سُوْرَۃُ الحُجُرَات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت کے بغیرکسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے کیونکہ یہ آگے بڑھنارسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و احترام کے خلاف ہے جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ تمہارے تمام اقوال کو سنتا اور تمام افعال کو جانتا ہے اور جس کی ایسی شان ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
اس آیت کے شان نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ،ان میں سے دو رِوایات درجِ ذیل ہیں،
(1)…چند لوگوں نے عیدُالاضحی کے دِن سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں ۔
(2)… حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے آگے نہ بڑھو۔ (خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۶۳-۱۶۴، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۲۶، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۱۴۹-۱۱۵۰، ملتقطاً)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:(اس آیت کا)شانِ نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں ،کسی کام میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے آگے ہونا منع ہے ،اگر حضور عَلَیْہِ السَّلَام کے ہمراہ راستہ میں جا رہے ہوں تو آگے آگے چلنا منع ہے مگر خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت سے اجازت لے کر(چلنا منع نہیں )، اگر ساتھ کھانا ہو تو پہلے شروع کر دینا ناجائز،اسی طرح اپنی عقل اور اپنی رائے کو حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی رائے سے مقدم کرنا حرام ہے۔( شان حبیب الرحمٰن، ص۲۲۴)
آیت ’’لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ سے متعلق5باتیں :
یہاں اس آیت سے متعلق5باتیں ملاحظہ ہوں
(1)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائے ہیں ۔
(2)…اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں سے آگے نہ بڑھنے کا فرمایا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ سے آگے ہونا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمانہ میں ہے نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمانہ میں ہوتا ہے یا جگہ میں، معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آگے نہ بڑھو،ان کی بے ادبی دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے۔( شان حبیب الرحمٰن،ص۲۲۴-۲۲۵، ملخصاً)
(3)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خادم کی حیثیت سے یا کسی ضرورت کی بنا پر آپ سے اجازت لے کر آگے بڑھنا اس ممانعت میں داخل نہیں ہے ،لہٰذا اَحادیث میں جو بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آگے آگے چلنا مذکور ہے وہ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ ان کا چلنا خادم کی حیثیت سے تھا، یونہی حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا امامت کروانابھی اس میں داخل نہیں کیونکہ آپ کا یہ عمل حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت سے تھا۔
(4)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :علماءِ کرام چونکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں اس لئے ان سے آگے بڑھنا بھی اس ممانعت میں داخل ہے اور اس کی دلیل حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی وہ روایت ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا’’اے ابو دردائ!کیا تم اس کے آگے چلتے ہو جو تم سے بلکہ ساری دنیا سے افضل ہے ۔( روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۶۲)
یا درہے کہ یہ ادب ان علماءِ کرام کے لئے ہے جو اہلِ حق اور با عمل ہیں کیونکہ یہی علماء در حقیقت انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں جبکہ بد مذہبوں کے علماء اور بے عمل عالِم اس ادب کے مستحق نہیں ہیں ۔
(5)… بعض ادب والے لوگ بزرگوں یا قرآن شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرتے، ان کے اس عمل کا ماخَذ یہ آیت ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔} اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کواپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی ۔( قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۲۲۰، الجزء السادس عشر)
مفسرین نے اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مختلف روایات ذکر کی ہیں ،ان میں سے چندروایت درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابن اَبی مُلیکہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو بہترین حضرات ہلاک ہونے کے قریب جا پہنچے تھے، ہُوا یوں کہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت اپنی آوازیں اونچی کر دی تھیں جب بنو تمیم کے سوار بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تھے ،اُن میں سے ایک صاحب نے بنی مجاشع کے بھائی اقرع بن حابس کی طرف اشارہ کیا(کہ انہیں ان کی قوم کا حاکم بنا دیاجائے) اور دوسرے نے ایک اور شخص کی جانب اشارہ کیا۔حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا:آپ(یہ کہہ کر) میری مخالفت کرنا چاہتے ہیں ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا:میں تو آپ کی مخالفت کرنا نہیں چاہتا۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے ان دونوں حضرات کی آوازیں بلند ہو گئیں ،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔۔۔الایہ‘‘۔(بخاری،کتاب التفسیر، باب لا ترفعوا اصواتکم… الخ، ۳ / ۳۳۱، الحدیث : ۴۸۴۵)
صحیح بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے ،حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے یہی واقعہ مروی ہے ،البتہ اس کے آخر میں یہ ہے کہ ’’اس گفتگو کے دوران ان کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اس معاملے میں یہ آیت نازل ہوئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا‘‘ یہاں تک کہ آیت (’’ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ تک) پوری ہوگئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب اِنّ الذین یُنادونک… الخ، ۳ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۸۴۷) اس صورت میں اس شانِ نزول کا تعلق آیت نمبر 1اور2دونوں سے ہے ۔
(2)… دوسرا شانِ نزول یہ بیان ہوا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں منافقین اپنی آوازیں بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان(اس معاملے میں )ان کی پیروی کریں ،اس پر مسلمانوں کوبارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آواز بلند کرنے سے منع کر دیا گیا (تاکہ منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں)( قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ : ۲، ۸ / ۲۲۰، الجزء السادس عشر)
(3)…تیسرا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی، وہ اونچا سنا کرتے تھے ، اُن کی آواز بھی اُونچی تھی اور بات کرنے میں آواز بلند ہوجایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَذِیَّت ہوتی تھی۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۵۰)
حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا بلند آوازسے بات کرنا اگرچہ اونچا سننے کی معذوری کی بنا پر تھا لیکن معذوری اونچا سننا تھا نہ کہ اونچا بولنا کیونکہ اونچا سننے والے کیلئے اونچا بولنا تو ضروری نہیں اور اونچا سننے والے کو سمجھایا جائے کہ بھائی، تمہیں اونچا سنتا ہے ، دوسروں کو نہیں لہٰذا تم اپنی آواز پَست رکھو تو اس کہنے میں حرج نہیں بلکہ یہ عین درست اور قابلِ عمل بات ہے اور تیسرے شانِ نزول کے اعتبار سے یہی تفہیم کی گئی ہے۔
نوٹ: اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق اور بھی روایات ہیں ،ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے مختلف اسباب پیدا ہوئے ہوں اور بعد میں ایک ہی مرتبہ یہ آیت نازل ہو گئی ہو،جیسا کہ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس بات سے کوئی چیز مانع نہیں کہ آیت کا نزول مختلف اَسباب کی وجہ سے ہوا ہوجو آیت نازل ہونے سے پہلے وقوع پَزیر ہوئے تھے اور جب ان (روایات جن میں یہ) اَسباب (بیان ہوئے،) کی اسناد صحیح ہیں اور ان میں تطبیق واضح ہے تو پھر ان میں سے کسی کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔(فتح الباری، کتاب التفسیر، باب لاترفعوا اصواتکم… الخ، ۹ / ۵۱۰، تحت الحدیث: ۴۸۴۶)
نیزیہ بھی ضروری نہیں ہے کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کوئی بے ادبی سرزَد ہوئی ہو جس پر انہیں تنبیہ کی گئی ہو،عین ممکن ہے کہ پیش بندی کے طور پر انہیں یہ آداب تعلیم فرمائے گئے ہوں اور بے ادبی کی سزا سے آگاہ کیا گیا ہو۔
آیت ’’لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ‘‘ کے نزول کے بعد صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا حال:
جب یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بہت محتاط ہو گئے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کے دوران بہت سی احتیاطوں کو اپنے اوپر لازم کر لیا تاکہ آواز زیادہ بلند نہ ہو جائے، نیز اپنے علاوہ دوسروں کو بھی ا س ادب کی سختی سے تلقین کرتے تھے ،اسی طرح آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد آپ کے روضۂ انور کے پاس (خود بھی آواز بلند نہ کرتے اور) دوسروں کو بھی آواز اونچی کرنے سے منع کرتے تھے،یہاں اسی سے متعلق 6 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:جب یہ آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘ نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔( کنزالعمال،کتاب الاذکار،قسم الافعال،فصل فی التفسیر،سورۃ الحجرات،۱ / ۲۱۴، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۶۰۴)
(2)…حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا حال یہ تھا کہ آپ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتّٰی کہ بعض اوقات حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵ / ۱۷۷، الحدیث: ۳۲۷۷)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور (اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے) کہنے لگے: میں اہلِ نار سے ہوں ۔(جب یہ کچھ عرصہ بارگاہِ رسالت میں حاضر نہ ہوئے تو) حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اُن کا حال دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی: وہ میرے پڑوسی ہیں اور میری معلومات کے مطابق انہیں کوئی بیماری بھی نہیں ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے کہا:یہ آیت نازل ہوئی ہے اور تم لوگ جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں (اور جب ایسا ہے) تو میں جہنمی ہوگیا ۔حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ صورت ِحال حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’(وہ جہنمی نہیں) بلکہ وہ جنت والوں میں سے ہیں ۔(مسلم، کتاب الایمان، باب مخافۃ المؤمن ان یحبط عملہ، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۷(۱۱۹))
نوٹ:صحیح مسلم کی اس روایت میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر ہے اور تفسیر ابنِ منذر میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی مروی یہی واقعہ مذکور ہے، اس میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بجائے حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر ہے ،اس کے بارے میں علامہ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھنا زیادہ درست ہے کیونکہ آپ کا تعلق حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے قبیلہ (خزرج) سے ہے اور حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں ان کا حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا پڑوسی ہونا زیادہ واضح ہے کیونکہ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعلق دوسرے قبیلے (یعنی اَوس) سے تھا۔( فتح الباری، کتاب المناقب، باب علامات النّبوۃ فی الاسلام، ۷ / ۵۱۷، تحت الحدیث: ۳۶۱۳)
