سُوْرَۃ آلِ عِمْرَان

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الٓمَّٓ(1)اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُﭤ(2)

ترجمہ: 

الم۔اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) خود زندہ، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{الٓمَّٓ:}ان حروف کو’’حروفِ مُقَطَّعات ‘‘ کہتے ہیں ،ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} مفسرین نے فرمایا کہ’’یہ آیت نجران نامی علاقے کے وفد کے متعلق نازل ہوئی جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، اس میں چودہ سردار تھے اور تین قوم کے بڑے مقتدا و پیشوا آدمی تھے۔ ان تین میں سے ایک ’’ابو حارثہ بن علقمہ‘‘ تھا جو عیسائیوں کے تمام علماء اور پادریوں کا پیشوا ئے اعظم تھا، عیسائی حکمران بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ یہ تمام لوگ عمدہ اور قیمتی لباس پہن کر بڑی شان وشوکت سے سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے مناظرہ کرنے کے ارادے سے آئے۔ جب یہ مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوئے توحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس وقت نماز عصر ادا فرمارہے تھے۔ ان لوگوں کی نماز کا وقت بھی آگیا اور انہوں نے بھی مسجد نبوی شریف  عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں مشرق یعنی بیتُ المقدس کی طرف منہ کرکے اپنی نماز شروع کردی۔ نماز کے بعدنبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی ۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’تم اسلام لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم آپ سے پہلے اسلام لاچکے ہیں۔ سرکارِ کائنات  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’ تمہارا اسلام کا دعویٰ غلط ہے اور تمہارے اسلام کے غلط ہونے کا سبب یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اولاد ہے، نیز تمہارا صلیب کی پوجا کرنا بھی اسلام سے مانع ہے اور تمہارا خنزیر کھانا بھی اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’اگر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  خدا کے بیٹے نہ ہوں تو بتائیے ان کا باپ کون ہے؟ پھر وہ سب بولنے لگے۔ حضورِاکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے ضرور مشابہ یعنی ملتا جلتا ہوتا ہے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ’’حَیٌّ لَایَمُوْتُ‘‘ہے، اس کے لیے موت ناممکن ہے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر موت آنے والی ہے؟ انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا ۔ پھر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمار ارب عَزَّوَجَلَّ بندوں کا کار ساز، ان کی حقیقی حفاظت کرنے والا اور روزی دینے والا ہے؟ انہوں نے کہا :جی ہاں۔ اس پرنبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ایسے ہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں۔ اس پر نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ؟ انہوں نے اقرار کیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بتائے بغیر اس میں سے کچھ جانتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے فرمایا:’’ کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حمل میں رہے اور پیدا ہونے والوں کی طرح پیدا ہوئے اور بچوں کی طرح انہیں غذا دی گئی اور وہ کھاتے پیتے تھے اور ان میں بھی بشری تقاضے تھے؟ عیسائیوں نے اس کا اقرار کیا۔ اس گفتگو پر حضورِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ان تمام چیزوں کے باوجود پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیسے خدا ہوسکتے ہیں جیسا کہ تمہارا گمان ہے ؟ اس پر وہ سب خاموش رہ گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ اس پر سورہ ٔآلِ عمران کی شروع سے لے کر تقریباً اسّی 80آیتیں نازل ہوئیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۲۲۸)

            اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ صحیح عقائد کو ثابت کرنے اور ان کے دفاع کیلئے مناظرہ کرنا سنت ہے۔

’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا معنی:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’’حَیٌّ ‘‘ ’’دائم و باقی‘‘ کے معنیٰ میں ہے ،یعنی اس کا معنیٰ ہے کہ’’ ایسا ہمیشہ رہنے والا جس کی موت ممکن نہ ہو ۔ جبکہ’’قَیُّوْم ‘‘  وہ ہے جو قائم بِالذّات یعنی بغیر کسی دوسرے کی محتاجی اور تَصَرُّف کے خود قائم ہو اور مخلوق کی دنیااور آخرت کی زندگی کی حاجتوں کی تدبیر فرمائے۔

نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ(3)مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ۬ؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ(4)

ترجمہ: 

اس نے تم پر یہ سچی کتاب اتاری جوپہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس نے اس سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی۔ لوگوں کوہدایت دیتی اور (اللہ نے ) حق وباطل میں فرق اتارا ۔ بیشک وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے اوراللہ غالب بدلہ لینے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ: اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔} اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے بعد کوئی کتاب آنے والی نہیں اور نہ کوئی نیا نبی تشریف لانے والا ہے کیونکہ قرآن مجید نے گزشتہ کتابوں کی تصدیق کی ہے، بعد میں نہ کسی کتاب کے آنے کا تذکرہ کیا اور نہ اس کی بشارت دی جبکہ قرآن پاک کو چونکہ تورات و انجیل کے بعد آنا تھا اس لئے ان کتابوں میں قرآن کی بشارت پہلے سے دیدی گئی۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِﭤ(5)

ترجمہ:

بیشک اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ،نہ زمین میں اورنہ ہی آسمان میں ۔

کنزالعرفان

تفستفسیر: ‎صراط الجنان

یر{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَخْفٰى عَلَیْهِ شَیْءٌ:بیشک اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔} آسمان و زمین کی ہر چیز، ہر وقت، تمام تر تفصیلات کے ساتھ بغیر کسی کی تعلیم و خبر کے جاننا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ،یہ وصف کسی بندے میں نہیں ، کیونکہ مخلوق کو جو علم ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بتانے سے ہے اور وہ بھی مُتَناہی اور قابلِ فناہے، یعنی اس کی کوئی نہ کوئی انتہاء ہے اور وہ ختم بھی ہوسکتا ہے ، نیز وہ تب سے ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے بتایا اور تب تک ہے جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے۔ ایسے علم کو علمِ عطائی کہتے ہیں ، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے متعلق ارشاد فرمایا:

’’وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ (انعام:۷۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم یونہی ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے ہیں۔

هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(6)

ترجمہ:

وہی ہے جوماؤں کے پیٹوں میں جیسی چاہتا ہے تمہاری صورت بناتا ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ ) زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ: وہی ہے جوماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورت بناتا ہے ۔} ایک بے قدر چیز کو انسانی شکل میں ڈھال دینا، اسے مرد یا عورت، گورا یا کالا، خوب صورت یا بدصورت بنانا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچے کی شکل بنانا، اس میں روح پھونکنا، اس کی تقدیر لکھنا یہ سب کچھ فرشتہ کرتا ہے لیکن فرشتہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اختیار سے کرتا ہے لہٰذا فرمایا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے ہر ایک کی خِلْقَت اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھی جاتی ہے، پھر وہ خون کے لوتھڑے کی صورت ہو جاتا ہے، پھر گوشت کی بوٹی کی طرح ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل ،رزق، دنیا میں رہنے کی مدت اور بد بخت یا سعادت مند ہونا لکھو۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۱، الحدیث: ۳۲۰۸)

هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﳕ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(7)

ترجمہ: 

وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اِشتباہ ہے تووہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ (لوگوں میں ) فتنہ پھیلانے کی غرض سے اور ان آیات کا (غلط) معنیٰ تلاش کرنے کے لئے ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اورعقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ: صاف معنیٰ رکھنے والی آیتیں۔} قرآن پاک میں دو طرح کی آیات ہیں :

(1)… مُحْکَمْ، یعنی جن کے معانی میں کوئی اِشْتِبَاہ نہیں بلکہ قرآن سمجھنے کی اَہلیت رکھنے والے کو آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔

(2)… مُتَشَابِہْ، یعنی  وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ یا تو سمجھ ہی نہیں آتے جیسے حروفِ مقطعات ،یعنی بعض سورتوں کے شروع میں آنے والے حروف جیسے سورۂ بقرہ کے شروع میں ’’الٓمّٓ‘‘ہے اور یا متشابہ وہ ہے جس کے ظاہری معنیٰ سمجھ تو آتےہیں لیکن وہ مراد نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ’’یَدْ‘‘یعنی ’’ہاتھ‘‘ اور ’’وَجْہٌ‘‘یعنی ’’چہرے ‘‘ والی آیات ۔ ان کے ظاہری معنیٰ معلوم تو ہیں لیکن یہ مراد نہیں ، جبکہ ان کے حقیقی مرادی معنیٰ میں کئی احتمال ہوسکتے ہیں اور ان میں سے کون سا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے یا وہ جسے اللہ تعالیٰ اس کاعلم دے۔پہلی قسم یعنی مُحْکَمْ کے بارے میں فرمایا کہ’’ یہ کتاب کی اصل ہیں ، یعنی احکام شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور حلال و حرام میں انہیں پر عمل کیا جاتا ہے ۔

{اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ: وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے۔} یہاں سے دو گروہوں کا تذکرہ ہے ۔ پہلا گروہ گمراہ اور بدمذہب لوگوں کا ہے جو اپنی خواہشاتِ نفسانی کے پابند ہیں اور متشابہ آیات کے ظاہری معنٰی لیتے ہیں جو کہ صریح گمراہی بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہوتا ہے یا ایسے لوگ متشابہ آیات کی غلط تاویل کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ سچے مومنوں کا ہے جو متشابہ آیات کے معانی کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محکم و متشابہ سارے کا سارا قرآن ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو معنی متشابہ کی مراد ہیں وہ حق ہیں اوراس کا نازل فرمانا حکمت ہے۔

کسی کومتشابہات کا علم عطا ہوا یا نہیں :

           اللہ تعالیٰ کسی کو متشابہات کا علم عطا فرماتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں محققین علماء نے فرمایا ہے کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان اس سے اَرفَع و اعلیٰ ہے کہ اللہ  تعالیٰ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی اس کا علم عطا نہ فرمائے بلکہ حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمت کے اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو بھی اس کا علم ملتا ہے۔

{وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ: اور علم میں پختہ لوگ۔} حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ عالمِ باعمل ہے جو اپنے علم کی پیروی کرنے والا ہو۔ مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ ہیں جن میں یہ چار صفتیں ہوں : (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تقویٰ، (2) لوگوں کے ساتھ تواضع، (3) دنیا سے زُہد، (4) نفس سے مجاہدہ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۳۲)

            حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ’’ میں رَاسِخِینْ فِی الْعِلْم سے ہوں اور حضرت مجاہد  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی فرمایا کہ’’ میں ان میں سے ہوں جو متشابہ کی تاویل جانتے ہیں۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۱۵، الجزء الرابع)

{اُولُوا الْاَلْبَابِ: عقل والے ۔} ارشاد فرمایا کہ’’ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل بہت بڑی فضیلت اور خوبی ہے، عقل کے ذریعے ہدایت و نصیحت ملتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جس عقل سے ہدایت نہ ملے وہ بدترین حماقت ہے، جیسے طاقت اچھی چیز ہے لیکن جو طاقت ظلم کیلئے استعمال ہو وہ کمزوری سے بھی بدتر ہے۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(8)

ترجمہ: 

اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا: اے ہمارے رب !ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔} ہدایت ملنا بہت بڑی چیز ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب یہ باقی بھی رہے۔ اگر ساری زندگی کوئی ہدایت پر رہے لیکن مرتے وقت ہدایت چھن جائے تو ایسی ہدایت کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیمِ‘‘ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔(بخاری، کتاب القدر، باب العمل بالخواتیم، ۴ / ۲۷۴، الحدیث: ۶۶۰۷)

         اسی لئے بڑے سے بڑا مومن بھی اپنے خاتمے کے بارے میں خوف کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لئے بھی برے خاتمے سے بے خوف نہ ہو۔ اِس آیتِ مبارکہ کا بکثرت پڑھتے رہنا یعنی یہ دعا مانگتے رہنا بھی خاتمہ بالخیر کیلئے مفید ہے۔

رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(9)

ترجمہ:

اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ: بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔} اللہ تعالیٰ جھوٹ سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ بولنے کی نسبت قطعی کفر ہے اور یہ کہنا کہ’’ جھوٹ بول سکتا ہے‘‘ یہ بھی کفر ہے۔ تفصیل کیلئے فتاوی رضویہ کی 15ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کی کتاب  ’’سُبْحٰنُ السُّبُوْحْ عَنْ کِذْبِ عَیْبٍ مَقْبُوْحٍ‘‘(جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان ) اور ’’دَامَانِ بَاغِ سُبْحٰنُ السُّبُوْح‘‘(رسالہ سُبْحٰنُ السُّبُّوح کے باغ کا دامن)کا مطالعہ فرمائیں۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِ(10)كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَۙ-وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(11)

ترجمہ: 

بیشک کافر وں کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے عذاب سے انہیں کچھ بھی بچا نہ سکیں گے اور وہی دوزخ کا ایندھن ہیں ۔ جیسا فرعون کے ماننے والوں اور ان سے پہلے لوگوں کا طریقہ تھا، انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایاتو اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑلیا اور اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَۙ-وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: جیسا فرعون کے ماننے والوں اور ان سے پہلے لوگوں کا طریقہ تھا۔} یعنی نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے کافروں کا طریقہ ویسا ہی ہے جیسا فرعون کے ماننے والوں اور ان سے پہلے لوگوں کا طریقہ تھا کہ انہوں نے بھی ہماری آیتوں کو جھٹلایااور اِن کافروں نے بھی ہماری آیات کو جھٹلایا، تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے گناہوں پر انہیں پکڑلیا اسی طرح اِ ن کے گناہوں پر اِن کی بھی پکڑ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ(12)

ترجمہ: 

ان کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم مغلوب ہوجاؤگے اور دوزخ کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَتُغْلَبُوْنَ: عنقریب تم مغلوب ہوجاؤگے۔ }حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب بدر میں کفار کو رسولِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ شکست دے کر مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے تو یہودیوں نے کہا کہ’’ قریش تو فُنونِ حَرب (جنگی طریقوں ) سے نا آشنا ہیں ، (اسی لئے شکست کھا گئے۔) اگر ہم سے مقابلہ ہوا تو معلوم ہوجائے گا کہ لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی   (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۵۸)

            اور انہیں یہ غیبی خبر دی گئی کہ’’ وہ دنیا میں مغلوب ہوں گے، قتل کئے جائیں گے ،گرفتار کئے جائیں گے اور ان پر جِزیَہ مقرر کیا جائے گا  اور آخرت میں دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کچھ ہی عرصے میں یہودی قتل بھی ہوئے، گرفتار بھی کئے گئے اور اہلِ خبیر پر جزیہ بھی مقرر کیا گیا اور قیامت کے دن انہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔

قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَاؕ-فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِؕ-وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ(13)

ترجمہ: بیشک تمہارے لئے ان دو گروہوں میں بڑی نشانی ہے جنہوں نے آپس میں جنگ کی۔ (اُن میں ) ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا جوکھلی آنکھوں سے مسلمانوں کو خود سے دگنا دیکھ رہے تھےاور اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے تائیدفرماتا ہے۔ بیشک اس میں عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ: بیشک تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔} یہ آیت غزوۂ بدرکے متعلق نازل ہوئی اور اس میں یہودیوں یا تمام کافروں یا مسلمانوں یا مذکورہ بالا سب کو خطاب ہے کیونکہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں اور کافروں سب کیلئے عبرت و نصیحت تھی۔ غزوہ بدر 17رمضان 2ہجری بروز جمعہ ہوا۔ اس میں کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ سامان جنگ تھاجبکہ مسلمان تین سو تیرہ (313) تھے اور ان میں سے بھی اکثر نہتے تھے، مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں ، آٹھ تلواریں اور ستر اونٹ تھے۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۶)             اس کے باوجود مسلمانوں کو کامل فتح ہوئی اور کفار کو شکستِ فاش، لہٰذا یہ فتح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں میں سے بڑی نشانی ہے۔

{ یَرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ: وہ انہیں خود سے دگنا دیکھ رہے تھے۔}جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی کئی اعتبار سے مدد فرمائی ایک تو فرشتے نازل فرمائے ، دوسرا یہ ہوا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نظروں میں کافروں کو اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو کم کرکے دکھایا تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے اور کافر مسلمانوں کو قلیل دیکھ کر لڑائی کے لئے آگے بڑھیں اور مسلمانوں سے جنگ شروع کرنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہوا پھر جب لڑائی شروع ہوگئی تو اِس آیت میں مذکور واقعہ رونما ہوا۔      (جمل علی الجلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۷)

 کہ انہوں نے ان کو دگنا دیکھا۔اِ س جملے کے کئی معنیٰ کئے گئے ہیں۔ (1) کفار نے مسلمانوں کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد کفار کودو ہزار نظر آئی۔ (2) کفار نے مسلمانوں کو مسلمانوں کی تعداد سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد انہیں 626نظر آئی حالانکہ وہ 313تھے ۔(3) مسلمانوں نے کفار کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کو کفارکی تعداد 626 نظر آئی حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۷-۱۵۸)

         بہر صورت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تائید تھی۔ اسی پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے تائید فرماتا ہے خواہ اس کی تعداد قلیل ہی ہو اور سروسامان کی کتنی ہی کمی ہو۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(14)

ترجمہ:

لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا۔) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا۔} لوگوں کیلئے من پسند چیزوں کی محبت کو خوشنما بنادیا گیا، چنانچہ عورتوں ، بیٹوں ، مال و اولاد، سونا چاندی، کاروبار، باغات، عمدہ سواریوں اور بہترین مکانات کی محبت لوگوں کے دلوں میں رچی ہوئی ہے اور اِس آراستہ کئے جانے اوران چیزوں کی محبت پیدا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ خواہش پرستوں اور خدا پرستوں کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے ،چنانچہ سورۂ کہف ، آیت7 میں صراحت سے ارشاد فرمایا:

اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(الکہف:۷)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کو اس لئے زینت بنایا تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔

چنانچہ یہ چیزیں ایسی مرغوب ہوئیں کہ کافر تو بالکل ہی آخرت سے غافل ہو گئے اور کفر میں جاپڑے جبکہ دوسرے لوگ بھی انہی چیزوں کی محبتوں کے اسیر ہوگئے حالانکہ یہ تو دنیاوی زندگی گزارنے کا سامان ہے کہ اس سے کچھ عرصہ نفع پہنچتا ہے پھر یہ سامانِ دنیا فنا ہوجاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ دنیا کے سامان کو ایسے کا م میں خرچ کرے جس میں اس کی عاقبت کی درستی اور آخرت کی سعادت ہو۔یہ تمام چیزیں اگر دنیا کے لئے رکھی جائیں تو دنیا ہیں اور اگراطاعت ِ الٰہی میں مدد و معاونت کے لئے رکھی جائیں تو دین بن جاتی ہیں جیسے بیوی، اولاد، مال، سواری، زمین وغیرہ تمام چیزیں اگر اپنے دین کی حفاظت اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت میں معاونت کیلئے ہوں تو یہی چیزیں قرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہیں جیسے حضرت عثما نِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مال دنیا نہیں ، دین تھا۔ اس کے ساتھ فرمایا کہ’’ دنیا کا سامان تو محض ایک سامان ہی ہے، رغبت و محبت اور حرص و طلب کے قابل تو رضائے الٰہی کا مقام یعنی جنت ہے لہٰذا  اس کی رغبت کرنی چاہیے اور اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے لئے اس آیت میں بہت اعلیٰ درس ہے ۔ ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی انہی دنیاوی چیزوں کی محبت میں مبتلا ہے، اہلِ خانہ اور اولاد کی وجہ سے حرام کمانا، مال و دولت کو اپنا مقصودِ اصلی سمجھنا، اسی کیلئے دن رات کوشش کرنا،بینک بیلنس بڑھانا، اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنا، بہترین لباس، عمدہ مکانات اورشاندار گاڑی ہی تقریباًہر کسی کا نَصبُ العَین اور مقصود و مطلوب ہے۔ اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر ہمیں بھی اپنی زندگی پر کچھ غور کرنا چاہیے۔

قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(15)اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(16)

ترجمہ: 

۔ (اے حبیب!) تم فرماؤ، کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟ (سنو، وہ یہ ہے کہ) پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (ان کیلئے) پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔وہ جو کہتے ہیں :ا ے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں ،تو تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ:تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟} سُبْحَانَ اللہ! دنیا کی حقیقت بیان کرنے کے بعد کتنے دلنشین اور حسین انداز میں جنت اور رضائے الٰہی کی طرف دعوت دی جارہی ہے چنانچہ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دنیا کی حقیقت اور فنائیت سمجھانے کے بعد تم لوگوں سے فرمادو کہ کیا میں تمہیں عورتوں ، بیٹوں ، مال و اولاد، سونا چاندی، کاروبار، باغات، عمدہ سواریوں اور بہترین مکانات سے اچھی، عمدہ اور بہتر چیز بتادوں ؟ سنو، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا گھر یعنی جنت ہے جس میں دودھ، شہد، شراب کی نہریں بہہ رہی ہیں ، جس میں  ایسی پاکیزہ بیویاں ہوں گی جوہر قسم کے زَنانہ عوارض اور ہر ناپسند و قابلِ نفرت چیز سے پاک ہوں گی، اور اس جنت میں پرہیزگاروں کو ہمیشہ رہنا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے جو سب سے اعلیٰ نعمت ہے۔ دعا: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر اپنی محبت ڈال دے، دنیا کی حرص نکال کر آخرت کی طلب داخل کر دے۔

اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(17)

ترجمہ: 

صبر کرنے والے اور سچے اور فرمانبردار اور راہِ خدا میں خرچ کرنے والے اور رات کے آخری حصے میں مغفرت مانگنے والے(ہیں )۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلصّٰبِرِیْنَ: صبر کرنے والے۔} دنیا کے طالبوں کا ذکر کرنے کے بعد مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی طلب رکھنے والے مُتَّقین کا بیان کیا گیا تھا۔ یہاں ان کے کچھ اوصاف بیان کئے جارہے ہیں۔

(1)… متقی لوگ عبادت و ریاضت کے باوجود اپنی اطاعت پر ناز نہیں کرتے بلکہ اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ سے گناہوں کی مغفرت اورعذاب ِ جہنم سے نجات کا سوال کرتے ہیں۔

شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُﭤ(18)

ترجمہ: 

اور اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہوکر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:  اوراللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} شانِ نزول: ملکِ شام کے علماء میں سے دوافراد سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب انہوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ’’نبیِّ  آخر الزّمان  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے شہر کی یہی صفت ہے جو اس شہر میں پائی جاتی ہے۔ پھر جب حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صورتِ مبارکہ اور اوصاف ِ کریمہ کو تَورات کے مطابق دیکھ کر فوراً آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچان لیااور عرض کیا :کیا آپ محمد ہیں ؟ تاجدارِ مدینہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہاں۔ انہوں نے پھر عرض کی: کیا آپ احمد ہیں ؟ سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ہاں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک سوال کریں گے، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے درست جواب دیدیا تو ہم آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’سوال کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ کتابُ اللہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اِسے سن کر وہ دونوں شامی علماء مسلمان ہوگئے۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱ / ۳۸۳)

اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے گواہی دی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا،لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ عَزَّوَجَلَّ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا عَزَّوَجَلَّ کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف اورحضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔

(2)… متقی لوگ طاعتوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں نیز گناہوں سے بچنے پر ڈٹے رہتے ہیں۔

(3)… متقی لوگوں کے قول ،ارادے اورنیّتیں سب سچی ہوتی ہیں۔

(4)… متقی لوگ اللہ تعالیٰ کے سچے فرمانبردار ہوتے ہیں۔

(5)… متقی لوگ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔

(6)… متقی لوگ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنے رب  عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، توبہ و استغفار کرتے ہیں ، رب تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور مناجات کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ رات کا آخری پہر نہایت فضیلت والا ہے، یہ وقت خَلْوَت اور دعاؤں کی قبولیت کا ہے۔ حضرت لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا تھا کہ’’ مرغ سے کم نہ رہنا کہ وہ تو سَحری کے وقت ندا کرے اور تم سوتے رہو۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱ / ۲۳۶)

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(19)

ترجمہ: 

بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اورجنہیں کتاب دی گئی انہوں نے آپس میں اختلاف نہ کیا مگر اپنے پاس علم آجانے کے بعد،اپنے باہمی حسد کی وجہ سے۔ اور جواللہ کی آیتوں کاانکار کرے تو بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ: بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔} ہر نبی کا دین اسلام ہی تھا لہٰذا اسلام کے سوا کوئی اور دین بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مقبول نہیں لیکن اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جو حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لائے، چونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ  تعالیٰ نے تمام لوگوں کیلئے رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو آخری نبی بنایا، تو اب اگر کوئی کسی دوسرے آسمانی دین کی پیروی کرتا بھی ہو لیکن چونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِس قطعی اور حَتمی دین اور نبی کو مکمل طور پر نہیں مان رہا لہٰذااس کا آسمانی دین پر عمل بھی مردود ہے۔ یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار جو اپنے دین کو افضل و مقبول کہتے ہیں اس آیت میں ان کے دعویٰ کو باطل فرمایا گیا ہے۔

{وَ مَا اخْتَلَفَ: اور انہوں نے اختلاف نہ کیا۔}  یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری جنہوں نے اسلام کو چھوڑا اور سیدُالانبیاء ،محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت میں اختلاف کیا اور یہ اختلاف بھی علم کے بعد کیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں سیدِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ چکے تھے اور انہوں نے پہچان لیا تھا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی کتبِ الٰہیہ میں خبریں دی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور اس انکار و اختلاف کا سبب ان کا حسد اور دنیاوی منافع کی طمع تھی۔ 

فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِؕ-وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْؕ-فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(20)

ترجمہ:

پھر اے حبیب!اگر وہ تم سے جھگڑا کریں تو تم فرمادو :میں تواپنا منہ اللہ کی بارگاہ میں جھکائے ہوئے ہوں اور میری پیروی کرنے والے بھی۔ اور اے حبیب ! اہلِ کتاب اور اَن پڑھوں سے فرمادو کہ کیا تم (بھی) اسلام قبول کرتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام قبول کرلیں جب تو انہوں نے بھی سیدھا راستہ پالیا اور اگر یہ منہ پھیریں تو تمہارے اوپر تو صرف حکم پہنچا دینا لازم ہے اور اللہ بندوں کودیکھ رہا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنْ حَآجُّوْكَ: پھر اگر وہ تم سے جھگڑا کریں۔} دینِ اسلام کی حقانیت بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، اگر وہ تم سے تمہارے یا اسلام کے حق ہونے کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم انہیں فرما دو کہ تم مانو یا نہ مانو، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،میں اور میرے پیروکار تو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردارو مطیع ہیں۔ نیز ان اہلِ کتاب یعنی یہودیوں ، عیسائیوں اوران پڑھوں یعنی اَن پڑھ اہلِ کتاب اور مشرکوں سے مزید یہ بھی فرمادو کہ کیا ہماری طرح تم بھی اسلام قبول کرتے ہو؟ اگریہ اسلام قبول کرلیں تب تو یہ بھی سیدھی راہ والے ہوجائیں گے لیکن اگر یہ اسلام قبول کرنے سے منہ پھیریں تو تمہاری شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ تمہارے اجر و ثواب میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ تمہارے اوپرتواللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اتنی ذمہ داری ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم انہیں پہنچادو۔ بقیہ ان کا معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کردو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اور اپنے سب بندوں کودیکھ رہا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّۙ-وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(21)

ترجمہ: 

بیشک وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور نبیوں کو ناحق شہید کرتے ہیں اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔} یہاں بنی اسرائیل کے تین جرائم کا بیان کیا گیا ہے: (1)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات کا انکار کرنا۔ (2) انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا۔ (3) انصاف کا حکم دینے والوں کو قتل کرنا۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے ایک مرتبہ صبح کے وقت تینتالیس نَبِیُّوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا پھر جب ان میں سے ایک سو بارہ عابدوں نے اٹھ کر انہیں نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا تو اسی روز شام کو انہیں بھی قتل کردیا۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۵۴)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(22)

ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ: یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال برباد ہوگئے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے اور یہ بھی کہ کفر سے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں کیونکہ یہودیوں نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا تھا جو سخت ترین بے ادبی ہے اور اس پر ان کے اعمال برباد کردئیے گئے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا (کہ جب انہیں ) اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کا فیصلہ کردے توپھر ان میں سے ایک گروہ بے رخی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ: کیا تم نے ان لوگوں کونہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں کو توریت شریف عطا کی گئی اور اس کے علوم و احکام سکھائے گئے۔ اسی توریت میں تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و احوال اور دینِ اسلام کی حقانیت کا بیان بھی تھا تو اس سے لازمآتا تھا کہ جب حضورِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تشریف لائیں اوربنی اسرائیل کو قرآن کریم کی طرف دعوت دیں تو وہ حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر اور قرآن شریف پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں لیکن ان میں سے اکثر نے ایسا نہیں کیا۔آیت میں کتابُ اللہ کی طرف بلانے کا ذکر ہے۔ جو تفسیر اوپر ذکر کی گئی اس کے مطابق یہاں ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد’’ قرآن‘‘ ہے اور اگر ’’کتابُ اللہ‘‘ سے مراد ’’توریت ‘‘ہو تومعنیٰ یوں ہوں گے کہ جب یہودیوں کو توریت کی طرف بلایاجاتا ہے تاکہ وہ توریت ہی ان کے درمیان نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن کی حقانیت کا فیصلہ کردے تو وہ توریت سے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔

{وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ: اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔} اس آیت کے شانِ نزول میں حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ آئی ہے کہ ایک مرتبہ رحمت ِعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک جگہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا، اے محمد!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ کس دین پر ہیں ؟ فرمایا، ملت ِ ابراہیم پر۔ وہ کہنے لگے ،حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو یہودی تھے۔نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’توریت لاؤ ،ابھی ہمارے، تمہارے درمیان فیصلہ ہوجائے گا ۔ وہ اس مطالبے پر نہ ٹھہر سکے اور منکر ہوگئے۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۱۷۰)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے اس آیت کے شانِ نزول کی دوسری روایت یہ ہے کہ ’’خیبر کے یہودیوں میں سے ایک مرد نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تھا۔ توریت میں ایسے گناہ کی سزا پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے لیکن چونکہ یہ لوگ یہودیوں میں اونچے خاندان کے تھے اس لئے انہوں نے ان کو سنگسار کرنا گوارہ نہ کیا اور اس معاملہ کو اس امید پر نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس لائے کہ شاید آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سنگسار کرنے کا حکم نہ دیں مگر حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان دونوں کے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس پر یہودی طیش میں آگئے اور کہنے لگے کہ’’ اس گناہ کی یہ سزا نہیں ہے، آپ نے ظلم کیا ہے۔ حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ فیصلے کا دارو مدار توریت پر رکھ لو۔ انہوں نے کہا: یہ انصاف کی بات ہے۔ چنانچہ توریت منگوائی گئی اور یہودیوں کے بڑے عالم عبداللہ  بن صوریا نے توریت پڑھنی شروع کی، جب رجم کی آیت آئی جس میں سنگسار کرنے کا حکم تھا تو عبداللہ بن صوریا نے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا ہاتھ ہٹا کر آیت پڑھدی۔ یہودی اس حرکت پر ذلیل و رسواہوئے اور وہ یہودی مردو عورت جنہوں نے زنا کیا تھا حضورِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے سنگسار کئے گئے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱ / ۲۳۹)

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۪- وَّ غَرَّهُمْ فِیْ دِیْنِهِمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(24)

ترجمہ: یہ جرأت انہیں اس لئے ہوئی کہ وہ کہتے ہیں : ہرگز ہمیں آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چنددن اور انہیں ان کی (ایسی ہی) من گھڑت باتوں نے ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈالاہوا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا: یہ جرأت انہیں اس لئے ہوئی کہ وہ کہتے ہیں۔} آیت میں فرمایا گیا کہ یہودیوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب اور اس کے احکام سے منہ پھیرنے کی یہ جرأت اس لئے ہوئی کہ انہوں نے اپنی نجات و بخشش کے من گھڑت خیالات پال رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں : ہمیں جہنم کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چنددن  یعنی چالیس دن یا ایک ہفتہ پھر کچھ غم نہیں۔ یا یہودی کہتے تھے کہ’’ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں (المائدہ : ۱۸) اللہ تعالیٰ نے اس طرزِ عمل پر فرمایا کہ’’ ان کی ایسی ہی من گھڑت باتوں نے ان کے دین کے بارے میں انہیں دھوکے میں ڈالا ہوا ہے۔

عمل سے منہ پھیر کر امید کی دنیا میں گھومنے کا انجام:

           ہمارے لئے اس میں درسِ عبرت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ عمل سے منہ پھیر کر صرف آرزو اور امید کی دنیا میں گھومتی رہتی ہے۔ جو شخص لاکھوں روپے کمانے کی تمنا رکھتا ہے لیکن اس کیلئے محنت کرنے کو تیار نہیں وہ کبھی ایک روپیہ بھی نہیں کما سکتا۔ جو قوم ترقی کرنے کی خواہشمند ہو لیکن اپنی بداعمالیاں ، کام چوریاں اور خیانتیں چھوڑنے کو تیار نہیں وہ کبھی ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی۔ یونہی جو لوگ اطاعت ِ الٰہی اور اتباعِ رسول  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قریب بھی نہ آئیں اور اپنی نسبتوں پر پھولتے پھریں وہ بھی احمقوں کی دنیاکے باسی ہیں اور افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسوں کی کثرت ہے ۔ہمارے واعظین، خطباء اور پیر صاحبان جو کچھ بیان فرماتے ہیں سب کے سامنے ہے۔ خوفِ خدا، قبر کی تیاری، آخرت کی فکر، بارگاہِ الٰہی کی جواب دہی پر شاید ہی کبھی کلام ہو اور رحمت کے موضوع پر اس قدر بیان کہ لوگ جَری ہوچکے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں قوم کی عملی حالت کہاں پہنچی ہوئی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔اس حوالے سے امت کے حکیم، امام غزالی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا حقیقت شَناس کلام پڑھئے۔ آپ نے کیمیائے سعادت میں تحریر فرمایا ہے: (اگر) علماء بھی وعظ و نصیحت کی بجائے بازاری مقررین کا انداز اختیار کر لیں ،لغویات وواہیات، بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کر دیں جو عموماً دیکھا گیا ہے تو لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں رحمت ِخداوندی ہمارے شامل حال رہے گی تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا۔ ظاہر ہے جب عام آدمی مجلسِ وعظ میں ایسی خرافات سنے گالازماً ویسی ہی صفات اس میں پید ا ہوں گی ، آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو در کنار، اس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا، پھر اسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا : اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا رحیم وکریم ہے، میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے؟ اورا س کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھڑی تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے وہاں تو کروڑوں انسان بآسانی سما جائیں گے تو مجھ جیسے گناہگار سے اللہ تعالیٰ کا تنگ آ جانا خدا کی رحمت سے بعید ہے۔ ایسی ایسی لغویات اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات،اصل دہم، علاج غفلت ونادانی، ۲ / ۷۳۲) ذرا غور کریں کہ کیا امام غزالی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فرمان ہمارے آج کے معاشرے پر صادق نہیں آتا۔

فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ۫-وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(25)

ترجمہ: تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اس دن کے لئے اکٹھا کریں گے جس میں کوئی شک نہیں اور ہر جان کو اس کی پوری کمائی دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ:تو کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے۔} یہاں من گھڑت امیدوں کی سواری پر بیٹھ کر خیالات کی دنیا میں سیاحت کرنے والوں کی بات ہورہی ہے جو عقیدۂ صحیحہ سے لاتعلق اور اعمالِ صالحہ سے دور ہونے کے باوجود خواب و خیال میں اپنے آپ کو جنت کے بلند و بالا محلات میں قیام پذیر سمجھتے ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ قیامت کے دن ان لوگوں کی کیسی حالت ہوگی جب ہم انہیں جمع کریں گے اور جب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ٘-وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-بِیَدِكَ الْخَیْرُؕ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(26)

ترجمہ: یوں عرض کرو، اے اللہ !مُلک کے مالک! تو جسے چاہتاہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور توجسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ،تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بیشک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والاہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ: یوں عرض کرو، اے اللہ! مُلک کے مالک!  }فتحِ مکہ کے وقت سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کوایران و روم کی سلطنت کی بشارت دی کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ آئے گی۔ اس پر یہود و منافقین کو بڑا تعجب ہوا اور کہنے لگے، کہاں محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور کہاں فارس و روم کے ملک؟ یہ تو بڑے زبردست اور نہایت محفوظ ملک ہیں اس پر یہ آیت ِ کریمہ  نازل ہوئی اور آخر کار حضورِاکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وہ وعدہ پورا ہوکر رہا۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۴۰)

             سلطنت و حکومت بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکُ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ ونوشیرواں ، ضحاک، فریدوں ، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو ربُّ العالَمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ یونہی عزت و ذلت دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ دور دراز کے گاؤں ، بستیوں سے ، چھوٹے اور غریب خاندانوں سے اٹھا کرتخت ِ حکومت پر بٹھا دینا، غلاموں کو بادشاہت عطا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور معاشرے کے معزز ترین بلکہ دوسروں کو عزتیں اور خلعتیں بخشنے والوں کو ذلت و گمنامی کے عمیق گڑھوں میں پھینک دینا اُسی اَحکَم ُالحاکمین مولیٰ تعالیٰ کی قدرت ہے۔

تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ٘-وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ٘-وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(27)

ترجمہ: تو رات کا کچھ حصہ دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کا کچھ حصہ رات میں داخل کردیتا ہے اور تو مردہ سے زندہ کونکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ: تو رات کا کچھ حصہ دن میں داخل کردیتا ہے۔} گرمیوں میں رات چھوٹی اور دن بڑے کردینا، سردیوں میں دن چھوٹے اور رات لمبی کردینا اللہ تعالیٰ ہی کے نظام کی وجہ سے ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں اتنا بڑا نظام ہے اس کیلئے فارس و روم سے ملک لے کر غلامانِ مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو عطا کردینا کیا بعید ہے۔

{وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ:  اورتو مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے۔} مردہ سے زندہ کا نکالنایوں ہے جیسے زندہ انسان کو بے جان نطفے سے اور پرندے کے زندہ بچے کو بے روح انڈے سے اور زندہ دل مؤمن کو مردہ دل کافر سے۔ یونہی زندہ سے مردہ نکالنا اس طرح جیسے کہ زندہ انسان سے بے جان نطفہ اور زندہ پرندے سے بے جان انڈا اور زندہ دل ایمان دار سے مردہ دل کافر۔

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(28)

ترجمہ: 

مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں۔} حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر سید ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱ / ۳۹۳)

            کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے، انہیں راز دار بنانا، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدناامامِ حسین  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے۔

قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ یَعْلَمْهُ اللّٰهُؕ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(29)یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ﳝ- وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍۚۛ-تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗۤ اَمَدًۢا بَعِیْدًاؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(30)

ترجمہ: 

