سُوْرَۃُ الوَاقِعَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ(1)لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب واقع ہونے والی واقع ہوگی۔۔ (اس وقت )اس کے واقع ہونے میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ: جب واقع ہونے والی واقع ہوگی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہو گی جو کہ ضرور قائم ہونے والی ہے تواس وقت ہر ایک اس کا اعتراف کر لے گااور اس کے واقع ہونے کا کوئی انکار نہیں  کر سکے گا۔ اورقیامت چونکہ بہر صورت واقع ہو گی ا س لئے ا س کا نام واقعہ رکھا گیا ہے ۔( مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص ۱۱۹۸، تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۱۰ / ۳۸۴، بیضاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۵ / ۲۸۳، ملتقطاً)

قیامت ضرور واقع ہو گی

            اس سے معلوم ہو اکہ قیامت ضرور واقع ہو گی ا س لئے ہر ایک کو قیامت سے ڈرنا چاہئے اور اس دن کے لئے دنیا کی زندگی میں  ہی تیاری کر لینی چاہئے ،چنانچہ قیامت کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ‘‘(بقرہ:۴۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔

            اور ارشاد فرمایا

’’ وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن سے ڈروجس میں  تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپوردی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں  ہوگا۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’ فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ۫-وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(ال عمران:۲۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں  اس دن کے لئے اکٹھا کریں  گے جس میں  کوئی شک نہیں  اور ہر جان کو اس کی پوری کمائی دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔

خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

کسی کو نیچاکرنے والی،کسی کو بلندی دینے والی 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ خَافِضَةٌ: کسی کو نیچاکرنے والی۔} اس آیت میں  قیامت کا ایک وصف بیان کیا گیا کہ یہ کسی قوم کو اس کے اعمال کی وجہ سے جہنم میں  گرا کر اسے نیچاکرنے والی ہے اور کسی قوم کو ا س کے اعمال کی بنا پر جنت میں  داخل کر کے اسے بلندی دینے والی ہے۔( تفسیر سمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۳۱۳)

             حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں ’’قیامت اللہ تعالیٰ کے دشمنوں  کو جہنم میں  گرا کر ذلیل کرے گی اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو جنت میں  داخل کر کے ان کے مرتبے بلند کرے گی۔( تفسیر ابن ابی حاتم، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۳۳۲۹)

            اور حضرت عبد اللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ جو لوگ دنیا میں  اُونچے بنتے تھے قیامت انہیں  پَست اور ذلیل کرے گی اور جولوگ دنیا میں کمزور تھے(اور عاجزی و اِنکساری کیا کرتے تھے) ان کے مرتبے بلند کرے گی۔ (خازن،الواقعۃ،تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۵۹)

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا(4)وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا(5)فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی ۔اور پہاڑ خوب چُورا چُورا کر دیئے جائیں گے ۔تووہ ہوا میں بکھرے ہوئے غبار جیسے ہوجائیں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا: جب زمین تھرتھرا کرکانپے گی۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب (قیامت قائم ہو گی تو اس وقت) زمین تھرتھرا کرکانپے گی جس سے اس کے اوپر موجود پہاڑ اور تمام عمارتیں  گر جائیں  گی اور یہ اپنے اندر موجود تمام چیزیں  باہر آجانے تک کانپتی رہے گی اور پہاڑ چُورا ہوکر خشک ستوکی طرح ریزہ ریزہ ہوجائیں  گے اوروہ اس وجہ سے ہوا میں  بکھرے ہوئے غبار جیسے ہوجائیں  گے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۹ / ۳۱۶-۳۱۷)

وَّ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةًﭤ(7)فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِﭤ(8)وَ اَصْحٰبُ الْمَشْــٴَـمَةِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَشْــٴَـمَةِﭤ(9)وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (اے لوگو!)تم تین قسم کے ہوجاؤ گے۔تو دائیں جانب والے( جنَّتی) کیا ہی دائیں جانب والے ہیں ۔ اور بائیں جانب والے ( یعنی جہنمی)کیا ہی بائیں جانب والے ہیں ۔اور آگے بڑھ جانے والے تو آگے ہی بڑھ جانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً: اور تم تین قسم کے ہوجاؤ گے۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مخلوق کا حال بیان فرمایا اور ان کی تین قسموں  کے بارے خبر دی جن میں  سے دو جنت میں  جائیں  گی اور ایک جہنم میں  داخل ہو گی،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تم قیامت کے دن تین قسموں  میں  تقسیم ہوجاؤ گے۔

          پہلی قسم ان لوگوں  کی ہو گی جو دائیں  جانب والے ہوں  گے ۔ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جن کے نامۂ اعمال ان کے دائیں  ہاتھ میں  دئیے جائیں  گے۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جو میثاق کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دائیں  جانب تھے۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جو قیامت کے دن عرش کی دائیں  جانب ہوں  گے۔اللہ تعالیٰ نے دائیں  جانب والوں  کی شان ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ وہ کیا ہی اچھے ہیں  کہ وہ بڑی شان رکھتے ہیں  ،سعادت مند ہیں  اور وہ جنت میں  داخل ہوں  گے۔

           دوسری قسم ان لوگوں  کی ہو گی جو بائیں  جانب والے ہوں  گے ۔ان کے بارے میں  بھی مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے نامۂ اعمال ان کے بائیں  ہاتھ میں  دئیے جائیں  گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جو میثاق کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بائیں  جانب تھے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں  جو قیامت کے دن عرش کی بائیں  جانب ہوں  گے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی حقارت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا کہ بائیں  جانب والے کیا ہی برے ہیں  کہ وہ بدبخت ہیں  اور وہ جہنم میں  داخل ہوں  گے۔

          تیسری قسم ان لوگوں  کی ہو گی جو دوسروں  سے آ گے بڑھ جانے والے ہیں  ۔ یہاں  آگے بڑھ جانے والوں  سے کون لوگ مراد ہیں  ،اس بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس مقام پر نیکیوں  میں  دوسروں  سے آگے بڑھ جانے والے مراد ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں  جو ہجرت کرنے میں  سبقت کرنے والے ہیں  اور وہ آخرت میں  جنت کی طرف سبقت کریں  گے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں  جو اسلام قبول کرنے کی طرف سبقت کرنے والے ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے وہ مہاجرین اور اَنصار صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مراد ہیں  جنہوں نے دونوں  قبلوں  کی طرف نمازیں  پڑھیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ وہ جنت میں  داخل ہونے میں  آگے بڑھ جانے والے ہیں ۔( تفسیرسمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ۳ / ۳۱۳-۳۱۴، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ۴ / ۲۱۶-۲۱۷، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷-۱۰، ص ۱۱۹۸-۱۱۹۹، ملتقطاً)

اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ(11)فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی قرب والے ہیں ۔نعمتوں کے باغوں میں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ: وہی قرب والے ہیں ۔}یہاں سے ان تینوں اَقسام کے لوگوں کی جزا بیان فرمائی گئی اور سب سے پہلے آگے بڑھ جانے والوں کی جزابیان کرتے ہوئے اس آیت اورا س کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ وہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مُقَرّب درجات والے ہیں اور وہ نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔( تفسیر سمرقندی،  الواقعۃ، تحت الآیۃ:۱۱-۱۲، ۳ / ۳۱۴)

ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ(13)وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَﭤ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ پہلے لوگوں میں سے ایک بڑا گروہ ہوگا ۔اور بعد والوں میں سے تھوڑے ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ: وہ پہلے لوگوں میں سے ایک بڑا گروہ ہوگا۔}اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آگے بڑھ جانے والے پہلے لوگوں میں سے بہت ہیں اور بعد والوں میں سے تھوڑے ہیں ۔ پہلے لوگوں سے کون مراد ہیں اس کی تفسیر میں صحیح قول یہ ہے کہ پہلے لوگوں سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہی کے پہلے وہ لوگ مراد  ہیں جو مہاجرین و اَنصار میں سے(اسلام قبول کرنے میں ) سابقین اَوّلین ہیں اوربعد والوں سے ان کے بعد والے لوگ مراد ہیں ۔( تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۱۰ / ۳۹۲، تفسیرسمرقندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۳ / ۳۱۴، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۲۱۷، خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص ۹۸۷ ، ملتقطاً)

             اَحادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ،جیسا کہ مرفوع حدیث میں ہے کہ’’ یہاں اَوّلین و آخِرین اسی اُمت کے پہلے اور بعد والے لوگ ہیں ۔(ابوسعود، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ۵ / ۶۷۲)

             اور حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ بھی مروی ہے کہ حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ دونوں گروہ میری ہی امت کے ہیں۔( مسند ابوداود طیالسی، بقیۃ احادیث ابی بکرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ص ۱۲۰، الحدیث: ۸۸۶)

عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ(15)مُّتَّكِـٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (جواہرات سے)جَڑے ہوئے تختوں پر ہوں گے۔ان پر تکیہ لگائے ہوئے آمنے سامنے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ: جڑے ہوئے تختوں پر ہوں گے۔} یہا ں سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرّب بندوں کا مزید حال بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ جنت میں ایسے تختوں پر ہوں گے جن میں لعل،یاقوت اورموتی وغیرہ جواہرات جَڑے ہوں گے اوروہ ان تختوں پر عیش و نَشاط کے ساتھ تکیہ لگائے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے موجود ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مَسرُور اور دل شاد ہوں گے۔ (ابو سعود، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۵ / ۶۷۲، ملتقطاً)یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ(17)بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِیْقَ ﳔ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(18)لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَ(19)وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ(20)وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَﭤ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کے اردگردہمیشہ رہنے والے لڑکے پھریں گے۔ کوزوں اور صراحیوں اور آنکھوں کے سامنے بہنے والی شراب کے جام کے ساتھ۔ اس سے نہ انہیں سردرد ہو گااور نہ ان کے ہوش میں فرق آئے گا۔اور پھل میوے جو جنتی پسند کریں گے۔اور پرندوں کا گوشت جو وہ چاہیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ: ان پر دَورچلائیں  گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حوروں  کی طرح اہلِ جنت کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے پیدا کئے ہیں  جو نہ کبھی مریں  گے،نہ بوڑھے ہوں  گے اور نہ ہی ان میں  کوئی (جسمانی) تبدیلی آئے گی،یہ ہمیشہ رہنے والے لڑکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں پر خدمت کے آداب کے ساتھ کوزوں  ،صراحیوں  اور آنکھوں  کے سامنے بہنے والی پاک شراب کے جام کے دَور چلائیں  گے،وہ شراب ایسی ہے کہ اسے پینے سے نہ انہیں  سردرد ہو گااور نہ ان کے ہوش میں  کوئی فرق آئے گا (جبکہ دنیا کی شراب میں  یہ وصف نہیں  کیونکہ اسے پینے سے حواس بگڑجاتے ہیں  اور بندے کے اَوسان میں  فتور جاتا ہے )اور (شراب پیش کرنے کے ساتھ ساتھ) خدمتگار لڑکے وہ تمام پھل میوے اہلِ جنت کے پاس لائیں  گے جووہ پسند کریں  گے اوران پرندوں  کا گوشت لائیں  گے جن کی وہ تمنا کریں  گے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۱، ۴ / ۲۱۷-۲۱۸، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۱، ص۱۱۹۹، ملتقطاً)

اہلِ جنت کی خصوصی خدمت:

            اہلِ جنت پر کئے گئے ان انعامات کو ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ(۲۲)یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَ لَا تَاْثِیْمٌ(۲۳)وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ‘‘(طور:۲۲-۲۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور پھلوں ، میووں  اور گوشت جو وہچاہیں  گے ان کے ساتھ ہم ان کی مدد کرتے رہیں  گے۔ جنتی لوگ جنت میں  ایسے جام ایک دوسرے سے لیں  گے جس میں  نہ کوئی بیہودگی ہوگی اورنہ گناہ کی کوئی بات۔اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں  گے گویا وہ چھپاکر رکھے ہوئے موتی ہیں  ۔

            یاد رہے کہ خدمت گار لڑکوں  کا اہلِ جنت کو پھل اور گوشت پیش کرناان کی خصوصی خدمت کے طور پر ہو گا ورنہ جنَّتی درختوں  پر لگے ہوئے پھل ان کے اتنے قریب ہوں  گے کہ وہ کھڑے ،بیٹھے، لیٹے ہر حال میں  اسے پکڑ سکیں  گے اور جس پرندے کی تمنا کریں  گے وہ بھنا ہوا ان کے سامنے حاضر ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ جَنَا الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ‘‘(رحمٰن:۵۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور دونوں  جنتوں  کے پھل جھکے ہوئے ہوں  گے۔

             اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ ‘‘(حاقہ:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے پھل قریب ہوں  گے ۔

            اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اگر جنَّتی کو پرندوں کا گوشت کھانے کی خواہش ہوگی تو اس کی مرضی کے مطابق پرندہ اڑتا ہوا سامنے آ جائے گا، اورایک قول یہ ہے کہ رِکابی میں (بھنا ہوا) آکر سامنے پیش ہوگا،اس میں  سے جتنا چاہے گا جنتی کھائے گا ،پھر وہ اُڑ جائے گا۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۱۸)

جنَّتی پرندوں  سے متعلق3اَحادیث:

            آیت نمبر21 میں  اہلِ جنت کے لئے پرندوں  کے گوشت کا ذکر کیا گیا ،اس مناسبت سے ان پرندوں  کے بارے میں  3 اَحادیث ملاحظہ ہوں۔

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک جنت کا پرندہ بُختی اونٹ کی طرح ہو گا اور وہ جنت کے درختوں  میں  چرے گا۔(یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک وہ پرندہ تو بہت اچھا اور عمدہ ہو گا۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اسے کھانے والا اس سے زیادہ عمدہ اور اعلیٰ ہو گا اور میں  یہ امید رکھتا ہوں  کہ تم بھی اسے کھائوگے ۔( مسند امام احمد، مسند المکثّرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک، ۴ / ۴۴۱، الحدیث: ۱۳۳۱۰)

(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تم جنت میں  اڑتے ہوئے پرندے کودیکھو اور تمہارے دل میں  اسے کھانے کی خواہش پیدا ہو تو وہ اسی وقت بھونا ہوا تمہارے سامنے پیش ہو جائے گا۔( رسائل ابن ابی الدنیا، صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۴۲، الحدیث: ۱۰۳)

(3)…حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جنت میں  جب کوئی آدمی پرندے کا گوشت کھانے کی خواہش کرے گا تو بُختی اونٹ کی طرح(بڑا) پرندہ آجائے گا یہاں  تک کہ اس کے دستر خوان پرایسے (بُھن کر) پیش ہو جائے گاکہ اسے کوئی دھواں  لگا ہوا ہوگا اور نہ ہی کسی آگ نے اسے چھواہو گا،وہ آدمی اس سے پیٹ بھر کر کھائے گا،پھر وہ پرندہ اُڑ جائے گا۔( رسائل ابن ابی الدنیا، صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۴۶، الحدیث: ۱۲۳)

وَ حُوْرٌ عِیْنٌ(22)كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُوَٴ الْمَكْنُوْنِ(23)جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں ہیں ۔جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی ہوں ۔ان کے اعمال کے بدلے کے طور پر ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ حُوْرٌ عِیْنٌ: اور بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں  ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مُقَرّب اہلِ جنت (کی خدمت )کے لئے بڑی آنکھ والی خوبصورت حوریں  ہوں  گی اور وہ حوریں  ایسی ہوں  گی جیسے موتی صَدَف میں  چھپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا، نہ دھوپ اور ہوا لگی اوراس وجہ سے وہ ا نتہائی صاف اور شفاف ہوتا ہے،الغرض جس طرح یہ موتی اچھوتا ہوتا ہے اسی طرح وہ حوریں  اچھوتی ہوں  گی۔ یہ بھی مروی ہے کہ حوروں  کے تَبَسُّم سے جنت میں  نورچمکے گا اور جب وہ چلیں  گی تو اُن کے ہاتھوں  اور پاؤں  کے زیوروں  سے تقدیس اور تمجید کی آوازیں  آئیں  گی اور یاقوتی ہاراُن کے گردنوں  کے حسن و خوبی سے ہنسیں  گے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۳، ۴ / ۲۱۸)

{جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ: ان کے اعمال کے بدلے کے طور پر۔} یعنی بارگاہِ الہٰی کے مُقَرّب بندوں  کو یہ سب کچھ ان کے دُنْیَوی نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے کے صِلہ میں  ملے گا۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۲۱۸)

