے جلدی میں مبتلا کردیا؟ عرض کی :وہ یہ میرے پیچھے ہیں اور اے میرے رب !میں نے تیری طرف اس لئے جلدی کی تاکہ تو راضی ہوجائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ:اور تجھے کس چیز نے جلدی میں  مبتلا کردیا؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب اپنی قوم میں  سے ستر آدمیوں  کو منتخب کر کے توریت شریف لینے کوہِ طور پر تشریف لے گئے، پھر  اللہ تعالیٰ سے کلام کے شوق میں  ان آدمیوں  سے آگے بڑھ گئے اور انہیں  پیچھے چھوڑتے ہوئے فرمایا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ ، تواس پر  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تجھے اپنی قوم سے کس چیز نے جلدی میں  مبتلا کردیا؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :وہ یہ میرے پیچھے ہیں  اور اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  نے تیری طرف اس لئے جلدی کی تاکہ تیرے حکم کو پورا کرنے میں  میری جلدی دیکھ کر تیری رضا اور زیادہ ہو۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ص۶۹۹، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۴، ۵ / ۴۱۲، ملتقطاً)

کلیم اور حبیب کی رضا میں  فرق:

            یہاں  ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  بتایا کہ ’’ انہوں  نے خدا کی رضاچاہی ‘‘ اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے اور مقامات پر بتایا: خدا نے ان کی رضا چاہی۔ چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا‘‘(بقرہ:۱۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ضرور ہم تمہیں  اس قبلہ کی طرف پھیر دیں  گے جس میں  تمہاری خوشی ہے۔

اور ارشاد فرماتا ہے

’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘(والضحی:۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں  اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔

            اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس میں  اضافہ کرنے کیلئے کوشاں  ہیں  جبکہ  اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا چاہ رہاہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کیا خوب فرماتے ہیں :

خدا کی رضا چاہتے ہیں  دو عالَم

خدا چاہتا ہے رضائے محمد

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَ اَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّ(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا، تو ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:فرمایا۔}  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ!عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم نے تیرے پہاڑ کی طرف آنے کے بعد تیری قوم جنہیں  آپ نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ چھوڑا ہے کو آزمائش میں  ڈال دیا اور سامری نے انہیں  بچھڑا پوجنے کی دعوت دے کر گمراہ کردیا ہے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۴۱۳، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)

سبب کی طرف نسبت کرنا جائز ہے:

         اس آیت میں اِضلال یعنی گمراہ کرنے کی نسبت سامری کی طرف فرمائی گئی کیونکہ وہ اس کا سبب اور باعث بنا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کو اس کے سبب کی طرف منسوب کرنا جائز ہے، اسی طرح یوں  کہہ سکتے ہیں  کہ ماں  باپ نے پرورش کی ، دینی پیشواؤں  نے ہدایت کی ، اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ  نے حاجت روائی فرمائی اور بزرگوں  نے بلا دفع کی ۔

فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ﳛ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا۬ؕ-اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ(86)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف غضبناک ہوکر افسوس کرتے ہوئے لوٹے (اور) فرمایا: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہ کیا تھا؟ کیا مدت تم پر لمبی ہوگئی تھی یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اتر آئے؟ پس تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ:تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف لوٹے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چالیس دن پورے کئے اور وہیں   اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا گیا کہ تمہاری قوم گمراہی میں  مبتلا ہوگئی ہے ۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت لے کر اپنی قوم کی طرف غضبناک ہوکر لوٹے اوران کے حال پر افسوس کرتے ہوئے فرمانے لگے: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے تم سے اچھا وعدہ نہ کیا تھا کہ وہ تمہیں  توریت عطا فرمائے گا جس میں  ہدایت ہے، نور ہے ، ہزار سورتیں  ہیں  اور ہر سورت میں  ہزار آیتیں  ہیں  ؟ کیا میرے تم سے جدا ہونے کی مدت تم پر لمبی ہوگئی تھی یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب اتر آئے؟ پس تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی اور ایسا ناقص کام کیا ہے کہ بچھڑے کو پوجنے لگے ، تمہارا وعدہ تو مجھ سے یہ تھا کہ میرے حکم کی اطاعت کرو گے اور میرے دین پر قائم رہو گے۔(مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۶۹۹، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)

  اللہ تعالیٰ کے لئے راضی یا ناراض ہونا چاہئے:

         علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی دیکھ کر  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نافرمانی کرنے والے پر غصہ ہونا اور اس کے حال پر افسوس کا اظہار کرنا کامل انسان کی فطرت کے لَوازمات میں  سے ہے، لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ کے طریقے کی پیروی کرے اور جب کوئی برائی ہوتی دیکھے تو  اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اس پر ناراضی اور غصہ کا اظہار کرے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۴۱۶)

             اللہ تعالیٰ کے لئے راضی یا ناراض ہونے کے بارے میں حضرت عمرو بن حَمِق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں  پا سکتایہاں  تک کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کرے اور  اللہ تعالیٰ کے لئے راضی ہو اور جب اس نے ایسا کر لیا تو وہ ایمان کی حقیقت کا مستحق ہوگیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۹۴، الحدیث: ۶۵۱)

         اور اس سلسلے میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا  فرماتی ہیں : رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی ذات کا کسی سے انتقام نہیں  لیا البتہ اگر کوئی  اللہ تعالیٰ کی حرمت کے خلاف کرتا تو اس سے  اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی  اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۴۸۹، الحدیث: ۳۵۶۰)

         حضرت ابو مسعود انصاری  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک آدمی نے عرض کی:یا رسولَ  اللہ!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہو سکتا ہے کہ میں  نماز میں  شامل نہ ہو سکوں  کیونکہ فلاں  ہمیں  بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں  کہ)  میں  نے نصیحت کرنے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس دن سے زیادہ کبھی ناراض نہیں  دیکھا تھا۔ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ‘‘اے لوگو! تم مُتَنَفِّر کرتے ہو! تم میں  سے جو لوگوں  کو نماز پڑھائے وہ تخفیف کرے کیونکہ ان میں  بیمار، کمزور اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں ۔( بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۰، الحدیث: ۹۰)

افسوس! فی زمانہ لوگوں  کا حال یہ ہے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والا اگر ان کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ بسا اوقات اس پر موسلا دھار بارش کی طرح برس پڑتے ہیں  لیکن اگر یہی لوگ ان کے سامنے  اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرتے ہیں  تو ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں  آتی۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔

 اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ایک سبب:

         یہاں  یہ بات بھی یاد رہے کہ کچھ بندوں  کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ بندے کسی پر غصہ کریں  تو  اللہ تعالیٰ بھی اس پر غضب فرماتا ہے اور اگر وہ بندے کسی سے راضی ہوں  تو  اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوتا ہے گویا کہ انہیں ناراض کرنے سے  اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتا ہے اور انہیں  راضی کرنے سے  اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوتا ہے۔ حدیث ِقُدسی میں  ہے،  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی اس نے میر ے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۱۸۴، الحدیث: ۶۰۹) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ  کا ادب کرے اور ہر ایسے کام سے بچے جو ان کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہو۔

قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِیُّ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن قوم کے کچھ زیورات کے بوجھ ہم سے اٹھوائے گئے تھے تو ہم نے ان زیورات کو ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:انہوں  نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر لوگوں  نے کہا: ہم نے اپنے اختیار سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں  کی لیکن فرعون کی قوم کے کچھ زیورات جو ہم نے ان سے عارِیَّت کے طور پر لئے تھے انہیں  ہم نے سامری کے حکم سے آگ میں  ڈال دیا ،پھر اسی طرح سامری نے ان زیوروں  کوڈال دیا جو اس کے پاس تھے اور اس خاک کو بھی ڈال دیا جو حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اس نے حاصل کی تھی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۲۶۰-۲۶۱)

فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَاۤ اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى۬-فَنَسِیَﭤ(88)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اس نے ان لوگوں کے لیے ایک بے جان بچھڑا نکال دیا جس کی گائے جیسی آواز تھی تو لوگ کہنے لگے: یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا معبود ہے اور موسیٰ بھول گئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَخْرَ جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا:تو اس نے ان لوگوں  کے لیے ایک بے جان بچھڑا نکال دیا۔}یہ بچھڑا سامری نے بنایا اور اس میں  کچھ سوراخ اس طرح رکھے کہ جب ان میں  ہوا داخل ہو تو اس سے بچھڑے کی آواز کی طرح آواز پیدا ہو ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اَسْپِ جبریل کی خاک زیرِ قدم ڈالنے سے زندہ ہو کر بچھڑے کی طر ح بولتا تھا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۶۱)

{فَقَالُوْا:تولوگ کہنے لگے۔} یعنی بچھڑے سے آواز نکلتی دیکھ کرسامری اور اس کے پیروکار کہنے لگے: یہ تمہارا معبود ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معبود ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معبود  کو بھول گئے اور اسے یہاں  چھوڑ کر اس کی جستجو میں  کوہِ طور پر چلے گئے ہیں ۔ (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) بعض مفسرین نے کہا کہ اس آیت کے آخری لفظ ’’نَسِیَ‘‘کا فاعِل سامری ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ سامری نے بچھڑے کو معبود بنایا اور وہ اپنے ربّ کو بھول گیا یا یہ معنی ہے کہ سامری اَجسام کے حادث ہونے سے اِستدلال کرنا بھول گیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۷۰۰، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۶۱، ملتقطاً)

اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِـعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا ﳔ وَّ لَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا انہیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور ان کیلئے نہ کسی نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَا یَرَوْنَ:تو کیا وہ نہیں  دیکھتے۔} ارشاد فرمایا کہ بچھڑے کو پوجنے والے کیا اس بات پر غور نہیں  کرتے کہ وہ بچھڑا انہیں  کسی بات کا جواب نہیں  دیتا اور نہ ہی وہ ان سے کسی نقصان کو دور کر سکتا ہے اور نہ انہیں  کوئی نفع پہنچا سکتا ہے اور جب وہ بات کا جواب دینے سے عاجز ہے اور نفع نقصان سے بھی بے بس ہے تو وہ معبود کس طرح ہوسکتا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۶۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۷۰۰، ملتقطاً)

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ روشن آیات اور معجزات دیکھنے کے بعد بصیرت کا اندھا پن اور عقل والوں  کی عقل و فَہم کا سَلب ہو جانا بہت بڑی بد بختی ہے۔  اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین۔

وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖۚ-وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ(90)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ اے میری قوم ! تمہیں اس کے ذریعے صرف آزمایا جارہا ہے اور بیشک تمہارا رب رحمٰن ہے تو میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ:اور بیشک ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا۔} ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قوم کی طرف لوٹنے سے پہلے بے شک حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں  کو نصیحت کی اور انہیں  اس معاملے کی حقیقت سے آگاہ کیا اور فرمایا تھا’’ اے میری قوم ! اس بچھڑے کے ذریعے صرف تمہاری آزمائش کی جارہی ہے تو تم اسے نہ پوجو اور بیشک تمہارا رب جو عبادت کا مستحق ہے وہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ ہے نہ کہ بچھڑا، تو میری پیروی کرو اور بچھڑے کی پوجا چھوڑ دینے میں  میرے حکم کی اطاعت کرو۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۰،ص۷۰۰، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۵ / ۴۱۷، ملتقطاً)