تم فرمادو کہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ کو سب معلوم ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اوروہ ہر شے پر قدرت رکھنے والاہے۔۔(یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا تو تمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت (حائل) ہوجائے اور اللہ تمہیں اپنے عذاب سے ڈراتا ہے اور اللہ بندوں پر بڑامہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ: جس دن ہر شخص پائے گا۔} سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 29، 30ہر شخص کی اصلاح کیلئے کافی ہے۔ اس آیت پر جتنا زیادہ غور کریں گے اتنا ہی دل میں خوفِ خدا پیدا ہوگا اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوگی۔ چنانچہ فرمایا کہ تم فرمادو کہ اگر تم اپنے دل کی باتیں چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو سب معلوم ہے۔ تمہارے دلوں کا ایمان و نفاق، قلوب کی طہارت و خباثت، اچھے برے خیالات، نیک و بد ارادے، صحیح و فاسد منصوبے ساری دنیا سے چھپ سکتے ہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ عالِم ُا لغَیب و الشَّہادۃ کے حضور سب ظاہر ہے۔ وہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب جانتا ہے ۔ وہ تمہیں فرماتا ہے کہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو سب معلوم ہے اور اس دن کو یاد رکھو جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے اور برے اعمال اپنے سامنے موجود پائے گا۔ خَلْوَتوں ، جَلْوَتوں میں کئے ہوئے اعمال، پہاڑوں ، سمندروں ، غاروں ، صحراؤں ، جزیروں اور کائنات کے کسی بھی کونے میں کئے گئےاعمال کا ایک ایک ذرہ آدمی کے سامنے موجود ہوگا اور اس وقت برے اعمال والا تمنا کرے گاکہ کاش اس کے درمیان اور اس کے اعمال کے درمیان کوئی دور دراز کی مسافت حائل ہوجائے اور کسی طرح ان اعمال سے چھٹکارا ہوجائے مگر ایسا نہ ہوسکے گا۔آیت ِ مبارکہ کے حوالے سے سلف و صالحین کے طرزِ عمل کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ذیل کے واقعات کا مطالعہ فرمائیں :

عمر اور گناہوں کا حساب کرنے والے بزرگ:

حضرت توبہ بن صمہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے نفس کامحاسبہ کرتے ہوئے ایک دن حساب لگایا تو ان کی عمر 60 سال تھی، دنوں کا حساب کیا تو وہ 21500تھے، انہوں نے چیخ ماری اور فرمایا: ہائے افسوس! (اگر میں نے روزانہ ایک گناہ کیا ہو تو) میں حقیقی بادشاہ سے 21500گناہوں کے ساتھ ملاقات کروں گا اور جب روزانہ 10,000گناہ ہوں ، تو کیا صورت حال ہو گی یہ سوچ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ غش کھا کر گر پڑے اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔(احیاء علوم الدین،کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، بیان حقیقۃ المحاسبۃ بعد العمل، ۵ / ۱۳۹)

نیند سے پاک رب تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے:

ایک شخص کسی عورت پر فریفتہ ہوگیا ۔جب وہ عورت کسی کام سے قافلے کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئی تو یہ آدمی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ جب جنگل میں پہنچ کر سب لوگ سو گئے تو اس آدمی نے اس عورت سے اپنا حالِ دل بیان کیا۔ عورت نے اس سے پوچھا:کیا سب لوگ سو گئے ہیں ؟ یہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ شاید یہ عورت بھی میری طرف مائل ہو گئی ہے، چنانچہ وہ اٹھا اور قافلے کے گرد گھوم کر جائزہ لیا تو سب لوگ سورہے تھے ۔ واپس آکر اس نے عورت کو بتایا کہ ہاں ! سب لوگ سو گئے ہیں۔ یہ سن کر وہ عورت کہنے لگی :اللہ تعالیٰ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو،کیا وہ بھی اس وقت سو رہا ہے؟مرد نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نہ سوتا ہے ،نہ اسے نیند آتی ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے ۔ عورت نے کہا :جو نہ کبھی سویا اور نہ سوئے گا اوروہ ہمیں بھی دیکھ رہاہے اگرچہ لوگ نہیں دیکھ رہے تو ہمیں اس سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔ یہ بات سن کر اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب اس عورت کو چھوڑ دیا اور گناہ کے ارادے سے باز آگیا۔ جب اس شخص کا انتقال ہوا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور پوچھا’’مَافَعَلَ اللہُ بِکَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو اس نے جواب دیا:اللہ تعالیٰ نے مجھے گناہ چھوڑ دینے اور اپنے خوف کے سبب بخش دیا۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الثانی فی الخوف من اللہ تعالٰی۔۔۔ الخ، ص۱۱)

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(31)

ترجمہ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرنے والاہو اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت اختیار کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ قریش کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانۂ  کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اے گروہِ قریش !خدا  عَزَّوَجَلَّ کی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے ہٹ گئے ہو۔ قریش نے کہا: ہم ان بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں۔اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)

اور بتایا گیا کہ محبت ِالہٰی کا دعویٰ حضورسید ِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی اختیار کرے اور چونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ  مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کوحضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ تب یہ آیت اتری۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۴۳)

مفتی احمد یار خان نعیمی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہی قول قوی ہے کیونکہ سورۂ آلِ عمران مدنی ہے۔

رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ضروری ہے:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ   الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(اعراف:۱۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں :ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم یہودیوں کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیا آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا اور اگر آج حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا ۔ (شعب الایمان، الرابع من شعب الایمان، ذکر حدیث جمع القرآن، ۱ / ۱۹۹، الحدیث: ۱۷۶)

         صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کے جذبے کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :

(1)… حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث: ۲۵۱(۱۲۷۰))

         اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)

(2)…حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’ کیاتم مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے امیرُ المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ایک بارحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی کی ادا کو اداء کیا ہے۔) (مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان،  ۱ / ۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)

(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے ۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر رہا ہوں۔(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ(32)

ترجمہ: 

تم فرمادو کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو پھراگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ: اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ نازل ہوئی تو عبد اللہ بن اُبی منافق نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح قرار دے رہے ہیں اور یہ حکم کر رہے ہیں کہ ہم ان سے اسی طرح محبت کریں جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(البحر المحیط، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۴۴۹)          اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ  تعالیٰ نے میری اطاعت اس لئے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ اس کے رسول ہی ہیں اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہ ہو گی اور اللہ  تعالیٰ انہیں سزادے گا۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۹۸، جلالین،  اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۹، ملتقطاً)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کی اہمیت:

            تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہی محبتِ الٰہی  عَزَّوَجَلَّ کی دلیل ہے اور اسی پر نجات کا دارو مدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کاحصول، اپنی خوشنودی اور قرب کو حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی غیر مشروط اطاعت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب کسی کو رضا و قربِ الٰہی ملے گا تو محبوبِ رب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی غلامی کے صدقے ملے گا ورنہ دنیا جہاں کے سارے اعمال جمع کرکے لے آئے، اگر اس میں حقیقی اطاعتِ مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ موجود نہ ہوگی وہ بارگاہ ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یقینا قطعا ًمردود ہوگا۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جس نے انکار کیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یارسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انکار کون کرے گا؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو ا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۰)

            حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میری مثال اور اس کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث فرمایا گیا ہے اس شخص جیسی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا: اے قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے، میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو۔ چنانچہ اس کی قوم کے ایک گروہ نے ا س کی بات مانی اور راتوں رات نکل کر پناہ گاہ میں جا چھپے اور ہلاکت سے بچ گئے جبکہ ایک گروہ نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے مقامات پر ہی رہے،صبح سویرے لشکر نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کیا۔پس یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو میں لے کر آیا ہوں  اس کی پیروی کی اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلایا۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۵۰۰، الحدیث: ۷۲۸۳)

            حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سن لو !عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی اور وہ اپنی مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب(کافی ہے) ہم جو چیزا س میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور اسے حرام سمجھیں گے جسے قرآن میں حرام پائیں گے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اسی طرح حرام کیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما نہی عنہ انّہ یقال عند حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۳۰۲، الحدیث: ۲۶۷۳)

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(33)

ترجمہ: 

بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ: بیشک اللہ نے آدم کو چن لیا۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ ہم حضرت ابراہیم ،حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں اور انہیں کے دین پر ہیں ،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اسلام کے ساتھ برگزیدہ کیا تھا اور اے یہودیو! تم اسلام پر نہیں ہو تو تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے۔ اس آیت  سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ، چنے ہوئے، منتخب بندوں کی عظمت و شان کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جیسے یہاں پر برگزیدہ بندوں کا تذکرہ ہوا اور اس کے آگے کی آیتوں میں مُقربینِ بارگاہِ الٰہی کا تفصیل سے تذکرہ ہوا۔

ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(34)

ترجمہ:

یہ ایک نسل ہے جو ایک دوسرے سے ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذُرِّیَّةً: یہ ایک نسل ہے۔}یعنی   ان بر گزیدہ بندوں میں باہم نسلی تعلقات بھی ہیں اوردین کے اندر یہ حضرات ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی ہیں۔

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(35)

ترجمہ: 

۔ (یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے عرض کی: اے میرے رب! میں تیرے لئے نذر مانتی ہو کہ میرے پیٹ میں جواولاد ہے وہ خاص تیرے لئے آزاد (وقف) ہے تو تو مجھ سے (یہ )قبول کرلے بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ: جب عمران کی بیوی نے عرض کی۔ } عمران دو ہیں ایک عمران بن یَصْہُرْبن قاہِثْ بن لاوٰی بن یعقوب یہ تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد ہیں اور دوسرے عمران بن ماثان یہ حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ حضرت مریم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد ہیں ان دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو برس کا فرق ہے ،یہاں دوسرے عمران مراد ہیں ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۳،جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۴۰۰، ملتقطاً)

ان کی بیوی یعنی حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی والدہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذا ہے ۔یہاں آیت میں انہی کاواقعہ بیان ہورہا ہے ۔ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی تھی کہ اے اللہ! میں تیرے لئے نذر مانتی ہوں کہ میرے پیٹ میں جو اولاد ہے وہ خاص تیرے لئے وقف ہے ۔ تیری عبادت کے سوا دنیا کا کوئی کام اس کے متعلق نہ ہو اور بیتُ المقدس کی خدمت اس کے ذمہ ہو۔ علماء نے واقعہ اس طرح ذکر کیا ہے کہ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور حضرت عمران  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دونوں ہم زُلف تھے ۔فاقوذا کی دُختر اِیشاع حضرت زکریا  عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ تھیں اور یہ حضرت یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ ہیں اور ان کی بہن حضرت حَنَّہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی تھیں اور یہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی والدہ ہیں۔ ایک زمانہ تک حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی یہاں تک کہ بڑھاپا آگیا اور مایوسی ہوگئی، یہ صالحین کا خاندان تھا اور یہ سب لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے تھے۔ ایک روز حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے ایک درخت کے سایہ میں ایک چڑیا دیکھی جو اپنے بچہ کو بھرا رہی تھی یعنی دانہ کھلا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے دل میں اولاد کا شوق پیدا ہوا اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں دعا کی کہ یارب ! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو مجھے بچہ دے تو میں اس کو بیت المقدس کا خادم بناؤں گی اور اس خدمت کے لیے حاضر کردوں گی ۔چنانچہ جب وہ حاملہ ہوئیں اور انہوں نے یہ نذر مان لی تو ان کے شوہر نے فرمایا: یہ تم نے کیا کیا ،اگر لڑکی ہوگی تو وہ اس قابل کہاں ہوگی؟اس زمانہ میں بیتُ المقدس کی خدمت کے لیے لڑکوں کودیا جاتا تھا اور لڑکیاں اپنے مخصوص معاملات ، زنانہ کمزوریوں اور مردوں کے ساتھ نہ رہ سکنے کی وجہ سے اس قابل نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ اس لیے حضرت عمران  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شدید فکر لاحق ہوئی ۔ حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے ہاں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت سے پہلے حضرت عمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا انتقال ہو گیا تھا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱ / ۲۴۴)

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَاۤ اُنْثٰىؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْؕ-وَ لَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰىۚ-وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ وَ ذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(36)

ترجمہ: پھر جب عمران کی بیوی نے بچی کو جنم دیا تو اس نے کہا اے میرے رب !میں نے تو لڑکی کو جنم دیا ہے حالانکہ اللہ بہتر جانتا ہے جو اس نے جنا اور وہ لڑکا (جس کی خواہش تھی) اس لڑکی جیسا نہیں (جو اسے عطا کی گئی) اور (اس نے کہا کہ) میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّا وَضَعَتْهَا: تو جب عمران کی بیوی نے بچی کو جنم دیا۔} چونکہ حضرت عمران  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے ہی اپنے خدشے کا اظہار کرچکے تھے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت کہ بیٹے کی بجائے بیٹی کی ولادت ہوئی اس پر حضرت  حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اظہارِ افسوس کے طور پر یہ کلمہ کہا۔ انہیں حسرت و غم اس وجہ سے ہوا کہ چونکہ لڑکی پیدا ہوئی ہے لہٰذا نذر پوری نہیں ہوسکے گی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا یہ عرض کرنا منت کے پورا نہ کرسکنے پرافسوس کی وجہ سے تھا، اس وجہ سے نہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو لڑکی پیدا ہونے کا افسوس تھا کیونکہ یہ کفار کا طریقہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو لڑکی عطا فرمائی تھی اس کے بارے میں فرمایا کہ کوئی لڑکا اس لڑکی کی طرح نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہوگی، روحُ اللہ ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ماں ہوں گی، یہ رب عَزَّوَجَلَّ کی خاص عطا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض عورتیں بعض مردوں سے افضل ہوسکتی ہیں۔ خیال رہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے زمانے میں تمام جہان کی عورتوں سے افضل تھیں ، یہ نہیں کہ ان کا مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت خدیجۃُ الکُبریٰ اورحضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے بھی بڑھ کر ہو۔  مریم کے معنی عابدہ اورخادمہ ہیں۔(بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۶، ۱ / ۲۲۷)

{وَ اِنِّیْۤ اُعِیْذُهَا بِكَ:اور میں اسے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔} حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی والدہ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااور ان کی اولاد کیلئے شیطان کے شر سے پناہ مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا۔ لہٰذا یہ مقبول الفاظ ہیں ، اپنی اولاد کیلئے ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتے رہنا چاہیے،اِنْ شَآءَ اللہ  عَزَّوَجَلَّ کرم ہوگا۔

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًاۙ-وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ-كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(37)

ترجمہ: تو اس کے رب نے اسے اچھی طرح قبول کیا اور اسے خوب پروان چڑھایا اور زکریا کواس کا نگہبان بنا دیا، جب کبھی زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تواس کے پاس پھل پاتے۔ (زکریا نے) سوال کیا، اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ: تو اس کے رب نے اسے اچھی طرح قبول کیا ۔}اللہ تعالیٰ نے نذر میں لڑکے کی جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو قبول فرما لیااور انہیں احسن انداز میں پروان چڑھایا۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا دوسرے بچوں کی بَنسبت بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی رہیں۔ حضرت حَنَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بیتُ المقدس کے علماء کے سامنے پیش کردیا تاکہ وہ انہیں اپنی کفالت میں لے لیں۔ ان علماء کو بہت معزز شمار کیا جاتا تھا، یہ علماء حضرت ہارون عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی اولاد میں سے تھے اور بیتُ المقدس کی خدمت پر مقرر تھے۔ چونکہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حضرت عمران  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیٹی تھیں جو ان علماء میں ممتاز تھے اور ان کا خاندان بھی بنی اسرائیل میں بہت اعلیٰ اور صاحب ِ علم خاندان تھا اس لئے اُن سب علماء نے جن کی تعداد ستائیس تھی حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اپنی پرورش میں لینے میں رغبت ظاہر کی ۔ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے فرمایا کہ میں ان کا سب سے زیادہ حقدار ہوں کیونکہ میرے گھر میں ان کی خالہ ہیں ، معاملہ اس پر ختم ہوا کہ قرعہ اندازی کی جائے چنانچہ قرعہ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہی کے نام پر نکلا اوریوں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاحضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی کفالت میں چلی گئیں۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۱۵۸)

{ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا: ان کے پاس نیا پھل پاتے۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بہت عظمت عطا فرمائی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس بے موسم کے پھل آتے جو جنت سے اترتے اور حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کسی عورت کا دودھ نہ پیا۔ جب حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس جاتے تو وہاں بے موسم کے پھل پاتے۔ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے سوال کیا کہ یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ تو حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے بچپن کی عمر میں جواب دیا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے۔ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے یہ کلام اس وقت کیا جب وہ پالنے یعنی جُھولے میں پرورش پارہی تھیں جیسا کہ ان کے فرزند حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اسی حال میں کلام فرمایا۔ حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جب یہ دیکھا توخیال فرمایا ،جو پاک ذات حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بے وقت بے موسم اور بغیرظاہری سبب کے میوہ عطا فرمانے پر قادر ہے وہ بے شک اس پر بھی قادر ہے کہ میری بانجھ بیوی کو نئی تندرستی دیدے اور مجھے اس بڑھاپے کی عمر میں اولاد کی امید ختم ہوجانے کے بعد فرزند عطا فرمادے۔ اس خیال سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی جس کا اگلی آیت میں بیان ہے۔     (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۷، ۱ / ۲۴۶)

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(38)

ترجمہ: 

وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والاہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ:  وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی۔} حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے جب اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی دیکھی تو وہیں یعنی بیت ُالمقدس کی محراب میں دروازے بند کرکے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔

آیت’’هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ‘‘ سے معلوم ہونے والے دعا کے آداب:

            اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئیں۔

(1)… جس جگہ رحمت ِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے جیسے جس مقام پر حضرت مریم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہیں حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے دعا مانگی۔ اسی وجہ سے خانہ کعبہ اور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء پر دعا مانگنے میں زیادہ فائدہ ہے کہ یہ مقامات رحمت ِ الٰہی کی بارش برسنے کے ہیں۔

 (2)…علماءِ کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کے مقامات سے شمار کیا جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو۔ لہٰذا جہاں اولیاءِ کرام  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں وہاں دعا کرنی چاہیے کیونکہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بکثرت دعا کرتے ہیں اور ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں تو جہاں وہ رہے ہوں گے وہاں دعائیں ضرور قبول ہوئی ہوں گی۔

(3)… حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ معلوم ہوا کہ صرف اولاد کی دعا نہیں کرنی چاہیے کہ اولاد تو زبردست آزمائش بھی بن سکتی ہے۔ لہٰذا پاکیزہ کرداروعمل والی اولاد کی دعا کرنی چاہیے تاکہ اس سے دنیا و آخرت کا سکھ ملے۔

فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(39)

ترجمہ:

تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہاجبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردارہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا۔}  حضرت زکریا عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام بڑے عالم تھے، بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں قربانیاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی پیش کیا کرتے تھے اور مسجد شریف میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا، جس وقت محراب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نماز  میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کررہے تھے، دروازہ بند تھا، اچانک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک سفید پوش جوان کودیکھا، وہ حضرتِ جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے  انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزند کی بشارت دی جو ’’ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ‘‘ میں بیان فرمائی گئی۔             (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۳۹، ۱ / ۲۴۶)

             یہ غیب کی خبر حضرت جبرئیل اور حضرت زکریا عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کو معلوم ہوگئی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بشارت ملی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام’’ یحییٰ‘‘ ہوگا اور وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کَلِمَۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ فرما کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر سب سے پہلے ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے عمر میں چھ ماہ بڑے تھے۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ نے کہا: اے مریم!  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہامجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۹، ۱ / ۲۴۷)

{سَیِّدًا: سردار۔} آیت ِمبارکہ میں حضرت یحییٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے چار اوصاف بیان فرمائے،

(1)…مصدق: تصدیق کرنے والا۔ اس کا بیان اوپر گزرا۔

(2)…سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔

(3)…حَصُوْرًا: عورتوں سے بچنے والا۔ حصوروہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔

(4)… صالحین میں سے ایک نبی۔

قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌؕ-قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ(40)

ترجمہ:

عرض کی :اے میرے رب میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی بھی بانجھ ہے ؟ اللہ نے فرمایا: اللہ یوں ہی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ: میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا! } حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو جب بیٹے کی بشارت دی گئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے تعجب کے طور پر عرض کیا  :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا حالانکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ یوں ہی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس وقت حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی عمر ایک سو بیس سال کی ہوچکی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ کی عمر اٹھانوے سال تھی۔ سوال سے مقصود یہ تھا کہ بیٹا کس طرح عطا ہوگا ؟آیا میری جوانی واپس لوٹائی جائے گی اور زوجہ کا بانجھ ہونا دور کیا جائے گا یا ہم دونوں اپنے حال پر رہیں گے؟فرمایا گیا کہ بڑھاپے میں فرزند عطا کرنا اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں لہٰذا اس بڑھاپے کی حالت میں فرزند ملے گا ۔

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةًؕ-قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًاؕ-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ(41)

ترجمہ: 

عرض کی: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے۔ اللہ نے فرمایا: تیری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے صرف اشارہ سے بات چیت کرسکو گے اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اورصبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْۤ اٰیَةً: عرض کی: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے۔} حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں علامت ظاہر ہونے کا عرض کیا تا کہ اس وقت اور زیادہ شکر و عبادت میں مصروف ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ  تیری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے صرف اشارہ سے بات چیت کرسکو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی زوجہ کو حمل ٹھہرا توآدمیوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے زبان مبارک تین روز تک بند رہی اور تسبیح و ذکر پر آپ قادر رہے اوریہ ایک عظیم معجزہ ہے کہ جس میں اعضاء صحیح و سالم ہوں اور زبان سے تسبیح و تقدیس کے کلمات ادا ہوتے رہیں مگر لوگوں کے ساتھ گفتگو نہ ہوسکے اور یہ علامت اس لیے مقرر کی گئی کہ اس نعمتِ عظیمہ کے ادائے حق میں زبان ذکر و شکر کے سوا اور کسی بات میں مشغول نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالح فرزند ملنے پر رب عَزَّوَجَلَّ کا شکریہ ادا کر نا چاہیے، عقیقہ، صدقہ ، خیرات، نوافل سب اسی نعمت کا شکریہ ہے اور چونکہ ہمارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِین اور کائنات کی سب سے عظیم ترین نعمت ہیں اس لئے اس نعمت کا شکریہ ہم میلاد کی صورت میں ہمیشہ ادا کرتے رہتے ہیں۔

{ وَ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ: اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔}اگرچہ ہر وقت تسبیح و تہلیل بہتر ہے لیکن صبح شام خصوصیت سے زیادہ بہتر ہے کہ اس وقت دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں نیز آدمی کی صبح کی ابتداء اور انتہاء اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہونی چاہیے.

وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ(42)

ترجمہ: 

اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تمہیں چن لیاہے اور تمہیں خوب پاکیزہ کردیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر منتخب کرلیا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ: بیشک اللہ نے تمہیں چن لیاہے۔} اس آیت میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی شان کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے فضائل کیلئے منتخب فرمالیا مثلاً: عورت ہونے کے باوجود بیتُ المقدس کی خدمت کے لیے انہیں نذر میں قبول فرما لیا حالانکہ صرف مردوں کو ہی منتخب کیا جاتا تھا۔ لہٰذایہ بات ان کے سوا کسی عورت کو مُیَسَّر نہ ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کیلئے جنتی رزق بھیجا گیا، حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ان کا کفیل بنایا گیا، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ فضیلتیں فرشتوں کی زبان سے سنائی گئیں۔ مزید حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے اور مردوں کے ان پر قدرت پانے سے پاکیزہ بنایا اورانہیں سارے جہان کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی کہ بغیر باپ کے بیٹا دیا اور ملائکہ کا کلام سنوایا۔

یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)

ترجمہ: اے مریم! اپنے رب کی فرمانبرداری کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدہ کر واور رکوع والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ: اے مریم! اپنے رب کی فرمانبرداری کرو۔}قنوت کا معنیٰ فرمانبرداری کرنا بھی ہوتا ہے اورادب سے کھڑا ہونا بھی۔ جب فرشتوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو آیت میں مذکور حکم سنایا تو حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اتنا طویل قیام کیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم مبارک پر ورم آگیا اور پاؤں پھٹ کر خون جاری ہوگیا ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۳، ۱ / ۲۴۹)

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ(44)

ترجمہ: 

یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں اور تم ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ ان میں کون مریم کی پرورش کرے گا اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ: یہ غیب کی خبریں ہیں۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا واقعہ غیب کی خبروں میں سے ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے ہیں۔ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات جو قرآن و حدیث میں آئے سب غیب کی خبریں ہیں۔

{اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ: جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈال رہے تھے۔} چونکہ بہت سے لوگ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی پرورش کے امیدوار تھے۔ اس لئے آپس میں بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے قرعہ اندازی پر فیصلہ چھوڑ دیا چنانچہ جن قلموں سے تورات لکھا کرتے تھے ان کے ذریعے قرعہ اندازی کی اور طے یہ پایا کہ ہر کوئی اپنا قلم پانی میں رکھے، جس کا قلم پانی کے بہاؤ کے الٹی طرف بہنا شروع کر دے وہ کفالت کا حق دار ہو گا۔ سب نے اپنی اپنی قلم پانی میں ڈالی تو حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قلم الٹی طرف بہنا شروع ہو گیا ا س طرح حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کفالت میں آگئیں۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۱۹)

قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کرنا :

             اس سے معلوم ہوا کہ عام معاملات میں قرعہ اندازی سے بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے جیسے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سفر میں ساتھ لے جانے کیلئے ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرمایا کرتے تھے۔

اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(45)

ترجمہ: 

اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگااور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ: بیشک اللہ تجھے بشارت دیتا ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(آل عمران:۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوگیا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام بغیر باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کوئی باپ ہوتاتو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(احزاب: ۵)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔

وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(46)

ترجمہ: اوروہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ: اور وہ لوگوں سے جھولے میں کلام کرے گا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تین شانیں یہاں بیان ہوئیں۔

(1)… بات کرنے کی عمر سے پہلے ہی کلام کریں گے چنانچہ سورۂ مریم آیت29تا33میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام مذکور ہے۔

(2)…پکی عمر میں لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور وہ یوں کہ آسمان سے اترنے کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں سے کلام فرمائیں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آسمان سے زمین کی طرف اتریں گے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور دَجال کو قتل کریں گے۔ لہٰذا جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بچپن میں کلام کرنا معجزہ ہے، ایسے ہی پکی عمر میں اس طرح کلام کرنا معجزہ ہے ۔

(3)…اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہیں۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات:

            مجموعی طور پر سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 45اور 46میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت سی صفات بیان ہوئیں:

(1)…کلمۃُ اللہ ہونا۔

 (2)… مسیح ہونا۔

(3)… حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا بیٹا ہونا۔

(4)…بغیر باپ کے پیدا ہونا۔

(5)… دنیا میں عزت والا ہونا کہ قرآن کے ذریعے سارے عالَم میں ان کے نام کی دھوم مچا دی گئی۔ آخرت میں خصوصی عزت والا ہونابہت سے طریقوں سے ہوگا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت میں انہی کے ذریعہ مخلوق کوحضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تک رہنمائی ملے گی۔

(6)… بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بہت زیادہ قرب و منزلت رکھنے والا ہونا وغیرہ ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبروں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نعت خوانی سنت اِلٰہیہ ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌؕ-قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(47)

ترجمہ:

۔ ( مریم نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اللہ نے فرمایا :اللہ یوں ہی جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرمالیتا ہے تو اسے صرف اتنا فرماتا ہے ، ’’ ہوجا ‘‘تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ: میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا؟} جب فرشتوں نے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بیٹے کی بشارت دی تو انہوں نے حیرت سے عرض کیا: یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ بھی نہیں لگایا اور دستور یہ ہے کہ بچہ عورت و مرد کے ملاپ سے ہوتا ہے تو مجھے بچہ کس طرح عطا ہوگا ، نکاح سے یا یوں ہی بغیر مرد کے؟ جواب ملا کہ اسی حالت میں یعنی  تم کنواری ہی رہو گی اور فرزند پیدا ہو جائے گا، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑی قدرت والا ہے اور اس کی شان یہ ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرمالیتا ہے تو اسے صرف اتنا فرماتاہے ، ’’ ہوجا ‘‘تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے ۔

وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ(48)وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(49)

ترجمہ:

اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔ اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں ،وہ یہ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پانچ معجزات کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، (5)غیب کی خبریں دینا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کی تفصیل:

(1)…پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبوت کا دعویٰ کیااور معجزات دکھائے تو لوگوں نےدرخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)

چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اوروہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ (جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۸)

(2)…کوڑھیوں کو شفایاب کرنا۔ حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل ہوگیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں طب کاعلم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ،ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۲۵۱)

(3)…مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبد اللہ  بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اطلاع دی مگر وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسر اایک بڑھیا کا لڑکاتھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے جارہا تھا ، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے، گھرآگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جوشام کے وقت مری اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے اس کو زندہ کیا۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کو زندہ کریں۔چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہوگئے پھر وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۱۹-۴۲۰، ملتقطاً)

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جسے زندہ فرماتے اسے’’ بِاِذْنِ اللہِ ‘‘یعنی ’’اللہ کے حکم سے‘‘ فرماتے ۔ اس فرمان میں عیسائیوں کا رد ہے جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت یعنی خدا ہونے کے قائل تھے۔

(4)… غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کررکھا ہوتا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس بہت سے بچے جمع ہوجاتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کررکھی ہے، بچے گھر جاتے اورگھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آنے سے روکا اور کہاکہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا، ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۷۴، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۴۲۰، ملتقطاً)

سورۂ آلِ عمرا ن کی آیت نمبر49 سے معلوم ہونے والے عقائد ومسائل:

       اس آیتِ مبارکہ سے بہت سے عقائد و مسائل معلوم ہوتے ہیں۔

(1)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات عطا ہوئے۔

(2)…انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات عطا ہوتے ہیں۔

(3)…بہت سے معجزات انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اختیار سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ان معجزات میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

(4)…معجزات بہت سی قسموں کے ہوسکتے ہیں حتّٰی کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا بھی معجزہ ہوتا ہے۔

(5)…اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اختیارات اور قدرتیں عطا فرماتا ہے۔

(6)…محبوبانِ خدا لوگوں کی حاجت روائی پر قدرت رکھتے ہیں اور ان کی مشکل کشائی فرماتے ہیں۔

(7)…محبوبانِ خدا عام عادت سے ہٹ کر مشکل کشائی کرتے ہیں۔

(8)…محبوبانِ خدا کی قدرتیں عام مخلوق کی قدرتوں سے بڑھ کر اور بالا تر ہوتی ہیں۔

(9)…محبوبانِ خدا شفا بھی بخشتے ہیں۔

(10)… اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اسی لئے بطورِ خاص اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور محبوبانِ خدا کی بارگاہ میں عرض کی جاتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش فرمادیں اور ہمارے لئے دعا کردیں۔

(11)…محبوبانِ خدا کے تمام اختیارات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا اور اجازت سے ہوتے ہیں۔

(12)…محبوبانِ خدا کے اختیارات کا انکار کرنا سیدھا قرآن کا انکار کرنا ہے۔

(13)…محبوبانِ خدا کیلئے قدرت و اختیار ماننا شرک نہیں ورنہ معاذاللہ  قرآن پاک کی تعلیمات کو کیا کہیں گے؟

(14)…شِفا دینے، مشکلات دور کرنے وغیرہ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے استعمال کرنا شرک نہیں لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مشکل کشا اور دافعُ البلاء ہیں ،یا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے اولاد دیتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں مردے زندہ کرتا ہوں ، میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہوں ، میں غیبی خبریں دیتا ہوں ، حالانکہ یہ تمام کام ربّ عَزَّوَجَلَّ کے ہیں۔

(15)… محبوبانِ خدا غیب کی خبریں جانتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گھروں میں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی جانتے تھے۔

(16)…محبوبانِ خدا کیلئے علومِ غَیْبِیَہ ماننا توحید کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا انکار کرنا توحید کے منافی ہے۔  اس آیت میں جتنا غور کرتے جائیں اتنا زیادہ عقائد ِ اہلسنّت واضح ہوتے جائیں گے۔

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(50)

ترجمہ: 

اورمجھ سے پہلے جو توریت کتاب ہے اس کی تصدیق کرنے والا بن کرآیا ہوں اور اس لئے کہ تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں حلال کردوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مُصَدِّقًا: اور تصدیق کرنے والا۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام توریت کے کتابُ اللہ اور حق ہونے کی تصدیق کیلئے بھی تشریف لائے تھے اور اس کے بعض احکام کو منسوخ فرمانے بھی چنانچہ بعض وہ چیزیں جو شریعتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حرام تھیں جیسے اونٹ کاگوشت اورکچھ پرندے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حلال فرما دیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اذنِ خداوندی سے حلال و حرام فرمانے کے مختار ہیں کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں حلال کرتا ہوں۔ حلال و حرام کرنے کی نسبت انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اور بھی کئی جگہوں پر کی گئی ہے چنانچہ نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بارے میں سورہ ٔاعراف آیت 157 میں یہی نسبت موجود ہے۔ اس کی مزید تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجوداعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْْ کی کتاب ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلاَء ( مصطفٰی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(51)

ترجمہ:بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ  میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء واولیاء کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(52)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(53)

ترجمہ: پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) سے کفر پایا تو فرمایا: اللہ کی طرف ہو کر کون میرا مددگار ہوتا ہے؟ مخلص ساتھیوں نے کہا: ’’ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس پر گواہ ہوجائیں کہ ہم یقینامسلمان ہیں ۔ اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ: پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔} یعنی جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین کو منسوخ کریں گے، تو جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایذاا ورقتل کے درپے ہوئے اور انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفر کیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے۔  اس پر حواریوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد کا وعدہ کیا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۲۵۳)

حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے، یہ بارہ اَشخاص تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ِمصیبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور پھر کہا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے مسلمان ہونے پر گواہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین اسلام تھا ، یہودیت و نصرانیت نہیں۔ اسی لئے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا، عیسائی نہیں۔

وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(54)

ترجمہ: 

اور کافروں نے خفیہ منصوبہ بنایا اور اللہ نے خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَكَرُوْا: اور انہوں نے خفیہ منصوبہ بنایا۔} یعنی بنی اسرائیل کے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مکر کیا کہ دھوکے کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کا انتظام کیا اور اپنے ایک شخص کو اس کام پر مقرر کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مکرکا یہ بدلہ دیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی شَباہت اس شخص پر ڈال دی جو ان کے قتل کے لیے آمادہ ہوا تھا چنانچہ یہودیوں نے اس کو اسی شبہ پر قتل کردیا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱ / ۲۷۶)

لفظ ’’مکر‘‘ کے معنی:

لفظ مَکَر لغت عرب میں ستر یعنی پوشیدگی کے معنی میں ہے اسی لئے خفیہ تدبیر کو بھی مَکَر کہتے ہیں اور وہ تدبیر اگر اچھے مقصد کے لیے ہو تو محمود اور کسی قبیح غرض کے لیے ہو تو مذموم ہوتی ہے مگر اردو زبان میں یہ لفظ فریب کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اس لیے ہر گز شانِ الٰہی میں نہ کہا جائے گا اور اب چونکہ عربی میں بھی دھوکے کے معنیٰ میں معروف ہوگیا ہے اس لیے عربی میں بھی شانِ الٰہی میں اس کا اطلاق جائز نہیں آیت میں جہاں کہیں مذکور ہوا ہے وہاں وہ خفیہ تدبیر کے معنی میں ہے۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(55)

ترجمہ: یاد کرو جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں تمہیں پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے نجات عطاکروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے توجن باتوں میں تم جھگڑتے تھے ان باتوں کا میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰى: جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ۔} اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار باتیں فرمائی گئیں : (1) تَوَفّٰی یعنی پوری عمر کو پہنچانا،(2)اپنی طرف اٹھالینا، (3)کافروں سے نجات دینا، (4) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیروکاروں کو غلبہ دینا۔ اب ہم ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

پہلی بات تَوَفّٰی ہے۔مرزائیوں نے آیتِ پاک کے ان الفاظ کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں حضرت عیسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے ’’پورا کرنا ‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہے:

وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ابراہیم جو پورے احکام بجا لایا۔

اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ’’اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں ’’مُتَوَفِّیْكَ‘‘ اور ’’رَافِعُكَ‘‘کے درمیان میں ’’واؤ‘‘ ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا گیا:

وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ(آلِ عمران:۴۳)

 ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور سجدہ اور رکوع کر۔

یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں ’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں ’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔

دوسری بات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اٹھایا جانا ہے۔ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں  بغیر موت کے اٹھا کر آسمان پر عزت کی جگہ اور فرشتوں کی جائے قرار میں پہنچا دیں گے ۔رسولِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے ،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ:  ۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر، ذکر من اسمہ عیسیٰ، عیسی بن مریم، ۴۷ / ۵۲۲)

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام منارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے۔ (مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۹۳۷))

یہ بھی حدیث میں ہے کہ ’’حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔ (الوفاء باحوال  المصطفٰی، ابواب بعثہ وحشرہ وما یجری لہ صلی اللہ علیہ وسلم، الباب الثانی فی حشر عیسی بن مریم مع نبینا، ص۳۲۵،الجزء الثانی)

تیسری بات کہ کفار سے نجات دلاؤں گا۔اس طرح کہ کفار کے نرغے سے تمہیں بچا لوں گا اور وہ تمہیں سولی نہ دے سکیں گے۔

چوتھی بات ماننے والوں کومنکروں پر غلبہ دینا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ماننے والوں سے مراد ہے ’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘ اور صحیح ماننے والے یقینا صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ ’’ماننا ‘‘تو بدترین قسم کا ’’نہ ماننا‘‘ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔

فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(56)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(57)ذٰلِكَ نَتْلُوْهُ عَلَیْكَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ(58)

ترجمہ: 

پس جو لوگ کافر ہیں تومیں انہیں دنیاو آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کاکوئی مددگار نہ ہوگا۔ اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو اللہ انہیں ان کا پورا پورااجر عطا فرمائے گا اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ جو ہم تمہارے سامنے پڑھتے ہیں کچھ نشانیاں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا: تو میں انہیں سخت عذاب دوں گا۔} کافر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہیں۔ دنیا میں سزا تو قتل، قیداور جزیہ لازم ہونا ہے اور آخرت کا عذاب دوزخ ہے۔

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(59)

ترجمہ: 

بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ’’ ہوجا ‘‘ تووہ فوراً ہوگیا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى: بیشک عیسیٰ کی مثال۔} علاقہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد سرورِکائنات  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آیا اور وہ لوگ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہنے لگے کہ’’ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ہیں۔ فرمایا:’’ ہاں ، اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری پاک مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو عطا فرمایا۔ عیسائی یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے: اے محمد! کیا تم نے کبھی بے باپ کا انسان دیکھا ہے؟ اس سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو صرف بغیر باپ کے پیدا ہوئے جبکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کیے گئے تو جب انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مخلوق و بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے؟ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۹، ۱ / ۲۵۷، تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۷۹-۸۰، الجزء الرابع، ملتقطاً) لہٰذا جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر نطفہ کے بنے،ایسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔تو جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا کے بیٹے نہ ہوئے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔

60

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ(60)

ترجمہ: اے سننے والے! حق تیرے رب کی طرف سے ہے پس تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ: حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔} آیت کا معنیٰ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ جو واقعہ بیان ہوا یہ حق ہے اور تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں شک نہ کرواور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر حق تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں شک نہ کرو اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بھی اسی حق میں سے ہے جو تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے لہٰذا اس میں بھی شک نہ کرو۔

فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(61)

ترجمہ: 

پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آجانے کے بعد جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو: آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواور اپنی عورتوں کواور تمہاری عورتوں کواور اپنی جانوں کواور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں ) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ: جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں۔}یہاں مباہلے کا ذکر ہورہا ہے اس کا معنیٰ سمجھ لیں ، مُباہَلہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ دو مدمقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تواللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔ اب واقعہ پڑھئے۔  جب سرکارِ عالی وقار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے نجران کے عیسائیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اور مشورہ کرلیں ، کل آپ کو جواب دیں گے۔ جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص عاقب سے کہا کہ’’ اے عبدُ المسیح! مباہلہ کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے نصاریٰ کی جماعت! تم پہچان چکے ہو کہ محمدنبی مُرْسَل تو ضرور ہیں۔ اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہوجاؤ گے۔ اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ دو اور گھروں کو لوٹ چلو۔ یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ رسولِ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضورانور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گود میں تو امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں اور دستِ مبارک میں امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہاتھ ہے اور حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پیچھے ہیں اور حضورپر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان سب سے فرما رہے ہیں کہ’’ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔ نجران کے سب سے بڑے عیسائی پادری نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا :اے جماعت ِ نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پہاڑ کو ہٹادینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دے، ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہے گا۔ یہ سن کر نصاریٰ نے سرکارِ کائنات  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ’’ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے۔ آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کے لیے تیار نہ ہوئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۲۵۸)

             سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، نجران والوں پر عذاب قریب آ ہی چکا تھا۔ اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کردیئے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور نجران اور وہاں کے رہنے والے پرند ے تک نیست و نابود ہوجاتے اور ایک سال کے عرصہ میں تمام نصاریٰ ہلاک ہوجاتے۔(ابو سعود، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱ / ۳۷۳)

مباہلہ کس میں ہونا چاہئے:

            اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ مناظرہ سے اوپر درجہ مباہلہ کا ہے یعنی مخالف ِدین کے ساتھ بد دعا کرنی۔ دوسرے یہ کہ مباہلہ دین کے یقینی مسائل میں ہونا چاہیے نہ کہ غیر یقینی مسائل میں لہٰذا اسلام کی حقانیت پر تو مباہلہ ہوسکتا ہے۔ حنفی شافعی اختلافی مسائل میں نہیں۔

اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّۚ-وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(62)فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِالْمُفْسِدِیْنَ(63)

ترجمہ: 

بیشک یہی سچا بیان ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک اللہ ہی غالب ہے حکمت والا ہے۔ پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ فساد کرنے والوں کو جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ: بیشک یہی سچا بیان ہے۔} یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس میں نصاریٰ کا بھی رد ہے اور تمام مشرکین کا بھی۔

!۔} اہلِ کتاب کو تین چیزوں کی طرف دعوت دی پہلی یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور یہ وہ چیز ہے جس میں  قرآن ،توریت اور انجیل سب متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری یہ کہ ہم کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرائیں نہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور نہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ اور کسی کو اور یہ بات یقینا پہلی بات ماننے کے مُترادِف ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب نہ بنائے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور پادریوں کو بنا رکھا تھا کہ ان کے احکام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے برابر سمجھتے۔

اختلاف ختم کرنے کا عمدہ طریقہ:

            اس آیت میں اختلاف ختم کرنے کا ایک عمدہ طریقہ بیان کیا ہے کہ جو مشترکہ اور متفقہ چیزیں ہیں انہیں طے کرلیا جائے تاکہ اختلافی امور ممتاز ہوجائیں اور ان کی تعداد کم ہو جائے اور بحث صرف انہی پر منحصر رہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جب بحث کی جاتی ہے تو کبھی اختلافی موضوع زیرِ بحث آتا ہے اور کبھی اتفاقی پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(64)

ترجمہ: اے حبیب! تم فرمادو، اے اہلِ کتا ب! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں کوئی ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کو رب نہ بنائے پھر (بھی) اگر وہ منہ پھیریں تو اے مسلمانو! تم کہہ دو : ’’تم گواہ رہو کہ ہم سچے مسلمان ہیں ‘‘۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ، اے اہلِ کتاب!۔} اہلِ کتاب کو تین چیزوں کی طرف دعوت دی پہلی یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور یہ وہ چیز ہے جس میں  قرآن ،توریت اور انجیل سب متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ دوسری یہ کہ ہم کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرائیں نہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور نہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ اور کسی کو اور یہ بات یقینا پہلی بات ماننے کے مُترادِف ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب نہ بنائے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور پادریوں کو بنا رکھا تھا کہ ان کے احکام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے برابر سمجھتے۔

اختلاف ختم کرنے کا عمدہ طریقہ:

            اس آیت میں اختلاف ختم کرنے کا ایک عمدہ طریقہ بیان کیا ہے کہ جو مشترکہ اور متفقہ چیزیں ہیں انہیں طے کرلیا جائے تاکہ اختلافی امور ممتاز ہوجائیں اور ان کی تعداد کم ہو جائے اور بحث صرف انہی پر منحصر رہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جب بحث کی جاتی ہے تو کبھی اختلافی موضوع زیرِ بحث آتا ہے اور کبھی اتفاقی پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(65)

ترجمہ:

اے اہلِ کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ حالانکہ توریت اور انجیل تو اتری ہی ان کے بعد ہے ۔تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ: تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ } نجران کے عیسائیوں اور یہودیوں کے علماء میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق مناظرہ ہوا۔ یہودی کہتے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہودی تھےلہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ عیسائی کہتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عیسائی تھے لہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ آخر کار ان دونوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنا حاکم بنایا، اس پر آیت اتری، (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۵، ۱ / ۲۶۰)

            جس میں ان بیوقوفوں کی انتہائی جہالت ظاہر فرمائی گئی کہ یہودیت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نصرانیت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جاری ہوئیں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان دونوں بزرگوں سے کئی سو سال پہلے ہوئے ہیں تو وہ یہودی یا عیسائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ فرمایا: اے اہلِ کتاب !تم ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو کہ وہ یہودی یا عیسائی تھے؟ حالانکہ توریت اور انجیل تو اتری ہی ان کے بعد ہے ۔تو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ؟ کہ کئی سوسال پہلے والا شخص بعد والے گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا ۔

بزرگوں پر ہونے والے اعتراضات کو دور کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے:

             اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں سے لوگوں کے الزام دور کرنا سنت ِ الٰہیہ ہے، ان کی عظمت کی حمایت کرنا محبوب چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت سلیمان اور دیگر بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ہونے والے اعتراضات کو دور فرمایا ہے۔

 علمِ تاریخ کی اہمیت:

            اس آیتِ مبارکہ سے علمِ تاریخ کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ یہاں تاریخ پر ہی حقیقت کا مدار ہے۔فی زمانہ علمِ تاریخ کی ویسے بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے زمانے کے بہت سے گمراہ لوگ تاریخ کو مسخ کرکے ہی لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ یونہی علمِ اَسماء الرِّجال حقیقتاً تاریخ پر ہی دارومدار رکھتا ہے نیز قوموں کے عروج و زوال اور اس کے اسباب تاریخ ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے طور پر ہر ایک کو تاریخ کی اجازت نہیں کیونکہ موجودہ تاریخ میں بہت سی گمراہ کن باتیں شامل ہیں۔ بے علم آدمی پڑھے گا تو مارا جائے گا۔ کسی مُستَنَد عالم کی رہنمائی میں تاریخ پڑھنی چاہیے۔

هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(66)مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰـكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(67)

ترجمہ:

سن لو: تم وہی لوگ ہوجو پہلے اس معاملے میں جھگڑ تے تھے جس کا تمہیں علم تھا تو (اب) اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ؟ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ: سن لو: تم وہی لوگ ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تم ہی ہو کہ تمہاری کتابوں میں  نبیِّ آخر الزّمان  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ظہور اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت کا بیان موجود ہے اس کے باوجود تم حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے اور تم نے اس میں جھگڑا کیا تو جب معلوم باتوں میں تم جھگڑا کرتے ہو تو ان باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ، یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہودی یا نصرانی کہتے ہوحالانکہ تمہیں اس کا علم ہی نہیں ہے اورحقیقت حال یہ ہے کہ   کسی یہودی یا نصرانی یا مشرک کا اپنے آپ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پیروکار کہنا درست نہیں کیونکہ وہ نہ یہودی تھے، نہ عیسائی اور نہ مشرک بلکہ ہر باطل سے جدا، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار مسلمان بندے تھے۔

اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ(68)

ترجمہ: بیشک سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم کے حق دار وہ ہیں جو ان کی اتباع کرنے والے ہیں اور یہ نبی اور ایمان والے اور اللہ ایمان والوں کامددگار ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ: بیشک سب لوگوں سے زیادہ ابراہیم کے حق دار وہ ہیں۔} اوپر کی آیات میں بیان ہوا کہ کسی یہودی یا نصرانی یا مشرک کا اپنے آپ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پیروکار کہنا درست نہیں کیونکہ وہ نہ یہودی تھے، نہ عیسائی اور نہ مشرک بلکہ ہر باطل سے جدا، خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار مسلمان بندے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ لوگوں میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو ان کے زمانہِ نبوت میں ان پر ایمان لائے اور ان کی شریعت پر عمل پیرا رہے اور پھر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قریب یہ نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے امتی ہیں۔

آیت’’اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… نبی سے قرب ان کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ محض ان کی اولاد ہونے سے ،چنانچہ کنعان حضرت نوح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قریب نہ ہوسکا کیونکہ وہ کافر تھا۔

(2)… مسلمان ہی سچے ابراہیمی ہیں چنانچہ اسی لئے تمام ابراہیمی سنتیں اسلام میں موجود ہیں جیسے: حج ، قربانی ، ختنہ، داڑھی وغیرہ ۔یہ سب ابراہیمی سنتیں ہیں اور ان یہود و نصاریٰ کے دین میں نہیں ہیں توصرف مسلمان ابراہیمی ہوئے۔

(3)… بزرگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ نعمت ہے۔ جیسے یہاں آیت میں حقانیت کی علامت حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صحیح نسبت و تعلق کو بیان فرمایا ہے۔

وَدَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْؕ-وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(69)

ترجمہ: کتابیوں کا ایک گروہ دل سے چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں گمراہ کردیں اور وہ صرف خود کو گمراہ کررہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَدَّتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: کتابیوں کا ایک گروہ دل سے چاہتا ہے۔} یہ آیت حضرت معاذ بن جبل ، حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے حق میں نازل ہوئی جن کو یہودی اپنے دین میں داخل کرنے کی کوشش کرتے اور یہودِیَّت کی دعوت دیتے تھے ،اس میں بتایا گیا کہ ’’یہ ان کی ہوس خام ہے ،وہ ان کو گمراہ نہ کرسکیں گے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۸۴، الجزء الرابع )

             اس میں مذکورہ بالا صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت و شان بھی واضح ہوتی ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ کفار کے گروہ مسلمانوں کو اپنے دین میں داخل کرنے کیلئے کوششیں ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً کفرو اِرْتِداد کی تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور اب تو فلموں ، ڈراموں ، مزاحیہ پروگراموں اور خصوصاً گانوں نے تو تباہی مچا رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ(70)

ترجمہ: اے کتابیو! اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ: اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ }اہلِ کتاب سے فرمایا گیا کہ’’ اے کتابیو! تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو حالانکہ تم خود اپنی کتابوں توریت و انجیل سے پڑھ کر قرآن اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حقانیت کے گواہ ہو اور تمہاری کتابوں میں سرکارِ دو عالَم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت موجود ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ نبی برحق ہیں اور ان کا دین سچا دین ہے۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(71)

ترجمہ: اے کتابیو! حق کوباطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو اور حق کیوں چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: حق کوباطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو؟} فرمایا کہ’’ اے کتابیو! اپنی کتابوں میں تحریف و تبدیل کرکے حق کوباطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو؟ اورذاتی مفادات کیلئے حق کیوں چھپاتے ہو ؟حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ نبی حق ہیں اور تم غلطی پر ہو۔

وَ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(72)

ترجمہ: اور کتابیوں کے ایک گروہ نے کہا : جو ایمان والوں پرنازل ہوا ہے صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو انکار کردو۔ ہوسکتا ہے (کہ اس طرح مسلمان بھی اسلام سے) پھر جائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اور کتابیوں کے ایک گروہ نے کہا۔} یہودی اسلام کی مخالفت میں رات دن نئی نئی سازشیں کیا کرتے تھے۔ خیبرکے بارہ یہودی علماء نے آپس میں مشورہ کرکے یہ سازش تیار کی کہ ان کی ایک جماعت صبح کے وقت اسلام لے آئے اور شام کو مرتد ہوجائے اور لوگوں سے کہے کہ ہم نے اپنی کتابوں میں جو دیکھا تو ثابت ہوا کہ محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وہ نبی نہیں ہیں جن کی ہماری کتابوں میں خبر ہے تاکہ اس حرکت سے مسلمانوں کواپنے دین میں شبہ پیدا ہوجائے اور یہ اپنے دین سے پھر جائیں  (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۲، ۱ / ۲۶۲-۲۶۳)

            لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کا یہ راز فاش کردیا اور ان کا یہ مکر نہ چل سکا اور مسلمان پہلے سے خبردار ہوگئے۔ اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کہ کافروں کی طرف سے سازشوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ آج بھی ایسی سازشیں پکڑی جاتی ہیں کہ جھوٹی فلموں ، جھوٹی رپورٹوں اور جھوٹی تصویروں کے ذریعے لوگوں کو اسلام سے مُتَنَفِّر کیا جاتا ہے۔ اس وقت کفار میڈیا کو اس مقصد کیلئے بطورِ خاص استعمال کررہے ہیں۔

وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِـعَ دِیْنَكُمْؕ-قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِۙ-اَنْ یُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْؕ-قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِۚ-یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(73)

ترجمہ: اور (مزید آپس میں کہا کہ) صرف اسی کا یقین کرو جو تمہارے دین کی پیروی کرنے والا ہو۔ اے حبیب! تم فرمادو کہ ہدایت تو صرف اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ (اور یہ سازشی آپس میں کہتے ہیں کہ اس کا بھی یقین نہ کرو) کہ کسی اور کو بھی ویسا مل سکتا ہے جو تمہیں دیا گیا یاکوئی تمہارے رب کے پاس تمہارے اوپر غالب آسکتا ہے۔ اے حبیب! تم فرما دو کہ فضل تو یقینا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِـعَ دِیْنَكُمْ: اور صرف اسی کا یقین کروجو تمہارے دین کی پیروی کرنے والا ہو۔} یہودی ایک تو آپس میں سازشیں بناتے رہتے تھے اور دوسرا ایک دوسرے سے کہتے کہ صرف اسی کا یقین کروجو تمہارے دین کی پیروی کرنے والا ہو اور اس بات پر ہر گز یقین نہ کروکہ کسی اور کو بھی ویسی ہدایت، دین ،کتاب و حکمت اور شرافت وفضیلت  مل سکتی ہے جو تمہیں ملی ہوئی ہے ۔ یہودیوں کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نبوت صرف بنی اسرائیل کو ملی ہے، ان کے سوا کسی اور قبیلہ کو نہیں ملی اور چونکہ نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں سے ہیں لہٰذا یہ نبی نہیں ہیں۔ یہودی اس بہانے سے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے۔ یونہی ان کے علماء کا کہنا تھا کہ تم زبان سے اسلام کی حقانیت کا اقرار کر لینا مگر دل سے نہ کرنا۔ یہودیوں کے یہ دعوے سراسر جھوٹے تھے کہ نبوت ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں مل سکتی کیونکہ اس بات کا ذکر کسی آسمانی کتاب میں نہیں تھا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے حبیب! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم فرمادو کہ فضل تو یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے، یعنی وہ جسے چاہتا ہے نبوت عطا فرماتا ہے ،تو جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے قید نہ لگائی تم لگانے والے کون ہوتے ہو؟ نبوت میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں ،میں نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے خاص نہ فرمایا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبوت اعمال سے نہیں ملتی، یہ محض اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فضل ہے ۔

یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(74)

ترجمہ: وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرما لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ: وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرما لیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ  نبوت و رسالت کے ساتھ جسے چاہے خاص فرمالیتا ہے اور نبوت جس کسی کو ملتی ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے ملتی ہے اس میں ذاتی استحقاق کا دخل نہیں۔ ہاں اب اللہ تعالیٰ نے چونکہ نبوت کا دروازہ بند کردیا تو اب کسی کو نبوت نہ ملے گی۔

وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىٕمًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)

ترجمہ:

اوراہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں (پورا پورا) ادا کردے گا اور انہی میں سے کوئی وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دوتو جب تک تم اس کے سر پر کھڑے نہیں رہو گے وہ تمہیں ادا نہیں کرے گا۔ (ان کی ) یہ بددیانتی اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملے میں ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور یہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ: اور اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے۔}یہ آیت اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی اور اس میں ظاہر فرمایا گیا کہ’’ ان میں دوقسم کے لوگ ہیں : امانت دار اور بددیانت۔ بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تو وہ بغیر کسی کمی بیشی کے وقت پر ادا کردیں گے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کے پاس ایک قریشی نے بارہ سو اوقیہ یعنی تقریبا ً147کلوسونا امانت رکھا تھا، آپ نے اس کو ویسا ہی ادا کیا اور بعض اہلِ کتاب اتنے بددیانت ہیں کہ تھوڑے سے مال پر بھی ان کی نیت بگڑ جاتی ہے۔ جیسے کہ فَنْحَاص بِنْ عَازُورَاء نامی یہودی جس کے پاس کسی نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی لیکن وہ واپسی کے وقت اس سے بھی مُکَرگیا۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۵۴)

            تو ان دونوں قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ  اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں پورا پورا واپس ادا کردے گا اور انہی میں سے کوئی وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو جب تک تم اس کے سر پر کھڑے نہیں رہو گے اور بار بار تقاضا نہیں کرتے رہو گے وہ تمہیں ادا نہیں کرے گا گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ڈر سے نہیں بلکہ لوگوں کے ڈر سے اور بار بار کے تقاضے پر ہی امانت ادا کرے گا اور ایسی امانت داری قابلِ تعریف نہیں جو بلند اخلاقی اور خوف ِ خدا کی وجہ سے نہ ہو بلکہ لوگوں کے ڈر سے ہو ۔ یہودی اس طرح بددیانتی کی حرکتیں کرتے اور اپنے نفس کو اس حیلے بہانے سے راضی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں دوسرے دین والوں کے مال ہضم کرجانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسا حکم نہیں اور ان کی یہ بات اللہ تعالیٰ پر بہتا ن ہے۔   اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے اور ظلم کے طور پر کسی کا مال دبا لینا حرام ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے مذہب کا ہو۔ رسولِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کی رات حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان لوگوں کی امانتوں کی ادائیگی کی ذمہ داری دے کر گئے جو حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور جن سے تنگ آکر آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کررہے تھے۔ سُبْحَانَ اللہ۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام، ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹۲-۱۹۳)

بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(76)

ترجمہ: 

کیوں نہیں ، جو اپنا وعدہ پورا کرے اور پرہیزگاری اختیارکرے توبیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلٰى: کیوں نہیں۔} یہودیوں کی بات کہ’’ دوسرے مذہب والوں سے بددیانتی کرنے پران سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی‘ ‘ بیان کی گئی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون بیان فرمادیا کہ دوسروں سے بددیانتی کرنے پر پوچھ گچھ کیوں نہیں ہوگی؟ وعدہ پورا کرنا اور امانت کا ادا کرنا دونوں چیزیں پرہیزگاری کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور پرہیزگاری اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب ہے تو جواللہ تعالیٰ کی پسند پر چلے گا وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بنے گا اور جو اللہ تعالیٰ کی پسند کی مخالفت کرے گا اس پر ضرور مواخذہ کیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کسی سے وعدہ کیا جائے اسے ضرور پورا کیا جائے خواہ رب عَزَّوَجَلَّ سے کیا ہو یا عام انسانوں سے یا نبی سے یا اپنے پیر سے یا بوقت نکاح بیوی سے یا کسی اور عزیز سے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(77)

ترجمہ:

بیشک وہ لوگ جو اللہ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں ،اِن لوگوں کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ توان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظر کرے گااور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثَمَنًا قَلِیْلًا: تھوڑی سی قیمت۔} یہ آیت یہودیوں کے علماء اور ان کے کچھ سرداروں مثلاً ابو رافع، کعب بن اشرف اور حی بن اخطب وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد چھپایا تھا جو نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق ان سے توریت میں لیا گیا تھا، انہوں نے اس کو بدل دیا اور بجائے اس کے اپنے ہاتھوں سے کچھ کا کچھ لکھ دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنی جماعت کے جاہلوں سے رشوتیں اورمال و دولت حاصل کرنے کے لیے کیا۔ان کیلئے یہ شدید وعید بیان کی گئی کہ جو لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں ،اِن لوگوں کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن نہ توان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف رحمت کی نظر کرے گااور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

جھوٹ بول کر مال حاصل کرنے کی وعید:

         اس وعید میں جھوٹی قسم کھا کر مال لے لینے والے، رشوت لے کر جھوٹی گواہی دینے والے یا رشوت لے کر جھوٹے فیصلے کرنے و الے یا جھوٹی وکالت کرنے والے سب ہی داخل ہیں۔

         حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی  مسلم شریف کی حدیث میں ہے ، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام فرمائے گااور نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اورنہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گااور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔اس کے بعد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اس آیت کو تین مرتبہ پڑھا ، اس پر حضرت ابوذر غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ’’ وہ لوگ بہت نقصان میں رہے۔ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تہہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا(یعنی تکبر کے طور پر) اور احسان جتانے والا اور اپنے تجارتی مال کو جھوٹی قسم سے رواج دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: ۱۷۱(۱۰۶))

         حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کا حق مارنے کے لیے قسم کھائے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے اور دوزخ لازم کردیتا ہے۔ایک شخص نے عرض کی: یارسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگرچہ تھوڑی سی چیز ہو؟ فرمایا: اگرچہ پیلوکی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم۔۔۔ الخ، ص۸۲، الحدیث: ۲۱۸ (۱۳۷)

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(78)

ترجمہ: 

اور یقینا ان اہلِ کتاب میں سے کچھ وہ ہیں جو زبان کو مروڑ کر کتاب پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ یہ بھی کتاب کا حصہ ہے حالانکہ وہ کتاب کا حصہ نہیں ہے اوریہ لوگ کہتے ہیں : یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ ہرگز اللہ کی طرف سے نہیں ہے اوریہ لوگ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیْقًا: اور یقیناان اہلِ کتاب میں سے کچھ وہ ہیں۔} یہودیوں کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ توریت پڑھتے ہوئے گڑبڑ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ مفہوم ملا کراس انداز میں پڑھتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ یہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے حالانکہ وہ کتابُ اللہ کا حصہ نہیں ہوتا۔ یہ تاَثُّر دینے کے ساتھ بعض اوقات صراحت بھی کردیتے ہیں کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہوتا ہے۔ آج کل بھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو توحیدکی آیتیں پڑھ کر انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی شان کا انکار کرتے ہیں اور یہ تاَثُّر دیتے ہیں کہ یہ شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انکار بھی قرآن میں ہے حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ یونہی بہت سے لوگوں کو سود ، پردے، اسلامی سزاؤں اور دیگر کئی چیزوں کے بارے میں کلام کرتے سنا ہے وہ بھی قرآن پڑھتے ہیں اور درمیان میں اصل اسلامی احکام میں رد و بدل کرتے ہوئے اپنی بات اس انداز میں شامل کرتے ہیں کہ سننے والا سمجھے کہ شاید یہ بھی قرآن میں ہی ہے حالانکہ یہ واضح طور پر دھوکہ اور فریب ہوتا ہے۔

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰـكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ(79)وَ لَا یَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًاؕ-اَیَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(80)

ترجمہ: کسی آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت عطا کرے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میری عبادت کرنے والے بن جاؤ بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اللہ والے ہوجاؤ کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اس لئے کہ تم خود بھی اسے پڑھتے ہو۔ اور نہ تمہیں یہ حکم دے گا کہ فرشتوں اورنَبِیُّوں کورب بنالو، کیا وہ تمہیں تمہارے مسلمان ہونے کے بعد کفر کا حکم دے گا؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا كَانَ لِبَشَرٍ: کسی آدمی کو یہ حق نہیں۔} یہاں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان کا بیان اور ان پر ہونے والے اعتراض کا جواب ہے جیسا کہ آیت کے شانِ نزول سے واضح ہے۔ فرمایا گیا کہ’’ کسی آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کمالِ علم و عمل عطا فرمائے اور اسے گناہوں سے معصوم بنائے اور وہ پھر لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے ۔ یہ انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ناممکن ہے اور ان کی طرف ایسی نسبت بہتان ہے۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ربانی یعنی اللہ والے بننے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے کہا کہ ’’ہمیں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حکم دیا ہے کہ ہم انہیں رب مانیں۔ تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ا س قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۲۶۶)

            جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافع یہودی اور ایک عیسائی نے رسولِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا: اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں۔ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ کہ میں غیرُاللہ کی عبادت کا حکم کروں۔ نہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کا حکم دیا اورنہ مجھے اس لیے بھیجاہے۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۵۶)

            آیت میں ربّانی کا لفظ مذکور ہے۔ ربّانی کے معنی نہایت دیندار، عالم باعمل اورفقیہ کے ہیں۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۹۳، الجزء الرابع)

            اس سے ثابت ہوا کہ علم و تعلیم کا ثمرہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی اللہ والا ہو جائے، جسے علم سے یہ فائدہ نہ ہو اس کا علم ضائع اور بے کار ہے۔

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(81)فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(82)

ترجمہ: 

اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللہ نے) فرمایا :(اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی،’’ ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللہ نے) فرمایا، ’’ تو(اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ پھرجو کوئی اس اقرار کے بعدروگردانی کرے گاتو وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ: اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا۔} حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ،ان سے سیدُ الانبیاء، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق عہد لیا اور ان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سرورِکائنات  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوں تو وہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کی مددو نصرت کریں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۱، ۱ / ۲۶۷-۲۶۸)

عظمتِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان:

         اس سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا، حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سب سے افضل ہیں۔اس آیت مبارکہ میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عظیم فضائل بیان ہوئے ہیں۔ علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں پوری پوری کتابیں تصنیف کی ہیں اور اس سے عظمت ِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بے شمار نکات حاصل کئے ہیں۔ چند ایک نکات یہ ہیں :

(1)…حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ محفل قائم فرمائی۔

(2)…خود عظمت ِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بیان کیا۔

(3)…عظمت ِ مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامعین کیلئے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منتخب فرمایا۔

(4)…کائنات وجود میں آنے سے پہلے حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری ہوا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت کا بیان ہوا۔

(5)…آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تمام نبیوں کا نبی بنایا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بطورِ خاص آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا۔

(6)…انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرمانے کے بعد باقاعدہ اس کا اقرار لیا حالانکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کسی حکمِ الہٰی سے انکار نہیں کرتے۔

(7)…انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس اقرار کا باقاعدہ اعلان کیا۔

(8)…اقرار کے بعد انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک دوسرے پر گواہ بنایا۔

(9)…اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تمہارے اس اقرار پر میں خود بھی گواہ ہوں۔

(10)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اقرار کرنے کے بعد پھر جانا مُتَصَوَّر نہیں لیکن پھر بھی فرمایا کہ اس اقرار کے بعد جو پھرے وہ نافرمانوں میں شمار ہوگا۔ اس آیتِ مبارکہ پر انتہائی نفیس کلام پڑھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کی تصنیف ’’تَجَلِّیُ الْیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِین‘‘ (یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام رسولوں کے سردار ہیں )کا مطالعہ فرمائیں۔

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ(83)

ترجمہ: 

کیا لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کوئی بھی ہے وہ سب خوشی سے یا مجبوری سے اسی کی بارگاہ میں گردن جھکائے ہوئے ہیں اور سب کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ: کیا اللہ کے دین کے علاوہ دین چاہتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ’’ کیا لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین چاہتے ہیں حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کوئی بھی ہے فرشتے، انسان اور جنات وہ سب کے سب خوشی سے یا مجبوری سے اسی کی بارگاہ میں جھکے ہوئے ہیں۔ فرشتے تو یوں خوشی سے فرمانبردار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا ہی معصومیت پر کیا ہے اور مسلمان جن اور انسان اس طرح کہ  دلائل میں نظر کرکے اور انصاف اختیار کرکے فرمانبردار ہیں اور یہ اطاعت و فرمانبرداری مفید بھی ہے جبکہ کافر کسی خوف یا موت کے وقت عذاب دیکھ لینے کے وقت گردن جھکادیتا ہے لیکن اس وقت کا ایمان قیامت میں نفع نہ دے گا۔

قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ۪-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(84)

ترجمہ: اور تم یوں کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہمارے اوپر نازل کیا گیا ہے اس پر اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (اس پربھی ایمان لاتے ہیں ۔ نیز) ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کی بارگاہ میں گردن جھکائے ہوئے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ: اور تم یوں کہو کہ ہم اللہ  پر ایمان لاتے ہیں۔} یہودیوں اور عیسائیوں نے تو یہ کیا کہ کچھ نَبِیُّوں اور کتابوں پر ایمان لائے اور کچھ پر نہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ’’ تم سب نبیوں اور سب کتابوں پر ایمان لاؤ خواہ وہ ابراہیمی صحیفے ہوں یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتابیں یا دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفے۔ ہمیں سب کو ماننے کا حکم ہے البتہ ہمارا عمل صرف قرآن پر ہوگا اور ہماری اطاعت و اتباع صرف حضور پرنور، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہوگی۔

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(85)

ترجمہ: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

}وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا:اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا ۔{ اللہ تعالیٰ نے واضح طور قرآن پاک میں کئی جگہ فرمادیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِ س زمانے میں معتبر نہیں۔ اسلام کے علاوہ کوئی کسی دین کی اخلاقی باتوں پر جتنا چاہے عمل کرلے جب تک مکمل طور پر بطورِ عقیدہ اسلام کو اختیار نہیں کرے گا اس کا کوئی عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں اور اب اسلام سے مراد وہ دین ہے جسے حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ لے کر آئے۔

كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(86)

ترجمہ: اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کو اختیار کیا اور وہ اس بات کی گواہی دے چکے تھے کہ (یہ) رسول سچاہے اور ان لوگوں کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی تھیں اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ: اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کو اختیار کیا۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ’’  یہ آیت ان یہودی ا ور عیسائی علماء کے متعلق نازل ہوئی جو نبیِّ  آخر الزّمان  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں کو خوشخبریاں دیتے تھے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے طفیل سے دعائیں کرتے تھے لیکن آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعداپنے مفادات اور حسد کی وجہ سے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مخالف ہو گئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۶، ۱ / ۲۷۰)

            ان کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیوں ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کو اختیار کیا حالانکہ پہلے وہ اس بات کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچاہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ایمان کی توفیق دے جو جان پہچان کر منکر ہوگئی ہو یعنی ایسوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے کی بہت نحوست ہے نیز معلوم ہوا کہ حسد نہایت خبیث بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی جانتے بوجھتے انکار کردیتا ہے اور یہ حسد بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے.

اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ اَنَّ عَلَیْهِمْ لَعْنَةَ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(87)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(88)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا۫-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(89)

ترجمہ: 

یہی وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور انسانوں سب کی لعنت ہے۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے، نہ ان سے عذاب ہلکا ہو گااور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے کفر کے بعد توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ: مگر جنہوں نے کفر کے بعدتوبہ کرلی۔} حارث بن سُوَید انصاری کو کفارکے ساتھ جا ملنے کے بعد ندامت ہوئی تو انہوں نے اپنی قوم کے پاس پیغام بھیجا کہ سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کریں کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ،تب وہ مدینہ منورہ میں تائب ہو کر حاضر ہوئےاور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۲۵۷)

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الضَّآلُّوْنَ(90)

ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے پھر کفر میں اور بڑھ گئے تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور یہی لوگ گمراہ ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ: بیشک وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے۔} یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کے بعد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کے ساتھ کفر کیا ،پھر کفر میں اور بڑھے اور سیدُ الانبیاء محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن کے ساتھ کفر کیا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی جورسولِ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بعثت سے پہلے تو اپنی کتابوں میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ کر آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ظہور کے بعد کافر ہوگئے اور پھر کفر میں اور شدید ہوگئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۲۷۰)

ایمان و کفر میں شدت کی کیفیت کے اعتبار سے کمی زیادتی ہوتی ہے، جیسے قرآن پاک میں بکثرت ایمان میں اضافہ ہونے کی آیات ہیں ، اسی طرح کفر میں شدت کی آیات بھی ہیں۔ یہ آیات اس معنیٰ میں ہے کہ کسی کا ایمان زیادہ قوی اور مضبوط ہوتا ہے جبکہ کسی کا ایمان کمزور ہوتا ہے یونہی کسی کا کفرزیادہ شدید ہوتا ہے اورکسی کا کم شدت والا ہوتا ہے۔ آیت میں فرمایا کہ’’جو کفر کرے اور اس میں بڑھتا جائے اس کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی‘‘ اس کا یاتو یہ معنیٰ ہے کہ ’’ان کی معافی نہیں ،کیونکہ یہ توبہ ہی نہیں کرتے یا یہ معنیٰ ہے کہ’’ان کی توبہ مقبول نہیں ، کیونکہ ان کی توبہ دل سے نہیں بلکہ منافقانہ ہوتی ہے ، دل میں کفر بھرا ہوتا ہے اور زبان سے توبہ کررہے ہوتے ہیں ایسی توبہ ہرگز قبول نہیں۔ البتہ جو توبہ دل سے کی جائے وہ ضرور مقبول ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(91)

ترجمہ: 

بیشک وہ لوگ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرگئے ان میں سے کوئی اگرچہ اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں پوری زمین کے برابرسونا بھی دے تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا ۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ: اور کافر ہی مرے۔} آخرت کی نجات ایمان پر خاتمے پر ہے۔ کفر پر مرنے والا زمین بھر سونا بھی اپنے فدیے میں دیدے تب بھی اس کی نجات نہیں ہوسکتی۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نجات کا دارومدار ایمان پر خاتمہ ہونے پر ہے۔ اگر کوئی شخص تمام عمر مومن رہا اورمرتے وقت کافر ہو گیا تو اس آیت میں شامل ہے اور اگر کوئی شخص ساری عمر کافر رہا لیکن مرتے وقت مومن ہو کر مرا تو وہ اس آیت سے خارج ہے۔اسی لئے صالحین سب سے زیادہ فکر ایمان پر خاتمے ہی کی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے تھے۔ چنانچہ حضرتِ یوسف بن اَسباط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں ایک مرتبہ حضرتِ سفیان ثَوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ساری رات روتے رہے ۔ میں نے دریافت کیا : کیا آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ گناہوں کے خوف سے رو رہے ہیں ؟ تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا کہ گناہ تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِس تنکے سے بھی کم حیثیت  رکھتے ہیں ، مجھے تو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ایمان کی دولت نہ چھن جائے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثالث، ص۱۶۹)

لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ  ﱟ  وَ  مَا  تُنْفِقُوْا  مِنْ  شَیْءٍ  فَاِنَّ  اللّٰهَ  بِهٖ  عَلِیْمٌ(92)

ترجمہ: 

تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔} اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ’’یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو اسے رضائے الہٰی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں داخل ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۹۲، ۱ / ۲۷۲)

راہِ خدا میں اپناپیارا مال خرچ کرنے کے5 واقعات:

اس آیتِ مبارکہ پر عمل کے سلسلے میں ہمارے اَسلاف کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینے میں بڑے مالدار تھے، انہیں اپنے اموال میں بَیْرُحَاء نامی ایک باغ بہت پسند تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں کھڑے ہو کر عرض کی: مجھے اپنے اموال میں ’’بَیْرُحَاء‘‘ باغ سب سے پیارا ہے، میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اشارے پر وہ باغ اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب، ۱ / ۴۹۳، الحدیث: ۱۴۶۱، مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین۔۔۔ الخ، ص ۵۰۰، الحدیث: ۴۲(۹۹۸)

كُلُّ  الطَّعَامِ  كَانَ  حِلًّا  لِّبَنِیْۤ  اِسْرَآءِیْلَ  اِلَّا  مَا  حَرَّمَ  اِسْرَآءِیْلُ  عَلٰى  نَفْسِهٖ  مِنْ  قَبْلِ  اَنْ  تُنَزَّلَ  التَّوْرٰىةُؕ-قُلْ  فَاْتُوْا  بِالتَّوْرٰىةِ  فَاتْلُوْهَاۤ  اِنْ  كُنْتُمْ  صٰدِقِیْنَ(93)

ترجمہ: تمام کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے سوائے ان کھانوں کے جو یعقوب نے تورات نازل کئے جانے سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلئے تھے۔ تم فرماؤ، تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُلُّ  الطَّعَامِ  كَانَ  حِلًّا  لِّبَنِیْۤ  اِسْرَآءِیْلَ : تمام کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے۔}شانِ نزول: مدینہ منورہ کے یہودیوں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آپ کو ملّتِ ابراہیمی پر خیال کرتے ہیں حالانکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اونٹ کا گوشت اور دودھ نہیں کھاتے تھے جبکہ آپ کھاتے ہیں ، تو آپ ملّتِ ابراہیمی پر کیسے ہوئے ؟ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  پر حلال تھیں۔ یہودی کہنے لگے کہ یہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں اور ہم تک حرام ہی چلی آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں بتایا گیا کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ،بلکہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ،حضرت اسماعیل، حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب   عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حلال تھیں۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی سبب سے ان کو اپنے اوپر حرام فرمایا اور یہ حرمت ان کی اولاد میں باقی رہی ۔یہودیوں نے اس کا انکار کیا تو حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا  کہ تورات میں یہ مضمون موجود ہے، اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو تورات لاؤ اور اس میں سے نکال کر دکھا دو کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حرام تھیں۔ اس پر یہودیوں کو اپنی ذلت و رسوائی کا خوف ہوا اور وہ تورات نہ لاسکے، ان کاجھوٹا ہونا ظاہر ہوگیا اور انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱ / ۲۷۳)

اس سے معلوم ہوا کہ احکام کا مَنسوخ ہونا ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ لہٰذا قرآن کی بعض آیات کے منسوخ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر تفصیلی کلام سورۂ بقرہ کی آیت 106میں گزر چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا  علم شریف اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تورات و انجیل سے خبردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو غیبی علوم عطا فرمائے ہیں۔

(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لکھا کہ’’میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو۔ جب وہ آئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت پسند آئی ،لیکن پھرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ (بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۲۵۳)

(3)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے اس آیت’’لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ‘‘ کی تلاوت کی تو میں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں غور کیا (کہ کون سی نعمت مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، جب غور کیا) تو میں نے اپنی باندی کو اپنے نزدیک سب سے زیادہ پیارا پایا، اس پر میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جس چیز کو میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے کر دیا، اس کی طرف نہ لوٹوں گا تو میں اس باندی سے نکاح کر لیتا۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، ذکر عبد اللہ بن عمر۔۔۔ الخ، کان ابن عمر ازہد القوم واصوبہ رأیًا، ۴ / ۷۲۸، الحدیث: ۶۴۳۵)

(4)… حضرت عمرو بن دینار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں : جب یہ آیت’’ لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنے (پسندیدہ) گھوڑے کو لے کر بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس گھوڑے کو صدقہ فرما دیں۔ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرما دیا تو حضرت زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: میں نے اس گھوڑے کو محض (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) صدقہ کرنے کا ارادہ کیا ہے !نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تیرا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے۔(ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن حارثہ بن شراحیل، ۱۹ / ۳۶۷ )

(5)…حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا: اس کی قیمت صدقہ کیوں نہیں کردیتے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: شکر مجھے محبوب ومرغوب ہے ، میں چاہتا ہوں کہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں اپنی پیاری چیز خرچ کروں۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۱۷۲)

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزیں راہِ خدا میں دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین.

