سُوْرَۃُ الزُّخْرُف
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حٰمٓ(1)وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(2)اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
حم۔ روشن کتاب کی قسم۔ ہم نے اسے عربی قرآن اتاراتا کہ تم سمجھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ: روشن کتاب کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ روشن کتاب قرآنِ پاک کی قسم ،جس نے ہدایت اور گمراہی کی راہیں جدا جدا اور واضح کردیں اور اُمت کی تمام شرعی ضروریات کو بیان فرما دیا۔ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتاراتا کہ اے عرب والو! تم اس کے معانی اور اَحکام کو سمجھ سکو۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۱۰۱)
عربی زبان کی فضیلت:
یادرہے کہ قرآنِ پاک کے سوا کوئی آسمانی کتاب عربی زبان میں نہ آئی کیونکہ عرب میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کوئی نبی تشریف نہ لائے،اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان تمام زبانوں سے اشرف ہے کہ اس زبان میں قرآنِ پاک آیا،حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبان عربی تھی،مرنے کے بعد سب کی زبان عربی ہو جاتی ہے، عربی میں ہی قبراور قیامت کا حساب ہو گا اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہو گی۔
وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌﭤ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک وہ ہمارے پاس اصل کتاب میں یقینا بلندی والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا: اور بیشک وہ ہمارے پاس اصل کتاب میں ہے۔} یعنی بے شک قرآن پاک ہمارے پاس سب کتابوں کی بنیاد لوحِ محفوظ میں موجود ہے اور اے اہلِ مکہ !تم اگرچہ قرآنِ پاک کو جھٹلاتے رہو (لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) کیونکہ ہمارے نزدیک ا س کی شان بہت بلند ہے اور یہ تمام کتابوں سے اشرف و اعلیٰ ہے کیونکہ سب اس جیسی کتاب لانے سے عاجز ہیں اور یہ حکمت والا کلام ہے۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۰۱، مدارک، الزخرف، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۹۵، ملتقطاً)
اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا اَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِیْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا ہم تم سے قرآن کا نزول اس لئے روک دیں کہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{ اَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا : تو کیا ہم تم سے قرآن کا نزول روک دیں ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے کفارِ مکہ! تمہارے کفر میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے کیا ہم تمہیں بیکار چھوڑ دیں اور تمہاری طرف سے وحیِ قرآن کا رخ پھیردیں اور تمہیں حکم اور ممانعت کچھ نہ کریں ،(یہ تمہاری بھول ہے) ہم ایسا نہیں کریں گے۔
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر اس وقت یہ قرآنِ پاک اٹھالیا جاتا جب اس اُمت کے پہلے لوگوں نے اس سے اِعراض کیا تھا ،تو وہ سب ہلاک ہوجاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و کرم سے اس قرآن کا نزول جاری رکھا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۰۱)
قربِ قیامت میں قرآنِ مجید اُٹھا لیا جائے گا:
یاد رہے کہ جب قیامت قریب ہو گی تو اس وقت قرآنِ پاک اٹھا لیا جائے گا،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ حجرِ اَسْوَد اور قرآنِ پاک کو اٹھا نہ لیا جائے۔( الجامع الصغیر، حرف لا، ص۵۸۳، الحدیث: ۹۸۵۲)
وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ(6)وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(7)فَاَهْلَكْنَاۤ اَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَّ مَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے کتنے ہی نبی پہلے لوگوں میں بھیجے۔اور ان کے پاس جو نبی آیاوہ اس کا مذاق ہی اڑاتے تھے۔ تو ہم نے اِن سے زیادہ قوت والوں کو ہلاک کردیا اور پہلے لوگوں کا حال گزر چکا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ: اور ہم نے کتنے ہی نبی پہلے لوگوں میں بھیجے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم نے پہلے لوگوں میں کتنے ہی نبی بھیجے لیکن ان کا حال یہ تھا کہ ان کے پاس جو بھی نبی تشریف لایاوہ اس کا مذاق ہی اڑاتے تھے جیسا کہ آپ کی قوم کے لوگ کرتے ہیں ، تو ہم نے ان موجودہ کافروں سے زیادہ قوت والوں اور ہر طرح کی طاقت رکھنے والوں کو ہلاک کردیا، اس لئے آپ کی امت کے لوگ جو سابقہ کفار کی چال چل رہے ہیں ، اُنہیں ڈر جانا چاہیے کہ کہیں اُن کا بھی وہی انجام نہ ہو جو سابقہ کافروں کا ہوا کہ یہ بھی انہی کی طرح ذلت و رسوائی کی سزاؤں سے ہلاک نہ کردئیے جائیں۔اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کی طرف سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اُڑانے کاعمل کوئی آج کا نہیں بلکہ شروع سے ہی ایسا ہوتا چلا آرہا ہے، لہٰذا آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر فرمائیں جیسا کہ آپ سے پہلے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں کی اَذِیَّتوں پر صبر فرمایا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۴ / ۱۰۲، صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۵ / ۱۸۸۶، ملتقطاً)
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ؟تو ضرور کہیں گے: انہیں عزت والے، علم والے نے بنایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کس نے بنائے ہیں ؟تو وہ ضرور اقرار کریں گے کہ آسمان اورزمین کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اور وہ یہ بھی اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ عزت و علم والا ہے، اس اقرار کے باوجود ان کابتوں کی عبادت کرنا اور دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنا کیسی انتہادرجہ کی جہالت ہے۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۰۲)
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ فِیْهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اورتمہارے لیے اس میں راستے بنائے تاکہ تم راہ پاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا: جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اپنی مصنوعات کا ذکر فرمایا اور اپنے اوصاف و شان کا اظہار کیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا (جو کہ پھیلاوے اور ٹھہرے ہوئے ہونے میں بستر کی طرح ہے) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے مُتَحَرِّ ک بنا دیتا لیکن اس صورت میں کوئی چیز اس پر نہ ٹھہرتی اور زمین سے نفع اٹھانا ممکن نہ رہتا تو یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے زمین کو ہموار اور ساکن بنایا، اور ا س نے تمہارے لیے اس زمین میں راستے بنائے تاکہ تم دینی اور دُنْیَوی اُمور کے لئے سفر کے دوران اپنی منزل تک پہنچنے کی راہ پاؤ،اور اگر وہ چاہتا تو زمین کو ا س طرح بند بنا دیتا کہ اس میں کوئی راستہ ہی نہ چھوڑتا ،اگر ایسا ہو جاتا تو ا س صورت میں تمہارے لئے سفر کرنا ہی ممکن نہ رہتا جیساکہ بعض جگہ پہاڑ ہونے کی وجہ سے راستہ بند ہوجاتا ہے اور(زمینی) سفر ممکن نہیں رہتا۔( خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۰۲، صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۵ / ۱۸۸۷، ملتقطاً)
وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍۚ-فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًاۚ-كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جس نے ایک اندازے سے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے ایک مردہ شہر کوزندہ فرمادیا۔ یونہی تم نکالے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ: اور وہ جس نے ایک اندازے سے آسمان سے پانی اتارا۔} ارشاد فرمایا کہ عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تمہاری حاجتوں کی مقدار ایک اندازے سے آسمان سے پانی اتارا، وہ نہ اتنا کم ہے کہ اس سے تمہاری حاجتیں پوری نہ ہوں اور نہ اتنا زیادہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ ہم نے اس بارش سے نباتات سے خالی ایک شہر کوسرسبز فرمادیا اور جس طرح بارش سے مردہ شہر کو زندہ فرمایا یونہی تم اپنی قبروں سے زندہ کرکے نکالے جاؤ گے کیونکہ جو زمین کو بنجر ہو جانے کے بعد پانی کے ذریعے دوبارہ سر سبز و شاداب کرنے پر قادر ہے تو وہ مخلوق کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۰۲، جلالین مع صاوی، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۸۸۷، ملتقطاً)
وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ(12)لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَ(13)وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں ۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر سیدھے ہو کر بیٹھو پھر جب اس پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تواپنے رب کا احسان یاد کرو اور یوں کہو: پاک ہے وہ جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں کردیا اور ہم اسے قابوکرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ: اور جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا۔} یعنی عزت و علم والا اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے مخلوق کی تمام اَقسام کے جوڑے بنائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’اس سے مراد یہ ہے کہ تمام اَنواع کے جوڑے بنائے جیسے میٹھا اور نمکین، سفید اور سیاہ،مُذَکَّر اور مُؤنَّث وغیرہ۔( روح البیان، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۳۵۵)
{وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ: اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں ۔} آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تمہارے لیے کشتیوں اور چوپایوں کی سواریاں بنائیں تاکہ تم خشکی اور تری کے سفر میں کشتیوں کی پشت اور چوپایوں کی پیٹھوں پر سیدھے ہو کر بیٹھو ،پھر جب اس سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ تو دل میں اپنے رب کا احسان یاد کرو اور اپنی زبان سے یوں کہو: وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہمارے قابو میں کردیا اور ہم اسے قابوکرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے اور بیشک ہم آخر کار اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں ۔( خازن،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴،۴ / ۱۰۲، جلالین مع صاوی،الزخرف،تحت الآیۃ:۱۲-۱۴، ۵ / ۱۸۸۸، ملتقطاً)
سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعائیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب سفر میں تشریف لے جاتے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے وقت پہلے تین بار اللہ اَکْبَرْ پڑھتے، پھر یہ آیت پڑھتے ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳) وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ‘‘۔ (اور اس کے بعدیہ دعائیں پڑھتے)۔ ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ فِی سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَ مِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہٗ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَ الْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَہْلِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْ ءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَہْلِ‘‘اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو ان دعاؤں کے ساتھ مزید یہ پڑھتے ’’آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ‘‘۔(مسلم، کتاب الحج، باب ما یقول اذا رکب الی سفر الحجّ وغیرہ، ص۷۰۰، الحدیث: ۴۲۵(۱۳۴۲))
اورحضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا ،میری امت میں سے جو شخص کشتی میں سوار ہوتے وقت یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گا: ’’بِسْمِ اللہ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللہ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاََرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَo بِسْمِ اللہ مَجْرَاہَا وَ مُرْسَاہَا اِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَّحِیمٌ‘‘۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌﭤ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے اللہ کیلئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا (اولاد) قراردیا۔ بیشک آدمی کھلا ناشکرا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا: اور کافروں نے اللہ کیلئے اس کے بندوں میں سے ٹکڑا (اولاد) قرار دیا۔} یعنی کفار نے اس اقرار کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا خالق ہے ،یہ ستم کیا کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتایا اور چونکہ اولاد صاحب ِاولاد کا جز ہوتی ہے، توظالموں نے اللہ تعالیٰ کے لئے جزقرار دے کر کیسا عظیم جرم کیا ہے، بیشک جو آدمی ایسی باتوں کا قائل ہے اس کا کفر ظاہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرناکفر ہے اور کفر سب سے بڑی ناشکری ہے۔(مدارک، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۹۷، جلالین، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۰۶، ملتقطاً)
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا اس نے اپنے لیے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں لیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ خاص کیا؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ: کیا اس نے اپنے لیے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں لیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے سرے سے اولاد محال ہونے کے باوجود اگر بالفرض اس کے لئے اولاد مان لی جائے تو کیا اس نے اپنے لیے اپنی مخلوق میں سے بیٹیاں لیں اور تمہیں خاص طور پر بیٹوں سے نوازا؟ حالانکہ تم بیٹیوں کو بیٹوں سے کم تر سمجھتے ہو تو کیا اس نے کم تر چیز اپنے لئے رکھی اور اعلیٰ چیز تمہیں عطا کی ؟تم کیسے جاہل ہو !
