سُوْرَۃُ الأَعْرَاف
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓـمّٓصٓ(1)كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(2)اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ(3)
ترجمہ
المص۔ اے حبیب ! (یہ) ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تا کہ آپ اس کے ذریعے ڈر سنائیں اور مومنوں کے لئے نصیحت ہے پس آپ کے دل میں اس کی طرف سے کوئی تنگی نہ ہو۔اے لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جونازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ۔تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ الٓـمّٓصٓ:} یہ حروفِ مُقَطّعات ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کتاب یعنی قرآنِ پاک آپ کی طرف اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل میں لوگوں کے سابقہ طرزِ عمل کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ لوگ نہ مانیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور اسے جھٹلانے لگیں گے اس کی تبلیغ فرمانے سے کوئی تنگی نہ آئے، آپ ان کفار کی مخالفت کی ذرہ بھر پروا نہ کریں۔
تکالیف کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے:
اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، راستے میں کانٹے بچھانا، آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ سے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآىٕلُوْنَ(4)
ترجمہ
اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا، یا (جب) وہ دوپہر کو سورہے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں۔} اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈر سنانے اور تبلیغ جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور امت کو قرآنِ پاک کی پیروی کا حکم دیا، اب حکمِ الٰہی کی پیروی چھوڑ دینے اور اس سے اعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے انجام کی صورت میں بتائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یاجب وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قَیلولہ کا و قت تھا اور وہ مصروفِ راحت تھے۔ نہ عذاب کے نزول کی کوئی نشانی تھی اور نہ کوئی قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے بلکہ اچانک آگیا اور وہ بھاگنے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ اس سے کفار کو مُتَنَبِّہ کیا جارہا ہے کہ وہ اسباب ِامن و راحت پر مغرور نہ ہوں عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو دفعۃً آجاتا ہے۔
فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُـوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(5)
ترجمہ
تو جب ان پر ہمارا عذاب آیا توان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم (ہی)ظالم تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ:تو ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔} یعنی بستی والوں پر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آیا تو اس وقت ان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم ہی ظالم تھے اور وہ لوگ اپنے اوپر آنے والے عذاب کو دور نہ کر سکے، خلاصہ یہ ہے کہ عذاب آنے پر اُنہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن اس وقت اعتراف بھی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عذاب دیکھ کر توبہ کرنا یا ایمان لانا قبول نہیں ہوتا۔ ایمانِ یا س قبول نہیں۔
فَلَنَسْــٴَـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْــٴَـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ(6)
ترجمہ
تو بیشک ہم ضرور ان لوگوں سے سوال کریں گے جن کی طرف (رسول) بھیجے گئے اور بیشک ہم ضرور رسولوں سے سوال کریں گے
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَلَنَسْــٴَـلَنَّ:تو بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے۔} یعنی ان امتوں سے پوچھا جائے گا جن کی طرف رسول بھیجے گئے کہ تمہیں تمہارے رسولوں نے تبلیغ کی یا نہیں اور تم نے رسولوں کی د عوت کا کیا جواب دیا اور ان کے حکم کی کیا تعمیل کی۔ اور رسولوں سے دریافت کیاجائے گا کہ کیاآپ نے اپنی اُمتوں کو ہمارے پیغام پہنچائے اور تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیاتھا۔ یہاں علماء نے فرمایا ہے کہ یہ سوال و جواب ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ‘‘ (البقرہ:۱۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورآپ سے جہنمیوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔
اور نہ کوئی بد باطن کافر یہ کہہ سکے گا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبلیغ نہیں فرمائی۔
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا كُنَّا غَآىٕبِیْنَ(7)
ترجمہ
تو ضرور ہم ان کو اپنے علم سے بتادیں گے اور ہم غائب نہ تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ:تو ضرور ہم ان کو بتادیں گے۔} یعنی قیامت میں ہمارا کفار سے اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پوچھ گچھ فرمانا قانونی کاروائی کیلئے ہوگا نہ کہ اس لئے کہ ہمیں اصل واقعہ کی خبر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے واقعۂ تہمت میں لوگوں سے دریافت فرمانا امت کی تعلیم کے لئے قانونی کاروائی تھی۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(8)
ترجمہ
اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ:اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے۔} اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن اور میزان کا معنی
وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۲۰۲، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸، ملتقطاً)
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ (مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷، الحدیث: ۸۷۷۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ (شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰، الحدیث: ۲۸۱)
میزان سے متعلق دو اہم باتیں
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)…صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔
(2)…میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
میزانِ عمل کو بھرنے والے اعمال
اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ہم یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتے ہیں ، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ۔‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۶۴۰۶)
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ میزان کو بھر دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔ (معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۳۰۲۴)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۷۹۹)
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(9)
ترجمہ
اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ:اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے اور ان میں کوئی نیکی نہ ہو گی تو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا۔ بعض علماء کے نزدیک قیامت کے دن صرف مسلمانوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کافروں کے اعمال کا وزن نہ ہو گا لیکن اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ جن کافروں کو اللہ تعالیٰ جلد دوزخ میں ڈالناچاہے گا انہیں اعمال کے وزن کے بغیر دوزخ میں ڈال دے گا اور بقیہ کافروں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا اسی طرح بعض مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ اعمال کا وزن کئے بغیر بے حساب جنت میں داخل کر دے گا۔
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ(10)
ترجمہ
اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے اسباب بنائے، تم بہت ہی کم شکر اداکرتے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ:اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا۔} یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی عظیم نعمتوں کو یا د دلایا کہ جن کی وجہ سے نعمتیں عطا فرمانے والے کا شکر ادا کرنا لازم ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ہوا ’’ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانہ دیا اور تمہارے لئے اس میں زندگی گزارنے کے اسباب بنائے اور اپنے فضل سے تمہیں راحتیں مہیا کیں ، غذا، پانی، ہوا، سورج کی روشنی سب یہاں ہی بھیجی کہ تمہیں ان کے لئے آسمان پر یا سمندر میں جانے کی حاجت نہیں۔ زمین میں رہنے کا ٹھکانہ دینا اور زندگی گزارنے کے اسباب مہیا فرمانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے کیونکہ اس نعمت میں زندگی کی تمام تر نعمتیں آگئیں ، کھانے پینے، پہننے، رہنے وغیرہ کے لئے تمام مطلوبہ چیزیں اس میں داخل ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں میں ناشکری غالب ہے۔ لوگوں کی کم تعداد شکر ادا کرتی ہے اور جو شکر کرتے ہیں وہ بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے۔
شکر کی حقیقت اور ا س کے فضائل:
شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جبکہ ناشکری یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔ قرآن و حدیث میں شکر کا حکم اورا س کے فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ‘‘(بقرہ:۱۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میراشکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
اور ارشاد فرماتاہے:
’’مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اوراگر تم شکر گزار بن جاؤاور ایمان لاؤتو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ قدر کرنے والا، جاننے والاہے۔
نیز ارشاد فرمایا:
’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے مومن کے حال پر تعجب ہوتا ہے، اس کے ہر حال میں بھلائی ہے اگر اس کو راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کی کامیابی ہے اور اگر اس کو ضرر پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کی کامیابی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
امام محمد بن محمدغزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’دل کا شکر یہ ہے کہ نعمت کے ساتھ خیر اور نیکی کاا رادہ کیا جائے اور زبان کا شکر یہ ہے کہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی جائے اور باقی اعضا کا شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خرچ کیا جائے اور ان نعمتوں کواللہ تعالیٰ کی معصیت میں صرف ہونے سے بچایا جائے حتّٰی کہ آنکھوں کا شکر یہ ہے کہ کسی مسلمان کا عیب دیکھے تو ا س پر پردہ ڈالے(احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، الرکن الاول فی نفس الشکر، بیان فضیلۃ الشکر، ۴ / ۱۰۳-۱۰۴)۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(11)
ترجمہ
اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ:اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔} یہاں سے ایک اور عظیم نعمت یاد دلائی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد پر فرمائی اور یہ نعمت ایسی ہے کہ صرف یہی نعمت ادائے شکر کے لازم ہونے کے لئے کافی ہے چنانچہ ارشاد ہوا کہ بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ یہاں یا تو یہ مراد ہے کہ ہم نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا اور ان کی پشت میں ان کی اولاد کی صورت بنائی یا یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کا تذکرہ ہے کہ ہم نے آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا، ان کی صورت بنائی اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ انہیں سجدہ کریں۔ بقیہ تفصیلی واقعہ آیتِ مبارکہ میں بھی موجود ہے اور تخلیقِ آدم و سجدہ ِ آدم کاواقعہ سورۂ بقرہ آیت34 میں بھی مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں اس قصے کے بیان کا مقصد ایک مرتبہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظیم نعمت کو یاد دلانا ہے۔ شرف ِانسانیت کو بیان کرنا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دوست اور دشمن کی روِش کو دکھانا ہے کہ دیکھو دوست بھول کر بھی خطا کرتا ہے تو کس طرح گریہ و زاری کرتا ہے اور محبوب ِ حقیقی کو منانے کی کوشش کرتا ہے اور دشمنِ خدا قصداً تکبرسے حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتا ہے اور توبہ و معافی طلب کرنے کی بجائے غرور و تکبر اور حیلہ و تاویل کی راہ اپناتا ہے اور اپنا قصور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ الٹا تقدیر کا بہانا بنا کر خود کو قصور وار قرار دینے کی بجائے کہتا ہے کہ یا اللہ! یہ میرا نہیں بلکہ تیرا قصور ہے کیونکہ تو نے ہی مجھے گمراہ کیا ہے۔ یہ مضمون چند آیات کے بعد موجود ہے۔ گویا اِس قصے کے ذریعے فرمانبردار اور نافرمان کا راستہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(12)
ترجمہ
اللہ نے فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تھاتو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں ۔تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ:تو نے مجھے آگ سے بنایا۔} اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ آگ مٹی سے افضل اور اعلٰی ہے تو جس کی اصل آگ ہوگی وہ اس سے افضل ہوگا جس کی اصل مٹی ہو اور اس خبیث کا یہ خیال غلط وباطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولیٰ فضیلت دے، فضیلت کا مدار اصل اور جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اطاعت وفرمانبرداری پر ہے نیز آگ کا مٹی سے افضل ہونا بھی صحیح نہیں کیونکہ آگ میں طیش اور تیزی اور بلندی چاہنا ہے اور یہ چیزیں تکبر کاسبب بنتی ہے جبکہ مٹی سے وقار ،حلم اور صبر حاصل ہوتے ہیں۔ یونہی مٹی سے ملک آباد ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ نیزمٹی امانت دار ہے جو چیز اِس میں رکھی جائے مٹی ا سے محفوظ رکھتی ہے جبکہ جو چیز آگ میں ڈالی جائے، آگ اسے فنا کردیتی ہے۔ نیز مٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آگ مٹی کو فنا نہیں کرسکتی۔ نیز یہاں ایک اور بات یہ ہے کہ شیطان پرلے درجے کا احمق و بدبخت تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا صریح حکم موجود ہوتے ہوئے اس کے مقابلے میں قیاس کیا اور جو قیاس نص کے خلاف ہو وہ ضرور مردود۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امر (حکم) وجوب کے لئے ہوتا ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو شیطان سے سجدہ نہ کرنے کا سبب دریافت فرمایا تو یہ اس کی ڈانٹ پھٹکار کیلئے تھا اور اس لئے کہ شیطان کی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دشمنی اور اس کاکفر وتکبر ظاہر ہوجائے نیز اپنی اصل یعنی آگ پر مغرور ہونا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل یعنی مٹی کی تحقیر کرنا ظاہر ہوجائے۔
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُ جْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(13)
ترجمہ
اللہ نے فرمایا: تو یہاں سے اُ تر جا، پس تیرے لئے جائز نہیں کہ تو اس مقام میں تکبر کرے، نکل جا، بیشک توذلت والوں میں سے ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا:فرمایا تو یہاں سے اُ تر جا۔} یعنی جنت سے اتر جا کہ یہ جگہ اطاعت و تواضع کرنے والوں کی ہے منکر و سرکش کی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت پہلے سے موجود ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت اوپر ہے، زمین کے نیچے نہیں کیونکہ اترنا اوپر سے ہوتا ہے۔
{ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ: بیشک توذلت والوں میں سے ہے۔} کہ انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تکبر والے کا انجام ہے۔
تکبر کی مذمت
اس سے معلوم ہوا کہ تکبر ایسا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استاد کہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لئے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا۔ ذیل میں ہم تکبر کی مذمت پر مشتمل احادیث اور عاجزی کے فضائل کے بیان میں 4احادیث اور ایک حکایت ذکر کر رہے ہیں تاکہ مسلمان ابلیس کے انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کو بھی پڑھیں اور تکبر چھوڑ کر عاجزی اختیار کرنے کی کوشش کریں ، چنانچہ
(1)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹ / ۱۲۰، الحدیث: ۲۳۵۱۷)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی طرف رحمت کی نظر نہ فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، ۴ / ۴۶، الحدیث: ۵۷۸۸)
(3) …حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰)
(4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
عاجزی کے فضائل
(1)…حضرت عیاض بن حِمار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف یہ وحی فرمائی ہے کہ تم لوگ عاجزی اختیار کرو اورتم میں سے کوئی دوسرے پر فخر نہ کرے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع، ۴ / ۴۵۹، الحدیث: ۴۱۷۹)
(2)…اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرورِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اے عائشہ! عاجزی اپنا ؤکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ عاجزی کرنے والوں سے محبت ،اور تکبرکرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۵۰، الحدیث: ۵۷۳۱، الجزء الثالث)
(3)…حضرت انس جُہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے قدرت کے باوجود اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اعلیٰ لباس ترک کر دیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ ایمان کا جو جوڑا چاہے پہن لے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۹-باب، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۲۴۸۹)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو مسلمان بھائی پر بلندی چاہتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۹۰، الحدیث: ۷۷۱۱)
فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عاجزی:
جب حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کی طرف تشریف لے گئے تو حضرت سیدنا ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں گھٹنوں تک پانی تھا، آپ اپنی اونٹنی پرسوار تھے، آپ اونٹنی سے اترے اور اپنے موزے اتار کراپنے کندھے پررکھ لئے، پھر اونٹنی کی لگام تھام کرپانی میں داخل ہو گئے تو حضرت ابوعبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیرُالمؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ یہ کام کررہے ہیں مجھے یہ پسند نہیں کہ یہاں کے باشندے آپ کو نظر اٹھا کر دیکھیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا ’’افسوس! اے ابوعبیدہ! اگریہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے اُمتِ محمدی عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے عبرت بنا دیتا، ہم ایک بے سرو سامان قوم تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی، جب بھی ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عزت کے علاوہ سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں رسوا کر دے گا(الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الاول فی الکبائر الباطنۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۶۱)۔
قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(14)قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(15)
ترجمہ
شیطان نے کہا: تومجھے اس دن تک مہلت دیدے جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔ اللہ نے فرمایا: تجھے مہلت ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ:فرمایا تجھے مہلت ہے۔} یعنی پہلے نفخہ (صور پھونکنے) تک تجھے مہلت ہے۔ اس مہلت کی مدت سورۂ حجر کی ان آیات میں بیان فرمائی گئی:
’’ قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ(۳۷) اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ‘‘(حجر:۳۷، ۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے فرمایا: پس بیشک توان میں سے ہے جن کو معین وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے۔
اور یہ نَفخۂ اُولیٰ کا وقت ہے جب سب لوگ مرجائیں گے ۔شیطان مردود نے دوسرے نفخہ (صور پھونکنے) تک یعنی مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے وقت تک کی مہلت چاہی تھی اور اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ موت کی سختی سے بچ جائے مگر یہ درخواست قبول نہ ہوئی اور اسے پہلے نفخہ تک کی مہلت دی گئی کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو سب کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوجائے گا ۔
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ(16)
ترجمہ
شیطان نے کہا: مجھے اِس کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر لوگوں کی تاک میں بیٹھوں گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ:شیطان نے کہا: مجھے اِس کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔} شیطان نے یہاں گمراہ کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف کی، اِس میں یا تو شیطان نے خود کو مجبورِ مَحض مان کر جَبریہ فرقے کی طرح یہ بات کی جو یہ کہتے ہیں کہ انسان مجبورِ محض ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں اپنے اختیار سے نہیں کرتا اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کے طور پر کہا کیونکہ ہرشے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و تخلیق سے ہوتی ہے لیکن چونکہ بندے کے کسب و فعل کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے حکم ہے کہ برائی کواللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنے نفس کی طرف منسوب کرنا چاہیے لیکن شیطان جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسّلَام کا گستاخ ہوچکا تھا تو اب اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی گستاخ بن گیا۔ معلوم ہوا کہ نبی کا گستاخ بالآخر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی کھلم کھلا گستاخ بن جاتا ہے۔
{ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ:میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر لوگوں کی تاک میں بیٹھوں گا۔} یعنی باپ کا بدلہ اولاد سے لوں گا۔ بنی آدم کے دِل میں وسوسے ڈالوں گا اور اُنہیں باطل کی طرف مائل کروں گا، گناہوں کی رغبت دلاؤں گا، تیری اطاعت اور عبادت سے روکوں گا اور گمراہی میں ڈالوں گا۔ بعض کو کافر و مشرک بنا دوں گا تاکہ دوزخ میں اکیلا نہ جاؤں بلکہ جماعت کے ساتھ جاؤں۔
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىٕلِهِمْؕ-وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ(17)
ترجمہ
پر ضرور میں ان کے آگے اور ان کے پیچھے او ر ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ:پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا۔} شیطان نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر میں ضرور بنی آدم کے آگے، پیچھے او ر ان کے دائیں ، بائیں یعنی چاروں طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور اُنہیں گھیر کر راہِ راست سے روکوں گا تاکہ وہ تیرے راستے پر نہ چلیں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’سامنے سے مراد یہ ہے کہ میں ان کی دنیا کے متعلق وسوسے ڈالوں گا اور پیچھے سے مراد یہ ہے کہ ان کی آخرت کے متعلق وسوسے ڈالوں گا اور دائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کے دین میں شبہات ڈالوں گا اور بائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو گناہوں کی طرف راغب کروں گا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۸۱۔ طرح ہے جو اِدھر سے اُدھر بھاگ رہا ہو) چونکہ شیطان بنی آدم کو گمراہ کرنے، شہوتوں اور قبیح افعال میں مبتلاء کرنے میں اپنی انتہائی سعی خرچ کرنے کا عزم کرچکا تھایا وہ انسان کی اچھی بری صفات سے واقف تھا یا اس نے فرشتوں سے سن رکھا تھا، اس لئے اسے گمان تھا کہ وہ بنی آدم کو بہکالے گا اور انہیں فریب دے کر خداوند عالم کی نعمتوں کے شکر اور اس کی طاعت و فرمانبرداری سے روک دے گا۔
انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی کوششیں
حضرت سبرہ بن ابو فاکہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ شیطان، اِبنِ آدم کے تمام راستوں میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کو اسلا م کے راستے سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’کیا تم اسلام قبول کرو گے اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دو گے؟ لیکن وہ شخص شیطان کی بات نہیں مانتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے تو پھر اس کو ہجرت کرنے کے راستے سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ’’ کیا تم ہجرت کرو گے اور اپنے وطن کی زمین اور آسمان چھوڑ دو گے ؟حالانکہ مہاجر کی مثال تو کھونٹے سے بندھے ہوئے اس گھوڑے کی اور اس کھونٹے کی حدود سے نکل نہ سکتا ہو۔(مراد یہ کہ شیطان مہاجر کو ایک بے کس و بے بس کی شکل میں پیش کرکے آدمی کو بہکاتا ہے لیکن اگر) وہ شخص اس کی بات نہیں مانتا اور ہجرت کر لیتا ہے تو شیطان اس کے جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے، وہ اس شخص سے کہتا ہے کہ’’ کیاتم جہاد کرو گے اوریہ اپنی جان اور مال کو آزمائش میں ڈالنا ہے اور اگر تم جہاد کے دوران مارے گئے تو تمہاری بیوی کسی اور شخص سے نکاح کر لے گی اور تمہارا مال تقسیم کر دیاجائے گا۔ لیکن وہ شخص پھر بھی شیطان کی بات نہیں مانتا اور جہاد کرنے چلا جاتا ہے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سو جس شخص نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کر دے اور جو مسلمان قتل کیا گیا تواللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر اس کو جنت میں داخل کرنا ہے اور جو مسلمان غرق ہو گیا تو اسے جنت میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جس مسلمان کو ا س کی سواری نے ہلاک کر دیا اس کو جنت میں داخل کرنااللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔( نسائی، کتاب الجہاد، ما لمن اسلم وہاجر وجاہد، ص۵۰۹، الحدیث: ۳۱۳۱)
شیطان سے پناہ مانگنے کی ترغیب
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا رہے اور ا س میں کسی طرح سستی اور غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ ’شیطان سے پناہ مانگنے میں غفلت نہ کرو کیونکہ تم اگرچہ اسے دیکھ نہیں رہے لیکن وہ تم سے غافل نہیں۔ (مسند الفردوس، باب لام الف، ۵ / ۴۷، الحدیث: ۷۴۱۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’شیطان کے شر سے اپنے آپ کو حتی الامکان بچاؤ اور اس سلسلے میں تمہارے لئے سب سے بڑی یہی دلیل کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا :
’’ وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ(۹۷) وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ‘‘ (مومنون:۹۷،۹۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم عرض کرو: اے میرے رب!میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔اور اے میرے رب!میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔
تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو سارے جہان سے بہتر، سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے، سب سے زیادہ عقلمند اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ رتبہ اور فضیلت رکھنے والے ہیں ،انہیں اس بات کی ضرورت ہے
کہ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں تو تمہاری حیثیت ہی کیا ہے! حالانکہ تم جاہل، عیب و نقص والے اور غفلت میں ڈوبے ہوئے ہو(تو کیا تم شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے محتاج نہیں ہو؟ یقینا محتاج ہو اور بہت زیادہ محتاج ہو)۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الرابع، فصل فی معالجۃ الدنیا والخلق والشیطان والنفس، ص۱۰۲)
شیطان سے حفاظت کی دعا
حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص رات کے وقت اپنے بستر پر جائے تو یہ کہہ لیا کرے ’’بِسْمِ اللہِ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ‘‘ (معجم الکبیر، جندب بن عبد اللہ البجلی۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۷۲۲)
حضرت شقیق بلخی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا طریقہ
حضرت شقیق بلخی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’روزانہ صبح کے وقت شیطان میرے پاس آگے پیچھے، دائیں بائیں سے آتا ہے، میرے سامنے آ کر کہتا ہے ’’تم خوف نہ کرو بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ یہ سن کر میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى‘‘ (طٰہ:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
(مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا تو ہے لیکن اِس آیت کے مطابق ان لوگوں کو بخشنے والا ہے جو توبہ و ایمان و اعمالِ صالحہ والے ہیں لہٰذا میں عمل سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا) اور شیطان میرے پیچھے سے مجھے یہ خوف دلاتا ہے کہ میری اولاد محتاج ہو جائے گی۔ تب میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ‘‘ (ہود:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔
(مراد یہ کہ مجھے رزق کی فکر ڈال کر اللہ سے غافل نہ کر کیونکہ رزق تو اسی کے ذمۂ کرم پر ہے۔) پھر شیطان میری دائیں طرف سے آ کر میری تعریف کرتا ہے، اس وقت میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ‘‘(اعراف: ۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔
(یعنی مجھے اچھا کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں اچھا تب ہوں گا جب میرا انجام اچھا ہوگا اور انجام تب اچھا ہوگا جب میں متقی بنوں گا) پھر شیطان میری بائیں طرف سے نفسانی خواہشات میں سے کچھ لے کر آتا ہے تو میں یہ آیت پڑھتا ہوں :
’’ وَ حِیْلَ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَا یَشْتَهُوْنَ ‘‘(سبا:۵۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ان کے درمیان اور ان کی چاہت کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی۔ (مراد یہ کہ نفسانی خواہشات سے دور رہنے میں ہی کامیابی ہے۔)( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۸۲)
قَالَ اخْرُ جْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًاؕ-لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ(18)
ترجمہ
اللہ نے فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کرنکل جا۔ بیشک ان میں سے جو تیری پیروی کرے گا تو میں ضرور تم سب سے جہنم بھردوں گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ اخْرُ جْ مِنْهَا:(اللہ نے) فرمایا: تو یہاں سے نکل جا۔} فرمایا کہ تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کرنکل جا آج فرشتوں میں ذلیل اور آئندہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو کہ لعنت کی مار تجھ پر پڑتی رہے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی دشمنی تمام کفروں سے بڑھ کر ہے، شیطان عالم وزاہد ہونے کے باوجود نبی کی تعظیم سے انکار پر ایسا ذلیل ہوا۔
{ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِیْنَ: میں ضرور تم سب سے جہنم بھردوں گا۔} یعنی اے شیطان! تجھ کو بھی اور تیری اولاد کو بھی اور تیری اطاعت کرنے والے آدمیوں کو بھی سب کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھرا جائے گا:
اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ میں شیطان، جنات اور انسان سب ہی جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے جہنم کو بھر دے گا۔ اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ‘‘ (ہود:۱۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ملا کربھر دوں گا۔
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جہنم اور جنت میں مُباحثہ ہوا تو جہنم نے کہا: مجھ میں جَبّار اور متکبر لوگ داخل ہوں گے۔ جنت نے کہا: مجھ میں کمزور اور مسکین لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے فرمایا ’’تم میرا عذاب ہو، میں جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعے عذاب دوں گا۔ جنت سے فرمایا ’’تم میری رحمت ہو، میں تمہارے ذریعے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور تم میں سے ہر ایک کو پُر ہونا ہے۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب النار یدخلہا الجبارون ۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۴، الحدیث: ۳۴(۲۸۴۶))
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(19)فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(20)وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(21)فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(22)
ترجمہ
اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر اُس میں سے جہاں چاہو کھاؤ اور اُس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ پھر شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا تاکہ ان پر ان کی چھپی ہوئی شرم کی چیزیں کھول دے اور کہنے لگا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔ تو وہ دھوکہ دے کر ان دونوں کو اُتار لایا پھر جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کی شرم کے مقام ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتے ان پر ڈالنے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ: اور اے آدم! تم رہو ۔}اس آیت اور بعد والی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے جنت سے نکال دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ آپ اور آپ کی بیوی حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا جنت میں رہو اور جنتی پھلوں میں سے جہاں چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔ وہ درخت گندم تھا یا کوئی اور، ( جو بھی رب تعالیٰ کے علم میں ہے ۔) شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو وسوسہ ڈالا چنانچہ ابلیس ملعون نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: ’’اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور اس کے ساتھ ممانعت کی کچھ تاویلیں کرکرا کے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے نیز جنت قربِ الہٰی کا مقام تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا دائمی بننے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا اور ممانعت کو محض تنزیہی سمجھتے ہوئے یا خاص درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھالیا۔ اس کے کھاتے ہی جنتی لباس جسم سے جدا ہوگئے اور پوشیدہ اعضاء ظاہر ہوگئے۔ جب بے سَتری ہوئی تو ان بزرگوں نے انجیر کے پتے اپنے جسم شریف پر ڈالنے شروع کر دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: ’’ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ،ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم و حوا !تم اپنی ذریت کے ساتھ جو تمہاری پیٹھ میں ہے جنت سے اترجاؤ ،تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور دنیاوی زندگی سے نفع اٹھانا ہے۔
{ وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ: اور وہ دونوں چپٹانے لگے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے لباس جدا ہوتے ہی دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا شروع کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مَسخ ہوچکی ہیں۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا:ہم نے اپنی جانوں پرزیادتی کی} اپنی جانوں پر زیادتی کرنے سے مراد اِس آیت میں گناہ کرنا نہیں ہے بلکہ اپنا نقصان کرنا ہے اور وہ اس طرح کہ جنت کی بجائے زمین پر آنا پڑا اور وہاں کی آرام کی زندگی کی جگہ یہاں مشقت کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عمل میں مسلمانوں کے لئے تربیت:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لئے یہ تربیت ہے کہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ! وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے تووہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ استغفار اور توبہ کرنا ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے، تمہارے جدِ اعلیٰ(حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) سے جب لغزش صادر ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔(در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۴۳۳)
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(24)قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ(25)
ترجمہ
اللہ نے فرمایا: تم اترجاؤ، تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور نفع اٹھانا ہے۔ ۔(اللہ نے) فرمایا : تم اسی میں زندگی بسر کرو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے اٹھائے جاؤ گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ اهْبِطُوْا:فرمایا اُترو۔} دونوں حضرات کو جنت سے اترجانے کا حکم ہوا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا اصل مقصد تو انہیں زمین میں خلیفہ بنانا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ آدم سے پہلے ہی فرشتوں کے سامنے بیان فرما دیا تھا اور سورۂ بقرہ میں صراحت سے مذکور ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اولادِ آدم نے آپس میں عداوت و دشمنی بھی کرنا تھی اور جنت جیسی مقدس جگہ ان چیزوں کے لائق نہیں لہٰذا مقصد ِ تخلیقِ آدم کی تکمیل کیلئے اور اس کے مابعد رونُما ہونے والے واقعات کیلئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا گیا۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(26)
ترجمہ
اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ:اے آدم کی اولاد۔} گزشتہ آیات میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لباس و طعام کا ذکر ہوا اب یہاں سے ان کی اولاد کے لباس و طعام کی اہمیت اور اس کے متعلقہ احکام کا بیان ہے اور چونکہ گزشتہ آیات میں تخلیقِ آدم کا بیان ہوا تو یہاں سے بار بار اے اولادِ آدم ! کے الفاظ سے خطاب کیا جارہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم دیا اور زمین کو ان کے ٹھہرنے کی جگہ بنایا تو وہ تمام چیزیں بھی ان پر نازل فرمائیں جن کی دین یا دنیا کے اعتبار سے انہیں حاجت تھی۔ اُن میں سے ایک چیز لباس بھی ہے جس کی طرف دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے حاجت ہے۔ دین کے اعتبار سے تو یوں کہ لباس سے ستر ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے کیونکہ سترِ عورت نماز میں شرط ہے اور دنیا کے اعتبار سے یوں کہ لباس گرمی اور سردی روکنے کے کام آتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جس کا ذکر اس آیت میں فرمایا۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے لباس اتارے دو جسمانی اور ایک روحانی۔ جسمانی لباس بعض تو سترِ عورت کے لئے اور بعض زینت کے لئے ہیں ، یہ دونوں اچھے ہیں اور روحانی لباس ایمان، تقویٰ، حیا اور نیک خصلتیں ہیں۔ یہ تمام لباس آسمان سے اترے ہیں کیونکہ بارش سے روئی اون اور ریشم پیدا ہوتی ہے، یہ بارش آسمان سے آتی ہے اور وحی سے تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور وحی بھی آسمان سے آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس صرف انسانوں کے لئے بنا یا گیا اسی لئے جانور بے لباس ہی ہوتے ہیں۔ سترِ عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ لباس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کے پہننے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لباس:
حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے اون اور روئی کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے استعمال فرمایا۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہبند، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زیبِ تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پائجامہ پہنا ہو۔ (سیرت مصطفٰی، شمائل وخصائل، ص۵۸۱)
سفیدلباس کی فضلیت:
حضرت سَمُرہ بن جُندُب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاک اور ستھرے ہیں اور انہیں میں اپنے مردے کفناؤ۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی لبس البیاض، ۴ / ۳۷۰، الحدیث: ۲۸۱۹)
عام اور نیالباس پہنتے وقت کی دعائیں :
(1)…حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جو شخص کپڑا پہنے اور یہ پڑھے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا وَرَزَقَـنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّی وَلَا قُـوَّۃٍ ‘‘(ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے یہ (لباس) پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عطا فرمایا) تو اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (مستدرک، کتاب اللباس، الدعاء عند فراغ الطعام، ۵ / ۲۷۰، الحدیث: ۷۴۸۶)
(2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب نیا کپڑا پہنتے تو اُس کا نام لیتے عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا کَسَوْتَنِیْہِ اَسْأَ لُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَـہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَـہٗ‘‘ (ترجمہ:اے اللہ تیرا شکر ہے جیسے تو نے مجھے یہ (کپڑا) پہنایا ویسے ہی میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر اور جس مقصد کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں)(شرح السنۃ للبغوی، کتاب اللباس، باب ما یقول اذا لبس ثوباً جدیداً، ۶ / ۱۷۲، الحدیث: ۳۰۰۵)
لباس کی عمدہ تشریح:
امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لباس کے لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے بڑی عمدہ تشریح فرمائی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ ’’ہر وہ چیز جو انسان کی بری اور ناپسندیدہ چیز کو چھپا لے اسے لباس کہتے ہیں شوہر اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کو بری چیزوں سے چھپا لیتی ہے، وہ ایک دوسرے کی پارسائی کی حفاظت کرتے ہیں اور پارسائی کے خلاف چیزوں سے ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ ہوتے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے کا لباس فرمایا ہے:
’’ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ‘‘(البقرہ:۱۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔
لباس سے انسان کی زینت ہوتی ہے، اسی اعتبار سے فرمایا ہے ’’ لِبَاسُ التَّقْوٰى‘‘ (تقویٰ کا معنی ہے برے عقائد اور برے اعمال کو ترک کر دینا اور پاکیزہ سیرت اپنانا، جس طرح کپڑوں کا لباس انسان کو سردی، گرمی اور برسات کے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے اسی طرح تقویٰ کا لباس انسان کو اُخروی عذاب سے بچاتا ہے۔) (مفردات امام راغب، کتاب اللام، ص۷۳۴-۷۳۵ ملخصاً)
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ-اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(27)
ترجمہ
اے آدم کی اولاد! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے نکال دیا، ان دونوں سے ان کے لباس اتروا دئیے تاکہ انہیں ان کی شرم کی چیزیں دکھا دے۔ بیشک وہ خود اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایمان نہ لانے والوں کا دوست بنا دیا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ:اے آدم کی اولاد!} شیطان کی فریب کاری اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس کی دشمنی وعداوت کا بیان فرما کر بنی آدم کو مُتَنَبّہ اور ہوشیار کیا جارہا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے ،اغواء اور اس کی مکاریوں سے بچتے رہیں۔ جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ایسی فریب کاری کرچکا ہے وہ اُن کی اولاد کے ساتھ کب درگزر کرنے والا ہے۔ اس میں مومن، کافر، ولی، عالم، پرہیز گار سب سے خطاب ہے، کوئی اپنے آپ کو ابلیس سے محفوظ نہ جانے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے آدم کی اولاد! تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے نکال دیا، ان دونوں سے ان کے لباس اتروا دئیے تاکہ انہیں ان کی شرم کی چیزیں دکھا دے۔
{ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ:بیشک وہ خود تمہیں دیکھتا ہے۔} یعنی شیطان اور اس کی ذریت سارے جہان کے لوگوں کو دیکھتے ہیں جبکہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے۔ جہاں کسی نے کسی جگہ اچھے کام کا ارادہ کیا، اُسے اُس کی نیت کی خبر ہو گئی اور فوراً بہکادیا۔
شیطان سے مقابلہ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے طریقے
یاد رہے کہ جو دشمن تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے ا س سے اللہ تعالیٰ کے بچائے بغیر خلاصی نہیں ہو سکتی جیساکہ حضرت ذوالنون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شیطان ایسا ہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے اور تم اُسے نہیں دیکھ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے دیکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا تو تم اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۱۵۰)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اس کے نقصان سے بہت زیادہ ڈرے اور ہر وقت اس سے مقابلے کے لئے تیار رہے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ صوفیاءِ کرام کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں :
(1)… شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر مُسلَّط فرمادیا ہے، اگر تم ا س سے مقابلہ و جنگ کرنے اور اسے (خود سے) دور کرنے میں مشغول ہوگئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور بالآخر وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی و ناکارہ بنا دے گا ا س لئے اس کے مالک ہی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور یہ تمہارے لئے شیطان کے ساتھ جنگ اور مقابلہ کرنے سے بہتر ہے۔
(2)…شیطان سے مقابلہ کرنے، اسے دفع دور کرنے اور ا س کی تردید و مخالفت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
میں (امام غزالی) کہتا ہوں :میرے نزدیک ا س کا جامع اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طریقوں کو بروئے کار لایا جائے لہٰذا سب سے پہلے شیطان مردود کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں شیطان لعین سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر تم یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے باوجود شیطان تم پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے اور تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے مجاہدے اور عبادت میں تمہاری قوت کی سچائی و صفائی دیکھے اور تمہارے صبر کی جانچ فرمائے۔ جیساکہ کافروں کو ہم پر مسلط فرمایا حالانکہ اللہ تعالیٰ کفار کے عزائم اور ان کی شر انگیزیوں کو ہمارے جہاد کئے بغیر ملیا میٹ کر دینے پر قادر ہے لیکن وہ انہیں صفحہ ہستی سے ختم نہیں فرماتا بلکہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جہاد، صبر ،گناہوں سے چھٹکارا اور شہادت سے ہمیں بھی کچھ حصہ مل جائے اور ہم اس امتحان میں کامیاب و کامران ہو جائیں تو اسی طرح ہمیں شیطان سے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ مقابلہ اور جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر ہمارے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ شیطان سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں :
(1)…تم شیطان کے مکر و فریب اور اس کی حیلہ سازیوں سے ہوشیار ہو جاؤ کیونکہ جب تمہیں اس کی حیلہ سازیوں کا علم ہو گا تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا، جس طرح چور کو جب معلوم ہو جاتا ہے کہ مالک مکان کو میرے آنے کا علم ہو گیا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔
(2)…جب شیطان تمہیں گمراہیوں کی طرف بلائے تو تم اسے رد کر دو اور تمہارا دل قطعاً ا س کی طرف متوجہ نہ ہو اور نہ تم ا س کی پیروی کرو کیونکہ شیطان لعین ایک بھونکنے والے کتے کی طرح ہے، اگر تم اسے چھیڑو گے تو وہ تمہاری طرف تیزی کے ساتھ لپکے گا اور تمہیں زخمی کر دے گا اور اگر تم ا س سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو وہ خاموش رہے گا۔
(3)…اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرتے رہو اور ہمہ وقت خودکو اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھو (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۵۵-۵۶)۔
کیا انسان جنوں کو دیکھ سکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے جنوں کو ایسا علم و اِدراک دیا ہے کہ وہ انسانوں کو دیکھتے ہیں اور انسانوں کو ایسا ادراک نہیں ملا کہ وہ ہر وقت جنوں کو دیکھ سکیں البتہ بعض اوقات انسان بھی جنات کو دیکھ لیتے ہیں۔
مخلوق کے لئے وسیع علم و قدرت ماننا شرک نہیں
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہے کہ شیطان کا علم اور اس کی قدرت بہت وسیع ہے کہ ہر زبان میں ہرجگہ ، ہر آدمی کو وسوسے ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس قدر وسیع علم و قدرت ماننا شرک نہیں بلکہ قرآن سے ثابت ہے لیکن ان لوگوں پر افسوس ہے جو شیطان کی وسعت ِعلم کو تو فوراً مان لیتے ہیں لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ایسا وسیع علم ماننے کو شرک قرار دیتے ہیں۔
{ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ:بیشک ہم نے شیطانوں کو ایمان نہ لانے والوں کا دوست بنا دیا ہے۔} یعنی شیطان بظاہر کفار کا دوست ہے اور کفار دل سے شیطان کے دوست ہیں ورنہ شیطان درحقیقت کفار کا بھی دوست نہیں وہ تو ہر انسان کا دشمن ہے کہ سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لیجانے کی کوشش کرنا اس کا مطلوب و مراد ہے
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَاؕ-قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِؕ-اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(28)
ترجمہ
اور جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کواسی پر پایا تھا اوراللہ نے (بھی) ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ (اے حبیب!) تم فرماؤ: بیشک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً:اور جب کوئی بے حیائی کریں۔} ’’فَاحِشَةً‘‘یعنی بے حیائی کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں : اس سے مراد زمانۂ جاہلیت کے مرد و عورت کا ننگے ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف کرنا ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ بے حیائی سے مراد شرک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر قبیح فعل اور تمام صغیرہ کبیرہ گناہ اس میں داخل ہیں اگرچہ یہ آیت خاص ننگے ہو کر طواف کرنے کے بارے میں آئی ہے۔ جب کفار کی ایسی بے حیائی کے کاموں پر اُن کی مذمت کی گئی تو اس پر اُنہوں نے اپنے قبیح افعال کے دو عذر بیان کئے، ایک تویہ کہ ُانہوں نے اپنے باپ دادا کو یہی فعل کرتے پایا لہٰذا اُن کی اتباع میں یہ بھی کرتے ہیں۔ اس عذر کا بار بار قرآن میں رد کردیا گیا کہ یہ اتباع تو جاہل وبدکار کی اتباع ہوئی اور یہ کسی صاحبِ عقل کے نزدیک جائز نہیں۔ اتباع تو اہلِ علم و تقویٰ کی کی جاتی ہے نہ کہ جاہل گمراہ کی۔ ان کادُوسرا عذر یہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں ان افعال کا حکم دیا ہے۔ یہ محض افتراء و بہتان تھا چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کارد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم جواب میں فرماؤ: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر وہ بات کہتے ہو جس کی تمہیں خبر نہیں ؟ ‘‘اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بے حیائی کا نہیں بلکہ ان چیزوں کا حکم دیا ہے جو بعد والی آیت میں مذکور ہیں۔
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ- وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۬ؕ-كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَﭤ(29)
ترجمہ
تم فرماؤ :میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے اور (یہ کہ) ہر نماز کے وقت تم اپنے منہ سیدھے کرو اور عبادت کو اسی کے لئے خالص کرکے اس کی بندگی کرو۔ اس نے جیسے تمہیں پیدا کیا ہے ویسے ہی تم پلٹو گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ:تم فرماؤ :میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں ان بری باتوں کا ذکر تھا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اوراِس آیت میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جن سے وہ راضی ہے تاکہ بندے پہلی قسم کے کاموں سے بچیں اور دوسری قسم کے کام کریں۔ (تفسیر نعیمی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۳۸۲)
قسط کے معنی:
قسط کے کئی معنی ہیں (1) حصہ۔ (2) عدل و انصاف۔ (3) ظلم۔ (4) درمیانی چیز یعنی جس میں اِفراط و تَفریط یعنی کمی زیادتی نہ ہو ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں آیت میں ’’قسط‘‘ عدل وانصاف کے معنی میں ہے۔ یہ لفظ بہت سی چیزوں کو شامل ہے، عقائد میں عدل و انصاف کرنا، عبادات میں عدل کرنا، معاملات میں عدل کرنا، بادشاہ کا عدل کرنا، فقیر کا انصاف کرنا، اپنی اولاد، رشتہ داروں اور اپنے نفس کے معاملے میں عدل کرنا وغیرہ یہ سب اس میں داخل ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۴۸۴)
{ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ: اور تم اپنے منہ سیدھے کرو ۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ،امام مجاہد اور مفسر سُدّی کا قول ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم جہاں بھی ہو نماز کے وقت اپنے چہرے کعبہ کی طرف سیدھے کر لو۔ امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے کہ جب نماز کا وقت آئے اور تم مسجد کے پاس ہو تو مسجد میں نماز ادا کرو اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں اپنی مسجد میں یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز ادا کروں گا۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے سجدے خالص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے کر لو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)
{ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ:خالص اس کے بندے ہو کر۔}اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اس کی رضا حاصل کرنے یا اس کے حکم کی بجا آوری کی نیت سے کی جائے ،اس میں کسی کو دکھانے یا سنانے کی نیت ہو، نہ اس میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)
اخلاص کی حقیقت اور عمل میں اخلاص کے فضائل
امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی) کے علاوہ ہر ایک کی عبادت( اور اس کی رضا جوئی) سے بری ہو جائے۔ (مفردات امام راغب، کتاب الخاء، ص۲۹۳)کثیر احادیث میں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جس مسلمان میں یہ تین اوصاف ہوں اس کے دل میں کبھی کھوٹ نہ ہو گا:(1) اس کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ (2)وہ آئمہ مسلمین کے لئے خیر خواہی کرے۔ (3)اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑ لے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث: ۲۶۶۷)
(2)…حضرت سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں ، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اِس امت کی مدد فرماتا ہے۔ (نسائی، کتاب الجہاد، الاستنصار بالضعیف، ص۵۱۸، الحدیث: ۳۱۷۵)
(3)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یمن کی طرف بھیجا تو انہوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اپنے دین میں اخلاص رکھو ،تمہا را تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۴)
ترکِ اخلاص کی مذمت:
جس طرح احادیث میں اخلاص کے فضائل بیان ہوئے ہیں اسی طرح ترک ِاخلاص کی بھی بکثرت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس شخص نے کسی عمل میں میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کیا میں اسے اور ا س کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن مہر لگے ہوئے نامۂ اعمال لائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ’’اس اعمال نامے کو قبول کر لواور اس اعمال نامے کو چھوڑ دو۔ فرشتے عرض کریں گے: تیری عزت کی قسم! ہم نے وہی لکھا ہے جو اس نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’تم نے سچ کہا، (مگر) اس کا عمل میری ذات کے لئے نہ تھا، آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری ذات کے لئے کیا گیا ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۶۱۳۳)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا، جب اسے لایا جائے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کے شہید ہو گیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس شخص کو لایا جائے گاجس نے علم سیکھا، سکھایا اور قرآنِ پاک پڑھا، وہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے اس لیے علم سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآنِ پاک اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا تھا، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی تووہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے یہ سخاوت اس لیے کی تھی کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حکم ہوگا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵))
{ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ:اس نے جیسے تمہیں پیدا کیا ہے ویسے ہی تم پلٹو گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے بنی آدم میں سے بعض کو مومن اور بعض کو کافر پیدا فرمایا، پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ویسے ہی لوٹائے گا جیسے ابتداء میں پیدا فرمایا تھا، مومن مومن بن کر اور کافر کافر بن کر۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت محمد بن کعب رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے شقی اور بد بخت لوگوں میں سے پیدا کیا ہے وہ قیامت کے دن اہلِ شقاوت سے اٹھے گا چاہے وہ پہلے نیک کام کرتا ہو جیسے ابلیس لعین، اسے اللہ تعالیٰ نے بد بختوں میں سے پیدا کیا تھا، یہ پہلے نیک اعمال کرتا تھا بالآخر کفر کی طرف لوٹ گیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے سعادت مند لوگوں میں سے پیدا کیا وہ قیامت کے دن سعادت مندوں میں سے اٹھے گا اگرچہ پہلے وہ برے کام کرتا رہا ہو، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے جادو گر، یہ پہلے فرعون کے تابع تھے لیکن بعد میں فرعون کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰) اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ’’ جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر پیدا ہوا تھا قیامت کے دن بھی اسی طرح ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھے گا۔ (تفسیرات احمدیہ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۱۴)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم قیامت میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھائے جاؤ گے۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً، ۲ / ۴۲۰، الحدیث: ۳۳۴۹)
فَرِیْقًا هَدٰى وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْهِمُ الضَّلٰلَةُؕ-اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(30)
ترجمہ
ایک گروہ کو ہدایت دی اور ایک فرقے پرگمراہی ثابت ہوگئی، انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَرِیْقًا هَدٰى:ایک گروہ کو ہدایت دی۔} یعنی تمام لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان و معرفت کی ہدایت دی اور انہیں طاعت و عبادت کی توفیق دی۔ ان کے بالمقابل کچھ لوگ ایسے ہیں جو گمراہ ہوئے اور یہ کفار ہیں ، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے۔ شیطانوں کو دوست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی اطاعت کی، اُن کے کہے پر چلے، اُن کے حکم سے کفرو معاصی کو اختیار کیا اور اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں۔ عمومی گمراہی سے بدتر گمراہی یہ ہوتی ہے کہ آدمی گمراہ ہونے کے باوجود خود کو ہدایت یافتہ سمجھے۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ(31)
ترجمہ
اے آدم کی اولاد! ہر نمازکے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ:اپنی زینت لے لو۔} یعنی نماز کے وقت صرف سترِ عورت کیلئے کفایت کرنے والا لباس ہی نہ پہنو بلکہ اس کے ساتھ وہ لباس زینت والا بھی ہو یعنی عمدہ لباس میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حاضری دو۔ اور ایک قول یہ ہے کہ خوشبو لگانا زینت میں داخل ہے یعنی نماز کیلئے ان چیزوں کا بھی اہتمام رکھو۔ سُنت یہ ہے کہ آدمی بہتر ہیئت کے ساتھ نماز کے لئے حاضر ہو کیونکہ نماز میں رب عَزَّوَجَلَّ سے مناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرنا اور عطر لگانا مستحب ہے جیسا کہ سترِ عورت اور طہارت واجب ہے۔ شا نِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پہلے عورت بیتُ اللہ کا برہنہ ہو کر طواف کرتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ کوئی مجھے ایک کپڑا دے گا جسے میں اپنی شرمگاہ پر ڈال لوں ، آج بعض یا کُل کھل جائے گا اور جو کھل جائے گا میں اسے کبھی حلال نہیں کروں گی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم،کتاب التفسیر، باب فی قولہ تعالی: خذوا زینتکم عند کل مسجد، ص۱۶۱۴، الحدیث: ۲۵(۳۰۲۸))
آیت’’ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت میں ستر چھپانے اور کپڑے پہننے کا حکم دیا گیا اور اس میں دلیل ہے کہ سترِعورت نماز، طواف بلکہ ہر حال میں واجب ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جہاں تک ہو سکے اچھے لباس میں پڑھے اور مسجد میں اچھی حالت میں آئے۔ بدبو دار کپڑے ،بدبو دار منہ لے کر مسجد میں نہ آئے۔ ایسے ہی ننگا مسجد میں داخل نہ ہو۔
مسجدیں پاک صاف رکھنے سے متعلق 3 احادیث:
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسجد سے اذیت کی چیز نکالے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہیر المساجد وتطییبہا، ۱ / ۴۱۹، الحدیث: ۷۵۷)
(2)… حضرت و اثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مساجد کو بچوں اور پاگلوں ، خرید و فروخت اور جھگڑے ، آواز بلند کرنے ،حدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکرہ فی المساجد، ۱ / ۴۱۵، الحدیث: ۷۵۰)
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی کو مسجِد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے تو کہے ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ وہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائے، کیونکہ مسجدیں اس کام کیلئے نہیں بنائی گئیں (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد۔۔۔ الخ، ص ۲۸۴، الحدیث: ۸۹(۵۶۸))۔
قیمتی لباس میں نماز
امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نمازِ تہجد کے لئے بیش قیمت قمیص، پاجامہ، عمامہ اور چادر پہنتے تھے جس کی قیمت ڈیڑھ ہزار درہم تھی، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر رات تہجد ایسے لباس میں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ’’ جب ہم لوگوں سے اچھے لباس میں ملتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعلیٰ لباس میں ملاقات کیوں نہ کریں۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)
{ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا:اور کھاؤ اور پیو۔} شا نِ نزول: کلبی کا قول ہے کہ بنی عامر زمانۂ حج میں اپنی خوراک بہت ہی کم کر دیتے تھے اور گوشت اور چکنائی تو بالکل کھاتے ہی نہ تھے اور اس کو حج کی تعظیم جانتے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر عرض کیا: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں ایسا کرنے کا زیادہ حق ہے۔ اس پر یہ نازل ہوا (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۸۸) کہ کھاؤ اور پیو، گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اسراف نہ کرو اور وہ (یعنی اسراف) یہ ہے کہ سیر ہوچکنے کے بعد بھی کھاتے رہو یا حرام کی پرواہ نہ کرو اور یہ بھی اسراف ہے کہ جو چیزاللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کی اس کو حرام کرلو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’کھاؤ جو چاہو اور پہنو جو چاہو اور اسراف اور تکبر سے بچتے رہو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۱۳۱) اس سے معلوم ہوا کہ محض ترک ِ دنیا عبادت نہیں ترک ِگناہ عبادت ہے۔
قرآن کی آدھی آیت میں پورا علمِ طب
خلیفہ ہارون رشید کا ایک عیسائی طبیب علمِ طب میں بہت ماہر تھا، اس نے ایک مرتبہ حضرت علی بن حسین واقد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا، علم دو طرح کا ہے (1) علمِ ادیان۔ (2) علمِ ابدان۔ اور تم مسلمانوں کی کتاب قرآنِ پاک میں علمِ طب سے متعلق کچھ بھی مذکور نہیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس عیسائی طبیب کو جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے ہماری کتاب کی آدھی آیت میں پوری طب کو جمع فرما دیا ہے۔ عیسائی طبیب نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کونسی آیت ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا‘‘ کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو۔( تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۱۳۹، الجزء السابع)
اشیاء کی حلت و حرمت کااصول:
آیت میں ا س بات کی دلیل ہے کہ کھانے اور پینے کی تمام چیزیں حلال ہیں سوائے اُن کے جن پر شریعت میں دلیلِ حرمت قائم ہو کیونکہ یہ قاعدہ مقررہ مُسَلَّمَہ ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے مگر جس پر شارع نے ممانعت فرمائی ہو اور اس کی حرمت دلیلِ مستقل سے ثابت ہو.