{وَ  مَا  تُنْفِقُوْا  مِنْ  شَیْءٍ  فَاِنَّ  اللّٰهَ  بِهٖ  عَلِیْمٌ:اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ  اسے جانتا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اس کی راہ میں عمدہ، نفیس اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو یا ردی، ناکارہ اور اپنی ناپسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو، تو جیسی چیز تم خرچ کرو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ تمہیں جزا عطا فرمائے گا۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۶۳)

فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(94)

ترجمہ: پھر اس کے بعد بھی جو اللہ پر جھوٹ باندھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

فَمَنِ  افْتَرٰى  عَلَى  اللّٰهِ  الْكَذِبَ : پھر جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} یعنی اس بات کی وضاحت تو ہوگئی کہ بنی اسرائیل پر جو کچھ کھانے حرام ہیں یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حرام کرنے سے ہوئے، تو جو اِس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ’’ ملتِ ابراہیمی میں اونٹوں کے گوشت اور دودھ اللہ تعالیٰ نے حرام کئے تھے‘‘ وہ ظالم ہے۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کے باوجود گناہ کرنا زیادہ سخت ہے نیز حلال کو اپنی طرف سے بلا دلیل حرام کہنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کرنا ہے۔

قُلْ  صَدَقَ  اللّٰهُ۫-فَاتَّبِعُوْا  مِلَّةَ  اِبْرٰهِیْمَ  حَنِیْفًاؕ-وَ  مَا  كَانَ  مِنَ  الْمُشْرِكِیْنَ(95)

ترجمہ: اے محبوب! تم فرماؤ ،اللہ نے سچ فرمایالہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاتَّبِعُوْا  مِلَّةَ  اِبْرٰهِیْمَ  حَنِیْفًا:لہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے۔} اس آیت میں دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’ دین محمدی کی پیروی کرو ،کیونکہ اس کی پیروی ملتِ ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔

اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَ(96)

ترجمہ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ’’ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ رہا ہے، نیزیہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے ۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۲۷۴)

            اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱- باب، ۲ / ۴۲۷، الحدیث: ۳۳۶۶)

فِیْهِ  اٰیٰتٌۢ  بَیِّنٰتٌ  مَّقَامُ  اِبْرٰهِیْمَ  ﳛ  وَ  مَنْ  دَخَلَهٗ  كَانَ  اٰمِنًاؕ-وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ-وَ  مَنْ  كَفَرَ  فَاِنَّ  اللّٰهَ  غَنِیٌّ  عَنِ  الْعٰلَمِیْنَ(97)

ترجمہ: اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فِیْهِ  اٰیٰتٌۢ  بَیِّنٰتٌ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں۔} خانۂ کعبہ کی عظمت و شان کا بیان چل رہا ہے، اسی ضمن میں فرمایا کہ  خانۂ  کعبہ میں بہت سی فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، تفسیرات احمدیہ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۰۱-۲۰۲، ملتقطاً)

{مَقَامُ  اِبْرٰهِیْمَ: ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔} مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ  کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۷۶، ملتقطاً)

بزرگوں سے نسبت کی برکت:

اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرُ اللّٰهِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ (بقرہ:۱۵۸) 

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُ    اللہ بن گئے۔

{وَ  مَنْ  دَخَلَهٗ  كَانَ  اٰمِنًا: اور جو اس میں داخل ہوا امن والاہوگیا۔} خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۱۷۴)

حرم سے کیا مراد ہے؟

حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔

{وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵ / ۶، الحدیث: ۳۰۰۹)

 حج فرض ہونے کے لئے زادِ راہ کی مقدار:

کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔{وَ  مَنْ  كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔

            اور فرشتوں کا قبلہ بیتُ المعمور ہے جو آسمان میں ہے اورخانہ کعبہ کے بالکل اوپر ہے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل الامکنۃ، ۷ / ۴۹، الجزء الرابع عشر، الحدیث: ۳۸۰۸۱)

 کعبۂ معظمہ کی خصوصیات :

             اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کعبۂ معظمہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔

(1)…سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔

(2)…تمام لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیاجبکہ بیتُ المقدس مخصو ص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا۔

 (3)…مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے۔

(4) …اس کا حج فرض کیا گیا ۔

 (5)…حج ہمیشہ صرف اسی کا ہوا، بیتُ المقدس قبلہ ضرور رہا ہے لیکن کبھی اس کا حج نہ ہوا۔

(6) …اسے امن کا مقام قرار دیا۔

 (7)…اس میں بہت سی نشانیاں رکھی گئیں جن میں ایک مقامِ ابراہیم ہے۔

قُلْ  یٰۤاَهْلَ  الْكِتٰبِ  لِمَ  تَكْفُرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ  ﳓ  وَ  اللّٰهُ  شَهِیْدٌ  عَلٰى  مَا  تَعْمَلُوْنَ(98)

ترجمہ: تم فرماؤ: اے اہلِ کتاب!تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو حالانکہ اللہ تمہارے اعمال پر گواہ ہے؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِمَ  تَكْفُرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ :تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو ۔}یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں سے مراد توریت کی وہ آیات ہیں جن میں سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان ہے اور وہ عقلی دلائل مراد ہیں جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔

قُلْ  یٰۤاَهْلَ  الْكِتٰبِ  لِمَ  تَصُدُّوْنَ  عَنْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  مَنْ  اٰمَنَ  تَبْغُوْنَهَا  عِوَجًا  وَّ  اَنْتُمْ  شُهَدَآءُؕ-وَ  مَا  اللّٰهُ  بِغَافِلٍ  عَمَّا  تَعْمَلُوْنَ(99)

ترجمہ: 

تم فرماؤ :اے اہلِ کتاب! تم ایمان لانے والوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو ؟تم اس میں بھی ٹیڑھا پن چاہتے ہو حالانکہ تم خود اس پر گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ  یٰۤاَهْلَ  الْكِتٰبِ: تم فرماؤ :اے اہلِ کتاب!} اس آیت میں بھی اہلِ کتاب ہی سے خطاب ہے کہ’’ اے اہلِ کتاب! تم ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ابھی ایمان مضبوط نہیں ہوا، انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں توریت کی آیتیں چھپا کر اور یہ کہہ کر کیوں بہکاتے ہو کہ’’ یہ وہ نبی نہیں جن کی خبر توریت و انجیل میں ہے۔یہ کہہ کرتم انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے کیوں روکتے ہو؟ حالانکہ تم خود اس بات کے گواہ ہو کہ سید ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شان توریت میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جو دین مقبول ہے وہ صرف دین اسلام ہی ہے.

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْۤا  اِنْ  تُطِیْعُوْا  فَرِیْقًا  مِّنَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا  الْكِتٰبَ  یَرُدُّوْكُمْ  بَعْدَ  اِیْمَانِكُمْ  كٰفِرِیْنَ(100)

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کی اطاعت کرو تو وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی حالت میں لوٹا دیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ  تُطِیْعُوْا: اگر تم اطاعت کرو۔}شاس بن قیس یہودی مسلمانوں کی مجلس کے قریب سے گزرا جس میں انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج نہایت محبت سے باتیں کر رہے تھے، اسلام سے پہلے ان کی آپس میں بہت جنگ تھی اس یہودی کوان کے اتفاق سے بڑی تکلیف ہوئی چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی سے کہا کہ تم اِن کی گزشتہ جنگیں یاد دلا کر اِنہیں لڑا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ قصیدے پڑھے جن میں ان کی گزشتہ جنگوں کا ذکر تھا۔ ان قصائد کو سن کر انصار کو اپنی گزشتہ جنگیں یاد آگئیں اور وہ آپس میں لڑ پڑے۔ قریب تھا کہ خون ریزی ہوجائے، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  فوراً موقع پر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا جاہلیت کی حرکتیں کرتے ہوحالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔یہ سن کر انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے اور روتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ۔ اس پر یہ آیت کریمہ اتری۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۸-۲۷۹)

             اس سے معلوم ہوا کہ یہاں آیت میں کفر سے مراد کافروں والے کام ہیں یعنی اپنی’’ انا‘‘ کیلئے آپس میں جنگ کرنا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فتنہ فساد برپا کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا یہودیوں کا کام اور آپس میں پیار محبت پیدا کرنا اور صلح کروانا سراپا رَحمت،مجسمِ شفقت، شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے۔

وَ  كَیْفَ  تَكْفُرُوْنَ  وَ  اَنْتُمْ  تُتْلٰى  عَلَیْكُمْ  اٰیٰتُ  اللّٰهِ  وَ  فِیْكُمْ  رَسُوْلُهٗؕ-وَ  مَنْ  یَّعْتَصِمْ  بِاللّٰهِ  فَقَدْ  هُدِیَ  اِلٰى  صِرَاطٍ  مُّسْتَقِیْمٍ(101)

ترجمہ: اور (ایمان والو! اب) تم کیوں کفر کروگے حالانکہ تمہارے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرما ہے اور جس نے اللہ کا سہارامضبوطی سے تھام لیا تو اسے یقینا سیدھا راستہ دکھادیا گیا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  كَیْفَ  تَكْفُرُوْنَ: او رتم کیوں کفر کرو گے؟ }یہاں ابتداء ً صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے خطاب ہے کہ اے جماعت ِصحابہ! (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)تم کافروں کی طرح آپس میں کیسے لڑ سکتے ہوجبکہ تم حضور رحمۃللعالمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحبت یافتہ ہواور ان کی زبانِ مبارک سے قرآنِ مجید سنتے ہو۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو بھی اس اعتبار سے نصیحت ہے کہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات موجود ہیں تو پھر آپس میں نفسانی لڑائی کس طرح ہوسکتی ہے؟

{وَ  مَنْ  یَّعْتَصِمْ  بِاللّٰهِ : اور جس نے اللہ کا سہارامضبوطی سے تھام لیا۔}جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا سہارا تھاما یعنی اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کے دین کو مضبوطی سے تھام لیا اور زندگی کے جملہ امور میں اسی کی طرف رجوع کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کرم سے وہ ضرور ہدایت پاجائے گا۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ(102)

ترجمہ:

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِتَّقُوا  اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ  طاقت اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ(تغابن:۱۶)      ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔

         نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔

وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا  وَّ  لَا  تَفَرَّقُوْا۪-وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ  اِذْ  كُنْتُمْ  اَعْدَآءً  فَاَلَّفَ  بَیْنَ  قُلُوْبِكُمْ  فَاَصْبَحْتُمْ  بِنِعْمَتِهٖۤ  اِخْوَانًاۚ-وَ  كُنْتُمْ  عَلٰى  شَفَا  حُفْرَةٍ  مِّنَ  النَّارِ  فَاَنْقَذَكُمْ  مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ  یُبَیِّنُ  اللّٰهُ  لَكُمْ  اٰیٰتِهٖ  لَعَلَّكُمْ  تَهْتَدُوْنَ(103)

ترجمہ:

اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا: اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔} اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی مُمانَعت کی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب مل کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ جیسے یہود و نصاریٰ نے فرقے بنالئے ۔

صلح کلیت کا رد:

         یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔ بعض لوگ یہ آیت لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنت ِ رسول اور جماعت ِ صحابہ کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کردیا جائے۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے۔

 ’’حَبْلِ  اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر :

         ’’حَبْلِ  اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ قرآنِ پاک حَبْلُ اللہ ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اورجس نے اُسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۳، الحدیث: ۳۷(۲۴۰۸))

         حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حَبْلُ اللہ سے جماعت مراد ہے (معجم الکبیر، ۹ / ۲۱۲، الحدیث: ۹۰۳۳)

         اور فرمایا کہ  تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حَبْلُ اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا۔ (معجم الکبیر، ۹ / ۱۹۹، الحدیث: ۸۹۷۳)

جماعت سے کیا مراد ہے؟

         یہ یاد رہے کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کی اکثریت ہے ، یہ نہیں کہ تین آدمی مل کر’’ جماعتُ المسلمین ‘‘نام رکھ لیں اور بولیں کہ قرآن نے ہماری ٹولی میں داخل ہونے کا کہا ہے، اگر ایسا ہی حکم ہے تو پھر کل کوئی اپنا نام ’’رسول‘‘ رکھ کر بولے گا کہ قرآن نے جہاں بھی رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے مراد میری ذات ہے لہٰذا میری اطاعت کرو۔ اَعُوذُ بِاللہِ مِنْ جَہْلِ الْجَاہِلِینْ میں جاہلوں کی جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔

{وَ  اذْكُرُوْا  نِعْمَتَ  اللّٰهِ  عَلَیْكُمْ: اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو۔} اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو جن میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اے مسلمانو! یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اور تمہارے درمیان طویل عرصے کی جنگیں جاری تھیں حتّٰی کہ اوس اور خَزْرَج میں ایک لڑائی ایک سو بیس سال جاری رہی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی لیکن اسلام کی بدولت عداوت و دشمنی دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہاری دشمنیاں مٹادیں اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگجو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ورنہ یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے اور اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے دولتِ ایمان عطا کرکے اس تباہی سے بچالیا۔

جہنم سے بچنے کا سب سے بڑ اوسیلہ:

اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے لئے دوزخ سے بچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں،چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ کچھ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ فرشتوں نے کہا: آپ کے ان صاحب کی مثال ہے لہٰذا وہ مثال بیان کرو۔ ایک نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے گھر بنایا، اس میں دستر خوان بچھایا اور بلانے والے کو بھیجا تو جس نے اس کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو ا اور دستر خوان سے کھانا کھایا اور جس نے دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہوا اور نہ دستر خوان سے کھانا کھا سکا۔ فرشتوں میں سے ایک نے کہا: اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ ان میں سے ایک نے کہا :یہ تو سو رہے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ فرشتوں نے کہا: گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے مراد حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں تو جس نے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،  ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب ا س آگ نے اردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں دھڑا  دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ،میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح) جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۴، الحدیث: ۱۸(۲۲۸۴))

سب سے اعلیٰ نعمت:

اور یہ بھی معلوم ہو اکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی سب سے اعلیٰ نعمت ہیں۔ آیت کے شروع میں فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو یاد کرو ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ایک دوسرے کو یاد دلانا بہت عمدہ عبادت ہے۔ لہٰذا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یاد کیلئے جو محفل منعقد کی جائے خواہ وہ میلاد شریف کی ہو یا معراج کی یا کوئی اور وہ سب بہت عمدہ ہیں اور حکمِ الہٰی پر عمل ہی کی صورتیں ہیں۔

وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(104) 

ترجمہ: 

اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں۔} آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے۔

 تبلیغِ دین کا حکم :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص ۴۴، الحدیث: ۷۸(۴۹))

تبلیغِ دین سے متعلق 5اَحادیث:

(1)…حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر،  ۴ / ۶۹، الحدیث: ۲۱۷۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر تم ہی میں سے برے لوگوں کو مُسلَّط کر دے گا،پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو وہ قبول نہیں کی جائے گی۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۳۷۷، الحدیث: ۱۳۷۹)

(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کسی مقام پر کھڑے ہو کر حق بات کہہ سکتا ہے تو اس کیلئے درست نہیں کہ حق بات نہ کہے کیونکہ حق بات کہنا ا س کی موت کو مقدم کر سکتا ہے نہ اس کے لکھے ہوئے رزق سے اسے محروم کر سکتا ہے۔(شعب الایمان، الثانی والخمسون من شعب الایمان، ۶ / ۹۲، الحدیث: ۷۵۷۹)

(4)… حضرت عُرس بن عمیرہ کندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب زمین میں گناہ کیا جائے توجو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)

(5)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ نیکیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا بہترین جہاد ہے۔(مدارک، اٰل  عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۱۷۸)

ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس حقیقت کو درج ذیل حدیث میں انتہائی احسن انداز کے ساتھ سمجھایا گیا ہے ،چنانچہ

حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والے (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھ کر قدرت کے باوجود منع نہ کرنے والے) اور حدودُ اللہ میں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے توان کو تکلیف ہوتی (انہوں نے اس کی شکایت کی تو) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کر دیا۔ اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔

(لہٰذا میں تختہ توڑ کر یہیں سے پانی لے لوں گا اور تم لوگوں کو تکلیف نہ دوں گا) پس اس صورت میں اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور تختہ کاٹنے سے روک دیا تو اسے بھی نجات دیں گے اور خودکو بھی بچا لیں گے اور اگر چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کریں گے اور خود بھی ہلاک ہوں گے(بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶)۔

وَ  لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  تَفَرَّقُوْا  وَ  اخْتَلَفُوْا  مِنْۢ  بَعْدِ  مَا  جَآءَهُمُ  الْبَیِّنٰتُؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  عَظِیْمٌ(105)

ترجمہ: 

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو آپس میں مُتَفَرّق ہو گئے اورانہوں نے اپنے پاس روشن نشانیاں آجانے کے بعد (بھی) آپس میں اختلاف کیا اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  تَفَرَّقُوْا: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو آپس میں متفرق ہو گئے۔}  ارشاد فرمایا کہ آپس میں تَفَرُّقَہ بازی اور اختلافات میں نہ پڑجانا جیسا کہ یہود ونصاریٰ آپس میں اختلافات میں پڑگئے اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ عناد اور دشمنی راسِخ ہوگئی یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ آپس میں اُس طرح اختلاف و اِفتراق میں نہ پڑجانا جیسے تم زمانہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے وقت میں متفرق تھے اورتمہارے درمیان بغض و عِناد تھا۔

اتفاق کا حکم اور اختلاف کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت:

           اس آیتمیں مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اجتماع کا حکم دیا گیا اور اختلاف اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بہت تاکیدیں وارد ہیں اور مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔   (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی،جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)

            آج کل جو فرقہ پیدا ہوتا ہے وہ اس حکم کی مخالفت کرکے ہی پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور حدیث کے مطابق وہ شیطان کا شکار ہے ۔(معجم الکبیر، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴۸۹)

            اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ خیال رہے کہ نا اتفاقی اور پھوٹ کا مجرم وہ شخص ہوگا جو مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر نئی راہ نکالے، جو اسلام کی راہ پر قائم ہے وہ مجرم نہیں۔

یَّوْمَ  تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ  وَّ  تَسْوَدُّ  وُجُوْهٌۚ-فَاَمَّا  الَّذِیْنَ  اسْوَدَّتْ  وُجُوْهُهُمْ۫-اَكَفَرْتُمْ  بَعْدَ  اِیْمَانِكُمْ  فَذُوْقُوا  الْعَذَابَ  بِمَا  كُنْتُمْ  تَكْفُرُوْنَ(106)

ترجمہ: جس دن کئی چہرے روشن ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے تو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا کہ) کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے تھے؟ تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ  تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ : جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔} یہاں آیات میں قیامت کے دن کا منظر بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے روشن ہوں گے جو یقیناً اہلِ ایمان کے ہوں گے اورکچھ چہرے سیاہ ہوں گے جو یقیناً کفار کے ہوں گے اور کافروں سے کہا جائے گا کہ ’’کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے تھے؟ تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ یہاں فرمایا کہ’’ایمان کے بعد کافر ہوئے تھے ‘‘ اس سے اگر تمام کفار کو خطاب ہے تواس صورت میں ایمان سے روزِ میثاق کا ایمان مراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘ توسب نے ’’ بَلٰی‘‘ یعنی ’’کیوں نہیں ‘‘کہا تھا اور ایمان لائے تھے ۔اب جو دنیا میں کافر ہوئے تو اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ’’ روزِ میثاق ایمان لانے کے بعد تم کافر ہوگئے۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ اس سے منافقین مراد ہیں جنہوں نے زبان سے اظہار ِایمان کیا تھا اور ان کے دل منکر تھے۔ حضرت عِکْرَمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اس سے مراد اہلِ  کتاب ہیں جورسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بعثت سے پہلے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اور ظہور کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکا ر کرکے کافر ہوگئے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے مخاطب مُرتَدّین ہیں جو اسلام لا کر پھر گئے اور کافر ہو گئے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۲۸۶)

         ان سے کہا جائے گا کہ اپنے کفر کے بدلے اب عذاب کا مزہ چکھو۔

وَ  اَمَّا  الَّذِیْنَ  ابْیَضَّتْ  وُجُوْهُهُمْ  فَفِیْ  رَحْمَةِ  اللّٰهِؕ-هُمْ  فِیْهَا  خٰلِدُوْنَ(107)

ترجمہ: اور وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَفِیْ  رَحْمَةِ  اللّٰهِ: تواللہ کی رحمت میں ہوں گے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جگہ جنت میں ہوں گے اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۲۸۷)

         اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار اہلِ ایمان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ (یونس :۲۶)

تِلْكَ  اٰیٰتُ  اللّٰهِ  نَتْلُوْهَا  عَلَیْكَ  بِالْحَقِّؕ-وَ  مَا  اللّٰهُ  یُرِیْدُ  ظُلْمًا  لِّلْعٰلَمِیْنَ(108)وَ  لِلّٰهِ  مَا  فِی  السَّمٰوٰتِ  وَ  مَا  فِی  الْاَرْضِؕ-وَ  اِلَى  اللّٰهِ  تُرْجَعُ  الْاُمُوْرُ(109)

ترجمہ: یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  اللّٰهُ  یُرِیْدُ  ظُلْمًا  لِّلْعٰلَمِیْنَ: اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔} یعنی لوگ جہنم میں لے جانے والے اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے کیونکہ اللہ  تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور کسی کو بے جرم عذاب نہیں دیتا اور کسی کی نیکی کا ثواب کم نہیں کرتا۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

          اور ارشاد فرمایا:

وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ(۳۸) ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (عبس: ۳۸، ۳۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ ہنستے ہوئے خوشیاں مناتے ہوں گے۔

قیامت کے دن روشن چہرے والے لوگ:

         روشن چہرے والوں سے مراد کون لوگ ہیں ، درج ذیل روایات کی روشنی میں دیکھیں۔

         تفسیر دُرمنثو ر میں ہے،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما اس آیتِ کریمہ ’’ تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ  وَّ  تَسْوَدُّ  وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَ الضَّلَالَۃِ ‘‘یعنی قیامت کے دن اہلسنّت کے چہرے چمکتے ہوں گے اور بدعتی و گمراہوں کے چہرے سیا ہ ہوں گے ‘‘ اور اسی میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ایک حدیث شریف روایت ہے کہ  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’  تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ  وَّ  تَسْوَدُّ  وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرمایا’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ ‘‘قیامت کے دن اہلسنّت والجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور گمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔

         اور ایک دوسری روایت میں ہے جو کہ حضرت ابوسعیدخدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتِ کریمہ’’  تَبْیَضُّ   وُجُوْهٌ  وَّ  تَسْوَدُّ  وُجُوْهٌ ‘‘تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا ’’تَبْیَضُّ وُجُوہُ اَھْلِ الْجَمَاعَاتِ وَالسُّنَّۃِ ، وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَالْاَھْوَاءِ‘‘ یعنی قیامت کے دن اہلسنّت وجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور بدعتی وگمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔(در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۲۹۱)

كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ  وَ  تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰهِؕ-وَ  لَوْ  اٰمَنَ  اَهْلُ  الْكِتٰبِ  لَكَانَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-مِنْهُمُ  الْمُؤْمِنُوْنَ  وَ  اَكْثَرُهُمُ  الْفٰسِقُوْنَ(110)

ترجمہ: ۔ (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہواور اگر اہلِ کتاب (بھی) ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور ان کی اکثر یت نافرمان ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ :تم بہترین امت ہو۔} یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ’’ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۱ / ۲۸۷)

         اور اللہ تعالیٰ نے امت ِ محمدیہ کو تمام امتوں سے افضل قرار دیا۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’رُعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیاگیا اور میری امت کو بہترین امت بنا دیا گیا۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب، ۱ / ۲۱۰، الحدیث: ۷۶۳)

 اس امت کا اتحاد شرعی دلیل ہے:

         چونکہ یہ بہترین امت ہے ،اس لئے اس امت کا اتفاق و اتحاد بہت بڑی دلیلِ شرعی ہے۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ گمراہی کے راستے پر ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(النساء: ۱۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت بالکل واضح ہوچکی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے سے جدا راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرگیا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘

         ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اوراللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴ / ۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)

 بنی اسرائیل اور امتِ محمدیہ کی افضلیت میں فرق:

         اس آیت میں ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کوتمام امتوں سے افضل فرمایا گیااور بعض آیات میں بنی اسرائیل کو بھی عالَمین یعنی تمام جہانوں سے افضل فرمایا گیاہے ،لیکن ان کاافضل ہونا ان کے زمانے کے وقت ہی تھا جبکہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے۔

نیکی کی دعوت دینے کی ترغیب:

         یاد رہے کہ نیکی کی دعوت دینا وہ عظیم منصب اور عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرما کر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تو اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو اس منصب سے سرفراز فرمادیا اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انہیں سب سے بہترین امت قرار دیا، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بقدرِ توفیق نیکی کی دعوت دیتا اور برائی سے منع کرتا رہے۔احادیث میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ا س سے متعلق 2 احادیث درج ذیل ہیں:

(1)… ایک حدیث میں ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی: لوگوں میں بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی زیادہ کرنے والا، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے والا اور سب سے زیادہ برائی سے منع کرنے والا (سب سے بہتر ہے)۔(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۲۰، الحدیث: ۷۹۵۰)

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے ہیں نہ شہدا ء میں سے ، لیکن قیامت کے دن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا مقام دیکھ کر رشک کریں گے، وہ لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے زمین پر چلتے ہیں۔ میں نے عرض کی : وہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں (یہ بات تو سمجھ میں آ رہی ہے)  لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ کیسے بناتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کا حکم دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں سے منع کرتے ہیں تو جب لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمانے لگتا ہے(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۲ / ۲۷۳، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۵۵) ۔[1]

{وَ  لَوْ  اٰمَنَ  اَهْلُ  الْكِتٰبِ: اور اگر اہلِ کتاب(بھی) ایمان لے آتے۔} یعنی اگر اہلِ کتاب بھی سیدُ الانبیاء ، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایمان لے آتے تو ان کیلئے بھی بہتر ہوتا لیکن ان میں کچھ ہی لوگ ایمان والے ہوئے ، جیسے یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی اور عیسائیوں میں سے حضرت نجاشی اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم۔ اس کے برعکس یہودونصاریٰ کی اکثریت نے اسلام قبول نہ کیا۔

لَنْ  یَّضُرُّوْكُمْ  اِلَّاۤ  اَذًىؕ-وَ  اِنْ  یُّقَاتِلُوْكُمْ  یُوَلُّوْكُمُ  الْاَدْبَارَ۫-ثُمَّ  لَا  یُنْصَرُوْنَ(111)

ترجمہ: یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر جائیں گے پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ  یَّضُرُّوْكُمْ  اِلَّاۤ  اَذًى: یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔} یہودیوں میں سے جو لوگ اسلام لائے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور اُن کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہودیوں کے سردار ان کے دشمن ہوگئے تھے اور انہیں تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۱۳۵، الجزء الرابع)

             اور اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو مطمئن کردیا کہ زبانی طعن و تشنیع اور دھمکیوں کے علاوہ یہ اِن مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور غلبہ مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا اور یہودیوں کا انجام ذلت و رسوائی ہوگا۔ اور اگر یہ اہلِ کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے اور تمہارے مقابلہ کی تاب نہ لاسکیں گے ۔ یہ غیبی خبریں ایسی ہی واقع ہوئیں۔بعد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے شام ، روم وغیرہ تمام علاقوں میں فتح حاصل کی اور یوں یہ غیبی خبر پوری ہوئی۔

ضُرِبَتْ  عَلَیْهِمُ  الذِّلَّةُ  اَیْنَ  مَا  ثُقِفُوْۤا  اِلَّا  بِحَبْلٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  حَبْلٍ  مِّنَ  النَّاسِ   وَ  بَآءُوْ  بِغَضَبٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  ضُرِبَتْ  عَلَیْهِمُ  الْمَسْكَنَةُؕ-ذٰلِكَ  بِاَنَّهُمْ  كَانُوْا  یَكْفُرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ  وَ  یَقْتُلُوْنَ  الْاَنْۢبِیَآءَ  بِغَیْرِ  حَقٍّؕ-ذٰلِكَ  بِمَا  عَصَوْا  وَّ  كَانُوْا  یَعْتَدُوْنَ(112)

ترجمہ: 

یہ جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت مُسلَّط کردی گئی سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔یہ اللہ کے غضب کے مستحق ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق شہید کرتے تھے، اوراس لیے کہ وہ نافرمان اور سرکش تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ضُرِبَتْ  عَلَیْهِمُ  الذِّلَّةُ: ان پر ذلت مسلط کردی گئی۔} اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی لازم کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس آیت میں استثناء بھی ہے’’اِلَّا  بِحَبْلٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  حَبْلٍ  مِّنَ  النَّاسِ‘‘سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔ اِستِثناء کے آنے سے معنی یہ بن گیا کہ (یہودی) ذلت و خواری سے کسی صورت اورکسی طرح نہیں بچ سکتے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ اور لوگوں کی رسی کے ساتھ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ یوں کہ یہودی مسلمان ہو جائیں تو خواری سے بچ سکتے ہیں اور حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رسی کی صورت یہ کہ لوگوں سے عہد و پیمان کریں ،اسلامی حکومت کے ذمی بن جائیں یا کافر حکومتوں سے بھیک مانگیں اور تعاون حاصل کریں تو دنیاوی عزت پا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کی سلطنت بھی بن سکتی ہے۔ فی زمانہ اگر دنیا کے کسی خطے میں کفار کے تعاون سے یہودی سلطنت وجو دمیں آئی ہے تو اس حکومت کا قائم ہونا قرآنِ کریمیا اسلام کی صداقت کے خلاف نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی صداقت کی بڑی صاف اور واضح دلیل ہے کہ بحسب اِستثناء ’’وَ  حَبْلٍ  مِّنَ  النَّاسِ‘‘ صدیوں سے ذلیل و خوار یہودیوں کی ایک جماعت کو دنیاوی عزت مل گئی۔(فتاوی نوریہ، ۵ / ۱۹۴، ملخصاً)

لَیْسُوْا  سَوَآءًؕ-مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  اُمَّةٌ  قَآىٕمَةٌ  یَّتْلُوْنَ  اٰیٰتِ  اللّٰهِ  اٰنَآءَ  الَّیْلِ  وَ  هُمْ  یَسْجُدُوْنَ(113)

ترجمہ: یہ سب ایک جیسے نہیں ، اہلِ کتاب میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں ، وہ رات کے لمحات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسُوْا  سَوَآءً: یہ سب ایک جیسے نہیں۔} جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی ایمان لائے تو یہودی علماء نے جل کر کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہم میں سے جو ایمان لائے ہیں وہ برے لوگ ہیں ، اگر یہ برے نہ ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑتے۔ اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۱۳۶، الجزء الرابع )

اور بتادیا گیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی میں آنے والے ہی تو کام کے آدمی ہیں بقیہ کا حال تو انتہائی بدتر ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جن لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اس سے علاقہ نجران کے40 آدمی، حبشہ کے32 آدمی اور روم کے8 آدمی مراد ہیں جو دینِ عیسوی پر تھے، پھر حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۱ / ۲۹۰-۲۹۱)

آیتِ مبارکہ ’’ یَتْلُوْنَ  اٰیٰتِ  اللّٰهِ  اٰنَآءَ  الَّیْلِ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد بہت اعلیٰ عبادت ہے کہ یہاں رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والوں کی بطورِ خاص تعریف کی گئی ہے ، اس سے نمازِ عشاء و تہجد دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے ارکانمیں سجدہ بہت افضل ہے کہ سجدے کا بھی بطورِخاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی عبادت ، نماز اور تلاوت دن کی اِن عبادات سے افضل ہے کیونکہ جودل کی یکسوئی رات میں مُیَسَّر ہوتی ہے، دن میں نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتیں عبادت و تلاوت میں گزارا کرتے تھے ،چنانچہ حضرت حسین بن علی کرابیسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے کئی بار حضرت امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ رات گزاری اور میں نے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک تہائی رات تک نماز پڑھتے اور پچاس آیات سے زیادہ تلاوت نہ کرتے ، اگر کبھی زیادہ پڑھتے تو بھی 100 آیات تک پہنچتے۔ جب کسی آیتِ رحمت کی تلاوت کرتے تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے رحمت ملنے کی دعا کرتے اور جب آیتِ عذاب پڑھتے تو اس سے پناہ طلب کرتے اور اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات کی دعا کرتے۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ محمد واسم ابیہ ادریس، محمد بن ادریس بن العباس ابو عبد اللہ الشافعی،۲ / ۶۱)

حضرت فاطمہ بنت عبد الملک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا فرماتی ہیں ’’ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے زیادہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو لیکن میں نے لوگوں میں کوئی ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا جو حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے زیادہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہو۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(رات کے وقت) جب گھر تشریف لاتے تو سجدے میں سر رکھ کر روتے اور دعا کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں پر غالب آجاتی اور رات میں پھر جب بیدار ہوتے تو اسی طرح کرتے(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز، ۵ / ۲۹۴، رقم: ۷۱۷۴)۔

یُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰهِ  وَ  الْیَوْمِ  الْاٰخِرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ  وَ  یُسَارِعُوْنَ  فِی  الْخَیْرٰتِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  مِنَ  الصّٰلِحِیْنَ(114)

ترجمہ: یہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہ لوگ (اللہ کے) خاص بندوں میں سے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰهِ  وَ  الْیَوْمِ  الْاٰخِرِ : یہ اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔} گزشتہ آیت اور اِس آیت میں مجموعی طور پر ایمان والوں کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) رات کو عبادت میں قیام کرنا، (2)نماز پڑھنا، (3) رات کا ایک حصہ عبادت میں گزارنا، (4) رات کے وقت قرآن کی تلاوت کرنا، (5)اللہ تعالیٰ اور آخرت پر کامل ایمان رکھنا، (6)نیکی کا حکم دینا، (7) برائی سے منع کرنا، (8) نیکیوں میں سبقت لیجانا، (9) نیکی کو اختیار کرنا۔ ایک کامل ایمان والے کے بھی یہی اوصاف ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کاملین میں داخل فرمائے۔

وَ  مَا  یَفْعَلُوْا  مِنْ  خَیْرٍ  فَلَنْ  یُّكْفَرُوْهُؕ-وَ  اللّٰهُ  عَلِیْمٌۢ  بِالْمُتَّقِیْنَ(115)

ترجمہ: 

اور یہ لوگ جونیک کام کرتے ہیں ہرگز اِن کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ ڈرنے والوں کو جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَنْ  یُّكْفَرُوْهُ:ہرگز اِن کی ناقدری نہیں کی جائے گی ۔} یہودیوں نے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم دین اسلام قبول کرکے خسارے میں پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ وہ تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بلند درجات کے مستحق ہوئے اور وہ تو اپنی نیکیوں کی جزا پائیں گے جبکہ یہودیوں کی گفتگو بے معنیٰ ہے۔

اِنَّ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  لَنْ  تُغْنِیَ  عَنْهُمْ  اَمْوَالُهُمْ  وَ  لَاۤ  اَوْلَادُهُمْ  مِّنَ  اللّٰهِ  شَیْــٴًـاؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  اَصْحٰبُ  النَّارِۚ-هُمْ  فِیْهَا  خٰلِدُوْنَ(116)

ترجمہ: 

وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں ، یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ  تُغْنِیَ  عَنْهُمْ  اَمْوَالُهُمْ  وَ  لَاۤ  اَوْلَادُهُمْ  مِّنَ  اللّٰهِ  شَیْــٴًـا: ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے۔} شانِ نزول: یہ آیت بنی قُرَیْظہ اور بنی نَضیِر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہودی سرداروں نے مال و دولت کی خاطر سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دشمنی کی تھی،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشادفرمایا کہ ان کے مال و اولاد ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، یہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دشمنی میں ناحق اپنی عاقبت برباد کررہے ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱ / ۲۹۱)

             ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکینِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ ابوجہل کو اپنی دولت پر بڑا فخر تھا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت تمام کفار کے متعلق عام ہے ۔  (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۳۳۵-۳۳۶)

            ان سب کو بتایا گیا کہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی کام آنے والا اور عذابِ الٰہی سے بچانے والا نہیں۔صرف رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامن سے وابستہ ہونا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔

مَثَلُ  مَا  یُنْفِقُوْنَ  فِیْ  هٰذِهِ  الْحَیٰوةِ  الدُّنْیَا  كَمَثَلِ  رِیْحٍ  فِیْهَا  صِرٌّ  اَصَابَتْ  حَرْثَ  قَوْمٍ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ  مَا  ظَلَمَهُمُ  اللّٰهُ  وَ  لٰـكِنْ  اَنْفُسَهُمْ  یَظْلِمُوْنَ(117)

ترجمہ: 

اس دنیاوی زندگی میں جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا جیسی ہے جس میں شدید ٹھنڈ ہو، وہ ہوا کسی ایسی قوم کی کھیتی کو جاپہنچے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو تو وہ ہوا اس کھیتی کو ہلاک کردے اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَثَلُ  مَا  یُنْفِقُوْنَ  فِیْ  هٰذِهِ  الْحَیٰوةِ  الدُّنْیَا : اس دنیاوی زندگی میں خرچ کرنے والوں کی مثال۔}اس آیت میں کافر کے خرچ اور ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی گئی کہ ان کے خرچ کو ان کا کفر یا ریاکاری ایسے تباہ کردیتی ہے جیسے برفانی ہو اکھیتی کو برباد کردیتی ہے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ کوئی ظلم و زیادتی نہیں بلکہ یہ ان کے کفر یا نفاق یا ریاکاری کا انجام ہے تو یہ خود اِن کا اپنی جانوں پر ظلم ہے۔ مفسرین کا قول ہے کہ اس خرچ سے یہودیوں کا وہ خرچ مراد ہے جو وہ اپنے علماء اور سرداروں پر کرتے تھے ،وہ خرچہ بے فائدہ ہے، اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں اس سے کفار کے تمام صدقات مراد ہیں کہ ان کا کوئی ثواب نہیں اور وہ صدقات ضائع ہیں اورایک قول یہ ہے کہ یہاں ریا کارکا خرچ کرنا مراد ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱ / ۲۹۱-۲۹۲)

