سُوْرَۃُ العَلَق

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ(1)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ }  شانِ نزول:حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں ’’ رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر وحی کی ابتداء اچھے خوابوں  سے ہوئی،آپ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا،پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ خَلْوَت پسند ہو گئے اور غارِ حرا میں  جانے لگے اور کاشانۂ اَ قدس کی طرف لوٹنے سے پہلے وہاں  کئی کئی راتیں  ٹھہر کر عبادت کرتے اور(ا تنا عرصہ وہاں  رہنے کے لئے) کھانے پینے کی چیزیں  ساتھ لے جاتے،پھر حضرت خدیجہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا  کی طرف لوٹتے اور وہ اسی طرح کھانے کا بندو بست کر دیاکرتیں  یہاں  تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس حق آ گیا جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ غارِ حرا میں  تھے یعنی فرشتے نے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہو کر کہا:پڑھئے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ فرماتے ہیں ’’میں  نے کہا:میں  پڑھنے والا نہیں  ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر بڑے زور سے دبایا،پھر چھوڑتے ہوئے کہا:پڑھئے۔ میں  نے کہا’’میں  پڑھنے والا نہیں  ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر دوبارہ بڑے زور سے دبایا، پھر چھوڑ دیا اور کہا:پڑھئے۔میں  نے کہا’’میں  پڑھنے والا نہیں  ہوں  اس نے مجھے پکڑا اور تیسری بار دبایا ،پھر مجھے چھوڑ کر کہا: ’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔( بخاری ، کتاب بدء الوحی ، ۳-باب ، ۱ / ۷، الحدیث: ۳، مسلم ، کتاب الایمان، باب بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۹۴، الحدیث: ۲۵۲(۱۶۰))

            اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کا ذکر کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ کی طرف جو قرآن نازل کیا گیا اسے اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کے نام سے شروع کرتے ہوئے پڑھو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۳، قرطبی، العلق، تحت الآیۃ: ۱،  ۱۰ / ۸۵، الجزء العشرون، ملتقطاً)

تلاوت کرنے سے پہلے ’’ بِسْمِ اللّٰہ ‘‘ پڑھنے کا شرعی حکم:

            یاد رہے کہ سورت کی ابتداء میں  بسم اللّٰہ پڑھنا سنت، ورنہ مُستحب ہے اور اگر تلاوت کرنے والا جو آیت پڑھنا چاہتا ہے اس کی ابتدا ء میں  ضمیر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے، جیسے ’’هُوَاللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‘‘ تو اس صورت میں  اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھنے کے بعد بِسْمِ اللّٰہ پڑھنا تاکید کے ساتھ مستحب ہے،اگر تلاوت کرنے والا تلاوت کے درمیان میں  کوئی دُنْیَوی کام کرے تو اعوذباللّٰہ اور بسم اللّٰہ پھر پڑھ لے اور اگر ا س نے دینی کام کیا مثلاً سلام یا اذان کا جواب دیا یا سُبْحَانَ اللّٰہ اور کلمۂ طیبہ وغیرہ اَذکار پڑھے تو اَعُوْذُ بِاللّٰہ پھر پڑھنا اس کے ذمے نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کابیان، ۱ / ۵۵۰-۵۵۱، ملخصاً)

اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِقْرَاْ : پڑھو۔} دوبارہ پڑھنے کا حکم تاکید کے لئے ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبارہ قراء ت کے حکم سے مراد یہ ہے کہ تبلیغ اور اُمت کی تعلیم کے لئے پڑھئے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۹۳)

{وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ: اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ سب کریموں  سے زیادہ کرم والا ہے ،وہ اپنے بندوں  کو نعمتیں  عطا کرتا اور ان کی نافرمانیوں  پر حِلم فرماتا ہے،وہ اپنی نعمتوں  کا انکار کرنے اور اپنے ساتھ کفر کرنے کے باوجود انہیں  عذاب دینے میں  جلدی نہیں  فرماتا۔( مدارک، العلق، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۲)

الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(4)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔ }یعنی وہ رب عَزَّوَجَلَّ بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے غائب اُمور کی پہچان حاصل ہوتی ہے ۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۹۳)

کتابت کی فضیلت:

            اس آیت سے کتابت کی فضیلت ثابت ہوئی اور درحقیقت کتابت میں  بڑے مَنافع اور فوائدہیں  ،کتابت ہی سے علوم ضبط میں  آتے ہیں ، گزرے ہوئے لوگوں کی خبر یں  ،ان کے احوال اور ان کے کلام محفوظ رہتے ہیں ، اگر کتابت نہ ہوتی تو دین و دنیا کے کام قائم نہ رہ سکتے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۹۳)

            حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’علم کو قید کر لو۔میں  نے عرض کی:اسے قید کرنا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا’’علم کو لکھ لینا(اسے قید کرنا ہے)۔( مستدرک، کتاب العلم، قیّدوا العلم با لکتاب، ۱ / ۳۰۳، الحدیث: ۳۶۹)

{عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ: انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے حضرت آدم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد ہیں  اور جو انہیں  سکھایا اس سے مراد اَشیاء کے ناموں  کا علم ہے۔جیسا کہ دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ‘‘(بقرہ:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاءکے نام سکھادئیے۔

            اورایک قول یہ ہے کہ یہاں  انسان سے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مراد ہیں  کہ انہیں  اللّٰہ تعالیٰ نے تمام اَشیاء کے علوم عطا فرمائے۔جیسا کہ ایک اور مقام پرنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء :۱۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ   نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔

( تفسیر بغوی، العلق، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۷۵، ملخصاً)

كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤى(6)اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىﭤ(7)اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰىﭤ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہاں ہاں ، بیشک آدمی ضرور سرکشی کرتا ہے۔اس بنا پر کہ اپنے آپ کو غنی سمجھ لیا۔بیشک تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰى: ہاں  ہاں ، بیشک آدمی ضرور سرکشی کرتا ہے۔} ابوجہل کو کچھ مال ہاتھ آگیا تو اس نے لباس، سواری اور کھانے پینے میں  تَکَلُّفات شروع کر دئیے اور اس کا غرور و تکبر بہت بڑھ گیا ۔اس کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  فرمایا کہ ہاں  ہاں ، بیشک آدمی اس بنا پرسرکشی کرتا ہے کہ مال و دولت کی وجہ سے ا س نے اپنے آپ کو اللّٰہ تعالیٰ سے بے پرواہ سمجھ لیا ،اے انسان ! تجھے یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ تجھے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے تو تیری سرکشی ونافرمانی اور غرور و تکبر کا انجام عذاب ہوگا۔( صاوی ، العلق ، تحت الآیۃ : ۶-۸، ۶ / ۲۳۹۴، خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۶-۸، ۴ / ۳۹۳-۳۹۴، مدارک، العلق، تحت الآیۃ: ۶-۸، ص۱۳۶۲-۱۳۶۳، ملتقطاً)

سورہِ علق کی آیت نمبر6تا 8سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے 3باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…مخلوق میں  سے کوئی لمحہ بھر کے لئے بھی اللّٰہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں  اور پوری مخلوق اپنی ہر حرکت اور سکون میں  اپنے خالق و مالک کی محتاج ہے۔

(2)…دنیا کی محبت اور مال پر تکبر غفلت کا سبب ہے۔حضرت عون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایاکہ دو حریص سیر نہیں  ہوتے(1) علم والا ۔(2) دنیا والا۔ مگر دونوں برابر نہیں  ، علم والا تو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا مندی بڑھا لیتا ہے اور دنیا والا سرکشی میں  بڑھ جاتا ہے ۔پھر حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

’’ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰۤىۙ(۶) اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں  ہاں ، بیشک آدمی ضرورسرکشی کرتا ہےاس بنا پر کہ اپنے آپ کو غنی سمجھ لیا۔

            اور دوسرے (یعنی علم والے)کے بارے میں  یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا‘‘(فاطر:۲۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ سے اس کے بندوں  میں  سےوہی ڈرتے ہیں  جو علم والے ہیں ۔

( دارمی، المقدمۃ، باب فی فضل العلم والعالم، ۱ / ۱۰۸، الحدیث: ۳۳۲)

(3)…مال و دولت اور منصب پر تکبر و غرور کرتے ہوئے جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں  کرتے ان کا انجام بہت برا ہے۔

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى(9)عَبْدًا اِذَا صَلّٰىﭤ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔بندے کو جب وہ نماز پڑھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى: کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے۔} شانِ نزول :یہ آیتیں  بھی ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئیں ، ابوجہل نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو نماز پڑھنے سے منع کیا اور لوگوں  سے کہا تھا کہ اگر میں  اُنہیں  ایسا کرتا دیکھوں  گا تو ( مَعَاذَ اللّٰہ) گردن پاؤں  سے کچل ڈالوں  گا اور چہرہ خاک میں  ملادوں  گا۔ایک مرتبہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اسی فاسد ارادے سے آیا اور حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے قریب پہنچ کر الٹے پاؤں  ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے (ایسے) پیچھے بھاگا (جیسے کوئی کسی مصیبت کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے،اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور اعضاء کانپنے لگے۔) لوگوں  نے اس سے کہا:تجھے کیا ہوا ہے؟ابوجہل کہنے لگا: میرے اور محمد (مصطفٰی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے درمیان ایک خندق ہے جس میں  آگ بھری ہوئی ہے اور دہشت ناک پر ندے بازو پھیلائے ہوئے ہیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا ’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا عُضْوْ عُضو جدا کر ڈالتے۔( خازن ، العلق ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۴ / ۳۹۴، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب قولہ: انّ الانسان لیطغی… الخ، ص۱۵۰۳، الحدیث: ۳۸(۲۷۹۷))

