سُوْرَۃُ الصَّفّ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور وہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں  میں  اور جو زمین میں  ہے۔} ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین میں  موجود تمام اَشیاء ہر ا س چیز سے اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں  جو اس کی بلند و بالا اور عظیم بارگاہ کے لائق نہیں  ،وہی عزت والا اور تمام اَفعال میں  حکمت والا ہے۔( روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۴۹۳)

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو ! } شانِ نزول :حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’ہم چند صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،ہم میں  اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل محبوب ترین ہے اگر ہمیں  معلوم ہو جاتا تو ہم اسی پر عمل کرتے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں  : ’’سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں  میں  اور زمین میں  ہے اور وہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔اے ایمان والو ! وہ بات کیوں  کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔

            حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے یہ آیتیں  تلاوت فرمائیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الصف، ۵ / ۲۰۲، الحدیث: ۳۳۲۰)

             یاد رہے کہ اس آیت کے شانِ نزول میں  اور بھی کئی قول ہیں  ، اُن میں  سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں  نازل ہوئی جو مسلمانوں  سے مدد کرنے کا جھوٹا وعدہ کرتے تھے۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۶۲)اس اعتبار سے منافقوں  کی مذمت ہے اور انہیں  اہلِ ایمان کہہ کر مُخاطَب کرناان کے ظاہری ایمان کی وجہ سے ہے ۔ اور اگر یہ آیت صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے بارے میں  نازل ہوئی ہے تو ا س میں  ان کی مذمت نہیں  بلکہ تربیت فرمائی گئی ہے کہ ایسے دعوے کرنا درست نہیں  کیونکہ آنے والے وقت کا معلوم نہیں  کہ کیسا آئے ،ممکن ہے کہ اس وقت کسی وجہ سے وہ یہ دعویٰ پورا نہ کر سکیں ۔

قول اور فعل میں  تضاد نہیں  ہونا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ قول اور فعل میں  تضاد نہیں  ہونا چاہئے بلکہ اپنے قول کے مطابق عمل بھی کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ اس تضاد کی بہت سی صورتیں  ہیں  جیسے لوگوں  کو اچھی باتیں  بتانا لیکن خود ان پر عمل نہ کرنا ،یا کسی سے وعدہ کرنااور اس وقت یہ خیال کرنا کہ میں  یہ کام کروں  گا ہی نہیں ،صرف زبانی وعدہ کر لیتا ہوں ،وغیرہ یعنی ایک بات کہہ دیتا ہوں  لیکن پوری نہیں  کروں  گا۔ اَحادیث میں  ان چیزوں  کی خاص طور پر شدید مذمت اور وعید بیان کی گئی ہے ،چنانچہ جو لوگوں  کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں  اور خود برائیوں  میں  مبتلا رہتے ہیں  ان کے بارے میں  حضرت اسامہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن ایک شخص کولایاجائے گا،پھراسے دوزخ میں  ڈال دیاجائے گا،اس کی انتڑیاں  دوزخ میں  بکھرجائیں  گی اوروہ اس طرح گرد ش کررہاہوگاجس طرح چکی کے گرد گدھاگردش کرتاہے،جہنمی اس کے گرد جمع ہوکراس سے کہیں  گے :اے فلاں !کیابات ہے تم توہم کونیکی کی دعوت دیتے تھے اوربرائی سے منع کرتے تھے ۔وہ کہے گامیں  تم کونیکی کی دعوت دیتاتھالیکن خود نیک کام نہیں  کرتاتھااورمیں  تم کوتوبرائی سے روکتاتھامگرخودبرے کام کرتاتھا۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۶، الحدیث: ۳۲۶۷۔)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شب ِمعراج میراگزرایسے لوگوں  کے پاس سے ہواجن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں  سے کاٹے جارہے تھے ۔ میں  نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ  السَّلَام ،یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں  نے عرض کی :یہ آپ کی امت کے وہ وعظ کرنے والے ہیں  جووہ باتیں  کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں  کرتے تھے ۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب البیان والشعر، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۸، الحدیث: ۴۸۰۱)

            اور وعدہ خلافی کرنے والوں  کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ ،فرشتوں  اور تمام انسانوں  کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔( بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ،باب مایکرہ من التعمّق والتنازع فی العلم۔۔۔الخ،۴ / ۵۰۵،الحدیث:۷۳۰۰)