نیز اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بنو تمیم کا وفد سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور یہ سن 9ہجری کا واقعہ ہے جبکہ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تو سن 5ہجری میں غزوہ بنوقریظہ کے بعد وفات پا گئے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بہت بعد کی ہے ۔
(4)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منبر کے پاس تھا،ایک شخص نے کہا:اسلام لانے کے بعد اگر میں صرف حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔دوسرے شخص نے کہا:اسلام لانے کے بعد اگر میں مسجد ِحرام کو آباد کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔تیسرے شخص نے کہا:اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا تمہاری کہی ہوئی باتوں سے افضل ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منبر کے پاس اپنی آواز بلند نہ کرو۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشّہادۃ فی سبیل اللّٰہ تعالی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۱(۱۸۷۹))
(5)… ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسجد ِنَبوی میں دو شخصوں کی بلند آواز سنی تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا’’کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟پھر ارشاد فرمایا:تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عرض کی:ہم طائف کے رہنے والے ہیں :ارشاد فرمایا:اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں (یہاں آواز بلند کرنے کی وجہ سے) تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنے والے دربارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آداب سے خوب واقف ہیں )۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۳۴۳)
(6)… اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:امیر المومنین عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے روضۂ انور کے پاس کسی کو اونچی آواز سے بولتے دیکھا، فرمایا: کیا اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند کرتاہے، اور یہی آیت (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ) تلاوت کی۔(ہوسکتا ہے کہ واقعہ وہی ہو جو اوپر چار نمبر کے تحت بیان ہوا ہے۔)( فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۶۹)
آیت ’’ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ‘‘ میں دئیے گئے حکم پر دیگربزرگانِ دین کاعمل:
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِمبارکہ میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب و احترام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجا لائے، اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے بھی دربارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آداب کاخوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجا لانے کی تلقین کی ،چنانچہ یہاں ان کی سیرت کے اس پہلو سے متعلق3 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…ابو جعفر منصور بادشاہ مسجد ِنَبوی میں حضرت امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک مسئلے کے بارے میں گفتگو کررہا تھا،(اس دوران ا س کی آواز کچھ بلند ہوئی تو) امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا: اے مسلمانوں کے امیر! اس مسجد میں آواز بلند نہ کر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا:
’’ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
اور ایک جماعت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(حجرات:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جولوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
اور ایک جماعت کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘(حجرات:۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔
بے شک وصال کے بعد بھی حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت ایسی ہے جیسی آپ کی ظاہری حیات میں تھی۔ (یہ سن کر) ابو جعفر نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ رُو ہوکر دعا کروں یا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: تُو حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کیوں رُخ پھیرتا ہے حالانکہ حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تیرے اور تیرے جد ِاَمجد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وسیلہ ہیں ، تُو حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رُخ کر اور شفاعت کی درخواست کر، اللہ تعالیٰ تیرے لئے شفاعت قبول فرمائے گا۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الاول، فصل واعلم ان حرمۃ النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ص۴۱، الجزء الثانی)
(2)…امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (مسجد ِنَبوی میں درس دیا کرتے تھے ،جب ان) کے حلقہ ٔدرس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی : آپ ایک آدمی مقرر کر لیں جو (آپ سے حدیث پاک سن کر) لوگوں کو سنا دے ۔امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے (اس لئے میں یہاں کسی شخص کوآواز بلند کرنے کے لئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا)۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الاول، فصل واعلم ان حرمۃ النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ص۴۳، الجزء الثانی)
(3)…حضرت سلیمان بن حرب رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ایک دن حضرت حماد بن زید رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے حدیث پاک بیان کی توایک شخص کسی چیز کے بارے میں کلام کرنے لگ گیا،اس پر حضرت حماد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ غضبناک ہوئے اور کہا:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
اور میں کہہ رہاہوں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جبکہ تم کلام کر رہے ہو (یعنی آواز اگرچہ میری ہے لیکن کلام تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے،پھر تم اس کلام کو سنتے ہوئے کیوں گفتگوکر رہے ہو) ۔( شعب الایمان، الخامس عشر من شعب الایمان… الخ، ۲ / ۲۰۶، روایت نمبر: ۱۵۴۶)
آیت ’’لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ‘‘ سے متعلق 3 اَہم باتیں
یہاں اس آیت سے متعلق 3اَہم باتیں ملاحظہ ہوں :
(1)… بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفات ِظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ پاک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فُقہا نے تو حکم دیاہے کہ جب حدیث ِپاک کا درس ہو رہا ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں کہ اگرچہ بولنے والا (یعنی حدیث ِپاک کا درس دینے والا) اور ہے مگر کلام تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہے ۔(شان حبیب الرحمٰن،ص۲۲۵)
(2)… بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم وتوقیر کے برخلاف ہے اور بے ادبی کے زُمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور توہین کی نیت ہو تو یہ کفر ہے، لہٰذا جنگ کے دوران یا اَشعار کی صورت میں کفار کی مذمت بیان کرنے کے دوران صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی جو آوازیں بلند ہوئیں وہ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ یہ تعظیم و توقیر کے خلاف نہ تھیں بلکہ بعض مقامات پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت سے تھیں،اسی طرح اذان کے وقت جو آواز بلند ہوئی وہ بھی اس میں داخل نہیں کیونکہ اذان ہوتی ہی بلند آواز سے ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جولوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ: بیشک جولوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں ۔} شانِ نزول:جب یہ آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ‘‘ نازل ہوئی تو اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق اورکچھ دیگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بہت احتیاط لازم کر لی اورسرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاَقدس میں بہت ہی پَست آواز سے عرض معروض کرتے (جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے)، ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے عمل کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا’’بیشک جولوگ ادب اور تعظیم کے طور پر اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پَست رکھتے ہیں ،یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے پَرَکھ لیا (اور ان میں موجود پرہیز گاری کو ظاہر فرما دیا) ہے، ان کے یے آخرت میں بخشش اور بڑا ثواب ہے۔( جلالین مع صاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۱۹۸۷-۱۹۸۸)
آیت ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات:
اس آیت سے 5 باتیں معلوم ہوئیں
(1)… تمام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔
(2)…اللہ تعالیٰ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے دل تقویٰ کے لئے پَرَکھ لئے ہیں تو جو انہیں مَعَاذَاللہ فاسق مانے وہ اس آیت کا مُنکر ہے۔
(3)…صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ انتہائی پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے کیونکہ جس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کا رسول مان لیا اور آپ کی اس قدر تعظیم کی کہ آپ کے سامنے اس ڈر سے اپنی آواز تک بلند نہ کی کہ کہیں بلند آواز سے بولنے کی بنا پر اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں تو ا س کے دل میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کا خوف کتنا زیادہ ہو گا۔
(4)… حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی بخشش یقینی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا اعلان فرمادیا ہے۔
(5)… ان دونوں بزرگوں کا اجر وثواب ہمارے وہم وخیال سے بالا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم فرمایا ہے۔
حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان:
حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی معذوری کے باوجود اپنے اوپر یہ لازم کر لیا تھا کہ وہ کبھی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے ،ان کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم اہلِ جنت میں سے ایک شخص کو اپنے سامنے چلتا ہوا دیکھتے تھے اور جب یمامہ کے مقام پر مُسیلمہ سے جنگ ہوئی تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ شکست کھا گیا ہے ،یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ان لوگوں پر افسوس ہے ،پھر حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت سالم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا:ہم رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے اس طرح جنگ نہیں کیا کرتے تھے۔پھر یہ دونوں ڈٹ گئے اور لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کے بعد ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں خواب میں دیکھا،انہوں نے فرمایا:فلاں شخص میری زِرہ اتار کر لے گیا ہے اور وہ لشکر کے کونے میں گھوڑے کے پاس پتھر کی ہنڈیا کے نیچے رکھی ہوئی ہے ،لہٰذ آپ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جائیں اور انہیں اس کی خبر دیں تاکہ وہ میری زِرہ واپس لے سکیں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس جائیں اور ان سے عرض کریں :مجھ پر قرض ہے ، تاکہ وہ میرا قرض ادا کردیں اور میرا فلاں غلام آزاد ہے۔چنانچہ ان صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس کی خبر دی تو انہوں نے زِرہ اور گھوڑے کو اسی طرح پایاجیسے حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بیان فرمایا تھا، انہوں نے زِرہ لے لی اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس خواب کی خبر دی۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی وصیت کو نافذ کر دیا۔ حضرت مالک بن انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : مجھے اس وصیت کے علاوہ کوئی ایسی وصیت معلوم نہیں جو کسی کی وفات کے بعد نافذ کی گئی ہو۔( صاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۱۹۸۸)
