سُوْرَۃُ المُمْتَحَنَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ-یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْؕ-اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ ﳓ تُسِرُّوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ﳓ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَاۤ اَخْفَیْتُمْ وَ مَاۤ اَعْلَنْتُمْؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ،تم انہیں دوستی کی وجہ سے خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ یقینا وہ اس حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا، وہ رسول کو اور تمہیں اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا طلب کرنے کیلئے نکلے تھے (تو ان سے دوستی نہ کرو) تم ان کی طرف محبت کا خفیہ پیغام بھیجتے ہو اور میں ہر اس چیز کوخوب جانتا ہوں جسے تم نے چھپایا اور جسے تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو یہ (دوستی) کرے توبیشک وہ سیدھی راہ سے بہک گیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں  کو دوست نہ بناؤ۔} شانِ نزول: بنی ہاشم کے خاندان کی ایک باندی ’’سارہ‘‘ مدینہ منورہ میں  سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر ہوئی جب آپ فتحِ مکہ کی تیاری فرمارہے تھے۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا’’ کیا تو مسلمان ہو کر آئی ہے؟ اُس نے کہا: نہیں ۔ارشاد فرمایا’’ کیا ہجرت کرکے آئی ہے؟اس نے عرض کی: نہیں ۔ارشاد فرمایا’’ پھر کیوں  آئی ہو؟ اُس نے عرض کی:محتاجی سے تنگ ہو کرآئی ہوں ۔حضرت عبدالمطلب کی اولاد نے اس کی امداد کرتے ہوئے کپڑے بنائے اور سامان دیا۔حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُس سے ملے تو اُنہوں  نے اسے دس دینار دئیے، ایک چادر دی اوراس کی معرفت ایک خط اہلِ مکہ کے پاس بھیجا جس کا مضمون یہ تھا:حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، تم سے اپنے بچاؤ کی جو تدبیر ہوسکے کرلو۔ سارہ یہ خط لے کر روانہ ہوگئی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی خبر دی تو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چند اَصحاب کو جن میں  حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بھی تھے ،گھوڑوں  پر روانہ کیا اور فرمایا’’روضہِ خاخ کے مقام پر تمہیں  ایک مسافر عورت ملے گی، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا خط ہے جو اہلِ مکہ کے نام لکھا گیا ہے، وہ خط اس سے لے لو اور اس کو چھوڑ دو، اگر خط دینے سے انکارکرے تو اس کی گردن ماردو۔یہ حضرات روانہ ہوئے اور عورت کو ٹھیک اسی مقام پر پایا جہاں  حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا ،اس سے خط مانگا تووہ انکار کر گئی اور قسم کھا گئی۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے قسم کھا کر فرمایا: سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبر واقع کے خلاف ہوہی نہیں  سکتی ،پھر تلوار کھینچ کر عورت سے فرمایاـ: تو خط نکال دے ورنہ میں  تیری گردن اڑا دوں  گا۔ جب اُس نے دیکھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم قتل کرنے پر بالکل آمادہ ہیں  تو اس نے اپنے جُوڑے میں  سے خط نکال کر دے دیا۔جب یہ حضرات خط لے کر واپس پہنچے تو حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بلا کر فرمایا’’ اے حاطب! خط لکھنے کی وجہ کیا تھی؟اُنہوں  نے عرض کی: یا رسول  اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  جب سے اسلام لایا ہوں  تب سے کبھی میں  نے کفر نہیں  کیا اور جب سے حضور کی نیاز مندی مُیَسَّر آئی ہے تب سے کبھی آپ کے ساتھ خیانت نہ کی اور جب سے اہلِ مکہ کو چھوڑا ہے تب سے کبھی اُن کی محبت دل میں  نہ آئی ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں  قریش میں  رہتا تھا اور اُن کی قوم میں  سے نہ تھا، میرے سوادوسرے مہاجرین کے مکہ مکرمہ میں  رشتہ دار ہیں  جو ان کے گھر بار کی نگرانی کرتے ہیں  (لیکن میرا وہاں  کوئی رشتہ دار نہیں ) مجھے اپنے گھر والوں  کے بارے اندیشہ تھا اس لئے میں  نے یہ چاہا کہ میں  اہلِ مکہ پر کچھ احسان رکھ دوں  تاکہ وہ میرے گھر والوں  کو نہ ستائیں  اور یہ بات میں  یقین سے جانتا ہوں  کہ اللّٰہ تعالیٰ اہلِ مکہ پر عذاب نازل فرمانے والا ہے،میرا خط انہیں  بچا نہ سکے گا۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کا یہ عذر قبول فرمایا اور ان کی تصدیق کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسول  اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اجازت دیجئے تاکہ اس منافق کی گردن ماردوں ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عمر! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، اللّٰہ تعالیٰ خبردار ہے جب ہی اُس نے اہلِ بدر کے حق میں  فرمایا کہ جو چاہو کرو میں  نے تمہیں  بخش دیا ہے،یہ سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں  میں  آنسو جاری ہوگئے اور یہ آیات نازل ہوئیں ۔

            اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!کافروں  کو اپنا دوست نہ بناؤ جو میرے اور تمہارے دشمن ہیں  ،تم انہیں  دوستی کی وجہ سے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پوشیدہ خبریں  پہنچاتے ہو حالانکہ وہ تمہارے پاس آئے ہوئے حق یعنی اسلام اور قرآن کا انکار کرتے ہیں ، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور تمہیں  اس بنا پر مکہ مکرمہ سے نکالتے ہیں  کہ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں  جہاد کرنے اور میری رضا طلب کرنے کیلئے اپنے وطن سے نکلے تھے توان کافروں سے دوستی نہ کرو، تم انہیں  خفیہ محبت کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہیں  یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں  ہر اس چیز کوخوب جانتا ہوں  جسے تم نے چھپایا اور جسے تم نے ظاہر کیا اور یاد رکھو! تم میں  سے جو ان سے دوستی کرے گا توبیشک وہ سیدھی راہ سے بہک گیا۔( مدارک، سورۃ الممتحنۃ، ص۱۲۳۰، خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۵۵-۲۵۶، ملتقطاً)

آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے مزید5باتیں  یہ معلوم ہوئیں ،

(1)… کفارِ مکہ مسلمانوں  کے دشمن تھے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اپنا دشمن بھی فرمایا،اس سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کا دشمن اللّٰہ تعالیٰ کا بھی دشمن ہے۔

(2)… کفار کو مسلمانوں  کے راز سے خبردار کرنا غداری اور دین و قوم سے بغاوت ہے ۔

(3)… حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے گناہ سرزد ہوا اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  مومن فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کرنے سے انسان کافر نہیں  ہوتا۔

(4)… ایمان کا دشمن جان کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہے۔

(5)… اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد اسی وقت ہو گا، جب مجاہد کا دل مومن کی محبت اور کافر کی عدوات سے پُر ہو ،اگر مجاہد کے دل میں  کافر کی طرف تھوڑا سا میلان بھی ہوا، تواس کا مجاہد فی سبیل اللّٰہ رہنا مشکل ہے۔

 اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی سے دوستی اور دشمنی رکھنے کے4 فضائل:

            یہاں  موضوع کی مناسبت سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی سے دوستی اور دشمنی رکھنے کے 4فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا’’وہ لوگ کہاں  ہیں  جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں  محبت رکھتے تھے، آج میں  انہیں  اپنے (عرش کے) سائے میں  رکھوں  گا، آج میرے (عرش کے) سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل الحبّ فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۷(۲۵۶۶))

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے دوسرے علاقے میں  گیا، اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتہ بٹھا دیا۔ جب وہ فرشتے کے پاس آیا تو اس نے دریافت کیا: کہاں  کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا :اس علاقے میں  میرا بھائی ہے اس سے ملنے جارہا ہوں ۔ فرشتے نے کہا: کیا اس پر تیرا کوئی احسان ہے جسے لینے جارہا ہے ؟اس نے کہا: نہیں ، صرف یہ بات ہے کہ میں  اسے اللّٰہ تعالیٰ کے لیے دوست رکھتا ہوں ۔ فرشتے نے کہا: مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے تاکہ تجھے یہ خبردوں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تجھے دوست رکھا جیسے تو نے اللّٰہ تعالیٰ کے لیے اس سے محبت کی ہے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل الحب فی اللّٰہ، ص۱۳۸۸، الحدیث: ۳۸(۲۵۶۷))

(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’جو کسی سے اللّٰہ تعالیٰ کے لیے محبت رکھے، اللّٰہ تعالیٰ کے لیے دشمنی رکھے ، اللّٰہ تعالیٰ کے لیے دے اور اللّٰہ تعالیٰ کے لیے منع کرے تو اس نے اپنا ایمان کامل کرلیا۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۰، الحدیث: ۴۶۸۱)

(4)…حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تمہیں  معلوم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسند کون سا عمل ہے ؟ کسی نے کہا، نماز و زکوٰۃ اور کسی نے کہا جہاد۔ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارا عمل اللّٰہ تعالیٰ کے لیے محبت اور بغض رکھنا ہے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ذر الغفاری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ۸ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۳۶۱)

اِنْ یَّثْقَفُوْكُمْ یَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً وَّ یَبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ وَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَﭤ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

اگر وہ تمہیں پالیں تو تمہارے دشمن ہوں گے اور تمہاری طرف اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں برائی کے ساتھ دراز کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم کافر ہوجاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ یَّثْقَفُوْكُمْ یَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً: اگر وہ تمہیں  پالیں  تو تمہارے دشمن ہوں  گے۔} یعنی کفار کی عداوت کا یہ حال ہے کہ تم ان کے ساتھ کتنے ہی اس قسم کے سلوک کرو، لیکن انہیں  جب کبھی موقعہ ملے گا تو وہ تم سے اپنی دشمنی نکالنے میں  کمی نہ کریں  گے ،تمہیں  مارنے اور قتل کرنے کے لئے تمہاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں  گے ،تمہیں  گالی گلوچ کرنے اور برا بھلا کہنے کے ساتھ اپنی زبانیں  دراز کریں  گے اوران کی تمنا یہ ہے کہ کسی طرح تم کافر ہوجاؤتو ایسے لوگوں  کو دوست بنانا اور اُن سے بھلائی کی اُمید رکھنا اور اُن کی عداوت سے غافل رہنا ہر گز نہیں  چاہیے۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۵۶، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۳۱، ملتقطاً)

لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْۚۛ-یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚۛ-یَفْصِلُ بَیْنَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے رشتے اور تمہاری اولاد قیامت کے دن ہرگز تمہیں نفع نہ دیں گے، اللہ تمہارے درمیان جدائی کردے گا اور اللہ تمہارے کام خوب دیکھ رہا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْۚۛ-یَوْمَ الْقِیٰمَةِ: تمہارے رشتے اور تمہاری اولاد قیامت کے دن ہرگز تمہیں  نفع نہ دیں  گے۔} یعنی اے ایمان والو!جن رشتے داروں  اور اولاد کی وجہ سے تم کفار سے دوستی اور مُوالات کرتے ہویہ قیامت کے دن ہرگز تمہیں  نفع نہ دیں  گے، اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان ا س طرح جدائی کردے گا کہ فرمانبردار جنت میں  ہوں  گے اور کافرنافرمان جہنم میں  او ریاد رکھو کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھ رہا ہے تو وہ تمہیں  تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۵۷، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۳۱-۱۲۳۲، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ قیامت کے دن مسلمان کے کافر رشتے دار اور کافر اولاد اس کے کام نہ آئے گی جبکہ مومن رشتے دار اور مومن اولاد اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ضرور کام آئے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ‘‘(زخرف:۶۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں  گے سوائے پرہیزگاروں  کے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ‘‘(طور:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملادیں  گے اور اُن (والدین) کے عمل میں  کچھ کمی نہ کریں  گے۔

