سُوْرَۃ الدُّخَان

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حٰمٓ(1)وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(2)اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

حم۔ اس روشن کتاب کی قسم۔بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا،بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{حٰمٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں  سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ: اس روشن کتاب کی قسم۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآنِ پاک کی قسم !جو حلال اورحرام وغیرہ ان احکام کوبیان فرمانے والاہے جن کی لوگوں  کو حاجت اور ضرورت ہے،بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتاراکیونکہ ہماری شان یہ ہے کہ ہم اپنے عذاب کاڈر سنانے والے ہیں۔

برکت والی رات

            اکثر مفسرین کے نزدیک برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے اور بعض مفسرین اس سے شبِ براء ت مراد لیتے ہیں  ۔ا س رات میں  مکمل قرآنِ پاک لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا، پھر وہاں  سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام 23 سال کے عرصہ میں  تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوئے اور اسے برکت والی رات اس لئے فرمایا گیا کہ اس میں  قرآنِ پاک نازل ہوا اور ہمیشہ اس رات میں  خیر و برکت نازل ہوتی ہے اور دعائیں (خصوصیت کے ساتھ) قبول کی جاتی ہیں ۔ جن کثیر علماء کے نزدیک یہاں  آیت میں  برکت والی رات سے شبِ قدر مراد ہے، ان کی دلیل یہ آیاتِ مبارکہ ہیں  ،

(1) …اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ‘‘(قدر:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدرمیں  نازل کیا۔

            اس آیت میں  ارشاد فرمایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر میں  قرآنِ مجید کو نازل فرمایا اور یہاں  ارشاد فرمایا گیا کہ’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ‘‘ یعنی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتارا۔اسی لئے ضروری ہے کہ شبِ قدر اور مبارک رات سے ایک ہی رات مراد ہو تاکہ قرآنِ مجید کی آیات میں  تضاد لازم نہ آئے ۔

(2) …اور ارشاد فرمایا:

’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ‘‘(بقرہ:۱۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: رمضان کا مہینہ ہے جس میں  قرآن نازل کیا گیا۔

            اس آیت میں  فرمایا گیاکہ قرآنِ مجید کو رمضان کے مہینے میں  نازل کیا گیا اور یہاں  یوں  ارشاد فرمایا کہ ’’اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ‘‘یعنی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں  اتارا۔تو ضروری ہو اکہ یہ رات بھی رمضان کے مہینے میں  واقع ہو اور جس شخص نے بھی یہ کہا ہے کہ مبارک رات رمضان کے مہینے میں  واقع ہے ا س نے یہی کہا کہ مبارک رات شبِ قدر ہے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ۹ / ۶۵۲، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۱۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۱۰۹، ابوسعود، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۵۵۴، ملتقطاً)

 شب ِبراء ت کے فضائل:

            جیساکہ اوپر ذکر ہوا کہ برکت والی رات کے بارے میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شبِ براء ت ہے، اس مناسبت سے یہاں  شبِ براء ت کے دو فضائل ملاحظہ ہوں

(1)…اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ چار راتوں  میں  بھلائیوں  کے دروازے کھول دیتا ہے:(1)بقر عید کی رات (2)عیدالفطر کی رات (3)شعبان کی پندرہویں  رات کہ اس رات میں  مرنے والوں  کے نام اور لوگوں  کا رزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں  کے نام لکھے جاتے ہیں  (4)عرفہ کی رات اذانِ (فجر)تک۔ ‘‘(در منثور، الدخان، تحت الآیۃ: ، ۷ / ۴۰۲)

(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس جبریل آئے اور کہا یہ شعبان کی پندرہویں  رات ہے اس میں  اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں  کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں  کے بال ہیں  مگرکافراور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور(تکبر کی وجہ سے)کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر ِرحمت نہیں  فرماتا۔(شعب الایمان ، الباب الثالث و العشرون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان ، ۳ / ۳۸۳ ، الحدیث: ۳۸۳۷)

فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ(4)اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کے حکم سے ،بیشک ہم ہی بھیجنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْهَا یُفْرَقُ: اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں  سال بھر میں  ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق،زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں  کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں  جو انہیں سرا نجام دیتے ہیں  اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں ۔( جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۸ / ۴۰۴، ملتقطاً)

یاد رہے کہ کئی احادیث میں  بیان ہوا ہے کہ15شعبان کی رات لوگوں  کے اُمور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’ کیا تم جانتی ہو اس رات یعنی پندرہویں  شعبان میں  کیا ہے؟میں  نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس میں  کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اس رات میں  اس سال پیدا ہونے والے تمام بچے لکھ دیئے جاتے ہیں  اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیئے جاتے ہیں  اور اس رات میں  ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں  اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں۔‘‘( مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث، ۱ / ۲۵۴، الحدیث: ۱۳۰۵)

ان احادیث اور ا س آیت میں مطابقت یہ ہے کہ فیصلہ 15شعبان کی رات ہوتا ہے اور شبِ قدر میں  وہ فیصلہ ان فرشتوں  کے حوالے کر دیا جاتا ہے جنہوں  نے اس فیصلے کے مطابق عمل کرناہوتا ہے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’لوگوں  کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں  یہ فیصلہ ان فرشتوں  کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں  گے ۔‘‘(بغوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۳۳)

رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(6)رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاۘ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے، بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔وہ جو رب ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا،اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ: تمہارے رب کی طرف سے رحمت۔ } اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا اترنا اوررسولوں  کی تشریف آوری تمہارے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بندوں  پر رحمت ہے جو آسمانوں  اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے، بیشک وہی ان کی باتوں  کوسننے والا اور ان کے کاموں  اور احوال کو جاننے والا ہے۔اے کفارِ مکہ !اگر تمہیں  اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان وز مین کا رب ہے تو اس بات پر بھی یقین کرلو کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۱۱۱۰، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۶-۷، ص۴۱۱، ملتقطاً)

لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(8)بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ یَّلْعَبُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے ،وہ تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے۔بلکہ وہ کافر شک میں پڑے کھیل رہے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ } یعنی اے لوگو! زمین و آسمان اور ان کے درمیان موجود تمام چیزوں  کے رب کے علاوہ تمہارا اور کوئی معبود نہیں ،لہٰذا تم اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود ہونے کی صلاحیت نہیں  رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے، وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے گزرے ہوئے باپ دادا کا بھی رب ہے،جس کی ایسی شان ہے صرف وہی رب ہونے اور عبادت کئے جانے کے لائق ہے۔( تفسیر طبری، الدخان، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۲۲۴)

{بَلْ هُمْ: بلکہ وہ کافر۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے جودلائل ذکر کئے گئے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ کفاراس کی وحدانیت  کو مان لیتے لیکن یہ پھر بھی نہیں  مانتے بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں  پڑے اور دنیا کے کھیل کود میں  مصروف ہیں  اورانہیں  اپنی آخرت کی کوئی فکر ہی نہیں ۔

فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ(10)یَّغْشَى النَّاسَؕ-هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا۔جولوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ ایک دردناک عذاب ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَارْتَقِبْ: تو تم منتظر رہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے اسلام کی دعوت ملنے پر کفارِ قریش آپ کو جھٹلاتے ،آپ کی نافرمانی کرتے اور آپ کا مذاق اڑاتے،اس بناپر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے خلاف دعا کی کہ ’’یارب! انہیں  ایسے سات سالہ قحط کی مصیبت میں  مبتلا کر جیسے سات سال کا قحط حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  بھیجا تھا۔ ‘‘یہ دعا قبول ہوئی اورسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا گیا’’اے حبیب!  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کافروں  کیلئے اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں  لائے گا جولوگوں  کو ڈھانپ لے گا ۔‘‘ چنانچہ قریش پر قحط سالی آئی اور یہاں  تک اس کی شدت ہوئی کہ وہ لوگ مردار کھا گئے اور بھوک سے اس حال کو پہنچ گئے کہ جب اوپر کو نظر اٹھاتے اورآسمان کی طرف دیکھتے تو ان کو دھواں  ہی دھواں  معلوم ہوتا ،یعنی ایک توکمزوری کی وجہ سے انہیں  نگاہوں  کے سامنے اندھیرا محسوس ہوتا اور دوسرا قحط سے زمین خشک ہوگئی ،اس سے خاک اڑنے لگی اورغبار نے ہوا کو ایسا گدلا کردیاکہ انہیں  آسمان دھوئیں  کی طرح محسوس ہوتا۔ اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں  دھوئیں  سے مراد وہ دھواں  ہے جو قیامت کی علامات میں  سے ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہوگا ،اس سے مشرق و مغرب بھر جائیں  گے، چالیس دن اور رات رہے گا،اس سے مومن کی حالت تو ایسے ہوجائے گی جیسے زکام ہوجائے جبکہ کافر مدہوش ہوجائیں  گے، ان کے نتھنوں  ، کانوں  اور بدن کے سوراخوں  سے دھواں  نکلے گا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۱۱۳، جمل، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۷ / ۱۱۸-۱۱۹، ملتقطاً)

رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِنَّا مُؤْمِنُوْنَ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اس دن کہیں گے) اے ہمارے رب!ہم سے عذاب دور کردے، ہم ایمان لاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ: اے ہمارے رب!ہم سے عذاب دور کردے۔} یعنی جس دن وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا اس دن وہ کہیں گے :یہ ایک دردناک عذاب ہے، اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ ،ہم سے عذاب دور کردے، ہم ایمان لاتے ہیں اور تیرے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور قرآن پاک کی تصدیق کرتے ہیں ،چنانچہ اس قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ دعا فرمائیں اگر قحط دور ہو  گیا تو ہم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۶۵۷، روح المعانی، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۳ / ۱۶۴، ملتقطاً)

اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَ قَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ(13)ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا مُعَلَّمٌ مَّجْنُوْنٌﭥ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کیلئے نصیحت ماننا کہاں ہوگا؟ حالانکہ ان کے پاس صاف بیان فرمانے والا رسول تشریف لاچکا۔ پھر وہ اس سے منہ پھیر گئے اور کہنے لگے:یہ تو سکھایا ہواایک دیوانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى: ان کیلئے نصیحت ماننا کہاں ہوگا؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ان سے عذاب دور کر دیا جائے تو بھی یہ کہاں  ایمان لائیں  گے حالانکہ یہ اس سے بڑی بڑی وہ علامات دیکھ چکے ہیں  جن سے نصیحت حاصل کر کے ایمان قبول کر سکتے تھے اور وہ علامات یہ ہیں  کہ ان کے پاس ایک عظیم الشّان رسول تشریف لایا اوراس نے ان کے سامنے روشن آیات اور ایسے مضبوط معجزات کے ذریعے حق کے راستوں  کو واضح کیا کہ انہیں  دیکھ کر پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سَرک جائیں  لیکن میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے پیش کی گئی روشن آیات اور مضبوط معجزات دیکھ کر بھی یہ لوگ ان سے منہ پھیر گئے او ر صرف منہ پھیرنے کو ہی کافی نہیں  سمجھا بلکہ ان کے متعلق یہ اِفتِراء بھی کرنے لگے کہ یہ تو کسی آدمی کی طرف سے سکھایا ہوا ہے اور دیوانہ ہے جسے وحی کی غشی طاری ہونے کے وقت جنات یہ کلمات تلقین کرجاتے ہیں ۔ (ابوسعود،الدخان،تحت الآیۃ:۱۳-۱۴، ۵ / ۵۵۶، تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۹ / ۶۵۷-۶۵۸، ملتقطاً)

قرآنِ پاک کی حقانیت دیکھ کر کفار کا حال:

            قرآنِ مجیدکی حقانیت دیکھ کر کفار بہت زیادہ بوکھلا گئے تھے ،اسی وجہ سے وہ قرآنِ کریم سے لوگوں  کو بہکانے کیلئے کبھی کچھ کہتے اور کبھی کچھ ،جیسے کبھی وہ یہ دعویٰ کرتے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی آدمی نے سکھایا ہے ،جیسا کہ سورۂ نحل میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم جانتے ہیں  کہ وہ کافر کہتے ہیں :اس نبی کو ایک آدمی سکھاتا ہے۔

            پھر ان کفار کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

’’لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ‘‘(نحل:۱۰۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس آدمی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں  اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن روشن عربی زبان میں ہے۔

            کبھی یہ کہتے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے ، جیسا کہ سورۂ فرقان میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ ﰳافْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کافروں  نے کہا: یہ قرآن تو صرف ایک بڑا جھوٹ ہے جو انہوں  نے خود بنالیا ہے اور اس پردوسرے لوگوں  نے (بھی) ان کی مدد کی ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

’’فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا‘‘(فرقان:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: توبیشک وہ (کافر) ظلم اور جھوٹ پرآگئے ہیں ۔

            اور کبھی یہ دعویٰ کرتے کہ قرآن پہلے لوگوں  کی کہانیوں  پر مشتمل ایک کتاب ہے۔جیسا کہ سورۂ فرقان ہی میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے

’’وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا‘‘(فرقان:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکافروں  نے کہا: (یہ قرآن)پہلےلوگوں  کی کہانیاں  ہیں  جو اس(نبی) نے کسی سے لکھوا لی ہیں  تویہی ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔

اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّكُمْ عَآىٕدُوْنَﭥ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم کچھ دنوں کیلئے عذاب دور کرنے والے ہیں ۔ بیشک تم پھر لَوٹنے والے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا: ہم کچھ دنوں  کیلئے عذاب دور کرنے والے ہیں  ۔} اس آیت میں  کفارِ مکہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی ہم تم سے کچھ دنوں  کے لئے عذاب دور کردیں  گے تم پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاؤ گے جس پر اس سے پہلے قائم تھے ۔اس سے مقصود یہ تنبیہ کرنا ہے کہ وہ لوگ اپنے عہد کو پورا نہیں  کریں  گے کیونکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب کسی مصیبت کی وجہ سے عاجز ہو جاتے ہیں  تو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں  گڑگڑاتے ہیں  اور جب ان کا خوف اور مصیبت دور ہو جاتی ہے تو اپنے کفر اور آباء واَجداد کی اندھی پیروی کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۹ / ۶۵۸، ملخصاً)

چنانچہ حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے صدقے ان کی مصیبت دور ہو جانے کے بعد ایسا ہی ہو اکہ وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اپنے شرک و کفر پر ہی قائم رہے۔

یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰىۚ-اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن کو یاد کروجب ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں گے۔بیشک ہم بدلہ لینے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى: اس دن کو یاد کروجب ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں  گے۔} یعنی اے مشرکو!اگر میں تم پر نازل ہونے والا وہ عذاب دور کر دوں جس نے تمہیں بے حال کر دیا ہے،اس کے بعد پھر تم کفر کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنے رب سے کیا ہوا عہد توڑ دو تو میں تم سے اس دن بدلہ لوں گا جب تمہیں بڑی پکڑ کے ساتھ پکڑوں گا۔ اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے یا غزوۂ بدر کا دن مراد ہے۔(تفسیرطبری، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۱ / ۲۳۰، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)

وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِیْمٌ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا اور ان کے پاس ایک معزز رسول تشریف لایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ: اور بیشک ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ کفارِ مکہ اپنے کفر پر ہی قائم ہیں  اور اس آیت سے بیان فرمایا کہ ان سے پہلے جو کفار گزرے ہیں  ان کا طریقہ بھی یہی رہا تھا ۔چنانچہ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم نے مشرکینِ مکہ سے پہلے فرعون کی قوم کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے آزمائش میں  مبتلا کیا تاکہ وہ ایمان لے آئیں  اور ان کا چھپا ہوا حال ظاہر ہو جائے لیکن انہوں  نے ایمان کے مقابلے میں  کفر کو ہی اختیار کیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے مشرکینِ مکہ سے پہلے فرعون کی قوم کو مہلت دے کر اور ان پر رزق وسیع کر کے انہیں  آزمائش میں  مبتلا کیا تاکہ ان کا چھپا ہوا حال ظاہر ہوجائے اور ان کے پاس ایک معزز رسول حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے۔( تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ۹ / ۶۵۹، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۴۰۹، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)

اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اور کہا)کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردو۔بیشک میں تمہارے لیے امانت والا رسول ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنْ اَدُّوْۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ: کہ اللہ کے بندوں  کو میرے حوالے کردو۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کےپاس آئے تو اس سے فرمایا: بنی اسرائیل کو میرے حوالے کردو اور تم جو شدتیں اور سختیاں ان پر کرتے ہو اس سے انہیں رہائی دو ،بیشک میں تمہارے لیے وحی پر امانت والا، رسول ہوں ۔

وَّ اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِۚ-اِنِّیْۤ اٰتِیْكُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔بیشک میں تمہارے پاس روشن دلیل لاتا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَى اللّٰهِ: اور یہ کہ اللہ کے مقابلے میں  سرکشی نہ کرو۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون سے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی وحی،اس کے رسول اور اس کے بندوں کی توہین کر کے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو، بیشک میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات کی صورت میں اپنی نبوت اور رسالت کی سچائی کی روشن دلیل لاتا ہوں جس کا انکار کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔(روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۸ / ۴۱۰، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۱۱۱، ملتقطاً)

وَ اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ(20)وَ اِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور میں نے اس بات سے اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لی کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ اور اگر تم مجھ پر یقین نہ کرو تو مجھ سے الگ ہوجاؤ ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ: اور میں نے اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا تو فرعونیوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میرا تو کل اور اعتماد اس پر ہے جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، مجھے تمہاری دھمکی کی کچھ پروا نہیں،اللہ تعالیٰ مجھے بچانے والا ہے اور اگر تم میری تصدیق نہیں  کرتے تو مجھ سے الگ ہوجاؤ اور مجھے ایذا پہنچانے کی کوشش نہ کرو ۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۱۱۱۱، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۰-۲۱، ص۴۱۱، ملتقطاً)

فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ(22)فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں ۔تو(ہم نے فرمایا کہ) میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ،ضرور تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَدَعَا رَبَّهٗ: تو اس نے اپنے رب سے دعا کی۔} فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس بات کو بھی نہ مانا اور انہیں  جھٹلایاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ قبطی مشرک لوگ ہیں  اور اپنے کفر پر قائم ہیں  اور تو ان کا حال بہتر جانتا ہے، اس لئے جس چیز کے وہ مستحق ہیں  تو ان کے ساتھ وہ فرما۔( جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۴۱۱، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۸ / ۴۱۱، ملتقطاً)

{فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا: تو میرے بندوں کو راتوں  رات لے کر نکل جاؤ۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں  حکم فرمایا کہ جب دشمن غافل ہو تو بنی اسرائیل کو راتوں  رات لے کر مصر سے نکل جاؤ، جب فرعون کو تمہارے نکل جانے کی خبر ملے گی تو وہ اپنے لشکروں  کے ساتھ تمہارا پیچھا کرے گا تاکہ تمہیں  قتل کر دے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روانہ ہوئے اور دریا پر پہنچ کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا مارا تو دریا میں  بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور آپ بنی اسرائیل کے ساتھ دریا میں  سے گزر گئے۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۴۱۱)

وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًاؕ-اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ(24)كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(25)وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍ(26)وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور دریا کو جگہ جگہ سے کھلا ہواچھوڑ دو بیشک وہ لشکر غرق کر دیا جائے گا ۔وہ کتنے باغ اور چشمے چھوڑ گئے ۔ او رکھیت اور عمدہ مکانات۔ اور نعمتیں جن میں وہ عیش کرنے والے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا: اور دریا کو جگہ جگہ سے کھلا ہواچھوڑ دو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے  پیچھے فرعون اور اس کا لشکر آرہا تھا،اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاہا کہ پھرعصا مار کر دریا کو ملادیں  تاکہ فرعون اس میں  سے گزر نہ سکے تو آپ کو حکم ہوا: دریا کو جگہ جگہ سے گزرنے کیلئے کھلا ہواچھوڑ دو تاکہ فرعونی ان راستوں  سے دریا میں  داخل ہوجائیں ، بیشک وہ لشکر غرق کر دیا جائے گا۔یہ حکم سن کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطمینان ہوگیا اور جب فرعون اور اس کے لشکر دریامیں  داخل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے دریا کے پانی کو ملا دیا جس سے وہ سب غرق ہوگئے اور وہ کتنے باغ ، چشمے، کھیت،آراستہ و پیراستہ عمدہ مکانات، اور وہ نعمتیں  جن میں  وہ عیش کرنے والے تھے، چھوڑ گئے الغرض ان کا تمام مال و متاع اور سامان یہیں  رہ گیا۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ص۱۱۱۲، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ص۴۱۱، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۴-۲۷، ۸ / ۴۱۱-۴۱۲، ملتقطاً)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعونیوں  کی موت کے وقت ، جگہ اور کیفیت سے مُطّلع فرما دیا تھا اور یہ سب چیزیں  ان پانچ علوم میں  سے ہیں  جن کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے،معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ اپنے مقبول بندوں  کو علومِ خمسہ سے بھی نوازتا ہے۔

