سُوْرَۃ لُقْمَان

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

الٓمّٓ(1)تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ(2)هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

الم۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔ نیکوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،ا س کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ: یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں  ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سورت کی آیتیں  اس کتاب کی آیتیں  ہیں  جو حکمت والی ہے اور نیک اعمال کرنے والوں  کے لئے ہدایت اور رحمت ہیں ۔( جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۴۵، روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۶۲۶۳، ملتقطاً)

قرآنِ کریم کی شان:

         معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید ایسی عظیم الشّان کتاب ہے کہ اس میں  فلاح و کامیابی حاصل کرنے کے تمام ترسامان موجود ہیں  اور نیک لوگ اس کا دامن مضبوطی سے تھام کر گمراہی اور عذاب سے بچ سکتے ہیں  ، نیزیہ کتاب حکمت کے انمول خزانوں  سے مالامال ہے۔لہٰذامومن کو اسی حکمت و دانش میں  مشغول ہونا چاہیے اوراسے چھوڑکرفضول قسم کے قصے کہانیوں  میں  لگے رہنامومن کی شان نہیں  ۔

الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَﭤ(4)اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ: وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ نیک لوگ وہ ہیں  جو نماز کو اس کی تمام شرائط اور حقوق کے ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں  اور اپنے مالوں  میں  فرض ہونے والی زکوٰۃ اس کے حقداروں  کو دیتے ہیں  اور وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے،اعمال کا حساب ہونے اور اعمال کی جزاو سزا میں  شک یا انکار نہیں  کرتے بلکہ اس پر یقین رکھتے ہیں ۔جن کے یہ اوصاف ہیں  وہی لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں  اور وہی لوگ قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے ثواب حاصل کر کے حقیقی طور پر کامیاب ہونے والے ہیں  ۔(روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۴۵، ۷ / ۶۳۶۴، تفسیر طبری، لقمان، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۰ / ۲۰۱، ملتقطاً)

سورۂ لقمان کی آیت نمبر4اور5سے معلوم ہونے والی باتیں :

            ان آیات سے دو باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… ہر عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ نیک لوگوں  کے اوصاف اپنا کر حقیقی کامیابی حاصل کرنے والے حضرات میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کرے ۔

(2)…جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت نہ دے تب تک وہ ہدایت نہیں  پاسکتا،لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور نیک اعمال کی توفیق مانگتا رہے 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﳓ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(6)ترجمہ: کنزالعرفاناور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کی راہ سے بہکادیں اورانہیں ہنسی مذاق بنالیں ۔ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ: اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں  خریدتے ہیں ۔} شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث بن کلدہ کے بارے میں  نازل ہوئی جو کہ تجارت کے سلسلے میں  دوسرے ملکوں  کا سفر کیا کرتاتھا۔ اس نے عَجمی لوگوں  کی قصے کہانیوں  پر مشتمل کتابیں  خریدی ہوئی تھیں  اوروہ کہانیاں  قریش کو سناکر کہا کرتا تھا کہ محمد ( مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)تمہیں  عاد اورثمود کے واقعات سناتے ہیں  اور میں  تمہیں  رستم،اسفند یار اورایران کے شہنشاؤں  کی کہانیاں  سناتا ہوں ۔ کچھ لوگ اُن کہانیوں  میں  مشغول ہوگئے اور قرآنِ پاک سننے سے رہ گئے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا: ’’کچھ لوگ کھیل کی باتیں  خریدتے ہیں  تاکہ جہالت کی بنا پر لوگوں  کو اسلام میں  داخل ہونے اور قرآنِ کریم سننے سے روکیں  اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑائیں ،ایسے لوگوں  کے لیے ذِلّت کا عذاب ہے۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۶۸، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۱۵-۹۱۶، ملتقطاً)

’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ کی وضاحت:

لَہْو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں  جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں  سے غفلت میں  ڈالے۔ اس میں بے مقصدو بے اصل اور جھوٹے قصے،کہانیاں  اورافسانے ،جادو،ناجائز لطیفے اور گانا بجانا وغیرہ سب داخل ہے۔اِس قسم کے آلات ِ لَہْو و لَعِب کوبیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز ، کیونکہ یہ آیت ان خریداروں کی برائی بیان کرنے کے بارے میں  ہی اتری ہے۔ اسی طرح ناجائز ناول، گندے رسالے ، سینما کے ٹکٹ، تماشے وغیرہ کے اسباب سب کی خرید و فروخت منع ہے کہ یہ تمام’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘یا ان کے ذرائع ہیں ۔

آیت ’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے :

(1)…قرآن مجید سننے سے اِعراض کرنا اور دین ِاسلام سے روکنے کی خاطر بے فائدہ واقعات،جھوٹی اور بے اصل کہانیاں  اور لطیفے وغیرہ سنا کر قرآنِ مجید سننے سے ہٹادینا عظیم ترین جرم ہے اور اس جرم کا مُرتکِب دردناک عذاب کا حق دار ہے۔

(2)… لوگوں  کو گمراہ کرنے والے کا عذاب گمراہ ہونے والوں  کے مقابلے میں  بہت زیادہ ہے کیونکہ تمام گمراہوں  کا وَبال بھی اسی پر پڑے گا۔

(3)…اس آیت سے علماء ِکرام نے گانے بجانے کی حرمت پر اِستدلال کیا ہے ۔

گانے بجانے کی مذمت:

اس آیت میں’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘سے متعلق ممتاز مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے ،اس مناسبت سے یہاں  گانے بجانے کی مذمت پر2 اَحادیث اورحضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا طرزِ عمل ملاحظہ ہو،

(1)…حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس اُمّت میں  زمین میں  دھنسنا،مَسخ ہونا اور آسمان سے پتھر برسنا ہو گامسلمانوں  میں  سے ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کب ہو گا؟ارشاد فرمایا’’جب گانے والیوں  اور موسیقی کے آلات کا ظہور ہو گا اور شرابوں  کو (سرِ عام) پیا جائے گا۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف، ۴ / ۹۰، الحدیث: ۲۲۱۹)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جوشخص گانا سننے کے لئے کسی باندی کے پاس بیٹھا،اس کے کانوں  میں  پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلا جائے گا۔( ابن عساکر، حرف المیم، ۶۰۶۴-محمد بن ابراہیم ابوبکر الصوری، ۵۱ / ۲۶۳)

حضرت عمربن عبد العزیز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بچوں  کے استاد کی طرف خط لکھا اور فرمایا:یہ خط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے عمرامیرالمومنین کی جانب سے سہل کی طرف ہے۔ اَمَّابَعْد! میں  نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اپنی معلومات کی بنا پر تمہیں  مُنتخب کیاہے، میں  نے اپنے بچوں  کوتمہارے سپردکردیاہے کسی اورغلام یا کسی خاص مُعتمد کے سپردنہیں  کیا۔لہٰذا تم ان کے ساتھ (مناسب و بقدرِ ضرورت) سختی کے ساتھ پیش آؤکیونکہ یہ ان کے آگے بڑھنے کوزیادہ ممکن بنائے گی ،عام لوگوں  کی صحبت اختیارنہ کرنے دوکیونکہ یہ غفلت پیداکرتی ہے،زیادہ ہنسنے سے روکوکیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مار ڈالتا ہے۔ تمہاری تعلیم سے سب سے پہلے جس چیزکامیرے بچے اِعتقادرکھیں  وہ لَہْو و لَعِب  سے نفرت ہونی چاہیے جس کاآغاز شیطان کی جانب سے ہوتاہے اورا س کاانجام رحمٰن کی ناراضگی ہے۔ اصحاب ِعلم میں  سے ثِقَہ لوگوں  سے مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ لَہْو و لَعِب کے آلات کاسننااوران کاشیْفتہ ہونایہ دل میں  اسی طرح نفاق پیداکرتاہے جس طرح پانی گھاس اگاتا ہے۔ میری زندگی کی قسم ،ان مقامات پرحاضرہونے کوترک کرکے اپنے آپ کو بچانا دانشمندوں  کے لیے زیادہ آسان ہے بنسبت اس کے کہ وہ اپنے دل میں  نفاق کوقائم رکھیں  ۔جب وہ ان گانوں  سے جداہوتاہے تواسے یقین نہیں  ہوتا کہ اس کے کانوں  نے جوسناہے وہ اس سے فائد ہ بھی حاصل کرسکتاہے۔ ان بچوں  میں  سے ہرایک کوقرآنِ حکیم کے ایک حصہ سے سبق شروع کراؤ۔وہ اس کی قراء ت میں  خوب مضبوط ہو۔( درمنثور، لقمان، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۵۰۶)

گانے کی مختلف صورتیں  اور ان کے احکام:

فتاویٰ رضویہ کی 24ویں  جلد میں  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے گاناسننے اور سنانے سے متعلق انتہائی تحقیقی کلام فرمایا ہے، یہاں اس کا خلاصہ درج ذیل ہے

مَزامیر یعنی لَہْو و لَعِب کے آلات لہو ولعب کے طور پر سننا اور سنانا بلاشبہ حرام ہیں ، ان کی حرمت اولیاء اورعلماء دونوں  کے کلماتِ عالیہ میں  واضح ہے ۔ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں  شک نہیں  کہ اصرارکے بعد گناہِ کبیرہ ہے۔

مزامیر کے بغیر محض سننے کی چند صورتیں  یہ ہیں :

(1)… گانے بجانے کا پیشہ کرنے والی عورتوں ، یا بدکارعورتوں  اور محل ِفتنہ اَ مْرَدُوں  کا گانا۔

(2)… جو چیز گائی جائے وہ مَعْصِیَت پرمشتمل ہو ،مثلاًفحش یاجھوٹ یا کسی مسلمان یا ذمی کافر کی مذمت یا شراب اورزنا وغیرہ فاسقانہ کاموں  کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ اَمْرَدکے حسن کی یقینی طور پر تعریف یا کسی مُعَیَّن عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے قریبی رشتہ داروں  کو حیا اورعار آئے ۔