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو میرے کامل بندے کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے ۔

اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور نماز پڑھنے سے روکنے کی وعید:

بعض مفسرین فرماتے ہیں  :اس وعید میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور نماز پڑھنے سے روکے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۴ / ۳۹۴)

ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 ’’ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘(بقرہ:۱۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللّٰہ کی مسجدوں  کو اس بات سے روکے کہ ان میں  اللّٰہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ انہیں مسجدوں  میں  داخل ہونا مناسب نہ تھا مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لئے دنیا میں  رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں  بڑا عذاب ہے۔

یاد رہے کہ اس میں  وہ صورتیں  داخل نہیں  جن میں  کسی کو نماز پڑھنے یا عبادت کرنے سے روکنا جائز ہے جیسے غصب کی ہوئی زمین میں  نماز پڑھنے والے کو روکنا،مکروہ اوقات میں  نماز پڑھنے والے کو روکنا،شوہر کا اپنی بیوی کو نفل نماز پڑھنے، نفلی روزہ اور نفلی اعتکاف کرنے سے روکنا وغیرہ۔یونہی مالک غلام کو، اور اجیرِ خاص کو نوافل سے روک سکتا ہے۔ مگر فقہا ء فرماتے ہیں  کہ جو کراہت کے وقت نماز پڑھنے لگے، تو اسے نماز سے نہ روکو، بعد میں  مسئلہ سمجھا دو، تا کہ اس آیت کی زد میں  نہ آجاؤ۔ مزید یہ کہ اور بھی کچھ لوگوں  کو مسجد سے روکا جا سکتا ہے جیسے نا سمجھ بچہ، یا دیوانہ کو جسے پیشاب پاخانہ کی تمیز نہ ہو، جس کے منہ سے کچے پیاز یا لہسن یا حُقہ کی بو آرہی ہو، جس کے جسم پر بدبودار زخم ہو، وہ بد مذہب جس کے مسجد میں  آنے سے فساد ہو۔

اَرَءَیْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤى(11)اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰىﭤ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

بھلا دیکھو تو اگر وہ ہدایت پر ہوتا ۔یا پرہیزگاری کا حکم دیتا (تو کیا ہی اچھا تھا)۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَرَءَیْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰى: بھلا دیکھو تو اگر وہ ہدایت پر ہوتا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،ذرادیکھو تو اگر نماز سے روکنے والا وہ کافر ہدایت پر ہوتا اور دوسروں  کوپرہیزگاری کا حکم دیتا تووہ کتنے بلند مَراتب حاصل کرتا۔ (تفسیر کبیر، العلق، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۱۱ / ۲۲۲)اگر ابو جہل ایمان قبول کر لیتا تو اسے یہ مراتب ملتے کہ وہ مومن ہوتا، پھر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دیدارسے صحابی بن جاتا، حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا عزیز ہو کر اللّٰہ تعالیٰ کا پیارا بن جاتا،بیتُ اللّٰہ شریف میں  رہتا تھا اس لئے ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ پاتا، وہ قوم کا سردار تھا اوراس کی وجہ سے اس کے ماتحت لوگ بھی ایمان لے آتے تو ان سب کا ثواب بھی اسے ملتا ۔

سورہِ علق کی آیت نمبر11اور 12سے حاصل ہونے والی معلومات:

             ان آیات سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں

(1)… گزشتہ لوگوں  کی سر کشی میں  غور کرنے سے بھی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔

(2)… نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے زمانہ والوں  کو ایمان کے ذریعہ جو درجے نصیب ہو سکتے تھے وہ بعد والوں  کے لئے ممکن نہیں ۔

(3)… بڑابد نصیب وہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ اچھا موقع دے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔

اَرَءَیْتَ اِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىﭤ(13)اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ یَرٰىﭤ(14)كَلَّا لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ ﳔ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَةِ(15)نَاصِیَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

بھلا دیکھو تو اگر اس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا (توکیاحال ہوگا)۔کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ہاں ہاں یقینا اگر وہ باز نہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے۔وہ پیشانی جو جھوٹی خطاکار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَرَءَیْتَ اِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى: بھلا دیکھو تو اگر اس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،ذرادیکھو تو ،اگر اس کافر نے( مرتے دم تک)آپ کوجھٹلایا اورآپ پر ایمان لانے سے منہ پھیراتواس کا کیا حال ہوگا؟ کیا ابوجہل کو معلوم نہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے اس فعل کودیکھ رہا ہے تو وہ اسے اس کی جزا دے گا، ہاں  ہاں  اگر وہ میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ایذا دینے اور انہیں  جھٹلانے سے باز نہ آیا تو ضرور ہم اسے پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں  گے اور اس کو جہنم میں  ڈالیں  گے اوروہ جھوٹے اور خطار کار شخص کی پیشانی ہے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۶، ۴ / ۳۹۴، ملخصاً)

