Table of Contents
Toggleسُوْرَۃُ الذَّارِيَات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا(1)فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا(2)فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا(3)فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
بکھیر کر اڑادینے والیوں کی قسم۔ پھر بوجھ اٹھانے والیوں کی۔ پھر آسانی سے چلنے والیوں کی۔ پھر حکم کو تقسیم کرنے والیوں کی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا: خاک وغیرہ کو بکھیر کر اڑادینے والی ہواؤں کی قسم۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خاک وغیرہ کو بکھیر کر اُڑادینے والی ہواؤں کی قسم ارشاد فرمائی، دوسری آیت میں بارش کے پانی کا بوجھ اٹھانے والی بدلیوں اور گھٹاؤں کی قسم ارشاد فرمائی،تیسری آیت میں پانی پر آسانی کے ساتھ چلنے والی کشتیوں کی قسم ارشاد فرمائی اور چوتھی آیت میں فرشتوں کی ان جماعتوں کی قسم ارشاد فرمائی جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش اور رزق وغیرہ تقسیم کرتی ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے پر مامور کیا ہے اور عالَم کے نظام میں تَصَرُّف کرنے کا اختیار عطا فرمایا ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہ تمام صفتیں ہوائوں کی ہیں کہ وہ خاک بھی اُڑاتی ہیں ، بادلوں کو بھی اُٹھائے پھرتی ہیں ،پھر اُنہیں لے کرسہولت کے ساتھ چلتی ہیں ،پھر اللہ تعالیٰ کے شہروں میں اُس کے حکم سے بارش کو تقسیم کرتی ہیں ۔
یاد رہے کہ ان چیزوں کی قسم ارشاد فرمانے کا اصلی مقصود اس چیز کی عظمت بیان کرنا ہے جس کے ساتھ قسم ارشاد فرمائی گئی کیونکہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر دلا لت کرنے والی ہیں اور ان چیزوں کو بیان فرما کر اربابِ دانش کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ ان میں غور کرکے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور آخرت میں اعمال کی جزا ملنے پر اِستدلال کریں کہ جو قادرِ برحق ایسے عجیب و غریب اُمور پر قدرت رکھتا ہے تو وہ اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ ہستی عطا فرمانے پر بھی بے شک قادر ہے۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۴ / ۱۸۰، جمل، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱-۴، ۷ / ۲۷۶-۲۷۷، ملتقطاً)
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ(5)وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌﭤ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جس کی تمہیں وعید سنائی جا رہی ہے وہ ضرور سچ ہے۔ اور بیشک بدلہ دیا جانا ضرور واقع ہونے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ: بیشک جس کی تمہیں وعید سنائی جا رہی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں ،بدلیوں ،کشتیوں اور فرشتوں کی قسم یاد کرکے فرمایا کہ اے لوگو!بے شک مرنے کے بعد زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کی جس بات کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے عذاب کی جو وعید سنائی جا رہی ہے وہ ضرور سچ ہے اور اس میں جھوٹ کا امکان بھی نہیں ہے اور بیشک قیامت کے دن انصاف ضرور ہونا ہے اور حساب کے بعد نیک اور برے اعمال کا بدلہ ضرور ملنا ہے۔( روح البیان، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۹ / ۱۴۹، جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۴۳۲، ملتقطاً)
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِ(7)اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
راستوں والے آسمان کی قسم۔ تم طرح طرح کی بات میں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِ: راستوں والے آسمان کی قسم۔} اس آیت کے آخری لفظ ’’ذَاتِ الْحُبُکِ‘‘ کا ایک معنی ہے زینت والا اور دوسرا معنی ہے راستوں والا۔ان دونوں معنی کے اعتبار سے اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حسن و جمال والے آسمان کی قسم جسے ہم نے ستاروں سے مُزَیَّن فرمایا ہے (یا) سیاروں کی گردش کے راستوں والے آسمان کی قسم! اے اہلِ مکہ ! تم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اور قرآنِ پاک کے بارے میں مختلف باتوں کے قائل ہو، کبھی رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادو گر کہتے ہو، کبھی شاعر ،کبھی کاہِن اورکبھی مجنون کہتے ہو (مَعَاذَ اللہ تَعَالٰی) اسی طرح قرآنِ کریم کو کبھی جادو بتاتے ہو ،کبھی شعر ،کبھی کہانَت اور کبھی اگلوں کی داستانیں کہتے ہو۔( خازن ، الذّاریات ، تحت الآیۃ : ۷-۸ ، ۴ / ۱۸۰-۱۸۱ ، روح البیان ، الذّاریات ، تحت الآیۃ : ۷-۸ ، ۹ / ۱۴۹-۱۵۰، جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۴۳۲، ملتقطاً)
یُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَﭤ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس قرآن سے وہی اوندھا کیا جاتا ہے جو اوندھا ہی کردیا گیا ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُؤْفَكُ عَنْهُ: اس قرآن سے وہی اوندھا کیا جاتا ہے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کفار جب کسی کو دیکھتے کہ وہ ایمان لانے کا ارادہ کررہا ہے تو اس کے پاس جا کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں کہتے کہ تم اُن کے پاس کیوں جاتے ہو؟ وہ تو شاعر ہیں ، جادو گر ہیں اورجھوٹے ہیں (مَعَاذَاللہ) اور اسی طرح قرآنِ پاک کے بارے میں کہتے کہ وہ شعر ہے،جادو ہے،اورجھوٹ ہے (مَعَاذَاللہ) تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، (آپ ان کی حرکتوں سے غمزدہ نہ ہوں ، آپ پر اور) اس قرآن پر ایمان لانے سے اسی کا منہ پھیر دیا جاتا ہے جس کی قسمت میں ہی ہدایت سے منہ پھیر دیا جانا ہو،جو اَزل سے ہی محروم ہے وہی ا س سعادت سے محروم رہتا ہے اور وہی بہکانے والوں کے بہکاوے میں آتا ہے۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۸۱، جلالین مع صاوی، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۲۰۱۷، ملتقطاً)
قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ(10)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ غَمْرَةٍ سَاهُوْنَ(11)یَسْــٴَـلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِﭤ(12)یَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ یُفْتَنُوْنَ(13)ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْؕ-هٰذَا الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
جھوٹے اندازے لگانے والے مارے جائیں ۔ جو نشے میں بھولے ہوئے ہیں ۔۔ پوچھتے ہیں کہ بدلے کا دن کب ہوگا؟۔ (یہ اس دن واقع ہوگا) جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اور (فرمایا جائے گا) اپنا عذاب چکھو، یہ وہی عذاب ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ: جھوٹے اندازے لگانے والے مارے جائیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹے اندازے لگانے والے مارے جائیں جو جہالت کے نشے میں آخرت کوبھولے ہوئے ہیں اور وہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حصولِ علم کے ارادے سے نہیں بلکہ مذاق اڑانے اور جھٹلانے کے طور پر پوچھتے ہیں کہ انصاف کا دن کب آئے گا؟کفار نے جس انداز میں سوال کیا تھا اسی کے مطابق انہیں جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کا دن وہ ہو گا جس دن انہیں آگ پر تپایا جائے گا اور انہیں عذاب دیا جائے گا اوران سے فرمایا جائے گاکہ اب اپنا عذاب چکھو ،یہ وہی عذاب ہے جس کے آنے کی تم جلدی مچاتے تھے اور دنیا میں مذاق اُڑاتے ہوئے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کرتے تھے کہ وہ عذاب جلدی لے آئو جس کا آپ ہمیں وعدہ دیتے ہو۔(مدارک،الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ص۱۱۶۷، جمل، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۴، ۷ / ۲۷۸-۲۷۹، ملتقطاً)
ان آیات سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اور مرتبہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کفار نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں گستاخی کی تو اللہ تعالیٰ نے خود بڑے پُر جلال انداز میں کفار کو ان کی گستاخی کا جواب دیا۔ سُبْحَانَ اللہ۔
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ(15)اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَﭤ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک پرہیزگارلوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار۔} کفار کا انجام بیان فرمانے کے بعد اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے پرہیزگار لوگوں کا انجام بیان فرمایا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک پرہیز گار لوگ ان باغوں میں ہوں گے جن میں لطیف چشمے جاری ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ عطا فرمائے گا اسے راضی خوشی قبول کرتے ہوں گے ۔ بیشک وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے دنیا میں نیک کام کرتے تھے اسی لئے انہیں یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔( ابو سعود، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۵ / ۶۲۸، خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۱۸۱، ملتقطاً)
نیک اعمال آخرت کی عظیم کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کئے ہوئے نیک اعمال آخرت کی عظیم کامیابی یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ملنے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا رہے اور نیک اعمال کی کثرت کرے تاکہ دنیا و آخرت کی سرفرازی نصیب ہو۔نیک اعمال کرنے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(یونس:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اورحضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (اپنے گناہوں سے) توبہ کر لو اور مصروف ہو جانے سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو اور ذکر کی کثرت سے اپنے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے درمیان تعلق پیدا کر لو، اسی طرح ظاہری اور پوشیدہ طور پر صدقہ دیا کرو تو تمہیں رزق بھی دیا جائے گا،تمہاری مدد بھی کی جائے گی اور تمہارے نقصان کی تَلافی بھی کی جائے گی۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصّلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فرض الجمعۃ، ۲ / ۵، الحدیث: ۱۰۸۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(17)وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ: وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پرہیز گار لوگوں کانیک اعمال کرنے میں حال یہ تھا کہ وہ رات تہجُّد اور شب بیداری میں گزارتے اور رات میں بہت تھوڑی دیر سوتے تھے اور اتنا سو جانے کو بھی اپنا قصور سمجھتے تھے اور رات تہجُّد اور شب بیداری میں گزار نے کے باوجود بھی وہ خود کو گناہگار سمجھتے تھے اور رات کا پچھلا حصہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے میں گزارتے تھے۔(مدارک،الذّاریات،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،ص۱۱۶۷، جلالین مع جمل،الذّاریات،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،۷ / ۲۷۹،ملتقطاً)