            کیونکہ اس کا خرچ کرنا یا دنیاوی نفع کے لئے ہوگا یاآخرت کے نفع کے لئے۔ اگرصرف دنیاوی نفع کے لئے ہو تو آخرت میں اس سے کیا فائدہ اور ریاکار کو تو آخرت اور رضائے الٰہی مقصود ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا عمل تودکھاوے اور نمائش کے لئے ہوتا ہے ایسے عمل کا آخرت میں کیا نفع ہوگا جبکہ کافر کے تمام اعمال برباد ہیں ،وہ اگرچہ آخرت کی نیت سے بھی خرچ کرے تو نفع نہیں پاسکتا ،ان لوگوں کے لئے وہ مثال بالکل مطابق ہے جو اس آیت میں ذکر فرمائی جارہی ہے۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ  لَا  یَاْلُوْنَكُمْ  خَبَالًاؕ-وَدُّوْا  مَا  عَنِتُّمْۚ-قَدْ  بَدَتِ  الْبَغْضَآءُ  مِنْ  اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ  مَا  تُخْفِیْ  صُدُوْرُهُمْ  اَكْبَرُؕ-قَدْ  بَیَّنَّا  لَكُمُ  الْاٰیٰتِ  اِنْ  كُنْتُمْ  تَعْقِلُوْنَ(118)

ترجمہ: 

اے ایمان والو! غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ:غیروں کو راز دار نہ بناؤ۔}  بعض مسلمان اپنے قرابت دار اور رشتہ دار یہودیوں وغیرہ سے قرابت یا پڑوس کی بنا پر دوستی اور میل جول رکھتے تھے۔ ان کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۳۰۶)

کفار سے تعلقات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات:

            اس سے معلوم ہوا کہ کفار سے دوستانہ تعلقات، دلی محبت و اخلاص حرام ہے اور انہیں اپنا راز دار بنانا بھی ناجائز ہے اور تجربات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے۔ نیزاس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان حکمران کافروں اور مرتدوں کو اہم ترین عہدوں پر نہ لگائے جس سے یہ لوگ غداری کرنے کا موقعہ پائیں کیونکہ یہ لوگ تمہاری برائی چاہنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے، ان کی تو خواہش ہی یہ ہے کہ مسلمان تکلیف و مشقت میں پڑے رہیں نیز ان کی دشمنیاں ان کے الفاظ اور کردار سے ظاہر ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے ۔ جب زبانی دشمنی بھی سامنے آتی رہتی ہے تو جو دشمنی اور مسلمانوں سے بغض و عداوت ان کے دلوں میں ہوگی وہ کس قدر ہوگی؟ یقینا ان کے دلوں میں موجود دشمنی ظاہری دشمنی سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! اِن سے دوستی نہ کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان فرماتا ہے۔قرآنِ پاک کی جامعیت اور حقانیت کو اگر سمجھنا ہو تو ان آیات کو سامنے رکھ کر تمام دنیا کے مسلمان اور کافر ممالک کے حالات کا جائز ہ لیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا وہ قطعی طور پر حق اور سچ نہیں ہے؟ یقینا سچ ہے۔ تاریخِ عالم، تاریخِ اسلام اور موجودہ حالات تمام کے تمام قرآن کی ان آیات کی صداقت پر دلالت کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ابھی بھی ہماری آنکھیں خواب ِ غفلت میں ہیں ، ہمارے لوگ ابھی بھی انہی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا مان رہے ہیں جنہیں اپنے راز بتانے سے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں منع فرمارہا ہے ۔

هٰۤاَنْتُمْ  اُولَآءِ  تُحِبُّوْنَهُمْ  وَ  لَا  یُحِبُّوْنَكُمْ  وَ  تُؤْمِنُوْنَ  بِالْكِتٰبِ  كُلِّهٖۚ-وَ  اِذَا  لَقُوْكُمْ  قَالُوْۤا  اٰمَنَّا  ﳒ  وَ  اِذَا  خَلَوْا  عَضُّوْا  عَلَیْكُمُ  الْاَ نَامِلَ  مِنَ  الْغَیْظِؕ-قُلْ  مُوْتُوْا  بِغَیْظِكُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  عَلِیْمٌۢ  بِذَاتِ  الصُّدُوْرِ(119)

ترجمہ: خبردار: یہ تم ہی ہو جو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں ۔ اے حبیب! تم فرمادو ،اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بیشک اللہ دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تُحِبُّوْنَهُمْ  وَ  لَا  یُحِبُّوْنَكُمْ: تم انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے ۔} ارشاد فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! یہ صرف تم ہو جو رشتہ داری اور دوستی وغیرہ تعلقات کی بناء پر ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتے اور دینی مخالفت کی بنا پر تم سے دشمنی رکھتے ہیں حالانکہ تم قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہو اور ان کی کتابوں پر بھی لیکن وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے توجب وہ اپنے کفر میں اتنے پختہ ہیں تو تم اپنے ایمان میں پختہ کیوں نہیں ہوتے اوران میں سے جو منافقین ہیں ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو اے مسلمانو! تم ان سے بچو۔ان کے اِس غیض و غضب پر اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ تم مرتے دم تک اپنے غصے پر قائم رہواور اِس جلن میں جلتے رہولیکن یاد رکھو کہ اس وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑے گاالبتہ تمہارے لئے یہ غصہ عذاب کا باعث بن جائے گا کیونکہ تمہاری یہ قلبی حالت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جودلوں کی باتیں بھی جانتا ہے ۔

اِنْ  تَمْسَسْكُمْ  حَسَنَةٌ  تَسُؤْهُمْ٘-وَ  اِنْ  تُصِبْكُمْ  سَیِّئَةٌ  یَّفْرَحُوْا  بِهَاؕ-وَ  اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  لَا  یَضُرُّكُمْ  كَیْدُهُمْ  شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  بِمَا  یَعْمَلُوْنَ  مُحِیْطٌ(120)

ترجمہ: 

اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبرکرو اورتقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکروفریب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بیشک اللہ ان کے تمام کاموں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنْ  تَمْسَسْكُمْ  حَسَنَةٌ  تَسُؤْهُمْ: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے۔} کفار کی عمومی حالت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو کافروں سے محبت و دوستی نہیں رکھنی چاہے۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کو اپنا شعار بنالیں تو کافروں کا کوئی داؤ مسلمانوں پر نہ چل سکے گا۔

وَ  اِذْ  غَدَوْتَ  مِنْ  اَهْلِكَ  تُبَوِّئُ  الْمُؤْمِنِیْنَ  مَقَاعِدَ  لِلْقِتَالِؕ-وَ  اللّٰهُ  سَمِیْعٌ  عَلِیْمٌ(121)

ترجمہ: اور یاد کرو اے حبیب! جب صبح کے وقت تم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پرمقرر کررہے تھے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اِذْ  غَدَوْتَ  مِنْ  اَهْلِكَ: اور یاد کرو اے حبیب! جب صبح کے وقت تم اپنے دولت خانہ سے نکلے۔} یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہورہا ہے اور اس کے بعد غزوۂ بدر کا تذکرہ ہے۔

جنگِ احد کا بیان:

            یہاں رکوع کی ابتداء میں جنگ ِاُحد کا بیان ہے جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ جنگِ بدر میں شکست کھانے سے کفار کو بڑا رنج تھا، اس لئے اُنہوں نے انتقام کے ارادے سے مسلمانوں سے جنگ کیلئے ایک بڑا بھاری لشکر تیار کرلیا۔ جب سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ملی کہ لشکرِکفار اُحد میں پہنچا ہوا ہے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا، اس مشورے میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول کو بھی بلایا گیا جو اس سے پہلے کبھی کسی مشورے کے لئے نہیں بلایا گیا تھا ۔اکثر انصار کی اور عبداللہ بن ابی کی یہ رائے تھی کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ میں ہی ٹھہرے رہیں اور جب کفار یہاں آئیں تب اُن سے مقابلہ کیا جائے۔ یہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی تھی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے یہ ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہئے اور اس پر انہوں نے اصرار کیا۔ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے اور اسلحہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے ۔اب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر ان صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ندامت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا کہ’’ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رائے دینا اور اس پر اصرار کرنا ہماری غلطی تھی، اس کو معاف فرمائیے اور جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارادہ ہو وہی کیجئے ، ہم حاضر ہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ہتھیار پہن کر جنگ سے پہلے اُتار دے۔

             مشرکین دو تین دن سے اُحد میں پہنچے ہوئے تھے ۔سلطانِ عَرَب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کے بعد ایک انصاری کی نمازِ جنازہ پڑھ کر روانہ ہوئے اور پندرہ شوال 3ہجری بروز اتوار اُحد میں پہنچے اور پہاڑ کا ایک درہ جو لشکرِاسلام کے پیچھے تھا، اس طرف سے اندیشہ تھا کہ کسی وقت دشمن پشت پر سے آکر حملہ کرے ،اس لئے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن جُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ وہاں مقرر فرما دیا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو تو تیروں کے ذریعے ا س کا حملہ دفع کردیا جائے اور حکم دیا کہ کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا اور اس جگہ کو نہ چھوڑنا، خواہ فتح ہو یا شکست ہو ۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق جس نے مدینہ طیبہ میں رہ کر جنگ کرنے کی رائے دی تھی اپنی رائے کے خلاف کیے جانے کی وجہ سے برہم ہوا اور کہنے لگا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نو عمر لڑکوں کا کہنا تو مانا اور میری بات کی پروانہ کی۔ اس عبداللہ بن اُبی کے ساتھ تین سو منافق تھے اُن سے اِس نے کہا کہ جب دشمن لشکر ِ اسلام کے مقابل آجائے اُس وقت بھاگ جانا تاکہ لشکر اسلام میں ابتری پھیل جائے اور تمہیں دیکھ کر اور لوگ بھی بھاگ نکلیں۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد ان منافقین سمیت ایک ہزار تھی اور مشرکین تین ہزار تھے۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی عبداللہ بن اُبی منافق اپنے تین سو منافقوں کو لے کر بھاگ نکلا اور حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سات سو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثابت قدم رکھا یہاں تک کہ مشرکین کو شکست ہوئی۔مسلمان مشرکوں کے پیچھے بھاگے تو پہاڑی درے پر موجود صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی بھاگتے ہوئے مشرکین کے پیچھے پڑ گئے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہاں قائم رہنے کے لئے فرمایا تھا وہاں قائم نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے اِنہیں یہ دکھا دیا کہ بدر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کی برکت سے فتح ہوئی تھی جبکہ یہاں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں سے رُعب و ہیبت دور کردی اور وہ پلٹ پڑے اور مسلمانوں کونقصان اٹھانا پڑا۔ شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک جماعت رہ گئی جس میں حضرت ابوبکر ،حضرت علی ،حضرت عباس ،حضرت طلحہ اور حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ اسی جنگ میں دندانِ اقدس شہید ہوئے اور چہرۂ اقدس پر زخم آیا ۔ اسی کے متعلق یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۲۹۴-۲۹۵)

اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَاۙ-وَ  اللّٰهُ  وَلِیُّهُمَاؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ(122)

ترجمہ: 

جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ بزدلی دکھائیں اور اللہ ان کو سنبھالنے والاتھااور اللہ ہی پر مسلمانوں کو بھروسہ کرناچاہئے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَا :جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ بزدلی دکھائیں۔} یہ دونوں گروہ انصار میں سے تھے ایک قبیلہ بنی سلمہ جس کا تعلق خَزْرَجْ سے تھا اور ایک بنی حارثہ جس کا تعلق اَوس سے تھا۔ یہ دونوں لشکر کے بازو تھے ،جب عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق بھاگا تو ان قبیلوں نے بھی واپسی کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور انہیں اس سے محفوظ رکھا اور یہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ یہاں اس نعمت و احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ آیت کے آخر میں توکل کی عظمت کو بھی بیان فرمایا۔ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا کام کسی کے سپرد کر کے اس پر اعتماد کرنا،اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی کارساز ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اپنے کام ا س کے سپرد کر دینا۔ (احیاءعلوم الدین، کتاب التوحید والتوکل، الشطر الثانی، بیان حال التوکل، ۴ / ۳۲۱، ملخصاً)

وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ  وَّ  اَنْتُمْ  اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تَشْكُرُوْنَ(123)

ترجمہ: 

اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے عظیم احسان کو بیان فرما رہا ہے کہ غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اوران کے پاس ہتھیاروں اور سواروں کی بھی کمی تھی جبکہ کفار تعداد اور جنگی قوت میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار پر فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ جنگ بدر 17رمضان 2ہجری میں جمعہ کے دن ہوئی۔ مسلمان 313تھے جبکہ کفار تقریباً ایک ہزار۔ بدر ایک کنواں ہے جو ایک شخص بدر بن عامر نے کھودا تھا، اس کے نام پر اس علاقے کا نام ’’بدر‘‘ ہوگیا۔(یہ علاقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے )(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۱ / ۳۱۰)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مدد کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مدد کرنا ہے:

             اس آیتِ مبارکہ سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جیسا کہ اگلی آیتوں میں موجود ہے، جنگ میں فرشتے لڑے، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی مدد ہوتی ہے۔ لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ جو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا۔

اِذْ  تَقُوْلُ  لِلْمُؤْمِنِیْنَ  اَلَنْ  یَّكْفِیَكُمْ  اَنْ  یُّمِدَّكُمْ  رَبُّكُمْ  بِثَلٰثَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُنْزَلِیْنَﭤ(124)بَلٰۤىۙ-اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  وَ  یَاْتُوْكُمْ  مِّنْ  فَوْرِهِمْ  هٰذَا  یُمْدِدْكُمْ  رَبُّكُمْ  بِخَمْسَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُسَوِّمِیْنَ(125)

ترجمہ: یاد کرو اے حبیب! جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کرتمہاری مدد کرے۔ہا ں کیوں نہیں ،اگر تم صبرکرو اور تقویٰ اختیارکرو اور کافر اسی وقت تمہارے اوپر حملہ آور ہوجائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ  تَقُوْلُ  لِلْمُؤْمِنِیْنَ : جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے۔} شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو او راس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔

واقعۂ بدر سے معلوم ہونے والے مسائل:

         اس آیت اور واقعہ سے 3 باتیں معلوم ہوئیں :

(1)… بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار صابر اور متقی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اتارنے کیلئے صبر اور تقویٰ کی شرط رکھی تھی اور چونکہ فرشتے بعد میں نازل ہوئے تو اس سے معلوم ہوا کہ شرط پائی گئی تھی ،یعنی صحابۂ  کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کیا تھا، لہٰذاصحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر اور تقویٰ پر قرآن گواہ ہے۔

(2)… بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتا ز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔

(3)… سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور مجاہدین کی مدد اعلیٰ عبادت ہے کہ یہ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدد کیلئے نازل ہوئے اور دوسرے فرشتوں سے افضل قرار پائے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تمام مسلمانوں سے افضل ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت نصیب ہوئی۔ حدیث میں ہے’’اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا ’’تم جو چاہے عمل کرو تمہارے لئے جنت واجب ہو چکی ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۳)

         شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت الفردوس میں ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۲)

وَ  مَا  جَعَلَهُ  اللّٰهُ  اِلَّا  بُشْرٰى  لَكُمْ  وَ  لِتَطْمَىٕنَّ  قُلُوْبُكُمْ  بِهٖؕ-وَ  مَا  النَّصْرُ  اِلَّا  مِنْ  عِنْدِ  اللّٰهِ  الْعَزِیْزِ  الْحَكِیْمِ(126)

ترجمہ: اور اللہ نے اس امداد کو صرف تمہاری خوشی کے لئے کیا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو زبردست ہے حکمت والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  جَعَلَهُ  اللّٰهُ  اِلَّا  بُشْرٰى  لَكُمْ: اور اللہ نے اس امداد کو صرف تمہاری خوشی کے لئے کیا۔} فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اتار کر جو تمہاری مدد فرمائی وہ صرف تمہاری خوشی کے لئے کی اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہواور دشمن کی کثرت اور اپنی قِلَّت سے تمہیں پریشانی او ربے قراری نہ ہو ۔ مسلمانوں کو ویسے ہی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حقیقی مدد اسباب سے نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہوتی ہے لہٰذا چاہئے کہ بندہ صرف اَسباب پر نہیں بلکہ  مُسَبِّبُ الاسباب پر نظر رکھے اور اسی پر توکل کرے۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی خوشی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ ان کی خوشی کیلئے ان کی مدد کی گئی۔

لِیَقْطَعَ  طَرَفًا  مِّنَ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْۤا  اَوْ  یَكْبِتَهُمْ  فَیَنْقَلِبُوْا  خَآىٕبِیْنَ(127)

ترجمہ: 

اس لئے کہ وہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے یا انہیں ذلیل و رسوا کردے تو وہ نامرادہوکر لوٹ جائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیَقْطَعَ  طَرَفًا  مِّنَ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: اس لئے کہ وہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے۔} اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد اس لئے بھی فرمائی کہ کافروں کے بڑے بڑے سردار مارے جائیں ، گرفتار کئے جائیں اور اس کے ذریعے کافروں کی قوت ختم ہو، چنانچہ بدر میں ایسا ہی ہوا۔

لَیْسَ   لَكَ  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ  اَوْ  یَتُوْبَ  عَلَیْهِمْ  اَوْ  یُعَذِّبَهُمْ  فَاِنَّهُمْ  ظٰلِمُوْنَ(128)وَ  لِلّٰهِ  مَا  فِی  السَّمٰوٰتِ  وَ  مَا  فِی  الْاَرْضِؕ-یَغْفِرُ  لِمَنْ  یَّشَآءُ  وَ  یُعَذِّبُ  مَنْ  یَّشَآءُؕ-وَ  اللّٰهُ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ(129)

ترجمہ: اے حبیب! آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ، اللہ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دیدے اور چاہے توانہیں عذاب میں ڈال دے کیونکہ یہ ظالم ہیں ۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ   لَكَ  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ : اے حبیب! آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔} ہجرت کے چوتھے سال صفر کے مہینے میں سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ستر قاری صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک جگہ بئر معونہ کی طرف بھیجا تاکہ وہاں لوگوں کو قرآنِ پاک اور دینی مسائل کی تعلیم دیں ، عامر بن طفیل نے دھوکے سے انہیں شہید کر دیا، ان کافروں کے خلاف حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بربادی کی دعا کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روک دیا، اس کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۱ / ۳۱۱-۳۱۲، مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۱۸۴، ملتقطاً)

            اور فرمادیا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے کوئی دعا نہ کریں۔ ان کا معاملہ اللہ  تعالیٰ پر چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے۔ یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ مبارک تربیت ہے جو ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ نے خود فرمائی اور ہرجگہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل رہنمائی فرمائی۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً۪-  وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَ(130)

ترجمہ:

اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً: دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ۔} اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔

سود سے متعلق وعیدیں :

سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275 ،276 ،278 میں بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔

(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الرباومؤکلہ، ص ۸۶۲، الحدیث: ۱۰۶(۱۵۹۹))

(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲ / ۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۶)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے ۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۹۵، الحدیث: ۵۵۲۳)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر  سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۲۲۷۳)

وَ  اتَّقُوا  النَّارَ  الَّتِیْۤ  اُعِدَّتْ  لِلْكٰفِرِیْنَ(131)

ترجمہ: 

اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اتَّقُوا  النَّارَ : اور اس آگ سے بچو۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس آیت میں ایمانداروں کو تہدید (دھمکی) ہے کہ سود وغیرہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام فرمائی ہیں ان کو حلال نہ جانیں کیونکہ حرام قطعی کو حلال جاننا کفر ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۱ / ۳۰۰)

132

وَ  اَطِیْعُوا  اللّٰهَ  وَ  الرَّسُوْلَ  لَعَلَّكُمْ  تُرْحَمُوْنَ(132)

ترجمہ: اوراللہ اور رسول کی فرمانبردار ی کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اَطِیْعُوا  اللّٰهَ  وَ  الرَّسُوْلَ : اوراللہ اور رسول کی فرمانبردار ی کرتے رہو ۔} فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو کہتے ہیں ،رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔

وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ  وَ  جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ  وَ  الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَ(133)

ترجمہ: 

اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  سَارِعُوْۤا  اِلٰى  مَغْفِرَةٍ  مِّنْ  رَّبِّكُمْ : اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔} فرمایا گیا کہ گناہوں سے توبہ کرکے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرائض کو ادا کرکے، نیکیوں پر عمل پیرا ہوکر اور تمام اعمال میں اخلاص پید اکرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بخشش اور جنت کی طرف جلدی کرو۔ پھر جنت کی وسعت اس طرح بیان فرمائی کہ لوگ سمجھ سکیں کیونکہ لوگ جو سب سے وسیع چیز دیکھتے ہیں وہ آسمان و زمین ہی ہے، اس سے وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگرتمام آسمانوں اور زمینوں کوترتیب سے ایک لائن میں رکھ کرجوڑ دیا جائے تو جو وسعت بنے گی اُس سے جنت کی چوڑائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت کتنی وسیع ہے ۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا گیا کہ جنت آسمان میں ہے یا زمین میں ؟ فرمایا: کون سی زمین اور کون سا آسمان ایسا ہے جس میں جنت سما سکے۔ عرض کیا گیا :پھر کہاں ہے؟ فرمایا: آسمانوں کے اوپر ، عرش کے نیچے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۱ / ۳۰۱)

            جنت نہایت عظیمُ الشان جگہ ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دیدارکا مقام ہے۔ قرآنِ پاک میں جنت کی عظمت کو بکثرت بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس نصیب فرمائے۔ یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت ’’وَ  اتَّقُوا  النَّارَ  الَّتِیْۤ  اُعِدَّتْ  لِلْكٰفِرِیْنَ‘‘ سے ثابت ہوا کہ جنت و دوزخ پیدا ہوچکی ہیں اور دونوں موجود ہیں کیونکہ دونوں آیتوں میں ماضی کے زمانے میں جنت و دوزخ کے تیار ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

الَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآءِ  وَ  الضَّرَّآءِ  وَ  الْـكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ(134)

ترجمہ: وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآءِ  وَ  الضَّرَّآءِ : وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔} آیتِ مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا، (2) غصہ پی جانا، (3) لوگوں کو معاف کردینا، (4) احسان کرنا۔

راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب:

         راہ خدا میں خرچ کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (سبا:۳۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والاہے۔

 اور ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ (فاطر: ۲۹، ۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی ۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔

اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا ۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وکان عرشہ علی الماء، ۳ / ۲۴۵، الحدیث: ۴۶۸۴، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، ص۴۹۸، الحدیث: ۳۶(۹۹۳))

یعنی تم خدا عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرو ،تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ملے گا۔

غصے پر قابو پانے کے چار فضائل:

احادیث میں غصے پر قابو پانے کے کثیر فضائل مذکور ہیں ان میں سے 4فضائل درج ذیل ہیں۔

(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ۴ / ۱۳۰، الحدیث: ۶۱۱۴)

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان کو محفوظ رکھے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عذر کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذر کو قبول فرمائے گا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۵، الحدیث: ۸۳۱۱)

(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔(فردوس الاخبار، باب القاف، ۲ / ۱۳۷، الحدیث: ۴۴۷۶)

(4)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندے نے غصہ کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۴، الحدیث: ۸۳۰۷).

عفو و درگزر کے فضائل:

احادیث میں عفوو درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو فضائل درجِ ذیل ہیں۔

(1)…حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں ) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، شرح آیۃ: کنتم خیر امّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۲۱۵)

(2)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا : ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)

حلم وعفو کے دو عظیم واقعات:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا:اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے،پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔(بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبہم۔۔۔الخ، ۲ / ۳۵۹، الحدیث: ۳۱۴۹)

(2)…امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ  الْـكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ’’اور غصہ پینے والے‘‘ امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِ’’اور لوگوں سے در گزر کرنے والے‘‘ ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ’’اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ارشاد فرمایا: جا ! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۴۱ / ۳۸۷)

وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ  مَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  ﳑ  وَ  لَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ(135)اُولٰٓىٕكَ  جَزَآؤُهُمْ  مَّغْفِرَةٌ  مِّنْ  رَّبِّهِمْ  وَ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  نِعْمَ  اَجْرُ  الْعٰمِلِیْنَﭤ(136)

ترجمہ: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ (یہ لوگ) ہمیشہ ان (جنتوں ) میں رہیں گے اورنیک اعمال کرنے والوں کا کتنا اچھا بدلہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ: اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔} پرہیزگاروں کے اوصاف  کا بیان جاری ہے اوریہاں ان کا مزید ایک وصف بیان فرمایا، وہ یہ کہ اگر اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرکے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ، اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ کیلئے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلیتے ہیں اور اپنے گناہ پر اِصرار نہیں کرتے اور یہی مقبول توبہ کی شرائط ہیں۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ’’ تیہان نامی ایک کھجور فروش کے پاس ایک حسین عورت کھجوریں خریدنے آئی۔ دکاندار نے کہا کہ یہ کھجوریں اچھی نہیں ہیں ، بہترین کھجوریں گھر میں ہیں ، یہ کہہ کراس عورت کو گھر لے گیا اور وہاں جا کر اس کا بوسہ لے لیااور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اس عورت نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر۔ یہ سنتے ہی تیہان نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور شرمندہ ہو کر حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں سارا ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ’’ دو شخصوں میں بڑا پیار تھا، ان میں سے ایک جہاد کے لئے گیااور اپنا گھر بار دوسرے کے سپرد کر گیا۔ ایک روز اُس مجاہد کی بیوی نے اُس انصاری سے گوشت منگایا ، وہ آدمی گوشت لے آیا،جب اُس مجاہد کی بیوی نے گوشت لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تواس نے ہاتھ چوم لیالیکن چومتے ہی اسے سخت شرمندگی ہوئی اور وہ جنگل میں نکل گیا اور منہ پر طمانچے مارنا اور سرپر خاک ڈالنا شروع کردی۔ جب وہ مجاہد اپنے گھر واپس آیا تو اپنی بیوی سے اپنے اُس دوست کا حال پوچھا۔ عورت بولی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے دوست سے بچائے۔ وہ مجاہد اُس کو تلاش کرکے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں لایا۔ اس کے حق میں یہ آیات اتریں۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۳۰۲)ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں واقعے اس آیت کا شانِ نزول ہوں۔

قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِكُمْ  سُنَنٌۙ-فَسِیْرُوْا  فِی  الْاَرْضِ   فَانْظُرُوْا  كَیْفَ  كَانَ  عَاقِبَةُ  الْمُكَذِّبِیْنَ(137)

ترجمہ: تم سے پہلے کئی طریقے گزر چکے ہیں تو زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کاکیسا انجام ہوا ؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِكُمْ  سُنَنٌ: تم سے پہلے کئی طریقے گزر چکے ہیں۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ اے لوگو! کافروں کو شروع میں مہلت دینے اور پھر ان کی گرفت کرنے کے حوالے سے تم سے پہلے بھی کئی طریقے گزر چکے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی حرص اور اس کی لذّات کی طلب میں انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر بھی مہلتیں عطا فرمائیں۔ اس کے باوجود وہ راہ ِراست پر نہ آئے تو انہیں ان کے اعمال کے سبب مختلف عذابوں کے ذریعے ہلاک و برباد کردیا۔ تو اے لوگو! ان زمینوں کی طرف سفر کرو جہاں پہلے کفار آباد تھے جنہوں نے اپنے رسولوں کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ تباہ کر دئیے گئے۔ ان کی اجڑی بستیاں دیکھ کر عبرت پکڑو اور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ۔ یاد رہے کہ عبرت و نصیحت اور صحیح مقصد کیلئے سیر و سیاحت کرنے میں بہت فوائد ہیں۔ نیزیہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے عذاب کی جگہ جاکر عبرت حاصل ہوتی ہے ایسے ہی رحمت کی جگہ جاکر برکت و نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کسی ولی کے مزار پر جائیں تو جاکر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنے پیاروں کی دنیا میں ہی کیسی عزت افزائی فرماتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی کیسی محبت ڈال دیتا ہے؟ اس لئے ایسی رحمت والی جگہوں پر بھی برکت و نصیحت کیلئے جانا چاہیے۔

هٰذَا  بَیَانٌ  لِّلنَّاسِ   وَ  هُدًى  وَّ  مَوْعِظَةٌ  لِّلْمُتَّقِیْنَ(138)

ترجمہ:

یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰذَا  بَیَانٌ  لِّلنَّاسِ   وَ  هُدًى: یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے۔} قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے نازل فرمایا لہٰذا قرآن کا حق ہے کہ اس کی تلاوت کے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھا جائے اور اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی قوموں کا انجام،قیامت کی سختیاں اور جہنم کے دردناک عذابات وغیرہ کے بارے میں پڑھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

وَ  لَا  تَهِنُوْا  وَ  لَا  تَحْزَنُوْا  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(139)

ترجمہ: 

اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَا  تَهِنُوْا : اور سستی نہ کرو۔} غزوۂ احد میں نقصان اٹھانے کے بعد مسلمان بہت غمزدہ تھے اور اس کی وجہ سے بعض کے دل سستی کی طرف مائل تھے۔ ان کی اصلاح کے لئے فرمایا کہ جنگ اُحد میں جو تمہارے ساتھ پیش آیاہے اس کی وجہ سے غم نہ کرو اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو ۔ جنگ بدر میں شکست کے باوجود ان کافروں نے ہمت نہ ہاری اور تم سے مقابلہ کرنے میں سُستی سے کام نہ لیا تو تمہیں بھی سُستی اور کم ہمتی نہیں کرنی چاہئے لہٰذا تم ہمت جواں رکھو۔ اگر تم سچے ایمان والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے ہو تو بالاخر تم ہی کامیاب ہوگے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس حکم پر عمل کر کے دکھایا اور خلفائے راشدین کے زمانہ مبارکہ میں مسلمانوں کو ہر طرف فتح و نصرت حاصل ہوئی۔

اِنْ  یَّمْسَسْكُمْ  قَرْحٌ  فَقَدْ  مَسَّ  الْقَوْمَ  قَرْحٌ  مِّثْلُهٗؕ-وَ  تِلْكَ  الْاَیَّامُ  نُدَاوِلُهَا  بَیْنَ  النَّاسِۚ-وَ  لِیَعْلَمَ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَ  یَتَّخِذَ  مِنْكُمْ  شُهَدَآءَؕ-وَ  اللّٰهُ  لَا  یُحِبُّ  الظّٰلِمِیْنَ(140)

ترجمہ: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمادے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ  یَّمْسَسْكُمْ  قَرْحٌ: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اے مسلمانو! یاد رکھو کہ اگر اِس وقت میدانِ احد میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف اس سے پہلے میدانِ بدر میں پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں کہ کبھی ایک کی فتح ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی۔ نیز یہ بھی یاد رکھو کہ کبھی کبھار جوکافروں کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تووہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی پہچان کروانا چاہتا ہے کہ ان میں کون ہر حال میں صبر و استقامت کا پیکر رہتا ہے اور کون بزدل بنتا ہے نیز کافروں کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمانا چاہتا ہے تو کافروں کے غلبے میں بھی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں ، لہٰذا ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہو۔ درس: یہاں آیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کو بار بار بلند ہمت، باحوصلہ، چست اور ہوشیار ہونے کا فرمایا ہے اور کم ہمتی، سستی و کاہلی سے منع فرمایا ہے۔

وَ  لِیُمَحِّصَ   اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  وَ  یَمْحَقَ  الْكٰفِرِیْنَ(141)

ترجمہ:

اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کو نکھاردے اور کافروں کو مٹادے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لِیُمَحِّصَ   اللّٰهُ : اوراس لئے کہ اللہ  نکھار دے۔} کافروں سے جہاد کی ایک اور حکمت بیان کی جارہی ہے کہ کافروں سے جو مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو مسلمانوں کے لئے شہادت اورپاکیزگی کا ذریعہ بنتی ہیں جبکہ مسلمان جن کفار کو قتل کرتے ہیں تو یہ کفار کی بربادی کا ذریعہ بنتا ہے.

اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا  الْجَنَّةَ  وَ  لَمَّا  یَعْلَمِ  اللّٰهُ  الَّذِیْنَ  جٰهَدُوْا  مِنْكُمْ  وَ  یَعْلَمَ  الصّٰبِرِیْنَ(142)

ترجمہ: 

کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَمْ  حَسِبْتُمْ  اَنْ  تَدْخُلُوا  الْجَنَّةَ : کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے؟ }یہاں مسلمان پر آنے والی آزمائشوں کی حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر تمہیں آزمائشیں آتی ہیں تو اس پر بے قرار اور حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں تکلیفوں میں مبتلا فرما رہا ہے؟یاد رکھو کہ تمہارا امتحان کیا جائے گا، تمہیں ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کیسے زخم کھاتے اور تکلیف اُٹھاتے ہو اور کتنا ثابت قدم رہتے ہو۔ تھوڑی سی تکلیف پر چِلّا اٹھنا اور دہائی دینا شروع کردینا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ جنت میں داخلہ مطلوب ہے تو ان آزمائشوں پر پورا اترنا پڑے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں قربانی دینا پڑے گی اور ہر حال میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

زباں پہ شکوہِ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے

      نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے

             اِس میں اُن لوگوں کو سرزنش (تنبیہ) ہے جو اُحد کے دن کفار کے مقابلہ سے بھاگے تھے۔نیز اس آیت کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے اعمال اور اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں راہِ خدا میں اپنا مال یا وقت دینا پڑے تو ہم اس میں کتنا پورا اترتے ہیں ؟ افسوس کہ ہماری حالت کچھ اچھی نہیں۔ فضولیات میں خرچ کرنے کیلئے پیسہ بھی ہے اور وقت بھی لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرتے وقت نہ پیسہ باقی رہتا ہے اور نہ وقت۔

            تنبیہ: آیت میں علم کا لفظ ہے ، یہاں اس سے مراد آزمائش کرنا ہے۔

وَ  لَقَدْ  كُنْتُمْ  تَمَنَّوْنَ  الْمَوْتَ  مِنْ  قَبْلِ  اَنْ  تَلْقَوْهُ۪-فَقَدْ  رَاَیْتُمُوْهُ  وَ  اَنْتُمْ  تَنْظُرُوْنَ(143) 

ترجمہ: اور تم موت کا سامنا کرنے سے پہلے تو اس کی تمنا کیا کرتے تھے ،اب تم نے اسے آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَقَدْ  كُنْتُمْ  تَمَنَّوْنَ  الْمَوْتَ : اورتم موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔} جب بدر کے شہداء کے درجے اور مرتبے اور ان پراللہ تعالیٰ کے انعام و احسان بیان فرمائے گئے تو جو مسلمان غزوہ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے انہیں حسرت ہوئی اور انہوں نے آرزو کی کہ کاش کسی جہاد میں انہیں حاضری میسر آئے اور شہادت کے درجات ملیں ، اِنہی لوگوں نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُحد پر جانے کے لئے اِصرار کیا تھا اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ص۱۸۸)

کہ پہلے توشہادت کی موت کی تمنا کرتے تھے مگرجب میدانِ جنگ میں پہنچے تو بھاگنے لگے، یہ کیا ہے؟ یہ گویا ان کی تفہیم ہے یعنی انہیں سمجھایا گیا ہے۔

وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ-قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِهِ  الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ  مَّاتَ  اَوْ  قُتِلَ  انْقَلَبْتُمْ  عَلٰۤى  اَعْقَابِكُمْؕ-وَ  مَنْ  یَّنْقَلِبْ  عَلٰى  عَقِبَیْهِ  فَلَنْ  یَّضُرَّ  اللّٰهَ  شَیْــٴًـاؕ-وَ  سَیَجْزِی  اللّٰهُ  الشّٰكِرِیْنَ(144)

ترجمہ: اور محمد ایک رسول ہی ہیں ، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وصال کر جائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤگے ؟اور جو الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا فرمائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌ: اور محمد تو ایک رسول ہی ہیں۔} شانِ نزول: جنگ اُحد میں جب کافروں نے شور مچایا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے اور شیطان نے یہ جھوٹی اَفواہ مشہور کردی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت اِضطراب ہوا اور ان میں سے کچھ لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے لیکن پھر جب ندا کی گئی کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحیح سلامت تشریف رکھتے ہیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت واپس آگئی۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں یوں بھاگ جانے پر ملامت کی تواُنہوں نے عرض کیا : ہمارے ماں ، باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فدا ہوں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہادت کی خبر سن کر ہمارے دِل ٹوٹ گئے اور ہم سے ٹھہرا نہ گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۳ / ۳۷۶)

اور فرمایا گیا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بھی امتوں پر اُن کے دین کی پیروی لازم رہتی ہے تو اگر ایسا ہوتا بھی کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوجاتے یا ان کا وصال ہوجاتا توبھی حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کی پیروی اور اس کی حمایت لازم رہتی کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں لیکن ان کے پیروکار اُن کے بعد اُن کے دین پر قائم رہے ۔ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت کا مقصد تورسالت کی تبلیغ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپیغام پہنچانا ہوتا ہے نہ کہ اپنی قوم کے درمیان ہمیشہ موجود رہنا،تو جیسے پہلے رسول گزر گئے اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی دنیا سے تشریف لے جائیں گے لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین پر ثابت قدم رہو۔ یہ کیا بات ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تشریف لے جانے کے بعد ان کے دین ہی سے پھرجاؤ۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تو کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنا ہی نقصان کرے گا جبکہ جو دین اسلام سے نہ پھرے اور اپنے دین پر ثابت رہے وہ شکرگزاروں میں شمار کیا جائے گا کیونکہ اُنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے نعمت ِاسلام کا شکر ادا کیا، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے ثواب وجزا کے امیدوار ہیں۔

وَ  مَا  كَانَ  لِنَفْسٍ  اَنْ  تَمُوْتَ  اِلَّا  بِاِذْنِ  اللّٰهِ  كِتٰبًا  مُّؤَجَّلًاؕ-وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا  نُؤْتِهٖ  مِنْهَاۚ-وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الْاٰخِرَةِ  نُؤْتِهٖ  مِنْهَاؕ-وَ  سَنَجْزِی  الشّٰكِرِیْنَ(145)

ترجمہ: اور کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مرسکتی ،سب کاوقت لکھا ہوا ہے اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے دنیا کا کچھ انعام دیدیں گے اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے آخرت کا انعام عطافرمائیں گے اور عنقریب ہم شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا کریں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كِتٰبًا  مُّؤَجَّلًا: سب کا وقت لکھا ہوا ہے۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے اور مسلمانوں کو دُشمن کے مقابلہ پر جری بنایا جارہا ہے کہ کوئی شخص بغیر حکمِ الٰہی کے مر نہیں سکتا، چاہے وہ کتنی ہی ہلاکت خیزلڑائی میں شرکت کرے اورکتنے ہی تباہ کن میدانِ جنگ میں داخل ہوجائے ، جبکہ اس کے برعکس جب موت کا وقت آتا ہے تو کوئی تدبیر نہیں بچاسکتی خواہ وہ ہزاروں پہرے دار اور محافظ مقرر کرلے اور قلعوں میں جاچھپے کیونکہ ہر ایک کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے ،وہ وقت آگے پیچھے نہیں ہوسکتا ۔