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًا(25)اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس میں نہ کوئی بیکار با ت سنیں گے اورنہ کوئی گناہ کی بات ۔مگر سلام سلام کہنا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا: اس میں نہ کوئی بیکار با ت سنیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں کوئی ناگوار اور باطل بات ان کے سننے میں نہ آئے گی البتہ وہ ہرطرف سے سلام سلام کا قول ہی سنیں گے کہ جنتی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے،فرشتے اہلِ جنت کو سلام کریں گے اور اللہ ربُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اُن کی جانب سلام آئے گا۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۲۱۸، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ص ۱۲۰۰، ملتقطاً)

وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِﭤ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور دائیں جانب والے کیا دائیں جانب والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ: اور دائیں  جانب والے۔} اس سے پہلی آیات میں  آگے بڑھ جانے والے، بارگاہِ الہٰی کے مُقَرّب بندوں  کی جزااور ان کا حال بیان کیاگیا ،اب یہاں  سے اہلِ جنت کے دوسرے گروہ یعنی دائیں  جانب والے اَصحاب کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو دائیں  جانب والے ہیں  ان کی عجیب شان ہے (کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  معزز و مُکرّم ہیں ) اور ان کی اچھی صفات اورخوبیوں  کی وجہ سے ان کے لئے جو کچھ تیار کیا گیا ہے اسے تم نہیں  جان سکتے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۱۸، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۳۲۴، ملتقطاً)

فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ(28)وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

بغیر کانٹے والی بیریوں کے درختوں میں ہوں گے ۔اور کیلے کے گچھوں میں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ: بغیر کانٹے والی بیریوں  کے درختوں  میں  ہوں  گے۔ } یہاں  سے دائیں  جانب والوں  کی جزا بیان کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی جنَّتوں  میں  مزے لوٹیں  گے جن میں  بیری کے ایسے درخت ہوں  گے جن پر کانٹے نہیں  لگے ہوں  گے۔

بیری کے جنَّتی درخت کی شان:

             حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ فرمایا کرتے تھے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہمیں  دیہاتی مسلمانوں  اور ان کے ( پوچھے گئے )  سوالات کی وجہ سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ایک دن ایک دیہاتی مسلمان آئے اور انہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن میں  ایک اذِیَّت ناک درخت کا ذکر فرمایا ہے اور میرا یہ گمان نہیں  کہ جنت میں  کوئی ایسا درخت ہو جو اپنے مالک کے لئے تکلیف دِہ ثابت ہو۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’وہ کونسا درخت ہے؟اس نے عرض کی:بیری کا درخت،(یہ اذِیَّت ناک اس لئے ہے)کہ اس کے اوپر کانٹے لگے ہوتے ہیں ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:( کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں  فرمایا) ’’ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ‘‘ اللہ تعالیٰ اس کے کانٹے کاٹ دے گا اور ہر کانٹے کی جگہ پھل پیدا فرمائے گا،لہٰذا وہ درخت (کانٹوں  کی بجائے) پھل اُگائے گا اور اس کے پھل میں  72 رنگ ظاہر ہوں  گے اور ان میں  سے کوئی رنگ بھی دوسرے کے مشابہ نہ ہو گا۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیرسورۃ الواقعۃ، سدر الجنّۃ مخضود۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۸۷، الحدیث: ۳۸۳۰)

{ وَ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ: اور کیلے کے گچھوں  میں ۔} یعنی دائیں  جانب والے ان جنَّتوں  میں  مزے کریں  گے جن میں  کیلے کے ایسے درخت ہوں  گے جو جڑ سے چوٹی تک کیلے کے گچھوں  سے بھرے ہوئے ہوں  گے۔

وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ(30)وَّ مَآءٍ مَّسْكُوْبٍ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور دراز سائے میں ۔اور جاری پانی میں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ: اور ہمیشہ کے سائے میں ۔} ارشاد فرمایا کہ دائیں  جانب والے ان جنتوں  میں  ہمیشہ رہنے والے دراز سائے میں  ہوں  گے۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں  ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں  سوار شخص سو سال تک دوڑتا رہے تو وہ اسے طے نہ کر سکے گا، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ‘‘۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الواقعۃ، باب وظلّ ممدود، ۳ / ۳۴۵، الحدیث: ۴۸۸۱)

جنت میں  سایہ ہے یا نہیں ؟

            جنت میں  سایہ ہے یا نہیں ، اس بارے میں  بعض مفسرین کاقول ہے کہ جنت میں  سورج نہ ہونے کے باوجود سایہ ہے، جیسا کہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’پوری جنت سائے دار ہے حالانکہ وہاں  سورج نہیں  ہے۔( تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۱۵۳، الجزء السابع عشر)

            اور بعض مفسرین کے نزدیک جنت میں  سایہ نہیں  اور آیت میں  سائے سے اس کا مجازی معنی مراد ہے ،جیسا کہ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ یہاں  آیت میں  سائے سے (اس کا حقیقی معنی نہیں  بلکہ مجازی معنی) راحت و آرام مراد ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۹ / ۳۲۵)

{وَ مَآءٍ مَّسْكُوْبٍ: اور جاری پانی میں ۔} یعنی دائیں  جانب والے ان جنتوں  میں  ہوں  گے جن کی زمینی سطح پر پانی ہمیشہ کے لئے جاری ہو گا اور وہ جب چاہیں  جہاں  سے چاہیں  کسی مشقت کے بغیر پانی حاصل کر لیں  گے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۹ / ۳۲۵، ملتقطاً)

وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ(32)لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍ(33)وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍﭤ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بہت سے پھلوں میں ۔جو نہ ختم ہوں گے اور نہ روکے جائیں گے۔اور بلند بچھونوں میں ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ: اور بہت سے پھلوں  میں ۔}  اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ دائیں  جانب والے ان جنتوں  میں  ہوں  گے جن میں  مختلف اَجناس اور اَقسام کے بہت سے پھل ہیں  اور وہ پھل کبھی ختم نہ ہوں  گے کیونکہ جب بھی کوئی پھل توڑ اجائے گا تو فوراً اس کی جگہ ویسے ہی دو پھل آ جائیں  گے اور اہلِ جنت کوان پھلوں  کے استعمال سے نہ کوئی روک ٹوک ہوگی، نہ شرعی رکاوٹ، نہ طبی پابندی اور نہ کسی بندے کی طر ف سے ممانعت ہو گی۔

{وَ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍ: اور بلند بچھونوں  میں  ہوں  گے۔} اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ دائیں  جانب والے جنتوں  میں  آرام کے بستروں  میں  ہوں  گے جوجواہرات سے سجے ہوئے اونچے اونچے تختوں  پربچھے ہوئے ہوں  گے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۴ / ۲۱۹، ملتقطاً)

اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءً(35)فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا(36)عُرُبًا اَتْرَابًا(37)لِّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ۔توہم نے انہیں کنواریاں بنایا ۔ محبت کرنے والیاں ،سب ایک عمر والیاں ۔ دائیں جانب والوں کے لیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءً: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں  کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں  کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا توہم نے انہیں  ایسی کنواریاں  بنایا کہ جب بھی ان کے شوہر ان کے پاس جائیں  گے وہ انہیں  کنواریاں  ہی پائیں  گے اور وہ عورتیں  اپنے شوہروں  سے بے پناہ محبت کرنے والیاں  ہیں  اور ان سب کی عمر بھی ایک ہو گی کہ 33سال کی جوان ہوں  گی،اسی طرح ان کے شوہر بھی جوان ہوں  گے اور یہ جوانی ہمیشہ قائم رہنے والی ہو گی۔( مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ص ۱۲۰۰، ملخصاً)

            بعض مفسرین کے نزدیک ان عورتوں  سے دنیا کی عورتیں  مراد ہیں  اور بعض مفسرین کے نزدیک ان سے مراد حوریں  ہیں ۔ (صاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۲۰۹۱)

 کوئی بوڑھی عورت جنت میں  نہ جائے گی

            یہاں  ہم اسی آیت سے متعلق ایک دلچسپ روایت ذکر کرتے ہیں  ، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں  کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ جنت میں  کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی۔انہوں  نے(پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ)وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم نے قرآن میں  یہ نہیں  پڑھا کہ

’’ اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں  کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا۔توہم نے انہیں  کنواریاں  بنایا۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)

{ لِاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ: دائیں  جانب والوں  کے لیے۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ ہم نے ان عورتوں  کو دائیں  جانب والوں  کے لئے پیدا کیا اور ایک تفسیر یہ ہے کہ جو نعمتیں  بیان کی گئیں  یہ ان لوگوں  کے لئے ہیں  جو دائیں  جانب والے ہیں ۔ (خازن،الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۲۱۹)

ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ(39)وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَﭤ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

پہلے لوگوں میں سے ایک بڑاگروہ ہے۔اور بعدوالے لوگوں میں سے بھی ایک بڑاگروہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ: پہلے لوگوں  میں  سے ایک بڑاگروہ ہے۔}  اس سے پہلے رکوع میں  آگے بڑھ جانے والے اور بارگاہِ الٰہی کے مُقَرّب بندوں  کی دو جماعتوں  کا ذکر کیا گیا تھا اور یہاں  اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  دائیں  جانب والوں  کے دو گروہوں  کا بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس اُمت کے پہلوں  اور بعد والوں  دونوں  گروہوں  میں  سے ہوں  گے، پہلا گروہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں  اور بعد والوں  سے قیامت تک کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بعد والے مراد ہیں ۔

وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ﳔ مَاۤ اَصْحٰبُ الشِّمَالِﭤ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بائیں جانب والے کیا بائیں جانب والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ: اور بائیں  جانب والے۔} اہلِ جنت کے دو گروہوں  کا حال اور ان کی جزا بیان کرنے کے بعد اب اہلِ جہنم کے گروہ کا حال اور اس کا انجام بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جن کے نامۂ  اعمال بائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے،بدبختی میں ان کا حال عجیب ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۲۲۰، ملخصاً)

فِیْ سَمُوْمٍ وَّ حَمِیْمٍ(42)وَّ ظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ(43)لَّا بَارِدٍ وَّ لَا كَرِیْمٍ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

شدید گرم ہوا اور کھولتے پانی میں ہوں گے۔ اورشدید سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے ۔ جو ( سایہ) نہ ٹھنڈا ہوگا اورنہ آرام بخش۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْ سَمُوْمٍ: شدید گرم ہوا میں ۔ } اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں بائیں جانب والوں کے تقریباً چار عذاب بیان فرمائے گے ۔(1) وہ جہنم کے اندر ایسی شدید گرم ہوا میں ہوں گے جو کہ مَساموں میں داخل ہو رہی ہو گی۔ (2)وہ وہاں کَھولتے پانی میں ہوں گے ۔(3)اس میں شدید سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے ۔(4) وہ سایہ عام سایوں کی طرح نہ ٹھنڈا ہوگا اورنہ ہی خوش منظر اور آرام بخش۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ : ۴۲-۴۴، ۴ / ۲۲۰، جلالین، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ص ۴۴۷، ملتقطاً)

اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُتْرَفِیْنَ(45)وَ كَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ(46)وَ كَانُوْا یَقُوْلُوْنَ ﳔ اَىٕذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ(47)اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ اس سے پہلے خوشحال تھے۔اور بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور کہتے تھے: کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ضرور ہم اٹھائے جائیں گے؟ اور کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّهُمْ : بیشک وہ۔} یہاں  سے بائیں  جانب والوں  کے عذاب کا مستحق ہونے کا سبب بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک بائیں  جانب والے اس عذاب سے پہلے دنیاکے اندر کھانے پینے، اچھی رہائش اور خوبصورت مقامات وغیرہ نعمتوں  سے خوشحال تھے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں  مُنہمِک تھے اور وہ شرک جیسے بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے اور وہ اپنے شرک کے ساتھ ساتھ سرکشی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتے تھے: کیا جب ہم مرجائیں  گے اور ہماری کھال اور گوشت مٹی میں  مل جائے گی اور ہم ہڈیاں  ہو کر رہ جائیں  گے تو کیا ضرور ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے؟ یاکیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے؟

            یہاں  ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ اس سے پہلے اہلِ جنت کے دو گروہوں  کے حالات بیان ہوئے تو ان کے جنت کامستحق ہونے کی وجہ بیان نہیں  کی گئی جبکہ اہلِ جہنم کے گروہ کے حالات بیان کرتے وقت ان کے جہنمی ہونے کی وجہ بیان کی گئی، اس میں  حکمت یہ ہے کہ لوگوں  کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ اہلِ جنت اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں  داخل نہیں  ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے انہیں  جنت کا داخلہ نصیب ہو اہے اور اہلِ جہنم اللہ تعالیٰ کے عدل کی وجہ سے جہنم میں  داخل ہوئے ہیں ۔ (روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۸، ۹ / ۳۲۸-۳۲۹)

 گناہوں  پر اِصرار کا انجام :

            آیت نمبر 46میں  بائیں  جانب والوں  کے جہنم کے عذاب کا حق دار ہونے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ وہ بڑے گناہ پر ڈٹے ہوئے تھے ،اس سے معلوم ہو ا کہ گناہ پر اِصرارایسی خطرناک چیز ہے جس کے انجام کے طور پر بندے کا ایمان مکمل طور پر سَلب ہو سکتا اور اس کا خاتمہ کفر کی حالت میں  ہو سکتا ہے ۔

            حضرت عبد اللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گناہوں  پر اِصرار کرنے والوں  کے لیے ہلاکت ہے اور یہ وہ لوگ ہیں  جو گناہوں  پر ڈٹے ہوئے ہیں  حالانکہ انہیں  معلوم ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں ۔(مسند امام احمد، مسند المکثّرین، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما،۲ / ۵۶۵،الحدیث:۶۵۵۲)

            اور حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’گناہوں  پر اِصرار بہت سے گناہگار مسلمانوں  کو کفر پر موت کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۵۱)

            مزید فرماتے ہیں  :شیطان گناہوں  پر اِصرار کے ساتھ تمہیں  مغفرت کی امید دلاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم جو چاہے عمل کرو،بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے ،وہ تمہارے سارے گناہ بخش دے گاکیونکہ وہ تمہاری عبادت اور تمہیں  عذاب دینے سے بے نیاز ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے سارے گناہ بخش دے، لیکن مغفرت کی توقُّع رکھتے ہوئے گناہ پر گناہ کرتے چلے جانا ایسا ہے جیسے کوئی شفا ملنے کی امید پر زہر کھانا شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ تمام کریموں  سے بڑھ کر کرم فرمانے والا ہے لیکن وہ شدید عذاب دینے والا بھی تو ہے۔( روح البیان، الملائکۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۳۱۹ )

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں  پر قائم رہنا چھوڑ دے اور گزشتہ گناہوں  پر سچے دل سے نادم ہو کر توبہ کر لے اور اس وقت سے ڈرے جس کے بارے میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ  لَیْسَتِ  التَّوْبَةُ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  حَضَرَ  اَحَدَهُمُ  الْمَوْتُ  قَالَ  اِنِّیْ  تُبْتُ  الْـٰٔنَ  وَ  لَا  الَّذِیْنَ  یَمُوْتُوْنَ  وَ  هُمْ  كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ  اَعْتَدْنَا  لَهُمْ  عَذَابًا  اَلِیْمًا ‘‘(النساء: ۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور ان لوگوں  کی توبہ نہیں  جو گناہوں میں  لگے رہتے ہیں  یہاں  تک کہ جب ان میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں  نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں  کی (کوئی توبہ ہے)جو کفر کی حالت میں  مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

            اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،ہمارے ایمان کے نور اور ہمارے عقیدے کی شمع کو زوال کی انتہائی سخت گرجتی آندھی سے محفوظ فرما اور تمام اوقات اور ہر حال میں  کلمہ ِ ایمان پر ہمیں  ثابت قدمی نصیب فرما،اٰمین۔

قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ(49)لَمَجْمُوْعُوْنَ ﳔ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ(50)ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ(51)لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ(52)فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ(53)فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِ(54)فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِﭤ(55)هٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِﭤ(56)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: بیشک سب اگلے اور پچھلے لوگ۔ ضرورایک معین دن کے وقت پر اکٹھے کیے جائیں گے ۔ پھر اے گمراہو، جھٹلانے والو! بیشک تم۔ ضرور زقوم (نام)کے درخت میں سے کھاؤ گے۔ پھر اس سے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔ تو ایسے پیو گے جیسے سخت پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ انصاف کے دن یہ ان کی مہمانی ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ:تم فرماؤ۔}یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 7 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آپ فرما دیں  کہ تم سے پہلے اور بعد والے لوگ جن میں  تم اور تمہارے باپ دادا بھی شامل ہیں  ،یہ سب ضرور مرنے کے بعدایک مُعیّن دن کے وقت پر اکٹھے کیے جائیں  گے اور وہ قیامت کا دن ہے،پھر اے راہِ حق سے بہکنے والو اور حق کو جھٹلانے والو! بیشک تم جب دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور حساب کے بعد جہنم میں  داخل ہو جاؤ گے تو ضرور زَقّوم نام کے کانٹے دار ، کڑوے درخت میں  سے کھاؤ گے،اور صرف ا سے کھانا ہی تمہارے لئے کافی نہ ہو گا بلکہ بھوک کی شدّت کی وجہ سے تم اس سے پیٹ بھرو گے،پھر جب زقوم کھانے کے بعد تم پر پیاس کا غلبہ ہو گاتو کَھولتا ہوا پانی عام طریقے سے نہیں  بلکہ ایسے پیو گے جیسے سخت پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔مراد یہ ہے کہ ان پر ایسی بھوک مُسَلّط کی جائے گی کہ وہ مجبورہو کرجہنم کا جلتا تھوہڑ کھائیں  گے ،پھر جب اُس سے پیٹ بھرلیں  گے تو اُن پر پیاس مُسَلّط کی جائے گی جس سے مجبورہو کر ایسا کَھولتا ہوا پانی پئیں  گے جو ان کی آنتیں  کاٹ ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو ذکر کیا انصاف کے دن یہ ان کی مہمانی ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۶، ۹ / ۳۲۹-۳۳۰)نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ(57)اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَﭤ(58)ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے تمہیں پیدا کیا تو تم کیوں سچ نہیں مانتے؟تو بھلا دیکھو تو وہ منی جو تم گراتے ہو۔ کیا تم اسے (آدمی) بناتے ہو یا ہم ہی بنانے والے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ:ہم نے تمہیں  پیدا کیا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدائی تخلیق سے اپنی قدرت اور وحدانیّت پر اِستدلال فرمایا ہے،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو!تمہیں  یہ بات معلوم ہے کہ تم کچھ بھی نہیں  تھے ،ہم تمہیں  عدم سے وجود میں  لے کر آئے تو تم مرنے کے بعد اٹھنے کوکیوں  سچ نہیں  مانتے حالانکہ جو پہلی بار پیدا کرنے پہ قادر ہے تو وہ دوبارہ پیدا کرنے پر (بدرجہ اَولیٰ) قادرہے۔ اور اگر تمہیں  اس بات میں کہ ہم تمہیں  عدم سے وجود میں  لائے ہیں  ، شک ہے تویہ بتاؤ کہ منی کے ایک قطرے سے جوبچہ پیدا ہوتا ہے، کیا اس سے عورتوں  کے رحم میں  لڑکے یا لڑکی کی شکل و صورت تم بناتے ہو یا ہم ہی اسے انسانی صورت دیتے ہیں  اور اسے زندگی عطا فرماتے ہیں ؟ جب ہم بے جان نطفے کو انسانی صورت عطا کرسکتے ہیں  تو پیداہونے کے بعد مر جانے والوں  کو زندہ کرنا ہماری قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الواقعۃ،تحت الآیۃ:۵۷-۵۹، ۴ / ۲۲۱، جلالین، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ص ۴۴۷، تفسیر کبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۱۰ / ۴۱۵-۴۱۶، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷-۵۹، ۹ / ۳۳۰-۳۳۱، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسا ہے؟

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’یاد رکھیں  کہ(قرآنِ پاک میں ) جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں  جمع کے صیغہ کے ساتھ کوئی خبر دے تو اس وقت وہ اپنی ذات، صفات اور اَسماء کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘(حجر:۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیاہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

            اور جب اللہ تعالیٰ واحد کے صیغہ کے ساتھ اپنی ذات کے بارے میں  کوئی خبر دے تو اس وقت وہ صرف اپنی ذات کی طرف اشارہ فرما رہا ہوتا ہے،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’ اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(قصص:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں  ہی اللہ ہوں ،سارےجہانوں  کاپالنے والاہوں ۔

                 اور یہ اس وقت ہے جب اللہ تعالیٰ خود خبر دے، البتہ بندے پر لازم ہے کہ وہ( ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے لئے واحد کا صیغہ بولے کبھی جمع کا صیغہ نہ بولے ،جیسے )یوں  کہے کہ اے اللہ! تو میرا رب ہے ،یوں (ہر گز) نہ کہے کہ اے اللہ! آپ میرے رب ہیں ، کیونکہ اس میں  شرک کا شائبہ ہے جو تَوحید کے مُنافی ہے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۹ / ۳۳۰) یعنی مناسب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے واحد کا صیغہ استعمال کیاجائے۔

نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ(60)عَلٰۤى اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَ نُنْشِئَكُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی اور ہم پیچھے رہ جانے والے نہیں ہیں ۔ اس سےکہ تم جیسے اور بدل دیں اورتمہیں ان صورتوں میں بنادیں جن کی تمہیں خبر نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ: ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی حکمت اور مَشِیَّت کے تقاضے کے مطابق تم میں  موت مقرر کر دی اور تمہاری عمریں  مختلف رکھیں  ،اسی لئے تم میں  سے کوئی بچپن میں  ہی مرجاتا ہے ،کوئی جوان ہو کر، کوئی بڑھاپے اور جوانی کے درمیان عمر میں  اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مر جاتاہے،الغرض جو ہم مقدر کرتے ہیں  وہی ہوتا ہے۔اور ہم اس بات سے پیچھے رہ جانے والے(بے بس) نہیں  ہیں  کہ تمہیں  ہلاک کر کے تم جیسے اور بدل دیں  اور تمہیں  مَسخ کرکے بندر ،سور وغیرہ کی ان صورتوں  میں  بنادیں  جن کی تمہیں  خبر نہیں ۔ جب یہ سب ہماری قدرت میں  ہے تو تمہیں  دوبارہ پیدا کرنے سے ہم عاجز کس طرح ہو سکتے ہیں ؟(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ۴ / ۲۲۱، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۰-۶۱، ص۱۲۰۲، ملتقطاً)

انسان کو کہیں  بھی اورکسی بھی وقت موت آ سکتی ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کو موت کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور کسی کے لئے یہ ضروری نہیں  کہ وہ بڑھاپے میں  ہی موت کا شکار ہو بلکہ بھری جوانی میں  اورمُتَوَسّط عمر میں  بھی موت اپنے پنجے گاڑ سکتی ہے اوراس کیلئے کوئی جگہ بھی خاص نہیں  بلکہ کہیں  بھی آ سکتی ہے اور اس سے کسی صورت فرار ہونا بھی ممکن نہیں  نیز کسی کو بھی ا س بات کی خبر نہیں  کہ اس کی موت کب اور عمر کے کس حصے میں  اور کہاں  پر آئے گی ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت نیک اعمال میں  مصروف رہے ،اپنی لمبی عمر پر بھروسہ نہ کرے اور آخرت کی تیاری سے کسی بھی وقت غفلت نہ کرے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا میں  ایسے رہو گویاتم مسافر ہو یا راہ گیر اور اپنے آپ کو قبر والوں  میں  سے شمار کرو ۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الرقاق، باب الامل والحرص، الفصل الاول، ۲ / ۲۵۹، الحدیث: ۵۲۷۴)

حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے درمیان میری مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قوم کو نصیحت کرنے والا ہے ،اس نے قوم کے پاس آ کر کہا: میں  ڈرانے والا ہوں  اور موت حملہ آور ہونے والی ہے اور قیامت وعدے کی جگہ ہے ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۳۸، الحدیث: ۸۶)

حضرت حسن بصری  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنے وعظ کے دوران فرماتے ’’جلدی کرو،جلدی کرو،کیونکہ یہ چند سانس ہیں  ،اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں  کر سکو گے جو تمہیں  اللہ تعالیٰ کے قریب کر سکتے ہیں  ۔اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنی جان کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں  پر روتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۵)