رات کا آخری حصہ مغفرت طلب کرنے اور دعا مانگنے کے لئے انتہائی مَوزوں ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ رات کا آخری حصہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور دعا کے لئے بہت مَوزوں ہے۔ یہاں اس سے متعلق ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہمارا رب تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے’’ کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں ،کوئی ایساہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں ، کوئی ایساہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں ۔( بخاری، کتاب التّھجّد، باب الدّعاء والصّلاۃ من آخر اللّیل، ۱ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۴۵)
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم کا حق تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ: اور ان کے مالوں میں حق تھا۔} اس آیت میں پرہیز گار وں کے بارے میں بیان کیا گیا کہ ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم کا حق تھا۔ مانگنے والے سے مراد وہ ہے جو اپنی حاجت کے لئے لوگوں سے سوال کرے اور محروم سے مراد وہ ہے جو حاجت مند ہو اور حیاء کی وجہ سے سوال بھی نہ کرے۔( مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۱۶۷)
پرہیزگاروں کی 4صفات:
اس آیت سے پرہیز گاروں کی 4 صفات معلوم ہوئیں :
(1)…ان کے مال میں غریبوں کا حصہ ہوتا ہے۔
(2)…وہ ہر قسم کے فقیر کو دیتے ہیں چاہے اسے پہچانتے ہوں یا نہیں ۔
(3)… ان کا دینا سائل کے مانگنے پر مَوقوف نہیں ،وہ مانگنے والوں کو بھی دیتے ہیں اور تلاش کرکے ان مَساکین کو بھی دیتے ہیں جو حیاء اور شرم کی وجہ سے مانگ نہ سکیں ۔
(4)… وہ فقیروں کو دے کر ان پر اپنا احسان نہیں جتاتے بلکہ اپنی کمائی میں ان کا حق سمجھتے ہیں اور ان کا احسان مانتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا مال قبول کرلیا۔اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کے مسلمانوں کو بھی یہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین میں یقین والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ: اور زمین میں نشانیاں ہیں ۔} یعنی زمین میں پہاڑ،دریا،درخت،پھل اور نباتات وغیرہ ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں۔(جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۴۳۳، ملخصاً)
زمین میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پردلالت کرنے والی نشانیاں :
زمین میں اپنی وحدانیَّت اور قدرت پردلالت کرنے والی نشانیوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ هُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْهٰرًاؕ-وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۳)وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ- وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِی الْاُكُلِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘(رعد:۳،۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑاور نہریں بنائیں اور زمین میں ہر قسم کے پھل دو دو طرح کے بنائے، وہ رات سے دن کو چھپا لیتا ہے، بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔ اور زمین کے مختلف حصے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اور انگوروں کے باغ ہیں اور کھیتی اور کھجور کے درخت ہیں ایک جڑ سے اگے ہوئے اور الگ الگ اگے ہوئے، سب کو ایک ہی پانی دیا جا تا ہے اور پھلوں میں ہم ایک کو دوسرے سے بہتر بناتے ہیں ، بیشک اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْؕ-اِنَّ الَّذِیْۤ اَحْیَاهَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰىؕ-اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کو بے قدر پڑی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو لہلہانے لگتی ہے اور بڑھ جاتی ہے۔ بیشک جس نے اس کو زندہ کیا وہ ضرور مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(21)وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور خود تمہاری ذاتوں میں ،تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟ اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: اور خود تمہاری ذاتوں میں ۔} یعنی تمہاری پیدائش کے مراحل میں ،تمہارے اَعضا کی بناوٹ اور ترتیب میں ،تمہارے جسم کے اندرونی نظام میں ،پیدائش کے بعد مرحلہ وارتمہارے حالات کے بدلنے میں ، تمہاری شکلوں ، صورتوں اور زبانوں کے اختلاف میں ،تمہاری ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے مختلف ہونے میں اور تمہارے ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے بے شمار عجائبات موجود ہیں جن میں غور کر کے تم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں جان سکتے ہو اورجب وہ ان عجیب و غریب چیزوں پر قدرت رکھتاہے تو اے کافرو!تمہیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اس کے لئے کیا مشکل ہے۔
{وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ: اور آسمان میں تمہارا رزق ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمان میں تمہارا رزق ہے کہ اسی طرف سے بارش نازل کرکے زمین کو پیداوار سے مالا مال کیا جاتا ہے اور آخرت کا وہ ثواب و عذاب بھی آسمان میں لکھا ہوا ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا ہے۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۴۳۳، ملخصاً)
فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم! بیشک یہ حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ: تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم!} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ آسمان اور زمین کے رب کی قسم! بیشک یہ قرآن حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے فرشتے نے اسے اسی زبان میں بیان کیا ہے جو تم بولتے ہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! آسمان اور زمین کے رب کی قسم! میں نے تم سے جو بات کہی کہ تمہارا رزق آسمان میں ہے یہ ویسے ہی حق ہے جیسے تمہارے نزدیک وہ بات حق ہے جو تم (قسم کھا کر) کہتے ہو۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ آسمان اور زمین کے رب کی قسم! بیشک تم سے جو آخرت کے ثواب اور عذاب کا وعدہ کیا جا رہا ہے یہ ویسے ہی حق ہے جیسے تمہارے نزدیک وہ بات حق ہے جو تم (قسم کھا کر) کہتے ہو۔( تفسیرکبیر،الذّاریات،تحت الآیۃ:۲۳،۱۰ / ۱۷۲، تفسیر طبری، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۳،۱۱ / ۴۶۱-۴۶۲، ملتقطاً)هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے حبیب!کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔
صراط الجنان : تفسیر
{هَلْ اَتٰىكَ: اے محبوب!کیا تمہارے پاس آئی۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے تاکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سن کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قلب کو تسلی حاصل ہو۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اس لئے بیان فرمایاکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کی اولاد میں سے ہی تشریف لائے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی بعض چیزوں میں ان کے طریقے کو اختیار فرمایا اور اس واقعے کو بیان کرنے سے مقصود حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم کو (اللہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرانا بھی ہے۔( تفسیرکبیر، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۴، ۱۰ / ۱۷۳، ملخصاً)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ کے پاس ان فرشتوں کی خبر آئی جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں معزز مہمان بن کر حاضر ہوئے تھے۔ ان فرشتوں کی تعداد دس یا بارہ تھی اور ان میں حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام بھی شامل تھے۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۴۳۳)
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب وہ اس کے پاس آئے تو کہا: سلام، (ابراہیم نے) فرمایا، ’’سلام ‘‘اجنبی لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ: جب وہ اس کے پاس آئے۔} جب فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: سلام۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں سلام فرمایا اور کہا کہ یہ اجنبی لوگ ہیں ۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۳، ملخصاً)یہ آپ نے دل میں فرمایا کہ میں ان سے واقف نہیں ، مُنکَر بمعنی اجنبی ہے، اسی لئے قبر کے فرشتوں کو مُنکَر ونکیر کہا جاتا ہے کہ وہ اجنبی ہوتے ہیں ۔
آیت ’’اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)… سلام بڑی پرانی سنت ہے کہ دوسرے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین میں بھی تھی بلکہ حدیث ِمبارک سے ثابت ہے کہ سلام کا طریقہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے پیش کیا گیا۔
(2)… آنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے خواہ سارے لوگ سلام کریں یا ان میں سے ایک ظاہر یہ ہے کہ یہاں سب نے سلام کیا۔
فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ(26)فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ(27)فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْؕ-وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ابراہیم اپنے گھر والوں کی طرف گئے تو ایک موٹا تازہ بچھڑا لے آئے۔ پھر اسے ان کے پاس رکھ دیا تو فرمایا: کیا تم کھاتے نہیں ؟ تو اپنے دل میں ان سے خوف محسوس کیا، (فرشتوں نے) عرض کی: آپ نہ ڈریں اور انہوں نے اسے ایک علم والے لڑکے کی خوشخبری سنائی۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ: پھر ابراہیم اپنے گھر گئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دوآیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سلام کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک موٹا تازہ اور نفیس بچھڑا بھون کرلے آئے،پھر اسے ان مہمانوں کے پاس رکھ دیا تاکہ اسے کھائیں اور یہ میزبان کے آداب میں سے ہے کہ مہمان کے سامنے کھانا پیش کرے۔جب اُن فرشتوں نے نہ کھایا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:کیا تم کھاتے نہیں ؟ فرشتوں نے کوئی جواب نہ دیا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کے دل میں بات آئی کہ یہ فرشتے ہیں اور عذاب کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خوف دیکھ کر فرشتوں نے عرض کی: آپ ڈریں نہیں ، ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں اوراس کے بعد ان فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک علم والے لڑکے کی خوشخبری سنائی۔( خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۸، ۴ / ۱۸۳، مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۸، ص۱۱۶۹، ملتقطاً)