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان میں کسی کو اس چیز کی خوشخبری سنائی جائے جس کے ساتھ اس نے رحمٰن کو متصف کیا ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غم و غصے میں بھرا رہتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا: اور جب ان میں کسی کو اس چیز کی خوشخبری سنائی جائے جس کے ساتھ اس نے رحمٰن کو متصف کیا ہے۔} یعنی کفار جو کہ اولاد سے پاک رب تعالیٰ کے لئے بیٹیا ں ثابت کر رہے ہیں ، بیٹیوں سے نفرت میں ان کا اپنا حال یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کو خوشخبری سنائی جائے کہ تیرے گھرمیں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غم و غصے میں بھرا رہتا ہے۔جب یہ اپنے لئے بیٹیوں کو اس قدر ناگوار سمجھتے ہیں تو اس خدائے پاک کے لئے بیٹیاں بتاتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی۔(خازن، الزخرف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۰۳، ملتقطاً)
بیٹیوں سے نفرت کرنا اور ان کی پیدائش سے گھبرانا کفار کا طریقہ ہے:
کفار کا اپنی بیٹیوں سے نفرت کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ‘‘(سورۃ النحل:۵۸،۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا؟ خبردار! یہ کتنا برا فیصلہ کررہے ہیں ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی پیدائش سے گھبرانا کافروں کا طریقہ ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ بیٹی پیدا ہونے پر گھبرانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور جس عورت کے ہاں پہلی اولاد بیٹی ہو اسے منحوس نہ سمجھیں کیونکہ ایسی عورت برکت والی ہوتی ہے،جیساکہ حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عورت کی برکت یہ ہے کہ ا س سے پہلی بار بیٹی پیدا ہو۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: العلاء، ۵۴۷۳-العلاء بن کثیر ابو سعید، ۴۷ / ۲۲۵)
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا وہ جس کی زیور میں پرورش کی جاتی ہے اور وہ بحث میں صاف بات کرنے والی بھی نہیں ہوتی۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ: اور کیا وہ جس کی زیور میں پرورش کی جاتی ہے۔} اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے پاک ہے اورجب کفار نے اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں بتا کر اس کی اولاد ثابت کی تواللہ تعالیٰ نے ان کی عقل اور فہم کے مطابق کلام فرماتے ہوئے ان کے اس نظریے کو رد فرمایا اوراس آیت میں عورت کے اندر پائے جانے والے دو نقص بیان فرما کر کفارکی کم عقلی اور جہالت کو واضح فرمایا کہ جس میں دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایسے نقص بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد کس طرح ہو سکتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا کیسی جہالت ہے۔اس آیت میں عورت کے جو دو نقص بیان کئے گئے وہ یہ ہیں ۔
(1)…زیور میں پرورش پانا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عورت چاہے کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو لیکن اس میں بچپن سے لے کر جوانی بلکہ بڑھاپے تک زیورات سے آراستہ ہونے کی خواہش اور طلب ضرور پائی جاتی ہے اور اس کے بغیر وہ اپنے حسن کے متعلق احساسِ کمتری محسوس کرتی رہتی ہے اور یہ بات نزاکت کی علامت ہے جو ایک اعتبار سے تو خوبی ہے لیکن ایک اعتبار سے نقص بھی ہے۔
(2)…بحث کے دوران اپنا موقف صاف بیان نہ کرسکنا۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جس طرح بہت سے مرد ذہین ہوتے ہیں اور بحث کے دوران اپنا موقف انتہائی اچھے انداز میں پیش کر سکتے ہیں جبکہ بعض مَردوں میں ذہانت کی کمی اور اپنا موقف اچھے انداز میں پیش کرنے کی خوبی نہیں ہوتی اسی طرح بعض عورتیں بھی انتہائی ذہین ہوتی ہیں اور بحث کے دوران اپنا مَوقِف بڑے اچھے انداز میں بیان کر سکتی ہیں البتہ عورتوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو اس خوبی سے آراستہ نہیں ،بلکہ عموماً جذبات سے جلد مغلوب ہو کر یا سختی کے مقامات پراپنی بات صحیح طریقے سے نہیں کرپاتی لہٰذا مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو بحث کے دوران اپنا مَوقِف صاف اور واضح طور پر بیان نہ کر پانا بھی عورت کا ایک نقص ہے۔
وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًاؕ-اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْؕ-سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ یُسْــٴَـلُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے فرشتوں کو عورتیں ٹھہرایا جو کہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔کیا یہ کفار ان کے بناتے وقت موجودتھے؟اب ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے جواب طلب ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ الَّذِیْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا: اور انہوں نے فرشتوں کو عورتیں ٹھہرایا جو کہ رحمٰن کے بندے ہیں ۔} آیت کے اس حصے اور اس سے اوپر والی آیات کا حاصل یہ ہے کہ بے دینوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتا کراس طرح کفر کا اِرتکاب کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کی اور اس چیز کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جسے وہ خود بہت ہی حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے لئے گوارانہیں کرتے۔ اس کے بعد کفار کا رد فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہر گز نہیں بلکہ وہ اس کے بندے ہیں اور فرشتوں کا مُذَکّر یا مُؤنّث ہونا ایسی چیز تو ہے نہیں جس پر کوئی عقلی دلیل قائم ہوسکے اوراس حوالے سے اُن کے پاس کوئی خبر بھی نہیں آئی جسے وہ نقلی دلیل قرار دے سکیں ، توجو کفار ان کو مُؤنّث قرار دیتے ہیں اُن کا ذریعۂ علم کیا ہے؟ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کے وقت موجود تھے اوراُنہوں نے مشاہدہ کرلیا ہے؟ جب یہ بھی نہیں تو انہیں مُؤنّث کہنامحض جاہلانہ اورگمراہی کی بات ہے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۹، ص۱۰۹۷، ملخصاً)
{سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ:اب ان کی گواہی لکھ لی جائے گی۔} جب کفار نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار سے دریافت فرمایا کہ تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کس طرح کہتے ہو اورتمہارا ذریعہ ٔعلم کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ سچے تھے۔ اس گواہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کفار کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اورآخرت میں ان سے اس کا جواب طلب ہوگا اور اس پر انہیں سزا دی جائے گی۔ (خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۱۰۳)
وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْؕ-مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍۗ-اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَﭤ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورانہوں نے کہا: اگر رحمٰن چاہتا توہم ان (فرشتوں ) کی عبادت نہ کرتے۔ انہیں درحقیقت اس کا کچھ علم ہی نہیں ۔ وہ صرف جھوٹ بول رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ: اورانہوں نے کہا: اگر رحمٰن چاہتا توہم ان (فرشتوں ) کی عبادت نہ کرتے۔} فرشتوں کی عبادت کرنے والے کفار نے کہا کہ اگر رحمٰن چاہتا توہم ان فرشتوں کی عبادت نہ کرتے۔اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر فرشتوں کی عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی نہ ہوتا تو ہم پر عذاب نازل کرتا اور جب عذاب نہیں آیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہی چاہتا ہے ،یہ اُنہوں نے ایسی باطل بات کہی جس سے لازم آتا ہے کہ دنیا میں ہونے والے تما م جرموں سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔اللہ تعالیٰ اُن کے اس نظریے کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’انہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رضا کاکچھ علم ہی نہیں اور وہ صرف جھوٹ بول رہے ہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۰۳-۱۰۴، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۳۶۰، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور رضا میں بہت فرق ہے:
یا درہے کہ اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور رضا میں بہت فرق ہے ،اس کائنات میں ہونے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اورا س کے ا رادے سے ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے راضی ہو اور ہر چیزکے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم فرمائے ،اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہر گز نہیں کہ وہ کفر اورگناہ سے راضی ہو، لہٰذا کفر اورگناہ کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ میرے ان اعمال سے راضی ہے یا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے کفر اور گناہ میں مصروف ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے سعادت اور بد بختی دونوں کے راستے واضح فرما دئیے ہیں اوراسے محض مجبور اور بے بس نہیں بنایا بلکہ ان راستوں میں سے کسی ایک راستے پر چلنے کا اسے اختیار بھی دے دیا ہے ،اب انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے ۔
اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ فَهُمْ بِهٖ مُسْتَمْسِكُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاکیا اس سے پہلے ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ: یاکیا اس سے پہلے ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے۔} یعنی کیا فرشتوں کی عبادت میں اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھنے والوں کو ہم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والے قرآن سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور اس میں غیر ِخدا کی عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے جسے وہ آپ کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں ؟ایسا بھی نہیں کیونکہ عرب شریف میں قرآنِ کریم کے سوا کوئی اللہ تعالیٰ کی کتاب نہ آئی، اور کسی کتابِ الٰہی میں کفر کی اجازت ہو سکتی بھی نہیں ،یہ باطل ہے اور اُن لوگوں کے پاس اس کے سوا بھی کوئی حجت نہیں ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۱۷۶، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ انہوں نے کہا:ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقشِ قدم پر ہی راہ پانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ: بلکہ انہوں نے کہا:ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا۔} یعنی ان کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فرشتوں کی عبادت کرنے کی ان کے پاس صرف یہ دلیل ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم آنکھیں بند کر کے بے سوچے سمجھے ان کی پیروی کرتے ہیں ۔( ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۵ / ۵۴۰، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
شریعت کے مقابلے میں آباؤ اَجداد کے رسم و رواج کی پابندی کرنا بد ترین جرم ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مقابلے میں باپ داداؤں کے رسم و رواج کی پابندی کرنا بد ترین جرم ہے جیسے آج کل بعض مسلمان شادی بیاہ یا مَرگ کے موقع پر ناجائز رسومات صرف اپنے پرانے باپ داداؤں کی پیروی میں مضبوط پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤۙ-اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ(23)قٰلَ اَوَ لَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(24)فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ایسے ہی ہم نے تم سے پہلے جب کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا تووہاں کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقش ِقدم کی ہی پیروی کرنے والے ہیں ۔ نبی نے فرمایا: کیا اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر دین لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ انہوں نے کہا:جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں ۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو دیکھو جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ: اور ایسے ہی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی کے علاوہ شرک کی کوئی اوردلیل نہ دے سکنا صرف آپ کی قوم کے کفار کا ہی خاصہ نہیں بلکہ ہم نے آپ سے پہلے جب کسی شہر میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی ڈر سنانے والا بھیجا تووہاں کے خوشحال مالداروں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کے نقشِ قدم کی ہی پیروی کرنے والے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کی اندھے بن کرپیروی کرناکفار کا پرانامرض ہے اور انہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کی پیروی کرنے کے لئے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ خود سیدھی راہ پر ہو، چنانچہ جب کسی نبی سے فرمایا گیا کہ اپنی قوم کے کفار سے کہیں :کیا تم اپنے باپ دادا کے دین پر ہی چلو گے اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر دین لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟تو انہوں نے ا س بات کے جواب میں کہا:جس دین کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں اگرچہ تمہارا دین حق و صواب ہو، مگر ہم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑنے والے نہیں چاہے وہ کیسا ہی ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’جب یہ اپنے شرک پر ہی ڈٹے رہے تو ہم نے رسولوں کے نہ ماننے والوں اور اُنہیں جھٹلانے والوں سے بدلہ لیا تو اے کافرو! تم دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳- ۲۵، ۴ / ۱۰۴، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ص۱۰۹۸-۱۰۹۹، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۵، ۸ / ۳۶۱-۳۶۲، ملتقطاً)
مال کا وبال:
خوش حال اورمالدار کفار کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کی کثرت ،دنیا کی رنگینیوں اورعیش و نشاط کی وجہ سے انسان اپنی آخرت کے معاملے میں غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور ا س کی نگاہوں میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی وقعت اور ان کی بات کی ا ہمیت بہت کم ہو جاتی ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو دولت مندوں کی عزت کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کو حقیر سمجھتے ہیں ،قرآنِ پاک کی ان آیات پر توعمل کرتے ہیں جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں لیکن خواہشات کے خلاف آیتوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس صورت میں وہ قرآن کی بعض آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض آیتوں کاانکار کرتے ہیں ۔اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں محنت کے بغیر حاصل ہو جائے گی اور وہ ان کی تقدیر اور ان کے حصے کا رزق ہے جبکہ ا س چیز کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس میں محنت کرنی پڑتی ہے۔( معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۳، الحدیث: ۱۰۴۳۲) اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال کے وبال سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ(26)اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّهٗ سَیَهْدِیْنِ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: میں تمہارے معبودو ں سے بیزار ہوں ۔ مگر وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو ضرور وہ جلد مجھے راستہ دکھائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ: اور جب ابراہیم نے فرمایا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ ان کے پاس اپنے شرک کے جواز کی دلیل صرف اپنے آباء و اَجداد کی پیروی ہے اوراس آیت سے اہل ِعرب کے جد ِاعلیٰ، حضرتِ ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کئے گئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب جھوٹے معبودوں کی عبادت کرنے سے انکار کر دیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور صرف اسی کی عبادت پر قائم رہے تاکہ اہلِ عرب اپنے جد ِاعلیٰ کے دین کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے آباء میں سب سے زیادہ مُعَزَّز ہیں اور وہ سب ان سے محبت کرتے ہیں تو جس طرح انہوں نے بتوں کی عبادت کرنے میں اپنے آباء کی پیروی نہیں کی تو اسی طرح انہیں بھی چاہئے کہ وہ (بت پرستی کرنے میں ) اپنے قریبی آباء و اَجداد کی پیروی چھوڑ دینے میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کریں اور دین ِحق کی اتباع کرنے کی طرف لوٹ آئیں۔
اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو کفار اپنے آباء و اَجداد کی پیروی پر اَڑے ہوئے ہیں ، انہیں وہ وقت یاد دلائیں جب ان کے جد ِاعلیٰ،حضرتِ ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آگ سے نکلنے کے بعد بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عُرفی باپ یعنی چچا آزَر اور اپنی قوم سے فرمایا: میں تمہارے معبودو ں سے بیزار ہوں اور میں صرف اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا تو ضرور وہ جلد مجھے میری ہجرت گاہ کی طرف راستہ دکھائے گا جہاں جا کر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرسکوں ۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۹ / ۶۲۸-۶۲۹، البحر المحیط، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۸ / ۱۳، ابو سعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۵ / ۵۴۰-۵۴۱، ملتقطاً)
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورابراہیم نے اس کلمہ کو اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا تاکہ وہ رجوع کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ: اورابراہیم نے اس کو اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنادیا۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توحید کا جو کلمہ فرمایا تھا کہ میں تمہارے معبودوں سے بیزار ہوں سوائے اس کے جس نے مجھے پیدا کیا،آپ نے اسے اپنی نسل میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا چنانچہ آپ کی اولاد میں توحید کا اقرار کرنے والے اور توحید کی دعوت دینے والے ہمیشہ رہیں گے ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے باقی رہنے والا کلمہ اس لئے بنایا تاکہ ان کی نسل میں سے جو شرک کرے وہ توحید کی دعوت دینے والے کی بات سن کر شرک سے باز آ جائے اور اس توحید کے کلمہ کی طرف لوٹ آئے اور دینِ حق قبول کر لے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۹۹)
حضرت صدرُالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ یہاں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمانے میں تنبیہ ہے کہ اے اہلِ مکہ ! اگر تمہیں اپنے باپ دادا کا اِتباع(یعنی پیروی) کرنا ہی ہے تو تمہارے آباء میں جو سب سے بہتر ہیں ( یعنی) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کااتباع کرو اور شرک چھوڑ دو اور یہ بھی دیکھو کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو راہِ راست پر نہیں پایا تو ان سے بیزاری کا اعلان فرمادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو باپ دادا راہِ راست پر ہوں دینِ حق رکھتے ہوں ان کا اتباع کیا جائے اور جو باطل پر ہوں ،گمراہی میں ہوں ان کے طریقہ سے بیزاری کا اعلان کیا جائے۔( خزائن العرفان، الزخرف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۹۰۳)
بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ(29)وَ لَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ وَّ اِنَّا بِهٖ كٰفِرُوْنَ(30)وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے فائدے دئیے یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف بتانے والا رسول تشریف لایا۔ اور جب ان کے پاس حق آیاتوکہنے لگے :یہ جادو ہے اور بیشک ہم اس کے منکر ہیں ۔ اور کہنے لگے: ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پریہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا؟
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ: بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے فائدے دئیے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی نسل کے لوگوں سے جو امید کی تھی وہ پوری نہ ہوئی بلکہ میں نے ابراہیم کی نسل میں سے اِن کفارِ مکہ کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا کے فائدے دئیے کہ انہیں لمبی عمریں عطا فرمائیں اور ان کے کفر کے باعث ان پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہ کی ،یہاں تک کہ ان کے پاس قرآنِ پاک اور صاف بتانے والے رسول ، اَنبیاء کے سردار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روشن ترین آیات و معجزات کے ساتھ رونق افروز ہوئے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے شرعی اَحکام واضح طور پر بیان فرمائے۔ ہمارے اس انعام کا حق یہ تھا کہ وہ لوگ اس رسولِ مُکَرَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ جب ان کے پاس قرآن آیاتو اس کے بارے کہنے لگے کہ یہ توجادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں جبکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کہنے لگے کہ ان پر قرآن کیو ں اترا؟ ان دو شہروں مکہ اور طائف میں رہنے والوں میں سے کسی بڑے آدمی جومال و دولت اور غلاموں کی کثرت رکھتاہواس پریہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا؟اس بڑے آدمی سے مراد مکہ مکرمہ میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔( روح البیان،الزّخرف،تحت الآیۃ:۲۹-۳۱، ۸ / ۳۶۴-۳۶۵، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۱، ۴ / ۱۰۴، ملتقطاً)
اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ-نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ-وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی (بھی) ہم نے ہی تقسیم کی ہے اور ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندکیا ہے تاکہ ان میں ایک دوسرے کو اپنا خادم بنائے اور تمہارے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ: کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ؟} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت وہ کفار بانٹتے ہیں کہ ان کی خواہش کے مطابق رسول بنایا جائے اور کیا نبوت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ جس کو چاہیں دے دیں ؟ جب ایساہر گز نہیں ہے تو یہ کس قدر جاہلانہ بات کہتے ہیں ،انہیں ذرا غور کرنا چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی بھی ہم نے ہی تقسیم کی ہے اور ان میں سے کسی کو مالدار اورکسی کو فقیر،کسی کو مالک اورکسی کو غلام، کسی کو طاقتور اور کسی کو کمزور ہم نے ہی بنایا ہے، مخلوق میں کوئی ہمارے حکم کو بدلنے اور ہماری تقدیر سے باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا ،تو جب دنیا جیسی قلیل چیز میں کسی کو اعتراض کرنے کی مجال نہیں تو نبوت جیسے منصب ِعالی میں کیا کسی کو دَم مارنے کا موقع ہے؟ ہم جسے چاہتے ہیں غنی کرتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں مخدوم بناتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں خادم بناتے ہیں ، جسے چاہتے ہیں نبی بناتے ہیں ،جسے چاہتے ہیں امتی بناتے ہیں ، کیا کوئی اپنی قابلیت سے امیر ہوجاتا ہے ؟ہر گز نہیں ،بلکہ یہ ہماری عطاہے اور جسے ہم چاہیں امیر کریں ۔ ہم نے مال ودولت میں لوگوں کو ایک جیسا نہیں کیا تاکہ ایک دوسرے سے مال کے ذریعے خدمت لے اور دنیا کا نظام مضبوط ہو، غریب کو ذریعۂ معاش ہاتھ آئے اور مالدار کو کام کرنے والے اَفراد مُہَیّاہوں ، تو اس پر کون اعتراض کرسکتا ہے کہ فلاں کو مالدار اور فلاں کو فقیر کیوں کیا اور جب دُنْیَوی اُمور میں کوئی شخص دَم نہیں مارسکتا تو نبوت جیسے رتبہ ِعالی میں کسی کو کیا تاب ِسخن اور اعتراض کا کیا حق ہے، اُس کی مرضی جس کو چاہے نبوت سے سرفراز فرمائے۔ اوراے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت یعنی جنت اس مال ودولت سے بہتر ہے جو کفار دنیا میں جمع کرکے رکھتے ہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۰۴-۱۰۵)
نبوت عطا فرمانے کا اختیار صرف خدا کے پاس ہے اور اس نے اپنے اختیار سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آخری نبی بنادیا ہے اور اس کا قرآن میں اعلان بھی فرمادیا لہٰذا اب کوئی دوسرا شخص نبوت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَ(33)وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِـٴُـوْنَ(34)وَ زُخْرُفًاؕ-وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ (کافروں کی) ایک جماعت ہوجائیں گے تو ہم ضرور رحمٰن کے منکروں کے لیے ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے جن پر وہ چڑھتے۔ اور ان کے گھروں کے لیے (چاندی کے) دروازے اور تخت بنادیتے جن پر وہ تکیہ لگاتے۔ اور(یہ چیزیں ان کیلئے)سونا(بھی بنادیتے) اوریہ جو کچھ ہے سب دنیاوی زندگی ہی کا سامان ہے اور آخرت تمہارے رب کے پاس پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً: اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ (کافروں کی) ایک جماعت ہوجائیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس بات کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کے مال و دولت کی کثرت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر سب لوگ کافر ہوجائیں گے تو ہم ضرور کافروں کو اتنا سونا چاندی دیدیتے کہ وہ انہیں پہننے کے علاوہ ان سے اپنے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے جن پر وہ چڑھتے اور وہ اپنے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے بناتے اور بیٹھنے کے لئے چاندی کے تخت بناتے جن پر ٹیک لگا کر بیٹھتے اور وہ طرح طرح کی آرائش کرتے، کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں ، یہ بہت جلد زائل ہونے والا ہے اوریہ جو کچھ ہے سب دُنْیَوی زندگی ہی کا سامان ہے جس سے انسان بہت تھوڑا عرصہ فائدہ اٹھا سکے گا اور آخرت تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس ان پرہیزگاروں کے لیے ہے جنہیں دنیا کی چاہت نہیں ۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۵، ۴ / ۱۰۵)
کفار کا مال و دولت اور عیش و عشرت دیکھ کر مسلمانوں کا حال:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہو ا کہ کافروں کے مال و دولت اور عیش و عشرت کی بہتات دیکھ کر لوگ کافر ہوسکتے ہیں ۔ ا س کی صداقت آج کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے ،گو کہ سبھی کافروں کا مال و دولت اور عیش و عشرت اس مقام تک نہیں پہنچا کہ وہ چاندی سے اپنے گھروں کی تعمیرات شروع کر دیں لیکن اس وقت جو کچھ ان کے پاس موجود ہے اس کی چمک دمک دیکھ کرکچھ مسلمان اپنا دین چھوڑ چکے ہیں ،کچھ اس کی تیاری میں ہیں اورکچھ مسلمان کہلانے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ کافروں کی دُنْیَوی ترقی دیکھ کردینِ اسلام سے ناراض دکھائی دیتے اور خود پر کافروں کے طور طریقے مُسلَّط کئے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔یاد رہے کہ دنیا کا عیش و عشرت اور اس کا سازوسامان عارضی ہے جو کہ ایک دن ضرور ختم ہو جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔ (دنیا کی زندگی ایسی ہے) جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگتا ہے پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا(بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب (بھی) ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اور ارشادفرماتا ہے: ’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷)وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًا‘‘(کہف:۷،۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔ اور بیشک جو کچھ زمین پر ہے (قیامت کے دن) ہم اسے خشک میدان بنادیں گے (جس پر کوئی رونق نہیں ہوتی۔)
لہٰذا مسلمانوں کو دنیا کے عیش عشرت اور مال و دولت کی طرف راغب نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اپنے حق میں ایک آزمائش یقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش و مغفرت کا پروانہ پانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک کوشش کرنی چاہئے ،جیساکہ دنیا کی فَنائِیَّت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘‘(حدید:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اور اس پر اِستقامت پانے کے لئے ا س حقیقت کو اپنے پیش ِنظر رکھنا چاہئے کہ دنیا کا جتنا سازو سامان اور جتنی عیش و عشرت ہے، ا س سب کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مچھر کے پر جتنی بھی حیثیت نہیں ،جیساکہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگراللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی قدررکھتی توکافرکو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ دیتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۳، الحدیث: ۲۳۲۷)
اور حضرت مُستَورِد بن شداد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نیاز مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک مردہ بکری دیکھی تو ارشاد فرمایا: ’’تم دیکھ رہے ہو کہ اس کے مالکوں نے اسے بہت بے قدری سے پھینک دیا، دنیا کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی قدر نہیں جتنی بکری والوں کے نزدیک اس مری ہوئی بکری کی ہو۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ہوان الدّنیا علی اللّٰہ، ۴ / ۱۴۴، الحدیث: ۲۳۲۸)
اور جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی یہ حیثیت ہے تو دنیا کا مال و دولت اور عیش و عشرت نہ ملنے پر کسی مسلمان کو غمزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے شکر کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس چیز سے بچا لیا جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں ۔ حضرت قتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر کرم فرماتا ہے تو اُسے دنیا سے ایسا بچاتا ہے جیسا تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاتے ہو۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ما جاء فی الحمیۃ، ۴ / ۴، الحدیث: ۲۰۴۴)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۱(۲۹۵۶))
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حیثیت اور حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کافروں کے مال و دولت کی چمک سے مُتَأثِّر ہونے کی بجائے دینِ اسلام کے دئیے ہوئے اَحکام اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی دنیا و آخرت دونوں کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی رہتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ: اور جو رحمٰن کے ذکر سے منہ پھیرے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو قرآنِ پاک سے اس طرح اندھا بن جائے کہ نہ اس کی ہدایتوں کو دیکھے اور نہ ان سے فائدہ اٹھائے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں اوروہ شیطان دنیامیں بھی اندھا بننے والے کا ساتھی رہتا ہے کہ اسے حلال کاموں سے روکتا اور حرام کاموں کی ترغیب دیتا ہے،اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منع کرتا اور اس کی نافرمانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا ساتھی ہو گا۔( صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۹۴-۱۸۹۵، ملتقطاً)