            یونہی آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو کام تم کرتے نہیں  ہو اس کے دعوے نہیں  کرو جیسے ایک آدمی غریبوں  کی مدد نہیں  کرتا لیکن دعویٰ یہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں  کی بہت مدد کرتا ہے تو یہ محض جھوٹا دعویٰ ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ یا ایک آدمی ایک کام کرنے کا دعویٰ کرے لیکن اسے پورا نہ کرے جیسے کہے کہ فلاں  جگہ کے غریبوں  کی اتنی مدد کروں  گا لیکن کہتے ہوئے دل میں  موجود ہو کہ عمل نہیں  کروں  گا تو گویا جو کہتے ہیں  وہ کرتے نہیں ۔

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  قول اور فعل کے تضاد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ: بیشک اللّٰہ ان لوگوں  سے محبت فرماتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں  سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں  جنگ کے دوران اس طرح صفیں  باندھ کر لڑتے ہیں  گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ،ان میں  ایک سے دوسرا ملا ہوا ،ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا اوردشمن کے مقابلے میں  سب کے سب ایک چیز کی طرح ہیں ۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۶۲، ملخصاً) مقصود یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کو بہادر مجاہد پسند ہیں  جو ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کریں  اور پیٹھ نہ دکھائیں ، اس زمانہ میں  چونکہ جہاد میں  صفیں  باندھی جاتی تھیں ، اس لئے یہاں  صف کا ذکر ہوا جبکہ ہمارے دورمیں  اب صفیں  باندھ کربھی جہاد کی صورت ہوسکتی ہے اور دوسرے طریقے سے بھی اور اب ہر وہ طریقہ اس میں  شامل ہوگا جس میں  ایک مفید نظم و ضبط ہو اورجو آپس میں  ایک دوسرے کی قوت و طاقت اور دوسروں  پر فتح کا ذریعہ بنے۔

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْؕ-فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا، اے میری قوم! مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں پھر جب وہ ٹیڑھے ہوئے تواللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ: اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی قوم کے سامنے وہ واقعہ بیان کریں  جب حضرت موسیٰ  عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا، اے میری قوم! آیات کا انکار کرکے اور میرے اوپر جھوٹی تہمتیں  لگا کر مجھے کیوں  ستاتے ہو حالانکہ تم یقین کے ساتھ جانتے ہو کہ میں  تمہاری طرف اللّٰہ تعالیٰ کا رسول ہوں  اور رسول کی تعظیم واجب ،ان کی توقیر اور احترام لازم ہے اور انہیں  ایذا دینا سخت حرام اور انتہا درجہ کی بدنصیبی ہے۔ پھر جب وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایذا دے کر راہ ِحق سے مُنْحَرِف اورٹیڑھے ہوئے تواللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اِتّباعِ حق کی توفیق سے محروم کرکے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں  کو ہدایت نہیں  دیتا جو اس کے علم میں  نافرمان ہیں ۔

             اس آیت میں  تنبیہ ہے کہ رسولوں  عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایذا دینا شدید ترین جرم ہے اور اس کے وبال سے دل ٹیڑھے ہوجاتے ہیں  اور آدمی ہدایت سے محروم ہوجاتا ہے۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۶۲، مدارک، الصف، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۳۷، ملتقطاً)

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا۔ } ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جب حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں  تمہاری طرف اللّٰہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق اور اللّٰہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں  اور مجھ سے پہلے تشریف لانے والے تمام انبیاء ِکرام  عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مانتا ہوں  اور اس عظیم رسول کی بشارت دیتاہوں جو میرے بعد تشریف لائیں  گے، ان کا نام احمد ہے۔‘‘اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر جب وہ احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں  اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں  نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۶۲، جلالین، الصف، تحت الآیۃ: ۶، ص۴۵۹، ملتقطاً)

حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشارت:

کثیر اَحادیث اور روایات میں  بھی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بشارت کا ذکر ہے،ان میں  سے تین روایات درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں نجاشی بادشاہ کے ملک میں  چلے جانے کا حکم فرمایا(جب ہم اس کے پاس گئے تو) نجاشی بادشاہ نے کہا: میں  گواہی دیتا ہوں  کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں  اور وہی رسول ہیں  جن کی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بشارت دی ،اگر مجھ پر اُمورِ سلطنت کی پابندیاں  نہ ہوتیں  تو میں  ان کی خدمت میں  حاضر ہو کر نعلین اٹھانے کی خدمت بجالاتا۔( ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی الصلاۃ علی المسلم یموت فی بلاد الشرک، ۳ / ۲۸۵، الحدیث: ۳۲۰۵)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’توریت میں  سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت مذکور ہے اور یہ بھی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کے پاس مدفون ہوں  گے۔ ابومودود نے کہا ہے کہ روضہِ اقدس میں  ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۵، الحدیث: ۳۶۳۷)