            خلاصہ یہ کہ ایمان والے ایک دوسرے کے کام آئیں  گے جبکہ کافر کسی کے کام نہ آئیں  گے۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ-اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ٘-كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(4)رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بیشک ہم تم سے اور ان سے بیزار ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم نے تمہاراا نکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور عداوت ظاہر ہوگئی حتّٰی کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ مگر ابراہیم کا اپنے (عرفی) باپ سے یہ کہنا (پیروی کے قابل نہیں ) کہ میں ضرور تیرے لئے مغفرت کی دعا مانگوں گا اور میں اللہ کے سامنے تیر ے لئے کسی نفع کا مالک نہیں ہوں ۔ اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع لائے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کیلئے آزمائش نہ بنا اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے رب! بیشک تو ہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ: بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں  میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی۔} اس آیت میں  حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور دوسرے مومنین سے خطاب ہے اور سب کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے کا حکم ہے کہ دین کے معاملے میں  رشتہ داروں  کے ساتھ ان کا طریقہ اختیار کریں ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران پر ایمان لانے والوں  کی سیرت میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی، جب انہوں  نے اپنی مشرک قوم سے کہا: بیشک ہم تم سے اور ان بتوں سے بیزار ہیں  جنہیں  تم اللّٰہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو، ہم تمہارے منکر ہوئے اور ہم نے تمہارے دین کی مخالفت اختیار کی اور جب تک تم ایک اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان نہیں  لاتے تب تک ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور عداوت ظاہر ہوگئی، البتہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے عُرفی باپ کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا پیروی کے قابل نہیں  کیونکہ یہ ایک وعدے کی بناء پر تھا اور جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ظاہر ہوگیا کہ وہ کفر پر ہی قائم ہے تو آپ نے اس سے بیزاری ظاہر کر دی، لہٰذا یہ کسی کیلئے جائز نہیں  کہ اپنے کافررشتہ دار کیلئے دعائے مغفرت کرے۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۵۷، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۳۲، ملتقطاً)

{رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا: اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا۔} یہ بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اور اُن مومنین کی دعا ہے جو آپ کے ساتھ تھے اور یہ اِستثناء سے پہلے والے کلام کے ساتھ مُتَِّصل ہے، لہٰذا مومنین کو اس دعا میں  بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنی چاہئے۔( مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۳۲، ملخصاً)

          نوٹ: خیال رہے کہ مسلمانوں  پر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی مُطْلَقاً لازم ہے جبکہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی خاص اعمال میں  ہے کیونکہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ السَّلَام کی شریعت کے بہت سے اَحکام مَنسوخ بھی ہوگئے ہیں ، لہٰذا یہ آیت سورہِ اَحزاب کی اس آیت ’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘ کے خلاف نہیں ،کیونکہ یہاں  خاص صورتوں  میں  خاص پیروی کا حکم ہے اور سورہ ِاحزاب کی آیت میں مطلقاً پیروی کا حکم ہے۔

آیت ’’قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… انبیا ءِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت یہ ہے کہ اپنا ایمان اپنے قول اور فعل سے ظاہر کردے۔

(2)… کفا ر سے دشمنی رکھنا اتناہی ضروری ہے جتنا مسلمانوں  سے محبت رکھنا ضروری ہے۔

(3)… اللّٰہ تعالیٰ کے اِذن اور ا س کی اجازت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہگار مومنوں  سے عذاب دور کریں  گے اور ان کی شفاعت سے عذاب دور ہوگا ، لہٰذا یہ آیت مومنوں  کے حق میں  شفاعت نہ ہونے کی دلیل نہیں  بن سکتی۔

{رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اے ہمارے رب! ہمیں  کافروں  کیلئے آزمائش نہ بنا۔} یعنی یہ دعا مانگنے میں  بھی مسلمانوں  کو ان کی پیروی کرنی چاہئے کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کافروں  کو ہم پر غلبہ دے کر ہمیں  ان کیلئے آزمائش نہ بنا کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر اور مسلمانوں  کو باطل پر گمان کرنے لگیں  گے اور یوں  ان کا کفر اور بھی بڑھ جائے گا نیز اے اللّٰہ، ہمیں  بخش دے، اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک تو ہی عزت والا اور حکمت والا ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔(اے مسلمانو!) بیشک ضرور تمہارے لیے ان میں اچھی پیروی تھی ،اس کیلئے جو اللہ اورآخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور جو منہ پھیرے تو بیشک اللہ ہی بے نیاز، ہر حمد کے لائق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْهِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ: بیشک ضرور تمہارے لیے ان میں  اچھی پیروی تھی۔} یعنی اے میرے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت!تمہارے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں  کی سیرت میں  اچھی پیروی تھی ،خاص طور پر اس کے لئے جو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و ثواب اور آخرت کی راحت کا طالب ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے اور جو ایمان لانے سے منہ پھیرے اور کفار سے دوستی کرے تو وہ سمجھ لے کہ ہمارے دین کو اس کی ضرورت نہیں ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ ہی بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔( جلالین ، الممتحنۃ ، تحت الآیۃ: ۶ ، ص۴۵۷ ، خازن ، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۵۷، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۳۲، ملتقطاً)

عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةًؕ-وَ اللّٰهُ قَدِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

قریب ہے کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت پیدا فرما دے جو ان میں سے تمہارے دشمن ہیں ۔ اور اللہ بہت قدرت والا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً:قریب ہے کہ اللّٰہ  تمہارے اور ان لوگوں  کے درمیان محبت پیدا فرما دے جو ان میں  سے تمہارے دشمن ہیں ۔} شانِ نزول:جب اُوپر کی آیات نازل ہوئیں  تو صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اپنے عزیز و اَقارب کی دشمنی میں  بہت سخت اور ان سے بیزار ہو گئے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر انہیں  امید دلائی کہ اُن کفار کا حال بدلنے والا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! قریب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے اور کفارِ مکہ میں  سے ان لوگوں  کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہو گئی ہے ا س طرح محبت پیدا کر دے کہ انہیں  ایمان کی توفیق دیدے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ دل بدلنے ،حال تبدیل کرنے اور محبت کے اسباب آسان کرنے پر بہت قدرت والا ہے اور مشرکوں  میں  سے جو ایمان لائے اسے اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا اور اس پر مہربان ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور فتح ِمکہ کے بعد اُن میں  سے ایک کثیر تعداد ایمان لے آئی اور وہ ایمان والوں  کے دوست اور بھائی بن گئے اوران کی ایک دوسرے سے محبت بڑھی۔( مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۳۳، خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۵۷، ملتقطاً)

لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(8)اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ تمہیں ان لوگوں سے احسان کرنے اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین میں لڑائی نہیں کی اورنہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے مخالفین کی) مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ: اللّٰہ تمہیں  ان لوگوں  سے منع نہیں  کرتا جنہوں  نے تم سے دین میں  لڑائی نہیں  کی۔} اس آیت کی تفسیر میں کثیر اَقوال اور اختلاف ہیں ،اور عملی صورتیں  جن پر اِس آیت کو مُنطَبِق کرنا ہے وہ تو سینکڑوں  سے زائد ہیں  لہٰذا صرف ایک راجح خلاصۂ کلام یہاں  پیش کیا جاتا ہے ، تفصیل کیلئے فتاویٰ رضویہ کی چودھویں  جلد میں  موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے رسالے ’’ اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘ کا مطالعہ کریں ۔خلاصۂ آیات یہ ہے کہ جن کفار سے مسلمانوں  کا امن و امان کا معاہدہ ہے یا جوذِمّی کفار ہیں  ان کے ساتھ بِر یعنی اچھا سلوک کرنے اور اِقساط کی ممانعت نہیں  بلکہ اجازت ہے جبکہ ان کے علاوہ کے ساتھ ممانعت ہے۔اِقساط کا معنی اور بِر و اِقساط دونوں  کی تفصیل کیلئے نیچے کا کلام ملاحظہ فرمائیں :

 بِر یعنی نیکی کرنا، حُسنِ سلوک کرنا کیا ہے ؟

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے کفار کے ساتھ بِر و صِلہ کی تین صورتیں  بیان فرمائی ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ بر و صلہ کی تین صورتیں  ہیں :

(1)…اعلیٰ صورت:اپنی کسی صحیح غرض کے بغیر بالقصدمحض کافر کو نفع دینا اور بھلائی پہنچانا مقصود ہو۔یہ صورت مُستامِن یعنی امان لے کر اسلامی سلطنت میں  آنے والے کافر اور مُعاہِد یعنی اس کافر سے بھی حرام ہے جس کے ساتھ معاہدہ ہے کیونکہ امان اور معاہدہ ضَرَر کوروکنے کے لئے ہیں  نہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے دشمنوں  کو جان بوجھ کر نفع پہنچانے کے لئے۔

(2)…درمیانی صورت :اپنی ذاتی مصلحت جیسے کافر نے کچھ دیا تو اس کے بدلے میں  اسے دینا یا رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ مالی سلوک کرنا۔یہ اس کافر کے ساتھ جائز ہے جس سے مسلمانوں  کا معاہدہ ہے اور جس سے معاہدہ نہیں  اس سے ممنوع ہے۔

(3)…ادنیٰ صورت:اسلام اور مسلمانوں  کی مَصلحت کے لئے جنگی چال کے طور پر کچھ دیا جائے۔یہ حربی کافر یعنی جس سے معاہدہ نہیں  اس کے ساتھ بھی جائز ہے ۔

            آیت ِکریمہ ’’لَا یَنْهٰىكُمْ‘‘ میں  ’’بِر‘‘ یعنی احسان کی درمیانی صورت مراد ہے کیونکہ اعلیٰ اس کافر سے بھی حرام ہے جس سے معاہدہ ہے اور ادنیٰ اس کافر کے ساتھ بھی جائز ہے جس سے معاہدہ نہیں ۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵،۴۶۸، ۴۶۹، ملخصاً)

اقساط کا مفہوم:

            اِقساط یعنی انصاف کرنے کے مفسرین نے تین معانی بیان کئے ہیں :

            ایک معنی یہ ہے کہ ان پر ظلم نہ کرو۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ حکم حربی و معاہد ہر طرح کے کافر کیلئے عام ہے کہ حربی پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں  اور اِس معنی کے اعتبار سے یہ حکم رخصت نہیں  بلکہ واجب ہے۔