كَذٰلِكَ- وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے یونہی کیا اور ان چیزوں کا دوسری قوم کو وارث بنادیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذٰلِكَ: ہم نے یونہی کیا۔} یعنی ہم نے فرعون اور ا س کی قوم کے ساتھ اسی طرح کیا کہ ان کا تمام مال و متاع سلب کر لیا اور ان چیزوں  کا دوسری قوم یعنی بنی اسرائیل کو وارث بنا دیا جو ان کے ہم مذہب تھے نہ رشتہ دار اور نہ دوست تھے۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۴۱۲، ملخصاً)

آیت ’’ كَذٰلِكَ- وَ اَوْرَثْنٰهَا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… کفارکی بستیوں  اور ان کے مکانات میں  رہنا منع نہیں ، ہاں  جہاں  عذابِ الٰہی آیا ہو وہاں  رہنا منع ہے اور چونکہ فرعون کی قوم پر مصر میں  عذاب نہ آیا بلکہ انہیں  وہاں  سے نکال کر دریا میں  غرق کیا گیا لہٰذا مصر میں  رہنا درست ہوا ۔

(2)… فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد مصر میں  خود بنی اسرائیل آباد ہوئے تھے۔اس کی تائید قرآنِ پاک کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے،چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا:

’’ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ‘‘(اعراف:۱۲۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں  زمین میں  جانشین بنا دے گاپھروہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔

             اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ‘‘(اعراف:۱۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اس قوم کو جسے دبایا گیا تھا اُس زمین کے مشرقوں  اور مغربوں  کا مالک بنادیا جس میں  ہم  نے برکت رکھی تھی اور بنی اسرائیل پر ان کے صبر کے بدلے میں تیرے رب کا اچھا وعدہ پورا ہوگیااور ہم نے وہ سب تعمیرات برباد کردیں  جو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور وہ  عمارتیں جنہیں وہ بلند کرتے تھے۔

فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اور انہیں مہلت نہ دی گئی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ: تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے۔ } ارشاد فرمایا کہ فرعون اور ا س کی قوم پر آسمان اور زمین نہ روئے کیونکہ وہ ایماندار نہ تھے اور انہیں  عذاب میں  گرفتار کرنے کے بعدتوبہ وغیرہ کے لئے مہلت نہ دی گئی۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۱۲، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۱۴، ملتقطاً)

مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں :

          یاد رہے کہ جب کسی مومن کا انتقال ہوتا ہے تو اس پر آسمان و زمین روتے ہیں  جیسا کہ حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر مومن کے لئے دو دروازے ہیں  ،ایک سے اعمال اوپر کی طرف چڑھتے ہیں  اور دوسرے سے اس کا رزق اترتا ہے۔جب وہ مرتا ہے تو دونوں  ا س پر روتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے ا س فرمان’’فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ‘‘میں  یہی مذکور ہے۔‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الدخان، ۵ / ۱۷۱، الحدیث: ۳۲۶۶)

            اورامام مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا گیا کہ کیا مومن کی موت پر آسمان و زمین روتے ہیں ؟ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا :زمین اس بندے پر کیوں  نہ روئے جو زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا اور آسمان اس بندے پر کیوں  نہ روئے جس کی تسبیح و تکبیر آسمان میں  پہنچتی تھی۔ (خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۱۴)

            بعض مفسرین کے نزدیک زمین و آسمان خود نہیں  روتے بلکہ یہاں ان کے رونے سے مراد آسمان اور زمین والوں  کا رونا ہے جیسا کہ حضرت حسن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ(زمین و آسمان کے رونے سے مراد یہ ہے کہ ) آسمان والے اور زمین والے روتے ہیں ۔(مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۱۲)

وَ لَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ(30)مِنْ فِرْعَوْنَؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات بخشی۔فرعون سے، بیشک وہ متکبر، حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو نجات بخشی۔} اس سے پہلی آیات میں  فرعون کی ہلاکت کی کیفیت بیان کی گئی اور ان آیات میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم پر کئے گئے احسانات کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو اس رُسو اکُن عذاب سے نجات بخشی جو انہیں  فرعون کی طرف سے غلامی ،مشقّت سے بھرپور خدمتوں ، محنتوں  اور اولاد کے قتل کئے جانے کی صورت میں  پہنچتا تھا۔ بیشک فرعون متکبر اورحد سے بڑھنے والوں  میں سے تھا۔(تفسیرکبیر، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۹ / ۶۶۱، ، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۸ / ۴۱۴، ملتقطاً)

وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(32)وَ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنَ الْاٰیٰتِ مَا فِیْهِ بَلٰٓؤٌا مُّبِیْنٌ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔اورہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں واضح انعام تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ: اور بیشک ہم نے انہیں  جانتے ہوئے چن لیا۔} ارشاد فرمایا کہ(بنی اسرائیل پر ہم نے ایک احسان یہ کیا کہ) ہم نے اپنے علم کی بنا پر بنی اسرائیل کو اس زمانے میں  تمام جہان والوں  پر چُن لیا۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۱۲)

            یاد رہے کہ اس آیت سے یہ لازم نہیں  آتا کہ بنی اسرائیل حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سے بھی افضل ہیں  کیونکہ بنی اسرائیل کا افضل ہونااپنے زمانے کے اعتبار سے ہے۔