دوسری تفسیریہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس طرح اِعراض کرے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بے خوف ہو جائے اور اس کے عذاب سے نہ ڈرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اسے گمراہ کرتا رہتا ہے اور وہ اس شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱۱ / ۱۸۸)
تیسری تفسیر یہ ہے کہ جو دُنْیَوی زندگی کی لذّتوں اور آسائشوں میں زیادہ مشغولیّت اورا س کی فانی نعمتوں اور نفسانی خواہشات میں اِنہماک کی وجہ سے قرآن سے منہ پھیرے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں اور وہ شیطان اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا رہتا ہے۔ (ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۵۴۳)
قرآن سے منہ پھیرنے والے کا ساتھی شیطان ہو گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن سے منہ پھیرنے والے کافر کا شیطان ساتھی بنا دیا جاتا ہے اورشیطان کو کافروں کا ساتھی بنانے سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ قَیَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوْا لَهُمْ مَّا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِۚ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ‘‘(حم السجدہ:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے کافروں کیلئے کچھ ساتھی مقرر کردئیے توانہوں نے ان کیلئے ان کے آگے اور ان کے پیچھے کو خوبصورت بنا دیا۔ ان پر بات پوری ہوگئی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پرثابت ہوچکی ہے۔ بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شَر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتا ہے تو وہ جب بھی کسی نیک کام کو دیکھتا ہے وہ اسے برا معلوم ہوتاہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور جب بھی وہ کسی برے کام کو دیکھتا ہے تو وہ اسے اچھا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرلیتا ہے۔( مسندالفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۹۴۸)
البتہ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جہاں کفار کے لئے وعید ہے وہیں ہمارے معاشرے کے ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دنیا کی زیب و زینت ، اس کی چمک دمک اور مال و دولت کے حصول میں حد درجہ مصروفیَّت کی وجہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے او ر ا س پر عمل کرنے سے محروم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور قرآنِ مجید سے تعلق قائم رکھا رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
یاد رہے کہ زیرِ تفسیر آیت میں جس شیطان کا ذکر ہے یہ اس شیطان کے علاوہ ہے جس کا ذکر درج ذیل حدیثِ پاک میں ہے،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ مُسلَّط کر دیا گیا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے ساتھ بھی؟ارشاد فرمایا: ’’میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شیطا ن کے مقابلے میں میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا،اب وہ مجھے اچھی بات کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتا۔(مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان… الخ، ص۱۵۱۲، الحدیث: ۶۹(۲۸۱۴))
برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برا ساتھی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اوراچھا ساتھی نصیب ہونا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اچھے اور برے ساتھی کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اور برے ہم نشین کی مثال ایسے ہے جیسے مشک اٹھانے والا اور بھٹی پھونکنے والا۔ ان میں سے جو مشک اٹھائے ہوئے ہے(اس کے ساتھ رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ ) وہ تجھے اس میں سے دے گا یا تو ا س سے خرید لے گا یا تجھے مشک کی خوشبو پہنچے گی اور جو بھٹی پھونکنے والا ہے (اس کے ساتھ رہنے کا نقصان یہ ہے کہ) وہ تیرے کپڑے جلا دے گا یا تجھے بُری بو پہنچے گی۔( بخاری، کتاب الذبائح والصید… الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۷، الحدیث: ۵۵۳۴)
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: فاجر سے بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور(اسی طرح) اَحمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے ،اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر اور جھوٹے سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گا،وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علیّ، علیّ بن ابی طالب… الخ، ۴۲ / ۵۱۶)
اللہ تعالیٰ دنیا میں ہمیں اچھے اور نیک ساتھی عطا فرمائے اور برے ساتھیوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک وہ شیاطین ان کو راستے سے روکتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ: اور بیشک وہ شیاطین ان کو راستے سے روکتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ شَیاطین قرآنِ پاک سے منہ موڑنے والوں کو اس راستے سے روکتے ہیں جس کی طرف قرآن بلاتا ہے اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہ ہونے کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔( ابوسعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۵۴۳، ملخصاً) تو جس کی گمراہی کا یہ حال ہو ا س کے راہِ راست پر آنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے تو (تُو) کتنا ہی برا ساتھی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا: یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا۔} یعنی قرآن سے منہ پھیرنے والے کفار، شیطان کے ساتھی ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی شیطان کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا تووہ شیطان کو مُخاطَب کر کے کہے گا:اے میرے ساتھی! اے کاش! میرے اور تیرے درمیان اتنی دوری ہو جائے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے کہ جس طرح وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اکٹھے نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں اورتو میرا کتنا ہی برا ساتھی ہے۔( جلالین مع صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۸۹۵-۱۸۹۶)
حضرت سعید جریری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ قیامت کے دن جب کافر کو اس کی قبر سے اٹھایا جائے گا تو شیطان اس کا ہاتھ تھام لے گا،وہ شیطان اس کے ساتھ ہی رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ دونوں کو جہنم میں جانے کا حکم فرما دے گا،اس وقت کافر کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے توتُو کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۱۱ / ۱۸۹)
وَ لَنْ یَّنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّكُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آج ہرگز تمہیں یہ چیزنفع نہیں دے گی کہ تم سب عذاب میں شریک ہوجبکہ تم نے ظلم کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَنْ یَّنْفَعَكُمُ الْیَوْمَ: اور آج ہرگز تمہیں یہ چیز نفع نہیں دے گی۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والو! تمہارا یہ حسرت و افسوس کرناآج ہرگز تمہیں نفع نہیں دے گا کیونکہ آج ظاہر اور ثابت ہوگیا کہ دنیا میں شرک کرکے تم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اب تم اور تمہارے ساتھی شَیاطین سب اسی طرح عذاب میں شریک ہیں جیسے دنیا میں اکٹھے تھے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے کافرو!تمہارا اور تمہارے ساتھی شیطانوں کا عذاب میں اکٹھے ہونا آج تمہیں ہر گز نفع نہیں دے گا اور نہ ہی تم سے کچھ عذاب ہلکا کیا جائے گا کیونکہ کفار اور ان کے شیطانوں میں سے ہر ایک کے لئے اپنا اپنا عذاب کا وافر حصہ ہے۔(خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۱۰۶، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۴۰۸، ملتقطاً)
اَفَاَنْتَ تُسْمِــعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا تم بہروں کو سناؤ گے یا اندھوں کو راہ دکھاؤ گے اور انہیں جو کھلی گمراہی میں ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ: توکیا تم بہروں کو سناؤ گے؟} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی قوم کو دین کی دعوت دینے میں بہت کوشش فرماتے لیکن کفارِ مکہ اسلام قبول کرنے کی بجائے اپنے کفر اور سر کشی میں مزید ہٹ دھرم ہو رہے تھے،ان کی ہٹ دھرمی دیکھ کر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَفْسُردَہ ہو جاتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کفار آپ سے اور آپ کے دین سے نفرت کرنے میں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جب وہ قرآن سنتے ہیں تو بہروں کی طرح ہو جاتے ہیں اور جب آپ کے معجزات دیکھتے ہیں تو وہ اندھوں کی طرح ہو جاتے ہیں ،ان کے اندھا اور بہرہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کھلی گمراہی میں ہیں ،لہٰذ آپ ان دل کے بہروں کو نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ قرآن سن کر اسے قبول کرنے والے کان ہی نہیں رکھتے اور آپ ان دل کے اندھوں کوہدایت کی راہ نہیں دکھا سکتے کیونکہ یہ حق بات دیکھنے والی آنکھ ہی سے محروم ہیں اور آپ ان لوگوں کو سنا اور دکھا نہیں سکتے جو کھلی گمراہی میں ہیں کیونکہ ان کے نصیب میں ایمان نہیں۔(تفسیرکبیر ، الزّخرف ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۹ / ۶۳۴ ، مدارک ، الزّخرف ، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۱۰۱، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۱۰۶، ملتقطاً)
فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ(41)اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اگر ہم تمہیں لے جائیں تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے۔ یا ہم تمہیں دکھادیں جس کا انہیں ہم نے وعدہ دیا ہے تو ہم ان پر بڑی قدرت والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ: تو اگر ہم تمہیں لے جائیں ۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت دل کے بہروں اور اندھوں پر اثر نہیں کرتی جبکہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کفار کے لئے دنیا اور آخرت کے عذاب کی وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم کفارِ مکہ کو عذاب دینے سے پہلے آپ کو وفات دے دیں توآپ کے بعد ہم ان سے ضرور بدلہ لیں گے یا آپ کی زندگی میں ہی ان پر ہونے والا وہ عذاب آپ کودکھادیں گے جس کا انہیں ہم نے وعدہ دیا ہے کیونکہ ہم جب چاہیں انہیں عذاب دینے پر بڑی قدرت رکھنے والے ہیں۔( تفسیرکبیر،الزّخرف،تحت الآیۃ:۴۱-۴۲،۹ / ۶۳۴، خازن،الزّخرف،تحت الآیۃ:۴۱-۴۲، ۴ / ۱۰۶، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِیْۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَۚ-اِنَّكَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اسے مضبوطی سے تھامے رکھو جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِیْۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ: تو اسے مضبوطی سے تھامے رکھو جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔} رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ (کفار کی سرکشی پر رنجیدہ نہ ہوں بلکہ)ہماری کتاب قرآنِ پاک کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ر ہیں بے شک آپ اس دین پر ہیں جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۳، ۹ / ۶۳۴، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)
قرآنِ مجید میں اور مقامات پر بھی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے احکامات کی پیروی کرتے رہنے کاحکم دیا گیا اور آپ کے سیدھی راہ پر ہونے کے بارے میں بیان فرمایا گیاہے،چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘(انعام:۱۰۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے منہ پھیر لو۔
اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سیدھی راہ پر ہونے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(حج:۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔
اور حضورِاَ قدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ صرف خود سیدھے راستے پر ہیں بلکہ سیدھے راستے کے راہنما بھی ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘(شوریٰ:۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم ضرور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہو۔
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَۚ-وَ سَوْفَ تُسْــٴَـلُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور(اے حبیب!) بیشک یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کیلئے شرف وبزرگی ہے اور (اے لوگو!) عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ: اور بیشک یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کیلئے شرف و بزرگی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ قرآن آپ کے لئے بطورِ خاص عظیم شرف کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت اور حکمت عطا فرمائی اور عمومی طور پر آپ کی امت کے لئے بھی عظمت کا سبب ہے کہ انہیں اس سے ہدایت فرمائی اوراے لوگو! عنقریب قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے قرآن کا کیا حق ادا کیا، اس کی کیا تعظیم کی اور اس نعمت کا کیا شکر بجالائے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۱۰۱، ملتقطاً)
مسلمانوں کی عظمت و نامْوَری کا ذریعہ اور مسلمانوں کا حال:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید وہ عظیم الشّان کتاب ہے جو اس امت کی عظمت،نامْوَری اور چرچے کا ذریعہ ہے،اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
اس کے ذریعے عظمت اور نامْوَری اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اس کے اَحکام اور ا س کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ،اگر تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روشن دن سے بھی زیادہ واضح نظر آئے گی کہ دینِ اسلام کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کو دنیا میں جو عظمت ملی ، دنیا جہاں میں ان کا سکہ چلا اور دبدبہ بیٹھا اور ہر طرف ان کی نیک نامی کا جو چرچا ہوا، اس کا بنیادی سبب قرآنِ مجید سے والہانہ وابَستگی،اس کے احکامات اور تعلیمات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھنا اور مشکل ترین حالات میں بھی ان پر عمل پیرا رہنا تھا اور فی زمانہ مسلمان دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار نظر آ رہے ہیں اس کی بہت بڑی وجہ قرآنِ مجید سے ان کی وابَستگی ختم ہو جانا ،اس کے احکامات کی پرواہ نہ کرنا اور ان پر عمل چھوڑ دینا ہے، بلکہ قرآنِ کریم سے ان کی دوری کا یہ حال ہے کہ مسلمانوں کی ایک تعدادکو قرآنِ مجید کے دئیے ہوئے احکامات اور اس کی روشن تعلیمات کی خبر تک نہیں ہے حتّٰی کہ صرف قرآنِ مجید کا عربی متن پڑھنے کا کہا جائے تو وہ تک انہیں صحیح پڑھنا نہیں آتا،گھروں میں ہفتوں اور مہینوں قرآنِ مجید سنہری کپڑوں میں ملبوس پڑا رہتا ہے اور موقع ملنے پر اس سے گَرد وغیرہ کی تہ صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے ۔اے کاش!