وعظ و نصیحت کی عمدہ ترتیب:

            حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کو اس ترتیب سے نصیحت فرمائی کہ سب سے پہلے انہیں  باطل چیز کے بارے میں  تنبیہ فرمائی کہ تمہیں  بچھڑے کے ذریعے آزمایا جا رہا ہے،پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں   اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی دعوت دی کہ تمہارا رب بچھڑا نہیں  بلکہ تمہارا رب رحمٰن عَزَّوَجَلَّ ہے، پھر انہیں  نبوت کو پہچاننے کی دعوت دی کہ میں  نبی ہوں  اس لئے تم سامری کی بجائے میری پیروی کرو، اس کے بعد آپ نے انہیں  شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا کہ میں  نے تمہیں  بچھڑے کی پوجا نہ کرنے کا جو حکم دیا ہے اسے پورا کرو۔ یہ وعظ و نصیحت کرنے کے معاملے میں  انتہائی عمدہ ترتیب ہے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں  وعظ و نصیحت کی اس ترتیب کا انتہائی اعلیٰ نمونہ موجود ہے کہ آپ صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  اپنی جا ن کے دشمنوں  کو اعلانیہ طور پر ان کے باطل معبودوں  اور بتوں  کی عبادت کے معاملے میں  تنبیہ فرمائی اور انہیں  بتایا کہ یہ مٹی، پتھر اور دھاتوں  سے بنائے گئے خود ساختہ اور ہر طرح سے عاجز بت تمہارے معبود ہو ہی نہیں  سکتے بلکہ تمہارا معبود وہ ہے جس نے تمہیں  اور تم سے پہلے لوگوں  کو یہ انسانی وجود عطا کیا اور وہی حقیقی طور پر نعمتیں  عطا فرمانے والا اور نقصانات دور کرنے والا ہے ،پھرآپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  اپنی نبوت و رسالت اور اپنے مقام و مرتبے کی پہچان کروائی اور اس کے بعد انہیں  دینِ اسلام کے اَحکامات پر عمل کا حکم دیا۔

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْهِ عٰكِفِیْنَ حَتّٰى یَرْجِـعَ اِلَیْنَا مُوْسٰى(91)قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْا(92)اَلَّا تَتَّبِعَنِؕ-اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ(93)

ترجمہ: کنزالعرفان

بولے ہم تو اس پر جم کر بیٹھے رہیں گے جب تک ہمارے پاس موسیٰ لوٹ کر نہ آجائیں ۔ ۔ موسیٰ نے فرمایا: اے ہارون! جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں کس چیز نے میرے پیچھے آنے سے منع کیا تھا؟ کیا تم نے میرا حکم نہ مانا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا:بولے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت کے جواب میں  لوگوں  نے کہا ’’ہم تو اس وقت تک بچھڑے کی پوجا کرنے پر قائم رہیں  گے اور آپ کی بات نہ مانیں  گے جب تک ہمارے پاس حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوٹ کر نہ آجائیں  اور ہم دیکھ لیں  کہ وہ بھی ہماری طرح اس کی پوجا کرتے ہیں  یا نہیں  اور کیا سامری نے سچ کہا ہے یا نہیں ۔ اس پر حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سے علیحدہ ہو گئے اور ان کے ساتھ بارہ ہزار وہ لوگ بھی جدا ہو گئے جنہوں  نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام واپس تشریف لائے تو آپ نے ان لوگوں  کے شور مچانے اور باجے بجانے کی آوازیں  سنیں  جو بچھڑے کے گرد ناچ رہے تھے، تب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ہمراہ ستر لوگوں  سے فرمایا ’’یہ فتنہ کی آواز ہے۔ جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قریب پہنچے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو اپنی فطری دینی غیرت سے جوش میں  آکر ان کے سر کے بال دائیں  ہاتھ اور داڑھی بائیں  میں  پکڑلی اور فرمایا ’’اے ہارون! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، جب تم نے انہیں  گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں  کس چیز نے میرے پیچھے آکر مجھے خبر دینے سے منع کیا تھا اور جب انہوں  نے تمہاری بات نہ مانی تھی تو تم مجھ سے کیوں  نہیں  آ ملے تا کہ تمہارا ان سے جدا ہونا بھی ان کے حق میں  ایک سرزنش ہوتی، کیا تم نے میرا حکم نہ مانا؟(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۱-۹۳، ۳ / ۲۶۱-۲۶۲، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۱-۹۳، ص۷۰۰، ملتقطاً)

قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْۚ-اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(94)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہارون نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو بیشک مجھے ڈر تھا کہ تم کہو گے کہ (اے ہارون!) تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ:کہا۔}حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں  کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو بیشک مجھے ڈر تھا کہ اگر میں  انہیں  چھوڑ کر آپ کے پیچھے چلا گیا تو یہ گروہوں  میں  تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں گے اور یہ دیکھ کر آپ کہیں  گے کہ اے ہارون!تم نے بنی اسرائیل میں  تَفْرِقہ ڈال دیا اوران کے بارے میں  تم نے میرے حکم کا انتظار نہ کیا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۲۶۲، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۹۴، ص۲۶۶، ملتقطاً)

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ(95)قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا:اے سامری! تو تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا تو میں نے فرشتے کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اسے ڈال دیا اور میرے نفس نے مجھے یہی اچھا کر کے دکھایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّ:اے سامری! تو تیرا کیا حال ہے؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سامری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’اے سامری! تو نے ایسا کیوں  کیا؟ اس کی وجہ بتا ۔ سامری نے کہا: میں  نے وہ دیکھا جو بنی اسرائیل کے لوگوں  نے نہ دیکھا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا: میں  نے حضرت جبریل عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا اور انہیں  پہچان لیا ،وہ زندگی کے گھوڑے پر سوار تھے ،اس وقت میرے دل میں  یہ بات آئی کہ میں  ان کے گھوڑے کے نشانِ قدم کی خاک لے لوں  تو میں  نے وہاں  سے ایک مٹھی بھر لی پھر اِسے اُس بچھڑے میں  ڈال دیا جو میں  نے بنایا تھا اور میرے نفس نے مجھے یہی اچھا کر کے دکھایا اور یہ فعل میں  نے اپنی ہی نفسانی خواہش کی وجہ سے کیا کوئی دوسرا اس کا باعث و مُحرِّک نہ تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ص۷۰۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۵-۹۶، ۳ / ۲۶۲، ملتقطاً)

قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۪-وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗۚ-وَ انْظُرْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًاؕ-لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا(97)اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-وَسِعَ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا(98)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا: توتو چلا جاپس بیشک زندگی میں تیرے لئے یہ سزا ہے کہ تو کہے گا۔ ’’نہ چھونا‘‘ اور بیشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے جس کی تجھ سے خلاف ورزی نہ کی جائے گی اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو سارا دن ڈٹ کر بیٹھا رہا ،قسم ہے :ہم ضرور اسے جلائیں گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہائیں گے ۔ تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ فَاذْهَبْ:موسیٰ نے فرمایا: توتو چلاجا۔} سامری کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا ’’تو یہاں  سے چلتا بن اور دور ہو جا، پس بیشک زندگی میں  تیرے لئے یہ سزا ہے کہ جب تجھ سے کوئی ایسا شخص ملنا چاہے جو تیرے حال سے واقف نہ ہو، تو تُو اس سے کہے گا ’’ کوئی مجھے نہ چھوئے اور نہ میں  کسی سے چھوؤں ۔ چنانچہ لوگوں  کو مکمل طور پر سے ملنا منع کر دیا گیا اور ہر ایک پر اس کے ساتھ ملاقات ، بات چیت ، خرید و فروخت حرام کر دی گئی اور اگر اتفاقاً کوئی اس سے چھو جاتا تو وہ اور چھونے والا دونوں  شدید بخار میں  مبتلا ہوتے ، وہ جنگل میں  یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ کوئی مجھے نہ چھوئے اور وہ وحشیوں  اور درندوں  میں  زندگی کے دن انتہائی تلخی اور وحشت میں  گزارتا تھا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۷۰۱ ، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۶۲، ملتقطاً)

{وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا:اور بیشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ اے سامری! تیرے شرک اور فساد انگیزی پر دنیا کے اس عذاب کے بعد تیرے لئے آخرت میں  بھی عذاب کا وعدہ ہے جس کی تجھ سے خلاف ورزی نہ کی جائے گی اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو سارا دن ڈٹ کر بیٹھا رہا اور اس کی عبادت پر قائم رہا ،قسم ہے :ہم ضرور اسے آگ سے جلائیں  گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں  بہا دیں  گے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس بچھڑے کے ساتھ ایسا ہی کیا۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۷۰۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۶۲-۲۶۳، ملتقطاً)

{اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ:تمہارا معبود تو وہی  اللہ ہے۔}یعنی تمہاری عبادت اور تعظیم کا مستحق صرف وہی  اللہ ہے جس کےسوا کوئی معبود نہیں  اور اس کا علم ہر چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۲۶۳

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَۚ-وَ قَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا(99)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اے حبیب!)ہم تمہارے سامنے اسی طرح پہلے گزری ہوئی خبریں بیان کرتے ہیں اور بیشک ہم نے تمہیں اپنے پاس سے ایک ذکر عطا فرمایا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ:ہم تمہارے سامنے اسی طرح خبریں  بیان کرتے ہیں ۔}اس سے پہلی آیات میں  فرعون اور سامری کے ساتھ ہونے والا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے ارشاد فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جس طرح ہم نے آپ کے سامنے یہ واقعات بیان کئے اسی طرح ہم آپ کے سامنے سابقہ امتوں  کی خبریں  اور ان کے احوال بیان کرتے ہیں  تاکہ آپ کی شان ، آپ کی نشانیوں ا ور معجزات میں  اضافہ ہو اور لوگ ان میں  زیادہ غوروفکر کر سکیں  اور بے شک ہم نے آپ کو اپنے پاس سے قرآن کریم عطافرمایا کہ یہ ذکر ِعظیم ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہو اس کے لئے اس کتابِ کریم میں  نجات اور برکتیں  ہیں  اور اس مقدس کتاب میں  سابقہ امتوں  کے ایسے حالات کا ذکر و بیان ہے جو فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے لائق ہیں۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۸ / ۹۷، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۷۰۲، ملتقطاً)

مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وِزْرًا(100)خٰلِدِیْنَ فِیْهِؕ-وَ سَآءَ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ حِمْلًا(101)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو اس سے منہ پھیرے گاتو بیشک وہ قیامت کے دن ایک بڑا بوجھ اٹھائے گا ۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور وہ قیامت کے دن ان کیلئے بہت برا بوجھ ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ:جو اس سے منہ پھیرے گا۔} ارشاد فرمایا کہ جو اس قرآن سے منہ پھیرے اور اس پر ایمان نہ لائے اور اس کی ہدایتوں  سے فائدہ نہ اٹھائے تووہ قیامت کے دن گناہوں  کا ایک بڑا بوجھ اٹھائے گا۔(بغوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۱۹۴)

