سُوْرَۃُ النَّجْم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

تارے کی قسم،جب وہ اترے

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ النَّجْمِ: تارے کی قسم۔} اس آیت میں نَجم سے کیا مراد ہے اس بارے میں  مفسرین کے بہت سے قول ہیں  اور ان اَقوال کے اعتبار سے آیت کے معنی بھی مختلف ہیں ۔

پہلا قول:اس سے مراد ’’ثُرَیّا ‘‘ ہے ، اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ ثریا تارے کی قسم! جب وہ فجر کے وقت غروب ہو۔یاد رہے کہ اگرچہ ثریا کئی تارے ہیں  لیکن ان پر نَجم کا اِطلاق عرب والوں  کی عادت ہے ۔

دوسرا قول:نجم سے نجوم کی جنس یعنی تمام تارے مراد ہیں ۔اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ آسمان کے تمام تاروں  کی قسم!جب وہ غروب ہوں ۔

تیسرا قول: اس سے وہ نباتات مراد ہیں جو تنا نہیں  رکھتیں  بلکہ زمین پر پھیلتی ہیں ۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ زمین پر پھیلے ہوئے بیل بوٹوں  کی قسم! جب وہ جنبش کریں ۔

چوتھا قول: نجم سے مراد قرآنِ پاک ہے۔اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ قرآن کی قسم !جب وہ رفتہ رفتہ نازل ہو۔

پانچواں  قول: نجم سے مراد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِمبارکہ ہے،اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ (اس پیارے چمکتے) تارے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قسم !جب وہ معراج کی رات آسمانوں  سے اترے۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۹۰، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۶۲، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے صاحب نہ بہکے اورنہ ٹیڑھا راستہ چلے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ: تمہارے صاحب نہ بہکے۔} اس آیت میں  ’’صَاحِبْ‘‘ سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور ’’نہ بہکنے‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی حق اور ہدایت کے راستے سے عدول نہیں  کیا اور ہمیشہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی توحید پر اور عبادت کرنے میں  رہے، آپ کے دامنِ عِصْمَت پر کبھی کسی مکروہ کام کی گَرد نہ آئی اور’’ ٹیڑھا راستہ نہ چلنے‘‘ سے مرادیہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیشہ رُشد و ہدایت کی اعلیٰ منزل پرفائزرہے، فاسد عقائد کا شائبہ بھی کبھی آپ کی مبارک زندگی تک نہ پہنچ سکا۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۶۴۱)

صَفی اور حبیب میں  فرق:

یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صَفی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  قرآنِ پاک میں  ارشاد فرمایا:

’’ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى‘‘( طہ:۱۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں  لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا۔

اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  ارشاد فرمایا:

’’ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمہارے صاحب نہ بہکے اورنہ ٹیڑھا راستہ چلے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلند ہے۔

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نامِ اَقدس کے ساتھ لفظ ’’صاحب‘‘ ملانے کا شرعی حکم:

یہاں  ایک شرعی مسئلہ یاد رہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر اطلاقِ صاحب خود قرآنِ عظیم میں  وارد ’’وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱)مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى‘‘ مگر نامِ اقدس کے ساتھ اس طورپر لفظ ِ’’صاحب‘‘ کا ملانا (جیسے محمد صاحب کہنا) یہ آریوں  اور پادریوں  کا شِعار ہے، وہ اسے معروف تعظیم میں  لاتے ہیں  جو زید وعمر کے لئے رائج ہے کہ شیخ صاحب، مرزاصاحب، پادری صاحب، پنڈت صاحب، لہٰذا اس سے احتراز چاہئے، ہاں  یوں  کہا جائے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہمارے صاحب ہیں ، آقا ہیں ، مالک ہیں ، مولیٰ ہیں ۔( فتاوی رضویہ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۱۴)

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىﭤ(3)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں  کہتے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کہتے تھے :قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں  بلکہ محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے،اس کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کلام تمہارے پاس لے کر آئے ہیں  اس کی کوئی بات وہ اپنی طرف سے نہیں  کہتے بلکہ اس قرآن کی ہر بات وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے کی جاتی ہے۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۱۹۱، جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۳-۴، ص۴۳۷، ملتقطاً)

عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى(5)ذُوْ مِرَّةٍؕ-فَاسْتَوٰى(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہیں سخت قوتوں والے ، طاقت والے نے سکھایا ،پھر اس نے قصد فرمایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى: انہیں  سخت قوتوں  والے نے سکھایا۔} یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی فرمائی وہ انہیں  سخت قوتوں  والے ، طاقت والے نے سکھایا۔بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ سخت قوتوں  والے ،طاقتور سے مراد حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ہیں  اور سکھا نے سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے سکھانا یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی کوحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک قلب تک پہنچانا ہے۔

حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی شدت اور قوت کا حال:

حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی شدت اور قوت کا یہ عالَم تھا کہ انہوں  نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں  کو زمین کی جڑ سے اکھاڑ کر اپنے پروں  پر رکھ لیا اور آسمان کی طرف اتنا بلند کر دیا کہ ان لوگوں  کے مرغوں  کی بانگ اور کتوں  کے بھونکنے کی آواز فرشتوں  نے سنی،پھر ان بستیوں  کو پلٹ کر پھینک دیا۔ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ ارضِ مقدَّسہ کی گھاٹی میں  ابلیس کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام کرتے دیکھا تو انہوں  نے اپنے پر سے پھونک مار کر ابلیس کو ہند کی سرزمین کے دور دراز پہاڑ پر پھینک دیا۔ان کی شدّت کی یہ کیفِیَّت تھی کہ قومِ ثمود اپنی کثیر تعداد اور بھرپور قوت کا مالک ہونے کے باوجود حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی ایک ہی چیخ سے ہلاک ہو گئی۔ ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ پلک جھکنے میں  آسمان سے زمین پر نازل ہوتے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک وحی پہنچا کر دوبارہ آسمان پر پہنچ جاتے ۔

حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ’’شَدِیْدُ الْقُوٰى‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور اُس نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے اپنی ذات کو اس وصف کے ساتھ ذکر فرمایا۔اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہیں  کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے کسی واسطہ کے بغیر تعلیم فرمائی۔(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۵، ۱۲، ۹ / ۲۱۴، ۲۱۸، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۴، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)

{ فَاسْتَوٰى: پھر اس نے قصد فرمایا۔} عام مفسرین نے ’’ فَاسْتَوٰى‘‘ کا فاعل بھی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو قرار دیا ہے اوراس کے یہ معنی مراد لئے ہیں  کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام اپنی اصلی صورت پر قائم ہوئے، اوراصلی صورت پر قائم ہونے کا سبب یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبریل کواُن کی اصلی صورت میں  ملاحظہ فرمانے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام مشرق کی جانب میں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے نمودار ہوئے اور ان کے وجود سے مشرق سے مغرب تک کاعلاقہ بھر گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی اِنسان نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو اُن کی اصلی صورت میں  نہیں  دیکھا۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۶۴۲)

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھنا تو صحیح ہے اور حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ حدیث میں  نہیں  ہے کہ اس آیت میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھنا مراد ہے بلکہ ظاہری طور پر تفسیر یہ ہے کہ ’’فَاسْتَوٰى‘‘ سے مرادسَرْوَرِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلند جگہ اوراعلیٰ مقام میں  اِسْتَویٰ فرمانا ہے۔(تفسیر کبیر، النجم، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۳۸-۲۳۹)

تفسیر روح البیان میں  ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُفُق ِاعلیٰ یعنی آسمانوں  کے اوپر اِسْتَویٰ فرمایا اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام سِدْرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پررک گئے اس سے آگے نہ بڑھ سکے اور عرض کی کہ اگر میں  ذرا بھی آگے بڑھوں  گا تو اللہ تعالیٰ کی تَجَلّیات مجھے جلا ڈالیں  گی ،پھر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آگے بڑھ گئے اور عرش کے اوپرسے بھی گزر گئے۔ (روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۲۱۷)

حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول یہ ہے کہ ا س آیت میں  اِسْتَویٰ فرمانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔(تفسیر قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۵، الجزء السابع عشر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجمے سے بھی اسی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہاں  اِسْتَویٰ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔

وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس حال میں کہ وہ آسمان کے سب سے بلند کنارہ پر تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى: اس حال میں  کہ وہ آسمان کے سب سے بلند کنارہ پر تھے۔} یہاں  بھی عام مفسرین اسی طرف گئے ہیں  کہ یہ حال جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے لیکن امام رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ حال تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے کہ آپ اُفُقِ اعلیٰ یعنی آسمانوں  کے اوپر تھے، اور (اس کی دلیل یہ ہے کہ) جس طرح کہنے والا کہتا ہے کہ میں  نے چھت پر چاند دیکھا یاپہاڑ پر چاند دیکھا، تواس بات کے یہ معنی نہیں  ہوتے کہ چاند چھت پر یا پہاڑ پر تھا بلکہ یہی معنی ہوتے ہیں  کہ دیکھنے والا چھت یا پہاڑ پر تھا، اسی طرح یہاں بھی مراد یہ ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آسمانوں  کے اوپر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی تجلی آپ کی طرف متوجہ ہوئی۔( تفسیر کبیر، النجم، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۳۸)

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى(8)فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر وہ جلوہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ تو دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثُمَّ دَنَا: پھر وہ قریب ہوا۔} کون کس کے قریب ہوااس کے بارے میں  مفسرین کے کئی قول ہیں ۔

(1)… اس سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کا نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قریب ہونا مراد ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی اصلی صورت دکھادینے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قرب میں  حاضر ہوئے پھر اور زیادہ قریب ہوئے ۔

(2)… اس سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اللہ تعالیٰ کے قرب سے مُشَرَّف ہونا مراد ہے اور آیت میں  قریب ہونے سے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اوپر چڑھنا اور ملاقات کرنا مراد ہے اور اتر آنے سے نازل ہونا،لوٹ آنا مراد ہے ۔اس قول کے مطابق آیت کا حاصلِ معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے قرب میں  باریاب ہوئے پھر وصال کی نعمتوں  سے فیض یاب ہو کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوئے۔

(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ ا س سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ رَبُّ اْلعِزَّت  اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قریب ہو ااور اس قرب میں  زیادتی فرمائی۔

یہ تیسرا قول صحیح تر ہے اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں  رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جَبَّارْ رَبُّ الْعِزَّتْ قریب ہوا۔( بخاری، کتاب التوحید، باب قولہ تعالی: وکلّم اللّٰہ موسی تکیلماً، ۴ / ۵۸۰، الحدیث: ۷۵۱۷)

(4)… اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارگاہِ رَبُوبِیَّت میں  مُقَرَّب ہو کر سجدۂ طاعت ادا کیا۔( تفسیرکبیر، النجم، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۲۳۹، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۸، ۹ / ۶۶، الجزء السابع عشر، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۸-۲۱۹، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے مشہور کلام ’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘میں  اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں  :

پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا

تنزّلوں  میں  ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰے کے سلسلے تھے

ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوُّجِ بحرِ ہو میں  اُبھرا

دَنیٰ کی گودی میں  ان کو لے کر فنا کے لنگراٹھا دیے تھے

اٹھے جو قصرِدنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے

وہاں  تو جاہی نہیں  دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

{ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى: تو دو کمانوں  کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔} اس آیت میں  مذکور لفظِ ’’قَوْسَیْنِ‘‘ کا ایک معنی ہے دو ہاتھ (یعنی دو شرعی گز) اور ایک معنی ہے دو کمانیں ۔اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل اورتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان اتنا قرب ہوا کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں  کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان اتنی نزدیکی ہوئی کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں  کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔( تفسیر قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۶۶، ۶۸، الجزء السابع عشر)

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’فاصلے کی یہ مقدار بتانے میں  انتہائی قرب کی طرف اشارہ ہے کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور باادب اَحباب میں  جو نزدیکی تصوُّر کی جاسکتی ہے وہ اپنی انتہاء کو پہنچی۔ مزید فرماتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس قدر قُربت سے معلوم ہوا کہ جوتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  مقبول ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  بھی مقبول ہے اور جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ سے مَردُود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بھی مردود ہے۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۹)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں ،

وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی

وہ کہ  اس  دَر  سے پھرا اللہ اس  سے  پھر  گیا

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىﭤ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى: پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔} بعض مفسرین نے اس آیت کامعنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وہ وحی فرمائی جو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک پہنچائی اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔ یہاں  جو وحی فرمائی گئی اس کی عظمت و شان کی وجہ سے یہ بیان نہیں  کیا گیا کہ وہ وحی کیا تھی۔( جلالین مع جمل، النجم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۱۶)

حضرت جعفر صادق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی، یہ وحی بے واسطہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیا ن کو ئی واسطہ نہ تھا اور یہ خدا اور رسول کے درمیان کے اَسرار ہیں  جن پر اُن کے سوا کسی کو اطلاع نہیں ۔

بقلی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس راز کو تمام مخلوق سے مخفی رکھا اوریہ نہ بیان فرمایا کہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کیا وحی فرمائی اور محب و محبوب کے درمیان ایسے راز ہوتے ہیں  جن کو ان کے سوا کوئی نہیں  جانتا۔

علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس رات میں جو آپ کو وحی فرمائی گئی وہ کئی قسم کے علوم تھے،ان میں  سے چند علوم یہ ہیں :

 (1)… شرعی مسائل اور اَحکام کا علم جن کی سب کو تبلیغ کی جاتی ہے۔

 (2)… اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے ذرائع جو خواص کو بتائے جاتے ہیں  ۔

(3)…علومِ ذَوْقِیّہ کے حقائق اور نتائج جو صرف اَخَصُّ الخواص کو تلقین کئے جاتے ہیں ۔

(4)… اور ان علوم کی ایک قسم وہ اَسرار ہیں  جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مُکَرَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ خاص ہیں  کوئی انہیں  برداشت نہیں  کرسکتا۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۱-۲۲۲)

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

دل نے اسے جھوٹ نہ کہا جو (آنکھ نے) دیکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى: دل نے اس کوجھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔} یعنی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا ۔مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھا ،دِل سے پہچانا اور اس دیکھنے اور پہچاننے میں  شک اور تَرَدُّد نے راہ نہ پائی۔

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا:

اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھا، اس بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا، لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ سَرْوَرِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا۔ اور یہ دیکھنا کیا سر کی آنکھوں  سے تھا یا دل کی آنکھوں سے، اس بارے میں  مفسرین کے دونوں  قول پائے جاتے ہیں  ایک یہ کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو اپنے قلب مبارک سے دیکھا۔

اورمفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو حقیقتاً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔

یہ قول حضرت انس بن مالک،حضرت حسن اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خُلَّت اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلام اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دیدار سے اِمتیاز بخشا۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دوبار کلام فرمایا اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والنجم، ۵ / ۱۸۴، الحدیث: ۳۲۸۹)لیکن حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا اوراس آیت کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور اس بات کی دلیل کے طور پر یہ آیت ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ تلاوت فرمائی ۔

اس مسئلے کوسمجھنے کے لئے یہاں  چند باتوں  کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا قول نفی میں  ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا اِثبات میں  اور جب نفی اور اثبات میں  ٹکراؤ ہو تو مُثْبَت ہی مُقَدّم ہوتا ہے کیونکہ نفی کرنے والا کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں  سنا اور کسی چیز کو ثابت کرنے والا اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم ثابت کرنے والے کے پاس ہے۔اور ا س کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے یہ کلام حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نقل نہیں  کیا بلکہ آیت سے جو آپ نے مسئلہ اَخذ کیا اس پر اعتماد فرمایا اوریہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی اپنی رائے ہے جبکہ درحقیقت آیت میں  اِدراک یعنی اِحاطہ کی نفی ہے دیکھ سکنے کی نفی نہیں  ہے ۔

صحیح مسئلہ یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیدارِ الہٰی سے مُشَرَّف فرمائے گئے، مسلم شریف کی حدیث ِمرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو کہ حِبْرُ الْاُمَّت ہیں  وہ بھی اسی پر ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قسم کھاتے تھے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شبِ معراج اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ۔ امام احمد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے تھے کہ حضو رِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اُس کو دیکھا اُس کو دیکھا۔امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں  تک کہ سانس ختم ہوگیا (پھر آپ نے دوسرا سانس لیا)۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۸، ۴ / ۱۹۲، ۱۹۴، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۲، ۲۲۳، ملتقطاً)

اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى(12)وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى(13)عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو۔ اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَتُمٰرُوْنَهٗ: تو کیا تم ان سے جھگڑ تے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کو جب معراج شریف کے واقعات معلوم ہوئے تو انہوں  نے ان واقعات کا انکار کر دیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے طرح طرح کے سوالات کرنے لگے ،کبھی کہتے کہ ہمارے سامنے بیتُ المقدس کے اوصاف بیان کریں  اور کبھی کہتے کہ راستوں  میں  سفر کرنے والے ہمارے قافلوں  کے بارے میں  خبر دیں  تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ان کے دیکھے ہوئے کے بارے میں  جھگڑتے ہو حالانکہ انہوں  نے تو سدرۃُ المنتہیٰ کے پاس وہ جلوہ باربار دیکھا کیونکہ نمازوں  میں  تخفیف کی درخواست کرنے کیلئے چند بارچڑھنا اور اترنا ہوا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۱۹۲، ملخصاً)

یہاں  ہم صحیح بخاری کی وہ روایت بیان کرتے ہیں  جس میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بار بار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہونے کا ذکر ہے،چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’معراج کی رات مجھ پر ہر دن میں  پچاس نمازیں  فرض کی گئیں،پھر میں  واپس ہوا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے گزرا۔ انہوں  نے کہا: آپ کو کیا حکم دیا گیا؟ میں  نے کہا’’ ہر دن میں  پچاس نمازوں  کا حکم دیا گیا ہے۔حضرت موسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کہا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں  ادا کرنے کی طاقت نہیں  رکھے گی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں  نے آپ سے پہلے لوگوں  کی آزمائش کی اور بنی اسرائیل کو تو خوب آزمایا ہے، لہٰذا آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹئے اور اس سے اپنی امت کے لیے آسانی مانگئے ۔ چنانچہ میں  واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دس نمازیں  کم کردیں  ۔پھر میں  جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو انہوں  پہلے جیسا کلام کیا ، میں  پھر رب تعالیٰ کی طرف لوٹا تواس نے مجھ سے دس معاف فرمادیں ، میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا،انہوں  نے پھر پہلے جیسا کلا م کیا ، میں  پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حاضر ہواتو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دس اور معاف کردیں  ، میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا ،انہوں  نے پھر وہی کہا، میں  پھر لوٹا تو مجھے ہر دن دس نمازوں  کا حکم دیا گیا۔ میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا ،انہوں  نے پھر وہی کہا، میں  پھر لوٹا تو مجھے ہر دن پانچ نمازوں  کا حکم دیا گیا ۔ میں  پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف لوٹا اورانہوں  نے کہا کہ آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟میں  نے کہا ’’ہر دن پانچ نمازیں  ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں  نے کہا کہ آپ کی امت ہر دن پانچ نمازوں  کی طاقت نہیں  رکھتی ،میں  نے آپ سے پہلے لوگوں  کی آزمائش کرلی ہے اور بنی اسرائیل کو تو میں  نے اچھی طرح آزما لیا ہے، آپ پھر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹئے، آپ اس سے اپنی امت کے لیے کمی کا سوال کریں ۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کہا ’’ میں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اتنے سوال کرلیے کہ اب شرم کرتا ہوں ، لیکن میں  راضی ہوں  اورتسلیم کرتا ہوں ۔( بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ۲ / ۵۸۴، الحدیث: ۳۸۸۷)

اس روایت میں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جن خدشات کا ذکر ہے ان کا ثبوت فی زمانہ عام نظر آتا ہے اورآج مسلمانوں  کے لئے جتنا مشکل پانچ نمازیں  ادا کرنا ہے شاید ہی کوئی چیز ان کے لئے اتنی مشکل ہو۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

{سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى: سدرۃ المنتہیٰ۔} سدرۃُ المنتہیٰ بیری کاایک درخت ہے ،اس کی جڑ چھٹے آسمان میں  ہے اور اس کی شاخیں  ساتویں  آسمان میں  پھیلی ہیں  جبکہ بلند ی میں  وہ ساتویں  آسمان سے بھی گزر گیا ہے،اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں  جیسے اور پتے ہاتھی کے کانوں  کی طرح ہیں  ۔

مفسرین نے اس درخت کو سدرۃُ المنتہیٰ کہنے کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں ۔ان میں  سے دو وجوہات درج ذیل ہیں :

(1)…فرشتے،شُہداء اور مُتّقی لوگوں  کی اَرواح اس سے آگے نہیں  جا سکتیں  اس لئے اسے سدرۃُ المنتہیٰ کہتے ہیں ۔

(2)…زمین سے اوپر جانے والی چیزیں  اور اوپر سے نیچے آنے والی چیزیں  اس تک آ کر رک جاتی ہیں  اس لئے اسے سدرۃُ المنتہیٰ کہتے ہیں ۔( صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۶ / ۲۰۴۷، قرطبی، النجم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۷۱، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)

جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کرائی گئی تو آپ کو سدرۃُ المنتہیٰ پر لے جایا گیا اور سدرہ چھٹے آسمان پر ہے ،زمین سے اوپر جانے والی چیزیں  سدرہ پر آ کر رک جاتی ہیں ، پھر انہیں  وصول کیا جاتا ہے اور اوپر سے نیچے آنے والی چیزیں  اس تک آ کر رک جاتی ہیں  پھر انہیں  وصول کیا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی، ص۱۰۶، الحدیث: ۲۷۹(۱۷۳))

عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰىﭤ(15)اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى(16)مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ آنکھ نہ کسی طرف پھر ی اور نہ حد سے بڑھی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ جَنَّةُ الْمَاْوٰى: جنت الماویٰ۔} یہ وہ جنت ہے جہاں  حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قیام فرمایا تھا اور اسی جنت سے آپ زمین پر تشریف لائے تھے ۔ (صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۲۰۴۸)

{ اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ: جب سدرہ پر چھا رہا تھا۔} یعنی سدرہ کو فرشتوں  نے اور انوار نے گھیرا ہو اتھا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۹۳)

{مَا زَاغَ الْبَصَرُ: آنکھ نہ کسی طرف پھری۔} یعنی اس دیدار کے وقت آنکھ نہ کسی طرف پھر ی اور نہ ادب کی حد سے بڑھی۔اس میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوت کے کمال کا اظہار ہے کہ اُس مقام میں  جہاں  عقلیں  حیرت زدہ ہیں  آپ ثابت قدم رہے اور جس نور کا دیدار مقصود تھا اس سے بہر ہ اندوز ہوئے، دائیں  بائیں  کسی طرف توجہ نہ فرمائی اور نہ مقصودکے دیدار سے آنکھ پھیری ،نہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح بے ہوش ہوئے بلکہ اس مقام میں  ثابت رہے۔(جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۳۸، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۹۳، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طاقت:

اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طاقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طاقت سے زیادہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تجلّی دیکھ کر بے ہوش ہو گئے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھا تو نہ آنکھ جھپکی ،نہ دل گھبرایا اور نہ ہی بے ہوش ہوئے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہ ِنبوت کا عالَم بیان فرماتے ہیں :

شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال

 دھوم والنَّجم میں  ہے آپ کی بینائی کی

لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اس نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى: بیشک اس نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں  دیکھیں ۔} یعنی بے شک حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شب ِمعراج اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور عظیم نشانیاں  دیکھیں  اور ملک وملکوت کے عجائبات کو ملاحظہ فرمایا اور آپ کا علم تمام غیبی ملکوتی معلومات پر محیط ہوگیا۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۲۲۹، ۲۳۲)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر

ملکوت و ملک میں  کوئی شے نہیں  وہ جو تجھ پہ عیاں  نہیں

اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى(19)وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو (اے لوگو!) کیا تم نے لات اور عزیٰ دیکھا۔ اور ایک اور تیسری منات کو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى: تو کیا تم نے لات اور عزّیٰ دیکھا۔} یہاں  سے لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  لات ،عُزّیٰ اور مَنات کا ذکر ہوا،یہ ان بتوں  کے نام ہیں  جنہیں  مشرکین پوجتے تھے اور ا ن آیات میں  ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم نے ان بتوں  کوتحقیق اور انصاف کی نظر سے دیکھا ہے ؟اگر تم نے اس طرح دیکھا ہو تو تمہیں  معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ بت محض بے قدرت ہیں  اور اللہ تعالیٰ جو کہ قادر اور برحق معبود ہے اسے چھوڑ کر ان بے قدرت بتوں  کو پوجنا اور اس کا شریک ٹھہرانا کس قدر عظیم ظلم اور عقل و دانش کے خلاف ہے۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۱۹۵، جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ص۴۳۸، ملتقطاً)

اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى(21)تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیْزٰى(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تمہارے لئے بیٹا اور اس کیلئے بیٹی ہے۔ جب تو یہ غیر منصفانہ تقسیم ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى: کیا تمہارے لئے بیٹا اور اس کیلئے بیٹی ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ بت اور فرشتے خدا کی بیٹیاں  ہیں  ،اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تمہارے لئے بیٹا اور اس کیلئے بیٹی ہے حالانکہ بیٹی تمہارے نزدیک ایسی بری چیز ہے کہ جب تم میں  سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ بگڑ جاتا ہے اور رنگ سیاہ ہوجاتا ہے اور لوگوں  سے چھپتا پھرتا ہے حتّٰی کہ تم بیٹیوں  سے اتنی نفرت کرتے ہو کہ انہیں زندہ درگور کر ڈالتے ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں  بتاتے ہو۔ یہ کتنی غیر منصفانہ تقسیم ہے کہ جو چیز اپنے لئے بری سمجھتے ہو وہ خدا کے لئے تجویز کرتے ہو۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۲، ۴ / ۱۹۵)

اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُۚ-وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىﭤ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ تو صرف چند نام ہیں جوتم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان (کی حقانیت) پرکوئی سند نہیں اتاری، وہ تو نرے گمان اور نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں حالانکہ بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنْ هِیَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ: یہ تو صرف چند نام ہیں ۔} یعنی ان بتوں  کا نام الٰہ اور معبود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے بالکل غلط طور پر رکھ لیا ہے، نہ یہ حقیقت میں  الٰہ ہیں  نہ معبود ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کی حقّانِیَّت پرکوئی سند نہیں  اتاری بلکہ مشرکین کابتوں  کو پوجنا عقل ،علم اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف نفس اور خواہشات کی اِتّباع اور وہم پرستی کی بنا پر ہے حالانکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ پاک اور اللہ تعالیٰ کے رسول تشریف لا چکے ہیں  اور انہوں  نے صراحت کے ساتھ بار بار بتایا ہے کہ بت معبود نہیں  اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۱۹۵-۱۹۶، ملخصاً)

اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى(24)فَلِلّٰهِ الْاٰخِرَةُ وَ الْاُوْلٰى(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا انسان کو ہر وہ چیزحاصل ہے جس کی اس نے تمنا کی؟ تو آخرت اور دنیا سب کا مالک اللہ ہی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى: کیا انسان کو ہر وہ چیزحاصل ہے جس کی اس نے تمنا کی؟} یہاں  انسان سے مراد مشرک ہے اور اس کی تمنا سے مراد بتوں  کی شفاعت ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ کافر بتوں  کے ساتھ جو جھوٹی امیدیں  وابستہ رکھتے ہیں  کہ وہ ان کی شفاعت کریں  گے اوران کے کام آئیں  گے،یہ امیدیں  باطل ہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۱۹۶، ملخصاً)

{ فَلِلّٰهِ الْاٰخِرَةُ وَ الْاُوْلٰى: تو آخرت اور دنیا سب کا مالک اللہ ہی ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اورآخرت میں  اسے ہی کچھ عطا فرماتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی کی ہو اور اپنی خواہشات کو چھوڑ دیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کا مالک ہے۔( صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۲۰۵۱)

            اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کافر اپنے من پسند معبودوں  کی عبادت کر رہے ہیں  (یہ جان لیں  کہ) آخرت اور دنیا سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے،وہ کافر کو ا س کے کفر کی سزا چاہے دنیا میں  دے یا آخرت تک اسے مہلت دیدے ،یہ ا س کی مرضی ہے۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۱۹۶)

وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْــٴًـا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْضٰى(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں کہ ان کی سفارش کچھ کام نہیں آتی مگر جبکہ اللہ اجازت دیدے جس کے لیے چاہے اور پسند فرمائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ: اور آسمانوں  میں  کتنے ہی فرشتے ہیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب اور مقام رکھنے کے باوجودفرشتے صرف اس کے لئے شفاعت کریں  گے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرنے والے مومن کے لئے فرشتے شفاعت کریں  گے اور جب شفاعت کے معاملے میں  فرشتوں  کا یہ حال ہے تو بتوں  سے شفاعت کی اُمید رکھناانتہائی جہالت اور حماقت ہے کیونکہ انہیں  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نہ قرب حاصل ہے اورنہ کفار شفاعت کے اہل ہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۹۶، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۹ / ۲۳۷، ملتقطاً)

اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ تَسْمِیَةَ الْاُنْثٰى(27)وَ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّۚ-وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا(28)فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى ﳔ عَنْ ذِكْرِنَا وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاﭤ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے فرشتوں کے عورتوں جیسے نام رکھتے ہیں ۔ اور انہیں اس کا کوئی علم نہیں ،وہ تو صرف گمان کے پیچھے ہیں اور بیشک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں دیتا۔ تو تم اس سے منہ پھیر لو جو ہماری یادسے پھرا اور اس نے صرف دنیاوی زندگی کو چاہا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ: بیشک وہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو آخرت میں  دوبارہ زندہ ہونے پر یقین نہیں  رکھتے،وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں  کو اس کی بیٹیا ں بتا کران کے عورتوں  جیسے نام رکھتے ہیں  حالانکہ انہیں  خود بھی اس بات کا کوئی یقینی علم نہیں  کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیا ں ہیں  بلکہ وہ تو فرشتوں  کو عورتیں  کہنے میں  صرف گمان کی پیروی کر رہے ہیں  اور اس بات میں  کوئی شک نہیں  کہ یقین کی جگہ گمان کچھ کام نہیں  دیتا کیونکہ حقیقتِ حال علم اوریقین سے معلوم ہوتی ہے نہ کہ وہم و گمان سے، لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے منہ پھیر لیں  جو ہمارے قرآن پر ایمان لانے سے پھرا اور اس نے صرف دُنْیَوی زندگی کو چاہا اور آخرت پر ایمان نہ لایاکہ اس کا طلبگار ہوتا اور آخرت کے لئے کچھ عمل کرتا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۹، ۴ / ۱۹۶)

{ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْــٴًـا: اور بیشک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں  دیتا۔} اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ علماءِ کرام نے جن شرعی مسائل کا حکم قرآنِ پاک یا اَحادیثِ طیبہ وغیرہ میں  نہ پایا تو ان مسائل کا شرعی حکم قرآن و حدیث وغیرہ میں  موجود ان جیسے دیگر مسائل پر قیاس کرتے ہوئے بیان فرمایا اور وہ قیاس جو قرآنِ پاک، حدیث ِپاک اور اِجماع کے موافق ہو وہ بالکل حق ہے جبکہ وہ قیاس جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں  ہو وہ ناحق بلکہ بعض صورتوں  میں  کفر ہے اور یہاں  آیت میں  بھی اسی گمان کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں  ہو نہ کہ اس گمان کا ذکر ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق ہو۔ قرآن و حدیث میں  اس قیاس کے جائز ہونے کا ثبوت موجود ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق ہو، جیسے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں  کا دُنْیَوی انجام بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:

’’ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘(حشر:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے آنکھوں  والو! عبرت حاصل کرو۔

یعنی ہر شخص اپنی عملی حالت کو ان کفار کی حالت پر قیاس کر لے تو اسے اپنا انجام خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ اور سنن ابو داؤد میں  ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے ارشاد فرمایا: ’’جب تمہارے سامنے مقدمہ پیش ہو گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ۔حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے فیصلہ کروں  گا۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  (اس کا حکم) نہ پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے)۔ حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت سے فیصلہ کروں  گا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت میں  (اس کا حکم) نہ پاؤ اور نہ ہی کتابُ اللہ میں  پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے) حضرت معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :میں  اپنی رائے سے اِجتہاد کروں  گا اور حقیقت تک پہنچنے میں  کوتاہی نہ کروں  گا۔ (ان کی بات سن کر) حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سینے کو تھپکا اور فرمایا: ’’خدا عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے کہ جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھیجے ہوئے کو ا س چیز کی توفیق بخشی جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوش کرے۔( ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، ۳ / ۴۲۴، الحدیث: ۳۵۹۲)