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ(29)قَالُوْا كَذٰلِكِۙ-قَالَ رَبُّكِؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی ہوئی آئی پھر اپنے چہرے پر ہاتھ مارا اورکہا:کیا بوڑھی بانجھ عورت (بچہ جنے گی۔) فرشتوں نے کہا: تمہارے رب نے یونہی فرمایا ہے، بیشک وہی حکمت والا، علم والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ: تو ابراہیم کی بیوی چلاتی ہوئی آئی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم والے لڑکے کی خوشخبری سنائی تو یہ بات آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی سن لی ، اس پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چِلّاتی ہوئی آئیں اور حیرت سے اپنے چہرے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا:کیا وہ عورت بچہ جنے گی جو (90 یا 99 برس کی) بوڑھی ہے اور اس کے ہاں کبھی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اس بات سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ایسی حالت میں بچہ ہونا انتہائی تعجب کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا: جو بات ہم نے کہی آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے یونہی فرمایا ہے، بیشک وہی اپنے اَفعال میں حکمت والا ہے اور ا س سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔( جلالین، الذّاریٰت، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۴۳۳، مدارک، الذّاریات، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۱۱۶۹، ملتقطاً)
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ(31)قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(32)لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍ(33)مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
ابراہیم نے فرمایا: تو اے بھیجے ہوئے فرشتو!پھر تمہارا کیا مقصد ہے؟انہوں نے کہا:بیشک ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ تاکہ ان پر گارے کے پتھر برسائیں ۔ جن پر تمہارے رب کے پاس حد سے بڑھنے والوں کے لیے نشان لگائے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: ابراہیم نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جان گئے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا ن سے فرمایا: اے فرشتو! کیا تم صرف بیٹے کی بشارت دینے آئے ہو یا اس کے علاوہ تمہارا اور بھی کوئی کام ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ(ان کی بستیوں کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد) ان پر گارے کے بنائے ہوئے پتھر چھوڑیں جن پر آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حد سے بڑھنے والوں کے لیے نشان لگائے ہوئے ہیں ۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ ان پتھروں پر ایسے نشان تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ دنیا کے پتھروں میں سے نہیں ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھرسے ہلاک کیاجانے والا تھا۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۴، ۴ / ۱۸۳، مدارک، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۱-۳۴، ص۱۱۷۰، ملتقطاً)
فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(35)فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اس شہر میں موجود ایمان والوں کو نکال لیا۔ تو ہم نے وہاں ایک ہی گھر مسلمان پایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاَخْرَجْنَا: تو ہم نے نکال لیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اس شہر پر عذاب آیا جس میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ آباد تھے تو پہلے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والے حضرات کو اللہ تعالیٰ نے نکال لیا اور اس شہر میں ایک ہی گھر کے لوگ مسلمان تھے۔ایک قول یہ ہے کہ وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی دونوں صاحب زادیاں تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اہلِ بیت میں سے جن لوگوں نے نجات پائی ان کی تعداد 13 تھی۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۴ / ۱۸۴، ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۶، ۵ / ۶۳۱، ملتقطاً)
وَ تَرَكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً لِّلَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِیْمَﭤ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ تَرَكْنَا فِیْهَاۤ اٰیَةً: اور ہم نے اس میں نشانی باقی رکھی۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے اس شہر میں کافروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی تباہی اور بربادی کی نشانی ان لوگوں کے لیے باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں اور ان لوگوں جیسے افعال کرنے سے باز رہیں اور وہ نشانی ان کے اُجڑے ہوئے شہر تھے ،یا وہ پتھر تھے جن سے وہ ہلاک کئے گئے ،یا وہ کالا بدبو دار پانی تھا جو اس سرزمین سے نکلا تھا۔( ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۶۳۱، جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۳۳، ملتقطاً)