{وَ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنَ الْاٰیٰتِ: اورہم نے انہیں  نشانیاں  عطا فرمائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ (بنی اسرائیل پر ہم نے ایک احسان یہ کیا کہ) ہم نے انہیں  وہ نشانیاں  عطا فرمائیں  جن میں  واضح انعام تھا جیسے ان کے لئے دریا میں  خشک راستے بنائے، بادل کو سائبان کیا، مَنّ و سَلویٰ اتارا اوراس کے علاوہ اور نعمتیں  دیں ۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۱۵)

اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَ(34)اِنْ هِیَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ(35)فَاْتُوْا بِاٰبَآىٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک یہ (کفارِ مکہ)ضرورکہتے ہیں ۔بیشک موت تو صرف ہماری پہلی موت ہی ہے اور ہم اٹھائے نہ جائیں گے۔ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو لے آؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَیَقُوْلُوْنَ: بیشک یہ ضرورکہتے ہیں ۔} یہاں سے دوبارہ کفارِ مکہ کے بارے میں کلام شروع ہو رہا ہے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ ضرور کہتے ہیں کہ اس زندگانی کے بعد ایک موت کے علاوہ ہمارے لئے اور کوئی حال اور زندگی باقی نہیں ۔اس سے ان کا مقصود موت کے بعد زندہ کئے جانے کا انکار کرنا تھا جس کو اگلے جملے میں واضح کردیا کہ ہم موت کے بعددوبارہ کبھی زندہ کر کے اٹھائے نہیں جائیں گے،اگر تم اس بات میں  سچے ہو کہ ہم مرنے کے بعد زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے تو ہمارے باپ دادا کودوباہ زندہ کرکے لے آؤ ۔

            کفارِ مکہ نے یہ سوال کیا تھا کہ اگر موت کے بعد کسی کا زندہ ہونا ممکن ہو تو قُصَیْ بِن کلاب کو زندہ کردو اور یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ جس کام کے لئے وقت مُعیَّن ہو اس کا اس وقت سے پہلے وجود میں  نہ آنا اس کے ناممکن ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اور نہ اس کا انکار صحیح ہوتا ہے، جیسے اگر کوئی شخص کسی نئے اُگے ہوئے درخت یا پودے کو کہے کہ اس میں سے اب پھل نکالو ورنہ ہم نہیں مانیں گے کہ اس درخت سے پھل نکل سکتا ہے تو اس کو جاہل قرار دیا جائے گا اور اس کا انکار محض حماقت یا جھگڑا ہوگا۔(تفسیرکبیر،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶،۹ / ۶۶۲، روح البیان،الدخان، تحت الآیۃ:۳۴-۳۶، ۸ / ۴۱۶-۴۱۷، ملتقطاً)

اَهُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍۙ-وَّ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-اَهْلَكْنٰهُمْ٘-اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا وہ بہتر ہیں یا تبع (نامی بادشاہ)کی قوم اور ان سے پہلے والے لوگ؟ ہم نے انہیں ہلاک کردیا بیشک وہ مجرم لوگ تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَهُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ: کیا وہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم۔} اس آیت میں  کفارِ قریش کا رد کیا گیا ہے کہ کیا طاقت و قوت اور شان و شوکت میں  کفارِ مکہ بہتر ہیں یا تُبَّع نامی بادشاہ کی قوم اور ان سے پہلے والے لوگ جیسے عاد اور ثمود وغیرہ جو کہ کافر امتوں  میں  سے تھے؟ ان لوگوں  کا انجام یہ ہوا کہ ہم نے انہیں  ان کے کفر کے باعث ہلاک کردیا، بیشک وہ کافر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر لوگ تھے جس کی وجہ سے عذاب کے حقدار ٹھہرے۔جب یہ کفارِ مکہ سے زیادہ طاقت و قوت رکھنے کے باوجود کفر کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تو کفارِ مکہ جو کہ کفر میں  ان کے شریک ہیں  ،انہیں  ہلاک کرنا کونسا دشوار کام ہے، حالانکہ یہ تو ان کے مقابلے میں  انتہائی کمزور ہیں ۔

            یاد رہے کہ اس آیت میں  جس تُبَّع کا ذکر ہے یہ تُبَّع حمِیْری تھے،یہ خود مومن اور یمن کے بادشاہ تھے لیکن ان کی قوم کافر تھی جو کہ انتہائی طاقت و قوت اور شان و شوکت کی مالک تھی اور ان کی تعداد بھی بہت کثیر تھی۔(روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۸ / ۴۱۸، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۱۵، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۱۱۳، ملتقطاً)

             حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد  فرمایا’’ تُبَّع کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔‘‘ (معجم الکبیر،سہل بن سعد الساعدی، ابو زرعۃ عمرو بن جابر الحضرمی عن سہل بن سعد،۶ / ۲۰۳،الحدیث:۶۰۳۱)

            اسی تُبَّع نے مدینہ منورہ بسایا، اس تُبَّع نے حضورپرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غائبانہ خط لکھ کر لوگوں  کو سپرد کیا تھا، کہ جب حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جلوہ گر ہوں  تو میرا یہ خط پیش کر دیا جائے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مکان میں  جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہو ئے تو حضرت ابویعلیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ خط پیش کیا۔

وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو کھیل کے طور پرنہیں بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ: اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو کھیل کے طور پرنہیں  بنایا۔}  ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو ایسے ہی کھیل کے طور پر بے مقصدنہیں  بنایا کیونکہ اگر مرنے کے بعد اٹھنا اور حساب و ثواب نہ ہو تو مخلوق کی پیدائش محض فنا کے لئے ہوگی اور یہ عبث و لعب ہے ،تو اس دلیل سے ثابت ہوا کہ اس دنیوی زندگی کے بعد اخروی زندگی ضرور ہے جس میں  اعمال کاحساب ہو گا اور ان کی جزا ملے گی۔( مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۱۱۱۳، بیضاوی، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۸، ۵ / ۱۶۳، ملتقطاً)

مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے انہیں حق کے ساتھ ہی بنایالیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا خَلَقْنٰهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ: ہم نے انہیں  حق کے ساتھ ہی بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کوحق کے ساتھ ہی بنایا تاکہ لوگوں  کو فرمانبرداری کرنے پر ثواب دیں  اور نافرمانی کرنے پر عذاب  کریں  لیکن کفارِ مکہ میں  سے اکثر لوگ غفلت اور غورو فکر نہ کرنے کے باعث جانتے نہیں  کہ آسمان و زمین پید اکرنے کی حکمت یہ ہے اور حکیم کا کوئی فعل بیکار نہیں  ہوتا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۱۱۶، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۳۹، ۸ / ۴۲۳، ملتقطاً)

اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُهُمْ اَجْمَعِیْنَ(40)یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًى عَنْ مَّوْلًى شَیْــٴًـا وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(41)اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰهُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک فیصلے کا دن ان سب کا مقرر کیا ہوا وقت ہے۔جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گااور نہ ان کی مددکی جائے گی ۔مگر جس پر اللہ مہربانی فرمائے ،بیشک وہی عزت والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ: بیشک فیصلے کا دن۔}  یعنی قیامت کا دن جس میں  اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اپنے بندوں میں  فیصلہ فرمائے گا، وہ ان سب کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضری کیلئے مقرر کیا ہوا وقت ہے اور ا س دن اللہ تعالیٰ اگلوں  پچھلوں  سب کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۱۱۶، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۱۱۱۳، ملتقطاً)

{یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًى عَنْ مَّوْلًى شَیْــٴًـا: جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا۔ } اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کا دن ایسا ہے کہ اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور رشتے داری اور محبت نفع نہ دے گی اور نہ ان کافروں  کی مددکی جائے گی البتہ مومنین اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک دوسرے کی شفاعت کریں  گے ۔بے شک وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ عزت والا اور اپنے دشمنوں  سے انتقام لینے میں  غلبے والا ہے اور اپنے دوستوں  یعنی ایمان والوں  پر مہربان ہے ۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۴ / ۱۱۶، جمل، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۷ / ۱۳۰، ملتقطاً)

اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ(43)طَعَامُ الْاَثِیْمِ (44)كَالْمُهْلِۚۛ-یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ(45)كَغَلْیِ الْحَمِیْمِ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک زقوم کادرخت۔ گناہگار کی خوراک ہے۔گلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارتا ہوگا ۔ جیسا کھولتا ہواپانی جوش مارتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ: بیشک زقوم کادرخت۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک جہنم کا کانٹے دار اور انتہائی کڑوازقوم نام کادرخت بڑے گناہگار یعنی کافر کی خوراک ہے اور جہنمی زقوم کی کیفیت یہ ہے کہ گلے ہوئے تانبے کی طرح کفار کے پیٹوں  میں  ایسے جوش مارتاہوگا جیسے کھولتا ہواپانی جوش مارتا ہے۔( ابو سعود، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۶، ۵ / ۵۶۰، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۶، ص۴۱۲، ملتقطاً)

جہنمی درخت زقوم کا وصف:

       زقوم نامی درخت کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُ جُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِۙ(۶۴) طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ(۶۵) فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ‘‘(صافات:۶۴-۶۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی  جڑ میں سے نکلتا ہے۔اس کا شگوفہ ایسے ہے جیسے شیطانوں  کے سرہوں ۔پھر بیشک وہ اس میں  سے کھائیں  گے پھر اس  سے پیٹ بھریں  گے۔

         اور ارشاد فرمایا:

’’ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَۙ(۵۱) لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍۙ(۵۲) فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَۚ(۵۳) فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِۚ(۵۴) فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِؕ(۵۵) هٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ‘‘(واقعہ:۵۱-۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر اے گمراہو، جھٹلانے والو! بیشک  تم۔ضرور زقوم (نام)کے درخت میں  سے کھاؤ گے۔پھر تم اس سے پیٹ بھرو گے۔پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔تو  ایسے پیو گے جیسے سخت پیاسے اونٹ پیتے ہیں  ۔انصاف کے دن یہ ان کی مہمانی ہے۔

         اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں  ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگانی خراب ہوجائے تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کا کھانا ہی یہ ہو گا۔‘‘ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النّار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۴)

            اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھے اور ہمیں  جہنم کے اس بدترین عذاب سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

خُذُوْهُ فَاعْتِلُوْهُ اِلٰى سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(47)ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِﭤ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

اسے پکڑوپھر سختی کے ساتھ اسے بھڑکتی آگ کے درمیان کی طرف گھسیٹتے لے جاؤ۔پھر اس کے سر کے اوپر کھولتے پانی کا عذاب ڈالو ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذُوْهُ: اسے پکڑو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ(حساب و کتاب کے بعد) جہنم کے فرشتوں  کو حکم دیا جائے گا کہ اس گناہگار کو پکڑو ،پھر سختی کے ساتھ اسے بھڑکتی آگ کے درمیان کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ، پھر اس کے سر کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالو تاکہ اس کی شدت سے اسے عذاب پہنچے۔ (جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۴۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ص۱۱۱۴، ملتقطاً)

