سُوْرَۃُ الأَِنْعَام

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ۬ؕ-ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ(1)

ترجمہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور اندھیروں اور نور کو پیدا کیا پھر (بھی) کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں ۔

 کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔} اس آیت میں بندوں کو اللہ تعالیٰ کی حمد کی تعلیم فرمائی گئی کہ وہ جب حمد کرنے لگیں تو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہیں ،ا ور آسمان وزمین کی پیدائش کا ذکر اس لئے ہے کہ اِن میں دیکھنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حکمت وقدرت کے بہت سے عجائبات ، عبرتیں اور منافع ہیں۔ حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو ریت میں سب سے پہلی یہی آیت ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۲)

{ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ:اور اندھیروں اور نور کو پیدا کیا۔}یعنی ہر اندھیرا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی نے پیدا فرمایا ہے خواہ وہ اندھیرا رات کا ہو، کفر کا ہو، جہالت کا ہو یا جہنم کا ہو ۔ یونہی ہر ایک روشنی اسی نے پیدا فرمائی خواہ وہ روشنی دن کی ہو ، ایمان و ہدایت کی ہو، علم کی ہو یا جنت کی ہو۔

برا کام کر کے اللہ  تعالیٰ کی مشیت کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے:

         یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اگرچہ ہر اچھی بری چیز کو پیدا فرمانے والا رب تعالیٰ ہے لیکن برا کام کر کے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیتِ الٰہی کے حوالے کرنا بری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہے اور جو برائی سرزد ہو اسے اپنے نفس کی شامت تصور کرے۔

         نیز اس آیت میں ظُلُمات یعنی تاریکیوں کو جمع اور نور کو واحد کے صیغہ سے ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ باطل کی راہیں بہت زیادہ ہیں اور راہِ حق صرف ایک دینِ اسلام ہے۔

{ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ:پھر (بھی) کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔}قدرت ِ الٰہی کے ان دلائل کے بعد فرمایا کہ ایسے دلائل پر مطلع ہونے اور قدرت کی ایسی نشانیاں دیکھنے کے باوجود کفار اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو حتّٰی کہ پتھروں کو پوجتے ہیں حالانکہ کفار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں کفار کے شرک کا ذکر ہوا اس مناسبت سے شرک کی تعریف درج ذیل ہے۔

شرک کی تعریف :

          شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی غیر کو واجبُ الوجود یا لائقِ عبادت سمجھاجائے ۔ حضرت علامہ سعدُ الدین تفتازانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شرک کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :’’اَلْاِشْتِرَا کُ ھُوَاِثْبَاتُ الشَّرِیْکِ فِی الْاُلُوْہِیَّۃِبِمَعْنٰی وُجُوْبِ الْوُجُوْدِکَمَا لِلْمَجُوْسِ اَوْ بِمَعْنٰی اِسْتِحْقَاقِ الْعِبَادَۃِ کَمَا لِعَبَدَۃِ الْاَصْنَامِ‘‘ یعنی ’’شرک یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت (یعنی معبود ہونے) میں کسی کو شریک کرنا اس طرح کہ کسی کو واجبُ الوجود مان لینا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا خدا کے سوا کسی کو عبادت کا حقدار مان لینا جیسا کہ بت پرستوں کا خیا ل ہے۔(شرح عقائد نسفیہ، مبحث الافعال کلہا بخلق اللہ تعالی والدلیل علیہا، ص ۷۸)

         اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ ارشاد فرماتے ہیں : ’’ آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِخدا کو معبود یا مستقل بالذّات و واجبُ الوجود نہ جانے ۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۱۳۱)

         صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا یعنی الوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد تر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں۔(بہار شریعت، حصہ اول، ایمان وکفر کا بیان،۱ / ۱۸۳)

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًاؕ-وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ(2)

ترجمہ

وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت کا فیصلہ فرمایا اور ایک مقررہ مدت اسی کے پاس ہے پھر تم لوگ شک کرتے ہو۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ:وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔} اس آیت میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ ہم جب گل کر مٹی ہو جائیں گے توپھر کیسے زندہ کئے جائیں گے؟ انہیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہارے باپ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا فرمایا اور ان کی نسل سے لوگ پیدا ہوئے ،پھر ا س نے ایک مدت کا فیصلہ فرمایا جس کے پورا ہوجانے پر تم مرجاؤ گے اور مرنے کے بعد اُٹھانے کی ایک مقررہ مدت بھی اسی کے پاس ہے ،پھر اے کافرو! تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے میں شک کرتے ہو حالانکہ تمہیں علم ہے کہ تمہاری تخلیق کی ابتدا کرنے والا اللہ تعالٰی ہے اور جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بدرجہ اَولیٰ قادر ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳، جلالین، الانعام، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۲، ملتقطاً)

وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِؕ-یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ(3)

ترجمہ: 

اور وہی اللہ آسمانوں میں اور زمین میں (لائقِ عبادت) ہے۔ وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے اور وہ تمہارے سب کام جانتا ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ: اور وہی اللہ آسمانوں میں اور زمین میں( لائقِ عبادت) ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا ذکر کیاگیا اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے کامل علم کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ آسمانوں اور زمینوں میں رہتا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ ہر جگہ اس کی عبادت ہو رہی ہے  اور ہر جگہ وہی معبود حقیقی ہے اور ہر جگہ اسی کی سلطنت و حکومت ہے، جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ (زخرف:۸۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:اور وہی آسمان والوں کامعبود ہے اور زمین والوں کامعبود ہے اور وہی حکمت والا، علم والا ہے۔

{یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ:وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔}امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ تمام معلومات کا عالم ہے، زمین کی تہ سے لے کر آسمانوں کی بلندی تک جو کچھ جاری ہے سب کا احاطہ فرمانے والا ہے، وہ ایسا عالم ہے کہ اس کے علم سے زمین و آسمان کا کوئی ذرہ باہر نہیں جا سکتا بلکہ وہ سخت اندھیری رات میں صاف چٹان پر چلنے والی سیاہ چیونٹی کے چلنے کی آواز کو بھی جانتا ہے، وہ فضا میں ایک ذرے کی حرکت بھی جانتا ہے، وہ پوشیدہ امور سے واقف اور دلوں کے وسوسوں ،خیالات اور پوشیدہ باتوں کا علم رکھتا ہے،اس کا علم قدیم ،ازلی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس علم کے ساتھ موصوف رہا ہے،اس کا علم جدید نہیں اور نہ ہی وہ اس کی ذات میں آنے کی وجہ سے حاصل ہو اہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الاول فی ترجمۃ عقیدۃ اہل السنّۃ فی کلمتی الشہادۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۲۶)

وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(4)

ترجمہ

اور ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی بھی نشانی نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔

 

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ:اور ان کے پاس کوئی بھی نشانی نہیں آتی۔} اس سے پہلی آیات میں مشرکین کے اس کفر کو بیان کیاگیا جو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتے تھے اور اس آیت سے مشرکین کے ا س کفر کو بیان کیا گیا ہے جو وہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کرتے تھے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کا کفر وسرکشی میں حال یہ ہے کہ ان کے پاس جب بھی قرآنِ مجید کی آیات آتی ہیں یا وہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھتے ہیں تو وہ ا س سے منہ پھیر لیتے ہیں۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۴، ملتقطاً)

فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْؕ-فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(5)

ترجمہ: 

تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا تو عنقریب ان کے پاس اس کی خبریں آنے والی ہیں جس کا یہ مذاق اڑاتے تھے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ: تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا۔}یہاں حق سے یا قرآنِ مجیدکی آیات مراد ہیں یاتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کہ جب بھی قرآن کی آیتیں یا نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کفارِ مکہ کے سامنے آتے یا حضورِ  اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں کچھ سمجھاتے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلاتے۔ اس پر فرمایا کہ  عنقریب ان کے پاس خبریں آنے والی ہیں اس چیز کی جس کا یہ مذاق اڑاتے تھے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ  وہ کیسی عظیم الشان خبر ہے اور اس کی ہنسی بنانے کا انجام کیسا خوفناک ہے ۔

اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْهِمْ مِّدْرَارًا۪-وَّ جَعَلْنَا الْاَنْهٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ(6)

ترجمہ

کیا انہوں نے نہیں د یکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا، انہیں ہم نے زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تمہیں نہیں دی اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَمْ یَرَوْا:کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں سرزنش اور وعید کے ذریعے کفارِ مکہ کواللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے منہ پھیرنے، حق کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مذاق اڑانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں سابقہ قوموں کا عبرت ناک انجام بیان کر کے انہیں نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا شام اور دیگر ملکوں کی طرف سفر کرنے کے دوران کفارِ مکہ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا۔ اے اہلِ مکہ! ہم نے انہیں زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تمہیں نہیں دی اور جب انہیں ضرورت پیش آئی تو ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی  جس سے ان کی کھیتیاں شاداب ہوئیں اور ان کے درختوں ، رہائش گاہوں اور محلات کے قریب نہریں بہا دیں جس سے باغ پرورش پائے ،پھلوں کی کثرت ہوئی اور دنیا کی زندگانی کے لئے عیش و راحت کے اسباب بَہم پہنچے لیکن جب انہوں نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور ان کے احکامات کو جھٹلایا تو پھر ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور  ان کی یہ جاہ و حشمت اور سازو سامان انہیں ہلاکت سے نہ بچاسکا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں اور دوسرے لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا۔ ان کاعبرت ناک انجام دیکھ کر تم بھی نصیحت حاصل کرو اور سابقہ کفار والی روش اختیار نہ کرو ورنہ تم پر بھی ویسا ہی عذاب آ سکتا ہے۔

سابقہ امتوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں 

            اس آیت میں گزری ہوئی اُمتوں کا جو حال اور انجام بیان کیا گیا کہ وہ لوگ قوت ، دولت اور مال و عیال کی کثرت کے باوجود کفر و سرکشی اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے احکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، اس میں بطورِ خاص کفار اور عمومی طور پر ہر مسلمان کے لئے عبرت اور نصیحت ہے ،ا س لئے سب کو چاہئے کہ اُن کے حال سے عبرت حاصل کرکے خواب ِغفلت سے بیدار ہوں اور کفر و سرکشی اور گناہوں کو چھوڑ کر ایمان، اطاعت، عبادت اور نیک کاموں میں مصروف ہو جائیں۔

کفار کی دنیوی ترقی بار گاہِ الٰہی میں مقبولیت کی دلیل نہیں :

            اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دنیوی خوشحالی ، مال و دولت اور سہولیات کی کثرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی کی علامت نہیں ورنہ قارون تو بہت بڑا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوتا۔ یہاں سے ان لوگوں کو درس حاصل کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی دنیوی ترقی، سائنسی مہارت، سہولیات کی کثرت، ایجادات کی بہتات، مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر انہیں بارگاہِ الٰہی میں مقبول اور مسلمانوں کو مردود سمجھتے ہیں اور اخلاق و کردار میں مسلمانوں کو کفار کی تقلید کامشورہ دیتے ہیں۔ کفار کی یہ دنیوی کامیابی مقبولیت کی نہیں بلکہ مہلت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کافروں کی جلد پکڑ نہیں فرماتا بلکہ انہیں مہلت دیتا اور آسائشیں عطا فرماتا ہے،پھر انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ نیز نام نہاد دانشور، مسلمانوں کو یورپ کی اندھی تقلید کا نہ ہی فرمائیں تو بہتر ہے اور وہ اپنی قارونی سوچ اپنے پاس ہی رکھیں۔

وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(7)

ترجمہ

اور اگر ہم کاغذ میں کچھ لکھا ہوا آپ پر اتار دیتے پھر یہ اسے چھو لیتے تب بھی کافر کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَوْ نَزَّلْنَا: اور اگرہم اتار دیتے۔} یہ آیت نضربن حارث ، عبداللہ بن اُمیّہ اور نوفل بن خویلد کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم تم پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک تم ہمارے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کتاب نہ لاؤ جس کے ساتھ چار فرشتے ہوں ، وہ گواہی دیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تم اس کے رسول ہو۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی(تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۷۰) اور بتایا گیا کہ یہ سب حیلے بہانے ہیں کیونکہ اگر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دی جاتی اور وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر اور ٹٹول کر دیکھ لیتے تو بھی یہی کہتے کہ ان کی نظر بندی کردی گئی تھی اورکتاب اُترتی نظر توآئی تھی لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا جیسے انہوں نے معجزہ شقُّ القمر یعنی چاند کے دوٹکڑے ہونے کے معجزے کو جادو بتایا اور اس معجزہ کو دیکھ کربھی ایمان نہ لائے، اسی طرح اِس پر بھی ایمان نہ لاتے کیونکہ جو لوگ عنادا ً انکار کرتے ہیں وہ آیات و معجزات سے نفع نہیں اٹھاسکتے۔

وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌؕ-وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ(8)

ترجمہ

ا ور (کافروں نے) کہا :ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتار دیا گیا حالانکہ اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو فیصلہ کردیا جاتا پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا:اور انہوں نے کہا۔}یعنی مشرکین نے مزید یہ کہا کہ  نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتار دیا گیا جسے وہ دیکھتے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ  فرشتہ اتار دیتااور کافر پھر بھی ایمان نہ لاتے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ان پر لازم ہوجاتا کیونکہ یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ جب کفار اجتماعی طورپر کوئی نشانی طلب کریں اور اس نشانی کے ظاہر ہوجانے کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو عذاب واجب ہوجاتا ہے اور وہ ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر کافروں کا مطالبہ پورا کردیا جاتا اور یہ پھر بھی ایمان نہ لاتے تو انہیں ایک لمحے کی بھی مہلت نہ ملتی اور ان سے عذاب مُؤخر نہ کیا جاتا۔

نشانیاں پوری ہونے کے باوجود کفارِ مکہ پر عذاب نازل کیوں نہ ہوا؟

         یاد رہے کہ کافروں نے ایسے فرشتے کے اترنے کا مطالبہ کیا تھا جو اُن کافروں کو بھی نظر آئے اور اسی کا رد کیا گیاتھا ورنہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایک کیا بہت سے فرشتے نازل ہوتے تھے اور بسا اوقات انسانی شکل میں حاضر ہوتے تھے جنہیں صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی دیکھتے تھے۔ ان کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ فرشتہ اپنی اصلی صورت میں آئے اور ہم اسے اسی صورت میں دیکھیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کفار نے بہت سی نشانیاں طلب کیں جو پوری بھی ہوئیں جیسے چاند کے دو ٹکڑے ہونا وغیرہ اور اس کے بعد وہ ایمان بھی نہیں لائے تو ایسی صورت میں آیت میں بیان کردہ حکم کے مطابق تو سب کو ہلاک کردیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا تو آیت کا مطلب کیا ہے یا پھر ان معجزات کے دکھائے جانے کا مطلب کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبوت پر دلالت کرنے والی نشانی دو طرح کی ہے (1) عام نشانی۔ (2) خاص نشانی۔ عام نشانی وہ ہے کہ جس کا تمام لوگ مطالبہ کریں یا سب مطالبہ تو نہ کریں لیکن اس کا مشاہدہ سب کر لیں۔ خاص نشانی وہ ہے کہ جس کا مطالبہ مخصوص لوگ کریں اور تمام ا فراد اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔گزشتہ امتوں میں نشانی دیکھ لینے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل کرنے میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ رہا کہ عام نشانی یعنی جس میں سب عام و خاص شریک ہو جائیں اسے پورا کرنے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل فرماتا جبکہ خاص نشانی کے پورا ہونے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں عذاب نازل نہیں فرماتا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا مطالبہ مخصوص لوگوں نے کیا جو پورا ہوا لیکن یہ عام نشانی نہ تھی بلکہ خاص تھی کہ جب چاند دو ٹکڑے ہوا اس وقت اکثر لوگ سو رہے تھے، اور کئی مقامات پر اختلافِ مَطالع یا بادل حائل ہونے کی وجہ سے چاند دو ٹکڑے ہوتا نظر نہ آیا، اس لئے مطالبہ کرنے والوں پر عذاب نازل نہ ہوا۔(شرح السنہ للبغوی، کتاب الفضائل، باب علامات النبوۃ، ۷ / ۶۶، تحت الحدیث: ۳۶۰۵، ملخصاً)

         مرقاۃُ المفاتیح میں یہی عبارت شرحُ السنہ سے منقول ہے۔ ا س کی روشنی میں ابو جہل یا دیگر کفار کے مطالبات کو دیکھا جائے تو وہ خاص مطالبے خاص فرد کے لئے پورے ہوئے تھے اس لئے اس پر عذاب نازل نہ ہوا۔

 

وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ(9)

ترجمہ

اور اگر ہم نبی کو فرشتہ بنادیتے توبھی اسے مرد ہی بناتے اور ان پر وہی شبہ ڈال دیتے جس میں اب پڑے ہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا:اور اگر ہم نبی کو فرشتہ بنادیتے۔} یہ ان کفار کا جواب ہے جو نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو کہا کرتے تھے ، ’’یہ ہماری طرح بشر ہیں ‘‘اور اسی پاگل پن میں وہ ایمان سے محروم رہتے تھے۔ انہیں انسانوں میں سے رسول مبعوث فرمانے کی حکمت بتائی جارہی ہے کہ اُن سے نفع حاصل کرنے اور تعلیمِ نبی سے فیض اُٹھانے کی یہی صورت ہے کہ نبی صورتِ بشری میں جلوہ گر ہو کیونکہ فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں دیکھنے کی تو یہ لوگ تاب نہ لاسکتے، دیکھتے ہی ہیبت سے بے ہوش ہو جاتے یا مرجاتے اس لئے اگر بالفرض رسول فرشتہ ہی بنایا جاتا تو بھی اسے مرد ہی بنایا جاتا اور صورتِ انسانی ہی میں بھیجا جاتا تاکہ یہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور اس کا کلام سن سکیں اور اس سے دین کے احکام معلوم کرسکیں لیکن اگر فرشتہ صورتِ بشری میں آتا تو انہیں پھر وہی کہنے کا موقع رہتا کہ یہ بشر ہے تو فرشتہ کو نبی بنانے کا کیا فائدہ ہوتا؟( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۵)

وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(10)

ترجمہ

اور اے حبیب ! بیشک تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا تو وہ جو ان میں سے (رسولوں کا) مذاق اڑاتے تھے ان پر ان کا مذاق ہی اتر آیا۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ : اور اے محبوب ! بیشک تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا۔} کفار نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑاتے جس سے حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رنجیدہ ہوتے۔ اس پر سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے رسولوں کا بھی مذاق اڑایا گیا تو جو مذاق اڑاتے تھے ان کا نہایت بھیانک انجام ہوا اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے ۔اس میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی و تسکینِ خاطر ہے کہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رنجیدہ و مَلُوْل نہ ہوں ، کفار کا پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی یہی دستور رہا ہے اور اس کا وبال ان کفار کو اٹھانا پڑا ہے ۔نیز اس میں مشرکین کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ پچھلی اُمتوں کے حال سے عبرت حاصل کریں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ادب کا طریقہ ملحوظ رکھیں تاکہ پہلوں کی طرح مبتلائے عذاب نہ ہوں۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑانے والوں کا انجام:

         کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسود بن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث  بن قیس اور ان سب کا افسر (5)ولید بن مغیرہ مخزومی ،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت ایذاء دیتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسود بن مُطَّلِب کے خلاف حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دُعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اس کو اندھا کردے۔ ایک روزتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شر دفع کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہوگئے ،ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں ایک تیر کی نوک چبھ گئی، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا۔ عاص بن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مرا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے قتل کیا، اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی، کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے رب عَزَّوَجَلَّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ، وہ اسی میں ہلاک ہوگیا۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۱۱۱، ملخصاً)

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(11)

ترجمہ

تم فرمادو: زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ:تم فرمادو:زمین میں سیر کرو ۔} یہاں سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب کا مذاق اڑانے والوں سے فرما دیں کہ جاؤ اور زمین میں سیر کرکے دیکھو کہ  جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ اور انہوں نے کفرو تکذیب کا کیا ثمرہ پایا؟ یہاں زمین سے مراد وہ زمین ہے جہاں پچھلی قوموں پر عذاب آیا اور اب تک وہاں اُن اُجڑی بستیوں کے آثار موجود ہیں اور سیر کا یہ حکم ترغیب کے لئے ہے نہ کہ وجوب کے لئے۔

اللہ تعالیٰ کا خوف اور ا س محبت پیدا کرنے کا ذریعہ

         اس سے معلوم ہوا کہ خوفِ الٰہی پیدا کرنے کے لئے عذاب والی جگہ جا کر دیکھنا بہتر ہے کیونکہ خبر کے مقابلے میں مشاہداتی چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ نیز جیسے عذاب کی جگہ دیکھنے سے خوف پیدا ہوتا ہے اسی طرح رحمت کی جگہ دیکھنے سے عبادت کی رغبت اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت پیدا ہوتی ہے، لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت دیکھنے کے لئے بزرگوں کے آستانے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی ہیں ، جا کر سفر کر کے دیکھنا بھی بہتر ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا شوق پیدا ہو۔

سفر کر کے مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز ہے:

         اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمانی قوت حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا باعثِ رحمت ہے اور اس آیت سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو صرف تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور طرف سفرکو مطلقاًناجائز کہتے ہیں اور ا س کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں، حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ان تین مسجدوں کے سوا کسی کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (1) مسجدِ حرام۔ (2) رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسجد۔ (3) مسجدِ اقصٰی۔( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب مسجد بیت المقدس، ۱ / ۴۰۳، الحدیث: ۱۱۹۷)

         اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ان مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف اس لئے سفر کر کے جانا کہ وہاں نماز کا ثواب زیادہ ہے ممنوع ہے کیونکہ ان کے علاوہ سب مسجدوں میں نماز پڑھنے کاثواب برابر ہے۔ اگر اس حدیث کے یہ معنی کئے جائیں کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا حرام ہے یا ان تین مسجدوں کے علاوہ کہیں اور سفر کرنا جائز نہیں تو یہ حدیث قرآنِ مجید کی اس آیت اور دیگر احادیث کے بھی خلاف ہو گی ،نیز اس معنی کے حساب سے کہیں کا کوئی سفر کسی مقصد کے لئے جائز نہ ہو گا مثلاً جہاد، طلبِ علم، تبلیغِ دین،تجارت، سیاحت وغیرہ کسی کام کے لئے سفر جائز نہ ہو گا اور یہ امت کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے مزارات پر جانا ممنوع و حرام نہیں بلکہ جائز اور مستحسن ہے ۔

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-قُلْ لِّلّٰهِؕ-كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَؕ-لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِؕ-اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(12)

ترجمہ

تم فرماؤ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟ فرمادو: اللہ ہی کا ہے اس نے اپنے ذمۂ کرم پر رحمت لکھ لی ہے ۔بیشک وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گاجس میں کچھ شک نہیں ۔ وہ جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا ہوا ہے تووہ ایمان نہیں لاتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ:تم فرماؤ۔} مزید فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ  ان سے پوچھیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کا مالک کون ہے؟ اولاً تو وہ خود ہی کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ وہ اس کے معتقد ہیں اوراگر وہ یہ نہ کہیں تو تم خود یہ جواب دو کہ سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اس کے سوا اور کوئی جواب ہوہی نہیں سکتا اور وہ اِس جواب کی مخالفت کرہی نہیں سکتے کیونکہ بت جن کو یہ مشرکین پوجتے ہیں وہ بے جان ہیں ، کسی چیز کے مالک ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ،خود دوسروں کے مَملوک ہیں جبکہ آسمان و زمین کا وہی مالک ہوسکتا ہے جو حَیّ و قَیُّوم، اَزلی و اَبدی ، قادرِ مطلق، ہر شے پر مُتَصَرِّف اور حکمران ہو، تمام چیزیں اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہوں ، ایسا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں ، اس لئے تمام آسمانی و زمینی کائنات کا مالک اس کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔

{ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ: اس نے اپنے ذمۂ کرم پر رحمت لکھ لی ہے۔} یعنی اس نے رحمت کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ خلافی کرنا اور معاذاللہ جھوٹ بولنا محال ہے۔ اس نے رحمت کا وعدہ فرمالیا اور رحمت عام ہے دینی ہو یا دُنیوی، اپنی معرفت اور توحید اور علم کی طرف ہدایت فرمانا بھی اسی رحمت فرمانے میں داخل ہے، یونہی کفار کو مہلت دینا اورسزا دینے میں جلدی نہ فرمانا بھی رحمت میں داخل ہے کیونکہ اس سے انہیں توبہ اوررجوع کا موقع ملتا ہے۔( جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۲۲-۳۲۳)

 اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہو نا چاہئے:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحیم اور سب سے بڑھ کر کریم ہے ،اس کے رحم و کرم کے خزانوں کی کوئی انتہاء نہیں ،وہ چاہے تو عمر بھر کے گناہ گار کو پل بھر میں بخش دے اور ا س کی ساری خطائیں معاف فرما دے لیکن اس کی وسیع رحمت کو دیکھ کر ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بندہ گناہوں پر بے باک ہو جائے اور ا س کی نافرمانی کی پرواہ نہ کرے ۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، جس کا خلاصہ ہے کہ’’گناہ گار مومن ا س طرح دھوکے میں مبتلا ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ کریم ہے اور مجھے اس کے عفو و درگزر کی امید ہے،پھر اس بات پر بھروسہ کر کے اعمال سے غافل ہوجاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت وسیع اور رحمت و کرم عام ہے، اس کی رحمت کے سمندر کے مقابلے میں بندوں کے گناہوں کی کیا حیثیت ہے، ہم توحید کو ماننے والے اور مومن ہیں اور ایمان کے وسیلے سے اس کی رحمت کے امید وار ہیں۔ بعض اوقات ان کے پاس اس امید کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمارے باپ دادا نیک لوگ تھے اور ان کا درجہ بلند تھا جیسے کئی لوگ اپنے نسب کی وجہ سے دھوکے کا شکار ہیں حالانکہ وہ خوفِ خدا، تقویٰ اور پرہیز گاری وغیرہ کے سلسلے میں اپنے آباؤ اَجداد کی سیرت کے خلاف چلتے ہیں تو گویا اِن کا گمان یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے باپ دادا سے بھی زیادہ معزز ہیں کیونکہ وہ باپ دادا توانتہائی درجہ کے تقویٰ کے باوجود خوف زدہ رہتے تھے اوریہ لوگ انتہائی درجہ کے فسق وفجور کے باوجودبے خوف ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑ ادھوکہ ہے، اسی طرح شیطان اعلیٰ نسب والوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو کسی انسان سے محبت کرتا ہے وہ اس کی اولاد سے بھی محبت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چونکہ تمہارے آباؤ اجداد سے محبت کی ہے لہٰذا وہ تم سے بھی محبت کرتا ہے،اس لئے تمہیں عبادت کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر دھوکہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اطاعت گزار کو پسند فرماتا اور گناہگار کو نا پسند فرماتا ہے تو جس طرح گناہگار بیٹے کو برا جاننے کی وجہ سے ا س کے فرمانبردار باپ کو برا نہیں جانتا اسی طرح فرمانبردار باپ کی اطاعت گزاری کی وجہ سے اس کے گناہگار بیٹے سے محبت بھی نہیں کرتا، اگر محبت باپ سے بیٹے کی طرف چلی جاتی تو قریب تھا کہ نفرت بھی سرایت کرتی جبکہ حق بات یہ ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جس شخص کا یہ خیال ہو کہ وہ اپنے باپ کی پرہیز گاری کی وجہ سے نجات پائے گا تو وہ اس آدمی کی طرح ہے جو یہ گمان کرتا ہو کہ باپ کے کھانے سے وہ بھی سیر ہو جائے گا، باپ پئے تو بیٹا بھی سیراب ہو جائے گا، باپ کے سیکھنے سے بیٹا بھی عالم ہو جائے گا اور باپ کعبہ شریف میں پہنچ جائے تو اس کے وہاں پہنچنے سے یہ بھی وہاں پہنچ جائے گا اور کعبہ شریف کو دیکھ لے گا۔ (یاد رکھیں کہ ) تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرناہر ایک پر لازم ہے ،اس میں والد اپنے بیٹے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا اور اس کے برعکس بھی یہی حکم ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغرور، بیان ذم الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۱-۴۷۲، ملخصاً)۔

وَ لَهٗ مَا سَكَنَ فِی الَّیْلِ وَ النَّهَارِؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(13)

ترجمہ

اور سب کچھ اسی کا ہے جو رات اور دن میں بستا ہے اور وہی سننے والا جاننے والاہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَهٗ:اور اسی کا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ رات اور دن میں کائنات میں بسنے والی یا سکون حاصل کرنے والی ہر چیز یعنی تمام موجودات اسی کی مِلک ہے اور وہ سب کا خالق، مالک اور رب ہے ۔( جلالین مع جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۲۳)

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُؕ-قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(14)قُلْ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(15)مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗؕ-وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِیْنُ(16)

ترجمہ

تم فرماؤ: کیا کسی اور کو اس اللہ کے سوا والی بنالوں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے؟ اور وہ کھلاتا ہے اور وہ خود کھانے سے پاک ہے۔تم فرماؤ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے فرمانبرداری کے لئے گردن جھکاؤں اور تو ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ تم فرماؤ: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔اس دن جس سے عذاب پھیر دیا گیا توضرور اس پر اللہ نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} کفارِ عرب نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے ملک والوں کے دین کی طرف آجائیں اور توحید کا ذکر چھوڑ دیں۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۴۵، الجزء السادس) اور فرمایا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہیں جواب دو کہ کیا میں اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کو اپنا والی بنالوں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والا ہے نیز وہ سب کو کھلاتا ہے اور وہ خود کھانے سے پاک ہے، ساری مخلوق اُس کی محتاج ہے اوروہ سب سے بے نیاز ہے۔لہٰذا ایسے خالق و مالک، رحیم و کریم کو میں ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔ اس نے تومجھے یہ حکم دیا ہے  کہ میں سب سے پہلے فرمانبرداری کے لئے گردن جھکاؤں  کیونکہ نبی اپنی اُمت سے دین میں آگے ہوتے ہیں اور اس نے یہ حکم دیا ہے کہ میں شرک سے پاک رہوں۔

{ مَنْ یُّصْرَفْ عَنْهُ یَوْمَىٕذٍ:اس دن جس سے عذاب پھیر دیا گیا۔}اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن عذاب سے بچنا اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے ہو گا صرف اپنے اعمال اس کے لئے کافی نہیں کیونکہ اعمال سبب ہیں۔

وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(17)وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ(18)

ترجمہ

اور اگر اللہ تجھے کوئی برائی پہنچائے تو اس کے سوا اس برائی کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر اللہ تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر شے پر قادر ہے۔ اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہی حکمت والا خبردارہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ:اور اگر اللہ تجھے کوئی برائی پہنچائے۔} ارشاد فرمایا کہ  اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے کوئی برائی مثلاً بیماری یا تنگ دستی یا اور کوئی بلا پہنچائے تو اس کے سوا اس برائی کو کوئی دور کرنے والا نہیں یعنی اس کی مرضی کے خلاف اس کا بھیجا ہوا عذاب کوئی نہیں دفع کر سکتا۔ اور جہاں تک نیک اعمال اور بزرگوں کی دعا سے عذاب اٹھ جانے کا تعلق ہے تو اسے بھی رب کریم عَزَّوَجَلَّ ہی اپنے فضل و کرم سے ،اِن اسباب کے وسیلہ سے اٹھاتا ہے اور جیسے برائی کا پہنچنا اور دور ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، ایسے ہی بھلائی جیسے صحت و دولت وغیرہ کاپہنچنا بھی اسی خداوند ِ کریم کی قدرت سے ہے کیونکہ وہ ہر شے پر قادر ہے، کوئی اس کی مَشِیَّت کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تو اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟ کیونکہ معبود وہ ہے جو قدر تِ کاملہ رکھتا ہو اور کسی کا حاجت مند نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسا کوئی نہیں ، لہٰذا صرف اسی کو رب مانواسی کی عبادت کرو۔یہ ردِ شرک کی دل میں اثر کرنے والی دلیل ہے۔

قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةًؕ-قُلِ اللّٰهُ- شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ- وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَؕ-اَىٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰىؕ-قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُۚ-قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَﭥ(19)

ترجمہ

تم فرماؤ :سب سے بڑی گواہی کس کی ہے؟ فرمادو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور میری طرف اِس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمہیں اور جن کو یہ پہنچے انہیں ڈراؤں ۔ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں ؟ تم فرماؤکہ میں یہ گواہی نہیں دیتا ۔ تم فرماؤ کہ وہ تو ایک ہی معبود ہے اور میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً:سب سے بڑی گواہی کس کی ہے؟ }اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگے کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہمیں کوئی ایسا دکھائیے جو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دیتا ہو ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا گواہ ہے اور سب سے بڑا گواہ وہی ہے۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۵۶۷)

نبی کریم صَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دینا سنتِ خدا ہے:

اللہ تعالیٰ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی کئی طرح دی: ایک یہ کہ اپنے خاص بندوں سے گواہی دلوا دی۔ دوسرے یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جو کلام اتارا، اس میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اعلان فرمایا۔ تیسرے یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ یہ سب رب تعالیٰ کی گواہیاں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی گواہی دینا سنت ِرسولُ اللہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دینا سنتِ خدا ہے، ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گواہ خود ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ ہے اور کلمۂ شہادت میں دونوں گواہیاں جمع فرما دی گئیں ،سُبْحَانَ اللہ۔

{ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ: اور میر ی طر ف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ میری نبوت کی گواہی دیتا ہے اس لئے کہ اُس نے میری طرف اس قرآن کی وحی فرمائی اور یہ ایسا عظیم معجزہ ہے کہ تم فصیح وبلیغ اور صاحبِ زبان ہونے کے باوجود اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے،اس سے ثابت ہوا کہ قرآنِ پاک عاجز کرنے والا ہے اور جب یہ عاجز کرنے والا ہے تو اس کتاب کا مجھ پر نازل ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے رسول ہونے کی یقینی شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ‘‘سے یہی مراد ہے یعنی میری طرف اس قرآن کی وحی فرمائی گئی تا کہ میں اس کے ذریعے تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرنے سے ڈراؤں۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۸)

{ وَ مَنْۢ بَلَغَ:اور جن تک یہ پہنچے۔} یعنی میرے بعد قیامت تک آنے والے جن افراد تک یہ قرآنِ پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن ان سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراؤں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو قرآنِ پاک پہنچا یہاں تک کہ اس نے قرآن سمجھ لیاتو گویا کہ اس نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک سنا۔ (در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۲۵۷)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسریٰ اور قَیصر و غیرہ سَلاطین کو دعوتِ اسلام کے مکتوب بھیجے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۸)

اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’مَنْۢ بَلَغَ ‘‘ بھی فاعل کے معنیٰ میں ہے  اور معنیٰ یہ ہیں کہ اس قرآن سے میں تمہیں ڈراؤں اور وہ ڈرائیں جنہیں یہ قرآن پہنچے ۔(جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۲۷)

ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ترو تازہ کرے اس کو جس نے ہمارا کلام سنا اور جیسا سنا ویسا پہنچایا، بہت سے لوگ جنہیں کلام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث:۲۶۶۶)

            اور ایک روایت میں ہے’’ سننے والے سے زیادہ افقہ ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۸، الحدیث:۲۶۶۵)

اس سے فقہا کی قدرومنزلت معلوم ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کی ہدایت کسی زمان و مکان اور کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں۔

{ اَىٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ: کیا تم گواہی دیتے ہو؟}یہاں مشرکوں سے خطاب ہے یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرمائیں کہ اے مشرکو! کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں ؟ اے حبیب ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! تم فرماؤ کہ میں یہ گواہی نہیں دیتا بلکہ تم فرماؤ کہ وہ تو ایک ہی معبود ہے اور میں ان جھوٹے خداؤں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے ہو ۔

اسلام قبول کرنے والے کو کیا کرنا چاہئے؟

اس آیت سے ثابت ہوا کہ جو شخص اسلام لائے اس کو چاہئے کہ توحید و رسالت کی شہادت کے ساتھ اسلام کے ہر مخالف عقیدہ و دین سے بیزاری کا اظہار کرے بلکہ تمام بے دینوں سے دور رہے اور کفر و شرک و گناہ سے بیزار رہے بلکہ مومن کو چاہیے کہ اپنی صورت، سیرت، رفتار و گفتار سے اپنے ایمان کا اعلان کرے۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْۘ-اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(20)

ترجمہ

وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس نبی کوایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (لیکن ) جو اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالنے والے ہیں تو وہ ایمان نہیں لاتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ:جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی۔} یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء جنہوں نے توریت و انجیل پائی وہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حلیہ مبارک اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نعت و صفت سے جوان کتابوں میں مذکور ہے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں یعنی جیسے اولاد کے اولاد ہونے میں شبہ نہیں اسی طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے میں انہیں شبہ نہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس روایت سے بھی ملتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آیت حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے پڑھ کرحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچاننے کی صورت پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میں نے جیسے ہی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار کیا تو انہیں پہچان گیا بلکہ اپنے بیٹے کے مقابلے میں انہیں زیادہ جلدی پہچان گیا، میں اس بات کی گواہی تو دے سکتا ہوں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچے رسول ہیں لیکن عورتوں نے کیا کیا وہ میں نہیں جانتایعنی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے میرے پیچھے کوئی خیانت کر لی ہو اور یہ بیٹا میرا نہ ہولیکن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے رسول ہونے میں مجھے کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا۔