         حضرت فضیل رقاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اے فلاں ! لوگوں  کی کثرت کے باعث اپنے آپ سے غافل نہ ہو کیونکہ معاملہ خاص تم سے ہو گا ان سے نہیں  اور یہ نہ کہو کہ میں  وہاں  جاتا ہوں  اور وہاں  جاتا ہوں ،اس طرح تمہارا دن ضائع ہو جائے گا اور موت تمہارے اوپر مُتَعَیَّن ہے اور جتنی جلدی نئی نیکی پرانے گناہ کو تلاش کر کر کے پکڑتی ہے اتنی جلدی تم نے کسی کو پکڑتے نہ دیکھا ہو گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی، بیان المبادرۃ الی العمل۔۔۔  الخ، ۵ / ۲۰۶)

وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تم پہلی پیدائش جان چکے ہوتو پھر کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى: اور بیشک تم پہلی پیدائش جان چکے ہو۔}ارشاد فرمایا کہ تم اپنی پہلی پیدائش کے بارے میں جان چکے ہو کہ ہم تمہیں  عدم سے وجود میں  لائے ہیں تو پھر (اسے سامنے رکھتے ہوئے دوسری پیدائش کے متعلق) کیوں  غور نہیں  کرتے کہ جو ربّ تعالیٰ پہلی بار تمہیں  عدم سے وجود میں  لا سکتا ہے تو وہ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں  دوسری بار زندہ کرنے پر بھی یقینا قادر ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۲۲۱، ملخصاً)

تعجب کے قابل شخص:

            حضرت عبد اللہ بن مِسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرت میں  شک کرتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو پہلی بار کی پیدائش کو دیکھنے کے باوجود دوسری بار کی پیدائش کا انکار کرتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو موت کے گھیر لینے کوجھٹلاتا ہے حالانکہ وہ دن رات مرتا اور زندہ ہوتا ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو ہمیشگی کے گھر (یعنی جنت) کی تصدیق کرنے کے باوجود دھوکے کے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کوشش میں  مصروف ہے۔اس بندے پر انتہائی تعجب ہے جو اِتراتا اور فخر و غرور کرتا ہے حالانکہ وہ نطفہ سے پیدا ہوا، پھر وہ سڑی ہوئی لاش بن جائے گا اور اِس دوران اُ س پر کیا بیتے   گی وہ اُسے معلوم ہی نہیں ۔( مسند شہاب قضاعی، الباب الاوّل، یا عجباً کل العجب۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)

اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَﭤ(63)ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو بھلا بتاؤ تو کہ تم جو بوتے ہو۔ کیا تم اس کی کھیتی بناتے ہو یا ہم ہی بنانے والے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ: تو بھلا بتاؤ تو کہ تم جو بوتے ہو۔ } یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے حشر و نشر پر اپنی قدرت کی ایک اور دلیل بیان فرمائی ہے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! تم ا س کھیتی میں  غورکیوں  نہیں  کرتے جسے تم زمین میں  کاشت کرتے ہو،کیا تم اس کی نَشو ونُما کرکے کھیتی بناتے ہو یا ہم ہی اسے کھیتی بنانے والے ہیں  اور اس بات میں  کوئی شک ہی نہیں  کہ اگرچہ زمین میں  بیج ڈالنا تم لوگوں  کا کام ہے لیکن اس بیج سے بالیں  بنانا اور اس میں  دانے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور کسی کا نہیں  ہے، تو جب اللہ تعالیٰ بیج سے فصل پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ تمہاری موت کے بعد تمہیں  دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( تفسیر سمر قندی، الواقعۃ، تحت الآیۃ:۶۳-۶۴،۳ / ۳۱۸، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۳-۶۴، ۴ / ۲۲۱، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۳-۶۴، ۹ / ۳۳۲، ملتقطاً)

لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ(65)اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ(66)بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

اگر ہم چاہتے تو اسے چورا چورا گھاس کردیتے پھر تم باتیں بناتے رہ جاتے۔ کہ ہم پر تاوان پڑگیا ہے۔بلکہ ہم بے نصیب رہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا: اگر ہم چاہتے تو اسے چورا چورا گھاس کردیتے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے لطف و رحمت سے ا س کھیتی کی نَشوونُما کرتے ہیں  اور تم پر رحمت کرتے ہوئے اسے تمہارے لئے باقی رکھتے ہیں  ورنہ اگر ہم چاہتے تو زمین میں  جو بیج تم بوتے ہو اسے پوری طرح پھلنے پھولنے سے پہلے ہی چُورا چُورا کردیتے جو کسی کام کا نہ رہے،پھر تم حیرت زدہ اور نادم و غمگین ہو کر یہ باتیں  بناتے رہ جاتے کہ ہمارا مال بیکار ضائع ہوگیا ،بلکہ ہم اپنے رزق سے محروم رہے۔ (ابن کثیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ۸ / ۲۸، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷، ۴ / ۲۲۱-۲۲۲، روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۷،  ۹ / ۳۳۳، ملتقطاً)

اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَﭤ(68)ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو تم پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بادلوں سے اتارا یا ہم ہی اتارنے والے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ: تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو تم پیتے ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا تم نے اس پانی پر غور نہیں  کیا جو تم زندہ رہنے کے لئے پیتے ہو اور ا س سے اپنی پیاس بجھاتے ہو،کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، ایساہر گز نہیں بلکہ ہم ہی اپنی قدرت ِکاملہ سے اسے اتارنے والے ہیں اور جب تم نے یہ جان لیا کہ ہم ہی اس پانی کو نازل کرنے والے ہیں  تو صرف میری عبادت کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیوں  نہیں  کرتے اور دوبارہ زندہ کرنے پر میری قدرت کا انکار کیوں  کرتے ہو؟( تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۹ / ۱۶۱-۱۶۲، الجزء السابع عشر، ابو سعود، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۵ / ۶۷۷، ملتقطاً)

لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

اگر ہم چاہتے تو اسے سخت کھاری کردیتے پھر تم کیوں شکر نہیں کرتے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا: اگر ہم چاہتے تو اسے سخت کھاری کردیتے۔} ارشاد فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو اس پانی کو سخت کھاری کردیتے ،اور ایسا ہو جاتا تو تم نہ اسے پی سکتے تھے ،نہ اس سے شجر کاری اور کھیتی باڑی کر سکتے تھے ۔یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے تمہاری معاشی بہتری،تمہارے فائدے اور پینے کے لئے میٹھا پانی نازل فرمایا اور تمہیں  نقصان سے بچانے کے لئے کھاری پانی نازل نہ فرمایاتو پھر تم اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے احسان و کرم کا کیوں  شکر نہیں  کرتے؟( تفسیر طبری، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۱۱ / ۶۵۵، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۲۲۲، ملتقط

اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَﭤ(71)ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَاۤ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــٴُـوْنَ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو بھلا بتاؤ تو وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو۔کیا تم نے اس کادرخت پیدا کیا یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ: تو بھلا بتاؤ تو وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ مجھے ا س آگ کے بارے میں  بتاؤ جو تم دو تر لکڑیوں  سے روشن کرتے ہو، کیا تم نے اس کادرخت پیدا کیا ہے؟ایسا ہر گز نہیں  بلکہ ہم ہی اسے پیدا کرنے والے ہیں ،تو جب تم نے میری قدرت کو پہچان لیا تو میرا شکر ادا کرو اور دوبارہ زندہ کرنے پر میری قدرت کاانکار نہ کرو۔اہلِ عرب (اس زمانے میں )دو مخصوص لکڑیوں  کو ایک دوسرے سے رگڑ کر آگ جلایا کرتے تھے ،اوپر والی لکڑی کو وہ زَند اور نیچے والی لکڑی کو زَندہ کہتے تھے اورجن درختوں  سے یہ لکڑیاں  حاصل ہوتی تھیں  انہیں  مَرْخ اور عَفَار کہتے تھے۔( تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ۹ / ۱۶۲، الجزء السابع عشر، مدارک، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۲، ص۱۲۰۳، ملتقطاً)

ایندھن حاصل کرنے کے موجودہ ذرائع اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں :

            یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے فی زمانہ ہمارے لئے ایندھن حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع جیسے کوئلہ، گیس اور تیل وغیرہ ظاہر فرما دئیے ہیں  اور ان سے ہم آسانی کے ساتھ اپنی ضروریّات پوری کر رہے ہیں۔ جس طرح اُس درخت کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا جسے رگڑ کر ایندھن حاصل کیا جاتا تھا اسی طرح کوئلہ ،گیس اور تیل وغیرہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے،لہٰذا ہر بندے پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں  پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔

نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ(73)فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہم نے اسے یادگار بنایا اور جنگل میں سفر کرنے والوں کیلئے نفع بنایا۔تو اے محبوب! تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً: ہم نے اسے یادگار بنایا۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے آگ کے دو فوائد بیان فرمائے ،

             پہلا فائدہ یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس آگ کوجہنم کی آگ کی یادگار بنایا تاکہ دیکھنے والا اس آگ کو دیکھ کرجہنم کی بڑی آگ کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے اور اس کے عذاب سے ڈرے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں  میں  سے ایک حصہ ہے۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ آگ بھی کافی گرم ہے۔ارشاد فرمایا’’وہ اس سے 69حصے زیادہ گرم ہے اور ہر حصے میں اس کے برابر گرمی ہے۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۵)

          دوسرا فائدہ یہ ارشاد فرمایا کہ آگ کو جنگل میں  سفر کرنے والوں  کیلئے نفع مندبنایا کہ وہ اپنے سفروں  میں  شمعیں  جلا کر،کھانا وغیرہ پکاکر اور خود کو سردی سے بچا کر اُس سے نفع اُٹھاتے ہیں ۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ۴ / ۲۲۲، ملخصاً)

{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ: تو اے محبوب! تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔ } اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل اور تمام مخلوق پر اپنے انعامات ذکر فرمانے کے بعد اپنے حبیب  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ اپنے عظمت والے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کی ان تما م چیزوں  سے پاکی بیان کریں  جو مشرکین کہتے ہیں ۔ (خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۲۲۲)

فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ(75)وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو مجھے تاروں کے ڈوبنے کی جگہوں کی قسم۔ اور اگرتم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَلَاۤ اُقْسِمُ: تو مجھے قسم ہے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ستاروں  کے ڈوبنے کی جگہوں  کی قسم ارشاد فرمائی، ان جگہوں  کے بارے میں  امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں ۔

(1)…ان سے مَشارق اور مَغارب مراد ہیں  اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے صرف مغارب مراد ہیں  کیونکہ ستارے اسی جگہ غروب ہوتے ہیں ۔

(2)… ان سے آسمان میں  بُروج اور (سیاروں  یا ستاروں ) کی مَنازل مراد ہیں ۔

(3)…ان سے شَیاطین کوپڑنے والے شہاب ِثاقب کے گرنے کی جگہیں  مراد ہیں ۔

(4)…ان سے قیامت کے دن ستاروں  کے مُنتَشِر ہونے کے بعد گرنے کی جگہیں  مراد ہیں ۔( تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱۰  /  ۴۲۶)

{ وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ: اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔}ا رشاد فرمایا کہ اگر تمہیں  علم ہو تو تم اس قَسم کی عظمت جان لو گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور حکمت کے کمال پر دلالت کرتی ہے۔(جلالین مع صاوی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۶ / ۲۰۹۶-۲۰۹۷)

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌ: بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔} کفارِ مکہ قرآنِ پاک کو شعر اور جادو کہا کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ نے ستاروں  کے ڈوبنے کی جگہوں  کی قسم ارشاد فرما کر ان کا رد کرتے ہوئے اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  فرمایا کہ بے شک جو قرآن سرکارِ دو عالَم،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمایا گیا یہ شعر اور جادو نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے ،بلکہ یہ عزت والا قرآن ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اورا س کی وحی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ بنایا ہے اوریہ محفوظ اور پوشیدہ کتاب لوحِ محفوظ میں موجود ہے جس میں  تبدیل اور تحریف ممکن نہیں اور نہ ہی اس تک شَیاطین پہنچ سکتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۱۰ / ۴۲۸، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۴ / ۲۲۳، تفسیر قرطبی، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۷-۷۸، ۹ / ۱۶۴، الجزء السابع عشر، ملتقطاً)

فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ(78)لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَﭤ(79)تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(80)

ترجمہ: کنزالعرفان

پوشیدہ کتاب میں (ہے)۔اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ۔ یہ تمام جہانوں کے مالک کا اتارا ہوا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ: اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس محفوظ اور پوشیدہ کتاب کو فرشتے ہی چھوتے ہیں  جو کہ شرک ،گناہ اور ناپاک ہونے سے پاک ہیں ۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کو شرک سے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں ۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ قرآن پاک کو وہ لوگ ہاتھ لگائیں جو با وضو ہوں  اور ان پر غسل فرض نہ ہو۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۴ / ۲۲۳)

حدیث شریف میں  بھی اسی چیز کا حکم دیا ہے ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآن پاک کو وہی ہاتھ لگائے جو پاک ہو۔(معجم صغیر، باب الیاء، من اسمہ: یحیی، ص ۱۳۹، الجزء الثانی)

قرآن پاک چھونے سے متعلق 7اَحکام:

یہاں  آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید چھونے سے متعلق7اَحکام ملاحظہ ہوں ،

(1)…قرآن عظیم کو چھونے کے لئے وضو کرنا فرض ہے۔( نور الایضاح، کتاب الطہارۃ، فصل فی اوصاف الوضو ء، ص ۵۹)

(2)…جس کا وضو نہ ہو اسے قرآنِ مجید یا اس کی کسی آیت کا چھونا حرام ہے، البتہ چھوئے بغیر زبانی یادیکھ کر کوئی آیت پڑھے تواس میں  کوئی حرج نہیں ۔

(3)…جس کو نہانے کی ضرورت ہو( یعنی جس پر غسل فرض ہو) اسے قرآن مجید چھونا اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چولی چھوئے ،یا چھوئے بغیردیکھ کر یا زبانی پڑھنا ،یا کسی آیت کا لکھنا ،یا آیت کا تعویذ لکھنا ،یا قرآنِ پاک کی آیات سے لکھا تعویذ چھونا ،یا قرآن پاک کی آیات والی انگوٹھی جیسے حروفِ مُقَطَّعات کی انگوٹھی چھونا یا پہننا حرام ہے۔

(4)…اگر قرانِ عظیم جُزدان میں  ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں  حرج نہیں ،یوہیں  رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآنِ مجید کا تو جائز ہے۔ کرتے کی آستین، دُوپٹے کی آنچل سے یہاں  تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے کندھے پر ہے تو دوسرے کونے سے قرآن پاک چھونا حرام ہے کیونکہ یہ سب اس کے ایسے ہی تابع ہیں  جیسے چولی قرآن مجید کے تابع تھی۔

(5)…روپیہ کے او پر آیت لکھی ہو تو ان سب کو (یعنی بے وضو اور جنب اور حیض و نفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے ،ہاں  اگر روپے تھیلی میں  ہوں تو تھیلی اٹھانا جائز ہے۔یوہیں  جس برتن یا گلاس پر سورت یا آیت لکھی ہو اس کو چھونا بھی انہیں  حرام ہے اور اس برتن یا گلاس کواستعمال کرنا ان سب کے لئے مکروہ ہے،البتہ اگر خاص شفا کی نیت سے انہیں  استعمال کریں  تو حرج نہیں ۔

(6)…قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں  ہو تو اسے بھی چھونے اور پڑھنے میں  قرآنِ مجید ہی کا سا حکم ہے۔

(7)…قرآنِ مجید دیکھنے میں  ان سب پر کچھ حرج نہیں  اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں  آئیں  اور دل میں  پڑھتے جائیں ۔ (بہار شریعت، حصہ دوم، غسل کا بیان، ۱ / ۳۲۶-۳۲۷، ملخصاً)

{ تَنْزِیْلٌ: اتارا ہوا ہے۔} اس آیت میں  بھی اللہ  تعالیٰ نے ان لوگوں  کا رد کیا جو قرآن پاک کو شعر ،جادو یا کہانت کہتے ہیں  ،اور ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن اس ربّ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو سب جہانوں  کا مالک ہے توپھر یہ شعر یا جادو کس طرح ہو سکتا ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۴ / ۲۲۴، ملتقطاً)

اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ(81)وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا تم اس بات میں سستی کرتے ہو؟اور تم اپنا حصہ یہ بناتے ہو کہ تم جھٹلاتے رہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ: تو کیا تم اس بات میں  سستی کرتے ہو؟} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ اے اہلِ مکہ ! تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی تصدیق کرنے کی بجائے اس کا انکار کرتے ہو اور ا س انکار کو معمولی سمجھتے ہو اور تم نے اس عظیم نعمت کا شکر کرنے کی بجائے قرآن کو جھٹلانا ہی اپنا حصہ قرار دے رکھا ہے۔تفسیر خازن میں  ہے،حضرت حسن  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’وہ بندہ بڑابد نصیب ہے جس کا حصہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو جھٹلانا ہو ۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴)

