سُوْرَۃُ الشَّمْس

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا(1)وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

سورج اور اس کی روشنی کی قسم۔اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا: سورج اور اس کی روشنی کی قسم۔} یعنی سور ج کی قسم جبکہ اس کی روشنی ظاہر ہو۔اس سورت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی عظمت اور معبود ہونے میں  اپنی وحدانیّت کا اظہار کرنے کے لئے متعدد چیزوں  کی قسم ارشاد فرمائی ہے اور یہ چیزیں  ایسی ہیں  کہ ان کے ساتھ مخلوق کے عظیم مَنافع وابستہ ہیں  اور ان میں  غور و فکر کر کے ہر انسان اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت کے بارے میں  جان سکتا ہے۔( خازن ، الشّمس ، تحت الآیۃ : ۱، ۴ / ۳۸۱، صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۳۶۹، تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۷۳، ملتقطاً)

{وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا: اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔} یعنی چاند کی قسم جب وہ سورج غروب ہونے کے بعد نکل آئے ۔

وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا(3)وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور دن کی جب وہ سورج کو چمکائے۔اور رات کی جب وہ سورج کو چھپادے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا: اور دن کی جب وہ سورج کو چمکائے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دن کی قسم جب وہ سورج کو خوب واضح کر دے۔ کیونکہ دن سورج کے نور کا نام ہے تو جتنا دن زیادہ روشن ہوگا اتنا ہی سورج کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اثر کی قوت اور اس کا کمال اثر کرنے والے کی قوت اور کمال پر دلالت کرتاہے لہٰذا دن سورج کو ظاہر کر دیتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ دن کی قسم جب دن دنیا کو یا زمین کو روشن کردے یا رات کی تاریکی کو دور کردے۔( تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۳، ۱۱ / ۱۷۴-۱۷۵، خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۸۱، ملتقطاً)

{وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىهَا: اور رات کی جب وہ سورج کو چھپادے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ رات کی قسم جب وہ سورج کو چھپادے اور آسمان کے کنارے ظلمت و تاریکی سے بھر جائیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ رات کی قسم کہ جب رات دنیا کو چھپائے۔

            یہاں  تک جو چار چیزیں  بیان ہوئیں یہ سب در حقیقت سورج کے چار اوصاف ہیں  کیونکہ سورج کے وجود سے ہی دن ہوتا ہے اور روشنی خوب واضح ہو جاتی ہے اور سورج کے غروب ہونے سے ہی رات ہوتی ہے اور ا س کے بعد چاند نکل آتا ہے اور جو شخص سورج میں  تھوڑا سا بھی غور کرے گا اور دل کی آنکھ سے ا س کی بناوٹ اور تخلیق وغیرہ کا مشاہدہ کرے گا تو وہ ا س کے خالق کی عظمت کو جان لے گا۔ (خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۸۱-۳۸۲،  تفسیرکبیر، الشّمس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۱ / ۱۷۵، ملتقطاً)

وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا(5)وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا: اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم۔} یعنی آسمان کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے انتہائی بڑا اور نہایت بلند بنایا ہے اور اسے بنانے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ (روح البیان، الشّمس، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۴۴۲)

{وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا: اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم۔} یعنی زمین کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے پانی پر پھیلایا تاکہ زمین پر موجود جانداروں  کے لئے اس پر زندگی گزارنا ممکن ہو۔ (روح البیان، الشّمس، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۴۴۲، ملخصاً)

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا(7)فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا: اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جان کی اور اس کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا اور اسے کثیرقوتیں  عطا فرمائیں  جیسے بولنے کی قوت،سننے کی قوت، دیکھنے کی قوت اور فکر، خیال ،علم ،فہم سب کچھ عطا فرمایا پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں  ڈالی اور اچھائی برائی،نیکی اور گناہ سے اسے باخبر کردیا اور نیک و بد کے بارے میں  بتادیا۔( خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۳۸۲)

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی ایک دعا:

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (تلاوت کرتے ہوئے) ان آیات ’’وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا‘‘ پر پہنچتے تو رک جاتے، پھر فرماتے ’’اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرٌ مَّنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما،اس کو پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے ،تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔( معجم الکبیر،عمرو بن دینار عن ابن عباس،۱۱ / ۸۷،الحدیث:۱۱۱۹۱،روح البیان،الشّمس،تحت الآیۃ:۸،۱۰ / ۴۴۳)

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(9)وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاﭤ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا: بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں  چند چیزوں  کی قَسمیں  ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں  میں  چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۶ / ۲۳۷۰)

نفس کو برائیوں  سے پاک کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے

            اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں  میں  چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں  سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کی جائے اوراطاعت کرنے والوں  کے بارے اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ‘‘(النور:۵۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللّٰہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(احزاب:۷۱)

ترمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔

            لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں  سے پاک کرے ۔

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا(11)اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا(12)فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاﭤ(13)فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَاﭪ–فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا(14)وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔جس وقت ان کا سب سے بڑابدبخت آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔تو اللہ کے رسول نے ان سے فرمایا :اللہ کی اونٹنی اور اس کی پینے کی باری سے بچو ۔تو انہوں نے اسے جھٹلایا پھر اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں تو ان پر ان کے رب نے ان کے گناہ کے سبب تباہی ڈال کر ان کی بستی کو برابر کردیا۔اور اسے ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا: قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیات میں  کئی قَسموں  سے اطاعت گزار کی کامیابی اور نافرمان کی ناکامی کو بیان کیا گیا،اب یہاں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ایک رسول اور ان کی نافرمانی کرنے والوں  کا حال بیان کیا ہے تاکہ کفارِ مکہ پر واضح ہو جائے کہ جس طرح حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ان کی قوم ہلاک کر دی گئی تو اسی طرح رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے انہیں  بھی ہلاک کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے اپنے رسول حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس وقت جھٹلایا جب ان کا سب سے بڑابدبخت آدمی قدار بن سالف ان سب کی مرضی سے اونٹنی کی کو چیں  کاٹنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ کے رسول حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم اللّٰہ تعالیٰ کی اونٹنی کے درپے ہونے سے بچو اور جو دن اس کے لئے پانی پینے کا مقرر ہے اس دن پانی نہ لو تاکہ تم پر عذاب نہ آئے۔تو انہوں  نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا، پھر اونٹنی کی کونچیں  کاٹ دیں  تو ان پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے، ان کے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر اور ان کی بستی کو برابر کرکے سب کو ہلاک کردیا اوران میں  سے کوئی باقی نہ بچا اور اللّٰہ تعالیٰ کو ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں  جیسا بادشاہوں  کو ہوتا ہے کیونکہ وہ سب بادشاہوں  کا بادشاہ ہے ،وہ جو چاہے کرے اور کسی کو ا س کے آگے دَم مارنے کی مجال نہیں ۔ (صاوی ، الشّمس ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۵ ، ۶ / ۲۳۷۰-۲۳۷۱ ، ابو سعود، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۵، ۵ / ۸۷۵- ۸۷۶، خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۵، ۴ / ۳۸۲-۳۸۳، ملتقطاً)

{وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا: اور اسے ان کے پیچھا کرنے کا خوف نہیں ۔} بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بھی بیا ن کئے ہیں  کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان میں  سے کسی کا خوف نہیں  کہ عذاب نازل ہونے کے بعد وہ انہیں  ایذا پہنچاسکے۔ (خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۸

Scroll to Top