{خٰلِدِیْنَ فِیْهِ:وہ ہمیشہ اس میں  رہیں  گے۔} یعنی وہ ہمیشہ اس گناہ کے عذاب میں  رہیں  گے اور وہ قیامت کے دن ان کیلئے بہت برا بوجھ ہوگا۔(خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۶۳)

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ زُرْقًا(102)یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا(103)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن صُور میں پھونکا جائے گا اور ہم اس دن مجرموں کو اس حال میں اٹھائیں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی۔ وہ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کریں گے کہ تم دنیا میں صرف دس رات رہے ہو

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ:جس دن صُور میں  پھونکا جائے گا ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں  جس دن لوگوں  کومحشر میں  حاضر کرنے کے لئے دوسری بار صُور میں  پھونکا جائے گا اور ہم اس دن کافروں  کو اس حال میں  اٹھائیں  گے کہ ان کی آنکھیں  نیلی اور منہ کالے ہوں  گے۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۴۲۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۲۶۳، ملتقطاً)

{یَتَخَافَتُوْنَ بَیْنَهُمْ:وہ آپس میں  آہستہ آہستہ باتیں  کریں  گے۔} آخرت کی ہولناکیاں  اور وہاں  کی خوفناک منازل دیکھ کر کفار کو دُنْیَوی زندگی کی مدت بہت قلیل معلوم ہو گی اور وہ آپس میں  آہستہ آہستہ باتیں  کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں  زیادہ عرصہ نہیں  رہے بلکہ دس راتیں  رہے ہیں ۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۸ / ۹۸)

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِیْقَةً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا(104)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم خوب جانتے ہیں جو وہ کہیں گے جب ان میں سب سے بہتر رائے والا کہے گا کہ تم صرف ایک ہی دن رہے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ اَعْلَمُ:ہم خوب جانتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ کفار دنیا میں  ٹھہرنے کی مدت کے بارے آپس میں  جو آہستہ آہستہ باتیں  کریں  گے اسے ہم خوب جانتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو دس راتیں  رہنے کا کہیں  گے جبکہ ان میں  سب سے بہتر رائے والا قیامت کی ہولناکیاں  دیکھ کر کہے گا کہ تم تو صرف ایک ہی دن دنیا میں  رہے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک کفار کو دنیا میں  ٹھہرنے کی مدت بہت کم معلوم ہو گی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، جبکہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہ اس دن کی سختیاں  دیکھ کر اپنے دنیا میں  رہنے کی مقدار ہی بھول جائیں  گے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۲۶۳)

وقت ایک قیمتی جوہر ہے اسے ضائع نہ کریں :

            یہاں  یہ بات یاد رہے کہ وقت ایک نفیس نقدی اور لطیف جوہر ہے، اسے کسی حقیر اور فانی چیز کو پانے کے لئے خرچ نہ کیا جائے بلکہ اس سے وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو انتہائی اعلیٰ اور ہمیشہ رہنے والی ہے ، لہٰذا ہر عقلمند آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کو صرف دُنْیَوی زندگی کو پرسکون بنانے، اس کی لذتوں  اور رنگینیوں  سے لطف اندوز ہونے اور اس کے عیش و عشرت کے حصول میں  صَرف کر کے اسے ضائع نہ کرے بلکہ اپنی آخرت بہتر سے بہتر بنانے میں  اپنا کامل وقت استعمال کرے کیونکہ دنیا کسی کا مستقل ٹھکانہ نہیں  اور دنیا کا عیش بہت تھوڑا اور ا س کا خطرہ بہت بڑ اہے اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اس کی قدر انتہائی کم ہے حتّٰی کہ  اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر برابر بھی دنیا کی حیثیت نہیں  اس لئے دنیا کے دھوکے میں  مبتلا ہو کر اپنی اُخروی زندگی کو عذاب میں  ڈال دینا سمجھدار کے شایانِ شان نہیں ۔

             دنیا کے بارے میں  امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : جو شخص دنیا کے دھوکے میں  آتا ہے اس کا ٹھکانہ ذلت ہے اور جو آدمی اس کے ذریعے تکبر کرتا ہے اس کی منزل کفِ افسوس ملنا ہے۔ دنیا کا کام طلب کرنے والوں  سے بھاگنا اور بھاگنے والوں  کو تلاش کرنا ہے۔ جو دنیا کی خدمت کرتا ہے تو یہ اس سے چلی جاتی ہے اور جو اس سے منہ پھیرتا ہے یہ اس کے پاس آتی ہے۔ دنیا صاف بھی ہو تو آلودگیوں  کے شائبے سے خالی نہیں  ہوتی اور اگر یہ سُرور بھی پہنچائے تو وہ پریشانیوں  سے خالی نہیں  ہوتا۔ دنیا کی سلامتی اپنے پیچھے بیماری لاتی ہے اور اس کی جوانی بڑھاپے کی طرف لے جاتی ہے۔ دنیا کی نعمتیں  حسرت اور ندامت کے سوا کچھ نہیں  دیتیں  تو یہ دنیا دھوکے باز، مکار، اڑنے والی اور بھاگنے والی ہے اور اپنے چاہنے والوں  کے لیے ہمیشہ بن سنور کر رہتی ہے، یہاں  تک کہ جب وہ اس کے دوست بن جاتے ہیں  تو یہ ان پر دانت نکالتی (یعنی ان کی بے بسی پر ہنستی یا انہیں  دھمکاتی ) ہے۔ دنیا اپنے اَسباب کے مقامات بکھیر دیتی ہے اور اپنے تعجب کے خزانے ان دوستوں  کے لیے کھول دیتی ہے، پھر انہیں  اپنے زہر سے ہلاکت کا مزہ چکھاتی اور اپنے تیروں  سے زخمی کرتی ہے۔ جب دنیا دار خوشی کی حالت میں  ہوتے ہیں  تو یہ اچانک ان سے منہ پھیرلیتی ہے اور یوں  لگتا ہے گویا وہ پریشان خواب تھے ،پھر ان پر حملہ آور ہوکر انہیں  کفن میں  چھپا کر مٹی کے نیچے رکھ دیتی ہے۔ اگر ان میں  سے کوئی ایک پوری دنیا کا مالک بھی بن جائے تویہ اسے یوں  کاٹ کر رکھ دیتی ہے کہ گویا کل اس کا وجودہی نہ تھا۔ دنیا کو چاہنے والے خوشی کی تمنا کرتے ہیں  اور یہ ان کو دھوکے کا وعدہ دیتی ہے حتّٰی کہ وہ بہت زیادہ امید رکھتے ہیں  اور محلات بناتے ہیں  اور پھر ان کے محلات قبروں  کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ ان کی جماعت ہلاک ہوجاتی ہے ان کی کوشش بکھرا ہوا غبار بن جاتی ہے اور ان کی دعا تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، ۳ / ۲۴۸)

وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُهَا رَبِّیْ نَسْفًا(105)فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا(106)لَّا تَرٰى فِیْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمْتًاﭤ(107)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آپ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔تم فرماؤ! انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ تو زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا چھوڑے گا۔ تو اس میں کوئی ناہمواری دیکھے گا اورنہ اونچائی ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ:اور آپ سے پہاڑوں  کے بارے میں  سوال کرتے ہیں۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا کہ قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی نے رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن پہاڑوں  کا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ، اور  اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے پہاڑوں  کے بارے میں  سوال کرتے ہیں ۔ آپ ان سے فرما دیں  کہ انہیں  میرا رب عَزَّوَجَلَّ ریت کے ذروں  کی طرح ریزہ ریزہ کر دے گا پھر انہیں  ہواؤں  کے ذریعے اڑا دے گا اور پہاڑوں  کے مقامات کی زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا چھوڑے گا اور زمین اس طرح ہموار کر دی جائے گی کہ تو اس میں  کوئی پستی اور اونچائی نہ دیکھے گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۵-۱۰۷، ۳ / ۲۶۳-۲۶۴، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۵-۱۰۷، ص۲۶۷، ملتقطاً)

یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا(109)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمٰن نے اجازت دیدی ہو اور اس کی بات پسند فرمائی ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ:اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن یہ ہَولناک اُمور واقع ہوں  گے اس دن شفاعت کرنے والوں  میں  سے کسی کی شفاعت کام نہ دے گی البتہ اس کی شفاعت کام دے گی جسے  اللہ تعالیٰ نے شفاعت کرنے کی اجازت دیدی ہو اور اس کی بات پسند فرمائی ہو۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۴۲۹)

اہلِ ایمان کی شفاعت کی دلیل:

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے قیامت کے دن مومن کے علاوہ کسی اور کی شفاعت نہ ہو گی اور کہا گیا ہے کہ شفاعت کرنے والے کا درجہ بہت عظیم ہے اور یہ اسے ہی حاصل ہو گا جسے  اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا اور وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پسندیدہ ہو گا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۲۶۴)

شفاعت سے متعلق6 اَحادیث:

            یاد رہے کہ  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے مقبول بندوں  کو گناہگار مسلمانوں  کی شفاعت کرنے کی اجازت عطا فرمائے گا اور یہ مقرب بندے  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت سے گناہگاروں  کی شفاعت کریں  گے، اس مناسبت سے یہاں  شفاعت سے متعلق 6 اَحادیث ملاحظہ ہوں

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  قیامت کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کا سردار ہوں  گا، سب سے پہلے میری قبر کھلے گی، سب سے پہلے میں  شفاعت کروں  گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب تفضیل نبیّنا صلی  اللہ علیہ وسلم علی جمیع الخلائق، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۳(۲۲۷۸))

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، چند صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نبی اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انتظار میں  بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے، جب قریب پہنچے تو صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ ان میں  سے بعض نے کہا: تعجب کی بات ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں  سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل بنایا، دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ۔ ایک نے کہا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کاکلمہ اور روح ہیں ۔ کسی نے کہا :حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا، حضور پُرنور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا ’’ میں  نے تمہاری گفتگو اور تمہارا تعجب کرنا سنا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  خلیلُ اللہ ہیں ، بیشک وہ ایسے ہی ہیں ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نَجِیُّ اللہ ہیں  ، بے شک وہ اسی طرح ہیں ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح ُ اللہ اور کلمۃُ  اللہ ہیں ، واقعی وہ اسی طرح ہیں ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو  اللہ تعالیٰ نے چن لیا وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو! میں   اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں  اور کوئی فخر نہیں ۔ میں  قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں  اور کوئی فخر نہیں ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بھی میں  ہی ہوں  اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں ۔ سب سے پہلے جنت کا کُنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں  ہی ہوں ،  اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے داخل کرے گا، میرے ساتھ فقیر   مومن ہوں  گے اور کوئی فخر نہیں ۔ میں  اَوّلین و آخرین میں  سب سے زیادہ مکرم ہوں  لیکن کوئی فخر نہیں۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی  اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۴، الحدیث: ۳۶۳۶)