لواطَت کرنے اور ا س کی ترغیب دینے والوں کے لئے نشانِ عبرت:
حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جس جرم کی بنا پر تباہ و بربادکر دی گئی اور دنیا میں انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا وہ مَردوں کا آپس میں اور لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا،ان کے دردنا ک انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو فی زمانہ مَردوں کے ساتھ ہم جنس پرستی کرنے اوراس کی ترغیب دینے کے لئے باقاعدہ تقریبات منعقد کرنے اور اسے قانونی جواز مُہَیّا کرنے میں مصروف ہیں ۔
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(38)فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور موسیٰ میں (بھی نشانی ہے) جب ہم نے اسے روشن سند کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا۔ اور وہ (فرعون) اپنے لشکر سمیت پھر گیا اور بولا: (موسیٰ تو) جادوگر ہے یا دیوانہ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِیْ مُوْسٰى: اور موسیٰ میں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے میں بھی (عبرت کی) نشانی رکھی ہے اور ان کا واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان روشن معجزات کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے پیش فرمائے تو فرعون نے اپنی جماعت کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے سے اِعراض کیا اور ان کی شان میں یہ کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو جادوگر یا دیوانے ہیں (جو مجھ جیسے جابر بادشاہ کا مقابلہ کرنے آئے ہیں )۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۴ / ۱۸۴، ملخصاً)
فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ وَ هُوَ مُلِیْمٌﭤ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ (خود کو) کو ملامت کررہا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاَخَذْنٰهُ وَ جُنُوْدَهٗ: اور ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑا۔} ارشاد فرمایا کہ جب فرعون اور ا س کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال دیا اور اس وقت اس کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا کہ ا س نے رب ہونے کا دعویٰ کیوں کیا اور وہ کیوں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لایا اور کیوں ان پراعتراضات کئے۔( ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۶۳۱، جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۴۳۴، ملتقطاً)
وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ(41)مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِﭤ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور قومِ عاد میں (بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان پرخشک آندھی بھیجی۔ وہ جس چیز پر گزرتی تھی اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کرچھوڑتی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِیْ عَادٍ: اور عاد میں ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ عاد کو ہلاک کرنے میں بھی قابلِ عبرت نشانیاں ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر خشک آندھی بھیجی جس میں کچھ بھی خیرو برکت نہ تھی اوریہ ہلاک کرنے والی ہوا تھی اور یہ ہوا آدمی ،جانور یا دیگر اَموال میں سے جس چیز کوبھی چھو جاتی تھی تو ا سے ہلاک کرکے ایسا کردیتی تھی کہ گویا وہ مدتوں کی ہلاک شدہ اور گلی ہوئی ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۲، ۴ / ۱۸۴، ملخصاً)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد پر صرف ا س حلقہ یعنی انگوٹھی کے حلقہ کے برابر ہوا بھیجی، پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: ’’ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ(۴۱) مَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِؕ(۴۲)‘‘۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الذاریات، ۵ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۲۸۴)
وَ فِیْ ثَمُوْدَ اِذْ قِیْلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِیْنٍ(43)فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَ(44)فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ(45)وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ثمود میں ( نشانی ہے) جب ان سے فرمایا گیا: ایک وقت تک فائدہ اٹھالو۔ تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا۔ تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے۔اور ان سے پہلے قوم نوح کو ہلاک فرمایا، بیشک وہ فاسق لوگ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ فِیْ ثَمُوْدَ: اور ثمود میں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود کو ہلاک کرنے میں بھی عبرت کی نشانیاں ہیں ۔ جب انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے سرکشی کی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور ان کی اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں توان سے فرمایا گیا کہ تین دن تک دنیا میں اپنی زندگی سے فائدہ اٹھالو، یہی زمانہ تمہاری مہلت کا ہے اورجب تین دن گزر گئے تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا اوروہ ہَولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کردیئے گئے اور عذاب نازل ہونے کے وقت نہ وہ کھڑے ہوکر بھاگ سکے اور نہ ہی وہ اس سے بدلہ لے سکتے تھے جس نے انہیں ہلاک کیا۔( جلالین مع جمل، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۳-۴۵، ۷ / ۲۸۷، ملخصاً)
{ وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ: اور ان سے پہلے قومِ نوح کو ہلاک فرمایا۔} یعنی ہلاک کی جانے والی ان قوموں سے پہلے ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کیا اور انہیں ہلاک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوُز کر کے کفر اور گناہوں پر قائم رہے۔( روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۴۶، ۹ / ۱۶۹)
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ(47)وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمان کو ہم نے (اپنی) قدرت سے بنایا اور بیشک ہم وسعت وقدرت والے ہیں ۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنایا تو ہم کیا ہی اچھا بچھانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ: اور آسمان کو ہم نے (اپنی) قدرت سے بنایا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور قدرت کے دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بے شک ہم اسے اتنی وسعت دینے والے ہیں کہ زمین اپنی فضا کے ساتھ اس کے اندر اس طرح آجائے جیسے کہ ایک وسیع و عریض میدان میں گیند پڑی ہو ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور بیشک ہم اپنی مخلوق پر رزق وسیع کرنے والے ہیں ۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۸۴)
{ وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا: اور زمین کو ہم نے فرش بنایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا کہ زمین اس قدر وسیع ہے کہ گول ہونے کے باوجود فرش کی طرح بچھی ہوئی معلوم ہوتی ہے، نیز نہ تو لوہے کی طرح سخت ہے کہ اس پر چلنا پھرنا دشوار ہو جائے اور نہ پانی کی طرح پتلی کہ مخلوق اس میں ڈوب جائے۔یہ رب تعالیٰ کی قدرت کی بڑی دلیل ہے۔
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ: اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں جیسے آسمان اور زمین ،سورج اور چاند ، رات اور دن،خشکی اور تری ، گرمی اور سردی ، جن اور انسان، روشنی اورتاریکی ، ایمان اورکفر ،سعادت اوربدبختی ، حق اور باطل اور نر و مادہ وغیرہ اوریہ قسمیں اس لئے بنائیں تاکہ تم ان میں غور کرکے یہ بات سمجھ سکو کہ ان تمام قسموں کو پیدا کرنے والی ذات واحد ہے، نہ اس کی نظیر ہے ،نہ اس کاشریک ہے،نہ اس کا کوئی مد ِ مقابل ہے اورنہ اس کا کوئی مثل ہے ،لہٰذا صرف وہی عبادت کا مستحق ہے۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۱۸۴-۱۸۵، مدارک، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۷۱، ملتقطاً)
فی زمانہ سائنس کی تحقیق سے یہ پتہ لگ چکا ہے کہ درخت اور پتھروں میں بھی نر اور مادہ دو قسمیں ہیں ،جب نر درخت سے ہوا لگ کر مادہ درخت سے چھوتی ہے تو پھل زیادہ آتا ہے اگرچہ نر درخت دور ہو، ان چیزوں کی بھی نسل ہے مگر نسل کا طریقہ جدا گانہ ہے۔
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(50)وَ لَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَؕ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کی طرف بھاگو بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لئے کھلم کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔ اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلم کھلا ڈر سنانے والا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ: اور اللہ کی طرف بھاگو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ جب عبادت کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اے لوگو! تم کفر سے ایمان کی طرف، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اطاعت کی طرف ،اپنے گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ اور اس کے علاوہ سب کو چھوڑ کر صرف اسی کی عبادت کرو تاکہ تم اس کے عذاب سے نجات پا جاؤا ور اس کی طرف سے ثواب حاصل کر کے کامیاب ہو جاؤ،بیشک میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفر اور نافرمانی پر اس کے عذاب سے کھلم کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔(خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۴ / ۱۸۵، قرطبی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۹ / ۴۱، الجزء السابع عشر، ابو سعود، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۵ / ۶۳۲-۶۳۳، ملتقطاً)
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ(52)اَتَوَاصَوْا بِهٖۚ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
یونہی جب ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو وہ یہی بولے کہ (یہ) جادوگر ہے یا دیوانہ۔ کیاانہوں نے ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کی تھی بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ كَذٰلِكَ: یونہی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جیسے آپ کی قوم کے کفار نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ کو جادو گر اور مجنون کہا ایسے ہی جب کفارِ مکہ سے پہلے لوگوں کے پاس میری طرف سے کوئی رسول تشریف لایا اور اس نے اپنی قوم کو مجھ پر ایمان لانے اور میری اطاعت کرنے کی دعوت دی تو ان کے بارے میں بھی کفار نے یہی کہاکہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے۔ سابقہ کفار نے اپنے بعد والوں کو یہ وصیت تو نہیں کی کہ تم انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے رہنا اور ان کی شان میں اس طرح کی باتیں بنانا لیکن چونکہ سرکشی اورنافرمانی کی عِلّت دونوں میں ہے اس لئے یہ گمراہی میں ایک دوسرے کے موافق رہے اورا سی چیز نے انہیں ا س طرح کی باتیں کرنے پر ابھارا لہٰذا آپ اپنی قوم کے جھٹلانے اور اس طرح کی باتیں کرنے سے غمزدہ نہ ہوں ۔( خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۴ / ۱۸۵، روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ۹ / ۱۷۴، ملتقطاً)