{وَ  مَنْ  یُّرِدْ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا: اور جو دنیا کا انعام چاہتا ہے۔} یہاں سے لوگوں کے دو گروہوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ جو شخص صرف دنیاکی نعمتیں اور آسائشیں چاہتا ہے اور اس کے عمل سے صرف دنیا کا حصول مقصود ہوتا ہے ہم اسے دنیا دیدیتے ہیں یعنی اُس کے عمل پر اُسے دنیا کا فائدہ مل جاتا ہے اور چونکہ آخرت اس کا مطلوب نہیں لہٰذا آخرت کے ثواب سے وہ محروم رہتا ہے۔ جبکہ جو شخص اپنے عمل سے آخرت کا طالب ہوتا ہے اسے اُخروی ثواب عطا فرمایا جاتا ہے اور دنیا تو سب کو مل ہی جاتی ہے۔

اعمال کے ثواب کا دارو مدار نیت پر ہے:

            اس سے معلوم ہوا اعمال میں دارومدار نیت پر ہے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ‘‘ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۵، الحدیث: ۱)

            جیسے یہاں جہاد کی بات چل رہی ہے تو جس کا مقصد جہاد سے صرف شہرت ، دولت اور مالِ غنیمت ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ اسے یہ چیزیں مل جائیں لیکن آخرت کا ثواب ہرگز نہیں ملے گا جبکہ اگر وہ آخرت کا طلبگارہو تو آخرت کا ثواب تو اسے ملے گا ، اس کے ساتھ وہ عزت و شہرت اور مالِ غنیمت سے بھی محروم نہیں رہے گا۔

وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَۙ-مَعَهٗ  رِبِّیُّوْنَ  كَثِیْرٌۚ-فَمَا  وَ  هَنُوْا  لِمَاۤ  اَصَابَهُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  وَ  مَا  ضَعُفُوْا  وَ  مَا  اسْتَكَانُوْاؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الصّٰبِرِیْنَ(146)

ترجمہ:

اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ  قٰتَلَ:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا۔} مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا ہے اور انہیں بتایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا، ان کے ساتھ ان کے صحابہ بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے جہاد کی تکالیف کے باوجود ہمت نہ ہاری اور کمزوری نہ دکھائی اور کافروں کے سامنے پَسپائی کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں ڈٹے رہے اور مردانہ وار تمام تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے رہے اور صبر و استقامت کے پیکر بنے رہے تو اے مسلمانو! تم تو وہ ہو کہ تمہارے نبی اُن تمام نبیوں کے سردار ہیں اور تم اُن تمام امتوں سے افضل ہو تو چاہیے کہ تمہاری بہادری اور استقامت ان سے زیادہ ہو، تمہاری ہمت اور حوصلہ ان سے بڑھ کر ہو، تم میں صبر کا مادہ ان سے زیادہ ہو، لہٰذا تم بھی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کرو۔اس آیت کے شروع میں بیان ہوا کہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا اور ان کے ساتھ رَبّانی لوگ تھے۔ دونوں چیزوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جہاد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شرو ع ہوا، سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد فرمایا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کسی نبی نے جہاد نہ کیا تھا۔ البتہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سے پیغمبروں کی شریعت میں جہاد تھا جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت یوشع عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  وغیرہا اور ربانی لوگوں سے مراد علماء، مشائخ اور متقی لوگ ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۰۰)

آیت’’وَ  كَاَیِّنْ  مِّنْ  نَّبِیٍّ‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:

            اس آیتِ مبارکہ میں بہت سے درس ہیں ،ان میں سے 2یہ ہیں :

(1)… افضل کو افضل نیکیاں کرنی چاہئیں ، وہ تمام ماتحتوں سے عمل میں بڑھ کر ہونا چاہیے، لہٰذا سیدوں ، عالموں اور پیروں کو دوسروں سے زیادہ نیک ہونا چاہیے۔

(2)… دوسروں کے اعمال دکھا کر، سنا کرکسی کو جوش دِلانا سنت ِالٰہیہ ہے بلکہ تاریخی حالات کا جاننا اس نیت سے بہت بہتر ہے۔ اسی لئے مختلف محفلوں ، عرسوں ، بزرگانِ دین کے ایام میں ان کی عبادت و ریاضت، زہد وتقویٰ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔

وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا  اغْفِرْ  لَنَا  ذُنُوْبَنَا  وَ  اِسْرَافَنَا  فِیْۤ  اَمْرِنَا  وَ  ثَبِّتْ  اَقْدَامَنَا  وَ  انْصُرْنَا  عَلَى  الْقَوْمِ  الْكٰفِرِیْنَ(147)

ترجمہ: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  كَانَ  قَوْلَهُمْ  اِلَّاۤ  اَنْ  قَالُوْا  رَبَّنَا: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب !۔}  یعنی رسولوں کے ساتھی تکالیف پر بے صبری نہ دکھاتے اوردین کی حمایت اورجنگ کے مقامات میں اُن کی زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہ آتا جس میں گھبراہٹ، پریشانی اور تَزَلْزُل (ڈگمگانے) کا شائبہ بھی ہوتا بلکہ وہ ثابت قدم رہتے اور مغفرت، ثابت قدمی اورفتح و نصرت کی دُعا کرتے۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کی جو دعا بیان کی گئی ہے اس میں انہوں نے اپنے آپ کو گنہگارکہا ہے، یہ عاجزی، اِنکساری اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے آداب میں سے ہے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو گنہگار کہہ رہے ہیں اور ان کا پروردگار عَزَّوَجَلَّ انہیں رَبّانی یعنی اللہ والے فرما رہا ہے۔ اور حقیقت میں لطف کی بات یہی ہے بندہ خود کو گنہگار کہے اور اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اسے ابرار (نیکو کار) فرمائے۔ کسی بزرگ کا فرمان ہے کہ’’ ساری دنیا مجھے مردود کہے اور ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مقبول قرار پاؤں یہ اس سے بہتر ہے کہ ساری دنیا مجھے مقبول کہے اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مردود قرار پاؤں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے سے پہلے توبہ و استغفار کرناآدابِ دعا میں سے ہے۔

فَاٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا  وَ  حُسْنَ  ثَوَابِ  الْاٰخِرَةِؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ(148)

ترجمہ: تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام (بھی) عطا فرمایا اور آخرت کا اچھا ثواب بھی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  ثَوَابَ  الدُّنْیَا : تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام (بھی) عطا فرمایا۔}انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت میں دینِ خدا عَزَّوَجَلَّ کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دونوں جہان کی کامیابیاں عطا فرمائیں ، دنیا میں انہیں فتح و نصرت سے نوازا اور دشمنوں پر غلبہ عطا فرمایا جبکہ آخرت میں ان کیلئے مغفرت، جنت اوررضائے الہٰی کا انعام رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا ثواب دنیا کے انعام سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ آخرت کے ثواب پر لفظ’’حُسْنَ‘‘ زیادہ فرمایا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی خدمت کرنے والے کو دنیا بھی ملتی ہے۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْۤا  اِنْ  تُطِیْعُوا  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  یَرُدُّوْكُمْ  عَلٰۤى  اَعْقَابِكُمْ  فَتَنْقَلِبُوْا  خٰسِرِیْنَ(149)

ترجمہ: 

اے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ  تُطِیْعُوا  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: اگر تم کافروں کی اطاعت کرو گے۔} یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ ہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔

بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْۚ-وَ  هُوَ  خَیْرُ  النّٰصِرِیْنَ(150)

ترجمہ: بلکہ اللہ ہی تمہارا مدد گارہے اور وہی سب سے بہترین مددگارہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلِ  اللّٰهُ  مَوْلٰىكُمْ: بلکہ اللہ ہی تمہارا مدد گارہے۔} کافروں کی بات ماننے سے روکنے کے بعد فرمایا کہ یاد رکھو کہ یہ  کافر تمہارے مددگار نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی تمہارا مدد گارہے اور وہی سب سے بہترین مددگار ہے، لہٰذا تم اس کی اطاعت کرو کیونکہ ہر ایک اپنے مولا کی اطاعت کرتا ہے توجب اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا مولا ہے تو تم اسی کی اطاعت کرو۔

سَنُلْقِیْ  فِیْ  قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوا  الرُّعْبَ  بِمَاۤ  اَشْرَكُوْا  بِاللّٰهِ  مَا  لَمْ  یُنَزِّلْ  بِهٖ  سُلْطٰنًاۚ-وَ  مَاْوٰىهُمُ  النَّارُؕ-وَ  بِئْسَ  مَثْوَى  الظّٰلِمِیْنَ(151)

ترجمہ: 

عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرایا جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے اوروہ ظالموں کا کتنا برا ٹھکانہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَنُلْقِیْ  فِیْ  قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوا  الرُّعْبَ: عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔} اس آیت میں غیب کی خبر ہے، جب ابو سفیان وغیرہ جنگ احد کے بعد واپس ہوئے تو راستہ میں خیال کیا کہ کیوں لوٹ آئے، سب مسلمانوں کو ختم کیوں نہ کر دیا حالانکہ یہ اچھا موقعہ تھا۔ جب واپس ہونے پر آمادہ ہوئے تو قدرتی طور پر ان تمام کے دلوں میں مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مکہ چلے گئے اور یہ خبر پوری ہوئی۔ (بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۱، ۲ / ۱۰۲)

وَ  لَقَدْ  صَدَقَكُمُ  اللّٰهُ  وَعْدَهٗۤ  اِذْ  تَحُسُّوْنَهُمْ  بِاِذْنِهٖۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  فَشِلْتُمْ  وَ  تَنَازَعْتُمْ  فِی  الْاَمْرِ  وَ  عَصَیْتُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  مَاۤ  اَرٰىكُمْ  مَّا  تُحِبُّوْنَؕ-مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الدُّنْیَا  وَ  مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الْاٰخِرَةَۚ-ثُمَّ  صَرَفَكُمْ  عَنْهُمْ  لِیَبْتَلِیَكُمْۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  عَنْكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  ذُوْ  فَضْلٍ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ(152)

ترجمہ: اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچاکر دکھایا جب تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کررہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور حکم میں آپس میں اختلاف کیا اور تم نے اس کے بعدنافرمانی کی جب اللہ تمہیں وہ کامیابی دکھا چکا تھاجو تمہیں پسند تھی۔ تم میں کوئی دنیا کا طلبگار ہے اور تم میں کوئی آخرت کا طلبگار ہے۔ پھر اس نے تمہارا منہ ان سے پھیردیا تاکہ تمہیں آزمائے اور بیشک اس نے تمہیں معاف فرمادیاہے اور اللہ مسلمانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَقَدْ  صَدَقَكُمُ  اللّٰهُ  وَعْدَهٗ: اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچاکر دکھایا۔} یہاں غزوۂ احد کی بات ہورہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنگ اُحد میں اپنا وعدہ پورا فرمادیا کہ’’وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ یعنی تم ہی غالب ہوگے اگر تم سچے ایمان والے ہو۔تو تم غالب تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے لیکن جب تم نے بزدلی دکھائی اوررسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو ایک پہاڑی درے پر جمے رہنے کا حکم دیا تھا اس میں آپس میں اختلاف کیا اوراس حکم میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کی حالانکہ اللہ  تعالیٰ تمہیں تمہاری پسندیدہ کامیابی دکھا چکا تھا لیکن تم میں سے بعض نے مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خاطر دنیا طلبی کیلئے درہ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی شکست کے بعد حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جو تیر انداز تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ مشرکین کو شکست ہوچکی ہے، لہٰذا اب یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔چلو ،کچھ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ بعض حضرات نے یہ سن کر کہا کہ یہ جگہ مت چھوڑو کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تاکید کے ساتھ حکم فرمایاتھا کہ تم اپنی جگہ ٹھہرے رہنا اورکسی حال میں یہ جگہ نہ چھوڑنا، جب تک میرا حکم نہ آجائے، مگر لوگ غنیمت کے لئے چل پڑے اور حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ ا للہُ  تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دس سے کم صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم رہ گئے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱ / ۳۱۱)

دنیا طلب کرنے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ درہ چھوڑ دیا اورمالِ غنیمت حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے اور آخرت کے طلبگاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہے حتّٰی کہ شہید ہوگئے ۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ غزوۂ احد میں اِس مقام پر جن لوگوں نے خطا کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیا۔ لہٰذا یاد رہے کہ جو اس طرح کے واقعات کو لے کر صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کرے وہ بدبخت ہے کہ ان کی معافی کا اعلان ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ خودفرماچکا۔

اِذْ  تُصْعِدُوْنَ  وَ  لَا  تَلْوٗنَ  عَلٰۤى  اَحَدٍ  وَّ  الرَّسُوْلُ  یَدْعُوْكُمْ  فِیْۤ  اُخْرٰىكُمْ  فَاَثَابَكُمْ  غَمًّۢا  بِغَمٍّ  لِّكَیْلَا  تَحْزَنُوْا  عَلٰى  مَا  فَاتَكُمْ  وَ  لَا  مَاۤ  اَصَابَكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  خَبِیْرٌۢ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ(153)

ترجمہ: جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور تمہارے پیچھے رہ جانے والی دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے تو اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا اور معافی اس لئے سنادی تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیانہ تو اس پر غم کرو اور نہ ہی اس تکلیف پر جو تمہیں پہنچی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَثَابَكُمْ  غَمًّۢا  بِغَمٍّ: تو اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا۔} جنگ احد میں جب کفار پیچھے سے آپڑے تو مسلمان گھبرا کر بھاگ پڑے مگر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور کچھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنی جگہ سے نہ ہٹے اور ثابتقدم رہے۔ ثابت قدم رہنے والی جماعت سے دوسری جماعت کو آوازیں دی جارہی تھیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! ادھر آؤ مگر گھبراہٹ اور شور میں یہ لوگ نہ سن سکے۔ اس آیت میں اسی کا ذکر ہے اور اسی کے حوالے سے فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو!یاد کروجب تم افراتفری میں منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور تمہارے پیچھے ثابت قدم رہ جانے والی دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے لیکن تم سن ہی نہ رہے تھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں غم دیا اس لئے کہ تم نے اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات نہ مان کرانہیں غم پہنچایا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمہیں معافی کی بشارت بھی سنا دی تا کہ راہِ خدا میں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود جو مالِ غنیمت تمہارے ہاتھ سے نکل گیاتم اس پر غم نہ کرو اورچونکہ تمہارے بہت سے ساتھی اس جنگ میں شہید ہوئے اور تمہیں بھی بہت سے زخم آئے تواللہ تعالیٰ کے معافی کا اعلان کردینے کی وجہ سے تمہارے دلوں پر مرہم ہوجائے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کوحضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور خوشی کس قدر عزیز ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وجہ سے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی صدمے میں مبتلا کیا اور پھر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جا ں نثاری اور اخلاص کی بھی کتنی قدر فرمائی کہ چونکہ ان کی خطا بری نیت سے نہ تھی بلکہ اِجْتِہادی طور پر وہاں خطا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کی معافی کا اعلان بھی فرمادیا۔

ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً  نُّعَاسًا  یَّغْشٰى  طَآىٕفَةً  مِّنْكُمْۙ-وَ  طَآىٕفَةٌ  قَدْ  اَهَمَّتْهُمْ  اَنْفُسُهُمْ  یَظُنُّوْنَ  بِاللّٰهِ  غَیْرَ  الْحَقِّ  ظَنَّ  الْجَاهِلِیَّةِؕ-یَقُوْلُوْنَ  هَلْ  لَّنَا  مِنَ  الْاَمْرِ  مِنْ  شَیْءٍؕ-قُلْ  اِنَّ  الْاَمْرَ  كُلَّهٗ  لِلّٰهِؕ-یُخْفُوْنَ  فِیْۤ  اَنْفُسِهِمْ  مَّا  لَا  یُبْدُوْنَ  لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ  لَوْ  كَانَ  لَنَا  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ  مَّا  قُتِلْنَا  هٰهُنَاؕ-قُلْ  لَّوْ  كُنْتُمْ  فِیْ  بُیُوْتِكُمْ  لَبَرَزَ  الَّذِیْنَ  كُتِبَ  عَلَیْهِمُ  الْقَتْلُ  اِلٰى  مَضَاجِعِهِمْۚ-وَ  لِیَبْتَلِیَ  اللّٰهُ  مَا  فِیْ  صُدُوْرِكُمْ  وَ  لِیُمَحِّصَ   مَا  فِیْ  قُلُوْبِكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  عَلِیْمٌۢ  بِذَاتِ  الصُّدُوْرِ(154)

ترجمہ: پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو تم میں سے ایک گروہ پر چھاگئی اور ایک گروہ وہ تھا جسے اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ اللہ پر ناحق گمان کرتے تھے ، جاہلیت کے سے گمان ۔وہ کہہ رہے تھے کہ کیااس معاملے میں کچھ ہمارا بھی اختیار ہے ؟تم فرمادو کہ اختیار تو سارا اللہ ہی کا ہے۔یہ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھپاکر رکھتے ہیں جوآپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ، اگرہمیں بھی اس معاملے میں کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اے حبیب! تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے اور اس لئے ہوا کہ اللہ تمہارے دلوں کی بات آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلو ں میں پوشیدہ ہے اسے کھول کر رکھ دے اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً  نُّعَاسًا:پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری ۔} غزوۂ احد میں  تکالیف اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلص مومنوں پر خاص کرم نوازی ہوئی، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے ان پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو صرف مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر ہی اتری، اس کی برکت سے مسلمانوں کے دلوں میں جو رعب اور ہیبت طاری تھا وہ ختم ہوگیا اور مسلمان سکون و اطمینان کی کَیْفِیَّت میں آگئے۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ روزِ اُحد نیند ہم پر چھا گئی ہم میدان میں تھے تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی پھر اُٹھاتا تھا پھر چھوٹ جاتی تھی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب امنۃ نعاسًا، ۳ / ۱۹۵، الحدیث: ۴۵۶۲)

دوسری طرف منافقوں کاگروہ تھا جنہیں صرف اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی ،وہ اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہ بدگمانیاں کررہے تھے کہ اللہ  تعالیٰ حضور سید ُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ فرمائے گا یا یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے لہٰذا اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا دین باقی نہ رہے گا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱ / ۳۲۵)

یہ صرف جاہلیت کے گمان تھے۔ پھر منافقین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنے دلوں میں اپنا کفر ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ نہ ہونا اور جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ آنے پر افسوس کرنا چھپائے ہوئے ہیں ، ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وعدے معاذاللہ سچے نہیں ہیں لیکن یہ باتیں مسلمانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگرہماری بھی کچھ چلتی ہوتی اور جنگ اُحدکے بارے میں ہمارا مشورہ مان لیا جاتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی بدگمانیوں اور بدکلامیوں کے رد میں فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا تقدیر میں لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے کیونکہ جیسے موت کا وقت مقرر ہے ایسے ہی موت کی جگہ بھی مُتَعَیَّن ہے۔ جس نے جہاں ،جیسے مرنا ہے، وہ وہاں ویسے ہی مرے گا۔ گھروں میں بیٹھ رہنا کچھ کام نہیں آتااورتقدیر کے سامنے ساری تدبیریں اور حیلے بے کار ہوجاتے ہیں۔ اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کی حکمت بیان فرمائی کہ غزوہ اُحد میں جو کچھ ہواوہ اس لئے ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دلوں کے اخلاص اورمنافقت آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اسے سب کے سامنے کھول کر رکھ دے۔

آیت’’ثُمَّ  اَنْزَلَ  عَلَیْكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  الْغَمِّ  اَمَنَةً‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:

اس آیت میں مذکور واقعے میں بہت سے درس ہیں۔

(1)…آزمائش کے وقت ہی کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔

(2)… مسلمان صابر جبکہ منافق بے صبرا ہوتا ہے۔

(3)… مسلمان کو سب سے زیادہ فکر دین کی ہوتی ہے جبکہ منافق کو صرف اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔

(4)…مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتا ہے جبکہ منافق معمولی سی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

(5)…اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھنا کامل ایمان کی نشانی ہے ۔

(6)…موت سے کوئی شخص فرار نہیں ہوسکتا، جس کی موت جہاں لکھی ہے وہاں آکر ہی رہے گی لہٰذا جہاد سے فرار مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔

(7)…غزوۂ اُحد میں منافقین کے علاوہ جتنے مسلمان تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی کرم نوازی فرمائی۔

اِنَّ  الَّذِیْنَ  تَوَلَّوْا  مِنْكُمْ  یَوْمَ  الْتَقَى  الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا  اسْتَزَلَّهُمُ  الشَّیْطٰنُ  بِبَعْضِ   مَا  كَسَبُوْاۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  اللّٰهُ  عَنْهُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  غَفُوْرٌ  حَلِیْمٌ(155)

ترجمہ: بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،انہیں شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے لغزش میں مبتلا کیا اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیاہے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا حلم والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ  الَّذِیْنَ  تَوَلَّوْا  مِنْكُمْ : بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے۔}جنگ ِاحد میں چودہ اصحاب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سوا جن میں حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق ،حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی شامل ہیں جو حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے باقی تمام اصحاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قدم اکھڑ گئے تھے اور خصوصاً وہ حضرات جنہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہاڑی مورچے پر مقرر کیا تھا اور ہر حال میں وہیں ڈٹے رہنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ثابت قدم نہ رہ سکے بلکہ جب پہلے حملے ہی میں کفار کے قدم اکھڑ گئے اورمسلمان غالب آئے، تب ان دَرّے والوں نے کہا کہ چلو ہم بھی مالِ غنیمت جمع کریں۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے منع فرمایا مگر یہ لوگ سمجھے کہ فتح ہو چکی، اب ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دَرَّہ چھوڑ دیا، بھاگتے ہوئے کفار نے درہ کو خالی دیکھا تو پلٹ کر درہ کی راہ سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے جنگ کا نقشہ بدل گیا، یہاں اسی کا ذکر ہے۔ ان حضرات سے یہ لغزش ضرور سرزد ہوئی لیکن چونکہ ان کے ایمان کامل تھے اور وہ مخلص مومن اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے غلام تھے اور آگے پیچھے کئی مواقع پر یہی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی معافی کا اعلان فرمادیا تاکہ اگر ان کی لغزش سامنے آئے تورب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی عظمت بھی سامنے رہے۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  وَ  قَالُوْا  لِاِخْوَانِهِمْ  اِذَا  ضَرَبُوْا  فِی  الْاَرْضِ   اَوْ  كَانُوْا  غُزًّى  لَّوْ  كَانُوْا  عِنْدَنَا  مَا  مَاتُوْا  وَ  مَا  قُتِلُوْاۚ-لِیَجْعَلَ  اللّٰهُ  ذٰلِكَ  حَسْرَةً  فِیْ  قُلُوْبِهِمْؕ-وَ  اللّٰهُ  یُحْیٖ  وَ  یُمِیْتُؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  بَصِیْرٌ(156)

ترجمہ: 

اے ایمان والو! ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب وہ سفر میں یا جہادمیں گئے کہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے ۔( ان کی طرح یہ نہ کہو) تاکہ اللہ ان کے دلوں میں اس بات کا افسوس ڈال دے اوراللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کوخوب دیکھ رہا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا  تَكُوْنُوْا  كَالَّذِیْنَ  كَفَرُوْا: کافروں کی طرح نہ ہونا۔}یہاں کافروں سے مراد اصلی کافر بھی بیان کئے گئے ہیں اور منافق بھی۔ ہم منافقین والا معنیٰ سامنے رکھ کر تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! عبداللہ بن اُبی اور ان جیسے کافروں منافقوں کی طرح نہ ہونا جن کے نسبی بھائی یا منافقت میں بھائی بندسفر میں گئے اور مرگئے یا جہاد میں گئے اور مارے گئے تو یہ منافق کہتے ہیں کہ اگریہ جانے والے ہمارے پاس رہتے اور سفر و جہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ اس پر ایمان والوں سے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! تم ان کافروں کی طرح کی کوئی بات نہ کہنا تاکہ ان کی بات اور ان کا یہ عقیدہ کہ اگر سفروجہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے ان کے دلوں میں باعث ِ حسرت بن جائے۔ حقیقی مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ موت و حیات اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو مسافر اور غازی کو سلامت لے آئے اور محفوظ گھر میں بیٹھے ہوئے کو موت دیدے۔کیا گھروں میں بیٹھا رہنا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے اور جہاد میں جانے سے کب موت لازم ہے اور اگر آدمی جہاد میں مارا جائے تو وہ موت گھر کی موت سے کئی درجے بہتر ہے۔ لہٰذا منافقین کا یہ قول باطل اور فریب ہے اوران کا مقصد مسلمانوں کو جہاد سے نفرت دلانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ارشا دہوتا ہے۔

وَ  لَىٕنْ  قُتِلْتُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَوْ  مُتُّمْ  لَمَغْفِرَةٌ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  رَحْمَةٌ  خَیْرٌ  مِّمَّا  یَجْمَعُوْنَ(157)

ترجمہ: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی بخشش اور رحمت اس دنیاسے بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَىٕنْ  قُتِلْتُمْ  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ۔ }آیت میں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ یا تمہیں طبعی موت ہی آئے لیکن تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ہو تو یہ موت مغفرت اور رحمت کا سبب ہوگی اور ایسی موت دنیا کے دھن دولت سے بہتر ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مرنا یہ ہے کہ جہاد کے راستے میں موت آئے اور اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ عبادت کرتے ہوئے یا ذکر کرتے ہوئے یا علمی خدمت کرتے ہوئے یا تبلیغِ دین کرتے ہوئے موت آجائے اس حال میں موت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں موت ہے اور اس کا نتیجہ بھی ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور مغفرت ہے ۔

وَ  لَىٕنْ  مُّتُّمْ  اَوْ  قُتِلْتُمْ  لَاِالَى  اللّٰهِ  تُحْشَرُوْنَ(158)

ترجمہ: 

اور اگر تم مرجاؤ یا مارے جاؤ (بہرحال) تمہیں اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَىٕنْ  مُّتُّمْ: اور اگر تم مرجاؤ ۔ } صدرُالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہاں نہایت پُر لطف تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہاں مقاماتِ عبدیت کے تینوں مقاموں کا بیان فرمایاگیا پہلا مقام تو یہ ہے کہ بندہ بخوفِ دوزخ اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرے تو اُس کو عذابِ نار سے امن دی جاتی ہے، اس کی طرف’’لَمَغْفِرَةٌ  مِّنَ  اللّٰهِ ‘‘ میں اشارہ ہے۔ دُوسری قسم وہ بندے ہیں جو جنت کے شوق میں اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرتے ہیں اس کی طرف ’’وَرَحْمَۃٌ‘‘ میں اشارہ ہے کیونکہ رحمت بھی جنت کا ایک نام ہے۔ تیسری قِسم وہ مخلص بندے ہیں جو عشقِ الہٰی اور ا س کی ذاتِ پاک کی محبت میں اِس کی عبادت کرتے ہیں اور اُن کا مقصود اُس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے اِنہیں حق سبحانہُ وتعالیٰ اپنے دائرۂ کرامت میں اپنی تَجلّی سے نوازے گا اِس کی طرف ’’لَاِالَى  اللّٰهِ  تُحْشَرُوْنَ‘‘ میں اشارہ ہے ۔ (خزائن العرفان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۸

فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  فَاعْفُ  عَنْهُمْ  وَ  اسْتَغْفِرْ  لَهُمْ  وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ-فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ(159)

ترجمہ: 

تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو اوران کی مغفرت کی دعا کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو پھرجب کسی بات کا پختہ ارادہ کرلو تواللہ پر بھروسہ کرو بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ: تو اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے۔} اس آیت میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور شفقت ورحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ اُحد جیسے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اس دن کس قدر اَذِیَّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دور ہوجاتے۔ تو اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ ان کی غلطیوں کو معاف کردیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے۔

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کی ایک جھلک :

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمانہ کی تو کیا شان ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تورات و انجیل میں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر فرمایا تھا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب اللہ  تعالیٰ نے زید بن سعنہ کی ہدایت کا ارادہ فرمایا تو زید بن سعنہ نے کہا: میں نے جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے روئے انور کی زیارت کی تو اسی وقت آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لیں ،البتہ دو علامتیں ایسی تھیں جن کی مجھے خبر نہ تھی(کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں یا نہیں ) ایک یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ میں موقع کی تلاش میں رہا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم دیکھ سکوں۔ ایک دن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے حجروں سے باہر تشریف لائے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھے کہ دیہاتی جیسا ایک شخص اپنی سواری پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی :فلاں قبیلے کی بستی میں رہنے والے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں مبتلا ہیں ،میں نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کر لو تو تمہیں کثیر رزق ملے گا۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ڈر ہے کہ جس طرح وہ رزق ملنے کی امید پر اسلام میں داخل ہوئے کہیں وہ رزق نہ ملنے کی وجہ سے اسلام سے نکل نہ جائیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کی طرف کوئی ایسی چیز بھیج دیں جس سے ان کی مدد ہو جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دکھایا تو انہوں نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہوا اور کہا:اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کیاآپ ایک مقررہ مدت تک فلاں قبیلے کے باغ کی معین مقدار میں کھجوریں مجھے بیچ سکتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے یہودی !ایسے نہیں ، میں ایک مقررہ مدت تک اور مُعَیَّن مقدار میں کھجوریں تمہیں بیچوں گا لیکن کسی باغ کو خاص نہیں کروں گا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں نے ایک مقررہ مدت تک معین مقدار میں کھجوروں کے بدلے 80مثقال سونا حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دے دیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ سونا اس شخص کو دے کر فرمایا ’’یہ سونا ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو اورا س کے ذریعے ان کی مدد کرو ۔

زید بن سعنہ کہتے ہیں،جب وہ مدت پوری ہونے میں دویا تین دن رہ گئے تو میں نے مسجد میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دامنِ اقدس پکڑ کر تیز نگاہ سے دیکھتے ہوئے یوں کہا: اے محمد! میرا حق ادا کرو ۔ اے عبدالمطلب کے خاندان والو! تم سب کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس دوران میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں ان کے چہرے پر گھوم رہی تھیں، انہوں نے جلال بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے فرمایا : اے دشمن خدا ! کیا تم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ایسی بات اور ایسی حرکت کر رہے ہو!اس خدا کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا،اگر مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لحاظ نہ ہو تا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سکون انداز میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف دیکھنے لگے اور مسکرائے ،پھر ارشاد فرمایا’’ہم دونوں کو ا س کے علاوہ چیز کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے اچھے طریقے سے ادائیگی کا کہتے اور اسے اچھے انداز میں مطالبہ کرنے کا کہتے ۔ اے عمر ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم اسے اس کا حق دے دو اور بیس صاع کھجوریں ا س کے حق سے زیادہ دے دینا ۔

زید بن سعنہ کہتے ہیں :(جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے زیادہ کھجوریں دیں ) تو میں نے کہا : اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، مجھے زیادہ کھجوریں کیوں دی جا رہی ہیں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا ہے کہ جو میں نے تمہیں ڈانٹا ا س کے بدلے اتنی کھجوریں تمہیں زیادہ دے دوں۔ میں نے کہا :اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’نہیں۔ میں نے کہا: میں یہودیوں کا عالم زید بن سعنہ ہوں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’پھر تم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کو جو باتیں کہیں اور ان کے ساتھ جو حرکت کی وہ کیوں کی؟میں نے کہا: میں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ، البتہ ان دو علامتوں کو دیکھنا باقی تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ بے شک میں نے یہ علامتیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پا لی ہیں ، تو اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، آپ گواہ ہو جائیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوا ۔ میں بہت مالدار ہوں ،آپ گواہ ہو جائیں کہ میں نے اپنا آدھا مال تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر صدقہ کر دیا۔پھر حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ  تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے بندے اور رسول ہیں۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، ذکر اسلام زید بن سعنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۷۹۲، الحدیث: ۶۶۰۶)

{وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِ:اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔ } یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اِس میں اِن کی دِلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اِس سے نفع اُٹھاتی رہے گی،پھرجب مشورے کے بعد آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں ا س چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو ۔

مشورہ اور تَوَکُّل کے معنی اور توکل کی ترغیب:

مشورہ کے معنی ہیں کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورہ لینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ’’مشورے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلیں تو اسی پر عمل کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کریں۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کردینا۔ مقصود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہونا چاہئے ، صرف اسباب پر نظر نہ رکھے ۔

حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرے تو ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو دنیا پر بھروسہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا کے سپرد فرما دیتا ہے ۔(معجم الاوسط، باب الجیم، من اسمہ جعفر، ۲ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۳۵۹)

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جیسا چاہیے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ.الحدیث: ۲۳۵۱)

اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ-وَ  اِنْ  یَّخْذُلْكُمْ  فَمَنْ  ذَا  الَّذِیْ  یَنْصُرُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِهٖؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ(160)

ترجمہ: اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھراس کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟ اور مسلمانوں کواللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ: اگر اللہ  تمہاری مدد کرے۔ } ارشاد فرمایا کہ’’ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ یاد رکھو کہ اللہ  تعالیٰ کی مدد وہی پاتا ہے جو اپنی قوت وطاقت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اللہ  تعالیٰ کی قدرت و رحمت کا امیدوار رہتا ہے اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے چھوڑنے کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟ یقینا کوئی نہیں۔ غزوہ بَدر و حنین سے دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ غزوۂ بدر میں کفار کا لشکر تعداد، اسلحہ اور جنگی طاقت کے اعتبار سے مسلمانوں سے بڑھ کر تھالیکن مسلمانوں کا پورا بھروسہ اللہ  تعالیٰ کی ذات پر تھا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی شکل میں ظاہر ہوا اورفرشتوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی جبکہ غزوہ حنین میں بعض مسلمانوں نے اپنی عددی کثرت پر فخر کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا ۔ پورا واقعہ سورۂ توبہ آیت 25 میں مذکور ہے ۔

وَ  مَا  كَانَ  لِنَبِیٍّ  اَنْ  یَّغُلَّؕ-وَ  مَنْ  یَّغْلُلْ  یَاْتِ  بِمَا  غَلَّ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ  تُوَفّٰى  كُلُّ  نَفْسٍ  مَّا  كَسَبَتْ  وَ  هُمْ  لَا  یُظْلَمُوْنَ(161)

ترجمہ: 

اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  مَا  كَانَ  لِنَبِیٍّ  اَنْ  یَّغُلَّ: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں۔ } نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا خیانت کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ شانِ نبوّت کے خلاف ہے، نیزانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں لہٰذا اُن سے ایسا ممکن نہیں۔ وہ نہ تو وحی کے معاملے میں خیانت کرتے ہیں اور نہ کسی اور معاملے میں۔ شانِ نزول: ایک جنگ میں مالِ غنیمت میں ایک چادر گم ہو گئی ۔ بعض منافقوں نے کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لئے رکھ لی ہوگی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ (جمل علی الجلالین،  اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۱،۱ / ۵۰۵)

            اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے ۔ ایک یہ کہ غنیمت کی تقسیم کے بغیر ناجائز طریقہ پر کچھ لینا سخت حرام ہے۔ دو سرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام گناہوں سے معصوم ہیں۔ گناہ اور نبوت میں وہی نسبت ہے جو اندھیرے اور اجالے میں ہے ۔تیسرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر بد گمانی منافقوں کا کام ہے اور کفر ہے۔ چوتھا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ کے ایسے پیارے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سے لوگوں کی تہمتیں دور فرماتا ہے ۔

خیانت کی مذمت:

            اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ  سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہنمیوں میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت کا مرتکب کر دے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))

            حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک بن النضر، ۴ / ۲۷۱، الحدیث: ۱۲۳۸۶)

            حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹااور خیانت کرنے والانہیں ہوسکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸ / ۲۷۶، الحدیث: ۲۲۲۳۲)

اَفَمَنِ  اتَّبَعَ  رِضْوَانَ  اللّٰهِ  كَمَنْۢ  بَآءَ  بِسَخَطٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  مَاْوٰىهُ  جَهَنَّمُؕ-وَ  بِئْسَ  الْمَصِیْرُ(162)هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(163)

ترجمہ: کیا وہ شخص جو اللہ کی خوشنودی کے پیچھے چلا وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے غضب کا مستحق ہوا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو؟ اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ لوگوں کے اللہ کی بارگاہ میں مختلف درجات ہیں اور اللہ ان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَمَنِ  اتَّبَعَ  رِضْوَانَ  اللّٰهِ:کیا وہ شخص جواللہ کی خوشنودی کے پیچھے چلا۔ }اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ کہاں وہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کرنے والا، اس کی اطاعت کرنے والا ، اس کی خوشنودی کیلئے سب کچھ قربان کردینے والا جیسے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد کے صالحین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور کہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا، اس کے احکام سے منہ موڑنے والا، اس کی ناراضی کی پرواہ نہ کرنے والا اور اپنی خواہش کو رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر ترجیح دینے والاجیسے کفارو منافقین اور ان کے پیروکار نافرمان لوگ، یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ان لوگوں کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مختلف درجات ہیں ، ہر ایک کی منزلیں اور مقامات جدا گانہ ہیں۔ بروں کے الگ مقام اور اچھوں کے الگ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے ۔

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ(164)

ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ:بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ }عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے ، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے ، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے ،کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے ، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے ، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے ، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ کی وضاحت کیلئے سورہ بقرہ آیت نمبر129کی تفسیر دیکھیں۔

اَوَ  لَمَّاۤ  اَصَابَتْكُمْ  مُّصِیْبَةٌ  قَدْ  اَصَبْتُمْ  مِّثْلَیْهَاۙ-قُلْتُمْ  اَنّٰى  هٰذَاؕ-قُلْ  هُوَ  مِنْ  عِنْدِ  اَنْفُسِكُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  عَلٰى  كُلِّ  شَیْءٍ  قَدِیْرٌ(165)وَ  مَاۤ  اَصَابَكُمْ  یَوْمَ  الْتَقَى  الْجَمْعٰنِ  فَبِاِذْنِ  اللّٰهِ  وَ  لِیَعْلَمَ  الْمُؤْمِنِیْنَ(166)

ترجمہ:

کیا جب تمہیں کوئی ایسی تکلیف پہنچی جس سے دگنی تکلیف تم پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ اے حبیب! تم فرما دو کہ اے لوگو! یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے آئی ہے۔بیشک اللہ ہر شے پر قادرہے ۔ اور دوگروہوں کے مقابلے کے دن تمہیں جو تکلیف پہنچی تووہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لئے (پہنچی)کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوَ  لَمَّاۤ  اَصَابَتْكُمْ  مُّصِیْبَةٌ:کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی۔ }یہاں غزوہ اُحد کا بیان ہے ۔ اسی پیرائے میں یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ تمہیں میدانِ اُحدمیں تکلیف پہنچی کہ تم میں سے ستّر شہید ہوئے جبکہ میدانِ بدر میں کفار کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے تو کفار کا نقصان تو دُگنا ہوا۔ اس پر فرمایا کہ جب تمہیں میدانِ احد میں ایسی تکلیف پہنچی جس سے دگنی تکلیف تم کافروں کومیدانِ بدر میں پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ ہمیں یہ تکلیف کیسے آگئی؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور ہم میں سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  تشریف فرما ہیں۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان سے فرمادو کہ یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے آئی ہے کہ تم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی کے خلاف مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے پر اِصرار کیا، پھر وہاں پہنچنے کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شدید ممانعت کے باوجود غنیمت کے لئے مرکز کوچھوڑا ۔ یہی بات تمہارے قتل اور نقصان کا سبب بنی ہے۔مزید اگلی آیت میں فرمایا کہ میدانِ اُحد میں کافروں اور مسلمانوں کے مقابلے کے دن تمہیں جو تکلیف پہنچی تووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تھی اور اس لئے پہنچی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں کی پہچان کرادے لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے پر راضی رہو ۔