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ-قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(32)
ترجمہ
تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو (کس نے حرام کیا؟) تم فرماؤ: یہ دنیا میں ایمان والوں کے لئے ہے، قیامت میں تو خاص انہی کے لئے ہوگا۔ ہم اسی طرح علم والوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ مَنْ حَرَّمَ:تم فرماؤ کس نے حرام کیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہلوں سے فرما دیجئے جو کعبہ معظمہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے اسی لئے پیدا فرمائی کہ وہ اس سے زینت حاصل کریں اور نماز و طواف اور دیگر اوقات میں اسے پہنیں۔
زینت کی دو تفاسیر:
زینت کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(1)…جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں زینت سے مراد وہ لباس ہے جو ستر پوشی کے کام آئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)
(2)… امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ ’’زینت‘‘ زینت کی تمام اقسام کو شامل ہے اسی میں لباس اور سونا چاندی بھی داخل ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۵ / ۲۳۰)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو شریعت حرام نہ کرے وہ حلال ہے۔ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جبکہ حلت کے لئے کوئی دلیل خاص ضروری نہیں۔
{ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ:اور پاکیزہ رزق۔} یعنی اس پاکیزہ رزق اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں کوکس نے حرام کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نکالیں۔مسئلہ :آیت اپنے عموم پر ہے اور کھانے کی ہرچیز اس میں داخل ہے کہ جس کی حرمت پر نص وارد نہ ہوئی ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲ / ۸۹)
آیت’’ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ ‘‘ کی روشنی میں چند لوگوں کو نصیحت:
اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں بہت سے لوگوں کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔
(1)… پہلے نمبر پر وہ لوگ جو اپنے زہد وتقویٰ کے گھمنڈ میں لوگوں کی حلال اشیاء میں بھی تحقیق کرکے ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ یہ سخت ناجائز اور سراسر تقویٰ کے خلاف ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شرعِ مطہر میں مصلحت کی تحصیل سے مفسدہ کا ازالہ مقدم تر ہے مثلاً مسلمان نے دعوت کی (اور) یہ اس کے مال وطعام کی تحقیقات کر رہے ہیں ’’کہاں سے لایا؟ کیونکر پیدا کیا؟ حلال ہے یا حرام؟ کوئی نجاست تو اس میں نہیں ملی ہے کہ بیشک یہ باتیں وحشت دینے والی ہیں اور مسلمان پر بدگمانی کرکے ایسی تحقیقات میں اُسے ایذا دینا ہے خصوصاً اگر وہ شخص شرعاً معظم ومحترم ہو، جیسے عالمِ دین یا سچا مرشد یا ماں باپ یا استاذ یا ذی عزت مسلمان سردارِ قوم تو اِس نے (تحقیقات کر کے) اور بے جا کیا، ایک تو بدگمانی دوسرے مُوحِش (یعنی وحشت میں ڈالنے والی) باتیں ، تیسرے بزرگوں کا ترکِ ادب۔ اور (یہ خواہ مخواہ کا متقی بننے والا) یہ گمان نہ کرے کہ خفیہ تحقیقات کر لوں گا، حاشا وکلّا! اگر اسے خبر پہنچی اور نہ پہنچنا تعجب ہے کہ آج کل بہت لوگ پرچہ نویس (یعنی باتیں پھیلانے والے) ہیں تو اس میں تنہا بَررُو (یعنی اکیلے میں اس سے) پوچھنے سے زیادہ رنج کی صورت ہے کَمَاھُوَ مُجَرَّبٌ مَعْلُوْمٌ(جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہے۔ ت) نہ یہ خیال کرے کہ احباب کے ساتھ ایسا برتاؤ برتوں گا ’’ہیہات‘‘ احبا (دوستوں )کو رنج دینا کب روا ہے؟ اور یہ گمان کہ شاید ایذا نہ پائے ، ہم کہتے ہیں ’’شاید ایذا پائے، اگر ایسا ہی شاید پر عمل ہے تو اُس کے مال وطعام کی حلت وطہارت میں شاید پر کیوں نہیں عمل کرتا۔ مع ہذا اگر ایذا نہ بھی ہُوئی اور اُس نے براہِ بے تکلفی بتادیا تو ایک مسلمان کی پردہ دری ہوئی کہ شرعاً ناجائز۔ غرض ایسے مقامات میں ورع واحتیاط کی دو ہی صورتیں ہیں یا تو اس طور پر بچ جائے کہ اُسے (یعنی مہمان نواز کو) اجتناب ودامن کشی پر اطلاع نہ ہو یا سوال وتحقیق کرے تو اُن امور میں جن کی تفتیش مُوجِبِ ایذا نہیں ہوتی مثلاً کسی کا جوتا پہنے ہے وضو کرکے اُس میں پاؤں رکھنا چاہتا ہے دریافت کرلے کہ پاؤں تر ہیں یوں ہی پہن لوں وعلٰی ہذا القیاس یا کوئی فاسق بیباک مجاہر معلن اس درجہ وقاحت وبے حیائی کو پہنچا ہوا ہو کہ اُسے نہ بتا دینے میں باک ہو، نہ دریافت سے صدمہ گزرے ، نہ اُس سے کوئی فتنہ متوقع ہو نہ اظہارِ ظاہر میں پردہ دَری ہو تو عندالتحقیق اُس سے تفتیش میں بھی حرج نہیں ، ورنہ ہرگز بنامِ ورع واحتیاط مسلمانوں کی نفرت ووحشت یا اُن کی رُسوائی وفضیحت یا تجسّس عیوب ومعصیت کا باعث نہ ہو کہ یہ سب امور ناجائز ہیں اور شکوک وشبہات میں ورع نہ برتنا ناجائز نہیں۔ عجب کہ امرِ جائز سے بچنے کے لئے چند ناروا باتوں کا ارتکاب کرے یہ بھی شیطان کا ایک دھوکا ہے کہ اسے محتاط بننے کے پردے میں محض غیر محتاط کردیا۔ اے عزیز! مداراتِ خلق والفت وموانست اہم امور سے ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۲۶-۵۲۷)
(2)… دوسرے نمبر پر ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو خود تو اپنے نفس پر سختی کرنے کی خاطر لذیذ غذاؤں کو ترک کرتے ہیں لیکن دوسرا شخص اگر ان غذاؤں کو استعمال کرتا ہے تو اسے نہایت نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی سراسر حرام ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بچنا چاہے (تو) بہتر وافضل اور نہایت محمود عمل مگر اس کے ورع کا حکم صرف اسی کے نفس پر ہے نہ کہ اس کے سبب اصلِ شے کو ممنوع کہنے لگے یا جو مسلمان اُسے استعمال کرتے ہوں اُن پر طعن واعتراض کرے ،اُنہیں اپنی نظر میں حقیر سمجھے، اس سے تو اس ورع کا ترک ہزار درجہ بہتر تھا کہ شرع پر افترا اور مسلمانوں کی تشنیع وتحقیر سے تو محفوظ رہتا۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۴۹)
ایک اور مقام پر فرمایا: ’’فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ، نے آج تک اُس شکر کی صورت دیکھی، نہ کبھی اپنے یہاں منگائی، نہ آگے منگائے جانے کا قصد، مگر بایں ہمہ ہرگز ممانعت نہیں مانتا ،نہ جو مسلمان استعمال کریں اُنہیں آثم خواہ بیباک جانتا ہے ،نہ تو ورع و احتیاط کا نام بدنام کرکے عوام مومنین پر طعن کرے، نہ اپنے نفس ذلیل مہین رذیل کے لئے اُن پر ترفّع وتعلّی روا رکھے۔ (فتاوی رضویہ، ۴ / ۵۵۱-۵۵۲)
(3)…تیسرے نمبر پر وہ لوگ جو گیارہویں ، میلاد شریف، بزرگوں کی فاتحہ ،عرس ،مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی اور سبیل وغیرہ کے شربت کو ممنوع و حرام کہتے ہیں وہ بھی اس آیت کے صریح خلاف کرکے گناہ گار ہوتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں حلال ہیں اور انہیں ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت وضلالت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ یہ نہیں کہ انسان لذیذ حلال چیزیں چھوڑ دے بلکہ حرام سے بچنا تقویٰ ہے۔ حلال نعمتیں خوب کھاؤ پیو، محرمات سے بچو۔ نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لذّات کو ترک کرنے کے معاملے میں اعتدال کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللہ ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے اور رات کو قیام کرتے ہو۔ میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’ ایسا نہ کرو، بلکہ روزے رکھوا ور چھوڑ بھی دیا کرو، قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے۔ تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے تویہ ہمیشہ روزے رکھنے کی طرح ہو جائے گا۔ میں نے اصرار کیا تو مجھے زیادہ کی اجازت دی گئی۔ میں نے پھر عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے میں زیادہ طاقت پاتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام والے روزے رکھ لو اور ان سے زیادہ نہ رکھنا۔ میں نے عرض کی: اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا: ایک دن رکھنا اور ایک دن چھوڑ دینا۔ بڑھاپے کے دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: کاش میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اجازت دینے کوقبول کر لیتا۔( بخاری، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، ۱ / ۶۴۹، الحدیث: ۱۹۷۵)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک دین آسان ہے، اور جو اس سے مقابلہ کرے گا تو دین ہی اس پر غالب آئے گا، پس تم سیدھے رہو اور بشارت قبول کرو۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الدین یسر، ۱ / ۲۶، الحدیث: ۳۹)
{ قُلْ:تم فرماؤ۔} یہاں بتایا گیا کہ دنیاو آخرت کی نعمتیں اہلِ ایمان ہی کیلئے ہیں کیونکہ کفار نمک حرام ہیں اور نمک حراموں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا لیکن چونکہ دنیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایک مہلت اور امتحان بھی رکھا ہے اس لئے کفار کو بھی اس میں سے مل جاتا ہے بلکہ مہلت کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ ہی ملتا ہے ۔ اس کے بالمقابل چونکہ آخرت میں نہ امتحان ہے اور نہ مہلت، لہٰذا وہاں صرف انہی کو ملے گا جو مستحق ہوں گے اور وہ صرف مومنین ہیں۔
مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ معلوم ہوا کہ اچھی نعمتیں رب عَزَّوَجَلَّ نے مومنوں کے لئے پیدا فرمائی ہیں ، کفار ان کے طفیل کھا رہے ہیں۔ لہٰذا جو کوئی کہے کہ فقیری اس میں ہے کہ اچھا نہ کھائے، اچھا نہ پہنے وہ جھوٹا ہے۔ اچھا کھاؤ، اچھا پہنو (لیکن اس کے ساتھ) اچھے کام کرو۔ (اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا:)
’’ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا ‘‘ (مؤمنون: ۵۱)
(پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔)
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(33)
ترجمہ
تم فرماؤ، میرے رب نے تو ظاہری باطنی بے حیائیاں اور گناہ اور ناحق زیادتی کو حرام قرار دیا ہے اور اسے کہ تم اللہ کے ساتھ اس چیز کوشریک قرار دو جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر وہ باتیں کہو جس کا تم علم نہیں رکھتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ:تم فرماؤ ۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ان مشرکین سے خطاب ہے جو برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی پاک چیزوں کو حرام کرلیتے تھے، اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں حرام نہیں کیں اور اُن سے اپنے بندوں کو نہیں روکا، جن چیزوں کو اُس نے حرام فرما یا وہ یہ ہیں جو اللہ تعالیٰ بیا ن فرماتا ہے (1) بے حیائیاں ، چاہے ظاہری ہوں یا باطنی، قولی ہوں یا فعلی۔ (2) گناہ۔ (3) ناحق زیادتی۔ (4) ہر طرح کا کفر و شرک۔
{ الْفَوَاحِشَ:بے حیائیاں۔} ہر وہ قول اور فعل جو برا اور فحش ہو اسے فاحشہ کہتے ہیں (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۸۹) آیت میں ’’ الْفَوَاحِشَ ‘‘ سے مراد ہر کبیرہ گناہ ہے ،جو علانیہ کیا جائے وہ ’’ مَا ظَہَرَ ‘‘ یعنی ظاہری ہے اور جو خفیہ کیا جائے وہ’’ مَا بَطَنَ ‘‘ یعنی باطنی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ’’فَوَاحِشَ ‘‘ سے وہ گناہ مراد ہیں جن میں شرعی سزا لازم نہ ہو اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زنا ہے، جو بدکاری علی الاعلان ہو (جیسے اجرت دے کر پیشہ ور عورتوں سے بدکاری کرنا،کلبوں اور ہوٹلوں سے کال گرلز، سوسائٹی گرلز بک کر کے بدکاری کرنا) یہ ’’ مَا ظَهَرَ ‘‘ ہے اور جو زنا خفیہ طریقے سے کیا جائے جیسے کسی جوان لڑکی یا عورت سے عشق و محبت کے نتیجے میں یا پیا رکا جھانسا دے کر زنا کرنا، یہ ’’مَا بَطَنَ ‘‘ ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۵ / ۲۳۲)
ظاہری و باطنی بے حیائیوں کو حرام قرار دئیے جانے کی وجہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے زیادہ کوئی غَیور نہیں ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام ظاہری اور باطنی فَوَاحِشَ یعنی بے حیائیوں کو حرام کر دیا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب غیرۃ اللہ تعالی وتحریم الفواحش، ص۱۴۷۵، الحدیث: ۳۲(۲۷۶۰))
حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو تلوار کی دھار سے اس کی جان نکال کے رکھ دوں۔ جب یہ بات رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سنی تو ارشاد فرمایا: ’’تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو! حالانکہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! میں اُن سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے، اسی غیرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کے کاموں کو حرام فرما دیا ہے، چاہے بے حیائی ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا شخص اغیر من اللہ، ۴ / ۵۴۴، الحدیث: ۷۴۱۶)
{ وَ الْاِثْمَ:اور گناہ۔} فواحش کی طرح ’’اَلْاِثْمَ ‘‘ کی تفسیر میں بھی چند قول ہیں (1) ہر صغیرہ گناہ ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ ہے۔ (2) وہ گناہ کہ جس پر شرعی سزا لازم نہ ہو ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ ہے۔ (3) ہر گناہ ’’ اَلْاِثْمَ ‘‘ہے چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۹۰)
{ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ:اور ناحق زیادتی ۔} ’’اَلْبَغْیَ ‘‘کا معنی ہے: ظلم، تکبر ، لوگوں پر زیادتی کرنا اورا ن سب چیزوں میں حد سے بڑھ جانا۔ ناحق زیادتی کا معنی ہے ’’کسی شخص کا اس چیز کو طلب کرنا جو اس کا حق نہیں جبکہ اپنے حق کو طلب کرنا اس میں داخل نہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲ / ۹۰)
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(34)
ترجمہ
اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے تو جب ان کی وہ مدت آجائے گی تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو ں گے اورنہ ہی آگے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ:اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے۔}اس آیت میں مقررہ مدت سے یا تو یہ مراد ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی امتوں کیلئے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو عذاب ضرور آئے گا۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر کسی کی موت کا وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا۔
موت کے لئے ہر وقت تیار رہیں :
چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)
حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵)۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْۙ-فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(35)
ترجمہ
اے آدم کی اولاد! اگر تمہارے پاس تم میں سے وہ رسول تشریف لائیں جو تمہارے سامنے میری آیتوں کی تلاوت کریں تو جو پرہیزگاری اختیار کرے گا اور اپنی اصلاح کرلے گا تو ان پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ:اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول تشریف لائیں۔} یہاں اسی سابقہ تَناظُر میں اولادِ آدم سے خطاب ہے کہ اے اولادِ آدم! تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول تشریف لائیں گے جو تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب پڑھ کر سنائیں گے اُسے سن کرجو پرہیزگاری اختیار کرے گا اور ممنوعات سے بچتے ہوئے عبادت و اطاعت کا راستہ اختیار کرے گا تو قیامت کے دن اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذا ب کا نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ دنیا میں کچھ چھوڑ دینے کی وجہ سے غمگین ہوگا بلکہ قیامت کے دن حسب ِ مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے بہرہ وَر ہوں گے ۔ چنانچہ ا س دن کتنے ہی لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے، جیسا کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت کرنے والوں کیلئے (قیامت کے دن) نور کے منبر ہوں گے جن پر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء بھی رشک کریں گے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحب فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، الحدیث: ۲۳۹۷)
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(36)
ترجمہ
اورجو ہماری آیتیں جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں تکبر کریں گے تو یہ لوگ جہنمی ہیں ، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا:اور آیات کے مقابلے میں تکبر کریں گے۔} آیات کے مقابلے میں تکبر کا معنی ہے انہیں تسلیم نہ کرنا۔
تکبر کی بہت بڑی قباحت:
اس سے معلوم ہو اکہ تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ منافق کے بارے میں فرمایا گیا:
’’ وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(بقرہ:۲۰۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
اور حدیثِ مبارک میں ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر ہے (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَهُمْۙ-قَالُوْۤا اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ(37)
ترجمہ
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیتیں جھٹلائیں ؟ تو انہیں ان کا لکھا ہوا حصہ پہنچتا رہے گا حتّٰی کہ جب ان کے پاس ان کی جان قبض کرنے کے لئے ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) آتے ہیں تو وہ (فرشتے ان سے) کہتے ہیں : وہ کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ (جواباً) کہتے ہیں : وہ ہم سے غائب ہوگئے اور اپنی جانوں پر آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ کافر تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ۔} یعنی اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف وہ بات منسوب کرے جو اس نے ارشاد نہیں فرمائی یا جو اس نے ارشاد فرمایا اسے جھٹلائے۔
اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کی صورتیں :
اللہ تعالیٰ پر افتراء کی مختلف صورتیں ہیں (1) بتوں یا ستاروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا۔ (2) یزدان اور اہرمن دو خدا قرار دینا۔ (3) اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹے یا بیٹیاں ٹھہرانا۔ (4) باطل احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔ آیات کو جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ ماننا اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۲۳۶)
{ یَنَالُهُمْ نَصِیْبُهُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ:انہیں ان کے نصیب کا لکھا پہنچے گا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ لوحِ محفوظ یا ان کے نَوشتہِ تقدیر میں جتنی عمر اور روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مشرکین کے لئے لکھ دی ہے وہ ان کو پہنچے گی حتّٰی کہ جب اِن کے پاس اِن لوگوں کی عمریں اور روزیاں پوری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ملکُ الموت اور اُن کے معاونین ان کی جان قبض کرنے کیلئے آتے ہیں تووہ فرشتے ان مشرکین سے کہتے ہیں : تمہارے وہ جھوٹے معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے؟ مشرکین اس کے جواب میں کہتے ہیں : وہ ہم سے غائب ہوگئے ان کا کہیں نام و نشان ہی نہیں۔ چنانچہ بت نہ تو کافروں کو موت کے وقت کسی عذاب سے بچا سکیں گے اور نہ آخرت میں۔
قَالَ ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ فِی النَّارِؕ-كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًاۙ-قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ﱟ-قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰـكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ(38)
ترجمہ
اللہ ان سے فرمائے گا کہ تم سے پہلے جوجنوں اور آدمیوں کے گروہ آگ میں گئے ہیں تم بھی ان میں داخل ہوجاؤ ۔جب ایک گروہ (جہنم میں ) داخل ہوگا تو دوسرے (گروہ) پر لعنت کرے گا حتّٰی کہ جب سب اس میں جمع ہوجائیں گے تو ان میں بعد والے پہلے والوں کے لئے کہیں گے : اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ اللہ فرمائے گا: سب کے لئے دُگنا ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ:فرماتا ہے۔} اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کافروں سے فرمائے گا کہ تم سے پہلے جوجنوں اور آدمیوں کے گروہ آگ میں گئے ہیں تم بھی ان میں داخل ہوکر جہنم میں چلے جاؤ۔ جب ایک دین سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ جہنم میں داخل ہوگا تواپنے ہم دین دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا یعنی ہر قسم کا کافر اپنی قسم کے کافر کو لعنت کرے گا۔ مشرک مشرکوں پر لعنت کریں گے، یہودی یہودیوں پر اور عیسائی عیسائیوں پر لعنت کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر ایک اس ہی کے ساتھ ہو گا جس سے دل کا تعلق ہو گا، زمانہ اور جگہ ایک ہو یا مختلف۔
{ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ: بعد والے پہلے والوں کے لئے کہیں گے۔} جب سب جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو بعد والے یعنی پیروکار پہلے والوں یعنی گمراہ کرنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کریں گے: اے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ جواب ملے گا کہ سب کیلئے دگنا عذاب ہے اور سب کو مسلسل عذاب ہوتا رہے گا لیکن تمہیں ایک دوسرے کا عذاب معلوم نہیں۔
وَ قَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ(39)
ترجمہ
اور پہلے والے دوسروں سے کہیں گے تو تمہیں ہم پر کوئی برتری نہ رہی تو اپنے اعمال کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ: تو تمہیں ہم پر کوئی برتری نہ رہی۔} اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب سن کرگمراہی کے پیشوا پیروی کرنے والوں سے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر عذاب سے چھٹکارے میں کوئی برتری نہ رہی کفر و گمراہی میں دونوں برابر ہیں۔ تم اپنے کفر اور برے اعمال کا مزہ چکھو، ہم اپنے کفر اور برے اعمال کا مزہ چکھتے ہیں۔ کفر و بد عملی ، پیغمبروں کی اہانت، مسلمانوں کو ستانا ہم تم دونوں ہی کرتے تھے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ(40)
ترجمہ
بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا توان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے حتّٰی کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں اور ان سے تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنا بیان ہوئی اوراس آیت میں اس ہمیشگی کی کیفیت کا بیان ہے ،پہلی یہ کہ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کے معنی:
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ کفار کے اعمال اور ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اُن کے اعمال و ارواح دونوں خبیث ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ کفار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابن جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں گے نہ ارواح کے لئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۹۳)
یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل آسمان پر جاسکتا ہے نہ موت کے بعد ان کی روح جا سکتی ہے ۔
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے اور مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھلنے اور کافر کی روح کے لئے نہ کھلنے کاذکر حدیثِ پاک میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’روح نکلتے وقت میت کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ مومن کی روح ہے تو اس سے کہتے ہیں : اے پاک روح! پاک جسم سے نکل آ کیونکہ تونیک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے خوش ہو جا، جنت کی خوشبو اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی سے خوش ہو جا، فرشتے روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، جب روح نکل آتی ہے تو اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، جب آسمان کے قریب پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’فلاں شخص کی روح ہے۔ آسمانی فرشتے کہتے ہیں ’’مرحبا، مرحبا، اے پاک روح ! پاک جسم میں رہنے والی ، تو خوش ہو کر (آسمانوں میں ) داخل ہو جا اور خوشبو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا سے خوش ہو جا، ہر آسمان پر اسے یہی کہا جاتا ہے ،حتّٰی کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔اگر کسی برے بندے کی روح ہوتی ہے تو کہتے ہیں ’’اے ناپاک جسم کی روح! بری حالت کے ساتھ آ، گرم پانی اور پیپ کی اور اس کے ہم شکل دوسرے عذابوں کی بشارت حاصل کر۔وہ روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، پھر اسے لے کر آسمان کی جانب چلتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں : ’’یہ کون ہے؟ روح لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں شخص کی روح ہے، آسمانی فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی چیز مبارک نہ ہو، اسے ذلیل کر کے نیچے پھینک دو تو وہ اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۲۶۲)
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نزول سے محروم رہتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۲۴۰)
قرآنِ پاک میں ہے:
’’ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘ (اعراف:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے (عذاب میں ) گرفتار کردیا۔
{ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ : اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔} اس آیت میں ہمیشگی کی دوسری کیفیت کا بیان ہوا چنانچہ فرمایا گیا کہ کفار تب تک جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل نہ ہو جائے اور یہ بات چونکہ محال ہے تو کفار کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے کیونکہ محال پر جو موقوف ہو وہ خود محال ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ کفار کا جنت سے محروم رہنا قطعی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں مجرمین سے کفار مراد ہیں کیونکہ اُوپر ان کی صفت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان سے تکبر کرنے کا بیان ہوچکا ہے۔
لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(41)
ترجمہ
ان کے لئے آگ بچھونا ہے اور ان کے اوپر سے (اسی کا) اوڑھنا ہوگا اور ہم ظالموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ:ان کے لئے آگ بچھونا ہے۔} یعنی اُوپر نیچے ہر طرف سے آگ انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ صرف اوپر نیچے کا ذکر فرمایا کیونکہ دایاں بایاں خود ہی سمجھ میں آگیا ۔ حضرت سوید بن غفلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ اس بات کا ارادہ فرمائے گا کہ جہنمی اپنے ماسوا سب کوبھول جائیں تو ان میں سے ہر شخص کے لئے اس کے قد برابر آگ کا ایک صندوق بنایا جائے گا پھر اس پر آگ کے تالوں میں سے ایک تالا لگا دیا جائے گا، پھر اس شخص کی ہر رگ میں آگ کی کیلیں لگا دی جائیں گی، پھر اس صندوق کو آگ کے دوسرے صندوق میں رکھ کر آگ کا تالا لگا دیا جائے گا ، پھر ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، الشعبی، ۸ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۰)
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ٘ -اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(42)
ترجمہ
اور وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے، وہ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور وہ جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلے چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لئے وعید اور آخرت میں جو کچھ ان کے لئے تیار فرمایا اس کا ذکر کیا، اب ایمان والوں سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا اور آخرت میں جو کچھ ان کیلئے تیار فرمایا اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے تو وہ جنت والے ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس سے دومسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ ایمان اعمال پر مقدم ہے، پہلے ایمان قبول کیا جائے اور بعد میں نیک کام کئے جائیں ، دوسرا یہ کہ کوئی شخص نیک اعمال سے بے نیاز نہیں چاہے کسی طبقے اور کسی جماعت سے اس کا تعلق ہو۔
{ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا:ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے۔} اس آیت میں مسلمانوں کیلئے بہت پیاری تسلی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ احکام کا پابند نہیں کرتا ۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں جانے کیلئے کوئی بہت زیادہ مشقت برداشت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اکثر وبیشتر احکام وہ ہیں جن پر آدمی نہایت سہولت کے ساتھ عمل کرلیتا ہے جیسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔ زکوٰۃ اور حج تو لازم ہی اس پر ہیں جواپنی سب ضروریات کے بعد زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کی بقدر زائد رقم رکھتے ہوں۔ یونہی ماں باپ، بہن بھائیوں ، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کی ادائیگی بھی عمومی زندگی کا حصہ ہے۔ یونہی ذکرو درود بھی روح کی غذا ہے اور یہی اعمال جنت میں لے جانے والے ہیں۔ تو جنت میں جانے کا راستہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نہایت آسان بنایا ہے، صرف اپنی ہمت کا مسئلہ ہے
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُۚ-وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا- وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُۚ-لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّؕ-وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(43)
ترجمہ
اور ہم نے ان کے سینوں سے بغض و کینہ کھینچ لیا، ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور وہ کہیں گے : تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم ہدایت نہ پاتے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا۔ بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے اور انہیں نداکی جائے گی کہ یہ جنت ہے، تمہیں تمہارے اعمال کے بدلے میں اس کا وارث بنادیا گیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ نَزَعْنَا:اور ہم نے کھینچ لیا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان کیسا پیارا تقابل بیان فرمایا ہے کہ اُن کے نیچے آگ کے بچھونے تھے اور اِن کے محلات کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اُن کے گروہ ایک دوسرے پر لعنت کر رہے تھے اور اِن جنتیوں کے دلوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کینے کو نکال دیا اور یہ سب پاکیزہ دل والے ہوں گے۔ نہ تو دنیوی باتوں کا کینہ ان کے دلوں میں ہوگا اور نہ ہی جنت میں ایک دوسرے کے بلند مقامات و محلات پر حسد کریں گے بلکہ سب پیارو محبت سے رہ رہے ہوں گے۔
پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کا وصف ہے
اس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کے وصف ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض وکینہ اور حسد سے پاک رکھے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنت میں جانے سے پہلے سب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے، حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب مسلمانوں کی دوزخ سے نجات ہو جائے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان پل پر روک لیا جائے گا پھر ان میں سے جس نے جس کے ساتھ دنیا میں زیادتی کی ہو گی اس کا قصاص لیا جائے گا پس جب ان کوپاک اور صاف کر دیاجائے گا تب ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ِقدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے ان میں سے ہر ایک شخص کو جنت میں اپنے ٹھکانے کا دنیا کے ٹھکانے سے زیادہ علم ہوگا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ، ۴ / ۲۵۶، الحدیث: ۶۵۳۵)
بغض و کینہ کی مذمت:
یہاں چونکہ بغض وکینہ کا تذکرہ ہوا اس کی مناسبت سے یہاں بغض و کینہ کا مفہوم اور اس کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جب آدمی عاجز ہونے کی وجہ سے فوری غصہ نہیں نکال سکتا تو وہ غصہ باطن کی طرف چلا جاتا ہے اور وہاں داخل ہو کر کینہ بن جاتا ہے۔ کینہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو بھاری جاننا، اس سے نفرت کرنا اور دشمنی رکھنا اور یہ بات ہمیشہ ہمیشہ دل میں رکھنا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، القول فی معنی الحقد ونتائجہ وفضیلۃ العفو والرفق، ۳ / ۲۲۳)
احادیث میں بغض وکینہ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں کے اعمال ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو۔ کہا جاتا ہے ’’اسے چھوڑ دو یا مہلت دو حتّٰی کہ یہ رجوع کر لیں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن الشحناء والتہاجر، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۶(۲۵۶۵))
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بغض رکھنے والوں سے بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈڈالتا (یعنی تباہ کردیتا ) ہے ۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۲، الحدیث: ۷۳۹۶، الجزء الثالث)
نوٹ:بغض و کینہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ’’احیاء ُالعلوم‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔
مسلمانوں کوآپس میں کیسا ہونا چاہیے؟
مسلمانوں کوآپس میں کیسا ہونا چاہیے اس کیلئے درج ذیل 5 احادیث کا مطالعہ فرمائیں
(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائیں۔ (بخاری، کتاب الادب، باب تعاون المؤمنین بعضہم بعضاً، ۴ / ۱۰۶، الحدیث: ۶۰۲۶)یعنی جس طرح یہ ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہئے ۔
(2)…حضرت نعمان بن بشیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی اور رحمت و شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اوربے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
(3)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کی شرارت سے امن ہو اور تم میں برا وہ شخص ہے جس سے بھلائی کی امید نہ ہو اور جس کی شرارت سے امن نہ ہو۔ (ترمذی، کتاب الفتن، ۷۶-باب، ۴ / ۱۱۶، الحدیث: ۲۲۷۰)
(4)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی انّ من خصال الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۲(۴۵))
(5)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’گفتگو کرتے وقت اچھے طریقے سے بات کرنا، جب کوئی گفتگوکرے تو اچھے انداز میں اس کی بات سننا، ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا اور وعدہ پورا کرنا مومن کے اخلاق میں سے ہے ۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۶۳۷، الحدیث: ۵۹۹۷)
{ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ:اور وہ کہیں گے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} مؤمنین جنت میں داخل ہوتے وقت کہیں گے: تمام تعریفیں اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اچھے اعمال کی ہدایت دی اور ہمیں ایسے عمل کی توفیق دی جس کا یہ اجرو ثواب ہے اور ہم پر فضل و رحمت فرمائی اور اپنے کرم سے عذاب ِجہنّم سے محفوظ کیا۔
اچھے عمل کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد اور اس کا شکر جنت میں بھی ہو گا کیونکہ وہ حمد و شکر ہی کا مقام ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ علم و عمل اور ہدایت کی توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی عطا سے ہے لہٰذا کسی کو علم یا اچھے عمل کی توفیق ملے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرے اور اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق جانے ۔ اسی وجہ سے ہمیں بکثرت لاحول شریف پڑھنے کا فرمایا گیا ہے کیونکہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ کا معنیٰ ہے کہ نیکی کی توفیق اور برائی سے بچنے کی طاقت نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی توفیق سے۔
{ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا:اورانہیں نداکی جائے گی کہ یہ جنت ہے، تمہیں اس کا وارث بنادیا گیا۔} مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا پکارے گا: تمہارے لئے زندگانی ہے کبھی نہ مرو گے، تمہارے لئے تندرستی ہے کبھی بیمار نہ ہوگے، تمہارے لئے عیش ہے کبھی تنگ حال نہ ہوگے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی دوام نعیم اہل الجنۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۱، الحدیث: ۲۲(۲۸۳۷))
جنت کو دو وجہ سے میراث فرمایا گیا۔ ایک یہ کہ کفار کے حصہ کی جنت بھی وہ ہی لیں گے یعنی کافروں کے ایمان لانے کی صورت میں جو جنتی محلات ان کیلئے تیار تھے وہ ان کے کفر کی وجہ سے اہلِ ایمان کو دیدئیے جائیں گے تو یہ گویا ان کی میراث ہوئی ۔ دوسرے یہ کہ جیسے میراث اپنی محنت و کمائی سے نہیں ملتی اسی طرح جنت کا ملنا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے ہوگا، اپنے اعمال تو ظاہری سبب ہوں گے اور وہ بھی حقیقتاًجنت میں داخلے کا سبب بننے کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے اعمال تو ہیں ہی ناقص، یہ تو صرف سابقہ نعمتوں کا شکرانہ بن جائیں یا جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ بن جائیں تو بھی بہت ہے۔ ان کے بھروسے پر جنت کی طمع تو خود فریبی ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل:
یہاں مفسرین نے ایک بہت پیاری بات ارشاد فرمائی اور وہ یہ کہ جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو کہیں گے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے جس نے ہمیں ہدایت دی یعنی وہ اپنے عمل کی بات نہیں کریں گے بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل کی بات کریں گے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب اس جنت کا وارث بنادیا گیا۔ گویا بندہ اپنے عمل کو ناچیز اور ہیچ سمجھ کر صرف اللہ کریم کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اس کے ناقص عمل کو بھی شرفِ قبولیت عطا فرماکر قابلِ ذکر بنادیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارے اعمال کے سبب جنت دیدی گئی۔
جنت میں داخلے کا سبب:
یہاں مفسرین نے یہ بحث بھی فرمائی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب کیا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل یا ہمارے اعمال۔ تو حقیقت یہی ہے کہ جنت میں داخلے کا سبب تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہی ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘(الدخان: ۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمہارے رب کے فضل سے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