            دوسرا معنی یہ ہے کہ کافروں  سے کیا ہوا معاہدہ پورا کرو اور اس صورت میں  بھی یہ حکم واجب ہے نہ کہ صرف رخصت، البتہ معاہدے کی مدت پوری کرنا واجب نہیں  ،کوئی مصلحت ہو تو مدت سے پہلے بتا کر معاہدہ توڑ دینا جائز ہے۔

            تیسرا معنی یہ کہ اِقساط سے مراد اپنے مال سے کچھ حصہ دیدینا ہے اور یہ وہی بریعنی نیکی کرنا ہی ہے، گویااِس صورت میں  برو اِقساط ایک ہی چیز ہوگئے ۔ اس پر اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ  الرَّحْمَۃ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاں  یہاں  بر (نیکی کرنے) اور اِقساط (انصاف کرنے) دونوں  لفظوں  میں  یوں  فرق ہوسکتا ہے کہ اِقساط کا مطلب ہے کہ جتنا کافر نے دیا اتنا ہی دیا جائے جیسے کافر نے ہزار روپے کی چیز دی تو جواب میں  ہزار روپے کی چیز ہی دیدی جائے تو یہ اقساط یعنی برابری کرنا ہوگیا جبکہ اگر وہ کچھ نہ دے اور مسلمان اپنی رشتے داری یا کسی مصلحت کی وجہ سے اسے ہزار روپے کی چیز دیدے یا کافر نے ہزار روپے کی چیز دی لیکن مسلمان ہزار سے زائد کی شے دیدے تو یہ بِر یعنی احسان کرنا، نیکی کرنا، سلوک کرنا کہلائے گا۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۷۱، ملخصاً)

کفار کے ساتھ دوستی کی صورتیں  اور ان کے اَحکام:

            آیت نمبر 9 میں  کفار کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا،یہاں  ان سے دوستی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کے کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو،

            مُوالات (یعنی کفار کے ساتھ دوستی) کی دو قسمیں  ہیں  :

(1)…حقیقی موالات:اس کی ادنیٰ صورت قلبی میلان ہے،یہ تمام صورتوں  میں  ہر کافر سے مُطْلَقاً ہر حال میں  حرام ہے البتہ طبعی میلان جیسے ماں  باپ،اولادیا خوبصورت بیوی کی طرف غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے یہ اس حکم میں  داخل نہیں  پھر بھی اس تَصَوُّر سے کہ یہ اللّٰہ و رسول کے دشمن ہیں  اور ان سے دوستی حرام ہے،اپنی طاقت کے مطابق اس میلان کو دبانا یہاں  تک کہ بن پڑے تو فنا کر دینا لازم ہے ،اس میلان کا آنا بے اختیار تھا اور اسے زائل کرنا قدرت میں  ہے تو اسے رکھنا دوستی کو اختیار کرنا ہوا اور یہ حرامِ قطعی ہے اسی لئے جس غیر اختیاری چیز کے ابتدائی اُمور کسی شخص نے اپنے اختیار سے پیدا کئے تو اس میں  اس کا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا جیسے شراب سے عقل زائل ہو جانا اختیار میں  نہیں  لیکن جب اختیار سے پی تو عقل کا زوال اور اس پر جو کچھ مُرَتَّب ہواسب اسی کے اختیار سے ہو گا۔

(2)… صورۃً موالات:اس کی صورت یہ ہے کہ بندے کا دل کافر کی طرف اصلاً مائل نہ ہو لیکن اس سے برتاؤ ایسا کرے جو بظاہر محبت و میلان کا پتا دیتا ہو۔یہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں  صرف ضرورت و مجبوری کی مقدار مُطْلَقاً جائز ہے اور بقدرِ ضرورت یہ کہ مثلاً صرف عدوات کااظہار نہ کرنے سے کام نکلتا ہو تو اسی قدر پر اِکتفاء کرے اور اظہارِ محبت کی ضرورت ہو تو حتّی الامکان پہلودار بات کہے، صراحت کے ساتھ اظہار کرنے کی اجازت نہیں ، اور اگر اس کے بغیر نجات نہ ملے اور دل ایمان پر مطمئن ہو تو صراحت کے ساتھ اظہار کی رخصت ہے اور اب بھی عزیمت یہی ہے کہ  ایسا نہ کرے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۷، ملخصاً)

            اب زیرِ تفسیر دونوں  آیات کا خلاصہ ملاحظہ ہو ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  ان کافروں  کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں  کرتا جنہوں  نے تم سے دین میں  لڑائی نہیں  کی اورنہ تمہیں  تمہارے گھروں  سے نکالا، بیشک اللّٰہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں  سے محبت فرماتا ہے اور وہ تمہیں  صرف ان کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں  لڑے اورانہوں  نے تمہیں  تمہارے گھروں  سے نکالا اور تمہیں  نکالنے پر تمہارے مخالفین کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۲۵۸)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِهِنَّۚ-فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِؕ-لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّؕ-وَ اٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْاؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّؕ-وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَ سْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقْتُمْ وَ لْیَسْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقُوْاؕ-ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِؕ-یَحْكُمُ بَیْنَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں (کفرستان سے) اپنے گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرو، اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے، پھر اگروہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ لوٹاؤ، نہ یہ ان (کافروں ) کیلئے حلال ہیں اورنہ وہ (کافر) ان کیلئے حلال ہیں اور ان کے کافر شوہروں کووہ (حق مہر) دیدو جو انہوں نے خرچ کیا ہواور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو جب ان کے مہر انہیں دو اور کافرہ عورتوں کے نکاح پر نہ جمے رہو اور وہ مانگ لو جو تم نے خرچ کیا ہو اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ بہت علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ: اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں  اپنے گھر چھوڑ کر آئیں ۔} اس آیت میں  ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں  کے بارے میں  7 اَحکام دئیے گئے ہیں ،