سورہِ علق کی آیت نمبر13تا 16سے حاصل ہونے والی معلومات:

           ان آیات سے دوباتیں معلوم ہوئیں :

(1) …اللّٰہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں  کا بدلہ خود لیتا ہے۔

(2)…اللّٰہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں  کے کام اپنی طرف منسوب فرماتا ہے جیسے پیشانی کے بالوں  سے گھسیٹنا فرشتوں  کا کام ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم گھسیٹیں  گے۔

فَلْیَدْعُ نَادِیَهٗ(17)سَنَدْعُ الزَّبَانِیَةَ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو اسے چاہیے کہ اپنی مجلس کوپکارے۔ہم (بھی)جلدہی دوزخ کے فرشتوں کو بلائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلْیَدْعُ نَادِیَهٗ: تو اسے چاہیے کہ اپنی مجلس کوپکارے۔} شانِ نزول :جب ابوجہل نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نماز سے منع کیا تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا، اِس پر اُس نے کہا کہ آپ مجھے جھڑکتے ہیں،خدا کی قسم! میں  آپ کے مقابلے میں  نوجوان ، سواروں  اور پیدلوں  سے اس جنگل کو بھردوں  گا، آپ جانتے ہیں  کہ مکہ مکرمہ میں  مجھ سے زیادہ بڑے جتھے اور مجلس والا کوئی نہیں  ہے۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جن کا مفہوم یہ ہے کہ ابو جہل اپنی مجلس والوں  کو پکار لینے کی دھمکی لگا رہا ہے تو اسے چاہیے کہ میرے حبیب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں  اپنی مدد کیلئے اپنی مجلس کوپکارے ،اگر ا س نے ایسا کیا توہم بھی جلدہی دوزخ کے فرشتوں  کو بلائیں  گے جن کا مقابلہ کرنے کی طاقت ان میں  سے کسی کے پاس نہیں  ہے۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۳۹۴، تفسیر کبیر، العلق، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۱۱ / ۲۲۶، ملتقطاً)

            حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر ابو جہل اپنی مجلس کو بلا تا تو فرشتے اسے اعلانیہ طور پر گرفتار کرلیتے‘‘۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اقرأ باسم ربک، ۵ / ۲۳۰، الحدیث: ۳۳۵۹)

سورہِ علق کی آیت نمبر17اور18سے حاصل ہونے والی معلومات:

            ان آیات سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے محبوب ہیں  کہ آپ کا دشمن اللّٰہ تعالیٰ کا دشمن ہے کہ ابو جہل نے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دھمکی لگائی کہ وہ اپنی مجلس کے لوگوں  کو بلا لے گاتو حضورِ اکرم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ نہ فرمایا کہ ہم صحابہ کی جماعت کو بلا لیں  گے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم زَبانیہ فرشتوں  کو بلا لیں  گے۔

(2)…نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شان ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں  کی فوج آنے کو تیار ہے ورنہ کفار کی ہلاکت کے لئے تو ایک ہی فرشتہ کافی ہے۔

(3)…امر کا ہر صیغہ وجوب کے لئے نہیں  ہوتا بلکہ اور چیزوں  کے لئے بھی ہوتا ہے جیسے یہاں  امر کا صیغہ تو ہے لیکن وجوب کے لئے نہیں  بلکہ اظہارِ غضب کے لئے ہے۔

كَلَّاؕ-لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

خبردار!تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (ہم سے) قریب ہوجاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّاؕ-لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ: خبردار! تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور قریب ہوجاؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ نماز کے معاملے میں  اس کافر کی بات نہ مانیں  اور نماز پڑھتے رہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ سے قریب ہو جائیں ۔ (خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۹۴)

آیت ’’ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

          ا س آیت سے 3 باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی عبادتیں  سَیِّئات کی معافی کے لئے نہیں  بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کے لئے ہیں ۔

(2)… سجدہ بہترین عبادت ہے کہ اس میں  بندہ زمین پر اپنا سر رکھ کر اپنے عجز کا اظہار کرتا ہے اور زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار کرتا ہے ، اسی لئے ہر رکعت میں  سجدے دو ہیں ۔

(3)… سجدے میں  اللّٰہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بندہ سجدے کی حالت میں  اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے ا س لئے تم سجدہ میں  کثرت سے دعا کیا کرو۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع و السجود، ص۲۵۰، الحدیث: ۲۱۵(۴۸۲))

Scroll to Top