             تفسیر بغوی میں پہچاننے کی یہ صورت لکھی ہے ’’جیسے اپنے بیٹے کو دیگر بچوں کے درمیان پہچان لیتے ہیں کہ آدمی ہزاروں میں اپنے بیٹے کو بلا تَرَدُّد پہچان لیتا ہے ایسے ہی یہ لوگ  سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں لیکن ان میں جو اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالنے والے ہیں تو وہ ایمان نہیں لاتے۔ یہودیوں کا ایمان نہ لانا حسد کی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد کے ہوتے ہوئے کسی کی خوبی تسلیم کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔اس آیت سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ   سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جاننا پہچاننا ایمان نہیں بلکہ انہیں ماننا ایمان ہے۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(21)

ترجمہ

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ بیشک ظالم فلاح نہ پائیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

 { وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ :اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟} جو کسی کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرائے یا جو بات اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت کرے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ ظلم کہتے ہیں کسی شے کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دینا تو جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان نہیں ہے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرنا یقینا سب سے بڑا ظلم ہوگا۔

ظالم کی وعید میں داخل افراد

اس وعید میں مشرک بھی داخل کہ وہ توحید کو اس کی جگہ سے ہٹاتے ہیں اور دیگرکفار بھی داخل ہیں۔ یونہی اس میں فلموں ، ڈراموں یا کسی بھی ذریعے سے کفریات سیکھ کر بولنے یا خوشی سے سننے والے بھی داخل ہیں کہ وہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف وہ چیزیں منسوب کرتے ہیں جو اس کی شایانِ شان نہیں اور اس میں زمانۂ ماضی اور خصوصاً زمانۂ حال کے وہ اسکالرز ،دانشور اور مفکر بھی شامل ہیں جو دیدہ دانستہ قرآن کی غلط تفسیریں کرتے ہیں یا نااہل ہوتے ہوئے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(22)ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ(23)اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(24)

ترجمہ

اور جس دن ہم سب کو اٹھائیں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے ، تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (خدا کا شریک) گمان کرتے تھے؟ پھر ان کی اس کے سوا کوئی معذرت نہ ہوگی کہ کہیں گے ،ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔اے حبیب! دیکھو اپنے اوپر انہوں نے کیسا جھوٹ باندھا ؟اور ان سے غائب ہوگئیں وہ باتیں جن کا یہ بہتان باندھتے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ :پھر ان کی کوئی معذرت نہ ہوگی۔} قیامت کے دن کافروں کے پاس اپنے کفر و شرک سے معذرت کی کوئی صورت نہ ہوگی سوائے اس کے کہ شرک سے صاف انکار کردیں گے کہ ہم تو مشرک تھے ہی نہیں۔ ان کے متعلق اگلی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دیکھو اپنے اوپر انہوں نے کیسا جھوٹ باندھا کہ عمر بھر کے شرک ہی سے مکر گئے۔ مشرکین شروع میں تو اپنے جرموں کا انکار کریں گے پھر دوسرے وقت اقرار کریں گے اور پھر ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں گے کہ ہمیں تو ہمارے بڑوں نے گمراہ کیا تھا۔

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِـعُ اِلَیْكَۚ-وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًاؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْكَ یُجَادِلُوْنَكَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(25)

ترجمہ

اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاکر سنتا ہے اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردئیے ہیں کہ اس کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ڈال دیا ہے اور اگر ساری نشانیاں (بھی) دیکھ لیں تو ان پر ایمان نہ لائیں گے حتّٰی کہ جب تمہارے پاس تم سے جھگڑتے ہوئے آتے ہیں تو کافر کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ:اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاکر سنتا ہے۔}ایک مرتبہ ابوسفیان، ولید، نضر اور ابوجہل وغیرہ جمع ہو کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تلاوتِ قرآن پاک سننے لگے تو نضرسے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا کہتے ہیں ؟ کہنے لگا: میں نہیں جانتا ،زبان کو حرکت دیتے ہیں اور پہلوں کے قصے کہہ رہے ہیں جیسے میں تمہیں سنایا کرتا ہوں۔ ابوسفیان نے کہا کہ ان کی باتیں مجھے حق معلوم ہوتی ہیں۔ ابوجہل نے کہا کہ اس کا اِقرار کرنے سے مرجانا بہتر ہے۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۱۰) کافروں  کے قرآنِ پاک کو پرانے قصے کہنے سے مقصد کلامِ پاک کا وحیِ الٰہی ہونے کا انکار کرنا ہے۔

وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْــٴَـوْنَ عَنْهُۚ-وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(26)

ترجمہ

اور وہ (دوسروں کو) اس سے روکتے اور خود اس سے دور بھاگتے ہیں اور وہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ:اور وہ (دوسروں کو) اس سے روکتے ہیں۔}یعنی مشرکین لوگوں کو قرآن شریف سے یارسولِ کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع کرنے سے دوسروں کوروکتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ یہ آیت کفارِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جو لوگوں کوسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس میں حاضر ہونے اور قرآنِ کریم سننے سے روکتے تھے اور خود بھی دور رہتے تھے کہ کہیں کلامِ مبارک اُن کے دل میں اثر نہ کرجائے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۱۰۔)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ آیت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی جو مشرکین کو تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایذا رسانی سے روکتے تھے اور خود ایمان لانے سے بچتے تھے۔( قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۵۱، الجزء السادس۔)  لیکن بظاہر پہلا قول ہی صحیح ہے کیونکہ یہاں جمع کا صیغہ بیان ہوا ہے۔

وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(27)

ترجمہ

اور اگر آپ دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا پھر یہ کہیں گے اے کاش کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَوْ تَرٰى: اور اگر آپ دیکھیں۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافروں کی حالت دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بڑی خوفناک حالت دیکھیں گے اور اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش کہ کسی طرح ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہو جائیں تاکہ اس ہولناک عذاب سے بچ سکیں۔

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(28)

ترجمہ

بلکہ پہلے جو یہ چھپا رہے تھے وہ ان پر کھل گیا ہے اور اگر انہیں لوٹا دیا جائے تو پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بیشک یہ ضرور جھوٹے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بَلْ بَدَا لَهُمْ: بلکہ ان پر ظاہر ہوگیا۔} جیسا کہ اُوپر اسی رکوع میں مذکور ہوچکا کہ مشرکین سے جب فرمایا جائے گا کہ تمہارے شریک کہاں ہیں تو وہ اپنے کفر کو چھپا جائیں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے ،اس آیت میں بتایا گیا کہ پھر جب انہیں ظاہر ہوجائے گا جو وہ چھپاتے تھے یعنی ان کا کفر اس طرح ظاہر ہوگا کہ ان کے اَعضاو جَوارح ان کے کفر و شرک کی گواہیاں دیں گے تب وہ دُنیا میں واپس جانے کی تمنا کریں گے ۔اسی کافرمایا جارہا ہے کہ کافر اگرچہ دنیا میں لوٹائے جانے اورایمان لانے کی تمنا ظاہر کررہے ہیں لیکن ان کے ایمان لانے کی تمنا سچی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پہلے جو یہ اپنا مشرک ہوناچھپا رہے تھے وہ ان پر کھل گیا ہے اور اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو پھر وہی کریں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بیشک یہ ضرور جھوٹے ہیں۔

وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ(29)وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْؕ-قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَاؕ-قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(30)

ترجمہ

اور انہوں نے کہا تھا کہ زندگی تو صرف دنیاوی زندگی ہی ہے اور ہمیں اٹھایا نہیں جائے گا۔ اور اگر تم دیکھو جب انہیں ان کے رب کی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا تو وہ فرمائے گا: کیا یہ حق نہیں ؟ توکہیں گے: کیوں نہیں ، ہمیں اپنے رب کی قسم ۔ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہاتھا۔} یہ ان کافروں کا مقولہ ہے جو قیامت کے منکر ہیں اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ جب سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو قیامت کے احوال اور آخرت کی زندگی، ایمانداروں اور فرمانبرداروں کے ثواب، کافروں اور نافرمانوں پر عذاب کا ذکر فرمایا تو کافر کہنے لگے کہ زندگی تو بس دنیا ہی کی ہے اور جب ہم مرنے کے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۱) کافروں کا تو عقیدہ ہی یہ تھا کہ زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد کوئی اٹھایا نہیں جائے گااور اسی اعتقادکی بنا پر ان کی زندگی غفلت کا شکار تھی لیکن مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ ان کا تو قطعی عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے گا، اعمال کا جواب دینا پڑے گا لیکن اس کے باوجود وہ غفلت میں پڑے ہیں ، یہ بڑی افسوس ناک صورت ہے چنانچہ اسی مفہوم میں بزرگوں نے بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔حضرت ابو جعفررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص پر بڑی حیرت ہے جو ہمیشگی کے گھر (جنت) کی تصدیق تو کرتا ہے لیکن کوشش دھوکے کے گھر (دنیا کو پانے اور اسے سنوارنے) کے لئے کرتا ہے۔ (کتاب الزہد لابن ابی الدنیا، ص۲۸، رقم: ۱۴)

         امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ’’اس شخص پر تعجب ہے جو احسان کرنے والے کی معرفت کے بعد اس کی نافرمانی کرتا ہے اور شیطان لعین کی سرکشی کو جاننے کے بعد اس کی اطاعت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان تفصیل مداخل الشیطان الی القلب، ۳ / ۴۷۔)

حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص پر تعجب نہیں ہوتا جو عمارت بنا کر چھوڑ جاتا ہے بلکہ اس پر تعجب ہوتا ہے جو اس عمارت کو دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۲)

         حضرت وہیب مکی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’کسی شخص کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہے کہ وہ دنیا میں ہنسے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی فریادیں ، گردشیں اور خوفناک مَناظر ہیں ، قریب ہے کہ سخت رعب اور خوف سے اس کے جسم کے جوڑ کٹ جائیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الثانی فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم ظنہم بنفسہم الہلاک۔۔۔ الخ، ص۱۰۹)

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَاۙ-وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ(31)

ترجمہ

بیشک ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آئے گی تو کہیں گے : ہائے افسوس اس پر جو ہم نے اس کے ماننے میں کوتاہی کی اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے ۔ خبردار، وہ کتنا برا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ:بیشک ان لوگوں نے نقصان اٹھایا جنہوں نے اپنے رب سے ملنے کو جھٹلایا ۔} یعنی جن کافروں نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اعمال کے حساب کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کو جھٹلایا تو انہوں نے اپنی جانوں کا ہی نقصان کیا کہ وہ لازوال نعمتوں کے گھر جنت سے محروم ہو جائیں گے اور جہنم کے دَرکات میں دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان منکروں پر اچانک قیامت آئے گی اور یہ اپنی ذلت و رسوائی کو دیکھیں گے تو کہیں گے : ہائے افسوس !ہمیں اس پر بہت ندامت ہے جو ہم نے دنیا میں قیامت کو ماننے میں کوتاہی کی اور اس دن پر ایمان لا کر اس لئے تیاری نہ کی اور نیک اعمال کرنے سے دور رہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۲، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۲۲، ملتقطاً۔)

{ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ:اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہوں گے۔}حدیث شریف میں ہے کہ کافر جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے سامنے نہایت قبیح بھیانک اور بہت بدبودار صورت آئے گی وہ کافر سے کہے گی: تو مجھے پہچانتا ہے؟ کافر کہے گا،نہیں،تو وہ کافر سے کہے گی :میں تیرا خبیث عمل ہوں ، دنیا میں تو مجھ پر سوار رہا تھا اور آج میں تجھ پر سوار ہوں گا اور تجھے تمام مخلوق میں رسوا کروں گا پھر وہ اس پر سوار ہوجائے گا۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۱۷۸، خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۲۔)

مسلمان کے اخروی خسارے کا سبب:

             قیامت کے دن کافر کا تویہ حال ہو گاجبکہ دنیا میں کئے گئے برے اعمال مسلمان کے لئے بھی اُخروی خسارے کا سبب بن سکتے ہیں چنانچہ حدیث میں ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’چار آدمی ایسے ہیں کہ وہ جہنمیوں کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنیں گے اوروہ کھولتے پانی اور آگ کے درمیان دوڑتے ہوئے ہلاکت وتباہی مانگتے ہوں گے۔ اُن میں سے ایک پر انگاروں کاصندوق لٹک رہا ہوگا، دوسرا اپنی آنتیں کھینچ رہا ہو گا، تیسرے کے منہ سے پیپ اور خون بہہ رہے ہوں گے اور چوتھا اپنا گوشت کھا رہا ہو گا۔ صندوق والے کے بارے میں جہنمی ایک دوسرے سے کہیں گے: ’’اس بدبخت کو کیا ہوا؟ اس نے تو ہماری تکلیف میں اور اضافہ کر دیا۔ صندوق والا یہ جواب دے گا ’’میں اس حال میں مرا کہ میری گردن پر لوگوں کے اموال کا بوجھ (یعنی قرض) تھا۔ پھر اپنی انتڑیاں  کھینچنے والے کے متعلق کہیں گے: اس بدبخت شخص کا معاملہ کیسا ہے جس نے ہماری تکلیف کو اور بڑھا دیا؟ تو وہ جواب دے گا ’’ میں کپڑوں کو پیشاب سے بچانے کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ پھر جس کے منہ سے خون اور پیپ بہہ رہی ہو گی،اس کے بارے میں کہیں گے: اس بدنصیب کا معاملہ کیا ہے جس نے ہماری تکلیف کو اور زیادہ کر دیا؟ وہ کہے گا’’میں بدنصیب بری بات کی طرف متوجہ ہوکر اس طرح لذت اُٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ پھر جو شخص اپنا گوشت کھا رہا ہوگا اس کے متعلق جہنمی کہیں گے: اس مردود کو کیا ہوا جس نے ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کر دیا؟ تو وہ جواب دے گا ’’ میں بد بخت غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتا اور چغلی کرتا تھا۔ (رسائل ابن ابی الدنیا، الصمت وآداب اللسان، باب الغیبۃ وذمہا، ۷ / ۱۳۲، رقم: ۱۸۷، حلیۃ الاولیاء، شفی بن ماتع الاصبحی، ۵ / ۱۹۰، رقم: ۶۷۸۶، الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی فی الکبائر الظاہرۃ، الکبیرۃ الثامنۃ والتاسعۃ بعد المائتین، ۲ / ۱۸-۱۹)

وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(32)

ترجمہ

اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ:اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔} ارشاد فرمایا کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے جسے بقا نہیں ، بہت جلد گزر جاتی ہے جبکہ نیکیاں اور طاعتیں اگرچہ مومنین سے دنیا ہی میں واقع ہوں لیکن وہ امور آخرت میں سے ہیں۔

         مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی ، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’’ دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں گزر جائے اور جو زندگی آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے میں صَرف ہو، وہ دنیا میں زندگی تو ہے مگر دنیا کی زندگی نہیں لہٰذا انبیاء و صالحین کی زندگی دنیا کی نہیں بلکہ دین کی ہے۔ غرضیکہ غافل اور عاقل کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے۔ (نور العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۰۸)

آخرت کو بھلا دینے والے دنیا داروں کی مثال

         امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس بات کو بڑے پیارے انداز میں سمجھایا ہے چنانچہ کیمیائے سعادت میں ارشاد فرماتے ہیں:دنیا داروں کا دنیوی کاروبار میں مشغول ہو کر آخرت کو بھلا دینے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی گروہ کشتی میں سوار ہوا اور وہ کشتی کسی جزیرے پر جا کر رُکی، لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ضروری حاجات سے فارغ ہونےکے لئے جزیرے پر اتر گئے۔ ملاح نے اعلان کیا: یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر صرف طہارت وغیرہ سے فارغ ہو کر جلدی واپس پلٹیں۔ جزیرے میں اترنے کے بعد لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے:

(1)…کچھ لوگ جزیر ے میں سیر و سیاحت اور اس کے عجائبات دیکھنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ انہیں کشتی میں واپس آنا یاد نہ رہا حتّٰی کے وہیں بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے اور درندوں کی غذا بنے۔

(2)…عقلمند لوگ اپنی حاجات سے جلدی فارغ ہو کر کشتی میں اپنی من پسند جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔

(3)…کچھ لوگ جزیرے کے انوار اور عجیب و غریب قسم کے پھولوں ، غنچوں ، شگوفوں ، وہاں کے پرندوں کے اچھے نغمات سنتے اور وہاں کے قیمتی پتھروں کو دیکھتے رہ گئے اور ان میں سے بعض ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے صرف دیکھنے پر ہی اِکتفا نہ کیا بلکہ وہاں سے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ ا ٹھا لائے۔ اب کشتی میں مزید جگہ تنگ ہوئی تو اپنے ساتھ لانے والی اشیاء کو کشتی میں رکھنے کی جگہ نہ پا سکے تو مجبوراً انہیں سروں پر اٹھانا پڑا۔ ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ان اشیاء کی رنگت میں تبدیلی شروع ہو گئی اور خوشبو کی بجائے اب بدبو آنے لگی ،اب انہیں کہیں پھینکنے کی جگہ بھی نہ تھی نادم و پشیمان اسی طرح اپنے سروں پر اٹھانے پر مجبور تھے۔

            پہلے گروہ کی مثال کفار و مشرکین اور بد عقیدہ لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو کلی طور پر دنیا کے سپرد کر دیا اور اسی کے ہو کر رہ گئے ،اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت کوفراموش کر دیا، انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں محبوب رکھا۔

       دوسرا گروہ ان عقلمندوں کا تھا جسے مومنین سے تعبیر کیا گیا، وہ طہارت سے فارغ ہوتے ہی کشتی میں سوار ہوئے اور عمدہ سیٹوں کو پا لیا( یعنی جنت کے مستحق ہوئے۔)تیسرے گروہ کی مثال خطاکاروں کی ہے کہ انہوں نے ایمان کو تو محفوظ رکھا مگر دنیا میں ملوث ہونے سے بچ نہ سکے۔(کیمیائے سعادت، عنوان سوم: معرفت دنیا، فصل چہارم، ۱ / ۹۵-۹۶، ملخصاً)

 

قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(33)

ترجمہ

ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تمہیں رنجیدہ کرتی ہیں تو بیشک یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں کاانکار کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَدْ نَعْلَمُ:ہم جانتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اخنس بن شریق او ر ابوجہل کی آپس میں ملاقات ہوئی تو اخنس نے ابوجہل سے کہا، اے اَبُوالْحَکَمْ! (کفار ابوجہل کو اَبُوالْحَکَمْ کہتے تھے) یہ تنہائی کی جگہ ہے اور یہاں کوئی ایسا نہیں جو میری تیری بات پر مطلع ہوسکے، اب تو مجھے ٹھیک ٹھیک بتا کہ محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچّے ہیں یا نہیں ؟ ابوجہل نے کہا کہ ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے شک سچّے ہیں ، کبھی کوئی جھوٹا حرف اُن کی زبان پر نہیں آیا مگر بات یہ ہے کہ یہ قُصَیْ (حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤاجداد میں سے ایک بزرگ ہیں ) کی اولاد ہیں اور حج اور خانہ کعبہ کے متعلق تو سارے اعزاز انہیں حاصل ہی ہیں ،اب نبوت بھی انہیں میں ہوجائے تو باقی قریشیوں کے لئے اعزاز کیا رہ گیا۔( تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۷۷۔)

            ترمذی شریف میں حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ’’ ابوجہل نے سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب نہیں کرتے ہم تو اس کتاب کی تکذیب کرتے ہیں جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لائے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانعام، ۵ / ۴۵، الحدیث: ۳۰۷۵۔) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم جانتے ہیں کہ ان کافروں کی باتیں آپ کو رنجیدہ کرتی ہیں لیکن آپ تسلی رکھیں کیونکہ  قوم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت کا اعتقاد رکھتی ہے ا سی لئے پوشیدہ طور پر یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے البتہ حسد اور عناد کی وجہ سے یہ ظالم لوگ علانیہ طور پر اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۱۳۔)

            اس آیت کے ایک معنیٰ یہ بھی ہوتے ہیں کہ’’ اے حبیب اکرم !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی تکذیب آیاتِ الٰہیہ کی تکذیب ہے اور تکذیب کرنے والے ظالم ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جھٹلانا ہے۔

وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَاۚ-وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِۚ-وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ(34)

ترجمہ

اورآپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور تکلیف دئیے جانے پر صبر کیایہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اورکوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں اور بیشک تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آ چکی ہیں ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ: اورآپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا۔} رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب ِ اطہر کی تسلی کیلئے فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ سے پہلے رسولوں کو جھٹلایا گیا تو انہوں نے جھٹلائے جانے اور تکلیف دئیے جانے پر صبر کیایہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور تکذیب کرنے والے ہلاک کئے گئے۔لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ بھی صبر کریں۔ کوئی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں اور اس کے حکم کو کوئی پلٹ نہیں سکتا۔ رسولوں کی نصرت اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا ہلاک ہونا اس نے جس وقت مقدر فرمایا ہے اس وقت ضرور ہوگا۔اور بیشک تمہارے دل کے سکون کے لئے تمہارے پاس رسولوں کی خبریں آچکی ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جانتے ہیں کہ انہیں کفار سے کیسی ایذائیں پہنچیں۔ یہ پیشِ نظر رکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دل مطمئن رکھیں۔ اس آیت میں مبلغین کیلئے بھی تسلی ہے کہ اگر انہیں راہِ تبلیغ میں مشقتیں پیش آئیں تو وہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکالیف کو یاد کرکے صبر اختیار کریں۔

وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَهُمْ بِاٰیَةٍؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(35)

ترجمہ

اور اگر ان کا منہ پھیرنا آپ پر شاق گزرتا ہے تو اگر تم سے ہوسکے توزمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کرکے ان کے پاس کوئی نشانی لے آؤ اوراگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کردیتا تو اے سننے والے! ہر گزبے خبر نہ بن۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكَ:اور اگر تم پر شاق گزرتا ہے۔}سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو بہت خواہش تھی کہ سب لوگ اسلام لے آئیں۔جو اسلام سے محروم رہتے ہیں ان کی محرومی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بہت شاق رہتی تھی ۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رنج و تکلیف سے بچانے کیلئے اس انداز میں فرمایا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب لوگوں کے ایمان لانے کی طرف سے امید منقطع فرمالیں اور یوں رنج و غم سے نجات پائیں ، چنانچہ اس پر جو فرمایا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر ان کافروں کا منہ پھیرنا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بے پناہ رحمت اور شفقت کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر شاق گزرتا ہے تو اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان لانے کی خاطرزمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کرکے ان کافروں کے پاس ان کی کوئی مطلوبہ نشانی لاسکتے ہیں تو لا کر دیکھ لیں۔ یہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تسلیم و رضا کے مقام پر رہ کر اس معاملے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حوالے کردیں اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کردیتا لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہیں کیا۔

اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ ﳳ-وَ الْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ(36)

ترجمہ

صرف وہ لوگ مانتے ہیں جو سنتے ہیں اور اللہ ان مردہ دلوں کو اٹھائے گا پھر اس کی طرف انہیں لوٹایا جائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ: صرف وہ لوگ مانتے ہیں جو سنتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ صرف وہ لوگ مانتے ہیں جو توجہ اور غور وفکر کے ساتھ دل لگا کر سمجھنے کیلئے سنتے ہیں جبکہ یہ کفار تو مردہ دل ہیں یہ کیا مانیں گے ۔آخرت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ان دل کے مردوں کو اٹھائے گا اورپھر اسی کی طرف انہیں لوٹایا جائے گا اوریہ اپنے اعمال کی جزا پائیں گے۔ وعظ و نصیحت کا اثر بھی تبھی ہوتا ہے جب آدمی ماننے اور عمل کرنے کے جذبے کے ساتھ توجہ کے ساتھ سنے ورنہ بے توجہی سے سننے کا نتیجہ عام طور پر کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔

وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(37)

ترجمہ

اور کہا: ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی؟ تم فرمادو کہ بیشک اللہ کسی نشانی کے اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} کفارِ مکہ نے کہا تھا کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ ان کے جواب میں اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم فرمادو کہ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے علم ہیں کہ اگر کوئی نشانی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اتار دی تو نہ ماننے کی صورت میں فوری طور پر ہلاک کردیے جائیں گے۔ کفار کی گمراہی اور ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ کثیر آیات و معجزات جو انہوں نے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشاہدہ کئے تھے اُن پر قناعت نہ کی اور سب سے مکر گئے اور ایسی نشانی طلب کرنے لگے جس کے ساتھ عذابِ الٰہی ہو جیسا کہ انہوں نے کہا تھا  ’’ اَللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنۡدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ یارب اگر یہ حق ہے تیرے پاس سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ (ابو سعود، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۱۴۶۔) اس پر انہیں فرمایا گیا کہ یہ جاہل ہیں اور جانتے نہیں کہ اس طرح کی نشانی کا اترنا ان کے لئے بلا و مصیبت ہے کہ انکار کرتے ہی ہلاک کردیئے جائیں گے اور اپنی موت خود اپنے منہ سے مانگ رہے ہیں۔ ان معجزات کا نہ اتارنا بھی حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت کی وجہ سے ہے۔

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ-مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ(38)

ترجمہ

اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں ۔ ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پھر یہ اپنے رب کی طرف ہی اٹھائے جائیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ:مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔} یعنی تمام جاندار خواہ وہ چوپائے ہوں یا درندےیا پرندے، سب تمہاری طرح اُمتیں ہیں۔ یہ مُماثَلَت تمام اعتبارات سے نہیں بلکہ بعض اعتبار سے ہے اور ان وجوہ کے بیان میں بعض مفسرین نے فرمایا کہ حیوانات تمہاری طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پہچانتے اور اسے واحدو یکتا جانتے، اس کی تسبیح پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ وہ مخلوق ہونے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ انسان کی طرح باہمی الفت رکھتے اور ایک دوسرے سے سمجھتے سمجھاتے ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ روزی طلب کرنے ،ہلاکت سے بچنے، نرمادہ کی امتیاز رکھنے میں تمہاری مثل ہیں۔ بعض نے کہا کہ پیدا ہونے ،مرنے، مرنے کے بعد حساب کے لئے اُٹھنے میں تمہاری مثل ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۱۵۔)

{ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی۔} یعنی جملہ علوم اور تمام ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ کا اس میں بیان ہے اور جمیع اشیاء کا علم اس میں ہے ۔اس کتاب سے یہ قرآنِ کریم مراد ہے یا لوحِ محفوظ۔ (جمل، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۴۵۔) اس سے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا علمِ کلی ثابت ہوا کیونکہ سارے علوم لوحِ محفوظ یا قرآن میں ہیں اور یہ کتابیں حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم میں ہیں۔

{ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ: پھر یہ اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے۔} تمام انسان، جانور، پرندے قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ۔ انسان تو جنت یا جہنم میں جائیں گے جبکہ جانور اور پرندوں کا حساب ہوگا اس کے بعد وہ خاک کردیئے جائیں گے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۷۸۔)

قیامت کے دن جانوروں کا بھی حساب ہو گاyuui

            اس سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن انسانوں اور جنوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا بھی حساب ہو گا۔ بعض احادیث میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے ،چنانچہ

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’  قیامت کے دن تم لوگ ضرور حق داروں کو ان کے حقوق سپرد کرو گے حتّٰی کہ بے سینگ بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۶۰(۲۵۸۲))

             حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’قیامت کے دن زمین کھچ کر چمڑے کی طرح دراز ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ انسانوں ،جنوں ، چوپایوں اور وحشی جانوروں الغرض تمام مخلوق کوجمع فرمائے گا، اس دن اللہ تعالیٰ جانوروں کے درمیان بھی قصاص رکھے گا یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا، پھر انہیں کہا جائے گا کہ تم سب مٹی ہو جاؤ۔ اس وقت کافر یہ تمنا کرے گا کہ کاش میں بھی مٹی ہو جاتا۔( مستدرک، کتاب الاہوال، جعل اللہ القصاص بین الدواب، ۵ / ۷۹۴، الحدیث: ۸۷۵۶)

وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِؕ-مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُؕ-وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(39)

ترجمہ

اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ بہرے اور گونگے ہیں ، اندھیروں میں ( ہیں ۔) اللہ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھے راستہ پر ڈال دے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں۔} ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ بہرے اور گونگے ہیں کیونکہ حق ماننا اور حق بولنا انہیں مُیَسَّر نہیں اوروہ  جہالت، حیرت اور کفر کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھے راستہ پر ڈال دے اور اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔

قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَۚ-اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(40)بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ(41)

ترجمہ

تم فرماؤ، بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آجائے توکیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر تم سچے ہو۔بلکہ تم اسی (اللہ ) کو پکارو گے تو اگراللہ چاہے تو وہ مصیبت ہٹا دے جس کی طرف تم اسے پکارو گے اور تم شریکوں کو بھول جاؤ گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان مشرکوں سے فرمائیں کہ بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آجائے توکیا اس وقت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اور جن کو دنیا میں معبود مانتے تھے اُن سے حاجت روائی چاہو گے ؟اگر تم  اپنے اس دعویٰ میں کہ معاذ اللہ بت معبود ہیں ، سچے ہو تو اس وقت انہیں پکارو مگر ایسا نہ کرو گے بلکہ تمام ہولناکیوں اور تکلیفوں میں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو پکارو گے تو اگراللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو تم سے وہ مصیبت ہٹادے جس کو دور کرنے کی طرف تم اسے پکارو گے اور اگر وہ چاہے تو اس مصیبت کو دور نہ کرے اور اس وقت تم ان بتوں کو بھول جاؤ گے جنہیں تم خدا عَزَّوَجَلَّ کا شریک قرار دیتے تھے اور  جنہیں اپنے اعتقاد ِباطل میں تم معبود جانتے تھے اور اُن کی طرف التفات بھی نہ کرو گے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ تمہارے کام نہیں آسکتے۔

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(42)

ترجمہ

اور بیشک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے تو انہیں سختی اور تکلیف میں گرفتارکردیا تاکہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا:اور ہم نے رسول بھیجے۔}ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے لیکن لوگ ان پر ایمان نہیں لائے تو ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں گرفتار کردیا اور فقرو اِفلاس اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کیا تاکہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں سے باز آئیں۔ اس سے معلوم ہوا  کہ دنیا میں تکالیف اور مصیبتیں بعض اوقات رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت بن جاتی ہیں کہ بندوں کو رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور صالحین کے درجات بلند کرتی ہیں۔

فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰـكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(43)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(44)

ترجمہ

تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے لیکن ان کے تودل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردئیے تھے۔پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا:تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو گڑگڑاتے}اس آیت اور اِس کے بعد والی آیت میں مجموعی طور پر یہ فرمایا گیا کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ گڑگڑاتے تاکہ ہم انہیں توبہ کا موقع دیتے لیکن ان کے تودل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردئیے تھے پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں اور وہ کسی طرح نصیحت قبول کرنے کی طرف نہ آئے ، نہ تو پیش آنے والی مصیبتوں سے اور نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نصیحتوں سے، توہم نے ان پر ہر چیز یعنی  صحت و سلامت اور وسعتِ رزق و عیش و غیرہ کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس عیش و عشرت پرخوش ہوگئے اور اپنے آپ کو اس کا مستحق سمجھنے لگے اور قارون کی طرح تکبر کرنے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا اور انہیں مبتلائے عذاب کردیا اور اب وہ ہر بھلائی سے مایوس ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی نعمت پر خوش ہونے کا حکم

            یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت پر خوش ہونا اگر فخر، تکبر اور شیخی کے طور پر ہو تو برا ہے اور کفار کا طریقہ ہے اور اگر شکر کے طور پر ہو تو بہتر ہے اور صالحین کا طریقہ بلکہ حکمِ الٰہی ہے، جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

 وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ  (والضحی: ۱۱)

  ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا  (یونس: ۵۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔

کفر اور گناہوں کے باوجود دنیوی خوشحالی کا اصلی سبب

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفر اور گناہوں کے باوجود دنیاوی راحتیں ملنا در اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل اور اس کا غضب و عذاب ہے کہ اس سے انسان اور زیادہ غافل ہو کر گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے بلکہ کبھی خیال کرتا ہے کہ گناہ اچھی چیز ہے ورنہ مجھے یہ نعمتیں نہ ملتیں اور یہ کفر ہے ۔

             حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے گناہوں کے باوجود ان کی پسند کے مطابق عطا فرما رہاہے تو یہ ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِستِدراج اور ڈھیل ہے ،پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیا پس اب وہ مایوس ہیں۔‘‘ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی، ۶ / ۱۲۲، الحدیث: ۱۷۳۱۳)

            حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خدا کی قسم ! جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وسعت عطا فرمائی اور اسے یہ خوف نہ ہو کہ کہیں اس میں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی کوئی خفیہ تدبیر نہ ہو تو بے شک ا س کا عمل ناقص اور اس کی فکر کمزور ہے اور جس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وسعت روک لی اور اس نے یہ گمان نہ کیا کہ وسعت روکنے میں اس کے لئے کوئی بھلائی ہو گی تو بے شک ا س کا عمل ناقص اور ا س کی فکر کمزور ہے۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۶۵، الجزء السادس۔)

            اس سے ان نام نہاد دانشوروں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو کافروں کی ترقی دیکھ کر اسلام سے ہی ناراض ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کی معیشت کا رونا روتے ہوئے انہیں کفار کی اندھی تقلید کادرس دیتے ہیں اور اسلامی شرم و حیا اور تجارت کے شرعی قوانین کو لات مارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاؕ-وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(45)

ترجمہ

پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اورتمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:تو ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔} ارشاد فرمایا کہ ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنے اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے گناہوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب کے سب ہلاک کردیئے گئے،ان میں سے کوئی باقی نہ چھوڑا گیا۔

{وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ:اورتمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اس پر کہ اس نے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کی جڑ کاٹ دی ۔ اس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ لوگ ظالموں کی ہلاکت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس کا شکر بجا لائیں۔ (تفسیر سمرقندی، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۴۸۵)

بے دینوں اور ظالموں کی ہلاکت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے:

             اس سے معلوم ہوا کہ گمراہوں ،بے دینوں اور ظالموں کی ہلاکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس پر شکر کرنا چاہئے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرتِ مبارکہ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں چنانچہ

            ابو جہل کے قتل پر حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدۂ شکر ادا کیا ۔ (سیرت حلبیہ، باب غزوۃ بدر الکبری، ۲ / ۲۳۶)

             عاشورہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا کہ اس دن فرعون ہلاک ہوا۔ (مسلم، کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء، ص۵۷۲، الحدیث: ۱۲۸(۱۱۳۰))

            حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یمامہ کی فتح اور مسیلمہ کذاب کے مرنے کی خبر ملنے پر سجدۂ شکر کیا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے جب( خارجیوں کے درمیان) ذُو الثَّدِیَّہ یعنی دو پستانوں والے مرد کو مردہ پایا تو سجدہ ٔشکر کیا۔ (فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو، ۱ / ۴۵۷)

             لہٰذا مؤمن کی وفات پر ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھئے اور موذی کافر کی موت پر’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ پڑھئے۔

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ(46)

ترجمہ

تم فرماؤ، (اے لوگو!) بھلا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جوتمہیں یہ چیزیں لادے گا؟ دیکھو ہم کیسے بار بار نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر (بھی) یہ لوگ منہ پھیر تے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اَرَءَیْتُمْ:تم فرماؤ، (اے لوگو!) بھلا بتاؤ۔}یہاں توحید ِ باری تعالیٰ کی دلیل پیش کی جارہی ہے اور فرمایا جارہا ہے کہ  اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے اور علم و معرفت کا تمام نظام درہم برہم ہوجائے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کون معبود ہے جوتمہیں یہ چیزیں لادے گا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں ، تو اب توحید پر قوی دلیل قائم ہوگئی کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی اتنی قدرت و اختیار والا نہیں تو عبادت کا مستحق صرف وہی ہے اور شرک بدترین ظلم وجرم ہے۔

{ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ:دیکھو ہم کیسے بار بار نشانیاں بیان کرتے ہیں۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں کہ کبھی ہم انہیں اپنی نعمتیں یاد دلا کر ایمان لانے کی ترغیب دیتے ہیں ، کبھی سابقہ امتوں پر آنے والے عذابات یاد دلا کر اور کبھی ا س بات سے ڈراتے ہیں کہ ہم چاہیں توان کے کانوں ،آنکھوں اور دلوں کو بے کار کر دیں اور کبھی ان کے سامنے اپنی اُلوہیت، قدرت اور وحدانیت پر دلائل پیش کرتے ہیں تاکہ یہ کسی طرح ایمان لے آئیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ یہ ان نشانیوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ (البحر المحیط، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۱۳۵، ملخصاً)

قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ(47)

ترجمہ

تم فرماؤ، بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اچانک یا کھلم کھلا اللہ کا عذاب آجائے تو ظالموں کے سواکون تباہ کیا جائے گا؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ:تم فرماؤ، بھلا بتاؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کاعذاب آنے کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں :

(1)… اچانک آنے والا عذاب۔ یہ وہ عذاب ہے جو پیشگی علامتوں کے بغیر آتا ہے اور ا س کے ذریعے کفار کو تباہ و برباد کر دیاجاتا ہے۔

(2)…کھلم کھلا آنے والا عذاب۔ یہ وہ عذاب ہے جس کے آنے سے پہلے اس کی علامتیں نمودار ہوتی ہیں تاکہ لوگ اگر اس عذاب سے بچنا چاہیں تو اپنے کفر اور سرکشی سے توبہ کر کے بچ سکتے ہیں اور اگر وہ توبہ نہ کریں تو انہیں عذاب میں مبتلا کر کے تباہ کر دیا جاتا ہے۔

وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(48)وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(49)