اور یہی مضمون حدیث ِ مبارک میں بھی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بھی نہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’مجھے بھی نہیں ،مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت میں ڈھانپ لے، پس تم اخلاص کے ساتھ عمل کرو اور میانہ روی اختیار کرو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)البتہ بہت سی آیات میں اعمال کو بھی جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا گیا ہے تو دونوں طرح کی آیات و احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ جنت میں داخلے کا حقیقی سبب تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل ہے لیکن ظاہری سبب نیک اعمال ہیں۔
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّاؕ-قَالُوْا نَعَمْۚ-فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ(44)
ترجمہ
اور جنتی جہنم والوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمارے رب نے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اسے سچا پایا تو کیا تم نے بھی اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں ،پھر ایک ندا دینے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ظالموں پراللہ کی لعنت ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبَ النَّارِ:اور جنتی جہنم والوں کو پکار کر کہیں گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جنت والے جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو فرمایا تھا کہ ایمان و طاعت پر اجرو ثواب پاؤگے ہم نے تو اسے سچا پایا، کیا تم لوگوں نے بھی اُس وعدے کو سچا پایا جو تم سے رب عَزَّوَجَلَّ نے کفرو نافرمانی پر عذاب کا وعدہ کیا تھا؟ وہ جواب میں کہیں گے: ہاں ، ہم نے بھی اسے سچا پایا۔
قیامت کے دن جنتی مسلمان گنہگار مسلمانوں کو طعنہ نہ دیں گے
یہاں دوزخ والوں سے مراد کفار جہنمی ہیں نہ کہ گنہگار مومن، کیونکہ جنتی مسلمان ان گنہگاروں کو طعنہ نہ دیں گے بلکہ ان کی شفاعت کرکے وہاں سے نکالیں گے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا۔ یہاں آیت میں مسلمانوں کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اُسی وعدے کی تکمیل کا بیان ہے جو قرآن میں مذکور ہے:
’’ رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴)فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ(۱۹۵)‘‘ (آل عمران:۱۹۳تا۱۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب !تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔ اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گاوہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اورانہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ)اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
جنتیوں کا جہنمیوں سے کلام کرنا ان کی ذلت و رسوائی میں اضافہ کرنے کیلئے ہوگا کیونکہ دنیا میں عموماً کافر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور انہیں طعنے دیتے تھے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ آج اس کا بدلہ ہورہا ہوگا۔
{ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ:پھر ایک ندا دینے والا پکارے گا ۔}پکارنے والے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں یا دوسرا فرشتہ جس کی یہ ڈیوٹی ہوگی اور ظالمین سے مراد کفار ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے معلوم ہو رہا ہے۔
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ(45)
ترجمہ
جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اسے ٹیڑھا (کرنا ) چاہتے ہیں اور وہ آخرت کا انکارکرنے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:جواللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جہنمیوں کو ظالم قرار دیا اور ان کے اوصاف یہ بیان کئے کہ وہ دوسروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے روکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں تبدیلی چاہتے تھے کہ دینِ الٰہی کو بدل دیں اور جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اس میں تغیر ڈال دیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۹۵) تیسرا وہ قیامت کا انکار کرتے تھے۔
مسلمان کہلانے والے بے دین لوگوں کا انجام:
یہاں یہ وعیدیں بطورِ خاص کافروں کے متعلق ہیں لیکن جو مسلمان کہلانے والے بھی دوسروں کو دین پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دین میں تحریف و تبدیلی چاہتے ہیں جیسے بے دین و ملحدلوگ جو دین میں تحریف و تغییر کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی کوئی کم مجرم نہیں بلکہ وہ بھی جہنم کے مستحق ہیں۔
جنتیوں اور جہنمیوں کے باہمی مکالمے:
یہاں آیت ِ مبارکہ میں جیسا مکالمہ بیان کیا گیا ہے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایسے مکالمے قرآنِ پاک میں اور جگہ بھی مذکور ہیں چنانچہ سورۂ صافّات میں ہے:
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(۵۰)قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌۙ(۵۱) یَّقُوْلُ اَىٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ(۵۲)ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ(۵۳)قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ(۵۴)فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(۵۵)قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِۙ(۵۶) وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ‘‘(صافات۵۰تا۵۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جنتی آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا:بیشک میرا ایک ساتھی تھا۔مجھ سے کہا کرتاتھا : کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی؟جنتی (دوسرے جنتیوں سے) کہے گا: کیا تم(جہنم میں ) جھانک کر دیکھو گے؟ تو وہ جھانکے گا تو (اپنے) اس (دنیا کے) ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان دیکھے گا۔وہ جنتی کہے گا: خدا کی قسم، قریب تھا کہ تو ضرور مجھے (بھی گمراہ کرکے) ہلاک کردیتا اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو ضرور میں بھی (عذاب میں ) پیش کئے جانے والوں میں سے ہوتا۔
نیز سورۂ مدثر میں ہے:
’’ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ(۳۸) اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ(۳۹) فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَۙ(۴۰) عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ(۴۱) مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳) وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(۴۴) وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ(۴۵) وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ(۴۶) حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ‘‘ (مدثر۳۸تا۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے مگر دائیں طرف والے،باغوں میں ہوں گے ،وہ پوچھ رہے ہوں گے مجرموں سے،کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔
کفر اور بد عملی کی بڑی وجہ
آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر و عناد اور بد عملی کی بڑی وجہ قیامت کا انکار یا اسے بھلانا ہے اگر بندے کے دل میں قیامت کا خوف ہو تو جرم کرنے کی ہمت ہی نہ کرے ۔اسی لئے بزرگانِ دین نے روزانہ کچھ وقت موت، قبر اور قیامت کے متعلق غور و فکر کرنے کا مقرر فرمایا ہے کہ یہ فکر دل کی دنیا بدل دیتی ہے اور ایسی ہی سوچ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’لمحہ بھر غورو فکر کرناپوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔(مصنف ابن ابی شیعبہ، کتاب الزھد ،کلام الحسن البصری ،۸ / ۲۵۸ ،الحدیث:۳۷)
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌۚ-وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْۚ-وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ- لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ(46)
ترجمہ
اور جنت و دوزخ کے درمیان میں ایک پردہ ہے اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے جوسب کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے اور وہ جنتیوں کو پکاریں گے کہ تم پر سلام ہو ۔یہ اعراف والے خود جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ:اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے۔} یہ پردہ اس لئے ہے تا کہ دوزخ کا اثر جنت میں اور جنت کا اثر دوزخ میں نہ آسکے اور حق یہ ہے کہ یہ پردہ اعراف ہی ہے چونکہ یہ پردہ بہت اونچا ہو گا اس لئے اسے اعراف کہا جاتا ہے کیونکہ اعراف کا معنیٰ ہے’’ بلند جگہ‘‘۔ اس کا تذکرہ سورۂ حدید میں بھی ہے چنانچہ وہاں فرمایا:
’’ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ-قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ-فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌؕ-بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ‘‘ (حدید:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم پر بھی ایک نظر کردو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ، کہا جائے گا:تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ تو وہاں نور ڈھونڈو (وہ لوٹیں گے) تو (اس وقت) ان (مسلمانوں اور منافقوں ) کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (جس سے جنتی جنت میں چلے جائیں گے) اس دروازے کے اندر کی طرف رحمت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔
{ وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ:اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے۔} یہ مرد کس طبقے کے ہوں گے اس بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ اعراف پر ٹھہرے رہیں گے، جب اہلِ جنت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور دوزخیوں کی طرف دیکھیں گے تو کہیں گے یارب! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں ظالم قوم کے ساتھ نہ کر۔پھر آخر کار جنت میں داخل کئے جائیں گے۔ (الزہد لابن مبارک، اول السادس عشر، ص۱۲۳، الحدیث: ۴۱۱)
ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں شہید ہوئے مگر اُن کے والدین اُن سے ناراض تھے وہ اعراف میں ٹھہرائے جائیں گے ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶)
ایک قول یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ہیں کہ اُن کے والدین میں سے ایک اُن سے راضی ہو، ایک ناراض وہ اعراف میں رکھے جائیں گے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اعراف کا مرتبہ اہلِ جنت سے کم ہے۔
امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول یہ ہے اعراف میں صلحاء ،فقراء، علماء ہوں گے اور اُن کا وہاں قیام اس لئے ہوگا کہ دوسرے اُن کے فضل و شرف کو دیکھیں اور ایک قول یہ ہے کہ اعراف میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوں گے اور وہ اس مکانِ عالی میں تمام اہلِ قیامت پر ممتاز کئے جائیں گے اور اُن کی فضیلت اور رتبۂ عالیہ کا اظہار کیا جائے گا تاکہ جنتی اور دوزخی ان کو دیکھیں اور وہ ان سب کے احوال، ثواب و عذاب کے مقدارا ور احوال کا معائنہ کریں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۶) ان قولوں پر اصحابِ اعراف جنتیوں میں سے افضل لوگ ہوں گے کیونکہ وہ باقیوں سے مرتبہ میں اعلیٰ ہیں ،ان تمام اقوال میں کچھ تَناقُض نہیں ہے ا س لئے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اعراف میں ٹھہرائے جائیں اور ہر ایک کے ٹھہرانے کی حکمت جداگانہ ہو۔
{ یَعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ:دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے۔} دونوں فریق سے جنتی اور دوزخی مراد ہیں ، جنتیوں کے چہرے سفید اور ترو تازہ ہوں گے اور دوزخیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی یہی اُن کی علامتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’اعراف والے جب جنتیوں کو دیکھیں گے تو ان کے چہروں کی سفیدی سے انہیں پہچان لیں گے اور جب جہنمیوں کی طرف نظر کریں گے تو انہیں ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۹۷)
جنتیوں اور جہنمیوں کی علامات
اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت،یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اور کافر و گنہگار بندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ (یونس:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جنہوں نے برائیوں کی کمائی کی تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ وہی دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
دور سے سننا شرک نہیں :
اس آیت میں فرمایا گیا اعراف والے جنتیوں کو پکاریں گے ۔جنت و جہنم میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کی آواز سن لیں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ دور سے سن لینا کوئی ایسی بات نہیں جو مخلوق کیلئے ماننے سے شرک لازم آئے کیونکہ شرک کی حقیقت دنیا و آخرت کے اعتبار سے مختلف نہیں ہوتی یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ایک چیز شرک ہو لیکن قیامت میں وہ شرک نہ رہے، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاء کے دور سے سننے کے عقیدے پر شرک کے فتوے دیتے ہیں انہیں غور کرلینا چاہیے بلکہ خود قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دور سے چیونٹی کی باتیں سن لیں ، چنانچہ فر مایا:
’’ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا ‘‘ (النمل:۱۹)
وَ اِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِۙ-قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(47)وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ(48)
ترجمہ
اور جب ان اعراف والوں کی آنکھیں جہنمیوں کی طرف پھیری جائیں گی تو کہیں گے : اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ کرنا۔ اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکار کر کہیں گے جنہیں ان کی پیشانیوں سے پہچانتے ہوں گے : تمہاری جماعت اور جو تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں کام نہ آیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا:اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکاریں گے۔} جب اعراف والوں کی آنکھیں جہنمیوں کی طرف پھیر دی جائیں گی اس وقت کفار جو کہ دنیا میں تو سردار تھے اور قیامت میں جہنم کے باسی ،ان کی پیشانیوں پر جہنمی ہونے کی علامات موجود ہوں گی جس سے اعراف والے انہیں پہچانتے ہوئے پکاریں گے ’’تمہاری جماعت اور جو تم تکبر کرتے تھے وہ تمہیں کام نہ آیا۔
اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍؕ-اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ(49)
ترجمہ
کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھاکر کہتے تھے کہ اللہ ان پر رحمت نہیں کرے گا( ان سے تو فرمایا گیا ہے کہ) تم جنت میں داخل ہوجاؤ تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَهٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ:کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر تم قسمیں کھاتے تھے ۔} اعراف والے غریب جنتی مسلمانوں کی طرف اشارہ کر کے مشرکوں سے کہیں گے کہ کیا یہی وہ غریب مسلمان ہیں جنہیں تم دنیا میں حقیر سمجھتے تھے اور جن کی غریبی فقیری دیکھ کر تم قسمیں کھا تے تھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر رحمت نہیں فرمائے گا، اب خود دیکھ لو کہ وہ جنت کے دائمی عیش و راحت میں کس عزت و احترام کے ساتھ ہیں اور تم کس بڑی مصیبت میں مبتلا ہو۔
غریبوں کی غربت کا مذاق اڑانے سے بچا جائے:
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مومن کی فقیری یا کافر کی امیری سے دھوکا نہ کھانا چاہیے نیز کسی غریب کی غربت کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے۔ غریبوں کی بے کسی کا مذاق اڑانا کافروں کا طریقہ ہے۔ قرآنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے کہ کفار مسلمانوں کو غریب ہونے کی وجہ سے طعنے دیتے تھے۔ مسلمان کو غربت کے طعنے دینا ایذاءِ مسلم اور حرام فعل ہے۔ ایذاءِ مسلم کے مُرتکب لوگوں کو اِس حدیث ِ مبارک سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مُفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس درہم اورساز و سامان نہ ہو ۔ ارشاد فرمایا: ’’ میری اُمت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اوراس کا حال یہ ہوکہ اس نے (دنیا میں ) اِسے گالی دی، اُسے تہمت لگائی، اِس کا مال کھایا، اُس کا خون بہایا، اُسے مارا ۔ اِس کی نیکیوں میں سے کچھ اُس مظلوم کو دے دی جائیں گی اور کچھ اِس مظلوم کو، پھر اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوجائیں تو ان مظلوموں کی خطائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُؕ-قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(50)
ترجمہ
اورجہنمی جنتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں کچھ پانی دیدو یا اس رزق سے کچھ دیدو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ جنتی کہیں گے: بیشک اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: راط الجنان
{ وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ:اورجہنمی پکاریں گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب اعراف والے جنت میں چلے جائیں گے تو دوزخیوں کو بھی کچھ لالچ ہوگی اور وہ عرض کریں گے :یارب! جنت میں ہمارے رشتہ دار ہیں ، ہمیں اجازت عطا فرما کہ ہم اُنہیں دیکھ سکیں اور ان سے بات کرسکیں۔چنانچہ انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رشتہ داروں کو جنت کی نعمتوں میں دیکھیں گے اور پہچانیں گے، لیکن اہلِ جنت ان دوزخی رشتہ داروں کو نہ پہچانیں گے کیونکہ دوزخیوں کے منہ کالے ہوں گے، صورتیں بگڑ گئی ہوں گی، توو ہ جنتیوں کو نام لے لے کر پکاریں گے، کوئی اپنے باپ کو پکارے گا، کوئی بھائی کو اورکہے گا ،ہائے میں جل گیا مجھ پر پانی ڈالو اور تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو رزق دیا ہے ان نعمتوں میں سے کھانے کو دو۔ ان کی پکار سن کر جنتی کہیں گے: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کردی ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۹۸)
جنتی مومن کو جہنمی کافر سے نہ محبت ہو گی نہ اسے اس پر رحم آئے گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنتی مومن کو دوزخی کافر سے بالکل محبت نہ ہو گی اور نہ ہی اس پر رحم آئے گا اگرچہ اس کا سگا باپ یا بیٹا یابہترین دوست ہو ،وہ اس کے مانگنے پر بھی اُدھر کچھ نہ پھینکے گا ۔ خیال رہے کہ یہاں حرام سے مراد شرعی حرام نہیں کیونکہ وہاں شرعی احکام جاری نہ ہوں گے بلکہ مراد کامل محرومی ہے۔ نیز جنتیوں کا جہنمیوں کی مدد نہ کرنا کافر جہنمیوں کے متعلق ہے ورنہ جہنم کے مستحق مسلمانوں میں سے بہت سے گناہگاروں کونیک رشتے داروں کی شفاعت نصیب ہوگی جیسے حافظ ِ قرآن کے بارے میں حدیث میں تصریح ہے۔
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۚ-فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَاۙ-وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(51)
ترجمہ
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیااور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکہ دیا تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے کیونکہ انہوں نے اپنے اِس دن کی ملاقات کو بھلا رکھا تھا اوروہ ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا:جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیا۔} اس آیت میں کفار کی ایک بری صفت بیان کی جا رہی ہے کہ ان کفار نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا اس طرح کہ اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہوئے جسے چاہا حرام کہہ دیا اور جسے چاہا حلال قرار دے دیا اور جب انہیں ایمان قبول کرنے کی دعوت دی گئی تو یہ ایمان والوں سے مذاق مسخری کرنے لگ گئے، انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ دیا کہ دنیا کی لذتوں میں مشغول ہو کر اپنے اخروی انجام کو بھول گئے اور اہل و عیال کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت سے دور ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی محبت سخت خطرناک ہے۔ اسی لئے حدیثِ مبارک میں فرمایا گیا کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ (جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثانی، حرف الذال، الکتاب الثالث فی ذمّ الدنیا، الفصل الاول، ۴ / ۴۵۷، الحدیث: ۲۶۰۳)
{ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ:تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے۔} یعنی کفار نے دنیا میں جو معاملہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں روا رکھا تھا قیامت کے دن اس کا انجام ان کے سامنے آجائے گا چونکہ انہوں نے قیامت کا خیال تک چھوڑ رکھا تھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اُن کے اس بھولنے کا بدلہ دے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف نِسیان کی نسبت کا مطلب کفار کے نسیان (یعنی بھولنے) کا بدلہ دینا ہے۔
وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(52)
ترجمہ
اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک عظیم علم کی بنا پربڑی تفصیل سے بیان کیا، ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ:اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے۔} کتاب سے مراد قرآنِ پاک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل علم کی بناپر بڑی تفصیل سے بیان کیاکہ اس میں انسانی ہدایت کیلئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ تمام چیزیں بیان فرمادیں اور جس چیز کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دعوت دی اس کی حقانیت کے زبردست دلائل قائم فرمائے اور اسے بار بار دلنشین انداز اور حسین پیرایوں میں بیان کیا ۔ قرآنِ پاک عقائد ِ حقہ اور اعمالِ صالحہ کے بیان کا حسین مجموعہ ہے۔ قرآن کی رحمتِ عامہ توسارے عالم کیلئے ہے کہ ساری دنیا کو ایک ہدایت نامہ مل گیا مگر رحمتِ خاصہ صرف مومنوں کیلئے ہے کیونکہ اس سے نفع صرف وہی اٹھاتے ہیں۔
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّۚ-فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُؕ-قَدْ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(53)
ترجمہ
وہ توصرف قرآن کے کہے ہوئے آخری انجام کا انتظار کررہے ہیں ۔ جس دن وہ آخری انجام آئے گا تو جو اِس سے پہلے بھولے ہوئے تھے بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب کے رسول حق کے ساتھ تشریف لائے تھے ،توہیں کوئی ہمارے سفارشی جو ہماری شفاعت کردیں ؟یا ہمیں واپس بھیج دیا جائے تو ہم جو پہلے عمل کیا کرتے تھے اس کے برخلاف اعمال کرلیں ۔ بیشک انہوں نے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور ان سے کھوگئے جویہ بہتان باندھتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کاہے کی راہ دیکھتے ہیں۔} یعنی وہ کفار جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا، ان کا انکار کیا اور ان پر ایمان نہ لائے وہ صرف اس قرآن کے بیان کئے ہوئے آخری انجام کا انتظار کررہے ہیں حالانکہ قیامت کے دن جب اس قرآن کا بتایا ہوا نجام آئے گا تو وہ کافرجو اس سے پہلے بھولے ہوئے تھے،نہ اس پر ایمان لاتے تھے اورنہ اس کے مطابق عمل کرتے تھے اقرا ر کرتے ہوئے بول اٹھیں گے کہ بیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے رسول جو تعلیمات لائے تھے وہ سب حق تھیں یعنی حشر و نشر، قیامت کے دن اٹھنا اور ثواب و عذاب یہ سب حق ہے۔ لیکن اس وقت ان کا اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا اور جب اپنی جانوں کو عذاب میں دیکھیں گے اور یہ نظارہ کریں گے کہ مسلمانوں کی شفاعت ہورہی ہے اور انبیاء و اولیاء ، علماء و صلحاء ،چھوٹے بچے، ماہِ رمضان اور خانہ کعبہ وغیرہ شفاعت کررہے ہیں ، تب کف ِافسوس ملتے ہوئے کہیں گے’’ ہے کوئی جو ہماری بھی سفارش کردے اور اگر یہ نہیں تو ہمیں دنیا میں ہی واپس بھیج دیا جائے تاکہ پہلے جو اعمال کئے تھے انہیں چھوڑ کر نیک اعمال کرلیں ، کفر کی بجائے ایمان لے آئیں ، معصیت ونافرمانی کی بجائے اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرلیں مگر نہ اُنہیں کسی کی شفاعت نصیب ہو گی اورنہ دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل کا وقت ضائع کر کے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور اب پچھتانے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچا۔
{ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ:اور ان سے کھوگئے ۔} کفار جوکہتے تھے کہ بت خدا کے شریک ہیں اور اپنے پجاریوں کی شفاعت کریں گے، اب آخرت میں اُنہیں معلوم ہوگیا کہ اُن کے یہ دعوے جھوٹے تھے۔
جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد:
اوپر متعدد آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان کے مکالمے، جنتیوں کی نعمتیں اور جہنمیوں کے عذاب، جنتیوں کی خوشیاں اور جہنمیوں کی حسرتیں یہ سب چیزیں بیان کی گئیں۔ آیات میں جو کچھ بیان ہوا اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں اور کافروں کے انجام کا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اصحاب ِ اعراف کا بھی بیان ہے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے۔ اب یہاں مسلمانوں کا ایک وہ گروہ بھی ہوگا جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی اور یونہی وہ لوگ بھی ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود کسی گناہ پر پکڑے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو کفر سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس میں وہ تمام ذرائع مثلاً فلمیں ، ڈرامے، مزاحیہ پروگرام اور دینی معلومات کی کمی داخل ہیں جو آج کے زمانے میں کفریات کا سبب بنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ کوئی مسلمان ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں جائے گا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ کچھ گناہگار مسلمان ضرور جہنم میں جائیں گے لہٰذا ہمیں جہنم کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیدُ المَعصُومِین ہیں لیکن اس کے باوجود تعلیمِ امت کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب ِ جہنم سے کس قدر پناہ مانگتے تھے اس کا اندازہ احادیثِ طیبہ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے ۔ یونہی صحابہ و تابعین اور بزرگانِ دین بھی ہمیشہ جہنم کے عذاب سے خائف اور لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ترغیب کیلئے یہاں چند احادیث و واقعات پیشِ خدمت ہیں :
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (نسائی، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من عذاب القبر، ص۸۷۴، الحدیث: ۵۵۱۴)
(2)…حضرت حُمرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک مرتبہ) ان آیاتِ کریمہ:
’’ اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًاۙ(۱۲) وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًا‘‘ (مزمل۱۲، ۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنسنے والاکھانا اور دردناک عذاب ہے۔
کی تلاوت فرمائی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر غشی طاری ہو گئی۔ (الزہد لابن حنبل، تمہید، ص۶۲، رقم: ۱۴۶)
(3)… حضرت بَرَاء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی۔ پھر فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔ ‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶، الحدیث: ۴۱۹۵)
(4)… حضرت سلیمان بن سحیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص نے بتایا جس نے خود حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز میں جھکتے، اٹھتے اور سوز و گدازکی حالت میں نماز ادا کرتے، اگر کوئی ناواقف شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اس حالت کو دیکھتا تو کہتا کہ ان پر جنون طاری ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ کیفیت جہنم کے خوف کی وجہ سے اس وقت ہوتی کہ جب آپ یہ آیت:
’’ وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا‘‘ (الفرقان:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔
یا اس جیسی کوئی اور آیت تلاوت فرماتے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ، ۶ / ۲۶۴، الحدیث: ۳۵۸۲۶، الجزء الثانی عشر)
(5)…حضرت عبداللہ رومی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان ہوں اور مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے کس کی طرف جانے کا مجھے حکم دیا جائے گا تو میں اس بات کو اختیار کروں گا کہ میں یہ معلوم ہونے سے پہلے ہی راکھ ہو جاؤں کہ میں کہاں جاؤں گا۔( الزہد لابن حنبل، زہد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ص۱۵۵، رقم: ۶۸۶)
(6)…ایک انصاری نوجوان کے دل میں جہنم کا خوف پیدا ہوا تواس کی وجہ سے وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے، جب نبی ٔاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس سینے سے چمٹ گئے ، اس کے بعد ایک چیخ ماری اور ان کی روح پرواز کر گئی، غمگسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کے کفن دفن کی تیاری کرو، جہنم کے خوف نے اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ (الزہد لابن حنبل، زہد عبید بن عمیر، ص۳۹۴، رقم: ۲۳۴۹)
(7)…حضرت ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(مشہور تابعی بزرگ) حضرت طاؤس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (کا جہنم کے خوف کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آپ) سونے کے لئے بستر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے ، پھر ایسے تڑپنے لگتے جیسے دانہ ہنڈیا میں اچھلتا ہے، پھر اپنے بستر کی گدی بنا دیتے ، پھر اسے بھی لپیٹ دیتے اور قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاتے یہاں تک کے صبح ہو جاتی اور فرماتے ’’جہنم کی یاد نے عبادت گزاروں پر نیند حرام کر دی ہے۔ (التخویف من النار، الباب الثانی فی الخوف من النار۔۔۔ الخ، فصل من الخائفین من منعہ خوف جہنم من النوم، ص۳۷)
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(54)
ترجمہ
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانپ دیتا ہے کہ( ایک) دوسرے کے پیچھے جلد جلد چلا آرہا ہے اور اس نے سورج اور چاند اور ستاروں کو بنایا اس حال میں کہ سب اس کے حکم کے پابند ہیں ۔ سن لو! پیدا کرنا اور تمام کاموں میں تصرف کرنا اسی کے لائق ہے۔ اللہ بڑی برکت والا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔} گزشتہ آیات میں چونکہ قیامت کے احوال کا بڑی تفصیل سے تذکرہ ہوا اور یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت، قدرت، وحدانیت اوروقوعِ قیامت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و وحدانیت کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور چھ دن میں پیدا کیا جیسا کہ اِس آیت میں اور دیگر آیات میں فرمایا گیا۔ اگرآسمان و زمین ایک لمحے میں پیداہوتے تو کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے لیکن جب ان کی تخلیق ایک مخصوص مدت اور مخصوص طریقہ کار سے ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کو کسی اور نے وجود بخشا ہے۔ چھ دن میں تخلیق سے کیا مراد ہے ، اس کے متعلق بعض نے فرمایا کہ چھ دن سے مراد چھ ادوار ہیں اور اکثر نے فرمایا کہ دنیوی اعتبار سے جو چھ دن کی مقدار بنتی ہے وہ مراد ہے ۔ بہرحال جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ ہر صورت پر قادر ہے۔
آسمان و زمین کو 6دن میں پیدا کرنے کی حکمت:
اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ ایک لمحہ میں یا اس سے کم میں زمین و آسمان پیدا فرما دیتا لیکن اتنے عرصے میں اُن کی پیدائش فرمانا بہ تقاضائے حکمت ہے اوراس میں بندوں کے لئے تعلیم ہے کہ بندے بھی اپنے کام میں جلدی نہ کیا کریں بلکہ آہستگی سے کریں۔
جلد بازی سے متعلق 2احادیث:
یہاں جلد بازی سے متعلق دو احادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت سہل بن ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ کام میں جلد بازی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۹)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شیخ عبدُ القیس سے فرمایا ’’ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ،بردباری اور جلد بازی نہ کرنا (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث: ۲۰۱۸)۔
{ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: پھر عرش پر جیسا اس کی شان کے لائق ہے اِستِواء فرمایا۔} استواء کا لغوی معنیٰ تو ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے بلند ہونا، کسی چیز کا کسی چیز پر بیٹھنا۔ یہاں آیت میں کیا مراد ہے اس کے بارے میں علماءِ کرام نے بہت مُفَصَّل کلام فرمایا ہے۔ ہم یہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک تصنیف کی روشنی میں ایک خلاصہ بیان کرتے ہیں جس سے اس آیت اور اس طرح کی جتنی بھی آیات ہیں ان کے بارے میں صحیح عقیدہ واضح ہوجائے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اَنْسَب (یعنی زیادہ مناسب) یہی ہے کہ آیاتِ مُتَشابہات سے ظاہراً سمجھ آنے والے معنی کوایک مناسب وملائم معنی کی طرف جو کہ مُحکمات سے مطابق اور محاورات سے موافق ہو پھیر دیا جا ئے تاکہ فتنے اور گمراہی سے نجات پائیں ، یہ مسلک بہت سے متاخرین علما ء کا ہے کہ عوام کی حالت کے پیشِ نظر اسے اختیار کیا ہے، اسے’’ مسلکِ تا ویل‘‘ کہتے ہیں ، یہ علماء آیت’ ’ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ‘‘کی تاویل کئی طرح سے فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس وواضح ہیں :
اول : استواء بمعنی’’ قہر وغلبہ ‘‘ہے، یہ معنی زبانِ عرب سے ثابت وپیدا (ظاہر) ہے، عرش سب مخلو قات سے اوپر اور اونچا ہے اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا ء فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوقات پرقاہر وغالب ہے۔
دوم : استواء بمعنی ’’عُلُوّ ‘‘ہے،ا ور علو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی صفت ہے ،علوِ مکان صفت نہیں بلکہ علوِ مالکیت و سلطان صفت ہے۔
سوم: استواء بمعنی ’’قصد وارادہ‘‘ ہے، یعنی پھر عرش کی طر ف متوجہ ہوا یعنی اس کی ا ٓفر نیش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی۔
چہا رم: استواء بمعنی ’’فراغ وتمامی کار ‘‘ ہے، یعنی سلسلہ خلق وآفر نیش کو عرش پر ختم فرمایا، اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی، دنیا وآخرت میں جو کچھ بنا یا اور بنائے گا دائرۂ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلو ق کو حاوی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۱۲۴- ۱۲۶ ملخصاً)
مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی29ویں جلد میں موجود سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالۂ مبارکہ ’’ قَوَارِعُ الْقَھَّار عَلَی الْمُجَسَّمَۃِ الْفُجَّار‘‘ (اللہ تعالیٰ کے لئے جسم ثابت کرنے والے فاجروں کارد) کا مطالعہ فرمائیں۔
{ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ:رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانپ دیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ رات اور دن ایک دوسرے کو ڈھانپ لیتے ہیں ، یہاں ڈھانپنے سے مراد زائل کرنا ہے یعنی رات کا اندھیرا دن کی روشنی کو اور پھر آئندہ دن کی روشنی رات کے اندھیرے کو دور کر دیتی ہے نیز اِن رات دن میں سے ہر ایک دوسرے کے پیچھے جلد جلد چلا آرہا ہے کہ دن رات کا ایسا سلسلہ قائم فرمایا جوکبھی ٹوٹتا نہیں اور اس نے سورج ،چاند ، ستاروں کو بنایا اور ایسا بنایا کہ نہ کبھی خراب ہوں اور نہ کبھی ان کو تبدیل کیا جاسکے مگر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے۔ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کے پابند ہیں۔ کائنات میں تخلیق اور تَصَرُّف کا حقیقی اختیار صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے اور اسی کی ذات خیر و برکت والی ہے کہ اسی کا فیضان جاری و ساری ہے اور سب برکتیں ، عنایتیں اور رحمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(55)
ترجمہ
اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آواز سے دعا کرو ۔ بیشک وہ حد سے بڑھنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ:اپنے رب سے دعا کرو۔} دُعا اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ عبادت میں داخل ہے کیونکہ دُعا کرنے والا اپنے آپ کو عاجزو محتاج اور اپنے پروردگار کو حقیقی قادر و حاجت روااعتقاد کرتا ہے اسی لئے حدیث شریف میں وارد ہوا ’’ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۲)
دعامانگنے کے فضائل:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا حکم دیاگیا، اس مناسبت سے ہم یہاں دعا مانگنے کے 3 فضائل بیان کرتے ہیں،چنانچہ
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۱)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا تو ا س کے لئے رحمت کا دروازہ کھول دیاگیا۔ اللہ تعالیٰ سے کئے جانے والے سوالوں میں سے پسندیدہ سوال عافیت کا ہے۔ جو مصیبتیں نازل ہو چکیں اور جو نازل نہیں ہوئیں ان سب میں دعا سے نفع ہوتا ہے، تو اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! دعا کرنے کو(اپنے اوپر) لازم کر لو۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(3)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق کووسیع کر دے ’’رات دن اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ (مسند ابو یعلی، مسند جابر بن عبد اللہ، ۲ / ۲۰۱، الحدیث: ۱۸۰۶)
ایک دعا سے حاصل ہونے والے فوائد:
ایک دعا سے آدمی کو پانچ فائدے حاصل ہوتے ہیں :
(1)…دعا مانگنے والا عبادت گزاروں کے گروہ میں شمار ہوتا ہے کہ دعا فِی نَفْسِہٖ یعنی بذاتِ خود عبادت بلکہ عبادت کا مغز ہے۔
(2)…جو شخص دعا کرتا ہے وہ اپنے عاجز اور محتاج ہونے کا اقرار اور اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور کرم کا اعتراف کرتا ہے۔
(3)…دعا مانگنے سے شریعتِ مطہرہ کے حکم کی بجا آوری ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا اور دعا نہ مانگنے والے پر حدیث میں وعید آئی۔
(4)…سنت کی پیروی ہو گی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے اور اوروں کو بھی تاکید فرماتے۔
(5)…دعا سے آفات و بَلِّیّات دور ہوتی ہیں اور مقصود حاصل ہوتا ہے۔ (فضائل دعا، فصل اول، ص۵۴-۵۵، ملخصاً)
نوٹ: دعا کے فضائل، آداب،قبولیت کے اسباب، قبولیت کے اوقات، قبولیت کے مقامات، قبولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور ممنوع دعاؤں وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والد ماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تصنیف ’’اَحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَا‘‘(دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلقہ احکام پر بے مثال تحقیق) یا راقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
{ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ:بیشک وہ حد سے بڑھنے والے کوپسند نہیں فرماتا۔} یعنی لوگوں کو دعا وغیرہ جن چیزوں کا حکم دیا گیا ان میں حد سے بڑھنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸)