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں} شانِ نزول: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچے ،اس وقت حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حُجروں کے باہر سے حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پکارنا شروع کر دیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لے آئے، ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۵۱، ملخصاً)
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا: اور اگر وہ صبر کرتے۔} اس آیت میں ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ انہیں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوپکارنے کی بجائے صبر اور انتظارکرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود ہی مُقَدّس حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے اوراس کے بعدیہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔ اگر وہ اپنے اوپر لازم اس ادب کو بجالاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے اگر وہ توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۶۶، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۶۸، ملخصاً)
علماء اوراسا تذہ کی بارگاہ میں حاضری کا ایک ادب:
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرّب بندوں اور باعمل علماء کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو ان کے آستانے کا دروازہ بجا کر جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معمول کے مطابق آستانے سے باہر تشریف لے آئیں ۔ہمارے بزرگانِ دین کا یہی طرزِ عمل ہوا کرتا تھا،چنانچہ بلند پایہ عالِم حضر ت ابو عبید رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایاکرتے تھے : میں نے کبھی بھی کسی استادکے دروازہ پردستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے اِستفادہ حاصل کرتا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا حضر ت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کرنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تو دروازے کے پاس کھڑے ہو جاتے اور ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتے (بلکہ خاموشی سے ان کاانتظار کرتے) یہاں تک کہ وہ اپنے معمول کے مطابق باہر تشریف لے آتے ۔حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا یہ طرزِ عمل بہت برا معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا:آپ نے دروازہ کیوں نہیں بجایا(تاکہ میں فوراًباہرآجاتااورآپ کوانتظارکی زحمت نہ اٹھانی پڑتی؟)حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جواب دیا:عالِم اپنی قوم میں اس طرح ہوتاہے جس طرح نبی اپنی امت میں ہوتاہے (یعنی عالِم نبی کا وارث ہوتا ہے) اور (چونکہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ’’ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ (اس لئے میں نے بھی دروازہ بجانے کی بجائے آپ کے خود ہی تشریف لے آنے کا انتظار کیا) ۔
علامہ آلوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپناطرزِعمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے یہ واقعہ بچپن میں پڑھا تھا، اس کے بعد میں عمربھراسی کے مطابق اپنے استادوں کے ساتھ معاملہ کرتارہا۔( روح المعانی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۵، ۱۳ / ۴۱۲)
آیت ’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار شریف کے آداب اللہ تعالیٰ نے بنائے اور اسی نے سکھائے ہیں ، یاد رہے کہ یہ آداب صرف انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ جنوں ،انسانوں اور فرشتوں سب پر جاری ہیں اور یہ آداب کسی خاص وقت تک کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہیں ۔
(2)… اکابرین کی بارگاہ کا ادب کرنابندے کو بلند درجات تک پہنچاتا ہے اور دنیا وآخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو۔} ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براء ت ظاہر ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
مفسرین نے اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بنی مُصطلق سے صدقات وصول کرنے بھیجا ،زمانۂ جاہلیَّت میں اِن کے اور اُن کے درمیان دشمنی تھی، جب حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے علاقے کے قریب پہنچے اور اُن لوگوں کوخبر ہوئی تواس خیال سے کہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھیجے ہوئے ہیں ، بہت سے لوگ ان کی تعظیم کے لئے ان کا استقبال کرنے آئے ، لیکن حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے گمان کیا کہ یہ پرانی دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرنے آرہے ہیں ، یہ خیال کرکے حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ واپس ہوگئے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے (اپنے گمان کے مطابق) عرض کردیا کہ حضور! ان لوگوں نے صدقہ دینے سے منع کردیا اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہوگئے ہیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو حالات کی تحقیق کے لئے بھیجا،حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ لوگ اذانیں کہتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور ان لوگوں نے صدقات پیش کردیئے۔ حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ یہ صدقات لے کر خدمت ِاَقدس میں حاضر ہوئے اور واقعہ عرض کیا، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔(خازن،الحجرات،تحت الآیۃ:۶،۴ / ۱۶۶-۱۶۷، مدارک،الحجرات،تحت الآیۃ:۶،ص۱۱۵۲، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۷۰-۷۱، ملتقطاً)
حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ صحابی ہیں اور صحابہ میں کوئی فاسق نہیں :
یاد رہے کہ اس آیت میں بطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو فاسق نہیں کہا گیا بلکہ ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے لہٰذا اس آیت کی بنا پر انہیں فاسق نہیں کہہ سکتے، جیسا کہ علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ہے لیکن فاسق سے مرادبطورِ خاص حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نہیں ہیں کیونکہ آپ فاسق نہیں بلکہ عظیم صحابی ہیں ۔( صاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۱۹۹۰-۱۹۹۱، ملخصاً)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (اِس آیت کے پیش ِنظر کسی شخص کا) حضرت ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ پر فاسق کا اطلاق کرنابڑی خطا ہے کیونکہ انہوں نے وہم اور گمان کیا جس میں خطا کر گئے اور خطا کرنے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔( تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۹۸)
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ ہی ہو،لیکن یہ نہیں ہے کہ آیت میں بطورِ خاص آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہی فاسق کہا گیا ہے ، ا س کی وجہ یہ ہے کہ (اس واقعے میں یا اس سے پہلے ان سے کوئی ایسا کام سرزَد نہیں ہوا جس کی بنا پر انہیں فاسق کہا جا سکے اور) اس واقعے میں بھی انہوں نے بنو مصطلق کی طرف جو بات منسوب کی تھی وہ اپنے گمان کے مطابق صحیح سمجھ کر کی تھی اگرچہ حقیقت میں وہ غلط تھی اور یہ ایسی چیز نہیں جس کی بنا پر کسی کو فاسق قرار دیا جا سکے ۔
معاشرے کو امن کاگہوارہ بنانے میں اسلام کا کردار:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین ِاسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے ،جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کواگرہم آج کل کے دَورمیں پیش ِنظر رکھیں توہمارامعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کوکوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتابلکہ فوراًغصہ میں آجاتاہے اوروہ کام کربیٹھتاہے جس کے بعد ساری زندگی پریشان رہتاہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں خاندانی طورپرجوجھگڑے ہوتے ہیں وہ اسی نَوعیَّت کے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ ساس بہوکامعاملہ ہویاشوہروبیوی کاکہ تصدیق نہیں کی جاتی اورلڑائیاں شروع کردی جاتی ہیں ۔
آیت ’’اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ایک شخص اگر عادل ہو تو اس کی خبر معتبر ہے۔
(2)… حاکم یک طرفہ بیان پر فیصلہ نہ کرے بلکہ فریقَین کا بیان سن کر ہی کوئی فیصلہ کرے۔
(3)… غیبت کرنے والے اور چغل خور کی بات ہر گز قبول نہ کی جائے۔
(4)… کسی کام میں جلدی نہ کی جائے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ(7)فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ نِعْمَةًؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول تشریف فرماہیں ،اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مانیں تو تم ضرور مشقت میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ نے تمہیں ایمان محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی، ایسے ہی لوگ رشدو ہدایت والے ہیں ۔ اللہ کا فضل اور احسان ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ: اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول تشریف فرماہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! جان لو کہ تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کے رسول تشریف فرماہیں ، اگر تم میں سے کوئی ان سے جھوٹ بولے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں خبردار کر دے گا اور وہ (اس کے حکم سے) تمہارا حال ظاہر کرکے تمہیں رُسوا کردیں گے، لہٰذا تم ان سے کوئی باطل بات نہ کہو اور یاد رکھو کہ اگر تمہارے بتائے ہوئے بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات ہی مانیں اور تمہاری رائے کے مطابق حکم دیدیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ضرور مشقت میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم پر رحم کرتے ہوئے انہیں اس سے بچا لیا اور تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے جس کی برکت سے تم رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حکم عدولی نہیں کرتے اور کفر، حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی ہے جس کے باعث تم نافرمانی سے مُتَنَفِّر ہو، ایسے ہی لوگ رشدو ہدایت والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے حق راستے پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ان کے اَحوال کا علم رکھنے والا اور ان پر انعام فرمانے میں حکمت والا ہے۔(مدارک، الحجرات ، تحت الآیۃ : ۷-۸ ، ص۱۱۵۲- ۱۱۵۳، خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۱۶۷، جلالین مع صاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۵ / ۱۹۹۱-۱۹۹۲، ملتقطاً)
آیت ’’وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے 6باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے۔
(2)… نعت لکھنے پڑھنے والوں اور عرض و معروض کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنا سچا دکھ درد عرض کریں وہاں مبالغہ نہ کریں۔
(3)…ایمان پیارا معلوم ہونااللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔
(4)…ایمان کا کمال اپنی کوشش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصیب ہوتا ہے۔
(5)… گناہ نہ کرنابھی کمال ہے لیکن گناہ سے دل میں نفرت پیدا ہو جانا بڑ اکمال ہے کیونکہ یہ نفرت گناہوں سے مستقل طور پر بچالیتی ہے۔
(6)… تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کفروفسق اورگناہ سے دلی بیزارہیں ،ان کے دلوں میں ایمان ،تقویٰ اور رُشد و ہدایت ایسی رَچ گئی ہے جیسے گلاب کے پھول میں رنگ وبُو۔