ترجمہ

اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہوتے ہیں تو جو ایمان لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان پرنہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو انہیں ان کی مسلسل نافرمانی کے سبب عذاب پہنچے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ:اور ہم رسولوں کواسی حال میں بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری  دینے والے ہوتے ہیں۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کو اس لئے نہیں بھیجتے کہ کفار ان سے اپنی من مرضی کے معجزات طلب کرتے پھریں بلکہ اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو اطاعت پر ثواب کی بشارت اور نافرمانی کرنے پر عذاب کی وعید سنائیں تو جو اپنے کفر کو چھوڑ کر ان پر ایمان لے آیا اور ا س نے اپنے اعمال کی اصلاح کر لی تو ان پر دنیوی یا اخروی عذاب کاکوئی خوف ہے اور نہ وہ ثواب ضائع ہونے کے اندیشے سے غمگین ہوں گے اور جنہوں نے ہماری ان آیتوں کو جھٹلایا جو ہمارے رسولوں نے ان کے سامنے بیان کیں تو انہیں ان کی مسلسل نافرمانی کے سبب عذاب پہنچے گا۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۳۲)

اخروی نجات کے لئے کیا چیز ضروری ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ اخروی نجات کے لئے ایمان اور نیک اعمال دونوں ضروری ہیں ،ایمان لانے کے بعد خود کونیک اعمال سے بے نیاز سمجھنے والے اور ایمان قبول کئے بغیر اچھے اعمال کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھنے والے دونوں احمقوں کی دنیاکے باسی ہیں البتہ ان دونوں صورتوں میں صاحب ِ ایمان قطعاً بے ایمان سے بہتر ہے۔

امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب بندہ ایمان لاتا ہے اور ا س کے بعد اچھے اعمال کرتا اور برائیوں سے باز رہتا ہے نیز امید اور خوف کے درمیان اس طرح مُتَرَدِّد رہتا ہے کہ اسے عمل قبول نہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے اور وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ وہ ہمیشہ نیک عمل نہ کر سکے اوراس کا خاتمہ اچھا نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی امید بھی رکھتا ہے کہ وہ اسے مضبوط او ر ثابت قول پر ثابت قدم رکھے گا،اس کے دین کوموت کی سختیوں سے بچائے گا حتّٰی کہ وہ توحید پر دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور باقی کی زندگی اس کے دل کو خواہشات سے محفوظ رکھے گا تاکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو ایسا آدمی عقلمند ہے لیکن ا س کے علاوہ لوگ دھوکے میں ہیں اور عنقریب عذاب کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون شخص سب سے زیادہ بھٹکا ہو اتھا اور کچھ وقت کے بعد اس کی خبر تم ضرور جان لو گے ،اس وقت وہ کہیں گے

’’ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ‘‘(سجدہ:۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ہمارے رب! ہم نے دیکھا اور سنا تو ہمیں واپس بھیج دے تاکہ نیک کام کریں ، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔  

یعنی ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ جس طرح زمین میں بیج ڈالے اور ہل چلائے بغیر فصل پیدا نہیں ہوتی اسی طرح آخرت میں اجر و ثواب اچھے عمل کے بغیر نہیں ملتا، اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں واپس بھیج دے ،ہم اچھے عمل کریں گے ، اب ہمیں تیری اس بات کی صداقت معلوم ہوگئی : ’’وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ(۳۹) وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى‘‘(نجم:۳۹،۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور یہ کہ انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جائے گی۔

(لیکن اس وقت ان کی یہ باتیں انہیں کوئی فائدہ نہ دیں گی اور نہ ہی انہیں واپس بھیجا جائے گا)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغرور، بیان ذم الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۲-۴۷۳)

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُؕ-اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ(50)

ترجمہ

۔ (اے حبیب!) تم فرمادو :میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے۔ تم فر ماؤ ،کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} کفار کا طریقہ تھاکہ وہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے طرح طرح کے سوال کیا کرتے تھے، کبھی کہتے کہ آپ رسول ہیں تو ہمیں بہت سی دولت اور مال دے دیجئے تاکہ ہم کبھی محتاج نہ ہوں اور ہمارے لئے پہاڑوں کو سونا کردیجئے ۔کبھی کہتے کہ گزشتہ اور آئندہ کی خبریں سنائیے اور ہمیں ہمارے مستقبل کی خبر دیجئے کہ کیا کیا پیش آئے گا؟ تاکہ ہم منافع حاصل کرلیں اور نقصانوں سے بچنے کیلئے پہلے سے انتظام کرلیں۔کبھی کہتے ہمیں قیامت کا وقت بتادیں کہ کب آئے گی؟ کبھی کہتے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیسے رسول ہیں جو کھاتے پیتے بھی ہیں اور نکاح بھی کرتے ہیں۔اُن کی اِن تمام باتوں کا اِس آیت میں جواب دیا گیا کہ تمہارا یہ کلام نہایت بے محل اور جاہلانہ ہے کیونکہ جو شخص کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہو اُس سے وہی باتیں دریافت کی جاسکتی ہیں جو اُس کے دعوے سے تعلق رکھتی ہوں ، غیر متعلق باتوں کا دریافت کرنا اور اُن کو اُس کے دعوے کے خلاف دلیل وحجت بنانا انتہا درجے کی جہالت ہے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما دیجئے کہ میرا دعویٰ یہ تو نہیں کہ میرے پاس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خزانے ہیں جو تم مجھ سے مال و ودلت کا سوال کرو اور اگرمیں تمہاری مرضی کے مطابق تمہارا دعویٰ پورا نہ کروں تو تم رسالت کے منکر ہوجاؤ اورنہ میرا دعویٰ ذاتی غیب دانی کا ہے کہ اگر میں تمہیں گزشۃ یا آئندہ کی خبریں نہ بتاؤں تو میری نبوت ماننے میں بہانہ کرسکو ۔ نیز نہ میں نے فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے کہ کھانا پینا اورنکاح کرنا قابلِ اعتراض ہو تو جن چیزوں کا دعویٰ ہی نہیں کیا، اُن کا سوال کرنا ہی بے موقع محل ہے اور ایسے سوال کو پورا کرنا بھی مجھ پر لازم نہیں۔ میرا دعویٰ تونبوت و رسالت کا ہے اور جب اس پر زبردست دلیلیں اور قوی بُرہانیں قائم ہوچکیں تو غیر متعلق باتیں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کا انکار کرنے والوں کا رد:

             اس سے صاف واضح ہوگیا کہ اس آیتِ کریمہ کوتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غیب پر مطلع کئے جانے کی نفی کے لئے سند بنانا ایسا ہی بے محل ہے جیسا کفار کا ان سوالات کو انکارِ نبوت کی دستاویز بنانا بے محل تھا ۔ مذکورہ بالاکلام کو پڑھنے کے بعد اب دوبارہ آیت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ، اسے پڑھیں اور غور کریں کہ کیا واقعی آیت میں یہی بیان نہیں کیا گیا ،فرمایا: (اے حبیب!) تم فرمادو :میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں خود غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتاہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو میری طرف آتی ہے اور یہی نبی کا کام ہے لہٰذا میں تمہیں وہی دوں گا جس کی مجھے اجازت ہوگی اور وہی بتاؤں گا جس کی اجازت ہوگی اوروہی کروں گا جس کا مجھے حکم ملا ہو۔ اس آیت سے حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ عطائی کی نفی کسی طرح مراد ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس صورت میں آیتوں میں تَعارُض کا قائل ہونا پڑے گا اور وہ بالکل باطل ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۱۷، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۳۲۲، جمل ، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۳۵۳، ملتقطاً۔)

             علامہ نظامُ الدین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ ارشاد ہوا کہ’’ اے نبی !فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ‘‘یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے میرے پاس نہیں ( بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں ) تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ہیں مگر حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں (اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ایسا فرمایا) اور وہ خزانے ’’تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم‘‘ ہیں ، حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ پھر فرمایا ’’میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو خود فرماتے ہیں ’’مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب کاعلم مجھے عطا کیا گیا۔ (تفسیر نیشاپوری، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۸۳۔)

            اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں ؟اس سے مراد یہ ہے کہ کیا مؤمن و کافر اور عالم و جاہل برابر ہیں یعنی ہرگز برابر نہیں ہیں۔

وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(51)

ترجمہ

اور اس قرآن سے ان لوگوں کو ڈراؤ جواس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کی طرف یوں اٹھایا جائے گا کہ اللہ کے سوا نہ ان کا کوئی حمایتی ہو گا اور نہ کوئی سفارشی۔(انہیں) اس امید پر( ڈراؤ) کہ یہ پرہیزگار ہوجائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ:اور اس قرآن سے انہیں ڈراؤ جنہیں خوف ہو۔}اس سے پہلے یہ بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامنصب بشارت دینا اور ڈر سنانا ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم  دیا کہ وہ بھی لوگوں کوڈر سنائیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس قرآن میں ذکر کئے گئے عذابات سے ان لوگوں کو ڈرائیں جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کی طرف یوں اٹھایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کاکوئی حمایتی اور سفارشی نہ ہو گا۔آپ لوگوں کو اس امید پر ڈرائیں کہ یہ کفر اور گناہوں کو چھوڑ کر پرہیز گار بن جائیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۵۳۹، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۴-۳۵، ملتقطاً۔)

قیامت کے دن شفاعت

          یاد رہے کہ قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقابلے میں کوئی کسی کا حمایتی اور سفارشی نہ ہوگا ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اجازت سے حمایتی و سفارشی ہوں گے جیسے انبیاء، اولیاء، شہداء، صلحاء، علماء اور حجاجِ کرام وغیرہا ،یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِذن اور ا س کی اجازت سے لوگوں کی حمایت اور سفارش کریں گے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی شفاعت تو واضح ہے۔ تبرکاً ،دیگر حضرات کی شفاعت سے متعلق 4احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

(1)…  حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے   روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تین جماعتیں شفاعت کریں گی۔ انبیاء پھر علماء پھر شہید لوگ۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الشفاعۃ، ۴ / ۵۲۶، الحدیث: ۴۳۱۳)

(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ شہید کے ستر اہلِ خانہ کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الشہید یشفع، ۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۲)

(3)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عالم اور عابد دونوں کو(قیامت کے دن) دوبارہ زندہ کیاجائے گا ، اس کے بعد عابد سے کہا جائے گا کہ تو جنت میں داخل ہو جا اور عالم کو حکم ہو گا کہ تم ابھی ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو۔ (شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرف مقدارہ، ۲ / ۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷)

(4)… حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مرفوعاً روایت ہے کہ’’ حاجی کی شفاعت اس کے خاندان کے چار سو افراد کے حق میں قبول کی جائے گی۔ (مسند البزار، مسند ابی موسی رضی اللہ عنہ، ۸ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۱۹۶)

وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ-مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(52)

ترجمہ

اوران لوگوں کو دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں ۔آپ پر ان کے حساب سے کچھ نہیں اور ان پر تمہارے حساب سے کچھ نہیں ۔ پھر آپ انہیں دور کریں تو یہ کام انصاف سے بعید ہے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ : اور ان لوگوں کو دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار کی ایک جماعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں آئی، اُنہوں نے دیکھا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اِردگرد غریب صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  کی ایک جماعت حاضر ہے جو ادنیٰ درجہ کے لباس پہنے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ ہمیں ان لوگوں کے پاس بیٹھتے شرم آتی ہے، اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی خدمت میں حاضر رہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کو منظور نہ فرمایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مجالسۃ الفقرائ، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۴۱۲۷، تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۸۱۔) اور فرمایا گیا کہ اِن مخلص وغریب صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اپنی بارگاہ سے دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں۔ ان غریب صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا رزق آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نہیں کہ غربت کی وجہ سے انہیں دور کردیا جائے اور نہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ سب کا حساب اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہے، وہی تمام خلق کو روزی دینے والا ہے اور اس کے سوا کسی کے ذمہ کسی کا حساب نہیں۔   

اس آیت کادوسرا معنیٰ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کفار نے غریب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن مراد لیا تھا کہ یہ تو غربت کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں کہ یہاں کچھ روزی روٹی کا انتظام ہوجاتا  ہے ، یہ مخلص نہیں ہیں۔ اس پر پہلے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِخلاص کا بیان فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا چاہتے ہوئے دن رات اس کی عبادت کرتے ہیں پھر فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ پر ان کے احوال کی تفتیش لازم نہیں کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مخلص ہیں یا نہیں ؟ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۵۴۲ ملتقطاً)بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کو اپنے فیضِ صحبت سے نوازتے رہیں اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ ضعیف فقراء جن کا اوپر ذکر ہوا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں قرب پانے کے مستحق ہیں انہیں دور نہ کرنا ہی بجا ہے۔

وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَاؕ-اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ(53)

ترجمہ

اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی کہ یہ کہیں : کیا یہ لوگ ہیں جن پرہمارے درمیان میں سے اللہ نے احسان کیا ؟کیا اللہ شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ: اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی۔} پہلی آیت کے حوالے سے یہاں فرمایا گیا کہ غریبوں کے ذریعے امیروں کی آزمائش ہوتی رہتی ہے اور گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کے ساتھ بھی یہ ہوتا تھا کہ مالدار کافر غریب مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کا مذاق اُڑاتے  اور ہمیشہ سے کفار کا یہ دستور رہا ہے کہ مسلمانوں کے فقر کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اسلام سچا اور کفر جھوٹا ہے تو مسلمان فقیر اور کفار مالدار کیوں ہیں ؟

غریبوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے نصیحت

     اس سے معلوم ہوا کہ امیری و غریبی کو حق کا پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا،نیز سابقہ آیت کے شانِ نزول اور اِس آیت کے درس سے بہت سے مذہبی لوگوں اور خود امیروں کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے زمانے میں بھی یہ رحجان موجود ہے کہ اگر امیر آتا ہے تو اس کی تعظیم کی جاتی ہے جبکہ غریب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غریب کی دل شکنی کی جاتی ہے اور امیر کے آگے بچھے بچھے جاتے ہیں اور خود امیروں کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمیں ذرا ہٹ کر ڈِیل کیا جائے اور ہمارے لئے اسپیشل وقت نکالا جائے اور ہمارے آنے پر مولوی آدمی ساری مصروفیت چھوڑ کر اس کے پیچھے پھرتا رہے۔ غریب آدمی پاس بیٹھ جائے تو امیر اپنے سٹیٹس کے خلاف سمجھتا ہے ، اُسے غریب کے کپڑوں سے بُو آتی ہے ، غریب کا پاس بیٹھنا اُس کی طبیعت خراب کردیتا ہے، غریب سے ہاتھ ملانا اُس امیر کے ہاتھ پر جراثیم چڑھا دیتا ہے۔ الغرض یہ سب باتیں غرور وتکبر کی ہیں ، ان سے بچنا لازم وضروری ہے۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور ایک مغرور امیر:

             ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اُن کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے ا س کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو صاحبِ خانہ کی اس مغرورانہ روش سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا خط بنانے کے لئے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: بھائی کریم بخش! کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ اب ان صاحب کے غصہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہو اور فوراً اٹھ کر چلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، ۱ / ۱۰۸ملخصًا)

            اپنی عادتوں پر غور کرکے ایک مرتبہ پھر اس آیت کا ترجمہ دیکھ لیں ، فرمایا: اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی تاکہ یہ (مالدار کافر غریب مسلمانوں کو دیکھ کر) کہیں : کیا یہ لوگ ہیں جن پرہمارے درمیان میں سے اللہ نے احسان کیا؟کیا اللہ شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا؟

وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَۙ-اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوْٓءًۢا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(54)

ترجمہ

اور جب آپ کی بارگاہ میں وہ لوگ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے فرماؤ: ’’ تم پر سلام‘‘ تمہارے رب نے اپنے ذمہ کرم پر رحمت لازم کرلی ہے کہ تم میں سے جو کوئی نادانی سے کوئی برائی کر لے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا:اور جب آپ کی بارگاہ میں وہ لوگ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ کی بارگاہ میں وہ لوگ حاضر ہوں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو آپ ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان کے ساتھ سلام کی ابتداء فرمائیں اور انہیں یہ بشارت دیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے فضل و احسان کرتے ہوئے اپنے ذمہ کرم پر رحمت لازم کرلی ہے کہ تم میں سے جو کوئی نادانی سے کوئی برائی کر لے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخشنے والا اور اس پر مہربانی فرمانے والا ہے۔(مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۳۲۳، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۳۸-۳۹، ملتقطاً)

نیک مسلمانوں کا احترام کرنا چاہئے:

اس سے معلوم ہوا کہ نیک مسلمانوں کا احترام اور ان کی تعظیم کرنی چاہئے اور ہر ایسی بات سے بچنا چاہئے جو ان کی ناراضی کا سبب بنے کیونکہ انہیں ناراض کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے ، جیساکہ حضرت عائذ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت سلمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سامنے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہہ دی پھر حضرت ابو بکر صدیق نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کو ا س کی خبر دی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے ابو بکر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا ،اگر تم نے انہیں ناراض کر دیا تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو ناراض کر دیا۔ پھر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے پاس گئے اور کہا: اے میرے بھائیو! میں نے تم کو ناراض کر دیا؟ انہوں نے کہا : نہیں اے بھائی ! اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال، ص۱۳۵۹، الحدیث: ۱۷۰ (۲۵۰۴))۔

وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ(55)

ترجمہ

اور اسی طرح ہم آیتوں کو مفصل بیان فرماتے ہیں اور اس لیے کہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ:اور اسی طرح ہم آیتوں کو مفصل بیان فرماتے ہیں۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کے سامنے ا س سورت میں اپنی وحدانیت کے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں ہم اسی طرح اپنی حجتوں اور دلائل کومفصل بیان فرماتے ہیں اور ہم قرآنِ مجید میں اطاعت گزاروں ،گناہ کے بعد توبہ کر لینے والوں کے اوصاف اور گناہ پر اڑے رہنے والوں کی صفات بیان کرتے ہیں تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور اس لئے یہ چیزیں بیان کرتے ہیں کہ مجرموں کاراستہ اور ان کا طریقہ واضح ہو جائے تاکہ ا س سے بچا جائے ۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۰، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۹، ملتقطاً)

اخروی کامیابی تک پہنچانے و الے راستے پر چلنے کی ترغیب:

اس سے معلوم ہو اکہ آدمی کو چاہئے کہ وہ فلاح و کامیابی کے راستے پر چلے اور وہاں تک پہنچے جہاں نیک لوگ پہنچے اور اس کا سب سے بہترین راستہ فوری طور پر اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا ہے۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’زندگی کی ہر گھڑی بلکہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا کوئی بدل نہیں ،وہ اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ تجھے ابدی سعادت تک پہنچا دے اور دائمی بدبختی سے بچا لے ا س لئے ا س سے زیادہ نفیس جوہر اور کیا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے غفلت میں ضائع کر دو گے توواضح نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں صرف کرو گے تو واضح طور پر ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر تم ا س مصیبت پر نہیں روتے تو یہ تمہاری جہالت ہے اور جہالت کی مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑ ھ کر ہے۔ (افسوس) لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ جاگ جائیں گے ،اس وقت ہر مفلس کو اپنے اِفلاس کا اور ہر مصیبت زدہ کو اپنی مصیبت کا علم ہو جائے گا لیکن ا س وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الرکن الاول فی نفس التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ عام فی الاشخاص۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۵)

مزید فرماتے ہیں ’’جب تم ان تین دہشت ناک باتوں پر ہمیشگی اختیار کرو گے اور رات دن کے ہر حصے میں ان کی یاد تازہ کرتے رہو گے تو تمہیں گناہوں سے ضرور سچی اور خالص توبہ نصیب ہو جائے گی:

(1)…گناہوں کی حد درجہ برائی بیان کرنا۔

(2)…اللہ تعالیٰ کی سزا کی شدت، دردناک عذاب، اس کی ناراضی اور ا س کے غضب و جلال کاذکر کرنا۔

(3)…اللہ تعالیٰ کے غضب و عذاب کی سختی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کمزوری اور ناتوانی کو یاد کرنا کہ جو شخص سورج کی تپش، سپاہی کے تھپڑ اور چیونٹی کے ڈنک کو برداشت نہیں کر سکتا تو وہ نارِ جہنم کی تپش، عذاب کے فرشتوں کے کوڑوں کی مار، لمبی گردنوں والے بختی اونٹوں کی طرح لمبے اور زہریلے سانپوں کے ڈنک اور خچر جیسے بچھوؤں کے ڈنک کیسے برداشت کر سکے گا۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ: عقبۃ التوبۃ، ص۳۳)

قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قُلْ لَّاۤ اَتَّبِـعُ اَهْوَآءَكُمْۙ-قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(56)

ترجمہ

تم فرماؤ: مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اس کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ تم فرماؤ، میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا۔ (اگر یوں ہوتا) تو میں بھٹک جاتا اور ہدایت یافتہ لوگوں سے نہ ہوتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ:تم فرماؤ: مجھے منع کیا گیا ہے۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہو ا کہ اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے اور اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے راستے پر چلنے سے منع فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کافروں سے فرما دیں کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اس کی عبادت کروں جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہو اور تمہارا ان کی عبادت کرنا بھی کسی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض خواہش پرستی اور اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی کی وجہ سے ہے کیونکہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ جمادات اور پتھر ہیں جن کامرتبہ انسان سے انتہائی کم ہے اور اعلیٰ مرتبے والے کا کم مرتبے والے کی عبادت کرنا ایسا کام ہے کہ عقل بھی اس کا رد کرتی ہے۔اگر میں نے تمہاری خواہشوں کی پیروی کی ہوتی تو میں راہ حق سے بھٹک جاتا اور ہدایت یافتہ لوگوں سے نہ ہوتا۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۷، ۵ / ۸)

قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖؕ-مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ(57)قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ(58)

ترجمہ

تم فرماؤ: میں تو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلایا ہے۔ جس (عذاب کے آنے) کی تم جلدی مچارہے ہووہ میرے پاس نہیں ، حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ وہ حق بیان فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم فرماؤ اگر وہ (عذاب) میرے پاس ہوتا جس کی تم جلدی مچا رہے ہوتو میرے اور تمہارے درمیان معاملہ ختم ہوچکا ہوتا اوراللہ ظالموں کوخوب جانتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمائیں کہ میں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور مجھے اس کی معرفت حاصل ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں جبکہ تم اس کے ساتھ اوروں کو شریک کر کے اسے جھٹلاتے ہو۔ یہاں روشن دلیل قرآن شریف، معجزات اور توحید کے واضح دلائل سب کو شامل ہیں۔

{ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ:جس کی تم جلدی مچارہے ہووہ میرے پاس نہیں۔}چونکہ کفار مذاق اڑانے کیلئے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کرتے تھے کہ ہم پر جلدی عذاب نازل کرائیے، اس آیت میں انہیں جواب دیا گیا اور ظاہر کردیا گیا کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ سوال کرنا نہایت غلط ہے کیونکہ عذاب نازل کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کا م ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نہیں۔ ہاں اگر سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کیلئے دعا کردیں تو بات جدا ہے جیسے حضرت نوح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے قومِ نوح تباہ ہوئی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے فرعون اور اس کی قوم تباہ ہوئی اور دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعاؤں سے ان کی قومیں تباہ ہوئیں ایسے ہی حبیب ِکریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے کفارِمکہ بھی برباد ہوجاتے۔ اگلی آیت میں مزید فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم فرماؤ اگروہ عذاب میرے پاس ہوتا جس کی تم جلدی مچارہے ہوتومیرے اور تمہارے درمیان معاملہ ختم ہوچکا ہوتااور  میں تمہیں ایک لمحے کی مہلت نہ دیتا اور تمہیں رب عَزَّوَجَلَّ کا مخالف دیکھ کر بے دریغ ہلاک کر ڈالتا، لیکن اللہ تعالیٰ حلیم وکریم ہے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا تو اس کی بارگاہ میں رجوع کرو، نہ کہ اس کے حلم و کرم کی وجہ سے جَری ہوجاؤ۔

وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(59)

ترجمہ

اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ ان کو صرف وہی جانتا ہے اور جو کچھ خشکی اورتری میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا اور نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے مگر وہ ان سب کو جانتا ہے۔ اور کوئی تر چیز نہیں اور نہ ہی خشک چیز مگر وہ ایک روشن کتاب میں ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ:اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔} تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے ’’یہ جو آیت میں فرمایا کہ ’’ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا ‘‘ اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۹، ۴ / ۷۳) اور تفسیر صاوی میں ہے:یہ آیتِ کریمہ اس بات کے منافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو بعض چیزوں کا علمِ غیب عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان:غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (تفسیر صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۵۸۶)

            علمِ غیب سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام ا حمد رضاخان کی کتاب ’’اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّہْ بِالْمَادَّۃِ الْغَیْبِیَّہْ ‘‘ (علم غیب کے مسئلے کا دلائل کے ساتھ تفصیلی بیان)اور فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں (1)’’اِزَاحَۃُ الْعَیْب بِسَیْفِ الْغَیْب ‘‘(علم غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اور بد مذہبوں کا رد ) (2) ’’خَالِصُ الْاِعْتقاد‘‘ (علم غیب سے متعلق120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب)

وَ هُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُكُمْ فِیْهِ لِیُقْضٰۤى اَجَلٌ مُّسَمًّىۚ-ثُمَّ اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(60)

ترجمہ

اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کماتے ہو اسے جانتا ہے پھر تمہیں دن کے وقت اٹھاتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہوجائے پھر اسی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے پھر وہ بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ:اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کمالِ علم کابیان ہوا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کمالِ قدرت کا بیان کیا جا رہاہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  وہی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور تمہاری قوتِ احساس زائل کر کے تمہیں میت کی طرح کر دیتا ہے  جس سے تم پر نیند مُسلَّط ہوجاتی ہے اور تمہارے تَصَرُّفات اپنے حال پر باقی نہیں رہتے۔ پھر وہ تمہیں دن کے وقت اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری زندگی کی مقررہ مدت پوری ہوجائے اور تمہاری عمر اپنی انتہا کو پہنچے، پھر مرنے کے بعد آخرت میں اسی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان اعمال کی جزا ء دے گاجو کچھ تم دن رات کیا کرتے تھے۔

            یہاں آیت میں پہلے نیند مسلط کرنے اور اس کے بعد بیدار کرنے کابیان ہوا، اس میں قیامت قائم ہونے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر واضح دلیل ہے کہ جو رب عَزَّوَجَلَّ ا س چیز پر قادر ہے کہ روز مرہ سونے کے وقت ایک طرح کی موت تم پر وارِدکرتا ہے جس سے تمہارے حواس اور ان کے ظاہری افعال جیسے دیکھنا، سننا، بولنا، چلنا پھرنا اور پکڑنا وغیرہ سب مُعَطَّل ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد پھر بیداری کے وقت وہی رب عَزَّوَجَلَّ تمام اعضاء کو ان کے تصرفات عطا فرما دیتا ہے اور وہ دیکھنا سننا، بولنا اور چلنا پھرنا وغیرہ شروع کر دیتے ہیں تو وہ رب عَزَّوَجَلَّ مخلوق کو ان کی حقیقی موت کے بعد زندگانی کے تصرفات عطا کر نے پر بھی قادر ہے ۔

وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ(61)

ترجمہ

اور وہی اپنے بندوں پرغالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے توہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ:اور وہی اپنے بندوں پرغالب ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام امور میں ہر طرح سے تصرف کرنے کی قدرت رکھتا ہے، وہی عطا کرتا اور وہی اپنی عطا روکتا ہے، وہی ملاتا اور وہی توڑتا ہے،وہی نفع و نقصان پہنچاتا ہے ،وہی عزت و ذلت دیتا ہے ،وہی زندگی اور موت دیتا ہے، اس کے فیصلے کو رد کرنے والا کوئی نہیں اور اس کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ نہیں۔(صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۵۸۸)ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘(یونس:۱۰۷)

 ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والانہیں۔اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

{ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً: اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔} ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بنی آدم کی نیکی او ربدی لکھتے رہتے ہیں ،انہیں کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہیں ،ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف۔ دائیں طرف کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف کافرشتہ برائیاں لکھتا ہے۔

گناہ کرنے والے غور کریں :

بندوں کو چاہئے کہ غور کریں اور بدیوں اور گناہوں سے بچیں کیونکہ ہر ایک عمل لکھا جاتا ہے اور روزِ قیامت وہ نامۂ اعمال تمام مخلوق کے سامنے پڑھا جائے گا تو گناہ کتنی رسوائی کا سبب ہوں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ پناہ دے۔ اسی کے پیشِ نظر امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے زبان کی حفاظت کے متعلق فرمایا: حضرت عطا بن ا بی رباح رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تم سے پہلے لوگ فضول کلام کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ لوگ کتابُ اللہ، سنت ِ رسول، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے اور اپنی ایسی حاجت جس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو کے علاوہ کلام کو فضول شمار کرتے تھے۔ کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ تمہارے دائیں بائیں دو محافظ فرشتے کراماً کاتبین بیٹھے ہیں

’’ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ‘‘(ق:۱۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔

کیا تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ تمہارا نامۂ اعمال جب کھولا جائے گا جو دن بھرصادر ہونے والی باتوں سے بھرا ہو گا، اور ان میں زیادہ تر وہ باتیں ہوں گی جن کا نہ تمہارے دین سے کوئی تعلق ہو گا نہ دنیا سے۔ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میرے ساتھ کوئی شخص بات کرتا ہے ،اسے جواب دینا شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ میری خواہش ہوتی ہے لیکن میں اس خوف سے اسے جواب نہیں دیتا کہ کہیں یہ فضول کلام نہ ہو جائے(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان عظیم خطر اللسان وفضیلۃ الصمت، الآفۃ الثانیۃ فضول الکلام، ۳ / ۱۴۱)۔{ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا: ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں۔} اِن فرشتوں سے مراد یا تو تنہا حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام ہیں،اس صورت میں جمع کالفظ (رُسُل) تعظیم کے لئے ہے یا حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اور وہ فرشتے مراد ہیں جو ان کے مددگار ہیں۔ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو حضرت ملکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے مددگاروں کو اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیتے ہیں ، جب روح حلق تک پہنچتی ہے تو خود قبض فرماتے ہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۳)اور ان سب فرشتوں کی شان میں فرمایا کہ یہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے یعنی تعمیلِ حکم میں اُن سے کوتاہی واقع نہیں ہوتی اور ان کے عمل میں سستی اور تاخیر راہ نہیں پاتی بلکہ وہ اپنے فرائض ٹھیک وقت پر ادا کرتے ہیں۔

ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّؕ-اَلَا لَهُ الْحُكْمُ- وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ(62)

ترجمہ

پھر انہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا جو ان کا مالک ِ حقیقی ہے۔ سن لو، اسی کا حکم ہے اور وہ سب سے جلد حساب کرنے والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ:پھر انہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔} یعنی جب لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے تو فرشتے انہیں حساب کی جگہ میں اس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی جزاء کی طرف لوٹائیں گے جو ان کے تمام امور کا حقیقی مالک ہے۔ اے لوگو! سن لو، قیامت کے دن بندوں کے درمیان اسی کا فیصلہ نافذ ہے کسی اور کا کوئی فیصلہ کسی بھی طرح نافذ نہیں ہو سکتا اور وہ انتہائی قلیل مدت میں تمام مخلوق کا حساب کرنے والا ہے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۴۶)

حساب ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لیا جائے:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’جب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا اور اعمال کا حساب ہوناہے اور اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ا س کے اعمال کا حساب لینا ہے تو عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ حساب کے معاملے میں جرح ہونے سے پہلے ہی اپنے نفس کا محاسبہ کر لے کیونکہ انسان راہِ آخرت میں تاجر ہے، اس کی عمر اس کا مال و متاع ہے، اس کا نفع اپنی زندگی کو عبادات اور نیک اعمال میں صرف کرنا ہے اور ا س کا نقصان گناہوں اور معاصی میں زندگی بسر کرنا ہے اور ا س کا نفس اس تجارت میں اس کا شریک ہے اور نفس اگرچہ نیکی اور برائی دونوں کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ نیکی کے مقابلے میں گناہوں اور نفسانی خواہشات کی طرف زیادہ مائل اور متوجہ ہوتا ہے اس لئے اس کا محاسبہ کرنا انتہائی ضروری ہے (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۴۶)۔ 

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’انسان کو چاہئے کہ رات سوتے وقت ایک گھڑی مقرر کرے تاکہ وہ اپنے نفس سے اس دن کا سارا حساب کتاب لے سکے اور جس طرح کاروبار میں شریک شخص سے حساب کرتے وقت (انتہائی احتیاط اور) مبالغہ سے کام لیا جاتاہے اسی طرح اپنے نفس کے ساتھ حساب کرتے ہوئے بہت سی احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ نفس بڑا مکار اور حیلہ ساز ہے، وہ اپنی خواہش کو انسان کے سامنے اطاعت کی شکل میں پیش کرتا ہے تاکہ انسان اسے بھی نفع شمار کرے حالانکہ وہ نقصان ہوتا ہے اور انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس سے مباحات تک کا حساب لے کہ یہ تونے کیوں کیا، یہ تو نے کس کے لئے کیا اور اگراس میں کوئی عیب دیکھے تو اپنے نفس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے (لیکن افسوس کہ فی زمانہ) انسان کس طرح فارغ ہے کہ وہ اپنے نفس سے حساب نہیں لیتا، اگر انسان ہر گناہ پر اپنے گھر میں ایک پتھر بھی رکھتا جائے تو تھوڑے دنوں میں اس کا گھر پتھروں سے بھر جائے گا، اگر کراماً کاتبین اس انسان سے لکھنے کی مزدوری طلب کریں تو ا س کے پا س کچھ باقی نہ رہے گا۔ اگر انسان کبھی غفلت میں چند بار سُبْحَانَ اللہ پڑھتا ہے تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے میں نے یہ سو مرتبہ پڑھ لیا جبکہ سارا دن بیہودہ بکواسات کرتا پھرتا ہے انہیں شمار نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں شمار کرنے کے لئے کوئی ایسی چیز ہاتھ میں لیتا ہے تاکہ ا سے معلوم ہو جائے کہ میں نے سارے دن میں کتنے گناہ کئے ہیں۔ اس صورتِ حال کے باوجود یہ سوچنا کہ میرا نیکیوں کا پلڑ اوزنی ہو جائے کتنی بے عقلی ہے! اسی لئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال تولے جائیں تم اپنے اعمال کا خود جائزہ لے لو۔ اور اپنا محاسبہ کرنے میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کیفیت یہ تھی کہ جب رات ہوتی تو اپنے پاؤں پر درے لگاتے اور کہتے کہ بتا تو نے آج کیا کیا۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک دیوار کے پیچھے یہ کہتے ہوئے سنا ’’واہ واہ! لوگ تجھے امیرُ المؤمنین کہتے ہیں لیکن خدا کی قسم ! تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور اس کے عذاب میں مبتلا ہونے کو تیار رہتا ہے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ششم در محاسبہ ومراقبہ، مقام سوم در محاسبات، ۲ / ۸۹۱-۸۹۲) 

قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًۚ-لَىٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ(63)قُلِ اللّٰهُ یُنَجِّیْكُمْ مِّنْهَا وَ مِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ(64)

ترجمہ

تم فرماؤ ،وہ کون ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر کی ہولناکیوں سے نجات دیتا ہے ؟ تم اسے گڑگڑا کر اور پوشیدہ طور پر پکارتے ہو (اورتم کہتے ہو کہ) اگر وہ ہمیں اس سے نجات دیدے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے۔ تم فرماؤ، اللہ تمہیں ان ہولناکیوں سے اور ہر بے چینی سے نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں کفار کو ان کے شرک پرتنبیہ کی گئی ہے کیونکہ خشکی اور تری کے سفروں میں جب وہ مبتلائے آفات ہو کر پریشان ہوتے ہیں اور انہیں ایسی شدتوں اور ہولناکیوں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے دل کانپ جاتے ہیں اور خطرات قلوب کو مضطرب اور بے چین کردیتے ہیں اس وقت بت پرست بھی بتوں کو بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سے دُعا کرتا ہے اور اُسی کی جناب میں تَضَرُّع وزاری کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مصیبت سے اگر تونے نجات دی تو میں شکر گزار ہوں گا اور تیرا حقِ نعمت بجالاؤں گا لیکن ہوتا کیا ہے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں بتاؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں ان ہولناکیوں سے اور اس کے علاوہ زندگی کی ہر بے چینی سے نجات دیتا ہے لیکن پھر بھی تم لوگ شرک کرتے ہو اور بجائے شکر گزاری کے ایسی بڑی ناشکری کرتے ہو اور یہ جانتے ہوئے کہ بت نکمے ہیں ،کسی کام کے نہیں پھر اُنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک کرتے ہو ، یہ کتنی بڑی گمراہی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا میں کفار کی بعض دعائیں قبول ہو جاتی ہیں کہ کفار جو مصیبت میں پھنس کر نجات کی دعا کرتے تھے، رب عَزَّوَجَلَّ انہیں نجات دے دیتا تھا، شیطان نے اپنی درازیٔ عمر کی دعا کی جو قبول ہوئی۔

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ(65)

ترجمہ

تم فرماؤ وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا مختلف گروہ بنا کر آپس میں لڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس طرح بار بار آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ جائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هُوَ الْقَادِرُ: وہی قادر ہے۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تمہارے شرک کی وجہ سے تم پر تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمادے جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور اصحابِ فیل یعنی ابرہہ کے لشکر کے ساتھ کیا گیا، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب بھیجے جیسے فرعون کو غرق کیا گیا اور قارون کو زمین میں دھنسا دیا گیا، یا مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑا دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں کہ ہم کس طرح قرآن مجید میں بار بار مختلف انداز سے وعدہ اور وعید کی آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ جائیں اور اپنی سرکشی و عناد سے باز آ جائیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۵، ۵ / ۲۰، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)

