سُوْرَۃُ المُنَافِقُون

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِۘ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَكٰذِبُوْنَ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں توکہتے ہیں ،ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک تم یقینا اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بیشک منافق ضرور جھوٹے ہیں 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ: جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں ۔} اس سورۂ مبارکہ میں  منافقین کے مختلف اَحوال بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جب منافق آپ کی بارگاہ میں  حاضر ہوتے ہیں  تواپنی دلی حالت کے برخلاف کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں  کہ بیشک آپ یقینا اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ان منافقوں  کے اس قول کے جواب میں  اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں  اور ان منافقوں  کے منہ سے جو بات نکلی وہ بالکل درست ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافق اِس گواہی دینے میں  ضرور جھوٹے ہیں  کیونکہ ان کا باطن ظاہر کے موافق نہیں  اور جو بات وہ کہتے ہیں  اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہیں۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۷۰، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۴۲، ملتقطاً)

اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(2)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا تو انہوں نے اللہ کے راستے سے روکا بیشک وہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں ۔یہ اس لیے ہے کہ وہ (زبان سے) ایمان لائے پھر (دل سے )کافر ہوگئے تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی تو اب وہ سمجھتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِتَّخَذُوْۤا اَیْمَانَهُمْ جُنَّةً: اور انہوں  نے اپنی قسموں  کوڈھال بنالیا ۔} یعنی منافقوں  نے اپنی قسموں  کو ڈھال بنالیا ہے تاکہ وہ ان کے ذریعے قتل اورقید کئے جانے سے محفوظ رہیں ،یہ زبان سے تو قسمیں  کھاتے ہیں  لیکن ان کا عمل یہ ہے کہ لوگوں  کو طرح طرح کے وسوسے اور شُبہے ڈال کرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرنے سے روکتے ہیں ،بیشک وہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں  کہ نفاق سے آپ کی بارگاہ میں  آتے، دھوکہ دینے کے لئے ایمان کاا ظہار کرتے،لوگوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے اور ایمان کے مقابلے میں  کفر کو اختیار کرتے ہیں ۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۷۱، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۴۲، ملتقطاً)

{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا : یہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ } یعنی منافقوں  کے یہ برے اعمال اس لیے ہیں  کہ وہ زبان سے ایمان لائے پھر وہ دل سے کافر ہو گئے اور ان کے دل کا کفر لوگوں  پر ظاہر ہو گیا، منافقوں  کی ان حرکتوں  کی وجہ سے ان کے دلوں  پر مہرلگا دی گئی ہے تو اب ان کے دلوں  میں  ایمان کیسے داخل ہو۔

وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب تم انہیں دیکھتے ہو توان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم ان کی بات غور سے سنو گے( حقیقتاً وہ ایسے ہیں ) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں ،وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں ، وہی دشمن ہیں تو ان سے محتاط رہو ، اللہ انہیں مارے ،یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ: اور جب تم انہیں  دیکھتے ہو توان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں ۔} عبد اللّٰہ بن ابی صحت مند، خوبْرُو اورخوش بیان آدمی تھا اور اس کے ساتھ والے منافقین قریب قریب ویسے ہی تھے،جب یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس شریف میں  حاضر ہوتے تو خوب باتیں  بناتے جو سننے والے کو اچھی معلوم ہوتی تھیں ،چنانچہ اس آیت میں  مسلمانوں  کو ان کی حقیقت بتائی گئی کہ اے مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللّٰہ بن اُبی وغیرہ کودیکھتے ہو توان کے جسم تمہیں  اچھے لگتے ہیں  اور اگر وہ بات کریں  تو تم ان کی بات غور سے سنو گے حالانکہ حقیقت میں  وہ ایسے ہیں  جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں  جن میں  بے جان تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے ،وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھتے لیتے ہیں  اور جب کوئی کسی کو پکارتا ہے، یا اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈھتا ہے یا لشکر میں  کسی مقصد کیلئے کوئی بات بلند آواز سے کہتا ہے تو یہ اپنے نفس کی خباثت اور برے گمان کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں  کہ انہیں  کچھ کہا گیا اور انہیں  یہ اندیشہ رہتا ہے کہ اُن کے حق میں  کوئی ایسا مضمون نازل ہوا ہے جس سے اُن کے راز فاش ہوجائیں  گے ،وہ دشمن ہیں  ، اپنے دل میں  شدید عداوت رکھتے ہیں  اور کفار کے پاس یہاں  کی خبریں  پہنچاتے اور اُن کے لئے جاسوسی کرتے ہیں تو ان سے بچتے رہو اور ان کے ظاہری حال سے دھوکا نہ کھاؤ، اللّٰہ انہیں  مارے ،یہ کہاں  اوندھے جاتے ہیں  اورروشن دلیلیں  قائم ہونے کے باوجود حق سے مُنْحَرِف ہوتے ہیں ۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۷۱، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۴۳، ملتقطاً)