(1)…اے ایمان والو! جب کفرستان سے مسلمان عورتیں  اپنے گھر چھوڑ کر تمہارے پاس آئیں  تو ان کی جانچ کرلیا کرو کہ ان کی ہجرت خالص دین کیلئے ہے ،ایسا تو نہیں  ہے کہ اُنہوں  نے شوہروں  کی عداوت میں  گھر چھوڑا ہو اور یاد رکھو کہ ان عورتوں  کا امتحان تمہارے علم کے لئے ہے ورنہ اللّٰہ تعالیٰ تو ان کے ایمان کا حال تم سے بہتر جانتا ہے۔

            ان کی جانچ کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے قسم لی جائے جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: ان عورتوں  کو قسم دی جائے کہ وہ نہ شوہروں  کی عداوت میں  نکلی ہیں  اور نہ اور کسی دُنْیَوی وجہ سے بلکہ اُنہوں  نے صرف اپنے دین و ایمان کیلئے ہجرت کی ہے۔

(2)… اگر جانچ کے بعدوہ تمہیں  ایمان والیاں  معلوم ہوں  تو انہیں  ان کے کافرشوہروں  کی طرف واپس نہ لوٹاؤ کیونکہ نہ یہ مسلمان عورتیں  ان کافروں کیلئے حلال ہیں  اورنہ وہ کافر مرد ان مسلمان عورتوں کیلئے حلال ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر کافر کی کافرہ بیوی ایمان لا کر ہجرت کرجائے تووہ اس کافر کے نکاح سے نکل جائے گی۔

(3)… ا ن کے کافر شوہروں  کووہ حق مہر دیدو جو انہوں  نے ان عورتوں  کو دئیے تھے۔ شانِ نزول: یہ آیت صلحِ حُدَیْبیہ کے بعد نازل ہوئی ،صلح میں  یہ شرط تھی کہ مکہ والوں  میں  سے جو شخص ایمان لا کرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو اس کو اہلِ مکہ واپس لے سکتے ہیں  اور اس آیت میں  یہ بیان فرمادیا گیا کہ یہ شرط صرف مردوں  کیلئے ہے، عورتوں  کی تصریح عہد نامہ میں  نہیں  اورنہ عورتیں  اس قرارداد میں  داخل ہوسکتی ہیں  کیونکہ مسلمان عورت کافر کیلئے حلال نہیں  ۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت کا یہ حصہ پہلے حکم (یعنی انہیں  ان کے کافرشوہروں  کی طرف واپس نہ لوٹاؤ) کا ناسخ ہے۔

             یہ قول اس صورت میں  درست ہے کہ عورتیں  صلح کے عہد میں  داخل ہوں  ،لیکن عورتوں  کا اس عہد میں  داخل ہونا صحیح نہیں  کیونکہ بخاری شریف میں عہد نامہ کے یہ الفاظ مروی ہیں : ’’لَایَاتِیْکَ مِنَّا رَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلَّا رَدَدْتَہٗ‘‘ یعنی ہم سے جو مرد آپ کے پاس پہنچے خواہ وہ آپ کے دین ہی پر ہو آپ اس کو واپس دیں  گے۔( بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲۳، الحدیث: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲)  ان میں  عورت کا ذکر نہیں  ہے۔

            یہاں  اس مہر سے متعلق دو شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں :

          (1)… یہ مہر دینا اس صورت میں  ہے جب کہ عورت کا کافر شوہر اسے طلب کرے اوراگر طلب نہ کرے تو اس کو کچھ نہیں  دیا جائے گا۔

          (2) …اسی طرح اگر کافر نے اس مہاجرہ عورت کو مہر نہیں  دیا تھا تو بھی وہ کچھ نہ پائے گا۔

(4)… تم پر کچھ گناہ نہیں  کہ ان ہجرت کرنے والی عورتوں  کو مہر دے کر ان سے نکاح کرلو اگرچہ دارُالحرب میں  ان کے شوہر ہوں  کیونکہ اسلام لانے سے وہ ان شوہروں  پر حرام ہوگئیں  اور ان کی زوجیت میں  نہ رہیں  ۔ یاد رہے کہ یہاں مہر دینے سے مراد اس کو اپنے ذمہ لازم کرلینا ہے اگرچہ بِالفعل نہ دیا جائے۔ نیزاس سے یہ ثابت ہوا کہ ان عورتوں  سے نکاح کرنے پر نیا مہر واجب ہوگا جبکہ ان کے شوہروں  کو جو ادا کردیا گیا وہ اس میں  شمار نہیں  ہوگا گویا یہاں  دو قسم کی رقم دینا ہوگی ، ایک سابقہ کافر شوہر کو اور دوسری بطورِ مہر عورت کو۔

(5)… کافرہ عورتوں  کے نکاح پر نہ جمے رہو،یعنی جو عورتیں  دارالحرب میں  رہ گئیں  یا مُرتَدَّہ ہو کردارالحرب میں  چلی گئیں  ان سے زوجیت کا علاقہ نہ رکھو، چنانچہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے ان کافرہ عورتوں  کو طلاق دیدی جو مکہ مکرمہ میں  تھیں ۔یہاں  یہ مسئلہ یاد رہے کہ اگر مسلمان کی عورت (مَعَاذَاللّٰہ) مرتدہ ہوجائے تو وہ اس کے نکاح سے باہر نہ ہوگی البتہ عورت کے مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ اسی شوہر سے نکاح ضرورپڑھا جائے گا۔

(6)… ان عورتوں  کو تم نے جو مہر دیئے تھے وہ ان کافروں  سے وصول کرلو جنہوں نے اُن سے نکاح کیا۔