لہٰذا زیرِ تفسیر آیت کو قیاس کا مُطلَقاً انکار کرنے کی دلیل نہیں  بنایا جا سکتا ۔

{وَ لَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا: اور اس نے صرف دنیاوی زندگی کو چاہا۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین نہ آخرت کو مانتے ہیں  اور نہ وہاں  کے لئے تیاری کرتے ہیں  بلکہ ان کی ہر کوشش دنیا کے لئے ہوتی ہے ،اورفی زمانہ مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ وہ کفار کی طرح آخرت کا انکار تو نہیں  کرتے بلکہ انہیں  قیامت قائم ہونے،مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اورقیامت کے دن اعمال کے حساب اوران کی جزا و سزا پر ایمان ہے لیکن وہ آخرت کی تیاری سے انتہائی غافل اور صرف اپنی دنیا سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ آج مسلمان اپنی اولاد کو دُنْیَوی علوم و فنون کی تعلیم دینے اور ا س تعلیم پر آنے والے بھاری اخراجات برداشت کرنے پر اس لئے تیار ہیں  کہ ان کی دنیا سنور جائے گی جبکہ دینی اور مذہبی تعلیم دینے سے اس لئے کتراتے ہیں  کہ کہیں  ان کی دنیا خراب نہ ہو جائے اوریہی وجہ ہے کہ آج کل دینی مدارس میں  زیادہ تر تعداد ان طالب علموں  کی نظر آتی ہے جن کا تعلق غریب گھرانوں  سے ہے۔

حضرت موسیٰ بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں  فرمائی جو اسے دنیا سے زیادہ ناپسندیدہ ہواور اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیا پیدا فرمائی ہے تب سے اس کی طرف نظر نہیں  فرمائی ۔( شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۳۸، الحدیث: ۱۰۵۰۰)

علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اصل مقصود نہیں  بنایا بلکہ اسے مقصود تک پہنچنے کا راستہ بنایا ہے۔(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۲۴۰)اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور آخرت کی تیاری کی توفیق دے، اٰمین۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: آنکھوں  کے سامنے کی دنیوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں ۔ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖۙ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدٰى(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ ان کے علم کی انتہا ہے ۔بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے ہدایت پائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ: یہ ان کے علم کی انتہاء ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ وہ کفار اس قدر کم عقل اور کم علم ہیں  کہ انہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دے دی ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اُن کے علم کی انتہا و ہم اورگمان ہیں  جو انہوں نے باند ھ رکھے ہیں  کہ (مَعَاذَاللہ) فرشتے خدا کی بیٹیاں  ہیں ،وہ ان کی شفاعت کریں  گے اور اس باطل وہم پر بھروسہ کرکے اُنہوں نے ایمان اور قرآن کی پرواہ نہ کی۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۱۹۶)

            اسی طرح ایک اور مقام پر کفار کے علم کی حد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚۖ-وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ‘‘(روم:۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: آنکھوں  کے سامنے کی دنیوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں ۔

وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۙ-لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،تا کہ برائی کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے۔} یعنی جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس نے کائنات کی تخلیق اس لئے فرمائی تا کہ مخلوق میں  سے جس نے اس کی نافرمانی کی اور برے اعمال میں  مصروف رہا اسے جہنم کی سزا دے اور جنہوں  نے دنیامیں  ا س کی اطاعت وفرمانبرداری کی اور نیک اعمال کئے انہیں  انتہائی اچھا صلہ یعنی جنت عطا فرمائے۔( تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱۱ / ۵۲۵، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۱۸۱، ملتقطاً)

اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل کی صورت میں تھے تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے اسے جو پرہیزگار ہوا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ: وہ جو بڑے گناہوں  اور بے حیائیوں  سے بچتے ہیں ۔} گناہ وہ عمل ہے جس کا کرنے والا عذاب کا مستحق ہو یا یوں  کہہ لیں  کہ ناجائز کام کرنے کو گناہ کہتے ہیں ۔ بہرحال گناہ کی دو قسمیں  ہیں : (1)صغیرہ ۔(2) کبیرہ ۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے کرنے پر دنیا میں  حد جاری ہو جیسے قتل، زنا اور چوری وغیرہ یا اس پر آخرت میں  عذاب کی وعید ہو جیسے غیبت،چغل خوری،خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ اور فواحش میں  ہر قبیح قول ، فعل اور تمام صغیرہ ،کبیرہ گناہ داخل ہیں ، البتہ یہاں  فواحش سے وہ کبیرہ گناہ مراد ہیں  جن کی قباحت اور فساد بہت زیادہ ہو جیسے زنا کرنا، قتل کرنا اور چوری کرنا وغیرہ اور صغیرہ گناہ وہ ہے جس میں  بیان کردہ باتیں  نہ پائی جاتی ہوں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی کرنے والے وہ لوگ ہیں  جو بڑے گناہوں  اور بے حیائیوں  سے بچتے ہیں  مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے کہ اتنا تو کبیرہ گناہوں  سے بچنے کی برکت سے معاف ہوجاتا ہے،بیشک تمہارے رب عَزَّوَجَلّ کی مغفرت وسیع ہے تو وہ جو گناہ چاہے بغیر توبہ کے معاف کر دے ۔(خازن، النجم،تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۹۶-۱۹۷، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۱، ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۶۴۸، ملتقطاً)

گناہوں  کی معافی کے معاملے میں  اصول:

یاد رہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت بہت وسیع ہے ،وہ چاہے تو بڑے سے بڑے گناہگار مسلمان کو بغیر توبہ کے معاف فرما دے البتہ گناہوں  کی معافی کے معاملے میں  اصول یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سچی توبہ کرنے سے معاف ہوتے ہیں  اور صغیرہ گناہ کبیرہ گناہوں  سے بچنے کی برکت سے بھی معاف ہو جاتے ہیں  لیکن اگر کوئی صغیرہ گناہ مسلسل کرتے رہیں  تو وہ صغیرہ نہیں  رہتا بلکہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ توبہ کرنے سے کبیرہ گناہ باقی نہیں  رہتا اور صغیرہ گناہ کرتے رہنے سے صغیرہ نہیں  رہتا(بلکہ کبیرہ بن جاتا ہے)۔( مسند شہاب، ۵۵۵-لا کبیرۃ مع استغفار، ۲ / ۴۴، الحدیث: ۸۵۳)

 کبیرہ گناہوں  سے بچنے کی فضیلت:

 کبیرہ گناہوں  سے بچنے کی فضیلت کے بارے میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا ‘‘(نساء:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر کبیرہ گناہوں  سے بچتے رہو جن سے تمہیں  منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں  گے اور تمہیں  عزت کی جگہ داخل کریں  گے۔

اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے ،جو بندہ پانچوں  نمازیں  ادا کرتا رہتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے،زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور سات کبیرہ گناہوں  سے بچتا ہے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں  گے اور ا س سے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔( سنن نسائی، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، ص۳۹۹، الحدیث: ۲۴۳۵)

نوٹ:کبیرہ گناہوں  سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورہ ٔنساء کی آیت نمبر31کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ، نیز اس موضوع پر علامہ ابنِ حجر مکی کی تالیف ’’اَلزَّوَاجِر عَن اِقْتِرَافِ الْکَبَائِر‘‘ کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

{هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ: وہ تمہیں  خوب جانتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت ان لوگوں  کے بارے میں  نازل ہوئی جو نیکیاں  کرتے اور اپنے عملوں  کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے ہماری نمازیں  ،ہمارے روزے، ہمارے حج۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم فخریہ طور پر اپنی نیکیوں  کی تعریف نہ کرو اور جس کی حقیقت کے بارے میں  تم نہیں  جانتے اس کے بارے میں  یہ نہ کہو کہ میں  اس سے بہتر ہوں  ،میں  اس سے زیادہ پاکیزہ ہوں  اور میں  زیادہ مُتّقی ہوں  کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کے حالات کو خود جاننے والا ہے، وہ اُن کی ہستی کی ابتدا سے لے کر آخری اَیّام تک کے جملہ اَحوال جانتا ہے، وہ ان بندوں  کوخوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں اور اسی کا جاننا کافی ہے کیونکہ وہی جزا دینے والا ہے لہٰذادوسروں  پر اپنے اعمال کا اظہار اور نام و نمود سے کیا فائدہ ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۹۸، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۲)