(3)… لَہْو و لَعِب کے طور پر سنا جائے اگرچہ اس میں  کسی مذموم چیز کا ذکر نہ ہو ۔

یہ تینوں  صورتیں  ممنوع ہیں  اورایسا ہی گانا’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ہے اس کے حرام ہونے کی کوئی اور دلیل نہ بھی ہو تو صرف یہ حدیث ’’کُلُّ لَعِبِ ابْنِ اٰدَمَ حَرَامٌ اِلَّا ثَلٰـثَۃٌ ‘‘ یعنی ابن ِآدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں  کے۔‘‘ کافی ہے ۔ان تین صورتوں کے علاوہ وہ گانا جس میں  نہ مَزامیر ہوں  ،نہ گانے والے محلِ فتنہ ہوں ،نہ لہو ولعب مقصود ہو اورنہ کوئی ناجائز کلام ہو اس سے بھی ان لوگوں  کو روکا جائے گا جو فاسق و فاجر اور دنیا کی شہوات میں  مست ہوں البتہ نَفسانی خواہشات و برے خیالات سے پاک دلوں  والے وہ لوگ جو اللہ والے ہیں  ان کے حق میں یہ بغیر آلاتِ موسیقی والے سادہ اَشعار کا سننا جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں  کیونکہ گانا کوئی نئی چیز پیدانہیں  کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے، جب دل میں  بری خواہش اوربیہودہ آلائشیں  ہوں  تو وہ انہیں  کو ترقی دے گا اور جوپاک، مبارک ، ستھر ے دل، شہوات سے خالی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں  ان کے اس شوقِ محمود اور عشقِ مسعود کو افزائش دے گا ۔ان بندگانِ خداکے حق میں  اسے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بے جانہیں ۔ یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں  گانا کہتے ہیں  اور اگر حمد و نعت ،منقبت ،وعظ و نصیحت اور آخرت کے ذکر پر مشتمل اَشعار بوڑھے یا جوان مرد خوش اِلحانی سے پڑھیں  اور نیک نیت سے سنے جائیں  کہ اسے عرف میں  گانا نہیں  بلکہ پڑھنا کہتے ہیں  تو اس کے منع ہونے پر شریعت سے اصلاً دلیل نہیں  ہے۔ حضور پُر نور، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حضرت حسان بن ثابت انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے خاص مسجد ِاقدس میں  منبر رکھنا اوران کا اس پر کھڑے ہو کر نعت ِاَقدس سنانا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اورصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کاسننا خودصحیح بخاری شریف کی حدیث سے واضح ہے اور عرب میں  حُدی کی رسم کا صحابہ وتابعین کے زمانے بلکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے عہد میں  رائج رہنا مردوں  کے خوش اِلحانی کے جواز پر روشن دلیل ہے، حضرت انجشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حُدی کرنے پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع نہ فرمایا بلکہ عورتوں  کا لحاظ کرتے ہوئے یَا اَنْجَشَۃُ رُوَیْدَ لَا تَکْسِرِ الْقَوَارِیْرَ ارشاد ہواکہ ان کی آواز دلکش ودل نواز تھی، عورتیں  نرم ونازک شیشیاں  ہیں  جنہیں  تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے۔ غرض مدارِکار فتنہ کے تحقُّق اور توقُّع پر ہے، جہاں  فتنہ ثابت وہاں  حرمت کا حکم ہے اورجہاں  فتنے کی توقُّع اوراندیشہ ہے وہاں سدِّ ذریعہ کے پیش ِنظر ممانعت کا حکم ہے، جہاں  نہ فتنہ ثابت نہ فتنے کی توقع تو وہاں  نہ حرمت کا حکم ہے نہ ممانعت بلکہ اچھی نیت ہو تو مستحب ہو سکتا ہے۔ بِحَمْدِ اللہ تَعَالٰی یہ چند سطروں  میں  تحقیق ِنفیس ہے کہ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز حق اس سے مُتجاوِز نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، لہو ولعب، ۲۴ / ۷۸-۸۵، ملخصاً)

دین ِاسلام سے روکنے اور دور کرنے والوں  کے لئے سامانِ عبرت:

ہمارے معاشرے میں  غیر مسلموں  اور نام نہاد مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جو لوگوں  کو دین ِاسلام سے دور رکھنے ،مسلمانوں  کو دینِ اسلام سے دور کرنے اوراس کا مخالف بنانے کے لئے مُنَظَّم انداز میں  کوششیں  کرتے ہیں  اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان کے پاس ایک بڑ اذریعہ عورت ہے۔ ایسے لوگ اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں  ،جبکہ یہ خود وہ ہیں  جو عورت کی جسم فروشی پر اطمینان محسوس کرتے ہیں  اور ماڈل کا نام دے کر اس کی اداؤ ں  کی قیمت لگانے کو روشن خیالی قرار دیتے ہیں  یعنی عورت کی حفاظت کی جائے اور اسے گھر بیٹھے ہر چیز عزت کے ساتھ مُہَیّا کرنے کا کہا جائے جیسے اسلام کا حکم ہے تو روشن خیال کہلانے والوں  کی طبیعت خراب ہوتی ہے اور بکری، گائے کی طرح اس کے جسم یا اس کے علاوہ اس کے ناچ یا اداؤں  کو فروخت کیلئے پیش کیا جائے تو اِن لوگوں  کی نظر میں  یہ عورت کو اس کا صحیح مقام دینا قرار پاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دین ِاسلام جیسا امن و سلامتی کا داعی مذہب دنیا میں  نہیں  ہے، عورتوں  اور بچوں  کو جتنے حقوق ا س دین میں  دئیے گئے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے جو اِقدامات اس دین میں  کئے گئے کسی اور دین میں  اس کی مثال نہیں  ملتی ،اس میں  مقرر کی گئی جرموں  کی سزائیں  انسانوں  کی بقا ،سلامتی اور معاشرے میں  امن و امان کی عَلمبردار ہیں ۔ایسے تمام لوگوں  کے لئے اس آیت میں  بڑی عبرت ہے کہ اگر یہ اپنی ان ذلیل حرکات سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘ کے مطابق ذلت کے عذاب کے حق دار ہیں ۔

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا كَاَنَّ فِیْۤ اُذُنَیْهِ وَقْرًاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا پھرجاتا ہے جیسے اس نے ان (آیات) کو سنا ہی نہیں ، گویا اس کے کانوں میں بوجھ ہے تو اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا: اور جب اس پر ہماری آیتیں  پڑھی جاتی ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ جب کھیل کی باتیں خریدنے والے کے سامنے قرآنِ مجید کی آیتیں  پڑھی جاتی ہیں  تواس وقت وہ تکبُّر کرتے ہوئے ایسی حالت بنا لیتا ہے جیسے اس نے ان آیات کو سنا ہی نہیں ، گویا اس کے کانوں  میں  کوئی بوجھ ہے جس کی وجہ سے وہ سن نہیں  سکتا، تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں ۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۷،۷ / ۶۶)

قرآنِ مجید کی تلاوت سننے سے متعلق دو اَحکام:

یہاں  قرآنِ کریم کی تلاوت سننے سے متعلق دو اَحکام ملاحظہ ہوں :

(1)…قرآنِ کریم ذوق اور شوق سے سننا چاہیے۔ اس کی تلاوت کے وقت دُنْیَوی کاروبار میں مشغول رہنا اور تلاوت کی پرواہ نہ کرنا کفار کا طریقہ ہے ۔

(2)…قرآنِ عظیم کی تلاوت ہورہی ہو تو سننا فرض ہے،لہٰذا جہاں  لوگ قرآن شریف سننے سے مجبور ہوں، کاروبار میں  مشغول ہوں  وہاں  بلند آواز سے تلاوت نہیں  کرنی چاہیے۔یادرہے کہ تلاوت ِقرآن کے اَحکام اور تعلیمِ قرآن کے اَحکام میں  فرق ہے ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے فقہ کی کتابوں  کا مطالعہ فرمائیں ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِیْمِ(8)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے نعمتوں کے باغات ہیں ۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے، (یہ) الله کا سچاوعدہ ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: بیشک جو ایمان لائے اور انہوں  نے اچھے کام کیے۔} کافروں  کی سزا ذکر کرنے کے بعد یہاں  سے نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں  کی جزا بیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا’’بے شک وہ لوگ جو ہماری آیتوں  پر ایمان لاتے ہیں  اور ان کے تقاضوں  کے مطابق عمل کرتے ہیں  ان کے لئے نعمتوں  اور چین کے ایسے باغات ہیں  جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے،یہ ان سے اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ کوئی اسے وعدہ پورا کرنے سے روک نہیں  سکتا اور ا س کا ہر فعل حکمت اور مَصلحت کے تمام تر تقاضوں  کے عین مطابق ہے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۸۹، ۷ / ۶۶۶۷)

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍؕ-وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس نے آسمانوں کو ان ستونوں کے بغیر بنایاجو تمہیں نظر آئیں اور زمین میں لنگرڈال دئیے تاکہ زمین تمہیں لے کر ہلتی نہ رہے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین میں ہر نفیس قسم کا جوڑا اگایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا: اس نے آسمانوں  کو ان ستونوں  کے بغیر بنایاجو تمہیں  نظر آئیں ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اورقدرت پر دلالت کرنے والی 4 چیزیں  بیان فرمائی ہیں  :

(1)… اللہ تعالیٰ نے آسمانوں  کو ستونوں  کے بغیر بنایا۔انہیں  ستونوں  کے بغیر بنانے کا ایک معنی یہ ہے کہ کوئی ستون ہے ہی نہیں  اور تمہاری نظر خود اس چیز کا مشاہدہ کر رہی ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ آسمانوں  کے ستون تو ہیں  لیکن وہ ایسے نہیں  جنہیں  تم دیکھ سکو اس لئے وہ گویا ایسا ہے جیسے ستونوں  کے بغیر ہی بنا ہوا ہے۔

(2)… زمین میں  پہاڑوں  کے لنگرڈال دئیے ہیں  تاکہ زمین ہلتی نہ رہے ۔ اسی لئے اگر پہاڑ نہ ہوں  تو زمین تباہ ہوجائے، جدید سائنس سے بھی یہی چیز ثابت ہے۔

(3)…زمین میں  ہر قسم کے جانور پھیلائے ۔یاد رہے کہ بعض جانور پانی میں  ہیں ، بعض زمین پر اور بعض ہوا میں  ہیں ، مگر یہ سب زمین پر ہی ہیں  کیونکہ پانی زمین پر ہے اور ہوا بھی زمین سے تعلق رکھتی ہے اورپھیلانے سے مراد یہ ہے کہ کچھ جانور کسی جگہ اور دوسرے بعض کسی اور جگہ پیدا فرمائے۔

(4)… اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آسمان کی طرف سے بارش کاپانی نازل فرمایا اور ا س سے زمین میں  عمدہ اَقسام کی نباتات کے جوڑے پیدا کئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھاس اوردرخت وغیرہ سب میں  نر اور مادہ ہیں ۔ نر درخت سے لگ کر جب ہوا مادہ درخت کو چھوتی ہے تو مادہ درخت حاملہ ہو کر پھل دیتا ہے۔جدید سائنس سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ان عجیب و غریب صنعتوں  میں  غوروفکر کرے گااس پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت آشکار ہو جائے گی

هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖؕ-بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ تو الله کا بنایا ہوا ہے تو (اے مشرکو!) تم مجھے کوئی ایسی چیز دکھاؤ جو الله کے سوا اوروں نے بنائی ہو بلکہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ: یہ تو اللہ کا بنایا ہوا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے تواپنی کامل قدرت اور انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت سے یہ تمام چیزیں  پیدافرمائی ہیں جنہیں  تم بھی دیکھتے ہو،اب تم بتاؤکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں  کی عبادت کرتے اورانہیں  پوجتے ہو، انہوں  نے ایساکونساکمال دکھایاہے جس کی وجہ سے تم نے انہیں  عبادت کا مستحق سمجھ لیا اور ان کی پوجا کرنے میں  مصروف ہوگئے ،ان کافروں  کا حق سے دور ہونا اور گمراہی میں  مبتلا ہونا واضح ہے۔

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ الله کا شکرادا کر اور جو شکر اداکرے تووہ اپنی ذات کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک الله بے پرواہ ہے، حمد کے لائق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعارف:

            مشہور مؤرخ محمد بن اسحاق کہتے ہیں  کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نسب یہ ہے’’ لقمان بن ناعوریا باعور بن ناحور بن تارخ۔ حضرت وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بھانجے تھے جبکہ مفسر مقاتل نے کہا کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خالہ کے فرزند تھے ۔ آپ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ پایا اور اُن سے علم حاصل کیا ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعلانِ نبوت سے پہلے فتویٰ دیا کرتے تھے اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوّت کے مَنصب پر فائز ہوئے تو حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فتویٰ دینا بند کر دیا۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نبی ہونے میں  اختلاف ہے، اکثر علماء اسی طرف ہیں  کہ آپ حکیم تھے نبی نہ تھے۔( بغوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۲۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، ملتقطاً)

            حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نبی نہیں  تھے بلکہ وہ غوروفکرکرنے والے اوردولت ِیقین سے مالامال بندے تھے۔ انہیں  اللہ تعالیٰ سے محبت تھی اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں  حکمت کی نعمت عطافرمائی تھی۔ایک مرتبہ دوپہر میں  سوتے ہوئے انہیں  ندا کی گئی:’’اے لقمان!اگرتم پسند کروتوتمہیں  خلیفہ بنادیاجائے تاکہ تم عدل وانصاف کو قائم کرو۔‘‘انہوں  نے ندا کا جواب دیتے ہوئے عرض کی:اگرتومجھے اختیارکاحق ہے تومیں عافیت کوقبول کروں  گااوراس آزمائش سے بچوں  گا اور اگر منصبِ خلافت سنبھالنے کے متعلق قطعی حکم ہے تومیں  دل وجان سے حاضرہوں  کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ  کے کرم پریہ بھروسہ ہے کہ وہ مجھے غلطی سے بچائے گا۔(تفسیر ثعلبی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۳۱۲، ابن عساکر، حرف الدال، ذکر من اسمہ داود، داود بن ایشا۔۔۔ الخ، ۱۷ / ۸۵۸۶، ملتقطاً)

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے دو فضائل:

            یہاں  حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فضائل پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں  کے سردار چار ہیں : (1)حضرت لقمان حبشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3)حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (4)حضرت مہجع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ۔( ابن عساکر، حرف البائ، ذکر من اسمہ بلال، بلال بن رباح۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۴۶۲)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سوڈانیوں  کی صحبت اختیار کرو کیونکہ ان میں  سے تین حضرات اہلِ جنت کے سرداروں  میں  سے ہیں ، (1)حضرت لقمان حکیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (2)حضرت نجاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، (3) مُؤذن حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ۔( معجم الکبیر، عطاء عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۵۸، الحدیث: ۱۱۴۸۲)

حکمت کی تعریف:

            حکمت کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں  ،ان میں  سے چار درج ذیل ہیں ۔

(1)… حکمت عقل اورفہم کو کہتے ہیں ۔

(2)… حکمت وہ علم ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے ۔

(3)… حکمت معرفت اور کاموں  میں  پختگی کو کہتے ہیں 

(4)… حکمت ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جس کے دل میں  رکھتا ہے یہ اس کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۷۰)

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکمت آمیز کلمات:

            حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حکمت سے بھرپور گفتگو فرمایاکرتے تھے،یہاں  ان کے حکمت بھرے 3 کلام ملاحظہ ہوں ،

(1)…لوگوں  پر وہ چیز دراز ہوگئی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے حالانکہ وہ آخرت کی طرف دوڑے جارہے ہیں ۔ بیشک دنیا پیٹھ پھیر رہی ہے تا کہ وہ چلی جائے اور آخرت سامنے آ رہی ہے اور وہ گھر جس کی طرف تم جارہے ہو، اُس سے زیادہ قریب ہے جس سے تم نکل رہے ہو ۔( الزہد الکبیر للبیہقی، الجزء الثانی من کتاب الزہد، فصل آخر فی قصر الامل والمبادرۃ بالعمل۔۔۔ الخ، ص۲۰۱، روایت نمبر: ۵۰۱)

(2)…علماء کے ساتھ لازمی طور پر بیٹھا کرو اور حکمت والوں  کا کلام سنا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ دل کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح مردہ زمین کو بارش کے قطروں  سے ۔( معجم الکبیر ، صدی بن عجلان ابو امامۃ الباہلی ۔۔۔ الخ ، عبید اللّٰہ بن زحر عن علی بن یزید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۹۹ ، الحدیث: ۷۸۱۰)

(3)…تم اس مرغے سے زیادہ عاجز نہ ہو جاؤ جو صبح سویرے آواز لگاتا ہے جبکہ تم اپنے بستر پر سو رہے ہوتے ہو۔( شرح السنہ، ابواب النوافل، باب احیاء آخر اللیل وفضلہ، ۲ / ۴۸۰)

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکمت بھرے ارشادات:

            یوں  تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر ارشاد حکمت کے انمول موتیوں  سے بھرا ہوا ہے،البتہ موضوع کی مناسبت سے یہاں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے4حکمت بھرے ارشادات ملاحظہ ہوں :

(1)…حکمت کی اصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۷۰، الحدیث: ۷۴۴)

(2)…جو تھوڑا ہو اور کافی ہو وہ اس سے اچھا ہے جو زیادہ ہو اور غافل کردے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، باقی حدیث ابی الدرداء رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۸ / ۱۶۸، الحدیث: ۲۱۷۸۰)

(3)… تقویٰ اختیار کرو تو لوگوں  میں  سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے اور قناعت اختیار کرو تو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، ۴ / ۴۷۵، الحدیث: ۴۲۱۷)

(4)…خوش نصیب وہ ہے جودوسروں  سے نصیحت حاصل کرے۔( مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۳(۲۶۴۵))

{وَ مَنْ یَّشْكُرْ: اور جو شکر اداکرے۔} یعنی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے تووہ اپنی ذات کے بھلے کیلئے ہی شکر کرتا ہے کیونکہ شکر کرنے سے نعمت زیادہ ہوتی ہے اوربندے کو ثواب ملتا ہے اور جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں  کی ناشکری کرے تو اس کاوبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے اور اس کے شکر سے بے پرواہ ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور اَفعال میں  حمد کے لائق ہے اگرچہ کوئی ا س کی تعریف نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۷۵، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۱۷، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۳۴۶، ملتقطاً)

وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! کسی کو الله کا شریک نہ کرنا، بیشک شرک یقینا بڑا ظلم ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ: اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:} حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیٹے کا نام انعم تھااورایک قول کے مطابق اشکم تھا ۔ انسان کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ خود کامل ہو اور دوسرے کی تکمیل کرے ،تو حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا کامل ہونا تو ’’اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ‘‘ میں  بیان فرما دیا اور دوسرے کی تکمیل کرنا ’’وَ هُوَ یَعِظُهٗ‘‘ سے ظاہر فرمایا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! کسی کو اللہ کا شریک نہ کرنا کیونکہ اس میں  جو عبادت کا مستحق نہیں  اسے مستحقِ عبادت کے برابر قرار دینا ہے اور عبادت کو اس کے محل کے خلاف رکھنا ہے اور یہ دونوں باتیں  عظیم ظلم ہیں ۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۴۷۰)

آیت ’’وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

         اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… اس سے معلوم ہوا کہ نصیحت کرنے میں  گھر والوں  اور قریب تر لوگوں  کو مقدم کرنا چاہئے اور نصیحت کی ابتدا عقائد کی اصلاح سے ہونی چاہیے خصوصاً انہیں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے بارے میں  بتانا چاہئے اور سب سے پہلے انہیں  شرک سے بچانا چاہیے کہ یہ نہایت اہم ہے۔

(2)… انسان پہلے اپنے گھر والوں  کو وعظ و نصیحت کرے پھر دوسروں  کو۔

(3)… نصیحت نرم الفاظ میں  ہونی چاہیے۔آپ نے اسے ’’اے میرے بچے‘‘ فرما کر خطاب فرمایا۔

(4)… گزشتہ بزرگوں  کی تعلیم یاد دلانا ، ان کے اقوال نقل کرنا سنت ِالٰہیہ ہے۔

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں :

         حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے سے کہا میں  نے بڑے پتھر،لوہااورہروزنی چیزاٹھائی ہے لیکن میں  نے برے پڑوسی سے بھاری چیزکوئی نہیں  اٹھائی۔ میں  نے ہر کڑواہٹ دیکھی ہے مگرفقرسے زیادہ کڑوی چیز نہیں  دیکھی۔اے میرے بیٹے جاہل کوقاصد بناکرنہ بھیج، اگرتوکسی صاحب ِ حکمت کونہ پائے تواپناقاصد خود بن جا۔۔۔ اے میرے بیٹے جنازوں  میں  حاضر ہواکراورشادیوں  میں  نہ جایا کر کیونکہ جنازے تجھے آخرت کی یاددلاتے ہیں  اورشادی تجھے دنیاکی خواہش دلاتی ہے۔ اے میرے بیٹے سیر پر سیر ہو کرنہ کھا اگر تو اس کھانے کوکتے کے سامنے پھینک دے تویہ اس سے بہترہے کہ توخود اسے کھائے ۔اے میرے بیٹے اتنامیٹھابھی نہ بن کہ تجھے نگل لیا جائے اورنہ اتناکڑواہوجاکہ تجھے باہرپھینک دیاجائے ۔( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، آثار وحکایات فی فضل الصدق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۱، روایت نمبر: ۴۸۹۱)

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں  باپ کے بارے میں  تاکید فرمائی۔} اس آیت کی ابتدا میں  فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو اپنے ماں  باپ کا فرمانبردار رہنے ا ور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔ پھراس کاسبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کی ماں  نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں  اٹھائے رکھا،یعنی اس کی ماں  کی کمزوری میں  ہر وقت اضافہ ہوتا رہتا ہے ، جتنا حمل بڑھتا جاتا ہے اور بوجھ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی کمزوری میں  اضافہ ہوتا ہے ، عورت کو حاملہ ہونے کے بعد کمزوری ،تھکن اور مشقّتیں  پہنچتی رہتی ہیں  ، حمل خود کمزور کرنے والاہے، دردِ زِہ کمزوری پر کمزوری ہے اور وضعِ حمل اس پر اور مزید شدت ہے اور دودھ پلانا بھی مستقل مشقت کا ذریعہ ہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بچے کا دودھ چھڑانے کی مدت ولادت کے وقت سے لے کر دو سال تک ہے۔( جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۳۴۶۳۴۷، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۷۰، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۱۷، ملتقطاً)

ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے:

            یہاں  ماں  کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی،دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں  رکھا،تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا،اس سے معلوم ہوا کہ ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ماں  کی باپ سے تین درجے زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  آکر عرض کی:میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، ’’تمہاری ماں ‘‘،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاراباپ۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)

ماں  کاحق باپ کے حق پرمقدم ہے:

             اعلیٰ حضرت، مُجدّدِدین وملت،شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں  :اولاد پرماں  باپ کا حق نہایت عظیم ہے اور ماں  کاحق اس سے اعظم، قَالَ اللہ تَعَالٰی:

’’وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا‘‘

ترجمہ: اور ہم نے تاکید کی آدمی کو اپنے ماں  باپ کے ساتھ  نیک برتاؤ کی اسے پیٹ میں  رکھے رہی اس کی ماں  تکلیف  سے اور اسے جنا تکلیف سے اور اس کاپیٹ میں  رہنا اور دودھ چھٹنا تیس مہینے میں  ہے۔

            اس آیہ کریمہ میں  رب العزت نے ماں  باپ دونوں  کے حق میں  تاکید فرماکر ماں  کو پھر خاص الگ کرکے گنا اور اس کی ان سختیوں  اور تکلیفوں  کو شمار فرمایا جو اسے حمل وولادت اور دوبرس تک اپنے خون کاعطر پلانے میں  پیش آئیں  جن کے باعث اس کاحق بہت اَشد واَعظم ہوگیا مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں  کہ خدمت میں ، دینے میں باپ پرماں  کوترجیح دے مثلاً سوروپے ہیں  اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر (یعنی ماں  کو فضیلت دینے میں  رکاوٹ) نہیں  توباپ کو پچیس دے ماں  کو پچھتر، یاماں  باپ دونوں  نے ایک ساتھ پانی مانگا توپہلے ماں  کو پلائے پھرباپ کو، یادونوں  سفر سے آئے ہیں  پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھرباپ کے، وَ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاس، نہ یہ کہ اگروالدین میں  باہم تنازع ہو توماں  کا ساتھ دے کر مَعَاذَ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یااسے جواب دے یابے اَدبانہ آنکھ ملا کر بات کرے، یہ سب باتیں  حرام اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَعْصِیَت ہیں ، (اس میں ) نہ ماں  کی اطاعت ہے نہ باپ کی، تو اسے ماں  باپ میں  سے کسی کاایساساتھ دیناہرگز جائزنہیں ، وہ دونوں  اس کی جنت ونار ہیں ، جسے ایذادے گا دوزخ کامستحق ہوگا وَ الْعِیَاذُ بِ اللہ، مَعْصِیَت ِخالق میں  کسی کی اطاعت نہیں ، اگرمثلاً ماں  چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کاآزار پہنچائے اور یہ نہیں  مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں  کے معاملہ میں ، ان کی ایسی ناراضیاں  کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں  گی کہ یہ ان کی نری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں  بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں  تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں  کوترجیح ہے جس کی مثالیں  ہم لکھ آئے ہیں ، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں  کابھی حاکم وآقا ہے(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴ / ۳۸۷۳۹۰، ملتقطاً)۔

{اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ: کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔} یہ وہ تاکید ہے جس کا ذکر اوپر فرمایا تھا اور اس سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ والدین کا مقام انتہائی بلند ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ بندے کے والدین کا ذکر فرمایا اور ایک ساتھ دونو ں  کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا،اب اگر کوئی بد قسمت اپنے والدین کی خدمت نہ کرے اور انہیں  تکلیفیں  دے تو یہ ا س کی بد نصیبی اور محرومی ہے ۔حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ جس نے پنج گانہ نمازیں  ادا کیں  وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالایا اور جس نے پنج گانہ نمازوں  کے بعد والدین کے لئے دعائیں  کیں  تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ (بغوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۲۳)

وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘-وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر وہ دونوں تجھ پر کوشش کریں کہ تو کسی ایسی چیز کو میراشریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان اور دنیا میں اچھی طرح ان کا ساتھ دے اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل پھر میری ہی طرف تمہیں پھر کرآنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو تم کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ جَاهَدٰكَ: اور اگر وہ دونوں  تجھ پر کوشش کریں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندے ! تم علم سے تو کسی کو میرا شریک ٹھہرا ہی نہیں  سکتے کیونکہ میرا شریک محال ہے ،ہو ہی نہیں  سکتا ، اب تجھے جو کوئی بھی کسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرانے کا کہے گا تو وہ بے علمی ہی سے کہے گا،لہٰذا ایسا اگر ماں  باپ بھی کہیں  تو ان کا کہنا نہ مان، کیونکہ والدین کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن اگر وہ شرک یا گناہ کرنے کا حکم دیں  تو ان کی اطاعت نہ کر کیونکہ خالق کی نافرمانی کرنے میں  کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں  ،البتہ دنیا میں  حسن ِاخلاق ، حسن ِسلوک ، احسان اور تَحَمُّل کے ساتھ اچھی طرح ان کا ساتھ دے لیکن دین میں  ان کی پیروی نہ کر بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے راستے پر چل ، پھر مرنے کے بعد میری ہی طرف تمہیں  اور تمہارے والدین کو لوٹ کرآنا ہے تو میں  تمہیں  تمہارے ایمان کی جزا دوں  گا اور تمہارے والدین کو ان کے کفر کی سزا دوں  گا۔(مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۱۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۷۰۴۷۱، ملتقطاً)

            حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں  نازل ہوئی۔ میں  اپنی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرتاتھا اورجب میں  نے اسلام قبول کرلیاتومیری ماں  نے کہااے سعد! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ،یہ تو نے کیا نیا دین اختیار کر لیاہے،تجھے یہ دین چھوڑناہوگایامیں  نہ کھاؤں  گی ،نہ پیوں  گی، یہاں  تک کہ مرجاؤں  گی اور یوں  میری وجہ سے تمہیں  عاردلائی جائے گی اورتجھے یوں  خطاب کیاجائے گا:اے اپنی ماں  کے قاتل!۔ یہ سن کر میں  نے کہا: اے میری ماں  !ایسانہ کر،میں  کسی بھی وجہ سے یہ دین نہیں  چھوڑوں  گا۔وہ ایک دن بغیرکچھ کھائے پئے رہی ،اس نے صبح کی توبڑی مشقت میں  مبتلاتھی ۔پھر وہ ایک دن اوررات مزید اسی طرح رہی تواس کی تکلیف میں  اضافہ ہوگیا۔جب میں  نے یہ دیکھاتو کہا:اے ماں ! اللہ تعالیٰ کی قسم! توجانتی ہے کہ اگرتیری سوجانیں  ہوں  اور ایک ایک کر کے تیری سب جانیں  نکل جائیں ،تب بھی میں  تیرے لئے اپنا دین نہیں  چھوڑوں  گا۔اب اگرتوچاہے توکھا ورنہ مت کھا،جب ماں  نے یہ دیکھاتواس نے کھاناکھالیا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (ابن عساکر، حرف السین، ذکر من اسمہ سعد، سعد بن مالک بن ابی وقاص بن اہیب۔۔۔ الخ، ۲۰ / ۳۳۱)

{وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ: اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔} اس سے مراد یہ ہے کہ دین میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے راستے پر چل۔اسی راہ کو مذہبِ سنّت و جماعت کہتے ہیں  ۔اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے آدمی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے توآپ کے پاس حضرت عثمان ، طلحہ ،زبیر،سعد بن ابی وقاص اورحضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آئے اورکہاکہ اے ابو بکر! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تم نے اس مرد کی تصدیق کی ہے اور اس پرایمان لے آئے ہو؟ توحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہاکہ ہاں  میں  ایمان لے آیاہوں  اورصِدقِ دل سے ان کی رسالت کوتسلیم کرلیاہے ۔یہ سن کروہ سب سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۷۱)

 اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں  والدین کی اطاعت نہیں :

            والدین کی خدمت اگرچہ عظیم چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کے معاملے میں  ان کی بات نہیں  مانی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا جائے گا اور ا سی کی اطاعت کی جائے گی، لہٰذا اگروہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور کفر کرنے کاحکم دیں توان کایہ حکم نہیں  مانا جائے گا ،اسی طرح اگروہ کسی فرض چیز کوچھوڑنے کاکہیں  مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ تواس وقت بھی ان کاحکم ماننا لازم نہیں ۔

والدین سے متعلق اسلام کی شاندار تعلیمات:

            دین ِاسلام میں  والدین کی خدمت کرنے اور ان کے ساتھ حسن ِسلوک کرنے کو ایک خاص اہمیت دی گئی ہے اور ا س سے متعلق مسلمانوں  کو خصوصی احکامات دئیے گئے ہیں  حتّٰی کہ کافر والدین کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کرنے، ان کی خدمت کرنے، ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں  اور نازیبا باتوں  پر برداشت کا مظاہرہ کرنے اور ان پر احسان کرنے کی تعلیم دی گئی ہے،یہ دین ِاسلام ہی کا عظیم کارنامہ ہے جس نے والدین کے ماں  باپ ہونے کے حق کو پورا کرنے کا حکم دیااور انہیں  اَذِیّت و تکلیف پہنچانے سے منع کیا۔فی زمانہ والدین سے متعلق اولاد کا جوحال ہے وہ سب کے سامنے ہے،آج نازوں  سے پلے ہوئے بچے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنے اور انہیں  سنبھالنے کو بڑی مصیبت سمجھتے ہیں  ،انہیں  اچھا کھانا کھلانے ،اچھی رہائش دینے اور ان کے آرام وسکون کا خیال کرنے کو تیار نہیں  اور کئی ملکوں  میں  تو اولاد کی اسی رَوِش کو دیکھ کر وہاں  کے حکمرانوں  نے ان بوڑھے والدین کو کچھ سہارا دینے کے لئے اولڈ ہاؤس قائم کر دئیے ہیں  تاکہ یہ اپنی زندگی کے بقیہ دن وہاں  کچھ تو چین سے گزار سکیں ،ایسے والدین کی حسرت و یا س کا کیا عالَم ہوتا ہو گا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ان حالات کے تَناظُر میں  والدین سے متعلق دی ہوئی اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو اس سے صاف واضح ہوتا ہے دین ِاسلام میں  والدین کو جو حق دئیے گئے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے جو اَحکام دئیے گئے ان کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں  نہیں  ملتی۔

یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے بیٹے! برائی اگررائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ، الله اسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبُنَیَّ: اے میرے بیٹے!} آیت نمبر14اور15میں  جو مضمون بیان ہوا یہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نہیں  ہے بلکہ انہوں  نے اپنے صاحبزادے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور شرک کی ممانعت کی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے والدین کی اطاعت کا حکم دیا اور اس کا محل بھی ارشاد فرما دیا ، اب یہاں  سے پھر حضرت لقما ن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا وہ قول ذکر کیا جارہا ہے جو انہوں  نے اپنے فرزند سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! برائی اگر رائی کے دانے کے برابر ہو اور اتنی چھوٹی ہونے کے ساتھ وہ کیسی ہی جگہ میں  ہو اور وہ جگہ کتنی ہی پوشیدہ ہو جیسے پتھر کی چٹان میں  ہو یا آسمانوں  میں  ہویا زمین میں  ہو، لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں  چھپ سکتی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے حاضر کر دے گا اور ا س کا حساب فرمائےگا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر باریکی کو جاننے والا اور ا س سے خبردار ہے اوراس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی اس شان کو پہچان لے تو وہ برائی کرنے سے ضرور ڈرے گا۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۸۱، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۷۱، ملتقطاً)

بظاہرمعمولی سمجھے جانے والے اعمال کا بھی حساب ہو گا:

             اس آیت میں  ہم سب کیلئے عبرت ہے کہ ہمارا معمولی سے معمولی عمل بھی قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں  پیش کیا جائے گااور اس کا حساب دینا ہوگا۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ‘‘( زلزال:۷،۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر بُرائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ‘‘(انبیاء:۴۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو  رکھیں  گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں  گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

            اور بظاہر چھوٹے سمجھے جانے والے اعمال پر بعض اوقات کس طرح گرفت ہوتی ہے ا س سے متعلق یہ حکایات ملاحظہ فرمائیں  ،حضرت حارث محاسبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ غلہ ماپنے والا ایک شخص اس کام کوچھوڑکر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول ہوگیا۔جب وہ مرگیاتواس کے بعض احباب نے اسے خواب میں  دیکھا تو پوچھا ’’مَافَعَلَ اللہ بِکَ‘‘یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیامعاملہ کیا؟اس نے کہا:میراوہ پیمانہ جس میں  غلہ وغیرہ ماپاکرتاتھا،اس میں  (میری بے احتیاطی کی وجہ سے) کچھ مٹی سی بیٹھ گئی تھی جس کومیں  نے لاپرواہی کے سبب صاف نہ کیاتوہرمرتبہ ماپنے کے وقت اس مٹی کی مقدار کم ہوجاتاتھا۔میں  اس قصورکے سبب عتاب میں  گرفتار ہوں ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاول، ومن اخلاقہم کثرۃ الخوف من اللّٰہ تعالی ان یعذّبہم۔۔۔ الخ، ص۵۱، ملخصاً)

            لہٰذاہمیں  دنیا میں  ہی اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کابھی محاسبہ کر لینا اور برے اعمال سے سچی توبہ کر لینی چاہئے تاکہ مرنے کے بعد ہونے والی گرفت اور آخرت کے سخت حساب سے بچ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَؕ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے میرے بیٹے!نماز قائم رکھ اور اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کر اور تجھے جو مصیبت آئے اس پر صبر کر، بیشک یہ ہمت والے کاموں میں سے ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: اے میرے بیٹے!نماز قائم رکھ۔} اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے کو عقائد کے حوالے سے نصیحت کی اور یہاں سے ان کی وہ نصیحت ذکر کی جا رہی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو ظاہری اعمال کے حوالے سے کی اور جس کا تعلق اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے ساتھ ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے سے کہا:اے میرے بیٹے!نماز قائم رکھ جو کہ کامل ترین عبادت ہے اور لوگوں کو اچھی بات کاحکم دے اور انہیں بری بات سے منع کر اور یہ کام کرنے کی وجہ سے تم پر جو مصیبت آئے اس پر صبر کر، بیشک یہ وہ کام ہیں جنہیں کرنا لازم ہے۔(روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۸۲-۸۳، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۳۴۷، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۹۱۸، ملتقطاً)