مسلمانوں کی باہمی لڑائی کا ایک سبب:

            یاد رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ جاریہ ہے کہ وہ (اپنی نافرمانی کرنے کی سزا میں ) مسلمانوں کو کافروں سے اور کافروں کو مسلمانوں سے لڑوا دیتا ہے اسی طرح کافروں کو کافروں سے اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوا دیتا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ’’ جب آیت کا یہ حصہ نازل ہوا کہ’’ وہ قادر ہے تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے‘‘ تو سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ حصہ نازل ہوا کہ’’ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے‘‘ تو فرمایا، میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ حصہ نازل ہوا’’ یا تمہیں لڑوا دے مختلف گروہ کرکے اور ایک کو دوسرے کی سختی چکھائے‘‘ تو فرمایا: یہ آسان ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۱، الحدیث: ۴۶۲۸)

            اور صحیح مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجدِ بنی معاویہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد طویل دُعا کی پھر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تین سوال کئے ان میں سے صرف دو قبول فرمائے گئے ۔ ایک سوال تو یہ تھا کہ’’ میری اُمّت کو قحط عام سے ہلاک نہ فرمائے‘‘ یہ قبول ہوا۔دوسرا یہ تھا کہ’’ انہیں غرق کرکے عذاب نہ دے‘‘یہ بھی قبول ہوا۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ’’ ان میں باہم جنگ و جدال نہ ہو ‘‘یہ قبول نہیں ہوا ۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الامۃ بعضہم ببعض، ص۱۵۴۴، الحدیث: ۲۰(۲۸۹۰))

وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّؕ-قُلْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍﭤ(66)

ترجمہ

اور تمہاری قوم نے اس کو جھٹلایا حالانکہ یہی حق ہے۔ تم فرماؤ، میں تم پر نگہبان نہیں ہوں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ: اور تمہاری قوم نے اس کو جھٹلایا۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی قوم کے سرکش لوگوں نے اسے یعنی قرآن شریف کو یا نزولِ عذاب کو جھٹلایا حالانکہ وہ حق ہے ۔ تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم ان سے فرما دو کہ ’’میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ہوں بلکہ میرا کام رہنمائی کرنا ہے جو میں نے احسن طریقے سے سر انجام دے دیا ہے جبکہ دلوں کی ذمہ داری مجھ پر نہیں کہ اگر تم ہدایت نہ پاؤ تو مجھ سے باز پرس ہو۔

لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ٘-وَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(67)

ترجمہ

ہر خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم جان جاؤ گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ: ہر خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔}  یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جو خبریں دیں اُن کے لئے وقت معین ہیں ،ان کا وقوع کسی تاخیر کے بغیر ٹھیک اسی وقت ہوگا اور عنقریب تم دنیا و آخرت میں ان خبروں کے درست ہونے کو جان لو گے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۵)

گناہوں پر اصرار نہ کیا جائے:

         اس سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں کافروں اور گناہگاروں کے لئے عذابات کی جو خبریں دی ہیں ان کا اپنے وقت پرواقع ہونا یقینی ہے ،یہ اعلان سننے کے بعد بھی کفر پر اڑے رہنا اور گناہوں میں مشغول رہنا حد درجہ کی حماقت ہے لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کفر اور گناہوں پر اصرار کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر خود کو ہلاکت سے بچا لے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ (گناہوں پر) اصرار کرنے والے ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنے گناہوں پر قائم ہیں (اور اس کے باوجود وہ توبہ و استغفار نہیں کرتے) حالانکہ وہ جانتے ہیں (کہ ان کافعل گناہ ہے ۔) (شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الطبع علی القلب، ۵ / ۴۴۹، الحدیث: ۷۲۳۶)

وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(68)

ترجمہ

اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا: جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں۔} اِس آیتِ مبارکہ میں کافروں ، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا گیا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاؤ تو یاد آنے پر اٹھ جاؤ۔

بد مذہبوں کی محفلوں میں جانے اور ان کی تقاریر سننے کا شرعی حکم:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے دینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کفار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ، ان میں جانا، شرکت کرنا جائز نہیں۔  حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں ، نہ تمہارے باپ داداؤں نے ، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

         البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کارد کرنے کیلئے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔ ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر، اچھی باتیں چننے کا زعم رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔ عین ممکن بلکہ اکثر طور پر واقع ہے کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح ووضاحت کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں ، اور قوی خدشہ بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے ،لہٰذا باوجودیہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلِّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔ کہا، کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ۔ اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا، ’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے۔ فرمایا، یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔

امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دو بد مذہب آئے۔ عرض کی، کچھ آیاتِ کلام اللہ آپ کو سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں ! فرمایا، میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا، تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔ آخر وہ خائب و خاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی: اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟ فرمایا، میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں۔

پھر فرمایا ’’ائمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہْ۔ دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی،’’اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان (بدمذہبوں ) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی،

’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘(انعام: ۶۸)

یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے۔

بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۱۰۶ ، ۱۰۷ ملخصاً)

وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰـكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(69)

ترجمہ

اور پرہیز گاروں پر گمراہوں کے حساب سے کچھ نہیں لیکن نصیحت کرنا ہے تاکہ وہ بچیں ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ:اور پرہیز گاروں پر ان کے حساب سے کچھ نہیں۔}اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مسلمانوں نے کہا تھا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر ہم ان گمراہوں کو چھوڑ دیں گے اور منع نہ کریں گے تو ہم گناہگار ہوجائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۸۷)اور فرمایا گیا کہ پرہیز گاروں پر ان مذاق اڑانے والوں کے حساب سے کچھ بھی لازم نہیں بلکہ طعن و اِستہزاء کرنے والوں کے گناہ اُنہیں پر ہیں اور اُنہیں سے اس کا حساب ہوگا، پرہیزگاروں پرکوئی وبال نہیں۔ہاں پرہیزگاروں پر یہ لازم ہے کہ انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ وعظ و نصیحت اور اظہارِ حق کے لئے ان کے پاس بیٹھنا جائز ہے لیکن یہ علماء کا کام ہے عوام کا نہیں۔

وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ ذَكِّرْ بِهٖۤ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ ﳓ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌۚ-وَ اِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْاۚ-لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ(70)

ترجمہ

اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنا دین ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور قرآن کے ذریعے نصیحت کرو تاکہ کوئی جان اپنے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد نہ کردی جائے، اللہ کے سوا نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا اورنہ ہی سفارشی اور اگر وہ اپنے بدلے میں سارے معاوضے دیدے تو اس سے نہ لیے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد کردیا گیا۔ ان کے لئے ان کے کفر کے سبب کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا:اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنا دین ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے معاشرتی تعلقات اور میل جول چھوڑ دیں جنہوں نے اپنے دین کو ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور اس کی محبت ان کے دلوں پر غالب آ گئی اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قرآن کے ذریعے انہیں نصیحت کریں تاکہ کوئی جان اپنے دنیوی برے اعمال کی وجہ سے آخرت میں ثواب سے محروم اورہلاکت کے سپرد نہ کردی جائے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوا نہ اس ہلاک ہونے والے کا کوئی مددگار ہو گا اورنہ ہی سفارشی اور اگر وہ پکڑے جانے والا شخص اپنے عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں سارے معاوضے دیدے تو وہ اس سے نہ لیے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد کردیا گیا اور ان کے لئے ان کے کفر کے سبب کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵-۲۶)

گناہوں پر اصرار حالت کفر میں موت کا سبب بن سکتا ہے:

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’ یاد رکھیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر ہے اور کفر کی سزا جہنم کا دائمی دردناک عذاب ہے اسی طرح کسی مسلمان کا گناہوں پر اصرار کرنا بھی ایسا عمل ہے جس سے اس کی موت کفر کی حالت میں ہو سکتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق فزاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک شخص اکثر ہمارے پاس بیٹھا کرتا اور اپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتا تھا، ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تم ہمارے پاس بکثرت بیٹھتے ہو اوراپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتے ہو ،مجھے ا س کی وجہ بتاؤ۔ اس نے کہا: میں کفن چور تھا، ایک دن ایک عورت کو دفن کیا گیا تو میں اس کی قبر پر آیا، جب میں نے ا س کی قبر کھود کر اس کے کفن کو کھینچا تو ا س نے ہاتھ اٹھا کر میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ پھر اس شخص نے اپناچہرہ دکھایا تو اس پر پانچ انگلیوں کے نشان تھے۔ میں نے اس سے کہا: اس کے بعد کیا ہوا؟ اس نے کہا :پھر میں نے ا س کا کفن چھوڑ دیا اور قبر بند کر کے اس پر مٹی ڈال دی اور میں نے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کسی کی قبر نہیں کھودوں گا۔ حضرت ابو اسحاق فزاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے یہ واقعہ امام اوزاعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اس سے پوچھو: جن مسلمانوں کا انتقال ہوا کیاان کا چہرہ قبلے کی طرف تھا ؟میں نے اس کے بارے میں اُ س کفن چور سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا چہرہ قبلے سے پھرا ہوا تھا۔ میں نے اس کا جواب امام اوزاعی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے تحریر بھیجی جس پر تین مرتبہ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ‘‘ لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں یہ تحریر تھا ’’جس کا چہرہ قبلے سے پھرا ہو اتھا اس کی موت دینِ اسلام پر نہیں ہوئی ،تم اللہ تعالیٰ سے اس کے عفو، مغفرت اور اس کی رضا طلب کرو۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۵۱)

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ۪-لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَاؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(71)وَ اَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّقُوْهُؕ-وَ هُوَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(72)وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ ﱟ قَوْلُهُ الْحَقُّؕ-وَ لَهُ الْمُلْكُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِؕ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ(73)

ترجمہ

تم فرماؤ، کیا ہم اللہ کے سوا اس کی عبادت کریں جونہ ہمیں نفع دے سکتا ہے اور نہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے ؟ اور کیااس کے بعد ہم الٹے پاؤں پھر جائیں جب کہ ہمیں اللہ نے ہدایت دی ہے اس شخص کی طرح (الٹے پاؤں پھر جائیں ) جسے شیطانوں نے زمین میں راستہ بھلا دیا ہو وہ حیران ہے، اُس کے ساتھی اسے راستے کی طرف بلا رہے ہیں کہ ادھر آؤ۔ تم فرماؤ کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ہے کہ ہم اس کے لیے گردن رکھ دیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔۔ اور یہ کہ نماز قائم رکھو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے جس کی طرف تمہیں اٹھایا جائے گا۔ اور وہی ہے جس نے حق کے ساتھ آسمان و زمین بنائے اور جس دن فنا کی ہوئی ہر چیز کو وہ فرمائے گا: ’’ہو جا‘‘ تو وہ فوراً ہوجائے گی۔ اس کی بات سچی ہے جس دن صور میں پھونکا جائے گا اس دن اسی کی سلطنت ہے (وہ) ہر چھپے اور ظاہر کو جاننے والا ہے اور وہی حکمت والا، خبردار ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مصطفٰی کریم ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو اپنے باپ دادا کے دین کی دعوت دیتے ہیں اُن مشرکین سے فرماؤ کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی عبادت کریں جونہ ہمیں نفع دے سکتا ہے اور نہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے  اور اس میں کوئی قدرت نہیں اور کیااس کے بعد ہم الٹے پاؤں پھر جائیں جب کہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہدایت دی ہے اور اسلام اور توحید کی نعمت عطا فرمائی ہے اور بت پرستی کے بدترین وبال سے بچایاہے۔

{ وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا: اور کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں۔}اس آیت میں حق اور باطل کی دعوت دینے والوں کی ایک تمثیل بیان فرمائی گئی کہ جس طرح مسافر اپنے رفیقوں کے ساتھ تھا، جنگل میں بھوتوں اور شیطانوں نے اس کو راستہ بہکا دیا اور کہا منزلِ مَقصُود کی یہی راہ ہے اور اس کے رفیق اس کو راہِ راست کی طرف بلانے لگے، وہ حیران رہ گیاکہ کدھر جائے۔  اس کاانجام یہی ہوگا کہ اگر وہ بھوتوں کی راہ پر چل پڑا تو ہلاک ہوجائے گا اور رفیقوں کا کہا مانا تو سلامت رہے گا اور منزل پر پہنچ جائے گا ۔یہی حال اس شخص کا ہے جو طریقہ اسلام سے بہکا اور شیطان کی راہ چلا ،مسلمان اس کو راہِ راست کی طرف بلاتے ہیں اگر اُن کی بات مانے گا راہ پائے گا ورنہ ہلاک ہوجائے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۶-۲۷)

{ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى: اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ہدایت ہی ہدایت ہے۔جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے واضح فرمایا اور جو دینِ اسلام اُن کے لئے مقرر کیا وہی ہدایت و نور ہے اور جو اِس کے سوا ہے وہ دینِ باطل ہے اور ہمیں حکم ہے کہ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے گردن رکھ دیں اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور خاص اسی کی عبادت کریں۔

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(74)

ترجمہ

اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے فرمایا، کیا تم بتوں کو (اپنا) معبود بناتے ہو۔ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ سے فرمایا۔} یہ آیت مشرکینِ عرب پر حجت ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قابلِ تعظیم جانتے تھے اور اُن کی فضیلت کے معترف تھے انہیں دکھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت پرستی کو کتنا بڑا عیب اور گمراہی بتاتے ہیں اور اپنے چچا آزر سے فرما رہے ہیں کہ کیا تم بتوں کو اپنا معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔ تو جب حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بتوں سے اس قدر نفرت کرتے ہیں تو اے اہلِ مکہ! اگر تم ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومانتے ہو تو تم بھی بت پرستی چھوڑ دو۔

آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا یا باپ:

            یہاں آیت میں آزر کیلئے ’’اَبْ‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا ایک معنی ہے ’’باپ‘‘ اور دوسرا معنی ہے ’’چچا‘‘  اور یہاں اس سے مراد چچا ہے، جیسا کہ قاموس میں ہے : آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے۔ (القاموس المحیط، باب الراء، فصل الہمزۃ، ۱ / ۴۹۱، تحت اللفظ: الازر)

            اور امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاء ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ نیزچچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اور قرآن و حدیث میں بھی چچا کو باپ کہنے کی مثالیں موجود ہیں ، جیساکہ قرآنِ کریم میں ہے

’’ نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘(بقرہ:۱۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ و اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے۔

          اس میں حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں۔ اور حدیث شریف میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ‘‘ میرے باپ کو میرے پاس لوٹا دو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث فتح مکۃ، ۸ / ۵۳۰، الحدیث:۳) یہاں ’’اَبِی ْ‘‘ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مراد ہیں جو کہ حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں۔

وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ(75)

ترجمہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں اور اس لیے کہ وہ عینُ الیقین والوں میں سے ہوجائے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ  جس طرح حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دین میں بینائی عطا فرمائی ایسے ہی ہم انہیں آسمانوں اور زمین کے ملک دکھاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے آسمانوں اور زمین کی مخلوق مراد ہے۔ حضرت مجاہد اور حضرت سیدنا سعید بن جبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ اس سے آسمانوں اور زمین کی نشانیاں مراد ہیں اور وہ اِس طرح کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیتُ المقدس کے صَخرہ پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے لئے تمام آسمانوں کا مشاہدہ کھول دیا گیا یہاں تک کہ آپ نے عرش و کرسی اور آسمانوں کے تمام عجائب اور جنت میں اپنے مقام کو معائنہ فرمایا پھر آپ کے لئے زمین کا مشاہدہ کھول دیا گیا یہاں تک کہ آپ نے سب سے نیچے کی زمین تک نظر کی اور زمینوں کے تمام عجائبات دیکھے ۔ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ رُویت باطنی نگاہ کے ساتھ تھی یا سر کی آنکھوں سے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۲۸)

            پھر اس معراجِ ابراہیمی کا مقصد بیان فرمایا کہ ہم نے یہ نشانیاں انہیں اس لئے دکھائیں کہ وہ دیکھ کر یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں  کیونکہ ہر ظاہر و مخفی چیز اُن کے سامنے کردی گئی اور مخلوق کے اعمال میں سے کچھ بھی ان سے نہ چھپا رہا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عظیم معراج ہوئی  مگر ہمارے آقا، حضور سیدُالعالمین، محمد رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس سے بہت بڑھ کر معراج ہوئی حتّٰی کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ’’ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى ‘‘کے مقام پر فائز ہوگئے۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ(76)فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ(77)فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(78)

ترجمہ

پھر جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا تو ایک تارا دیکھا، فرمایا : کیا اسے میرا رب ٹھہراتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔ پھر جب سورج کو چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ : تو جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا۔} مفسرین اور مؤرخین کا بیان ہے کہ نمرود بن کنعان بڑا جابر بادشاہ تھا، سب سے پہلے اُسی نے تاج سر پر رکھا۔ یہ بادشاہ لوگوں سے اپنی پوجا کرواتا تھا، کاہن اور نجومی بڑی کثرت سے اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے۔ نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا ہے اور اس کی روشنی کے سامنے آفتاب وماہتاب بالکل بے نور ہوگئے۔ اس سے وہ بہت خوف زدہ ہوااور اس نے کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال تیری سلطنت میں ایک فرزند پیدا ہوگا جو تیرے ملک کے زوال کا باعث ہوگا اور تیرے دین والے اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوں گے۔ یہ خبر سن کر وہ پریشان ہوا اور اُس نے حکم دیا کہ جو بچہ پیدا ہو قتل کر ڈالا جائے اور مرد عورتوں سے علیحدہ رہیں اور اس کی نگہبانی کے لئے ایک محکمہ قائم کردیا گیا مگر تقدیرات ِالٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ حاملہ ہوئیں اور کاہنوں نے نمرود کو اس کی بھی خبر دی کہ وہ بچہ حمل میں آگیا لیکن چونکہ حضرت کی والدہ صاحبہ کی عمر کافی کم تھی ان کا حمل کسی طرح پہچانا ہی نہ گیا۔ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ اس تہ خانے میں چلی گئیں جو آپ کے والد نے شہر سے دور کھود کر تیار کیا تھا، وہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی اور وہیں آپ رہے۔ پتھروں سے اس تہ خانہ کا دروازہ بند کردیا جاتا تھا، روزانہ والدہ صاحبہ دودھ پلا آتی تھیں اور جب وہاں پہنچتی تھیں تو دیکھتی تھیں کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی انگلی کا کنارہ چوس رہے ہیں اور اس سے دودھ برآمد ہوتا ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت جلد بڑھتے تھے۔ اس میں اختلاف ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تہ خانہ میں کتنا عرصہ رہے، بعض کہتے ہیں سات برس اور بعض نے کہا کہ تیرہ برس اور بعض نے کہا کہ سترہ برس رہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۲۹-۳۰)

اسلامی عقیدہ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ :

          یہ مسئلہ یقینی ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر حال میں معصوم ہوتے ہیں اور وہ شروع ہی سے ہر وقت معرفت ِ الٰہی سے شناسا ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کی تفسیر سمجھنے کیلئے قرآنِ پاک میں بیان کردہ واقعے کو ذیل میں ذرا تفصیل سے پڑھئے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ابتدا ہی سے توحید کی حمایت اور کفریہ عقائد کارد کرنا شروع فرما دیا اور پھر جب ایک سوراخ سے رات کے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زہرہ یا مشتری ستارہ کو دیکھا تو لوگوں کے سامنے توحید ِ باری تعالیٰ کی دلیل بیان کرنا شروع کردی کیونکہ اس زمانہ کے لوگ بت اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک نہایت نفیس اور دل نشیں پیرایہ میں انہیں غوروفکر کی طرف رہنمائی کی جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تمام جہان عدم سے وجود میں آنے والا ہے اور پھر ختم ہونے والا ہے تو یہ معبود نہیں ہوسکتا بلکہ تمام جہان بذات ِ خودکسی وجود میں لانے والی ذات کا محتاج ہے جس کے قدرت وا ختیار سے اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ستارے کو دیکھا تو فرمایا کہ’’ کیا اسے میرا رب کہتے ہو ؟پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا کہ’’ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔یعنی جس میں ایسے تغیر ات ہورہے ہیں وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ پھر اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوجاتا۔ اس میں اُس قوم کو تنبیہ ہے کہ جو چاند کومعبود مانتے تھے، انہیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گمراہ قرار دیا اور خود کو ہدایت پر۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ باتیں ان کا رد کرنے کیلئے ہی تھیں۔ چاند کے معبود نہ ہونے پر بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہی دلیل بیان فرمائی کہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا قابلِ فنا ہونے کی دلیل ہے۔ پھر اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ’’ کیا اسے میرا رب کہتے ہو ؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ یوں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ثابت کردیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی رب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ان کا معبود ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے بیزاری کا اظہار کردیا اور اس کے بعد دینِ حق کا بیان فرمایا جو اگلی آیتوں میں آرہا ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ستارے، چاند اور سورج کے بارے میں فرامین لوگوں کو سمجھانے کیلئے تھے اور معاذاللہ، اپنے بارے میں نہ تھے اس کی بہت واضح دلیل یہ بھی ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ستارے، چاند اور سورج کے بارے یہ فرمایا تو کیا آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے پہلے دن رات کے فرق کو اور سورج چاند کے غروب ہونے کو کبھی نہیں دیکھا تھا، ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ تو معلوم ہوا کہ سورج چاند ستارے کے حوالے سے آپ کا کلام صرف قوم کو سمجھانے کیلئے تھا اور اس چیز کا اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ بیان خود نیچے آیت نمبر 83 میں موجود ہے۔

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(79)

ترجمہ

میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ :میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جھوٹے معبودوں سے بیزاری ظاہر کرنے کے بعد اپنا عقیدہ اور دینِ حق کا اعلان فرما دیا چنانچہ فرمایا کہ’’ میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یعنی اسلام کے سوا باقی تمام ادیان سے جدا رہ کرمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے جھکنے والا ہوں۔

حنیف کے معنی:

            اس آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خود کو حنیف فرمایا۔ حنیف کے معنی ہیں ’’ تمام جھوٹے دینوں سے صاف اور ہرباطل سے جدا۔ ‘‘

دینِ حق کے اِستحکام کی صورت:

             اس سے معلوم ہوا کہ دینِ حق کا قیام واستحکام جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ تمام باطل دینوں سے بیزاری اور دینِ حق پر پختگی ہو۔ دین کے معاملے میں پلپلے پن کا مظاہرہ کرنے ، سب کو اپنی اپنی جگہ درست ماننے اور سب مذاہب میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کرنے سے دینِ حق کا استحکام ممکن نہیں۔

 نماز سے پہلے پڑھا جانے والاوظیفہ:

            حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز شروع کرنے سے پہلے ایک وظیفہ پڑھا کرتے تھے ، اس کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نماز شروع کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ پڑھا کرتے تھے  ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَحَنِیْفًا  وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ  لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنََ‘‘ میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمان ہوں۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ، ص۳۹۰، الحدیث: ۲۰۱(۷۷۱))

وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْــٴًـاؕ-وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(80)

ترجمہ

اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی( ابراہیم نے) فرمایا: کیاتم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فرما چکا اور مجھے ان کا (کوئی) ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو البتہ یہ کہ میرا رب کوئی بات چاہے ۔میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے ؟

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ :اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اعلانِ حق فرمایا، جھوٹے معبودوں کا رد کیااور توحید ِ باری تعالیٰ کو بیان فرمانا شروع کیا تو قوم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جھگڑنے لگی اور کہنے لگی کہ’’ اے ابراہیم! بتوں سے ڈرو، اُنہیں برا کہنے سے خوف کھاؤ، کہیں آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ وہ تو مجھے اپنی توحید و معرفت کی ہدایت عطا فرما چکا اور مجھے اُن بتوں کا کوئی ڈر نہیں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک بتاتے ہو ،کیونکہ وہ بت بے جان ہیں ، نہ نقصان دے سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچاسکتے ہیں ،اُن سے کیا ڈرنا۔ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا سوائے اس کے  کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ کوئی بات چاہے تو وہ ہوسکتی ہے، کیونکہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ قادرِ مُطْلَق ہے نہ یہ کہ تمہارے بتوں کے چاہنے سے کچھ ہو۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۱-۳۲، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۳۳۰، ملتقطاً)

            سُبْحَانَ اللہ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایسے خطرناک موقعہ پر بھی ایمان نہ چھپایا بلکہ اپنے ایمان کا اعلان فرما دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیغمبرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں مخلوق کی ایسی ہیبت نہیں آسکتی جو انہیں فرائض کی ادائیگی سے روک دے۔

وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًاؕ-فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِۚ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَﭥ(81)

ترجمہ

اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟ اور تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کا شریک اس کو ٹھہرایا جس کی کوئی دلیل اللہ نے تم پرنہیں اتاری تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اگر تم جانتے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ: اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ ’’میں  تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں جو بے جان، جمادات اور بالکل عاجز و بے بس ہیں اور مجھے ڈرانے کی بجائے تو تمہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ تم نے ان بتوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرایا جن کے شریک ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اس بات کو سامنے رکھ کہ غور کرو کہ امن کا مستحق کون ہے وہ مومن جس کے پاس اپنے عقیدے کی حقانیت کے دلائل ہیں یا وہ مشرک امن کا مستحق ہے جس کے پاس اس کے عقیدے کی کوئی معقول و قابلِ قبول دلیل نہیں ہے۔

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ(82)

ترجمہ

وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں شرک کو نہ ملایا تو انہی کے لیے امان ہے اوریہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: وہ جو ایمان لائے۔}اس آیت میں ایمان سے مراد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ماننا اور ظلم سے مراد شرک ہے۔ البتہ معتزلہ اس آیت میں ’’ظلم‘‘ سے مراد گناہ لیتے ہیں ، یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی توصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی ’’ہم میں سے ایسا کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہی کہ ’’ اے میرے بیٹے !اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کسی کو شریک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا ظلم ہے ۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: ولقد آتینا لقمان الحکمۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۴۲۹)

وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(83)

ترجمہ

اور یہ ہماری مضبوط دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عطا فرمائی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کردیتے ہیں ۔ بیشک تمہارا رب حکمت والا ،علم والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ تِلْكَ حُجَّتُنَا: اور یہ ہماری مضبوط دلیل ہے۔} اس رکوع میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان اور دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت کا بیان ہے اور اس سارے بیان کا مقصد سب انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آقا، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تعلیم اور تربیت ہے ،جیسا کہ رکوع کے آخر میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کثرت سے تذکرہ کرنا اور محفلوں ، مجلسوں کو اُن کے ذِکرپاک سے آراستہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو نہایت محبوب ہے اور ایمان کی طاقت اور عقیدہ ِ توحید کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے سامنے سورج، چاند ، ستاروں کے ذریعے اور دیگر جو دلائل بیان فرمائے وہ سب دلائل اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں عطا فرمائے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سورج، چاند وغیرہا کو رب کہنا معاذاللہ بطورِ شرک نہیں بلکہ قوم کے سامنے بطورِ دلیل تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ یہ باتیں تو ہم نے انہیں بطور ِ دلیل کے عطا فرمائی تھیں۔

{ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ: ہم درجات بلند کرتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ ہم جس کے چاہتے ہیں علم ،عقل ، فہم اور فضیلت کے ساتھ درجات بلند کردیتے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دنیا میں علم و حکمت اور نبوت کے ساتھ اور آخرت میں قرب و ثواب کے ساتھ درجے بلند فرمائے۔

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85)

ترجمہ

اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ وَهَبْنَا لَهٗ : اور ہم نے انہیں عطا فرمائے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامقام:

             حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:۲۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔

            تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ  لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۴۹)

            تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۲۵۵، الجزء الثالث عشر)

             تفسیرِ جلالین میں ہے ’’فَکُلُّ الْانبیاءِ بَعَدَ اِبْرَاہِیْمَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ ‘‘ پس حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کی اولاد میں سے تھے۔ (جلالین مع صاوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۱۵۶۱)

            یاد رہے کہ سورۂ حدید کی آیت نمبر 26میں جو مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کی اولاد میں نبوت رکھی، اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۲۲۶)اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ قادیانی نبی ہر گز نہیں کیونکہ اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ہوتا۔

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(87)

ترجمہ

اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی) بعض کو (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ:اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

            اس شان سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(88)

ترجمہ

یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اگر وہ (بھی بالفرض) شرک کرتے تو ضرور ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ:یہ اللہ کی ہدایت ہے۔}یہاں ہدایت سے مراد ا س چیز کی معرفت ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ویکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور اس معرفت کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے دین ، اپنی طاعت اور لوگوں کی طرف سے ٹھہرائے گئے اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے بیزاری کا اظہار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۳۴)

{ وَ لَوْ اَشْرَكُوْا: اور اگر وہ(بھی بالفرض) شرک کرتے۔}اس آیت میں عوام و خواص سب لوگوں کو ڈرایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہوں کیونکہ جب فضیلت اور بلند مقام رکھنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اگر وہ (بھی بالفرض) شرک کرتے تو ضرور ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔ تو ان کے مقابلے میں اور لوگوں کا حال کیا ہو گا ۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۶۲)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَۚ-فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ(89)

ترجمہ

یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تو اگر کفار اِن چیزوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اُولٰٓىٕكَ: یہی وہ ہستیاں ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ جن انبیا ءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب ،حکمت اور نبوت عطا کی ہے تو اگر یہ کفارِ مکہ کتاب، حکمت اور نبوت کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان تمام چیزوں کے حقوق ادا کرنے کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں۔ اس قوم سے یا انصار مراد ہیں یا مہاجرین یا تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یاتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے والے وہ تمام مسلمان  جنہیں اللہ تعالیٰ خدمت ِدین کی توفیق بخشے جیسے مبلغین، علماء ،اولیاء سلاطین وغیرہا۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت فرمائے گا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کو قوت دے گا اور اس کو تمام اَدیان پر غالب کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ غیبی خبر واقع ہو گئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۳۴)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ-قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ(90)

ترجمہ: 

یہی وہ (مقدس) ہستیاں ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ تم فرماؤ: میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ یہ صرف سارے جہان والوں کے لئے نصیحت ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ: تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔}جلیلُ القدر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تذکرے کے بعد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ ان کی اِس ہدایت کی اقتدا کریں۔ علمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہیں کیونکہ جو شرف و کمال اور خصوصیات و اوصاف جدا جدا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائے گئے تھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے سب کو جمع فرمادیا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا ’’ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ‘‘ تو جب آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام ا نبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں تو بے شک سب سے افضل ہوئے ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۴)

{ ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ: سارے جہان والوں کیلئے نصیحت۔}  اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت تمام مخلوق کو عام ہے اور کل جہان آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۵)

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍؕ-قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًاۚ-وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْؕ-قُلِ اللّٰهُۙ-ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ(91)

ترجمہ: اور یہودیوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا جب انہوں نے کہا : اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں نازل کی۔ تم فرماؤ: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے؟ نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی، جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے تھے، کچھ ظاہر کرتے ہواور بہت کچھ چھپالیتے ہواور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا اورنہ تمہارے باپ دادا کو۔ تم کہو: ’’اللہ ‘‘پھر انہیں ان کی بیہودگی میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ:اور یہودیوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت اپنے حِبْرُالاحْبار یعنی سب سے بڑے عالم مالک ابنِ صیف کو لے کرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بحث کرنے آئی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا، میں تجھے اُس پر وردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت نازل فرمائی ،کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے؟ ’’ اِنَّ اللہَ یُبْغِضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ‘‘ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو موٹا عالم ناپسند ہے۔ وہ کہنے لگا، ’’ہاں ، یہ توریت میں ہے‘‘۔ حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ تو موٹا عالم ہی تو ہے ۔اس پروہ غضبناک ہو کر کہنے لگاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا : وہ کتاب کس نے اُتاری جو موسیٰ لائے تھے؟ تو وہ لاجواب ہوگیا اور یہودی اُس پر برہم ہوگئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو اُس کے عہدے سے معزول کردیا۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۹۴، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۳۳۱-۳۳۲، ملتقطاً)

         مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ خیال رہے کہ موٹے پادری سے مراد وہ پادری تھے جو حرام خوری کرکے خوب موٹے تازے ہو جاتے تھے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا اور اس کی معرفت سے محروم رہے اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کو نہ جانا۔ انہوں نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں نازل کی۔ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم انہیں جواب دو کہ اگراللہ عَزَّوَجَلَّ نے کوئی کتاب نہیں اتاری تو وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لے کر آئے تھے؟ جو سراپا نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی اور جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے تھے اور ان میں سے کچھ کو ظاہر کرتے ہو جس کا اظہار اپنی خواہش کے مطابق سمجھتے ہو جبکہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے دین کے بارے میں بہت کچھ چھپالیتے ہو اور اے یہودیو! تمہیں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم اور قرآنِ کریم کے ذریعے وہ کچھ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو۔ مزید فرمایا کہ پھر یہودی اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوال کا جواب نہ دے سکیں توتم خود جواب دے دینا کہ تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل کیا تھا اور جیسے تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل فرمایا تھا ایسے ہی قرآن کو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہی نازل فرمایا ہے اوریہ جواب دینے کے بعد انہیں ان کی بیہودگی میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو کیونکہ جب آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجت قائم کردی اور وعظ و نصیحت کا حق ادا کردیا اور ان کے لئے کسی عذر اور بہانے کی گنجائش نہ چھوڑی اوراس پر بھی وہ باز نہ آئیں تو انہیں ان کی بے ہودگی میں چھوڑ دیں۔یہ کفار کے حق میں وعید و تہدید ہے۔

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ(92)

ترجمہ: اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لئے (اتری) تاکہ تم اس کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ: اور یہ کتاب ہے۔} یہاں قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا کہ یہ  قرآنِ پاک برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ۔ یہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ہم نے اسے اس لئے نازل فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے ذریعے مرکزی شہر مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد والوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کی خبریں دو۔

{ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ:اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ جو لوگ آخرت اور اس میں موجود انواع و اقسام کے عذابات پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ برے انجام سے ڈرتے ہیں اور یہی خوف انہیں غورو فکر کرنے پر ابھارتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ا س پر ایمان لے آتے ہیں اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے والے اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۶۴)

            یہاں نماز کو بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ ایمان کے بعد سب سے اعلیٰ عبادت ہے اور جب بندہ تمام ارکان و شرائط کے ساتھ اس کی پابندی کرتا ہے تو دیگر عبادات اور طاعات کی پابندی کرنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ا س سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں ان کے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کی جائیں اور ان کی ادائیگی میں کسی طرح کی سستی اور کاہلی سے کام نہ لیا جائے۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس تقاضے پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْۚ-اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ(93)

ترجمہ

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا کہے: میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی اور جو کہے : میں بھی ابھی ایسا اُتار دوں گا جیسا اللہ نے اتارا ہے۔ اور اگر تم دیکھو جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس کے بدلے میں جو تم اللہ پر ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}یہ آیت مُسَیْلِمَہ کذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یمن کے علاقے یمامہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ قبیلہ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آگئے تھے ۔یہ کذاب ،سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت میں حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۷) اس کے بارے میں فرمایا کہ  اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یا  نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اور کہے کہ میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی ۔یہ آیت صراحت کے ساتھ مرزا قادیانی کا بھی رد کرتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کا مدعی تھا کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے۔ آج کل قادیانی لوگوں کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا نہیں بلکہ مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ہم اسے صرف مجدد مانتے ہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ مرزا نے مطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا تھاحالانکہ مرزا قادیانی کی کتابوں میں بیسیوں جگہ مُطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ موجود ہے اور جو ظلی و بروزی نبوت کا دعویٰ ہے وہ بھی نبوت ہی کا دعویٰ ہے اور وہ بھی قطعاً کفر ہے، نیزمرزا کے منکروں کوکافر اور ماننے والوں کو صحابی اور بیویوں کو ازواجِ مطہرات کہنا ان کی کتابوں میں عام ہے لہٰذا کسی بھی مسلمان کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔

{ وَمَنْ قَالَ:اور جس نے کہا۔} آیت کا یہ حصہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوا جو کاتب ِ وحی تھا۔ جب آیت ’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ‘‘ نازل ہوئی ، اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے انسانی پیدائش کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر ی حصہ ’’ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘ بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہوگیا ۔ اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہوگیا، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حسنِ کلام کی وجہ سے آیت کا آخری کلمہ خود زبان پر آگیا ہے اور اِس میں اُس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا۔ زورِ کلام بعض اوقات خود اپنا آخر بتادیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر گز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیت نہیں ، کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِوحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جدا ہونے اور مرتد ہوجانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے ملتا جلتا ہو۔ آخر کار زمانہ ِاقدس ہی میں فتحِ مکہ سے پہلے پھر اسلام سے مشرف ہوگیا۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۳۰، الجزء السابع)اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو کہے : عنقریب میں بھی ایسی ہی کتاب اُتار دوں گا جیسی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل کی ہے۔

{ وَ لَوْ تَرٰى : اور اگر تم دیکھو۔} یہاں سے کافروں کی موت کے وقت کے حالات بیان ہوئے ہیں ، فرمایا کہ اگر تم کافروں کی حالت دیکھو تو بڑی خوفناک حالت دیکھو گے جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ارواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں اس کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گاجو تم  نبوت اور وحی کے جھوٹے دعوے کرکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک اور بیوی بچے بتا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ناحق باتیں کہتے تھے۔