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کرادوپھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں صلح کروادو اور عدل کرو، بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان میں صلح کروادو۔}شا نِ نزول: ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دراز گوش پر سوار ہو کر تشریف لے جارہے تھے ،اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزرہوا تووہاں تھوڑی دیر ٹھہرے ، اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ بن اُبی نے ناک بند کرلی۔یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑپڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی، صورتِ حال معلوم ہونے پر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ واپس تشریف لائے اور ان میں صلح کرادی، اس معاملے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا’’ اے ایمان والو!اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرادو،پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے ،پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروادو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو (کیونکہ اس جماعت کو ہلاک کرنا مقصود نہیں بلکہ سختی کے ساتھ راہِ راست پر لانا مقصود ہے) اور صرف اس معاملے میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں عدل کرو، بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے تو وہ انہیں عدل کی اچھی جزادے گا۔( جلالین مع صاوی ، الحجرات ، تحت الآیۃ : ۹، ۵ / ۱۹۹۲-۱۹۹۳، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۱۵۳، روح البیان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۷۳-۷۶، ملتقطاً)
آیت ’’وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… جنگ و جِدال گناہ ہے، مگر یہاں دونوں فریقوں کو مومن فرمایا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کفر نہیں ہے۔
(2)… مسلمانوں میں صلح کرانا حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت اور اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔
(3)…غلط فہمی کی وجہ سے بادشاہِ اسلام کی مخالفت یا اس سے جنگ کرنے والا کافر اور فاسق نہیں بلکہ مومن ہے۔
(4)… سلطانِ اسلام باغیو ں سے جنگ کرے یہاں تک کہ وہ اپنی بغاوت سے باز آ جائیں ۔
(5)… یہ جنگ جہاد نہ ہوگی، نہ ان باغیوں کا مال غنیمت ہو گا،نہ ان کے قیدی لونڈی غلام بنائے جائیں گے بلکہ ان کا زور توڑ کران سے برادرانہ سلوک کیا جائے گا۔
مسلمانوں میں صلح کروانے کے فضائل:
قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح صفائی رکھنے اوران کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ‘‘(النساء:۱۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر کسی عورت کواپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہوتو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِؕ -قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ‘‘(انفال:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب!تم سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔تم فرماؤ، غنیمت کے مالوں کے مالک اللہ اور رسول ہیں تو اللہ سے ڈرتے رہواور آ پس میں صلح صفائی رکھو۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اُن کے اکثرخفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں (کے مشوروں ) میں جو صدقے کا یا نیکی کا یا لوگوں میں باہم صلح کرانے کا مشورہ کریں اور جو اللہ کی رضامندی تلاش کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے تواسے عنقریب ہم بڑا ثواب عطا فرمائیں گے۔
حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔( بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، ۲ / ۲۱۰، الحدیث: ۲۶۹۲)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے ،نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو،صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں ۔ارشاد فرمایا: ’’آپس میں صلح کروا دینا۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۴۹۱۹)
البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے جو شریعت کے دائرے میں ہو جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مسلمانوں کے مابین صلح کرواناجائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں ) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، ۳ / ۴۲۵، الحدیث: ۳۵۹۴)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جوعورت کو تین طلاقیں ہو جانے کے باوجود شوہر اور بیوی سے یہ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں ،تم سے جو غلطی ہوئی اسے اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا ا س لئے تم اب آپس میں صلح کر لو، حالانکہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحکام کے مطابق اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہے اور صرف صلح کر لینے سے یہ حرام حلال نہیں ہو سکتا، تو ان کا یہ صلح کرواناحرام کو حلال کرنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ ہر گز جائز نہیں ہے اور ایسی صلح کروانے والے خود بھی گناہگار ہوں گے اور اس صلح کے بعد وہ مرد و عورت شوہر اور بیوی والا جوتعلق قائم کریں گے ا س کا گناہ انہیں بھی ہو گا کیونکہ ان کے لئے اب وہ تعلق قائم کرنا حرام ہے اور یہ چونکہ حرام کام میں ان کی مدد کر رہے اور اس کی ترغیب دے رہے ہیں تواس کے گناہ میں یہ بھی شریک ہیں ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کرنے میں دین ِاسلام کا کردار :
ظلم ایک ایسا بدترین فعل ہے جس سے انسان اپنے بنیادی حق سے محروم ہو کر اَذِیَّت اور کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اوریہ وہ عمل ہے جس سے جھگڑے اور فسادات جنم لیتے ، لوگ بغاوت اور سرکشی پر اتر آتے اور اصول و قوانین ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق تَلف ہوتے اور معاشرے کاا من و سکون تباہ ہو کر رہ جاتا ہے،دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کاسب سے زیادہ حامی ہے اسی لئے اس دین نے انسانی حقوق تَلف کرنے اور معاشرتی امن میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہر فعل سے روکا ہے اوران چیزوں میں ظلم کا کردار دوسرے افعال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لئے اسلام نے ظلم کے خاتمے کیلئے بھی انتہائی احسن اِقدامات کئے ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں ، ان میں سے ایک اِقدام لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ ظالم کو روکیں اور دوسرا اِقدام ظالم کو وعیدیں سنانا ہے تاکہ وہ خوداپنے ظلم سے باز آجائے، جیسا کہ درج ذیل تین اَحادیث سے واضح ہے ،چنانچہ
(1)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ارشاد فرمایا ’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی)مدد کرنا ہے۔( بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ… الخ، ۴ / ۳۸۹، الحدیث: ۶۹۵۲)
(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مظلوم کی بددعا سے بچو، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق والے کا حق اس سے نہیں روکتا۔(شعب الایمان،التاسع والاربعون من شعب الایمان… الخ، فصل فی ذکر ماورد من التشدید… الخ، ۶ / ۴۹، الحدیث: ۷۴۶۴)
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کا اپنے مسلمان بھائی پر اس کی آبرو یا کسی اور چیز کا کوئی ظلم ہو تو وہ آج ہی اس سے معافی لے لے، اس سے پہلے کہ(وہ دن آجائے جب) اس کے پاس نہ دینار ہو نہ درہم،(اس دن) اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں گے تو ظلم کے مطابق اس سے چھین لیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے ۔( بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل… الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الظّلم، الفصل الاول، ۲ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۱۲۶)
اس سے معلوم ہوا کہ معاشرتی امن کو قائم کرنے اور اس کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ’’ظلم‘‘ کو ختم کرنے میں اسلام کا کردار سب سے زیادہ ہے اور اس کی کوششیں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگَر ہیں کیونکہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دیں گے تو وہ ظلم نہ کر سکے گا اور ظالم جب اتنی ہَولْناک وعیدیں سنے گا تواس کے دل میں خوف پیدا ہو گا اور یہی خوف ظلم سے باز آنے میں اس کی مدد کرے گا، یوں معاشرے سے ظلم کا جڑ سے خاتمہ ہو گا اور معاشرہ امن و سکون کا پُرلُطف باغ بن جائے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کے احکامات اور تعلیمات کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مظلوم کی حمایت اور فریاد رَسی کرنے کے دو فضائل:
یہاں آیت کی مناسبت سے مظلوم کی حمایت کرنے اور اس کی فریاد رسی کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مظلوم کی فریاد رسی کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے 73مغفرتیں لکھے گا، ان میں سے ایک سے اس کے تمام کاموں کی درستی ہوجائے گی اور 72 سے قیامت کے دن اس کے درجے بلند ہوں گے۔( شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان… الخ، ۶ / ۱۲۰، الحدیث: ۷۶۷۰)
(2)…اورحضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو کسی مظلوم کے ساتھ اس کی مدد کرنے چلے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس دن قدم پھسل رہے ہوں گے۔( حلیۃ الاولیاء، مالک بن انس، ۶ / ۳۸۳، الحدیث: ۹۰۱۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مظلوم کی حمایت اور مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور ان کے باہمی اختلافات سے متعلق8اَہم باتیں :
اس آیت کے شانِ نزول میں (اگرچہ جھگڑے میں کچھ منافق بھی شریک تھے لیکن) اہلِ ایمان کے اختلاف کا بھی ذکر ہوا ،اسی مناسبت سے یہاں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور ان کے باہمی اختلافات سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام سے8اَہم باتوں کا خلاصہ ملاحظہ ہو،
(1)… تابعین سے لے کر قیامت تک امت کا کوئی بڑے سے بڑ اولی کسی کم مرتبے والے صحابی کے رتبہ تک نہیں پہنچ سکتا ۔
(2)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو قرب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے امتی کو مُیَسَّر نہیں اور جو بلند درجات یہ پائیں گے وہ کسی اور امتی کو نہ ملیں گے۔
(3)…اہلسنّت کے خواص اور عوام پہلے سے آخری درجے تک کے تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو انتہاء درجے کا نیک اور متقی جانتے ہیں اور ان کے اَحوال کی تفاصیل کہ کس نے کس کے ساتھ کیاکیا اور کیوں کیا،اس پر نظر کرنا حرام مانتے ہیں ۔
(4)… اگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے کسی کا کوئی ایسا فعل منقول ہے جو کم نظر کی آنکھ میں ان کی شان سے قدرے گرا ہوا ہو اور اس میں کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ملے تو (اس کے بارے میں اہلسنت کے علماء اور عوام کا طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ) اس کا اچھا مَحمل بیان کرتے ہیں، اسے ان کے قلبی اخلاص اور اچھی نیت پر محمول کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا سچا فرمان ’’رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ‘‘ سن کر دل کے آئینے میں تفتیش کے زنگ کو جگہ نہیں دیتے اور حقیقی اَحوال کی تحقیق کے نام کا میل کچیل، دل کے آئینے پر چڑھنے نہیں دیتے۔
(5)… صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے رتبے ہماری عقل سے وراء ہیں ،پھر ہم اُن کے معاملات میں کیسے دخل دے سکتے ہیں اوران میں صورۃً جو تنازعات اور اختلافات واقع ہوئے ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون ہیں ؟ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک کی طرف داری میں دوسرے کو برا کہنے لگیں ، یا ان جھگڑوں میں ایک فریق کو دنیا طلب ٹھہرائیں ، بلکہ یقین سے جانتے ہیں کہ وہ سب دین کی مَصلحتوں کے طلبگار تھے،اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی ان کا نَصبُ العَین تھی، پھر وہ مُجتہد بھی تھے ،توجس کے اجتہاد میں جو بات اللہ تعالیٰ کے دین اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت کے لیے زیادہ مَصلحت آمیز اور مسلمانوں کے اَحوال سے مناسب ترمعلوم ہوئی،اس نے اسے اختیار کیا، اگرچہ اجتہاد میں خطا ہوئی اور ٹھیک بات ذہن میں نہ آئی لیکن وہ سب حق پر ہیں اور سب واجبُ الاحترام ہیں ، ان کا حال بالکل ایسا ہے جیسا دین کے فروعی مسائل میں خود علماءِ اہلسنت بلکہ ان کے مُجتہدین مثلاً امامِ اعظم ابوحنیفہ اور امامِ شافعی وغیرہما رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اختلافات ہیں ۔