درسِ قرآں ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت
شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلہ ہے
فریاد ہے اے کشتیِ اُمت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کر لے کہ ا س نے قرآنِ مجید کا کتنا حق ادا کیا،قرآن کی کیا تعظیم کی ، اس نعمت کا کتنا شکر بجا لایا اور اس کے احکامات اور تعلیمات پر کس قدر عمل کیا۔
وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورجو ہم نے تم سے پہلے اپنے رسول بھیجے ان سے پوچھو کہ کیا ہم نے رحمٰن کے سوا کچھ اور معبود مقرر کئے ہیں جن کی عبادت کی جائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا: اور جو ہم نے تم سے پہلے اپنے رسول بھیجے ان سے پوچھو۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے اَدیان اور ان کی ملتوں کو تلاش کرو کہ کیا کہیں بھی اور کسی بھی نبی کی اُمت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے ان سے دریافت کرو کہ کیا کبھی کسی نبی نے غَیْرُاللہ کی عبادت کی اجازت دی تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی اور نہ کسی کتاب میں آئی ۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توحید کی دعوت دیتے آئے اور سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی ، اور تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے توحید کی دعوت دیتے رہنے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
’’وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ‘‘(نحل:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ (اے لوگو!) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(46)فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَضْحَكُوْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو موسیٰ نے فرمایا: بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہان کا مالک ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیاں لایا توجبھی وہ ان پر ہنسنے لگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔} اس مقام پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ دوبارہ بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش کی گفتگو کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کی قوم نے جیسا سلوک کیا کہ مال کی کمی اور معاشرے میں ان کی نظر میں مقام نہ ہونے پر عار دلایا، ویسا سلوک حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے بھی ان کے ساتھ کیا تھا،انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفار کی یہ رَوِش کوئی آج کی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے پاس پہنچے تو فرمایا: بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہان کا مالک ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا اور ید ِبیضا،ایسی وہ نشانیاں دکھائیں جو آپ کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں تو وہ ان نشانیوں میں غورو فکر کرنے کی بجائے الٹا ہنسنے اور مذاق اڑانے لگ گئے اور انہیں جادو بتانے لگے۔( صاوی ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۴۶-۴۷ ، ۵ / ۱۸۹۷- ۱۸۹۸ ، ابن کثیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۶-۴۷، ۷ / ۲۱۱، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۶-۴۷، ص۱۱۰۲، ملتقطاً)
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا٘-وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی نشانی) سے بڑی ہی ہوتی اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا تاکہ وہ بازآجائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا: اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی نشانی) سے بڑی ہی ہوتی۔} یعنی ہر ایک نشانی اپنی خصوصیت میں دوسری سے بڑھ چڑھ کرتھی، مراد یہ ہے کہ ایک سے ایک اعلیٰ تھی۔
{وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ: اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا۔} یعنی جب فرعون اور اس کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے بازآجائیں اور کفر چھوڑ کر ایمان کو اختیار کر لیں ۔یہ عذاب قحط سالی ، طوفان اور ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے، یہ سب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیاں تھیں جو اُن کی نبوت پر دلالت کرتی تھیں اور ان میں ایک سے ایک بلندو بالاتھی۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۴ / ۱۰۷)
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-اِنَّنَا لَمُهْتَدُوْنَ(49)فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے کہا: اے جادوکے علم والے ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، اُس عہد کے سبب جو اس نے تم سے کیا ہے ۔بیشک ہم ہدایت پر آجائیں گے۔ پھر جب ہم نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی وقت انہوں نے عہد توڑدیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے عذاب دیکھا تو انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’اے جادو کے علم والے!‘‘ یہ کلمہ اُن کے عرف اور مُحاورہ میں بہت تعظیم وتکریم کا تھا، وہ لوگ عالِم، ماہر، حاذِق، اور کامل کو جادوگر کہا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ اُن کی نظر میں جادو کی بہت عظمت تھی اور وہ اسے قابلِ تعریف و صف سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اِلتجا کے وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کلمہ سے ندا کی اورکہا: تم سے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے عہد کیا ہے کہ تمہاری دعا مقبول ہے اور ایمان لانے والوں اور ہدایت قبول کرنے والوں پر سے اللہ تعالیٰ عذاب اٹھا لے گا، اس عہد کے سبب ہمارے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کروکہ ہم سے یہ عذاب دور کر دے، بیشک ہم ہدایت پر آجائیں گے اور ایمان قبول کر لیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اُن پر سے عذاب اٹھالیا گیا، جب اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی وقت انہوں نے اپنا عہد توڑدیا اور ایمان قبول کرنے کی بجائے اپنے کفر پر ہی اَڑے رہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۰۷، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۰۲، ملتقطاً)
وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْۚ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَﭤ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کرکے کہا: اے میری قوم!کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں ہے اوریہ نہریں جومیرے نیچے بہتی ہیں ؟ تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ: اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کرکے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں فرعون اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مابین ہونے والامعاملہ بیان کیا گیا اور اس آیت سے فرعون اور ا س کی قوم کے مابین ہونے والا معاملہ ذکر کیا جارہا ہے۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے اپنی قوم میں بڑے فخر کے ساتھ اعلان کرکے کہا: اے میری قوم!کیا مصر کی بادشاہت اور میرے محل کے نیچے بہنے والی دریائے نیل سے نکلی ہوئی بڑی بڑی نہریں میری نہیں ہیں ؟ تو کیا تم میری عظمت و قوت اور شان و سَطْوَت دیکھتے نہیں ؟
اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے جب یہ آیت پڑھی اور مصر کی حکومت پر فرعون کا غرور دیکھا تو کہا ’’ میں وہ مصر اپنے ایک ادنیٰ غلام کو دے دوں گا، چنانچہ اُنہوں نے ملک ِمصر خصیب کو دے دیا جو اُن کا غلام تھا اور وضو کرانے کی خدمت پر مامور تھا۔(تفسیرکبیر ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۵۱ ، ۹ / ۶۳۷ ، خازن ، الزّخرف ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۰۷، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۱۰۲-۱۱۰۳، ملتقطاً)
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ ﳔ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا میں اس سے بہتر ہوں جو معمولی سا آدمی ہے اور صاف طریقے سے باتیں کرتا معلوم نہیں ہوتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا: یا میں اس سے بہتر ہوں ۔} فرعون نے کہا کہ کیا تمہارے نزدیک ثابت ہوگیا اور تم نے سمجھ لیا کہ میں اس سے بہتر ہوں جو کمزوراور حقیرسا آدمی ہے اور جواپنی بات بھی صاف طریقے سے بیان کرتا معلوم نہیں ہوتا۔
یہ اس ملعون نے جھوٹ کہا کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے زبانِ اَقدس کی وہ گِرہ زائل کردی تھی لیکن فرعونی اپنے پہلے ہی خیال میں تھے۔ (روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۲، ۸ / ۳۷۸)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کونبی سے اعلیٰ کہنا یا نبی کو ذلت کے الفاظ سے یاد کرنا فرعونی کفر ہے ۔
فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ مُقْتَرِنِیْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اگر یہ رسول ہے)تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ ڈالے گئے؟ یا اس کے ساتھ قطار بنا کرفرشتے آتے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَوْ لَاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ: تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ ڈالے گئے؟} فرعون نے کہا کہ اگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایساسردار بنایا ہے جس کی اطاعت واجب ہے تو انہیں سونے کا کنگن کیوں نہیں پہنایا گیا۔فرعون نے یہ بات اپنے زمانے کے دستور کے مطابق کہی کہ اس زمانے میں جس کسی کو سردار بنایا جاتا تھا تواسے سونے کے کنگن اور سونے کا طوق پہنایا جاتا تھا ۔فرعون نے مزید یہ کہا کہ رسالت کے دعویٰ میں سچے ہونے کی گواہی دینے کیلئے اس کے ساتھ قطار بنا کرفرشتے کیوں نہیں آتے؟( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۱۰۸)
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
توفرعون نے اپنی قوم کوبیوقوف بنالیا تو وہ اس کے کہنے پر چل پڑے بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ: تو فرعون نے اپنی قوم کو بیوقوف بنالیا۔} یعنی فرعون نے اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کر کے ان جاہلوں کی عقل مار دی اور انہیں بہلا پھسلا لیا تو وہ اس کے کہنے پر چل پڑے اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے لگے۔بے شک وہ نافرمان لوگ تھے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے فرعون جیسے جاہل اور سرکش کی پیروی کی۔(خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۱۰۸، تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۴، ۹ / ۶۳۸،ملتقطاً)
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ(55)فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا توہم نے ان سے بدلہ لیا تو ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ تو ہم نے انہیں اگلی داستان کردیا اور بعد والوں کیلئے مثال بنادیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا: پھر جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جرموں کی سزا میں سب کو غرق کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ماضی کی عبرتناک داستان بنادیا اور بعد والوں کے لئے مثال بنا دیا تا کہ بعد والے اُن کے حال اور انجام سے نصیحت و عبرت حاصل کریں ۔(خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۱۰۸)
سرکش مالداروں اور منصب والوں کے لئے عبرت کا مقام :
ان آیا ت میں بیان کئے گئے واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا،معاشرے میں مقام ومرتبہ عطا کیا اورحکومت وسلطنت سے سرفراز کیا لیکن وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنے کی بجائے ا س کی ناشکری کرنے میں اور گناہوں میں مشغول رہ کر مسلسل اس کی نافرمانیوں میں مصروف ہیں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴)فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاؕ-وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۵)‘‘(انعام:۴۴، ۴۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔ پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اورتمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
اور حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی پسند کی تمام چیزیں عطا کر رہا ہے لیکن اس بندے کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر قائم ہے تو یہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے۔( معجم الاوسط، باب الواو، من اسمہ ولید، ۶ / ۴۲۲، الحدیث: ۹۲۷۲)
اورحضرت عمر بن ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اے گناہگارو!اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کے باوجود جو مسلسل حِلم فرما رہا ہے تم ا س کی وجہ سے گناہوں پر اور جَری نہ ہوجاؤاور ا س کی ناراضی سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا توہم نے ان سے بدلہ لیا۔(شعب الایمان،السابع والاربعون من شعب الایمان…الخ،فصل فی الطبع علی القلب…الخ،۵ / ۴۴۷،الحدیث:۷۲۲۷)
اللہ تعالیٰ مال و دولت اور منصب و مرتبے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سرکشی اور ا س کی آفات سے ہمیں محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو جبھی تمہاری قوم اس سے ہنسنے لگتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا: اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جاتی ہے۔} اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قریش کے سامنے یہ آیت ’’وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ‘‘ پڑھی ،جس کے معنی یہ ہیں کہ اے مشرکین !تم اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن ہے۔ یہ سن کر مشرکین کو بہت غصہ آیا اور ابنِ زبعری کہنے لگا :اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا یہ خاص ہمارے اور ہمارے معبودوں ہی کے لئے ہے یاہر اُمت اورگروہ کے لئے ہے؟سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے لئے بھی ہے اور سب اُمتوں کے لئے بھی ہے۔اس پر ابنِ زبعری نے کہا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی ہیں اور آپ اُن کی اور اُن کی والدہ کی تعریف کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے عیسائی ان دونوں کو پوجتے ہیں اور حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے بھی پوجے جاتے ہیں یعنی یہودی وغیرہ ان کو پوجتے ہیں تو اگر یہ حضرات (مَعَاذَاللہ) جہنم میں ہوں تو ہم ا س بات پر راضی ہیں کہ ہم اور ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں اور یہ کہہ کر کفار خوب ہنسے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔
اوریہ آیت نازل ہوئی ’’وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابنِ زبعری نے اپنے معبودوں کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال بیان کی اورحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا کہ عیسائی انہیں پوجتے ہیں تو کفارِ قریش اُس کی اِس بات پر ہنسنے لگے۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۱۱۰۳-۱۱۰۴)
وَ قَالُوْۤا ءَاٰلِهَتُنَا خَیْرٌ اَمْ هُوَؕ-مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًاؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہتے ہیں : کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ (عیسیٰ؟) انہوں نے یہ مثال تم سے صرف جھگڑا کرنے کیلئے بیان کی ہے،بلکہ وہ جھگڑنے والے لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور کہتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے مشرکین کہتے ہیں کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یاحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہتر ہیں تو اگر (مَعَاذَاللہ) وہ جہنم میں ہوئے تو ہمارے معبود یعنی بت بھی جہنم میں چلے جائیں ہمیں کچھ پروا نہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں نے یہ مثال حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے بیان نہیں کی بلکہ صرف آپ سے جھگڑا کرنے کیلئے بیان کی ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کہاوہ باطل ہے اور اس آیت ِکریمہ ’’اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ سے صرف بت مراد ہیں حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور فرشتے عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد نہیں لئے جاسکتے۔
