سُوْرَۃُ الشُّعَرَاء

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں 

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

طٰسٓمّٓ(1)تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

طسم۔ یہ ظاہر کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{طٰسٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے اور ا س کی مراد اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی بہتر جانتے ہیں۔

{تِلْكَ: یہ} یعنی اِس سورت کی آیتیں  اُس قرآن کی آیتیں  ہیں  جس کا مُعْجِز یعنی دوسروں  کو مقابلے سے عاجز کر دینے والا نیز اللہ تعالٰی کا کلام ہونا روشن و ظاہر ہے اور جس کا حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا ہونا واضح ہے۔اگر اس کی یہ شان نہ ہوتی تو لوگ اس کی مثل لانے پر ضرور قادر ہو جاتے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز نہ رہتے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۲۶۱، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲، ص۳۰۹، ملتقطاً)

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(اے حبیب!) کہیں آپ اپنی جان کو ختم نہ کردو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَعَلَّكَ: کہیں  آپ۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ا س بات کی شدید خواہش تھی کہ اہل ِمکہ ایمان لے آئیں ، لیکن جب وہ ایمان نہ لائے اور کفار ِمکہ نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی ایمان سے محرومی کی وجہ سے قلبی طور پر بہت دکھ ہوا، اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت ِکریمہ نازل فرمائی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے رحمت و کرم کے انداز میں  خطاب فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآن مجید حق کو بیان کرنے میں  انتہا کو پہنچا ہو اہے اور کفارِ مکہ میں  سے جو لوگ اللہ تعالٰی کے علم میں  ایمان سے محروم ہیں  وہ قرآنِ کریم کی آیات سن کر بھی ایمان نہیں  لائیں  گے، اس لئے آپ ان کے ایمان قبول نہ کرنے پر اتنا غم نہ کریں  کہ آپ کی جان ہی چلی جائے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۸۲، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۴۹۰، ملتقطاً)

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخلوق پر انتہائی کرم نوازی:

             اس آیت میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی محبوبیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخلوق پر انتہائی کرم نوازی کا بھی ذکر ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر کرم نوازی دنیا میں  تو ہے ہی، آخرت میں  یہ رحمت و شفقت اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہوگی۔

اِدھر امّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر

نرالا طَور ہوگا گردشِ چشمِ شفاعت کا

اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی نشانی اتاریں تو ان کے بڑے بڑے سردار اُس نشانی کے آگے جھکے رہ جائیں ۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ نَّشَاْ: اگر ہم چاہیں ۔} اس آیت میں  مزید تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کے ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں ،اگر ہمیں  ان کا ایمان قبول کر لینا منظور ہوتا تو ہم ضرور ان پر ایسی نشانی اتار دیتے جس کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے بھی اس نشانی کے سامنے جھک جاتے، لیکن ہمیں  ان کی شَقاوت معلوم ہے، اس لئے ہم ان کے سامنے ایسی کوئی نشانی نہیں  اتارتے، لہٰذا آپ زیادہ غم فرما کر اپنی جان کو مشقت میں  نہ ڈالیں ۔

وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِیْنَ(5)فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان 

اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ تو بیشک انہوں نے جھٹلایا تو اب ان پر اس کی خبریں آئیں گی جس کا یہ مذاق اُڑاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا یَاْتِیْهِمْ: اور ان کے پاس نہیں  آتی۔} یعنی اللہ تعالٰی نے تنبیہ اور نصیحت پر مشتمل ایک کے بعد ایک آیت نازل فرمائی اوران کفار کا حال یہ ہے کہ جب بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی نئی نصیحت اور وحی نازل ہوتی ہے تووہ اس کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں  اور یوں  دم بدم ان کا کفر بڑھتا جاتا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۲۶۲-۲۶۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۸۱۴، ملتقطاً)

 

{فَقَدْ كَذَّبُوْا: تو بیشک انہوں  نے جھٹلایا۔} اس آیت میں  قرآن مجیدکا انکارکرنے پر مشرکوں  کو وعید سنائی گئی اور اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو قرآن لے کر ان مشرکوں  کے پاس تشریف لائے ہیں ، انہوں  نے اسے جادو،شعر اور سابقہ لوگوں  کی کہانیاں  کہہ کر جھٹلایا تو عنقریب جب انہیں  (دنیا میں  قتل یا آخرت میں  جہنم کا) عذاب پہنچے گا تب انہیں  خبر ہوگی کہ قرآن مجید اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے کا یہ انجام ہے اورجب جھٹلانے کا نتیجہ ظاہر ہوگیا تو اس کے بعدان کی شرمندگی اورندامت کوئی فائدہ نہ دے گی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۶،ص۸۱۴، تفسیرطبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۴۳۳، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۶۳، ملتقطاً

اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ(7)اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(8)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا انہوں نے زمین کی طرف نہ دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی قسموں کے اچھے جوڑے اگائے۔ بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان والے نہیں ۔ اور بیشک تمہارا رب ہی یقینا بہت عزت والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ: کیا انہوں  نے زمین کی طرف نہ دیکھا۔} ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالٰی کی آیات سے منہ پھیرنے والے، انہیں  جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے مشرکین نے کیا زمین کے عجائبات کی طرف نہیں  دیکھاکہ ہم نے اس میں  کتنی قسموں  کی نباتات کے اچھے جوڑے اگائے اور ان سے انسان و جانور دونوں  نفع اٹھاتے ہیں۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۶۳)

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: بیشک اس میں ۔} یعنی زمین میں  کتنی قسموں  کے اچھے جوڑے اگائے جانے میں  عظیم نشانی ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی قدرت کے کمال،اس کے علم کی کثرت اور اس کی رحمت کی وسعت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیزیں  ایمان قبول کرنے کی طرف راغب کرنے والی اور کفر سے روکنے والی ہیں  اور ا س کے باوجود ان مشرکوں  میں  سے اکثر ایمان قبول کرنے والے نہیں  کیونکہ یہ کفر و گمراہی میں  ڈوبے ہوئے اور سرکشی و جہالت میں  مُنہَمِک ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۲۶۳)

            بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو قیامت میں  دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں  ان کیلئے زمین میں  مختلف قسموں  کی بہترین اور نفع بخش چیزوں  کی پیدائش میں  اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قیامت میں  لوگوں  کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ جو رب تعالٰی مردہ زمین سے ایسی بہترین نباتات پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ ہر گز اس بات سے عاجز نہیں  کہ مردوں  کے بکھرے ہوئے اَجزاء جمع کر کے قبروں  سے انہیں  زندہ اٹھائے۔ لیکن ان میں  سے ا کثر قیامت کے دن اٹھائے جانے پر ایمان نہیں  لاتے۔( تفسیر طبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۴۳۴)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی یقینی طور پر عزت والا ہے، وہی غالب اور کافروں  کو سزا دینے پر قدرت رکھنے والا ہے اور وہی بہت بڑا مہربان ہے اور اسی نے اپنی رحمت سے مشرکوں  کی فوری گرفت نہیں  فرمائی بلکہ انہیں  (اپنا حال سنوار لینے کی) مہلت دی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۲۶۴)

وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰى: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی۔} یہاں  سے مشرکوں  کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے لئے اللہ تعالٰی نے پچھلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں  کے واقعات بیان فرمائے ہیں ، ان کی ترتیب یہ ہے۔ (1)حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (2)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (3)حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (4)حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (5)حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (6)حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ (7)حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ۔ ا س سے پہلے (متعدد سورتوں  میں ) ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات گزر چکے ہیں ،ان واقعات کو بار بار ذکر کرنے سے (ایک) مقصود یہ (بھی) ہے کہ مومن کے ایمان میں  اضافہ ہو اور کافر پر مزید حجت قائم ہو جائے۔( البحر المحیط، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۷، صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۴۵۳، ملتقطاً)

         اس آیت سے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کی ابتداء کی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ وہ وقت یاد کریں  جب آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت ندا فرمائی جب وہ مَدیَن سے لوٹے اور انہوں  نے رات میں  درخت اور آگ دیکھی، اللہ تعالٰی نے ان سے فرمایا کہ اے موسیٰ! تم ان لوگوں  کے پاس جاؤ جنہوں  نے کفر اور گناہوں  کا اِرتکاب کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۶ / ۲۶۵)

       نوٹ:حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کا واقعہ سورۂ اَعراف،سورۂ یونس،سورہ ٔہود،سورۂ طٰہٰ اورسورۂ  مؤمنون میں  گزر چکاہے۔

قَوْمَ فِرْعَوْنَؕ-اَلَا یَتَّقُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو فرعون کی قوم ہے، کیا وہ نہیں ڈریں گے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَوْمَ فِرْعَوْنَ: جو فرعون کی قوم ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف بھی رسول بنا کر بھیجا گیا تھا مگر یہاں  جو پیغام مذکور ہے وہ خاص فرعون کی قوم قِبط کی طرف ہے تاکہ اُنہیں  اُن کی بدکرداری پر زَجر فرمائیں ، چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ تم ظالم لوگوں  کے پاس جاؤ اور وہ فرعون کی قوم ہے، انہوں  نے کفر اور گناہوں  کا اِرتکاب کر کے اپنی جانوں  پر ظلم کیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اور انہیں  طرح طرح کی ایذائیں  پہنچا کر اُن پر ظلم کیا۔کیا وہ اللہ تعالٰی سے نہیں  ڈریں  گے اور اپنی جانوں  کو اللہ تعالٰی پر ایمان لا کر اور اس کی فرمانبرداری کرکے اس کے عذاب سے نہ بچائیں  گے؟( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۳ / ۳۸۳)

قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِﭤ(12)وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

عرض کی: اے میرے رب !میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا ئیں گے۔ اور میرا سینہ تنگ ہوگا اور میری زبان نہیں چلتی تو تُو ہا رون کو بھی رسول بنا دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: عرض کی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا حکم سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عرض کی ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ وہ مجھے جھٹلا ئیں  گے اوران کے جھٹلانے سے میرا سینہ تنگ ہوگا اور میں  نے بچپن میں  جو آگ کا انگارہ منہ میں  رکھا تھا ا س کی وجہ سے مجھے گفتگو کرنے میں  بھی کچھ تَکَلُّف ہوتا ہے تو تو میرے بھائی ہارون کو بھی رسول بنا دے تاکہ وہ رسالت کی تبلیغ میں  میری مدد کریں ۔جس وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شام میں  نبوت عطا کی گئی اس وقت حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام مصر میں  تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۳ / ۳۸۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ص۸۱۵، ملتقطاً)

وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے تو میں ڈرتا ہو ں کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کر دیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ: اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید عرض کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، ان فرعونیوں کا مجھ پر قتل کاایک الزام ہے کہ میں  نے قبطی کو مارا تھاتو مجھے ا س بات کا ڈر ہے کہ اگر میں  اکیلا گیا تو کہیں  وہ مجھے رسالت کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کے بدلے میں  قتل نہ کر دیں  جبکہ حضرت ہارون پر ان کا کوئی الزام نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۸۱۵، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۲۶۶، ملتقطاً)

قَالَ كَلَّاۚ-فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اللہ نے) فرما یا: ہرگز نہیں ، تم دو نوں ہمارے معجزات لے کر جا ؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، خوب سننے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: ’’وہ تمہیں  ہرگز قتل نہیں کرسکیں  گے کیونکہ میں  انہیں  آپ پر مُسَلَّط نہیں  ہونے دوں  گا بلکہ آپ کو ان پر غالب فرما دوں  گا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی درخواست منظور فرما کر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی نبی بنادیا اور دونوں  کو حکم دیا کہ’’تم دو نوں  میرے دئیے ہوئے معجزات لے کر جا ؤ، ہم اپنی مدد و نصرت کے ذریعے تمہارے ساتھ ہیں  اورجو تم کہو اور جو تمہیں  جواب دیا جائے اسے خوب سننے والے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۳۸۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۱۵-۸۱۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۶۶، ملتقطاً)

 

فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(16)اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو فرعون کے پاس جاؤ پھر اس سے کہو : بیشک ہم دونو ں اس کے رسول ہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ کہ تو ہما رے ساتھ بنی اسرائیل کوبھیج دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا: کہ تو ہما رے ساتھ بھیج دے۔} فرعون نے چار سو برس تک بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا تھا اور اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار تھی اللہ تعالٰی کا یہ حکم پا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر کی طرف روانہ ہوئے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پشمینہ کا جبہ پہنے ہوئے تھے، دستِ مبارک میں  عصا تھا اورعصا کے سرے میں  زنبیل لٹکی ہوئی تھی جس میں  سفرکا توشہ تھا۔ اس شان سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر میں  پہنچ کر اپنے مکان میں  داخل ہوئے۔ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں  تھے، آپ نے انہیں  خبر دی کہ اللہ تعالٰی نے مجھے رسول بنا کر فرعون کی طرف بھیجا ہے اور آپ کو بھی رسول بنایا ہے کہ فرعون کو خدا کی طرف دعوت دو۔ یہ سن کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ صا        حبہ گھبرائیں  اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگیں  کہ فرعون تمہیں  قتل کرنے کے لئے تمہاری تلاش میں  ہے، جب تم اس کے پاس جاؤ گے تو وہ تمہیں  قتل کردے گا لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اُن کے یہ فرمانے سے نہ رکے اور حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ساتھ لے کر رات کے وقت فرعون کے دروازے پر پہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میں  سب جہانوں  کے رب کا رسول موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہوں ۔ فرعون کو خبر دی گئی اور صبح کے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلائے گئے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کے پاس پہنچ کر اللہ تعالٰی کی رسالت ادا کی اور فرعون کے پاس جو حکم پہنچانے پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  مامور کئے گئے تھے وہ پہنچایا۔ فرعون نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان لیا کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی کے گھر میں  پلے بڑھے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۸۳-۳۸۴)

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَ(18)وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے ہاں بچپن میں نہ پالا؟ اور تم نے ہما رے یہاں اپنی عمر کے کئی سال گزارے۔ اور تم نے اپنا وہ کام کیا جو تم نے کیا اور تم شکریہ ادا کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: کہا۔} جب فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان لیا تو احسان جتاتے ہوئے آپ سے کہا: کیا ہم نے تمہیں  اپنے شاہی محل میں  بچپن میں  نہ پالا ؟اور تم نے ہما رے محل میں  اپنی عمر کے کئی سال گزارے۔ مفسرین فرماتے ہیں  کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کے محل میں  تیس سال گزارے اوراس زمانے میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے عمدہ لباس پہنتے تھے اور اس کی سواریوں  میں  سوار ہوتے تھے اور اس کے فرزند کے طور پر مشہور تھے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۳۱۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۲۶۷، ملتقطاً)

{وَ فَعَلْتَ: اور تم نے کیا۔} فرعون نے مزید یہ کہا کہ اے موسیٰ! تم نے ہمارے احسانات کے باوجود قبطی کو قتل کیااور تم شکریہ ادا کرنے والوں  میں  سے نہیں  ہو کیونکہ تم نے ہماری نعمت کی شکرگزاری نہ کی اور ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۳۸۴، ملتقطاً)

قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَﭤ(20)فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فر ما یا: میں نے وہ کام اس وقت کیا تھا جبکہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔ پھرجب میں نے تم لوگوں سے ڈر محسوس کیا تو میں تمہارے پاس سے نکل گیا تو میرے رب نے مجھے حکمت عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: موسیٰ نے فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فر ما یا’’میں  نے قبطی والاوہ کام اس وقت کیا تھا جب میں  نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے وہ شخص مرجائے گا کیونکہ میرا مارنا ادب سکھانے کیلئے تھا نہ کہ قتل کرنے کیلئے۔پھرجب میں  نے تم لوگوں  سے ڈر محسوس کیا کہ اس کے بدلے تم مجھے قتل کردوگے تو میں  تمہارے پاس سے مَدیَن شہر کی طرف نکل گیا اور مدین سے مصر آتے وقت کوہِ طور کے پاس مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم عطا فرمایا اور مجھے رسولوں  میں  سے کردیا۔ یہاں  حکم سے نبوت یا علم مراد ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ۳ / ۳۸۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۸۱۶، ملتقطاً)

وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کون سی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر رکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تِلْكَ: اور یہ۔} فرعون نے جو احسان جتایا تھا ا س کے جواب میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس میں  تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں  مجھے اپنے پاس رکھا، کھلایا اور پہنایا کیونکہ میرا تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور اُن کی اولادوں  کو قتل کیا،تیرے اس عظیم ظلم کی وجہ سے میرے والدین میری پرورش نہ کرسکے اور مجھے دریا میں  ڈالنے پر مجبور ہوئے، اگرتو ایسا نہ کرتا تو میں  اپنے والدین کے پاس ہی رہتا، اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے۔ (روح البیان ،الشعراء،تحت الآیہ:۶،۲۲ / ۲۶۸،ملخصاً) اسے دوسرے الفاظ میں  یوں  سمجھ لیں  کہ کوئی شخص کسی بچے کے باپ کو قتل کرکے بچہ گود میں  لے اور اس کی پرورش کرے پھر بڑا ہونے پر اسے احسان جتلائے کہ بیٹا تو یتیم و لاوارث تھا میں  نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ تو اس کے جواب میں  وہ بچہ کیا کہے گا۔ وہ یہی کہے گا کہ اپنا احسان اپنے پاس سنبھال کر رکھ۔ مجھے پالنا تو تجھے یاد ہے لیکن یہ تو بتا کہ مجھے یتیم و لاوارث بنایا کس نے تھا؟

قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(23)قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرعون نے کہا:اور سارے جہان کا رب کیا چیزہے؟موسیٰ نے فرمایا : آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے وہ سب کا رب ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ فِرْعَوْنُ: فرعون نے کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس تقریر سے فرعون لاجواب ہوگیا او ر اس نے اُسلوب ِکلام بدلا اور یہ گفتگو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی کہ سارے جہان کا رب کیا چیزہے جس کے تم اپنے آپ کو رسول بتاتے ہو۔(ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۵۹، ملخصاً)

{قَالَ: موسیٰ نے فرمایا۔} بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال چیز کی جنس کے بارے میں  تھا اور اللہ تعالٰی چونکہ جنس اور ماہیت سے پاک ہے ا س لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اللہ تعالٰی کے افعال اور ا س کی قدرت کے وہ آ ثار ذکر فرمائے جن کی مثل لانے سے مخلوق عاجز ہے،چنانچہ فرمایا کہ سارے جہان کا رب وہ ہے جو آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں  ہے، ان سب کو پیدا کرنے والا ہے، اگر تم لوگ اَشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں  کی پیدائش اُس کے وجود کی کافی دلیل ہے۔اس مفہوم کے اعتبار سے آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہرشخص سے اس کے لائق گفتگو کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ ہمیں  حکم دیا گیا ہے کہ ہم لوگوں  سے ان کی عقلوں  کے مطابق کلام کریں ۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۳۹۸، الحدیث: ۱۶۱۱)

بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا سوال اللہ تعالٰی کی صفت کے بارے میں  تھا اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہاں  جو جواب دیا وہ فرعون کے سوال کے مطابق ہے۔ یاد رہے کہ اِیقان اس علم کو کہتے ہیں  جو اِستدلال سے حاصل ہو، اسی لئے اللہ تعالٰی کی شان میں مُوْقِن نہیں  کہا جاتا۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۸۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۸۱۷، ملتقطاً)

قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ(25)قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (فرعون نے) اپنے آس پاس والوں سے کہا: کیا تم غور سے نہیں سن رہے؟ موسیٰ نے فرمایا : وہ تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے باپ داداؤں کارب ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: کہا۔} اس آیت اوربعدوالی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے آس پاس اس کی قوم کے سرداروں  میں  سے پانچ سو شخص زیوروں  سے آراستہ زریں  کرسیوں  پر بیٹھے تھے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کر تعجب کرتے ہوئے فرعون نے ان سے کہا’’ کیا تم غور سے نہیں  سنتے‘‘اس کا مطلب یہ تھا کہ میں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سارے جہان کے رب کی ماہیت پوچھی ہے اور یہ اِس کے جواب میں  اُس کے افعال اور آثار بتا رہے ہیں  اور بعض مفسرین کے نزدیک فرعون کا یہ کہنااس معنی میں  تھا کہ وہ لوگ آسمان اور زمین کو قدیم سمجھتے تھے اور ان کے حادث ہونے کا انکار کرتے تھے اور مطلب یہ تھا کہ جب یہ چیزیں  قدیم ہیں  تو ان کے لئے ربّ کی کیا حاجت ہے۔یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان چیزوں  سے اِستدلال پیش کر نے کی ضرورت محسوس فرمائی جن کا حادث ہونا اور جن کا فنا ہو جانا ان کے مشاہدہ میں  آ چکا تھا، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر تم دوسری چیزوں  سے استدلال نہیں  کرسکتے تو خود تمہاری جانوں  سے استدلال پیش کیا جاتا ہے،سنو!تم لوگ اپنے آپ کے بارے میں  جانتے ہو کہ پیدا ہوئے ہو اور اپنے باپ دادا کے بارے میں  جانتے ہو کہ وہ فنا ہوگئے تو تمہاری اپنی پیدائش اور تمہارے باپ دادا کے فنا ہو جانے میں  اس رب تعالٰی کے وجود کا ثبوت موجود ہے جو پیدا کرنے والا اور فنا کر دینے والا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۳ / ۳۸۵، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص۸۱۷، ملتقطاً)

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (فرعون نے) کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: کہا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جواب سن کرفرعون نے کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے کہ یہ سوال ہی نہیں  سمجھ سکا تو ا س کاجواب کیا دے گا۔بعض مفسرین کے نزدیک فرعون نے یہ اس لئے کہا کہ وہ اپنے سوا کسی معبود کے وجود کا قائل نہ تھا اور جو اس کے معبود ہونے کا اعتقاد نہ رکھے اس کو وہ خارج از عقل کہتا تھا اور حقیقۃً اس طرح کی گفتگو آدمی کی زبان پر ا س وقت آتی ہے جب وہ عاجز ہو چکا ہو، لیکن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہدایت کے فریضہ کو علیٰ وجہِ الکمال ادا کیا اور اس کی اس تمام لایعنی گفتگو کے باوجود پھر مزید بیان کی طرف متوجہ ہوئے۔

قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِیْنٍ(30)قَالَ فَاْتِ بِهٖۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے فرمایا: کیا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی روشن چیز لے آؤں ۔ ۔ (فرعون نے) کہا: (اے موسیٰ!) اگر تم سچوں میں سے ہو تو وہ نشانی لے آ ؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فرمایا: کیاتو مجھے قید کرے گا اگرچہ میں  تیرے پاس کوئی حق اور باطل میں  فرق واضح کرنے والا کوئی معجزہ لے کر آؤں  اور یہ معجزہ اللہ تعالٰی کے موجود ہونے اور میری رسالت کی دلیل ہو۔ اس پر فرعون نے کہا: اے موسیٰ!اگر تم اپنے دعوے کی صداقت پر دلیل پیش کرنے میں  سچوں  میں  سے ہو تو وہ نشانی لے آؤ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۰- ۳۱، ص۸۱۸،  روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۰- ۳۱، ص۸۱۸، ۶ / ۲۷۰، ملتقطاً)

فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ(32)وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیاتو اچانک وہ بالکل واضح ایک بہت بڑا سانپ ہوگیا۔اور اپنا ہاتھ نکالا تو اچانک وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَلْقٰى عَصَاهُ: تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے نشانی طلب کرنے پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو اچانک وہ بالکل واضح ایک بہت بڑا سانپ بن گیا اور فرعون کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگا: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، مجھے جو چاہے حکم دیجئے۔ فرعون نے گھبرا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اس کی قسم جس نے تمہیں  رسول بنایا، اس کو پکڑلو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ فرعون کہنے لگا: اس کے سوا اور بھی کوئی معجزہ ہے؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں  !اورحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا ہاتھ گریبان میں  ڈال کر نکالا تو اچانک اس سے سورج کی سی شعاع ظاہر ہوئی جس سے دیکھنے والوں  کی نگاہیں  چکاچوند ہو گئیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۳ / ۳۸۵، ملتقطاً)

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ(34)یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ ﳓ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(فرعون نے) اپنے ارد گرد موجود سرداروں سے کہا: بیشک یہ بڑے علم والا جادوگرہے۔یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے تو (اب) تم کیا مشورہ دیتے ہو؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دو نشانیاں  دیکھنے کے بعد فرعون کی حالت یہ ہوئی کہ اسے اپنی خدائی کا دعویٰ بھول گیا اور وہ خوف کی وجہ سے تھر تھرانے لگا۔اپنے گمان میں  خود کو معبود اور لوگوں  کو اپنا بندہ سمجھنے کے باوجود اپنے ارد گرد موجود سرداروں  سے مشورہ مانگتے ہوئے کہنے لگا ’’ بیشک موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بڑے علم والا جادوگر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تمہیں  اپنے جادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ اس زمانے میں  چونکہ جادو کا بہت رواج تھا اس لئے فرعون نے خیال کیا کہ یہ بات چل جائے گی اور اس کی قوم کے لوگ اس دھوکے میں  آکر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مُتَنَفِّر ہوجائیں  گے اور ان کی بات قبول نہ کریں  گے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ص۸۱۸، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً)

مسلمان بھائیوں  کو بدنام کرنے والوں  کے لئے عبرت انگیز دو اَحادیث:

            آیت کی تفسیر میں  فرعون کا جو طریقہ بیان ہو ا، حقیقت میں  یہ وہی طریقہ ہے جسے ہم سیاسی چالبازی کہتے ہیں  کہ جھوٹا پروپیگنڈا کرکے کسی کو بدنام اور غیر مقبول کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ کوئی اس کی بات نہ سنے۔فی زمانہ ہمارے معاشرے میں  دُنْیَوی اعتبار سے بڑے منصب والوں  کو اور دینی اعتبار سے بڑے رتبے والی شخصیات کو اسی طریقے کے ذریعے بدنام کرنے کی بھرپور کوششیں  کی جاتی ہیں  تاکہ لوگ ان کی طرف مائل نہ ہوں  اور دینی شخصیات کی صحبت و قرب اور ان کے وعظ و نصیحت سے محروم رہیں اور اس مقصد کے لئے پرنٹ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کو بطورِ خاص استعمال کیا جاتا اور بے حد پیسہ خرچ کیا جاتا ہے،ایسے حضرات کے لئے درجِ ذیل دو اَحادیث میں  بڑی عبرت ہے،

(1)…حضرت معاذ بن انس جہنی  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالٰی جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں  تک کہ وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پالے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)

(2)…حضرت مستورد بن شداد  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو کسی مسلمان مردکی برائی کرنے کی وجہ سے کھانے کو ملا، اللہ تعالٰی اسے اتنا ہی جہنم سے کھلائے گا اور جس کو کسی مسلمان مردکی برائی کرنے کی وجہ سے کپڑا پہننے کو ملا، اللہ تعالٰی اسے جہنم کا اتنا ہی کپڑا پہنائے گا۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۱)

            اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو عقل ِسلیم عطا فرمائے اور مسلمان بھائیوں  کو بدنام کرنے کے ارادے اور منصوبے بنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَ(36)یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیجو۔ وہ تمہارے پاس ہر بڑے علم والے جادوگر کو لے آئیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے مشورہ طلب کرنے پر سرداروں  نے اس سے کہا’’تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اس کے بھائی ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مہلت دو اور جب تک ان کا جھوٹاہونا ظاہر نہیں  ہو جاتا اس وقت تک انہیں  قتل کرنے میں  جلدی نہ کرو تاکہ لوگ تمہارے بارے میں  برا گمان نہ کریں  اور تمہارے پاس انہیں  قتل کرنے کا عذر بھی ہو جائے، اس کے لئے تم یوں  کرو کہ مختلف شہروں  میں  جادوگروں  کوجمع کرنے والے بھیجو اور وہ تمہارے پاس ہر بڑے علم والے جادوگرکو لے آئیں  جوجادو کے علم میں  (بقول اُن کے) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بڑھ کر ہواور وہ لوگ اپنے جادو سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کا مقابلہ کریں  تاکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے اور فرعونیوں  کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ کام جادو سے ہوجاتے ہیں ، لہٰذا یہ نبوت کی دلیل نہیں  ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۶ / ۲۷۱-۲۷۲، ملخصاً)

فَجُمِـعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ(38)وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ(39)لَعَلَّنَا نَتَّبِـعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جادوگروں کو ایک مقرر دن کے وعدے پر جمع کرلیا گیا۔ اور لوگوں سے کہا گیا :کیا تم جمع ہوگے؟ شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں اگر یہ غالب ہوجائیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَجُمِعَ: توجمع کرلیا گیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جادو گروں  کو فرعونیوں  کی عید کے دن جمع کر لیا گیا اور اس مقابلے کے لئے چاشت کا وقت مقرر کیا گیا اورفرعون کی جانب سے لوگوں  سے کہا گیا :کیا تم بھی جمع ہوگے تاکہ دیکھو کہ دونوں  فریق کیا کرتے ہیں  اور اُن میں سے کون غالب آتا ہے۔شاید ہم ان جادوگروں  ہی کی پیروی کریں  اگر یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوجائیں ۔ اس سے ان کا مقصود جادو گروں  کی پیروی کرنا نہ تھا بلکہ غرض یہ تھی کہ اس حیلے سے لوگوں  کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے سے روکیں۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۰، ص۸۱۹، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۰، ۳ / ۳۸۶، ملتقطاً)

فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(41)قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب جادوگر آئے توانہوں نے فرعون سے کہا: کیا ہمارے لئے کوئی معاوضہ بھی ہے اگر ہم غالب ہوگئے۔ ۔ (فرعون نے) کہا: ہاں اور اس وقت تم میرے نہایت قریبی لوگوں میں سے ہوجاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ: پھر جب جادوگر آئے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادوگر فرعون کے پاس آئے توانہوں  نے فرعون سے کہا:اگر ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوگئے توکیا ہمارے لئے کوئی معاوضہ بھی ہے ؟ فرعون نے کہا: ہاں  ہے اورکوئی معمولی معاوضہ نہیں  بلکہ اس وقت تم میرے نہایت قریبی لوگوں  میں  سے ہوجاؤ گے، تمہیں  درباری بنالیا جائے گا، تمہیں  خاص اعزاز دیئے جائیں  گے، سب سے پہلے داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی اور سب سے بعد تک دربار میں  رہو گے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ص۸۱۹، ملخصاً)

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ(43)فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

موسیٰ نے ان سے فرمایا:تم ڈالو جو تم ڈالنے والے ہو۔تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں (زمین پر) ڈال دیں اورکہنے لگے: فرعون کی عزت کی قسم! بیشک ہم ہی غالب ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ لَهُمْ: موسیٰ نے ان سے فرمایا۔} فرعون سے معاوضے کا وعدہ لینے کے بعد جادو گروں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: کیا آپ پہلے اپنا عصا ڈالیں  گے یا ہمیں  اجازت ہے کہ ہم اپنا جادو کا سامان ڈالیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان جادوگروں سے فرمایا:تم اپنا وہ سامان زمین پرڈالو جو تم ڈالنے والے ہو تاکہ تم اس کا انجام دیکھ لو۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۳۱۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۱۹، ملتقطاً)

{فَاَلْقَوْا: تو انہوں  نے ڈال دیں ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کہنے پر جادوگروں  نے اپنی رسیاں  اور لاٹھیاں  زمین پر ڈال دیں  اورکہنے لگے: فرعون کی عزت کی قسم :بیشک ہم ہی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر غالب ہوں  گے۔ جادوگروں  نے فرعون کی عزت کی قسم اس لئے کھائی کہ انہیں اپنے غلبہ کا اطمینان تھا کیونکہ جادوکے اعمال میں  سے جو انتہا کے عمل تھے یہ اُن کو کام میں  لائے تھے اور کامل یقین رکھتے تھے کہ اب کوئی جادو اس کا مقابلہ نہیں  کرسکتا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۶ / ۲۷۳، ملخصاً)

فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَ(45)فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ(46)قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(47)رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو موسیٰ نے اپنا عصا (زمین پر) ڈالا توجبھی وہ ان کی جعلسازیوں کو نگلنے لگا۔ توجادوگر سجدے میں گرا دیے گئے۔ انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے اس پر جو سارے جہان کا رب ہے۔ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ: تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گروں  نے رسیاں  ڈال دیں  توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کے حکم سے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا تو وہ اسی وقت بہت بڑا سانپ بن کراُن رسیوں  اور لاٹھیوں  کو نگلنے لگا جو جادو کی وجہ سے اژدھے بن کر دوڑتے نظر آرہے تھے،جب وہ اُن سب کو نگل گیا اور اس کے بعدحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنے دست ِمبارک میں  لیا تو وہ پہلے کی طرح عصا تھا۔ جادوگروں  نے جب یہ منظر دیکھا تو انہیں  یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں  ہے اور یہ دیکھنے کے بعد ان پر ایسااثر ہوا کہ وہ بے اختیار اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے اور یوں  لگتا تھا جیسے کسی نے انہیں  پکڑ کر سجدے میں  گرا دیا ہو،پھر جادو گروں  نے سچے دل سے کہا: ہم ا س پر ایمان لائے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۳ / ۳۸۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۶ / ۲۷۳-۲۷۴، ملتقطاً)

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۬ؕ-لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرعون نے کہا: کیا تم اس پر ایمان لے آئے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں ۔ بیشک یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا توجلد تم جان جاؤ گے تو مجھے قسم ہے میں ضرور ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تم سب کو پھانسی دوں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرعون نے کہا۔} جب جادو گر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو فرعون نے ان سے کہا: ’’کیا تم میری اجازت کے بغیر ہی اس پر ایمان لے آئے۔ بیشک موسیٰ تمہارا بڑا استادہے، جس نے تمہیں  جادو سکھایا، اسی لئے وہ تم پر غالب آ گئے اور تم نے آپس میں  مل کر میرے خلاف سازش کی اور میرے ملک میں  فساد پھیلانے کی کوشش کی، اب تم جان جاؤ گے کہ تمہارے ا س عمل کی وجہ سے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیاجاتا ہے۔ مجھے قسم ہے! عنقریب میں  ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں  کاٹ دوں  گا اور تم سب کو پھانسی دے دوں  گا۔ اس گفتگوسے فرعون کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ شبہ میں  پڑ جائیں  اور وہ یہ نہ سمجھیں  کہ جادوگروں  پر حق ظاہر ہو گیا اسی لئے وہ ایمان لے آئے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ عام مخلوق ڈر جائے اور لوگ جادو گروں  کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لے آئیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۲۷۴-۲۷۵،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۱۹-۸۲۰، ملتقطاً)

قَالُوْا لَا ضَیْرَ٘-اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ(50)اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَﭤ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

جادوگروں نے کہا: کچھ نقصان نہیں ،بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں ۔ہم اس بات کی لالچ کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: وہ بولے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کی دھمکی سن کر ان جادو گروں  نے کہا’’اللہ تعالٰی کی خاطر جان دینے میں  کچھ نقصان نہیں  خواہ دنیا میں  کچھ بھی پیش آئے کیونکہ ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ایمان کے ساتھ پلٹنے والے ہیں  اور ہمیں  اللہ تعالٰی سے رحمت کی امید ہے اور ہمیں  اس بات کا لالچ ہے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ اس بنا پر ہماری خطائیں  بخش دے کہ ہم فرعون کی رعایا میں  سے یا اس مجمع کے حاضرین میں  سے سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۳ / ۳۸۶-۳۸۷، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ص۸۲۰، ملتقطاً)

اس واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کئی سال تک وہاں ٹھہرے رہے اور ان لوگوں  کو حق کی دعوت دیتے رہے، لیکن اُن کی سرکشی بڑھتی گئی۔

وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْۤ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ راتوں را ت میرے بندو ں کو لے چلو، بیشک تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى: اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} جب ایک عرصے تک حق کی دعوت دینے اور پے درپے نشانیاں  دکھانے کے باوجود فرعونی ایمان نہ لائے اور اپنی سرکشی میں  بڑھتے ہی گئے تو اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ راتوں  را ت بنی اسرائیل کو مصر سے لے چلو، بیشک فرعون اور اس کے لشکر تمہارا پیچھا کریں  گے اور وہ لوگ تمہارے پیچھے پیچھے دریا میں  داخل ہوجائیں  گے، اس کے بعدہم تمہیں  نجات دیں  گے اور فرعون کو ا س کے لشکر کے ساتھ دریا میں  غرق کردیں  گے۔(روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۲۷۶، ملخصًا)

فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَ(53)اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَ(54)وَ اِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىٕظُوْنَ(55)وَ اِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَﭤ(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو فرعون نے شہروں میں جمع کرنے والے بھیجے۔۔ (اور کہا:) یہ لوگ ایک تھوڑی سی جماعت ہیں ۔ اور بیشک یہ ہمیں غصہ دلانے والے ہیں ۔ اور بیشک ہم سب ہوشیار ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَرْسَلَ: تو اس نے بھیجے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں  رات مصر سے نکل گئے اور جب فرعون نے ان کے مصر سے نکلنے کی خبر سنی تو اس نے لشکر جمع کرنے کے لئے شہروں  میں  قاصدبھیجے، جب لشکر جمع ہوگئے تو ان کی کثرت کے مقابلے میں  بنی اسرائیل کی تعداد تھوڑی معلوم ہونے لگی، چنانچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے بارے میں  کہا: یہ لوگ ایک تھوڑی سی جماعت ہیں  اور بیشک یہ ہماری مخالفت کرکے اور ہماری اجازت کے بغیر ہماری سرزمین سے نکل کر ہم سب کا دل جلاتے اور ہمیں  غصہ دلانے والے ہیں اور بیشک ہم سب ہتھیاروں  سے لیس اور ہوشیار ہیں ۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۶، ص۳۱۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۳-۵۶، ص۸۲۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ:۵۳-۵۶، ۳ / ۳۸۷، ملتقطاً)

فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(57)وَّ كُنُوْزٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍ(58)كَذٰلِكَؕ-وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے انہیں (فرعون اور اس کی قوم کو) باغوں اور چشموں (کی زمین) سے باہر نکالا۔ اور خزانوں اور عمدہ مکانوں سے۔ ہم نے ایسے ہی کیا اور بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنادیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَخْرَجْنٰهُمْ: تو ہم نے انہیں  باہر نکالا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیتوں  کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرعون اور اس کی قوم کوباغوں  اور چشموں کی سرزمین مصرسے اورسونے چاندی کے خزانوں  اور عمدہ مکانوں  سے باہر نکالا تاکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بنی اسرائیل تک پہنچیں اور اللہ تعالٰی نے فرعونیوں  کو ایسے ہی ان کے وطن سے نکالا جیساکہ بیان ہوا، پھرفرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دئیے جانے کے بعد اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو فرعونیوں  کی سرزمین اور ان کے خزانوں اور مکانوں  کاوارث بنادیا۔(جلالین،الشعراء،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹، ص۳۱۱-۳۱۲، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹ ، ۶ / ۲۷۷-۲۷۸، ملتقطاً)

فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِیْنَ(60)فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ(61)قَالَ كَلَّاۚ-اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو دن نکلنے کے وقت فرعونیوں نے ان کا تعاقب کیا۔ پھر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا: بیشک ہمیں پالیا گیا۔ موسیٰ نے فرمایا:ہرگز نہیں ، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راستہ دکھا دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَتْبَعُوْهُمْ: تو فرعونیوں  نے ان کا تعاقب کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سورج طلوع ہو اتو فرعونیوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا،پھر جب دونوں  گروہوں  کا آمنا سامنا ہوا اور ان میں  سے ہر ایک نے دوسرے کو دیکھا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھیوں  نے کہا: بیشک اب وہ ہم پر قابو پالیں  گے، نہ ہم ان کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  اور نہ ہمارے پاس بھاگنے کی کوئی جگہ ہے کیونکہ آگے دریا ہے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چونکہ اللہ تعالٰی کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا ا س لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے براگمان نہ رکھو، وہ لوگ ہر گز تمہیں  نہ پا سکیں  گے بیشک میرے ساتھ میرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور وہ ابھی مجھے بچنے کاراستہ دکھا دے گا۔( روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ۶ / ۲۷۸، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۲، ص۸۲۱، ملتقطاً)

فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ(63)وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنا عصا مارو تو اچانک وہ دریا پھٹ گیاتو ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہوگیا۔ اور وہاں ہم دوسروں کوقریب لے آئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دریا پر عصا مارا تو اچانک وہ دریابارہ راستوں  میں  تقسیم ہوکر پھٹ گیا، ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہوگیا اور ان کے درمیان خشک راستے بن گئے جن پر چل کر بنی اسرائیل دریا سے پار ہو گئے۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۳۱۲)

