سُوْرَۃُ الفَاتِحَة
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے۔
کنزالعرفان
تفسیرصراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔[1]
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
بِسْمِ اللّٰه شریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدالیاس عطار قادری، رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف،فیضانِ بِسْمِ اللّٰهِ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)، کا مطالعہ فرمائیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(1)
ترجمہ:سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہان والوں کاپالنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ:سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے ۔
حمد اور شکر کی تعریف
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پراُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتاہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
حمد سے متعلق شرعی حکم
خطبے میں حمد’’ واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘ ،حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلّٰهِ:اللہ کے لئے۔}’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے ا س کا ایک معنی ہے: ’’عبادت کا مستحق‘‘ دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱ / ۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔}لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں : جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۷، ملتقطاً)
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(2)
ترجمہ
بہت مہربان رحمت والا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔}رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پرنعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر چھوٹی، بڑی ، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے ،تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو ا س کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے،چنانچہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ‘‘(حجر: ۴۹، ۵۰)
ترجمۂ کنزالعرفان:میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘(مومن: ۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتاکہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔(مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ ۔۔۔ الخ، ص۱۴۷۳، الحدیث:۲۳(۲۷۵۵)) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِﭤ(3)
ترجمہ
جزا کے دن کامالک۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ:جزا کے دن کامالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ ا س دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دو نوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی، اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُﭤ(4)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے جو کہ سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس آیت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔
عبادت اور تعظیم میں فرق
عبادت کامفہوم بہت واضح ہے، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اُستاد، پیر یا ماں باپ کے لئے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا ہے۔
آیت’’اِیَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ سے معلوم ہونے والی اہم باتیں
آیت میں جمع کے صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں کی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد طلب کرنے سے پہلے ذکر کیاگیا کیونکہ حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔(مدارک، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۴)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کی برکت
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کا وسیلہ پیش کر کے اپنی حاجات کے لئے دعا کیا کرے تاکہ اُس وسیلے کے صدقے دعا جلدمقبول ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ وسیلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ‘‘( مائدہ: ۳۵)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
اور ’’سُننِ ابنِ ماجہ‘‘ میں ہے کہ ایک نابینا صحابی بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اس طرح دعا مانگنے کا حکم دیا: ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبیِ رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے ، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ، پس تومیرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲ / ۱۵۷، الحدیث: ۱۳۸۵)
حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علماء تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے(تو) غلام کی کیا مجال کہ(وہ) راہِ ادب سے تجاوز کرے، بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا:اگریہ لفظ کسی دعا میں وارد ہوجو خود نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمائی(ہو) جیسے دعائے ’’ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ‘‘۔تاہم اس کی جگہ یَارَسُوْلَ اللہْ، یَا نَبِیَّ اللہْ(کہنا) چاہیے ، حالانکہ الفاظِ دعا میں حَتَّی الوُسْعَ تغییر نہیں کی جاتی ۔یہ مسئلہ مہمہ(یعنی اہم ترین مسئلہ) جس سے اکثر اہل زمانہ غافل ہیں واجب الحفظ ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۵۷-۱۵۸)
{وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ: اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔}اس آیت میں بیان کیاگیا کہ مدد طلب کرنا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر ہو ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جس سے حقیقی طور پر مدد طلب کی جائے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ا س کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’شرک‘‘ ہے اور کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی ذات سے موجود ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے،اس کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہو اور حقیقی تعلیم کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرِخدا ہی کے لئے خاص ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وسیلہ اور واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا سے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہٰی میں ہمارا وسیلہ،ذریعہ اور قضائے حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے:
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء: ۶۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
کیا اللہ تعالیٰ اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف فرما رہی ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)
زیر تفسیر آیت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ (مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں)‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اُس اِختیار کی بنا پر اُن بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے آکر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی مدد کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ‘‘( اٰل عمران: ۱۲۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔
یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالیٰ کی مدد کہا گیا، اِس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اِختیار اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہے تو حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ہوئی۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتاً وہ مدداللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، جیسے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا۔اس پر انہوں نے فرمایا: ’’هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ‘‘ترجمۂ کنزالعرفان:یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔(نمل :۴۰) اورتاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے،ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں :
(1)…صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱، الخصائص الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدّم، ۲ / ۸۵)
(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵ / ۵۳۶)
(3)… انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو(1400)یا اس سے بھی زائد اَفراد کو سیراب کر دیا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳ / ۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳)
(4)… لُعابِ د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔(الخصائص الکبری، باب آیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۱۵-۱۱۸)
اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہٰذا سب اللہ تعالیٰ کی ہی مددیں ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے رسالے ’’اَ لْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ البلاء( مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کامطالعہ فرمائیے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(5)
ترجمہ
ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ:ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔}اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ،تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیااب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
صراطِ مستقیم کا معنی
صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلے یا اِس سے مراد’’اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ہے جس پرصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، بزرگانِ دین اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ چلے جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور یہ راستہ اہلسنّت کا ہے کہ آج تک اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ صرف اِسی مسلک ِاہلسنّت میں گزرے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے راستے پر چلنے اور انہی کے ساتھ ہونے کا فرمایا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘(التوبۃ: ۱۱۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی،اور جب تم (لوگوں میں ) اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم (یعنی مسلمانوں کے بڑے گروہ) کے ساتھ ہو جاؤ۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
حضرت عبداللہ بن عمرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بنی اسرائیل 72فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت 73فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،نجات پانے والا فرقہ کونسا ہے؟ارشاد فرمایا:’’(وہ اس طریقے پر ہو گا)جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۹۱-۲۹۲، الحدیث: ۲۶۵۰)
ہدایت حاصل کرنے کے ذرائع:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے چند یہ ہیں
(1)…انسان کی ظاہری باطنی صلاحیتیں جنہیں استعمال کر کے وہ ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔
(2)…آسمانوں ، زمینوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں جن میں غورو فکر کر کے انسان ہدایت پا سکتا ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں ،ان میں سے تورات ،انجیل اور زبور قرآن پاک نازل ہونے سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت کاباعث تھیں اوراب قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔
(4)…اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے خاص بندے انبیاء کرام اور مرسلینِ عِظام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،یہ اپنی اپنی قوموں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ تھے اور ہمارے نبی حضرت محمدمصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔
آیت’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے پرثابت قدمی کی دعا مانگنی چاہئے کیونکہ سیدھا راستہ منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے اور ٹیڑھا راستہ مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ عقل والے اس طرح دعا مانگتے ہیں
’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ‘‘( اٰل عمران: ۸)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ہمارے رب! تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔
اورحضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبْ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ‘‘اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ تو میں نے عرض کی :یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم آپ پر اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے؟حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! بے شک دل اللہ تعالیٰ کی(شان کے لائق ا س کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔(ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ القلوب۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵، الحدیث: ۲۱۴۷)
(2)… عبادت کرنے کے بعد بندے کو دعا میں مشغول ہونا چاہیے۔
(3)…صرف اپنے لئے دعا نہیں مانگنی چاہئے بلکہ سب مسلمانوں کے لئے دعا مانگنی چاہئے کہ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ(7)
ترجمہ
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیانہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ:ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔}یہ جملہ اس سے پہلی آیت کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان و انعام فرمایااور جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و احسان فرمایا ہے ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘(النساء:۶۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
آیت’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… جن امور پر بزرگانِ دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے۔
(2)…امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کے بعد’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ‘‘ کو ذکر کرنا ا س بات کی دلیل ہے کہ مرید ہدایت اورمُکَاشَفَہ کے مقامات تک اسی صورت پہنچ سکتا ہے جب وہ کسی ایسے (کامل)پیر کی پیروی کرے جو درست راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرے، غلطیوں اور گمراہیوں کی جگہوں سے اسے بچائے کیونکہ اکثر لوگوں پر نقص غالب ہے اور ان کی عقلیں حق کو سمجھنے ،صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے سے قاصر ہیں تو ایک ایسے کامل شخص کا ہونا ضروری ہے جس کی ناقص شخص پیروی کرے یہاں تک کہ اِس کامل شخص کی عقل کے نور سے اُ س ناقص شخص کی عقل بھی مضبوط ہو جائے تو اس صورت میں وہ سعادتوں کے درجات اور کمالات کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، الباب الثالث، ۱ / ۱۶۴)
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ:نہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ }جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ان سے مراد یہودی اوربہکے ہوؤں سے مراد عیسائی ہیں جیساکہ سنن ترمذی، جلد4،صفحہ444، حدیث نمبر 2964میں ہے اور امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جن پر غضب ہوا ان سے مراد بدعمل ہیں اور بہکے ہوؤں سے مراد بدعقیدہ لوگ ہیں۔(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۲۲-۲۲۳) ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ عقائد ،اعمال، سیرت،صورت ہر اعتبار سے یہودیوں ، عیسائیوں اور تمام کفار سے الگ رہے، نہ ان کے طور طریقے اپنائے اور نہ ہی ان کے رسم ورواج اور فیشن اِختیار کرے اوران کی دوستیوں اور صحبتوں سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو قرآن وسنّت کے سانچے میں ڈھالنے میں ہی اپنے لئے دونوں جہان کی سعادت تصور کرے۔ ([1])
آیت ’’وَ لَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ سے متعلق شرعی مسئلہ:
بعض لوگ ’’وَ لَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ کو ’’وَلَا الظَّآ لِّیْن‘‘ پڑھتے ہیں ،ان کا ایسا کرنا حرام ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ض،ظ،ذ،ز سب حروف متبائنہ،متغائرہ (یعنی ایک دوسرے سے جداجدا حروف) ہیں ،ان میں سے کسی کو دوسرے سے تلاوتِ قرآن میں قصدا ًبدلنا،اِس کی جگہ اُسے پڑھنا، نماز میں ہو خواہ بیرون نماز، حرام قطعی وگناہِ عظیم،اِفْتِراء عَلَی اللہ و تحریف ِکتاب کریم ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۰۵) اس مسئلے کے بارے میں دلائل کے ساتھ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاوی رضویہ کی چھٹی جلد میں موجود ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں : (۱) نِعْمَ الزَّادْ لِرَوْمِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کا بہترین طریقہ)(۲)اِلْجَامُ الصَّادْ عَنْ سُنَنِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کے غلط اور صحیح طریقوں کا بیان) {اٰمین}اس کا ایک معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو قبول فرما۔دوسرا معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو ایسا ہی فرما۔
اٰمین سے متعلق شرعی مسائل:
(1)…یہ قرآن مجید کا کلمہ نہیں ہے ۔
(2)… نماز کے اندر اور نماز سے باہر جب بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ ختم کی جائے تو ا س کے بعد اٰمین کہنا سنت ہے۔
(3) … احناف کے نزدیک نماز میں آمین بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ کہی جائے گی۔
۔۔۔۔ اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کے لئے تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ،، دعوتِ اسلامی،، سے وابستہ ہو جانا بے حد مفید ہے۔