ریاکاری،نام و نمود اور خود پسندی کی مذمت:

ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں  ریا کاری ، اپنی نمود و نمائش اورخود پسندی کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اعتراف اور اطاعت و عبادت پر مسرت اور اس کے ادائے شکر کے لئے نیکیوں  کا ذکر کیا جائے تو جائز ہے۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۱۱۸۲ملخصاً)

عبادت اور اطاعت کے معاملے میں  خود پسندی بہت بڑی حماقت ہے کہ ہماری عبادتوں  کی اوقات ہی کیا ہے جس پر ناز کیا جائے یا جس کی بنا پر خود کو اچھا سمجھا جائے۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسی بات کو منہاج العابدین میں  بہت پیاری مثالوں  کے ساتھ سمجھایا ہے۔ تفصیلی مطالعہ کیلئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔ یہاں  صرف ایک مثال دی جاتی ہے۔ فر ماتے ہیں : جب کوئی بڑا بادشاہ تحفہ اور تحائف پیش کرنے کی اجازت دے اور اس کی خدمت میں  امیر ترین لوگ ،بادشاہ، بڑے بڑے مرتبے اور منصب والے،رئیس اور عقلمند لوگ طرح طرح کے قیمتی جواہرات، بہترین ذخیرے اور بے حساب مال و دولت کے تحائف پیش کرنے لگیں ،پھر اگر کوئی سبزی بیچنے والا معمولی قسم کی سبزی یا کوئی دیہاتی کم قیمت انگور کا خوشہ لے کر ان بڑے بڑے رئیسوں  اور دولت مندوں  کی جماعت میں  گھس جائے جو بہترین ،عمدہ اور قیمتی تحائف لے کر کھڑے ہیں  اور بادشاہ کی خدمت میں  ہدیے اور نذرانے کے طور پر وہ سبزی یا انگور کا خوشہ پیش کرے،پھر وہ بادشاہ اس کا نذرانہ قبول کر لے اور اس کے لئے بہترین اور نفیس شاہانہ لباس دینے اور اس کی عزت و احترام کرنے کا حکم دے تو کیا یہ اُس بادشاہ کا اِس کے ساتھ انتہائی فضل و کرم نہ ہو گا اور پھر اگر یہ سبزی بیچنے والا یا دیہاتی بادشاہ پر احسان جتانے لگے اور اپنے اس ہدئیے پر اِترائے اور اسے بہت بڑا سمجھے اور بادشاہ کے احسان و انعام کو فراموش کر دے تو کیا ایسے شخص کو دیوانہ ، بدحواس،بے وقوف،بے ادب،گستاخ اورانتہائی جاہل و ناسمجھ نہیں  کہا جائے گا، لہٰذا (اے مسلمان!) تم پر لازم ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  رات کے وقت نماز پڑھو اور دو رکعت نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر غور و فکر تو کرو کہ روئے زمین کے مختلف خِطّوں  اور گوشوں  میں  اس رات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  نجانے کتنے خُدّام کھڑے ہوں  گے،اسی طرح سمندروں  میں، جنگلوں  میں ،صحراؤں  میں ،پہاڑوں  میں اور شہروں  میں  کتنے اللہ تعالیٰ کے بندے بارگاہِ الہٰی میں  دست بستہ کھڑے ہوں  گے اور صدیقین، خائفین، مشتاقین،مجتہدین اور عاجزی کرنے والوں  کی کتنی جماعتیں  اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑی ہوں  گی اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے دربار میں  کتنی ستھری عبادت اور کتنی خالص بندگی ڈرنے والی جانوں ،پاکیزہ زبانوں ،رونے والی آنکھوں ،خوفزدہ دلوں ،کدورتوں  سے پاک سینوں  اور پرہیز گار اعضاء کی طرف سے پیش ہو رہی ہوں  گی اور تمہاری نماز،اگرچہ تم نے ا سے اچھی طرح ادا کرنے، اس کے اَحکام اوراخلاص کی رعایت کرنے میں  بھرپور کوشش کی ہو گی لیکن پھر بھی اس بزرگ و برتر بادشاہ کے دربار میں  پیش ہونے کے کہاں  لائق ہو گی اور ان عبادتوں  کے مقابلے میں  اس کی کوئی حقیقت نہیں  جو وہاں  پیش ہو رہی ہیں  اور کیوں  نہ ہو کہ تم نے ان عبادتوں  کو غافل دل سے ادا کیا اور اس میں  طرح طرح کے عیوب و نقائص بھی ہیں  اور بدن بھی گناہوں  کی پلیدی سے نجس و ناپاک ہے اور زبان قسم قسم کے گناہوں  اور بیہودگیوں  سے آلودہ ہے تو ایسی ناقص نماز کہاں  سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش ہونے کے قابل ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ایسا ہدیہ پیش کرنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟(منہاج العابدین، العقبۃ السادسۃ، القادح الثانی، فصل فی من یعجب بعملہ وینسی فضل اللّٰہ علیہ، ص۱۸۷-۱۸۸)

اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰى(33)وَ اَعْطٰى قَلِیْلًا وَّ اَكْدٰى(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم نے اسے دیکھا جو پھر گیا۔ اور اس نے تھوڑا سا مال دیا اور روک رکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰى: تو کیا تم نے اسے دیکھا جو پھر گیا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی ،اس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان کے دین میں  پیروی کی تھی،جب بعض مشرکین نے اسے عار دلائی اور کہا کہ تو نے اپنے بزرگوں  کا دین چھوڑ دیا اور تو گمراہ ہوگیا ہے تو اُس نے کہا: میں  نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف سے ایسا کیا ہے۔ عار دلانے والے کافر نے اس سے کہا کہ اگر تو شرک کی طرف لوٹ کر آئے اور اتنامال مجھے دے تو تیرا عذاب میں  اپنے ذمے لیتا ہوں ۔ اس پر ولید اسلام سے مُنْحَرِف اور مُرتَد ہو کر پھر شرک میں  مبتلا ہوگیا اور جس شخص کومال دینا ٹھہرا تھا،اسے ولید نے تھوڑا سا مال دیا اور باقی سے منع کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھا جو ایمان اور اسلام سے پھر گیااور اس نے عذاب اپنے ذمے لینے والے کو طے شدہ مال میں  سے تھوڑا سا مال دیا اور باقی مال روک لیا۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے بارے میں  نازل ہوئی، وہ اکثر کاموں  میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تائید و موافقت کیا کرتا تھا، پھر اس سے پھر گیااور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں  نازل ہوئی کہ اس نے کہا تھا اللہ تعالیٰ کی قسم! محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہمیں  بہترین اَخلاق کا حکم فرماتے ہیں ۔ اس صورت میں  اس آیت اور بعد والی آیت کے معنی یہ ہیں  کہ کیا تم نے اسے دیکھا جس نے تھوڑا سا اقرار کیا اور لازم حق میں  سے تھوڑا سا ادا کیا اور باقی حق کی ادائیگی سے باز رہا یعنی ایمان نہ لایا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۴ / ۱۹۸)

اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَیْبِ فَهُوَ یَرٰى(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے تو وہ دیکھ رہا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَعِنْدَهٗ عِلْمُ الْغَیْبِ: کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے۔} اس آیت کامعنی یہ ہے کہ کیا اس شخص کے پاس غیب کا علم ہے جس کے ساتھی نے اس کے اُخروی عذاب کو اپنے ذمے لیا ہے اور ا س غیب کے علم کی بنا پر اسے معلوم ہو گیا ہے کہ واقعی اس کا ساتھی اس کے گناہوں  کا بوجھ اٹھا لے گا اور ا س کے اُخروی عذاب کو اپنے ذمے لے لے گا۔ایساہر گز نہیں  ہے۔(جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۳۹، تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۱ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)

اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى(36)وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤى(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاکیا اسے اس کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہے۔ اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى: یاکیا اسے اس کی خبر نہیں  دی گئی جو موسیٰ کے صحیفوں  میں  ہے۔} اس آیت میں  صحیفوں  سے مراد یا توریت شریف کی تختیاں  ہیں  یا وہ صحیفے مراد ہیں  جو توریت شریف سے پہلے نازل ہوئے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پہلے ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ ان کا زمانہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں  کفارِ قریش سے زیادہ قریب ہے۔( جلالین مع صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۲۰۵۴)

{ وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤى: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔} اس آیت میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان کا بیان ہے کہ انہیں  جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ انہوں  نے پورے طورپر ادا کیا، اس میں  بیٹے کو ذبح کرنا بھی داخل ہے اور اپنا آگ میں  ڈالا جانا بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ اور اَحکامات بھی داخل ہیں۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۶۴۹-۶۵۰، ملخصاً)

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(وہ بات یہ ہے) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى: کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں  اٹھائے گی۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے وہ مضمون بیان فرمایا ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفوں  میں  ذکر فرمایا گیا تھا،چنانچہ ارشاد فرمایا :وہ بات یہ ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں  اٹھائے گی اور کوئی دوسرے کے گناہ پر پکڑا نہیں  جائے گا۔اس میں  اس شخص کے قول کوباطل کر دیاگیا ہے جو ولید بن مغیرہ کے عذاب کا ذمہ دار بنا تھا اور اس کے گناہ اپنے ذمے لینے کو کہتا تھا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے پہلے لوگ آدمی کو دوسرے کے گناہ پر بھی پکڑ لیتے تھے، اگر کسی نے کسی کو قتل کیا ہوتا تو اس قاتل کی بجائے اس کے بیٹے یا بھائی یا بیوی یا غلام کو قتل کردیتے تھے۔جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ آیا تو آپ نے اس کی ممانعت فرمائی اوران تک اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا کہ کوئی کسی کے گناہوں  کے بوجھ کی وجہ سے پکڑ انہیں  جائے گا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۹۹)

وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى: اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔} اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی نیکیوں  سے فائدہ پاتا ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ مضمون بھی حضرت ابراہیم اورحضرت موسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفوں  کا ہے ، اور کہا گیا ہے کہ یہ اُن ہی امتوں کے لئے خاص تھا جبکہ اس امت کے لئے ان کا اپنا عمل بھی ہے اور وہ عمل بھی ہے جو ان (کو ثواب پہنچانے) کے لئے کیا گیا ہو۔اس آیت کے بارے میں  مفسرین کے اور بھی اَقوال ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ حکم ہماری شریعت میں اس آیت ’’ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ‘‘ سے منسوخ ہوگیا۔

(2)… یہاں  انسان سے کافر مراد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں  کہ کافر کو کوئی بھلائی نہ ملے گی البتہ اس نے دنیا میں  جو بھلائی کی ہو گی تو دُنیا ہی میں  رزق کی وسعت یا تندرستی وغیرہ کے ذریعے اس کا بدلہ اسے دے دیا جائے گاتاکہ آخرت میں  اس کا کچھ حصہ باقی نہ رہے۔

(3)…مفسرین نے اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا ہے کہ آدمی عدل کے تقاضے کے مطابق وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو چاہے عطا فرمائے۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۱۹۹، مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۱۱۸۲، ملتقطاً)

 میت کو نیک اعمال کا ثواب پہنچتا ہے:

            اس مقام پر ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ میت کو نیک اعمال کا جو ثواب پہنچایا جاتا ہے وہ اسے پہنچتا ہے اور یہ بات کثیر اَحادیث سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں  :ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  عرض کی :میری والدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں  ،میرا خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرتیں  توصدقہ دینے کا کہتیں  ،اگر میں  ان کی طرف سے خیرات کروں  تو کیا انہیں  ثواب ملے گا۔ ارشاد فرمایا:ہاں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب موت الفجأۃ البغتۃ،۱ / ۴۶۸، الحدیث: ۱۳۸۸)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ اس وقت وہاں  موجود نہیں  تھے تو انہوں  نے بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور میں  ان کے پاس موجود نہیں  تھا ،اگر میں  ان کی طرف سے کوئی خیرات کروں  تو کیا انہیں  ثواب پہنچے گا ۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ہاں ۔حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :میں  آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں  کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔( بخاری، کتاب الوصایا، باب اذا قال: ارضی او بستانی صدقۃ عن امّی فہو جائز۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۳۹، الحدیث: ۲۷۵۶)

            حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  نے (ایک مرتبہ) بارگاہِ رسالت میں  عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سعد کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ارشاد فرمایا ’’پانی۔ چنانچہ انہوں نے کنوا ں کھدوایااور کہا’’ہٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ‘‘یہ سعد کی والدہ (کے ایصالِ ثواب ) کے لئے ہے۔( ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی فضل سقی المائ، ۲ / ۱۸۰، الحدیث: ۱۶۸۱)

             نیزایصالِ ثواب کے درست ہونے پر صحیح العقیدہ علماء ِامت کا اِجماع ہے اور فقہ کی کتابوں  میں  بھی بکثرت مقامات پر اس کا جواز مذکور ہے، اسی لئے مسلمانوں  میں  جویہ معمول ہے کہ وہ اپنے مُردوں  کو فاتحہ ،سوم، چہلم ،برسی اور عرس وغیرہ میں  عبادات اور صدقات سے ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، ان کا یہ عمل اَحادیث کے بالکل مطابق ہے۔ نیز یہ بھی یا د رکھیں  کہ ایصالِ ثواب کے لئے شریعت کی طرف سے کوئی دن خاص نہیں  بلکہ جب چاہیں  جس وقت چاہیں  ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں  اور اگر عزیزرشتہ داروں  یا دوست اَحباب کی سہولت کے لئے دن مُعَیّن کر کے ایصالِ ثواب کیا جائے تو اس میں  بھی کوئی حرج نہیں  ہے۔

وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى(40)ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جائے گی۔ پھر اسے اس کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

}وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى: اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جائے گی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ عنقریب قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال اسے نظر آئیں  گے۔اس کی ایک صورت یہ ہوگی کہ ا س کا نامۂ اعمال اسے دیا جائے گا اور وہ اپنے نامۂ اعمال میں  اور میزان میں  اپنے عمل دیکھے گا۔اس میں  مومن کے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے نیک اعمال دکھائے گا تاکہ اسے خوشی حاصل ہو اور کافر (کے لئے وعید ہے کہ وہ) اپنے برے اعمال (دیکھ کر ان) کی وجہ سے غمزدہ ہو گا۔اور دوسری صورت یہ ہو گی کہ اچھے اعمال کو حسین و جمیل شکل عطا کی جائے گی اور برے اعمال کو بری صورت میں  ڈھال دیا جائے گا تاکہ انہیں  دیکھنا مومن کیلئے خوشی اور کافر کیلئے غم کا باعث ہو۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۰، ۹ / ۲۵۲، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۱۹۹، جلالین مع صاوی، النجم، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۲۰۵۶، ملتقطاً)

{ ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى: پھر اسے اس کا بھرپور بدلا دیا جائے گا۔} یعنی اعمال دیکھنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بھرپور بدلہ دے گا ۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۲۵۳، ملخصاً)

وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ بیشک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى: اور یہ کہ بیشک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ غم نہ کریں  کیونکہ تمام مخلوق کی انتہا آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے اور آخرت میں  انہیں  اسی کی طرف لوٹنا ہے،وہی نیک اور بد انسان کواس کے اعمال کی جزا دے گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہگار کو ڈراتے ہوئے اور نیکوکار کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے سننے والو! بے شک تمام مخلوق کی انتہا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے،یہ بات اس لئے ارشاد فرمائی تاکہ گناہگار اپنے گناہوں  سے باز آ جائے اور نیکوکار اپنے نیک اعمال اور زیادہ کرے۔(تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱۱ / ۵۳۴، ، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۴ / ۱۹۹-۲۰۰، ملتقطاً)

وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰى(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہنسایااور رلایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰى: اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہنسایااور رلایا۔} یعنی ایک ہی محل میں  مختلف اوقات میں  ایک دوسرے کے مخالف دو چیزوں ، رونے اور ہنسنے کو پیدا کرنے پر اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی قضاء،قدرت اور اس کے پیدا کرنے سے ہیں ۔اس کے علاوہ مفسرین نے اس آیت کے اور معنی بھی بیان فرمائے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ،

 (1)… اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کو جنت میں  داخل کر کے ہنسائے گا اور اہلِ جہنم کو جہنم میں  داخل کر کے رُلائے گا۔

(2)… اللہ تعالیٰ دنیا والوں  میں  سے جسے چاہتا ہے ہنساتا ہے اور جسے چاہتا ہے رُلاتا ہے۔