            یہاں  آیت کی مناسبت سے ان لوگوں  کے بارے میں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں  جن کی زبان اور دل آپس میں  مختلف ہوں  گے۔

(1)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’آخری زمانے میں  کچھ لوگ ہوں  گے جو دھوکہ اور فریب کے ساتھ دین کے ذریعے دنیا کمائیں  گے ،لوگوں  کو نرمی دکھانے کے لئے بھیڑ کی کھال پہنیں  گے ،ان کی زبانیں  شَکر سے زیادہ میٹھی ہوں  گی اور ان کے دل بھیڑیوں  کے دل(کی طرح )ہوں  گے، اللّٰہ تعالیٰ (ان سے ) فرمائے گا’’کیا تم میرے ساتھ دھوکہ کرتے ہو یا مجھ پر جرأت کرتے ہو،مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں  ان لوگوں  پر ان ہی میں  سے ضرور فتنہ بھیجوں  گا جو ان میں  سے سمجھ دار لوگوں  کو بھی حیران اور پریشان کر دے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۶۰-باب،۴ / ۱۸۱، الحدیث: ۲۴۱۲)

(2)…حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’میرے بندوں  میں  کچھ لوگ ایسے ہوں  گے جو لوگوں  کے سامنے تو بھیڑ کی کھال پہنیں  گے جبکہ ان کے دل ایلوا(نام کی جڑی بوٹی) سے بھی زیادہ کڑوے ہوں  گے اور ان کی زبانیں  شہد سے زیادہ میٹھی ہوں  گی ،وہ لوگوں  کو اپنے دین کے ذریعے دھوکہ دیں  گے،کیا وہ مجھے دھوکہ دے رہے ہیں  یا مجھ پر جرأت کرتے ہیں ،مجھے اپنی قسم ہے ،میں  ان میں  ایسا فتنہ بھیجوں  گا جو ان میں  حکیم شخص کو حیران کر چھوڑے گا۔( ابن عساکر، ذکر من اسم ابیہ سلیمان، ۶۴۱۶- محمد بن سلیمان بن ابی داود۔۔۔ الخ، ۵۳ / ۱۲۱)