(3)… حضرت کعب احباررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حواریوں  نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: یَا رُوْحَ اللّٰہ !کیا ہمارے بعد اور کوئی امت بھی ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں،احمد مجتبیٰ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں  انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہوں  گے، اللّٰہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں  گے اور اللّٰہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی گا۔(خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۶۲)

اس آیت کی مناسبت سے یہاں  5باتیں  ذکر کی جاتی ہیں :

(1)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ماں  کی طرف نسبت کی گئی ، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر باپ پیدا ہوئے ہیں۔

(2)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  صرف بنی اسرائیل کے نبی ہیں  جبکہ ہمارے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سارے عالَم کے رسول ہیں ۔

(3)…حضورِ اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں  کیونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صرف آپ کی بشارت دی ہے۔

(4)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا اور کوئی نبی نہ آیا ۔

(5)… حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھاکیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا دیا گیا تھا۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جاتا ہو اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہ پر جھوٹ باندھے۔}اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس سے دین ِاسلام کی طرف بلائے جس میں  دونوں  جہاں  کی سعادت ہے اور وہ اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کی آیات کو جادو بتا کر اس پر جھوٹ باندھے ، اللّٰہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں  کو ہدایت کی توفیق نہیں  دیتا (کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے اَزلی علم سے جانتا ہے کہ کافر ہی رہیں  گے۔ )( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۶۳)

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ: وہ چاہتے ہیں  کہ اللّٰہ  کا نور اپنے مونہوں  سے بجھادیں ۔}  یعنی ان کا ارادہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو جادو بتا کر اسلام کو باطل کر دیں ( لیکن یہ اپنے ارادے میں  کبھی کامیاب نہ ہوں  گے کیونکہ) اللّٰہ تعالیٰ دین ِاسلام کو ہر صورت میں  غالب فرمائے گا اگرچہ کافروں  کو یہ بات ناپسند ہو۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۶۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین اور آپ کا نام چمکتا رہے گا خواہ دشمن کتنی ہی دشمنی کر لیں ۔آج بھی اس کا نظارہ ہو رہا ہے۔

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو ناپسند ہو ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ۔} یعنی وہی اللّٰہ ہے جس نے اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کے ذرائع قرآن اور معجزات اور اس سچے دین کے ساتھ بھیجا جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ان کی امت کے لئے منتخب فرمایا ہے تاکہ اسے سب دینوں  پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں  کو یہ غلبہ ناپسند ہو۔

چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کی عنایت سے دین ِاسلام غالب ہوا اور اس کے علاوہ تما م اَدیان اسلام سے مغلوب ہوگئے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نزول فرمائیں  گے تو روئے زمین پر اسلام کے سوا اور کوئی دین نہ ہوگا۔( روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۵۰۴، مدارک، الصف، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۳۷، ملتقطاً)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(10)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(11)یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ یُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! کیا میں ایسی تجارت پر تمہاری رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور پاکیزہ رہائش گاہوں میں جوہمیشہ رہنے کے باغوں میں ہیں ، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! کیا میں  تمہیں  وہ تجارت بتادوں  جو تمہیں  دردناک عذاب سے بچالے۔سنو،وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھنے میں  ثابت قدم رہو اور اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  اپنے مالوں  اور اپنی جانوں  کے ساتھ جہاد کرو، اگر تم اپنا حقیقی نفع جانتے ہو توایمان پر ثابت قدم رہنا اور جہاد کرنا تمہارے لیے جان ، مال اور ہر ایک چیز سے بہتر ہے اور اگر ایسا کرو گے تو اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دنیا میں  کئے ہوئے گناہ بخش دے گا اور قیامت کے دن تمہیں  ان باغوں  میں  داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں  اور پاکیزہ رہائش گاہوں  میں  داخل فرمائے گاجوہمیشہ رہنے کے باغوں  میں  ہیں  اوریہ جزا ملنا ہی بڑی کامیابی ہے۔( روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۹ / ۵۰۵-۵۰۶، خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴ / ۲۶۳، ملتقطاً)

            نوٹ:یاد رہے کہ ایمان کے بعد نماز کا درجہ ہے لیکن چونکہ اس وقت جہاد کی سخت ضرورت تھی اس کے لئے یہاں  ایمان کے بعد جہاد کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

            یہاں  اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی راہ میں  جان و مال سے جہاد کرنے کو تجارت سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ جس طرح تجارت سے نفع کی امید ہوتی ہے اسی طرح ان اعمال سے بہترین نفع یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی رضاجنت اور نجات حاصل ہوتی ہے۔

