سُوْرَۃُ العَادِيَات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا(1)فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان گھوڑوں کی قسم جوہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں ۔پھر سم مارکرپتھروں سے چنگاریاں نکالنے والوں کی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا: ان گھوڑوں کی قسم جوہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں ۔} اس آیت میں جن گھوڑوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی ان سے مراد غازیوں کے گھوڑے ہیں جو جہاد میں دوڑتے ہیں تو ان کے سینوں سے آوازیں نکلتی ہیں ۔( ابو سعود، العادیات، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۸۹۶)
آیت’’ وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کیا پیارے نکتے بیان فرمائے کہ آیت سے معلوم ہوا ،
(1)… غازیوں کی شان بہت اعلیٰ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے گھوڑوں کی قَسم ارشاد فرمائی۔
(2)… جب غازی کے گھوڑے نے اپنی پشت پر غازی کو لیا تو اس گھوڑے کی شان اونچی ہو گئی، تو جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہجرت کی رات سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اپنے کندھے پر لیا ، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو صہباء کے مقام میں اپنے زانو پر سلایا اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے وصال کے وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا سر مبارک اپنے سینہ پر لیا بلکہ وہ آمنہ خاتون اور حلیمہ دائی جنہوں نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی گودوں میں کھلایا ان کی کیا شان ہو گی۔
(3)…یہ کہ جب غازی کے گھوڑے کی سانس برکت والی ہے، کہ اس کی قَسم ارشاد ہوئی ، تو ذاکر کی سانس بھی برکت والی ہے، جس سے شفا ہوتی ہے۔
{فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا: پھر سم مارکرپتھروں سے چنگاریاں نکالنے والوں کی ۔} حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد وہ گھوڑے ہیں جو پتھریلی زمین پر چلتے ہیں تو ان کے سُموں کی رگڑ سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں۔( تفسیر کبیر، العادیات، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۲۵۹)
مقبولوں سے دور کی نسبت بھی عزت کا سبب ہے:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ غازی کے گھوڑے کے سم سے اس پتھر اور شعلے کو نسبت ہوئی تویہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنا پیارا ہو گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا بھی قسم میں ذکر فرمایا ،اس سے معلوم ہو اکہ مقبولوں سے دور کی نسبت بھی عزت کا سبب ہے۔
فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا(3)فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًا(4)فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر صبح کے وقت غارت کردینے والوں کی۔پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں ۔پھراسی وقت دشمن کے لشکر میں گھس جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا: پھر صبح کے وقت غارت کردینے والوں کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گھوڑوں کی قسم جو صبح کے وقت اسلام کے دشمنوں پر حملہ کردیتے ہیں ،پھر اس وقت دوڑتے ہوئے غبار اڑاتے ہیں ،پھراسی وقت دشمن کے لشکر میں بے خوف گھس جاتے ہیں ۔
مجاہدین جب اسلام کے کسی دشمن پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو رات بھر سفر کرتے اور صبح کے وقت حملہ کر دیتے اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ رات کے وقت اندھیرے میں ہونے کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے اورجس وقت وہ حملہ کرتے اس وقت لوگ غافل اور جنگ کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔( تفسیرکبیر،العادیات،تحت الآیۃ:۳،۱۱ / ۲۶۰، قرطبی،العادیات،تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۱۴، الجزء العشرون، ملتقطاً)
سورہِ عادِیات کی آیت نمبر3تا 5سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوئیں
(1) …صبح کے وقت عموماً جہاد با برکت ہے بلکہ اس وقت کئے جانے والے ہر دینی اور دُنْیَوی کام میں برکت ہوتی ہے۔
(2)…جہاد کے وقت گھوڑوں کے دوڑنے سے جوغبار اڑتا ہے وہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کو پیارا ہے کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں اڑنے والا غبار ہے۔