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَ رَاَیْتَهُمْ یَصُدُّوْنَ وَ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ تاکہ اللہ کے رسول تمہارے لیے معافی چاہیں تو وہ اپنے سر گھما لیتے ہیں اور تم انہیں دیکھو گے کہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا: اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ ۔} شانِ نزول: غزوہِ مریسیع سے فارغ ہو کر جب نبیٔ  کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سرِ راہ قیام فرمایا تو وہاں  یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اجیر جہجاہ غفاری اور عبد اللّٰہ بن اُبی کے حلیف سنان بن دبرجُہَنی کے درمیان لڑائی ہوگئی، جہجاہ نے مہاجرین کو اور سنان نے انصار کو پکارا،  اس وقت عبد اللّٰہ بن اُبی منافق نے حضورِاقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  بہت گستاخانہ اور بے ہودہ باتیں  بکیں  اور یہ کہا کہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہم میں  سے عزت والے ذلیلوں  کو نکال دیں  گے ،اور اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اگر تم انہیں  اپنا جوٹھا کھانا نہ دو تو یہ تمہاری گردنوں  پر سوار نہ ہوں ، اب ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ مدینہ سے بھاگ جائیں ۔  اس کی یہ ناشائستہ گفتگو سن کرحضرت زید بن ارقم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اِس بکواس کی برداشت کی تاب نہ رہی اور اُنہوں  نے اس سے فرمایا : خدا کی قسم! تو ہی ذلیل اور اپنی قوم میں  بغض ڈالنے والا ہے جبکہ سرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کو اللّٰہ تعالیٰ نے عزت و قوت دی ہے اور آپ مسلمانوں  کے محبوب ہیں۔ عبد اللّٰہ بن اُبی کہنے لگا: چپ ہو جاؤ، میں  تو ہنسی مذاق کے طور پر یوں  کہہ رہا تھا۔حضرت زید بن ارقم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے یہ خبر حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  پہنچائی تو حضرت عمر  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عبد اللّٰہ بن اُبی کے قتل کی اجازت چاہی،نبیٔ  کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع کر دیا اور ارشادفرمایا ’’ لوگ کہیں  گے کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اپنے ہی ساتھیوں  کو قتل کردیتے ہیں ۔ حضورِ انور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے عبد اللّٰہ بن اُبی سے دریافت فرمایا کہ تو نے یہ باتیں  کہیں  تھیں  ؟وہ مکر گیا اور قسم کھا گیا کہ میں  نے کچھ بھی نہیں  کہا ،اس کے ساتھی جو مجلس شریف میں  حاضر تھے وہ عرض کرنے لگے کہ عبد اللّٰہ بن اُبی بوڑھا شخص ہے، یہ جو کہتا ہے ٹھیک ہی کہتا ہے،حضرت زید بن ارقم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شاید دھوکا ہوا اور بات یاد نہ رہی ہو ۔پھر جب اُوپر کی آیتیں  نازل ہوئیں  اور عبد اللّٰہ بن اُبی کا جھوٹ ظاہر ہوگیا توا س سے کہا گیا کہ جااورجاکرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کر کہ وہ تیرے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے معافی چاہیں ، یہ سن کر اس نے گردن پھیری اور کہنے لگا کہ تم نے کہا: ایمان لا تو میں  ایمان لے آیا ،تم نے کہا :زکوٰۃ دے تو میں  نے زکوٰۃ دی ،اب یہی باقی رہ گیا ہے کہ محمد مصطفٰی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سجدہ کروں ، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب منافقوں  کا جھوٹ ظاہر ہونے کے بعد نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا جائے کہ تم آؤ تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول تمہارے لیے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کریں  کہ وہ اپنے لطف و کرم سے تمہارے گناہ بخش دے اور تمہارے عیبوں  پر پردہ ڈال دے تو وہ اس سے اِعراض کرتے ہوئے اپنے سروں  کودوسری طرف گھمالیتے ہیں  (اوراے مسلمانو!) تم انہیں  دیکھو گے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضری سے تکبُّر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں ۔(خازن، المنافقون، تحت الآیۃ : ۵، ۴ / ۲۷۱، مدارک، المنافقون ، تحت الآیۃ : ۵، ص۱۲۴۴ ، روح البیان، المنافقون، تحت الآیۃ: ۵، ۹ / ۵۳۵، ملتقطاً)

سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کے حق میں برابر ہے کہ تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو اللہ انہیں ہر گز نہیں بخشے گا، بیشک اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ: ان کے حق میں  برابر ہے کہ تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آ پ کا ان کیلئے استغفار کرنا اور نہ کرنا ان کے حق میں  برابر ہے، اللّٰہ تعالیٰ انہیں  ہر گز نہیں  بخشے گاکیونکہ وہ نفاق میں  راسخ اور پختہ ہوچکے ہیں ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں  کو ہدایت نہیں  دیتا جو ا س کے علم میں  نافرمان ہیں ۔

             یہ ارشاد اسی وقت تھا جب منافقوں  کے لئے دعائے مغفرت کرنا ممنوع نہ تھا،بعد میں  اس سے منع فرمادیا گیا ہے، لہٰذا اب منافقوں  اور کافروں  کے لئے مغفرت کی دعا کرنا منع ہے بلکہ کافر کیلئے دعائے مغفرت کرنا کفر ہے۔

هُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى یَنْفَضُّوْاؕ-وَ لِلّٰهِ خَزَآىٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَهُوْنَ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان پر خرچ نہ کرو جو رسولُ اللہ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ ادھر ادھر ہو جائیں حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کی ملک ہیں مگر منافق سمجھتے نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: وہی ہیں  جو کہتے ہیں  ۔} یعنی منافقین وہی ہیں  جو لوگوں  سے یہ کہتے ہیں  کہ  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس موجود مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر خرچ نہ کروتا کہ وہ غریبی سے پریشان ہوکرخود ہی ادھر ادھر ہو جائیں  اور آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نہ رہیں ، حالانکہ آسمانوں  اور زمین کے تمام خزانوں  کا اللّٰہ تعالیٰ ہی مالک ہے اوردر حقیقت وہی سب کو رزق دینے والا ہے،اگر لوگ ان پر خرچ کرنا بند کر دیں  گے تو کیا ہوا، اللّٰہ تعالیٰ انہیں  رزق عطا فرمائے گا، مگر منافق یہ بات سمجھتے نہیں  اسی لئے وہ ایسی واہیات بکتے ہیں ، نیزانہیں  ابھی تک صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ایمان کی پختگی کا حال معلوم نہیں  کہ وہ کسی بھی حال میں  حضورِ اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہیں  چھوڑ سکتے اور وہ یہ بات جانتے ہیں  کہ ان کا رزق بندوں  پر نہیں  بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ذمہِ کرم پر ہے اور وہ اپنے رب  عَزَّوَجَلَّ پرکامل بھروسہ رکھتے ہیں ۔

            آج کے بہت سے بدمذہب بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں  کہ حضورِ اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کے مالک نہیں  حالانکہ کثیر اَحادیث اس پر دلالت کرتی ہیں  کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے مالکِ کل ہیں  ،یہاں  ان میں  سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں  تقسیم کرنے والا ہوں  اور اللّٰہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱)

(2)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے زمین کے خزانوں  کی چابیاں  عطا کی گئی ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)

یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَقُوْلُوْنَ: وہ کہتے ہیں ۔} یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں  سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا۔ منافقوں  نے اپنے آپ کو عزت والا کہا  اورمسلمانوں  کو ذلت والا ،اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں  ہی کے لیے ہے مگر منافقوں  کو معلوم نہیں ،اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۷۴)

عبد اللّٰہ بن اُبی منافق کے بیٹے کا عشق رسول:

عبداللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبداللّٰہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ،جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے :اس وقت تک مدینہ میں  داخل ہونے نہیں  دوں  گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کابرتاؤ کرنے والے تھے مگر حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں  باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں  نہ رہی۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں  ذلیل ہوں  اور محمد مصطفٰی  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں  داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، غزوۃ بنی المصطلق،۲ / ۳۹۳، مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲ / ۱۵۷، ملتقطاً)

آیت’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے 4 مسئلے معلوم ہوئے،

(1)… ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے۔

(2)… مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔

(3)… مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے۔

(4)… جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے۔

 نفاق کی اَقسام اور عملی منافقوں  کی علامات:

منافقوں  کا بیان ختم ہوا،اب یہاں  نفاق کی اَقسام اور عملی منافقوں  کی علامات کے بیان پر مشتمل 3اَحادیث ملاحظہ ہو ں ،چنانچہ نفاق کے بارے میں  بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں: نفاق کہ زبان سے دعویٔ اسلام کرنا اور دل میں  اسلام سے انکار، یہ بھی خالص کفر ہے، بلکہ ایسے لوگوں  کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ اقدس میں  کچھ لوگ اس صفت کے اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے کہ ان کے کفرِ باطنی پر قرآن ناطق ہوا، نیز نبی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اپنے وسیع علم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرما دیا کہ یہ منافق ہے۔اب اِس زمانہ میں  کسی خاص شخص کی نسبت قطع(یعنی یقین) کے ساتھ منافق نہیں  کہا جاسکتا، کہ ہمارے سامنے جو دعویٔ اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں  گے، جب تک اس سے وہ قول یا فعل جو مُنافی ٔایمان ہے نہ صادر ہو، البتہ نفاق کی ایک شاخ اِس زمانہ میں  پائی جاتی ہے کہ بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں  اور دیکھا جاتا ہے تو دعویٔ اسلام کے ساتھ ضروریاتِ دین کا انکار بھی ہے۔( بہار شریعت، حصہ اول، ایمان وکفر کابیان، ۱ / ۱۸۲)

اور عملی نفاق کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرے جو مسلمانوں  کے شایانِ شان نہ ہو بلکہ منافقین کے کرتوت ہوں ۔یہاں  ان میں  سے دواَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کہ جس میں  چارعیوب ہوں  وہ خالص منافق ہے اورجس میں  ان چار میں  سے ایک عیب ہو تو اس میں  منافقت کا  عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے(1) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے،(2)جب بات کرے توجھوٹ بولے،(3)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے،(4)جب لڑائی کرے تو گالیاں  بکے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۴)

