سُوْرَۃُ البَيِّنَة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ مُنْفَكِّیْنَ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ الْبَیِّنَةُ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

کتابی کافر اور مشرک (اپنا دین) چھوڑنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل نہ آئے

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ مُنْفَكِّیْنَ: کتابی کافر اور مشرک (اپنا دین) چھوڑنے والے نہ تھے۔} یعنی کتابی کافر یہودی اور عیسائی اور مشرک بت پرست اپنا دین چھوڑنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  جلوہ افروز نہ ہوں کیونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے یہ تمام لوگ یہی کہتے تھے کہ ہم اپنا دین چھوڑنے والے نہیں  جب تک کہ وہ نبی تشریف فرما نہ ہوں  جن کا ذکر توریت اور انجیل میں  ہے اور جب وہ نبی تشریف لائے اور انہوں  نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو اُن میں  سے کچھ لوگ اِن پر ایمان لائے اور کچھ نے اِن کے ساتھ کفر کیا۔( خازن، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۸، صاوی، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۴۰۳-۲۴۰۴، ملتقطاً)

سورہِ بَیِّنَہ کی آیت نمبر1سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… اگرچہ اہلِ کتاب اور مشرکین سب ہی کافر ہیں  مگر چونکہ اہلِ کتاب کو کسی پیغمبر اور کتاب سے نسبت ہے اس لئے ان کے اَحکام نرم ہیں اور اگر یہ ایمان قبول کریں تو انہیں  د گنا ثواب ملتا ہے، جب کتاب اور پیغمبر سے نسبت کفار کو اتنا فائدہ دے دیتی ہے تو جس مومن کو حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور قرآن سے خصوصی نسبت ہو جائے تو اس کا کیا عالَم ہوگا۔

(2)… حضورِاَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایسی قوم کو درست فرمایا کہ جس کی اصلاح بظاہر نا ممکن تھی۔

(3)… آسمانی کتابوں  پر عمل ان کے مَنسوخ ہونے سے پہلے ہدایت تھا اور ان کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر عمل گمراہی ہو گیا۔

رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً(2)فِیْهَا كُتُبٌ قَیِّمَةٌﭤ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

(یعنی)اللہ کا رسول جو پاک صحیفوں کی تلاوت فرماتا ہے ۔ان صحیفوں میں سیدھی باتیں لکھی ہوئی ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ: (یعنی) اللّٰہ کا رسول۔} یعنی وہ روشن دلیل اللّٰہ تعالیٰ کے انتہائی شاندار رسول ہیں  جو کہ سب صحیفوں  کے مضامین کی جامع پاک کتاب قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں ۔( خازن، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۹۹)

             قرآنِ مجید ہر طرح سے پاک ہے کہ پاک جگہ سے پاک فرشتوں  کے ذریعے پاک نبی پر آیا، پھر ہمیشہ پاک زبانوں  ، پاک سینوں  ، پاک ہاتھوں  میں  رہے گا، نیز ملاوٹ اورردوبدل سے محفوظ ہے ۔نیز یہ بھی یادرہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تلاوت معجزہ ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے مخلوق میں  سے کسی سے سیکھے بغیر قرآن پڑھا اورپڑھا یا، سمجھا اور سمجھایا جبکہ ہماری تلاوت معجزہ نہیں  کیونکہ ہم حافظ ،قاری اورعالم وغیرہ سے قرآنِ پاک کی تلاوت، قرآت،اس کے اَحکام اور اَسرار سیکھتے ہیں ۔

{فِیْهَا كُتُبٌ قَیِّمَةٌ: ان صحیفوں  میں  سیدھی باتیں  لکھی ہوئی ہیں ۔} یعنی ان صحیفوں  میں  حق اور عدل کی سیدھی باتیں  لکھی ہوئی ہیں  جو درستی اور اصلاح پر دلالت کرتی ہیں ۔( مدارک، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۶، سمرقندی، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۴۹۹، ملتقطاً)

وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنَةُﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورجن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے (آپس میں ) تفرقہ نہ ڈالا مگر اس کے بعدکہ وہ روشن دلیل ان کے پاس آچکی تھی ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ: اور پھوٹ نہ پڑی کتاب والوں  میں ۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ پہلے سے تو سب اس بات پر متفق تھے کہ جب وہ نبی تشریف لائیں  گے جن کی بشارت دی گئی ہے تو ہم ان پر ایمان لائیں  گے لیکن جب وہ نبی مکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جلوہ افروز ہوئے تو ان میں  پھوٹ پڑ گئی اور ان میں  سے بعض آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لائے اور بعض نے حسد اور عناد کی وجہ سے کفر اختیار کیا۔( خازن، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۹۹، مدارک، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۶۶، ملتقطاً)