وَ  لِیَعْلَمَ  الَّذِیْنَ  نَافَقُوْا ۚۖ-وَ  قِیْلَ  لَهُمْ  تَعَالَوْا  قَاتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَوِ  ادْفَعُوْاؕ-قَالُوْا  لَوْ  نَعْلَمُ  قِتَالًا  لَّا  اتَّبَعْنٰكُمْؕ-هُمْ  لِلْكُفْرِ  یَوْمَىٕذٍ  اَقْرَبُ  مِنْهُمْ  لِلْاِیْمَانِۚ-یَقُوْلُوْنَ  بِاَفْوَاهِهِمْ  مَّا  لَیْسَ   فِیْ  قُلُوْبِهِمْؕ-وَ  اللّٰهُ  اَعْلَمُ  بِمَا  یَكْتُمُوْنَ(167)

ترجمہ: اور اس لئے ( پہنچی) کہ اللہ منافقوں کی پہچان کرادے اور (جب ) ان سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرویا دشمنوں سے دفاع کرو تو کہنے لگے: اگر ہم اچھے طریقے سے لڑنا جانتے (یا کہنے لگے کہ اگر ہم اس لڑائی کو صحیح سمجھتے) تو ضرو ر تمہارا ساتھ دیتے ،یہ لوگ اس دن ظاہری ایمان کی نسبت کھلے کفرکے زیادہ قریب تھے ۔ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے جو باتیں یہ چھپارہے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ  لِیَعْلَمَ  الَّذِیْنَ  نَافَقُوْا: اور تاکہ منافقوں کی پہچان کروادے ۔ } غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے نقصان اٹھانے کی حکمتوں کو متعدد مقامات پربیان فرمایا گیا ہے جس میں بہت بڑی حکمت مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنا تھا چنانچہ یہاں پر بھی فرمایا گیا کہ مسلمان لشکر کو میدانِ اُحد میں اس لئے تکلیف پہنچی تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ لوگوں کومنافقوں کی پہچان کرادے ، کیونکہ منافقوں کی حالت یہ تھی کہ جب جنگِ اُحد شروع ہونے سے پہلے عبداللہ بن اُبی وغیرہ منافقوں سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرویا صرف ہمارے ساتھ مل کر ہماری تعداد بڑھاؤ جس سے ایک قسم کا دفاع مضبوط ہوگا تو یہ منافق کہنے لگے کہ’’اگر ہم اچھے طریقے سے لڑنا جانتے ‘‘یا کہنے لگے کہ’’ اگر ہم اس لڑائی کو صحیح سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ۔ ان منافقین کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت اس دن اپنے ظاہری ایمان کی نسبت کھلے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں یعنی یہ منہ سے تو یہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن ہم جنگ کر نا نہیں جانتے لیکن دل میں یہ کہتے ہیں کہ’’ کفا ر کو اپنا دشمن نہ بنا ؤ،مسلمانوں کو ان کے ہاتھوں تباہ ہو جانے دو۔

اَلَّذِیْنَ  قَالُوْا  لِاِخْوَانِهِمْ  وَ  قَعَدُوْا  لَوْ  اَطَاعُوْنَا  مَا  قُتِلُوْاؕ-قُلْ  فَادْرَءُوْا  عَنْ  اَنْفُسِكُمُ  الْمَوْتَ  اِنْ  كُنْتُمْ  صٰدِقِیْنَ(168)

ترجمہ: وہ جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا اورخود بیٹھے رہے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ۔ اے حبیب! تم فرمادواگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت دور کر کے دکھادو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  قَالُوْا  لِاِخْوَانِهِمْ: جنہوں نے اپنے بھائیوں کے متعلق کہا ۔ }منافقین نے اُحد میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرح گھر بیٹھے رہتے تو مارے نہ جاتے ۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت کو دور کرکے تو دکھاؤ۔ یقینا موت تو بہرحال آکر ہی رہے گی خواہ آدمی گھر میں چھپ کر بیٹھ جائے ،تو یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ’’ اگر لوگ ہماری بات مان کر جہاد میں نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔

وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًاؕ-بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَ(169)

ترجمہ

اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًا: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا ۔}  شانِ نزول: اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہداء احد کے حق میں نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تواللہ تعالیٰ نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے ،وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں ، جنتی میوے کھاتے ہیں ، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔جب ان شہداء کرام نے کھانے ، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جہادسے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔ پس یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ، ۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۰)

شہداء کی شان :

            اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں جسم کے فنا ہونے کے ساتھ فنا نہیں ہوتیں۔ یہاں آیت میں شہدا ء کی کئی شانیں بیان ہوئی ہیں : فرمایا کہ وہ کامل زندگی والے ہیں ،وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہیں ،انہیں رب کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے، وہ بہت خوش باش ہیں۔ شہداء کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں۔ آیتِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں۔علماء نے فرمایا کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں ، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں اور اس کے بعداس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے ۔    (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱ / ۳۲۳)

فَرِحِیْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖۙ-وَ  یَسْتَبْشِرُوْنَ  بِالَّذِیْنَ  لَمْ  یَلْحَقُوْا  بِهِمْ  مِّنْ  خَلْفِهِمْۙ-اَلَّا  خَوْفٌ  عَلَیْهِمْ  وَ  لَا  هُمْ  یَحْزَنُوْنَ(170)

ترجمہ: 

۔ (وہ) اس پر خوش ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اور اپنے پیچھے(رہ جانے والے) اپنے بھائیوں پر بھی خوش ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَرِحِیْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ:اس پر خوش ہیں جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ۔ } شہداء کرام کے بارے  میں فرمایا جارہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، انعام و احسان، اعزازو اکرام اور موت کے بعد اعلیٰ قسم کی زندگی دئیے جانے پر خوش ہیں نیز اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا، جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی۔ نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منارہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب وہ بھی شہید ہوکر اِن کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی اِن کرم نوازیوں کو پائیں گے اور قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔

یَسْتَبْشِرُوْنَ  بِنِعْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  فَضْلٍۙ-وَّ  اَنَّ  اللّٰهَ  لَا  یُضِیْعُ  اَجْرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ(171)

ترجمہ: وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر خوشیاں منارہے ہیں اور اس بات پر کہ اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرمائے گا ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَسْتَبْشِرُوْنَ  بِنِعْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  فَضْلٍ:وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر خوشیاں منارہے ہیں۔ } شہداء اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے ہر زخم کے بدلے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ان پر نازل ہوتی ہیں۔

شہدا ء کے چھ فضائل:

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس کسی کے راہِ خدا  عَزَّوَجَلَّ میں زخم لگا وہ روزِ قیامت ویسا ہی آئے گا جیسا زخم لگنے کے وقت تھا ، اس کے خون میں خوشبو مشک کی ہوگی اور رنگ خون کا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزوجل، ۲ / ۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کو قتل سے تکلیف نہیں ہوتی مگر ایسی جیسی کسی کو ایک خراش لگے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل المرابط، ۳ / ۲۵۲، الحدیث: ۱۶۷۴)

(3) …حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’شہید کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے ۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطایاہ الا الدّین، ص۱۰۴۶، الحدیث: ۱۱۹(۱۸۸۶))

(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جنت میں جانے کے بعد شہید یہ تمنا کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے اور دس بار (اللہ کے راستے میں ) قتل کیا جاؤں۔   (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ  تعالی، ص۱۰۴۳، الحدیث: ۱۰۹(۱۸۷۷))

(5)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے: میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہتعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔ (مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))

(6) …حضرت اسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا مانگی ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِی شَہَادَۃً فِی سَبِیلِکَ، وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ‘‘اے اللہ عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور مجھے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر میں وفات نصیب فرما۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳ باب، ۱ / ۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)

اَلَّذِیْنَ  اسْتَجَابُوْا  لِلّٰهِ  وَ  الرَّسُوْلِ  مِنْۢ  بَعْدِ  مَاۤ  اَصَابَهُمُ  الْقَرْحُ  ﳍ  لِلَّذِیْنَ  اَحْسَنُوْا  مِنْهُمْ  وَ  اتَّقَوْا  اَجْرٌ  عَظِیْمٌ(172)

ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ او ررسول کے بلانے پر زخمی ہونے کے باوجود (فوراً) حاضر ہو گئے ان نیک بندوں اور پرہیزگاروں کے لئے بڑا ثواب ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  اسْتَجَابُوْا  لِلّٰهِ  وَ  الرَّسُوْلِ : وہ لوگ جو اللہ  اور رسول کے بلانے پر حاضر ہوگئے۔}شانِ نزول: جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد جب ابوسفیان ، اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ’’رَوحاء‘‘نامی جگہ پہنچا تو انہیں افسوس ہوا کہ وہ واپس کیوں آگئے، مسلمانوں کا بالکل خاتمہ ہی کیوں نہ کردیا۔ یہ خیال کرکے انہوں نے پھر واپس ہونے کا ارادہ کیا توتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ابوسفیان کے تَعاقُب کے لئے روانگی کا اعلان فرمادیا ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی اورجو جنگ احد کے زخموں سے چور ہورہے تھے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اعلان پر حاضر ہوگئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس جماعت کو لے کر ابوسفیان کے تعاقب میں روانہ ہوگئے ۔ جب حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’حَمْرَاء الاَسَد‘‘ نامی جگہ پر پہنچے جو مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو وہاں معلوم ہواکہ مشرکین خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے ہیں۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ۔ (مدارک، اٰل  عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ص۱۹۷)

اس آیت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و ہمت کا بیان بھی ہے کہ زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم پر فوراً حاضر ہوگئے۔

اَلَّذِیْنَ  قَالَ  لَهُمُ  النَّاسُ  اِنَّ  النَّاسَ  قَدْ  جَمَعُوْا  لَكُمْ  فَاخْشَوْهُمْ  فَزَادَهُمْ  اِیْمَانًا  ﳓ  وَّ  قَالُوْا  حَسْبُنَا  اللّٰهُ  وَ  نِعْمَ  الْوَكِیْلُ(173)فَانْقَلَبُوْا  بِنِعْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  فَضْلٍ  لَّمْ  یَمْسَسْهُمْ  سُوْٓءٌۙ-وَّ  اتَّبَعُوْا  رِضْوَانَ  اللّٰهِؕ-وَ  اللّٰهُ  ذُوْ  فَضْلٍ  عَظِیْمٍ(174)

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے (ایک لشکر) جمع کرلیاہے سوان سے ڈرو توان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیااور کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اورکیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پھر یہ اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے ، انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اوراللہ بڑے فضل والا ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  قَالَ  لَهُمُ  النَّاسُ: یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا ۔ } شانِ نزول: جنگ اُحد سے واپس ہوتے ہوئے ابوسفیان نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوپکار کر کہہ دیا تھا کہ اگلے سال ہماری آپ کی مقامِ بدر میں جنگ ہوگی۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’اِنْ شَآءَ اللہ‘‘ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان اہلِ مکہ کو لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خوف ڈالا اور انہوں نے واپس ہونے کا ارادہ کیا ۔ اس موقع پر ابوسفیان کی نُعَیْم بن مسعود سے ملاقات ہوئی جو عمرہ کرنے آیا تھا۔ ابوسفیان نے اس سے کہا کہ اے نُعَیْم ! اِس زمانہ میں میری لڑائی مقامِ بدر میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ طے ہوچکی ہے اور اس وقت مجھے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جنگ میں نہ جاؤں بلکہ واپس چلاجاؤں۔ لہٰذا تم مدینے جاؤ اور حکمت و تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں جانے سے روک دو۔ اس کے عوض میں تجھے دس اونٹ دوں گا۔ نُعَیْم نے مدینہ پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں ، یہ دیکھ کر اُن سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو ، اہلِ مکہ نے تمہارے لئے بڑے لشکر جمع کئے ہیں۔ خدا کی قسم !تم میں سے ایک بھی سلامت واپس نہ آئے گا۔ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم، میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ چنانچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ساتھ لے کر ’’ حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے اور بدر میں پہنچے ، وہاں آٹھ دن قیام کیا، مال تجارت ساتھ تھااسے فروخت کیا اورخوب نفع ہوا اور پھر سلامتی کے ساتھ مدینہ طیبہ واپس آئے اور جنگ نہیں ہوئی۔ چونکہ ابو سفیان اور اہلِ مکہ خوف زَدہ ہو کر مکہ مکرمہ کو واپس ہوگئے تھے اس واقعہ کے متعلق یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۱ / ۳۲۵-۳۲۶)

         اس واقعہ کو بدر ِصغریٰ کا واقعہ کہتے ہیں۔ اِس واقعہ سے بھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت واضح ہوتی ہے کہ جب انہیں کافروں کے بڑے بڑے لشکروں سے ڈرایا جارہا ہے تو بجائے ڈرنے اور بزدلی دکھانے کے ان کی ہمت اور جوانمردی اور بڑھ جاتی ہے ، ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی زبانوں پر ایک ہی وظیفہ جاری ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے۔

اِنَّمَا  ذٰلِكُمُ  الشَّیْطٰنُ  یُخَوِّفُ  اَوْلِیَآءَهٗ   ۪-فَلَا  تَخَافُوْهُمْ  وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(175) 

ترجمہ: بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا  ذٰلِكُمُ  الشَّیْطٰنُ : بیشک وہ تو شیطان ہی ہے ۔ }یہاں پچھلے واقعے ہی کا بیان ہے کہ وہ تو شیطان ہے جو مسلمانوں کو مشرکین کی کثرت سے ڈراتا ہے جیسا کہ نعیم بن مسعود نے کیا کہ وہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ان منافقین اور مشرکین کا خوف نہ کرو جو شیطان کے دوست ہیں ، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ ایمان کا تقاضا ہی یہ ہے کہ بندے کو خداعَزَّوَجَلَّ ہی کا خوف ہو اور جب یہ خوف پیدا ہوجاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کا خوف باقی نہیں رہتا۔ اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا، مسلمانوں کے حوصلے پَست کرنا، ان کے سامنے کافروں کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاکہ مسلمان ہمت ہار بیٹھیں اور کفار سے مقابلے کا نام تک نہ لیں یہ سب حرکتیں کفار و منافقین کی ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمارے زمانے میں کمی نہیں جنہیں مسلمانوں کو تو ہمت وحوصلہ دینے کی توفیق نہیں لیکن وہ کفار کی طاقت کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے کہ مسلمان ان سے مقابلے کا نام لینے سے بھی گھبرائیں۔ اخبار وغیرہ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔

وَ  لَا  یَحْزُنْكَ  الَّذِیْنَ  یُسَارِعُوْنَ  فِی  الْكُفْرِۚ-اِنَّهُمْ  لَنْ  یَّضُرُّوا  اللّٰهَ  شَیْــٴًـاؕ-یُرِیْدُ  اللّٰهُ  اَلَّا  یَجْعَلَ  لَهُمْ  حَظًّا  فِی  الْاٰخِرَةِۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  عَظِیْمٌ(176)

ترجمہ: اور اے حبیب!تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفرمیں دوڑے جاتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَا  یَحْزُنْكَ  الَّذِیْنَ  یُسَارِعُوْنَ  فِی  الْكُفْرِ: اور اے حبیب!تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفرمیں دوڑے جاتے ہیں۔} حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کیلئے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان لوگوں کا غم نہ کریں جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں اور اس کیلئے کوشش کرتے ہیں خواہ وہ کفارِ قریش ہوں یا منافقین یایہودیوں کے سردار یا مرتدین ، یہ سب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلہ کے لیے کتنے ہی لشکر جمع کرلیں ، کامیاب نہ ہوں گے۔ اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ملنے والے ثواب میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اسی لئے اس نے انہیں ان کے کفر و سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیا اور ان کے لئے اخروی ثواب سے مکمل طور پر محرومی کے ساتھ ساتھ جہنم کا بڑا عذاب بھی ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن کے لئے ناکامی، محرومی اور دردناک عذاب مقدر ہو چکا ہے ان سے کوئی اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

اِنَّ  الَّذِیْنَ  اشْتَرَوُا  الْكُفْرَ  بِالْاِیْمَانِ  لَنْ  یَّضُرُّوا  اللّٰهَ  شَیْــٴًـاۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  اَلِیْمٌ(177)

ترجمہ: بیشک وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی بجائے کفر اختیار کیا وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ  الَّذِیْنَ  اشْتَرَوُا  الْكُفْرَ  بِالْاِیْمَانِ : بے شک وہ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا۔ }  ارشاد فرمایا کہ وہ منافقین جو کلمہ ایمان پڑھنے کے بعد کافر ہوئے یا وہ لوگ جو ایمان پر قادر ہونے کے باوجود کافر ہی رہے اور ایمان نہ لائے یہ اللہ  تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ ان کے کفر کا وبال انہی کے سَر آئے گا۔

وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْۤا  اَنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  خَیْرٌ  لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  لِیَزْدَادُوْۤا  اِثْمًاۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  مُّهِیْنٌ(178)

ترجمہ: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم تو صرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا:اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں۔ } اللہ تعالیٰ عموما ًفوری طور پر کسی گناہ پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور دنیاوی آسائشوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اس سے بہت سے لوگ اس دھوکے میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کا کفر اور ان کی حرکتیں کچھ نقصان دہ نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ کافروں کو لمبی عمر ملنا، انہیں فوری عذاب نہ ہونا اور انہیں مہلت دیا جانا ایسی چیز نہیں کہ جسے وہ اپنے حق میں بہتر سمجھیں بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت ان کے گناہوں میں اضافے اور ان کی تباہی و بربادی کا سبب بننے والی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِس مہلت کو اپنے حق میں ہرگز بہتر نہ سمجھیں۔

لمبی عمر پانا کیسا ہے ؟

            لمبی عمر پانا اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی ۔ جیساکہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سے دریافت کیا کہ کون شخص اچھا ہے ؟ ارشاد فرمایا ، جس کی عمر دراز ہو اور عمل اچھے ہوں۔ عرض کیا گیا: اور بدتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، جس کی عمر دراز ہو اور عمل خراب ہوں۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۲۲-باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)

            اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قضاعہ قبیلے کے دو شخص نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے، ان میں ایک تو شہید ہو گیا اور دوسرا مزید ایک سال تک زندہ رہا، حضرت طلحہ بن عبید للہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ بعد میں مرنے والا شہید سے بھی پہلے جنت میں داخل ہو گیا،مجھے اس پر تعجب ہوا تو صبح میں نے یہ واقعہ  حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیاتو ارشاد فرمایا : کیا اس نے اس کے بعد ایک رمضان کے روزے نہ رکھے تھے اور چھ ہزار رکعت نماز اور اتنی اتنی سنتیں نہ پڑھی تھیں ؟  (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ ، ۳ / ۲۲۹، الحدیث: ۸۴۰۷)

مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیَذَرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  عَلٰى  مَاۤ  اَنْتُمْ  عَلَیْهِ  حَتّٰى  یَمِیْزَ  الْخَبِیْثَ  مِنَ  الطَّیِّبِؕ-وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰـكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  فَاٰمِنُوْا  بِاللّٰهِ  وَ  رُسُلِهٖۚ-وَ  اِنْ  تُؤْمِنُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  فَلَكُمْ  اَجْرٌ  عَظِیْمٌ(179)

ترجمہ: اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر(ابھی)تم ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کردے اور (اے عام لوگو!)اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے تو تم اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور متقی بنو تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیَذَرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ  عَلٰى  مَاۤ  اَنْتُمْ  عَلَیْهِ: اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر (ابھی) تم ہو ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہ حال نہیں رہے گا کہ منافق و مومن ملے جلے رہیں بلکہ عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے مسلمانوں اور منافقوں کو جدا جدا کردے گا۔ اس آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں۔اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ،پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی :یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت پر راضی ہوئے، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱ / ۳۲۸)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ،پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا:میرا باپ کون ہے؟ارشاد فرمایا’’تمہارا باپ حُذافہ ہے۔پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا:یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا باپ کون ہے ؟ارشاد فرمایا’’سالم مولی شیبہ ہے۔جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف توبہ کرتے ہیں۔(بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱، الحدیث:۹۲)

دوسری روایت یوں ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سورج ڈھلنے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھی، پھر منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے امور ہیں۔پھر فرمایا’’جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا، پس لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’تمہارا باپ حذافہ ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے:ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے،پھر فرمایا’’ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ،میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)

ان اَ حادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب میں اعتراض کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ’’اے عام لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے اوران برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور سیدُ الانبیاء ،حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ، انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ’’ اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا ، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے۔

 علمِ غیب سے متعلق 10 احادیث:

(1)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)

(2)…سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵ / ۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے روشن کی تھی۔(حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶ / ۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹) 

(4)…حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی، بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔ (معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴)

(5)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتّٰی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۲ )

(6)…مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، ایک دن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ ارشادفرمایا،بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا اس میں وہ سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا اور ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا۔(مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعۃ، ص ۱۵۴۶، الحدیث: ۲۵ (۹۲ ۲۸ ))

(7)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے ، ناگاہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے فرمایا: اے احد !ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذًا خلیلًا، ۲ / ۵۲۴، الحدیث: ۳۶۷۵)

(8)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں اہلِ بدر کے گرنے یعنی مرنے کی جگہیں دکھائیں اور فرمایا :کل فلاں شخص کے گرنے یعنی مرنے کی یہ جگہ ہے۔

حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : جو نشان رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جس کے لئے لگایا تھا وہ اسی پر گرا ۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶(۲۸۷۳))

(9)…حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : ’’انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔(بخاری، کتاب الوضو ء، ۵۹-باب، ۱ / ۹۶، الحدیث: ۲۱۸)

(10)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : صلح حدیبیہ سے واپسی پر ایک جگہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اونٹ مُنتَشِر ہو گئے ،سب اپنے اپنے اونٹ واپس لے آئے لیکن حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی نہ ملی ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ وہاں سے اونٹنی لے آؤ، تو میں نے اونٹنی کو اسی حال میں پکڑ لیا جیسا مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا۔(معجم الکبیر، ۱۰ / ۲۲۵، الحدیث: ۱۰۵۴۸)

وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ(180)

ترجمہ: 

اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن ان کے گلوں میں اسی مال کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اوراللہ ہی آسمانوں اور زمین کاوارث ہے اوراللہ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ: وہ جو بخل کرتے ہیں۔ }اس آیت میں اللہ  تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے والوں کے بارے میں شدید وعید بیان کی گئی ہے اوراکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔

زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(توبہ:۳۴،  ۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان :اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔ جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا)یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)

بخل کی تعریف:

بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، ۳ / ۳۲۰، ملخصاً)

 بخل کی مذمت:

         قرآنِ مجید اورکثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(محمد:۳۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا : ’’آدمی کی دو عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے ۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، ۳ / ۱۸، الحدیث: ۲۵۱۱)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مالدار بخل کرنے کی و جہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار، باب السین، ۱ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹) 

حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳ / ۱۲۵، الحدیث: ۴۰۶۶)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:’’بخیل اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دورہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۰۸۷۷)

بخل کا علمی اور عملی علاج:

بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، ۲ / ۶۵۰-۶۵۱، ملخصاً)

لَقَدْ سَمِـعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُۘ-سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّۙ-وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ(181)ذٰلِكَ  بِمَا  قَدَّمَتْ  اَیْدِیْكُمْ  وَ  اَنَّ  اللّٰهَ  لَیْسَ  بِظَلَّامٍ  لِّلْعَبِیْدِ(182)

ترجمہ: بیشک اللہ نے ان کا قول سن لیا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں ۔ اب ہم ان کی کہی ہوئی بات اور ان کا انبیاء کو ناحق شہید کرنا لکھ رکھیں گے اور کہیں گے: جلادینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ  سَمِعَ  اللّٰهُ: بیشک اللہ نے سن لیا۔ }اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ کہ کون ہے جو رب تعالیٰ کو اچھا قرض دے ،تو یہود یوں نے کہا کہ اللہ  تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہا ہے تو ہم غنی ہوئے اوراللہ  تعالیٰ فقیر ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۳ / ۴۴۶)

            اور فرمایا گیا کہ اللہ  تعالیٰ نے اُن گستاخوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کے اعمال ناموں میں ان کی کہی ہوئی بات اور ان کے دوسرے کفریات جیسے ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا لکھ رکھیں گے اورقیامت کے دن اِن کی اِن گستاخیوں کے بدلے میں کہیں گے کہ’’ اب جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو ۔

انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے:

            یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کو ساتھ ساتھ بیان کرکے عذاب کی ایک ہی وعید بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جرم بہت عظیم ترین ہیں اور قباحت میں برابر ہیں اور شانِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گستاخی کرنے والا شانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گستاخی کرنے والے کی طرح جہنم کا مستحق ہے کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے ۔

اَلَّذِیْنَ  قَالُوْۤا  اِنَّ  اللّٰهَ  عَهِدَ  اِلَیْنَاۤ  اَلَّا  نُؤْمِنَ  لِرَسُوْلٍ  حَتّٰى  یَاْتِیَنَا  بِقُرْبَانٍ  تَاْكُلُهُ  النَّارُؕ-قُلْ  قَدْ  جَآءَكُمْ  رُسُلٌ  مِّنْ  قَبْلِیْ  بِالْبَیِّنٰتِ  وَ  بِالَّذِیْ  قُلْتُمْ  فَلِمَ  قَتَلْتُمُوْهُمْ  اِنْ  كُنْتُمْ  صٰدِقِیْنَ(183)

ترجمہ: وہ لوگ جو کہتے ہیں (کہ) اللہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم کسی رسول کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آگ کھاجائے ۔ اے حبیب! تم فرمادو(کہ) بیشک مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور وہی (معجزات) لے کر آئے جو تم نے کہے تھے پھر اگر تم سچے ہوتو تم نے انہیں کیوں شہید کیا؟۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  قَالُوْا: وہ جو کہتے ہیں۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہم سے توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا جو شخص ایسی قربانی پیش نہ کرسکے جسے آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے ،اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۱۸۳ ،۱ / ۵۲۳)

اور اُن کے اِس خالص جھوٹ اور بہتان کو باطل قرار دیا گیا کیونکہ اِس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لیے معجزہ کافی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو، جب نبی نے کوئی معجزہ دکھادیا تواس کے سچا ہونے پر دلیل قائم ہوگئی ، اب اُس کی تصدیق کرنا اور اُس کی نبوت کو ماننا لازم ہوگیا ۔ نبوت کی صداقت ثابت ہوجانے کے بعد پھر کسی خاص معجزے کا اصرارکرنا حقیقت میں نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔پھر یہ بات بھی بیان فرمادی کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبعض اوقات وہی معجزات لے کر آئے جس کا تم نے ان سے مطالبہ کیا، جیسے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قربانی لانے والا معجزہ بھی دکھا دیا لیکن اس کے باوجود تم نے انہیں نہ مانا بلکہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو شہید کردیا ، اگر تم سچے تھے تو ان کو کیوں شہید کیا؟ تمہارا سابقہ کردار اس بات کی گواہی دیتاہے کہ تمہارا مقصد صرف حیلے بہانے کر کے اسلام قبول کرنے سے بچنا اور اپنے جاہلوں کو ورغلانا ہے ورنہ دلیل نام کی کوئی چیز تمہارے پاس نہیں۔

 ایک اہم نکتہ:

اوپر کی پوری گفتگو سے ایک بہت مفید بات سامنے آتی ہے کہ جب کوئی چیز کسی معقول دلیل سے ثابت ہو جائے تو اسے مان لینا لازم ہے۔ دلیل سے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ مخواہ مخصوص قسم کی دلیل کا مطالبہ کرنا یہودیوں کا کام ہے اور اس میں بھی ایسے لوگوں کامقصد ماننا نہیں ہوتا بلکہ مفت کی بحث کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں میں رائج بہت سے معمولات ایسے ہیں جو معقول شرعی دلیل سے ثابت ہیں لیکن بعض لوگوں کا خواہ مخواہ اِصرار ہوتا ہے کہ نہیں ، اسے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے ثابت کرو، اسے بخاری سے ثابت کرو۔ یہ طرزِ عمل سراسر جاہلانہ ہے اور ایسے لوگوں کو سمجھانا بے فائدہ ہوتا ہے۔

فَاِنْ  كَذَّبُوْكَ  فَقَدْ  كُذِّبَ  رُسُلٌ  مِّنْ  قَبْلِكَ  جَآءُوْ  بِالْبَیِّنٰتِ  وَ  الزُّبُرِ  وَ  الْكِتٰبِ  الْمُنِیْرِ(184)

ترجمہ: تو اے حبیب ! اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِنْ  كَذَّبُوْكَ: تو اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں۔ } یہاں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جارہی ہے کیونکہ جب کوئی حق پر ہو اور اس کی حقانیت سورج سے زیادہ روشن ہو لیکن پھر بھی ایک گروہ اسے جھٹلائے اور اس کی حقانیت تسلیم نہ کرے تو اسے قلبی رنج ضرور ہوتا ہے اور رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ اللہ  تعالیٰ کے حبیب ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن میں بار بار سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتا ہے، چنانچہ یہاں بھی اِسی کا بیان ہوا اور فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،اگر یہ کفار تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بھی ان کی طرح صبر و اِستِقامت سے تبلیغِ دین فرماتے رہیں۔

كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(185)

ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ۔ } یعنی انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔

موت کی یاد اور اس کی تیاری کی ترغیب:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی۔موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(ق:۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی، (اس وقت کہا جاتا ہے)یہ وہ (موت)ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔

حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا’’اے کعب! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیر المؤمنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ،پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۱۰)

حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)

مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: اے میرے خلیل! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے موت کو کیسا پایا؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے۔ اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۹)

حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا  فرماتی ہیں :بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہو اتھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  نے فرمایا ’’میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲ / ۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)

جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔(التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔

حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ  تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷)

         حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو سلام کیا اور عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمندکون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔

 تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)

تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)

 مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)

یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ   تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔ ارشادفرمایا: تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے؟ عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ  تعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ   تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲ / ۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)

یاد رکھئے! رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا۔ (بہار شریعت، موت آنے کا بیان، حصہ چہارم،۱ / ۸۰۶-۸۰۷، ملخصاً)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم سب کا خاتمہ اچھا فرمائے اور ہم پر موت کی سختیاں آسان فرمائے ۔ 

{وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِ:اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے۔}  ارشاد فرمایا کہ تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا قیامت کے دن تمہیں پوری پوری دی جائے گی، تو اس دن جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور اس سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیاگیا اسی نے حقیقی کامیابی حاصل کی۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲ / ۱۳۸)

یاد رہے کہ برے اعمال کی وجہ سے دنیا میں جو عذاب آتا ہے یا مرنے کے بعد قبر میں جو عذاب ہوتا ہے، یونہی نیک اعما ل پر قبر میں جو راحتیں نصیب ہوتی ہیں یہ اعمال کی پوری جزا نہیں بلکہ آخرت میں ملنے والی جزا کا ایک نمونہ ہے جبکہ اعمال کی پوری جزا قیامت کے دن ہی ملے گی۔

حقیقی کامیابی کیا ہے؟

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے جبکہ دنیا میں کامیابی فی نفسہ کامیابی تو ہے لیکن اگر یہ کامیابی آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے تو حقیقت میں یہ خسارہ ہے۔ اور خصوصاً وہ لوگ کہ دنیا کی کامیابی کے لئے سب کچھ کریں اور آخرت کی کامیابی کیلئے کچھ نہ کریں وہ تو یقینا نقصان ہی میں ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کی طرف زیادہ توجہ دے اور ان کے لئے زیادہ کوشش کرے جن سے اسے حقیقی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور ان اعمال سے بچے جو اس کی حقیقی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

{وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔} یعنی دنیا کی لذتیں ، اس کی خواہشات اور رعنائیاں صرف دھوکے کا سامان ہے کیونکہ ان کا ظاہر تو بہت خوبصورت نظر آتا ہے لیکن ان کا باطن فساد سے بھرپور ہے۔

دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے :

         اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ،لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے ، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین ٓخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے ،اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ (لقمان:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیتا ہے اور شخص اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے،لہٰذا تم فنا ہوجانے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت )کو ترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷ / ۱۶۵، الحدیث: ۱۹۷۱۷)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اے لوگو! اس فرصت کے وقت میں نیک عمل کرلو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ امیدوں پر پھولے مت سماؤ اوراپنی موت کو نہ بھولو۔ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجاؤ، بے شک یہ دھوکے باز ہے اور دھوکے کے ساتھ بن ٹھن کر تمہارے سامنے آتی ہے اور اپنی خواہشات کے ذریعے تمہیں فتنے میں ڈال دیتی ہے، دنیا اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے اس طرح سجتی سنورتی ہے جیسے دلہن سجتی ہے۔ دنیا نے اپنے کتنے ہی عاشقوں کو ہلاک کردیا اور جنہوں نے اس سے اطمینان حاصل کرنا چاہا انہیں ذلیل ورسوا کر دیا، لہٰذا اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھو کیونکہ یہ مصیبتوں سے بھرپور مقام ہے، اس کے خالق نے اس کی مذمت کی، اس کا نیا پرانا ہوجاتا ہے اور اسے چاہنے والا بھی مرجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے نیند سے آنکھیں کھول لو کہ یوں اعلان کیا جائے: فلاں شخص بیمار ہے اور اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے،کیاکوئی دوا ہے؟ یا کسی ڈاکٹر تک جانے کی کوئی صورت ہے؟ اب تمہارے لیے حکیموں (اور ڈاکٹروں ) کو بلایاجاتا ہے، لیکن شفا کی امید ختم ہو جاتی ہے، پھر کہاجاتا ہے: فلاں نے وصیت کی اور اپنے مال کا حساب کیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: اب اس کی زبان بھاری ہوگئی، اب وہ اپنے بھائیوں سے بات نہیں کرتا اور پڑوسیوں کو نہیں پہچانتا، اب تمہاری پیشانی پر پسینہ آگیا، رونے کی آوازیں آنے لگیں اور تمہیں موت کا یقین ہوگیا، تمہاری پلکیں بند ہونے سے موت کا گمان یقین میں بدل گیا، زبان تھر تھرا رہی ہے، تیرے بہن بھائی رو رہے ہیں ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا فلاں بیٹا ہے، یہ فلاں بھائی ہے ،لیکن تو کلام کرنے سے روک دیا گیا ہے، پس تو بول نہیں سکتا، تمہاری زبان پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی، پھر تمہیں موت آگئی اور تیری روح اعضاء سے پوری طرح نکل گئی، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اس وقت تمہارے بھائی جمع ہوتے ہیں ، پھر تمہارا کفن لاتے ہیں اور تمہیں غسل دے کر کفن پہناتے ہیں۔ اب تمہاری عیادت کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تجھ سے حسد کرنے والے بھی آرام پاتے ہیں، گھر والے تمہارے مال کی طرف متوجہ ہوجاتے اور تمہارے اعمال گروی ہوجاتے ہیں۔(احیاءعلوم الدین، کتاب ذمّ الدنیا، بیان المواعظ فی ذم الدنیا وصفتہا، ۳ / ۲۶۰، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دنیا کی حقیقت کو پہچاننے ،اس کے دھوکے اور فریب کاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔

لَتُبْلَوُنَّ  فِیْۤ  اَمْوَالِكُمْ  وَ  اَنْفُسِكُمْ- وَ  لَتَسْمَعُنَّ  مِنَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا  الْكِتٰبَ  مِنْ  قَبْلِكُمْ  وَ  مِنَ  الَّذِیْنَ  اَشْرَكُوْۤا  اَذًى  كَثِیْرًاؕ-وَ  اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  فَاِنَّ  ذٰلِكَ  مِنْ  عَزْمِ  الْاُمُوْرِ(186)

ترجمہ: بیشک تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کے بارے میں تمہیں ضرور آزمایا جائے گا اورتم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے اور اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیز گاربنو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَتُبْلَوُنَّ: تم ضرور آزمائے جاؤ گے ۔} مسلمانوں سے خطاب فرمایا گیا کہ تم پر فرائض مقرر ہوں گے، تمہیں حقوق کی ادائیگی کرنا پڑے گی، زندگی میں کئی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑے گا، جان ومال کے کئی معاملات میں تکلیفیں برداشت کرنا ہوں گی ، بیماریاں ، پریشانیاں اور بہت قسم کی مصیبتیں زندگی میں پیش آئیں گی، یہ سب تمہارے امتحان کیلئے ہوگا لہٰذا اس کیلئے تیار رہنا اوراللہ کریم عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کے ثواب پر نظر رکھ کر ان تمام امتحانات میں کامیاب ہوجانا کیونکہ ان امتحانات کے ذریعے ہی تو کھرے اور کھوٹے میں فرق کیا جاتا ہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں مشرکوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سے تمہیں بہت تکالیف پہنچیں گی ۔ ان معاملات میں اور زندگی کے دیگر تمام معاملات میں اگر تم صبر کرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہو اور پرہیزگاری اختیار کئے رہو تو یہ تمہارے لئے نہایت بہتر رہے گا کیونکہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔

وَ  اِذْ  اَخَذَ  اللّٰهُ  مِیْثَاقَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا  الْكِتٰبَ  لَتُبَیِّنُنَّهٗ  لِلنَّاسِ   وَ  لَا  تَكْتُمُوْنَهٗ٘-فَنَبَذُوْهُ  وَرَآءَ  ظُهُوْرِهِمْ  وَ  اشْتَرَوْا  بِهٖ  ثَمَنًا  قَلِیْلًاؕ-فَبِئْسَ   مَا  یَشْتَرُوْنَ(187)

ترجمہ: 

اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور اس کتاب کو لوگوں سے بیان کرنا اوراسے چھپانا نہیں تو انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلی تو یہ کتنی بری خریداری ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اِذْ  اَخَذَ  اللّٰهُ  مِیْثَاقَ : اور جب اللہ نے عہد لیا۔ }اللہ تعالیٰ نے توریت و انجیل کے علماء پر واجب کیا تھا کہ ان دونوںکتابوں میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نبوت پر دلالت کرنے والے جو دلائل ہیں وہ لوگوں کو خوب اچھی طرح واضح کرکے سمجھادیں اور ہر گز نہ چھپائیں لیکن انہوں نے رشوتیں لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُن اوصاف کو چھپایا جو توریت و انجیل میں مذکور تھے۔

علمِ دین چھپانا گناہ ہے:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ دین کو چھپانا گناہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس شخص سے کچھ دریافت کیا گیا جس کو وہ جانتا ہے اور اس نے اس کو چھپایا روزِ قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم، ۴ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۸)

لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَفْرَحُوْنَ  بِمَاۤ  اَتَوْا  وَّ  یُحِبُّوْنَ  اَنْ  یُّحْمَدُوْا  بِمَا  لَمْ  یَفْعَلُوْا  فَلَا  تَحْسَبَنَّهُمْ  بِمَفَازَةٍ  مِّنَ  الْعَذَابِۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  اَلِیْمٌ(188)

ترجمہ: 

ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں ، انہیں ہرگز عذاب سے دور نہ سمجھو اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَفْرَحُوْنَ  بِمَاۤ  اَتَوْا: ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں۔ }  یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور نادان اورجاہل ہونے کے باوجود یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۱ / ۳۳۴)