ابنِ زبعری عرب کا رہنے والا تھا اورعربی زبان جاننے والا تھا ،یہ بات اسے بہت اچھی طرح معلوم تھی کہ ’’مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ میں جو ’’مَا‘‘ ہے اس کے معنی چیز کے ہیں اور اس سے وہ چیزیں مراد ہوتی ہیں جن میں عقل نہ ہو ،لیکن اس کے باوجود اس کا عربی زبان کے اصول سے جاہل بن کر حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس میں داخل کرنا کٹ حجتی اور جہل پروری ہے۔آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایابلکہ وہ جھگڑنے والے اور باطل کے درپے ہونے والے لوگ ہیں ۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۱۱۰۴، ملخصاً)
صرف جھگڑا کرنے کے لئے بحث مُباحثہ شروع کر دینا کفار کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق و باطل میں فرق بیان کرنے کی بجائے صرف جھگڑا کرنے کے لئے بحث مُباحثہ شروع کر دینا کفار کا طریقہ ہے۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو قوم بھی ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہوئی وہ باطل جھگڑوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہوئی ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًاؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ‘‘۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الزّخرف، ۵ / ۱۷۰، الحدیث: ۳۲۶۴)
کفار کے طریقے اور اس حدیثِ پاک کو سامنے رکھتے ہوئے ان حضرات کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے جو شرعی مسائل سے جاہل اور ان کی حکمتوں سے ناواقف ہونے ،یا ان کا علم رکھنے کے باوجود جان بوجھ کر سوشل،پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پران کے بارے شرعی تقاضوں کے برخلاف بحث مُباحثہ کرنا اورشریعت کے مسائل کو اپنی ناقص عقل کے ترازو پر تول کر ان کے حق اور ناحق ہونے کا فیصلہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور عقائد و عبادات و معاملات وغیرہا پراحمقانہ بحثوں کی وجہ سے یہ چیزیں ایک مذاق بن کر رہ گئی ہیں اوریہ ان کی انہی جاہلانہ بحثوں کا نتیجہ ہے کہ آج عام مسلمانوں میں شریعت کے احکام کی وقعت ختم ہو تی،ان پر عمل سے دوری اور گمراہی سے قربت بڑھتی جا رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، اٰمین۔
اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
عیسیٰ تونہیں ہے مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایاہے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک عجیب نمونہ بنایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ: عیسیٰ تو نہیں ہے مگرایک بندہ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ وہ (نہ خدا ہے اور نہ خدا کے بیٹے، بلکہ خالص) اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جن پر ہم نے نبوت عطا فرما کر احسان فرمایا ہے اور ہم نے اسے بغیر باپ کے پیدا کرکے بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کاایک عجیب نمونہ بنایا ہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۱۰۸-۱۰۹)
آیت ’’اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ‘‘ سے معلوم ہونے والے اَحکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… اس آیت میں ان عیسائیوں کا بھی رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدایا خدا کا بیٹا مانتے ہیں اور ان یہودیوں کا بھی رد ہے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کے منکر ہیں ۔
(2)… مقبول بندوں کی طرف داری اور تعریف کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
(3)… اگر کسی محبوب بندے کو لوگ خدا بھی مان لیں تو ان لوگوں کی تردید میں اس مقبول بندے کی توہین نہ کی جائے بلکہ اس کی عظمت کوباقی رکھا جائے۔
وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓىٕكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہارے بدلے فرشتے بسادیتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَوْ نَشَآءُ: اور اگر ہم چاہتے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے کفارِ قریش!ہم تم سے اور تمہاری عبادت سے بے نیاز ہیں ، اگر ہم چاہتے تو تمہیں ہلاک کر کے زمین میں تمہارے بدلے فرشتے بسادیتے جو تمہارے بعد آباد رہتے اور ہماری عبادت واطاعت کرتے اور فرشتوں کے آسمانوں پر رہنے میں کوئی ایسی فضیلت نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یایہ کہا جائے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں (تو پھر تم کیوں ان کی عبادت کرتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو)۔(جلالین مع صاوی،الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۱۹۰۱، قرطبی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۰، ۸ / ۷۶، الجزء السادس عشر، ملتقطاً)
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۱۱۰۴، ملخصاً)
قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تشریف لانا برحق ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر تشریف لانا برحق ہے کیونکہ ان کا آنا قیامت کی علامت ہے، لیکن یہ یاد رہے آپ کا وہ آناسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا نبی بن کر نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہو گا۔یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان سے نازل ہونے کے بارے میں 3اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۲۲۲۲)
(2)…حضرت نواس بن سمعان کلابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(دجال ظاہر ہونے کے بعد)اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجے گا تو وہ جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں اتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوں گے ،جب آپ سر نیچاکریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔(مسلم ، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ ، باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۱۳۷)، ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۴۳۲۱)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ (قیامت کے قریب آسمان سے) نازل ہوں گے، جب تم انہیں دیکھو گے تو پہچان لوگے،ان کا رنگ سرخی آمیز سفید ہو گا،قد درمیانہ ہو گا،وہ ہلکے زرد رنگ کے حُلّے پہنے ہوئے ہوں گے ،ان پر تری نہیں ہو گی لیکن گویا ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے ،وہ اسلام پر لوگوں سے قتال کریں گے ،صلیب توڑ دیں گے ،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے ،اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو مٹا دے گا،حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسیح دجال کو ہلاک کریں گے ،چالیس سال زمین میں قیام کرنے کے بعد وفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے ۔( ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۸، الحدیث: ۴۳۲۴)
قیامت کی 10علامات:
قیامت کی ایک علامت اس آیت میں بیان ہوئی اور چند علامات اس حدیثِ پاک میں بیان ہوئی ہیں ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس اس دوران تشریف لائے جب ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم کیا باتیں کر رہے تھے۔ہم نے عرض کی:ہم قیامت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ ارشاد فرمایا’’اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تم ا س کے بارے میں دس نشانیاں نہ دیکھ لو (1)دھواں (2)دجال(3)دابۃ الارض، (ایک عجیب و غریب شکل و صورت کا جانور) (4)سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (5)حضرت عیسیٰ بن مریم کا نزول(6)یاجوج ماجوج (7)مشرق میں زمین دھنسنا(8)مغرب میں زمین دھنسنا (9)جزیرۂ عرب میں زمین دھنسنا(10) یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہَنکا کر میدانِ محشر کی طرف لے آئے گی۔( مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، ص۱۵۵۱، الحدیث: ۳۹(۲۹۰۱))
وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہرگز شیطان تمہیں نہ روکے بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ: اور ہرگز شیطان تمہیں نہ روکے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہرگز شیطان تمہیں شریعت کی پیروی کرنے سے یا قیامت کا یقین رکھنے سے یا اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہنے سے نہ روک دے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی عداوت اس سے ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے تمہارے والد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جنت سے (زمین پر)تشریف لے جانا پڑااور ان کے جسم سے نور کا لباس اتار لیا گیا پھر وہ تمہارا دوست کیسے ہو سکتا ہے؟(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۱۱۰۴-۱۱۰۵، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۱۰۹، ملتقطاً)
شیطان کی انسانوں سے عداوت اور دشمنی:
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر شیطان کی عداوت اور دشمنی کی پہچان کروائی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگ شیطان کے دشمن ہونے پر ایمان لائیں اور ا س کے شر سے بچنے کی کوشش کریں ،چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا‘‘(بنی اسرائیل:۵۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۶۸، ۱۶۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا اور یہ (حکم دے گا) کہ تم اللہ کے بارے میں وہ کچھ کہو جو خود تمہیں معلوم نہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ‘‘(فاطر:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ‘‘(بقرہ:۲۰۸، ۲۰۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور اگر تم اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد بھی لغزش کھاؤ تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا تواس نے فرمایا: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیاہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں ) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزات لے کر آئے تو انہوں نے فرمایا: ’’میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لئے آیا ہوں تاکہ میں تم سے توریت کے احکام میں سے وہ تمام باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو،لہٰذا تم میری مخالفت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اَحکام تمہیں پہنچا رہا ہوں ان میں میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اورا س کی وحدانیّت کا اقرار کرو، یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہو سکتا۔(جلالین ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۶۳ – ۶۴ ، ص۴۰۹ ، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۳-۶۴، ۸ / ۳۸۵-۳۸۶، ملتقطاً)
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْۚ-فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہوگئے تو ظالموں کیلئے ایک درد ناک دن کے عذاب کی خرابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ: پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہوگئے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے شرک بیان فرمائے ہیں ،چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد عیسائیوں کے مختلف گروہ بن گئے ، ان میں سے کسی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا تھے، کسی نے کہا کہ خدا کے بیٹے تھے اور کسی نے کہا کہ تین خداؤں میں سے تیسرے تھے۔الغرض عیسائیوں کے یعقوبی ،نسطوری، ملکانی اور شمعونی فرقے بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جنہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کفر کی باتیں کہیں ، ان ظالموں کیلئے قیامت کے درد ناک دن کے عذاب کی ہلاکت ہے۔( جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۰۹، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۱۱۰۵، ملتقطاً)
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ قیامت ہی کا انتظار کررہے ہیں کہ ان پر اچانک آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ: وہ قیامت ہی کا انتظار کررہے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں مختلف فرقے بن گئے اور ان کے متعلق باطل باتیں کہہ رہے ہیں (ان کے حال سے یہی نظر آ رہا ہے کہ) وہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جس میں قیامت اچانک قائم ہو جائے گی اور انہیں اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو گی۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفارِ مکہ(کے طرزِ عمل سے یہی نظر آتا ہے کہ) قیامت کے آنے کا ہی انتظار کر رہے ہیں کہ ان پر اچانک آجائے اور انہیں دُنْیَوی کام کاج میں مشغولیَّت کی وجہ سے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہو۔(تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ۱۱ / ۲۰۸، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۰۹، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۱۱۰۵، ملتقطاً)
موت چھوٹی قیامت ہے،یہ بھی اچانک آئے گی:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت اچانک آئے گی اور یاد رہے کہ بڑی قیامت سے پہلے ایک چھوٹی قیامت ہے، یہ بھی اچانک ہی آئے گی اور یہ قیامت ’’موت‘‘ ہے ،لہٰذاہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ چھوٹی قیامت قائم ہونے سے پہلے پہلے بھی گناہوں کو چھوڑ دے اور اپنے سابقہ تمام گناہوں اور جُرموں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال کرنے میں مصروف ہو جائے ،اَحادیث میں بھی ا س کی بہت ترغیب دی گئی ہے ،چنانچہ
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کو موت آ گئی تو بے شک اس کی قیامت قائم ہو گئی توتم اللہ تعالیٰ کی عبادت ا س طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور ہر گھڑی اس سے مغفرت طلب کرتے رہو۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۸۵، الحدیث: ۱۱۱۷)
اور حصرتِ اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اٹھتے اور فرماتے: ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کاذکر کرو، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ۔تَھرتھرا دینے والی چیز آپہنچی، اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔ موت اپنے اندر موجود تکالیف کے ساتھ آپہنچی ہے،موت اپنے اندر موجود تکالیف کے ساتھ آپہنچی ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ… الخ، ۲۳-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵)