موت کے وقت مسلمان اور کافر کے حالات :

            اس آیت میں موت کے وقت کافر کے حالات بیان ہوئے اور حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟ (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟) روحیں کہتی ہیں :(اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر) وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے ہیں : اے روح!تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہے اوراللہ تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔ (سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص۳۱۳، الحدیث: ۱۸۳۰)

 

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْۚ-وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُاؕ-لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ(94)

ترجمہ

اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اورتم اپنے پیچھے وہ سب مال و متاع چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور (آج) ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تم میں (ہمارے) شریک ہیں ۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ غائب ہوگئے جن (کے معبود ہونے) کا تم دعویٰ کرتے تھے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى: اور تم ہمارے پاس اکیلے آئے۔} گزشتہ آیت میں کافروں کی موت کے احوال بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں قیامت کے احوال کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کافروں سے کہا جائے گا: بیشک تم ہمارے پاس حساب و جزا کے لئے ایسے اکیلے آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، نہ تمہارے ساتھ مال ہے ،نہ جاہ، نہ اولاد جن کی محبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے اورنہ بت جنہیں پوجتے رہے۔ آج اُن میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیابلکہ تم وہ سب مال ومتاع اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور آج ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے عبادت کرنے میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ بت غائب ہوگئے جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے۔

قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:

         یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہ ساتھی نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ا س کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور ا س کا عمل اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور ا س کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ا س کا عمل باقی رہتا ہے(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۴)۔

اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰىؕ-یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِ جُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ(95)

ترجمہ

بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے، زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہ ہے تو تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَالِقُ الْحَبِّ : دانے کو چیرنے والا۔} توحیدو نبوت کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت ، علم اور حکمت کے دلائل ذکر فرمائے کیونکہ مقصود ِاعظم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی تمام صفات و افعال کی معرفت ہے اور یہ جاننا ہے کہ وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اور جو ایسا ہو وہی مستحقِ عبادت ہوسکتا ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔ خشک دانہ اور گٹھلی کو چیر کر ان سے سبزہ اور درخت پیدا کرنا اور ایسی سنگلاخ زمینوں میں ان کے نرم ریشوں کو جاری کردینا جہاں آہنی میخ بھی کام نہ کرسکے اس کی قدرت کے کیسے عجائبات ہیں۔ وہی اللہ کریم دانے اور گٹھلی کو چیر کر سبزہ اور درخت بنادیتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے جیسے جاندار سبزہ کو بے جان دانے اور گٹھلی سے اور انسان و حیوان کو نطفہ سے اور پرندے کو انڈے سے۔ یونہی وہی رب ِ عظیم عَزَّوَجَلَّ مردہ کو زندہ سے نکالنے والاہے جیسے  جاندار درخت سے بے جان گٹھلی اور دانہ کو اور انسان و حیوان سے نطفہ کو اور پرندے سے انڈے کو ۔یہ سب اس کے عجائبِ قدرت و حکمت ہیں تو اے کافرو! یہ ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ، توتم کہاں اوندھے جاتے ہو؟ اور ایسے دلائل و براہین قائم ہونے کے بعد کیوں ایمان نہیں لاتے اور موت کے بعد اٹھنے کا یقین نہیں کرتے ؟ اور غور کرو کہ جو بے جان نطفہ سے جاندار حیوان کوپیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے مردہ کو زندہ کرنا کیا بعید ہے۔

فَالِقُ الْاِصْبَاحِۚ-وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًاؕ-ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ(96)

ترجمہ

۔ (وہ) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا (ہے) اور اس نے رات کوآرام (کا ذریعہ) بنایا اور اس نے سورج اور چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنایا) یہ زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ: تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی مزید عظمتیں بیان فرماتا ہے چنانچہ فرمایا کہ وہ تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا ہے چنانچہ صبح کے وقت مشرق کی طرف روشنی دھاگے کی طرح نمودار ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خط نے تاریکی چاک کردی، یہ بھی اس کی قدرت ہے۔ نیز اس نے رات کوآرام کا ذریعہ بنایا کہ مخلوق اس میں چین پاتی ہے اور دن کی تھکاوٹ اور ماندگی کو استراحت سے دور کرتی ہے اور شب بیدار زاہد تنہائی میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے چین پاتے ہیں۔نیز  اس نے سورج اور چاند کو اوقات کے حسا ب کا ذریعہ بنایا کہ اُن کے دورے اور سیر سے عبادات و معاملات کے اوقات معلوم ہوتے ہیں مثلاً چاند سے قَمری مہینے اور سورج سے شمسی مہینے بنتے ہیں۔ چاند سے اسلامی عبادات اور سورج سے موسموں اور نمازوں کا حساب لگتا ہے غرضیکہ ان میں عجیب قدرت کے کرشمے ہیں۔ یہ سب زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ نَباتات، علمِ فلکیات اور علم الحیوانات بھی بہت اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے رب تعالیٰ کی قدرت کاملہ ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آسمانی اور زمینی چیزوں کو اپنی قدرت کا نمونہ بنایاہے۔

فقر و محتاجی دور ہونے کی دعا:

            حضرت مسلم بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ  فَالِقَ الْاِصْبَاحِ  وَجَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا، اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ وََمَتِّعْنِی بِسَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَقُوَّتِیْ فِیْ سَبِیْلِکَ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، (اے) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والے اور رات کوآرام (کا ذریعہ) بنانے والے اور سورج و چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنانے والے ) میرے قرض کو پورا فرما دے اور محتاجی سے مجھے غنا عطا فرما اور مجھے میری سماعت، بصار ت اور قوت سے اپنی راہ میں فائدہ اٹھانے والا بنا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، من کان یدعو بالغنی، ۷ / ۲۷، الحدیث: ۳)

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(97)وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ(98)

ترجمہ

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ پاؤ۔ بیشک ہم نے علم والوں کے لیے تفصیل سے نشانیاں بیان کردیں ۔ اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیاپھر کہیں ٹھکانہ ہے اورکہیں امانت رکھے جانے کی جگہ ہے۔ بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں تفصیل سے بیان کردیں ۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  وہی ہے جس نے تم کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پیدا کیا پھر ماں کے رحم میں یا زمین کے اوپر تمہارا ٹھکانہ بنایا اور باپ کی پیٹھ یا زمین کے اندرتمہارے لئے امانت رکھے جانے کی جگہ بنائی ہے۔ بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانیاں تفصیل سے بیان کردیں۔

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِ جُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًاۚ-وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(99)

ترجمہ

اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر اُگنے والی چیز نکالی تو ہم نے اس سے سرسبز کھیتی نکالی جس میں سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے ابتدائی کچے شگوفوں سے (کھجور کے) خوشے (نکلتے ہیں جوپھلوں کی کثرت سے ) لٹکے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار (نکالتے ہیں جو) کسی وصف میں ایک دوسرے سے ملتے ہوتے ہیں اور کسی وصف میں جدا ہوتے ہیں ۔ تم درخت کے پھل اور اس کے پکنے کی طرف دیکھو جب وہ پھل دے۔ بیشک اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔

 کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا۔} سُبْحَانَ اللہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی کیسی عظیم دلیل بیان فرمائی کہ دیکھو پانی ایک ہے اور جس زمین سے سب کچھ اگ رہا ہے وہ ایک ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس سے جو چیزیں اگائیں وہ قسم قسم اور رنگارنگ کی ہیں توجو ربِ عظیم عَزَّوَجَلَّ ایک پانی سے اتنی قسم کی سبزیاں پیدا فرمانے پر قادر ہے تو وہ ایک صور کی پھونک سے سارے عالم کو مارنے اور زندہ کرنے پر بھی قادر ہے لہٰذا قیامت بر حق ہے۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ(100)

ترجمہ

اور لوگوں نے جنوں کواللہ کا شریک بنا لیا حالانکہ اللہ نے توان جنوں کو پیدا کیا ہے اور لوگوں نے اللہ کے لئے جہالت سے بیٹے اور بیٹیاں گڑھ لیں حالانکہ اللہ ان کی بیان کی ہوئی چیزوں سے پاک اور بلند ہے۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ: اور لوگوں نے جنوں کواللہ کا شریک گڑھ لیا۔} ارشاد فرمایا کہ سابقہ آیات میں بیان کردہ دلائلِ قدرت اور عجائبِ حکمت اور اِس انعام و اکرام اور اِن نعمتوں کے پیدا کرنے اور عطا فرمانے کاتقاضا یہ تھا کہ اس کریم کار ساز پر ایمان لاتے لیکن اِس کی بجائے بُت پرستوں نے یہ ستم کیا کہ جنوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا شریک قرار دیا کہ ان کی اطاعت کرکے بُت پرست ہوگئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ  کیلئے معاذاللہ بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بیان کی ہوئی چیزوں سے پاک اور بلند ہے اور یہ چیزیں اس کی شان کے لائق ہی نہیں۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌؕ-وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(101)ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ(102)

ترجمہ

وہ بغیر کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس کے لئے اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی بیوی (ہی) نہیں ہے اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرشے کو جاننے والا ہے۔یہ اللہ تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہر شے کو پیدا فرمانے والا ہے تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:وہ بغیر کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔} اِس آیت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت و شان اور اس کی پاکی کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ بغیر کسی نمو نے اور مثال کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس کی دوسری شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے پاک ہے کیونکہ اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی بیوی ہی نہیں ہے اور عورت کے بغیر اولاد نہیں ہوتی اور زوجہ اس کی شان کے لائق نہیں کیونکہ کوئی شے اس کی مثل نہیں اور اولاد نہ ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے تو جو کچھ ہے وہ سب اُس کی مخلوق ہے اور مخلوق اولاد نہیں ہوسکتی تو کسی مخلوق کو اولاد بتانا باطل ہے اور پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا رب ہے  جس کی صفات ذکر کی گئیں اور جس کی یہ صفات ہوں وہی مستحق عبادت ہے لہٰذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔

 

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(103)

ترجمہ

آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔} اِس آیت کا مفہوم سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ عقائد کے متعلق بہت سے مسائل کا دارومدار اِسی پر ہے۔

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق اہلسنّت کا عقیدہ :

         یاد رکھیں کہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومنوں کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدارہوگا۔اہلِ سنت کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث، اجماعِ صحابہ اور اکابر بزرگانِ دین کے کثیردلائل سے ثابت ہے ۔

دیدارِ الٰہی کے قرآنِ پاک سے تین دلائل:

(1)… ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔

(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:

’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (یونس :۲۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔

         صحاحِ ستہ کی بہت حدیثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس آیت میں زیادت سے دیدارِ الٰہی مراد ہے ۔

(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘ اے میرے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ اس پر انہیں جواب ملا ’’لَنْ تَرٰىنِیْ‘‘ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ۔ (اعراف: ۱۴۳) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیدار ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عارِف باللہ ہیں ، اگر دیدارِ الٰہی ممکن نہ ہوتا تو آپ ہر گز سوال نہ فرماتے، اس سے ثابت ہوا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔

دیدارِ الٰہی کے احادیث سے 3دلائل:

       احادیث بھی اس بارے میں بکثرت ہیں ، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :

(1)… مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں ؟ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟ کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ پھرپردہ اٹھا دیا جائے گا تو دیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷(۱۸۱))

(2)…حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ رات کے وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عنقریب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھو گے جیسے اس چاندکو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کرو گے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۴)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا: چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمہیں چاند دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: نہیں ، ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہو گی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))

         ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی۔ گمراہ لوگ اِس آیت کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں ، ہم یہاں آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں اس سے سارا معاملہ واضح ہوجائے گا۔آیت کے مفہوم کو کافی آسان کیا ہے لیکن پھر بھی اسے مکمل طور پر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں لہٰذا عوام کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اوپر تک جو بیان ہوا وہی ان کیلئے کافی ہے اور نیچے کی بحث پر زیادہ دماغ نہ لڑائیں اور اگر ضرور ہی سمجھنا ہے تو کسی صحیح العقیدہ ، ماہرسنی عالم سے سمجھیں۔

 آیت’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ کا مفہوم:

         اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔

 

قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَاؕ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(104)

ترجمہ

بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آگئیں تو جس نے (انہیں ) دیکھ لیا تو اپنے فائدے کے لئے ہی (کیا) اور جو (دیکھنے سے) اندھا رہا تویہ بھی اسی پر ہے اور میں تم پر نگہبان نہیں ۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَدْ جَآءَكُمْ: بیشک تمہارے پاس آگئیں۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے توحید ،نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب و جزاء سے متعلق دل کی آنکھیں کھول دینے والی دلیلیں آگئیں تو جس نے دل کی آنکھ سے حق کو دیکھا اور ا س پر ایمان لے آیا تو اس میں اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو حق ظاہر ہونے کے باوجود اسے دیکھنے سے اندھا رہا اور ا س پر ایمان نہ لایا تو اس میں نقصان بھی اس کا اپنا ہے اور میں تم پر نگہبان نہیں کہ تمہارے اعمال اور افعال کی نگہبانی کرتا پھروں بلکہ میں تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں تاکہ اس کاپیغام تم تک پہنچا دوں جبکہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے ،اس سے تمہارے اعمال اور احوال میں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور وہی تمہیں تمہارے اعمال کی جزاء دے گا۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۸۱، خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۴۴، ملتقطاً)

وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(105)

ترجمہ

اور ہم اسی طرح بار بارآیتیں بیان کرتے ہیں اور اس لیے تا کہ کافر بول اٹھیں کہ تم نے پڑھ لیا ہے اور اس لیے تاکہ ہم اسے علم والوں کے لئے واضح کردیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ:اور ہم اسی طرح بار بار آیتیں بیان کرتے ہیں۔} آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم بار بار اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں نیزان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حجت قائم ہوجائے لیکن کافروں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ اِن آیات کے نازل ہونے کا نتیجہ کافروں کے حق میں یہ نکلتا ہے کہ وہ بول اٹھتے کہ اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم نے گزشتہ کتابوں کوپڑھ لیا ہے اور وہی پڑھ کر ہمیں بتار ہے ہو۔

اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(106)وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْاؕ-وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ(107)

ترجمہ

تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے منہ پھیر لو۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں بنایا اور نہ آپ ان پر نگران ہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ:تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے۔} سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ’’ تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجی گئی ہے اور کفار کی بے ہودہ گوئیوں کی طرف التفات نہ کرو ۔اس میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفّار کی یاوہ گوئیوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ یہ ان کی بدنصیبی ہے کہ وہ ایسی واضح دلیلوں سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ۪-ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(108)

ترجمہ

اور اُنہیں برابھلا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے یونہی ہم نے ہر اُمت کی نگاہ میں اس کے عمل کو آراستہ کردیا پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے تو وہ انہیں بتادے گا جووہ کرتے تھے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَا تَسُبُّوْا: اور برا نہ کہو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کفار کو نصیحت ہو اور وہ بت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شناس جاہلوں نے بجائے نصیحت حاصل کرنے کے شانِ الہٰی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۱۰۰)کہ اگرچہ بتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں کفار کی بدگوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا گیا۔ ابنِ انباری کا قول ہے کہ یہ حکم اول زمانہ میں تھا جب مسلمانوں میں طاقت آگئی کہ کفار کو رب عَزَّوَجَلَّ کی شان میں گستاخی سے روک سکیں تو انہیں اس کی اجازت مل گئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۴۶) ورنہ توخود قرآنِ کریم میں شیطان اور بتوں اور سردارانِ قریش کی برائیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں۔

آیت ’’وَ لَا تَسُبُّوْا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اگر غیر ضروری عبادت ایسے فساد کا ذریعہ بن جائے جو ہم سے مٹ نہ سکے تو اس کو چھوڑ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ واعظ و عالم اس طریقے سے وعظ نہ کرے جس سے لوگوں میں ضد پیدا ہو جائے اور فساد اور مار پیٹ تک نوبت پہنچے۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی کے متعلق یہ قوی اندیشہ ہو کہ اسے نصیحت کرنا اور زیادہ خرابی کا باعث ہو گا تو نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ کبھی ضد سے انسان اپنا دین بھی کھو بیٹھتا ہے کیونکہ کفار ِمکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو مانتے تھے پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ضد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان میں بھی بے ادبی کرتے تھے۔(نورالعرفان،الانعام،تحت الآیۃ:۱۰۸،ص:۲۲۴)

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْۙ-اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(109)

ترجمہ

اور انہوں نے بڑی تاکید سے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔تم فرما دو کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ جب وہ (نشانیاں ) آئیں گی تو (بھی) یہ ایمان نہیں لائیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں نے بڑی تاکید سے اللہ کی قسم کھائی۔}کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات بیان فرماتے ہیں۔ اگر ہم کو ہماری منہ مانگی نشانیاں دکھا دیں تو ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے یا ہمارے بعض مردے جی کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی دے دیں یا فرشتے ہمارے سامنے آجائیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’اگر ان میں سے کچھ دکھا دوں تو ایمان لے آؤ گے ۔ وہ قسمیں کھا کر بولے کہ’’ ضرور۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارادہ فرمایا کہ دعا کریں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آکر عرض کیا کہ’’ اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آ پ جو دعا کریں گے قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ابھی ہلاک کر دئیے جائیں گے اور اگر زندہ رہے تو شاید ان میں کوئی ایمان لے آئے۔ تب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۰۰-۱۰۱)

وَ نُقَلِّبُ اَفْـٕدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(110)

ترجمہ

اور ہم ان کے دلوں اوران کی آنکھوں کوپھیردیں گے جیسا کہ یہ پہلی باراس پر ایمان نہ لائے تھے اور انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ نُقَلِّبُ: اور ہم پھیر دیں گے۔}ارشاد فرمایا کہ جس طرح پہلے ان لوگوں کے سامنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں ظاہر ہوئی تھیں جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا اور اسی طرح کے دیگر عظیم معجزات لیکن یہ ان پر ایمان نہیں لائے تھے اسی طرح یہ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ان کے ایمان لانے کے سب وعدے جھوٹے ہیں۔

وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ(111)

ترجمہ

اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ:اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے۔}پچھلی آیت میں اجمالی طور پر بیان ہوا تھا کہ نشانیاں طلب کرنے والے کفار کے مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بھی وہ ایمان نہ لائیں گے اور اس آیتِ مبارکہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ شانِ نزول: کفارِ مکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مذاق کے طور پر کہا کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور آپ ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔  ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۴۷)

            اور فرمایا گیا کہ ’’ اے محبوب! اگر ہم کفارکے مطالبے کے مطابق ان کی طرف فرشتے اُتار دیں جنہیں وہ ان کی اصلی شکل میں دیکھ لیں اور وہ ان سے آپ کی رسالت کی گواہی سن لیں۔ یونہی اگر ہم ان کے مطلوبہ یا عام مردے زندہ کر کے ان کے سامنے کھڑے کر دیں تاکہ یہ ان سے معلوم کر لیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ حق ہے یا نہیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، بلکہ اگر ہم ا ن کے مطالبات سے زائد مخلوقات میں سے ہر خشک و تر، شجرو حجر، نباتات و حیوانات ان کے سامنے جمع کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان لائیں گے اور نہ آپ کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی آپ کی پیروی کریں گے البتہ جن کی قسمت میں ایمان لکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جن کے ایمان کے متعلق ہوگی وہ ایمان لائیں گے۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۳۱۱)

اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق دو اہم مسائل:

            اس مقام پر دو اہم مسائل ذہن نشین رکھیں :

(1)…اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور جیسا ہونے والا تھا اور جیسا کوئی کرنے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی میں تھا اور اس نے وہی لکھ دیا، تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، زید کے ذمے برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تووہ اس کے لئے بھلائی لکھتا تو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔

(2)… یہ درست ہے کہ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ، اس کی مشیت اور اس کی قضاء سے وجود پذیر ہوتے ہیں لیکن قادر و قدیر رب عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے بس، مجبور اور بالکل بے اختیار نہیں بنا یا بلکہ اسے ایک قسم کا اختیار دیا ہے کہ کوئی کام چاہے تو کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ اپنا برا بھلا، نفع و نقصان پہچان سکے، پھر نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی میں سے جس کام کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قوت اس انسان میں پیدا فرما دیتا ہے اور اسی اختیار کے اعتبار سے وہ جزا و سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر انسان نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی پر کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا تو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہدایت کے لئے مبعوث فرمانا، انسان کو احکام کا مُکَلَّف کرنا اور اسے اس کے اعمال کی جزاء و سزا دینا سب بے معنی اور عبث ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایمان وہی لائیں گے جن کے ایمان کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور کفر وہی کریں گے جن کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے کفر کا اس لئے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کفر کو اختیار کرتے ہیں۔

 

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ-وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ(112)

ترجمہ

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن بنایا انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو ان میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتا ہے اور اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے توتم انہیں اور ان کی بناوٹی باتوں کو چھوڑ دو۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا:اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں۔} کفارِ مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانیوں کی وجہ سے سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت رنجیدہ تھے، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح یہ کفار آپ کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہیں اسی طرح آپ سے پہلے جتنے ا نبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب کی قوم کے کافر چاہے انسان ہوں یا جن ان کے دشمن تھے ۔ کفار کی انبیاء ورسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت اور مخالفت ہماری طرف سے ایک آزمائش ہے تاکہ انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پر صبر کر کے اجرِ عظیم حاصل کریں لہٰذا آپ اپنی قوم کی مخالفت اور عداوت سے رنجیدہ خاطرنہ ہوں ، یہ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھنے کیلئے نت نئی باتیں گھڑتے ہیں ، چالیں چلتے ہیں ، فریب کاریاں کرتے ہیں اور وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ دوسروں کو گمراہ کریں اور جو گمراہ ہیں وہ گمراہی سے نکل نہ سکیں۔ نیز یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو وہ ایسانہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نظامِ کائنات چلارہا ہے اور کفر وایمان، خیر و شر دونوں کے مدِّمقابل رہنے میں اس کی حکمتیں ہیں لہٰذا آپ انہیں اور ان کی دھوکے اور فریب کی خوشنما باتوں کو چھوڑ دیں اور صبر کریں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بدلہ دے گا، رسوا کرے گا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائے گا۔ آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے دشمن ضرور ہوئے ہیں ایسے ہی علماء اور اولیاء کے دشمن بھی ضرور ہی ہوتے ہیں۔

{ شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ:انسانوں اور جنوں کے شیطان۔} اس کی تفسیر میں علما ء کے دو قول ہیں (1)جنوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں اور انسانوں میں بھی کیونکہ شیطان ہر سرکش و نافرمان کو کہتے ہیں چاہے وہ انسان ہو یا جن۔ (2) جنوں اور انسانوں کے شیطان سے مراد ابلیس کی اولاد ہے۔ ابلیس نے اپنی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک گروہ انسانوں کو وسوسہ ڈالتا ہے اور ایک گروہ جنوں کو وسوسہ ڈالتا ہے۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۴۸) خفیہ بات سے مراد وسوسے اور فریب کی باتیں ہیں۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ انسانی شیطانوں سے بچیں :

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو گمراہ کن شخص کسی کو شریعت کے خلاف کام کی ترغیب دے وہ انسانی شیطان ہے اگرچہ وہ اپنے عزیزوں میں سے ہو یا عالم کے لباس میں ہو، نیز اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو آزاد خیالی یا روشن خیالی کے نام پر شرعی کاموں کے خلاف پلاننگ کرتے اور منصوبے بناتے اور اس کیلئے تنظیمیں بناتے ہیں۔ سب مسلمانوں پر لاز م ہے کہ وہ ایسے انسانی شیطانوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ یہاں ایک نہایت اہم چیز کے بارے میں عرض کرنی ہے کہ ہمارے دور میں یہ وبا عام ہوتی جارہی ہے کہ بھائی ہر ایک کی سنو اور تحقیق کرو خواہ کہنے والا قرآن کے خلاف کہے یا حدیث کے یا اسلام کے۔ گویا معاذاللہ، تحقیق، مطالعہ کے نام پر ہر گمراہی سننے ، پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اس چیز کو باہمی رواداری، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر مطلع ہونا، اپنے اپنے خیالات دوسروں سے شیئر کرنا وغیرہ وغیرہ کے بڑے دلچسپ نام دئیے جاتے ہیں لیکن کیا قرآن، حدیث، دین، ایمان، اسلام میں بھی اس چیز کی گنجائش ہے یا نہیں ، اس کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ لہٰذا یہاں پر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی باطل تحقیق و مطالعہ کا حکمِ شرعی بیان کرتے ہیں اور ہمیں اُن جاہلوں کی کوئی پرواہ نہیں جو قرآن و حدیث کے ان احکام کو اپنی جہالت و کوتاہ نظر سے تنگ نظری اور نجانے کیا کیا نام دیں گے۔ چنانچہ کفار و اسلام دشمن لوگوں کے لیکچرز سننے کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا تو آپ نے بڑے احسن انداز میں جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ آج کل ہمارے عوام بھائیوں کی سخت جہالت یہ ہے کہ کسی آریہ نے اشتہار دیا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد میں فلاں وقت لیکچر دیا جائے گا، یہ سننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ کسی پادری نے اعلان کیا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت میں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔ بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیادہ جانتے ہو یا تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم آپ دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ملعون کلمات سنو۔ تم قرآنِ مجید کی اسی آیت کا آخری حصہ اور ا س کے مُتَّصل کی آیاتِ کریمہ تلاوت کرتے جاؤ اور دیکھو کہ قرآنِ عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتاتا اور اُن ناپاک لکچروں نداؤں کی نسبت تمہیں کیا کیا ہدایت فرماتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ‘‘ (الانعام:۱۱۲)

اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک لخت چھوڑ دے۔

         دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایا یا اُن کے پاس سننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سنئے، اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے:  

’’وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ‘‘(الانعام:۱۱۳)

اور اس لئے کہ ایسے لوگوں کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔

دیکھو اُن (کفار و نافرمان لوگوں ) کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن (لوگوں ) کا کام بتایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیا اثر ہوگا حالانکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’جو دجال کی خبر سنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیا نقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اس کا پیرو ہو جائے گا۔ (ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۴۳۱۹)

کیا دجال ایک اُسی اخبث دجال کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایا اور اُس میں یہی اندیشہ بتایا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’آخر زمانے میں دجال کذاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

اور سنئے، اس کے بعد کی آیات میں فرماتا ہے:

’’ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۱۱۴)وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ         لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ- وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۱۵)وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۱۱۶)اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ‘‘ (الانعام:۱۱۴-۱۱۷)

تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمین والوں میں زیادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘

یہ تمام آیاتِ کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیان میں ہیں گویا ارشاد ہوتا ہے تم جو اُن شیطان آدمیوں کی باتیں سننے جاؤ کیا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف میں یہ لکچرار یا یہ منادی کیا فیصلہ کرتا ہے، ارے خدا سے بہتر فیصلہ کس کا! اُس نے مفصل کتاب قرآنِ عظیم تمہیں عطا فرما دی اُس کے بعد تم کو کسی لکچر، ندا کی کیا حاجت ہے لکچر والے جو کسی دینی کتاب کا نام نہیں لیتے کس گنتی شمار میں ہیں ! یہ کتاب والے دل میں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے (مگر) تَعَصُّب کی پٹی (ان کی) آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سننا چاہے، تیرے رب کا کلام صدق وعدل میں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیا اُس میں فرق آیا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقال (یعنی قول)، کوئی خیال خدا سے چھپ رہے گا، وہ سنتا جانتا ہے، دیکھ اگر تونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے، (اے نادان!تو) کیا یہ خیال کرتا ہے کہ ان (گمراہ لوگوں ) کا علم دیکھوں (کہ) کہاں تک ہے، یہ کیا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا ،جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سننے کے کیا معنی؟ سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمایا کہ ’’شیطان تو جھوٹا ہے‘‘ اور اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ مجھ کو کیا گمراہ کریں گے میں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بہکے گا اور کون راہ پر ہے، (اگر) تُو پورا راہ پرہوتا ہے تو بے راہوں کی سننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا ’’چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔ تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما چکے ’’اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

بھائیو! ایک سہل بات ہے اس پر غور فرمالو۔ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سچا ایمان رکھتے ہو یا مَعَاذَاللہ اس میں کچھ شک ہے! اور جسے شک ہوا سے اسلام سے کیا علاقہ(یعنی تعلق) وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائیے کہ ان کے لکچروں نداؤں میں آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ،  قرآن، نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان کی تعریف ہوگی یا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا، نبی، قرآن اور دین کی توہین وتکذیب کریں۔ اب ذرا غور کرلیجئے کہ ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر میں بیان کروں گا کہ تیرا باپ حرامی بچہ اور تیری ماں زانیہ تھی، خدا کے لئے انصاف، کیا کوئی غیرت والا، حمیت والا اور انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیان سے روک دینے، باز رکھنے پر قادر نہ ہو اسے سننے جائے گا۔ خدا کی قسم !ہر گز نہیں ، کسی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو کہ اللہ،رسول اور قرآنِ عظیم کی توہین، تکذیب اور مذمت سخت تر ہے یا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے  ہو تو اُسے اِس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھر کون سے کلیجے سے اُن جگر شگاف ، ناپاک، ملعون بہتانوں ، افتراؤں ، شیطانی اٹکلوں اور ڈھکوسلوں کو سننے جاتے ہو، بلکہ حقیقت اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ جو کچھ بکتے اور اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کاباعث یہ سننے والے ہیں ، اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں ، اپنے رب، قرآن اور رسول کی عزت عظمت پیشِ نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر ،گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر کہ ’’تو جھوٹا ہے‘‘ چلا جائے گا تو کیا وہ دیواروں پتھروں سے اپنا سر پھوڑیں گے؟ تو تم سن سن کر کہلواتے ہو ،نہ تم سنو نہ وہ کہیں ، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال کس پر ہوا۔علماء فرماتے ہیں ’’ہٹے کٹے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر شَہ دینی ہے، لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو! جب اِس میں گناہ کی امداد ہے تو اُس میں تو کفر کی مدد ہے۔ قرآنِ عظیم کی نصِ قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایا بلکہ سنو تو کیا ارشاد کیا۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﳲ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعًا ‘‘(النساء:۱۴۰)

یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن میں حکم اتار چکا کہ جب تم سنو کہ خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں میں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ اللہ کی آیات پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو جب تم بھی انہیں جیسے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔

دیکھو قرآن فرماتا ہے ،ہاں تمہارا رب رحمٰن فرماتا ہے جو ایسے جلسوں میں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے۔

آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہار یہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔ مسلمانو! کیا قرآنِ عظیم کی یہ آیات تم نے منسوخ کردیں یا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس سخت وعید کو سچا نہ سمجھے یا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں میں شرکت کیوں ہے جو خدا، رسول اور قرآن پر اعتراضوں کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بھائیو! میں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ ’’ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ‘‘ تم بھی ان ہی جیسے ہو۔‘‘ اُن لکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں میں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں ، وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل میں خدا، رسول اورقرآن کی اتنی عزت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایا کہ اللہ اُنہیں اور اِنہیں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لکچر دو اور تم سنو۔

مسلمان اگر قرآنِ عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ، ملک میں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا ،جہنم کے کندے شیطان کے بندے آپس ہی میں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے، اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے۔(فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۱-۷۸۵، ملخصاً)

وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ(113)

ترجمہ

اور تاکہ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل ان بناوٹی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں اور تاکہ وہ ان باتوں کوپسند کرلیں اور وہ اُسی گناہ کا ارتکاب کریں جس کے یہ خودمرتکب ہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ:اور اس لیے کہ اس کی طرف دل جھکیں۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ انسانوں اور جنوں میں سے جو مردود ہیں وہ  ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتے ہیں ، اب اس کی مزید وجوہات بیان فرمائی جا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو بناوٹی باتوں کے وسوسے اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل ان بناوٹی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں ، وہ ان کی بناوٹی باتوں کو پسند کر لیں اور اسی گناہ کا ارتکاب کریں جس کے یہ خود مرتکب ہوئے ہیں۔

دل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے:

            ا س سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کادل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے، لہٰذا اگر کسی آدمی کا دل گناہگاروں ، گمراہوں کی طرف زیادہ جھکتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے دل میں بھی گمراہی اور برائی کی محبت بیٹھی ہوئی ہے۔

اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(114)

ترجمہ

تو کیا میں اللہ کے سوا کسی کو حاکم بنالوں ؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا: توکیا میں اللہ کے سوا کسی کوحاکم بنالوں؟} شانِ نزول:  کفارِ مکہ نے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا تھا کہ یہود و نصاریٰ کے پوپ پادریوں کو ہم اور آپ پنچ بنا لیں جو یہ فیصلہ کریں کہ ہم حق پر ہیں یا آپ۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۳ / ۹۰)

             اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ انہوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں انہیں دکھا دی جائیں تو وہ ایمان لے آئیں گے، اس پرانہیں جواب دیا گیا کہ ان نشانیوں کو ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دے تو بھی وہ لوگ اپنے کفر پر قائم ہی رہیں گے۔ اب اس آیتِ مبارکہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پرد لالت کرنے والی نشانیاں تو مکمل طور پر ظاہر ہو چکی ہیں ، ایک نشانی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر مفصل کتاب اتاری جس میں امرونہی ،وعدہ و وعید اور حق و باطل کا فیصلہ اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدق کی شہادت اور کفار کے افتراء کا بیان ہے اور دوسری نشانی یہ ہے کہ تورات و انجیل میں رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رسولِ برحق ہونے اور قرآن پاک کے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے پر دلالت کرنے والی نشانیاں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے  جنہیں آسمانی کتاب کی سچی سمجھ نصیب کی جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ نیزعام علماء اہلِ کتاب ان دلائل کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق جانتے ہیں اگرچہ کسی دنیاوی وجہ سے اس کا اقرار نہ کریں۔ لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان مشرکین سے فرما دوکہ کیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو حاکمو قاضی بنالوں جو میرے اور تمہارے درمیان فصلہ کرے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے حق ہونے کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ جب اس نے عاجز کر دینے والی کتاب یعنی قرآنِ پاک مجھ پر نازل فرما دیا تو میری نبوت کے درست ہونے کا فیصلہ بھی ہو گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے سے بڑھ کر اور کسی کا فیصلہ نہیں ، لہٰذا اب میری نبوت کا اقرار کرنا ضروری ہے۔( تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۵ / ۱۲۳-۱۲۴)

 { فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ:تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں خطاب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہونا کہ اہلِ کتاب کے علماء جانتے ہیں کہ یہ قرآن حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہو نا کہ ہم نے آپ کو جو بیان کیا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ اس کا تعلق ان باتوں سے ہے جو کسی کوا بھارنے کے لئے کی جاتی ہیں ورنہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  تو شک کر ہی نہیں سکتے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بظاہر اگرچہ خطاب   سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد ان کا غیر ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ’’ اے قرآنِ پاک کوسننے والے انسان! تو اس بات میں شک نہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے کیونکہ یہ ایسا عاجز کر دینے والا کلام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہی نہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۴۹)

وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(115)

ترجمہ

اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات کامل ہیں ۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:اور پوری ہے تیرے رب کی بات۔} رب کی بات سے مراد وہ فیصلۂ الٰہی ہے جو کفار ومومن کے متعلق ہو چکایا اس سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یا قرآن شریف ، الغرض جو کچھ بھی مراد ہو مقصود بالکل ظاہر ہے۔

قرآنِ مجید کی 4شانیں :

             اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ پاک کی چار شانیں بیان کی گئی ہیں :

(1)…قرآنِ پاک مکمل ہے اس کا کوئی پہلو ناتمام نہیں۔

(2)…قرآنِ پاک میں بتائی گئی تمام باتیں حق اور سچائی پر مَبنی ہیں۔

(3)…جو شرعی احکام قرآنِ پاک میں ہیں وہ ہر اعتبار سے عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔

(4)…قرآنِ پاک ہمیشہ کیلئے ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔

مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے 3 وظائف:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہوا،ا س کی مناسبت سے ہم یہاں مخلوق کے شر سے بچنے کے تین وہ وظائف ذکر کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہے۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسن اور حضرت حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاپر چند کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’ تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انہیں پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۔ (وہ کلمات یہ ہیں ) ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ‘‘۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)

            شیطان کے شر اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے یہ وظیفہ انتہائی مفید ہے۔

(2)…حضرت خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص (سفر کے دوران) کسی جگہ اترے اور یہ کلمات کہے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو اس مقام سے کوچ کرنے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء مایقول اذا نزل منزلًا، ۵ / ۲۷۵، الحدیث: ۳۴۴۸)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سونے سے پہلے یہ کہا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ تَکْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاْثَمَ اَللّٰہُمَّ لاَ یُہْزَمُ جُنْدُکَ وَلاَ یُخْلَفُ وَعْدُکَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ‘‘اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تیری بزرگ ذات اور تیرے مکمل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں اس کے شر سے جسے تو پیشانی سے پکڑنے والاہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہی قرض ادا کرواتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے لشکر کو شکست نہیں ہو گی اور تیرا وعدہ غلط نہیں ہو گا، تیرے سامنے کسی زور آور کا زور نہیں چلتا۔ تو پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب مایقول عند النوم، ۴ / ۴۰۶، الحدیث: ۵۰۵۲)

 

وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(116)