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا اَنْتَ بِمَلُوْمٍ(54) وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اے حبیب!تم ان سے منہ پھیر لو تو تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ اور سمجھاؤ کہ سمجھانا ایمان والوں کو فائدہ دیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ: تو اے محبوب!تم ان سے منہ پھیرلو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے منہ پھیر لیں کیونکہ آپ رسالت کی تبلیغ فرماچکے اور اسلام کی دعوت اورہدایت دینے میں انتہائی محنت کرچکے اور آپ نے اپنی کوشش میں معمولی سی بات بھی نہ چھوڑی توان کے ایمان نہ لانے سے آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔
نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کے دو فوائد:
آیت نمبر55 سے معلوم ہوا کہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے اور برے کاموں سے منع کرتے رہنا چاہئے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے سمجھایا جائے اس کے بارے میں امید ہوتی ہے کہ وہ برے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے لگے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ سمجھانے اور نصیحت کرنے کے ان فوائد کو قرآنِ پاک میں ایک اور مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ
’’وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ‘‘(اعراف:۱۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والاہے؟انہوں نے کہا: تمہارے رب کے حضورعذر پیش کرنے کے لئے اور شایدیہ ڈریں ۔
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔} ارشاد فرمایا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س طلب میں مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو ۔( صاوی، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۲۰۲۶، خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۱۸۵)
جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا اصل مقصد:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(مومنون:۱۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
اور ارشاد فرمایا:
’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( ملک:۱،۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(57)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا دیں ۔ بیشک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا، قدرت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ: میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ عادت ِکریمہ ایسی نہیں ہے جیسی بندوں کی اپنے غلاموں اور نوکروں کےساتھ ہے کیونکہ بندے اپنے پاس غلام اور نوکر اس لئے رکھتے ہیں تاکہ وہ معاشی معاملات میں ان کی مدد کریں جبکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ رزق یا کسی بھی معاملے میں بندوں کا محتاج نہیں بلکہ ہر ایک کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور سب کی روزی کا کفیل بھی وہی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کے لئے کھانا دیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی بڑارزق دینے والا ہے، وہی ہر کسی کو رزق دیتا ہے، وہ قوت والا ہے اسی لئے مخلوق تک رزق پہنچانے میں اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں اور رِزق پیدا کرنے پرقدرت رکھنے والا ہے،سب کو وہی دیتا اور سب کو وہی پالتا ہے۔(جلالین مع صاوی ، الذاریات ، تحت الآیۃ : ۵۷ – ۵۸ ، ۵ / ۲۰۲۶-۲۰۲۷ ، خازن ، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ۴ / ۱۸۵-۱۸۶، روح البیان، الذاریات، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ۹ / ۱۸۰-۱۸۱، ملتقطاً)
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ(59)فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِهِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو بیشک ان ظالموں کے لیے عذاب کا ایک حصہ ہے جیسے ان کے ساتھیوں کے عذاب کا حصہ تھا تو یہ مجھ سے (عذاب مانگنے میں ) جلدی نہ کریں ۔ تو کافروں کیلئے ان کے اس دن سے خرابی ہے جس کی انہیں وعید سنائی جاتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: تو بیشک ان ظالموں کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک ان ظالموں کے لیے جنہوں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ایسے ہی عذاب کا ایک حصہ ہے جیسے سابقہ امتوں کے کفار کا عذاب اورہلاکت میں حصہ تھا جو کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے میں اِن کے ساتھی تھے،لہٰذا اگر میں نے ان سے قیامت تک کے لئے عذاب مُؤخَّر کر دیا ہے تو انہیں چاہئے کہ مجھ سے عذاب نازل کرنے کی جلدی نہ کریں ۔( جلالین، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۴۳۴-۴۳۵، خازن، الذّٰریٰت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۱۸۶، ملتقطاً)