خود پسندی اور حب جاہ کی مذمت :

            اس آیت میں خود پسندی کرنے والوں کے لئے وعید ہے اوران کے لئے جوحب ِجاہ یعنی عزت ، تعریف ، شہرت کے حصول کی تمنا میں مبتلا ہیں۔ جب کسی شخص کے دل میں یہ آرزو پیدا ہونے لگے کہ لوگ اس کے شیدائی ہوں ، ہر زبان اس کی تعریف میں تر ہو ، سب میرے کمال کے مُعترف ہوں ، مجھے ہر جگہ عزت سے نوازا جائے ، عالم نہیں ہوں پھر بھی علامہ صاحب کہا جائے ، ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کی پھر بھی مِعمارِ قوم کہا جائے، نجات دہندہ سمجھا جائے، محسنِ قوم قرار دیا جائے ، میرا تعارف بہترین القابات کے ساتھ ہو،ملاقات پرتپاک انداز میں کی جائے ، سلام جھک کر کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے دل پرغور کر لے کہ کہیں وہ حبِّ جاہ کا شکار تو نہیں ہو چکا،اگر ایسا ہو تو اس آیت سے سبق حاصل کرتے ہوئے فوراً سے پیشتر اُس سے چھٹکارے کی کوشش کرے ۔ یاد رکھئے خود پسندی اور حب جاہ کے مرض میں مبتلا شخص اخروی انعامات سے محرومی کا شکار ہوتا ہے اور دل میں مُنافقت کی زیادتی ، قلبی نورانیت سے محرومی ، دین کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے نیز برائی سے منع کرنے اور نیکی کی دعوت دینے سے محرومی، ذلت و رسوائی کا سامنا، اخروی لذت سے محرومی، قلبی سکون کی بربادی اور دولتِ اخلاص سے محرومی جیسے نقصانات کا سامنا کر سکتا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی، تعریف پسندی کی مذمت، منصب و مرتبہ کے تعلق سے اخروی معاملات اور بزرگان دین کے حالات و اقوال کا بکثرت مطالعہ کرے تا کہ ان مذموم امراض سے نجات کی کوئی صورت ہو ۔ ترغیب کے لئے ہم یہاں خودپسندی اور حب جاہ سے متعلق چند احادیث اور بزرگان دین کے احوال و اقوال ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ

            حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شہرت طلب کرے گا( قیامت کے دن) اس کے عیبوں کی تشہیر ہو گی اورجو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس کا بدلہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الریاء والسمعۃ، ۴ / ۲۴۷، الحدیث: ۶۴۹۹)

            حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دِہ ہے ۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۴۳باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر خود پسندی انسانی شکل میں ہوتی تو وہ سب سے بد صورت انسان ہوتی ۔(الفردوس بماثور الخطاب، باب اللام، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۵۰۶۴)

            حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خود پسند ی 70سال کے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف العین، ۲ / ۲۰۵، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۶۶)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خود پسندی سے بہت زیادہ ڈرتے تھے اور جب لوگ آپ کی تعریف کرتے تو آپ دعا مانگتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اس سے بہتر بنا دے جو کچھ یہ کہتے ہیں اور جو کچھ یہ نہیں جانتے میرا وہ عمل بخش دے ۔

            اسی طرح جب لوگ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تعریف کرتے تو وہ دعا مانگتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو کچھ یہ کہتے ہیں اور تجھ سے اس عمل کی بخشش چاہتا ہوں جس کا انہیں علم نہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۱-۲۴۲)

            حضرت عمر بن عبد العزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب منبر پر خطبہ دیتے تو خود پسندی سے ڈرتے ہوئے گفتگو چھوڑ کر اس عمل کی طرف منتقل ہو جاتے جس میں خود پسندی نہ ہو اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ خط لکھتے وقت خود پسندی کے خوف سے پھاڑ دیتے اور کہتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۳۹-۲۴۰)

            حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو شہرت کا طالب ہو اور اس کا دین برباد نہ ہوا ہو اور ا س کے حصے میں رسوائی نہ آئی ہو۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم ، اصل ہفتم، اندر علاج دوستی جاہ وحشمت، ۲ / ۶۵۹)

            حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے زمانے کے عبادت گزاروں سے فرماتے تھے: تم پر افسوس ہے ، تمہارے اعمال کم ہونے کے باوجود ان میں خود پسندی داخل ہو گئی اور تم سے پہلے لوگ اپنے اعمال کی کثرت کے باوجود ان پر تکبر نہیں کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! پہلے لوگوں کی عبادت کو دیکھا جائے تو (اس کے مقابلے میں )تم محض کھیلنے والے ہو ۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۲)

وَ  لِلّٰهِ  مُلْكُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  عَلٰى  كُلِّ  شَیْءٍ  قَدِیْرٌ(189)

ترجمہ: اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  لِلّٰهِ  مُلْكُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِ: اور  اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔}اس آیت میں ان گستاخوں کا رد کیا گیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  فقیر ہے۔ ان کے رد میں فرمایا گیا کہ جو زمین و آسمان کے دائرے میں آنے والی ہر چیز کا مالک ہے ا س کی طرف فقر کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱ / ۳۳۵)

اللہ تعالیٰ کی شان:

            یہاں ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان سے متعلق ایک حدیثِ قدسی ذکر کرتے ہیں جس سے ان گستاخوں کی جہالت اور اللہ  تعالیٰ کی شان مزید ظاہر ہوتی ہے، چنانچہ

            حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو! جسے میں ہدایت دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو،اس لئے تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں کھلاؤں اس کے سوا تم سب بھوکے ہو،تو تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں لباس پہناؤں اس کے علاوہ تم سب بے لباس ہو لہٰذا تم مجھ سے لبا س مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب رات دن گناہ کرتے ہو اور میں گناہ بخشتا ہوں ،تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری ،تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے ) ا س میں کمی ہوتی ہے۔اے میرے بندو!یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں ، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا ء دوں گا تو جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (جیسے آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۳، الحدیث: ۵۵(۲۵۷۷))

اِنَّ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِ   وَ  اخْتِلَافِ  الَّیْلِ  وَ  النَّهَارِ  لَاٰیٰتٍ  لِّاُولِی  الْاَلْبَابِ(190)

ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَاٰیٰتٍ  لِّاُولِی  الْاَلْبَابِ: عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، میں حضرت میمونہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر رات میں ٹھہرا اورا س دن سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اُن کے ہاں آرام فرما تھے، جب رات کا تہائی حصہ گزرا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو ئے پھر آسمان کی طرف نظر ا ٹھا کران آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب رفع البصر الی السماء، ۴ / ۱۵۹، الحدیث: ۶۲۱۵)

ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا:’’اس پر افسوس ہے جویہ آیت پڑھے اوراس میں غور نہ کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب التوبۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۶۱۹)

سائنسی علوم حاصل کرنا کب باعثِ ثواب ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ جغرافیہ اور سائنس حاصل کرنا بھی ثواب ہے جبکہ اچھی نیت ہو جیسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یااللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم حاصل کرنے کیلئے، لیکن یہ شرط ہے کہ اسلامی عقائد کے خلاف نہ ہو۔ اِس آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی تَخلیق میں قدرت ِ الٰہی کی نشانیوں کا فرمایا گیا ہے لہٰذا اسی کے پیش نظراِس تفکر کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں : امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’قدرتِ الٰہی کی چھٹی نشانی آسمانوں ، ستاروں کی مملکت اور ان کے عجائب میں ہے ، کیونکہ جو کچھ زمین کے اندر اور روئے زمین پر ہے وہ سب کچھ ا س کے مقابلے میں کم ہے۔آسمان اور ستاروں کے عجائب میں تفکر کرنے کے لئے قرآنِ پاک میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ (انبیاء:۳۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

         دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(مومن۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔

تو تمہیں حکم دیاگیاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں غوروفکر کرو ۔آسمان کی نیلاہٹ اور ستاروں کی ٹمٹماہٹ کو دیکھ لینا غور نہیں کہ یہ تو جانور بھی کر لیتے ہیں بلکہ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ تو اپنے عجائب اور اپنی ذات کو جو تیرے پاس ہیں اور وہ زمین و آسمان کے عجائب کی بہ نسبت ایک ذرہ بھی نہیں جس کو تو پہچان سکتا تو پھر زمین و آسمان کے عجائب کو کیسے پہچان سکے گا۔ تجھے بَتَدریج معرفت کے درجات پر ترقی کرنی چاہئے۔تجھے پہلے اپنی ذات کو پہچاننا چاہئے ،پھر زمین اور ا س کی تمام اَشیاء کا عرفان حاصل کرنا چاہئے،پھر ہوا ،بادل وغیرہ کے عجائب کی پہچان کرنی چاہئے،پھر آسمان اور ستاروں کی معرفت حاصل کرنی چاہئے ، پھر کرسی اور عرش کو پہچاننا چاہئے،پھر عالَمِ اَجسام سے نکل کر عالمِ ارواح کی سیر کرنی چاہئے،پھر فرشتوں ، جنوں اور شیطانوں کو جاننا چاہئے ،پھر فرشتوں کے درجات اور مقامات کاعرفان حاصل کرنا چاہئے،آسمان اور ستاروں کی گردش، ان کی حرکت اور ان کے مَشارق و مَغارب کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ستاروں کی کثرت پر غور و فکرکرنا چاہئے۔ انہیں کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا،ان میں ہر ستارے کا رنگ مختلف ہے،کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی شکل مختلف ہے مثلاً کچھ بیل کی شکل کے ہیں اور کچھ بچھو کی شکل کے۔پھر انسان ان کی مختلف حرکات پر غور کرے ، کئی ایک ماہ میں سارے آسمان کو طے کر جاتے ہیں۔کچھ سال بھر لگاتے ہیں ،کئی انہیں طے کرنے میں بارہ سال لگاتے ہیں ،کئی ستارے تیس سالوں میں سارے آسمانوں کی گردش پوری کرتے ہیں ،اکثر ستارے 30,000 سال میں سارے آسمانوں کی مساحت طے کرتے ہیں۔ جب تو نے زمین کے کچھ عجائبات کو جان لیا تو یہ بھی سمجھ لے کہ عجائبات کا فرق ہر ایک چیز کی شکل کے اختلاف کے مطابق ہوتا ہے ، کیونکہ زمین اگرچہ اتنی وسیع ہے کہ کوئی ا س کی حد کو نہیں چھو سکتا مگر سورج زمین سے بڑا ہے۔اس سے معلوم ہو جانا چاہئے کہ آفتاب کتنا دور ہے جو اتنا چھوٹا نظر آتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ آدھی ساعت میں آفتاب کا تمام گھیرا زمین سے نکلتا ہے ۔۔۔۔ یونہی آسمان پر ایک ستارہ ہے جو زمین سے سو گُنا بڑا ہے۔وہ بلندی کی وجہ سے چھوٹا نظر آتا ہے،ایک ستارہ اگر اتنا بڑا ہے تو سارے آسمان کا اندازہ لگائیں کہ وہ کتنا بڑا ہو گا۔ان سب کی عظمت و بزرگی کے باو جو د تیری نگاہوں میں چھوٹاکر دیا گیا تاکہ تو اس سے مالک ِحقیقی کی عظمت وفضیلت سے آگاہی حاصل کر سکے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، ۲ / ۹۱۷-۹۱۸)

الَّذِیْنَ  یَذْكُرُوْنَ  اللّٰهَ  قِیٰمًا  وَّ  قُعُوْدًا  وَّ  عَلٰى  جُنُوْبِهِمْ  وَ  یَتَفَكَّرُوْنَ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا  مَا  خَلَقْتَ  هٰذَا  بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ  فَقِنَا  عَذَابَ  النَّارِ(191)

ترجمہ: 

جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ  یَذْكُرُوْنَ  اللّٰهَ: وہ جواللہ کو یاد کرتے ہیں۔} یہاں عقلمند لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ہیں کون؟ اور ان کے چند اہم کام بیان فرمائے گئے ہیں۔

عقلمند لوگوں کے اہم کام:

(1)…عقلمند لوگ کھڑے، بیٹھے اور بستروں پر لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ مولیٰ کریم کی یاد ہر وقت ان کے دلوں پر چھائی رہتی ہے۔

(2)…عقلمند لوگ کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں ، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور کائنات کے دیگر عجائبات میں غور کرتے ہیں اور ان کا مقصد اللہ  تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا ہے۔

(3)…کائنات میں غور وفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی عظمت ان پر آشکار ہوتی ہے اور ان کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی زبانیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے ترانے پڑھتی ہیں۔

 (4)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔

            مذکورہ بالا تمام چیزیں کاملُ الایمان لوگوں کے اوصاف ہیں ، ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہے ۔ ہمارے اَسلاف اللہ عَزَّوَجَلَّ کی یاد میں بہت رَغبت رکھتے تھے، چنانچہ حضرت سری سقطی  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت جرجانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پا س ستو دیکھے جس سے وہ بھوک مٹا لیتے تھے۔ میں نے کہا: آپ کھانا اور دوسری اشیا ء کیوں نہیں کھاتے ؟ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میں نے چبانے اور یہ ستو کھا کر گزارہ کرنے میں نوے تسبیحات کا فرق پایا ہے، لہٰذا چالیس سال سے میں نے روٹی نہیں چبائی تا کہ ان تسبیحات کا وقت ضائع نہ ہو۔

             حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا معمول یہ تھا کہ آپ با زار جاتے اور اپنی دکان کھول کر اس کے آگےپردہ ڈال دیتے اور چار سو رکعت نفل ادا کر کے دکان بند کر کے گھر واپس آ جاتے ۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الحادی عشر فی طاعۃ  اللہ ومحبۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۸)

کائنات میں تَفَکُّر کی ضرورت:

            جس طرح کسی کی عظمت ، قدرت ، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غورو فکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت، وحدانیت اور ا س کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے،اس میں موجود تما م چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور ا س کے جلال و کبریائی کی مُظہِر ہیں اور ان میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق،زمین و آسمان کی بناوٹ ، زمین کی پیداوار،ہوا اور بارش، سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اَشیاء میں غور وفکر کرنے کی دعوت اورترغیب دی گئی تاکہ انسان ا ن میں غورو فکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب  عَزَّوَجَلَّ کو پہچانے ، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور ا س کے تمام احکام پر عمل کرے۔

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں ،سورج، چاند، ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔زمین کا مشاہدہ ا س کے پہاڑوں ،نہروں ،دریاؤں ،حیوانات،نَباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اورجو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل،بارش،برف،گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔یہ وہ اَجناس ہیں جو آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں ،پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی اَنواع ہیں ، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں ،ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں اور صفات ،ہَیئت اور ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔زمین و آسمان کے جمادات،نباتات،حیوانات،فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو ،دس ہوں یا ہزار ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور ا س کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب التفکر، بیان کیفیۃ التفکر فی خلق اللہ تعالٰی، ۵ / ۱۷۵)

            فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غورو فکر کرنے اور ا س کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے کمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کاشکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو ا س سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے۔

            امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام صَنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اوراس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غور و فکر نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور ا س سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا،کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا ۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، پیدا کردن تفکر در عجایب خلق خدای تعالٰی، ۲ / ۹۱۰)

            اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔آمین۔

رَبَّنَاۤ  اِنَّكَ  مَنْ  تُدْخِلِ  النَّارَ  فَقَدْ  اَخْزَیْتَهٗؕ-وَ  مَا  لِلظّٰلِمِیْنَ  مِنْ  اَنْصَارٍ(192)رَبَّنَاۤ  اِنَّنَا  سَمِعْنَا  مُنَادِیًا  یُّنَادِیْ  لِلْاِیْمَانِ  اَنْ  اٰمِنُوْا  بِرَبِّكُمْ  فَاٰمَنَّا  ﳓ  رَبَّنَا  فَاغْفِرْ  لَنَا  ذُنُوْبَنَا  وَ  كَفِّرْ  عَنَّا  سَیِّاٰتِنَا  وَ  تَوَفَّنَا  مَعَ  الْاَبْرَارِ(193)رَبَّنَا  وَ  اٰتِنَا  مَا  وَعَدْتَّنَا  عَلٰى  رُسُلِكَ  وَ  لَا  تُخْزِنَا  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ  لَا  تُخْلِفُ  الْمِیْعَادَ(194)

ترجمہ: اے ہمارے رب ! بیشک جسے تو دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔ اے ہمارے رب ! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب ! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔ اے ہمارے رب! اورہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{رَبَّنَا : اے ہمارے رب۔}رَبَّنَا  مَا  خَلَقْتَ  هٰذَا  بَاطِلًاسے لے کر اِنَّكَ  لَا  تُخْلِفُ  الْمِیْعَادَ تک بہت پیاری دعا ہے۔ اسے اپنے معمولات میں شامل کرلینا چاہیے۔

{رَبَّنَاۤ  اِنَّنَا  سَمِعْنَا  مُنَادِیًا: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو سنا۔ }اس منادی سے مراد سید الانبیاء، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جن کی شان میں ’’دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ وارد ہوا ہے یا اس سے قرآنِ کریم مراد ہے۔

{وَ  تَوَفَّنَا  مَعَ  الْاَبْرَارِ:اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔} یہاں اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ موت بھی نیک لوگوں کے ساتھ ہو یعنی ان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موت آئے اور ان کی مَعِیَّت نصیب ہوجائے۔

نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:

         یاد رہے کہ نیک لوگوں کی صحبت بہت عظیم چیز ہے۔ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:

كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ  (توبہ:۱۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو صحبت نے ہی عظیم ترین مرتبے پر فائز کیا۔زندگی میں نیک لوگوں کا ساتھ تو نعمت ہے ہی، مرنے کے بعد بھی نیکوں کا ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ پسندیدہ بندے کو موت کے وقت فرمایا جاتا ہے :

یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(فجر: ۲۷-۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میں داخل ہوجا۔

دیکھیں ، فوت ہونے والی روح سے کہا جاتا ہے کہ میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئےکہ وہ اپنی زندگی میں نیک لوگوں کے ساتھ رہے اور انہی کے گروہ میں موت ملنے کی دعا کرے تاکہ ان کے صدقے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں سے فیضیاب ہواور موت کے بعد نیک لوگوں کے قرب میں دفن ہونے کی وصیت کرے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اپنے مردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو کیونکہ میت برے پڑوسی سے اسی طرح اَذِیَّت پاتی ہے جس طرح زندہ انسان برے پڑوسی سے اذیت پاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الموت، قسم الاقوال، الفصل السادس، ۸ / ۲۵۴، الجزء الخامس عشر،الحدیث: ۴۲۳۶۴)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے حضرت میاں صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ کو فرماتے سنا : ایک جگہ کوئی قبر کھل گئی اور مردہ نظر آنے لگا ۔ دیکھا کہ گلاب کی دو شاخیں اس کے بد ن سے لپٹی ہیں اور گلاب کے دو پھول اس کے نتھنو ں پر رکھے ہیں۔ اس کے عزیزوں نے اِس خیال سے کہ یہاں قبر پانی کے صدمہ سے کھل گئی، دو سری جگہ قبر کھود کر اس میں رکھیں ، اب جو دیکھیں تو دو اژدہے اس کے بدن سے لپٹے اپنے پھَنوں سے اس کا منہ بھَموڑ رہے ہیں ، حیران ہوئے ۔ کسی صاحبِ دل سے یہ واقعہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: وہاں بھی یہ اژدہا ہی تھے مگر ایک ولیُّ اللہ کے مزار کا قرب تھا اس کی برکت سے وہ عذاب رحمت ہوگیا تھا، وہ اژدھے درخت ِگُل کی شکل ہوگئے تھے اوران کے پھَن گلاب کے پھول۔ اِس کی خیریت چاہو تو وہیں لے جاکر دفن کرو۔ وہیں لے جاکر رکھا پھروہی درختِ گل تھے اور وہی گلاب کے پھول۔(ملفوظاتِ  اعلیٰ حضرت، حصہ دوم، ص۲۷۰)

فَاسْتَجَابَ  لَهُمْ  رَبُّهُمْ  اَنِّیْ  لَاۤ  اُضِیْعُ  عَمَلَ  عَامِلٍ  مِّنْكُمْ  مِّنْ  ذَكَرٍ  اَوْ  اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ  هَاجَرُوْا  وَ  اُخْرِجُوْا  مِنْ  دِیَارِهِمْ  وَ  اُوْذُوْا  فِیْ  سَبِیْلِیْ  وَ  قٰتَلُوْا  وَ  قُتِلُوْا  لَاُكَفِّرَنَّ  عَنْهُمْ  سَیِّاٰتِهِمْ  وَ  لَاُدْخِلَنَّهُمْ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰهِؕ-وَ  اللّٰهُ  عِنْدَهٗ  حُسْنُ  الثَّوَابِ(195)

ترجمہ: 

تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا وہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اور انہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاسْتَجَابَ  لَهُمْ  رَبُّهُمْ: تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں وہ عطا کر دیا جو انہوں نے مانگا اور ان سے فرمایا کہ اے ایمان والو ! میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ ا س عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)

دعا قبول ہونے کے لئے ایک عمل:

            یہاں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں دعا میں پانچ بار ’’رَبَّنَا‘‘ آیا ہے اور اس کے بعد دعا کی قبولیت کی بات ہورہی ہے، تو اگر دعا میں پانچ مرتبہ ’’یَا رَبَّنَا‘‘ کہہ دیا جائے تو قبولیت ِدعا کی امید ہے۔

{بَعْضُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْضٍ:تم آپس میں ایک ہی ہو۔}اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرات حواء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ہی ہو ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اطاعت پر ثواب ملنے اور نافرمانی پر سزا ملنے میں تم سب ایک ہی ہو ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)

{فَالَّذِیْنَ  هَاجَرُوْا:پس جنہوں نے ہجرت کی۔ }ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت کے لئے اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور وہ مشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں کے سبب اپنے  ان گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور مجھ پر ایمان لانے اور میری وحدانیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے انہیں مشرکوں کی طرف سے ستایا گیااورانہوں نے میری راہ میں کافروں کے ساتھ جہاد کیا اور شہیدکردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ یہ اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۵۱)

ہجرت اور جہاد سے متعلق احادیث:

            اس آیت میں ہجرت اور جہاد کے ثواب کابیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں ہجرت اور جہاد سے متعلق 3 احادیث ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ، تو جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ  تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ والحِسبۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جسے راہِ خدا میں کوئی زخم آئے تو وہ قیامت کے دن ا س طرح آئے گا کہ ا س کے زخم سے سرخ رنگ کا خون بہہ رہا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید۔۔۔ الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)

            حضرت شداد بن ہادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک اعرابی حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے سر تسلیم خَم کیا، پھر عرض کی : میں ہجرت کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اسے ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور)اپنے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس (کے رہن سہن وغیرہ کا انتظام کرنے ) کے بارے میں کچھ حکم فرمایا۔ جب ایک غزوہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چند قیدی بطور غنیمت حاصل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان قیدیوں کوتقسیم فرما دیا اور اس اعرابی کا حصہ نکال کر صحابۂ کرام رَضِی َاللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سپرد کر دیا۔ وہ اعرابی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے پیچھے پہرہ دیاکرتے تھے(تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر دے) ۔ جب وہ (پہرے کی جگہ سے) آیا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ا س کا حصہ اسے دیا۔اس نے عرض کی:یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا’’ یہ تمہارا حصہ ہے ،جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عطافرمایا ہے۔وہ اعرابی اپنے حصے کو لے کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضرہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ کیا ہے ؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے ۔اس نے عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں نے مال کے حصول کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں گلے پر تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوجاؤں۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم (اپنی بات میں مخلص اور) سچے ہوتو اللہ تعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا ۔اس کے بعد لوگ کچھ دیر کے لئے ٹھہرے رہے، پھر دشمن کے ساتھ جہاد کے لئے اٹھے تو(جہاد کے دوران) کچھ آدمی اُس اعرابی کو اِس حال میں سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے کہا اسے وہیں تیر لگا ہو اتھا جہاں تیر لگنے کااس نے اشارہ کیا تھا۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا یہ وہی شخص ہے ؟عرض کیا گیا: جی ہاں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ یہ اپنی بات میں مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرمادی۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(برکت کے لئے ) اسے اپنے جبہ مبارکہ میں کفن دیا ،پھر اسے اپنے سامنے رکھا اور اس کا جنازہ پڑھایا۔اس کی نماز جنازہ میں جو دعا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی وہ یہ تھی

’’اَللّٰھُمَّ ھَذَاعَبْدُکَ خَرَجَ مُھَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَھِیْدًااَنَاشَھِیْدٌ عَلٰی ذٰلِک‘‘

اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا وہی بندہ ہے جس نے تیری راہ میں ہجرت کی اور شہید ہوگیا اور میں اس چیز کا گواہ ہوں۔(نسائی، کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشہداء، ص۳۳۰، الحدیث: ۱۹۵۰)

فَاسْتَجَابَ  لَهُمْ  رَبُّهُمْ  اَنِّیْ  لَاۤ  اُضِیْعُ  عَمَلَ  عَامِلٍ  مِّنْكُمْ  مِّنْ  ذَكَرٍ  اَوْ  اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ  هَاجَرُوْا  وَ  اُخْرِجُوْا  مِنْ  دِیَارِهِمْ  وَ  اُوْذُوْا  فِیْ  سَبِیْلِیْ  وَ  قٰتَلُوْا  وَ  قُتِلُوْا  لَاُكَفِّرَنَّ  عَنْهُمْ  سَیِّاٰتِهِمْ  وَ  لَاُدْخِلَنَّهُمْ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰهِؕ-وَ  اللّٰهُ  عِنْدَهٗ  حُسْنُ  الثَّوَابِ(195)

ترجمہ: 

تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا وہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اور انہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاسْتَجَابَ  لَهُمْ  رَبُّهُمْ: تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں وہ عطا کر دیا جو انہوں نے مانگا اور ان سے فرمایا کہ اے ایمان والو ! میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ ا س عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)

دعا قبول ہونے کے لئے ایک عمل:

            یہاں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں دعا میں پانچ بار ’’رَبَّنَا‘‘ آیا ہے اور اس کے بعد دعا کی قبولیت کی بات ہورہی ہے، تو اگر دعا میں پانچ مرتبہ ’’یَا رَبَّنَا‘‘ کہہ دیا جائے تو قبولیت ِدعا کی امید ہے۔

{بَعْضُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْضٍ:تم آپس میں ایک ہی ہو۔}اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرات حواء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ہی ہو ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اطاعت پر ثواب ملنے اور نافرمانی پر سزا ملنے میں تم سب ایک ہی ہو ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)

{فَالَّذِیْنَ  هَاجَرُوْا:پس جنہوں نے ہجرت کی۔ }ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت کے لئے اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور وہ مشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں کے سبب اپنے  ان گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور مجھ پر ایمان لانے اور میری وحدانیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے انہیں مشرکوں کی طرف سے ستایا گیااورانہوں نے میری راہ میں کافروں کے ساتھ جہاد کیا اور شہیدکردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ یہ اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۵۱)

ہجرت اور جہاد سے متعلق احادیث:

            اس آیت میں ہجرت اور جہاد کے ثواب کابیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں ہجرت اور جہاد سے متعلق 3 احادیث ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ

            حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ، تو جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ  تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ والحِسبۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)

            حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جسے راہِ خدا میں کوئی زخم آئے تو وہ قیامت کے دن ا س طرح آئے گا کہ ا س کے زخم سے سرخ رنگ کا خون بہہ رہا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید۔۔۔ الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)

            حضرت شداد بن ہادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک اعرابی حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے سر تسلیم خَم کیا، پھر عرض کی : میں ہجرت کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اسے ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور)اپنے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس (کے رہن سہن وغیرہ کا انتظام کرنے ) کے بارے میں کچھ حکم فرمایا۔ جب ایک غزوہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چند قیدی بطور غنیمت حاصل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان قیدیوں کوتقسیم فرما دیا اور اس اعرابی کا حصہ نکال کر صحابۂ کرام رَضِی َاللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سپرد کر دیا۔ وہ اعرابی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے پیچھے پہرہ دیاکرتے تھے(تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر دے) ۔ جب وہ (پہرے کی جگہ سے) آیا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ا س کا حصہ اسے دیا۔اس نے عرض کی:یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا’’ یہ تمہارا حصہ ہے ،جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عطافرمایا ہے۔وہ اعرابی اپنے حصے کو لے کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضرہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ کیا ہے ؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے ۔اس نے عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں نے مال کے حصول کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں گلے پر تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوجاؤں۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم (اپنی بات میں مخلص اور) سچے ہوتو اللہ تعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا ۔اس کے بعد لوگ کچھ دیر کے لئے ٹھہرے رہے، پھر دشمن کے ساتھ جہاد کے لئے اٹھے تو(جہاد کے دوران) کچھ آدمی اُس اعرابی کو اِس حال میں سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے کہا اسے وہیں تیر لگا ہو اتھا جہاں تیر لگنے کااس نے اشارہ کیا تھا۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا یہ وہی شخص ہے ؟عرض کیا گیا: جی ہاں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ یہ اپنی بات میں مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرمادی۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(برکت کے لئے ) اسے اپنے جبہ مبارکہ میں کفن دیا ،پھر اسے اپنے سامنے رکھا اور اس کا جنازہ پڑھایا۔اس کی نماز جنازہ میں جو دعا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی وہ یہ تھی

’’اَللّٰھُمَّ ھَذَاعَبْدُکَ خَرَجَ مُھَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَھِیْدًااَنَاشَھِیْدٌ عَلٰی ذٰلِک‘‘

اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا وہی بندہ ہے جس نے تیری راہ میں ہجرت کی اور شہید ہوگیا اور میں اس چیز کا گواہ ہوں۔(نسائی، کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشہداء، ص۳۳۰، الحدیث: ۱۹۵۰)

لَا  یَغُرَّنَّكَ  تَقَلُّبُ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  فِی  الْبِلَادِﭤ(196)مَتَاعٌ  قَلِیْلٌ-  ثُمَّ  مَاْوٰىهُمْ  جَهَنَّمُؕ-وَ  بِئْسَ   الْمِهَادُ(197)

ترجمہ: 

اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے ۔۔ (یہ تو زندگی گزارنے کا ) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا  یَغُرَّنَّكَ: تجھے ہرگز دھوکہ نہ دے۔ }شانِ نزول: مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار ومشرکین اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں لیکن یہ تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی او رمشقت میں مبتلا ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۶،۲ / ۱۳۵)

            اور انہیں بتایا گیا کفار کا یہ عیش و آرام دنیوی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے جبکہ ان کا انجام بہت برا ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی کو کہا جائے بھائی آپ دس منٹ دھوپ میں کھڑے ہوجائیں ، اس کے بعداُسے ہمیشہ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بنگلہ دیدیا جائے اور دوسرے شخص کو دس منٹ سائے دار درخت کے نیچے بٹھا نے کے بعد ہمیشہ کیلئے تپتے ہوئے صحرا میں رکھا جائے تو دونوں میں فائدے میں کون رہا؟ یقینا پہلے والا ۔ مسلمان کی حالت پہلے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر ہے اور کافروں کی حالت دوسرے شخص سے بھی بدتر ہے۔

لٰكِنِ  الَّذِیْنَ  اتَّقَوْا  رَبَّهُمْ  لَهُمْ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَا  نُزُلًا  مِّنْ  عِنْدِ  اللّٰهِؕ-وَ  مَا  عِنْدَ  اللّٰهِ  خَیْرٌ  لِّلْاَبْرَارِ(198)

ترجمہ: لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے (یہ) اللہ کی طرف سے مہمان نوازی کا سامان ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے لئے بہترین چیز ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَهُمْ  جَنّٰتٌ: ان کیلئے جنتیں ہیں۔ }کافروں کی دنیاوی ، عارضی اورفانی راحت و آرام کے ذکر کے بعد مسلمانوں کے آخرت کے دائمی، اَبدی راحت و آرام یعنی جنت کا بیان ہورہا ہے۔

دنیا کی راحتیں اور جنت کی ابدی نعمتیں کس کے لئے ہیں ؟:

            صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درِ رحمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطانِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بوریئے پر آرام فرما رہے ہیں ، سرِ اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں اور جسم مبارک پر بوریئے کے نشانات نقش ہو گئے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رو پڑے۔ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے رونے کا سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیصر و کسریٰ تو عیش وآرام میں ہوں اور آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہو کر اس حالت میں۔ نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب تبتغی مرضاۃ ازواجک۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۵۹، الحدیث: ۴۹۱۳)

            حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ایک دن سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت فاطمۃُ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہااونٹ کے بالوں سے بنا موٹا لباس پہنے چکی میں آٹا پیس رہی تھیں ، جب نَبِیُّوں کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں ہو گیا ، رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی تنگی و سختی کا گھونٹ پی لوتاکہ جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۷)

            حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ پانی طلب فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہد کا پیالہ پیش کیا گیا،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پیالے کو اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’اگر میں اسے پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی لیکن ا س کا حساب (میرے ذمے ) باقی رہے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، پھر وہ پیالہ ایک شخص کو دے دیا اور ا س نے وہ شہد پی لیا۔ (اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۷)

            حضرت ابن ابی ملیکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے سامنے کھانا رکھا ہوا تھا ، اس دوران ایک غلام نے آ کر عرض کی : حضرت عتبہ بن ابی فرقد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوازے پر کھڑے ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اند رآنے کی اجازت دی۔جب حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کھانے میں سے کچھ انہیں دیا۔ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے کھایا تو وہ ایسا بد مزہ تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسے نگل نہ سکے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : اے امیر المؤمنین!رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا آپ کو حواری نامی کھانے میں رغبت ہے (تاکہ آپ کی بارگاہ میں وہ کھاناپیش کیا جائے) ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’کیا وہ کھانا ہر مسلمان کو مُیَسَّر ہے ؟ حضرت عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: خدا کی قسم! نہیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اے عتبہ ! تم پر افسوس ہے ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں دُنیَوی زندگی میں مزیدار کھانا کھاؤں اور آسودگی کے ساتھ زندگی گزاروں۔(اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، ۴ / ۱۶۸)

            حضرت ابو ہریرہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے ، نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۲۴۴)

            حضرت سہل بن سعد ساعدی   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، حضور پُر نور   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جنت کی اتنی جگہ جس میں کَوڑا رکھ سکیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۳۲۵۰)

وَ  اِنَّ  مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  لَمَنْ  یُّؤْمِنُ  بِاللّٰهِ  وَ  مَاۤ  اُنْزِلَ  اِلَیْكُمْ  وَ  مَاۤ  اُنْزِلَ  اِلَیْهِمْ  خٰشِعِیْنَ  لِلّٰهِۙ-لَا  یَشْتَرُوْنَ  بِاٰیٰتِ  اللّٰهِ  ثَمَنًا  قَلِیْلًاؕ-اُولٰٓىٕكَ  لَهُمْ  اَجْرُهُمْ  عِنْدَ  رَبِّهِمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  سَرِیْعُ  الْحِسَابِ(199)

ترجمہ:

اور بیشک کچھ اہلِ کتاب ایسے ہیں جو اللہ پر اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اُس پر اور جو اُن کی طرف نازل کیا گیا اُس پر اِس حال میں ایمان لاتے ہیں کہ ان کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں وہ اللہ کی آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہیں لیتے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ  اِنَّ  مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ: اور بیشک کچھ اہلِ کتاب ۔ } حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ یہ آیت حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی، اُن کی وفات کے دن سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا ،چلو اور اپنے بھائی کی نماز ِ جنازہ پڑھو جس نے دوسرے ملک میں وفات پائی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بقیع شریف تشریف لے گئے اور حبشہ کی سرزمین آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے سامنے کی گئی اورحضرت نجاشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جنازہ سامنے ہوگیا ۔اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چار تکبیروں کے ساتھ نماز ِ جنازہ پڑھی اور اس کے لئے اِستغفار فرمایا ۔ (سُبْحَانَ اللہ، کیا نظر ہے اور کیا شان ہے کہ سرزمینِ حبشہ مدینہ منورہ میں سامنے پیش کردی جاتی ہے۔ ) منافقین نے اِس پراعتراض کیا اور کہا کہ دیکھو ،حبشہ کے نصرانی پر نماز پڑھتے ہیں جس کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی دیکھا بھی نہیں اور وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین پر بھی نہ تھا ۔ اس پر اللہ  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱ / ۳۳۹)

            اور اُن کی شان میں فرمایا گیا کہ منافق جن کو عیسائی کہہ رہے ہیں حقیقت میں وہ مسلمان ہیں کیونکہ کچھ اہلِ کتاب ایسے ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر اورپچھلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اوران کی حالت یہ ہے کہ ان کے دل عاجزی و اِنکساری اور تواضُع و اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اوریہودی سرداروں کی طرح وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں بیچ کر ذلیل قیمت نہیں لیتے بلکہ سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ توان لوگوں کیلئے اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کا خزانہ ہے۔

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اصْبِرُوْا  وَ  صَابِرُوْا  وَ  رَابِطُوْا-  وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَ(200)

ترجمہ: اے ایمان والو!صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہواوراسلامی سرحد کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ا س امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِصْبِرُوْا  وَ  صَابِرُوْا:صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو۔}صبر کا معنی ہے نفس کو اس چیز سے روکنا جو شریعت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو ۔ اور مُصَابَرہ کا معنی ہے دوسروں کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنا ۔ صبر کے تحت ا س کی تمام اقسام داخل ہیں جیسے توحید،عدل،نبوت اور حشرو نَشر کی معرفت حاصل کرنے میں نظر و اِستدلال کی مشقت برداشت کرنے پر صبر کرنا ۔ واجبات اور مُستحَبات کی ادائیگی کی مشقت پر صبر کرنا ۔ ممنوعات سے بچنے کی مشقت پر صبر کرنا ۔ دنیا کی مصیبتوں اور آفتوں جیسے بیماری ، محتاجی قحط اور خوف وغیرہ پر صبر کرنا اور مُصَابرہ میں گھر والوں ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی بد اخلاقی برداشت کرنا اور برا سلوک کرنے والوں سے بدلہ نہ لینا داخل ہے ، اسی طرح نیکی کا حکم دینا ، برائی سے منع کرنا اور کفار کے ساتھ جہاد کرنا بھی مُصَابرہ میں داخل ہے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۱ / ۳۴۰، تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۳ / ۴۷۳، ملتقطاً)

{وَ  رَابِطُوْا:اور اسلامی سرحد کی نگہبانی کرو۔ } اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں (1) سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کے لئے تیار رکھو ۔ (2)اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کمر بستہ رہو ۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۱۳۷)

اسلامی سرحد کی نگہبانی کرنے کے فضائل:

         اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت کے لئے وہاں رکنے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ

         حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’راہِ خدا میں ایک دن سرحد کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ،  ۲ / ۲۷۹، الحدیث: ۲۸۹۲)

       حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے، حفاظت کرنے والا اگر مر گیا تو اس کے اِس عمل کا اجر جاری رہے گا اور وہ فتنۂ قبر سے محفوظ رہے گا ۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل، ص ۱۰۵۹، الحدیث: ۱۶۳(۱۹۱۳

Scroll to Top