ترجمہ

اور اے سننے والے! زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں ، یہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف اندازے لگا رہے ہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ: اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں کی اطاعت کرے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے شبہات کا جواب دیا پھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے درست ہونے کودلائل کے ساتھ بیان کیا اور اب بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جب شبہات زائل ہو گئے اور دلائل بھی واضح ہو چکے تو اب کسی عقلمند کے لئے جائز نہیں کہ وہ جاہلوں کی گفتگو کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی ان کے فاسد کلمات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہو، لہٰذا اے سننے والے! اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں یعنی کافروں کی غلط باتوں یعنی حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے میں ان کی پیروی کرے گا تو یہ تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۶)

ایک قول یہ ہے کہ اس سے جاہل اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی پیروی مراد ہے۔(بیضاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۴۴۶)

اسلامی لبادے میں ملبوس اسلام دشمنوں سے بچا جائے:

اس آیت میں یہ پہلو بھی داخل ہے کہ عوام ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ،اسلامی تعلیمات کی اشاعت کو اپنی ڈھال بنا کر اسلام ہی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں ان کے بارے میں علمائے حق سے معلومات حاصل کر کے ان سے بچنے کی کوشش کریں ، دین کے مُسَلَّمہ امور میں ان کی قیاس آرائیاں ، حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنے میں ان کی صرف کی ہوئی توانائیاں کسی کام کی نہیں ، ان کی پیروی دنیا و آخرت کے عظیم خسارے کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ دینی امور میں صر ف اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کریں ، ان کے مقابلے میں کسی کی بھی پیروی نہ کریں۔ اہلِ حق علماء اور مجتہدین کی پیروی درحقیقت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہی پیروی ہے کہ یہ حضرات ان ہی کے احکام سناتے ہیں۔

{ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ: یہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔} یعنی یہ کفار جو آپ سے آپ کے دین اور مذہب کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں انہیں تو اپنے مذہب کے درست ہونے کا بھی یقین نہیں۔ اپنے مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس دلیل صرف اپنے جاہل اور گمراہ باپ دادا کی تقلید کرنا ہے، یہ لو گ بصیرت و حق شناسی سے محروم ہیں اور دین کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے ہیں کہ یہ حلال ہے یہ حرام۔ اٹکل سے کوئی چیز حلال یاحرام نہیں ہوتی جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا وہ حرام ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’ظن ‘‘سے مراد کفار کا اپنے مذہب کو ثابت کرنے میں اپنے اسلاف کی تقلید کرنا ہے، مجتہد کے قیاس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۷)

قرآن وحدیث کے مقابلے میں آباؤ اجداد کی پیروی مشرکوں کا طریقہ ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابل اپنے باپ دادوں کی پیروی کرنا مشرکوں کا طریقہ ہے۔ فی زمانہ حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی کسی غلط بات پر عمل پیرا ہو اور اسے سمجھایا جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ ہم تو عرصۂ دراز سے یونہی کرتے چلے آ رہے ہیں ،ہم نے تو آج تک کسی کو اس بارے میں کوئی کلام کرتے نہیں سنا، ہمارے بڑے بوڑھے بھی تو یہی کرتے آئے ہیں تم نے دو لفظ کیا پڑھ لئے اب ہمیں بھی سمجھانے لگ گئے، ایسے حضرات کو چاہئے کہ اس آیتِ کریمہ کو سامنے رکھ کر خودغور کرلیں کہ وہ کن کی رَوِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(117)

ترجمہ

بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہدایت والوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے ۔} یعنی کفار جو دوسروں سے فیصلہ کروانے کی بات کرتے ہیں یہ انتہائی نادان ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ لوگوں میں سے گمراہ کون ہے اور حق پر کون ہے اور یہ بھی وہی بہتر جانتا ہے کہ کفار اور مومنین میں سے گمراہی اور ہدایت پر کون ہے اور وہی ان میں سے ہر ایک کو وہ جزا دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۱۰۳، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۹۲، ملتقتاً)  یعنی مومن حق و ہدایت پر ہیں اور کفار باطل و ضلالت پر۔

فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ(118)

ترجمہ

تو اس میں سے کھاؤجس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَكُلُوْا:تو کھاؤ۔} یعنی جو جانور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا اسے کھاؤ اور جو اپنی موت مرا یا بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حرام ہے۔ جانور کے حلال ہونے کا تعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح ہونے سے ہے ۔ شانِ نزول: مشرکین مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے کہ تم اپنا قتل کیا ہوا تو کھاتے ہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مارا ہوا یعنی جو اپنی موت مرے اس کو حرام جانتے ہو۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۵۰) جس میں فرمایا گیا کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام پر ذبح نہ ہوا وہ حرام ہے۔ اور کافروں کا اعتراض کہ ذبیحہ کو ہم مارتے ہیں اور جو خود مرے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ مارتا ہے تو جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مارا ہوا ہو وہ حرام کیوں ؟ اس اعتراض کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ جس جانور کو کوئی شخص مارے اور جو جانور خود مرے بہرحال دونوں کو موت دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں یوں فرق کرنا ہی باطل ہے کہ ایک کو ہم نے مارا اور دوسرے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے۔ اب رہا یہ کہ ایک حلال اور دوسرا حرام کیوں تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم ہے اور وہ خالق و مالک ہے جو چاہے حکم فرمائے اور یہ اس کے نام کی تعظیم کی ایک صورت ہے کہ اس کے نام پر ذبح کردہ جانور حلال ہے اور اس کے علاوہ حرام ہے۔

قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا تقاضا:

         اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید کی آیات پر ایمان لانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا اسے حلال سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور جسے حرام فرمایا اسے حرام مانا جائے اور ا س سے بچا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام قرار دینا یا حرام کئے ہوئے کو حلال سمجھنا دونوں قرآن پر ایمان کے منافی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآنِ کریم (اجمالی طور پر کلام کی) پانچ قسموں پر اترا: حلال، حرام، مُحکم، مُتَشابہ اور مثالیں لہٰذا حلال کو حلال جانو، حرام کو حرام مانو، محکم پر عمل کرو ، متشابہ پر ایمان لاؤ اور مثالوں سے عبرت پکڑو۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۱۸۲)

         حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اس شخص کا قرآن پر ایمان نہیں جو اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھے۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۰-باب، ۴ / ۴۲۱، الحدیث: ۲۹۲۷)

وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْهِؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآىٕهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ(119)

ترجمہ

اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہارے لئے وہ چیزیں تفصیل سے بیان کرچکا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں سوائے ان چیزوں کے جن کی طرف تم مجبور ہوجاؤ اور بیشک بہت سے لوگ لاعلمی میں اپنی خواہشات کی وجہ سے گمراہ کرتے ہیں ۔ بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا:اور تمہیں کیا ہے کہ تم نہ کھاؤ۔}یعنی اس جانور کو کھانے سے کیا چیز تمہیں روک رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے حالانکہ جوچیزیں حرام تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تفصیل سے بیان فرما دی ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمایا اسے حرام سمجھنا کیسی حماقت ہے۔

حرام چیزوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قانون یہ ہے کہ حرام چیزوں کا مفصل ذکر ہوتا ہے اور جس چیز کو حرام نہ فرمایا گیا ہو وہ حلال ہے۔ حرام چیزوں کا تفصیلی بیان متعدد سورتوں میں اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامین میں موجود ہے۔ یونہی مجبوری کی حالت میں حرام چیز کھانے کا بیان قرآنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے۔

{ وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ:اور بیشک بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں۔} کفار بحیرہ اور سائبہ بتوں پر چھوٹے ہوئے جانوروں کو تو حرام جانتے ہیں اور جو جانور غیرِ خدا کے نام پر ذبح ہوں یا خود مر جائیں انہیں حلال جانتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے لہٰذا ان جاہلوں کی بات نہ مانو۔

حلال چیزیں حرام قرار دینے والوں کو نصیحت:

            اس آیتِ کریمہ کو پڑھ کر وہ لوگ غور کریں جواپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے چیزوں کو حرام یا حلال قرار دے کر گمراہ کرتے ہیں ، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی طرح ان حضرات کو بھی غور کرنے کی حاجت ہے جو اس جانورکو حرام کی صف میں داخل کر دیتے ہیں کہ جسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اور اس سے مقصود کسی ولی یا بزرگ کو ثواب پہنچانا تھا۔

{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ:بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جنہوں نے اس چیز کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حلال کیا اور جسے اس نے حرام کیا اسے حلا ل کہہ دیا،اللہ تعالیٰ انہیں ان کی حرکتوں کی سزا دے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۵۰-۵۱)

وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ(120)

ترجمہ

اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں انہیں عنقریب ان گناہوں کا بدلہ دیا جائے گا جن کا وہ اِرتکاب کرتے تھے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ:اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔} ظاہری اور باطنی گناہ کی تفسیر میں دو قول ہیں : (1)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جن کا ارتکاب اعلانیہ اور مجمعِ عام میں ہو اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو چھپ کر کئے جائیں۔ (2)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو ظاہری اعضاء سے کئے جائیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل سے کئے جائیں جیسے حسد، تکبر، ریاکاری ، بغض و کینہ ،بدگمانی اور برے کاموں کو پسند کرنا وغیرہ۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۶۲۳)اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔

           خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں ہر طرح کے گناہوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے گناہ کا تعلق جسم سے ہو یا دل سے یا نیت و ارادہ سے، علانیہ گناہ ہو یا چھپ کر۔

{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ: بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں۔} یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منع کئے ہوئے کام کرتے ہیں اور ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کئے ہیں تو انہیں عنقریب آخرت میں دنیا میں کئے ہوئے گناہوں کی سز ادی جائے گی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۵۱)

 توبہ کرنے کی اہمیت اور اس کی ترغیب:

          یاد رہے کہ جس مسلمان نے مرنے سے پہلے پہلے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لی تو اسے آخرت میں سزا نہ ہو گی البتہ جس مسلمان نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو ا س کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ چاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے دے اور چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونے کی امید باندھ کر گناہوں میں مصروف رہنا انتہائی نادانی ہے کیونکہ گناہگاروں کی ایک تعداد ضرور جہنم میں جائے گی اور کوئی گناہگار یہ نہیں جانتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کویقینی طور پر معاف کر دے گا ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بے شک سب گناہ گار مشیت کے خطرے میں ہیں بلکہ اطاعت گزار بھی نہیں جانتے کہ ان کا خاتمہ کیساہو گا تواے گناہگارو! تم دھوکے میں مت رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہر گناہگار کو حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں معاف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۹۴)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو انسان یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے گناہ معاف کر دے گا تواسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب انسان اطاعت نہ کرے تو ا س کا ایمانی درخت کمزو ر و ناتواں ہو جائے اور نزع کے وقت موت کی سختیوں کے تند جھونکوں سے اکھڑ جائے کیونکہ ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی پرورش عبادت کے پانی سے ہوتی ہے اور جب اسے یہ پانی نہ ملا اور ا س نے قوت نہ پکڑی تو اس کے اکھڑ جانے کے خطرات ہر وقت ا س پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپناایمان سلامت لے گیا تو یہ بھی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب میں مبتلاء کر دے، لہٰذا اس آسرے میں بیٹھے رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا بہت بڑی حماقت ہے اور اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو اپنے مال و اسباب کو تباہ کر کے اور بال بچوں کو بھوکا چھوڑ کر یہ خیال کرے کہ شاید ویرانے میں خزانہ مل جائے یا اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو کسی ایسے شہر میں رہ رہا ہو جسے لوٹا جا رہا ہو اور وہ اپنے خزانے ا س امید پر نہ چھپائے کہ ہو سکتا ہے جب لوٹنے والا ہمارے گھر میں آئے تو وہ آتے ہی مر جائے گا یا اندھا ہو جائے گا یا وہ میرے گھر کو دیکھ نہ سکے گا، یہ سب باتیں اگرچہ ممکن ہیں لیکن ان پر اعتماد کرنا اور احتیاط سے ہاتھ اٹھا لینا حماقت ہے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳-۷۷۴)

آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ’’گنا ہ ایمان کے لیے اس طرح ( نقصا ن دہ) ہیں جیسے مضرِ صحت کھانے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں ، وہ معدے میں جمع ہو تے رہتے ہیں حتّٰی کہ اَخلاط (یعنی صفراء ،بلغم وغیر ہ) مزاج کو بدل دیتے ہیں اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ اچانک بیمار ہو جا تا ہے اور پھر اچانک مر جاتا ہے تو گنا ہو ں کا معاملہ بھی یہی ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس فا نی دنیا میں ہلاکت کے خوف سے وہ زہر سے بچتا ہے اور ان کھا نو ں سے فوری طور پر بھی اور ہر حال میں بچتا ہے جو نقصان دہ ہو تے ہیں تو ابد ی ہلاکت سے ڈرنے والے پر بدرجہ اولیٰ گنا ہوں سے اجتنا ب ضروری ہے اور جب زہر کھانے والے پرلازم ہے کہ جو ں ہی نادم ہو قے کرے اور اس کھا نے سے رجوع کرے اور اسے معدے سے نکال دے اور یہ عمل فوری طور پر کرے تاکہ اس کا جسم ہلاکت سے بچ جا ئے حالانکہ اس کا نقصان صرف دنیوی ہے جبکہ دین کے معاملے میں گناہوں کی صورت میں زہر کھانا بدر جہ اَولیٰ نقصان دہ ہے تو اسے اس سے رجو ع کرنا چا ہیے اور جس قدر ممکن ہو تَدارُک کرے جب تک اس کے لیے مہلت ہے اور وہ اس کی زند گی ہے کیوں کہ جس کو اس زہر کا خوف اس لیے ہے کہ باقی رہنے والی آخرت سے محروم ہو جا ئے گا جس میں ہمیشہ کی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت ہے اور اس کے فوت ہو نے سے جہنم کی آگ اور ہمیشہ کے عذاب کا سامنا ہوگا اور دنیوی زندگی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کیوں کہ اُس کی کو ئی انتہا نہیں تو اس کے لئے گناہوں سے تو بہ کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے تاکہ گنا ہو ں کا زہر روح ایمان پر اثر انداز نہ ہو اور (اگر یہ روح ایمان پر اثرانداز ہو گیاتو) یہ ایسا اثر ہوگا جس کا ڈاکٹروں کے پاس بھی کو ئی علا ج نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی پرہیز اثر کرے گی، اس کے بعد نصیحت کرنے والوں کی نصیحت اور واعظین کا وعظ بھی فائد ہ نہیں دے گا اور اس پر یہ بات ثابت ہو جا ئے گی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے (احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ علی الفور، ۴ / ۱۰-۱۱)۔

وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌؕ-وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْۚ-وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ(121)

ترجمہ

اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ اور بیشک یہ نافرمانی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانوگے تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ:اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔} جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس کا کھانا حلال ہے، یہ بیان فرمانے کے بعد اب اس جانور کو کھانے سے منع کیا جا رہا ہے کہ جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ جس جانور پر مسلمان یا کتابی نے جان بوجھ کراللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہ کیا وہ حرام ہے اور اگر بھول کر نام لینا رہ گیا تو حلال ہے اور مسلمان و کتابی کے علاوہ کسی دوسرے کا ذبح کیا ہوا مُطْلَقاً حرام ہے۔ یاد رہے کہ یہاں کتابی سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اپنے نبی اور کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ محض نام کے عیسائی اور حقیقت میں دَہریہ مراد نہیں ہیں۔

{ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ:اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان اپنے دوستوں یعنی مشرکوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ مردار کھانے کے معاملے میں تم سے جھگڑا کریں جیسا کہ اوپر کافروں کا ایک اعتراض نقل کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال کہنے میں ان کافروں کی بات مانی تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے کیونکہ دین میں حکمِ الٰہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔

علم کے بغیر دینی مسائل میں جھگڑنا شیطانی لوگوں کا کام ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ’’ بغیر علم دینی مسائل میں جھگڑنا یا محض جھگڑے کی نیت سے مناظرہ کرنا شیطانی لوگوں کا کام ہے لیکن تحقیقِ حق کے لئے مناظرہ کرنا عبادت ہے۔

اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(122)

ترجمہ

اور کیا وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اس کے لیے ایک نور بنا دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے (کیا) وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیروں میں (پڑا ہوا) ہے(اور) ان سے نکلنے والا بھی نہیں ۔ یونہی کافروں کے لئے ان کے اعمال آراستہ کردئیے گئے۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا:اور کیا وہ جو مردہ تھا۔} اس آیت میں مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)

کفر اور جہالت کی مثال

            اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں اگرچہ اس کے شانِ نزول کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں ، ان میں سے تین روایتیں درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے قول کے مطابق اس آیت کا شا نِ نزول یہ ہے کہ’’ ابوجہل نے ایک روز سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کوئی نجس چیز پھینکی ۔ اس دن حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکار کو گئے ہوئے تھے، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اِس واقعہ کی خبر دی گئی، گو ابھی تک وہ دولتِ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن یہ خبر سنتے ہی طیش میں آگئے اور ابوجہل کے پاس پہنچ کر اسے کمان سے مارنے لگے ۔ ابوجہل عاجزی اور خوشامد کرتے ہوئے کہنے لگا: اے ابویعلیٰ! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیسا دین لائے اور اُنہوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بدعقل بتایا ہے۔ اس پر حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’تم جیسا بدعقل کون ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر پتھروں کو پوجتے پھر رہے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اللہ کے رسول ہیں۔اسی وقت حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لے آئے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(2)…حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔

(3)… حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۵۲)

تو حضرت امیر حمزہ یا حضرت عمر یا حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور یونہی ہر ایمان لانے والے کا حال اس کے مشابہ ہے جو مردہ تھا ایمان نہ رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو روحِ ایمان عطا فرما کر زندہ کر دیا اور باطنی نور عطا فرمایا کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور ابوجہل اور اس جیسوں کی حالت یہی ہے کہ وہ کفر وجہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور وہ ان تاریکیوں سے نکلنے والا بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ گنہگار مومن اپنے گناہ کو اچھا نہیں سمجھتا اس لئے وہ مومن رہتا ہے لیکن کافر اپنی بد کرداریوں کو اچھا جانتا ہے اور ان پر ناز کرتا ہے اس لئے وہ لائقِ مغفرت نہیں۔

نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی برکت:

            حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت اور تائید و نصرت بہت خیروخوبی کا ذریعہ بنتی ہے جیسے یہاں ان کے لئے ایمان کی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :کسی آدمی نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: قیامت کب آئے گی؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے ا س کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے عرض کی: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے ا س کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’تم ان کے ساتھ ہو جن سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہمیں اتنا کسی چیزنے خوش نہیں کیا جتنا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان نے کیا کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے محبت کرتا ہوں لہٰذا میں امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں ان کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب۔۔۔ الخ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸)

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَاؕ-وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(123)

ترجمہ

اور ویسے ہی ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کو (ان کا) سردار بنادیا تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں اور وہ صرف اپنے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔

 

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا:اور اسی طرح ہم نے بنا دئیے۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے کفارِ مکہ دیگر کافروں کے سردار ہیں ویسے ہی ہم نے ہر بستی میں اس بستی کے مجرموں کو ان کا سردار بنا دیا تاکہ اس بستی میں وہ اپنی سازشیں کریں اور طرح طرح کے حیلوں ، فریبوں اور مکاریوں سے لوگوں کو بہکانے اور باطل کو رواج دینے کی کوشش کریں۔ ان سے یہ افعال اس لئے سرزد ہوئے کہ یہ رئیس تھے اور اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ’’ ا س نے ہر بستی میں غریب لوگوں کو رسولوں کی پیروی کرنے والا اور نافرمانوں کو بستی کا سردار بنایا۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۵۳)

پیشواؤں کے بگڑنے کا نقصان اور سنبھلنے کا فائدہ:

            ا س سے معلوم ہوا کہ قوم کے سرداروں کا بگڑنا قوم کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں توہم اس کے خوشحال لوگوں کو (اپنے رسولوں کے ذریعے اپنی اطاعت کا)حکم دیتے ہیں پھر وہ لوگ اس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں تو اس بستی پر (عذابِ الٰہی کی) بات پکی ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔

            اسی طرح پیشواؤں کا سنبھل جانا قوم کو سنبھالا دینا ہے۔

{ لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا:تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں۔} مکہ مکرمہ آنے والے ہر راستے پر کفارِ مکہ نے چار چار افراد بٹھا دئیے تاکہ وہ لوگوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے روکیں ، چنانچہ جو شخص بھی مکہ میں حاضر ہوتا یہ لوگ اس سے کہتے کہ ’’تم اس شخص سے بچنا یہ کاہن، ساحر اور کذاب ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ درحقیقت یہ صرف اپنے خلاف سازشیں کررہے ہیں ، ان سازشوں کا وبال انہی پر پڑے گا اور انہیں اس کا شعور نہیں۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۱۰۶)

            اس آیت میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ سردارانِ مکہ کی دشمنی سے پریشاننہ ہوں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جو انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرےوہ جس شہر میں مبعوث ہوئے وہاں کے سرداروں نے ان کی اسی طرح مخالفت کی تھی۔ (البحر المحیط، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۲۱۷)

 

وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ ﲪ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْكُرُوْنَ(124)

ترجمہ

اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو کہتے ہیں کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسا ہی نہ ملے جیسا اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھے۔ عنقریب مجرموں کو ان کے مکرو فریب کے بدلے میں اللہ کے ہاں ذلت اور شدید عذاب پہنچے گا۔

کنزالعرفان

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ:اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے۔}  شانِ نزول: ولید بن مغیرہ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے   کہا: ’’ اگر نبوت حق ہے تو میں آپ سے زیادہ اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں عمر میں بڑا ہوں اور آپ سے زیادہ مالدار ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ،ابو جہل نے کہا کہ’’ہم نے عبدِ مناف کی اولاد سے سرداری میں مزاحمت کی۔ اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ کی قسم! ہم اس پر ایمان لائیں گے نہ کبھی اس کی پیروی کریں گے یہاں تک کہ ہمارے پاس بھی ویسے ہی وحی آئے جیسے اس کے پاس آتی ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۱۰۶)

عقیدۂ نبوت کے بارے میں چند اہم باتیں :

اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اعمال، قومیت یا مال کی وجہ سے نبوت نہیں ملتی۔ عقیدۂ نبوت سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھنے کی ہیں :

(1)…نبوت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و ریاضت کے ذریعے کوشش کر کے اسے حاصل کر سکے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل سے نبوت عطا فرماتا ہے، ہاں دیتا اسی کو ہے جسے اس عظیم منصب کے قابل بناتا ہے، جو نبوت کا منصب ملنے سے پہلے ہر طرح کے برے اور مذموم اخلاق سے پاک اور اچھے اور قابلِ تعریف تمام اخلاق سے مزین ہو کر ولایت کے جملہ مَدارج طے کر چکتا ہے، اور اپنے نسب و جسم، قول وفعل، حرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے پاک و صاف ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصب ِنبوت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔

(2)… جو شخص نبی سے نبوت کا زوال ممکن مانے وہ کافر ہے۔

(3)… نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور فرشتے کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔عصمتِ انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ ہو چکا، جس کے سبب اُن سے گناہ کاصادر ہونا شرعاً محال ہے، جبکہ ائمہ و اکابر اولیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنھیں محفوظ رکھتا ہے کہ اُن سے گناہ ہوتا نہیں اور اگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔

(4) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شرک و کفر اور ہر ایسے کام سے جو لوگوں کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے جھوٹ ، خیانت اور جہل وغیرہ مذموم صفات  سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں ، نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بالاجماع معصوم ہیں اور کبیرہ گناہوں سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ جان بوجھ کر صغیرہ گناہ کرنے سے بھی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد معصوم ہیں۔(بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ نبوت، ۱ / ۳۶-۳۹، ملخصاً)

         نوٹ:مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت جلد 1کے پہلے حصے کا مطالعہ کیجئے۔

{ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ:اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔}یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے کہ اسے یہ شرفِ عظیم عطا فرمائے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ،اور اے کفارِ مکہ! تم ا س لائق ہی نہیں کہ تمہیں نبوت جیسے عظیم مرتبہ سے نوازا جائے اور نہ ہی نبوت مطالبہ کرنے پر ملتی ہے خصوصاً وہ شخص کہ جو حسد، دھوکہ، بدعہدی وغیرہ برے افعال اور گھٹیا اوصاف میں مبتلا ہو، نبوت جیسے منصبِ عالی کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۵۳)

عظمتِ مصطفٰی اور عظمتِ صحابہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو سب کے دلوں سے بہتر محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے چن لیا اور اپنی رسالت کے ساتھ انہیں مبعوث فرمایا۔محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلوں کو دیگر لوگوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی کا وزیر بنادیا، یہ لوگ ان کے دین کی حمایت میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے مسلمان برا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی بری ہے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، ۲ / ۱۶، الحدیث:  ۳۶۰۰)

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(125)

ترجمہ

اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہےاس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ:اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے۔} اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی اپنی مخلوق کی دو قسمیں بنائیں (1) شقی(2) سعید، اور ہر ایک کیلئے نشانی بنائی کہ جس سے اس کی پہچان ہو۔ سعادت کی نشانی اسلام کے لئے سینہ کھلنا اور ایمان قبول کرنا جبکہ شقاوت کی نشانی سینہ کی تنگی اور اسلام قبول نہ کرناہے۔ اور ہر گروہ کے لئے آخرت میں ایک گھر بنایا جس میں وہ لوگ رہیں گے۔ سعادت مند جنت اور اس کی نعمتوں میں رہیں گے اور شقاوت والوں کو جہنم کی آگ میں رہنا اور اس کا عذاب سہنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے ’’اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا اور ارشاد فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اور ایک مخلوق کو پید افرمایا اور فرمایا: یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی مخلوق کی نشانی بیان فرمائی ہے،لہٰذا جب اللہ تعالیٰ بندے کو شرحِ صدر کی توفیق دے اور اسے حلاوتِ ایمان سے بھر دے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے جنت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے عبادت کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور جسے جہنم کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے گناہ کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور اس کے دل میں شیطان کا حکم مُسلَّط کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طرح طرح کی باتوں سے بیوقوف لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمت والا ہے لہٰذا تمہیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، تمام لوگ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، زندگی بہت طویل ہے لہٰذا انتظار کرو کل توبہ کرلینا، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ‘‘(نساء :۱۲۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:شیطان انہیں وعدے دیتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں صرف فریب کے وعدے دیتا ہے۔

            یعنی وہ ان کو توبہ کا وعدہ دیتا اور مغفرت کی تمنا دلاتا ہے اور ان حیلوں سے اِذنِ خداوندی سے ان کوہلاک کردیتا ہے، اس کے دل کو دھوکے کی قبولیت کے لیے کشادہ اور قبولِ حق سے تنگ کردیتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ ہدایت و گمراہی کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے اور جو ارادہ فرمائے حکم دیتا ہے اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کے فیصلے کو مؤخر کرسکتا ہے اس نے جنت اور اہلِ جنت کو پیدا کیا اور ان کو عبادت پر لگایا نیز جہنم اور اہلِ جہنم کو پید اکیا اور ان کو گناہوں پر لگادیا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان سرعۃ تقلب القلب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۹)

سینہ کھلنے سے کیا مراد ہے؟

            شرح کا اصلی معنی ہے ’’وسیع کرنا‘‘ جبکہ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)

             جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ا رشاد فرمایا: ’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔ عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ، (اس کی تین علامتیں ہیں ) (1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور (3) موت سے پہلے اس کی تیاری۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فی الزہد، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)

{ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ:اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔} جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ رہے، تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہیگویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔

سینے کی تنگی کی علامت:

            اس سے معلوم ہوا کہ دینی کام بھاری معلوم ہونا اور دنیاوی کام آسان محسوس ہونا، سینے کی تنگی کی علامت ہے اور  سینے کی تنگی یہ ہے کہ اسباب ِ کفرجمع ہو جائیں اور اسلام کے اسباب نہ مہیا ہو سکیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محفوظ فرمائے۔ بعض پر ایمان بھاری ہوتا ہے، بعض پر نیک اعمال بھاری اور بعض پر عشق اور وجدان بھاری ہے۔ خیال رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ کفر کرنے پر مجبور ہے بلکہ وہ جو کفر و سرکشی کرتا ہے وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے اور آدمی کی بد کرداریوں سے دل میں یہ حال پیدا ہوتا ہے جیسے لوہا زنگ لگ کر بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو کر حق قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔

وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًاؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ(126)

ترجمہ

اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے بیشک ہم نے نصیحت ماننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کردیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے۔} یعنی قرآنِ کریم یاحضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم وہ راستہ ہے جو بلا تَکَلُّف رب عَزَّوَجَلَّ تک پہنچا دیتا ہے جیسے سیدھا راستہ منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے اس لئے اسے’’شریعت ‘‘کہتے ہیں یعنی وسیع اور سیدھا راستہ جس پر ہر شخص آسانی سے چل سکے۔ طریقت بھی رب عَزَّوَجَلَّ کا راستہ ہے مگر وہ ایسا تنگ اور پیچ دار ہے جس پر صرف واقف آدمی ہی چل سکتا ہے۔

لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ هُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(127)

ترجمہ

ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا مددگار ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ:ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔} دارُالسلام کے دو معنی ہیں (1) سلام اللہ تعالی کا نام ہے، تو ’’دار السلام‘‘  کا معنی ہوا وہ گھر جس کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور یہ اضافت تشریف اور عزت افزائی کے لئے ہے جیسے بَیْتُ اللہ اور نَاقَۃُ اللہ میں ہے۔ (2) اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ’’ سلام‘‘ دار کی صفت ہے یعنی یہ سلامتی کا گھر ہے اور جنت کو ’’ دارُالسلام‘‘ اس لئے فرمایا ہے کہ جنت میں ہر قسم کے عیوب، تکلیفوں اور مشقتوں سے سلامتی ہے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۱۴۶) جنت کو دارُ السلام کہنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جنتیوں کو جنت میں دخول کے وقت سلام کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے، فرشتوں کی طرف سے اور اہلِ اعراف کی طرف سے ان کو سلام پیش کیا جائے گا اور جنتی بھی ایک دوسرے کو سلام کریں گے ۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۰۷)

وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِۚ-وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَاؕ-قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(128)

ترجمہ

اور (یاد کرو) وہ دن جب وہ اُن سب کواٹھائے گا (اور فرمائے گا) اے جنوں کے گروہ! تم نے بہت سے لوگوں کو اپنا تابع بنالیا اور انسانوں میں سے جو ان کے دوست ہوں گے وہ کہیں گے : اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ اللہ فرمائے گا: آگ تمہارا ٹھکانا ہے ، تم ہمیشہ اس میں رہو گے مگر جسے خدا چاہے ۔ بیشک تمہارا رب حکمت والا، علم والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ:اور جس دن وہ اُن سب کواٹھائے گا اور فرمائے گا اے جنوں کے گروہ!۔} قیامت میں اولاً سب اکٹھے ہوں گے اس لئے اسے’’ حشر‘‘ کہتے ہیں ، بعد میں اچھے بروں کی چھانٹ ہو جائے گی اس لئے اسے’’ یَوْمُ الْفَصْل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سب کو اٹھانے سے مراد یا یہ ہے کہ مومن و کافر کو اکٹھا  اٹھائے گایا انسان و جن کو اکٹھااٹھائے گایا سعید و شقی کو اکٹھا اٹھائے گا۔ اس آیت میں ان سرکش جِنّات سے خطاب ہے جنہوں نے بہت سے انسانوں کو بہکایا جبکہ مومن جنات تو اللہ تعالی ٰکی رحمت میں ہوں گے۔

{ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ:اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے۔} انسانوں میں سے جو جنات کے دوست ہوں گے اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہو گا اس طرح کہ’’ جنات نے انسانوں کوبرے راستے دکھائے اور بدعملیوں کو ان کے لئے آسان کیا اور جنات نے انسانوں سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ’’ انسانوں نے ان کی پوجا کی اور ان کے مطیع و فرماں بردار بنے۔ وہ حسرت سے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور افسوس کہ آج ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ ہائے وقت گزر گیا اور قیامت کا دن آگیا اب صرف حسرت و ندامت ہی باقی رہ گئی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں کی زبانی ان سے فرمائے گا: آگ تمہارا ٹھکانا ہے، تم ہمیشہ اس میں رہو گے۔

{ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:مگر جسے خدا چاہے۔} اِس استثناء کے دو معنی ہیں (1) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے لیکن قبر سے حشر تک کے زمانے اور میدانِ حشر میں حساب کتاب سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جہنم میں نہ رہیں گے۔ (2) اس سے مراد وہ اوقات ہیں جن میں انہیں ایک عذاب سے دوسرے عذاب میں منتقل کیا جائے گا، جہنمی جب دوزخ کی آگ کی شدت سے فریاد کریں گے تو انہیں زَمْھَرِیرْ یعنی سخت ٹھنڈے اور برفانی طبقے میں ڈال دیا جائے گا اور جب زَمْھَرِیرْ کی ٹھنڈک سے گھبرا کر فریاد کریں گے تو انہیں پھر نارِ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جمہور مفسرین نے حضرت عبدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رب تعالیٰ کے علم میں ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق کی، تو انہیں آگ سے نکال لیا جائے گا۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۵۶)

وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(129)

ترجمہ

اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کے سبب مسلط کردیتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًا:اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے جنوں اور انسانو ں کو رسوا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلط کردیتے ہیں اور ظالم کی ظالم کے ذریعے پکڑ فرماتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۳ / ۱۰۴)

ظلم کرنے والوں کو عبرت انگیز نصیحت:

             اس آیتِ مبارکہ میں ظلم کرنے والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے، چنانچہ حضرت ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں ظلم کرنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان پر دوسرا ظالم مسلط کر دے گا جو انہیں ذلیل و خوار اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس آیت میں ہر قسم کے ظالم داخل ہیں ، وہ شخص جو گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، جو حاکم یا افسر اپنی رعایا اور ماتحت لوگوں پر ظلم کرتا ہے، جو تاجر جعلی اشیاء اور ملاوٹ والی چیزیں فروخت کر کے خریداروں پر ظلم کرتا ہے، اسی طرح جو چور اور ڈاکو مسافروں اور شہریوں سے لوٹ مار کر کے ان پر ظلم کرتے ہیں یہ سب ظالم کی صف میں شامل ہیں ، ان تمام پر اللہ تعالیٰ کوئی ان سے بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مقرر کرتا ہے اور کسی سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو بروں کو ان پر مقرر فرماتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مقرر کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم چھوڑ دیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۵۶)

            لہٰذاایسے حضرات کو چاہئے کہ درج ذیل روایات اور ایک قول کا بغور مطالعہ کر کے عبرت حاصل کریں اوراللہ ربُّ العالمین کی بارگاہ میں اپنے ظلم سے سچی توبہ کر کے مظلوموں سے معافی کی کوئی صورت بنائیں۔

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس ظالم سے انتقام لے گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۲، الحدیث: ۷۶۲۱، الجزء الثالث)

 (2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۵۸۳، الحدیث: ۵۸۲۳)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۷۵۹۴، الجزء الثالث)

(4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس پر مسلط کر دے گا۔ (ابن عساکر، حرف الباء، ذکر من اسمہ عبد الباقی،۳۴ / ۴)

(5)… حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب تو ایک ظالم کودوسرے ظالم سے انتقام لیتا ہوا دیکھے تو پھر ٹھہر جا اور تعجب سے یہ تماشا دیکھ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ(130)

ترجمہ

اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تم میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر میری آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے آج کے اس دن کی حاضری سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیتے ہیں اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور وہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ:اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ!۔} اس آیتِ مبارکہ میں جنات اور انسان دونوں سے خطاب ہوا کہ اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کے سناتے تھے اور تمہیں اس دن یعنی روزِ قیامت کی حاضری اور عذابِ الٰہی سے ڈراتے تھے؟ کافر جن اور انسان اقرار کریں گے کہ رسول اُن کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے زبانی پیام پہنچایا اور اس دن کے پیش آنے والے حالات کا خوف دلایا لیکن کافروں نے اُن کی تکذیب کی اور اُن پر ایمان نہ لائے، انہیں در اصل دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا۔ کفار کا یہ اقرار اس وقت ہوگا جب کہ اُن کے اعضاء و جوارح ان کے شرک و کفر کی گواہی دیں گے۔

رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے متعلق اہم مسئلہ:

          رسول صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنات سے نہیں۔ چونکہ یہاں جن و انس دونوں سے خطاب ہے  اس لئے تَغْلِیْبًا یعنی جنوں کو انسانوں کے ماتحت شمار کرتے ہوئے مِنْکُمْ فرمایا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جنات میں نبی آئے، ہاں جنات کے لئے نبی آئے مگر وہ انسان تھے۔

{ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ:اوروہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے۔}قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اور اس میں حالات بہت مختلف پیش آئیں گے جب کفار مومنین کے انعام و اکرام اور عزت و منزلت کو دیکھیں گے تو اپنے کفرو شرک سے انکار کر دیں گے اور اس خیال سے کہ شاید مکر جانے سے کچھ کام بن جائے ، یہ کہیں گے ’’ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ‘‘ یعنی خدا کی قسم !ہم مشرک نہ تھے۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگادی جائیں گی اور اُن کے اعضاء ان کے کفر و شرک کی گواہی دیں گے، اسی کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا۔ ’’ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ‘‘ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۵۷)

ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ(131)