{وَ اَزْلَفْنَا: اور ہم قریب لے آئے۔} یعنی ہم فرعون اور ا س کے لشکر کو بنی اسرائیل کے قریب لے آئے، یہاں  تک کہ وہ بنی اسرائیل کے راستوں  میں  چل پڑے جواُن کے لئے دریا میں  اللہ تعالٰی کی قدرت سے پیدا ہوئے تھے۔( روح ا لبیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۲۷۹-۲۸۰)

وَ اَنْجَیْنَا مُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗۤ اَجْمَعِیْنَ(65)ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَﭤ(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کوبچالیا۔ پھر دوسروں کو غرق کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْجَیْنَا: اور ہم نے بچالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے سب ساتھ والوں  کو دریا سے سلامت نکال کر بچا لیا اور فرعون اور اس کی قوم کو اس طرح غرق کر دیا کہ جب بنی اسرائیل سارے کے سارے دریا سے باہر ہوگئے اور تمام فرعونی دریا کے اندر آ گئے تو اللہ تعالٰی کے حکم سے دریا مل گیا اور پہلے کی طرح ہوگیا،یوں  فرعون اپنی قوم کے ساتھ ڈوب گیا۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ص۳۱۲)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان (فرعونیوں ) میں اکثر مسلمان نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی دریا میں  جو کچھ واقع ہوا اس میں  اللہ تعالٰی کی قدرت پر ضرور نشانی ہے اور یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۸۸)

{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں  اکثر مسلمان نہ تھے۔} یعنی فرعونیوں  میں  سے اکثر مسلمان نہ تھے۔ مصر والوں  میں  سے صرف تین حضرات ایمان لائے۔ (1)فرعون کی بیوی حضرت آسیہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا۔ (2)حِزْقِیْل۔ انہیں  آلِ فرعون کا مؤمن کہتے ہیں ،یہ اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے اور فرعون کے چچا زاد تھے۔ (3)مریم۔ یہ ایک بوڑھی خاتون تھیں ، انہوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جنت کا وعدہ لے کر دریائے نیل میں  حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر ِانور کا محلِ وقوع بتایا تھا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالٰی کے حکم سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابوت شریف دریا سے نکال  کر ملک ِشام لے گئے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۸۸، صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۴ / ۱۴۶۱، ملتقطاً)

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارا رب وہی غالب، مہربان ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِاقدس سے معجزات ظاہر ہونے کے باوجود جب آپ کی قوم جھٹلاتی تو بعض اوقات آپ کا قلبِ منیر غمزدہ ہو جاتا، اس پر اللہ تعالٰی نے گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرما کر آپ کو تسلی دی اور ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی غالب اور اپنے دشمنوں  سے انتقام لینے والا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر کے ان سے انتقام لیا اور اے حبیب!  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کارب عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں  پرمہربان ہے اور ا س کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں  کو غرق ہونے سے نجات دے کر ان پر مہربانی فرمائی، لہٰذا آپ اپنی قوم کی اَذِیَّتوں  پر اس طرح صبر فرمائیں  جس طرح پچھلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر فرمایا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۲۸۰-۲۸۱، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۳۱۲، ملتقطاً)

وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَ(69)اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ(70)قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان کے سامنے ابراہیم کی خبر پڑھو۔جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں پھر ان کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ: اور ان کے سامنے پڑھو۔} اس رکوع میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان فرمایا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ بیان کریں  کہ جب انہوں  نے اپنے (عُرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا’’ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جانتے تھے کہ وہ لوگ بت پرست ہیں ، اس کے باوجود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان سے یہ سوال فرمانا اس لئے تھا تاکہ اُنہیں  دکھادیں  کہ جن چیزوں  کو وہ لوگ پوجتے ہیں  وہ کسی طرح بھی عبادت کے مستحق نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ص۸۲۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۶۹-۷۰، ۳ / ۳۸۸، ملتقطاً)

       نوٹ:یاد رہے کہ آیت میں  باپ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزَر مراد ہے۔ اس بارے میں  تفصیلی معلومات کے لئے سورۂ مریم آیت نمبر42کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ،نیزاس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ اَنعام، آیت نمبر74تا83،سورۂ توبہ، آیت نمبر114، سورۂ مریم،آیت نمبر 41تا49 اور سورۂ اَنبیاء، آیت نمبر51تا 70 میں  گزر چکی ہیں ۔

{ قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوال کرنے پر قوم نے جواب دیا ’’ہم بتوں  کی عبادت کرتے ہیں ،اس کے بعد فخریہ انداز میں  کہنے لگے کہ ہم ان کے سامنے سار ادن جم کر بیٹھے رہتے ہیں ۔( ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۴ / ۱۶۶)

قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ(72)اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ(73)

ترجمہ: کنزالعرفان

فرمایا:جب تم پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری سنتے ہیں ؟یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان دیتے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:جب تم ان بتوں  کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا تمہیں  عبادت کرنے پرکوئی نفع یا عبادت نہ کرنے پر کوئی نقصان دیتے ہیں ؟ جب ایسا کچھ نہیں  ہے تو تم نے انہیں  معبود کس طرح قرار دے دیا!( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۲-۷۳، ص۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۲-۷۳، ۳ / ۳۸۹، ملتقطاً)

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہوں نے کہا: بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: بولے۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیش کردہ دلیل کا کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے: ’’بت اگرچہ نہ کسی کی بات سنتے ہیں ، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں  اور نہ ہی کسی سے کوئی نقصان دور کر سکتے ہیں  لیکن بتوں  کی عبادت کرنے میں  ہم نے اپنے باپ دادا کی پیروی کی ہے کیونکہ ہم نے انہیں  ایسا ہی کرتے پایا ہے (اس لئے ہم آپ کے کہنے پر اپنے آباؤ اَجداد کے طریقے کو نہیں  چھوڑ سکتے۔)( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۳۸۹)

قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ(75)اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

ابراہیم نے فرمایا: کیا تم نے ان (بتوں ) کے بارے میں غور کیاجن کی تم اور تمہارے پہلے آباؤ اَجداد عبادت کرتے رہے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں  سے فرمایا: جن بتوں  کی تم عبادت کر رہے ہو اور جن کی تمہارے پہلے آباؤ اَجداد عبادت کرتے رہے ہیں ،کیا تم نے ان کے بارے میں  غور کیا؟اگر تم حقیقی طور پر ان سے متعلق غور کرلو تو جان جاؤگے کہ جن بتوں  کی تم عبادت کر رہے ہو ان کی عبادت کرنا پرانی گمراہی اور باطل کام ہے اورکوئی باطل کام پرانا ہو یا نیا،یونہی اس باطل کام کو کرنے والے تھوڑے ہوں  یا زیادہ، اس سے اس کام کے باطل ہونے میں کوئی فرق نہیں  پڑتا بلکہ وہ باطل کا م باطل ہی رہتا ہے۔( روح المعانی،الشعراء،تحت الآیۃ:۷۵-۷۶، ۱۰ / ۱۲۶، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۵-۷۶، ۸ / ۵۱۰، ملتقطاً)

غمی خوشی کی ناجائز رسموں  میں  مبتلالوگوں  کو نصیحت:

            اس تفسیر کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا چاہئے جو غمی خوشی کے موقع پرشریعت کے خلاف رسمیں  بجا لانے اور دیگر اَفعال کرنے پر کوئی شرعی دلیل پیش کرنے کی بجائے یہ کہنے لگتے ہیں  کہ ہمارے بڑے بوڑھے عرصۂ دراز سے یہ رسم و کام کرتے چلے آ رہے ہیں  اور ہمارے خاندان میں  شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جو غمی خوشی کے موقع پران رسموں  اور کاموں  کو نہ کرتا ہو،پھر ہم کسی کے کہنے پر ان چیزوں  کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں !اگر یہ لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے احکام کو سامنے رکھ کر اپنے طر زِعمل پر صحیح طریقے سے غور کریں  تو انہیں  بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان کی کچھ رسمیں  اور اَفعال شریعت کے سراسر خلاف ہیں  اور یہ ان کے کندھوں  پر اپنے اور دوسروں  کے گناہوں  کا بہت بھاری بوجھ ہیں ۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کے احکام کے مطابق عمل کرنے اور ان کے خلاف کام کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(77)الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِ(78)وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ(79)وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ(80)وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ(81)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے سارے جہانوں کے پالنے والے کے۔ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے ہدایت دیتا ہے۔اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ جومجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْ: بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا: ’’بیشک وہ سب بت میرے دشمن ہیں ،میں  گوارانہیں  کرسکتا کہ میں  یا کوئی دوسرا ان کی عبادت کرے، البتہ پروردگارِ عالَم وہ ہستی ہے جومیرا رب عَزَّوَجَلَّ ہے، میں  صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں  کیونکہ وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے اَوصاف یہ ہیں  کہ وہ مجھے عدم سے وجود میں  لایا اور اپنی طاعت کے لئے بنایا، تو وہی میری رہنمائی کرتا ہے اور مجھے ہدایت پر رکھتا ہے اور وہی مجھے اپنا خلیل بننے کے آداب کی ہدایت دے گا جیساکہ پہلے دین و دنیا کی مَصلحتوں  کی ہدایت فرما چکا ہے، وہی مجھے کھلاتا، پلاتا ہے اور مجھے روزی دینے والا ہے،جب میں  بیمار ہوتا ہوں  تو وہی میرے اَمراض دور کر کے مجھے شفا دیتا ہے اور وہی مجھے وفات دے گا، پھر آخرت میں  مجھے زندہ کرے گا کیونکہ موت اور زندگی اُسی کے قبضہ ِقدرت میں  ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ۳ / ۳۸۹، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۷۷-۸۱، ص۳۱۲،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۷۷-۸۱، ص۸۲۲، مل

{وَ اِذَا مَرِضْتُ: اور جب میں  بیمار ہوں ۔} یہاں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفاء کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب فرمایا اگرچہ بیماری اور شفا دونوں  اللہ تعالٰی کی طرف سے ہوتی ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۳۸۹) اس سے معلو م ہوا کہ برائی کی نسبت اپنی طرف اور خوبی و بہتری کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف کرنی چاہیے۔

وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِﭤ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ: اور وہ جس سے مجھے امید ہے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آخر میں  اللہ تعالٰی کا یہ وصف بیان فرمایا کہ میں  اس رب تعالٰی کی عبادت کرتا ہوں  جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ میری خطائیں  بخش دے گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اللہ تعالٰی کی ان صفات کو بیان کرنا اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لئے ہے کہ معبود صرف وہی ہوسکتا ہے جس کی یہ صفات ہوں ۔ یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،اُن سے گناہ صادِر نہیں  ہوتے۔ اُن کا استغفار کرنا در اصل اپنے رب تعالٰی کی بارگاہ میں  عاجزی و اِنکساری کا اظہار ہے اور اس میں  امت کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ وہ مغفرت طلب کرتے رہا کریں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۳۸۹، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۸۲۳، ملتقطاً)

رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(83)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے رب !مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبِّ: اے میرے رب!} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد دعا مانگی:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے حکم عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں ۔ آیت میں  مذکور’’ حکم‘‘ کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد علم ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سےمراد حکمت ہے۔ قرب کے لائق خاص بندوں  سے مراد اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ‘‘(البقرۃ:۱۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک وہ آخرت میں  ہمارا خاص قرب پانے والوں  میں  سے ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۸۲۳)

دعا مانگنے کا ایک ادب:

            یہاں  سے دعا مانگنے کا ایک ادب بھی معلوم ہو اکہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالٰی کی تعریف و توصیف بیان کی جائے، اس کے بعد دعا مانگی جائے۔

وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ(84)وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِ(85)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوربعدوالوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے۔ اور مجھے ان میں سے کردے جو چین کے باغوں کے وارث ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اجْعَلْ: اور رکھ دے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دوسری دعایہ مانگی کہ اے میرے رب! میرے بعد آنے والی امتوں  میں  میری اچھی شہرت رکھ دے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ عطا فرمایا کہ ہر دین والے اُن سے محبت رکھتے ہیں  اور اُن کی ثناکرتے ہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۸۲۳)

{وَ اجْعَلْنِیْ: اور مجھے کردے۔} دنیا کی سعادتیں  طلب کرنے کے بعد آخرت کی سعادتیں  طلب کرتے ہوئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا مانگی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ ، مجھے ان لوگوں  میں  سے کر دے جنہیں  تو اپنے فضل وکرم سے چین کے باغوں  اورنعمت کی جنت کا وارث بنائے گا۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)

جنت کی دعا مانگنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے:

         اس سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالٰی سے قیامت کے دن جنت ملنے کی دعا کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ حدیث پاک میں  بھی جنت الفردوس کی دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم اللہ تعالٰی سے مانگو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرنا کیونکہ یہ جنت کا درمیانی حصہ اور اعلیٰ درجہ ہے، اس کے اوپر اللہ تعالٰی کا عرش ہے اور جنت کی نہریں  اسی سے نکلتی ہیں۔(تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۵۱۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۳۸۹، ملتقطاً)

         لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالٰی سے قیامت کے دن جنت الفردوس عطا ہونے کی دعا مانگا کرے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَکابر بزرگانِ دین کی طلب ِ جنت کی دعائیں  درحقیقت اللہ تعالٰی کے دیدار اور ملاقات کے لئے تھیں ۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مانگی ہوئی دعاؤں  کی فضیلت:

            

حضرت سمرہ بن جند ب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ فرض نماز کے لئے وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد جانے کے ارادے سے اپنے گھر کے دروازے سے نکلے اور کہے: ’’بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے درست راستے کی ہدایت دے گا۔اور یہ کہے: ’’ وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے جنتی کھانا کھلائے گا اور جنتی مشروبات پلائے گا۔اور یہ کہے: ’’وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے شفا عطا فرمائے گا اور ا س کے مرض کو اس کے گناہوں  کے لئے کفارہ بنا دے گا۔ اور یہ کہے: ’’وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے سعادت مندوں  والی زندگی کے ساتھ زندہ رکھے گا اور شہیدوں  والی موت عطا فرمائے گا۔ اور یہ کہے: ’’ وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓــٴَـتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ‘‘ تو اللہ تعالٰی اس کی ساری خطائیں  معاف کر دے گا اگرچہ وہ سمند رکی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔اور یہ کہے: ’’رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ‘‘ تو اللہ تعالٰی اسے علم و حکمت عطا فرمائے گا اور جو صالح بندے گزر چکے اور جو باقی ہیں  اسے اللہ تعالٰی ان کے ساتھ ملادے گا۔اور یہ کہے: ’’وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ‘‘ تو ایک سفید کاغذ میں  لکھ دیا جا تا ہے کہ فلاں  بن فلاں  صادقین میں  سے ہے،پھر ا س کے بعد اللہ تعالٰی اسے صدق کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔اور یہ کہے: ’’وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِ‘‘ تو اللہ تعالٰی اس کے لئے جنت میں  مکانات اور محلات بنا دے گا۔) در منثور، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۶ / ۳۰۶

وَ اغْفِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ(86)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اغْفِرْ لِاَبِیْ: اور میرے باپ کو بخش دے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک دعا یہ مانگی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ ، میر ے باپ کو توبہ وایمان کی توفیق عطا کر کے بخش دے بیشک وہ گمراہوں  میں  سے ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا اس لئے فرمائی کہ آپ کے باپ نے جدا ہوتے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ظاہر ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے اور اس کا وعدہ جھوٹا تھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے بیزار ہو گئے، جیسا کہ سور ۂ براءت  میں  ہے:

’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ‘‘(التوبۃ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں  نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۳۱۲-۳۱۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۸۲۳، ملتقطاً)

            نوٹ:یاد رہے کہ یہاں  آیت میں  باپ سے مراد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزَر ہے حقیقی والد مراد نہیں  ہیں ۔ اس کے بارے میں  مزید تفصیل جاننے کیلئے سورۂ اَنعام آیت نمبر74کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ(87)یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ(88)اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍﭤ(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے۔ جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔ مگر وہ جو اللہ کے حضور سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تُخْزِنِیْ: اور مجھے رسوا نہ کرنا۔} اس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک دعا یہ مانگی کہ اے میرے رب ! عَزَّوَجَلَّ ، مجھے قیامت کے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن سب لوگوں  کو اٹھایا جائے گا اوراس دن نہ مال کام آئے گا اورنہ بیٹے البتہ ا س دن جو اللہ تعالٰی کے حضور کفر، شرک اور نفاق سے سلامت دل کے ساتھ حاضر ہوگا تو اسے راہِ خدا میں  خرچ کیا ہو امال بھی نفع دے گا اور اس کی نیک اولاد بھی اسے نفع دے گی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۸۷-۸۹، ص۸۲۳، ملخصاً)

آخر ت میں  مسلمانوں  کو ان کے مال اور اولاد سے نفع حاصل ہو گا:

         یاد رہے کہ کافر و مشرک جو مال نیک کاموں  میں  خرچ کرے گا آخرت میں  وہ جہنم کے عذاب سے نجات دلانے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے میں  اس کے کوئی کام نہ آئے گا البتہ مسلمان جو مال اللہ تعالٰی کی راہ میں  خرچ کرے گا اور جو نیک اولاد چھوڑ کر مرے گا وہ مال اور اولاد اس کے کام آئے گی اور اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے مسلمان کو اس کے صدقات و خیرات کا ثواب عطا فرمائے گا۔

         حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے تین اعمال کے علاوہ باقی عمل مُنقطع ہوجاتے ہیں ۔ (1)صدقہ ٔجاریہ۔(2) وہ علم جس سے لوگ نفع اٹھائیں ۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔( مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))

       نوٹ:یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں  قیامت کے دن کی رسوائی سے جو پناہ مانگی یہ دعا بھی لوگوں  کی تعلیم کے لئے ہے تاکہ وہ اس کی فکر کریں  اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  ا س کے لئے دعا بھی مانگیں ۔

وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(90)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ(91)وَ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ(92)مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-هَلْ یَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ یَنْتَصِرُوْنَﭤ(93)فَكُبْكِبُوْا فِیْهَا هُمْ وَ الْغَاوٗنَ(94)وَ جُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَﭤ(95)قَالُوْا وَ هُمْ فِیْهَا یَخْتَصِمُوْنَ(96)تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(97)اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(98)وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ(99)فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ(100)وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ(101)فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(102)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورجنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔اور دوزخ گمراہوں کے لیے ظاہر کردی جائے گی۔ اور ان سے کہا جائے گا:وہ (بت) کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے تھے؟ کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا کیا وہ بدلہ لے سکتے ہیں ؟ توانہیں اور گمراہوں کواور ابلیس کے سارے لشکروں کو جہنم میں اوندھے کردیا جائے گا۔خدا کی قسم، بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمہیں تمام جہانوں کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے۔ اور ہمیں مجرموں نے ہی گمراہ کیا۔ تو اب ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔ تو اگرکسی طرح ہمارے لئے ایک مرتبہ لوٹ کر جانا ہوتا تو ہم مسلمان ہوجاتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ: اور جنت قریب لائی جائے گی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعا مانگنے کے بعداس دن کے کچھ اوصاف بیان فرمائے جن کاذکر اس آیت اور اس کے بعد والی 12آیات میں  ہے،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

(1)… قیامت کے دن جنت سعادت مندوں  کے مقام سے قریب کر دی جائے گی، وہ جنت کی طرف دیکھیں  گے اور اس میں  موجود طرح طرح کی عظیم الشّان نعمتوں  کا مشاہدہ کریں  گے اور اس لئے خوش ہوں  گے کہ انہیں  اس میں  جمع کیا جائے گا، جبکہ حق راستے سے گمراہ ہوجانے والے بدبختوں  پر جہنم ظاہر کر دی جائے گی، وہ اس میں  موجود طرح طرح کے ہَولناک اَحوال کو دیکھیں  گے اور انہیں  اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ اب انہیں  جہنم میں  ڈال دیا جائے گا اور وہ کسی صورت اس سے چھٹکارا نہ پا سکیں  گے۔ اللہ تعالٰی ایسا اس لئے فرمائے گا کہ ایمان والوں  کو جلد خوشی نصیب ہو اور کافروں  کوعظیم غم ملے۔