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳔ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی عبادت کریں ، اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ، ہر باطل سے جدا ہوکر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہ سیدھا دین ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ: اور ان لوگوں  کو تو یہی حکم ہوا کہ اللّٰہ کی عبادت کریں ۔} یہاں  سے یہ بیان کیا جا رہا کہ یہودیوں  اور عیسائیوں  کو تورات و انجیل میں  کیا حکم دیا گیا تھا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں  کو تورات اور انجیل میں  تو یہی حکم ہوا کہ تمام دینوں  کو چھوڑ کر خالص اسلام کے پیروکار ہو کر اخلاص کے ساتھ اور شرک و نفاق سے دور رہ کر صرف اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور فرض نماز کو ا س کے اَوقات میں  قائم کریں  اور ان کے مالوں  میں  جو زکوٰۃ فرض ہو اسے دیں  یہ سیدھا دین ہے۔( خازن، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۹۹، مدارک، البیّنۃ، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۶، ملتقطاً)

آیت’’وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…کفار اس بات کے پابند ہیں  کہ وہ اسلام قبول کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔

(2)…دین میں  عقائد اور اعمال دونوں  ہی ضروری ہیں ۔

(3)…وہی عمل مقبول ہے جس میں  خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کی گئی ہو۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ تمہاری شکلوں  اور تمہارے مالوں  کی طرف نہیں  دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں  اور تمہارے اعمال کو دیکھتا کرتا ہے۔( مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ… الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِﭤ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اہلِ کتاب میں سے جو کافر ہوئے وہ اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق میں سب سے بدتر ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: بیشک اہلِ کتاب میں  سے جو کافر ہوئے۔} اس سے پہلے کافروں  کا دُنْیَوی حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے کافروں  کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے اور اہلِ کتاب کے ساتھ مشرکوں  کا ذکر اس لئے کیا گیا تاکہ انہیں  یہ وہم نہ ہو کہ آیت میں  بیان کیا گیا حکم صرف اہلِ کتاب کے ساتھ خاص ہے۔( روح البیان، البینۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۴۸۹)

آیت’’ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 4 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)…اہلِ کتاب میں  سے وہ لوگ جو اللّٰہ تعالیٰ کو مانتے اور ا س کی عبادت تو کرتے تھے لیکن انہوں  نے اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نبوت کو نہ مانا اور ان کی عزت و تَوقیر نہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  کافر قرار دیا بلکہ یہاں  تومشرکین سے پہلے اُن کے عذاب کا ذکر کیا۔

(2)…کافر چاہے کتابی ہو یا مشرک جہنم میں  ہمیشہ رہے گا اگرچہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کے عذاب کی نَوعِیَّت جدا ہو۔

(3)… کفر جہنم میں  داخل ہونے کا یقینی سبب ہے ۔

(4)… کافر اگرچہ کتنی ہی بڑی کوئی خدمت انجام دے رہا ہو وہ بد تر ہی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِﭤ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے وہی تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ: وہی تمام مخلوق میں  سب سے بہتر ہیں ۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں  نے نیک عمل کئے تو وہ فرشتوں  سے بھی افضل ہیں  کیونکہ تمام مخلوق میں  فرشتے بھی داخل ہیں  البتہ ا س میں  تفصیل یہ ہے کہ انسانوں  میں  سے جو حضرات نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہوئے وہ تمام فرشتوں  سے افضل ہیں  جبکہ فرشتوں  میں  جو رسول ہیں  وہ اولیاء اور علماء سے افضل ہیں  (اور اولیاء و علماء عام فرشتوں  سے افضل ہیں ) جبکہ عام فرشتے گناہگار مومنین سے افضل ہیں  کیونکہ فرشتے گناہوں  سے معصوم ہوتے ہیں ۔( روح البیان، البینۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۴۹۰، شرح فقہ اکبر،  ص۱۱۸، ملتقطاً)

جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

ان کا صلہ ان کے رب کے پاس بسنے کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ،یہ صلہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ: ان کا صلہ ان کے رب کے پاس ۔ } یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے اچھے عمل کئے ان کا صلہ ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس بسنے کے باغات ہیں  جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، ان میں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّان کی اطاعت اور اخلاص سے راضی ہوا اور وہ اُس کے کرم اورا س کی عطاسے راضی ہوئے ،یہ عظیم بشارت اس کے لیے ہے جو دنیا میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔( خازن، البینۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۴۰۰، ملتقطاً)

آیت ’’جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے 4 باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… دنیاکی نعمتیں  نیک لوگوں کی حقیقی جزا نہیں  اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ نیکیوں  کے صدقے اِن سے بھی نواز دے۔

(2) …دنیا منزل ہے اور جنت اصلی مقام ہے۔

(3)…جزا کے لئے جنت میں  داخل ہونے کے بعد نہ وہاں  سے نکلنا ہے اور نہ موت کا آنا ہے۔

(4)…ہر ولی اور بزرگ کو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہہ سکتے ہیں ، یہ لفظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ سے خاص نہیں ۔اس آیت میں  یہ مضمون صاف موجود ہے۔

Scroll to Top