ترجمہ

یہ اس لیے ہے کہ تیرا رب بستیوں کوظلم سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ذٰلِكَ:یہ۔} تفسیرِ خازن، بغوی، تفسیرِ کبیر، بیضاوی،البحر المحیط،تفسیرِ طبری، مدارک، جلالین، روح البیان، روح المعانی وغیرہ کتبِ تفسیر میں ’’ذٰلِكَ‘‘کا مشارالیہ’’ رسولوں کا بھیجنا اور ان کا کفار کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ‘‘مذکور ہے۔ تفسیرِ خازن میں اسے جمہور مفسرین کا قول قرار دیا گیا اور اسے  ہی اصح کہا گیا۔ تفسیر البحر المحیط میں اس کے علاوہ دو قول اور مذکور ہیں (1) مشار الیہ پچھلی آیت میں مذکور سوال ہے۔ (2) کفار کا جھٹلانا اور گناہوں میں مبتلا ہونا۔ ان دونوں اقوال کو صاحب تفسیر البحر المحیط نے درست قرار نہیں دیا البتہ تفسیر ابو سعود میں اس کا مشار الیہ کفار کا اعتراف و اقرار مذکور ہے اور صاحب روح المعانی نے پہلے جمہور مفسرین والا قول ذکر کیا اس کے بعد قیل کہہ کے کفار کے اعتراف والا قول ذکر کیا ہے، تفسیرِ سمرقندی میں بھی یہ قول مذکور ہے۔

{ ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ اس لیے ہے کہ رب تعالیٰ بستیوں کوان کی معصیت اور ظلم کی وجہ سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں بلکہ عذاب سے پہلے رسول بھیجے جاتے ہیں جو انہیں ہدایت فرماتے اور ان پر حجت قائم کرتے ہیں ، اس پر بھی وہ سرکشی کریں تو ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا  قیامت میں حساب کتاب، سوال جواب رب تعالیٰ کی بے علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جیسے دنیا میں بے خبروں پر عذاب نہیں ایسے ہی آخرت میں بھی نہیں، مجرموں کو بتا کر، اعمال نامہ دکھا کر عذاب دیا جائے گا۔اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بد عملی کے بغیر عذاب نہیں بھیجتا ۔ دوسرا یہ کہ نبی کی تبلیغ پہنچے بغیر کسی کو بد عملیوں کی سزا نہیں مل سکتی۔

وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ(132)

ترجمہ

اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال سے درجات ہیں اور تیرا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ:اور ہر ایک کے لیے درجے ہیں۔} ہر ایک کے لیے چاہے وہ نیک ہو یا گنہگار اس کے اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے درجے ہیں اور انہی کے مطابق ثواب ا ور عذاب ہوگا۔ جنتیوں کو جنت میں ان کے نیک اعمال کے مطابق درجے دئیے جائیں گے، ایسے ہی جہنمیوں کو جہنم میں ان کے برے اعمال کے مطابق مختلف درجوں میں سزا دی جائے گی یا یہ مطلب ہے کہ نیک اعمال کے درجے مختلف ہیں۔ ایک ہی عمل ایک شخص کے لئے زیادہ ثواب کا باعث ہے اوردوسرے کے لئے کم ثواب کا۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’ قیامت میں اعمال کا بدلہ عقل کے بَقدر ملے گا۔ (معجم الاوسط، باب الباء، من اسمہ بشر، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۳۰۵۷)

لہٰذا اس آیت سے ہزارہا مسائل مُسْتَنْبَط ہو سکتے ہیں۔ عمل کا صلہ جگہ، وقت، موقعہ اور ضرورت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، جیسے جہاں مسجدیں بہت زیادہ ہوں اور کنوئیں کم ہوں وہاں مسجد کی بجائے کنواں بنوانا زیادہ اچھا ہے۔ اس آیت سے علماء نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے کیونکہ یہاں سب کیلئے ’’دَرَجٰتٌ‘‘ فرمایا گیا ہے اور ’’كُل‘‘میں جنات بھی داخل ہیں۔(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۴ / ۶۳، الجزء السابع)

وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَﭤ(133)

ترجمہ: اور اے حبیب! تمہارا رب بے پروا ہے، رحمت والا ہے۔ اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور جسے چاہے تمہاری جگہ لے آئے جیسے اس نے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد سے پیدا کیا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ:اور اے حبیب! تمہارا رب بے پروا ہے، رحمت والا ہے۔} اس آیت سے یہ درس بھی ہوسکتا ہے کہ اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں جو ایمان اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے اور کفر و شرک اور بد اعمالیوں سے منع فرماتا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ اِس میں اُس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ وہ تو غنی ہے، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں البتہ چونکہ وہ رحمت والا ہے اس لئے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور تمہیں تمہارے بھلے کی باتیں بتاتا ہے ورنہ اگروہ چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے جیسے بہت سی قوموں کو اس نے فنا کردیا یا جیسے تم دوسروں کے بعد اس دنیا میں آئے اسی طرح تمہارے بعد دوسرے آجائیں گے تو اس دنیوی زندگی اور مال و متاع پر غرور نہ کرو۔

اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(134)

ترجمہ

بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللہ کو)عاجز نہیں کرسکتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ:بیشک جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے چاہے وہ قیامت ہو یا مرنے کے بعد اُٹھنا یا حساب یا ثواب و عذاب۔ یہ سب چیزیں ضرور آئیں گی مگر اپنے وقت پر، تم دیر سے دھوکہ مت کھاؤ بلکہ اس سے بچنے کے اسباب جمع کرو کیونکہ نہ ہم مجبور ہیں نہ جھوٹی خبر دینے والے اور نہ تم طاقت ور کہ ہم سے مقابلہ کر کے بچ سکو لہٰذا مقابلہ نہ کرو بلکہ خوف کرو۔

موت سے غافل رہنے والوں کو نصیحت:

اس آیتِ کریمہ میں موت سے غافل رہنے والوں کے لئے بھی بہت عبرت ہے کیونکہ ہر انسان سے موت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ بہر صورت آکر ہی رہے گی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ موت کو بکثرت یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد دلایا کرتے تھے ، چنانچہ

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنی آنکھیں جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میری پلکیں ملنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی۔ میں جب نظر اٹھاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نظر نیچی کرنے سے پہلے میرا وصال ہو جائے گا،میں جب کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ گلے سے اترتے وقت میرے لئے موت کا سبب بن جائے گا۔اے آدم کی اولاد!اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ’’اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ‘‘بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللہ عَزَّوَجَلَّ) کو عاجز نہیں کرسکتے۔(در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۴،۳ / ۳۶۱-۳۶۲، شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۰۵۶۴)

حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے ’’کہاں گئے وہ لوگ جن کے چہرے خوبصورت تھے اور چمکتے تھے اور وہ اپنی جوانیوں پر فخر کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر تعمیر کئے اور ان کے گرد دیواریں بنا کر ان کو محفوظ کیا؟ کہاں ہیں وہ جو لڑائی کے میدان میں غالب آتے تھے؟ زمانے نے انہیں کمزور اور ذلیل کردیا اور وہ قبروں کی تاریکیوں میں چلے گئے، جلدی جلدی کرو اور نجات تلاش کرو ،نجات تلاش کرو۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۱)

حضرت سمیط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے اپنی طویل صحت پر دھوکے میں مبتلا شخص! کیا تونے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اے وہ شخص! جو طویل مہلت کی وجہ سے دھوکے میں ہے! کیا تو نے کسی کو سامان کے بغیر گرفتار نہیں دیکھا؟ اگر تو اپنی عمر کی طوالت کے بارے میں سوچے تو سابقہ لذتیں بھول جائے، تم لوگ صحت کے دھوکے میں ہو یا عافیت کے دھوکے میں ، زیادہ دن گزارنے پر اکڑتے ہو یا موت سے بے خوف ہو یا موت کے فرشتے پر تمہیں جرأت ہے، بے شک جب موت کا فرشتہ آئے گا تو تمہاری مالی ثَروت اور تمہاری جماعت تمہیں نہیں بچاسکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کی گھڑی سختیوں اور ندامت کی گھڑی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کے لیے عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے آنے سے پہلے اپنے نفس کو ترس کی نگاہ سے دیکھے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۹۹)

قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(135)

ترجمہ

تم فرماؤ، اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو، میں اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کے گھر کا (اچھا) انجام کس کے لئے ہے؟ بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔

کنزالعرفان

تفسیر: الجنان‎صراط 

{ اِعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ:تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ تم اپنی مرضی سے وہی اعمال کرتے رہو جو کر رہے ہو اور اپنے کفر و سرکشی پر قائم رہو جبکہ میں تمہاری طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کر کے، اسلام پر قائم رہ کر اور نیک اعمال پر ہمیشگی اختیار کر کے اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ آخرت کے گھر کا اچھا انجام کس کے لئے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۳ / ۱۰۸)

یاد رہے کہ اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ ’’تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو‘‘ اس میں کفر یا گناہ کی اجازت نہیں بلکہ اظہارِ غضب کے لئے ا س طرح فرمایا گیا، جیسے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 

’’ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ‘‘ (الکہف:۲۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔

         اور یہ جو فرمایا گیا کہ’’ عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کے گھر کا اچھاانجام کس کے لئے ہے؟‘‘ ا س سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ آج بھی فیصلہ ہو چکا کہ مومن جنتی ہے اور کافر دوزخی لیکن چشم دید فیصلہ قیامت میں ہو گا یا عذاب آتے وقت ہوگا۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ-فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىٕهِمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(136)

ترجمہ

اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کیے ہیں یہ مشرک ان میں سے ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دیتے ہیں پھراپنے گمان سے کہتے ہیں کہ یہ حصہ تواللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لئے ہے تو جو ان کے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتاہے۔ کتنا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کے لئے قرار دیتے ہیں۔}  کفارِ عرب اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بڑا معبود اور بتوں کو چھوٹا معبود سمجھ کر دونوں کی بدنی اور مالی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کی مالی پوجا کا ذکر ہو رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی کھیتیوں اور درختوں کے پھلوں اور چوپایوں اور تمام مالوں میں سے ایک حِصّہ تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرر کرتے تھے اور ایک حصہ بتوں کا، تو جو حصہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کرتے اسے مہمانوں اور مسکینوں پر صرف کردیتے تھے اور جو بتوں کے لئے مقرر کرتے تھے وہ خاص بتوں پر اور ان کے خادموں پر صرف کرتے اور جو حصّہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کرتے اس میں سے اگرکچھ بتوں والے حصہ میں مل جاتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر بتوں والے حصہ میں سے کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کردہ حصے میں  ملتا تو اس کو نکال کر پھر بتوں ہی کے حصہ میں شامل کردیتے ۔ اس آیت میں ان کی اس جہالت اور بدعقلی کا ذکر فرماکر اس پر تنبیہ فرمائی گئی۔

{ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:کتنا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں۔} یعنی کفار انتہا درجے کی جہالت میں گرفتار ہیں کہ خالقِ حقیقی اور مُنْعِمِ حقیقی کے عزت و جلال کی انہیں ذرا بھی معرفت نہیں جبکہ ان کی عقل کا فساد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اُنہوں نے بے جان بتوں اور پتھروں کی تصویروں کو کار سازِ عالم کے برابر کردیا اور جیسا اس خالق و مالک عَزَّوَجَلَّ کے لئے حصہ مقرر کیا ایسا ہی بتوں کے لئے بھی کیا۔ بے شک یہ بہت ہی برا فعل اور انتہا کا جہل اور عظیم خطا و ضلال ہے۔ اگلی آیت میں اُن کے جہل اور ضلالت کی ایک اور حالت ذکر فرمائی گئی ہے ۔

وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ(137)

ترجمہ

اور یوں ہی بہت سے مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل عمدہ کر دکھایا ہے تا کہ وہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو تم انہیں اور ان کے بہتانوں کو چھوڑ دو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ:یوں ہی عمدہ کر دکھایا۔} اس آیت میں کفار کی دوسری جہالت بیان ہوئی چنانچہ فرمایا کہ یوں ہی بہت سے مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل عمدہ کر دکھایا ہے۔ یہاں شریکوں سے مراد وہ شیاطین ہیں جن کی اطاعت کے شوق میں مشرکین اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی معصیت گوارا کرتے تھے اور ایسے قبیح اور جاہلانہ اَفعال کے مُرتکب ہوتے تھے کہ جن کو عقلِ صحیح کبھی گوار انہ کرسکے اور جن کی قباحت میں ادنیٰ سمجھ کے آدمی کو بھی تَرَدُّد نہ ہو۔ بت پرستی کی شامت سے وہ ایسے فسادِ عقل میں مبتلا ہوئے کہ حیوانوں سے بدتر ہوگئے اور اولاد جس کے ساتھ ہر جاندار کو فطرۃً محبت ہوتی ہے شیاطین کے اتباع میں اس کا بے گناہ خون کرنا اُنہوں نے گوارا کیا اور اس کو اچھا سمجھنے لگے۔ خلاصہ یہ کہ انہوں نے اولاد میں بھی ایسی ہی تقسیم کر رکھی تھی کہ لڑکے کو زندہ رکھتے اور لڑکی کو قتل کر دیتے۔ شیطانوں نے یہ سب اس لئے کیا تاکہ وہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر تھے شیاطین نے اُن کو اغوا کرکے ان گمراہیوں میں ڈالا تاکہ انہیں دینِ اسماعیلی سے مُنْحَرِف کریں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۲ / ۶۰)

اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی؟

            علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اہلِ عرب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے لے کر عمرو بن لُحَیّ کے زمانہ تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عرب کے لئے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)

            شرک کے بانی عمرو بن لُحَیّ نے اہلِ عرب میں شرک اس طرح پھیلایا کہ مقامِ بلقاء سے بت لا کر مکہ میں نصب کئے اور لوگوں کو ان کی پوجا اور تعظیم کرنے کی دعوت دی۔ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص ’’لات‘‘ جب مر گیا تو عمرو نے اس کے قبیلے والوں سے کہا: یہ مرا نہیں بلکہ اس پتھر میں چلا گیا ہے پھر انہیں اس پتھر کی پوجا کرنے کی دعوت دی۔ (عمدۃ القاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۱۱ / ۲۶۹-۲۷۰، تحت الحدیث: ۳۵۲۱)

            اِسی عَمرو نے سائبہ اور بحیرہ کی بدعت ایجاد کی اورتَلْبِیَہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو بھی شریک کیا۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)

             یہ شخص دین میں جس نئی بات کا آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا اور بسااوقات وہ موسمِ حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا۔ (الروض الانف، اول ما کانت عبادۃ الحجر، اصل عبادۃ الاوثان، ۱ / ۱۶۶)

            مرنے کے بعد اس کا انجام بہت دردناک ہوا، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے۔ (بخاری،کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲ / ۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱)

{ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ:اوراگر اللہ چاہتا ۔} یہاں چاہنا، بمعنی ارادہ کرنا ہے نہ کہ بمعنی پسند کرنا۔ پسند کرنے کو رضا کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے ارادے سے ہو رہا ہے یعنی جو کچھ بندہ اپنے اختیار سے کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کوپیدا فرما دیتا ہے تو یوں فعل آدمی کے اختیار سے ہوتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  صرف نیکیوں سے راضی ہوتا ہے نہ کہ برائیوں سے لہٰذا آیت پر کوئی اعتراض نہیں۔

وَ قَالُوْا هٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ ﳓ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِؕ-سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(138)

ترجمہ

اور مشرک اپنے خیال سے کہتے ہیں : یہ مویشی اور کھیتی ممنوع ہے، اسے وہی کھائے جسے ہم چاہیں اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن کی پیٹھوں (پر سواری) کوحرام کر دیا گیا اور کچھ مویشی وہ ہیں جن کے ذبح پر اللہ کا نام نہیں لیتے، (یہ سب)اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے (کہتے ہیں ) عنقریب وہ انہیں ان کے بہتانوں کابدلے دے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا:اور مشرک کہتے ہیں۔} مشرکین اپنے بعض مویشیوں اور کھیتیوں کو اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کرکے اپنے زعم میں کہنے لگے کہ ان مویشیوں اور کھیتیوں سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے اسے وہی کھائے گا جسے ہم چاہیں گے چنانچہ وہ بتوں کے نام پر چھوڑی ہوئی پیداوار اور اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کئے ہوئے جانوروں میں سے بت خانوں کے پجاریوں اور بتوں کے خدام کو دیتے تھے۔

{ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا:اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر چڑھنا حرام ٹھہرایا۔} اس آیت میں کفار کی چند بد عملیوں کا ذکر ہے۔ ایک تو اپنے بعض کھیتوں کو بتوں کے نام پر یوں وقف کرنا کہ اس کی پیداوار صرف مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں اور وہ آمدنی صرف وہ کھائیں جو ان بتوں کے خدام ہیں۔ دوسری یہ کہ بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دینا جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ جن سے کوئی کام نہ لیا جائے نہ کسی کھیت سے انہیں ہٹایا جائے یہ دونوں کام تو شرک ہیں مگر ان چیزوں کا کھانا حرام نہیں۔ اس لئے جہاد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان تمام چیزوں پر قبضہ کر کے استعمال فرماتے تھے۔ تیسری یہ کہ بتوں کے نام پر ذبح کرنا۔ یہ کام بھی شرک ہے اور اس کا کھانا بھی حرام ہے اور یہ ’’مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ‘‘ میں داخل ہے۔

وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَاۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُؕ-سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْؕ-اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(139)

ترجمہ

اور کہتے ہیں : ان مویشیوں کے پیٹ میں جو ہے وہ خالص ہمارے مردوں کیلئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر وہ مرا ہوا ہو تو پھر سب اس میں شریک ہیں ۔ عنقریب اللہ انہیں اِن کی باتوں کا بدلہ دے گا۔ بیشک وہ حکمت والا، علم والا ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا:اور کہتے ہیں۔}کفارِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بحیرہ، سائبہ، اونٹنی کا بچہ اگرزندہ پیدا ہو تو صرف مرد کھا سکتے ہیں اور عورتیں نہیں کھا سکتیں اور اگر مردہ پیدا ہو تو عورت مرد سب کھا سکتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اس عقیدے کا ذکر ہے اور اس پر سخت وعید ہے۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(140)

ترجمہ

بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کوجہالت سے بیوقوفی کرتے ہوئے قتل کرتے ہیں اور اللہ نے جو رزق انہیں عطا فرمایا ہے اسے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں ۔ بیشک یہ لوگ گمراہ ہوئے اور یہ ہدایت والے نہیں ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ:بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔} شا نِ نزول: یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ اُن کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ ’’ وہ تباہ ہوئے‘‘ اس میں شک نہیں کہ اولا د اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے، تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرلینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سفاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حماقت اور جہالت ہے۔

اولاد کے قاتلوں کو نصیحت:

         دورِ جاہلیت میں اولاد کو قتل کرنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں تنگدستی کا خوف لاحق ہوتا اور وہ اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ انہیں کھلائیں پلائیں گے کہا ں سے اور ان کے لباس اور دیگر ضروریات کا انتظام کیسے کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس حرکت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرناکبیرہ گناہ ہے۔

         افسوس! فی زمانہ بہت سے مسلمان بھی دورِ جاہلیت کے کفار کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ بھی اس ڈر سے دنیا میں آتے ہی یا ماں کے پیٹ میں ہی بچے کوقتل کروا دیتے ہیں کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے اور یہ عمل خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں پلنے والی جان بچی ہے۔ افسوس کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو رازق ماننے والے بھی اس فعلِ قبیح کا اِرتِکاب کررہے ہیں۔

         یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ ’’ جب حمل میں جان پڑجائے جس کی مدت علماء نے چار مہینے بیان کی ہے توحمل گرانا حرام ہے کہ یہ بھی اولاد کا قتل ہے اور اس سے پہلے اگر شرعی ضرورت ہو تو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۲۰۱،۲۰۷)

{ وَحَرَّمُوْا:حرام قرار دیتے ہیں۔} یعنی مشرکینِ عرب بحیرہ ،سائبہ اور حامی وغیرہ جن جانوروں کا اوپر ذکر ہوا انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے مذموم افعال کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے ان کا یہ خیال اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتراء ہے۔

ہر چیز میں اصل اباحت ہے:

         اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہر چیز ہمارے رزق کے لئے پیدا فرمائی، ان میں سے جسے حرام فرما دیا وہ حرام ہے اور جسے حلال فرمایا یا جس سے سکوت فرمایا وہ حلال ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:

’’ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘(بقرہ:۲۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا۔

         حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی تو وہ اس میں سے ہے جس سے معافی دی۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲) حضرت علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ ( یعنی جس چیز کی حلت و حرمت سے متعلق قرآن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔) (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الاطعمۃ، الفصل الثانی،۸ / ۵۷، تحت الحدیث: ۴۲۲۸)

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(141)

ترجمہ

اور وہی ہے جس نے کچھ باغات زمین پر پھیلے ہوئے اور کچھ نہ پھیلے ہوئے (تنوں والے) اور کھجور اور کھیتی کو پیدا کیا جن کے کھانے مختلف ہیں اور زیتون اور انار (کو پیدا کیا، یہ سب) کسی بات میں آپس میں ملتے ہیں اور کسی میں نہیں ملتے۔ جب وہ درخت پھل لائے تو اس کے پھل سے کھاؤ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو بیشک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ:اور وہی ہے جس نے باغ پیدا کیے۔} اللہ تعالیٰ نے کچھ باغات ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے خربوزہ، تربوز اور دیگر بیل بوٹے وغیرہ اور کچھ ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے نہیں بلکہ تنے والے ہیں جیسے آم، امرود اور مالٹا وغیرہ کے باغات، اسی طرح کھجور اور کھیتی، انار اور زیتون کوپیدا فرمایا اور اس میں اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی عجیب قدرت ہے کہ ان پھلوں میں تاثیر اور ذائقے کے اعتبار سے  تو فرق ہوتا ہے لیکن رنگ اور پتوں کے اعتبار سے بہت مشابہت ہوتی ہے۔

{ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ:اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔} یہاں فصلوں کا حق ادا کرنے کا حکم ہے، اس میں سب سے اول تو عشر یعنی پیدا وار کا دسواں حصہ یا نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ داخل ہے اور اس کے علاوہ مساکین کو کچھ پھل وغیرہ دینا بھی پیداوار کے حقوق میں آتا ہے۔

زمین کی ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے:

            اِس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے، چاہے پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس کے پھل سال تک رہیں یا نہ رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قید کے بغیر فرمایا ’’ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ‘ ‘ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو زمین بارش، نہر اور چشموں سے سیراب ہو اس میں عشر ہے اور جو پانی کھینچ کر سیراب کی جائے اس میں نصف عشر ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الزروع والثمار، ۲ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۸۱۷)

{ وَ لَا تُسْرِفُوْا:اورفضول خرچی نہ کرو۔} مفسرین نے فضول خرچی کے مختلف مَحْمَل بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اگر کل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اسراف ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بھی ایسا ہی قول ہے۔ حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔ امام زہری  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔ امام مجاہدرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۲ / ۶۲-۶۳)

وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًاؕ-كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(142)

ترجمہ

اور مویشیوں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین پر بچھے ہوئے جانور (پیداکئے)۔ اللہ نے تمہیں جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو۔ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مِنَ الْاَنْعَامِ:اور مویشی میں سے کچھ ۔} چوپائے دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ بڑے جو بو جھ لادنے اور بار برداری کے کام میں آتے ہیں جیسے اونٹ، خچر اور گھوڑے وغیرہ اور کچھ چھوٹے جیسے بکری وغیرہ کہ جو اس قابل نہیں۔ ان میں سے جواللہ تعالیٰ نے حلال کئے انہیں کھاؤ اور اہلِ جاہلیت کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔

ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍۚ-مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ- نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(143)

ترجمہ

۔ (اللہ نے) آٹھ نر و مادہ جوڑے (پیدا کئے۔) ایک جوڑا بھیڑ سے اور ایک جوڑا بکری سے۔ تم فرماؤ، کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ جانور پیٹوں میں لئے ہوئے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ بتاؤ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ:آٹھ نر و مادہ۔} اس آیت میں جانوروں کے آٹھ جوڑے بیان کئے گئے یعنی نرومادہ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری کے جوڑے۔ جانور تو اس کے علاوہ بھی ہیں لیکن چونکہ اہلِ عرب کے سامنے زیادہ تریہی جانور ہوتے تھے اور حرام و حلال کے جو انہوں نے قاعدے بنائے تھے وہ بھی انہی جانوروں کے بارے میں تھے اس لئے بطورِ خاص انہی جوڑوں کا بیان کیا گیا چنانچہ فرمایا کہ کیا ان جانوروں کے صرف نر حرام ہیں یا صرف مادے یا نرومادہ دونوں ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ تو بھیڑ بکری کے نَر حرام کئے اور نہ اُن کی مادائیں حرام کیں اور نہ اُن کی اولاد ۔ تمہارا یہ فعل کہ کبھی نر حرام ٹھہراؤ کبھی مادہ کبھی اُن کے بچّے یہ سب تمہاری اپنی اِختراع ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔

{ نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ:اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ بتاؤ۔}یعنی ان جانوروں کو تم حرام مانتے ہو،اگر اس میں تم سچے ہو تو اس حرمت کی قطعی یقینی دلیل لاؤ۔

 دلیل دینا حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر لازم ہے:

                اس سے معلوم ہوا کہ حلت کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل نہ مانگی جائے گی بلکہ حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر دلیل لانا لازم ہے۔ آج کل بدمذہب ہم سے ہر چیز کی حلت پر دلیل مانگتے ہیں اور خود حرمت کی دلیل نہیں پیش کرتے۔ یہ اصول قرآن کے صریح خلاف ہے۔ خود غور کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے حرام ماننے والوں سے دلیل مانگی ہے یا حلال سمجھنے والوں سے۔

وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ-اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَاۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(144)

ترجمہ

اور (اللہ نے نر اور مادہ کا) ایک جوڑا اونٹ سے اور ایک جوڑا گائے سے (پیدا فرمایا۔) تم فرماؤ، کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ جانور اپنے پیٹوں میں لئے ہوئے ہیں ؟کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں یہ حکم دیا؟ تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ تاکہ لوگوں کو اپنی جہالت سے گمراہ کرے۔ بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ:اور ایک جوڑا اونٹ کا۔}اس آیتِ کریمہ میں دور ِجاہلیت کے ان لوگوں کا رد ہے جو اپنی طرف سے حلال چیزوں کوحرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اُوپر کی آیات میں آچکا ہے۔ شانِ نزول جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف حشمی سیّد ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ’’ یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم نے سُنا ہے آپ اُن چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے بغیر کسی اصل کے چوپایوں کی چند قسمیں حرام کرلیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ نرو مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے۔ تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا؟ ان میں حرمت نر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے۔ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور مُتَحیر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ بولتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا :آپ فرمائیے میں سنوں گا۔ سُبْحَانَ اللہ، قرآنِ پاک کی دلیل کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کردیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا ؟اگر کہتا کہ نر کی طرف سے حرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نر حرام ہوں ، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہوجاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نر ہوتا ہے یا مادہ ۔ وہ جو تخصیص قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حجت نے ان کے اس دعویٔ تحریم کو باطل کردیا۔

{ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ:کیا تم موجود تھے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے براہ ِراست تو بیان فرمایا نہیں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ان جانوروں کی حرمت آئی نہیں تو اب ان جانوروں کے حرام ہونے کی کیا صورت باقی رہی۔ لہٰذا جب یہ بات نہیں ہے تو حرمت کے ان احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جھوٹ، باطل اور خالص بہتان ہے اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھے وہ سب سے بڑا ظالم ہے ، لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں ہدایت نہیں دیتا۔

قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(145)

ترجمہ

تم فرماؤ، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، اُس میں کسی کھانے والے پر میں کوئی کھانا حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں میں بہنے والا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا وہ نافرمانی کا جانور ہو جس کے ذبح میں غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو تو جو مجبور ہوجائے (اور اس حال میں کھائے کہ) نہ خواہش (سے کھانے) والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک آپ کا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ لَّاۤ اَجِدُ:تم فرماؤ میں نہیں پاتا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہل مشرکوں سے جو حلال چیزوں کو اپنی من مرضی سے حرام کرلیتے ہیں فرما دو کہ’’ جو میری طرف وحی کی جاتی ہے میں اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں پاتا سوائے ان چار کے (1) مردار۔ (2) رگوں میں بہنے والا خون۔ (3) سور کا گوشت اور (4) نافرمانی کا جانور یعنی جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ لہٰذا تمہارا اُن دیگر چیزوں کو حرام کہنا باطل ہے جن کی حرمت اللہ کی طرف سے نہ آئی۔

{ فَمَنِ اضْطُرَّ:تو جو مجبور ہوجائے۔}  یعنی مذکورہ بالا چیزیں کھانا حرام ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہو اور ضرورت اُسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کر دے اور وہ اس حال میں کھائے کہ نہ خواہش سے کھانے والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک رب کریمعَزَّوَجَلَّ بخشنے والا، مہربان ہے اور وہ اِس پر کوئی مؤاخذہ نہ فرمائے گا۔

حرام جانوروں کے بیان پر مشتمل آیت سے متعلق چند احکام:

         مجموعی طور پر  اس آیت کے متعلق چند احکام ہیں :

(1)… حرمت شریعت کی جانب سے ثابت ہوتی ہے نہ کہ ہوائے نفس سے ۔

(2)… جما ہوا خون یعنی تلی کلیجی حلال ہے کیونکہ یہ بہتا ہوا خون نہیں لیکن بہتا ہوا خون نکل کر جم جائے وہ بھی حرام ہے کہ وہ بہتا ہوا ہی ہے اگرچہ عارضی طور پر جم گیا۔

(3)… ہر نجس چیز حرام ہے مگر ہر حرام چیز نجس نہیں۔

(4)… سور کی ہر چیز کھال وغیرہ سب حرام ہے کیونکہ وہ نجسُ العین ہے ۔

(5)… سور کی کوئی چیز ذبح کرنے یا پکانے سے پاک نہیں ہو سکتی ۔

(6)… جانو رکی زندگی میں اس پر کسی کے نام پکارنے کا اعتبار نہیں ، ذبح کے وقت کا اعتبار ہے۔

(7)… بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا فسقِ اعتقادی یعنی کفر ہے اس لئے یہاں فِسْقًا ارشاد ہوا۔

(8)… مجبوری کی حالت میں مردار وغیرہ چیزیں بقدرِ ضرورت حلال ہوں گی اور مجبوری سے مراد جان جانے یا عُضْو ضائع ہوجانے کا ظنِ غالب ہونا ہے۔

(9)… اگر اندازے میں غلطی کر کے ضرورت سے زیادہ ایک آدھ لقمہ کھالیا تو پکڑ نہ ہوگی۔

وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍؕ-ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﳲ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(146)

ترجمہ

اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ کے ساتھ یا انتڑیوں سے لگی ہو یا جو چربی ہڈی سے ملی ہوئی ہو۔ ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیااور بیشک ہم ضرور سچے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا:اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا۔} یہودی اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے:

(1)…ہر ناخن والا جانور۔ یہاں ناخن سے مراد انگلی ہے خواہ انگلیاں بیچ سے پھٹی ہوں جیسے کتا اور درندے یا نہ پھٹی ہوں بلکہ کھر کی صورت میں ہوں جیسے اونٹ، شترمرغ اور بطخ وغیرہ۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں بطورِ خاص شتر مرغ ، بطخ اور اُونٹ مراد ہیں۔

 (2)…گائے اور بکری کی چربی۔ یہودیوں پر گائے، بکری کا گوشت وغیرہ حلال تھا لیکن ان کی چربی حرام تھی البتہ جو چربی گائے بکری کی پیٹھ میں لگی ہو یاآنت یا ہڈی سے ملی ہو وہ ان کے لئے حلا ل تھی۔ یہودی چونکہ اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے تھے لہٰذا یہ چیزیں اُن پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اونٹ، بطخ اور شتر مرغ حلال ہیں ، اسی پر صحابۂ کرام اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ص۴۰۴-۴۰۵)

سابقہ شریعتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ شریعتوں کے وہ احکام جو بطورِ سزا جاری کئے گئے تھے وہ ہمارے لئے لائقِ عمل نہیں اگرچہ نص میں مذکور ہو جائیں کیونکہ یہ امتِ مرحومہ ہے، پچھلی امتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں۔

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍۚ-وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(147)

ترجمہ

پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو تم فرماؤ کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرموں پر سے نہیں ٹالا جاتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَاِنْ كَذَّبُوْكَ:پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں پر جن چیزوں کے حلال و حرام ہونے کی تمہیں خبر دی، اگریہودی اسے جھٹلائیں تو آپ فرما دو کہ’’ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ وسیع رحمت والا ہے اسی لئے وہ جھٹلانے والوں کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا تاکہ انہیں ایمان لانے کا موقع ملے ورنہ بہرحال  جن پر عذابِ  الٰہی کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو ان سے ٹالا نہیں جاتا اور پھر عذاب اپنے وقت پر آہی جاتا ہے۔

سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍؕ-كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَاؕ-قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَاؕ-اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ(148)

ترجمہ

اب مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اورنہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسے ہی جھٹلایا تھا یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا۔ تم فرماؤ، کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو اسے ہمارے لئے نکالو۔ تم توصرف جھوٹے خیال کے پیروکار ہو اور تم یونہی غلط اندازے لگا رہے ہو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا:اب مشرک کہیں گے۔} اس میں غیبی خبر ہے کہ مشرک جو آئندہ کہنے والے تھے ، اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا۔ مشرکین پر جب حجت تمام ہو گئی اور ان سے کوئی دلیل نہ بن پڑی تو کہنے لگے: اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے۔ ہم نے جو کچھ کیا اور کرتے ہیں یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مرضی سے ہوا یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ اس سے راضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رد اس طرح فرمایا کہ اگر تمہاری یہ بات درست ہوتی کہ تمہارا شرک اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے کا یہ رواج سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشی سے ہے تو ہونا یوں چاہئے تھا کہ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا لطف و عنایت اور بڑی کرم نوازیاں ہوتیں حالانکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے اس گمراہی کو اپنایا توان پراللہ عَزَّوَجَلَّ کا غضب نازل ہوا اور انہیں بعد والوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا گیا، اب تم خودغور کرو کہ ایسی سنگین سزا مجرم اور نافرمان لوگوں کو دی جاتی ہے یا اطاعت گزار اور فرماں بردار افراد کو۔

قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُۚ-فَلَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ(149)

ترجمہ

تم فرماؤ تو کامل دلیل اللہ ہی کی ہے تواگر وہ چاہتا توتم سب کو ہدایت دیدیتا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ:تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایسی دلیل جو تمام تر شکوک و شبہات کو جڑ سے اکھاڑ دے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پا س ہے، اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ واحد ہے اس نے رسولوں کو دلائل اور معجزات دے کر بھیجا اور ہر مُکَلَّف پر اپنے احکام کو لازم کیا ہے اور ان کو مکلف کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیاہے یعنی انہیں بااختیار بنایا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۹۳-۹۴، الجزء السابع)

            اور اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی ہے کہ بندے اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں ورنہ اگر وہ چاہتا تو جبرا ًسب انسانوں کو مومن بنا دیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں نہیں ہے ا س لئے ان کا یہ کہنا بالکل لَغْو ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، نہ وہ بحیرہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے کیونکہ ا س قسم کا جَبری ایمان اللہ تعالیٰ کا مطلوب نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں ، حق اور باطل کو جانچیں ، کھرے کھوٹے کو پرکھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعلیمات اور شیطان کے وسوسوں میں فرق محسوس کریں اور اپنے اختیار سے برے کاموں اور بری باتوں کو ترک کریں اور شیطان کا انکار کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کو اختیار کریں ، وہ جس چیز کو اختیار کریں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی چیز کو پیدا کر دے گا، ان آیتوں میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مجبورِ محض نہیں بنایا، مختار بنایا ہے اور اس میں جبریہ کا بھی رد ہے۔

قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ الَّذِیْنَ یَشْهَدُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ هٰذَاۚ-فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْۚ-وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ هُمْ بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ(150)

ترجمہ

تم فرماؤ، اپنے وہ گواہ لے آؤ جو گواہی دیں کہ اللہ نے اس چیز کو حرام کیا ہے (جسے تم حرام کہتے ہو) پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں تو اے سننے والے! توان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمْ:تم فرماؤ، اپنے گواہ لے آؤ۔} جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی تمام حجتیں باطل فرما دیں تو اب بیان فرمایا کہ ان کے پاس اپنی بات پر کوئی گواہ بھی نہیں چنانچہ فرمایا: اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیجئے کہ اپنے وہ گواہ لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُسے حرام کیا جسے تم اپنے لئے حرام قرار دیتے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ یہ گواہی اس لئے طلب کی گئی کہ ظاہر ہوجائے کہ کفار کے پاس کوئی شاہد نہیں ہے اور جو وہ کہتے ہیں وہ ان کی اپنی تَراشیدہ باتیں ہیں۔

{ فَاِنْ شَهِدُوْا:پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں۔} یعنی مشرکین اگر اپنی جھوٹی بات پر کوئی گواہ لے ہی آئیں تو اے سننے والے! توان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ بتوں کواپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے برابر ٹھہراتے ہیں یعنی بتوں کو معبود مانتے ہیں اور شرک میں گرفتار ہیں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اگر کوئی ایسی شہادت دے بھی دے تو وہ محض خواہش کی اتباع اور کذب و باطل ہوگی۔

جھوٹی گواہی اور ا س کی تصدیق حرام ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی بھی حرام ہے اور اس کی تصدیق و تائید بھی اور جھوٹے آدمی کی وکالت بھی کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گنا ہ ہے اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بھی بیان ہوئی ہیں ، چنانچہ

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی ظالم کے باطل کام پر اس کی مدد کی تاکہ وہ اس کے باطل کام کے اِرتِکاب کی وجہ سے حق کو باطل کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذمہ سے بری ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۹۴۴)