ذُقْ ﳐ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ(49)اِنَّ هٰذَا مَا كُنْتُمْ بِهٖ تَمْتَرُوْنَ(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

چکھ۔ تو تَوبڑا عزت والا، کرم والا ہے۔بیشک یہ وہ ہے جس میں تم شک کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذُقْ: چکھ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اس جہنمی کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا تو اس وقت ا س کی تذلیل اور توہین کرتے ہوئے اس سے کہا جائے گا: اس ذلت اور اِہانت والے عذاب کوچکھ، تواپنے گمان میں  اپنی قوم کے نزدیک بڑا عزت والا کرم والا ہے، تو یہ تیری تعظیم ہو رہی ہے ۔ مفسرین فرماتے ہیں  :ابو جہل نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے کہا:مکہ کے ان دو پہاڑوں  کے درمیان مجھ سے زیادہ عزت والا اور کرم والا کوئی نہیں  تو خدا کی قسم! آپ اور آپ کا رب میرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے۔اس کے لئے وعید کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے عذاب کے وقت یہ طعنہ دیا جائے گا۔

             اگلی آیت میں  فرمایا گیا کہ کفار سے یہ بھی کہا جائے گا: بیشک جو عذاب تم دیکھ رہے ہو یہ وہ عذاب ہے جس میں  تم شک کرتے تھے اور اس پر ایمان نہیں  لاتے تھے۔(روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۸ / ۴۲۸، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۴ / ۱۱۶، ملتقطاً)

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍ(51)فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(52)یَّلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(53)كَذٰلِكَ- وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍﭤ(54)یَدْعُوْنَ فِیْهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ اٰمِنِیْنَ(55)لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰىۚ-وَ وَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ(56)فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ڈر والے امن والی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں ۔باریک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں گے،ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ یونہی ہوگا اور نہایت سیاہ اور روشن بڑی آنکھوں والی عورتوں سے ہم نے ان کا نکاح کردیا۔ وہ جنت میں بے خوف ہوکرہر قسم کا پھل میوہ مانگیں گے۔ اس میں پہلی موت کے سوا پھر موت کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور اللہ نے انہیں آگ کے عذاب سے بچالیا۔تمہارے رب کے فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک ڈرنے والے۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کے لئے وعید کا بیان ہوا اور یہاں  سے پرہیز گاروں  کے ساتھ کئے گئے وعدہ کا بیان ہورہا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی چھ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک کفر اور گناہ کرنے میں  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ایسی جگہ میں  ہوں  گے جہاں  انہیں  آفات سے امن نصیب ہوگا اور انہیں  اس امن والی جگہ کے چھوٹ جانے کا کوئی خوف نہ ہوگابلکہ یقین ہوگا کہ وہ وہیں  رہیں  گے،وہ اس جگہ ہوں  گے جہاں  باغ اور بہنے والے چشمے ہوں  گے ،وہاں  وہ باریک اور موٹے ریشم کے لباس پہنیں  گے اور وہ اپنی مجلسوں  میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ا س طرح ہوں  گے کہ کسی کی پشت کسی کی طرف نہ ہو گی۔جنتی اسی طرح ہمیشہ دل پسند نعمتوں  میں رہیں  گے اور نہایت سیاہ اور روشن بڑی آنکھوں  والی خوبصورت عورتوں  سے ہم ان کی شادی کریں  گے۔وہ جنت میں  اس طرح بے خوف ہو کر اپنے جنتی خادموں  کو میوے حاضر کرنے کا حکم دیں  گے کہ انہیں  کسی قسم کا اندیشہ ہی نہ ہوگا، نہ میوے کم ہونے کا ،نہ ختم ہوجانے کا ،نہ نقصان پہنچانے کا ،نہ اور کوئی اندیشہ ہو گا۔وہ دنیا میں  واقع ہونے والی پہلی موت کے سوا جنت میں پھر موت کا ذائقہ نہ چکھیں  گے اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے رب کے فضل سے انہیں  آگ کے عذاب سے بچالیا اوراس سے نجات عطا فرمائی ، یہی بڑی کامیابی ہے۔( روح البیان، الدخان،تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ۸ / ۴۲۸-۴۳۱، جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ص۴۱۲، مدارک، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۷، ص۱۱۱۴-۱۱۱۵، ملتقطاً)

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(58)فَارْتَقِبْ اِنَّهُمْ مُّرْتَقِبُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کردیاتا کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔تو تم انتظار کرو، بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ: تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کردیا۔ } اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان عربی میں  نازل فرما کر اس لئے آسان کردیاتا کہ آپ کی قوم کے لوگ اسے سمجھیں  اور اس سے نصیحت حاصل کریں  اور ا س کے احکامات پر عمل کریں۔اگر وہ ایسا نہ کریں  تو آپ ان کی ہلاکت اور ان پر آنے والے عذاب کاانتظار کریں ، بے شک وہ بھی آپ کی وفات کا انتظار کر رہے ہیں ۔( روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ۸ / ۴۳۳، خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ۴ / ۱۱۷، ملتقطاً)

Scroll to Top