(6)…مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان جھگڑوں کے سبب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں ایک دوسرے کو نہ گمراہ فاسق جانیں اور نہ ہی ان میں سے کسی کے دشمن ہوں بلکہ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ سب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آقائے دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں ، اللہ تعالیٰ او ر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہوں میں مُعَظَّم و مُعَزَّز اور آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں ۔
(7)… صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے میں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ انبیاء اورفرشتے نہ تھے کہ گناہ سے معصوم ہوں ، ان میں سے بعض حضرات سے لغزشیں صادر ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے اَحکام کے خلاف ہے۔
(8)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سورہ ٔحدید میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی دو قِسمیں بیان فرمائی ہیں ،(1) مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ۔(2) اَلَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا۔
یعنی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی ایک قسم وہ ہے کہ فتح ِمکہ سے پہلے مُشَرَّف بایمان ہوئے ،اس وقت راہِ خدا میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا جب ان کی تعداد بھی بہت کم تھی اور وہ ہر طرح کمزور بھی تھے، انہوں نے اپنے اوپر شدید مجاہدے گوارا کرکے اور اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال ڈال کر بے دریغ اپنا سرمایہ اسلام کی خدمت کی نذر کردیا، یہ حضرات مہاجرین و اَنصار میں سے سابقین اَوّلین ہیں ۔دوسری قسم وہ ہے کہ فتحِ مکہ کے بعدایمان لائے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا اور جہا دمیں حصہ لیا۔ ان ایمان والوں نے اس وقت اِس اخلاص کا ثبوت مالی اور جنگی جہاد سے دیا جب اسلامی سلطنت کی جڑ مضبوط ہوچکی تھی اور مسلمان کثرتِ تعداد اور جاہ و مال، ہر لحاظ سے بڑھ چکے تھے۔ اجر اِن کا بھی عظیم ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُن سابقون اَوّلون والوں کے درجہ کا نہیں ،اسی لیے قرآنِ عظیم نے اُن پہلوں کو اِن بعد والوں پرفضیلت دی اور پھر فرمایا:
’’ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘
ان سب سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا،
کہ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے سب ہی کو اجر ملے گا، محروم کوئی نہ رہے گا۔اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا ان کے حق میں فرماتا ہے:
’’ اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۱)
وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ۔
’’لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا‘‘(انبیاء:۱۰۲)
وہ جہنم کی بھنک تک نہ سنیں گے۔
’’وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۲)
وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے۔
’’لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ‘‘(انبیاء:۱۰۳)
قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی۔
’’وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ‘‘(انبیاء:۱۰۳)
فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔
’’هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۳)
یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ہر صحابی کی یہ شان اللہ عَزَّوَجَلَّ بتاتا ہے ،تو جو کسی صحابی پر اعتراض کرے وہ اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے،اور ان کے بعض معاملات کوجن میں اکثر جھوٹی حکایات ہیں ،اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابل پیش کرنا اہلِ اسلام کا کام نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سورۂ حدید کی اسی آیت میں اس کا منہ بھی بند کردیا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے دونوں گروہوں سے بھلائی کا وعدہ کرکے ساتھ ہی ارشاد فرمادیا:
’’ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(حدید:۱۰)
اور اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرو گے۔
اس کے باوجود اس نے تمہارے اعمال جان کر حکم فرمادیا کہ وہ تم سب سے بے عذاب جنت اور بے حساب کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکا ہے، تو اب دوسرے کو کیا حق رہا کہ ان کی کسی بات پر اعتراض کرے، کیا اعتراض کرنے والا ، اللہ تعالیٰ سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، اس بیان کے بعد جو کوئی کچھ بکے وہ اپنا سر کھائے اور خود جہنم میں جائے۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۳۵۷-۳۶۳، ملخصاً)
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ: صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔} ارشاد فرمایا :مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں سے مضبوط تر ہے ،لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ا س پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۶۸، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۵۳، ملتقطاً)
مسلمانوں کے باہمی تعلق کے بارے میں 3 اَحادیث :
یہاں آیت کی مناسبت سے مسلمانوں کے باہمی تعلق کے بارے میں 3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسواکرے ،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کودورکرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرمادے گااورجوشخص کسی مسلمان کاپردہ رکھتاہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا۔( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم… الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(2)…حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ،جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگراس کے سرمیں دردہوتوسارے جسم میں دردہوگا۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین… الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))
(3)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین… الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۵(۲۵۸۵))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور ا س کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو !مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ: اے ایمان والو !مرد دوسرے مَردوں پر نہ ہنسیں ۔} شانِ نزول: اس آیت ِمبارکہ کے مختلف حصوں کا نزول مختلف واقعات میں ہوا ہے اورآیت کے زیرِ تفسیر حصے کے نزول سے متعلق دو واقعات درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ انہیں آگے بٹھاتے اور اُن کے لئے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں ۔ایک روز انہیں حاضری میں دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا وہیں کھڑا رہتا۔لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بیٹھنے کے لئے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ’’ جگہ دو جگہ‘‘ یہاں تک کہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا :تمہیں جگہ مل گئی ہے ا س لئے بیٹھ جائو ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ غصّہ میں آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا توحضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا: کون؟ اس نے کہا: میں فلاں شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(2)… حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت عمار،حضرت خباب ،حضرت بلا ل ،حضرت صہیب،حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایاکرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں سے نہ ہنسیں ،یعنی مال دار غریبوں کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں جس کی آنکھ میں عیب ہو،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے صدق اور اخلاص میں بہتر ہوں ۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۶۹)
کسی شخص میں فقر کے آثار دیکھ کر اس کا مذاق نہ اُڑایا جائے :
آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ،ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں دینداری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ،ان کے پاس دو پُرانی چادریں ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)
حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں کی نگاہوں میں ) گرا ہو اہے ،اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴)
{وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ: اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔} شانِ نزول: آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں ،
(1)…حضر ت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :یہ آیت رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے،انہوں نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کوچھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔
(2)… حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۶۹)
اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے انہیں یہودی کی لڑکی کہا ہے،(اس پر انہیں رنج ہوا اور)آپ ر ونے لگیں ، جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا’’تم کیوں رو رہی ہو؟عرض کی:حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو،تیرے چچا نبی ہیں اور نبی کی بیوی ہو ،توتم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)
نوٹ: آیت ِمبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے آپ کوبڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم،نہ بڑوں کی بے ادبی،نہ چھوٹوں سے بد لحاظی،نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع،نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جائز ہے۔( فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۱۹۴)
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم اور اس فعل کی مذمت:
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( جہنم کے خطرات،ص۱۷۳)
کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑائو، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو۔( ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المرائ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)
حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ یہاں آؤ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)(موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر… الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷)
حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں سے توبہ کرکے باز نہ آئے تو یقینا وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔(جہنم کے خطرات،ص۱۷۵-۱۷۶)
خوش طبعی کرنے کا حکم:
یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے۔( مراٰۃ المناجیح، ۶ / ۴۹۳-۴۹۴)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو،کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ،حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لئے بھی کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللّسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۹)
مزید فرماتے ہیں :وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں مصروف رہا جائے اور جہاں تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ،کھیل اگرچہ (بعض صورتوں میں ) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں(خوش طبعی میں ) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۲۸۳، الحدیث: ۹۹۵)
لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لئے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں کوہنساتا ہے ،اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں گرتا ہے۔( مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث: ۹۲۳۱، احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں جائز خوش طبعی کرنے اور ناجائز خوش طبعی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوش طبعی:
یہاں موضوع کی مناسبت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوش طبعی کے چار واقعات بھی ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ارشاد فرمایا’’کون،وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟عرض کی:اللہ تعالیٰ کی قسم !ان کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے ۔ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں سفیدی ہے ۔عرض کی :اللہ تعالیٰ کی قسم!ایسا نہیں ہے۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو(آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے)۔(سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ، الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ… الخ، ۷ / ۱۱۴)
(2)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے’’ ابو عمیر !چڑیا کا کیا ہوا۔( بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخض نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔اس نے عرض کی : میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹)
(4)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا:’’ جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی۔انہوں نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ
’’اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا‘‘(واقعہ:۳۵،۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔توہم نے انہیں کنواریاں بنایا۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)
{وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ: اورآپس میں کسی کوطعنہ نہ دو۔} یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگائو کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا۔( روح المعانی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۳ / ۴۲۴)
طعنہ دینے کی مذمت:
اَحادیث میں طعنہ دینے کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں اس سے متعلق 2اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے نہ شفیع۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
(2)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔( ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں طعنہ دینے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ: اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔} برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔یہاں آیت میں اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔
حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پرشرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کرلے ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ…الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳)
(2)…بعض علماء نے فرمایا ’’برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔
(3)…بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں وہ القاب بھی ممنوع نہیں ،جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ۔(خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
{بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ: مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے۔} ارشاد فرمایا: مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔(خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)
آیت ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے
(1)… مسلمانوں کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔
(2)… عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔
(3)… مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔} آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۳۵۲)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ،اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کررہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو۔( تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۱۱۰)
علامہ عبداللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں آیت میں گمان کی کثرت کو مُبْہَم رکھا گیا تاکہ مسلمان ہر گمان کے بارے میں محتاط ہو جائے اور غور و فکر کرے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس گمان کا تعلق کس صورت سے ہے کیونکہ بعض گمان واجب ہیں ،بعض حرام ہیں اور بعض مُباح ہیں ۔( بیضاوی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۲۱۸، ملخصاً)
گمان کی اَقسام اور ان کا شرعی حکم:
گمان کی کئی اَقسام ہیں ،ان میں سے چار یہ ہیں : (1)واجب ،جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔ (2)مُستحَب، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا۔ (3)ممنوع حرام ۔جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا۔ (4)جائز ،جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں ۔
حضرت سفیان ثوری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : گمان دو طرح کا ہے، ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ۔یہ اگر مسلمان پر برائی کے ساتھ ہے تو گناہ ہے ۔دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل کو خالی کرنا ضروری ہے۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۱۵۵، ملتقطاً)
یہاں بطورِ خاص بد گمانی کے شرعی حکم کی تفصیل ملاحظہ ہو،چنانچہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو۔( فتاوی رضویہ،۶ / ۴۸۶)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :مسلمانوں پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہ ِصحیح پر حمل واجب (ہے)۔( فتاوی رضویہ،۲۰ / ۲۷۸)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو(جیسا اس کے بارے میں گمان کیا) تو اب حرام نہیں ،مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا۔( فتاوی امجدیہ، ۱ / ۱۲۳)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مومنِ صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا باوجود یکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔( خزائن العرفان، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۵۰)
بد گمانی کی مذمت اور اچھا گمان رکھنے کی ترغیب
دین ِاسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیاہے اسی لئے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ،جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ،چنانچہ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے،ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجائو۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس… الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۲۸(۲۵۶۳))
اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
بد گمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات:
یہاں بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات بھی ملاحظہ ہوں تاکہ بد گمانی سے بچنے کی ترغیب ملے،چنانچہ اس کے 4دینی نقصانات یہ ہیں
(1)…جس کے بارے میں بد گمانی کی ،اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔
(2)…اگر ا س کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیاتو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔
(3)…بد گمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں کوتلاش کرناناجائز و گناہ ہے ۔
(4)…بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں ۔
اور اس کے دو بڑے دُنْیَوی نقصانات یہ ہیں ،
(1)… بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے،ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کاران میں طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔
(2)… دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کے لئے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ86%بڑھ جاتا ہے۔
بد گمانی کا علاج:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل میں بدگمانی ڈالتاہے تومسلمان کوچاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اوراس کوخوش نہ کرے حتّٰی کہ اگرکسی کے منہ سے شراب کی بوآرہی ہوتوپھربھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہوسکتاہے اس نے شراب کاایک گھونٹ پی کرکلی کردی ہویاکسی نے اس کو جَبراً شراب پلادی ہو اوراس کااِحتمال ہے تووہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کرکے شیطان کوخوش نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا گناہ نہیں ہوگا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے) (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ۳ / ۱۸۶ملخصاً)۔([1])
{وَ لَا تَجَسَّسُوْا: اورجستجونہ کرو۔} اس آیت میں دوسرا حکم یہ دیاگیا کہ مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے پوشیدہ حال کی جستجو میں نہ رہوجسے اللہ تعالیٰ نے اپنی سَتّاری سے چھپایا ہے۔
مسلمانوں کے عیب تلاش کرنے کی ممانعت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ،یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیث ِپاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۰)
اس سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے، یقینا اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ تعالیٰ ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچارہو جائیں۔
عیب چھپانے کے دو فضائل:
یہاں موضوع کی مناسبت سے مسلمانوں کے عیب چھپانے کے دو فضائل ملاحظہ ہو ں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان کے عیب پرپردہ رکھااللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پرپردہ رکھے گا۔( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم… الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)
(2)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے اور اس نے پردہ ڈال دیا (یعنی چھپادی) تو ایسا ہے جیسے مَوْء ُوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا۔( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الستر علی المسلم، ۴ / ۳۵۷، الحدیث: ۴۸۱۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
لوگوں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے عیبوں کی اصلاح کی جائے:
جو شخص لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں رہتا ہے اسے خاص طور پر اور تمام لوگوں کو عمومی طور پر چاہئے کہ کسی کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر موجود عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں ان کی اور دوسروں کی دنیا و آخرت کابھلا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکادیکھتاہے اوراپنی آنکھ کوبھول جاتاہے۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان… الخ، فصل فیما ورد… الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان… الخ، فصل فیما ورد… الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۵۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے،اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
انسان کی عزت و حرمت کی حفاظت میں اسلام کا کردار
دین ِاسلام کی نظر میں ایک انسا ن کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہے، اسی لئے دین ِاسلام نے ان تما م اَفعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو،ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑ اکردار ہے ،اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں وہ شخص بھی لوگوں کی نفرت اور ملامت کا سامنا کرتا ہے جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا ہے ،یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونو ں کی عزت و حرمت چلی جاتی ہے ،اس لئے دین ِاسلام نے عیبوں کی تلاش میں رہنے اور انہیں لوگوں کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس بُرے فعل سے با ز آ جائیں اور سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو۔
{وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔} اس آیت میں تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، یقینا یہ تمہیں ناپسند ہوگا ،تو پھر مسلمان بھائی کی غیبت بھی تمہیں گوارا نہ ہونی چاہئے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے برا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت وآبرُو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔شانِ نزول: جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جہاد کے لئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کردیتے کہ وہ غریب اُن کی خدمت کرے اور وہ اسے کھلائیں پلائیں ،یوں ہر ایک کاکا م چلے،چنانچہ اسی دستور کے مطابق حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دو آدمیوں کے ساتھ کئے گئے تھے، ایک روز وہ سوگئے اور کھانا تیار نہ کرسکے تو اُن دونوں نے انہیں کھانا طلب کرنے کے لئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں بھیجا، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کچن کے خادم حضرتِ اُسامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تھے، اُن کے پاس کھانے میں سے کچھ باقی رہا نہ تھا،اس لئے انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آکر کہہ دیا تو اُن دونوں رفیقوں نے کہا : اُسامہ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) نے بخل کیا ۔جب وہ حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں ۔ اُنہوں نے عرض کی:ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں ۔ ارشادفرمایا’’ تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے اُس نے مسلمان کا گوشت کھایا۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱ملخصاً)
غیبت اور ا س کی مذمت سے متعلق4اَحادیث:
اس آیت میں غیبت کرنے سے منع کیا گیا اور ایک مثال کے ذریعے اس کی شَناعَت اور برائی کو بیان فرمایاگیا ہے ، کثیر اَحادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں ان میں سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیاتم جانتے ہوکہ غیبت کیاچیزہے ؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ارشادفرمایا’’تم اپنے بھائی کاوہ عیب بیان کروجس کے ذکرکووہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کی گئی :اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ اگرمیرے بھائی میں وہ عیب موجود ہوجسے میں بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا:تم جوعیب بیان کررہے ہو اگروہ اس میں موجود ہوجب ہی تووہ غیبت ہے اوراگراس میں وہ عیب نہیں ہے توپھروہ بہتان ہے۔( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۷۰(۲۵۸۹))
(2)… حضرت ابوسعید اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ غیبت زِنا سے بھی زیادہ سخت چیز ہے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے؟ارشاد فرمایا ’’مرد زِنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبو ل فرماتا ہے اور غیبت کرنے والے کی تب تک مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ معاف نہ کردے جس کی غیبت کی ہے۔( شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان… الخ، فصل فیما ورد… الخ، ۵ / ۳۰۶، الحدیث: ۶۷۴۱)
(3)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں ایسے لوگوں کے پاس سے گزراجن کے ناخن پیتل کے تھے اوروہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں اورسینوں کونوچ رہے تھے ،میں نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے کہا: یہ وہ افراد ہیں جولوگوں کاگوشت کھاتے اوران کی عزتوں کوپامال کرتے تھے ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۸)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے دنیامیں اپنے بھائی کاگوشت کھایاا س کے پاس قیامت کے دن ا س کے بھائی کاگوشت لایاجائے گااوراس سے کہا جائے گاتم جس طرح دنیامیں اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھاتے تھے اب زندہ کاگوشت کھائووہ چیخ مارتاہوااورمنہ بگاڑتا ہوا کھائے گا۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۶۵۶)
سرِ دست یہ4اَحادیث ذکر کی ہیں ،ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ انہیں غور سے پڑھے اور غیبت سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے، فی زمانہ اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلمانوں میں یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے اور ان کی بہت کم مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں غیبت جیسی خطرناک باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
غیبت کی تعریف اور اس سے متعلق 5شرعی مسائل:
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۲)
غیبت سے متعلق 5شرعی مسائل درج ذیل ہیں :
(1)…غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے (اسی طرح) فعل سے بھی ہوتی ہے، صراحت کے ساتھ برائی کی جائے یا تعریض و کنایہ کے ساتھ ہو سب صورتیں حرام ہیں ، برائی کو جس نَوعِیَّت سے سمجھا ئے گا سب غیبت میں داخل ہے۔ تعریض کی یہ صورت ہے کہ کسی کے ذکر کرتے وقت یہ کہا کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں ایسا نہیں ‘‘ جس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ایسا ہے۔ کسی کی برائی لکھ دی یہ بھی غیبت ہے ،سر وغیرہ کی حرکت بھی غیبت ہوسکتی ہے، مثلاً کسی کی خوبیوں کا تذکرہ تھا اس نے سر کے اشارہ سے یہ بتانا چاہا کہ اس میں جو کچھ برائیاں ہیں ان سے تم واقف نہیں ، ہونٹوں اور آنکھوں اور بھوؤں اور زبان یا ہاتھ کے اشارہ سے بھی غیبت ہوسکتی ہے۔
(2)…ایک صورت غیبت کی نقل ہے مثلاً کسی لنگڑے کی نقل کرے اور لنگڑا کر چلے، یا جس چال سے کوئی چلتا ہے اس کی نقل اتاری جائے یہ بھی غیبت ہے، بلکہ زبان سے کہہ دینے سے یہ زیادہ برا ہے کیونکہ نقل کرنے میں پوری تصویر کشی اور بات کو سمجھانا پایا جاتا ہے (جب) کہ کہنے میں وہ بات نہیں ہوتی۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۶)
(3)…جس طرح زندہ آدمی کی غیبت ہوسکتی ہے مرے ہوئے مسلمان کو برائی کے ساتھ یاد کرنا بھی غیبت ہے، جبکہ وہ صورتیں نہ ہوں جن میں عیوب کا بیان کرنا غیبت میں داخل نہیں ۔ مسلم کی غیبت جس طرح حرام ہے کافر ذمی کی بھی ناجائز ہے کہ ان کے حقوق بھی مسلم کی طرح ہیں (جبکہ) کافر حربی کی برائی کرنا غیبت نہیں ۔
(4)…کسی کی برائی اس کے سامنے کرنا اگر غیبت میں داخل نہ بھی ہو جبکہ غیبت میں پیٹھ پیچھے برائی کرنا معتبر ہو مگر یہ اس سے بڑھ کر حرام ہے کیونکہ غیبت میں جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایذاء ِمسلم ہے وہ یہاں بدرجہ اَولی پائی جاتی ہے غیبت میں تو یہ اِحتمال ہے کہ اسے اطلاع ملے یا نہ ملے اگر اسے اطلاع نہ ہوئی تو ایذا بھی نہ ہوئی، مگر احتمالِ ایذا کو یہاں ایذا قرار دے کر شرعِ مُطَہَّر نے حرام کیا اور مونھ پر اس کی مذمت کرنا تو حقیقۃً ایذا ہے پھر یہ کیوں حرام نہ ہو۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :بعض لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کی غیبت کیوں کرتے ہو، وہ نہایت دلیری کے ساتھ یہ کہتے ہیں مجھے اس کا ڈر اپڑا ہے چلو میں اس کے مونھ پر یہ باتیں کہہ دوں گا، ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت و حرام ہے اور مونھ پر کہو گے تو یہ دوسرا حرام ہوگا، اگر تم اس کے سامنے کہنے کی جرأت رکھتے ہو تو اس کی وجہ سے غیبت حلال نہیں ہوگی۔
(5)…جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے لازم ہے کہ زبان سے انکار کردے مثلاً کہدے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو۔ اگر زبان سے انکار کرنے میں اس کو خوف و اندیشہ ہے تو دل سے اسے برا جانے اور اگر ممکن ہو تو یہ شخص جس کے سامنے برائی کی جارہی ہے وہاں سے اٹھ جائے یا اس بات کو کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کردے ایسا نہ کرنے میں سننے والا بھی گناہ گار ہوگا، غیبت کا سننے والا بھی غیبت کرنے والے کے حکم میں ہے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸)
غیبت سے توبہ اورمعافی سے متعلق5شرعی مسائل:
یہاں غیبت سے توبہ اور معافی سے متعلق 5شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں
(1)…جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہوگئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمھاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو، اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے بریٔ الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے۔
(2)…جس کی غیبت کی ہے اسے خبر نہ ہوئی اور اس نے توبہ کرلی اس کے بعد اسے خبر ملی کہ فلاں نے میری غیبت کی ہے آیا اس کی توبہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اس میں علما کے دوقول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ توبہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرمادے گا، جس نے غیبت کی اس کی مغفرت توبہ سے ہوئی اور جس کی غیبت کی گئی اس کو جو تکلیف پہنچی اور اس نے درگزر کیا، اس وجہ سے اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
اور بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ اس کی توبہ مُعَلَّق رہے گی اگر وہ شخص جس کی غیبت ہوئی خبر پہنچنے سے پہلے ہی مرگیا تو توبہ صحیح ہے اور توبہ کے بعد اسے خبر پہنچ گئی تو صحیح نہیں ، جب تک اس سے معاف نہ کرائے۔ بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضرور ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔
(3)…معافی مانگنے میں یہ ضرور ہے کہ غیبت کے مقابل میں اس کی ثناءِ حسن (اچھی تعریف) کرے اور اس کے ساتھ اظہارِ محبت کرے کہ اس کے دل سے یہ بات جاتی رہے اور فرض کرو اس نے زبان سے معاف کردیا مگر اس کا دل اس سے خوش نہ ہوا تو اس کا معافی مانگنا اور اظہارِ محبت کرنا غیبت کی برائی کے مقابل ہوجائے گا اور آخرت میں مُؤاخَذہ نہ ہوگا۔
(4)…اس نے معافی مانگی اور اس نے معاف کردیا مگر اس نے سچائی اور خلوصِ دل سے معافی نہیں مانگی تھی محض ظاہری اور نمائشی یہ معافی تھی، تو ہوسکتا ہے کہ آخرت میں مُؤاخذہ ہو، کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر معاف کیا تھا کہ یہ خلوص کے ساتھ معافی مانگ رہا ہے۔
(5)…امام غزالی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ یہ فرماتے ہیں ، کہ جس کی غیبت کی وہ مرگیا یا کہیں غائب ہوگیا اس سے کیونکر معافی مانگے یہ معاملہ بہت دشوار ہوگیا، اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں ، جب بھی اس کے پاس نیکیاں باقی رہ جائیں ۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۸-۵۳۹)
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا۔} ارشاد فرمایا :اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورایک عورت حضرت حوا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے پیدا کیا اورجب نسب کے اس انتہائی درجہ پر جا کر تم سب کے سب مل جاتے ہو تو نسب میں ایک دوسرے پر فخر اوربڑائی کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، سب برابر ہو اور ایک جدِّ اعلیٰ کی اولاد ہو (اس لئے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار نہ کرو) اور ہم نے تمہیں مختلف قومیں ،قبیلے اور خاندان بنایاتاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو اور ایک شخص دوسرے کا نسب جانے اوراس طرح کوئی اپنے باپ دادا کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کومنسوب نہ کرے، نہ یہ کہ اپنے نسب پر فخر کرنے لگ جائے اور دوسروں کی تحقیر کرنا شروع کر دے۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶)
یاد رہے کہ دنیا میں وہ اُمور اگرچہ کثیر ہیں کہ جن کی وجہ سے فخرو تکبر کیا جاتا ہے لیکن نسب ان میں سب سے بڑا اَمر ہے کیونکہ مال ،حسن اور بزرگی کی وجہ سے کیا جانے والا تکبر ہمیشہ نہیں رہتا بلکہ ان چیزوں کے ختم ہونے پر تکبر بھی ختم ہو جاتاہے جبکہ نسب کی وجہ سے کیا جانے والا تکبر ختم نہیں ہوتا، اسی لئے یہاں بطورِ خاص اسے ذکر کیا گیا۔(تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۱۱۳، ملخصاً)