آیت ’’یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ‘‘ سے معلوم ہونے والے اہم اُمور:

            اس آیت سے 3باتیں  معلوم ہوئیں،

(1)… نماز ،اچھی بات کا حکم دینا ، بری بات سے منع کرنا اور مصیبت پر صبرکرنا، یہ ایسی عبادات ہیں جن کا تمام اُمتوں میں حکم تھا۔

(2)…اس میں بڑی پیاری ترتیب فرمائی گئی کہ وعظ کہنے والا عالم پہلے خود نیک عمل کرے پھر دوسروں سے کہے۔ بے عمل واعظ کا وعظ دلوں میں اثر نہیں کرتااور چونکہ اس راہ میں  تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں لہٰذا صبر کا فرمایا گیا۔ یاد رہے کہ ہر مسلمان دین کا مُبَلِّغ ہونا چاہیے اورجو مسئلہ اسے درست معلوم ہو وہ دوسروں  تک پہنچائے ۔ صرف علماء پر ہی تبلیغ لازم نہیں ہے۔

(3)…تبلیغ اور صبر کے اکٹھے بیان کرنے میں ایک اشارہ یہ ہے کہ تبلیغ میں صبر کے مَراحل بہت مرتبہ پیش آتے ہیں لہٰذا تکالیف کی وجہ سے تبلیغ سے باز نہیں  آنا چاہیے۔

وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورلوگوں سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر اور زمین میں اکڑتے ہوئے نہ چل، بیشک الله کو ہر اکڑنے والا، تکبر کرنے والا ناپسند ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ: اورلوگوں  سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر۔} یہاں  سے حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی وہ نصیحت ذکر کی جا رہی ہے جو انہوں  نے اپنے بیٹے کو باطنی اعمال کے حوالے سے فرمائی، چنانچہ فرمایا کہ اے میرے بیٹے!جب آدمی بات کریں  تو تکبر کرنے والوں  کی طرح انہیں  حقیر جان کر ان کی طرف سے ر خ پھیرلینے والا طریقہ اختیار نہ کرنا بلکہ مالدار اور فقیر سبھی کے ساتھ عاجزی و اِنکساری کے ساتھ پیش آنااور زمین پر اکڑتے ہوئے نہ چلنا، بیشک اکڑنے والا اور تکبر کرنے والا کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔( مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۱۹، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۷۱، ملتقطاً)

فخر اور اِختیال میں  فرق:

            یاد رہے کہ اندرونی عظمت پر اکڑنا فخر ہے جیسے علم ، حسن ، خوش آوازی ، نسب ، وعظ وغیر ہ اور بیرونی عظمت پر اکڑنا اختیا ل ہے جیسے مال ، جائیداد ، لشکر ، نو کر چاکر وغیرہ،مراد یہ ہے کہ نہ ذاتی کمال پر فخر کرو اور نہ بیرونی فضائل پر اتراؤ،کیونکہ یہ چیزیں  تمہاری اپنی نہیں بلکہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلََّ کی عطا کی ہوئی ہیں  اور وہ جب چاہے واپس لے لے ۔

کسی شخص کو حقیر نہیں  جاننا چاہئے:

            اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص امیر ہو یا غریب اسے حقیر نہیں  جاننا چاہئے بلکہ جس سے بھی ملاقات ہو تواس کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہئے اور اچھے انداز میں  اس سے بات چیت کرنی چاہئے۔غریبوں  کو حقیر جان کر ان سے منہ موڑنا اور ان سے بات چیت کے دوران ایسا انداز اختیار کرنا جس میں  حقارت کا پہلو نمایا ں  ہو اسی طرح امیر لوگوں  کو حقارت کی نظر سے دیکھنا سب تکبر کی علامات ہیں  ،ان سے ہر ایک کو بچنا چاہئے ۔حدیث ِپاک میں  بھی اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو،ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرواورسب اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤاورکسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں  کہ وہ اپنے بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینہی عن التحاسد والتدابر، ۴ / ۱۱۷، الحدیث: ۶۰۶۵)

            ترغیب کے لئے یہاں لوگوں  کے ساتھ سلوک کے حوالے سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کے چند پہلو ملاحظہ ہوں ، چنانچہ قاضی عیاض مالکی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں  سے اُلفت فرماتے اور ان سے نفرت نہ کرتے تھے۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر قوم کے با اَخلاق فرد کی عزت فرماتے اور اسے اس کی قوم پر حاکم مقرر کر دیتے تھے۔ (بداخلاق) لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتے،ان سے احتراز فرماتے، نہ یہ کہ ان سے منہ پھیر لیں  اور بد اخلاقی سے پیش آئیں  ۔آپ کی بارگاہ میں  حاضر کوئی شخص یہ گمان نہیں  کرتا تھا کہ کوئی اور بھی اس سے بڑھ کرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک عزت والا ہے۔جو شخص بھی آپ کےپاس بیٹھتا یا کسی ضرورت سے زیادہ قریب ہو تا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صبر فرماتے یہاں  تک کہ وہ شخص خود ہی اٹھ کر چلا جاتا۔جو شخص بھی اپنی حاجت کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کرتا تو اسے دے کر بھیجتے یا اس سے نرم بات کرتے۔غرض یہ کہ آپ کا اخلاق اس قدر وسیع تھا کہ وہ تمام لوگوں  کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔( الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا حسن عشرتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۰، الجزء الاول)

            نیز سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ جب سیّد العالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنبوی میں  تشریف فرما ہوتے تواپنے دربار میں  سب سے پہلے حاجت مندوں  کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں  کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے اور قبائل کے نمائندوں  سے ملاقاتیں  فرماتے اوراس دوران تمام حاضرین کمالِ ادب سے سر جھکائے رہتے تھے۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں  آنے والوں  کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں  تھی، امیر و فقیر، شہری اور دیہاتی سب قسم کے لوگ حاضرِ دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں  میں  سوال و جواب کرتے ۔کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں  نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں  سکتا تھا۔جو لوگ سوال و جواب میں  حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کمالِ حِلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل اور اسلامی احکام کی تعلیم و تلقین اوروعظ ونصیحت فرماتے رہتے۔حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبائل سے آنے والے وفدوں  کے اِستقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اَقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں  ،پھر ان مہمانوں  کو اچھے سے اچھے مکانوں  میں  ٹھہراتے اور ان لوگوں  کی مہمان نوازی اور خاطرِ مُدارات کا خاص طورپرخیال فرماتے تھے اور ان مہمانوں  سے ملاقات کے لئے مسجد ِنبوی میں  ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے ،پھر ہر ایک وفد سے نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ان کی حاجتوں  اور حالتوں  کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری عقائد و اَحکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و مَراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں  لوگوں  کو حقیر جاننے اور ان سے حقارت آمیز سلوک کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

اکڑ کر چلنے کی مذمت:

            آیت میں  اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا گیا ،اس مناسبت سے یہاں  اکڑ کر چلنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے،وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۴۶۱، الحدیث: ۶۰۰۲)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب میری امت اکڑ کر چلنے لگے گی اور ایران و روم کے بادشاہوں  کے بیٹے ان کی خدمت کرنے لگیں  گے تو اس وقت شریر لوگ اچھے لوگوں  پر مُسَلَّط کر دئیے جائیں  گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب-۷۴، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۲۲۶۸)

وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چل اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ: اور اپنے چلنے میں  درمیانی چال سے چل۔} حضرت لقما ن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:اے میرے بیٹے! جب تم چلنے لگو تونہ بہت تیز چلو اور نہ بہت سست کیونکہ یہ دونوں  باتیں  مذموم ہیں،  ایک میں  تکبر کی جھلک ہے اور ایک میں  چھچھورا پن ہے بلکہ تم درمیانی چال سے چلو نیزشور کرنے اور چیخنے چِلانے سے احتراز کرو ،بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔مقصودیہ ہے کہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں  کچھ فضیلت نہیں  ، جیسے گدھے کی آواز کہ بلند ہونے کے باوجود مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۷۱، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۱۹، ملتقطاً)

آہستہ چلنے کی فضیلت اوربہت تیز چلنے کی مذمت:

اطمینان اور وقار کے ساتھ ،عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلنا کامل ایمان والوں  کا وصف ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا‘‘(فرقان:۶۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پرآہستہ چلتے ہیں ۔

اوراتنا تیز چلنا جو بھاگنے کے مشابہ ہواس کے بارے میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا مومن کا وقار کھودیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب السین، ۲ / ۳۳۴، الحدیث: ۳۵۰۸)

چلنے میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

یہاں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چلنے سے متعلق دو صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اقوال ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں  کہ چلتے وقت حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔( شمائل ترمذی، باب ما جاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۱۹، الحدیث: ۶)

(2)…حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چلنے میں  اطمینان سے قدم اٹھاتے ،وقار کے ساتھ جھک کر چلتے ،قدم لمبا رکھتے او ر جب آپ چلتے تو یوں  محسوس ہوتا کہ گویا آپ اوپر سے نیچے اتر رہے ہوں۔(الشفا،القسم الاول،الباب الثانی،فصل قد اتیناک اکرمک اللّٰہ من ذکر الاخلاق الحمیدۃ۔۔۔الخ،ص۱۵۷،الجزء الاول) 

چلنے کی سنتیں  اورآداب:

 آیت کی مناسبت سے یہاں  چلنے کی 7سنتیں  اور آداب ملاحظہ ہوں :

(1)…جوتا پہن کر چلیں ۔

(2)…کوشش کر کے راستے کے کنارے چلیں  درمیان میں  نہ چلیں  ۔

(3)…درمیانی چال چلیں  ،نہ اتناتیز کہ لوگوں  کی نظریں  اٹھیں  اور نہ اتناآہستہ کہ آپ مریض معلوم ہوں ۔

(4)…احمقوں  اور مغروروں  کی طرح گریبان کھول کر،سینہ تان کرنہ چلیں  بلکہ شریفوں  کی طرح چلیں  ۔

(5)…راستے میں  دوعورتیں  کھڑی ہوں  یاجارہی ہوں  توان کے بیچ میں  سے نہ گزریں  بلکہ دائیں  یا بائیں  طرف سے گزر جائیں ۔

(6)…بلا ضرورت ادھرادھر دیکھتے ہوئے نہ چلیں  بلکہ بدنگاہی سے بچتے ہوئے نیچی نظریں  کرکے چلیں ۔

(7)…یہ بھی خیال رکھئے کہ چلتے وقت جوتے کی آواز پیدانہ ہو۔

سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چلتے وقت جوتوں  کی آواز ناپسند تھی ،چنانچہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت گرمی کے دن بقیعِ غرقد کی طرف تشریف لے جاتے اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے دوسرے لوگ آتے ۔جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے جوتوں  کی آواز سنتے تویہ بات آپ کوبہت ناگوارمعلوم ہوتی ۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ جاتے حتّٰیکہ وہ لوگ آگے نکل جاتے اورآپ یہ عمل اس لئے فرماتے تاکہ دل میں  فخرپیدانہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب من کرہ ان یوطأ عقباہ، ۱ / ۱۶۰، الحدیث: ۲۴۵)

ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے گفتگو کرنے اور زیادہ باتیں  کرنے کی مذمت:

ضرورت سے زیادہ آواز بلند کر کے اور چِلا چِلا کر گفتگو کرناایک ناپسندیدہ فعل ہے اور اس کی مذمت بیان کرنے کے لئے یہاں  اس کی مثال گدھے کی آواز سے دی گئی ہے اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ وہ کسی شخص کو بلند اور سخت آواز سے کلام کرتا ہوا دیکھیں  اور یہ پسند فرماتے تھے کہ وہ اسے نرم آواز سے کلام کرتا ہو ادیکھیں۔( معجم الکبیر،صدی بن العجلان ابوامامۃ الباہلی۔۔۔الخ، القاسم بن عبد الرحمٰن۔۔۔ الخ، ۸ / ۱۷۷، الحدیث: ۷۷۳۶)

اور بلا ضرورت زیادہ باتیں  کرنے والے کے بارے میں  حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:بے شک تم میں  سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن میرے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہوں  گے جوتم میں  سے زیادہ اچھے اَخلاق والے ہوں  گے اورتم میں  سے مجھے سب سے زیادہ ناپسنداورقیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور ہونے والے وہ لوگ ہوں  گے جوزیادہ باتیں  کرنے والے ،لوگوں  سے زبان درازی کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں  گے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی معالی الاخلاق، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۵)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  ناپسندیدہ گفتگو سے بچنے اور اچھی گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

گفتگو کرنے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں  فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی مَتانَت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے اور آپ کا کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے اوراگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملے کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سننے والے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا ضرورت گفتگو نہیں  فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’جامع کلمات‘‘ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملے میں  لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔

بات چیت کرنے کی سنتیں  اورآداب:

آیت کی مناسبت سے یہاں  بات چیت کرنے کی6 سنتیں  اور آداب بھی ملاحظہ ہوں  تاکہ ہماراچلناپھرنا بھی اورگفتگوکرنابھی سنت کے مطابق ہو۔

(1)…مسکراکر اورخندہ پیشانی سے بات چیت کرناسنت ہے ۔

(2)… چِلا چِلا کربات کرنا جیساکہ آج کل ہمارے ہاں  رائج ہے ،یہ خلافِ سنت ہے ۔

(3)… گفتگو کرتے وقت چھوٹوں  کے ساتھ شفقت بھرا اوربڑوں  کے سامنے ادب والالہجہ رکھئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں  کے نزدیک آپ معززرہیں  گے ۔

(4)…جب تک دوسرابات کررہاہو تب تک اطمینان سے سنیں  اوراس کی بات کاٹ کراپنی بات شروع نہ کردیں ۔

(5)…بلا ضرورت زیادہ باتیں  نہ کریں  اور نہ ہی دورانِ گفتگو زیادہ قہقہے لگائیں  کہ زیادہ باتیں  کرنے اورقہقہہ لگانے سے وقار مجروح ہوتاہے۔

(6)…دورانِ گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پرتالی دینا ٹھیک نہیں  ہے کہ یہ مُعَزّز و مُہَذَّب لوگوں  کے طریقے کے خلاف ہے۔

             اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاہے کہ ہمیں  سنت کے مطابق گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اولاد کی تربیت میں  قابلِ لحاظ اُمور:

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی جو نصیحتیں  یہاں  ذکر ہوئیں  ،ان سے معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں  والدین کو درج ذیل4 اُمور کا بطورِ خاص لحاظ کرنا چاہئے،

(1)… ان کے عقائدکی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔

(2)… ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔

(3)…ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔

(4)…ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ چاروں  چیزیں  دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں ،جیسے عقائد کی درستی دنیا میں  بلاؤں  اور مصیبتوں  سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں  ، مصیبتوں  اور بلاؤں  کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں  داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تووہ جہنم میں  جانے کا مستحق ہوگیا اورجو کفر کی حالت میں  مر گیا وہ توضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا ۔اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں  گے تو دنیا میں  نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں  اور آخرت میں  جنت میں  جانے کاوسیلہ ہیں  اور اگر درست نہ ہوں  گے تو دنیا میں  ذلت و رسوائی کا سامان ہیں  اور آخرت میں جہنم میں  جانے کاذریعہ ہیں ،یونہی اخلاق اچھے ہوں  گے تو معاشرے میں  قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اس کی عزت کریں  گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں  معاشرے میں  اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہو گا اور اچھے اخلاق آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں  جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں  کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں  ۔افسوس! ہمارے معاشرے میں  والدین اپنے بچوں  کی تربیت کے معاملے میں  یہ تو دیکھتے ہیں  کہ ان کا بچہ دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری میں  کتنا اچھا اور چالاک ، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں  کہ اس کے عقائد و نظرِیّات کیا ہیں  اور ا س کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جا رہے ہیں  ۔والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کی زندگی میں  کامیاب انسان بنے ،اس کے پاس عہدے اور منصب ہوں ،عزت،دولت اور شہرت ا س کے گھر کی کنیز بنے لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے ، مسلمان ماں  باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو ،اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں  اوراس کا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دنیا میں  خوب ترقی کرے تاکہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سَنْوَر جائے اور انہیں  بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں  کرتے کہ ان کی اولاد قبر کی زندگی میں  ان کے چین کاباعث بنے اور آخرت میں  ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں  اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں  کا حصول ہے ، ان کے لئے درج ذیل آیات میں  بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود: ۱۵، ۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں  انہیں  ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں  گے اور انہیں  دنیا میں  کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن کے لیے آخرت میں  آگ کے سوا کچھ نہیں  اور دنیا میں  جو  کچھ انہوں  نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال  باطل ہیں ۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸، ۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں  اس کیلئے دنیا میں  جو چاہتے ہیں  جلد دیدیتے ہیں  پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں  وہ  مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس  کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں  جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لئے دنیا و آخرت دونوںمیں  کامیابی کاذریعہ بنے اور والدین کے دُنْیَوی سکون اور اُخروی نجات کاسامان ہو ،اٰمین۔

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ-وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہ دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کو الله نے تمہارے لیے کام میں لگا رکھا ہے اور اس نے تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اورکچھ لوگ الله کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ (انہیں ) نہ علم ہے اورنہ عقل اورنہ کوئی روشن کتاب۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَوْا: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں  حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ان نصیحتوں  کابیان ہوا جو انہوں  نے اپنے بیٹے کو فرمائیں  اور اب یہاں  سے وہ نعمتیں  ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر اِستدلال ہوتا ہے،چنانچہ ارشادفرمایا کہ اے لوگو!کیا تم نے نہ دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں  میں  ہیں  جیسے سور ج ، چاند اور ستارے اور جو کچھ زمین میں  ہیں  جیسے دریا ، نہریں  ، کانیں  ، پہاڑ ، درخت ، پھل ، چوپائے وغیرہ ،ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت سے تمہارے لیے کام میں  لگارکھا ہے جس کے نتیجے میں  تم آسمانی چیزوں  سے نفع اٹھاتے اور زمینی چیزوں  سے فائدے حاصل کرتے ہو۔( تفسیرکبیر، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۹ / ۱۲۳۱۲۴، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۳۴۷، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۹۲۱، ملتقطاً)

{وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةً: اور اس نے تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں  پوری کردیں ۔} یہاں  ظاہری اور باطنی نعمتوں  سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اقوال ہیں جن میں  تطبیق یوں  ہوسکتی ہے کہ مختلف افراد کو مختلف نعمتیں  عطا کی گئیں ،ان مختلف اقوال میں  سے 6قول درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ظاہری نعمت سے مراد اسلام اور قرآن ہے اور باطنی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہوں  پر پردے ڈال دیئے، تمہاری پوشیدہ باتیں  نہ کھولیں  اور تمہیں  سزا دینے میں  جلدی نہ فرمائی۔

(2)… ظاہری نعمت سے مراد اَعضا ء کی درستی اور صورت کا حسن ہے اور باطنی نعمت سے مراد دل کا اعتقاد ہے۔

(3)… ظاہری نعمت سے مراد رزق ہے اور باطنی نعمت سے مراد حسن ِخُلق ہے۔

(4)…ظاہری نعمت سے مراد شرعی اَحکام کا ہلکا ہونا ہے اور باطنی نعمت سے مراد شفاعت ہے۔

(5)…ظاہری نعمت سے مراد اسلام کا غلبہ اور دشمنوں  پر فتح یاب ہونا ہے اور باطنی نعمت سے مراد فرشتوں  کا امداد کے لئے آنا ہے ۔

(6)… ظاہری نعمت سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ہے اور باطنی نعمت سے مراد ان کیمحبت ہے۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۷۲)

            یہ تو چند نعمتیں  ہیں  ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں  تو اتنی کثیر ہیں  کہ انہیں  شمار ہی نہیں  کیا جا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا‘‘(ابراہیم:۳۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس نے تمہیں  وہ بھی بہت کچھ دیدیا جو تم نے اس سے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں  گنو تو شمار نہ کرسکو گے۔

             تو کیا یہ نعمتیں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ۔

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ: اورکچھ لوگ اللہ کے بارے میں  علم کے بغیر جھگڑتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں  جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں  جھگڑتے ہیں  حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے ،نہ عقل اورنہ ہی کوئی روشن کتاب ہے ،اس لئے وہ جو کہیں  گے جہالت اور نادانی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی شان میں  اس طرح کی جرأت اور لب کشائی انتہائی بیجا اور گمراہی ہے ۔ شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث ،اُبی بن خلف ،امیہ بن خلف اوران جیسے دیگرکفار کے بارے میں  نازل ہوئی جو بے علم اور جاہل ہونے کے باوجود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق جھگڑے کیا کرتے تھے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۷۲)

            یہاں  جو بات نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ عقائد میں  کلام کرنے کو لوگوں  نے بہت آسان سمجھ رکھا ہے اور اگر عوام میں  بیٹھ کر دیکھیں  تو پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے لوگوں  نے جیسے سیاست و ریاست کے ہر مسئلے پر کلام کرنے کو اپنا حق سمجھ لیا ہے اسی طرح دین، اسلام، قرآن، ایمان، آخرت اور خدا کے بارے میں  بھی بے سوچے سمجھے بس اپنے دماغ میں  اپنی کوئی من پسند یا سنی سنائی بات بٹھا کر کلام کرلینے کو آسان سمجھ لیا ہے۔ یہ نہایت خطرناک رَوِش ہے۔ سیاست وغیرہ میں  لوگ مختلف نکتہ ہائے نظر رکھ سکتے ہیں  لیکن عقائد اور دین کا معاملہ ایسانہیں  ہے وہاں  مُتَعَیّن طور پر وہی عقیدہ رکھنا فرض ہے جو قرآن و حدیث میں  آیا ہے اور جسے امت ِ مُسلِمہ نے اپنایا ہے۔ اس لئے ایمان کی حفاظت اسی میں  ہے کہ عقیدے کے معاملے میں  کوئی بھی شخص اپنی ذاتی رائے ہرگز نہ دے بلکہ کوئی بات ہو تو فوراً یہی کہے کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث میں  بیان ہوا اور میں  اپنی رائے سے نہ کوئی بات کہنا چاہتا ہوں  اور نہ امت ِ مسلمہ سے ہٹ کر کسی کی رائے سننا چاہتا ہوں ۔