(2)…کافروں  کو ان کے کفر و شرک پر ڈانٹتے ہوئے سختی سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہا ں  ہیں  جن کی دنیا میں  تم اللہ تعالٰی کے علاوہ عبادت کیا کرتے تھے اور ان کے بارے میں  یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ تمہاری شفاعت کریں  گے؟ کیا وہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے بچا کر تمہاری مدد کریں  گے یا وہ اپنے دوزخ میں  ڈالے جانے کابدلہ لے سکتے ہیں ؟ سن لو! وہ ہر گز ایسا نہیں  کر سکتے۔

(3)…بت اور ان کے پجاری اور ابلیس کے سارے لشکر سب اوندھے کرکے جہنم میں  ڈال دیئے جائیں  گے۔ یاد رہے کہ بت جہنم میں  عذاب پانے کے لئے نہیں  بلکہ اپنے پجاریوں  کو عذاب دینے کے لئے ڈالے جائیں  گے اور ابلیس کے لشکروں  سے مراد اس کی پیروی کرنے والے ہیں  چاہے وہ جن ہوں  یا انسان اوربعض مفسرین نے کہا ہے کہ ابلیس کے لشکروں  سے اس کی ذُرِّیَّت مراد ہے۔

(4)…جب ان گمراہوں  کو جہنم میں  ڈال دیا جائے گا تو وہ جہنم میں  اپنے جھوٹے معبودوں  سے جھگڑتے ہوئے کہیں  گے ’’خدا کی قسم، بیشک ہم اس وقت کھلی گمراہی میں  تھے جب ہم تمہیں  عبادت کا مستحق ہونے میں  تمام جہانوں  کے پروردگار کے برابر قرار دیتے تھے حالانکہ تم اس کی ایک ادنیٰ، کمتر ین اور انتہائی عاجزمخلوق تھے اور ہمیں  مجرموں  نے ہی گمراہ کیا اور اب یہ حال ہے کہ ہمارے لئے کوئی سفارشی نہیں  جیسے کہ مومنین کے لئے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیائ، فرشتے اور مومنین شفاعت کرنے والے ہیں ، اور نہ ہی ایمان والوں  کی طرح ہمارا کوئی غم خوار دوست ہے جو اس مشکل ترین وقت میں  ہمارے کام آئے، پس اگرکسی طرح ہمیں  ایک مرتبہ دنیا کی طرف لوٹ کر جانا نصیب ہو جائے تو ہم ضرور مسلمان ہو جائیں  گے۔( تفسیرکبیر،الشعراء،تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۸ / ۵۱۸-۵۱۹، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۳ / ۳۹۰-۳۹۱،ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۰-۱۰۲، ۴ / ۱۶۹-۱۷۱، ملتقطاً)

{اَلْمُجْرِمُوْنَ: مجرموں ۔} مجرموں  سے مراد وہ ہیں  جنہوں  نے بت پرستی کی دعوت دی یا وہ پہلے لوگ مراد ہیں  جن کی ان گمراہوں  نے پیروی کی یا ان سے ابلیس اور اس کی ذریت مراد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۸۲۴)

{وَ لَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ: اور نہ ہی کوئی غم خوار دوست ہے۔} کفار یہ بات اس وقت کہیں  گے جب دیکھیں  گے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ، فرشتے اور صالحین ایمان داروں  کی شفاعت کررہے ہیں  اور ان کی دوستیاں  کام آرہی ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۰)

قیامت کے دن پرہیزگارمسلمانوں  کی دوستی مسلمان کے کام آئے گی:

            معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک،صالح اور پرہیز گار مسلمانوں  کی دوستی مسلمانوں  کے کام آئے گی اور وہ قیامت کے انتہائی سخت ہولناک دن میں  مسلمانوں  کی غم خواری اور شفاعت کریں  گے۔اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ‘‘(الزخرف:۶۷)

ترجمۂ:کنزُالعِرفان پرہیز گاروں  کے علاوہ اس دنگہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں  گے۔

            حضرت جابر بن عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایاکہ جنتی کہے گا: میرے فلاں  دوست کا کیا حال ہے؟ اور وہ دوست گناہوں  کی وجہ سے جہنم میں  ہوگا۔اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اس کے دوست کو نکالو اور جنت میں  داخل کردو تو جو لوگ جہنم میں  باقی رہ جائیں  گے وہ یہ کہیں  گے کہ ہمارا کوئی سفارشی نہیں  ہے اور نہ کوئی غم خوار دوست۔( تفسیر بغوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۳۴)

             حضرت حسن بصری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ایماندار دوست بڑھاؤ کیونکہ وہ روزِ قیامت شفاعت کریں  گے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۹۱)

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار مسلمانوں  کو اپنا دوست بنائے اور فاسق و فاجر لوگوں  کی دوستی سے بچے۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کرتا ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(103)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس بیان میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثرایمان والے نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم کے ساتھ جو واقعہ بیان کیا گیا اس میں  ان سب کے لئے عبرت کی نشانی ہے جو اللہ تعالٰی کے علاوہ اوروں  کی عبادت کرتے ہیں  تاکہ انہیں  معلوم ہو جائے کہ قیامت کے دن ان کے یہی جھوٹے معبود ان سے بیزاری ظاہر کر دیں  گے اور کسی کو کوئی نفع بھی نہیں  پہنچا سکیں  گے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۶ / ۲۹۱)

{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں  اکثرایمان والے نہ تھے۔} یعنی جس طرح کفارِ قریش میں  سے اکثر لوگ ایمان نہیں  لائے اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  سے بھی اکثر لوگ ایمان نہیں  لائے تھے(لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ قریش کے ایمان نہ لانے پر غم نہ فرمائیں )( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۶ / ۲۹۱)

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(104)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارا رب وہی عزت والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی عزت اور غلبے والا ہے اور وہی توبہ کرنے والوں  کو بخش کر اور کافروں  کو مہلت دے کر مہربانی فرمانے والا ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے ہی کفارِ قریش کو مہلت دی تاکہ وہ ایمان لے آئیں  یا ان کی اولاد میں  سے کوئی ایمان لے آئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۲۹۱)

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ﹰالْمُرْسَلِیْنَ(105)

ترجمہ: کنزالعرفان

نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ﹰالْمُرْسَلِیْنَ: نوح کی قوم نے رسولوں  کو جھٹلایا۔} سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد یہاں  سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں  فرمایاگیا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے رسولوں  کو جھٹلایا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین ایک ہے اور ہر ایک نبی لوگوں  کو تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں  ا س لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانا تمام پیغمبروں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانا ہے۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۸ / ۵۲۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۳۹۱، ملتقطاً)

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(106)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(107)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(108)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب ان سے ان کے ہم قوم نوح نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم نے اس وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا :کیا تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں  تاکہ کفر اور گناہوں  کو ترک کر دو۔ بیشک میں  اللہ تعالٰی کی طرف سے تمہارے لئے ایک ایسا رسول ہوں  جس کی امانت داری تم میں  مشہور ہے اور جو دُنْیَوی کاموں  پر امین ہے وہ وحی اور رسالت پر بھی امین ہو گا لہٰذاتم اللہ تعالٰی سے ڈرو اور جو میں  تمہیں  توحید و ایمان اور اللہ تعالٰی کی طاعت کے بارے میں  حکم دیتا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔( خازن،الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۳ / ۳۹۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ص۸۲۵، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۲۹۱-۲۹۲، ملتقطاً)

{رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ: امانتداررسول۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۸۲۵)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ امانت داری:

         سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی میں  دیگر اَوصاف کے ساتھ ساتھ امانت و دیانت داری کا وصف بھی انتہائی اعلیٰ پیمانے پر موجود تھا اور آپ کی امانت داری کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے اورآپ صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے، یہاں  حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے جن سے آپ کی امانت و دیانت داری کی شان واضح ہوتی ہے۔

(1)…پچیس سال کی عمر شریف میں  سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔آپ کے اسی وصف کی وجہ سے حضرت خدیجہ نے اپنا تجارتی سامان لے جانے کے لئے آپ کو منتخب کیا اور آپ کی بارگاہ میں  یہ عرض پیش کی کہ آپ میرا تجارت کا مال لے کر ملک ِشام جائیں ،جو معاوضہ میں  دوسروں  کو دیتی ہوں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں  آپ کو اس کا دوگنا دوں  گی۔

(2)…نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت کی بدولت اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو مخلوق میں  انتہائی مقبول بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثل دانائی کا عظیم جوہر عطا فرما دیا، چنانچہ جب تعمیر ِکعبہ کے وقت حجرِ اَسوَد کو نَصب کرنے کے معاملے میں  عرب کے بڑے بڑے سرداروں  کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا اور قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ گئی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جھگڑے کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں  اور سرداروں  نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا اور سبھی کفار پکار اُٹھے کہ وَاللہ یہ امین ہیں  اور ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں ۔

 (3)…کفارِ مکہ اگرچہ رحمت ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بدترین دشمن تھے مگر اس کے باوجود حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت و دیانت پر کفار کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے قیمتی مال و سامان کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس امانت رکھتے تھے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امانت داری کی یہ شان تھی کہ آپ نے اس وقت بھی ان کفار کی امانتیں  واپس پہنچانے کا انتظام فرمایا جب وہ جان کے دشمن بن کر آپ کے مقدس مکا ن کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(109)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِﭤ(110)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں  مانگتا۔} اس سے پہلی آیات میں  بیان ہوا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی امانت داری کا وصف بیان کر کے لوگوں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور اپنی اطاعت کرنے کی ترغیب دلائی اور یہاں  سے یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لالچ وطمع سے خالی ہونے کو بیان کر کے اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور اطاعت کی طرف راغب کیا،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: میں  رسالت کی ادائیگی پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں  مانگتا، میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہ ِکرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرواور میری اطاعت کرو۔

قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَﭤ(111)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(قوم نے) کہا: کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی گھٹیا لوگوں نے کی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے جواب دیا کہ کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں  حالانکہ تمہاری پیروی ہماری قوم کے صرف گھٹیا لوگوں  نے کی ہے۔یہ بات انہوں  نے غرور کی وجہ سے کہی تھی کیونکہ انہیں  غریبوں  کے پاس بیٹھنا گوارا نہ تھا اوراس میں  وہ اپنی کَسرِشان سمجھتے تھے، اس لئے ایمان جیسی نعمت سے محروم رہے۔ کمینے اور گھٹیا لوگوں  سے ان کی مراد غریب اور پیشہ ور لوگ تھے اور انہیں  رذیل اور کمین کہنا یہ کفار کا مُتکبِّرانہ فعل تھا ورنہ درحقیقت صَنعت اور ردی پیشہ ایسی چیز نہیں  کہ جس سے آدمی دین میں  ذلیل ہو جائے۔مالداری اصل میں  دینی مالداری ہے اور نسب در اصل تقویٰ کا نسب ہے۔ یہاں  ایک مسئلہ یاد رہے کہ مومن کو گھٹیا کہنا جائز نہیں  خواہ وہ کتنا ہی محتاج و نادار ہو یا وہ کسی بھی نسب کا ہو۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۸۲۵)

 عزت و ذلت کا معیار دین اور پرہیزگاری ہے:

         اس سے معلوم ہو اکہ عزت و ذلت کا معیار مال و دولت کی کثرت نہیں  بلکہ دین اور پرہیزگاری ہے چنانچہ جس کے پاس دولت کے انبار ہوں  لیکن دین اور پرہیزگاری نہ ہو تو وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عزت والا نہیں  اوراس کی بارگاہ میں  ان کے مال و دولت کی حیثیت مچھر کے پر برابر بھی نہیں  اگرچہ دُنْیَوی طور پر وہ کتنا ہی عزت دار شمار کیا جاتا ہو، اسی طرح جو شخص غریب اور نادار ہے لیکن دین اور پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہے، وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عزت والا ہے اگرچہ دنیوی طور پر ا سے کوئی عزت داروں  میں  شمارنہ کرتا ہو اور لوگ اسے کمتر،حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوں ۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(حجرات:۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں  ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں  قومیں  اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں  پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں  تم میں  زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں  زیادہ پرہیزگارہےبیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔

         اور حضرت جابر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے اور تمہارے والد ایک ہیں ،سن لو!کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر،کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں  البتہ جو پرہیزگار ہے وہ دوسروں  سے افضل ہے، بیشک اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  تم میں  سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں  زیادہ پرہیزگارہے۔( شعب الایمان،الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی حفظ اللسان عن الفخر بالآباء، ۴ / ۲۸۹، الحدیث: ۵۱۳۷)

         اور غریب، پرہیزگار مسلمانوں  کی قدرو قیمت سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بہت سے پَراگندہ بالوں  والے ایسے ہوتے ہیں  جنہیں  (حقیر سمجھ کر) لوگ دروازوں  سے دھکے دیتے ہیں  (لیکن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  ان کا یہ مقام ہوتا ہے کہ ) اگر وہ کسی کام کے لئے قسم اٹھا لیں  تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو ضرور پورا کر دے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الضعفاء والخاملین، ص۱۴۱۲، الحدیث: ۱۳۸(۲۶۲۲))

         افسوس ہمارے معاشرے میں  بھی عزت کے قابل اسے ہی سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دولت کی کثرت ہو، گاڑیاں ، بنگلے، عہدے اور منصب ہوں  اگرچہ اس کے پاس یہ سب چیزیں  سود، جوئے، رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل کی ہوئی آمدنی سے آئی ہوں  اور جو شخص محنت مزدوری کر کے اور طرح طرح کی مشقتیں  برداشت کر کے گزارے کے لائق حلال روزی کماتا ہواسے لوگ کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں  عقل ِسلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

قَالَ وَ مَا عِلْمِیْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(112)اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰى رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ(113)

ترجمہ: کنزالعرفان

نوح نے فرمایا: مجھے ان کے کاموں کا علم نہیں ۔ ان کا حساب تو میرے رب ہی (کے ذمہ) پر ہے اگر تمہیں شعور ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: جن لوگوں  نے میری پیروی کی ہے مجھے ان کے کاموں  کا علم نہیں  اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی غرض اور مطلب ہے کہ وہ کیا پیشے کرتے ہیں ؟میری ذمہ داری انہیں  اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینا ہے (اور وہ میں  نے پوری کر دی ہے) اگر تم ان کے گھٹیا پیشوں  کوجانتے ہو تو اچھی طرح سمجھ لوکہ ان کا حساب تو میرے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کے ذمہ پر ہے، وہی انہیں  جزا دے گا،تو نہ تم انہیں  عیب لگاؤ اور نہ پیشوں  کے باعث ان سے عار کرو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ایمان لانے والوں  کے پیشے پر اعتراض کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ایمان پر بھی اعتراض کیا اور یہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں  وہ دل سے ایمان نہیں  لائے بلکہ صرف ظاہری طور پر ایمان لائے ہیں ۔اس کے جوا ب میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ارشاد فرمایا: ’’میری ذمہ داری ظاہر پر اعتبار کرنا ہے باطن کی تفتیش مجھ پر لازم نہیں ، اگر تمہیں  ان کے دل کا حال معلوم ہے تو جو کچھ ان کے دلوں  میں  ہے ا س کا ان سے حساب لینا میرے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کے ذمہ پرہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۲۱۱۳، ۳ / ۳۹۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۲۱۱۳، ص۸۲۵، ملتقطاً)

وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ(114)اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌﭤ(115)قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَﭤ(116)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں مسلمانوں کو دور کرنے والا نہیں ۔ میں تو صرف صاف صاف ڈر سنانے والا ہوں ۔ قوم نے کہا:اے نوح!اگر تم باز نہ آئے تو ضرورتم سنگسار کئے جانے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ: اور میں  دور کرنے والا نہیں ۔} قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر کہا کہ پھر آپ کمینوں  کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہم آپ کے پاس آئیں  اور آپ کی بات مانیں ۔ اس کے جواب میں  آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ میری شان نہیں  کہ میں  تمہاری ایسی خواہشوں  کو پورا کروں  اور تمہارے ایمان کے لالچ میں  غریب مسلمانوں  کو اپنے پاس سے نکال دوں ۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۸ / ۵۲۱، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۸۲۶، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غریب پَروری:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ غریبوں  فقیروں  کے ساتھ بیٹھنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ غریب مسلمانوں  سے بھی ہم نشینی رکھے،ان کی دلجوئی کرے اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے عملی طور پراِ قدامات کرنے کی کوشش کرے، ترغیب کے لئے یہاں  غریب پروری اور مسکین نوازی سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور آپ کی مبارک سیرت ملاحظہ ہو،چنانچہ

         حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا مانگی: ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، قیامت کے دن مجھے مسکینوں  کی جماعت سے ہی اٹھانا۔حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا نے عرض کی:  کیوں  (ایسا ہو؟) ارشاد فرمایا: ’’مسکین لوگ امیر لوگوں  سے چالیس سال پہلے جنت میں  داخل ہوں  گے،اے عائشہ! مسکین کے سوال کو کبھی رد نہ کرنا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو،اے عائشہ!مسکینوں  سے محبت رکھو اور انہیں  اپنے قریب کرو (ایسا کرنے سے) اللہ تعالٰی قیامت کے دن تجھے اپنا قرب عطا فرمائے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ فقراء المہاجرین  یدخلون الجنّۃ قبل اغنیاء ہم، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۳۵۹)

         حضرت ابو درداء  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(اگر تم مجھے ڈھونڈنا چاہو تو) مجھے اپنے کمزور اور غریب لوگوں  میں  تلاش کرو کیونکہ تمہیں  کمزور اور غریب لوگوں  کے سبب رزق دیاجاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔( ترمذی، کتاب الجہاد، باب ما جاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین، ۳ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۰۸)

         حضرت ابو ذر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ (غلام) تمہارے بھائی اور خادم ہیں ، اللہ تعالٰی نے انہیں  تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس شخص کے ماتحت ا س کا بھائی ہو وہ اسے وہ چیز کھلائے جسے خود کھاتا ہو،وہ لباس پہنائے جسے خود پہنتا ہو اور تم انہیں  ایسے کام پر مجبور نہ کرو جو ان کے لئے دشوار ہو اور اگرانہیں  ایسے کام کے لئے کہو تواس میں  ان کی مدد کرو۔( مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب اطعام المملوک ممّا یأکل۔۔۔ الخ، ص۹۰۶، الحدیث: ۴۰(۱۶۶۱))

         اسی طرح کثیر اَحادیث میں  یتیموں  اور بیواؤں کی سرپرستی کرنے، مزدور کو ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے،غریب مقروض کو مہلت دینے یا قرض معاف کردینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اب غریب پَروری سے متعلق سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا عالم ملاحظہ ہو،چنانچہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور تصنیف ’’شفا شریف‘‘ میں  ہے کہ’’حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکینوں  کی عیادت فرماتے،فقیروں  کے پاس بیٹھتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرمالیتے تھے۔( الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا تواضعہ، ص۱۳۱، الجزء الاول)

         علامہ عبد الحق محدث دہلوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی محتاج کو ملاحظہ فرماتے تو اپنا کھاناپینا تک اٹھا کر عنایت فرما دیتے حالانکہ ا س کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی،آپ کی عطا مختلف قسم کی ہوتی جیسے کسی کو تحفہ دیتے، کسی کو کوئی حق عطا فرماتے،کسی سے قرض کا بوجھ ا تار دیتے،کسی کو صدقہ عنایت فرماتے، کبھی کپڑ اخریدتے اور ا س کی قیمت ادا کر کے اس کپڑے والے کو وہی کپڑ ابخش دیتے،کبھی قرض لیتے اور (اپنی طرف سے) اس کی مقدار سے زیادہ عطا فرما دیتے،کبھی کپڑ اخرید کراس کی قیمت سے زیادہ رقم عنایت فرما دیتے اور کبھی ہدیہ قبول فرماتے اور اس سے کئی گُنا زیادہ انعام میں  عطا فرما دیتے۔( مدارج النبوہ، باب دوم در بیان اخلاق وصفا، وصل در جود وسخاوت، ۱ / ۴۹)

            اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں  کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک تعلیمات کو اپنانے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

اللہ تعالٰی کی اطاعت کے معاملے میں  کسی کی پرواہ نہیں  کرنی چاہئے:

         اس آیت میں  ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفار کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں  کیا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غریبوں  کو خود سے دور کردیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں  کسی کی طرف سے ہونے والی باتوں  کی پرواہ نہیں  کرنی چاہیے بلکہ اس سے بے پرواہ ہو کر اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا اور حق بات کو بیان کرنا چاہئے۔ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بطورِ خاص صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اس بات کا حکم دیتے اور اس پر بیعت لیتے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاملے میں  کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈریں  گے نہ اس کی پرواہ کریں  گے اور صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا یہ حال تھا کہ وہ اس عہد کی پاسداری میں  اپنی جان تک چلی جانے کی بھی پرواہ نہ کیا کرتے تھے۔افسوس!فی زمانہ حق بات بیان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں  کا حال انتہائی نازک ہے،یہ اپنے سامنے اللہ تعالٰی اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانیاں  ہوتی دیکھ کر، دین کا مذاق اڑتا ہوا اور شریعت کے احکامات پر عمل پیرا حضرات کی تذلیل ہوتی دیکھ کر،دینِ اسلام کے احکام اور اس کی تعلیمات پر انگلیاں  اٹھتی دیکھ کر اتنی ہمت بھی نہیں  کر پاتے کہ ایسے لوگوں  کو زبان سے ہی روک دیں  بلکہ الٹا ان کی ہاں  میں  ہاں  ملاتے اور ان کی الٹی سیدھی اور جاہلانہ باتوں  کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں  عقل ِسلیم عطا فرمائے اور حق بات کہنے اور اس میں  کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے،اٰمین۔

{نَذِیْرٌ: ڈر سنانے والا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میری ذمہ داری تمہیں  صحیح دلیل کے ساتھ صاف صاف ڈر سناناہے جس سے حق و باطل میں  امتیاز ہوجائے، تو جو ایمان لائے وہی میرا مُقَرّب ہے اور جو ایمان نہ لائے وہی مجھ سے دور ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۸۲۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۳ / ۳۹۱، ملتقطاً)

{قَالُوْا: بولے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے کہا :اے نوح ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اگر تم دعوت دینے اور ڈر سنانے سے باز نہ آئے تو ضرورتم سنگسار کئے جانے والوں  میں  سے ہوجاؤ گے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۶ / ۲۹۳)

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِ(117)فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(118)

ترجمہ: کنزالعرفان

نوح نے عرض کی: اے میرے رب! بیشک میری قوم نے مجھے جھٹلایا۔ تو مجھ میں اور ان میں پورا فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے ساتھ والے مسلمانوں کو نجات دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: عرض کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی :اے میرے رب! بیشک میری قوم نے تیری وحی ورسالت میں مجھے جھٹلایا ہے، پس تو مجھ میں اور ان میں وہ فیصلہ کردے جس کا ہم میں  سے ہر کوئی حق دار ہے اور مجھے اور میرے ساتھ والے مسلمانوں کو ان کافروں کی اَذِیَّتوں سے نجات دے۔

            حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں جو ذکر کیا کہ میری قوم نے تیری وحی اور رسالت میں مجھے جھٹلایا ہے، اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مراد یہ تھی کہ میں جواِن کے بارے میں ہلاکت کی دعا کررہا ہوں اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دی اور نہ ہی یہ سبب ہے کہ انہوں نے میری پیروی کرنے والوں کو گھٹیا کہا بلکہ میری دعا کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے تیرے کلام کو جھٹلایا اور تیری رسالت کے قبول کرنے سے انکار کیا۔(روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۱۷-۱۱۸،۶ / ۲۹۳،تفسیرکبیر،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۱۷-۱۱۸، ۸ / ۵۲۱، ملتقطاً)

فَاَنْجَیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ(119)ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَﭤ(120)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔پھر اس کے بعد ہم نے باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَنْجَیْنٰهُ: تو ہم نے اسے بچالیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اور اس نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور ان کے ساتھ والوں  کوانسانوں ، پرندوں  اور جانوروں  سے بھری ہوئی کشتی میں سوار کرکے طوفان سے بچا لیا اور انہیں  نجات دینے کے بعد باقی لوگوں  کو طوفان میں  غرق کر دیا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۱۹۱۲۰، ۳ / ۳۹۲)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(121)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(122)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔ اور بیشک تمہارا رب ہی غلبے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی حق سے تکبر کرنے اور غریب مسلمانوں  کو حقیر جاننے کی وجہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا جو انجام ہوا اس میں  بعد والوں  کے لئے عبرت کی نشانی ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)

{وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اور ان میں  اکثر مسلمان نہ تھے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  سے مسلمان ہونے والے مرد و عورت کی تعداد 80تھی اوراس آیت میں  حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ ہمیشہ تھوڑے لوگ ہی ایمان اور ہدایت قبول کرتے ہیں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۶ / ۲۹۳)

كَذَّبَتْ عَادُ اﰳلْمُرْسَلِیْنَ(123)

ترجمہ: کنزالعرفان

عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ عَادُ: عاد نے جھٹلایا۔} یہاں  سے رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ ایک شخص کا نام ہے جس کی اولاد سے یہ قبیلہ ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۸۲۶)

       نوٹ: یہ واقعہ سورۂ اَعراف،آیت نمبر65 تا 72،سورۂ ہود50تا60 میں  بھی گزر چکا ہے۔

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(124)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(125)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(126)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لَهُمْ: جب ان سے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ’’عاد‘‘ نے انہیں  ا س وقت جھٹلایا جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’تم جس کفر و شرک میں  مبتلا ہو،کیا اس پر تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔بیشک میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک ایسا رسول ہوں جس کی امانت داری تم میں  مشہور ہے اور میںاللہ تعالٰی کی وحی کا امین ہوں تو تم مجھے جھٹلانے میں اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں  تمہیں  جو حکم دوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۴-۱۲۶، ص۸۲۶، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۴-۱۲۶، ۶ / ۲۹۴، ملتقطاً)

وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(127)اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ(128)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں تم سے اِس (تبلیغ) پر کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ کیا تم ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو (راہگیروں کا) مذاق اڑاتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  تم سے اِس پر کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’میں  رسالت کی ادائیگی پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا،میرا اجر و ثواب تو اسی کے ذمہِ کرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے کیونکہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۶ / ۲۹۴)

{اَتَبْنُوْنَ: کیا تم بناتے ہو۔} اس قوم کا معمول یہ تھا کہ انہوں  نے سرِراہ بلند عمارتیں  بنالی تھیں ، وہاں  بیٹھ کر راہ چلنے والوں  کو پریشان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کے اسی عمل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’کیا تم راہگیروں  کا مذاق اڑانے کے لئے ہر بلندجگہ پر ایک نشان بناتے ہو تاکہ اس پر چڑھ کر گزرنے والوں  سے مذاق مسخری کرو۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۳ / ۳۹۲، ملخصاً)

دوسروں  کو تنگ کرنے کے سلسلے میں  لوگوں  کی رَوِش:

             حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی اس روش کے نظارے ہمارے آج کے معاشرے میں  بھی بکثرت دیکھے جا رہے ہیں ، جیسے چوراہوں  یا گلیوں میں  کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والوں  کو تنگ کرنا،کسی معذور شخص کو آتا دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا،راستے سے گزرنے والی خواتین پرآوازیں  کسنا،راہ چلتی عورتوں  سے ٹکرانا، کوئی راستہ معلوم کرے تو اسے غلط راستہ بتا دینا،راستے میں  کوڑا کرکٹ پھینک دینا، گلیوں  میں  گندا پانی چھوڑ دینا،گلیوں  میں  کھدائی کر کے کئی دنوں  تک بلا وجہ چھوڑے رکھنا،راستوں  میں  غیر قانونی تعمیرات کرنا، گلی محلوں  میں  کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا اور غلط جگہ گاڑی پارک کر دینا وغیرہ۔اللہ تعالٰی مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔ راستوں  میں  بیٹھنے سے متعلق حدیث پاک میں  ہے،حضرت ابوسعید خدری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: راستوں  میں  بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں  نے عرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں  راستے میں  بیٹھنے سے چارہ نہیں ، ہم وہاں  آپس میں  بات چیت کرتے ہیں ۔ فرمایا: جب تم نہیں  مانتے اور بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔لوگوں  نے عرض کی، راستے کا حق کیا ہے؟ ارشادفرمایا: ’’(1)نظر نیچی رکھنا۔ (2) اَذِیَّت کو دور کرنا۔(3)سلام کا جواب دینا (4)اچھی بات کا حکم کرنا اور (5)بری باتوں  سے منع کرنا۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب افنیۃ الدور والجلوس فیہا۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۴۶۵)

            ایک اور روایت میں  راستے کے یہ دو حق بھی بیان کئے گئے ہیں : (1)فریاد کرنے والے کی فریاد سننا۔ (2)بھولے ہوئے کو ہدایت کرنا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الجلوس فی الطرقات، ۴ / ۳۳۷، الحدیث: ۴۸۱۷)

            حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’راستوں  کے بیٹھنے میں  بھلائی نہیں  ہے، مگر اس کے لیے جو راستہ بتائے، سلام کا جواب دے، نظر نیچی رکھے اور بوجھ لادنے پر مدد کرے۔(شرح سنہ، کتاب الاستئذان، باب کراہیۃ الجلوس علی الطرق، ۶ / ۳۶۵، الحدیث: ۳۲۳۲)

وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ(129)وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ(130)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(131)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور مضبوط محل بناتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے۔ اور جب کسی کو پکڑتے ہو تو بڑی بیدردی سے پکڑتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَتَّخِذُوْنَ: اور بناتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں  قومِ عاد کے دو اورمعمولات کے بارے میں  حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام ذکر ہوا، چنانچہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: ’’تم اس امید پر مضبوط محل بناتے ہو کہ تم ہمیشہ رہوگے اور کبھی مرو گے نہیں اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی کے ساتھ تلوار سے قتل کرکے اوردُرّے مار کرانتہائی بے رحمی سے گرفت کرتے ہو، تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور ان کاموں کو چھوڑ دو اور میں  تمہیں اللہ تعالٰی کی وحدانِیَّت پر ایمان لانے اور عدل و انصاف وغیرہ کی دعوت دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔(خازن، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۳ / ۳۹۲، روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۲۹-۱۳۱،۶ / ۲۹۵-۲۹۶،ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی:

اس آیت میں  قومِ عاد کے مضبوط محلات بنانے کا ذکر ہوا، فی زمانہ بھی لوگوں  کی عمومی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انتہائی خوبصورت،مضبوط اور بڑا گھر بنائیں ۔جائز ذرائع اور حلال مال سے اس خواہش کو پورا کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن اگر ضرورت کے مطابق مناسب ساگھر بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔دو جہاں  کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے پیارے صحابۂ  کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مکانات کی سادگی ملاحظہ ہو، چنانچہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِنَبَوی کے متصل ہی اَزواجِ مطہرات  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے مکانات بنوائے تھے۔ ان مکانات کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ صرف دس دس گز لمبے اور چھ چھ،سات سات گز چوڑے تھے، کچی اینٹوں  کی دیواریں ، کھجور کی پتیوں  کی چھت اوروہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں  میں  لکڑی کے تختوں  کی بجائے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔( شرح الزرقانی، ذکر بناء المسجد النبوی وعمل المنبر، ۲ / ۱۸۵، ملخصاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی مکانات کی شان و شوکت پسند نہ فرماتے اور اگر کوئی شاندار مکان تعمیر کرتا یا اپنے مکان کی تزئین و آرائش میں  مصروف ہوتا تو ا س کی تربیت فرماتے، چنانچہ ایک بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک راستے سے گزرے، راستے میں  ایک اونچا سا گنبد (نما مکان) دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کس کا ہے؟ لوگوں  نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ شان وشوکت ناگوار ہوئی، مگر اس کا اظہار نہیں  فرمایا، کچھ دیر کے بعد انصاری بزرگ آئے، اور سلام کیا، لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رخِ انور پھیر لیا، باربار یہ واقعہ پیش آیا تو انہوں  نے دوسرے صحابہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی کاذکر کیا، جب سبب معلوم ہو ا تو انہوں  نے اس قبے کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۶۰، الحدیث: ۵۲۳۷)

حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے پاس سے اس وقت گزرے جب میں  اور میری والدہ دیوار کی لپائی کر رہے تھے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے عبداللہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ کیا کر رہے ہو؟میں  نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ، میں  دیوار کو درست کر رہا ہوں ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’موت ا س سے زیادہ قریب ہے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی البناء، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۵۲۳۵)

وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ(132)اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ(133)وَ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(134)اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍﭤ(135)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی جو تمہیں معلوم ہیں ۔ اس نے جانوروں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کی۔ اور باغوں اور چشموں سے۔بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتَّقُوْا: اور ڈرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: ’’اس سے ڈرو جس نے تمہاری ان نعمتوں  سے مدد کی جنہیں  تم جانتے ہو،جیسے اس نے جانوروں  اور بیٹوں  کے ساتھ تمہاری مدد کی،باغوں  اور چشموں  سے تمہاری مدد کی،اگر تم نے میری نافرمانی کر کے ان نعمتوں  کی ناشکری کی تو بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۲۱۳۵، ۳ / ۳۹۲)

قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ(136)

ترجمہ: کنزالعرفان

قوم نے کہا: ہمارے اوپر برابر ہے کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا آپ نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: بولے۔} قومِ عادنے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں  کا جواب یہ دیا کہ’’ آپ ہمیں  نصیحت کریں  یا آپ نصیحت کرنے والوں  میں  سے نہ ہوں ، ہمارے لئے دونوں  چیزیں  برابر ہیں ، ہم کسی طرح آپ کی بات نہ مانیں  گے اور نہ آپ کی دعوت قبول کریں  گے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۳ / ۳۹۲، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ص۸۲۷، ملتقطاً)

نصیحت قبول کرنا مسلمان کا اور نہ ماننا کافر کا کام ہے :

             اس آیت سے معلوم ہو اکہ نصیحت قبول کرنا مسلمان کا کام ہے اور نہ ماننا کافر کا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ

’’اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ‘‘(التوبۃ:۱۲۶)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان کیا وہ یہ نہیں  دیکھتے کہ انہیں  ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی) نہ وہ توبہ کرتے ہیں  اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۴۱)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان اور بیشک ہم نے اس قرآن میں  طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں  اور یہ سمجھانا ان کے دور ہونے کو ہی بڑھا رہا ہے۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’ اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(رعد:۱۹)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاریطرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو اندھا ہے؟ صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔

            نیزکامل ایمان والوں  کے بارے میں  ارشادفرمایا کہ جب ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ انہیں  نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے کہ نہ سوچیں  نہ سمجھیں  بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں  اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں  اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اُٹھاتے ہیں  اور ان آیتوں  پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ

’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا‘‘(الفرقان:۷۳)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان اور وہ لوگ کہ جب انہیں  ان کے ربکی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے۔

            فی زمانہ نصیحت قبول کرنے کے حوالے سے مسلمانوں  کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر کسی کو سمجھایاجائے تو وہ ماننے کو تیار نہیں  ہوتا اور اگر سمجھانے والا مرتبے میں  اپنے سے کم ہو تو جسے سمجھایا جائے وہ اپنی بات پراڑ جا تا ہے اور دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے اور نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں  کو نہیں  سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں  سمجھاسکتا،غریب شخص کسی مالدار آدمی کو نہیں  سمجھا سکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں  سمجھا سکتے، مسجدوں  میں  کوئی نوجوان عالم یا دینی مبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں  سمجھا سکتا بلکہ جسے سمجھایا جائے وہی گلے پڑ جاتا ہے۔اللہ تعالٰی مسلمانوں  کے حال پر رحم فرمائے، انہیں  چاہئے کہ ان آیاتِ کریمہ پر غور کر کے اپنی حالت سدھارنے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ‘‘(بقرہ:۲۰۶)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔

            اورارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُؕ-‘‘( کہف:۵۷)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں  کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے اور ان اعمال کو بھول جائے جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجے ہیں ۔

            اورمسلمانوں  کو منافقین اور مشرکین کے حال سے دُور رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ‘‘(انفال:۲۱)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان اور ان لوگوں  کی طرح نہ ہونا جنہوں  نے کہا :ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں  سنتے۔

            اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ(137)وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ(138)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ تو صرف پہلے لوگوں کی بنائی ہوئی جھوٹی باتیں ہیں ۔ اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنْ هٰذَا: یہ تو نہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا: جن چیزوں  کا آپ نے خوف دلایا یہ پہلے لوگوں  کی باتیں  ہیں ، وہ بھی ایسی ہی باتیں  کہا کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم ان باتوں  کا اعتبار نہیں  کرتے اورانہیں  جھوٹ جانتے ہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قوم نے کہا:ہماری یہ موت و حیات اور ہماراعمارتیں  بنانا پہلوں  کے طریقہ پر ہے یعنی جس طرح وہ زندہ تھے اسی طرح ہم زندہ ہیں ،جس طرح وہ مر گئے اسی طرح ہم بھی مر جائیں  گے اور جس طرح وہ عمارتیں  بنایا کرتے تھے اسی طرح ہم بھی عمارتیں  بنا رہے ہیں  تو یہ مرنا جینا اور عمارتیں  بنانا کوئی نئی بات نہیں  بلکہ ایسا تو شروع سے ہوتا آ رہا ہے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ص۳۱۴، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۸ / ۵۲۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۳۷، ص۸۲۷، ملتقطاً)

{وَ مَا نَحْنُ: اور ہمیں  نہیں ۔} قوم نے مزید یہ کہا کہ ہمارے اعمال اور ہماری عادات پر دنیا میں  ہمیں  عذاب نہیں  دیا جائے گا اور نہ مرنے کے بعد ہمیں  اٹھنا ہے اور نہ آخرت میں  حساب دینا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۶ / ۲۹۶، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ص۸۲۷، ملتقطاً)

فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(140)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا، بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔اور بیشک تمہارا رب ہی غلبے والا مہربان ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَذَّبُوْهُ: تو انہوں  نے اسے جھٹلایا۔} قومِ عاد نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں  کو نہ مانا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اس جھٹلانے پر قائم رہے تو اللہ تعالٰی نے ا س کی وجہ سے انہیں  دنیا میں  ہوا کے عذاب سے ہلاک کر دیا۔ بے شک قومِ عاد کی ہلاکت و بربادی میں  ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں  کا انجام بڑا درد ناک ہے اور قومِ عاد کے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے جو بچا لئے گئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۶ / ۲۹۶، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ص۳۱۴، ملتقطاً)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو شخص نصیحت قبول نہ کرے اور جابر و متکبر لوگوں  جیسے اعمال کرے تو بیشک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی اس پر غالب اور اسے سزا دینے والا ہے اور جو ایمان لے آئے اسے عذاب سے نجات دے کر ا س پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۰، ۶ / ۲۹۶-۲۹۷)

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ(141)اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(142)

ترجمہ: کنزالعرفان

قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے ان کے ہم قوم صا لح نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ: قومِ ثمود نے جھٹلایا۔} یہاں  سے نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورا ن کی قومِ ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت جھٹلاکر انہیں  ا ور ان سے پہلے رسولوں  کو جھٹلایا جب انہوں  قومِ ثمود سے فرمایا: کیا تم شرک کرنے پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرتے نہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۱۱۴۲، ۶ / ۲۹۷)

اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(143)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(144)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمِیْنٌ: امانتدار۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قومِ ثمود سے فرمایا: مجھے اللہ تعالٰی نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں  تمہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے عذاب سے ڈراؤں  اور جس رسالت کے ساتھ اس نے مجھے تمہاری طرف بھیجا میں  اس پر امین ہوں ، تو اےمیری قوم!تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کر کے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر عمل کرو۔(تفسیرطبری، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۳۱۴۴، ۹ / ۴۶۴)

خیانت اور نبوت جمع نہیں  ہوسکتیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ حضرات ِانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اَسرارِ اِلٰہیہ اور لوگوں  کی عزت، مال آبرو وغیرہ سب کے امین ہوتے ہیں ۔ خیانت اور نبوت جمع نہیں  ہوسکتیں ۔ ہمارے حضو رپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اہل ِمکہ بچپن شریف سے محمد امین پکارتے تھے اوراعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد میں  بھی آپ کے پاس امانتیں  رکھتے رہے اور اپنے فیصلے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کرواتے تھے۔

وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(145)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں  مانگتا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں  تمہیں  نصیحت کرنے اور اللہ تعالٰی کی طرف بلانے پر تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں  کرتا،میرا اجر  و ثواب تو اسی کے ذمہ ِکرم پر ہے جو سارے جہان کا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور جس نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۶ / ۲۹۷)

اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَ(146)فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(147)وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌ(148)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم یہاں (دنیا) کی نعمتوں میں امن و امان کی حالت میں چھوڑ دئیے جاؤ گے؟ باغوں اور چشموں میں ۔ اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم ونازک ہوتاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَتُتْرَكُوْنَ: کیا تم چھوڑ دئیے جاؤ گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید نصیحت کرتے ہوئے اپنی قوم سے فرمایا: ’’کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ تم دنیاکی نعمتوں  جیسے باغوں  اور چشموں  میں ، کھیتوں  اور کھجوروں  میں  جن کا شگوفہ نرم ونازک ہوتاہے، امن و امان کی حالت میں  چھوڑ دئیے جاؤ گے کہ یہ نعمتیں  تم سے کبھی زائل نہ ہوں  گی،تم پر کبھی عذاب نہ آئے گا اور تمہیں  کبھی موت نہ آئے گی۔ (تمہارا یہ گمان غلط ہے اور ایسا کبھی نہیں  ہو گا۔) (روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۸، ۶ / ۲۹۷-۲۹۸، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۶-۱۴۸، ص۸۲۷، ملتقطاً)

وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَ(149)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(150)وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ(151)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

}فٰرِهِیْنَ: بڑی مہارت دکھاتے ہوئے۔{ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تم بڑی مہارت دکھاتے ہوئے، اپنی صَنعت پر غرور کرتے اوراِتراتے ہوئے پہاڑوں  میں  سے گھر تراشتے ہو اور ان گھروں  کو بنانے سے تمہارا مقصد رہائش اختیار کرنا نہیں  بلکہ صرف اپنی مہارت پر غرور کرنا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو اور میری اطاعت کرتے ہوئے وہ اعمال کرو جن کا تمہیں  دنیا اور آخرت میں  فائدہ ہو اور حد سے بڑھنے والوں  کے کہنے پر نہ چلو۔حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ مُسْرِفِینَ سے مراد مشرکین ہیں ۔بعض مفسرین نے کہا کہ مُسْرِفِیۡنَ سے مراد وہ نو شخص ہیں  جنہوں  نے اونٹنی کو قتل کیا تھا۔(ابن کثیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۶ / ۱۴۰، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۴۹-۱۵۱، ۳ / ۳۹۳، ملتقطاً)

الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(152)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُفْسِدُوْنَ: فساد پھیلاتے ہیں ۔} یعنی حد سے بڑھنے والے وہ ہیں  جو کفر، ظلم اور گناہوں  کے ساتھ زمین میں  فساد پھیلاتے ہیں  اورایمان لا کر، عدل قائم کرکے اور اللہ تعالٰی کے فرمانبردار ہو کر اصلاح نہیں  کرتے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ بعض فساد پھیلانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں  کہ کچھ فساد بھی کرتے ہیں  اوران میں  کچھ نیکی بھی ہوتی ہے،لیکن یہ ایسے نہیں  بلکہ ان کا فساد مضبوط ہے جس میں  کسی طرح نیکی کا شائبہ تک نہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۳ / ۳۹۳،  مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۲،ص۸۲۷، ملتقطاً)

قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ(153)مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۚۖ-فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(154)

ترجمہ: کنزالعرفان

قوم نے کہا: تم ان میں سے ہو جن پر جادو ہوا ہے۔ تم تو ہم جیسے ہی ایک آدمی ہو، اگرتم سچے ہو تو کوئی نشانی لاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْۤا: قوم نے کہا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں کے جواب میں کہا ’’تم ان میں  سے ہو جن پر بار بار بکثرت جادو ہوا ہے جس کی وجہ سے عقل و حواس قائم نہیں رہے۔ (مَعَاذَ اللہ) تم تو ہم جیسے ہی ایک آدمی ہو کہ جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں  اسی طرح تم بھی کھاتے پیتے ہو، اگرتم رسالت کے دعوے میں  سچے ہو تو اپنی سچائی کی کوئی نشانی لے کرآؤ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۳-۱۵۴، ۳ / ۳۹۳، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۳-۱۵۴،ص۸۲۸، ملتقطاً)

قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ(155)

ترجمہ: کنزالعرفان

صالح نے فرمایا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے اور ایک معیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کے مطالبے پر فرمایا: ’’یہ ایک اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری ہے، تواس میں  اس کے ساتھ مزاحمت نہ کر و اور ایک مُعیّن دن تمہارے پینے کی باری ہے، تووہ اس میں  تمہارے ساتھ مزاحمت نہ کرے گی۔یہ اونٹنی قوم کے معجزہ طلب کرنے پر ان کی خواہش کے مطابق حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے پتھر سے نکلی تھی۔ اس کا سینہ ساٹھ گز کا تھا، جب اس کے پینے کا دن ہوتا تو وہ وہاں  کا تمام پانی پی جاتی اور جب لوگوں  کے پینے کا دن ہوتا تو اس دن نہ پیتی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ص۸۲۸، ملخصاً)

وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(156)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھوناورنہ تمہیں بڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ: اور تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا۔} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس اونٹنی کے بارے میں  مزید فرمایا کہ تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا،نہ اس کو مارنا اور نہ اس کے پاؤں  کی رگیں  کاٹنا ورنہ تمہیں  بڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس دن کوعذاب نازل ہونے کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ عذاب اس قدر عظیم اور سخت تھا کہ جس دن میں  وہ واقع ہوا اس کو اس کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ص۸۲۸)

فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَ(157)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہوں نے اس کے پاؤں کی رگیں کاٹ دیں پھرصبح کو پچھتاتے رہ گئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَعَقَرُوْهَا: تو انہوں  نے اس کے پاؤں  کی رگیں  کاٹ دیں ۔} ارشاد فرمایا کہ انہوں  نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے سمجھانے کے باوجوداس اونٹنی کے پاؤں  کی رگیں  کاٹ دیں  تو صبح کو پچھتاتے رہ گئے۔ پاؤں  کی رگیں کاٹنے والے شخص کا نام قدار تھا اور چونکہ لوگ اس کے اس فعل سے راضی تھے اس لئے پاؤں  کی رگیں  کاٹنے کی نسبت ا ن سب کی طرف کی گئی اور ان کا پچھتانا پاؤں  کی رگیں  کاٹ دینے پر عذاب نازل ہونے کے خوف سے تھا، نہ کہ وہ مَعصِیَت پر توبہ کرتے ہوئے نادم ہوئے تھے یا وہ عذاب کا مُعایَنہ کر کے نادم ہوئے تھے اور ایسے وقت کی ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۸۲۸)

فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(158)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو انہیں عذاب نے پکڑلیا، بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ:  تو انہیں  عذاب نے پکڑلیا۔} یعنی جس عذاب کی انہیں  خبر دی گئی تھی اس نے انہیں  پکڑ لیا اوروہ لوگ ہلاک ہو گئے۔ قومِ ثمود پر آنے والے عذاب میں  ضرور عبرت کی نشانی ہے کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی صداقت پر نشانی ظاہر ہو جانے کے بعد بھی کفر پر قائم رہنا عذاب نازل ہونے کا سبب ہے اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی تبلیغ کے باوجود بہت تھوڑے لوگ ان پر ایمان لائے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۶ / ۳۰۰)    تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ پر سارے عرب والے ایمان نہ لائیں  تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غم نہ فرمائیں ، اس کی وجہ یہ نہیں  کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تبلیغ میں  کوتاہی ہے بلکہ یہ خود بد نصیب ہیں ۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(159)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارا رب ہی غلبے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی کافروں  پر عذاب نازل کرنے میں  غلبے والا اور ایمان لانے والوں  کو نجات دے کر ان پر مہربانی فرمانے والا ہے جیسا کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو اللہ تعالٰی نے ان پر ایساعذاب نازل فرمایا جس نے انہیں  جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا، اس لئے سابقہ قوموں  کے عذابات کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے آپ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں  کو بھی اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۶ / ۳۰۰)

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَ(160)اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(162)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(163)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(164)

ترجمہ: کنزالعرفان

لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ: لوط کی قوم نے جھٹلایا۔} یہاں  سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے اس وقت آپ کو جھٹلا کر تما م رسولوں  کو جھٹلایا جب آپ نے ان سے فرمایا: ’’اے میری قوم:کیا تم شرک اور دیگر گناہوں  پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں  ڈرتے،بیشک میں  تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہارے لیے ا س کی وحی اور رسالت پر امانتدار رسول ہوں  تو تم اللہ  تعالٰی کے رسول کو جھٹلا کر اپنے اوپر اللہ  تعالٰی کا عذاب نازل ہونے سے ڈرو اور جس سیدھے راستے پر چلنے کی میں  تمہیں  دعوت دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔ اور میں  اس تبلیغ اور تعلیم پر تم سے کچھ اجرت اور دُنْیَوی مَنافع کا مطالبہ نہیں  کرتا، میرا اجرو ثواب توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمہ ِکرم پرہے۔(روح البیان،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰۱۶۴،۶ / ۳۰۱،تفسیر طبری،الشعراء،تحت الآیۃ:۱۶۰۱۶۴،۹ / ۴۶۹،ملتقطاً)

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ(165)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیاتم لوگوں میں سے مردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ: کیاتم مردوں  سے بدفعلی کرتے ہو۔} اس آیت کاایک معنی یہ بھی ہو سکتاہے کہ کیا مخلوق میں  ایسے قبیح اور ذلیل فعل کے لئے تمہیں  رہ گئے ہو،دنیا جہاں  کے اور لوگ بھی تو ہیں ، انہیں  دیکھ کر تمہیں  شرمانا چاہئے۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتاہے کہ کثیر عورتیں  موجودہوتے ہوئے اس قبیح فعل کا مُرتکِب ہونا انتہا درجہ کی خباثت ہے۔مروی ہے کہ اس قوم کو یہ خبیث عمل شیطان نے سکھایا تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ص۸۲۸، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۶ / ۳۰۱، ملتقطاً)

وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ(166)قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ یٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ(167)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوراپنی بیویوں کو چھوڑتے ہو جو تمہارے لیے تمہارے رب نے بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو۔ انہوں نے کہا: اے لوط!اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دئیے جاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَذَرُوْنَ: اور چھوڑتے ہو۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا کہ تمہارے لیے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو بیویاں  بنائی ہیں ، کیا تم ان حلال طیب عورتوں  کو چھوڑ کر مردوں  سے بد فعلی جیسی حرام اورخبیث چیزمیں  مبتلا ہوتے ہوبلکہ تم لوگ اس خبیث عمل کی وجہ سے حد سے بڑھنے والے ہو۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۶، ص۸۲۹، ملتقطاً)

عورتوں  کے ساتھ بد فعلی کرنے کی وعیدیں :

            آیت میں  مردوں  کے ساتھ بدفعلی کے حرام ہونے کا بیان ہے، یہاں  اس کی مناسبت سے عورت کے ساتھ بھی بدفعلی یعنی پچھلے مقام میں  جماع کرنے کا حکم بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یاد رہے کہ بیوی سے جماع کرنا بھی صرف اسی جگہ حلال ہے جہاں  کی شریعت نے اجازت دی ہے اور ا س سے بد فعلی کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مردوں  سے بد فعلی کرنا حرام ہے، یہاں  بیویوں  کے ساتھ بد فعلی کرنے کی وعید پر مشتمل4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت خزیمہ بن ثابت  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی حق بیان کرنے سے حیا نہیں  فرماتا، تم میں  سے کسی کے لئے حلال نہیں  کہ وہ عورتوں  کے پچھلے مقام میں  وطی کرے۔( معجم الکبیر،باب من اسمہ: خزیمۃ، خزیمۃ بن ثابت الانصاری ذو الشہادتین، ہرمی بن عبد اللّٰہ الخطمی عن خزیمۃ بن ثابت،۴ / ۸۸، الحدیث: ۳۷۳۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں  وطی کرے وہ ملعون ہے۔( ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح، ۲ / ۳۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)

(3)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر نہیں  فرمائے گا جو اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں  جماع کرے۔( ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۴۴۹، الحدیث: ۱۹۲۳)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  ’’اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس شخص کی طرف رحمت کی نظر نہیں  فرمائے گا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں  وطی کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۶۸)

{قَالُوْا: انہوں  نے کہا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت کے جواب میں  ان لوگوں  نے کہا اے لوط!اگر تم نصیحت کرنے اور اس فعل کو برا کہنے سے بازنہ آئے تو ضرور ا س شہر سے نکال دئیے جاؤ گے اور تمہیں  یہاں  رہنے نہ دیا جائے گا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ص۸۲۹)

قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَﭤ(168)رَبِّ نَجِّنِیْ وَ اَهْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(169)

ترجمہ: کنزالعرفان

لوط نے فرمایا: میں تمہارے کام سے شدید نفرت کرنے والوں میں سے ہوں ۔ اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے اعمال سے محفوظ رکھ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’میں  تمہارے کام سے بیزار اور اس سے شدید نفرت کرنے والوں  میں  سے ہوں  اور مجھے اس سے شدید دشمنی ہے۔ پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  دعا کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اور میرے گھر والوں  کو ان کے اعمال پر آنے والے عذاب سے محفوظ رکھ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۸-۱۶۹، ۳ / ۳۹۴، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۶۸-۱۶۹، ص۸۲۹، ملتقطاً)

فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اَجْمَعِیْنَ(170)اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ(171)

تو ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی۔ مگر ایک بڑھیا جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَنَجَّیْنٰهُ: تو ہم نے اسے نجات بخشی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ الترجمہ: کنزالعرفان

لہ تعالٰی نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کی بیٹیوں  اور ان تمام لوگوں  کو جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے عذاب سے نجات بخشی لیکن ایک بڑھیا جو پیچھے رہ جانے والوں  میں  سے تھی اسے نجات نہ بخشی۔ یہ بڑھیا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی تھی،یہ چونکہ اپنی قوم کے فعل پر راضی تھی اور جو گناہ پر راضی ہو وہ بھی گناہ کرنے والے کے حکم میں  ہوتا ہے اسی لئے وہ بڑھیا عذاب میں  گرفتارہوئی اور اس نے نجات نہ پائی۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۰-۱۷۱، ص۸۲۹)

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ(172)وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاۚ-فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ(173)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کردیا۔ اور ہم نے ان پر ایک خاص بارش برسائی تو ڈرائے جانے والوں کی بارش کتنی بری تھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ دَمَّرْنَا: پھر ہم نے ہلاک کردیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں  کو نجات دینے کے بعد دوسروں  کو اللہ تعالٰی نے ان کی بستیاں  الٹ کر ہلاک کر دیا اور ان پر پتھروں  کی یا گندھک اور آگ کی خاص بارش برسائی تو جن لوگوں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا گیا اور وہ ایمان نہ لائے، ان پر کی جانے والی یہ بارش کتنی بری تھی۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۲-۱۷۳، ۶ / ۳۰۲، ملتقطاً)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(174)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً: بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی جو کچھ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ساتھ کیا گیا، ا س میں  ان کے بعد والوں  کے لئے ضرور عبرت کی نشانی ہے تاکہ وہ اس قوم کے جیسا گندا ترین کام نہ کریں  اور ان پر بھی ویساعذاب نازل نہ ہو جیسا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر نازل ہوا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں  سے بھی بہت تھوڑے لوگ ہی آپ پر ایمان لائے تھے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۶ / ۳۰۲)اس لئے اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کم لوگوں  کے ایمان لانے پر غمزدہ نہ ہوں۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(175)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارا رب ہی غلبے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کارب ہی دشمنوں  پر قہر فرمانے میں  غالب ہے اور وہی تنبیہ اور نصیحت سے پہلے عذاب نازل نہ فرما کر مہربانی فرمانے والا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۶ / ۳۰۲)

لواطت اور ہم جنس پرستی کے نقصانات:

            یہ ہم پر اللہ تعالٰی کی بہت بڑی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے ہمارے لئے ہر وہ چیز جائز اور حلال رکھی ہے جو ہمارے لئے دنیااور آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند،نفع بخش، ہماری بقا و سلامتی اور اُخروی نجات کے لئے ضروری ہے اور ہر ا س چیز کو ہمارے لئے حرام اور ممنوع کر دیا ہے جو ہماری دنیا یا آخرت کے لئے نقصان کا باعث ہے۔یاد رہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کی فطری خواہش یعنی شہوت کی تسکین کا ذریعہ عورت کو بنایا ہے اوراس میں  بھی ہر انسان کو کھلی چھٹی نہیں  دی کہ وہ جب چاہے اور جس عورت سے چاہے اپنی فطری خواہش پوری کر لے بلکہ اللہ تعالٰی نے انسانوں  کو اپنی شہوت کی تسکین کے لئے’’ نکاح‘‘ کا ایک مقدس نظام دیا ہے تاکہ انسانوں  کو اپنے جذبات کی تکمیل کے لئے جائز اور مناسب راہ مل سکے، اخلاقی طور پر بے راہ روی کا شکار نہ ہوں ،نسلِ انسانی کی بقا کاسامان مہیا ہو اور لوگ ایک خاندانی نظام کے تحت معاشرے میں  امن وسکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔لیکن فی زمانہ عالمی سطح پر تہذیب وتَمَدُّن کے دعوے دار کئی غیر مسلم ممالک نے اللہ تعالٰی کے اس نظام سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے معاشروں  میں  لواطت کو قانوناً جائز قرار دے رکھا ہے بلکہ کئی مسلم ممالک میں  بھی یہ وبا پھیلتی چلی جا رہی ہے اور جن ملکوں  میں  اسے قانوناً اگرچہ جائز قرار نہیں  دیا گیا وہاں  بھی تقریباً ہر گاؤں  اورشہر میں  بہت سے لوگ اس غیر فطری عادت اور حرام کاری میں  مبتلا نظر آتے ہیں ۔اس حرام کاری کو قانوناً جائز قرار دینے والے ملکوں  میں  اخلاقی اور خاندانی نظام کی تباہی کا حال یہ ہو ا ہے کہ وہاں  پر لوگوں  میں  حیا اور شرم نام کی چیز باقی نہیں  رہی اور لوگ سرِ عام ا س حرام کاری میں  مصروف ہوجاتے ہیں  اور ان میں  خاندانی نظامِ حیات تقریبا ً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مَردوں  کی مردوں  اور عورتوں  کی عورتوں  سے باہم لذت آشنائی کے باعث ان ملکوں  میں  نسلِ انسانی تیزی سے کم ہو رہی ہے اورآبادی کی شرح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ شہوت پرست لوگ بچے جننے اور ان کی تربیت کرنے پر راضی نہیں ۔یہ لواطت اور ہم جنس پرستی کا عمومی نقصان ہے بطورِ خاص لواطت اور ہم جنس پرستی کا عادی انسان آتشک،سوزاک،سیلان، خارش اور خطرناک پھوڑے پھنسیوں  جیسے اَمراض کا شکار ہو جاتا ہے اور ایڈز کا سب سے بڑا سبب بھی یہی حرام کاری ہے۔ایڈز وہ انتہائی خطرناک مرض ہے کہ جس کی ہَولناکی کی وجہ سے اس وقت ساری دنیا کے لوگ لرزہ براندام ہیں ،یہ وہ عالمگیر مرض ہے جس سے پوری دنیا کا کوئی خطہ، کوئی ملک محفوظ نہیں  ہے۔ کروڑوں  افراد اس مُہلِک مرض میں  مبتلا ہیں  اور آئے دن اس کے مریضوں  کی تعداد میں  اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک لاکھوں  افراد ا س مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں  اور جو زندہ ہیں  وہ انتہائی کَرب کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میڈیکل سائنس اور طب کے دیگر شعبوں  میں  تمام ترترقی کے باوجود ابھی تک اس مرض کاکوئی موثر علاج دریافت نہیں  کیا جا سکا۔ اللہ تعالٰی سب مسلمانوں  کو اس حرام کاری سے محفوظ رکھے، اٰمین۔

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176)

ترجمہ: کنزالعرفان

اَیکہ (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ: اَیکہ (جنگل) والوں  نے جھٹلایا۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔اس آیت میں  جس جنگل کا ذکر ہوا یہ مَدیَن شہر کے قریب تھا اوراس میں  بہت سے درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ اللہ تعالٰی نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اہلِ مدین کی طرح اُن جنگل والوں کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھااور یہ لوگ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے۔( جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۳۱۵، مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۸۲۹، ملتقطاً)

اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(180)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب ان سے شعیب نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ: جب ان سے شعیب نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں  نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں  کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں  ڈرتے!بے شک میں  تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں  تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں  تمہیں  جو حکم دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں  اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔} ان تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالٰی کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں  اخلاص کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں  لیتے تھے، لہٰذا سب نے یہی فرمایا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۳ / ۳۹۴)

اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَﭤ(184)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اورناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور بالکل درست ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کوپیدا کیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوْفُوا الْكَیْلَ: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی3  آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنا،لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا،رہزنی اور لوٹ مار کرکے اور کھیتیاں تباہ کرکے زمین میں فساد پھیلانا ان لوگوں کی عادت تھی اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں  ان کاموں سے منع فرمایا اور ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعدساری مخلوق کو پیدا کرنے والے رب تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں آتے بلکہ اعلیٰ اَخلاق، سیاسیات، معاملات کی درستگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ(185)وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ(186)فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَﭤ(187)

ترجمہ: کنزالعرفان

قوم نے کہا: (اے شعیب!) تم تو ان میں سے ہو جن پر جادو ہوا ہے۔ تم تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہواور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں ۔ تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو اگر تم سچے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: قوم نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں  نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحت سن کر کہا:اے شعیب!تم تو ان لوگوں میں سے ہو جن پر جادو ہوا ہے اورتم کوئی فرشتے نہیں بلکہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہواور تم نے جونبوت کا دعویٰ کیا بے شک ہم تمہیں اس میں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ اگر تم نبوت کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ تعالٰی سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔( مدارک، الشعراء،تحت الآیۃ:۱۸۵-۱۸۷،ص۸۳۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۵-۱۸۷، ۶ / ۳۰۴، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا: تم تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہو۔} صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’نبوت کا انکار کرنے والے اَنبیاء( عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام )کی نسبت میں  بِالعموم یہی کہا کرتے تھے۔ جیسا کہ آج کل کے بعض فاسد العقیدہ کہتے ہیں ۔( خزائن العرفان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۶، ص۶۹۵)

قَالَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(188)فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(189)

ترجمہ: کنزالعرفان

شعیب نے فرمایا :میرا رب تمہارے اعمال کوخوب جانتا ہے۔تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے پکڑلیا بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ: فرمایا۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں  کا جواب سن کر ان سے فرمایا :میرا رب عَزَّوَجَلَّ  تمہارے اعمال کو اور جس عذاب کے تم مستحق ہو اسے خوب جانتا ہے، وہ اگر چاہے گا تو آسمان کا کوئی ٹکڑ اتم پر گرا دے گایاتم پر کوئی اور عذاب نازل کرنا اس کی مَشِیَّت میں  ہو گا تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ وہ عذاب تم پر نازل فرمادے گا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۸۳۰)

{فَكَذَّبُوْهُ: تو انہوں  نے اسے جھٹلایا۔} ارشاد فرمایا کہ جنگل والوں  نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو انہیں  شامیانے کے دن کے عذاب نے پکڑلیا، بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں  شدید گرمی پہنچی، ہوا بند ہوئی اور سات دن گرمی کے عذاب میں  گرفتار رہے۔ تہ خانوں  میں  جاتے وہاں  اور زیادہ گرمی پاتے۔ اس کے بعد ایک بادل آیا سب اس کے نیچے آکے جمع ہوگئے تو اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ص۸۳۰)

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(190)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(191)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔ اور بیشک تمہارار ب ہی غلبے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:  بیشک اس میں  ضرور نشانی ہے۔} یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور جنگل والوں کا جویہ واقعہ بیان کیاگیا اس میں عقلمندوں کے لئے ضرور عبرت کی نشانی ہے اور ان جنگل والوں کے اکثر لوگ مسلمان نہ تھے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ۶ / ۳۰۴-۳۰۵)

{وَ اِنَّ رَبَّكَ: اور بیشک تمہارار ب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی غالب اور ہر ممکن چیز پر قادر ہے اور اس کی ایک دلیل انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرمانا ہے اور بے شک آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ہی لوگوں کو مہلت دے کر مہربانی فرمانے والاہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ۶ / ۳۰۵)

وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(192)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک یہ قرآن ربُّ العالمین کا اتارا ہوا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّهٗ: اور بیشک یہ قرآن۔} انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہاں سے اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی چیز کاذکر فرمایاہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن سب جہانوں کے رب تعالٰی کا اتارا ہوا ہے کسی شاعر، جادو گر یا کاہن کا کلام نہیں جیسا کہ اے کفار تم گمان کرتے ہو۔( تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۸ / ۵۳۰،  صاوی، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۴ / ۱۴۷۴، ملتقطاً)

نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ(193)

ترجمہ: کنزالعرفان

اسے روحُ الا مین لے کر نازل ہوئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَزَلَ بِهِ: اسے لے کر نازل ہوئے۔} قرآن پاک کو روح الا مین یعنی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام لے کر نازل ہوئے۔

 حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو روح اور امین کہنے کی وجوہات:

             حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو روح کہنے کی ایک وجہ مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام روح سے پیدا کئے گئے ہیں  اس لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو روح کہا گیا۔دوسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح روح بدن کی زندگی کا سبب ہوتی ہے اسی طرح حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مکلف لوگوں  کے دلوں  کی زندگی کا سبب ہیں  کیونکہ علم اور معرفت کے نور سے دل زندہ ہوتے ہیں  جبکہ بے علمی اور جہالت سے مردہ ہو تے ہیں  اورحضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے وحی نازل ہوتی ہے جس سے اللہ تعالٰی کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس معرفت کے ذریعے بے علمی اور جہالت کی وجہ سے مردہ ہو جانے والے د ل زندہ ہوجاتے ہیں ، ا س لئے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو روح فرمایا گیا اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو امین ا س لئے کہتے ہیں  کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک اپنی وحی پہنچانے کی امانت ان کے سپرد فرمائی ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۳ / ۳۹۵، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۸ / ۵۳۰، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ:۱۹۳، ۶ / ۳۰۶، ملتقطاً)

 قرآنِ مجید کے بارے میں  ایک عقیدہ:

            یاد رہے کہ قرآن پاک اللہ تعالٰی کا کلام ہے اور اس کی صفت ہے جو ا س کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کلام کو عربی الفاظ کے لبادے میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل فرمایا اور انہیں  ان الفاظ پر امین بنایا تاکہ وہ اس کے حقائق میں  تَصَرُّف نہ کریں ،اس کے بعد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے ان الفاظ کوحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِاَطہر پر نازل کیا۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۶ / ۳۰۶)

عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(194)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے دل پرتاکہ تم ڈر سنانے والوں میں سے ہوجاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَلٰى قَلْبِكَ: تمہارے دل پر۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ کے سامنے ا س قرآن کی تلاوت کی، یہاں  تک کہ آپ نے اسے اپنے دل میں یاد کر لیا کیونکہ دل ہی کسی چیز کو یاد رکھنے اور اسے محفوظ رکھنے کا مقام ہے،وحی اور اِلہام کا مَعدِن ہے اور انسان کے جسم میں دل کے علاوہ اور کوئی چیز خطاب اور فیض کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۶ / ۳۰۶) نیز اس لئے کہ آپ اسے محفوظ رکھیں اور سمجھیں اور نہ بھولیں ۔ دل کی تخصیص اس لئے ہے کہ درحقیقت وہی مخاطب ہے اور تمیز،عقل اور اختیار کا مقام بھی وہی ہے، تمام اَعضاء اس کے آگے مسخر اور اطاعت گزارہیں ۔ حدیث شریف میں  ہے کہ دل کے درست ہونے سے تمام بدن درست ہوجاتا اور اس کے خراب ہونے سے سب جسم خراب ہو جاتا ہے، نیز فَرحت و سُرُور اوررنج و غم کا مقام دل ہی ہے، جب دل کو خوشی ہوتی ہے تو تمام اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے، پس دل ایک رئیس کی طرح ہے اور وہی عقل کا مقام ہے تو وہ امیر ِمُطلَق ہوا اور مکلف ہوناجو کہ عقل و فہم کے ساتھ مشروط ہے، اسی کی طرف لوٹا۔

{لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ: تاکہ تم ڈر سنانے والوں میں سے ہوجاؤ۔} یہاں قرآن پاک کو نازل کرنے کی حکمت اور مَصلحت بیان کی جار ہی ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ پر قرآن پاک اس لئے نازل ہوا تاکہ آپ اس کے ذریعے اپنی امت کو ان کاموں سے ڈرائیں جنہیں کرنے یا نہ کرنے سے وہ عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍﭤ(195)وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ(196)

ترجمہ: کنزالعرفان

روشن عربی زبان میں ۔اور بیشک اس کا ذکر پہلی کتابوں میں موجودہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بِلِسَانٍ: زبان میں ۔} یعنی قرآنِ پاک کو عربی زبان میں  نازل کیا جس کے معنی ظاہر اور الفاظ کی اپنے معنی پر دلالت واضح ہے تاکہ عرب کے رہنے والوں  اور کفارِ قریش کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں  کہ ہم اس کلام کو سن کر کیا کریں  گے جسے ہم سمجھ ہی نہیں  سکتے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۶ / ۳۰۶)

عربی زبان کی فضیلت:

            اس آیت سے عربی زبان کی دیگر زبانوں  پر فضیلت بھی ثابت ہوئی کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآنِ پاک کو عربی زبان میں  نازل فرمایا ہے کسی اور زبان میں  نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین وجہوں  سے عربوں  سے محبت رکھو،کیونکہ میں  عربی ہوں ، قرآن عربی ہے اور اہلِ جنت کی زبان بھی عربی ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۱۶۴، الحدیث: ۵۵۸۳)

            حضرت فقیہ ابو لیث سمرقندی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جان لو کہ عربی زبان تمام زبانوں  سے افضل ہےتو جس نے عربی زبان خود سیکھی یا کسی اور کو سکھائی اسے اجر ملے گا کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کو عربی زبان میں  نازل فرمایا ہے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۶ / ۳۰۷)

{وَ اِنَّهٗ: اور بیشک اس کا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کا ذکر تمام آسمانی کتابوں  میں  موجود ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ سابقہ کتابوں  میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت اور صفت مذکور ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۶، ص۸۳۱، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۶، ۳ / ۳۹۵، ملتقطاً)

اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(197)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کیا یہ بات ان کے لیے نشانی نہ تھی کہ اس نبی کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً: اور کیا یہ بات ان کے لیے نشانی نہ تھی۔} یہاں  کفارِ مکہ پر ایک اور حجت بیان کی گئی کہ کیا یہ بات کفارِ مکہ کے لیے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کی صداقت پر نشانی نہ تھی کہ اس نبی کو بنی اسرائیل کے علماء اپنی کتابوں  سے جانتے ہیں  اور لوگوں  کو ان کی خبریں  دیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اہلِ مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس اپنے با اعتماد بندوں  کو یہ دریافت کرنے بھیجا کہ کیا نبی آخر الزَّمان، سیّد ِکائنات، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  اُن کی کتابوں  میں  کوئی خبر ہے ؟اس کا جواب یہودی علماء نے یہ دیا کہ یہی ان کا زمانہ ہے اور اُن کی نعت و صفت توریت میں  موجود ہے۔‘‘یاد رہے کہ یہودی علماء میں  سے حضرت عبداللہ بن سلام، ابنِ یامین، ثعلبہ، اسد اور اُسید،یہ حضرات جنہوں  نے توریت میں  حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف پڑھے تھے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۷، ۳ / ۳۹۵، ملخصاً)

وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ(198)فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَﭤ(199)كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَﭤ(200)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے۔ پھر وہ ان کے سامنے قرآن کو پڑھتا جب بھی وہ اس پر ایمان لانے والے نہ تھے۔ یونہی ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس قرآن کے جھٹلانے کو داخل کردیا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ: اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے معنی یہ ہیں  کہ ہم نے یہ قرآن کریم ایک فصیح، بلیغ اورعربی نبی پر اُتارا جس کی فصاحت سب اہلِ عرب مانتے ہیں  اور وہ جانتے ہیں  کہ قرآن کریم عاجز کر دینے والا کلام ہے اور اس کی مثل ایک سورت بنانے سے بھی پوری دنیا عاجز ہے۔ علاوہ بریں  اہلِ کتاب کے علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کے نزول سے پہلے اس کے نازل ہونے کی بشارت اور اس نبی کی صفت اُن کی کتابوں  میں  انہیں  مل چکی ہے، اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ نبی اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے ہیں  اور یہ کتاب اس کی نازل فرمائی ہوئی ہے اور کفارجو طرح طرح کی بے ہودہ باتیں  اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں  سب باطل ہیں  اور خود کفار بھی حیران ہیں  کہ اس کے خلاف کیا بات کہیں ، اس لئے کبھی اس کو پہلوں  کی داستانیں  کہتے ہیں ، کبھی شعر، کبھی جادو اور کبھی یہ کہ مَعَاذَاللہ اس کو خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بنالیا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف اس کی غلط نسبت کردی ہے۔ اس طرح کے بے ہودہ اعتراض عناد رکھنے والا ہر حال میں  کرسکتا ہے حتّٰی کہ اگر بالفرض یہ قرآن کسی غیر عربی شخص پر نازل کیا جاتا جو عربی کی مہارت نہ رکھتا اور اس کے باوجود وہ ایسا عاجز کر دینے والا قرآن پڑھ کر سنا تا جب بھی لوگ اسی طرح کفر کرتے جس طرح انہوں  نے اب کفر و انکار کیا کیونکہ اُن کے کفر و انکار کا باعث عناد ہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۱۹۸۱۹۹، ص۸۳۲)

حق بات قبول کرنے میں  ایک رکاوٹ:

            اس سے معلوم ہو اکہ عناد حق بات کو قبول کرنے کی راہ میں  بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ جس شخص کے دل میں  کسی کے بارے میں  عناد بھرا ہوا ہو وہ اس کے اعتراضات کے جتنے بھی تسلی بخش جوابات دے لے اور حق بات پر جتنے بھی ایک سے ایک دلائل پیش کر دے عناد رکھنے والے کے حق میں  سب بے سود ہوتے ہیں  اور عناد رکھنے والاان سے کوئی فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حق بات کو قبول کرتا ہے۔ یہی چیز ہمارے معاشرے میں  بھی پائی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ جس شخص کے بارے میں  دشمنی دل میں  بیٹھ جائے تو ا س پر طرح طرح کے بیہودہ اعتراضات شروع کر دئیے جاتے ہیں  اور وہ اپنی صداقت و صفائی پر جتنے چاہے دلائل پیش کرے اسے ماننے پر تیار نہیں  ہوتے۔ اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطافرمائے،اٰمین۔

{ كَذٰلِكَ: یونہی۔} یعنی ہم نے اسی طرح ان کافروں  کے دلوں  میں  اس قرآن کے جھٹلانے کو داخل کردیا ہے جن کا کفر اختیار کرنا اور اس پر مُصِر رہنا ہمارے علم میں  ہے، تو اُن کے لئے ہدایت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے کسی حال میں  وہ کفر سے پلٹنے والے نہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ص۸۳۲)

لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ(201)فَیَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(202)فَیَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَﭤ(203)اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ(204)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں ۔ تو وہ (عذاب) اچانک ان پر آجائے گا اور انہیں خبر (بھی) نہ ہوگی۔ پھرکہیں گے: کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی؟تو کیا ہمارے عذاب کو جلدی مانگتے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ: وہ اس پر ایمان نہ لائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ قرآن پر ایمان نہ لائیں  گے یہاں  تک کہ ان پر اچانک عذاب آ جائے گا اور انہیں  ا س کی خبر بھی نہ ہوگی اور جب وہ عذاب کو دیکھیں  گے تو حسرت زدہ ہو کر کہیں  گے ’’کیا ہمیں  کچھ مہلت ملے گی اگرچہ پلک جھپکنے کے برابر ہی سہی تاکہ ہم ا یمان لے آ ئیں  ؟ان سے کہا جائے گا:اب تم سے عذاب مؤخر ہو گا اور نہ تمہیں  کوئی مہلت ملے گی۔(جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۱-۲۰۳، ۵ / ۴۱۰)

{اَفَبِعَذَابِنَا: تو کیا ہمارے عذاب کو۔} جب نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو اس عذاب کی خبر دی تو وہ مذاق اڑانے کے طور پر کہنے لگے کہ یہ عذاب کب آئے گا؟ اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے ارشاد فرمایا کہ کیا وہ ہمارے عذاب کو جلدی مانگتے ہیں ؟ مراد یہ ہے کہ عذاب دیکھ کرکفار کا حال تو یہ ہو گا کہ وہ مہلت مانگتے پھریں  گے اس کے باوجود وہ دنیا میں  عذاب نازل ہونے کی جلدی مچا رہے ہیں ، ان کے دونوں  طریقوں  میں  کتنا فرق ہے۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۳ / ۳۹۶، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۸ / ۵۳۴، ملتقطًا)

اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَ(205)ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ(206)مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَﭤ(207)

ترجمہ: کنزالعرفان

بھلا دیکھو توکہ اگر ہم کچھ سال انہیں فائدہ اٹھانے دیں ۔پھر ان پر وہ (عذاب) آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو کیا وہ سامان ان کے کام آئے گا جس سے انہیں فائدہ اٹھانے (کا موقع) دیا گیا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَرَءَیْتَ: بھلا دیکھو تو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا معنی یہ ہے کہ کفار کا عذاب نازل ہونے کی جلدی مچانے کا ایک سبب ان کا یہ عقیدہ ہے کہ انہیں کوئی عذاب نہیں ہو گا اور وہ ایک طویل عرصے تک امن و سلامتی کے ساتھ دنیا سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ان کے عقیدے کے مطابق اگر انہیں لمبے عرصے تک دنیا سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے، ا س کے بعد ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان کی لمبی عمر اور عیش و عشرت انہیں کیا فائدہ دے گی۔دنیا کی زندگانی اور اس کا عیش خواہ طویل بھی ہو لیکن نہ وہ عذاب کو دور کرسکے گا اورنہ اس کی شدت کم کرسکے گا۔(مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۰۵-۲۰۷،ص۸۳۲-۸۳۳، خازن،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۰۵-۲۰۷، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)

 دنیا کا عیش و عشرت اللہ تعالٰی کا عذاب دور نہیں  کر سکتا:

ان آیات میں اگرچہ کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ دنیا کی طویل زندگی اور عیش و عشرت کی بہتات ان سے اللہ تعالٰی کا عذاب دور کر سکے گی اور نہ ان سے عذاب کی شدت میں  کوئی کمی کر سکے گی، لیکن ان آیات سے ان مسلمانوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہئے جو دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول میں تو مگن ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی عبادت، اس کی یاد اور اس کے ذکر سے غافل ہیں ۔انہیں ڈر جانا چاہئے کہ دنیا کی محبت اور اللہ تعالٰی کی اطاعت اور عبادت سے غفلت کہیں ان کی بھی آخرت تباہ نہ کر دے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵) لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَۙ(۶) ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ(۷)ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠‘‘( التکاثر:۱۔۸)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا تم جلد جان جاؤ گے۔ یقینا اگر تم یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو مال سے محبت نہ رکھتے)۔ بیشک تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر بیشک تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے۔ پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔

            اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آدمی اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے لہٰذا فنا ہونے والی پر باقی رہنے والی کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)

حضرت یحیٰ بن معاذ  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’لوگوں میں سب سے زیادہ غافل شخص وہ ہے جو اپنی فانی زندگی پر مغرور رہا،اپنی من پسند چیزوں کی لذت میں کھویا رہااور اپنی عادتوں کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا، حالانکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ’’اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵) ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلا دیکھو توکہ اگر ہم کچھ سال انہیں فائدہ اٹھانے دیں ۔ پھر ان پر وہ (عذاب) آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تو کیا وہ سامان ان کے کام آئےگا جس سے انہیں  فائدہ اٹھانے (کا موقع) دیا گیا تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۷، ص۸۳۳)

اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور دنیا کی بجائے اپنی آخرت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ(208)ذِكْرٰى ﱡ وَ مَا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(209)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے جو بستی بھی ہلاک کی اس کیلئے ڈر سنانے والے تھے۔ نصیحت کرنے کے لیے اور ہم ظالم نہ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ: اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی۔} ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم پہلے ظالم لوگوں  کے پاس ڈر سنانے والے بھیج کر ان پر حجت قائم کردیتے ہیں ، اس کے بعد بھی جو لوگ راہِ راست پر نہیں  آتے اور حق کو قبول نہیں  کرتے ان پر عذاب نازل کردیتے ہیں  تاکہ ان کی ہلاکت دوسروں  کے لئے عبرت اور نصیحت کا سامان ہو اور وہ ان جیسی نافرمانی کرنے سے بچ جائیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۰۸۲۰۹، ص۸۳۲)

وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ(210)وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَﭤ(211)اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَﭤ(212)

ترجمہ: کنزالعرفان

او راس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے۔ اورنہ ہی وہ اس قابل تھے اور نہ وہ (اس کی) طاقت رکھتے ہیں ۔ وہ تو سننے کی جگہ سے دور کردئیے گئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهٖ: او راس قرآن کو لے کر نہ اترے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ان کفار کا رد کیا گیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ جس طرح شَیاطین کاہنوں  کے پاس آسمانی خبریں  لاتے ہیں  اسی طرح وہ (مَعَاذَاللہ)رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن لاتے ہیں ۔ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے اورنہ ہی وہ اس قابل تھے کہ قرآن لے کر آئیں  اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں  کیونکہ یہ اُن کی طاقت سے باہر ہے۔وہ تو فرشتوں  کاکلام سننے کی جگہ آسمان سے شعلے مار کردور کردئیے گئے ہیں  یعنی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف جو وحی ہوتی ہے، اسے اللہ تعالٰی نے محفوظ کردیا ہے۔ جب تک کہ فرشتہ اس کو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  پہنچا نہ دے اس سے پہلے شیاطین اس کو نہیں  سن سکتے۔(ابوسعود، الشعراء، تحت الآیۃ:۲۱۰۲۱۲،۴ / ۱۸۱،جلالین مع جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۰۲۱۲، ۵ / ۴۱۲، ملتقطًا)

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ(213)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اللہ کے سواکسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کر نا ورنہ تو عذاب والوں میں سے ہوجائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ: تو اللہ کے سواکسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کرنا۔} اس آیت میں بظاہر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کی امت ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے (اے لوگو!) جب کافروں کا حال تم نے جان لیا تو تم اللہ  تعالٰی کے سواکسی دوسرے معبود کی عبادت نہ کرنا، اگر تم نے ایساکیا تو تم عذاب پانے والوں میں سے ہوجاؤگے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ۳ / ۳۹۷، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ص۳۱۶، ملتقطاً)

وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ(214)وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(215)فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ(216)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اے محبوب!اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ اور اپنے پیروکار مسلمانوں کے لیے اپنی رحمت کابازو بچھاؤ۔ پھر اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْذِرْ: اور اے محبوب! ڈراؤ۔} ا س سے پہلی آیات میں  نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلیاں  دی گئیں ، پھر آپ کی نبوت پر دلائل قائم کئے گئے، پھر منکرین کے سوالات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے گئے،اب یہاں  سے چند وہ اُمور بیان کئے جا رہے ہیں  جن کا تعلق اسلام کی تبلیغ اور رسالت کے ساتھ ہے۔(تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ۸ / ۵۳۶)

قریبی رشتہ داروں  کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرانے کا حکم:

ابتداء میں  دین ِاسلام کی دعوت پوشیدہ طور پر جاری تھی، پھراس آیت میں اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قریبی رشتہ داروں  کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریبی رشتہ دار بنی ہاشم اور بنی مُطَّلِب ہیں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں  اعلانیہ اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرایا اور خدا کا خوف دلایا۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۴، ص۳۱۶)

حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’جب یہ آیت ِکریمہ نازل ہو ئی تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوہِ صفا پر چڑھے اور آپ نے آواز دی ’’اے بنی فہر،اے بنی عدی، قریش کی شاخو!یہاں  تک کہ تمام لوگ جمع ہو گئے اور جو خود نہ جا سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تاکہ آکر بتائے کہ بات کیا ہے۔ابو لہب بھی آیا اور سارے قریش آئے۔ (جب سب جمع ہو گئے تو) آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اگر میں  آپ لوگوں  سے کہوں  کہ وادی کے اس طرف ایک لشکر ِجَرّار ہے جو آپ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا آپ مجھے سچا جانو گے؟سب نے کہا :ہاں ! کیونکہ ہم نے آپ سے ہمیشہ سچ بولنا ہی سنا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  آپ لوگوں  کو قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں  جو سب کے سامنے ہے۔یہ سن کر ابو لہب بکواس کرتے ہوئے کہنے لگا’’ کیا ہمیں  اسی لئے جمع کیا ہے۔اس وقت یہ سورت نازل ہوئی:

’’ تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ(۱) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ‘‘

ترجمۂ :کنزُالعِرفان ابو لہب کے دونوں  ہاتھ تباہ ہوجائیں  اور وہ تباہ ہوہی گیا۔ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء، باب وانذر عشیرتک الاقربین۔۔۔الخ، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰)

{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ: اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ۔} اس آیت ا ور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کو ڈر سنائیں  ا س کے بعدجو لوگ صدق و اِخلاص کے ساتھ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  خواہ وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رشتہ داری رکھتے ہوں  یا نہ رکھتے ہوں ، ان پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لطف و کرم فرمائیں  اور جو لوگ آپ کا حکم نہ مانیں  تو آپ ان سے اور ان کے اعمال سے بیزاری کا اظہار کر دیں۔(خازن،الشعراء،تحت الآیۃ:۲۱۵-۲۱۶،۳ / ۳۹۷-۳۹۸، مدارک،الشعراء،تحت الآیۃ: ۲۱۵-۲۱۶، ص۸۳۴، ملتقطاً)

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ(217)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس پر بھروسہ کرو جو عزت والا،رحم فرمانے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ تَوَكَّلْ: اور بھروسہ کرو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے تمام کام اللہ تعالٰی کے سپرد فرما دیں  جو کہ اپنے دشمنوں  کو مغلوب کرنے اور اپنے محبوب بندوں  کی مدد کرنے پر قادر ہے،ان مشرکین میں  سے یا ان کے علاوہ دیگر لوگوں  میں  سے جوکوئی بھی آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو آپ کی طرف سے اللہ تعالٰی اسے کافی ہوگا۔(ابوسعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۷، ۴ / ۱۸۱، ملخصاً)

 توکل کامعنی :

توکل کامعنی یہ ہے کہ آدمی اپنا کام اس کے سپرد کر دے جو اس کے کام کا مالک اور اسے نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہے اور وہ صرف اللہ تعالٰی ہے جو کہ تمہارے دشمنوں  پر اپنی قوت سے غالب ہے اور اپنی رحمت سے ان کے خلاف تمہاری مدد فرماتا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۷، ۳ / ۳۹۸)

الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُ(218)وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(219)اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(220)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو۔ اور نمازیوں میں تمہارے دورہ فرمانے کو (دیکھتا ہے۔) بیشک وہی سننے والاجاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْ یَرٰىكَ: جو تمہیں  دیکھتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س پر بھروسہ کریں  جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ آدھی رات کے وقت تہجد کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  قیام سے دعا کے لئے کھڑا ہونا مراد ہے اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہر اس مقام پر آپ کو دیکھتا ہے جہاں  آپ ہوں ۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۶ / ۳۱۲، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۳ / ۳۹۸، ملتقطاً)

{وَ تَقَلُّبَكَ: اور تمہارے دورہ فرمانے کو۔} یعنی اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ اپنے تہجد پڑھنے والے اصحاب کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لئے رات کے وقت گھومتے ہیں ۔ مفسرین نے ا س آیت کے اور معنی بھی بیان کئے ہیں ۔

(1)… اس کا معنی یہ ہے: ’’اللہ تعالٰی آپ کو ا س وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ امام بن کر نماز پڑھاتے ہیں  اور قیام، رکوع، سجود اورقعدہ کی حالت میں  ہوتے ہیں ۔

(2)…اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نمازوں میں  آپ کی آنکھ کی گردش کو دیکھتا ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آگے اور پیچھے سے یکساں  ملاحظہ فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں  ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:خدا کی قسم! مجھ پر تمہارا خشوع اوررکوع مخفی نہیں ، میں  تمہیں  اپنے پس ِپُشت دیکھتا ہوں۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب عظۃ الامام الناس فی اتمام الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۱۸)

(3)… بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  ساجدین سے مومنین مراد ہیں  اور معنی یہ ہیں  کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کے زمانے سے لے کر حضرت عبداللہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت آمنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا تک مومنین کی پشتوں  اور رحموں  میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورے کو ملاحظہ فرماتاہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام آباء واَجداد سب کے سب مومن ہیں۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۸۳۴، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ۳ / ۳۹۸، جمل، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۱۹،۵ / ۴۱۳، ملتقطاً)

{اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ: بیشک وہی سننے والا ہے۔} یعنی بے شک اللہ تعالٰی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گفتگو سننے  والا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمل اور نیت کو جاننے والاہے۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ص۸۳۴)

هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُﭤ(221)تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍ(222)یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَﭤ(223)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا میں تمہیں بتادوں کہ شیطان کس پراترتے ہیں ؟ شیطان بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار پراترتے ہیں ۔شیطان اپنی سنی ہوئی باتیں (ان پر) ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هَلْ اُنَبِّئُكُمْ: کیا میں  تمہیں  بتادوں ۔} بعض مشرکین یہ کہتے تھے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر (مَعَاذَاللہ) شیطان اُترتے ہیں ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللہ تعالٰی نے اُن مشرکوں  کے جواب میں  ارشاد فرمایا کہ اے مشرکین!کیا میں  تمہیں  بتادوں  کہ شیطان کس پراترتے ہیں ؟ یہ فرمانے کے بعد بتایا کہ شیطان بڑے بہتان باندھنے والے، گناہگار جیسے مُسَیْلِمَہ وغیرہ کاہنوں  پراترتے ہیں  اور شیطان فرشتوں  سے سنی ہوئی باتیں  ان کاہنوں  کے سامنے ذکر کرتے ہیں  اور ان میں  اکثر جھوٹے ہیں  کیونکہ وہ فرشتوں  سے سنی ہوئی باتوں  میں  اپنی طرف سے بہت سی جھوٹی باتیں  ملادیتے ہیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ص۸۳۴-۸۳۵، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ص۳۱۶،ابو سعود، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۱-۲۲۳، ۴ / ۱۸۲، ملتقطاً)

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ(224)اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ(225)وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ(226)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور شاعروں کی پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں ۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الشُّعَرَآءُ: اور شاعر۔} شانِ نزول: یہ آیت کفار کے ان شاعروں  کے بارے میں  نازل ہوئی جورسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف شعر بناتے اور یہ کہتے تھے کہ جیسا محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہتے ہیں  ایسا ہم بھی کہہ لیتے ہیں  اور اُن کی قوم کے گمراہ لوگ اُن سے ان اَشعار کو نقل کرتے تھے۔ اس آیت میں  ان لوگوں  کی مذمت فرمائی گئی ہے کہ شاعروں  کی اُن کے اشعار میں  پیرو ی توگمراہ لوگ کرتے ہیں  کہ اُن اشعار کو پڑھتے ہیں ، رواج دیتے ہیں  حالانکہ وہ اشعار جھوٹے اورباطل ہوتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۴، ۳ / ۳۹۸-۳۹۹، ملخصاً)

غلط شاعری کرنے والوں  اور سننے، پڑھنے والوں  کو نصیحت:

اس سے معلوم ہو اکہ شاعروں  کا جھوٹے اور باطل اَشعار لکھنا،انہیں  پڑھنا،دوسروں  کو سنانا اور انہیں  معاشرے میں  رائج کرنا گمراہ لوگوں  کا کام ہے، اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ایسے اشعار لکھتے ہیں  جن میں اللہ تعالٰی اورنبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین،دین ِاسلام اور قرآن کا مذاق اڑانے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے مقرب بندوں  کی شان میں  گستاخی کے کلمات ہوتے ہیں ، یونہی بے حیائی، عُریانی اور فحاشی کی ترغیب پر مشتمل نیز عورت اور مرد کے نفسانی جذبات کو بھڑکانے والے الفاظ کے ساتھ شاعری کرتے ہیں  اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی نصیحت حاصل کریں  جو ان کی بیہودہ شاعری سنتے، پڑھتے اوردوسروں  کو سناتے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم میں  سے کسی شخص کا پیٹ  پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں  سے بھرا ہوا ہو۔( بخاری، کتاب الادب، باب ما یکرہ ان یکون الغالب علی الانسان الشعر۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۴)

حضرت بریدہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اسلام میں  فحش اور بے حیائی پر مشتمل اشعار کہے تو ا س کی زبان ناکارہ ہے۔(شعب الایمان ، الرابع و الثلاثون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی حفظ اللسان عن الشعر الکاذب ، ۴ / ۲۷۶ ، الحدیث: ۵۰۸۸)اور ایک روایت میں  ہے کہ اس کا خون رائیگاں  گیا۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۲۳۰، الحدیث: ۷۹۷۲، الجزء الثالث)

            اللہ تعالٰی ایسے لوگوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

{ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ: شاعر ہر وادی میں  بھٹکتے پھرتے ہیں ۔} یعنی عرب کے شاعر کلام اور فن کی ہر قسم میں  شعر کہتے ہیں ،کبھی وہ اشعار کی صورت میں  کسی کی تعریف کرتے ہیں  اور کبھی کسی کی مذمت و برائی بیان کرتے ہیں ۔ان کے اشعار میں  اکثر بے حیائی کی باتیں ، گالی گلوچ،لعن طعن،بہتان اور الزام تراشی، فخر و تکبر کا اظہار،حسد،خود پسندی، فضیلت کا اظہار، تذلیل،توہین،برے اخلاق اور ایک دوسرے کے نسبوں  میں  طعن کرنا وغیرہ مذموم چیزیں  ہوتی ہیں ۔(روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۵، ۶ / ۳۱۶، ملخصاً)

{وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ ایسی بات کہتے ہیں ۔} یہاں  شاعروں  کے قول اور عمل میں  تضاد بیا ن کیا گیا کہ وہ اپنے اشعار میں  سخاوت کی تعریف بیان کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہیں  لیکن خود سخاوت کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  اور بخل کی مذمت بیان کرتے ہیں  جبکہ خود انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔اگر کسی کے آباء و اَجداد میں  سے کسی نے کوئی چھوٹی سی غلطی کی ہو تو اس کی وجہ سے لوگوں  کی برائی بیان کرتے ہیں  اور پھر خود بے حیائی کے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔(خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۳ / ۳۹۹، تفسیرکبیر، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۶، ۸ / ۵۳۸، ملتقطاً)

اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ(227)

ترجمہ: کنزالعرفان

مگر وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اورمظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا اورعنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: مگر وہ جو ایمان لائے۔} اس آیت میں  مسلمان شاعروں  کا اِستثناء فرمایا گیا کیونکہ ان کے کلام میں  کافر شاعروں  کی طرح مذموم باتیں  نہیں  ہوتیں  بلکہ وہ اشعار کی صورت میں  اللہ تعالٰی کی حمد لکھتے ہیں ،حضور پُر نور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت لکھتے ہیں ، دین ِاسلام کی تعریف لکھتے ہیں ،وعظ و نصیحت لکھتے ہیں  اور اس پر اجرو ثواب پاتے ہیں ۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۳۹۹، ملخصاً)

دربارِ رسالت کے شاعر حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان :

            حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنَبوی شریف میں  حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے منبر رکھواتے تھے۔حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس پر کھڑے ہو کر (اشعار کی صورت میں ) رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و توصیف بیان کرتے اورکفار کی بدگوئیوں  کا جواب دیتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (ان کے حق میں )فرماتے تھے کہ جب تک حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کفار کی بدگوئیوں  کا جواب دے رہے ہوتے ہیں  اللہ تعالٰی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے ان کی مدد فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۲۸۵۵)

            ایک اور روایت میں  ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے: ’’تم اللہ تعالٰی کے رسول کی طرف سے (کفار کی بد گوئیوں کا) جواب دو۔ (پھر دعا فرماتے) اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے مدد فرما۔( بخاری، کتاب الادب، باب ہجاء المشرکین، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۲)

 اشعار فی نفسہٖ بُرے نہیں :

            یاد رہے کہ اشعار فی نفسہ برے نہیں  کیونکہ وہ ایک کلام ہے، اگر اشعار اچھے ہیں  تووہ اچھا کلا م ہے اور برے اشعار ہیں  تو وہ برا کلام ہے، جیساکہ حضرت عروہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شعر ایک کلام ہے،اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح ہیں  اور برے اشعار برے کلام کی طرح ہیں۔( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الحج،باب لایضیق علی واحد منہما ان یتکلّم بما لا یأثم فیہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۱۰، الحدیث: ۹۱۸۱)

            اورحضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں ’’ بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں  اور بعض برے ہوتے ہیں ، اچھے اشعار کو لے لو اور برے اشعار کو چھوڑ دو۔( ادب المفرد، باب الشعر حسن کحسن الکلام ومنہ قبیح، ص۲۳۵، الحدیث: ۸۹۰)

            حضرت اُبی بن کعب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بعض شعر حکمت ہوتے ہیں ۔‘‘( بخاری، کتاب الادب، باب ما یجوز من الشعر والرجز۔۔۔ الخ،۲ / ۱۳۹، الحدیث: ۶۱۴۵)

             رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس مبارک میں  بھی شعر پڑھے جاتے تھے جیساکہ ترمذی شریف میں  حضرت جابر بن سمرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۸۵۹)

            اورامام شعبی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا شعر کہتے تھے اورحضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان دونوں  سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)

{وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا: اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا۔} یعنی صالحین کیلئے شاعری اللہ تعالٰی کو کثرت سے یاد کرنے اور تلاوتِ قرآن کرنے سے غفلت کا سبب نہ بن سکی بلکہ ان لوگوں  نے جب شعر کہے بھی تو ان میں  اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء اور اس کی توحید بیان کی۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت، صحابۂ کرام اور امت کے نیک لوگوں  کی تعریف بیان کی اور اپنے اشعار میں  حکمت، وعظ و نصیحت اور زہد و اَدب پر مشتمل باتیں  ذکر کیں ۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۸۳۵-۸۳۶)

             ایسی شاعری کی اردو میں  بہترین مثال اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا لکھا ہواکلام بنام ’’حدائقِ بخشش‘‘ ہے، جس میں  آپ  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اچھی شاعری کے تمام پہلو انتہائی احسن انداز میں  بیان کئے ہیں۔ اس کلام کا مطالعہ کرنا بھی دل میں  اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عشق، صحابہ ٔ کرام رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عظمت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔

{وَ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا: اورمظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا۔} یعنی اگر ان کے اشعار میں  کسی کی برائی بیان بھی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کفارنے مسلمانوں  کی اور اُن کے پیشواؤں  کی جھوٹی برائی بیان کر کے ان پر ظلم کیا تو ان حضرات نے شعروں  کے ذریعے ا س ظلم کا بدلہ لیا اور کافروں  کو اشعار کی صورت میں  ان کی بدگوئیوں  کے جواب دیئے، لہٰذا وہ مذموم نہیں  ہیں ۔( روح البیان ، الشعراء ، تحت الآیۃ : ۲۲۷ ، ۶ / ۳۱۶، خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰، جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۳۱۷) بلکہ وہ اس پر اجرو ثواب کے مستحق ہیں  کیونکہ یہ ان حضرات کا زبان سے جہاد ہے۔

زبانی جہاد سے متعلق دو اَحادیث:

            آیت کی مناسبت سے یہاں  زبانی جہاد سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے مالوں ،اپنے ہاتھوں  اور اپنی زبانوں  کے ساتھ مشرکوں  سے جہاد کرو۔( سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)

(2)…حضرت کعب بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی،اور اس ذات کی قسم!جس کے قبضہِ قدرت میں  میری جان ہے،تم اسی شعر سے ان کفار کو تیروں  کے مارنے کی طرح مارتے ہو۔( مسند امام احمد، من مسند القبائل، حدیث کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۳۳۵، الحدیث: ۲۷۲۴۴)

{وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اورعنقریب ظالم جان لیں  گے۔} یعنی جن مشرکین نے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جھوٹی برائیاں  بیان کی ہیں  حالانکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ وہ پاک ہیں  اور پاک کرنے والے ہیں  تو یہ مشرکین عنقریب مرنے کے بعد جان لیں  گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں  گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’وہ جہنم کی طرف پلٹا کھائیں  گے اورجہنم بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)



Scroll to Top