سورہِ صف کی آیت نمبر12سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… مجاہد کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں  حتّٰی کہ حقوق العباد بھی کہ رب تعالیٰ اس کے حق والے کو جنت دے کر راضی کر دے گا ۔ اور حق معاف کرادے گا۔

(2)…دنیا میں  امیر یا وزیر بن جانا بڑی کامیابی نہیں  بلکہ بڑی کامیابی یہ ہے کہ بندہ دنیا میں  نیکیاں  کر کے جنت اور وہاں  کی نعمتوں  کا مستحق ہو جائے ۔

وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَاؕ-نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ایک دوسری (نعمت تمہیں دے گا) جسے تم پسند کرتے ہو (وہ)اللہ کی مدد اور جلد آنے والی فتح (ہے) اور (اے حبیب!) مسلمانوں کو خوشخبری سنادو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا: اور ایک دوسری (نعمت تمہیں  دے گا)جسے تم پسند کرتے ہو۔}یعنی اے ایمان والو!اُخروی نعمتوں  مغفرت اور ثواب کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں  ہی ایک اور نعمت تمہیں  دے گا جسے تم پسند کرتے ہو اوروہ نعمت اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور جلد آنے والی فتح ہے اور اے محبوب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسلمانوں  کو دنیا میں  فتح کی اور آخرت میں  جنت کی خوشخبری سنادیں ۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۲۶۳، مدارک، الصف، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۳۷، ملتقطاً)

            نوٹ:اس آیت میں  فتح سے یافتح ِمکہ مراد ہے یا ا س سے فارس اور روم کے شہروں  کی فتح مراد ہے ۔دوسرے قول کے مطابق اس آیت میں  حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافتوں  کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انہی کے دور میں  فارس اور رُوم کے شہر فتح ہوئے،اس سے معلوم ہوا کہ ان کی خلافتیں  بر حق ہیں  اور ان کی فتوحات اللّٰہ تعالیٰ کو بہت پیاری ہیں  جن کی یہا ں  بشارت دی جا رہی ہے ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو!اللہ کے (دین کے) مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا تھا: کون ہیں جو اللہ کی طرف ہو کر میرے مدد گار ہیں ؟حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو وہ غالب ہوگئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ: اے ایمان والو! اللّٰہ کے (دین کے) مددگار بن جاؤ۔} اس آیت میں  مسلمانوں  کو دین کی مدد کرنے اور مخالفین کے ساتھ جہاد کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!اللّٰہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حواریوں  نے اس وقت اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی مدد کی تھی جب آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حواریوں  سے فرمایا تھا’’ کون ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف ہو کر میری مدد کریں  ؟حواریوں  نے عرض کی : ہم اللّٰہ تعالیٰ کے دین کے مددگار ہیں  تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا،ان دونوں  میں  جنگ ہوئی تو ہم نے ایمان والوں  کو ان کے دشمنوں  پر مدد دی تو ایمان والے غالب ہوگئے۔

آیت کے آخری حصے کی تفسیر میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان پر اُٹھالیے گئے تو ان کی قوم تین فرقوں  میں مُنْقَسَم ہوگئی ،ایک فرقے نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  کہا: وہ اللّٰہ تھا آسمان پر چلا گیا۔ دوسرے فرقے نے کہا : وہ اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا تھا اُس نے اپنے پاس بلالیا ۔تیسرے فرقے نے کہا: وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول تھے اُس نے اُٹھالیا۔ یہ تیسرے فرقے والے مومن تھے اور اِن کی اُن دونوں  فرقوں  سے جنگ رہی اور کافر گروہ اُن پر غالب رہے یہاں  تک کہ انبیاء کے سردار محمدمصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ظہور فرمایا ،اس وقت ایمان دار گروہ ان کافروں  پر غالب ہوا۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کے آخری حصے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کرنے سے حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں  کی مدد فرمائی،اس کی برکت سے یہ لوگ کافروں  پر غالب ہو گئے ۔( خازن، الصف، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۲۶۳-۲۶۴، جلالین، الصف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۵۹، مدارک، الصف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۲۳۸، ملتقطاً)

آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں،

(1)… مصیبت کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں  سے مدد مانگنا انبیاء ِکرام  عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے، یہ شرک نہیں  اور ’’اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کے خلاف نہیں ۔

(2)… عیسائیوں  کو نصاریٰ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء و اَجداد نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا تھا: ’’نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ‘‘۔

(3)…اللّٰہ تعالیٰ کے پیاروں  کی مدد کرنا درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا ہے، کیونکہ حواریوں  نے حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کی تھی مگر عرض کی کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے مدد گار ہیں ۔

Scroll to Top