علماء اور مُفتیانِ کرام سے مسائل پوچھنے والوں  کو نصیحت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم کے بغیر دینی احکام اور مسائل میں  بحث نہیں  کرنی چاہئے ،اس سے ان لوگوں  کو سبق حاصل کرناچاہئے جوعلماء اور مُفتیانِ کرام سے مسائل پوچھنے آتے ہیں  اورجب انہیں  اپنی پسند اور مراد کے مطابق جواب نہیں  ملتا تو وہ جاہلوں  کی طرح جھگڑاشروع کر دیتے ہیں ۔یاد رہے کہ ایک عالم اور مفتی کی ذمہ داری شریعت کے حکم کو بیان کرنا ہے جبکہ عوام کی ذمہ داری اس حکم کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ بحث کرنا اور جاہلوں  کی طرح جھگڑا شروع کردینا تو کسی مسلمان کی شان نہیں  بلکہ یہ تو کافروں  کا طریقہ ہے، لہٰذا اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ-اَوَ لَوْ كَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْهُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان سے کہا جائے کہ اس کی پیروی کرو جو الله نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں : بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا۔ کیا اگرچہ شیطان ان کو عذاب ِدوزخ کی طرف بلارہا ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ: اور جب ان سے کہا جائے۔} ارشاد فرمایا کہ جب ان جھگڑا کرنے والوں  سے کہا جائے کہ جو قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمایا ہے تم اس کی پیروی کرو، تو ا س کے جواب میں  وہ کہتےہیں :ہم اس کی پیروی نہیں  کریں  گے بلکہ ہم تو اپنے باپ دادا کے طریقے پر ہی رہیں  گے ۔اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ کیااگرچہ شیطان انہیں  جہنم کے عذاب کی طرف بلارہا ہو جب بھی وہ اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کئے جائیں  گے۔ یہ کتنے بیوقوف ہیں  کہ انہیں  معلوم بھی ہے کہ شیطان انہیں  گمراہ کررہاہے اوردوزخ کی طرف بلارہاہے مگرپھربھی شریعت پرچلنے کی بجائے جاہل باپ دادوں  کی پیروی میں  لگے ہوئے ہیں  ۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۹۱، ملتقطاً)

وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو اپنا منہ الله کی طرف جھکادے اور وہ نیک ہو تو بیشک اس نے مضبوط سہارا تھام لیا اور سب کاموں کا انجام الله ہی کی طرف ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ: تو جو اپنا منہ اللہ کی طرف جھکادے۔} یعنی جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ا س کا دین قبول کرے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول ہو ، اپنے کام اسی کے سپرد کرے اور اسی پر بھروسہ رکھے اور وہ نیک اعمال کرنے والا بھی ہو تو بیشک اس نے مضبوط سہارا تھام لیا اور ا س کے ذریعے وہ اعلیٰ مَراتب پر فائز ہو جائے گا اور سب کاموں  کی انتہا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے تو وہ ایسے شخص کو اچھی جزا دے گا۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۷۲، روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۷ / ۹۲، ملتقطاً)

آخرت میں  اچھی جزا پانے کے لئے ضروری عمل:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ آخرت میں  اچھی جزا پانے کے لئے صحیح ایمان اور درست نیک اعمال دونوں  کا ہونا ضروری ہے،یہی چیز قرآن مجید میں  اور مقامات پر بھی بیان کی گئی ہے ،چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’بَلٰىۗ-مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں  کیوں  نہیں  ؟ جس نے اپنا چہرہ  اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہو تو اس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں  گے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ اَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ اﰳلْحُسْنٰىۚ- وَ سَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا‘‘(کہف:۸۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بہر حال جو ایمان لایا اور اس نے  نیک عمل کیا تو اس کا بدلہ بھلائی ہے اور عنقریب ہم اس کو آسان کام کہیں  گے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ‘‘(توبہ:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان  لاتے ہیں  اور نما ز قائم کرتے ہیں  اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور   اللہ کے سوا کسی سے نہیں  ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں  میں  سے ہوں  گے۔

            چنانچہ جو ایمان والا نہیں اس کا کوئی بھی عمل صالح نہیں  اگرچہ وہ ظاہری اعتبار سے کیسے ہی اچھے عمل کر رہا ہو اور جو صحیح ایمان لانے کے بعد نیک عمل نہیں  کر رہا وہ اپنے آپ کو خطرے پر پیش کررہاہے کیونکہ برے اعمال اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہیں  اور جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گیا اور ا س پر اللہ تعالیٰ نے رحم نہ کیا تواسے اس کے برے اعمال کے حساب سے ایک عرصے تک کے لئے جہنم میں  داخل کر دیا جائے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے صحیح ایمان لایا جائے اورپھر نیک اعمال کئے جائیں  تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آخرت میں  اچھی جزا نصیب ہو۔

وَ مَنْ كَفَرَ فَلَا یَحْزُنْكَ كُفْرُهٗؕ-اِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(23)نُمَتِّعُهُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِیْظٍ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو کفر کرے تو اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے ۔ انہیں ہماری ہی طرف پھرنا ہے تو ہم انہیں بتا دیں گے جو انہوں نے کیا ہوگا بیشک الله دلوں کی بات جانتا ہے۔ ہم انہیں کچھ فائدہ اٹھانے دیں گے پھر انہیں سخت عذاب کی طرف مجبور کریں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ كَفَرَ فَلَا یَحْزُنْكَ كُفْرُهٗ: اور جو کفر کرے تو اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ تسلی رکھیں  اور کفر کرنے والے کے کفر پر غمزدہ نہ ہوں  کیونکہ اس کا کفر کرنا دنیا و آخرت میں  آپ کے لئے کسی طرح نقصان دہ نہیں  ،ان لوگوں  کو مرنے کے بعد ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور ہم انہیں  ان کے اعمال کی سزا دیں  گے ۔بے شک اللہ تعالیٰ جس طرح ان کے ظاہری اعمال کو جانتا ہے اسی طرح ان کے دلوں  کی بات بھی جانتا ہے تو وہ انہیں  اس کی بھی سزا دے گا جو ان کے دلوں  میں  پوشیدہ ہے۔( صاوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۱۶۰۴، روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۹۲، تفسیرکبیر، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۹ / ۱۲۶، ملتقطاً)

{نُمَتِّعُهُمْ قَلِیْلًا: ہم انہیں کچھ فائدہ اٹھانے دیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم ان کافروں  کو تھوڑی مہلت دیں  گے تاکہ وہ اپنی موت تک دنیا کی نعمتوں  سے مزے اٹھا لیں ،پھر انہیں آخرت میں  سخت عذاب کی طرف جانے پر مجبور کر دیں گے اور وہ جہنم کا عذاب ہے جس سے یہ لوگ کبھی رہائی نہ پاسکیں گے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۴۷۲، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۳۴۷، ملتقطاً)

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ-قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ؟تو ضرور کہیں گے: ’’الله نے‘‘ تم فرماؤ: تمام تعریفیں الله کیلئے ہیں بلکہ ان میں اکثر جانتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافراگرچہ کفر اورشرک کی وادیوں  میں  گھوم رہے ہیں لیکن اگران سے سوال کیاجائے کہ بتاؤیہ زمین اورآسمان کس نے بنائے ہیں  ؟تو ضروران کاجواب یہ ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں  ۔ اُن کے اقرار سے یہ لازم آتا ہے کہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے وہ اللہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں  ،تو واجب ہوا کہ اس کی حمد کی جائے ،اس کا شکر ادا کیا جائے اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے جبکہ ان جاہلوں  کا حال یہ ہے کہ خالق صرف اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں  اور عقیدہ یہ رکھتے ہیں  کہ (مَعَاذَ اللہ) شرک اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے۔( مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۹۲۰، صاوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۵، ۵ / ۱۶۰۴، ملتقطاً)

لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

الله ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بیشک الله ہی بے نیاز، تعریف کے لائق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں  اور زمین میں  ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں  اور زمین میں  ہے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک ، مخلوق اور بندے ہیں  اور جب اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے تو زمین و آسمان میں  اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں  ۔( جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۳۴۸)

{اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ: بیشک اللہ ہی بے نیاز ہے، تعریف کے لائق ہے۔} یعنی آسمانوں  اور زمین کی پیدائش سے پہلے بھی اور بعد میں  بھی اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات اور صفات میں  بے نیاز ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا بے نیاز نہیں  بلکہ ساری کائنات اسی کی محتاج ہے اوراللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں  تعریف کے لائق ہے اگرچہ کوئی بھی اس کی حمد نہ کرے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۹۳)

وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جاتے اور سمندر (ان کی سیاہی، پھر) اس کے بعد اس (پہلی سیاہی) کو سات سمندر مزید بڑھادیتے تو بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوتیں بیشک الله عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ: اور زمین میں  جتنے درخت ہیں  اگر وہ سب قلمیں  بن جاتے} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے اپنی عظمت کا بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ساری زمین میں  موجود تمام درختوں کی قلمیں  بنادی جائیں  جو کھربوں  سے بھی کھربوں  گنا زیادہ ہوں  گی اور لکھنے کے لئے سمندر بلکہ سات سمندروں  کو سیاہی بنا لیاجائے اور ان قلموں  اور سیاہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عظمت مثلاً علم، قدرت، صِفات کو لکھا جائے توسارے قلم اور سمندر ختم ہوجائیں  لیکن عظمت ِ الٰہی کے کلمات ختم نہ ہوں  کیونکہ سمندر سات ہوں  یا کروڑوں ، جتنے بھی ہوں  بہر حال وہ محدود ہیں  اور ان کی کوئی نہ کوئی انتہاء ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی کوئی انتہاء نہیں ، تو مُتناہی چیز غیر متناہی کا اِحاطہ کر ہی نہیں  سکتی۔

         اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اقوال ہیں  ،ان میں  سے دوقول درج ذیل ہیں ۔

(1)…جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودیوں  کے علماء نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کر کہا: ہم نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ یعنی تمہیں  تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ تو اس سے آپ کی مراد ہم لوگ ہیں  یا صرف آپ کی قوم؟ ارشاد فرمایا’’ سب مراد ہیں  ۔انہوں  نے کہا: کیا آپ کی کتاب میں  یہ نہیں  ہے کہ ہمیں  توریت دی گئی ہے اور اس میں  ہر چیز کا علم ہے؟ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ہر چیز کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے سامنے قلیل ہے اور تمہیں  تو اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کرو تو نفع پاؤ گے۔ انہوں  نے کہا :آپ کیسے یہ خیال فرماتے ہیں  حالانکہ آپ کا قول تو یہ ہے کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر دی گئی، تو قلیل علم اور کثیر خیر کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس صورت یہ آیت مدنی ہوگی ۔

(2)…یہودیوں  نے قریش سے کہا تھا کہ مکہ میں  جا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس طرح کا کلام کریں۔(مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۲۱، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۳۴۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۷۳، ملتقطاً)

مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم سب کا پیدا کرنا اور قیامت میں اٹھاناایسا ہی ہے جیسا ایک جان کا،بیشک الله سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ: تم سب کا پیدا کرنا اور قیامت میں  اٹھانا ایسا ہی ہے جیسا ایک جان کا۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم کے کمال کو بیان فرمایا اور اب یہاں  سے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے سے متعلق کفارِمکہ کو سمجھایا جارہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے اہلِ مکہ! تم سب کوپیدا کرنا اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا اللہ تعالیٰ کیلئے ایک جان کو پیدا کرنے کے برابر ہے،یہ اللہ تعالیٰ پر کچھ دشوار نہیں  کیونکہ اس کی قدرت تو یہاں  تک ہے کہ اگر وہ چاہے توایک لفظ ’’کُنْ‘‘ فرما کر سب کو پیدا کر دے ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اَقوال کو سننے والا اور تمہارے افعال کو دیکھنے والا ہے تو وہ تمہیں  تمہاری باتوں  اور عملوں  کا بدلہ دے گا۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۹۶، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۴۷۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۹۲۱، ملتقطاً)

         اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ اُبی بن خلف اور کفارِ مکہ کی ایک جماعت نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہو کر کہا:بے شک اللہ تعالیٰ نے مختلف مَراحل سے گزار کر ہمیں  پیدا فرمایا، جیسے پہلے ہم نطفہ کی شکل میں  تھے،پھر جما ہوا خون بنے،پھر گوشت کا ٹکڑا بنے ،پھر ہماری ہڈیاں  اور اَعضا وغیرہ بنے۔تخلیق کے ان مراحل کو جاننے کے باوجود آپ یہ کہتے ہیں  کہ ہم سب کوایک ہی گھڑی میں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا!اس پر یہ آیت نازل ہوئی(صاوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۱۶۰۵، ملخصاً) اور اس میں  گویا کہ فرمایا گیا: یہاں  بہت آہستگی سے پیدا فرمانا دوسری حکمتوں  سے ہے نہ کہ رب تعالیٰ کی مجبوری کی بناء پر اور وہاں  ایک دم پیدا فرمانے میں  اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار ہو گا، لہٰذا غائب کو حاضر پر قیاس نہ کرو۔اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ٘-كُلٌّ یَّجْرِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(29)ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا کہ الله رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا ،ہر ایک ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے اوریہ کہ الله تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ الله ہی حق ہے اور اس کے سوا جن کو لوگ پوجتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ الله ہی بلند ی والا، بڑائی والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا۔} یہاں  سے ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلائل بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے ایک موسم میں رات کے کچھ حصے کو کم کر کے دن میں  داخل کردیتا ہے اور ایک موسم میں دن کے کچھ حصے کو بڑھا کر رات میں  داخل کردیتا ہے اور جو وقت ایک میں  سے کم کرتا ہے اسے دوسرے میں  بڑھا دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو بندوں  کے نفع کے لئے کام میں  لگادیا ہے اوران میں  سے ہر ایک ،مقررہ مدت تک اپنی مخصوص رفتار سے چلتارہے گا اورکیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔یہ جو عجائبات بیان ہوئے ان پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے، ا س لئے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا جن کو لوگ پوجتے ہیں  وہ سب باطل اور فنا ہونے والے ہیں ، لہٰذا ان میں  سے کوئی عبادت کا مستحق نہیں  ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت و عظمت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات و صفات میں  بلند ی والا اور بڑائی والا ہے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹۳۰، ۷ / ۹۶۹۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹۳۰، ۳ / ۴۷۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹۳۰، ص۹۲۱، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹۳۰، ص۳۴۸، ملتقطاً)

         یاد رہے کہ آیت نمبر29میں  جو سورج اور چاند کے بارے میں  فرمایا گیا کہ ’’ ہر ایک ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے‘‘اس میں  مقررہ مدت سے مراد قیامت کا دن ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں  اپنے اپنے مُعَیَّن اوقات تک چلتے ہیں  جیسے سورج سال کے آخر تک اور چاند مہینے کے آخر تک چلتا ہے۔( مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۹۲۱)

         نیزخیال رہے کہ اگرچہ بعض کفار انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں  مگر ان بزرگوں  کو باطل نہیں  کہا جاسکتا ،وہ بالکل حق ہیں  البتہ ان کی عبادت کرنا باطل ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’مَا‘‘ ذکر فرمایا ہے اوریہ لفظ عربی زبان میں  بے عقل چیزوں  کے لئے آتا ہے تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جن پتھروں  اور درختوں  وغیرہ بے جان چیزوں  کو لوگ پوجتے ہیں  وہ باطل ہیں ۔ یا یہاں  یہ لفظ مصدر کے معنی میں  ہے یعنی تمہارااللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پوجنا باطل اور جھوٹ ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِیُرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِهٖؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تو نے نہ دیکھا کہ دریا میں کشتی الله کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے بیشک اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے، بڑے شکرگزار کیلئے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کی ایک اور دلیل ذکر کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے سننے والے!کیا تو نے نہ دیکھا کہ دریا میں  کشتی اللہ تعالیٰ کے فضل ،اس کی رحمت اور اس کے احسان سے چلتی  ہے ورنہ اس کے لئے وہاں  ہزارہا آفتیں  موجود ہیں  جو اس کی روانی میں  رکاوٹ بن سکتی اور کشتی کو ڈبو سکتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل اس لئے فرمایا تاکہ وہ تمہیں  اپنی وحدت،قدرت اور علم کے بعض دلائل اور اپنی قدرت کے عجائبات کی کچھ نشانیاں  دکھادے۔ بیشک کشتی کی روانی میں  ہر اس شخص کیلئے نشانیاں  ہیں  جو بلاؤں  پر بڑا صبر کرنے والااور اللہ تعالیٰ کی نعمتو ں  کا بڑا شکر گزار ہو۔ صبر اور شکر یہ دونوں  صفتیں  مومن کی ہیں  تو گویا ارشاد فرمایا’’اس میں  ہر مومن کے لئے نشانیاں  ہیں ۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۷ / ۹۸، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۹۲۲، ملتقطاً)

وَ اِذَا غَشِیَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳛ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوْرٍ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب پہاڑوں جیسی کوئی موج ان پر آپڑتی ہے تو الله ہی پراعتقاد رکھتے ہوئے اسے پکارتے ہیں پھر جب ( الله) انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو ان میں کوئی (ہی) اعتدال پر رہتا ہے اور ہماری آیتوں کا انکار صرف ہر بڑا بے وفا ، ناشکرا ہی کرے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا غَشِیَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ: اور جب پہاڑوں  جیسی کوئی موج ان پر آپڑتی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جب کفار کو سمندری سفرکے دوران پہاڑوں  جیسی موجیں  نیست ونابودکرنے لگتی ہیں  تو وہ اپنے معبودوں  کوچھوڑکر اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْک کوپکارتے ، اس کی بارگاہ میں  گریہ و زاری کرتے اور اسی سے دعا و اِلتجاء کرنے لگتے ہیں  اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک کو بھول جاتے ہیں  اورجب اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی سے صحیح سلامت ساحل پرپہنچ جاتے تو ان میں  سے چند ایک ہی اپنے ایمان اور اخلاص پر قائم رہتے ہیں  ورنہ اکثریت پھر کفر کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت عکرمہ بن ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئی، جس سال مکہ مکرمہ فتح ہوا تو وہ سمندر کی طرف بھاگ گیا، وہاں  مخالف ہوا نے گھیر ااور خطرے میں  پڑگئے تو عکرمہ نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ ہمیں  اس خطرے سے نجات دے تو میں  ضرور دو عالَم کے سردار محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کران کے ہاتھ میں  ہاتھ دے دوں  گا اور ان کی اطاعت کروں  گا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اورہوا ٹھہر گئی ۔ عکرمہ مکہ مکرمہ کی طرف آگئے اور اسلام لائے اور بڑا اخلاص والا اسلام لائے تو یہ اعتدال پر رہنے والے تھے اوران میں  سے بعض ایسے تھے جنہوں  نے عہد پورا نہ کیا،ان کے بارے میں  اگلے جملے میں  ارشاد ہوتا ہے کہ اور ہماری آیتوں  کا انکار صرف ہر بڑا بے وفا ، ناشکرا ہی کرے گا۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۷۴)

ا س سے معلوم ہوا کہ صرف مصیبت میں  اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور آرام میں  بھول جانا کافروں  کا عمل ہے۔اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے کیونکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر حال میں  اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولادکے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک الله کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں الله کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو۔} یعنی اے اہل مکہ !اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور قیامت کے دن سے خوف کرو جس دن ہر انسان نفسی نفسی کہتا ہو گااور باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے کام نہ آ سکے گا ، نہ کافروں  کی مسلمان اولاد انہیں  فائدہ پہنچا سکے گی نہ مسلمان ماں  باپ کافر اولاد کو ۔ بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے ا ورایسا دن ضرور آنا اور دوبارہ زندہ کئے جانے ، اعمال کا حساب لئے جانے اور ان کی جزا دئیے جانے کا وعدہ ضرور پورا ہونا ہے تو دنیا کی زندگی جس کی تمام نعمتیں  اور لذتیں  فانی ہیں  وہ تمہیں  ہرگز دھوکا نہ دے کہ ان نعمتوں  اور لذتوں  کے شیفْتَہ ہو کرایمان کی نعمت سے محروم رہ جاؤ اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا شیطان دور دراز کی امیدوں  میں  ڈال کر تمہیں  اللہ تعالیٰ کے علم پر دھوکے میں  نہ ڈالے اور تمہیں  گناہوں  میں  مبتلا نہ کر دے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۱۰۰۱۰۱، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۴۷۴، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۲۲، ملتقطاً)

         اس آیت میں  یہودیوں  اور عیسائیوں  کے باطل عقائد کابھی رد ہے کہ یہودی کہتے تھے: ہم پیغمبروں  کی اولاد ہیں  اس لیے ہمیں  کوئی عذاب نہ دیاجائے گا،جبکہ عیسائی یہ کہتے تھے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہم سب کی طرف سے کفارہ اداکردیاہے اس لیے ہمیں  بھی کچھ نہیں  ہوگا۔انہیں  یاد رکھنا چاہئے کہ عقیدے کی درستی کے بغیر کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا، ہاں  عقیدہ درست ہوا تو نیک دوست ، نیک والدین، نیک اولاد سب کی طرف سے فائدہ مُتَوَقّع ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک قیامت کا علم الله ہی کے پاس ہے اور وہ بارش اتارتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک الله علم والا، خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ: بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔} شانِ نزول : یہ آیت حارث بن عمرو کے بارے میں  نازل ہوئی جس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کر قیامت کا وقت دریافت کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں  نے کھیتی بوئی ہے، مجھے خبر دیجئے کہ بارش کب آئے گی ؟اور میری عورت حاملہ ہے، مجھے بتائیے کہ اس کے پیٹ میں  کیا ہے ،لڑکایا لڑکی ؟نیزیہ تو مجھے معلوم ہے کہ کل میں  نے کیا کیا،البتہ مجھے یہ بتائیے کہ آئندہ کل کو میں  کیا کروں  گا؟ نیز میں یہ بھی جانتا ہوں  کہ میں  کہاں  پیدا ہوا ،لیکن مجھے یہ بتائیے کہ میں  کہاں  مروں  گا؟ اس کے جواب میں  یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ (روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۴، ۷ / ۱۰۳)

آیت ’’اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ‘‘ سے متعلق اہم کلام:

             اس آیت میں  پانچ چیزوں  کے علم کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیان فرمائی گئی اور مخلوق کو علمِ غیب عطا کئے جانے کے بارے میں  سورہِ جن کی آیت نمبر26اور27 میں  ارشاد ہوا:

’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں  دیتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں  کے۔

            اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ علم ِغیب آیت میں  مذکور پانچ چیزوں  سے متعلق ہو یا کسی اور چیز کے بارے میں،ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے بتادینے سے مخلوق بھی غیب جان سکتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ذاتی علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معجزہ اور کرامت کے طور پرعطا ہوتا ہے ، یہ اس اِختصاص کے مُنافی نہیں  جو آیت میں  بیان ہوا بلکہ اس پر کثیر آیتیں  اور حدیثیں  دلالت کرتی ہیں  ، بارش کا وقت اور حمل میں  کیا ہے اور کل کو کیا کرے گا اور کہاں  مرے گا ان اُمور کی خبریں  اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے بکثرت دی ہیں  اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں  ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرشتوں  نے حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی خبریں  دیں  ،تو ان فرشتوں  کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں  (حمل کی جمع) میں  کیا ہے اور ان حضرات کو بھی جنہیں  فرشتوں  نے اطلاعیں  دی تھیں  اور ان سب کا جاننا قرآنِ کریم سے ثابت ہے، تواس آیت کے معنی قطعاً یہی ہیں  کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیرکوئی نہیں  جانتا ۔ اس کے یہ معنی مراد لینا کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کوئی نہیں  جانتا، محض باطل اور صَدہاآیات و اَحادیث کے خلاف ہے ۔

Scroll to Top