حضرت ابو نَعَامہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مُغَفَّل نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل کا سوال کرتا ہوں۔ تو فرمایا ’’اے بیٹے !اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو کیونکہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ عنقریب میری امت کے کچھ لوگ وضواور دعا میں حد سے بڑھیں گے ۔( ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب الاسراف فی الماء، ۱ / ۶۸، الحدیث: ۹۶)
دعا میں حد سے بڑھنے کی صورتیں :
یاد رہے کہ دعا میں حد سے بڑھنے کی مختلف صورتیں ہیں جیسے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مرتبہ مانگنا یا آسمان پر چڑھنے کی دعا کرنا، اسی طرح جو چیزیں محال یا قریب بہ محال ہیں ان کی دعا کرنا، ہمیشہ کے لئے تندرستی اور عافیت مانگنا، ایسے کام کے بدلنے کی دعا مانگنا جس پر قلم جاری ہو چکا مثلاً لمبا آدمی کہے میرا قد کم ہو جائے یا چھوٹی آنکھوں وا لاکہے کہ میری آنکھیں بڑی ہو جائیں۔ اسی طرح گناہ کی دعا مانگنا، رشتہ داروں سے تعلقات ٹوٹ جانے کی دعا کرنا، اللہ تعالیٰ سے حقیر چیز مانگنا، لَغْو اور بے فائدہ دعا مانگنا، رنج و مصیبت سے گھبرا کر اپنے مرنے کی دعا کرنا، صحیح شرعی غرض کے بغیر کسی کی موت یا بربادی کی دعا مانگنا، کسی مسلمان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہونے یا اسے جہنم میں داخل کئے جانے کی دعا مانگنا، سب مسلمانوں کے سب گناہ بخشے جانے کی دعا مانگنا اورکافر کی مغفرت کی دعا کرنا وغیرہ۔
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)
ترجمہ
اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو اوراللہ سے دعا کرو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ:اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔} یعنی اے لوگو! انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تشریف لانے، حق کی دعوت فرمانے، احکام بیان کرنے اور عدل قائم فرمانے کے بعد تم کفر و شرک ، گناہ اور ظلم و ستم کرکے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔
{ وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا:اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے۔} اس میں دعامانگنے کا ایک ادب بیان فرمایا گیا ہے کہ جب بھی دعا مانگو تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے ہوئے دعا کرو۔
خوف اور امید کی حالت میں دعا مانگنی چاہئے:
اس سے معلو م ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جلد قبول ہو گی۔ اسی مفہوم پر مشتمل ایک حدیث بخاری شریف میں ہے چنانچہ حضرت براء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ جب تم سونے لگو تو نماز جیسا وضو کر لیا کرو، پھر دائیں کروٹ لیٹ کر کہو’’اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْہِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَہْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَاَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اللہُمَّ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ‘‘ ترجمہ:اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف کر دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور تجھ سے رغبت اور خوف رکھتے ہوئے اپنی پیٹھ جھکا دی، تیرے سوا کوئی جائے پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔اے اللہ ! میں تیری کتاب پر ایمان لایاجو تو نے نازل فرمائی اور تیرے نبی پر ایمان لایا جنہیں تو نے بھیجا۔‘‘ (اگررات کو سوتے وقت یہ پڑھو گے تو) اگر اس رات میں مر گئے تو تم فطرت پر ہو گے۔( بخاری، کتاب الوضو ء، باب فضل من بات علی الوضو ء، ۱ / ۱۰۴، الحدیث: ۲۴۷)
وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِؕ-كَذٰلِكَ نُخْرِ جُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(57)
ترجمہ
اور وہی ہے جو ہواؤں کو اس حال میں بھیجتا ہے کہ اس کی رحمت کے آگے آگے خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی مردہ شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس مردہ شہر میں پانی اتارتے ہیں تو اس پانی کے ذریعے ہر طرح کے پھل نکالتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مُردوں کو نکالیں گے۔ (یہ بیان اس لئے ہے) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ هُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ:اور وہی ہے کہ ہوائیں بھیجتا ہے۔}اس سے دو آیات پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے چند دلائل بیان فرمائے گے جیسے آسمان و زمین کی پیدائش، دن اور رات کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا، سورج ،چاند اور ستاروں کا مُسَخَّر ہونا، اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ، قدرت ،وحدانیت اور وقوعِ قیامت پر مزید دلائل بیان فرمائے جا رہے ہیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کیسی عظیم قدرت ہے کہ وہ پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے جو اس کی رحمت یعنی بارش آنے کی خوشخبری دے رہی ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں سمندر سے بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بادل کو کسی مردہ شہر کی طرف چلاتا ہے جس کی ز مین خشک پڑی ہوتی ہے اورسبزے کا نام و نشان نہیں ہوتا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ اس مردہ زمین پر پانی اتارتا ہے اوراس پانی کے ذریعے وہاں سبزہ پیدا فرمادیتا ہے، وہاں پھل پھول اگتے ہیں ، وہاں غلہ اناج پیدا ہوتا ہے ۔ وہ مردہ زمین بھی زندہ ہوجاتی ہے اور اس کی پیداوار کے ذریعے لوگوں کی زندگی کا سامان بھی مہیا ہوجاتا ہے ۔ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ہے اور یہی دلیلِ قدرت اس بات کو ماننے پر بھی مجبور کردیتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو ویرانی کے بعد زندگی عطا فرماتا ہے اور اس کو سرسبز و شاداب فرماتا ہے اور اس میں کھیتی، درخت، پھل پھول پیدا کرتا ہے ایسے ہی مُردوں کو قبروں سے زندہ کرکے اُٹھائے گا، کیونکہ جو خشک لکڑی سے ترو تازہ پھل پیدا کرنے پر قادر ہے اُس سے مُردوں کا زندہ کرنا کیا بعید ہے۔ قدرت کی یہ نشانی دیکھ لینے کے بعد عقلمند، سلیم ُالحَواس کو مُردوں کے زندہ کئے جانے میں کچھ تردد باقی نہیں رہتا۔
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُ جُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖۚ-وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُ جُ اِلَّا نَكِدًاؕ-كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ(58)
ترجمہ
اور جو اچھی زمین ہوتی ہے اس کا سبزہ تواپنے رب کے حکم سے نکل آتا ہے اور جو خراب ہو اس کا سبزہ بڑی مشکل سے تھوڑا سا نکلتا ہے ۔ہم اسی طرح شکر کرنے والے لوگوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ:اور جو اچھی زمین ہوتی ہے ۔}یہ مومن کی مثال ہے کہ جس طرح عمدہ زمین پانی سے نفع پاتی ہے اور اس میں پھول پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن کے دل پر قرآنی انوار کی بارش ہوتی ہے تو وہ اس سے نفع پاتا ہے، ایمان لاتا ہے، طاعات و عبادات سے پھلتا پھولتا ہے۔یونہی یہ مثال فیضانِ نبوت کی بھی ہوسکتی ہے کہ جب نبوی فیضان عام ہوتا ہے اور نورِ نبوت کی بارش برستی ہے تو مومن کا دل اس سے نفع حاصل کرتاہے اور اسے روحانی زندگی مل جاتی ہے اور اُس کے رگ و پے میں نورِ ایمان سرایت کرجاتا ہے اور اعمالِ صالحہ کے پھل پھول کھلنے لگتے ہیں۔
{ وَ الَّذِیْ خَبُثَ:اور جو خراب ہو۔}یہ کافر کی مثال ہے کہ جیسے خراب زمین بارش سے نفع نہیں پاتی ایسے ہی کافر قرآنِ پاک سے مُنْتَفِع نہیں ہوتا اور یونہی جب فیضانِ نبوت کی بارش ہوتی ہے تو کافر کا خبیث دل اُس فیضان سے اسی طرح محروم رہتا ہے جیسے بہترین بارش سے کانٹے دار اور جھاڑ جھنکار والی زمین محروم رہتی ہے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(59)قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(60)
ترجمہ
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو ۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔بے شک میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں ۔اس کی قوم کے سردار بولے :بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا:بیشک ہم نے نوح کو بھیجا۔} اس سے ماقبل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور وحدانیت کے دلائل اور اپنی عجیب و غریب صنعتوں سے متعلق بیان فرمایا، ان سے اللہ تعالیٰ کا واحد اور رب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ پھر مرنے کے بعد اُٹھنے اور زندہ ہونے کی صحت پر مضبوط ترین دلیل قائم فرمائی ان سب کے بعد بڑی تفصیل سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے کہ وہ بھی اپنی امتوں کوتوحید ورسالت اورعقیدۂ قیامت کی طرف دعوت دیتے رہے، اِس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دعوت کوئی نئی نہیں بلکہ ہمیشہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہی چیزوں کی دعوت دیتے آئے ہیں پھر اس کے ساتھ اس بات کو بھی بار بار دہرایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کے انکار کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ پہلی امتوں کے احوال کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ ان میں سے جنہوں نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور ان کے بیان کردہ عقیدہ ِتوحیدورسالت اور حشر و نشر کا انکار کیا وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات میں سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا کیونکہ کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول یہی تھے۔
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اسم گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو عبادتِ الٰہی کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم ! ایمان قبول کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے ، وہی تمہارا معبود ہے اور جس چیز کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں اس میں اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے تومجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روز ِطوفان کے عذاب کا خوف ہے۔
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی زبردست دلیل:
انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان تذکروں میں سید ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمّی تھے، پھر آپ کا ان واقعات کو تفصیلاًبیان فرمانا بالخصوص ایسے ملک میں جہاں اہلِ کتاب کے علماء بکثرت موجود تھے اور سرگرم مخالف بھی تھے ،ذراسی بات پاتے تو بہت شور مچاتے، وہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ان واقعات کو بیان فرمانا اور اہلِ کتاب کا ساکت و حیران رہ جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ نبی ٔ برحق ہیں اور پروردِگار عالم عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر علوم کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(61)اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(62)اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(63)
ترجمہ
کنزالعرفان
فرمایا: اے میری قوم !مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں ۔میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔ اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم ڈرواور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ(64)
ترجمہ
تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے سب کو نجات دی اور ہماری آیتیں جھٹلانے والوں کو غرق کر دیا بیشک وہ اندھے لوگ تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَكَذَّبُوْهُ:تو انہوں نے نوح کو جھٹلایا۔}جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو جھٹلایا، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والی وحی جو آپ ان تک پہنچادیتے تھے اسے قبول نہ کیا اورایک عرصے تک عذابِ الٰہی سے خوف دلانے اور راہِ راست پر لانے کی کوششیں کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ جو مومنین حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سا تھ کشتی میں سوار تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی سب کو غرق کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنوں پر اس وقت تک دنیاوی عذاب نہیں آتے جب تک وہ پیغمبر کی نافرمانی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ‘‘ (بنی اسرائیل:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں سوار تھیں مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کے سوا کسی کی نسل نہ چلی اس لئے آپ کو ’’آدمِ ثانی‘‘ کہتے ہیں۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’’بیشک وہ (یعنی کفار) اندھے لوگ تھے۔ ‘‘یعنی ان کے پاس نبوت کی شان دیکھنے والی آنکھ نہ تھی، ان کے دل اندھے تھے اگرچہ آنکھیں کھلی تھیں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اُن کے دِل اندھے تھے، معرفت کا نور ان کی قسمت میں نہ تھا ۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۱۰۸)
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(65)
ترجمہ
اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ۔ ( ہود نے) فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِلٰى عَادٍ:اور قومِ عاد کی طرف۔}قوم عاد دو ہیں : عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔ (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۵)
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ:
اس آیت اور اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔کفار کا حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پر ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(66)قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(67)اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(68)
ترجمہ
اس کی قوم کے کافر سردار بولے ،بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں ۔۔(ہود نے) فرمایا: اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں ۔میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ :میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں۔}کافروں نے گستاخی کرکے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اورا س کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں۔تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے سمندر کا ایک قطرہ کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے علم و عقل حاصل کرتا ہے اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا محال ہے۔
سورہِ اعراف کی آیت نمبر 67اور 68 سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے،
(1)… جاہل اور بیوقوف لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر بُردباری کا مظاہرہ کرنا سنت ِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے ۔
(2)… اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے ۔
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(69)
ترجمہ
اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد کروتا کہ تم فلاح پاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةً:اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی۔} اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی تھی ،چنانچہ شداد ابنِ عاد جیسا بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا۔ یہ بہت لمبے قد والے اور بڑے بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔
قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(70)قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(71)
ترجمہ
قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں ۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ:ضرور تم پر لازم ہو گیا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ(72)
ترجمہ
تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاَنْجَیْنٰهُ:تو ہم نے اسے نجات دی۔} اس آیت میں قومِ عاد پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:
اس کامختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’ ہَبائ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیتُ الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتے تھے، اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیتُ اللہ کو روانہ کیا اس وفد میں تین آدمی تھے جن میں مرثد بن سعد بھی تھے یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قومِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔ اُس نے اُن لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا ۔ معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے جو وہاں گرفتار ِبلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے اس لئے اُس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں۔ اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں ، اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ، تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کروتو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ اُن لوگوں نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔ اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قِیْل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اُس نے اِس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعدوہ ایمانداروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(73)وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(74)قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(75)قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(76)فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(77)فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(78)فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰـكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(79)
ترجمہ
اور قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا :اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانی آگئی۔ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی یہ اونٹنی ہے۔ توتم اسے چھوڑے رکھو تاکہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگاؤ ورنہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ عاد کے بعد جانشین بنایا اور اس نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا ، تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے تھے تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اس کی قوم کے متکبر سردارکمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا رسول ہے؟ انہوں نے کہا: بیشک ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے۔متکبر بولے : بیشک ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو۔پس (کافروں نے) اونٹنی کی ٹانگوں کی رگوں کو کاٹ دیا اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ تو صالح نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ:اور قومِ ثمود کی طرف۔} ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْرمیں رہتے تھے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابن ثمود ہے۔ قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ہیں۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۱۸۹-۱۹۰)
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ:
یہاں سے آگے چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم ثمود کواللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود! تم اس وقت کویاد کرو، جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہا را حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کے عذاب آتے ہیں۔قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں۔ سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم تواُس کا انکار کرتے ہیں۔حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی، جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔ اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تھیں ، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا۔ ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے۔ پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت ان کی لاشوں پر گزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کر کے بولے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
نوٹ:سورۂ ہود آیت نمبر61تا 68میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔
{ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ:اللہ کی یہ اونٹنی ہے۔} اس اونٹنی کی پیدائش سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کئی معجزات کا ظہور ہوا، ایک یہ کہ وہ اونٹنی نہ کسی پیٹھ میں رہی، نہ کسی پیٹ میں ،نہ کسی نر سے پیدا ہوئی نہ مادہ سے، نہ حمل میں رہی نہ اُس کی خلقت تدریجاً کمال کو پہنچی بلکہ طریقہِ عادیہ کے خلاف وہ پہاڑ کے ایک پتھر سے دفعتہ پیدا ہوئی، اس کی یہ پیدائش معجزہ ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دن وہ پانی پیتی اوردوسرے دن پورا قبیلہ ثمود ،یہ بھی معجزہ ہے کہ ایک اونٹنی ایک قبیلے کے برابرپی جائے، تیسرا یہ کہ اس کے پینے کے دن اس کا دودھ دوہا جاتا تھا اور وہ اتنا ہوتا تھا کہ تمام قبیلہ کو کافی ہو اور پانی کے قائم مقام ہوجائے چوتھا یہ کہ تمام وحوش و حیوانات اس کی باری کے روز پانی پینے سے باز رہتے تھے۔ اتنے معجزات حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقِ نبوت کی زبردست دلیلیں تھیں۔
{ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا:تم نرم زمین میں محلات بناتے تھے۔} قومِ ثمود نے گرمیوں کے لئے بستیوں میں محل بنائے ہوئے تھے اور سردی کے موسم کے لئے پہاڑوں میں گرم مکانات تعمیر کئے تھے جیسا کہ آج کل بھی دولت مند لوگ کرتے ہیں ٹھنڈے اور گرم علاقوں میں جدا جدا مکانات بناتے ہیں۔
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(80)
ترجمہ
اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا :کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں کی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لُوْطًا:اور لوط کو بھیجا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ قومِ لوط کی سب سے بڑی خباثت لواطت یعنی لڑکوں سے بدفعلی کرنا تھا اسی پر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ’’ کیا تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو سارے جہان میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی ، تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پوری کرنے کیلئے مردوں کے پاس جاتے ہو ، یقینا تم حد سے گزر چکے ہو۔
لواطت کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اغلام بازی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ایجاد ہے اسی لئے اسے’’ لواطت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکوں سے بدفعلی حرام قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث اور بزرگانِ دین کے آثار میں لواطت کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
(1)…حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’ کہ مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قوم لوط، ۳ / ۲۳۰، الحدیث: ۲۵۶۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا: ’’ لَعَنَ اللہُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۳۲۲، الحدیث: ۷۳۳۷)
(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کو قومِ لوط والا عمل کرتے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کردو۔ (ابوداود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۴۴۶۲)
(4)… حضرت خزیمہ بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ حق بات ارشاد فرمانے سے حیا نہیں فرماتا ’’ تم عورتوں کے پاخانہ کے مقام میں وطی نہ کرو۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہن، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۹۲۴)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے شخص پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا جو اپنی عورت کے پیچھے کے مقام میں آئے یعنی وطی کرے۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب النہی عن اتیان النساء فی ادبارہن، ۲ / ۴۴۹، الحدیث: ۱۹۲۳)
(6)…حضرت ابو سعیدصعلوکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عنقریب اس امت میں ایسی جماعت پیدا ہو گی جن کو لوطی کہا جائے گا اور ا ن کی تین قسمیں ہیں :ایک وہ جو محض دیکھتے ہیں ، دوسرے وہ جو ہاتھ ملاتے ہیں اور تیسرے وہ جو اس خبیث عمل کا ارتکاب کرتے ہیں۔ (کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۳-۶۴)
(7)… امیرُ المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو شخص خود کو لواطت کے لئے پیش کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے عورتوں کی شہوت میں مبتلا کردے گا اور اسے قیامت کے دن تک قبر میں مردود شیطان کی صورت میں رکھے گا۔ (کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، فصل فی عقوبۃ من امکن من نفسہ طائعاً، ص۶۶)
(8)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ’’بد فعلی کا مرتکب اگر توبہ کئے بغیر مرجائے تو قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔( کتابُ الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۳)
(9)… حضرت سیدنا حسن بن ذکوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ ہے: ’’ خوبصورت لڑکوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ ان کی صورتیں کنواری عورتوں کی صورتوں جیسی ہوتی ہیں نیز وہ عورتوں سے زیادہ فتنہ میں ڈالنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۸، روایت نمبر: ۵۳۹۷)
(10)…ایک تابعی بزرگ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں نوجوان سالِک (یعنی عابد و زاہد نوجوان )کے ساتھ بے ریش لڑکے کے بیٹھنے کو سات درندوں سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۸، روایت نمبر: ۵۳۹۶)
(11)…حضرت سیدنا سفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (جن کی معرفت، علم، زُہدوتقویٰ اور نیکیوں میں پیش قدمی مشہورو معروف ہے) ایک حمام میں داخل ہوئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک خوبصورت لڑکا آگیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اسے مجھ سے دور کرو! اسے مجھ سے دور کرو! کیونکہ میں ہر عورت کے ساتھ ایک شیطان دیکھتا ہوں جبکہ ہر لڑکے کے ساتھ دس (10) سے زیادہ شیطان دیکھتا ہوں۔ (شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۹، روایت نمبر: ۵۴۰۴)
(12)…حضرت امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک خوبصورت بچہ بھی تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا ’’تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے عرض کی:’’یہ میرا بھانجا ہے۔ تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا: ’’آئندہ اسے لے کر میرے پاس نہ آنا اور اسے ساتھ لے کر راستے میں نہ چلا کر تاکہ اسے اور تمہیں نہ جاننے والے بدگمانی نہ کریں۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشرۃ، اللواط، ص۶۵)
لواطت کی عقلی اور طبی خباثتیں :
لواطت کا عمل عقلی اور طبی دونوں اعتبار سے بھی انتہائی خبیث ہے، عقلی اعتبار سے ا س کی ایک خباثت یہ ہے کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فطری اعتبار سے مرد کو عمل کرنے والا اور عورت کو خاص مقام میں عمل قبول کرنے والا بنایا ہے اور لواطت انسان تو انسان جانوروں کی بھی فطرت کے خلاف ہے کہ جانور بھی شہوت پوری کرنے کے لئے نر کی طرف یا مادہ کے خاص مقام کے علاوہ کی طرف نہیں بڑھتا، اس لئے لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔
دوسری خباثت یہ ہے کہ ا س کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رک جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی میں اضافے کا یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں شہوت رکھی اور اس شہوت کی تسکین کے لئے جائز عورت کو ذریعہ بنایا، جب یہ اپنی شہوت پوری کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عورت حاملہ ہوجاتی اور کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک انسان کی پیدائش ہوتی ہے اور اس طرح انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر شہوت کو اس کے اصل ذریعے کی بجائے کسی اور ذریعے سے تسکین دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نسلِ انسانی میں اضافہ رک جائے گا اور اس صورت میں انتہائی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے وہ ممالک جن میں لواطت کے عمل کو رواج دیا گیا ہے آج ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے ہاں بلوا کر اور انہیں آسائشیں دے کر اپنے ملک کے لوگوں کی تعداد بڑھانے پر مجبور ہیں۔
تیسری خباثت یہ ہے کہ ا س عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ مرد کا عورت سے اپنی شہوت کو پورا کرنا جانوروں کے شہوانی عمل سے مشابہت رکھتا ہے لیکن مرد و عورت کے اس عمل کو صرف اس لئے اچھا قرار دیا گیا ہے کہ وہ اولاد کے حصول کا سبب ہے اور جب کسی ایسے طریقے سے شہوت کو پورا کیا جائے جس میں اولاد حاصل ہونا ممکن نہ ہو تو یہ انسانیت نہ رہی بلکہ نری حیوانیت بن گئی اور کسی کا مرتبہِ انسانی سے گر کر حیوانوں میں شامل ہونا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔
چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت و رسوائی اور آپس میں عداوت اور نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے جبکہ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنا عزت کاذریعہ اور ان میں الفت و محبت بڑھنے کا سبب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ‘‘ (روم:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔
اور عقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرور خبیث ہے جو ذلت و رسوائی اور نفرت و عداوت پیدا ہونے کا سبب بنے۔
طبی طور پر ا س کی خباثت کے لئے یہی کافی ہے کہ انسان کی قوتِ مُدافعت ختم کر کے اسے انتہائی کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینے والا اور ابھی تک لا علاج مرض پھیلنے کا بہت بڑا سبب لواطت ہے اور جن ممالک میں لواطت کو قانونی شکل دے کر عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
اور ا س کی دوسری طبی خباثت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم میں منی کو جذب کرنے کی زبردست قوت رکھی ہے اور جب مرد اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے تو ا س کے جسم کا جو حصہ عورت کے جسم میں جاتا ہے تو رحم اس سے منی کے تمام قطرات جذب کر لیتا ہے جبکہ عورت اور مرد کے پچھلے مقام میں منی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھی گئی اور جب مرد لواطت کا عمل کرتا ہے تو اِس کے بعد لواطت کے عمل کے لئے استعمال کئے گئے جسم کے حصے میں منی کے کچھ قطرات رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات ان میں تَعَفُّن پیدا ہو جاتا ہے اور جسم کے اس حصے میں سوزاک وغیرہ مہلک قسم کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں اور اس شخص کا جینا دشوار ہوجاتا ہے۔
اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(81)
ترجمہ
بیشک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم لوگ حد سے گزرے ہوئے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً:بیشک تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو۔} یعنی ان کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو اور وہ عورتیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے انہیں چھوڑتے ہو۔ انسان کو شہوت اس لئے دی گئی کہ نسلِ انسانی باقی رہے اور دنیا کی آبادی ہو اور عورتوں کو شہوت کا محل اور نسل چلانے کا ذریعہ بنایا کہ ان سے معروف طریقے کے مطابق اور جیسے شریعت نے اجازت دی اس طرح اولاد حاصل کی جائے، جب آدمیوں نے عورتوں کو چھوڑ کر ان کا کام مردوں سے لینا چاہا تو وہ حد سے گزر گئے اور انہوں نے اس قوت کے مقصدِ صحیح کو فوت کردیا کیونکہ مرد کو نہ حمل ہوتا ہے اورنہ وہ بچہ جنتا ہے تو اس کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے۔ علمائے تاریخ کا بیان ہے کہ قومِ لُوط کی بستیاں نہایت سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں غلّے اور پھل بکثرت پیدا ہوتے تھے، زمین کا دوسرا خطہ اس کی مثل نہ تھا۔ اس لئے جا بجا سے لوگ یہاں آتے تھے اور انہیں پریشان کرتے تھے، ایسے وقت میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ اگر تم مہمانوں کی اس کثرت سے نجات چاہتے ہو تو جب وہ لوگ آئیں تو ان کے ساتھ بدفعلی کرو اس طرح یہ فعلِ بدانہوں نے شیطان سے سیکھا اور ان میں رائج ہوا
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(82)
ترجمہ
اور ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک بنتے پھرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سمجھانے پر ان کی قوم کے لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی پیروی کرنے والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو بڑی پاکیزگی چاہتے ہیں۔ یعنی گویا پاکیزگی ان کیلئے باعث ِ اِستہزاء چیز بن گئی اور اس قوم کا ذوق اتنا خراب ہوگیا تھا کہ انہوں نے اس صفت ِمدح کو عیب قرار دیا۔
اچھے عمل کو برا اور برے عمل کو اچھا سمجھنے کی اوندھی سوچ:
اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے دن برے آتے ہیں تو اسے اوندھی سوجھتی ہے کہ اسے اچھی چیزیں بری لگنا اور بری چیزیں اچھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل کے حالات دیکھے جائیں تو ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ وبا عام نظر آتی ہے اور یہ لوگ جب کسی کو دین کے احکام پر عمل کرتا دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور ا س خرابی کے باعث داڑھی رکھنے کو برا اور نہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ داڑھی والے کو حقارت کی نظر سے اور داڑھی منڈے کو پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ داڑھی والے کے ساتھ رشتہ کرنے کو باعث عار اور بغیر داڑھی والے سے رشتہ کرنے کو قابلِ فخر تصور کرتے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اور سنتوں پر عمل کرنے والے انہیں اپنی نگاہوں میں عجیب نظر آتے اور گانے باجوں ، فلموں ڈراموں میں مشغول لوگ زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ عورتوں کا پردہ کرنا فرسودہ عمل اور بے پردہ ہونا جدید دور کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ صرف اپنی بیوی کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کو تنگ ذہنی اور غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات کو روشن خیالی کہتے ہیں۔ اپنی عورتوں کے غیر مردوں سے دور رہنے کو اپنی بے عزتی جبکہ ان کا غیر مردوں سے ملنے اور ان سے تعلقات قائم کرنے کو اپنی عزت تصور کرتے ہیں۔ حرام کمائی کو اپنا حق ا ور ضرورت جبکہ حلال کمائی کواپنی حق تلفی قرار دیتے ہیں۔ امانت و دیانت داری اور سچائی کو بھولا پن جبکہ خیانت، جھوٹ ،دھوکہ اور فریب کاری کو اپنی چالاکی اور مہارت سمجھتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ تھوڑ اسا غور کریں تو اچھے کام کو برا اور برے کام کو اچھا سمجھنے کی ہزاروں مثالیں سامنے آ جائیں گی ۔اے کاش ! مسلمان اپنے رب تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں اور اپنی روش سے باز آ جائیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاؕ-فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (فاطر:۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا (ہی) سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟) تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے، تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔ بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
کسی جگہ نیک بندوں کاموجود ہونا امن کاذریعہ ہے:
کفار کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے صحابہ کو وہاں سے نکالنے کی بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بستی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے بندوں کا رہنا اس جگہ امن رہنے کا ذریعہ ہے اور ان کا وہاں سے نکل جانا عذاب کا ذریعہ۔ وہ لوگ خود انہیں نکال کر اپنے عذاب کا سامان کرنا چاہتے تھے۔
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(83)
ترجمہ
تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے ۔وہ باقی رہنے والوں میں سے تھی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ:تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، آپ کے گھر والوں میں سے آپ کی دو بیٹیوں اور سارے مسلمانوں کو عذاب سے بچا لیا، البتہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی جس کا نام واہلہ تھا وہ آپ پر ایمان نہ لائی بلکہ کافرہ ہی رہی ،اپنی قوم سے محبت رکھتی اور ان کے لئے جاسوسی کرتی تھی ،یہ عذاب میں مبتلا ہوئی۔
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(84)
ترجمہ
اور ہم نے ان پر بارش برسائی تو دیکھو ،مجرموں کاکیسا انجام ہوا؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا:اور ہم نے ان پر بارش برسائی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر اس طرح عذاب آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھروں کی خوفناک بارش برسائی کہ جو گندھک اور آگ سے مُرَکَّب تھے ۔ایک قول یہ ہے کہ بستی میں رہنے والے جو وہاں مقیم تھے وہ تو زمین میں دھنسادیئے گئے اور جو سفر میں تھے وہ ا س بارش سے ہلاک کئے گئے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اور انہوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کر اس خطہ کو اکھاڑ لیا اور آسمان کے قریب پہنچ کر اس کو اوندھا کرکے گرا دیا اور اس کے بعد پتھروں کی بارش کی گئی۔
آیت’’ وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… یہ بدکاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے کہ ا س جرم کی وجہ سے قومِ لوط پر ایسا عذاب آیا جو دوسری عذاب پانے والی قوموں پر نہ آیا۔
(2)… مجرموں کے تاریخی حالات پڑھنا، ان میں غور کرنا بھی عبادت ہے تا کہ اپنے دل میں گناہوں سے نفرت پیدا ہو، اسی طرح محبوب قوموں کے حالات میں غور کرنا محبوب ہے تا کہ اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)
ترجمہ
اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔} مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۱۱۸، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۶۹۱،ملتقتاً)
{ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ:بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا ’’یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۴ / ۳۳۹)
{ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ: تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔
کفار بھی بعض احکام کے مُکَلَّف ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام کے کفار بھی مکلف ہیں کیونکہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی کافر قوم کو ناپ تول درست کرنے کا حکم دیا اور نہ ماننے پر عذابِ الٰہی آگیا، بلکہ قیامت میں کافروں کو نمازچھوڑنے پر بھی عذاب ہو گا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ جب جنتی کافروں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی تو وہ کہیں کے:
’’ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘(مدثر۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔
ناپ تول پورا نہ کرنے والوں کے لئے وعید:
حضرت نافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایک بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کا پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔ (بغوی، المطففین، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۲۸)
آگ کے دوپہاڑ:
حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’میں ایک مرتبہ اپنے پڑوسی کے پاس گیا تو اس پر موت کے آثار نمایا ں تھے اور وہ کہہ رہاتھا: ’’آگ کے دو پہاڑ، آگ کے دو پہاڑ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، میں نے اس سے پوچھا: کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس نے بتایا: اے ابو یحییٰ! میرے پاس دو پیمانے تھے، ایک سے دیتا اور دوسرے سے لیتا تھا۔ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں اٹھا اور ایک پیمانے کو دوسرے پر ( توڑنے کی خاطر) مارنے لگ گیا۔ تواس نے کہا: ’’اے ابو یحییٰ! جب بھی آپ ایک کو دوسرے پر مارتے ہیں معاملہ زیادہ شدید اور سخت ہو جاتا ہے۔ پس وہ اسی مرض میں مر گیا۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی فی الکبائر الظاہرۃ، الکبیرۃ الثالثۃ بعد المائتین، ۱ / ۵۳۳)
وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86)
ترجمہ
اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو ۔} یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔
{ وَ اذْكُرُوْا:اور یاد کرو۔}تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔
{ وَ انْظُرُوْا:اور دیکھو۔} یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔
وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ(87)
ترجمہ
اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ (اس پر) ایمان نہ لائے تو تم انتظار کرو حتّٰی کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اوروہ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَﭦ(88)
ترجمہ
اس کی قوم کے متکبر سردار کہنے لگے: اے شعیب ! ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ۔ فرمایا: کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ:اس کی قوم کے مُتکبر سردار کہنے لگے۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اپنی قوم کو کیے گئے وعظ و نصیحت کا بیان ہوا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وعظ و نصیحت سن کر آپ کی قوم کے وہ سردار جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے اور پیروی کرنے سے تکبر کیا تھا ،ان کے جواب کا ذکر اس آیت میں فرمایا گیا ہے، چنانچہ فرمایا گیا کہ’’ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار اُن کی نصیحتیں سن کر کہنے لگے : اے شعیب ! ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ ایمان والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یعنی اصل مقصود تو آپ کونکالنا ہے اور آپ کی وجہ سے آپ کے مومن ساتھیوں کو بھی نکال دیں گے۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۲۷۲)
قوم کی ہلاکت کا باعث ا س کے رہنما:
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سردار وں کی بے ادبی ان کی ہلاکت کا سبب بنی، اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے سردار قوم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں اگر یہ درست ہو جائیں تو قوم کواعلیٰ درجے پر پہنچا دیتے ہیں اور بگڑ جائیں تو ذلت کی گہری کھائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار کی درستی نے جہاں مسلم عوام کی سیرت و کردار کو بدل کر رکھ دیا وہیں غیر مسلم بھی اس سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بہت سے دامنِ اسلام سے وابستہ ہو گئے جبکہ بہت سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز آ گئے اسی طرح جب مسلم حکمرانوں اور مسلم رہنماؤں کے اعمال، اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ عیش و طَرب اور لَہو ولَعب کی زندگی گزارنے میں مشغول ہو گئے تو مسلم عوام کی عملی اور اخلاقی حالت ا س قدر گر گئی کہ ہنو د ویہود تک ان کا حال دیکھ کر شرما گئے اوراسی وجہ سے کفار کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف اور دبدبہ جاتا رہا اور وہ ایک ایک کر کے مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے اور آج مسلمانوں کا حا ل یہ ہے کہ وہ پچاس سے زائد ممالک میں تقسیم ہیں اور دنیا کے انتہائی قیمتی ترین وسائل کے مالک ہونے کے باوجود کفار کے قبضے میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا:یا تم ہمارے دین میں آجا ؤ۔} اس کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ ’’یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ‘‘ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مَعَاذَاللہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین میں داخل تھے تبھی تو انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو واپس لوٹ آنے کی دعوت دی ،مفسرین نے اس اشکال کے چند جوابات دئیے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے چونکہ پہلے کافر تھے تو جب آپ کی قوم نے آپ کی پیروی کرنے والوں کو مخاطب کیا تو اس خطاب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شامل کر کے آپ پر بھی وہی حکم جاری کر دیا حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو ان کے دین میں کبھی داخل ہی نہ ہوئے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۱۱۹)
(2)…کافر سرداروں نے عوام کو شک و شبہ میں ڈالنے کیلئے اس طرح کلام کیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلے ان کے دین و مذہب پر ہی تھے ۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جو جواب دیا کہ ’’کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں ‘‘ یہ ان کے اس اِشتِباہ کے رد میں تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۳۱۶)
(3)…حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفر و شرک سے تو قطعاً دور و نُفور تھے لیکن ابتداء میں چھپ کر عبادت وغیرہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کادین قوم پر ظاہر نہ تھا جس سے انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے دین پر ہیں۔
قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَاؕ-وَ مَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَاؕ-وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَاؕ-رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(89)
ترجمہ
بیشک (پھر تو) ضرور ہم اللہ پر جھوٹ باندھیں گے اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں جبکہ اللہ نے ہمیں اس سے بچایا ہے اور ہم مسلمانوں میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے ۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ:اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کا جواب سن کر ان سے فرمایا تھا کہ’’کیا ہم تمہارے دین میں آئیں اگرچہ ہم اس سے بیزار ہوں ؟ اس پر انہوں نے کہا :ہاں پھر بھی تم ہمارے دین میں آ جاؤ ، تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے اس باطل دین سے ہمیں بچایا ہوا ہے اور تمہارے باطل دین کی قباحت اور اس کے فساد کا علم دے کر مجھے شروع ہی سے کفر سے دور رکھا اور میرے ساتھیوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی توفیق دے دی ہے تو اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں تو پھر بیشک ضرور ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوں گے اور ہم میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو گمراہ کرناچاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
شیطان انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمراہ نہیں کر سکتا:
یاد رہے کہ گمراہ ہونے سے نبی عَلَیْہِ السَّلَام خارج ہیں کیونکہ وہ قَطعی معصوم ہوتے ہیں اور شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا ۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ‘‘(حجر:۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں۔
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان کہ’’ ہمارا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے آگے سرِ تسلیم خَم کرنا ہے۔
{ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا:ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔} یعنی جو ہو چکا اور جو آئندہ ہو گا سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ اَزل سے ہی جانتا ہے لہٰذا سعادت مند وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں سعید ہے اور بد بخت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں شَقی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)
یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہے جن میں فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم اور اس کی قدرت گھیرے ہوئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ جسم و مکان سے اور اس اعتبار سے گھیرنے اور گھر نے سے پاک ہے۔ اس کی مزید تفصیل سورۂ نساء کی آیت نمبر126کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
{ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا:ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔} یعنی ہم نے ایمان پر ثابت قدم رہنے اور شریر لوگوں سے خلاصی پانے میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا ۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۰۳)
توکل کاحقیقی مفہوم:
توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب پر اعتماد کرتے ہوئے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، توکل ترک ِاسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کرتے ہوئے مُسَبِّبُ الاسباب پر اعتماد کرنے کا نام ہے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ کر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵)
{ رَبَّنَا:اے ہمارے رب۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یوں دعا فرمائی ’’ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ زجاج نے کہا کہ اس کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے امر کو ظاہر فرما دے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے ان کا باطل پر ہونا اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے مُتَّبِعِین کا حق پر ہونا ظاہر ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۱۲۰)
وَ قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَىٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(90)
ترجمہ
اور اس کی قوم کے کافر سردار بولے کہ اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور نقصان میں رہو گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قَالَ الْمَلَاُ:اور سردار بولے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں نے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کی دین میں مضبوطی دیکھی تو انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اور لوگ بھی ان پر ایمان نہ لے آئیں چنانچہ جو لوگ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے انہیں معاشی بدحالی سے ڈراتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ اگر تم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لاتے ہوئے ان کے دین کی پیروی کی اور اپناآبائی دین و مذہب اور کم تولنا ،کم ناپنا وغیرہ جو کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دیا تو سن لو! تم ضرور نقصان میں رہو گے کیونکہ اس طرح تمہیں تجارتی لین دین میں پورا تولنا پڑے گا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۶)
احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی سمجھنے والے غور کریں :
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں کی یہ روش ان کی بیمار ذہنیت کا پتا دیتی ہے کہ احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی جبکہ راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دینِ حق پر ایمان لانے میں انہیں مُہِیب خطرات نظر آنے لگے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دینِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں ، اسلام کے اصول و قوانین کو اہمیت نہ دینے والوں ، شریعت کے قوانین میں تبدیلی کی رٹ لگانے والوں ، زکوٰۃ کو ٹیکس تصور کرنے والوں ، رشوت کو اپنا حق سمجھنے والوں ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں ، پردے کو عورت کی آزادی کے خلاف قرار دینے والوں ، اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت شمار کرنے والوں کو چاہئے کہ اہلِ مدین کے حالات اور ان کے انجام پر غور کریں۔ ہمارے ہاں بھی کتنے لوگ یہ نعرہ لگانے والے ہیں کہ’’ اگر سودی نظام کو چھوڑ دیا تو ہم نقصان میں پڑجائیں گے اور ہماری ترقی رک جائے گی۔ اس جملے میں اور اہلِ مدین کے جملے میں کتنا فرق ہے اس پر غورفرمالیں۔
فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(91)
ترجمہ
تو انہیں شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ:تو انہیں شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی گمراہی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور ہر طرح سے سمجھانے، عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود بھی یہ لوگ اپنی سر کشی سے باز نہ آئے توان پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوا۔
اہلِ مدین پر آنے والے عذاب کی کیفیت:
اس آیت میں ہے کہ اہلِ مدین کو ’’شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔‘‘ جبکہ سورۂ ہود میں اس طرح ہے :
’’ وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ ‘‘ (ہود:۹۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا۔
تفسیر ابوسعود میں ہے ’’ ممکن ہے کہ زلزلے کی ابتداء اس چیخ سے ہوئی ہو، اس لئے کسی جگہ جیسے سورۂ ہود میں ہلاکت کی نسبت سببِ قریب یعنی خوفناک چیخ کی طرف کی گئی اور دوسری جگہ جیسے اس آیت میں سببِ بعید یعنی زلزلے کی طرف کی گئی۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۲۷۶)
حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اصحابِ اَیکَہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مدین کی طرف بھی ۔اصحابِ ایکہ توابر سے ہلاک کئے گئے اور اہلِ مدین زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلاک ہوگئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۱۲۰)
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاۚۛ-اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ(92)
ترجمہ
وہ جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا ایسے ہوگئے گویا ان گھروں میں کبھی رہے ہی نہ تھے۔ شعیب کو جھٹلانے والے ہی نقصان اٹھانے والے ہوئے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا:شعیب کو جھٹلانے والے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر جب مسلسل نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آیا تو وہ ہلاکت و بربادی سے دوچار ہو گئے ، ان کے شاندار محلات جہاں زندگی اپنی تمام تر رونقوں کے ساتھ جلوہ گر تھی ایسے ویران ہو گئے کہ وہاں ہر سُو خاک اڑنے لگی اورہلاکت کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہاں کبھی کوئی آباد ہی نہیں ہوا۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۶، ملتقطاً)
{ كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ: وہی نقصان اٹھانے والے ہوئے۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اس خوف کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے کہ اگر انہوں نے ان پر ایمان لا کر ان کی شریعت پر عمل شروع کر دیا تو وہ معاشی بد حالی کی دلدل میں پھنس جائیں گے ،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنبیہ فرمائی کہ جس خوف کی وجہ سے وہ قبولِ ایمان سے دور تھے وہ درست ثابت نہ ہوا بلکہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا کہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی پر ایمان لا کر ان کی شریعت کی پیروی کی وہ تو دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اورآپ کی نافرمانی کی ،ان کی دنیا تو برباد ہوئی، اس کے ساتھ آخرت بھی برباد ہو گئی۔ لہٰذاا نقصان تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے جو سر کش اور نافرمان تھے نہ کہ انہوں نے جو تابع اور فرماں بردار تھے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۳۷۵، ملخصاً)
اقتصادی اور معاشی بہتری اسلامی احکام پر عمل کرنے میں ہے:
اہلِ مدین کے حالات میں ان لوگوں کے لئے بہت عبرت ہے کہ جو محض نام نہاد اور بے بنیاد اقتصادی زبوں حالی کے خوف سے شریعتِ اسلامیہ کے واضح احکام میں رد و بدل کرنے کیلئے پیچ و تاب کھاتے نظر آتے ہیں ،ایسے حضرات کو چاہئے کہ مدین والوں کے حالات کا بغور مطالعہ کریں اور اپنی اس روش کو بدل کر صحیح اسلامی سوچ اپنانے کی کوشش کریں اور معاشی بہتری کے لئے اسلام کے دئیے ہوئے اصول و قوانین پر عمل کریں پھر دیکھیں کہ کیسے یہ اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہیں۔
فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(93)
ترجمہ
تو شعیب نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا، اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی تو کافر قوم پر میں کیسے غم کروں ؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ:اورفرمایا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا ’’ اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۹۴، ملخصاً)
مردے سنتے ہیں :
کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی قوم کو سنایا۔(تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)
مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے’’جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے خطاب فرمایا ’’فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا‘‘ توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا ’’وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْہُمْ‘‘اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، الحدیث: ۳۹۷۶)
سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:
پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور ان کا دامنِ رحمت مضبوطی سے تھا م لو، تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ(94)ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(95)
ترجمہ
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہ بھیجامگر ہم نے اس کے رہنے والوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ گڑگڑائیں ۔ پھر ہم نے بدحالی کی جگہ خوشحالی بدل دی یہاں تک کہ وہ بہت بڑھ گئے اور وہ کہنے لگے :بیشک ہمارے باپ دادا کو (بھی) تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑلیا اور انہیں اس کا کچھ علم نہ تھا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا:مگر ہم نے اس کے رہنے والوں کوپکڑا۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص قوموں یعنی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوموں کے تفصیلی حالات اور ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے ان پر نازل ہونے والے عذاب اور اس کی کیفیت کا ذکر فرمایا، اب اس آیت اورا س سے اگلی آیت میں تمام امتوں کے اِجمالی حالات اور ایک عام اصول بیان کیا جارہا ہے کہ جس کے تحت سب قوموں سے برتاؤ ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی علاقے یا شہر میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام مبعوث کئے گئے تووہ ا س جگہ بسنے والوں کو شرک سے بچنے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے۔ اپنی صداقت کے اظہار کے لئے روشن معجزات دکھاتے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ،مگر اس کے باوجود جب وہاں کے باسی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیتے اور اتنی واضح اور صاف نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آتے تو فوراً ہی ان پر عذاب نازل نہ کر دیا جاتا بلکہ پہلے انہیں طرح طرح کے مصائب و آلام، سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا تاکہ اس طرح ان کا دماغ ٹھکانے آئے اور باطل مذہب چھوڑکر حق مذہب کے سایۂ رحمت میں آ جائیں اور اگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہوتا تو پھر ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دئیے جاتے، اولاد کی کثرت، مال کی زیادتی، عزت و وقار میں اضافہ، قوت و غلبہ وغیرہ ہر طرح کی آسائشیں انہیں مہیاکر دی جاتیں تاکہ اس طرح وہ اپنے حقیقی محسن کو پہچان کر اس کی نافرمانی سے باز آجائیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر لیں لیکن اگر وہ مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے بعد بھی غفلت سے بیدار نہ ہوتے اور نعمتوں کی بہتات کے باوجود بھی ان کے دل اپنے مہربان اور کریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف مائل نہ ہوتے تو وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرتے۔ یہ سب بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش اور دیگر کفار کو خوف دلانا ہے تاکہ وہ اپنے کفر و سرکشی سے باز آ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اطاعت گزار و فرماں بردار بن جائیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۱۲۱، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، / ۲۷۷، جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۷۷، ملتقطاً۔)
{ قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ:بیشک ہمارے باپ دادا کو(بھی) تکلیف اورراحت پہنچتی رہی ہے۔} جب نافرمان قومیں مصائب وآلام کا شکار ہوئیں تو اس وقت ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ ان سختیوں اور تکالیف سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے لیکن وہ یہ کہہ کر اپنے دل کومنا لیتے کہ یہ تباہ کن بارش یا قحط سالی یا زلزلہ یا آندھی طوفان جس نے تباہی و بربادی مچادی اور سب کچھ نیست و نابود کردیا، یہ ہمارے باپ دادا کو بھی ایسے ہی تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی یہ ہماری کسی اخلاقی کمزوری، کاروباری بد دیانتی اور غریبوں پر ظلم وتَعَدّی کی سزا ہے بلکہ یہ سب موسمی تغیرات کا نتیجہ ہیں اور زمانے کا دستور ہی یہ ہے کبھی تکلیف ہوتی ہے کبھی راحت ۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۳۲۱، ملخصاً)
ناگہانی آفات اور مسلمانوں کی حالتِ زار:
ان گزری ہوئی قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر تھوڑا غور کر لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ ایسی کون سی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے، اب بھی طوفان، زلزلے، سیلاب آتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی سائنسی تحقیقات پر غور کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوں ان کا تماشا دیکھا جاتا ہے ۔بقیہ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا، توبہ کی طرف راغب ہونا، بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنا، برے اعمال چھوڑ دینا، نیک اعمال میں مشغول ہوجانا، ظلم و ستم اور بددیانتی کو چھوڑ دینا یہ سب کچھ پھر بھی نہیں کیا جاتا بلکہ افسوس !ہمارے دل کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ طوفان کا سن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے خوشی خوشی ساحل سمند رکی طرف طوفان کا نظارہ کرنے دوڑتے ہیں ،گویا آنے والے طوفان جوممکن تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ہوں اسے بھی اپنی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ،زلزلہ یا سیلاب کی تباہی دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے ان مصیبت زدوں کی جان و مال اور عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالنے لگ گئے۔ ان مصیبت کے ماروں کے لئے امداد رقص و سُرور کی محفلیں سجا کر، بے حیاء عورتوں کے ڈانس دکھا کر ،فحش اور گندے گانے سنا کر جمع کرنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔ بادل، آندھی وغیرہ کو دیکھ کر سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک کیا تھا اسے اِس حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز آندھی کو ملاحظہ فرماتے اور جب بادل آسمان پر چھا جاتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ ٔ اقدس کا رنگ مُتَغَیَّر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے ، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’ اے عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا! مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نہ ہو جو میری امت پر بھیجا گیا ہو۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۴۶، الحدیث: ۹۹۴)
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰـكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(96)
ترجمہ
اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑلیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا:اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اورتقویٰ اختیار کرتے۔} پہلی آیت میں بیان ہوا کہ جب ان قوموں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا اور اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ لوگ اطاعت و فرماں برداری کرتے تو اس صورت میں آسمانی اور زمینی برکتیں انہیں نصیب ہوتیں چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’ اگر بستیو ں والے اللہ عَزَّوَجَلَّ، اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اورخدا اور رسول کی اطاعت اختیار کرتے اور جس چیز سے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول عَلَیْہِ السَّلَام نے منع فرمایا اس سے باز رہتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے اور ہر طرف سے انہیں خیر پہنچتی ،وقت پر نافع اور مفید بارشیں ہوتیں ،زمین سے کھیتی پھل بکثرت پیدا ہوتے، رزق کی فراخی ہوتی، امن و سلامتی رہتی اور آفتوں سے محفوظ رہتے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۳۲۱)
تقویٰ رحمت ِ الٰہی ملنے کاذریعہ ہے:
اس سے معلوم ہو ا کہ تقویٰ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رحمتِ الٰہی کا ذریعہ ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ‘‘ (الطلاق:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے) نکلنے کا راستہ بنادے گا۔
مصائب کی دوری کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں :
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی مصائب دور کرنے کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے عمل کیا جائے تاکہ وہ اپنی رحمت فرماتے ہوئے ہماری حاجت پوری کردے، اسی لئے بارش کیلئے نمازِ اِستِسقاء اور گرہن میں نمازِ کسوف پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم ظاہری اور باطنی مصائب کی دوری کے لئے احادیث میں مذکور چند اعمال ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کر کے اپنے مصائب دور کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…امُّ المؤمنین حضرت امِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا فرماتی ہیں :میں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ‘‘ پڑھے (اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا‘‘ا ے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ (مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص ۴۵۷، الحدیث: ۳ (۹۱۸))
(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صیقل کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
(3)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص روزانہ رات کے وقت سورہ ٔواقعہ پڑھے تو وہ فاقے سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۹۲، الحدیث: ۲۵۰۰)
(4)…حضرت عطاء بن ابی رباح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ مجھے خبر ملی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو دن کے شروع میں سورہ ٔیٰسٓ پڑھ لے تو اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوں گی۔ (دارمی،کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل یٰس، ۲ / ۵۴۹، الحدیث: ۳۴۱۸)
{ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا:مگر انہوں نے تو جھٹلایا۔} یعنی ایمان لانے کی صورت میں توہم انہیں زمینی اور آسمانی برکتوں سے نوازتے لیکن وہ ایمان نہ لائے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے لگے تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۱۲۲)
وسعتِ رزق سعادت بھی ہے اور وبال بھی:
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کاشکر گزار بندہ ہوتو رزق میں وسعت اور فراخ دستی سعادت ہے اور جب ناشکرا ہو تو یہ اس کے لئے وبال ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’ وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘ (ابراہیم:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمْ نَآىٕمُوْنَﭤ(97)اَوَ اَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤى اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًى وَّ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(98)
ترجمہ
کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آئے جب وہ سو رہے ہوں ۔یا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کے وقت آجائے جب وہ کھیل میں پڑے ہوئے ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰى:کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے۔} یہاں بستیوں والوں سے مراد مکہ مکرمہ اور آس پاس کی بستیوں والے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہراُس بستی کے افراد ہیں جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے نبی کو جھٹلایا۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ان کی غفلت کے اوقات میں مثلاً رات کو سوتے وقت یا دن میں اس وقت جب یہ کھیل کود میں پڑے ہوں ان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب نازل ہو جائے کیونکہ عذابِ الٰہی اکثر غفلت کے وقت آتا ہے اور غفلت زیادہ تر رات کے آخری حصے میں یا پورے دن چڑھے ہوتی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۱۲۲)
نیک اعمال کرنے اور عذابِ الٰہی سے ڈرنے کی ترغیب:
ان آیات میں جہاں کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی نیک اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (اٰل عمران:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جس چیز کی رغبت دی ہے اس میں رغبت رکھو اور جس چیز سے یعنی اپنے عذاب، جھڑک اور جہنم سے ڈرایا ہے تو اس سے بچو اور ڈرو۔ اگر جنت کا ایک قطرہ تمہارے ساتھ دنیا میں ہو جس میں تم اب موجود ہو تو وہ تمہارے لئے اسے اچھا کر دے اور اگر جہنم کا ایک قطرہ تمہاری اس دنیا میں آجائے تو وہ اسے تم پر خراب کر دے (البعث والنشور للبیہقی، باب ما جاء فی طعام اہل النار وشرابہم، ص۳۰۳، الحدیث: ۵۴۶)۔
اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ(99)
ترجمہ
کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ:کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں۔} مکر کے لغوی معنی ہیں ’’خفیہ تدبیر‘‘ جبکہ عام محاورہ میں دھوکہ اور فریب کو’’ مکر‘‘ کہا جاتا ہے، یہاں اس کا لغوی معنی یعنی خفیہ تدبیر مراد ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خاص غضب کا ذکر ہے چنانچہ فرمایا گیا ’’کیا کفار اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں اور اس کے ڈھیل دینے اور دُنیوی نعمتیں دینے پر مغرور ہو کر اس کے عذاب سے بے فکر ہوگئے ہیں سن لو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں اور اس کے مخلص بندے اس کا خوف رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے :
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کا دل سے نکل جانا سخت نقصان کا سبب ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ڈھیل یا اس کا کسی بندے کو گناہ پر نہ پکڑنا یہ اس کی خفیہ تدبیر ہے لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ ترغیب کے لئے چند حکایات پیش کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے تو رحمت ِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت کیا’’اے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ انہوں نے عرض کی: جب سے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے ، میری آنکھیں اُس وقت سے کبھی اس خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں ڈال دیا جاؤں۔ (شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)
(2)… جب ابلیس کے مردود ہونے کا واقعہ ہوا تو حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رونے لگے تو رب تعالیٰ نے دریافت کیا (حالانکہ وہ سب جانتا ہے) ’’تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کی:اے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم تیری خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہیں۔ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تم اسی حالت پر رہنا (یعنی کبھی مجھ سے بے خوف مت ہونا)۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الانبیاء والملائکۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک باغ کی دیوار کے پاس دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے فرما رہے تھے ’’واہ ! لوگ تجھے امیر المؤمنین کہتے ہیں اور تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے نہیں ڈرتا ، اگر تونے رب تعالیٰ کا خوف نہ رکھا تو اس کے عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل ششم، مقام سیم، ۲ / ۸۹۲)
(4)…حضرت ربیع بن خیثم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی صاحب زادی نے ان سے کہا :ابا جان! میں دیکھتی ہوں کہ سب لوگ سوتے ہیں اور آپ نہیں سوتے اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: اے میری نورِ نظر! تیرا باپ رات کو سونے سے ڈرتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کااشارہ اوپر مذکور آیت کی طرف تھا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۹، ص۳۷۷)
(5)… حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چالیس برس تک نہیں ہنسے ، جب ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا ایک قیدی ہیں جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہو، اور جب گفتگو فرماتے تو انداز ایسا ہوتا گویا آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ، اور جب خاموش رہتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کی آنکھوں میں آگ بھڑک رہی ہے ، جب اُن سے اس قدر غمگین وخوف زدہ رہنے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا ’’مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے بعض ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غضب فرمایا اور یہ فرما دیا کہ جاؤ! میں تمہیں نہیں بخشتا تو میرا کیا بنے گا؟ (احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجائ، بیان احوال الصحابۃ والتابعین۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۱)
اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین
اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْۚ-وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ(100)
ترجمہ
اور کیا وہ لوگ جو زمین والوں کے بعد اس کے وارث ہوئے اُنہیں اِس بات نے بھی ہدایت نہ دی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑلیں اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں تووہ کچھ نہیں سنتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَوَ لَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ:اور کیا ان لوگوں کو ہدایت نہ ملی۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کے کفار کا تفصیلی اور اجمالی حال بیان فرمایا اب اس آیت میں اُن واقعات کو بیان کرنے کی حکمت کا ذکر ہے کہ یہ واقعات ان موجودہ کافروں کی ہدایت کیلئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان سے یہ عبرت پکڑیں اور ایمان لائیں۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۵ / ۳۲۳، ملتقطاً)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ جو قومِ نوح، قومِ ثمود، اور قومِ مدین کے بعد ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں اتنے کم فہم اور نادان ہیں کہ یہ لوگ گزشتہ قوموں پر عذاب کے آثار دیکھ کر اتنی عبرت بھی حاصل نہیں کرتے کہ جن کی سرزمین کا انہیں وارث بنایا گیا اُن کا نافرمانی کے سبب کتنا برا انجام ہوا ؟ کیا ان لوگوں کو اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جس ربِّ قدیرعَزَّوَجَلَّ نے پچھلی قوموں کو ان کے کرتوتوں کی سزا دی وہ آج انہیں بھی سزا دینے پر قادر ہے۔
{ وَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ہم ان کے دلوں پر مہرلگادیتے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جس کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستے واضح فرما دئیے اور گزشتہ امتوں کی مثالیں بھی بیان فرما دیں وہ اس کے بعد بھی اپنے کفر اور سرکشی پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جس کے سبب وہ کسی حق بات کو قبول کرنے کیلئے سنتا ہی نہیں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۳۵۲)
اس آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کے ہر طرح سے انہیں نصیحت کرنے کے باوجود بھی اگریہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ غم نہ کریں ،آپ کی تبلیغ کے مؤثِّر ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں کفر و ہٹ دھرمی کی سزا دینے کیلئے ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے.
تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُؕ-كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ(101)
ترجمہ
یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کرتشریف لائے تووہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اللہ یونہی کا فروں کے دلوں پرمہر لگادیتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ تِلْكَ الْقُرٰى:یہ بستیاں ہیں۔} اس آیت میں خطاب حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے اور بستیوں سے وہ پانچ بستیاں مراد ہیں کہ جن کے احوال کا ذکر ما قبل آیات میں گزرا یعنی قومِ نوح،قومِ ہود،قومِ صالح، قومِ لوط اور قومِ شعیب کی بستیاں۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۳۵۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں ان بستیوں اور ان میں رہنے والوں کے بارے میں بتاتے ہیں ، ان کے حالات اور ان کے اپنے رسولوں کے ساتھ کئے گئے معاملات کی خبر دیتے ہیں تاکہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ جان لو کہ ہم رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کفار کے مقابلے میں کیسی مدد فرماتے ہیں اور کفار کو ان کے کفرو عناد اور سرکشی کی سزا میں کس طرح ہلاک کرتے ہیں ، لہٰذا مشرکینِ مکہ کو چاہئے کہ پچھلی قوموں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی سرکشی سے باز آجائیں ورنہ ان کا انجام بھی انہی جیساہو گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)
{ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ:تووہ اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے پہلے جھٹلا چکے تھے۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔
(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ عالمِ ارواح میں میثاق کے دن وہ لوگ جس چیز کو دل سے جھٹلا چکے تھے کہ صرف زبان سے ’’ بَلٰی‘‘ کہہ کر اقرار کر لیا اوردل سے انکار کیا تھا اسے نبی سے سن کر بھی نہ مانے بلکہ اسی انکار پر قائم رہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۵ / ۳۲۴)
(2)…امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان لوگوں کوہلاک کرنے اور عذاب کا مُعایَنہ کروانے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بھیج دیتے تب بھی وہ اس چیز کو نہ مانتے جسے وہ پہلی زندگی میں جھٹلا چکے تھے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)
(3)… نبیوں کے معجزات دیکھنے سے پہلے جس چیز کو جھٹلا چکے تھے اسے معجزات دیکھ کر بھی نہ مانے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۸۴، الجزء السابع)
(4)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری پر پہلے دن جس کا انکار کر چکے تھے آخر تک اسے نہ مانے جھٹلاتے ہی رہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۳۷۷)
{ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ:اللہ یونہی کا فروں کے دلوں پرمہر لگادیتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے کفار کے دلوں پر مہر لگا دی اور انہیں ہلاک کر دیا اسی طرح آپ کی قوم کے ان کافروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتاہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ لکھ چکا کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۱۲۳)
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍۚ-وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ(102)
ترجمہ
اور ہم نے ان کے اکثر لوگوں کوعہد پورا کرنے والا نہ پایا اوربیشک ہم نے ان میں اکثر کو نافرمان ہی پایا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ:اور ہم نے ان کے اکثرلوگوں کوعہد پورا کرنے والا نہ پایا۔} اس عہد سے مراد وہ وعدہ اور عہد و پیمان ہے جو اللہ تعالیٰ نے میثاق کے دن ان سے لیا تھا یا مراد یہ ہے کہ جب کبھی کوئی مصیبت آتی تو عہد کرتے کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں اس سے نجات دے تو ہم ضرور ایمان لائیں گے پھر جب نجات پاتے تو اس عہد سے پھر جاتے اور ایمان نہ لاتے۔(بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۱۵۴، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۳۷۷، ملتقطاً)
مصیبت کے وقت عہد و پیمان اور بعد میں اس کے بر خلاف:
آیت میں عہد کی جو دوسری تفسیر بیان کی گئی ہے اس کو پیشِ نظر رکھ کر اپنے احوال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر بھی عملی اعتبار سے ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں کہ کوئی بیمار پڑتا ہے یا مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرتا ہے کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ایک مرتبہ مجھے اس مصیبت سے چھٹکارا دیدے ، دوبارہ ساری زندگی تیری فرمانبرداری میں گزاروں گا مگر جیسے ہی وہ مصیبت دور ہوتی ہے تو یہ سب عہد و پیمان پسِ پشت ڈال دئیے جاتے ہیں اور وہی پرانی موج مستی اور غفلت و معصیت کی زندگی لوٹ آتی ہے۔
یہاں تک حضرت نوح ،حضرت ہود ،حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرمائے گئے اب اس کے بعد والی آیتوں سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(103)
ترجمہ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی تو دیکھو فسادیوں کاکیسا انجام ہوا؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى:پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سورت میں جو واقعات مذکور ہیں ان میں سے یہ چھٹا قصہ ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کو ما قبل ذکر کئے گئے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات کے مقابلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تھے اور آپ کی قوم کی جہالت بھی دیگر نبیوں کی اقوام کے مقابلے میں زیادہ تھی۔(تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۲۴)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ا س سے پہلی آیات میں جن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا ان کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیوں جیسے روشن ہاتھ اور عصا وغیرہ معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو نشانیاں لے کر آئے تھے وہ بالکل صاف واضح اور ظاہر تھیں لیکن پھر بھی فرعون اور اس کے درباریوں نے اقرار کی بجائے انکار ہی کیا تو انہوں نے اقرار کی جگہ انکار اور ایمان کی جگہ کفر کو رکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیوں کے ساتھ زیادتی کی تو اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نگاہِ بصیرت سے دیکھیں کہ فسادیوں کاکیسا انجام ہوا اور ہم نے انہیں کس طرح ہلاک کیا۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۵ / ۳۲۵، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۱۲۳-۱۲۴، ملتقطاً)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصرتعارف:
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام عمران اور آپ کی والدہ کا نام ا یارخا بھی مذکور ہے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک سو بیس برس عمر پائی۔(البدایہ والنہایہ، ذکر قصۃ موسی الکلیم علیہ الصلاۃ والتسلیم، ۱ / ۳۲۶،۳۲۹، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۶۹۶، ملتقطاً)
نوٹ:حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زندگی کے اہم واقعات اللہ تعالیٰ نے اس سورت اور دیگر سورتوں میں بیان فرمائے ہیں ان کی تفصیل اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان آیتوں کی تفسیر میں بیان کی جائے گی۔
فرعون کا مختصر تعارف:
فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے ہر بادشاہ کا لقب بن گیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔(صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۶۹۶)
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(104)
ترجمہ
اور موسیٰ نے فرمایا: اے فرعون! میں ربُّ العالمین کا رسول ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قَالَ مُوْسٰى یٰفِرْعَوْنُ:اور موسیٰ نے فرمایا: اے فرعون!۔} جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس تشریف لے گئے تواسے اللہ تعالیٰ کی رَبُوبِیَّت کا اقرار کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اس سے فرمایا: میں ربُّ العالمین کی طرف سے تیری جانب اور تیری قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۱۲۴)
حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَﭤ(105)
ترجمہ
میری شان کے لائق یہی ہے کہ اللہ کے بارے میں سچ کے سوا کچھ نہ کہوں ۔ بیشک میں تم سب کے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کرآیا ہوں تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ حَقِیْقٌ:میری شان کے لائق یہی ہے ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کلام سن کر فرعون نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : ’’میری شان کے لائق یہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں سچ کے سوا کچھ نہ کہوں کیونکہ رسول کی یہی شان ہے کہ وہ کبھی غلط بات نہیں کہتے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۳۷۸)اور میں تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نشانیاں یعنی معجزات لے کرآیا ہوں۔
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی رسالت کی تبلیغ سے فارغ ہوئے تو چونکہ آپ کا رسول ہونا ثابت ہو چکا تھا اور فرعون پر آپ کی اطاعت فرض ہو گئی تھی اس لئے آپ نے فرعون کوحکم فرمایا: ’’ تو بنی اسرائیل کواپنی غلامی سے آزاد کردے تاکہ وہ میرے ساتھ ارضِ مُقَدَّسہ میں چلے جائیں جو اُن کا وطن ہے۔ بنی اسرائیل کی غلامی کا سبب یہ ہو اتھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وجہ سے اپنے وطن فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہو گئی، مصر میں ان کی نسل کافی بڑھی، جب فرعون کی حکومت آئی تو اس نے انہیں اپنا غلام بنا لیا اور ان سے جبری مشقت لینا شروع کر دی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ا س غلامی سے نجات دلانا چاہی اور فرعون سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تاکہ یہ اپنے آبائی وطن میں آباد ہوں۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۶۹۷)
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(106)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ(107)
ترجمہ
کہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو اگرتم سچے ہو۔ تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَا: کہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی نشانی ہے تومیرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا ،وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۷، ۲ / ۱۲۴)
عصائے کلیم اژدہائے غضب:
تفسیر صاوی میں ہے ’’جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لاٹھی پھینکی تو وہ زرد رنگ کا ایک بال دار اژدہا بن گئی، اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان تقریباً ایک سو بیس فٹ کا فاصلہ تھا ،وہ اپنی دم پر کھڑا ہو گیا ،اس کا ایک جبڑا زمین پر تھاا ور دوسرا جبڑا فرعون کے محل کی دیوار پر تھا، وہ اژدہا فرعون کو پکڑنے کے لئے دوڑا تو فرعون اپنا تخت چھوڑ کربھاگ گیا۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۶۹۷)
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ(108)
ترجمہ
اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَنَزَعَ یَدَهٗ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا۔} اس آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب ہوگئی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھا کہ’’ یہ کیا ہے؟ فرعون نے جواب دیا :آپ کا ہاتھ ہے۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ جگمگانے لگا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۳۷۸)
دستِ اقدس کا کمال:
یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک ہاتھ کا کمال تھا ،اب سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس کا کمال ملاحظہ فرمائیے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضائے کلیم
موجزن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں
یعنی اے پیارے موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چمکتے ہوئے نورانی ہاتھ! تیری بڑی شان ہے لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ کرم کی ہر لکیر سے نور کا ایک بے مثال دریا موجزن ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہر لکیر کی یہ شان ہے تو پورے دستِ اقدس کی عظمت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ(109)
ترجمہ
قومِ فرعون کے سردار بولے : بیشک یہ توبڑے علم والا جادوگر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:قومِ فرعون کے سردار بولے۔ } جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صداقت ظاہر کرنے کیلئے دو معجزات دکھائے تو قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ توبڑے علم والا جادوگر ہے جس نے جادو سے نظر بندی کر دی اور لوگوں کو عصا اژدہا نظر آنے لگا اور گندمی رنگ کا ہاتھ آفتاب سے زیادہ روشن معلوم ہونے لگا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق یہ بات اس لئے کہی کہ اس زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا، جادو کی بہت سی قسمیں تھیں اور بعض قسمیں بڑی حیران کن تھیں ،اسی لئے فرعون کی قوم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں خیال کیا کہ یہ جادو میں بڑے ماہر ہیں ، پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ انہوں نے اتنا بڑا جادو اس لئے پیش کیا ہے کہ یہ شائد ملک و ریاست کے طلبگار ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۳۳۰، ملتقطاً)
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْۚ-فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(110)قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَ(111)یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(112)وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(113)قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(114)قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(115)قَالَ اَلْقُوْاۚ-فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ(116)وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَ(117)فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(118)فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ(119)وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَ(120)قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(121)رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(122)
ترجمہ
یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکا لنا چاہتا ہے توتم کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: انہیں اور ان کے بھائی کو کچھ مہلت دواور شہروں میں جمع کرنے والوں کو بھیج دو۔ وہ تمہارے پاس ہر علم والے جادوگرکولے آئیں گے۔ اور (پھر) جادوگر فرعون کے پاس آگئے تو کہنے لگے :اگر ہم غالب آگئے تو (کیا) ہمارے لئے یقینی طور پر کوئی انعام ہوگا۔۔(فرعون نے) کہا: ہاں اور بیشک تم تو (میرے) قریبی لوگوں میں سے ہوجا ؤ گے۔۔(جادوگروں نے) کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ (اپنا عصا) ڈالیں یا ہم (کچھ) ڈالتے ہیں ۔فرمایا: تم ہی ڈالو ۔ جب انہوں نے ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔ اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو اچانک وہ عصا ان کی بناوٹی چیزوں کو نگلنے لگا۔تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کررہے تھے سب باطل ہوگیا۔تو وہ وہیں مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔اور جادوگر سجدے میں گرادئیے گئے۔ وہ کہنے لگے:ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے ۔جو موسیٰ اور ہارون کارب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ:تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 12 آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ درباریوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر انہیں بہت ماہر جادوگر سمجھا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے جادو کے زور سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا کر مملکت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں تو فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: تم اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: تم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چند روز کی مہلت دو اور شہروں میں اپنے خاص آدمی بھیج دو تاکہ وہ ایسے جادو گر جمع کر کے لائیں جو جادو میں ماہر ہوں اور سب پر فائق ہوں تا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں۔ چنانچہ فرعون نے اپنی مملکت کے تمام ماہر جادو گروں کو جمع کر لیا۔ ان جادو گروں کو علم تھا کہ جس مقصد کے لئے انہیں طلب کیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے چنانچہ انہوں نے فرعون سے کہا: اگر ہم غالب آگئے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست دے دی تو کیا ہمیں یقینی طور پر کوئی شاہانہ انعام ملے گا۔ فرعون یہ تسلی آمیز الفاظ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: بے شک تمہیں انعام واکرام سے نوازا جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ تمہیں میرے خاص قریبی لوگوں میں داخل کر لیا جائے گا۔ یہ جادوگر کل ستر ہزار تھے جن میں چند سردار تھے، جب مقابلے کا دن آیا تو سب مقررہ جگہ پر جمع ہوئے، مقابلے کا آغاز ہوا توجادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ پہلے اپنا عصا زمین پرڈالیں یا ہم اپنے پاس موجود چیزیں ڈالتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: تم ہی پہلے ڈالو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اس لئے تھا کہ آپ کو ان کی کچھ پرواہ نہ تھی اور آپ کو کامل اعتماد تھا کہ ان کے معجزے کے سامنے سحر ناکام و مغلوب ہوگا۔ جب انہوں نے اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدہے نظر آنے لگے اور میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا۔ لوگ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدہا بن گیا۔ وہ جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا اور تمام رسے اور لٹھے جو اُنہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اونٹ کا بار تھے سب کا خاتمہ کردیا جب موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو پہلے کی طرح عصا ہوگیا اور اس کا حجم اور وزن اپنے حال پر رہا یہ دیکھ کر جادو گروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سحر نہیں اور قدرتِ بشری ایسا کرشمہ نہیں دکھا سکتی ضرور یہ امرِسَماوی ہے چنانچہ یہ معجزہ دیکھ کران پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور ان کا حال ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے پیشانیاں پکڑ کر زمین پر لگادیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۰-۱۱۷، ۲ / ۱۲۵-۱۲۷، قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۱، ۵ / ۳۸، ملخصاً)
{ قَالُوْا یٰمُوْسٰى:بولے اے موسیٰ۔} جادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا ۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۴ / ۱۸۶، الجزء السابع)
{ سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔} اس آیت میں جادو گروں کے جادو کے اثر کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے پھینکے ہوئے رسوں اور لاٹھیوں کی حقیقت نہ بدلی بلکہ لوگوں کی نگاہوں پر اثر ڈال دیا کہ لوگوں کو رینگتے دوڑتے سانپ محسوس ہوئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے جادوگروں کے جادو کی صورت یہ تھی یعنی حقیقت نہ بدلی تھی۔
{ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ:اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔} جب جادو گروں نے موٹے رسے اور لمبی لاٹھیاں ڈالیں تو وہ پہاڑوں کی مانند اژدہے بن گئے جس سے میدان بھر گیا اور اژدہے ایک دوسرے پر چڑھنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ جادو گروں نے رسیوں پر پارہ مل دیا اور لاٹھیوں میں بھی پارہ ڈال دیا پھر انہیں زمین پر پھینک دیا، جب ان پر سورج کی روشنی پڑی تو ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ دوڑتے ہوئے سانپ ہیں۔ وہ میدان ایک میل لمبا تھا اور پورا میدان سانپوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۱۲۷)
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَاۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(123)لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ(124)قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ(125)وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاؕ-رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ(126)
ترجمہ
: فرعون نے کہا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ۔ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم نے اس شہر میں کیا ہے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو تو اب تم جان جاؤ گے۔میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو پھانسی دے دوں گا۔۔ (جادوگر) کہنے لگے : بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں ۔ اور تجھے ہماری طرف سے یہی بات بری لگی ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے جب وہ ہمارے پاس آئیں ۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ فِرْعَوْنُ:فرعون بولا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو یہ دیکھ کر فرعون بولا: میری اجازت کے بغیر تم ایمان کیوں لے آئے؟ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب نے متفق ہو کر اس شہر میں کیا ہے ۔تم سب شاگرد ہو اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمہارے استاد ہیں ، تم نے خفیہ ساز باز کر کے یہ مقابلہ کیا اور تم جان بوجھ کر ہار گئے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو اور خود اس پر مُسلَّط ہوجاؤ تو اب تم جان جاؤ گے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوں اور میں تمہیں کیا سزا دوں گا۔ میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو دریائے نیل کے کنارے پھانسی دے دوں گا۔ فرعون کی اس گفتگو پر جادو گروں نے یہ جواب دیا: بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف پلٹنے والے ہیں ،تو ہمیں موت کا کیا غم ؟ کیونکہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی لِقاء اور اس کی رحمت نصیب ہوگی اور جب سب کو اسی کی طرف رجوع کرنا ہے تو وہ خود ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس کے بعد ان جادو گروں نے صبر کی دعا کی کہ’’ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔
{ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ:پھر تم سب کو سُو لی دوں گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ دنیامیں پہلا سولی دینے والا اور پہلا ہاتھ پاؤں کاٹنے والا فرعون ہے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع)
{ قَالُوْا:(جادوگر) کہنے لگے ۔} اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں جذبۂ ایمانی کے غلبے کے وقت غیرُاللہ کا خوف نہیں ہوتا۔ حق قبول کرنے کے بعد ان جادو گروں کا حال یہ ہوا کہ فرعون کی ایسی ہوش رُبا سزا سن کر بھی ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ انہوں نے مجمعِ عام میں فرعون کے منہ پر اس کی دھمکی کا بڑی جرأت کے ساتھ جواب دیا اور اپنے ایمان کو کسی تَقیہ کے غلاف میں نہ لپیٹا۔
{ وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ:اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا یہ لوگ دن کے اوّل وقت میں جادوگر تھے اور اسی روز آخر وقت میں شہید۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۱۲۸)
معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت نے پرانے کافروں کو ایک دن میں ایمان، صحابیت ، شہادت تمام مَدارج طے کر ا دئیے، صحبت کا فیض سب سے زیادہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فرعون انہیں شہید نہ کرسکا تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۵ / ۳۳۹)
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَؕ-قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْۚ-وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ(127)
ترجمہ
اور قومِ فرعون کے سردار بولے: کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اوروہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے۔ (فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:اور قومِ فرعون کے سردار بولے۔} اے فرعون! کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ اس طرح فساد پھیلائیں کہ مصر کی سر زمین میں تیری مخالفت کریں اور وہاں کے باشندوں کا دین بدل دیں۔سرداروں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ جادو گروں کے ساتھ چھ لاکھ آدمی بھی ایمان لے آئے تھے۔ سرداروں نے فرعون سے دوسری بات یہ کہی کہ ’’اور وہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے‘‘ یعنی نہ تیری عبادت کریں اورنہ تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کی پوجا کریں۔
مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ’’ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ’’اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى‘‘(میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔(مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۳۸۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، ملتقطاً)
{ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ:(فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے۔} فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے جویہ کہا تھا کہ’’ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑدے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں ‘‘ اس سے ان کا مطلب فرعون کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی قوم کے قتل پر ابھارنا تھا ۔ جب اُنہوں نے ایسا کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو نُزولِ عذاب کا خوف دلایا ۔ فرعون اپنی قوم کی خواہش پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزے کی قوت سے مرعوب ہوچکا تھا اسی لئے اس نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ’’ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی تعداد گھٹا کر اُن کی قوت کم کریں گے۔ مزید یہ کہ عوام میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کہ’’ہم بے شک اُن پر غالب ہیں۔ اس سے اس کا مقصود یہ تھا کہ عوام کو پتا چل جائے کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو کسی عجز یا خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ وہ جب چاہے انہیں پکڑ سکتا ہے۔یہ بات وہ اپنے منہ سے کہتا تھا جبکہ فرعون کا حال یہ تھا کہ اس کا دل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رعب میں بھرا پڑا تھا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵/ ۳۲۴، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۴ / ۱۸۹، الجزء السابع، ملتقطاً)
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْاۚ-اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ﳜ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(128)
ترجمہ
موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو ۔بیشک زمین کا مالک اللہ ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ:موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} فرعون کے اس قول کہ ’’ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے‘‘ کی وجہ سے بنی اسرائیل میں کچھ پریشانی پیدا ہوگئی اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کی شکایت کی، اس کے جواب میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مدد طلب کرو، وہ تمہیں کافی ہے اور آنے والی مصیبتوں اور بلاؤں سے گھبراؤ نہیں بلکہ ان پرصبر کرو، بیشک زمین کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور زمینِ مصر بھی اس میں داخل ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے۔ یہ فرما کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو تَوَقُّع دلائی کہ فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہوگی اور بنی اسرائیل اُن کی زمینوں اور شہروں کے مالک ہوں گے اور انہیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۱۲۹، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۳۸۱، ملتقطاً)
قَالُـوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَاؕ-قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(129)
ترجمہ
۔ (قوم نے) کہا: ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی اور تشریف آوری کے بعد بھی ستایا گیا ہے۔ (موسیٰ نے) فرمایا: عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالُـوْۤا اُوْذِیْنَا:بولے ہم ستائے گئے ۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے فرعون کی دھمکی سے خوفزدہ ہو کر دوسری مرتبہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی کہ’’ ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی ستایا گیا کہ فرعون اور فرعونیوں نے طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا تھا اور لڑکوں کو بہت زیادہ قتل کیا تھا اور آپ کے تشریف لانے کے بعد اب پھر ستایا جائے گا کہ اب وہ دوبارہ ہماری اولاد کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مدد کب ہوگی اور یہ مصیبتیں کب دور کی جائیں گی۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: عنقریب تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گاپھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو اور کس طرح شکر ِنعمت بجالاتے ہو۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علمِ غیب کی دلیل:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غیب کا علم دیا تھا کہ آئندہ پیش آنے والے واقعات بلاکم و کاست بیان فرما دئیے اور جیسا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کر دیاگیا اور بنی اسرائیل ملکِ مصر کے مالک ہوئے۔
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(130)
ترجمہ
اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ :اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو پکڑا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کو جھٹلانے کے سبب فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے ابتدائی واقعات کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۷۰۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۱۲۹، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۳۴۴، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۳۸۱، ملتقطاً)
مَصائب خوابِ غفلت سے بیداری کا سبب بھی ہیں:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آفتوں اور مصیبتوں میں بھی بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں اور ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے انسان غفلت سے بیدار ہو اور اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اور فرماں بردار بندہ بن جائے لہٰذا زلزلہ ،طوفان ، سیلاب یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو تو اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(131)
ترجمہ
تو جب انہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ:تو جب انہیں بھلائی ملتی۔} فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت ، صحت ،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ توہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل جانتے او ر نہ ہی اس کے انعامات پر شکر اد اکرتے اور جب انہیں ،قحط، خشک سالی، مرض ،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں ، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۲ / ۱۳۰، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۵ / ۳۴۴، ملتقطاً)
بدشگونی کی مذمت:
مشرک قوموں میں مختلف چیزوں سے برا شگون لینے کی رسم بہت پرانی ہے اوران کے تَوَہُّم پرست مزاج ہر چیز سے اثر قبول کرلیتے ، جیسے کوئی شخص کسی کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یاکسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑجاتی تو فوراً گھر واپس لوٹ آتا، اسی طرح کسی کے آنے کو، بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس سمجھنا ان کے ہاں عام تھا۔ اسی طرح کے تَصَوُّرات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلام اس طرح کی توہم پرستی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد فالی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، ہم میں سے ہر ایک کو ایسا خیال آ جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر توکل پر قائم فرما دیتا ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی :یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایسا شخص کیا کفارہ دے ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ کہے ’’اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلاَّ طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلاَّ خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ،تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔) (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ تعالی عنہما، ۱ / ۶۸۳، الحدیث: ۷۰۶۶)
احادیث میں بدشگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیا گیاہے۔
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(132)
ترجمہ
اور (فرعونیوں نے) کہا: (اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قَالُوْا:اور بولے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی ایک جہالت اور گمراہی بیان فرمائی کہ انہوں نے قحط، خشک سالی اور پھلوں کی کمی کوحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھ والوں کی نحوست قرار دیا اور وہ یہ نہ جان سکے کہ بارش کا نہ ہونا نیز غلہ اور پھلوں کا کم یا زیادہ ہونا یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت سے ہے اور ان سب چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اب اس آیت میں ان کی ایک اور جہالت بیان فرمائی کہ یہ لوگ معجزہ اور سِحر میں فرق نہیں کرتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا جو اژدہا بن گیا تھا اسے سحر کہتے تھے حالانکہ ان کے تما م بڑے بڑے جادوگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزے کے سامنے عاجز ہو چکے تھے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۳۴۵)
جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صاف صاف کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِ عَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(133)
ترجمہ
تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَرْسَلْنَا:تو ہم نے بھیجا ۔} جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تواللہ تعالیٰ نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ تعالیٰ نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ تعالیٰ نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۲ / ۱۵۹-۱۶۱)
وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ(134)
ترجمہ
اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ:اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’رِجْز‘‘ کا معنی عذاب ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ قسموں کا عذاب ہے جو طوفان ،ٹڈیوں ، قمل، مینڈک اور خون کی صورت میں ان پر مُسلَّط کیا گیا۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد طاعون ہے اور یہ پہلے پانچ عذابوں کے بعد چھٹا عذاب ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۴، ۲ / ۱۳۲)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون ا ور اس کی قوم پر جب طوفان ،ٹڈیوں ، قمَّل،مینڈک اور خون یا طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوتا تو اس وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہتے : اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اس عہد کے سبب دعا کرو جو اس کا تمہارے پاس ہے کہ ہمارے ایمان لانے کی صورت میں وہ ہمیں عذاب نہ دے گا۔ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ہم ضرور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ روانہ کردیں گے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام ا س کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام اس کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں اور مشکلات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، جیسے عذاب دور کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے جبکہ فرعون اور اس کی قوم نے عذاب دور کرنے کی نسبت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کرتے ہوئے عرض کی کہ ’’ لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ‘‘ بے شک اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا۔ اس نسبت پر نہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کوئی اعتراض کیا نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی عتاب فرمایا۔
اسی طرح بیٹا دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے جبکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے فرمایا:
’’ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ (مریم: ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔
یونہی پرندوں کو پیدا کرنا ،مادر زاد اندھوں کو آنکھیں دینا، کوڑھیوں کو شفا یاب کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘ (آل عمران: ۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔سرِ دست قرآنِ مجید سے یہ تین مقامات ذکر کئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کیا گیا، اب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت سے چند واقعات ملاحظہ ہوں کہ جب کبھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کوئی مشکل یا مصیبت پیش آتی یا انہیں کوئی ضرورت یا حاجت درپیش ہوتی تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رجوع کرتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی مصیبتوں کی خلاصی اور اپنی حاجت روائی کے لئے عرض کرتے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی مشکلات دور کر دیتے اور حاجتیں پوری فرما دیتے تھے ، چنانچہ جنگِ بدر میں حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں ایک چھڑی دی جو ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی تلوار بن گئی۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثالث، الفن الثانی، الباب الرابع، حرف العین، الفصل الاول فی الاسمائ، القسم الاول، الفرع الاول، عکاشہ بن محصن، ۱۳ / ۳۲۴)
جنگ ِاحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ تیر لگنے سے نکل گئی تو وہ ڈھیلا لے کر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آنکھ مانگی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں آنکھ عطا کر دی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، فی فضل الانصار، ۷ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۵)
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی لے کر بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی وقت ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)
قحط سے نجات پانے کیلئے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعا کی درخواست کی، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو ایسی بارش برسی کہ ہفتہ بھر رکنے کا نام نہ لیا۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب الاستسقاء علی المنبر، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۱۵)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایک مرتبہ سفر میں پیاس سے جاں بَلَب ہوئے تو بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہو کر اپنی پیا س کے بارے میں عرض کی ،سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہا کر انہیں سیراب کر دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۳۵۷۹)
اور حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت مانگی تو انہیں جنت عطا کر دی۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)۔)
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(135)فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(136)وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ(137)
ترجمہ
پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے بالکل غافل رہے۔اور ہم نے اس قوم کو جسے دبایا گیا تھا اُس زمین کے مشرقوں اور مغربوں کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور بنی اسرائیل پر ان کے صبر کے بدلے میں تیرے رب کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور ہم نے وہ سب تعمیرات برباد کردیں جو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور وہ عمارتیں جنہیں وہ بلند کرتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے بدلہ لیا۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب بار بار فرعونیوں کو عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کفر نہ چھوڑا تو جو میعاداُن کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی وہ پوری ہونے کے بعد اُنہیں اللہ تعالیٰ نے دریائے نیل میں غرق کرکے ہلاک کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۲ / ۱۳۲)
{وَاَوْرَثْنَا:اور ہم نے مالک بنا دیا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو غیبی خبر دی تھی کہ ’’ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا‘‘ جیساآپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کر کے ہلاک کر دیا، اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پورے مصرو شام کا مالک بنا دیا، اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۵ / ۳۴۸، ملتقطاً)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مَظالِم کا شکار بنی اسرائیل کو سرزمین کے مشرق و مغرب یعنی مصر و شام کا مالک بنا دیا۔ اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ نے نہروں ، درختوں ، پھلوں ، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے برکت رکھی تھی اس طرح بنی اسرائیل پر ان کے صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن تمام عمارتوں ، ایوانوں اور باغوں کوبرباد کر دیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنائے تھے۔ اس آیت میں صبر کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے عزت، غلبہ، خوشحالی اور حکمرانی نصیب ہوئی۔
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْۚ-قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(138)اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(139)
ترجمہ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہواجو اپنے بتوں کے آگے جم کر بیٹھے ہوئے تھے۔(بنی اسرائیل نے) کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو جیسے ان کے لئے کئی معبود ہیں ۔ (موسیٰ نے) فرمایا: تم یقینا جا ہل لوگ ہو۔ بیشک یہ لوگ جس کام میں پڑے ہوئے ہیں وہ سب برباد ہونے والا ہے اور جو کچھ یہ کررہے ہیں وہ سب باطل ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ:اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے نعمت کی جو ناشکریاں ہوئیں اور جن برے افعال میں وہ مبتلا ہوئے ان کا اور دیگر واقعات کا بیان شروع فرمایا اورا س سے مقصود نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا اور آپ کی امت کو نصیحت کرنا ہے کہ وہ کسی حال میں بھی اپنے نفس کے محاسبہ سے غافل نہ ہوں اور اپنے احوال میں غورو فکر کرتے رہیں۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۲۹۱)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دسویں محرم کے دن فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہواجو اپنے بتوں کے آگے جم کر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی عبادت کرتے تھے۔ ابن جُرَیج نے کہا کہ یہ بُت گائے کی شکل کے تھے۔ یہاں سے بنی اسرائیل کے دل میں بچھڑا پوجنے کا شوق پیدا ہوا جس کا نتیجہ بعد میں گائے پرستی کی شکل میں نمودار ہوا۔ اُن کو دیکھ کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے موسیٰ! جس طرح ان کے لئے کئی معبود ہیں جن کی یہ عبادت اور تعظیم کرتے ہیں ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو تاکہ ہم بھی ا س کی عبادت کریں اور تعظیم بجا لائیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے فرمایا: بیشک تم جا ہل لوگ ہوکہ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی نہ سمجھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۱۳۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۵ / ۳۴۹، ملتقطاً)