(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہرنبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے، پس ہرنبی نے وہ دعا جلد مانگ لی اور میں  نے اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے اور یہ اِنْ شَاءَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ میری امت میں  سے ہرشخص کوحاصل ہوگی جواس حال میں  مرا کہ اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔( مسلم، کتاب الایمان، باب اختباء النبیصلی  اللہ علیہ وسلم دعوۃ الشفاعۃ لامّتہ، ص۱۲۹، الحدیث: ۳۳۸(۱۹۹))

(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں  کے لئے ہو گی جن سے کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہوں  گے۔( سنن ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی الشفاعۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۴۷۳۹)

(5)…حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں  گے ۔ (1) انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2)پھر علماء۔ (3) پھر شہداء۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الشفاعۃ، ۴ / ۵۲۶، الحدیث: ۴۳۱۳)

(6)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ صفیں  باندھے ہوئے ہوں  گے، (اتنے میں ) ایک دوزخی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا اور اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں  کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی مانگا تو میں  نے آپ کوپلا دیا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس دوزخی کی شفاعت کرے گا۔ ایک جہنمی کسی دوسرے جنتی کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں  کہ ایک دن میں  نے آپ کووضو کیلئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پر وہ اس کاشفیع ہوجائے گا۔ ایک کہے گا: آپ کو یاد نہیں  کہ فلاں  دن آپ نے مجھے فلاں  کام کوبھیجا تومیں  چلا گیا تھا؟ اسی قدر پر یہ اس کی شفاعت کرے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ الماء، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)

یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا(110)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور لوگوں کا علم اسے نہیں گھیر سکتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ:وہ جانتا ہے جو کچھ ان لوگوں  کے آگے ہے ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کا علم بندوں  کی ذات و صفات، ان کے گزشتہ اور آئندہ کے تمام اَحوال اور دنیا و آخرت کے جملہ اُمور کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے ۔

{وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا:اور لوگوں کا علم اسے نہیں  گھیر سکتا ۔} یعنی پوری کائنات کا علم  اللہ تعالیٰ کی ذات کا احاطہ نہیں  کر سکتا ، اس کی ذات کا اِدراک کائنات کے علوم کی رسائی سے برتر ہے ، وہ اپنے اَسماء و صفات ، آثارِ قدرت اور حکمت کی صورتوں  سے پہچانا جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک شعر ہے:

کجا دریابد او را عقلِ چالاک

 کہ اوبالا تر است ازحدِ ادراک

نظر کن اندر اسماء وصفاتَش

 کہ واقف نیست کس از کنہِ ذاتَش

         یعنی تیز عقل ا س کی ذات کا ادراک کس طرح کر سکتی ہے کیونکہ وہ تو فہم و ادراک کی حد سے ہی بالا تر ہے، لہٰذا تم اس کے اسماء و صفات میں  غورو فکر کرو کہ اس کی ذات کی حقیقت سے کوئی واقف ہی نہیں ۔

         بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں  کہ مخلوق کے علوم  اللہ تعالیٰ کی معلومات کا احاطہ نہیں  کر سکتے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۵ / ۴۳۰، ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۴۹۲، ملتقطاً)

وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِؕ-وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا(111)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمام چہرے اُس کے حضور جھک جائیں گے جو خود زندہ ، دوسروں کوقائم رکھنے والا ہے اور بیشک وہ شخص ناکام رہا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ:اور تمام چہرے جھک جائیں  گے ۔} ارشاد فرمایا کہ حشر کے دن تمام چہرے اس خدا کے حضور جھک جائیں  گے جو خود زندہ ، دوسروں  کوقائم رکھنے والا ہے اور ہر ایک شانِ عجز و نیاز کے ساتھ حاضر ہو گا ، کسی میں  سرکشی نہ رہے گی اور  اللہ تعالیٰ کے قہر و حکومت کا کامل ظہور ہو گا اور بیشک وہ شخص ناکام رہا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ یہاں  ظلم سے مراد شرک ہے اور بے شک شرک شدید ترین ظلم ہے اور جو اس ظلم کے بوجھ تلے دبے ہوئے مَوقِفِ قیامت میں  آئے گا تو اس سے بڑھ کر نامراد کون ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۱،۳ / ۲۶۴، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۷۰۳-۷۰۴، ملتقطاً)

وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا(112)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو کوئی اسلام کی حالت میں کچھ نیک اعمال کرے تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا اور نہ کمی کا 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ:اور جو کوئی اسلام کی حالت میں  کچھ نیک اعمال کرے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اسلام کی حالت میں  کچھ نیک اعمال کرے تو اسے اس بات کا خوف نہ ہو گا کہ وعدے کے مطابق وہ جس ثواب کا مستحق تھا وہ اسے نہ دے کر اس کے ساتھ زیادتی کی جائے گی اور نہ ہی اسے کم ثواب دئیے جانے کا اندیشہ ہو گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱)

نیک اعمال کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاعت اور نیک اعمال سب کی قبولیت ایمان کے ساتھ مشروط ہے کہ ایمان ہو تو سب نیکیاں  کار آمد ہیں  اور ایمان نہ ہو تویہ سب عمل بے کار ،ہاں  ایمان لانے کے بعد کفر کے زمانے کی نیکیاں  بھی قبول ہو جاتی ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے۔

 نیک اعمال اور لوگوں  کا حال:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہو ا کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال میں  مشغول رہے اور گناہوں  سے رک جائے کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کے درخت کا پھل پائے گا اور جیسے اس کے اعمال ہوں  گے ویسے انجام تک وہ پہنچ جائے گا اور نیک اعمال میں  سب سے افضل فرائض کو ادا کرنا اور حرام و ممنوع کاموں  سے بچنا ہے ۔ (اسی سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ) ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازم رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ سے عرض کی : مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ نے فرمایا ’’تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرتے رہو اور اس بات کو بہت بڑ اجانو کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں  وہاں  دیکھے جہاں  اس نے تمہیں  منع کیا ہے اور وہاں  تجھے موجود نہ پائے جہاں  موجود ہونے کا اس نے تمہیں  حکم دیا ہے۔

            اور نیک اعمال کے سلسلے میں  لوگوں  کی ایک تعدادکا یہ حال ہے کہ وہ نفلی کاموں  میں  تو بہت جلدی کرتے ہیں  ، لمبے لمبے اور کثیر اوراد ووظائف پابندی سے پڑھتے ہیں ، مشکل اور بھاری نفلی کام کرنے میں  رغبت رکھتے ہیں  جبکہ وہ کام جنہیں  کرنا ان پر فرض و واجب ہے ان میں  سستی سے کام لیتے ہیں  اور انہیں  صحیح طریقے سے ادا بھی نہیں  کرتے ۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں  : نفسانی خواہش کی پیروی کی ایک علامت یہ ہے کہ بندہ نفلی نیک کام کرنے میں  تو بہت جلدی کرے اور واجبات کے حقوق ادا کرنے میں  سستی سے کام لے۔

            حضرت ابومحمد مرتعش رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :میں  نے کئی حج ننگے پاؤں  اور پید ل سفر کر کے کئے ۔ ایک دن رات کے وقت میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ہاجرہ کو پانی پلا دو، تو مجھے یہ کام بہت بھاری لگا، اس سے میں  نے جان لیا کہ پیدل حج کرنے پر میں  نے اپنے نفس کی جو بات مانی اس میں  میرے نفس کی لذت کا عمل دخل تھا کیونکہ اگر میرا نفس ختم ہو چکا ہوتا تو (والدہ کی اطاعت کا) وہ کام مجھے بھاری محسوس نہ ہوتا جو شریعت کا حق تھا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۵ / ۴۳۱، ملخصاً)

وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا(113)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یونہی ہم نے اسے عربی قرآن نازل فرمایا اور اس میں مختلف انداز سے عذاب کی وعیدیں بیان کیں تاکہ لوگ ڈریں یا قرآن ان کے دل میں کچھ غور وفکر پیدا کرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَذٰلِكَ:اور یونہی۔} اس آیت میں  قرآنِ مجید کی دو صفات بیان کی گئیں  (1) قرآن کریم کو عربی زبان میں  نازل کیا گیا، تاکہ اہلِ عرب اسے سمجھ سکیں  اور وہ اس بات سے واقف ہوجائیں  کہ قرآن پاک کی نظم عاجز کر دینے والی ہے اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں ۔ (2) قرآنِ مجیدمیں  مختلف انداز سے فرائض چھوڑنے اور ممنوعات کا اِرتکاب کرنے پر عذاب کی وَعِیدیں  بیان کی گئیں  تاکہ لوگ ڈریں  اور قرآن عظیم ان کے دل میں  کچھ نصیحت اور غوروفکر پیدا کرے جس سے انہیں  نیکیوں  کی رغبت اور بدیوں  سے نفرت ہو اور وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۸ / ۱۰۳، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۲۶۴-۲۶۵، ملتقطاً)

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّۚ-وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰۤى اِلَیْكَ وَحْیُهٗ٘-وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(114)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ اللہ بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ ہے اور آپ کی طرف قرآن کی وحی کے ختم ہونے سے پہلے قرآن میں جلدی نہ کرو اور عرض کرو: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ:تو وہ  اللہ بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ ہے۔}ارشاد فرمایا کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  بہت بلند ہے جو سچا بادشاہ اور اصل مالک ہے اور تمام بادشاہ اس کے محتاج ہیں  اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی طرف قرآن کی وحی کے ختم ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کریں ۔ اس کاشانِ نزول یہ ہے کہ جب حضرت جبریل عَلَیْہِ  السَّلَام قرآنِ کریم لے کر نازل ہوتے تھے توسیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے اور جلدی کرتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ یاد کرنے کی مشقت نہ اٹھائیں  ۔ سورۂ قیامہ میں   اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو جمع کرنے اور اسے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان مبارک پر جاری کرنے کا خود ذمہ لے کر آپ کی اور زیادہ تسلی فرما دی ۔

{وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا: اور عرض کرو:اے میرے رب! میرے علم میں  اضافہ فرما۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم میں  اضافے کی دعا مانگنے کی تعلیم دی ، اس سے معلوم ہوا کہ علم سے کبھی سیر نہیں  ہونا چاہیے بلکہ مزید علم کی طلب میں  رہنا چاہئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کی حرص اچھی چیز ہے، جیسے نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق میں  سب سے بڑے عالم ہیں  مگر انہیں حکم دیا گیا کہ زیادتی ٔعلم کی دعا مانگو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم ہمیشہ ترقی میں  ہے،  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى‘‘(والضحی:۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اور بیشک تمہارے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔

وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا(115)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا کوئی مضبوط ارادہ نہ پایاتھا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ:اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا۔} اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں  مختلف حکمتوں  کی وجہ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں  سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں  یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں  کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں  کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں  سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں  سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس زمانے سے پہلے تاکیدی حکم دیا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت کے پاس نہ جائیں  لیکن یہ حکم انہیں  یاد نہ رہا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ممنوعہ درخت کے پاس چلے گئے البتہ اس جانے میں  ان کی طرف سے  اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