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور نیک اعمال میں مصروف رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَﭤ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کا ذکر ہوا ،اب اس آیت سے قیامت کے بعض اَحوال بیان کئے جا رہے ہیں ۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں جودوستی کفر اور مَعصِیَت کی بنا پر تھی وہ قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی جبکہ دینی دوستی اور وہ محبت جو اللہ تعالیٰ کے لئے تھی دشمنی میں تبدیل نہ ہو گی بلکہ باقی رہے گی۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۹ / ۶۴۱، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۰۹، ملتقطاً)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے، آپ نے فرمایا: دو دوست مومن ہیں اور دو دوست کافر ۔مومن دوستوں میں ایک مرجاتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کرنے کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا اور مجھے برائی سے روکتا تھا اور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے، یارب! عَزَّوَجَلَّ، اسے میرے بعد گمراہ نہ کرنا اور اسے ایسی ہدایت دے جیسی ہدایت مجھے عطا فرمائی اور اس کا ایسا اِکرام کر جیسا میرا اِکرام فرمایا ۔جب اس کا مومن دوست مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے ،تو ہر ایک کہتا ہے کہ یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے۔ اور دوکافر دوستوں میں سے جب ایک مرجاتا ہے تو دعا کرتا ہے: یارب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرماں برداری سے منع کرتا تھا اور بَدی کا حکم دیتا تھا ،نیکی سے روکتا تھااور یہ خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حا ضرنہیں ہونا ،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ایک دوسرے کو بُرا بھائی، بُرا دوست اور بُرا رفیق کہتا ہے۔( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۷، ۴ / ۱۰۹-۱۱۰)
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت قیامت کے دن کام آئے گی:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایمان والوں کی آپس میں محبت اور دوستی قیامت کے دن کام آئے گی، لہٰذا اہلِ حق کا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت اور عقیدت رکھنا انہیں ضرور نفع دے گا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب ہوگی؟ ارشاد فرمایا: تُو نے اس کے لیے کیاتیاری کی ہے؟ اس نے عرض کی، اس کے لیے میں نے کوئی تیاری نہیں کی، صرف اتنی بات ہے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا ’’تو ان کے ساتھ ہے جن سے تجھے محبت ہے۔حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ اسلام کے بعد مسلمانوں کو جتنی اس کلمہ سے خوشی ہوئی، ایسی خوشی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب مناقب عمر بن الخطاب … الخ ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الحب فی اللّٰہ ومن اللّٰہ، الفصل الاول، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۵۰۰۹)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نیک اور پرہیز گار بندوں کو اپنا دوست بنائے اور ان سے محبت رکھے تاکہ آخرت میں ان کی دوستی اور محبت کام آئے ۔
اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھنے کے فضائل:
جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں ،ان کے اَحادیث میں بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں چار اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’جو لوگ میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور آپس میں ملتے جلتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ، ان سے میری محبت واجب ہوگئی۔( مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب ما جاء فی المتحابین فی اللّٰہ، ۲ / ۴۳۹، الحدیث: ۱۸۲۸)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: ’’وہ لوگ کہاں ہیں جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے تھے، آج میں ان کو اپنے (عرش کے)سایہ میں رکھوں گا، آج میرے (عرش کے)سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والاداب، باب فی فضل الحب فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۷(۲۵۶۶))
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگردو شخصوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے باہم محبت کی اور ایک مشرق میں ہے، دوسرا مغرب میں ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کردے گا اور فرمائے گا: ’’یہی وہ ہے جس سے تو نے میرے لیے محبت کی تھی۔( شعب الایمان،الحادی والستون من شعب الایمان…الخ، قصۃ ابراہیم فی المعانقۃ…الخ،۶ / ۴۹۲،الحدیث:۹۰۲۲)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں یاقوت کے ستون ہیں ان پر زَبَرْجَد کے بالاخانے ہیں ، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، ایک جگہ بیٹھتے ہیں ، آپس میں ملتے ہیں ۔(شعب الایمان،الحادی والستون من شعب الایمان…الخ،قصۃ ابراہیم فی المعانقۃ…الخ،۶ / ۴۸۷، الحدیث: ۹۰۰۲)
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ(68)اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(69)اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(ان سے فرمایا جائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔وہ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور وہ فرمانبردارتھے۔ تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہوجائیں اور تمہیں خوش کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰعِبَادِ: اے میرے بندو!} اس آیت ا ور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی دوستی اور اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھنے والوں کی تعظیم اور ان کے دل خوش کرنے کے لئے ان سے فرمایا جائے گا’’ اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے اور میرے بندے وہ ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور وہ فرمانبردارتھے،ان سے کہا جائے گا کہ تم اور تمہاری مومنہ بیویاں جنت میں داخل ہوجائیں اورجنت میں تمہارا اکرام ہوگا، نعمتیں دی جائیں گی اورایسے خوش کئے جاؤ گے کہ تمہارے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوں گے۔( ابو سعود، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۸-۷۰، ۵ / ۵۵۰، ملخصاً)
مقاتل نے کہا کہ ’’حشر کے میدان میں ایک مُنادی یہ اعلان فرمائے گا ’’یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ‘‘ یعنی اے میرے بندو! آج تم پر کوئی خوف نہیں ہے۔تو تمام اہلِ محشر اپنے سروں کو اٹھا لیں گے ۔پھر وہ مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ یعنی میرے بندے وہ ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور وہ فرمانبردار تھے۔ یہ سن کر مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب والے اپنے سروں کو جھکا لیں گے ۔
اورحضرت حارث محاسبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن مُنادی اعلان فرمائے گا ’’یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ‘‘ تو تمام لوگ اپنے سروں کو اٹھا لیں گے اور کہیں گے: ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں ۔پھر دوسری بار مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ تو تمام کفار اپنے سروں کو جھکا لیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے اپنے سر اٹھائے رکھیں گے ۔پھر تیسری بار مُنادی فرمائے گا ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘ تو کبیرہ گناہ کرنے والے اپنے سروں کو جھکا لیں گے جبکہ مُتّقی لوگ اسی طرح اپنے سر اٹھائے رکھیں گے ۔اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان سے خوف اور غم دور کر دے گا کیونکہ وہ اکرمُ الاکرمین ہے، وہ اپنے اولیاء کو شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔( تفسیرقرطبی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۸، ۸ / ۸۰-۸۱، الجزء السادس عشر)
یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍۚ-وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ-وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(71)وَ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان پر سونے کی تھالیوں اور جاموں کے دَور ہوں گے اور جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی ان کے دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھوں کو لذت ملے گی اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہارے اعمال کے صدقے تمہیں وارث بنایا گیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍ: ان پر سونے کی تھالیوں اور جاموں کے دَور ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد مومن بندوں پر کھانے سے بھر ی سونے کی تھالیوں اورشراب سے لبریز جاموں کے دَور ہوں گے اور جنت میں ان کے لئے مختلف اَقسام کی وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی ان کے دل خواہش کریں گے اور جن سے آنکھوں کو لذّت ملے گی اور تم جنت میں ہمیشہ رہو گے اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہارے دُنْیَوی نیک اعمال کے صدقے تمہیں وارث بنایا گیا ہے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۸ / ۳۸۹-۳۹۲)
جنت کی عظیم نعمتیں :
جنت کی ان عظیم نعمتوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ(۱۵) قَؔوَارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(۱۶)وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًاۚ(۱۷) عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰى سَلْسَبِیْلًا(۱۸) وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۚ-اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا(۱۹) وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا(۲۰) عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ٘-وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ-وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(۲۱) اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(دہر:۱۵۔۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان پر چاندی کے برتنوں اورگلاسوں کے دَور ہوں گے جو شیشے کی طرح ہوں گے۔ چاندی کے شفاف شیشے جنہیں پلانے والوں نے پورے اندازہ سے (بھر کر) رکھا ہوگا۔ اور جنت میں انہیں ایسے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل ملاہوا ہوگا۔ زنجبیل جنت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل رکھا جاتا ہے۔ اور ان کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے (خدمت کیلئے) پھریں گے جب تو انہیں دیکھے گا تو توانہیں بکھرے ہوئے موتی سمجھے گا۔اور جب تووہاں دیکھے گا تو نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت دیکھے گا۔ ان پرباریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔ (ان سے فرمایا جائے گا) بیشک یہ تمہارا صلہ ہے اور تمہاری محنت کی قدر کی گئی ہے۔
اورحضرت بریدہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں جنت میں داخل کیا تو تم اس میں سرخ یاقوت کے جس گھوڑے پر سوار ہونا چاہو گے( ہوجاؤ گے)اور جنت میں ( تمجہاں چاہو گے)وہ تمہیں اڑا کرلے جائے گا۔ایک اور آدمی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنت میں اونٹ ہوں گے ؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے وہ جواب نہ دیاجو پہلے شخص کو دیا تھا بلکہ ارشاد فرمایا’’اگر اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں لے جائے تو جو کچھ تمہارا جی چاہے گا اور جس چیز سے تمہاری آنکھوں کو لذت ملے گی تمہیں وہی کچھ ملے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی صفۃ خیل الجنۃ، ۴ / ۲۴۳، الحدیث: ۲۵۵۲)
جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا:
ان آیات سے معلوم ہو اکہ جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا اور ا س کے درجات کی تقسیم نیک اعمال کے مطابق ہو گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم اللہ تعالیٰ کے معاف فرمانے سے پل صراط پار کرو گے،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو گے اور تمہارے اعمال کے مطابق(جنت کے) درجات تم میں تقسیم کئے جائیں گے۔( در منثور، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۷ / ۳۹۴)
{وَ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا: اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث بنایا گیا ہے۔} حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم میں سے ہر شخص کا ایک گھر جنت میں اور ایک گھر جہنم میں ہے،کافر جہنم میں مومن کے گھر کا وارث بن جاتا ہے اور مومن جنت میں کافر کے گھر کا وارث بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے ا س فر مان کا یہی معنی ہے۔( ابن ابی حاتم، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱۰ / ۳۲۸۶)
لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ مِّنْهَا تَاْكُلُوْنَ(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارے لیے اس میں کثرت سے پھل ہیں جن میں سے تم کھاتے رہو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ: تمہارے لیے اس میں کثرت سے پھل ہیں ۔} یعنی تمہارے لئے جنت میں کھانے اور شراب کے علاوہ طرح طرح کے بے شمار پھل ہوں گے جن میں سے تم کھاتے رہو گے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۳، ۸ / ۳۹۲)
جنت کے سدا بہار پھل:
جنت کے پھلوں کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ‘‘(واقعہ:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پھل میوے جو جنتی پسند کریں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَاؕ-تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘(رعد:۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری یں ، اس کے پھل اور اس کا سایہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے۔
اورحضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر اہل ِجنت میں سے کوئی شخص جنتی درخت سے ایک پھل لے گا تو درخت میں اس کی جگہ دو پھل نمودار ہوجائیں گے۔(مسند البزار، مسند ابی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ، ۱۰ / ۱۲۳، الحدیث: ۴۱۸۷)
معلوم ہوا کہ جنت کے درخت سدا بہار پھل دار ہیں ،ان کی زیب و زینت میں فرق نہیں آتا۔
اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ(74)لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَ هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ(75)وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰـكِنْ كَانُوْا هُمُ الظّٰلِمِیْنَ(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔وہ کبھی ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا، ہاں وہ خود ہی ظالم تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ: بیشک مجرم۔} ایمان والے متقی لوگوں کے لئے جنت کے انعامات ذکر فرمانے کے بعد یہاں سے کفار کے لئے جہنم کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس آیت اوراس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک کافرجہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں کہ جیسے گناہ گار مسلمانوں کا عذاب ختم ہوجائے گا ویسے ان کا عذاب کبھی ختم نہ ہو گا۔وہ عذاب ان سے کبھی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی اس میں کمی کی جائے گی، وہ اس میں نجات ،راحت اورسزا میں کمی سے مایوس پڑے رہیں گے اور یہ عذاب دے کر ہم نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا، ہاں وہ خود ہی ظالم تھے کہ سرکشی و نافرمانی کرکے اس حال کو پہنچے ہیں ۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۴-۷۶، ۸ / ۳۹۳)
کفار کے لئے بیان کی گئی سزاؤں میں مسلمانوں کے لئے بھی عبرت:
یاد رہے کہ کفار کے لئے بیان کی گئی سزاؤں میں جہاں ان کے لئے وعید ہے وہیں ان میں مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے کیونکہ اس بات میں اگرچہ کوئی شک نہیں کہ ہم فی الوقت مسلمان ہیں ،لیکن ہم میں سے کسی کے پاس اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ مرتے دم تک مسلمان ہی رہے گا کیونکہ جس طرح بے شمار کفار خوش قسمتی سے مسلمان ہو جاتے ہیں اُسی طرح بہت سے بدنصیب مسلمانوں کا بھی ایمان سے پھر جاناثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اولادِ آدم مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ان میں سے بعض مومن پیدا ہوئے حالت ِایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے، بعض کافر پیدا ہوئے حالت ِکفر پر زندہ رہے اور کافر ہی مریں گے، جبکہ بعض مومن پیدا ہوئے مومنانہ زندگی گزاری اور حالت ِکفر پر رخصت ہوئے ،بعض کافر پیدا ہوئے ،کافر زندہ رہے اور مومن ہو کر مریں گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما اخبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اصحابہ… الخ، ۴ / ۸۱، الحدیث: ۲۱۹۸)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ان فتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ ایک آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر ہوگااور شام کو مومن ہوگااور صبح کافر ہوگا۔ نیز اپنے دین کو دنیاوی سازو سامان کے بد لے فروخت کر دے گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب الحثّ علی المبادرۃ بالاعمال… الخ، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۶(۱۱۸))
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علمائے کرام فر ماتے ہیں : ’’جس کو سَلبِ ایمان کا خوف نہ ہومرتے وقت اس کا ایمان سَلب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت، حصہ چہارم، ص۴۹۵)
اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نوٹ: ایمان کی حفاظت کے بارے میں اور جن کلما ت سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے ان کی تفصیل جاننے کے لئے ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ کتاب کا مطالعہ کرنا بہت فائدہ مند ہے۔
وَ نَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَؕ-قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ پکاریں گے: اے مالک! تیرا رب ہمارا کام تمام کردے۔وہ داروغہ فرمائے گا: تمہیں تو ٹھہرناہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَادَوْا: اور وہ پکاریں گے۔} کفار جہنم کے داروغہ کو پکار کر کہیں گے :اے مالک! اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں موت دے کرہمارا کام پورا کردے تاکہ ہمیں اس عذاب سے راحت نصیب ہو۔(ایک قول کے مطابق) حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام ایک ہزار سال بعد جواب دیں گے اور فرمائیں گے تم عذاب میں ہمیشہ ٹھہرنے والے ہو اورتم موت سے اور نہ کسی اور طرح کبھی بھی اس سے رہائی نہ پائو گے ۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۳۹۳)
حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کا جواب سن کر کفار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے: ’’قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(۱۰۶) رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(۱۰۷) قَالَ اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ‘‘(مومنون:۱۰۶۔۱۰۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اللہ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔
اس کے بعد وہ گدھے کی طرح چیختے چِلّاتے رہیں گے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌ‘‘(ہود:۱۰۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جو بدبخت ہوں گے وہ تو دوزخ میں ہوں گے، وہ اس میں گدھے کی طرح چلائیں گے۔
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم تمہارے پاس حق لائے مگر تم میں اکثر حق کو ناپسند کرنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ: بیشک ہم تمہارے پاس حق لائے۔} اس آیت میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ جہنمی کفار کے ساتھ حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کے کلام کا حصہ ہے۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے’’ تم ہمیشہ جہنم میں اس لئے رہو گے کہ بیشک ہم تمہارے پاس انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے دین ِحق لائے تھے مگر تم سب اپنی نفسانی خواہشات کے مخالف ہونے کی وجہ سے دین ِحق کو ناپسند کرنے والے تھے۔ دوسرا اِحتمال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مکہ میں رہنے والے کفار سے خطاب فرمایا ہے۔اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے ’’اے کفارِ مکہ!بے شک ہم تمہارے پاس اپنے رسول کی معرفت سچا دین لائے مگر تم میں سے تھوڑے اَفراد اس پر ایمان لائے جبکہ اکثر لوگ بغض اور نفرت کی وجہ سے اس سچے دین کو ناپسند کرنے والے ہیں ۔( جلالین مع صاوی، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۸، ۵ / ۱۹۰۴، ملخصاً)
دینی چیزوں سے ناگواری کا اظہارکرنا کفار کا کام ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دینی چیزوں سے کراہت اور ناگواری کا اظہارکرنا کفار کا کام ہے۔اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام کے شَعائر کو ناپسند کرتے ہیں اوراسلام کے احکامات پر عمل کرنے والے کو بُری نظر سے دیکھتے ، اس کا مذاق اڑاتے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے،اٰمین۔
اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے کام پکا کرلیا ہے؟تو ہم بھی (اپنا کام) پکا کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ اَبْرَمُوْۤا اَمْرًا: کیا انہوں نے کام پکا کرلیا ہے؟} یعنی کیا کفار ِمکہ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف سازش کرنے اور دھوکے سے انہیں ایذا پہنچانے کا کام پکا کر لیا ہے اور در حقیقت ایسا ہی تھا کہ قریش دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوایذا پہنچانے کے لئے حیلے سوچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تو ہم بھی اپنے نبی کی حفاظت اور ان کے مُنکروں کی بربادی کاکام پکا کرنے والے ہیں ۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۱۱۰۶، ملخصاً)
کفارِقریش نے دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف جو سازش تیار کی اس کی تفصیل اس آیت میں ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ‘‘(انفال:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوراے حبیب! یاد کروجب کافروں نے تمہارے خلاف سازش کی کہ تمہیں باندھ دیں یا تمہیں شہید کردیں یا تمہیں نکال دیں اور وہ اپنی سازشیں کررہے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرمارہا تھا اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے۔
اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْؕ-بَلٰى وَ رُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی خفیہ مشاورت نہیں سنتے؟ ہاں ، کیوں نہیں ؟ اور ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھ رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ: کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی خفیہ مشاورت نہیں سنتے؟} یعنی کیا کفار یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی خفیہ مُشاوَرَت نہیں سنتے؟ ہاں ، کیوں نہیں ؟ ہم ضرور سنتے ہیں اور پوشیدہ ظاہر ہر بات جانتے ہیں ، ہم سے کچھ نہیں چھپ سکتا اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ان کے تمام اَقوال اور اَفعال کو لکھ رہے ہیں ،اس میں ان کی آہستہ باتیں اور خفیہ مشاورتیں سب شامل ہیں اور جب کوئی خفیہ بات فرشتوں سے پوشیدہ نہیں تو ظاہری و باطنی تمام چیزوں کو جاننے والے رب تعالیٰ سے کیسے چھپ سکتی ہے۔( روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۰، ۸ / ۳۹۵)
تنہائی میں گناہ کرنے والے اللہ تعالیٰ سے ڈریں :
اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو لوگوں کے سامنے گناہ کرتے ہوئے توخوف محسوس کرتے ہیں لیکن تنہائی میں گناہ کرتے ہوئے اس رب تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جو ان کے ظاہر کو بھی جانتا ہے اور ان کے باطن سے بھی خبردار ہے۔حضرت یحییٰ بن معاذ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جس نے لوگوں سے تو اپنے گناہوں کو چھپایا اور اس ذات کے سامنے ظاہر کیا جس سے کوئی خفیہ چیز پوشیدہ نہیں تو اس نے اپنے نزدیک ا س ذات کو دیکھنے والوں میں سب سے ہلکا سمجھا اور یہ منافقت کی نشانی ہے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۱۱۰۶)
قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ﳓ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: (ایک ناممکن بات کو فرض کرکے کہتا ہوں کہ) اگر رحمٰن کے کوئی بیٹاہوتا تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمائیں کہ میں ایک ناممکن بات کو فرض کرکے کہتا ہوں کہ اگررحمٰن کا کوئی بیٹاہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرنے والا ہوتا لیکن اس کا کوئی بیٹا نہیں کیونکہ اس کے لئے اولاد ہی محال ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نضر بن حارث نے کہا تھا: فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو نضر کہنے لگا: تم دیکھ لو قرآن میں میری تصدیق آگئی ہے۔ ولید نے اس سے کہا: تیری تصدیق نہیں ہوئی بلکہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ رحمٰن کی اولاد نہیں ہے۔( مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۱۱۰۷)
سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(82)فَذَرْهُمْ یَخُوْضُوْا وَ یَلْعَبُوْا حَتّٰى یُلٰقُوْا یَوْمَهُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
آسمانوں اور زمین کا رب ، عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جوکافر بیان کرتے ہیں ۔ تو تم انہیں چھوڑدو کہ بیہودہ باتیں کریں اور کھیلیں یہا ں تک کہ اپنے اس دن کو پائیں جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَرْهُمْ: تو تم انہیں چھوڑدو۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے کفار کا نظرِیَّہ باطل ہونے پر قطعی دلیل بیان کر دی لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ مال،منصب اور حکومت کی طلب میں ڈوبے ہوئے ہیں ، اس لئے آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کہ جس لَغْوْ اور باطل کام میں لگے ہوئے ہیں اسی میں پڑے رہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ا س دن کو پالیں جس میں انہیں عذاب دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے۔( تفسیرکبیر، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۳، ۹ / ۶۴۷)
وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی آسمان والوں کامعبود ہے اور زمین والوں کامعبود ہے اور وہی حکمت والا، علم والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ: اور وہی آسمان والوں کامعبود ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ وہی ہے جو آسمان والوں کامعبود ہے اور زمین والوں کامعبود ہے،اس کے علاوہ اور کوئی چیز معبود ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی، لہٰذا جو آسمان اور زمین والوں کا معبود ہے تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ،وہ اپنی مخلوق کے معاملات کا انتظام فرمانے میں حکمت والا ہے اور ان کی ضروریات سے با خبر ہے۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱۱ / ۲۱۷-۲۱۸)
وَ تَبٰرَكَ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاۚ-وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ (اللہ ) بڑی برکت والا ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہی ہے اور قیامت کا علم اسی کے پاس ہے اور تمہیں اس کی طرف پھرناہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَبٰرَكَ: اور وہ بڑی برکت والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جس کے لئے ساتوں آسمانوں ، زمینوں اور ان کے درمیان تمام چیزوں کی بادشاہی ہے،ان سب پر اس کا حکم جاری ہے اور ان سب میں اس کی قضا نافذ ہے تو جسے ان کی بادشاہی حاصل ہے اور جس کا حکم ان میں نافذ ہے ا س کا کوئی شریک کس طرح ہو سکتا ہے اور اس وقت کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس میں قیامت قائم ہو گی اور مخلوق اپنی قبروں سے حساب کے مقام پر جمع کی جائے گی اور اے لوگو! تم مرنے کے بعد اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ نیک لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزاء اور برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی سزا دے گا۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱۱ / ۲۱۸)
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورکفار جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں (شفاعت کا اختیار انہیں ہے) جو حق کی گواہی دیں اور علم رکھیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ: اورکفار جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن فرشتوں اور حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت کرتے ہیں وہ صرف انہی کی شفاعت کریں گے جو زبان سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کی گواہی دیں اور دل سے اس گواہی کا علم رکھیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفار یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کے معبود ان کی شفاعت کریں گے حالانکہ وہ تمام چیزیں جن کی کفار اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کرتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتی البتہ شفاعت کا اختیار انہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّتکی گواہی دیں اور دل سے اس بات کا علم رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا رب ہے ،ایسے مقبول بندے ایمان داروں کی شفاعت کریں گے۔( تفسیرکبیر ، الزّخرف ، تحت الآیۃ: ۸۶، ۹ / ۶۴۸، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۱۱۰۷، جلالین، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۶، ص۴۱۰، ملتقطاً)
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم ان سے پوچھو :انہیں کس نے پیدا کیا ؟تو ضرور کہیں گے: ’’ اللہ نے‘‘ تو کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ؟تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور یہ اقرار کریں گے کہ جہان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے،تو اس اقرار کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت کیسے کرتے ہیں اور اس کی توحید اور عبادت سے کس طرح پھرتے ہیں ؟( خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۷، ۴ / ۱۱۱)
وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ(88)فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَ قُلْ سَلٰمٌؕ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے میرے رب!یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ تو ان سے درگزر کرو اور فرماؤ: بس سلام ہے توعنقریب جان جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قِیْلِهٖ: رسول کے اس کہنے کی قسم!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’مجھے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ا س بات کی قسم کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے مجھے ان مشرکین کو عذاب سے ڈرانے کا حکم دیا اور ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا تاکہ میں انہیں تیری طرف بلاؤں لیکن میرے ڈرانے اور دعوت دینے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں سے در گُزر کرو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان سے فرماؤ کہ تمہیں دور ہی سے سلام ہے ، ہم تمہیں چھوڑتے ہیں اور تم سے امن میں رہنا چاہتے ہیں ۔عنقریب یہ لوگ اپنا انجام جان جائیں گے۔اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قولِ مبارک کی قسم یاد فرمائی،اس میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اِکرام اور حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا و اِلتجا کی تعظیم کا اظہار ہے ۔یاد رہے کہ یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے دیا گیا تھا۔( تفسیرطبری، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۸-۸۹، ۱۱ / ۲۱۹-۲۲۰، مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۸-۸۹، ص۱۱۰۸، خازن، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۸۸-۸۹، ۴ / ۱۱۱-۱۱۲، ملتقطاً)