(3)… اللہ تعالیٰ زمین کو نباتات کے ذریعے ہنساتا ہے اور آسمان کو بارش کے ذریعے رُلاتا ہے۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۴ / ۲۰۰، تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱۱ / ۵۳۴، ملتقطاً)

وَ اَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحْیَا(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ وہی ہے جس نے موت اور زندگی دی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحْیَا: اور یہ کہ وہی ہے جس نے موت اور زندگی دی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی دنیا میں  موت دی اوروہی آخرت میں  زندگی عطا فرمائے گا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی باپ دادا کو موت دی اوران کی اولاد کو زندگی بخشی۔تیسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں  کوکفر کی موت سے ہلاک کیا اور ایمانداروں  کو ایمانی زندگی بخشی۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۱۸۳)

وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى(45)مِنْ نُّطْفَةٍ اِذَا تُمْنٰى(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ دو جوڑے بنائے۔ نطفہ سے جب اسے ڈالا جائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ: اور یہ کہ اسی نے دو جوڑے بنائے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رحم میں  نطفہ ڈالا جائے تو اس نطفہ سے انسانوں  اورحیوانات کے نر اور مادہ دو جوڑے اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے(روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ۹ / ۲۵۵)اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت معلوم ہوئی کہ سانچہ ایک ہے مگر اس میں بننے والے برتن مختلف ہیں  کہ ایک رحم، ایک ہی نطفہ مگر کبھی اس سے لڑکا بنتا ہے کبھی لڑکی،کبھی نر کبھی مادہ۔ سُبْحَانَ اللہ۔

وَ اَنَّ عَلَیْهِ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى(47)وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰى(48)وَ اَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ دوبارہ زندہ کرنااسی کے ذمہ ہے۔ اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا اور قناعت دی۔ اور یہ کہ وہی شعریٰ (نامی ستارے) کا رب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّ عَلَیْهِ النَّشْاَةَ الْاُخْرٰى: اور یہ کہ دوبارہ زندہ کرنااسی کے ذمہ ہے۔} اس آیت کا یہ مطلب نہیں  کہ اللہ تعالیٰ پر زندہ کرنا واجب ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت میں  زندہ فرمانے کا وعدہ فرما لیا ہے اس لئے اپنے وعدے کو پورا فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ مخلوق کو اس کی موت کے بعد زندہ فرمائے گا۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۹ / ۲۵۶)

{ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى: اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا۔} یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوگوں  کو مال ودولت سے نواز کر غنی کرتا ہے اور قناعت کی نعمت سے بھی وہی نوازتا ہے۔( روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۹ / ۲۵۶)

{ وَ اَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى: او ریہ کہ وہی شعریٰ کا رب ہے۔} شعریٰ ایک ستارہ ہے جو کہ شدید گرمی کے موسم میں  جو زاء ستارے کے بعد طلوع ہوتاہے۔ دورِ جاہلیّت میں  خزاعہ قبیلے کے لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اوران میں  سب سے پہلے عبادت کایہ طریقہ ان کے ایک سردار ابو کبشہ نے جاری کیا۔ اس آیت میں  انہیں بتایا گیا کہ سب کا رب اللہ تعالیٰ ہے اور جس ستارے کی تم پوجا کرتے ہواس کا رب بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔(مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۱۱۸۳، خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۴۹، ۴ / ۲۰۰، ملتقطاً)

وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰى(50)وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰى(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا۔ اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰى: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا۔} قومِ عاد دو ہیں ،ایک حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ، یہ چونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے پہلے تیز آندھی سے ہلاک ہوئے تھے ا س لئے انہیں  پہلی عاد کہتے ہیں  اور ان کے بعد والوں  کو دوسری عاد کہتے ہیں  کیونکہ وہ انہیں  کی اولاد میں  سے تھے۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۲۰۰)

{ وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰى: اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔}ثمود حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی،اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے (حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی) چیخ سے ہلاک کیا اور ان میں  سے کوئی بھی باقی نہ بچا۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۰۰)

وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا هُمْ اَظْلَمَ وَ اَطْغٰىﭤ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو (ہلاک کیا) بیشک وہ ان (دوسروں ) سے بھی زیادہ ظالم اور سرکش تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ: اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو۔} یعنی عاد اور ثمود سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو غرق کرکے ہلاک کیا بیشک وہ ان عاد اور ثمودسے بھی زیادہ ظالم اور سرکش تھے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں  ایک ہزار برس کے قریب تشریف فرمارہے ،لیکن انہوں نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول نہ کی اور اُن کی سرکشی بھی کم نہ ہوئی۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۲۰۰، جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۴۳۹، ملتقطاً)

وَ الْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى(53)فَغَشّٰىهَا مَا غَشّٰى(54)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے الٹنے والی بستیوں کو نیچے گرایا۔ پھر ان بستیوں کو اس نے ڈھانپ لیاجس نے ڈھانپ لیا۔ تو اے بندے! تواپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرے گا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى: اور اس نے الٹنے والی بستیوں  کو نیچے گرایا۔} ان بستیوں سے مراد حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں ہیں جنہیں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اٹھا کر اوندھا کر کے زمین پر ڈال دیا اور ان بستیوں  کو زیرو زبر کردیا۔ جلالین، النجم، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۴۳۹-۴۴۰)

{ فَغَشّٰىهَا مَا غَشّٰى: پھر ان بستیوں  کو اس نے ڈھانپ لیاجس نے ڈھانپ لیا۔} یعنی بستیوں  کو الٹنے کے بعداللہ تعالیٰ نے ان بستیوں  کو نشان لگے ہوئے پتھروں  کی خوفناک بارش سے ڈھانپ دیا۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ:۵۴، ۴ / ۲۰۱)

{ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى: تو اے بندے! تواپنے رب کی کون کون سی نعمتوں میں شک کرے گا؟} یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نعمتیں  بے شمار ہیں  جن میں  سے بعض کا اوپر تذکرہ ہوا ، پھر اے بندے! تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی کون کون سی نعمتوں  میں  شک کرے گا ؟

هٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى(56)اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ(57)لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَاشِفَةٌﭤ(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ پہلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں ۔ قریب آنے والی (قیامت) قریب آگئی۔ اللہ کے سوا اسے کوئی کھولنے والا نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هٰذَا نَذِیْرٌ: یہ ایک ڈر سنانے والے ہیں ۔} یعنی اے لوگو! جس طرح پہلے ڈر سنانے والے اپنی قوموں  کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اسی طرح تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ایک ڈر سنانے والے عظیم رسول ہیں  جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۴ / ۲۰۱)

{ اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ: قریب آنے والی قریب آگئی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے اور جب قیامت قائم ہونے کا وقت آئے گا تو اسے اللہ تعالیٰ ہی ظاہر فرمائے گا۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ﲪ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً‘‘(اعراف:۱۸۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں  کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے ؟ تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا، وہ آسمانوں  او رزمین میں بھاری پڑ رہی ہے، تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔

          دوسری تفسیر یہ ہے کہ قیامت قریب آ گئی ہے اور جب قیامت قائم ہو گی تو اس کی ہَولناکیوں  اور شدّتوں  کو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی دور نہیں  کرسکتا اور اللہ تعالیٰ انہیں  دور نہ فرمائے گا۔( مدارک، النجم، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۸، ص۱۱۸۴)

اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ(59)وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَ(60)وَ اَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ(61)فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو؟ اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔ اور تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ تو اللہ کے لیے سجدہ کرواور عبادت کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ: تو کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو؟} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کو مُخاطَب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے کی وجہ سے اس قرآن کا انکار کرتے ہو اور ا س کا مذاق اُڑاتے ہوئے ہنستے ہو اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں  کی جو وعیدیں  اس میں  بیان ہوئی ہیں  انہیں  سن کر روتے نہیں  حالانکہ تم نافرمان ہو اور ا س قرآن میں  ذکر کی گئی عبرت اور نصیحت انگیز باتوں  سے غفلت میں  پڑے ہوئے ہو اور اس کی آیتوں  سے منہ پھیرتے ہو۔( تفسیر طبری، النجم، تحت الآیۃ: ۵۹-۶۱، ۱۱ / ۵۴۱)

{ فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ: تو اللہ کے لیے سجدہ کرو۔} یعنی اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں  جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔( خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۰۱)

          نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں  سے ہے،اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ ٔ تلاوت کرنا واجب ہے



Scroll to Top