آیت ’’وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے عقائد و مسائل:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں  کھایا بلکہ اس کی وجہ  اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’قرآن عظیم کے عُرف میں  اِطلاقِ معصیت عمد (یعنی جان بوجھ کر کرنے ) ہی سے خاص نہیں ، قال  اللہ تعالٰی ’’وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ‘‘( طہٰ:۱۲۱) آدم نے اپنے رب کی معصیت کی۔ حالانکہ خود فرماتا ہے ’’فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا‘‘ آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مؤاخذہ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)

            اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود  اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں  تھا۔

(2)… ہم جیسوں  کے لئے بھول چوک معاف ہے مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پران کی عظمت و شان کی وجہ سے اس بنا پر بھی بعض اوقات پُرسش ہوجاتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ ۔ ع

جن کے رتبے ہیں  سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔

            بادشاہِ جبّار، جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا (اور اس کے ساتھ) جو برتاؤ گوارا کرے گا (وہ) ہر گز شہریوں  سے پسند نہ کرے گا (اور) شہریوں  میں  بازاریوں  سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں  سے سخت اور خاصوں  میں  درباریوں  اور درباریوں  میں  وزراء ، (الغرض) ہر ایک پربار دوسرے سے زائد ہے، اس لیے وارد ہوا ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘نیکوں  کے جو نیک کام ہیں  مقربوں  کے حق میں  گناہ ہیں ۔ وہاں  ترکِ اَولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولیٰ ہر گز گناہ نہیں۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)

(3)… ہر شخص شیطان سے ہوشیار رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم تھے اور جنت محفوظ جگہ تھی پھر بھی ابلیس نے اپنا کام کردکھایا، تو ہم لوگ کس شمار میں  ہیں 

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(116)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو توابلیس کے سوا سب سجدے میں گرگئے، اس نے انکار کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ:اور جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کریں  جب ہم نے فرشتوں  سے فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرو تو فرشتوں  کے ساتھ رہنے والے ابلیس کے سوا سب فرشتے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے سجدے میں  گرگئے اور ابلیس نے یہ کہہ کر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوسجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ میں  حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہتر ہوں ۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۴۳۴-۴۳۵، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ص۲۶۸، ملتقطاً)

تعظیم کے طور پر غیرِ خدا کو سجدہ کرنا حرام اور اس سے بچنا فرض ہے:

         اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’سجدۂ تحیت، اگلی شریعتوں  میں  جائز تھا۔ ملائکہ نے بحکمِ الٰہی حضرت سیدنا آدم عَلَیْہِ  السَّلَام کو سجدہ کیا۔ حضرت سیدنا یعقوب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی زوجہ مقدسہ اور ان کے گیارہ صاحبزادوں  نے حضرت یوسف عَلَیْہِ  السَّلَام کو سجدہ کیا۔ ۔۔۔ ہاں  ہماری شریعت ِمطہرہ نے غیرِ خدا کے لئے سجدۂ تحیت حرام کیا ہے اس سے بچنا فرض ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۴۱۷-۴۱۸)

فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(117)اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰى(118)وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(119)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے فرمایا، اے آدم! بیشک یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے تو یہ ہرگز تم دونوں کو جنت سے نہ نکال دے ورنہ تو مشقت میں پڑجائے گا۔ بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہوگا اور نہ ہی ننگا ہوگا۔اور یہ کہ نہ کبھی تو اس میں پیاسا ہوگا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ:تو ہم نے فرمایا، اے آدم!}اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس کے انکار کے بعد  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’اے آدم! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، بیشک یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، تو یہ ہرگز تم دونوں  کو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب نہ بن جائے ورنہ تم مشقت میں  پڑجاؤ گے اور اپنی غذا اور خوراک کے لئے زمین جوتنے ، کھیتی کرنے ، دانہ نکالنے ، پیسنے ، پکانے کی محنت میں  مبتلا ہو جاؤ گے۔ بیشک تیرے لیے یہ ہے کہ تو جنت میں  بھوکا نہیں  ہوگا کیونکہ جنت کی تمام نعمتیں  ہر وقت حاضر ہوں  گی اور نہ ہی تو اس میں  ننگا ہوگا کیونکہ تمام ملبوسات جنت میں  موجود ہوں  گے ،اور تیرے لئے یہ بھی ہے کہ تو جنت میں  کبھی پیاسا نہ ہوگاکیونکہ اس میں  ہمیشہ کے لئے نہریں  جاری ہیں  اور نہ تجھے جنت میں  دھوپ لگے گی کیونکہ جنت میں  سور ج نہیں  ہے اور اہلِ جنت ہمیشہ رہنے والے دراز سائے میں  ہوں  گے، الغرض ہر طرح کا عیش و راحت جنت میں  موجود ہے اور اس میں  محنت اور کمائی کرنے سے بالکل امن ہے(لہٰذا تم شیطان کے وسوسوں  سے بچ کر رہنا)۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۱۷-۱۱۹،۳ / ۲۶۵-۲۶۶، روح البیان، طہ، تحت الآیۃ:۱۱۷-۱۱۹،۵ / ۴۳۵-۴۳۶، ملتقطاً)

شیطان کی حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دشمنی کی وجہ:

             آیت نمبر 117 میں  شیطان کا حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا ہے ،یہاں  اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے ۔ جب ابلیس نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر  اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 117 تا 119 سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے تین باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… فضل و شرف والے کی فضیلت کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی تعظیم و احترام بجا لانے سے اِعراض کرنا حسد و عداوت کی دلیل ہے۔

(2)… حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی مشہور جنت میں  رکھے گئے تھے جو بعد ِقیامت نیکوں  کو عطا ہو گی ،وہ کو ئی دُنْیَوی باغ نہ تھا کیونکہ اس باغ میں  تو دھوپ بھی ہوتی ہے اور وہاں  بھوک بھی لگتی ہے ۔

(3)…جنتی نعمتوں  کی بڑی اہمیت ہے ،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان نعمتوں  کی قدر کرے اور شیطان کی پیروی کر کے ان عظیم نعمتوں  سے خود کو محروم نہ کرے۔

فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(120)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا ، کہنے لگا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشہ رہنے کے درخت اور ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں جو کبھی فنا نہ ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ:تو شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت بیان فرمائی کہ اس نے انہیں  فرشتوں  سے سجدہ کروایا اور اس کے بعد بیان فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی زوجہ حضرت حوا  رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو شیطان کی دشمنی کی پہچان کروا دی اور جنتی نعمتوں  کی اہمیت بیان فرما دی اور اب اس آیت میں  بیان فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا: اے آدم! عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، کیا میں  آپ کو ایک ایسے درخت کے بارے میں  بتادوں  جسے کھا کر کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے اور ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں  جو کبھی فنا نہ ہوگی اور اس میں  زوال نہ آئے گا۔( تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۸ / ۱۰۷، جلالین، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ص۲۶۸، ملتقطاً)

فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى(121)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان دونوں نے اس درخت میں سے کھا لیا تو ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَكَلَا مِنْهَا:تو ان دونوں  نے اس درخت میں  سے کھالیا۔} ابلیس کے وسوسہ دلانے کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہانے اس درخت میں  سے کھا لیا تو ان کے جنتی لباس اتر گئے اور ان پر ان کی شرم کے مقام ظاہر ہوگئے اور وہ اپنا ستر چھپانے اور جسم ڈھانکنے کے لئے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور درخت سے کھا کر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کےحکم میں  لغزش واقع ہوئی توانہوں  نے اس سے جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا اور اس درخت کے کھانے سے انہیں  دائمی زندگی نہ ملی۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۳ / ۲۶۶)

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کا عقیدہ:

         یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش کا واقع ہونا ارادے اور نیت سے نہ تھا بلکہ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاارادہ اور نیت حکم کو پورا کرنے اور اس چیز سے بچنے کا تھا جو جنت سے نکال دئیے جانے کا سبب بنے، لہٰذا کسی شخص کے لئے تاویل کے بغیر حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی کی نسبت کرنا جائز نہیں ۔  اللہ تعالیٰ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے راضی ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بھی  اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی مخالفت کرنے سے معصوم ہیں۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۴ / ۱۲۸۳)

         یہاں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عِصمت سے متعلق اہلسنّت و جماعت کے عقیدے کے بارے میں   اعلیٰ حضرت امام احمد ر ضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے ایک کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو ’’اہلِ حق یعنی اہلِ اسلام اور اہلسنّت وجماعت شاہراہِ عقیدت پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے جبکہ سرکشی کرنے والے اور اہلِ باطل تفصیلات میں  ڈوب کر اور ان میں  ناحق غور کرکے گمراہی کے گڑھے اور بددینی کی گمراہیوں  میں  جا پڑے، انہوں  نے کہیں  دیکھا ’’ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‘‘ کہ اس میں  عصیاں  اور بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے رو گردانی کی نسبت حضرت آدم عَلَیْہِ  السَّلَام کی جانب کی گئی ہے۔ کہیں  سنا ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ جس سے ذنب یعنی گناہ اور ا س کی بخشش کی نسبت کا حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جنابِ والا کی جانب گمان ہوتا ہے۔ کبھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام اور قومِ فرعون کے قبطی کا قصہ یاد آیا کہ آپ نے قبطی کو ظلم پر آمادہ پاکر ایک گھونسا مارا اور وہ قبطی (مر کر) قبر کی گہرائی میں  پہنچا۔ کبھی حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کے ایک اُمتی اور یّاہ کا فسانہ سن پایا حالانکہ یہ حضرت داؤد عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہودیوں  کا الزام تھا جسے انہوں  نے خوب اچھالا اور عوام الناس کی زبان پر عام ہوگیا حتّٰی کہ اس کی شہرت کی بنا پر احوال کی تحقیق اور تفتیش کے بغیر بعض مفسرین نے اس واقعہ کو من و عن بیان فرما دیا، جب کہ امام رازی فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ میری تحقیق میں  سراسر باطل و لغو ہے۔ غرض بے عقل ،بے دینوں  اور بے دین بدعقلوں  نے یہ افسانہ سن پایا توچون و چرا کرنے لگے، پھر خدا و رسول کی ناراضی کے سوا اور بھی کچھ پھل پایا؟ اور اُلٹا ’’خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْا‘‘ (اور تم بے ہودگی میں  پڑے جیسے وہ پڑے تھے)نے ’’وَ لٰـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (مگر عذاب کا قول کافروں  پر ٹھیک اُترا)کا دن دکھایا۔

         مسلمان ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں  کہ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کبیرہ گناہوں  سے مُطلَقاً اور گناہِ صغیرہ کے عمداً ارتکاب، اور ہر ایسے امر سے جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو اور مخلوقِ خدا اِن کے باعث اُن سے دور بھاگے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت و مروت اور معززین کی شان و مرتبہ کے خلاف ہیں  قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بِالاجماع معصوم ہیں ۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: اعتقاد الاحباب، عقیدۂ خامسہ، ۲۹ / ۳۵۹-۳۶۰)

ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَیْهِ وَ هَدٰى(122)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اس کے رب نے اسے چن لیا تو اس پر اپنی رحمت سے رجوع فرمایا اور خصوصی قرب کا راستہ دکھایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ:پھر اس کے رب نے اسے چن لیا۔} زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   اللہ تعالیٰ کی توفیق سے توبہ و اِستغفار میں  مشغول ہوئے اور جب انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سرکار دو عالم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلہ سے دعا کی تو  اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما کران پر اپنی رحمت سے رجوع فرمایا اور انہیں  اپنے خاص قرب کاراستہ دکھایا۔

قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى ﳔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰى(123)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ نے فرمایا: تم دونوں اکٹھے جنت سے اتر جاؤ، تمہارے بعض بعض کے دشمن ہوں گے پھر (اے اولادِ آدم) اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبخت ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِیْعًۢا: فرمایا: تم دونوں اکٹھے جنت سے اترجاؤ۔} جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش صادر ہوئی تو اس کے بعد  اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا: تم دونوں  اپنی ذُرِّیَّت کے ساتھ مل کر اکٹھے جنت سے زمین کی طرف اترجاؤ، تمہاری اولاد میں  سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے ،دنیا میں  ایک دوسرے سے حسد اور دین میں اختلاف کریں گے، پھر اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس میری طرف سے کتاب اور رسول کی صورت میں کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ دنیا میں نہ گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا کیونکہ آخرت کی بدبختی دنیا میں حق راستے سے بہکنے کا نتیجہ ہے تو جو کوئی اللہ تعالیٰ کی کتاب اوراس کے برحق رسول کی پیروی کرے اور ان کے حکم کے مطابق چلے وہ دنیا میں گمراہ ہونے سے اور آخرت میں اس گمراہی کے عذاب و وبال سے نجات پائے گا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۳،  ۵ / ۴۴۰-۴۴۱، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۷۰۶، ملتقطاً)

دنیا میں گمراہی اور آخرت میں بدبختی سے بچنے کا ذریعہ:

            اِس سے معلوم ہوا کہ اِس امت کے لوگوں کا قرآنِ مجید میں دئیے گئے اَحکامات پر عمل کرنا اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی اطاعت کرنا انہیں دنیا میں گمراہی سے بچائے گا اور آخرت میں بدبختی سے نجات دلائے گا، لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کی پیروی کرے اور حضور پُر نور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِتباع کرے تاکہ وہ گمراہ اور بدبخت ہونے سے بچ جائے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی پیروی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘(انعام: ۱۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ (قرآن)وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(زمر:۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیزتمہاری طرف نازل کی گئی ہے اس کی اس وقت سے پہلے پیروی اختیار کرلو کہ تم پر اچانک عذا ب آجائے اور تمہیں خبر (بھی) نہ ہو۔

            اور اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرماتا ہے:  ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے لوگو!میں  تم سب کی طرف   اللہ کا رسول ہوں  جس کے لئے آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ  اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں  ہیں ،  اللہ اور اس کی تمام باتوں  پر ایمان لاتے ہیں  اوران کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران۳۱،۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم  اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ  اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور  اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم فرمادو کہ  اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو پھراگر وہ منہ پھیریں  تو  اللہ کافروں  کو پسند نہیں  کرتا۔

اور جو لوگ قرآن عظیم کی پیروی اور رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کریں  ان کے بارے میں  ارشاد فرماتاہے:

’’اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف :۱۵۷)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:  وہ جواس رسول کی اتباع کریں  جو غیب کی خبریں  دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں  ہیں  ، جسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں  لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں  نیکی کا حکم دیتے ہیں  اور انہیں  برائی سے منع کرتے ہیں  اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں  حلال فرماتے ہیں  اور گندی چیزیں  ان پر حرام کرتے ہیں  اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں  اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں  اور اس کی تعظیم کریں  اور اس کی مدد کریں  اور اس نور کی پیروی کریں  جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(124)قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا(125)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھنے والاتھا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ:اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا ۔} اس آیت میں  ذکر سے مراد قرآنِ مجید پر ایمان لانا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دلائل ہیں  جنہیں  اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے طور پر نازل کیا گیا ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذکر سے سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس ذات مراد ہو کیونکہ ذکر آپ ہی سے حاصل ہوتا ہے اور تنگ زندگی گزارنے کے مقام کے بارے میں  مفسرین کے 5 اَقوال درج ذیل ہیں :

(1)…دنیا میں  تنگ زندگی ہے۔ دنیا کی تنگ زندگی یہ ہے کہ بندہ ہدایت کی پیروی نہ کرے، برے عمل اور حرام فعل میں  مبتلا ہو، قناعت سے محروم ہو کر حرص میں  گرفتار ہو جائے اور مال و اَسباب کی کثرت کے باوجود بھی اس کو دل کی فراخی اور سکون مُیَسَّر نہ ہو ، دل ہر چیز کی طلب میں  اور حرص کے غموں  سے آوارہ ہو کہ یہ نہیں  وہ نہیں ، حال تاریک اور وقت خراب رہے اور توکّل کرنے والے مومن کی طرح اس کو سکون و فراغ حاصل ہی نہ ہو جسے حیاتِ طیّبہ یعنی پاکیزہ زندگی کہتے ہیں ۔

(2)…قبر میں  تنگ زندگی ہے۔ قبر کی تنگ زندگی یہ ہے کہ قبر میں  عذاب دیا جائے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا ’’یہ آیت اسود بن عبد العزیٰ مخزومی کے حق میں  نازل ہوئی اور قبر کی تنگ زندگی سے مراد قبر کا اِس سختی سے دبانا ہے جس سے ایک طرف کی پسلیاں  دوسری طرف آ جاتی ہیں ۔

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’کیا تم جانتے ہوکہ معیشت ِضَنک کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے عرض کی کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کارسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں۔  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قبر میں  کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے کافر پر ننانوے تنین مُسلَّط کئے جائیں  گے کیا تم جانتے ہو کہ تنین کیا ہیں  ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں  ہرسانپ کے سات پھن ہیں  وہ اس کے جسم میں  پھونکیں  ماریں  گے اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں  گے۔( مسند ابی یعلی، مسند ابی ہریرۃ، شہر بن حوشب عن ابی ہریرۃ، ۵ / ۵۰۸، الحدیث: ۶۶۱۳)

(3)… آخرت میں  تنگ زندگی ہے۔ آخرت میں  تنگ زندگی جہنم کے عذاب میں  مبتلا ہونا ہے، جہاں  تھوہڑ، کھولتا پانی ، جہنمیوں  کے خون اور ان کے پیپ کھانے پینے کو دئیے جائیں  گے۔

(4)…دین میں  تنگ زندگی ہے۔ دین میں  تنگ زندگی یہ ہے کہ نیکی کی راہیں  تنگ ہو جائیں  اور آدمی حرام کمانے میں  مبتلا ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ ’’ بندے کو تھوڑا ملے یا زیادہ، اگر خوفِ خدا نہیں  تو اس میں  کچھ بھلائی نہیں  اور یہ تنگ زندگانی ہے ۔

(5)…دنیا ، قبر، آخرت اور دین سب میں  تنگ زندگی ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۶ / ۱۳۹، الجزء الحادی عشر، تفسیر کبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۸ / ۱۱۰-۱۱۱، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۳ / ۲۶۸، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ص۷۰۶، ملتقطًا)

{وَ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى:اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں  گے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ ہم اپنے ذکر سے اِعراض کرنے والے کو قیامت کے دن اندھا اٹھائیں  گے اور اس وقت وہ کہے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا حالانکہ میں  تو دنیا میں  دیکھنے والا تھا؟ یاد رہے کہ کافر قیامت کا پورا عرصہ اندھا نہیں  رہے گا بلکہ قیامت کے بعض اَحوال میں  اس کی بینائی نہیں  ہو گی اور بعض احوال میں  اسے بینائی عطا کر دی جائے گی تاکہ وہ قیامت کے ہولناک مَناظِر دیکھ سکے۔

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَاۚ-وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى(126)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے چھوڑ دیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: اللہ فرمائے گا۔}اس کے جواب میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ دنیا میں  تیرے پاس میری نشانیاں  آئیں  لیکن تو ان پر ایمان نہ لایا اور تونے انہیں  پسِ پشت ڈال کران سے منہ پھیرلیا، اسی طرح آج ہم تجھے آگ میں  ڈال کر چھوڑ دیں گے اور تیرا حال پوچھنے والاکوئی نہ ہوگا۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۳ / ۲۶۸)

 دونوں  جہاں  میں  گناہ اور نیکی کانتیجہ:

         اس سے معلوم ہوا کہ جیسے گناہ کا عذاب دنیا و آخرت میں  پڑتا ہے یونہی نیکی کا فائدہ دونوں  جہان میں  ملتا ہے ۔ جو مسلمان پانچوں  نمازیں  پابندی سے جماعت کے ساتھ ادا کرے اسے رزق میں  برکت ، قبر میں  فراخی نصیب ہوگی اور پل صراط پر آسانی سے گزرے گا اور جو جماعت کا تارک ہو گا اس کی کمائی میں  برکت نہ ہوگی، چہرے پر صالحین کے آثار نہ ہوں  گے ، لوگوں  کے دلوں  میں  اس سے نفرت ہوگی، پیاس و بھوک میں  جان کنی اور قبر کی تنگی میں  مبتلا ہوگا اور ا س کا حساب بھی سخت ہوگا۔

وَ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ یُؤْمِنْۢ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى(127)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم اس شخص کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں جو حد سے بڑھے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور بیشک آخرت کا عذاب سب سے شدید اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ:اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم اس شخص کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں  جو اپنے رب کی نافرمانی کرنے میں  حد سے بڑھ جائے اور اپنے رب کی آیتوں  پر ایمان نہ لائے اور بیشک آخرت کا عذاب دُنْیَوی عذاب کے مقابلے میں سب سے شدید اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ لہٰذا جو  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پانے اور ا س کا ثواب حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں  آنے والی دنیوی سختیوں  پر صبر کرے اور دنیا کی نفسانی خواہشات اور گناہوں  سے بچتا رہے کیونکہ جنت کو مصیبتوں  سے اور جہنم کو شہوتوں سے چھپایا گیا ہے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۴۴۲)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو بلاکر جنت کی طرف بھیجا اور ان سے فرمایا ’’تم جنت اور ان نعمتوں  کو دیکھو جو میں  نے اہلِ جنت کے لئے تیار کی ہیں  ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام دیکھ کر واپس آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! جو ان نعمتوں  کے بارے میں  سن لے گا وہ ان میں  داخل ہو گا۔ جنت کو مصیبتوں  سے چھپا دیا گیا، پھر ارشاد فرمایا ’’تم جنت کی طرف دوبارہ جاؤ اور اسے دیکھو۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام دیکھ کر واپس لوٹے اور عرض کی: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں  کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ پھر  اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام کو جہنم کی طرف بھیجا اور ارشاد فرمایا ’’تم جہنم کی طرف جاؤ اور ان عذابات کو دیکھو جو میں  نے اہلِ جہنم کے لئے تیار کئے ہیں  ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام انہیں  دیکھ کر واپس آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! جس نے ان عذابات کے بارے میں  سنا وہ جہنم میں  داخل نہیں  ہو گا۔ جہنم کو شہوتوں  سے ڈھانپ دیا گیا ،پھر ارشاد فرمایا ’’جہنم کی طرف لوٹو اور اسے دیکھو۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ  السَّلَام دیکھ کر آئے اور عرض کی :تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس میں  داخل ہونے سے کوئی نہ بچے گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی  اللہ عنہ، ۳ / ۳۰۸، الحدیث: ۸۸۷۰) 

اَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰكِنِهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى(128)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا انہیں اس بات نے ہدایت نہ دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کردیں جن کی رہائش کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں بیشک اس میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَمْ یَهْدِ لَهُمْ:تو کیا انہیں  اس بات نے ہدایت نہ دی۔} ارشاد فرمایا کہ کیا کفارِقریش کو اس بات نے ہدایت نہ دی کہ ہم نے ان سے پہلے رسولوں  کو نہ ماننے والی کتنی قومیں  ہلاک کردیں  جن کی رہائش کی جگہوں  میں  یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں  اور اپنے سفروں  میں  ان کے علاقوں  سے گزرتے اور ان کی ہلاکت کے نشان دیکھتے ہیں ۔بیشک سابقہ قوموں  کو عذاب کے ذریعے ہلاک کر دینے میں  ان عقل والوں  کیلئے نشانیاں  ہیں  جو عبرت حاصل کریں  اور یہ سمجھ سکیں  کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب اور ان کی مخالفت کا انجام برا ہے۔( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۲۶۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۷۰۶، ملتقطاً)

وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ مُّسَمًّىﭤ(129)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے (طے) نہ ہو چکی ہوتی اور ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور عذاب انہیں لپٹ جاتا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی۔} ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے طے نہ ہو چکی ہوتی کہ محمد مصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت ِ دعوت کے عذاب میں  قیامت تک تاخیر کی جائے گی اور سابقہ امتوں  کی طرح جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دینے والا عذاب ان پر نازل نہیں  کیا جائے گااور قیامت کے دن ان کے عذاب کی ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور عذاب انہیں  دنیا ہی میں  لپٹ جاتا۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۵ / ۴۴۳)

اس امت پر عذابِ عام نہ آنے کی وجوہات:

اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی امت میں  سے جو لوگ آپ کو جھٹلائیں  گے اور آپ پر ایمان نہ لائیں  گے توان پر دنیا میں  ویسا عذاب نہیں  آئے گا جیسا پچھلی امتوں  کے کفار پر نازل کیا گیا تھا کہ ان کی تمام بستیاں  تباہ و برباد کر دی جائیں  اور ان میں سے کوئی کافر زندہ نہ بچے، مفسرین نے اس کی چند وجوہات بھی بیان کی ہیں  جو کہ درج ذیل ہیں :

(1)… اللہ تعالیٰ کے علم میں  ہے کہ ان جھٹلانے والوں  میں  سے بعض کفارایمان لے آئیں  گے اس لئے ان پر ویسا عذاب نازل نہ ہو گا۔

(2)… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ان جھٹلانے والوں  کی نسل میں  کچھ ایسے لوگ پیداہوں  گے جومسلمان ہوجائیں  گے، اس لئے اگران پرعذاب نازل کردیاجائے تووہ لوگ بھی ہلاک ہوجائیں  گے ۔

(3)…بعض مفسرین کہتے ہیں  کہ اس میں  کوئی مصلحت پوشیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

(4)… اللہ تعالیٰ مالک ومولیٰ ہے جسے چاہے عذاب دے اورجسے چاہے اپنے فضل کی وجہ سے عذاب سے مُستثنیٰ کردے۔(تفسیرکبیر، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۸ / ۱۱۲)

(5)…علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں’’بے شک  اللہ تعالیٰ کے علم میں  تھا کہ وہ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اِکرام کی وجہ سے ان کی امت سے عذابِ عام کو مُؤخَّر فرما دے گا اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس امت پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہوتا جیسا سابقہ امتوں  پر نازل ہوا تھا۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۱۲۸۶)

عذاب مؤخر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ جس نے (اپنے کفر و مَعاصی سے) توبہ کرنی ہے وہ توبہ کر لے اور جو (اپنے کفر و معاصی پر) قائم رہنا چاہتا ہے اس کی حجت ختم ہو جائے لہٰذا ہر عقلمند مُکَلَّف کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید کی نصیحتوں  سے نصیحت حاصل کرے اور قادر و حکیم رب تعالیٰ سے ڈرے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور ا س کی بارگاہ میں  سرِ تسلیم خم کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور انسان ہونے، اشرفُ المخلوقات ہونے اور تمام مصنوعات میں  سب سے بہترین ہونے کے باوجود جمادات سے بھی برا نہ بنے کہ قرآن پاک میں  ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے خوف سے پتھر بھی اپنی جگہ سے گر جاتے ہیں  اور ان سے بھی پانی جاری ہوتا ہے۔

فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ-وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى(130)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہو اور رات کی کچھ گھڑیوں میں اور دن کے کناروں پر (بھی اللہ کی) پاکی بیان کرو، اس امید پر کہ تم راضی ہوجاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاصْبِرْ عَلٰى مَا یَقُوْلُوْنَ:تو آپ ان کی باتوں  پر صبر کریں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو جھٹلانے والوں  سے عذاب مؤخر کر کے ہم نے انہیں  مہلت دی ہے ، اب اگر یہ اپنے کفر پر ہی قائم رہے تو ضرور عذاب میں  مبتلا ہوں  اس لئے آپ ان کی دل آزار باتوں  پر صبر کرتے رہیں  یہاں  تک کہ ان کے بارے میں  کوئی حکم نازل ہو جائے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۴۴۴)

{وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ:اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔} یہاں  سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ، غروب ہونے سے پہلے ، رات کی کچھ گھڑیوں  میں اور دن کے کناروں  پر حمد کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے کا حکم دیا گیا، سورج طلوع ہونے سے پہلے پاکی بیان کرنے سے مراد نمازِفجر ادا کرنا ہے ۔ سورج غروب ہونے سے پہلے پاکی بیان کرنے سے مراد ظہر و عصر کی نمازیں  ادا کرنا ہیں  جو کہ دن کے دوسرے نصف میں  سورج کے زوال اور غروب کے درمیان واقع ہیں  ۔ رات کی کچھ گھڑیوں  میں  پاکی بیان کرنے سے مغرب اور عشا کی نمازیں  پڑھنا مراد ہے۔ دن کے کناروں  میں  پاکی بیان کرنے سے فجر اور مغرب کی نمازیں  مراد ہیں  اور یہاں  تاکید کے طور پر ان نمازوں  کی تکرار فرمائی گئی ہے ۔ بعض مفسرین سورج غروب ہونے سے پہلے سے نمازِ عصر اور دن کے کناروں  سے نمازِ ظہر مراد لیتے ہیں  ، ان کی تَوجیہہ یہ ہے کہ نمازِ ظہر زوال کے بعد ہے اور اس وقت دن کے پہلے نصف اور دوسرے نصف کے کنارے ملتے ہیں  اور یہاں  پہلے نصف کی انتہا اور دوسرے نصف کی ابتدا ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۷۰۷، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۳ / ۲۶۹، ملتقطاً)

{لَعَلَّكَ تَرْضٰى: اس امید پر کہ تم راضی ہوجاؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان اوقات میں  اس امید پر  اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے رہیں  کہ آپ  اللہ تعالیٰ کے فضل و عطا اور اس کے انعام و اِکرام سے راضی ہوں ، آپ کو امت کے حق میں  شفیع بنا کر آپ کی شفاعت قبول فرمائے اور آپ کو راضی کرے۔( روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۴۴۴-۴۴۵، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۳ / ۲۶۹)

 اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا چاہتا ہے :

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس آیت کے تحت اپنی مشہور کتاب تفسیر صاوی میں  فرماتے ہیں  :اے بندے! اس لطف و کرم والے خطاب کو دیکھ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کے حبیب ہیں  اور ساری مخلوق سے افضل ہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے ان سے یوں  نہیں  ارشاد فرمایا ’’تاکہ میں  آپ سے راضی ہو جاؤں۔یونہی اس طرح کا کوئی اور کلام نہیں  فرمایا (جیسے یوں  نہیں  فرمایا ’’تاکہ آپ کو میری رضا حاصل ہو جائے) بلکہ یوں  ارشاد فرمایا ہے ’’لَعَلَّكَ تَرْضٰى‘‘ یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تاکہ آپ راضی ہو جائیں ۔ اور یہاں  نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان بھی ملحوظ رہے کہ میری آنکھوں  کی ٹھنڈک نماز میں  رکھی گئی ہے ‘‘اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کا یہ قول بھی پیش ِنظر رہے (جس میں آپ اپنے پیارے محبوب سے عرض کرتی ہیں  :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،) میں  حضور کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھتی ہوں  کہ وہ حضور کی خواہش میں  جلدی فرماتا ہے۔‘‘ پس رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز کا حکم ا س لئے نہیں  دیا گیا کہ ان کی کوئی خطا ہے جو معاف ہو جائے یا اس لئے نہیں  دیا گیا نماز ادا کرنے کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے بلکہ اس لئے دیاگیا ہے تاکہ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ راضی ہو جائیں  کیونکہ نماز میں  حضور پُر نورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  حاضری دیتے ہیں  جو کہ ان کی آنکھوں  کی ٹھنڈک ہے اور اس امت کے کامل عارف اولیاءِ کرام کو بھی اس مقام سے کچھ حصہ ملتا ہے۔( صاوی، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۴ / ۱۲۸۷)

وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(131)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اے سننے والے! ہم نے مخلوق کے مختلف گروہوں کو دنیا کی زندگی کی جوتروتازگی فائدہ اٹھانے کیلئے دی ہے تاکہ ہم انہیں اس بارے میں آزمائیں تو اس کی طرف تو اپنی آنکھیں نہ پھیلا اور تیرے رب کا رزق سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى:اوراس کی طرف تو اپنی آنکھیں  نہ پھیلا۔} اس آیت میں  بظاہر خطاب نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہے اور اس سے مراد آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! ہم نے کافروں  کے مختلف گروہوں  جیسے یہودیوں ، عیسائیوں  اور مشرکوں  وغیرہ کودنیا کا جو ساز و سامان فائدہ اٹھانے کیلئے دیا ہے وہ اس وجہ سے دیا ہے تاکہ ہم انہیں  اس کے سبب اس طرح آزمائش میں  ڈالیں  کہ ان پر جتنی نعمت زیادہ ہو اتنی ہی ان کی سرکشی اور ان کا طُغیان بڑھے اور وہ سزائے آخرت کے سزاوار ہوں  ،لہٰذا تو تعجب اور اچھائی کے طور پر اس کی طرف اپنی آنکھیں  نہ پھیلا اور آخرت میں  تیرے ربعَزَّوَجَلَّ کا رزق جنت اور ا س کی نعمتیں سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا رزق ہے۔( البحر المحیط، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۶ / ۲۶۹، مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱،ص۷۰۷، خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۳ / ۲۶۹-۲۷۰، ملتقطاً)