            بعض مفسرین نے اس آیت ’’وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ‘‘ کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں : اللہ تعالیٰ نے تمہیں  جو نعمتیں  عطا کی ہیں  تم نے ان کا شکر کرنے کی بجائے انہیں  جھٹلانا اپنا حصہ بنا رکھا ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۲۲۴) اور جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ نعمت ملنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اَسباب کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔

             حضرت زید بن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر بارش والی رات میں  ہمیں  صبح کی نماز پڑھائی، جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فارغ ہوئے تو لوگوں  کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ہے؟لوگ عرض گزار ہوئے: اللہ تعالیٰ اور ا س کا رسول بہتر جانتے ہیں ’’ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے بندوں  نے صبح کی تو کچھ مجھ پر ایمان رکھنے والے اور کچھ منکر تھے،بہرحال جس نے کہا:اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش برسائی گئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں  کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں  فلاں  ستارے نے بارش برسائی ہے تو وہ میرا منکر اور ستاروں  پر یقین رکھنے والاہے۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث:۸۴۶)

فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ(83)وَ اَنْتُمْ حِیْنَىٕذٍ تَنْظُرُوْنَ(84)وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَ لٰـكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ(85)فَلَوْ لَاۤ اِنْ كُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ(86)تَرْجِعُوْنَهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(87)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر کیوں نہیں جب جان گلے تک پہنچے۔ حالانکہ تم اس وقت دیکھ رہے ہو۔ اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہیں مگر تم دیکھتے نہیں ۔ تواگر تمہیں بدلہ نہیں دیا جائے گا تو کیوں نہیں ۔ روح کو لوٹا لیتے ،اگر تم سچے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ: پھر کیوں  نہیں  جب جان گلے تک پہنچے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کفار!تمہارا حال یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس وہ کتاب لائی جائے جس نے تمہیں  اپنی مثل لانے سے عاجز کر دیا تو تم کہتے ہو کہ یہ جادو ہے اور یہ خود بنائی ہوئی کتاب ہے،اگر تمہاری طرف سچا رسول بھیجا جائے تو تم اسے جادوگر اور جھوٹا کہنے لگ جاتے ہو اوراگر ہم تمہیں  بارش عطا کریں  تو تم کہنے لگتے ہو کہ فلاں  ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے ۔اگر تم اپنی ان باتوں  میں  سچے ہو اور تمہارے خیال کے مطابق مرنے کے بعد اُٹھنا ، اعمال کا حساب کیا جانا اور جزا دینے والا معبود وغیرہ یہ سب کچھ کوئی حقیقت نہیں  ہے تو پھر تم ایساکیوں  نہیں  کرتے کہ جب تمہارے پیاروں  میں  سے کسی پر نَزع کا وقت طاری ہو اور اس کی روح حلق تک پہنچ چکی ہو تو تم(اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر)اس کی روح کولوٹادو، حالانکہ تم ا س وقت دیکھ رہے ہوتے ہو کہ اس پر موت کی غَشی طاری ہے اور ا س کی روح بس نکلنے ہی والی ہے لیکن تم اس مرنے والے کی روح لوٹانے اور اس کی جان بچانے پر قادر نہیں  البتہ ہم اس وقت اپنے علم وقدرت کے ساتھ تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں  کہ ہر چیز کو جانتے بھی ہیں  اور سب کچھ کر بھی سکتے ہیں  لیکن تم اس چیز کو جانتے نہیں  ۔ جب تمہیں  معلوم ہے کہ روح کو لوٹا دینا تمہارے اختیار میں  نہیں  ہے تو سمجھ جاؤکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں  ہے، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اس پر ایمان لاؤ۔(مدارک،الواقعۃ، تحت الآیۃ:۸۳-۸۷، ص ۱۲۰۴-۱۲۰۵، جلالین مع جمل، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۷، ۷ / ۴۰۶- ۴۰۷، خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۸۳-۸۷، ۴ / ۲۲۴-۲۲۵، ملتقطاً)

فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(88)فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ ﳔ وَّ جَنَّتُ نَعِیْمٍ(89)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر وہ فوت ہونے والا اگر مقرب بندوں میں سے ہے۔ تو راحت اور خوشبودارپھول اور نعمتوں کی جنت ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{    فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ: پھر وہ فوت ہونے والا اگر مقرب بندوں  میں  سے ہے۔} یہاں  سے موت کے وقت مخلوق کے طبقات کے احوال اور ان کے درجات بیان فرمائے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر مرنے والا آگے بڑھ جانے والے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں  میں  سے ہے تو ا س کے لئے (موت کے وقت) راحت ، خوشبودارپھول اور آخرت میں  نعمتوں کی جنت ہے۔

             حضرت ابوالعالیہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ مُقَرَّبین سے جو کوئی دنیا سے جدا ہوتا ہے تواس کے پاس جنت کے پھولو ں  کی ڈالی لائی جاتی ہے،وہ جب اس کی خوشبو لیتا ہے تو اس وقت ا س کی روح قبض ہوتی ہے۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ:۸۸ -۸۹، ۴ / ۲۲۵)وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ(90)فَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِﭤ(91)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر وہ دائیں جانب والوں میں سے ہو۔تو (اے حبیب!) تم پردائیں جانب والوں کی طرف سے سلام ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ: اور اگر وہ دائیں  جانب والوں  میں سے ہو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر مرنے والا دائیں  جانب والوں  میں  سے ہو تو اے اَنبیاء کے سردار! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کا سلام قبول فرمائیں  اور ان کے لئے غمگین نہ ہوں  وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے سلامت اور محفوظ رہیں  گے اور آپ ان کو اسی حال میں  دیکھیں  گے جو آپ کو پسند ہو۔( خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۰-۹۱،۴ / ۲۲۵)

            بعض مفسرین نے ان آیات کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں  کہ اگر مرنے والا دائیں  جانب والوں  میں  سے ہو تو اے دائیں  جانب والے! موت کے وقت اور اس کے بعد تمہارے ساتھی تم پر سلام بھیجیں  گے۔( روح البیان، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۰-۹۱، ۹ / ۳۴۱ )

وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ(92)فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ(93)وَّ تَصْلِیَةُ جَحِیْمٍ(94)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگرمرنے والا جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہو۔ تو کھولتے ہوئے گرم پانی کی مہمانی ۔ اور بھڑکتی آگ میں داخل کیا جانا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ: اور اگرمرنے والا جھٹلانے والوں  گمراہوں  میں  سے ہو۔ } اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر مرنے والا جھٹلانے والوں  گمراہوں  میں  سے ہو جو کہ بائیں  جانب والے ہوں  گے تو ا س کے لئے (آخرت میں ) کھولتا ہوا گرم پانی تیار کیا گیا ہے اور اسے جہنم کی بھڑکتی آگ میں  داخل کیا جانا ہے۔(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۲-۹۴، ۴ / ۲۲۵)

اِنَّ هٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ(95)فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ(96)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ بیشک اعلیٰ درجہ کی یقینی بات ہے۔ تو اے محبوب! تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ هٰذَا: یہ بیشک۔ } یعنی مرنے والوں  کے اَحوال اور جو مَضامین اس سورت میں  بیان کئے گئے، اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لئے تیار کی گئی جن نعمتوں  اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں  کے لئے تیار کئے گئے جن عذابات کا ذکر ہوا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے جو دلائل بیان ہوئے ،یہ بے شک اعلیٰ درجے کی یقینی بات ہے اور ا س میں  تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔(خازن، الواقعۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۴ / ۲۲۵)

{ فَسَبِّحْ: تو اے محبوب! تم پاکی بیان کرو۔ } حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  ’’جب یہ آیت ’’ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ‘‘نازل ہوئی توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ اسے اپنے رکوع میں  داخل کرلو اور جب یہ آیت ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلٰی‘‘نازل ہوئی تو فرمایا اسے اپنے سجدوں میں  داخل کرلو۔( ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ۱ / ۳۳۰، الحدیث: ۸۶۹)

            

Scroll to Top