نسب کے ذریعے فخر و تکبر کرنے کی مذمت :
فخر وتکبُّر کے اَسباب میں سے ایک اہم سبب اپنے نسب کے ذریعے دوسروں پر تکبر کرنا ہے ،اس کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس آدمی کا نسب اچھا ہو وہ دوسرے نسب والوں کو حقیر جانتا ہے اور بعض لوگ حسب ونسب کے ذریعے اس طرح تکبر کرتے ہیں کہ گویا دوسرے لوگ ان کی مِلکِیَّت میں اوران کے غلام ہیں ،وہ اِن سے میل جول کرنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے نفرت کرتے ہیں اور ا س کا نتیجہ ان کی زبان پر یوں آتا ہے کہ تکبر کرتے ہوئے دوسروں کو گھٹیا قسم کے الفاظ سے پکارتے ہوئے کہتے ہیں : تم کون ہو؟ تمہارا باپ کون ہے؟ میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں ، تمہیں مجھ سے بات کرنے یا میری طرف دیکھنے کا کیا حق ہے؟ تو مجھ جیسے لوگوں سے بات کرتا ہے اور مجھ سے اس قسم کی گفتگو کرتا ہے؟(وغیرہ)
یہ ایک ایسی پوشیدہ رگ ہے کہ کوئی بھی نسب والا اس سے خالی نہیں ہوتا اگرچہ وہ نیک اوربا عمل ہو، لیکن بعض اوقات حالت اِعتدال پر ہونے کی صورت میں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی اور جب اس پر غصے کا غلبہ ہو تو وہ اس کے نورِ بصیرت کو بجھادیتا ہے اور اس قسم کی گفتگو ا س کی زبان پر آ جاتی ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں ایک شخص سے میری تکرار ہوگئی تو میں نے کہا:اے کالی عورت کے بیٹے !تو نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اے ابوذر! صاع پورا نہیں بھراجاتا، سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے پرکوئی فضیلت نہیں ۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں لیٹ گیا اور اس شخص سے کہا : اٹھو اور میرے رخسار کو پامال کردو ۔
تو دیکھئے کس طرح نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں تنبیہ فرمائی جب انہوں نے سفید خاتون کا بیٹاہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو افضل سمجھا اور یہ بات خطا اور نادانی ہے،اور دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح توبہ کی اور اپنے آپ سے تکبر کے درخت کو اس شخص کے تلوے کے ذریعے جڑسے اکھاڑ پھینکا جس کے مقابلے میں تکبر کیا گیا تھا کیونکہ آپ کو معلوم ہوگیا تھاکہ تکبر کو صرف عاجزی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔
اسی سلسلے میں مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار کیا، ایک نے کہا :میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں تم کون ہو؟ تمہاری تو ماں ہی نہیں ۔ اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا، ان میں سے ایک نے کہا :میں فلاں کا بیٹافلاں ہوں ، اس طرح وہ نو پُشتیں شمار کرگیا اور کہا:تیری تو ماں ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ جس نے فخر کا اظہار کیا ہے اس سے فرمادیجئے : وہ نو کی نوپشتیں جہنم میں جائیں گی اور تم ان کے ساتھ دسویں ہوگے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبد الرّحمٰن بن ابی لیلی… الخ، ۸ / ۳۴، الحدیث: ۲۱۲۳۶)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایالوگوں کو اپنے آبائو اَجداد پر فخر کرنا چھوڑدینا چاہیے وہ جہنم میں کوئلہ بن گئے یا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنے ناک سے گندگی کو دھکیلتے ہیں (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی التّفاخر بالاحساب، ۴ / ۴۲۷، الحدیث: ۵۱۱۶، باختلاف بعض الالفاظ)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبّر، ۳ / ۴۳۱-۴۳۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔([1])
{اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔} آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت وفضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے۔ شانِ نزول: حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا: جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ،پھر اس کی وفات ہوگئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸، ملتقطاً)
عزت اور فضیلت کا مدار پرہیزگاری ہے :
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو، ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :فتحِ مکہ کے دن حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیاہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1)نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے۔ (2)گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیاہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)
(2)…حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں حجۃ الوداع کے دن نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہو اتھا،آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ،پھر فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔
تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے)۔( معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸ / ۱۲، الحدیث: ۱۶)
(3)…حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب قیامت کادن ہوگاتوبندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑاکیاجائے گااس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی،تواللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گا: ’’اے میرے بندو!میں نے تمہیں حکم دیا اورتم نے میرے حکم کو ضائع کردیااورتم نے اپنے نسبوں کوبلندکیااورانہی کے سبب ایک دوسرے پرفخرکرتے رہے ،آج کے دن میں تمہارے نسبوں کوحقیروذلیل قراردے رہاہوں ،میں ہی غالب حکمران ہوں ،کہاں ہیں مُتَّقی لوگ؟کہاں ہیں متقی لوگ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱ / ۳۳۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں نسبی فخرو تکبر سے بچائے اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاؕ-قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰـكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ-وَ اِنْ تُطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا یَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، تم فرماؤ: تم ایمان تو نہیں لائے ہاں یوں کہوکہ ہم فرمانبردار ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو تمہارے اعمال سے کچھ کمی نہیں کرے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا: دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے۔} شانِ نزول:بنو اسد بن خزیمہ کے کچھ لوگ خشک سالی کے زمانہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کیا ، ان لوگوں نے مدینہ کے راستوں میں گندگی پھیلائی اوران کی وجہ سے وہاں غلہ کے دام بڑھ گئے اور دوسری طرف صبح و شام رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آکر اپنے اسلام لانے کا احسان جتاتے اور کہتے: ہمیں کچھ دیجئے۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:دیہاتیوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمادیں تم سچے دل سے ایمان تو نہیں لائے ہاں یوں کہوکہ ہم ظاہری طور پر فرمانبردار ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم ظاہری و باطنی طوپر، سچائی اور اخلاص کے ساتھ نفاق کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے نیک اعمال کے ثواب سے کچھ کمی نہیں کرے گا بلکہ تمہیں اپنی شان کے لائق جزا دے گا جو تمہارے وہم و گمان سے باہر ہے، بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈال کر انہیں بخشنے والا اور انہیں توبہ کی ہدایت دے کر ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔(خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۱۷۳، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۱۵۷، ملتقطاً)
یہاں آیت کی مناسبت سے دو باتیں یاد رہیں ، ایک یہ کہ محض زبانی اقرار جس کے ساتھ قلبی تصدیق نہ ہو معتبر نہیں اوراس سے آدمی مومن نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ اطاعت و فرمانبرداری ،اسلام کے لغوی معنی ہیں اور شرعی معنی میں اسلام اور ایمان ایک ہیں ،ان میں کوئی فرق نہیں ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔} ایمان کا دعویٰ کرنے والے دیہاتیوں سے فرمایا گیا : اگر تم ایمان لانا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے ،پھر انہوں نے اپنے دین و ایمان میں شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا اوریہی لوگ ایمان کے دعوے میں سچے ہیں ۔(تفسیرکبیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۵، ۱۰ / ۱۱۷، خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۷۴، ملتقطاً)
قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِیْنِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: کیا تم اللہ کو اپنا دین بتاتے ہوحالانکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
}قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِیْنِكُمْ: تم فرماؤ: کیا تم اللہ کو اپنا دین بتاتے ہو۔{ شانِ نزول: جب ا س سے پہلے کی دونوں آیتیں نازل ہوئیں تو دیہاتیوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ ہم مخلص مومن ہیں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب فرمایا گیا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں : کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی خبر دے رہے ہوحالانکہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے،مومن کا ایمان بھی اسے معلوم ہے اور منافق کا نفاق بھی اس کے علم میں ہے،تمہارے بتانے اور خبر دینے کی حاجت نہیں ۔( خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۷۴، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۵۸، ملتقطاً)
یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ-قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے محبوب! وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ تم فرماؤ: اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دی اگر تم سچے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا: اے محبوب! وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔} ارشاد فرمایاکہ اے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! یہ لوگ آپ پراحسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں توآپ ان کی یہ غلط فہمی دورکردیں اورانہیں بتادیں کہ تم نے اسلام لاکرمجھ پرکوئی احسان نہیں کیابلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پراحسان کیاکہ تم کو ایمان کی دولت دیدی ورنہ کافرمرتے توجہنم میں جاتے اورہمیشہ کے لیے عذاب کے حقدارٹھہرتے ۔
مخلوق میں سے کسی کا حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر احسان نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ کسی مخلوق کا حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر احسان نہیں بلکہ سب پر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا احسان ہے کہ ہمیں جو نعمتیں ملیں وہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہی ملیں ،اگر تمام جہان کافر ہو جائے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کچھ نہیں بگڑتا اور اگر تمام دنیا مومن و مُتَّقی ہو جائے تو حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کچھ احسان نہیں ،اگر ہم سورج سے نورلے لیں توہمارااحسان سورج پر نہیں بلکہ اس کا ہم پر احسان ہے ۔
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کے سب غیب جانتا ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کے سب غیب جانتا ہے۔} یعنی جو علیم و خبیر تمام آسمانو ں کے غُیوب جانتا ہے اس پر تمہارے دل کے حالات کیسے چھپ سکتے ہیں اس کی بارگاہ میں اپنا ایمان ظاہر کر نا عَبَث ہے۔یاد رہے کہ ہم گنہگار وں کا یہ عرض کرنا کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم گنہگار ہیں یا اے مولیٰ !ہم تیرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے ،یہ اللہ تعالیٰ پر ظاہر کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس سے بھیک مانگنے کے لئے ہے لہٰذا یہ آیت ان آیتوں کے خلاف نہیں جن میں اس کے اظہار کا ذکرہے ۔;.