کفار کی ترقی ان کے لئے آزمائش ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ کافروں  کے دُنْیَوی سازو سامان،مال و دولت اور عیش و عشرت کافروں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہیں  اس لئے مومن کو چاہئے کہ وہ کفار کی ان چیزوں  کو تعجب اور اچھائی کی نظر سے نہ دیکھے۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ نافرمانوں  کی شان و شوکت اور رعب داب نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ گناہ اور معصیت کی ذلت کس طرح ان کی گردنوں  سے نمودار ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۱،ص۷۰۷)

                 اس میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی نصیحت ہے جو فی زمانہ کفار کی دنیوی ٹیکنالوجی میں  ترقی، مال و دولت اور عیش عشرت کی فراوانی دیکھ کرتو ان سے انتہائی مرعوب اور دین ِاسلام سے ناراض دکھائی دیتے ہیں  جبکہ انہیں  یہ دکھائی نہیں  دیتا کہ اس ترقی اور دولت مندی کی وجہ سے وہ  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور ا س کے احکام سے سرکشی کرنے میں  کتنا آگے بڑھ چکے ہیں ، کیا انہوں  نے دیکھا نہیں  کہ اسی ترقی کے سبب آج کونسا گناہ ایسا ہے جو وہ نہیں  کر رہے …؟ فحاشی ، عُریانی ، بے حیائی اور بے شرمی کی کونسی ایسی حد ہے جو وہ پار نہیں  کر چکے…؟ ظلم و ستم ، سفاکی اور بے رحمی کی کونسی ایسی لکیر ہے جسے وہ مٹا نہیں  چکے…؟ مسلمانوں  کو ذلت و رسوائی میں  ڈبونے کے لئے کون سا ایسا دریا ہے جس کے بند وہ توڑ نہیں  چکے…؟ افسوس! ان سب چیزوں  کو اپنی جیتی جاگتی آنکھوں  سے دیکھنے ،سماعت سے بھر پور کانوں  سے سننے کے باوجود بھی لوگ عبرت نہیں  پکڑتے اور کفار کے عیش و عشرت اور ترقی و دولت کی داستانیں  سن سنا کر اور مسلمانوں  کی ذلت و غربت کا رونا رو کر نہ صرف خود اسلام سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں  بلکہ دوسرے مسلمانوں  کو بھی دین ِاسلام سے دور کرنے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔

وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى(132)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی نماز پر ڈٹے رہو۔ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے (بلکہ) ہم تجھے روزی دیں گے اور اچھاانجام پرہیزگاری کے لیے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ:اور اپنے گھر والوں  کو نماز کا حکم دو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا اسی طرح آپ بھی اپنے گھر والوں  کو نماز پڑھنے کا حکم دیں  اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہیں ۔(روح البیان، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۴۴۸)

حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آٹھ ماہ تک حضرت علی کَرَّمَ  اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے دروازے پرصبح کی نمازکے وقت تشریف لاتے رہے اور فرماتے: ’’اَلصَّلَاۃُ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ،اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا‘‘(ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۱۳۶)

نماز اور مسلمانوں  کا حال:

یاد رہے کہ اس خطاب میں حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت بھی داخل ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر امتی کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے گھروالوں  کو نماز ادا کرنے کا حکم دے اور خود بھی نماز ادا کرنے پر ثابت قدم رہے ۔

ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(التحریم:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں  اور اپنے گھر والوں  کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، اس  پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں  جو  اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں  کرتے اور وہی کرتے ہیں  جو انہیں  حکم دیا جاتا ہے۔

افسوس! فی زمانہ نماز کے معاملے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ گھر والے نمازیں  چھوڑدیں ، انہیں ا س کی پرواہ نہیں ۔خود کی نمازیں  ضائع ہو جائیں  ،انہیں  اس کی فکر نہیں  اورکوئی شخص نماز چھوڑنے پرانہیں  اُخروی حساب اور عذاب سے ڈرائے ،انہیں اس کا احساس نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت عطا فرمائے اورنہ صرف خود نمازیں  ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے بلکہ اپنے گھر والوں  کو بھی نمازی بنانے کی ہمت و توفیق نصیب کرے،اٰمین۔

{لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًا: ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں  مانگتے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں  مانگتے اور اس بات کا پابند نہیں  کرتے کہ ہماری مخلوق کو روزی دے یا اپنے نفس اور اپنے اہل کی روزی کے ذمہ دار ہو بلکہ ہم تجھے روزی دیں  گے اور انہیں  بھی ، تو روزی کے غم میں  نہ پڑ ،بلکہ اپنے دل کو امر ِآخرت کے لئے فارغ رکھ کہ جو  اللہ تعالیٰ کے کام میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی کارسازی کرتا ہے اور آخرت کا اچھاانجام پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لیے ہے۔( مدارک، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ص۷۰۷-۷۰۸)

 اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑنے کا انجام:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے کسی کو روزی دینا اس کے ذمے نہیں  بلکہ سب کو روزی دینے والی ذات  اللہ تعالیٰ کی ہے ۔

اسی طرح ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے : ’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ‘‘(الذاریات:۵۶۔۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میں  نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔میں  ان سے کچھ رزق نہیں  مانگتا اور نہ  یہ چاہتا ہوں  کہ وہ مجھے کھلائیں ۔بیشک  اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا، قدرت والا ہے۔

یاد رہے کہ ان آیتوں  کا مَنشاء یہ نہیں  کہ انسان کمانا چھوڑ دے،کیونکہ کمائی کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں  بہت جگہ آیا ہے،بلکہ منشاء یہ ہے کہ بندہ کمائی کی فکر میں  آخرت سے غافل نہ ہو اوردنیاکمانے میں  اتنامگن نہ ہوجائے کہ حلال وحرام کی تمیزنہ کرے اور نماز،روزے ،حج ،زکوٰۃ سے غافل ہوجائے ۔

 افسوس! فی زمانہ مسلمان مال کمانے میں اس قدر مگن ہو چکے ہیں  کہ صبح شام ،دن رات اسی میں سرگرداں ہیں  اور ان کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوسکیں اوراس خالق ومالک کویاد کرسکیں  جوحقیقی روزی دینے والاہے ،اور اتنی محنت و کوشش کے باوجود ان کا جو معاشی حال ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ آج ہر کوئی رزق کی کمی، مہنگائی، بیماری اور پوری نہیں  پڑتی کا رونا رو رہا ہے۔ اے کاش! مسلمان رزق حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس ذمہ داری کو بھی پورا کرتے جو  اللہ تعالیٰ نے ان پر لازم کی ہے تو آج ان کا حال اس سے بہت مختلف ہوتا۔ عبرت کے لئے یہاں  3اَحادیث ملاحظہ فرمائیں :

(1)…حضرت انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدار رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے آخر ت کی فکر ہو اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے اور اس کے بکھرے ہوئے کاموں  کو جمع کر دیتا ہے اور دنیاا س کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جسے دنیا کی فکر ہو، اللہ تعالیٰ محتاجی اس کی دونوں  آنکھوں  کے سامنے اور اس کے جمع شدہ کاموں  کو مُنْتَشر کر دیتا ہے اور دنیا (کامال ) بھی اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۳)

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’جو شخص تمام فکروں  کو چھوڑ کر ایک چیز(یعنی) آخرت کی فکر سے تعلق رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام دُنْیَوی کام اپنے ذمے لے لے گااور جو دنیوی فکروں میں مبتلا رہے گاتو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں،خواہ وہ کہیں بھی مرے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہمّ بالدنیا، ۴ / ۴۲۵، الحدیث: ۴۱۰۶)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے انسان! تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا ،میں  تیرا سینہ غنا سے بھر دوں  گااور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں  گااور اگر تو ایسا نہ کرے گا تو تیرے دونوں  ہاتھ مَشاغل سے بھر دوں  گااور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہ کروں  گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۴)

روزی کے دروازے کھلنے کا ذریعہ:

اس آیت سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نیک اعمال سے روزی کے دروازے کھلتے ہیں ۔ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘‘(سورۂ طلاق:۲،۳)

وَ قَالُوْا لَوْ لَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-اَوَ لَمْ تَاْتِهِمْ بَیِّنَةُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى(133)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافر وں نے کہا: یہ نبی اپنے رب کے پاس سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے ؟ اور کیا ان لوگوں کے پاس پہلی کتابوں میں مذکور بیان نہ آیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوْا:اور کافر وں  نے کہا۔} کثیر نشانیاں  آ جانے اور معجزات کا مُتَواتِر ظہور ہو نے کے باوجودکفار ان سب سے اندھے بنے اور انہوں  نے حضورپُرنورصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسبت یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے ربّ کے پاس سے کوئی ایسی نشانی کیوں  نہیں  لاتے جو آپ کی نبوت صحیح ہونے پر دلالت کرے ، اس کے جواب میں   اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ کیا ان لوگوں  کے پاس پہلی کتابوں  میں  مذکور قرآن اور دو عالَم کے سردارصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و بِعثت کا ذکر نہ آیا، یہ کیسی عظیم ترین نشانیاں  ہیں  اور ان کے ہوتے ہوئے اور کسی نشانی کو طلب کرنے کا کیا موقع ہے۔( ابو سعود، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۳ / ۵۰۰)

وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى(134)قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْاۚ-فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَ مَنِ اهْتَدٰى(135)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟ تم فرماؤ:ہر کوئی انتظار کررہا ہے تو تم بھی انتظار کرو توعنقریب تم جان لوگے کہ سیدھے راستے والے کون تھے اور کس نے ہدایت پائی؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ:اور اگر ہم انہیں  رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم نبی کو بھیجے بغیر کفار پر عذاب بھیج دیتے توقیامت کے دن یہ لوگ شکایت کرتے کہ ہم میں  کوئی رسول توبھیجا ہوتا پھر اگر ہم اس کی اطاعت نہ کرتے تو عذاب کے مستحق ہوتے ۔اب انہیں  اس شکایت کا بھی موقعہ نہیں  کیونکہ اب سرکارِ دوعالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لاچکے ہیں ۔

 { قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا:تم فرماؤ:ہر کوئی انتظار کررہا ہے تو تم بھی انتظار کرو ۔}شانِ نزول:مشرکین نے کہا تھا کہ ہم زمانے کے حوادِث اور انقلاب کا انتظار کرتے ہیں  کہ کب مسلمانوں  پر آئیں  اور ان کا قصہ تمام ہو ۔ اس پر یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا کہ تم مسلمانوں  کی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہو اورمسلمان تمہارے عقوبت و عذاب کا انتظار کر رہے ہیں  ۔عنقریب جب خدا کا حکم آئے گا اور قیامت قائم ہو گی تو تم جان لوگے کہ سیدھے راستے والے کون تھے اور کس نے ہدایت پائی؟( خازن، طہ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۳ / ۲۷۰)



Scroll to Top