(2) …حضرت عبد الرحمٰن بن حرملہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے اور منافقوں  کے درمیان فرق عشاء اور صبح کی نماز میں  حاضر ہونا ہے ،منافقین ان دونوں  نمازوں  (میں  حاضر ہونے )کی اِستطاعت نہیں  رکھتے ۔( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء من التشدید فی ترک الجماعۃ من غیر عذر،۳ / ۸۳،الحدیث:۴۹۵۳)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  نفاق سے اور منافقوں  جیسے کام کرنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو! } اس سے پہلی آیات میں  منافقوں  کے اَحوال بیان کئے گئے اور اب یہاں  سے ایمان والوں  کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے ایمان والو! منافقوں  کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں  اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جوایسا کرے گا کہ دنیا میں  مشغول ہو کر دین کو فراموش کردے گا، مال کی محبت میں  اپنے حال کی پروا ہ نہ کرے گا اور اولاد کی خوشی کیلئے آخرت کی راحت سے غافل رہے گاتو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں  کیونکہ اُنہوں  نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھرکی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کی۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۷۴، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۴۵، ملتقطاً) یہاں  آیت کی مناسبت سے دنیا کے مال سے متعلق ایک حدیث ِپاک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت حکیم بن حزام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :میں  نے رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کچھ مال کا سوال کیااور بہت اِلتجاء کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اے حکیم! تمہارا اتنی کثرت سے سوال کرنا کیا ہے ؟اے حکیم!بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے اور ا س کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں  کے ہاتھوں  کا میل ہے،اللّٰہ تعالیٰ کا ہاتھ دینے والے کے ہاتھ کے اوپر ہوتا ہے اور دینے والے کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے اوپر ہوتا ہے جسے دیا گیا اور جسے دیا گیا اس کا ہاتھ سب سے نیچے ہوتا ہے۔( مسند امام احمد، مسند المکیین، مسند حکیم بن حزام، ۵ / ۲۲۸، الحدیث: ۱۵۳۲۱)

وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو کہ تم میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ: اور ہم نے تمہیں  جو رزق دیا اس سے کچھ (ہماری راہ میں ) خرچ کرلو۔} یعنی اے ایمان والو!ہم نے تمہیں  جورزق دیااس میں  جو صدقات واجب ہیں  انہیں  ادا کرواور یہ کام موت کی علامات ظاہر ہونے اور زبان بند ہو جانے سے پہلے پہلے کر لوتاکہ ایسا نہ ہو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو وہ دل میں  کہنے لگے، اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی تاکہ میں  صدقہ دیتا اور نیک لوگوں میں  سے ہوجاتا۔

وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا: اور ہرگز اللّٰہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا مقررہ وقت آجائے۔} یعنی یاد رکھو کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کا وعدہ آجائے گا تو وہ ہر گز کسی جان کو مہلت نہ دے گا اور اللّٰہ تعالیٰ تمہارے تمام کاموں  سے خبردار ہے ،وہ تمہیں  ان کی جزا دے گا۔

            یاد رہے کہ یہاں  آیت میں  وعدے سے وہ وعدہ مراد ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ، جسے قضاء ِمُبْرَم کہتے ہیں ،اسی کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’ اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ‘‘(یونس:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب وہ مدت آجائے گی تووہ لوگ ایک گھڑی نہ تو اس سے پیچھے ہٹ سکیں  گے اور نہ آگے ہوسکیں  گے۔

            لیکن قضاء ِمُعَلَّق میں  تبدیلی واقع ہو سکتی ہے، آئی ہوئی موت ٹل جاتی ہے، عمریں  بڑھ جاتی ہیں ، اسی کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔

’’ یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ‘‘(رعد:۳۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور برقراررکھتا ہے اور اصل لکھا ہوا اسی کے پاس ہے۔

            شیطان نے جویہ عرض کیا تھا کہ

’’رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘‘(حجر:۳۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! تو مجھے اس دن تک مہلت دیدے جب لوگ اٹھائے جائیں ۔

            اور اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا تھا

’’فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ‘‘(حجر:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس بیشک توان میں  سے ہے جن کومہلت دی گئی ہے۔

          یہ بھی اسی قضاء ِمُعَلَّق میں  داخل ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ ہر آیت اپنے اپنے موقع محل کے اعتبار سے درست ہے ۔

Scroll to Top