(7)…کافروں  کی جو عورتیں  ہجرت کرکے دارالاسلام میں  چلی آئیں  ،ان پر کافروں نے جو خرچ کیا وہ اُن مسلمانوں  سے مانگ لیں جنہوں نے ان عورتوں  سے نکاح کیا ہے۔

            آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ یہاں  جو اَحکام دئیے یہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرماتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ علم والا، حکمت والا ہے۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۵۹، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۳۳-۱۲۳۴)

وَ اِنْ فَاتَكُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَاۤ اَنْفَقُوْاؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگرتم مسلمانوں کے ہاتھ سے تمہاری کچھ عورتیں کافروں کی طرف نکل جائیں پھر تم (کافروں کو) سزا دو تو جن کی بیویاں چلی گئی تھیں انہیں (مالِ غنیمت سے) اتنا دیدو جتناانہوں نے خرچ کیاتھا اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ فَاتَكُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ: اور اگرتم مسلمانوں  کے ہاتھ سے تمہاری کچھ عورتیں  کافروں  کی طرف نکل جائیں ۔} شانِ نزول: اس سے پہلے والی آیت نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے تو ہجرت کرنے والی عورتوں  کے مہراُن کے کافر شوہروں  کو ادا کردیئے جبکہ کافروں  نے مرتدہ عورتوں  کے مہر مسلمانوں  کو ادا کرنے سے انکار کر دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! اگرتمہارے پاس سے کچھ عورتیں  مرتدہ ہو کر کافروں  کی طرف نکل جائیں ، پھرتم کافروں  کو جہاد کے ذریعے سزا دو اور ان سے غنیمت پاؤ تو جن کی عورتیں  مرتدہ ہو کر دار الحرب میں  چلی گئیں  تھیں  انہیں  مالِ غنیمت سے اتنا دیدو جتناانہوں  نے ان عورتوں  کو مہر دینے میں  خرچ کیاتھا اور اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

             حضرت عبداللّٰہ بن عبا س رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ مومنین مہاجرین کی عورتوں  میں  سے چھ عورتیں  ایسی تھیں  جنہوں  نے دارالحرب کو اختیار کیا اور مشرکین کے ساتھ ملیں  اور مرتدہ ہوگئیں  ،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کے شوہروں  کو مالِ غنیمت سے ان کے مہر عطا فرمائے ۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۲۵۹-۲۶۰، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۳۴، ملتقطاً)

            نوٹ: یاد رہے کہ ان آیتوں  میں  جو یہ احکام دئیے گئے کہ مہاجرات کا امتحان لینا، کفار نے اپنی بیویوں  پر جو خرچ کیا ہو وہ ہجرت کے بعد انہیں  دینا، مسلمانوں  نے اپنی بیویوں  پر جو خرچ کیا ہو وہ ان کے مرتد ہ ہو کر کافروں  سے مل جانے کے بعد کافروں  سے مانگنا ، جن کی بیویاں  مرتدہ ہو کر چلی گئی ہوں  اُنہوں نے جو ان پر خرچ کیا تھا وہ انہیں  مالِ غنیمت میں  سے دینا ،یہ تمام اَحکام جہاد والی آیت سے یا غنیمت والی آیت سے یا اَ حادیث سے مَنسوخ ہوگئے ہیں  کیونکہ یہ اَحکام تب تک باقی رہے جب تک یہ عہد رہا اور جب وہ عہد اٹھ گیا تو احکام بھی نہ رہے۔( خزائن العرفان ، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۰۱۸-۱۰۱۹، ملخصاً)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَكَ عَلٰۤى اَنْ لَّا یُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ وَ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے نبی! جب مسلمان عورتیں تمہارے حضور اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان میں گھڑیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو بیشک اللہ بہت بخشنے والا،بڑا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ: اے نبی! جب مسلمان عورتیں تمہارے حضور حاضر ہوں ۔} جب فتحِ مکہ کے دن حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مردوں  سے بیعت لے کر فارغ ہوئے اور عورتوں  سے بیعت لینا شروع کی تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! جب مسلمان عورتیں  آپ کی بارگاہ میں  اس بات پر بیعت کرنے کیلئے حاضر ہوں  کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے پر قائم رہیں  گی ، چوری نہ کریں  گی ، بدکاری نہ کریں  گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں  گی،کسی کے بچے کو اپنے شوہر کی طرف منسوب نہ کریں  گی، اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرنے میں  آپ کی نافرمانی نہ کریں  گی، تو ان سے بیعت لیں  اور اللّٰہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت چاہیں  بیشک اللّٰہ تعالیٰ بخشنے والا، مہربان ہے۔(روح البیان،الممتحنۃ،تحت الآیۃ:۱۲،۹ / ۴۸۷-۴۸۸، خازن،الممتحنۃ،تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۶۰، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۳۴، ملتقطاً)

حضرت ہند بنت ِعتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  اور دیگر خواتین کی بیعت:

             جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فتح ِمکہ کے دن مردوں کی بیعت لے کر فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر عورتوں  سے بیعت لینا شروع کی، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نیچے کھڑے ہوکر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک عورتوں  کو سناتے جاتے تھے۔اسی دوران حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ حضرت ہند بنتِ عتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  ڈرتے ڈرتے برقع پہن کر اس طرح حاضر ہوئیں  کہ پہچانی نہ جائیں ۔نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ میں  تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں  کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کر و گی۔حضرت ہند نے سر اٹھا کر کہا :آپ ہم سے وہ عہد لے رہے ہیں  جو ہم نے آپ کو مردوں  سے لیتے ہوئے نہیں  دیکھا ۔ اس دن مردوں  سے صرف اسلام و جہاد پر بیعت لی گئی تھی۔ پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور چوری نہ کرو گی۔ حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے عرض کی:حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بخیل آدمی ہیں  اور میں  نے اُن کا مال ضرور لیا ہے ، میں  نہیں  سمجھتی کہ مجھے حلال ہوا یا نہیں  ۔حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں حاضر تھے، اُنہوں نے کہا: جو تو نے پہلے لیا اور جو آئندہ لے گی سب حلال ہے۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تو ہند بنت ِعتبہ ہے ۔عرض کی:جی ہاں  !مجھ سے جو کچھ قصور ہوئے ہیں  وہ معاف فرما دیجئے۔ پھر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اور بدکاری نہ کرو گی۔ حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: کیا کوئی آزاد عورت بدکاری کرتی ہے ۔پھر ارشاد فرمایا’’ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی ۔حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: ہم نے چھوٹے چھوٹے بچے پالے ،جب وہ بڑے ہوگئے تو آپ نے انہیں  قتل کردیا، اب آپ جانیں  اور وہ جانیں  ۔حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے یہ اس لئے کہا کہ ان کا لڑکا حنظلہ بن ابو سفیان بدر میں  قتل کردیا گیا تھا۔ حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کی یہ گفتگو سن کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت ہنسی آئی۔ پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ پاؤں  کے درمیان کوئی بہتان نہ گھڑو گی۔حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا :خدا کی قسم ! بہتان بہت بری چیز ہے اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں  نیک باتوں  اور اچھی خصلتوں  کا حکم دیتے ہیں ۔ پھر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کسی نیک بات میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی نہ کرو گی۔ اس پر حضرت ہند رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے کہا: اس مجلس میں ہم اس لئے حاضر ہی نہیں  ہوئے کہ اپنے دل میں  آپ کی نافرمانی کا خیال آنے دیں  ۔عورتوں  نے ان تمام اُمور کا اقرار کیا اور457 عورتوں نے بیعت کی۔( خازن،الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۶۰، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۳۴-۱۲۳۵، خزائن العرفان، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۰۱۹، ملتقطاً)

عورتوں  سے بیعت کی کیفیت:

            عورتوں  سے لی جانے والی بیعت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے مصافحہ نہ فرمایا اورعورتوں  کواپنا دست ِمبارک چھونے نہ دیا۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں  :اللّٰہ تعالیٰ کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کومَس نہیں  کیا،آپ ان کوصرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے ۔( صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الممتحنۃ، باب اذا جاء کم المؤمنات مہاجرات، ۳ / ۳۵۰، الحدیث: ۴۸۹۱)

             بیعت کی کیفیت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پانی کے ایک بڑے برتن میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دست ِمبارک ڈالا پھر اسی میں  عورتوں  نے اپنے ہاتھ ڈالے اور یہ بھی کہا گیا ہے بیعت کپڑے کے واسطے سے لی گئی تھی اور بعید نہیں  ہے کہ دونوں  صورتیں  عمل میں  آئی ہوں  ۔

 آیت ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

           اس آیت سے 4باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… پیرکسی کو مرید کرتے وقت عمومی توبہ کے ساتھ خاص ان گناہوں سے بھی توبہ کرائے جن میں  مرید گرفتار ہے، مثلا ًبے نماز ی سے ترکِ نماز کی یا سود خور سے سود خوری سے خاص طور پر توبہ کرائے اور آئندہ کے لئے اس پر قائم رہنے کا حکم دے۔

 (2)… پیر کو چاہئے کہ بیعت لینے کے بعد اپنے مرید کے لئے دعائے مغفرت کرے کہ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، اس کے گزشتہ گناہ بخش دے۔

(3)… خود توبہ کرنے کا حکم اور ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے کسی مقبول بندے کے ہاتھ پر توبہ کرنے کا دوسر ا حکم ہے۔

(4)… مسلمانوں  کا مشائخ کے ہاتھ پر بیعت ہونا سنت ہے کیونکہ یہ مومنہ عورتیں  حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی بیعت کرتی تھیں  کہ ہم آئندہ گناہوں  سے بچیں  گی اور یہ ہی مشائخ کی بیعت کا مَنشا ہے۔ یاد رہے کہ بیعت کی چار قسمیں  ہیں ،(1) بیعت ِاسلام ،(2) بیعت ِخلافت،(3) بیعت ِتقویٰ، (4)بیعت ِتوبہ، آج کل کی بیعت توبہ یا تقویٰ کی بیعت ہے، اس بیعت کا ماخَذ یہ آیت اور اس جیسی دوسری آیات ہیں  ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ قَدْ یَىٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا یَىٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ نے غضب کیا، بیشک وہ آخرت سے ناامید ہوچکے ہیں جیسے کافر قبروالوں(کے دنیا میں لوٹنے) سے ناامید ہوچکے ہیں۔ (یا،قبر والوں میں سے کفار(ثواب آخرت سے) ناامید ہوچکے ہیں۔)۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ: اے ایمان والو !ان لوگوں  سے دوستی نہ کرو جن پر اللّٰہ نے غضب کیا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے ایمان والو! مشرکوں  سے دوستی نہ کرو، بیشک وہ آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے اس کے ثواب سے ایسے ناامید ہوچکے ہیں  جیسے وہ قبروالوں  کے دنیا میں  واپس آنے سے ناامید ہوچکے ہیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے ایمان والو !یہودیوں  سے دوستی نہ کرو، بیشک وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو برحق نبی جاننے کے باوجود اِنکار کرنے کی وجہ سے آخرت کے ثواب سے ایسے ہی ناامید ہوچکے ہیں  جیسے کفار مرے ہوئے لوگوں  کے دنیا میں  واپس آنے سے مایوس ہوچکے ہیں  ۔( مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۳۵، ملخصاً)



Scroll to Top