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے کسی جھگڑے پر ناحق مدد کی تو وہ تب تک اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں رہے گا جب تک (اس مدد کو) چھوڑ نہیں دیتا۔ (مستدرک، کتاب الاحکام، لا تجوز شہادۃ بدوی علی صاحب قریۃ، ۵ / ۱۳۵، الحدیث: ۷۱۳۳)

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاۚ-وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ-وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(151)

ترجمہ

تم فرماؤ، آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا وہ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے اور ظاہری و باطنی بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ اور جس جان (کے قتل) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق نہ مارو۔ تمہیں یہ حکم فرمایا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ تَعَالَوْا:تم فرماؤ آؤ۔} یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ حقیقی حلت و حرمت کے متعدد احکام بیان فرمائے ہیں جو خود اُس خالقِ کائنات نے عطا فرمائے ہیں۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے 9چیزوں کی حرمت بیان فرمائی ہے (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ (2) ماں باپ کے ساتھ بھلائی نہ کرنا۔ (3) مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل کرنا۔ (4) بے حیائی کے کام کرنا چاہے ظاہری ہوں یا باطنی۔ (5) ناحق قتل کرنا۔ (6) یتیم کے مال میں بے جا تَصَرُّف کرنا۔ (7) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (8) ناحق بات کہنا۔ (9)اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کرنا۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ یہ کائنات کا بدترین جھوٹ اور صریح ناشکری و احسان فراموشی ہے۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ تم پر ان کے بہت سے حقوق ہیں ، اُنہوں نے تمہاری پرورش کی، تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا، تمہاری ہر خطرے سے نگہبانی کی، اُن کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کا ترک کرنا حرام ہے۔ معلوم ہوا کہ ماں باپ اگرچہ کافر ہوں ان کے ماں باپ ہونے کی حیثیت سے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ اس احسان میں والدین کے ساتھ تمام قسم کے اچھے سلوک داخل ہیں۔ ان کا ادب، لحاظ، ان پر ضرورت کے وقت مال خرچ کرنا، مسلمان ہونے کی صورت میں  بعدِ وفات ان کیلئے ایصالِ ثواب سب داخل ہیں۔

{ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ:اپنی اولاد قتل نہ کرو۔} اس میں اولاد کو زندہ درگور کرنے اور مار ڈالنے کی حرمت بیان فرمائی گئی جس کا اہلِ جاہلیت میں دستور تھا کہ وہ بارہا فقر و تنگدستی کے اندیشے سے اولاد کومار ڈالتے تھے، انہیں بتایا گیا کہ روزی دینے والا تواللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو تمہیں اور انہیں سب کو روزی دے گا تو پھر تم کیوں قتل جیسے شدید جُرم کا ارتکاب کرتے ہو۔

عورتوں کے حقوق سے متعلق اسلام کی حسین تعلیمات:

            اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو غریبی کی وجہ سے لڑکے لڑکیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور جو مالدار شرم و عار کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو قتل کرتے تھے ان کا ذکر دوسری آیات میں ہے۔ ان کے مقابلے میں اسلام کی تعلیمات کس قدر حسین ہیں اور اسلام نے بچیوں اور عورتوں کوکیسے حقوق عطا فرمائے اس کیلئے صرف درج ذیل 3 حدیثوں کا مطالعہ فرمالیں۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کی بیٹی ہو تو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)

(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس کی تین بیٹیا ں یا تین بہنیں ہوں ، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات، ۳ / ۳۶۷، الحدیث: ۱۹۲۳)

(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کو ادب سکھائے اور ان سے مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بے نیاز کردے (مثلاً ان کا نکاح ہو جائے ) تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب فرما دیتا ہے۔ یہ ارشادِ نبوی سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا: اس کے لئے بھی یہی اجر و ثواب ہے۔ ‘‘(راوی فرماتے ہیں ) یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذکر کرتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔( شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب ثواب کافل الیتیم، ۶ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۳۵۱)

{ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ:اوربے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ۔} اس آیت میں ظاہری وباطنی بے حیائیوں کے پاس جانے سے منع کیا گیا کیونکہ انسان جب کھلے اور ظاہری گناہوں سے بچے اور پوشیدہ گناہوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کا ظاہری گناہوں سے بچنا بھی لِلّٰہیت سے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے اور ان کی بدگوئی سے بچنے کے لئے ہے جبکہ گناہوں سے بچنے کا اصل سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا ڈر ہونا چاہیے نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و ثواب کا مستحق ہوتا بھی وہی ہے جو اس کے خوف سے گناہ ترک کرے۔

بظاہر نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بلکہ ریا کاری ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف دامن گیر ہو۔ لوگوں کے سامنے نیک اعمال کرتے نظر آنے والوں اور تنہائی میں گناہوں پر بیباک ہونے والوں کا حشر میں بہت برا حال ہو گا، چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اللہ تعالیٰ  ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے (اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے، تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵، الحدیث: ۵۴۷۸)

 اللہ تعالیٰ کے خوف سے گناہ چھوڑنے کے 3 فضائل:

(1)…حضر ت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلد اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے بہتر ہو۔‘‘ (جامع الاحادیث، ۹ / ۴۳، الحدیث: ۲۷۰۵۲)

(2)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔ ‘‘(معجم الکبیر، بشر بن نمیر عن القاسم، ۸ / ۲۴۰، الحدیث: ۷۹۳۵)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے’’ جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اورا س کی رضا حاصل کرنے کی خاطر گناہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا۔ ‘‘(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۶۳، الحدیث: ۵۹۱۱، الجزء الثالث)

 ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا:

            حدیث پاک میں ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ایک بہترین دعا تعلیم فرمائی گئی ہے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس دعا کو اپنے معمولات میں شامل کر لے اور بکثرت یہ دعا مانگا کرے ،چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دعا سکھائی، ارشا فرمایا: ’’ کہو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِنْ عَلَانِیَتِیْ، وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ، وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘اے اللہ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے، اے اللہ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال،اچھا گھر بار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گرہو (ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)۔ 

{ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ:اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو ناحق قتل کرنے کی حرمت بیان فرمائی ہے۔

ناحق قتل کرنے یا قتل کا حکم دینے کی3 وعیدیں:

            ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں احادیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتّٰی کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ النساء، ۵ / ۲۳، الحدیث: ۳۰۴۰)

(2)…نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۹، الحدیث: ۵۳۶۰)

(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ تعالیٰ قاتل سے فرمائے گا: ’’تو نے اسے کیوں قتل کیا: قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۱، الحدیث: ۵۳۲۹)

قتلِ برحق کی صورتیں اور ایک اہم تنبیہ:

            چند صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں حاکمِ اسلام کیلئے مجرم کو قتل کرنے کی اجازت ہے جیسے قاتل کو قصاص میں ، شادی شدہ زانی کو رجم میں اور مرتد کو سزا کے طور پر قتل کرنا البتہ یہ یاد رہے کہ قتلِ برحق کی جو صورتیں بیان ہوئیں ان پر عام لوگ عمل نہیں کر سکتے بلکہ اس کی اجازت صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔

وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ-وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِۚ-لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۚ-وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۚ-وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْاؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(152)

ترجمہ

اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقہ سے حتّٰی کہ وہ اپنی جوانی (کی عمر )کو پہنچ جائے اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتے ہیں اور جب بات کرو تو عدل کرو اگرچہ تمہارے رشتے دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔ (اللہ نے) تمہیں یہ تاکید فرمائی ہے تاکہ نصیحت حاصل کرو۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ:اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ۔} یعنی یتیم کے مال کے پاس اس طریقے سے جاؤ جس سے اس کا فائدہ ہو اور جب وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اس وقت اس کا مال اس کے سپرد کردو۔ اس حکم کی تفصیل اور یتیموں سے متعلق مزید احکام سورۂ نساء کی ابتدائی چند آیات میں گزر چکے ہیں۔

{ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ:اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔} یعنی ناپ تول میں کمی نہ کرو کیونکہ یہ حرام ہے ۔

ناپ تول میں کمی کرنے کی 2وَعِیدیں :

            ناپ تول میں کمی کرنے پر احادیث میں سخت وعید یں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 2 وعیدیں درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے تاجروں کے گروہ! دو ایسے کام تمہارے سپرد کئے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے، یہ ناپنا اور تولنا ہے۔( شعب الایمان، الخامس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۵۲۸۸)

(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔

(۱)… جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں (جیسے آجکل ایڈز، Aids وغیرہ)

(۲)…جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔

(۳)… جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔

(۴)… جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر دشمن مسلَّط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا ۔

(۵)… جب حکمران اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)

            اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر غور کریں کہ آج ہم میں خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا پھیلاؤ ، قحط سالی، شدید تنگی اور حکمرانوں کے ظلم کاسامنا، دشمن کا تَسَلُّط اور مال واسباب کا لٹ جانا، تَعَصُّب اور ہمارے لسانی،قومی اختلافات یہ سب ہمارے کن اعمال کا نتیجہ ہیں۔

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت

شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلا ہے

جو کچھ بھی ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت

سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے

اللہ تعالیٰ کے خوف سے حرام کام چھوڑنے کی فضیلت:

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص حرام پر قادر ہو پھر اسے اللہ تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دے تواللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی بہت جلد اُس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو حرام سے کہیں بہتر ہو۔ (تفسیر طبری، الاسرائ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۷۹)

{ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا:اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو۔} یعنی خوا ہ گواہی دو یا فتویٰ دویا حاکم بن کر فیصلہ کر و کچھ بھی ہو انصاف سے ہو اس میں قرابت یا وجاہت کا لحاظ نہ ہو کیونکہ اس سے مقصود شرعی حکم کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرنا ہوتا ہے اور اس میں اجنبی اور قرابت دار کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۳ / ۱۱۹)

{ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا:اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔} یعنی صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عہد پورے کرو اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کے عہد پورے نہ کرو، اگر تم نے غلطی سے کسی سے ناجائز عہد کر لیا تو فوراً توڑ دو، مثلاً اگرکسی سے وعدہ کیا بلکہ قسم کھائی کہ اس کے ساتھ شراب پئیں گے یا چوری کریں گے تو یہ وعدہ توڑ دو اور قسم کا کفارہ دے دو۔ آیت میں ’’عَہْد اللہ‘‘ سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر لازم فرمایا یعنی وہ احکام جو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ملے یا وہ عہد مراد ہے جو انسان اپنے اوپر لازم کر لے جیسے منت وغیرہ، ان سب کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۶۹)

 عہد شکنی پر وعید :

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اَوّلین و آخِرین کو جمع فرمائے گاتو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷،مسلم کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر، ص۹۵۵، الحدیث: ۹(۱۷۳۵))

            بندوں کے ساتھ کئے گئے جائز عہدوں کو پورا کرنے کا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے لہٰذا ان کا پورا کرنا بھی عہد ِ الٰہی کو پورا کرنے میں داخل ہوگا۔

وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(153)

ترجمہ

اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔ تمہیں یہ حکم فرمایا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے۔} یعنی یہاں مذکور آیتوں میں جو احکام تمہیں بیان کئے گئے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا  سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو۔ احادیث میں ایک مثال کے ذریعے سیدھے راستے کے بارے میں سمجھایا گیا ہے، چنانچہ

            حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک خط کھینچا، دو اس کے دائیں اور دو بائیں جانب کھینچے، پھر اپنا ہاتھ درمیانے خط پر رکھ کر فرمایا ’’یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

 ’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب اتباع سنّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۱)

            حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا ،پھر فرمایا ’’ یہ اللہ کا راستہ ہے ۔ پھر اس کے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا ’’ یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان ہے جو اُدھر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (سنن دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۲۰۲)

سیدھا راستہ :

            اس سے معلوم ہوا کہ عقائد کی درستی، عبادت کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور حقوق کا ادا کرنا سیدھا راستہ ہے۔ جو ان میں سے کسی میں کوتاہی کرتاہے وہ سیدھے راستے پر نہیں۔ عقائد، عبادات اور معاملات جسم اوردو بازوؤں کی طرح ہیں جن میں سے ایک کے بغیر اڑنا ناممکن ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دفتر تین قسم کے ہیں۔ ایک دفتر وہ ہے کہ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نہ بخشے گا۔ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 ’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘(النساء:۴۸)           ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نہ بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔

            اور ایک دفتر وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ چھوڑے گا نہیں ، وہ بندوں کے آپس کے ظلم ہیں حتّٰی کہ ان کے بعض کا بعض سے بدلہ لے گا اور ایک دفتر وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا، وہ بندوں کا اپنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان حق تلفی ہے، تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد ہے، اگر چاہے اسے سزا دے اور اگر چاہے تو اس سے در گزر فرمائے۔ (شعب الایمان، التاسع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۵۲، الحدیث: ۷۴۷۳)

{ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ:اور دوسری راہوں پر نہ چلو۔} یہاں دوسرے راستوں سے مرادوہ راستے ہیں جو اسلام کے خلاف ہوں یہودیت ہو یا نصرانیت یا اور کوئی ملت۔ لہٰذا اگر تم اسلام کے خلاف راستے پر چلے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے ۔صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ معاملات کی خرابی عبادات کی خرابی تک پہنچا دیتی ہے اور عبادات کی خرابی کبھی عقائد کی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ترکِ مستحب ترکِ سنت کا اور ترکِ سنت ترکِ فرض کا ذریعہ ہے چور کو پہلے دروازے پر ہی روکو۔

ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ(154)

ترجمہ

پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔}یہاں کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔ سب سے پہلے کتابِ الہٰی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی عطا ہوئی۔ اس سے پہلے پیغمبروں کو صحیفے ملتے تھے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو‘‘ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’بنی اسرائیل میں محسن (یعنی نیک) اور غیر محسن بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے محسنین یعنی نیک لوگوں پر اپنی نعمت پوری کرنے کے لئے یہ کتاب نازل فرمائی۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے علم کے مطابق نیک کام کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمت پوری کرنے کے لئے ان کو کتاب (یعنی تورات) دی۔(قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۴ / ۱۰۴، الجزء السابع)

پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اُس نے تورات میں دین کی کیا نعمتیں رکھی ہیں ؟ چنانچہ فرمایا کہ’’ا س میں ہر چیز کی تفصیل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں دین کے تمام احکام عقائد اور مسائل کی تفصیل ہے، لہٰذا اس میں ہمارے نبی سیدنا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور رسالت کا بیان اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے تمام دلائل ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۱۸۶)

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(155)

ترجمہ

اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ:اور یہ کتاب۔} یعنی قرآن شریف جو کثیر خیر والا، کثیر نفع والا اور کثیر برکت والا ہے اور قیامت تک رہے گا اور تحریف و تبدیل و نَسخ سے محفوظ رہے گا۔ قرآن اس لئے مبارک ہے کہ مبارک فرشتہ اسے لایا، مبارک مہینے رمضان میں لایا، مبارک ذات پر اترا، خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہے، جس کام پر اس کی آیات پڑھ دی جائیں اس میں برکت ہو جائے اور سب سے بڑھ کر اس کی تعلیمات اور ہدایت برکت والی ہیں۔

{ فَاتَّبِعُوْهُ:تو تم اس کی پیروی کرو۔} یعنی قرآنِ کریم میں مذکور احکامات پر عمل کرو، ممنوعات سے باز آجاؤ اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو تاکہ اس اتباع اور عمل کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے۔

 امت پر قرآنِ مجید کا حق:

            اس سے معلوم ہو اکہ امت پر قرآنِ مجید کا ایک حق یہ ہے کہ وہ ا س مبارک کتاب کی پیروی کریں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچیں۔ افسوس! فی زمانہ قرآنِ کریم پر عمل کے اعتبار سے مسلمانوں کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، آج مسلمانوں نے ا س کتاب کی روزانہ تلاوت کرنے کی بجائے اسے گھروں میں جزدان و غلاف کی زینت بنا کر اور دکانوں پر کاروبار میں برکت کے لئے رکھا ہوا ہے اور تلاوت کرنے والے بھی صحیح طریقے سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے اس کتاب میں ان کے لئے کیا فرمایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اس مقدس کتاب کو سینے سے لگا کر حِرْزِ جاں بنائے رکھا اور اس کے دستور و قوانین اور احکامات پر سختی سے عمل پیرا رہے تب تک دنیا بھر میں ان کی شوکت کا ڈنکا بجتا رہا اور غیروں کے دل مسلمانوں کا نام سن کر دہلتے رہے اور جب سے مسلمانوں نے قرآنِ عظیم کے احکام پر عمل چھوڑ رکھا ہے تب سے وہ دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو رہے اور اغیار کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔

وہ ز مانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر 

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

         قرآنِ کریم کے احکام پر عمل نہ کرنے کا دنیوی نقصان تو اپنی جگہ، اخروی نقصان بھی انتہائی شدید ہے، چنانچہ

         حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول ہے، جس نے (اس کے احکامات پر عمل کر کے) اسے اپنے سامنے رکھا تو یہ اسے پکڑ کر جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے (اس کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے) اسے اپنے پیچھے رکھا تو یہ اسے ہانک کر جہنم کی طرف لے جائے گا۔(معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۸، الحدیث: ۱۰۴۵۰، ملتقطاً)

اَنْ تَقُوْلُـوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا۪-وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَ(156)

ترجمہ

۔ (اس لئے اترا) تاکہ تم یہ (نہ) کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر اُتری تھی اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَنْ تَقُوْلُوْا:کبھی کہو۔} یعنی یہ قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تمہیں یہ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتابیں جیسے تورات و انجیل تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں پریعنی یہودیوں اور عیسائیوں پر اُتری تھیں، ہماری عرب کی سرزمین میں تونہ کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب۔ پھر جو کتابیں توریت و انجیل آئیں وہ ہماری زبان میں نہ تھیں اور نہ ہی ہمیں کسی نے ان کے معنی بتائے  پھر ہم ہدایت پر کیسے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرما کر بتادیا کہ اب تمہارا کوئی عذر باقی نہ رہا اور تم یہودو نصاریٰ کے محتاج نہ رہے۔

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰى مِنْهُمْۚ-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ صَدَفَ عَنْهَاؕ-سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ(157)

ترجمہ

یا (تا کہ تم یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت او ر رحمت آگئی ہے تو اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے۔ عنقریب وہ لوگ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں ان کے منہ پھیرنے کی وجہ سے برے عذاب کی سزا دیں گے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَوْ تَقُوْلُوْا:یا کہو۔} شانِ نزول: کفارِ عرب کی ایک جماعت نے کہا تھا کہ یہود و نصارٰی پر توریت و انجیل نازل ہوئیں مگر وہ بے عقل ان کتابوں سے ہدایت حاصل نہ کر سکے ہم اُن کی طرح خفیفُ العقل اور نادان نہیں ہیں ہماری عقلیں صحیح ہیں اور ہماری عقل وذہانت اور فہم و فراست تو ایسی ہے کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ سیدھے راہ پر ہوتے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ اور اس طرح ان کا یہ عذر بھی ختم فرما دیا گیا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۷۱)

صرف عقل پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے:

             اس سے معلوم ہوا کہ صرف اپنی عقل پر اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ رب تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ شیخی مارنے والے بھی کافر ہی رہے ایمان نہ لائے اس لئے کہ انہوں نے عقل پر بھروسہ کیا۔

{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے زیادہ ظالم کون جو۔} یعنی جو نبی کے معجزات اور ان کی کتابوں کا انکار کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کہ اسے دائمی عذاب کا مستحق بناتا ہے۔

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًاؕ-قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ(158)

ترجمہ

وہ صرف اسی چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تمہارے رب کا عذاب آجائے یا تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں ۔ جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن کسی شخص کو اس کا ایمان قبول کرنا نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ حاصل کی ہوگی۔ تم فرمادو: تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں ۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کس کے انتظار میں ہیں۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پردلائل قائم کردئیے گئے اور کفریہ اور گمراہ کُن عقائد کا باطل ہونا بھی ظاہر کردیا گیا تو اب ایمان لانے میں کیا انتظار باقی ہے؟ اب تو یہی ہے کہ وہ کفار اس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے آجائیں یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی قیامت کی خبر دینے والی ایک نشانی آجائے اور یوں مشاہدے کے طور پر ہرچیز ان کیلئے ظاہر ہوجائے، لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جس دن غیب کے معاملات ظاہر ہوجائیں گے یا عذاب آنکھوں کے سامنے آچکا ہوگا تواس دن کافر کو ایمان لانا نفع نہ دے گا۔ جمہور مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں جو فرمایا گیا کہ’’ جس دن تیرے رب کی ایک نشانی آئے گی‘‘ اس نشانی سے مراد آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب وہ مغرب سے طلوع ہو گا اور اُسے لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اور یہ ایمان نفع نہ دے گا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا ینفع نفساً ایمانہا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۳، الحدیث: ۴۶۳۵، مسلم، کتاب الایمان، باب بیان زمن الذی لا یقبل فیہ الایمان، ص۹۲، الحدیث: ۲۴۸(۱۵۷))

{ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا:یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی (نہ) حاصل کی ہوگی۔} اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے جس گنہگار مومن نے توبہ نہ کی توا ب اُس کی توبہ مقبول نہیں۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۵ / ۴۰۷، ملخصاً)

            امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے جو مومن نیک اعمال کرتا تھا نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی اسی طرح اس کے نیک اعمال اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا البتہ جب یہ نشانی ظاہر ہوئی تو ا س وقت نہ کافر کا ایمان مقبول ہے نہ گنہگار کی توبہ کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس نے انہیں ایمان لانے اور گناہوں سے توبہ کرنے پر مجبور کر دیا لہٰذا جس طرح عذابِ الٰہی دیکھ کر کفار کا ایمان لانا بے فائدہ ہے اسی طرح قربِ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر بھی ایمان اور توبہ قبول نہیں۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۷۳)

 توبہ اور نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب:

            اس آیت میں ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت (یعنی قیامت ) سے پہلے۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص۱۵۷۹، الحدیث: ۱۲۸(۲۹۴۷))

            اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو،( اگر تم نے جلد توبہ کر لی) تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص۳۵-۳۶)

{ قُلِ انْتَظِرُوْا:تم فرمادو: تم انتظار کرو ۔} یعنی اے کافرو! تم موت کے فرشتوں کی آمد یا عذاب یا نشانی، ان میں سے کسی ایک کے آنے کا انتظار کرو اور ہم بھی تم پر عذاب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انتظار درست تھا چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے کافر ہلاک اور مغلوب ہوئے جبکہ مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوا اور قیامت کے دن بھی کفار ہلاک ہوں گے اور مومن کامیاب و کامران ہو کر سُرخرو ہوں گے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ-اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(159)

ترجمہ

بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود مختلف گروہ بن گئے اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کیاکرتے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔} اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے دو قول درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’ان لوگوں سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔

 رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بعثت سے پہلے وہ ایک دوسرے سے ا ختلاف کرتے تھے اور بعد میں مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)

(2)… حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ان سے تمام مشرکین مراد ہیں کیونکہ ان میں سے بعض نے بتوں کی پوجا کی اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کریں گے۔ بعض نے فرشتوں کی عبادت کی اور کہا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور بعض نے ستاروں کی پرستش کی، تو یہ ان کی دین میں تفریق ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۲ / ۷۲)

فرقہ بندی کا سبب اور حق پر کون؟

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اختلاف اور فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ ان سے پہلے لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)

            خلاصہ یہ کہ اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نظریے پر متفق ہونے، دین میں فرقہ بندی اور بِدعات اختیار کرنے سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ فی زمانہ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں فرقہ بندی کیوں ہے اور ان میں حق پر کون ہے؟ اس سلسلے میں چند باتیں ذہن نشین کر لیجئے،اِنْ شَآءَ اللہ! آپ پر خود ہی واضح ہو جائے گا کہ فرقہ بندی کا اصل سبب کیا ہے اور مختلف فرقوں میں سے حق پر کونسا فرقہ ہے

          پہلی بات : یہ امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَارَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث:۳۹۵۰)

          دوسری بات: حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدیوں پہلے ہی اس اختلاف اور فرقہ بندی کے بارے میں پیشین گوئی فرما دی تھی، چنانچہ حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَفْتَرِقَنَّ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَا ثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَنْ ہُمْ قَالَ اَلْجَمَاعَۃُ‘‘اس ذات کی قسم !جس کے دستِ قدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی (ان میں سے) ایک جنت میں جائے گا اور 72جہنم میں جائیں گے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) وہ جنتی کون ہوں گے ؟ارشاد فرمایا :وہ جماعت ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب افتراق الامم،۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۳۹۹۲)

            واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اختلافِ امت کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ عین حق اور صواب پر مبنی تھا۔

          تیسری بات:یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس دورِ اختلاف میں حق پسند اور نجات پانے والے گروہ کا پتا کیسے چلے گا، کس طرح معلوم ہو گا کہ موجودہ فرقوں میں حق پر کون ہے۔ اس کی رہنمائی بھی حدیث پاک میں کر دی گئی ہے کہ ’’اِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمْ‘‘جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)

            اس روایت میں اختلاف سے مراد اصولی اختلاف ہیں جس میں ’’کفر و ایمان‘‘ اور ’’ہدایت وضلالت ‘‘ کا فرق پایا جائے، فروعی اختلاف ہر گز مراد نہیں کیونکہ وہ تو رحمت ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘ میری امت کا (فروعی) اختلاف رحمت ہے۔( کنز العمال، کتاب العلم، قسم الاقوال، ۵ / ۵۹، الحدیث: ۲۸۶۸۲، الجزء العاشر)

            اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر موجودہ اسلامی فرقوں میں اس بڑے فرقے کو تلاش کیجئے جو باہم اصولوں میں مختلف نہ ہوں اور جس قدر اسلامی فرقے اس کے ساتھ اصولی اختلاف رکھتے ہوں وہ ان سب میں بڑا ہو۔ آپ کو اہلسنّت و جماعت کے سوا کوئی نہ ملے گا جس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی، اشعری ، ماتریدی سب شامل ہیں یہ سب اہلسنّت ہیں اور ان کے مابین کوئی ایسا اصولی اختلاف نہیں جس میں کفر و ایمان یا ہدایت و ضَلال کا فرق پایا جائے لہٰذا اس پر فتن دور میں حدیثِ مذکور کی رُو سے سوادِ اعظم اہلسنّت و جماعت ہے اور اس کا حق پر ہونا بھی ثابت ہوا۔

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ-وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(160)

ترجمہ

جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہیں اور جو کوئی برائی لائے تو اسے صرف اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ:جو ایک نیکی لائے۔} یعنی ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کی جزا اور یہ کوئی انتہائی مقدار نہیں بلکہ یہ تو فضل الہٰی کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کے لئے جتنا چاہے اس کی نیکیوں کو بڑھائے ایک کے سات سو کرے یا بے حساب عطا فرمائے۔

ثواب کے درجات:

         اس آیت سے متعلق علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت میں جس اضافے کا وعدہ کیا ہے یہ اس کا کم ازکم حصہ ہے۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۳۱۳، تحت الحدیث: ۱۷۶۳)

         ایک اورمقام پرارشاد فرماتے ہیں : آیت سے مرادکہ ’’جو ایک نیکی لائے‘‘ کے مقابلے میں ثواب کے مراتب میں سے اَقَل مرتبے کا بیان ہے اور اس کے اکثر مرتبے کی کوئی انتہا نہیں۔ (فیض القدیر، حرف المیم، ۶ / ۱۸۸، تحت الحدیث: ۸۷۳۱)

       حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ اقل (یعنی کم از کم) اضافہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفضلہا، الفصل الاول، ۳ / ۱۰، تحت الحدیث: ۹۲۱)

         ایک اور مقام پر فرمایا ’’اور وہ زیادتی کا قلیل مرتبہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں کیا گیا ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثانی، ۴ / ۶۴۷، تحت الحدیث: ۲۱۳۷)

       حضرت علامہ عبد الرحمٰن بن شہاب الدین بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ نیکی کا دس گنا اضافہ تمام نیکیوں کے لئے لازم ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ عالیشان ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘ جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم، الحدیث السابع والثلاثون، ص۴۳۶)

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں جو جزا بیان ہوئی یہ اس کے لئے ہے جو نیکی یا گناہ کرے البتہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اسے کر نہ سکا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا لیکن گناہ کیا نہیں ، اب اگر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہ چھوڑا ہو گا تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی ورنہ کچھ نہ لکھا جائے گا۔ (تفسیر صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)

         یاد رہے کہ ثواب کے اکثر درجات کی کوئی حد نہیں ، قرآنِ پاک میں سات سو گنا کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جس کیلئے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دے اور قرآنِ پاک میں صبر پر بے حساب اجر کا وعدہ ہے اور حدیث میں مکہ سے پیدل حج کرنے پر ہر قدم پر سات کروڑ نیکیوں کی بشارت ہے۔

{ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ:اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا خواہ اس طرح کہ اطاعت گزار اور نیک اعمال کرنے والے کے ثواب میں کمی کر دی جائے اور نافرمان اور گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دے دی جائے یااس طرح کہ انہیں جرم کئے بغیر عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے چھوٹے بچے جو بچپن میں فوت ہو جائیں وہ دوزخی نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔

ظلم کے معنی:

         ظلم کے دو معنی ہیں :

(1)… کسی غیر کی چیز میں بلا اجازت تصرف کرنا۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)

(2)… بے قصور کو سزا دے دینا یا کام لے کر اس کی اجرت نہ دینا۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث الرابع والعشرون، ص۲۸۱، التیسیر شرح جامع صغیر، حرف العین، ۲ / ۱۳۵)

         ان جیسی آیات میں ظلم کے دوسرے معنی مراد ہیں اور حدیثِ پاک کہ اگر خدا تمام دنیا کو دوزخ میں بھیج دے تو ظالم نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مِلکیت ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی ملکیت میں جیسے چاہے تصرف فرمائے۔

قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﳛ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاۚ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(161)

ترجمہ

تم فرماؤ، بیشک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرمائی، (یہ) مضبوط دین ہے جوہر باطل سے جدا ابراہیم کی ملت ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْ:تم فرماؤ، بیشک مجھے میرے رب نے ہدایت فرمائی۔} اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلاواسطہ رب تعالیٰ نے عقائد، اعمال ہر قسم کی ہدایت دی۔ دوسرے یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اول سے ہدایت پر تھے ایک آن کے لئے اس سے دور نہ ہوئے۔ جو ایک آن کے لئے بھی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہدایت سے علیحدہ مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ، ص۲۵، الحدیث: ۳۱۰)

{ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ:اور (ابراہیم) مشرکوں میں سے نہ تھے۔} اس میں کفارِ قریش کا رد ہے جو گمان کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مشرک و بت پرست نہ تھے تو بت پرستی کرنے والے مشرکین کا یہ دعویٰ کہ وہ ابراہیمی ملت پر ہیں باطل ہے۔

عظمتِ انبیاء:

            اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں سے کفار کے الزام اٹھانا سنتِ الٰہیہ ہے، جو ان کی عزت و عظمت پر اپنی جان و مال، تحریر، تقریر صرف کرتا ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مقبول ہے۔ رب تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار کا یہ الزام دفع فرمایا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَعَاذَاللہ مشرک تھے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162)

ترجمہ

تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔

 کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَحْیَایَ:اور میرا جینا۔} یہاں جو فرمایا گیا وہ حقیقتاً ایک مومن زندگی کی عکاسی ہے کہ مسلمان کا جینا، مرنا، اور عبادت و ریاضت سب کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہونا چاہیے۔ زندگی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے کاموں میں اور جینے کا مقصد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی سربلندی ہو۔ یونہی مرنا حالت ِ ایمان میں ہو اور ہوسکے تو کلمۂ حق بلند کرنے کیلئے ہو۔ یونہی عبادت کا شرکِ جلی سے پاک ہونا تو بہرحال ایمانیات میں داخل ہے، عبادت شرک ِ خفی یعنی ریاکاری سے بھی پاک ہو اور خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہو۔

لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(163)

ترجمہ

اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ:اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔} اوّلیت یا تو اس اعتبار سے ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا اسلام اُن کی امت پر مقدم ہوتا ہے (بیضاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۴۷۲) یا اس اعتبار سے کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوّل مخلوقات ہیں تو ضرور اولُ المسلمین ہوئے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۴ / ۱۱۳، الجزء السابع)

سب سے پہلے مومن:

            اس سے معلوم ہوا کہ ساری مخلوق میں سب سے پہلے مومن حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں۔ حضرت جبریل اورمیکائیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عابد بلکہ نبی تھے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (ترجمہ:کیا میں تمہارا رب نہیں؟)کے جواب میں سب سے پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بَلٰى (ترجمہ:کیوں نہیں ) فرمایا تھا، (فیض القدیر، حرف الکاف، ۵ / ۶۹، تحت الحدیث: ۶۴۲۴) پھر اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،پھر دوسرے لوگوں نے۔

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍؕ-وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(164)

ترجمہ

تم فرماؤ، کیا اللہ کے سوا اور رب طلب کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور ہرشخص جو عمل کرے گا وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے تووہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا:تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں۔}شا نِ نزول: کفار نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ آپ ہمارے دین میں داخل ہوجائیں اور ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولیدبن مغیرہ کہتا تھا کہ میرا راستہ اختیار کرو ،اس میں اگر کچھ گناہ ہے تو میری گردن پر، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ وہ راستہ باطل ہے، خدا شناس کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو خدا مانے، نیزیہ بات بھی باطل ہے کہ کسی کا گناہ دوسرا اٹھا سکے بلکہ  ہرشخص جو عمل کرے گا وہ اسی پر ہے ۔

{ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى:اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔}یعنی مجرم گناہ سے بالکل بری ہو جائے اور کسی دوسرے پر اس کے گناہ ڈال دئیے جائیں یہ نہیں ہوسکتا اور یونہی ایک آدمی کے گناہ دوسرے پر بغیر کسی سبب کے ڈال دئیے جائیں یہ بھی نہیں ہوسکتا البتہ جو آدمی گناہ کا طریقہ ایجاد کرے یا دوسرے کو گمراہ کرے یا گناہ کے راستے پر لگائے تو یہ اپنے ان افعال کی وجہ سے پکڑ میں آئے گا اور یہ اِس کے گناہ کی شدت ہوگی کہ اِس کی وجہ سے جتنے لوگوں نے جتنے گناہ کئے اُن سب کے وہ گناہ اِس پہلے آدمی پر ڈال دئیے جائیں۔ حقیقت میں یہ اِس آدمی کے اپنے ہی اعمال کا انجام ہے نہ یہ کہ بلاوجہ دوسروں کے گناہ اِس پر ڈال دئیے گئے اور یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’ وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ‘‘ (عنکبوت: ۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے۔‘‘

            سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے ان باتوں پر عمل کیا تو بلانے والے کو پیروی کرنے والوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی اورجس نے گمراہی کی دعوت دی اور لوگوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے ان باتوں پر عمل کیا تو دعوت دینے والے کو پیروی کرنے والوں کے گناہ کے برابر گناہ ملے گا اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ (در منثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۳، ۶ / ۴۵۴)

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ﳲ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(165)

ترجمہ

اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب بنایا اور تم میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندی عطا فرمائی تاکہ وہ تمہیں اس چیز میں آزمائے جو اس نے تمہیں عطا فرمائی ہے بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

کنزالعرفان

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ:اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب بنایا۔} کیونکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَمُ النبییّن ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُ مت سب امتوں میں آخری امت ہے، اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرف کریں۔ اور فرمایا: ’’اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی‘‘ یعنی شکل و صورت میں ،حسن و جمال میں ،رزق و مال میں ،علم و عقل میں اور قوت و کمال میں ایک کو دوسرے پر بلندی دی اور اس کا مقصد تمہاری آزمائش کرنا ہے کہ کون نعمتوں کے ملنے پر شکر ادا کرتا ہے اور کون ظلم و زیادتی کی راہ پر چلتا ہے؟ کون امتحان میں کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام ہوتا ہے؟

            قرآنِ کریم کی اور آیات میں بھی اس چیز کو بیان کیاگیا ہے ،چنانچہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ‘‘ (عنکبوت:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم’’ ایمان لائے ‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟

          اور ارشاد فرمایا:

’’ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ‘‘ (بقرہ:۱۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔

اور فرمایا:

’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ‘‘ (الانبیاء:۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں آزماتے ہیں اور ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

          ارشاد فرمایا :

’’ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا٘-ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّاۙ-قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍؕ-بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ (الزمر:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب اسے ہم اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمائیں توکہتا ہے یہ تو مجھے ایک علم کی بدولت ملی ہے (حالانکہ ایسا نہیں ہے) بلکہ وہ تو ایک آزمائش ہے مگر ان میں اکثر لوگ جانتے نہیں۔

          ایک اور مقام پر فرمایا

’’ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ‘‘ (کہف:۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کو اس کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے؟

 { اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ:بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ فاسق و فاجر اور گنہگار کو بہت جلد سزا دینے والا ہے۔ اس مقام پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلیم ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ اپنے نافرمان کو جلدی سزا نہیں دیتا پھر کس طرح فرمایا کہ’’بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے۔‘‘ اس کا جواب دیتے ہوئے ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ ہر وہ کام جویقینا ہونے والا ہے وہ قریب ہی ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۴ / ۱۱۶، الجزء السابع)

            تفسیرِ صاوی میں ہے کہ ’’ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ‘‘ کا معنی ہے جب عذاب کا وقت آ جائے تو اس وقت اللہ  تعالیٰ عذاب نازل کرنے میں دیر نہیں فرماتا۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۲ / ۶۵۳)

Scroll to Top