(3)…دشمن کے لشکر میں بے خوف گھس جانا بھی اللّٰہ تعالیٰ کو پیارا ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ(6)وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک انسان ضروراپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔اور بیشک وہ اس بات پرضرور خود گواہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ: بیشک انسان ضرور اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔} اللّٰہ تعالیٰ نے غازیوں کے گھوڑوں کی قَسمیں ذکر کر کے فرمایا : بیشک انسان اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا بڑا ناشکرا ہے ۔حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ناشکرے سے مراد وہ انسان ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مکر جاتا ہے اوربعض مفسرین نے فرمایا کہ ناشکرے سے مراد گناہگار انسان ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ انسان ہے جو مصیبتوں کو یاد رکھے اور نعمتوں کو بھول جائے۔( خازن، العادیات، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۰۲)
{وَ اِنَّهٗ عَلٰى ذٰلِكَ لَشَهِیْدٌ: اور بیشک وہ اس بات پر ضرور خود گواہ ہے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ بیشک وہ انسان ناشکرا ہونے پر خود اپنے عمل سے گواہ ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انسان کے ناشکرے ہو نے پر خود گواہ ہے۔( خازن، العادیات، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۰۲)
وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌﭤ(8)اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ(9)وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ(10)اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک وہ مال کی محبت میں ضرور بہت شدید ہے ۔تو کیا وہ نہیں جانتا جب وہ اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں ؟اور جو سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی۔بیشک ان کا رب اس دن ان کی یقینا خوب خبررکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ: اور بیشک وہ مال کی محبت میں ضرور بہت شدید ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بیشک انسان مال کی محبت اورا س کی طلب میں توبہت مضبوط اور طاقتور ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کیلئے کمزور ہے تو کیا مال کی محبت میں مبتلا وہ انسان نہیں جانتا کہ جب وہ مردے اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں اور انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور جو حقیقت سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی تو اس وقت اللّٰہ تعالیٰ انہیں ان کے نیک اور برے اعمال کا بدلہ دے گا ، بے شک ان کا رب عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن جو کہ فیصلے کا دن ہے ان کے اعمال،ان کی نیتوں اوران کی اطاعت ونافرمانی کی خوب خبر رکھنے والا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے ہے ۔(تفسیر کبیر، العادیات، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۲۶۲، سمرقندی، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ۳ / ۵۰۳-۵۰۴، مدارک، العادیات، تحت الآیۃ: ۸-۱۱، ص۱۳۶۹، ملتقطاً)
نور العرفان میں ہے:غافل انسان مال کی محبت کی وجہ سے سخت دل ہے کیونکہ مال کی محبت سختیِ دل کا باعث ہے، جیسے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محبت نرمیِ دل کا سبب ہے دیکھو یزید، فرعون، شداد، جانوروں سے زیادہ سخت دل تھے، محض محبت مال سے یا غافل انسان مال کی محبت میں سخت دل ہے، دین میں نرم(یعنی دین میں سختی برداشت نہیں کرتے) ،اسی لئے عام طور پر لوگ دنیا کے لئے وہ مشقتیں جھیل لیتے ہیں جو دین کے لئے نہیں جھیلتے۔
مال سے محبت کی چار صورتیں :
خیال رہے کہ محبت ِمال چار طرح کی ہے:(1)حُبِّ ایمانی جیسے حج وغیر ہ کے لئے مال کی چاہت ،(2) حُبِّ نفسانی جیسے اپنے آرام و راحت کے لئے مال سے رغبت،(3) حُبِّ طُغیانی جیسے محض جمع کرنے اور چھوڑ جانے کے لئے مال سے محبت،(4)حُبِّ شیطانی یعنی گناہ وسرکشی کے لئے مال کی محبت۔ یہاں آخری دو محبتیں مراد ہیں ، پہلی قسم کی محبت عبادت ہے، حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا: ’’اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جہاد کے گھوڑوں سے بڑی محبت تھی، چونکہ مال بہت خیر کا ذریعہ ہے، اسی لئے اسے خیر فرمایا گیا۔ صوفیاء کے نزدیک نعمت سے ایسی محبت بری ہے جو دل کو بھر دے کہ مُنعِم کی محبت کی جگہ نہ رہے، وہی یہاں مراد ہے، اندرونِ دل صرف یار کی محبت ہو، وہاں اَغیار نہ ہوں ، باقی محبتیں دل کے باہر رہیں ، کشتی پانی میں رہے سلامت ہے، اگر پانی کشتی میں آجائے تو ڈوب جائے گی۔