نوٹ: یاد رہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ عرض سارے بنی اسرائیل نے نہ کی تھی کیونکہ ان میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر بزرگ اولیاءُ اللہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی تھے ،بلکہ اُن لوگوں نے کی تھی جو ابھی تک راسخُ الایمان نہ ہوئے تھے۔
{ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ:بیشک یہ لوگ۔} یعنی عنقریب یہ بت پرست اور ان کے بت ہمارے ہاتھوں ہلاک کئے جائیں گے جبکہ تم بت پرست نہیں بلکہ بت شکن ہو۔ اس میں غیب کی خبر ہے اور بعد میں وہی ہوا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا۔
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(140)وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِۚ-یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(141)
ترجمہ
۔ ( موسیٰ نے) فرمایا: کیا تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت بری سزا دیتے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا:کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں۔} جب بنی اسرائیل نے معبود بنا کر دینے کا مطالبہ کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی جہالت کو واضح کیا اور فرمایا ’’کیا میں تمہارے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یعنی خدا وہ نہیں ہوتا جو تراش کر بنالیا جائے بلکہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں فضیلت دی کیونکہ وہ فضل واحسان پر قادر ہے تو وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے فضل و احسان کا تقاضا ہے کہ اس کا شکر اور حق ادا کیا جائے نہ کہ ناشکری اور شرک کیا جائے۔
{ وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں نجات دی۔} اس آیت کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت 49میں گزر چکی ہے۔ اس مقام پر یہ آیت ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تم پر یہ عظیم انعام فرمایا تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت میں مشغول ہونا کیسے روا ہو گا؟ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۵ / ۳۵۱)
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًۚ-وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(142)
ترجمہ
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس (راتوں ) کا اضافہ کر کے پورا کردیا تو اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کاپورا ہوگیا اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا:تم میری قوم میں میرا نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کے راستے پر نہ چلنا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى:اور ہم نے موسیٰ سے وعدہ فرمایا۔} اس آیت میں تورات نازل ہونے کی کیفیت کا بیان ہے ۔
نُزولِ تورات کا واقعہ :
اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر میں بنی اسرائیل سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ اُن کے دشمن فرعون کو ہلاک فرما دے گا تو وہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے اُس کتاب کو نازل فرمانے کی درخواست کی، انہیں حکم ملا کہ تیس روزے رکھیں ،یہ ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی ، اس وجہ سے آپ نے مسواک کر لی۔ فرشتوں نے ان سے عرض کی: ’’ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی، آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ ماہ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں اور ارشاد فرمایا کہ ’’ اے موسیٰ !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۳ / ۵۶، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ص۳۸۴، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۵ / ۳۵۱-۳۵۲، ملتقطاً)
{ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ:اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےپہاڑ پر مناجات کے لئے جاتے وقت اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’تم میرے واپس آنے تک میری قوم میں میرے نائب بن کر رہو اور بنی اسرائیل کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارنا اور بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے طریقے پر نہ چلنا جو زمین میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کر کے اور گناہگاروں کی ان کے گناہ پر مدد کر کے فساد برپا کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے اطاعت گزار بندے ہیں ان کے طریقے کو اختیار کرنا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۲ / ۱۶۳، تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۶ / ۴۹)
یاد رہے کہ یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو اصلاح اور صحیح راستے پر چلنے کا فرمایا وہ حقیقت میں آپ کے واسطے سے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا ورنہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تو فسادیوں کے راستے پر چلنے سے معصوم ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ فرمانا بطورِ تاکید و اِستقامت کے ہو۔
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ-قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْۚ-فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًاۚ-فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(143)
ترجمہ
اور جب موسیٰ ہمارے وعدے کے وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا،تو اس نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں ۔ (اللہ نے) فرمایا: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا، البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا تواسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر گئے پھر جب ہوش آیا تو عرض کی: تو پاک ہے ، میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ:اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرمایا اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ (یعنی12میل) کی مقدار ڈھک لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔ آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اوراللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے، اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلامِ ربانی کی لذت نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۱۳۶، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۲۲۹-۲۳۰)
{قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ:فرمایا:تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو کلامِ ربانی کی لذت نے انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا مشتاق بنا دیا چنانچہ بارگاہِ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں ‘‘ یعنی صرف دل یا خیال کا دیدار نہیں مانگتا بلکہ آنکھ کا دیدار چاہتا ہوں کہ جیسے تو نے میرے کان سے حجاب اٹھا دیا تو میں نے تیرا کلامِ قدیم سن لیا ایسے ہی میری آنکھ سے پردہ ہٹا دے تاکہ تیرا جمال دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: تم دنیا میں میرا دیدار کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۷۰۷)
اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن نہیں :
اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں بلکہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہونے پر کئی دلائل ہیں۔
پہلی دلیل: اگر دیدارِ الٰہی ناممکن تھا تو اس کی دعا کرنا ناجائز ہوتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ نبوت کے علوم و معارف اور اس کے اَسرار کے حامل ہیں وہ ہر گز یوں دعا نہ کرتے ’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں۔ اور اگر بالفرض یہ دعا ناجائز ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسی دعا کرنے سے منع فرما دیتا۔
دوسری دلیل : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا:’’لَنْ تَرٰىنِیْ: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھنے کی نفی کی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیکھنا ممکن نہیں۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ‘‘ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھنے کو پہاڑ کے اپنی جگہ برقرار رہنے پر مُعلَّق کیا اور پہاڑ کا اپنی جگہ پر برقرار رہنا فی نفسہ ممکن ہے اور جو ممکن پر موقوف ہوتا ہے وہ بھی ممکن ہوتا ہے ، لہٰذاثابت ہوا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن تھا۔ سرِ دست یہ تین دلائل عرض کئے ہیں ، ان کے علاوہ قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے اور قیامت کے دن ایمان والے اس سعادت سے بہرہ مند ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں ہے ،حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب عَزَّوَجَلَّ کلام فرمائے گا اس شخص کے اورا س کے رب عَزَّوَجَلَّ کے درمیان کوئی ترجمان ہو گا اور نہ کوئی حجاب ہو گا جو اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے سے مانع ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵۶، الحدیث: ۷۴۴۳۔)
قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(144)
ترجمہ
۔ (اللہ نے) فرمایا: اے موسیٰ! میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰمُوْسٰى:فرمایا اے موسیٰ۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیدار کے مطالبے پر منع فرما دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے انعامات کو گِنوا کر انہیں تسلی دیتے ہوئے شکر کرنے کا حکم دے رہا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’اے موسیٰ! دیدار کا مطالبہ کرنے پر اگرچہ تجھے منع کر دیا گیا لیکن میں نے تمہیں فلاں فلاں عظیم نعمتیں تو عطا فرمائی ہیں لہٰذا دیدار سے منع کرنے پر اپنا سینہ تنگ نہ کرو، تم ان نعمتوں کی طرف دیکھو جن کے ساتھ میں نے تمہیں خاص کیا کہ میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا جبکہ دیگر انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرشتے کے واسطے سے کلام ہوا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے زمانے کے لوگوں پر انتخاب ہوا:
یاد رہے کہ آیت میں جو بیان ہو ا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر منتخب کرلیا ‘‘ اس میں لوگوں سے مراد اُن کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ عزت و مرتبے والے ، شرافت ووجاہت والے تھے کیونکہ آپ صاحبِ شریعت تھے اور آپ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب تورات بھی نازل ہوئی۔ لہٰذا اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تاجدارِ رسا لت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۷۰۸، ملتقطاً)
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍۚ-فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَاؕ-سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ(145)
ترجمہ
اور ہم نے اس کے لیے (تورات کی) تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی (اور فرمایا) اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اس کی اچھی باتیں اختیار کریں ۔ عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ:اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں لکھ دی۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ اَلْاَلْوَاحِ‘‘ یعنی تختیوں سے مراد تورات کی تختیاں ہیں اور آیت کامعنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے تورات کو تختیوں میں لکھ دیا، جن تختیوں میں تورات کو لکھا گیا وہ زبر جد یا زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد سات یا دس تھی۔ تورات عید الاضحی کے دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۳۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰، ملتقطاً)
نیزاس آیت میں مزید یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں :
(1)…ہر چیز کی نصیحت، اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اپنے دین میں حلال حرام اور اچھی بری چیزوں سے متعلق جن احکام کی ضرورت تھی وہ سب تورات میں لکھی ہوئی تھیں۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)
(2)… ہر چیز کی تفصیل، اس کا معنی یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جتنے احکامِ شرعیہ دئیے گئے تھے تورات میں ان تمام احکام کی تفصیل لکھ دی تھی۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع)
(3)… تورات کو مضبوطی سے پکڑنا۔ قوت اور مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کوشش، چستی، ہوشیاری اور شوق سے اس میں موجود احکام پر عمل کرنے کا عزم کر کے اس کو ہاتھ میں لو۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۳ / ۵۸، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ ا س میں خطاب اگرچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کے ساتھ آپ کی قوم بھی ہے۔
(4)…تورات کی اچھی باتیں اختیار کرنے کا حکم دینا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تورات میں جو احکام مذکور ہیں ان میں جو زیادہ بہتر ہو اسے اختیار کرنے کا حکم دو کیونکہ تورات میں عزیمت اور رخصت،جائز اور مُستحب اُمور کا بھی ذکر ہے۔ عزیمت پر عمل کرنا رخصت پر عمل کے مقابلے میں بہترہے (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۷۰۹)
ایک قول یہ ہے کہ تورات میں اَمر و نہی کا بیان ہے ، تو جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے کرنے اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جانے کا حکم دو۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۶ / ۵۹)
اور ایک قول یہ ہے کہ تورات میں فرائض ،نوافل اور مباح کاموں کے احکام ہیں۔ فرائض و نوافل پر عمل کرنا بہترین عمل ہے اور صرف فرائض پر عمل کرنا ا س سے کم درجے کا ہے اور مباح پر عمل کرنا اس سے بھی کم درجے کا ہے۔ تو جو عمل بہترین ہے اس کے کرنے کا حکم دو۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)
{سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ:عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے کئی معنی بیان کئے ہیں۔حضرت حسن اور عطا رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمانے کہا کہ بے حکموں کے گھر سے جہنم مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ کا قول ہے کہ’’ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں شام میں داخل کروں گا اور گزری ہوئی اُمتوں کے منازل دکھاؤں گا جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخالفت کی تاکہ تمہیں اس سے عبرت حاصل ہو ۔ اور عطیہ عوفی کا قول ہے کہ دَارَ الْفٰسِقِیْنَسے فرعون اور اس کی قوم کے مکانات مراد ہیں جومصر میں ہیں۔ اور مفسر سدی کا قو ل ہے کہ اس سے منازلِ کفار مراد ہیں۔ کلبی نے کہا کہ اس سے عاد وثمود اور ہلاک شدہ اُمتوں کے منازل مراد ہیں جن پر عرب کے لوگ اپنے سفروں میں ہو کر گزرا کرتے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۴۰)
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(146)وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(147)
ترجمہ
اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کوپھیردوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں اور اگر وہ سب نشانیاں دیکھ لیں تو بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تواسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے، انہیں ان کے اعمال ہی کا بدلہ دیا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیْ:اور میں اپنی آیتوں سے پھیردوں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ میرے بندوں پر غرور کرتے ہیں اور میرے اولیاء سے لڑتے ہیں میں انہیں اپنی آیتیں قبول کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے پھیردوں گا تاکہ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں۔یہ اُن کے عناد کی سزا ہے کہ انہیں ہدایت سے محروم کیا گیا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۶۷)
تکبر کی تعریف اور ا س کی اَقسام:
اس آیت میں ناحق تکبر کرنے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ تکبر کی تعریف یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر جاننا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ‘‘تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں
(1)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔
(2)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔
(3)…وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، ۲ / ۷۰۷-۷۰۸)
تکبر کی تینوں اقسام کا حکم:
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔
تکبر کا ثمرہ اور انجام:
اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا‘‘ (بقرہ:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌؕ-اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًاۘ-اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(148)وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْاۙ-قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(149)وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًاۙ-قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْۚ-اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْۚ-وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِؕ-قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ﳲ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(150)قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(151)
ترجمہ
اور موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بے جان بچھڑے کو(معبود) بنالیا جس کی گائے جیسی آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ (بچھڑا) ان سے نہ کلام کرتا ہے اور نہ انہیں کوئی ہدایت دیتا ہے؟ انہوں نے اسے (معبود) بنالیا اور وہ ظالم تھے۔ اور جب شرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے لوٹے تو فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا، کیا تم نے اپنے رب کے حکم میں جلدی کی؟ اور موسیٰ نے تختیاں (زمین پر) ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ ( ہارون نے) کہا: اے میری ماں کے بیٹے! بیشک قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور مجھے ظالموں کے ساتھ نہ ملا۔عرض کی: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّخَذَ:اور بنالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کلام کرنے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے تیس دن بعد سامری نے بنی اسرائیل سے وہ تمام زیوارت جمع کر لئے جو انہوں نے اپنی عید کے دن قبطیوں سے استعمال کی خاطر لئے تھے ۔ فرعون چونکہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو چکا تھا، اس لئے یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے اور سامری کی حیثیت بنی اسرائیل میں ایسی تھی کہ لوگ اس کی بات کواہمیت دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ سامری چونکہ سونے کو ڈھالنے کا کام کرتا تھا اس لئے اس نے تمام سونے چاندی کو ڈھال کر اس سے ایک بے جان بچھڑا بنایا۔ پھر سامری نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کے سُم کے نیچے سے لی ہوئی خاک اس بچھڑے میں ڈالی تو اس کے اثر سے وہ گوشت اور خون میں تبدیل ہو گیا (اور بقولِ دیگر وہ سونے ہی کا بچھڑا تھا) اور گائے کی طرح ڈکارنے لگا۔ سامری کے بہکانے پر بنی اسرائیل کے بارہ ہزار لوگوں کے علاوہ بقیہ سب نے اس بچھڑے کی پوجا کی۔ یہ لوگ اتنے بے وقوف اور کم عقل تھے کہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ بچھڑا نہ تو ان سے سوال جواب کی صورت میں کلام کر سکتا ہے، نہ انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھا سکتا ہے تو یہ معبود کس طرح ہو سکتا ہے۔ حالانکہ بنی اسرائیل جانتے تھے کہ رب وہ ہے جو قادرِ مُطْلَق، علیم، خبیر اور ہادی ہو اور نبی کے واسطے سے مخلوق سے کلام فرمائے۔ بچھڑا چونکہ راہ ِہدایت نہ دکھا سکتا تھا اس اعتبار سے وہ جماد کی طرح تھا۔ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اِعراض کر کے ایسے عاجز و ناقص بچھڑے کو پوجا تو وہ ظالم ٹھہرے۔ پھر جب اپنے اس کرتوت پرشرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی مناجات سے مشرف ہو کر کوہ ِطور سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے تو بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خبر دے دی تھی کہ سامری نے اُن کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ آپ کو جھنجلاہٹ اور غصہ سامری پر تھا نہ کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ انہیں سامری نے گمراہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے (قوم سے فرمایا کہ تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ شرک کرنے لگے اور میرے تورات لے کر آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ دوسرے قول کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اپنی قوم کے ان لوگوں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ لوگوں کو بچھڑا پوجنے سے نہ روکا ۔کیا تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم میں جلدی کی اور میرے توریت لے کر آنے کا انتظار نہ کیا؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوم کا ایسی بدترین معصیت میں مبتلا ہونا نہایت شاق اور گراں ہوا تب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میں نے قوم کو روکنے اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے میں کمی نہیں کی لیکن قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جس سے وہ خوش ہوں اور مجھے ظالموں کے ساتھ شمار نہ کرو۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کا عذر قبول کرکے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب! اگر ہم میں سے کسی سے کوئی اِفراط یا تفریط ہوگئی تومجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرما اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔یہ دعا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے مانگی کہ دوسرے لوگ یہ سن کر خوش نہ ہوں کہ بھائیوں میں چل گئی اور اس کے ساتھ یہ وجہ بھی تھی کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا غم غلط ہو جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۰، ۲ / ۱۴۰-۱۴۲، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۱، ۲ / ۲۹۷ -۲۹۹، ملتقطاً)
نوٹ:یہ واقعہ اجمالی طور پر سورۂ بقرہ آیت 51تا54میں گزر چکا ہے، مزید تفصیل کے ساتھ ا س کے علاوہ سورۂِ طٰہٰ میں بھی مذکور ہے ۔
{وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ:اور تختیاں ڈال دیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب اپنی قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو دینی حمیت اور اللہ ربُّ الْعالمین کے ساتھ شرک پر غیرت کی وجہ سے شدید غضبناک ہوئے اور عُجلَت میں تورات کی تختیاں زمین پر رکھ دیں تاکہ ان کا ہاتھ جلدی فارغ ہو جائے اور وہ اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سر پکڑ سکیں۔ اسے قرآنِ پاک میں ڈالنے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ڈالنے میں کسی بھی طرح تورات کی تختیوں کی بے حرمتی مقصود نہ تھی اور وہ جو منقول ہے کہ بعض تختیاں ٹوٹ گئیں تواگر وہ درست ہے تو وہ عجلت میں زمین پر رکھنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوں گی ، نہ یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غرض تھی اور نہ ہی ان کو یہ گمان تھا کہ ایساہو جائے گا ۔یہاں پر صرف دینی حمیت اور فَرطِ غضب کی وجہ سے جلدی میں ان تختیوں کو زمین پر رکھنا مراد ہے۔ (روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۵ / ۹۰-۹۱)
{فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ:تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔} شَمَاتت کا معنی ہے کسی کی تکلیف پر خوش ہونا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۴۲)
شماتت کی مذمت:
فی زمانہ دینی اور دنیوی دونوں شعبوں میں شَمَاتت کے نظارے بہت عام ہیں ، مذہبی لوگ اور اسی طرح کاریگر، دوکاندار، کارخانے ،فیکٹری یا مل میں ملازمت کرنے والے، یونہی کسی کمپنی، ادارے یابینک میں جاب کرنے والے، ان کی اکثریت بھی شَمَاتت یعنی اپنے مسلمان بھائی پر آنے والی مصیبت پر خوش ہونے کے مذموم فعل میں مبتلا نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ اگر آپس میں کسی وجہ سے ناراضی ہو جائے تو پھر جس سے ناراضی ہو تی ہے اگر وہ یا اس کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے، اُس کے یہاں ڈاکہ پڑ جائے یا اس کا مال چوری ہوجائے ،یاکسی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوجائے، یاحادِثہ ہو جائے ، یامُقَدَّمہ قائم ہوجائے یا پولیس گرفتار کر لے، یاگاڑی کا نقصان یا چالان ہو جائے، الغرض وہ کسی طرح کی بھی مصیبت میں پھنس جائے تو ناراض ہونے والے صاحب بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات جو کہ ضرورت سے زیادہ باتونی اور بے عمل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ تو یہاں تک بول پڑتے ہیں کہ دیکھا !ہم کو ستایا تھا نا تو اُس کے ساتھ ’’ ایسا‘‘ ہو گیا ! گویا وہ چھپی باتوں اور سَربَستہ ( یعنی خفیہ ) رازوں کے جاننے والے ہیں اور آں بدولت (یعنی اِن) کو اپنے مخالف پر آنے والی مصیبت کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ذیل میں مذکور روایت اور امام غزالی کے فرمان سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ
حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا تُظْہِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ اللہُ وَیَبْتَلِیْکَ‘‘ اپنے بھائی کی شَماتَت نہ کر (یعنی اس کی مصیبت پر اظہار ِمَسَرَّت نہ کر) کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کردے گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۵۴-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۴)
حضرت امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کہا گیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا’’برا خاتمہ‘‘ ہے ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتے ہیں۔ یہ گناہ’’ ولایت اور کرامت کاجھوٹا دعویٰ کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الرابع من قواعد العقائد فی الایمان والاسلام۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۱)
یاد رہے کہ اگرکسی مسلمان کی مصیبت پر دل میں خود بخود خوشی پیدا ہوئی تو اِس کا قصور نہیں تا ہم اِس خوشی کو دل سے نکالنے کی بھر پور سَعی کرے، اگر خوشی کا اظہار کرے گا تو شماتت کا مُرتکب ہو گا ۔لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف پر خوشی کے اظہار سے بچے اور شیطان کے دھوکے میں آ کر خود کو’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ نہ سمجھے اور اس سے بچنے کی دعا بھی کرتا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مصیبت، بد بختی کے آنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے پناہ مانگا کرتے تھے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من جہد البلاء، ۴ / ۲۰۲، الحدیث: ۶۳۴۷)
{قَالَ:عرض کی۔} یہ دعا ئے مغفرت امت کی تعلیم کے لئے ہے، ورنہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کو اس دعا میں شامل فرمایا حالانکہ ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی۔ نیز اس دعا میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دلجوئی اور قوم کے سامنے ان کے اکرام کا اظہار بھی مقصودتھا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ(152)
ترجمہ
بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود) بنالیا عنقریب انہیں دنیا کی زندگی میں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچے گی اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود)بنالیا ۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ بچھڑا پوجنے والے لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کوہِ طور سے واپس آنے سے پہلے ہی مر گئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ یہودی ہیں کہ جنہوں نے بچھڑے کو پوجااور بعد میں توبہ نہ کی۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۴ / ۳۹۵) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کی۔ اس صورت میں غضب سے مراد قتل ہونا اور ذلت سے مراد گمراہی کا اعتراف کرنا اور قتل ہونے کاحکم تسلیم کرنا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور سیدُ المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پایا اور اُن کے آباء و اَجداد بچھڑے کی پوجا کرتے تھے اور غضب سے مراد آخرت کا عذا ب اور دنیا میں ذلت سے مراد جزیہ دینا ہے۔ عطیہ عوفی کا قول ہے کہ’’ غضب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونا اور ذلت سے مراد انہیں حجاز سے جلا وطن کرنا ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)
{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ:اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو بدلہ دیا اسی طرح ہم ہر اس شخص کو بدلہ دیں گے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے اور غیرِ خدا کی عبادت کرے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں ’’اللہ کی قسم! یہ قیامت تک ہر بہتان باندھنے والے کی جزاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ سزا قیامت تک آنے والے ہر بدعتی کے بارے میں ہے۔حضرت مالک بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ہر بدعتی اپنے سر کے اوپر سے ذلت پائے گاپھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)
بدعت کی تعریف:
بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقائد یا وہ اعمال جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔(جاء الحق، حصہ اول، پہلا باب: بدعت کے معنی اور اس کے اقسام واحکام میں، ص۱۷۷)
بدعت کی اقسام:
بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں (1) بدعتِ حَسنہ (2) بدعتِ سَیّئہ۔ بدعتِ حسنہ یہ ہے کہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو۔ اور بدعتِ سیئہ یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا کہ جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو اورا س کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل ہو رہا ہو۔
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا٘-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(153)
ترجمہ
اور وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے پھر ان کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بیشک اس توبہ وایمان کے بعد تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ:اور وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے۔} اس آیت میں گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کیلئے بہت بڑی بشارت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ِبے پایاں کا ذکر ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے گناہ کا کوئی پہلو نہ چھوڑا یعنی کفر تک کا اِرتِکاب کیا، پھر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لی اور ایمان لایا اورا س توبہ پر قائم رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ بخش دے گا اور اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۲ / ۱۴۳)
اس آیت سے ثابت ہوا کہ گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ جب بندہ اُن سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اپنے فضل و رحمت سے اُن سب کو معاف فرماتا ہے۔
توبہ کے فضائل:
کثیر احادیث میں بھی گناہوں سے سچی توبہ کی قبولیت اور ا س کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ترغیب کے لئے ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۰، الحدیث: ۴۲۴۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہو نے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے (بخاری، کتاب الدعوات، ۴ / ۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)۔
رحمتِ الٰہی کی وسعت :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے بیان پر مشتمل ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و اِنس، حیوانات اور حشراتُ الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں ،ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔( مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۱۹(۲۷۵۲))
وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ۚۖ-وَ فِیْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ(154)
ترجمہ
اور جب موسیٰ کا غصہ تھم گیا تو اس نے تختیاں اٹھالیں اور ان کی تحریر میں ہدایت اور رحمت ہے ان کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ:اور جب موسیٰ کا غصہ تھما۔} اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حالتِ غضب میں جو کچھ صادر ہوا اس کا ذکر کیا گیا اب اس آیت میں غصہ تھم جانے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو واقع ہوا اسے بیان کیا گیا ہے، چنانچہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر قوم میں آکر تحقیق کرنے سے بھی یہ ظاہر ہو گیا کہ ا ن کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی اور انہوں نے جو عذر بیان کیا وہ درست تھا توآپ کا غصہ جاتا رہا اور آپ نے تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ یاد رہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غصہ آیا تو آپ نے دو کام کئے تھے (1) تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں (2) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس کی تلافی میں بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دو کام کئے (1) تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ (2) اپنے بھائی کے لئے دعا کی۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۳۷۴)
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَاۚ-فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَؕ-اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّاۚ-اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَؕ-تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُؕ-اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(155)
ترجمہ
اور موسیٰ نے ہمارے وعدے کے لیے اپنی قوم سے ستر مرد منتخب کرلیے پھر جب انہیں زلزلہ نے پکڑلیا توموسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب! اگر تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا ۔کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ یہ تو نہیں ہے مگر تیری طرف سے آزمانا تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اخْتَارَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے منتخب کرلیے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلی بار رب عَزَّوَجَلَّ سے مناجات کرنے اور تورات لینے تشریف لے گئے تھے۔ اور اس بار گائے کی پوجا کرنے والوں کو معافی دلوانے کیلئے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہر گروہ سے 6 افراد منتخب کر لئے ،چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ گروہ تھے اور جب ہر گروہ میں سے 6 آدمی چنے تودوبڑھ گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ مجھے ستر آدمی لانے کا حکم ہوا ہے اور تم 72ہو گئے اس لئے تم میں سے دو آدمی یہیں رہ جائیں تو وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: رہ جانے والے کو جانے والے کی طرح ہی ثواب ملے گا، یہ سن کرحضرت کالب اور حضرت یوشع عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہ گئے اور کل ستر آدمی آپ کے ہمراہ گئے۔ یہ ستر افراد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی۔ (جمل مع جلالین، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۳ / ۱۱۹) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں روزہ رکھنے، بدن اور کپڑے پاک کرنے کا حکم دیا پھر ان کے ساتھ طورِ سَینا کی طرف نکلے، جب پہاڑ کے قریب پہنچے تو انہیں ایک بادل نے ڈھانپ لیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے ساتھ اس میں داخل ہو گئے اور سب نے سجدہ کیا۔ پھر قوم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بارے جو حکم دیا وہ توبہ کیلئے اپنی جان دینا تھا ۔ جب کلام کا سلسلہ ختم ہو نے کے بعد بادل اٹھا لیا گیا تو یہ لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے’’ توبہ میں اپنی جانوں کو قتل کرنے کا جو حکم ہم نے سنا اس کی تصدیق ہم اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اعلانیہ دیکھ نہ لیں۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں شدید زلزلے نے آ لیا اور وہ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۳۰۱، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۷۱۵، ملتقطاً) یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو چاہتا تو یہاں حاضر ہونے سے پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا تاکہ بنی اسرائیل ان سب کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور انہیں مجھ پر قتل کی تہمت لگانے کا موقع نہ ملتا۔ اب جو میں اکیلا واپس جاؤں گا تو بنی اسرائیل کہیں گے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سب کو مروا آئے ہیں۔ اے مولا! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ انہوں نے جو کیا یہ تو تیری ہی طرف سے آزمائش ہے تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرمااور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شفاعت ِنبی برحق ہے جس سے دنیا ودین کی آفتیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سب کی شفاعت فرمائی جو اُن کے کام آئی۔
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ-قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ(156)
ترجمہ
اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے ، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا: میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو عنقریب میں اپنی رحمت ان کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیز گار ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اكْتُبْ لَنَا:اور ہمارے لیے لکھ دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زلزلے کے وقت جودعا مانگی اس آیت میں اس کا بقیہ حصہ ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ دنیا کی بھلائی سے پاکیزہ زندگی اور نیک اعمال مراد ہیں اور آخرت کی بھلائی سے جنت، اللہ تعالیٰ کا دیدار اور دنیا کی نیکیوں پر ثواب مراد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کی بھلائی سے مراد نعمت اور عبادت ہے اور آخرت کی بھلائی سے مراد جنت ہے اور اس کے علاوہ اور کیا بھلائی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے بعد فرمایا کہ:’’میری شان یہ ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں کوئی اور اس میں دخل اندازی کر ہی نہیں سکتا اور میری رحمت کی شان یہ ہے کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ،دنیا میں ہر مسلمان،کافر، اطاعت گزار اور نافرمان میری نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۴ / ۳۹۹، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۳۷۸، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۱۰۳، ملتقطاً)
{فَسَاَكْتُبُهَا:عنقریب میں آخرت کی نعمتوں کو لکھ دوں گا۔} جب یہ آیت نازل ہوئی ’’وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ‘‘ تو ابلیس بہت خوش ہوا اور کہنے لگا میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت میں داخل ہو گیا، اور جب آیت کا یہ حصہ ’’ فَسَاَكْتُبُهَا‘‘ نازل ہوا تو ابلیس مایوس ہو گیا۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۷۱۵-۷۱۶)
یہودیوں نے جب اس آیت کو سنا تو کہنے لگے ہم متقی ہیں اور ہم زکوٰۃ دیتے ہیں اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تواگلی آیت نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ فضائل امتِ محمدیہ کے ساتھ خاص ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۱۴۶)
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)
ترجمہ
وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب ) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ:وہ جو رسول کی غلامی کرتے ہیں۔}مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں رسول سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔ آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر وصف ِرسالت سے فرمایا گیا کیونکہ آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں ، رسالت کے فرائض ادا فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اَوامرو نَواہی ، شرائع و احکام اس کے بندوں کو پہنچاتے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
نبی اور اُمّی کا ترجمہ:
اس کے بعد آپ کی توصیف میں ’’نبی ‘‘فرمایا گیا، اس کا ترجمہ سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’غیب کی خبریں دینے والے‘‘ کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نَبَاْ ’’ خبر‘‘ کے معنیٰ میں ہے اور نبی کی منفرد خبر بطورِ خاص غیب ہی کی خبر ہوتی ہے تو اس سے مراد غیب کی خبر لینا بالکل درست ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ خبر کے معنیٰ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا:
’’قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ‘‘(ص:۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہ (قرآن) ایک عظیم خبر ہے۔
ایک جگہ فرمایا:
’’تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ‘‘(ہود:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔
ایک جگہ فرمایا:
’’ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْ‘‘(البقرہ:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے۔
ان کے علاوہ بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنیٰ میں مذکور ہے۔
پھر یہ لفظ یا فاعل کے معنی میں ہوگا یا مفعول کے معنی میں۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہیں ’’غیب کی خبریں دینے والے ‘‘اور دوسری صورت میں اس کے معنی ہوں گے’’ غیب کی خبریں دیئے ہوئے ‘‘ اور ان دونوں معنی کی تائید قرآنِ کریم سے ہوتی ہے ۔پہلے معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘ (حجر:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میرے بندوں کو خبردو۔
دوسری آیت میں فرمایا:
’’ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ‘‘ (ال عمران :۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے حبیب!)تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں بتادوں ؟
اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشاد جو قرآنِ کریم میں وارد ہوا:
’’وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْ‘‘(آل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
اس کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے ۔اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘‘(التحریم:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:مجھے علم والے خبردار (اللہ) نے بتایا۔
اور حقیقت میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ تفسیر خازن میں ہے کہ ’’ آپ کے وصف میں ’’نبی‘‘ فرمایا، کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مَراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہت بلند درجے رکھنے والے اور اس کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
اُمّی کا ترجمہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا۔ یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔( خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۷) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں۔
ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں
{یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ:اسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔} یعنی اپنے پاس توریت و انجیل میں آپ کی نعت و صفت او رنبوت لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تورات و انجیل میں مذکور اوصافِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
صحیح بخاری میں ہے، حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں تو انہوں نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جو اوصاف قرآنِ کریم میں آئے ہیں انہیں میں سے بعض اوصاف توریت میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا: اے نبی! ہم نے تمہیں شاہد و مُبَشِّر اور نذیر اور اُمِّیُّوں کا نگہبان بنا کر بھیجا، تم میرے بندے اور میرے رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا،نہ بدخلق ہو نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے ہو نہ برائی سے برائی کو دفع کرنے والے بلکہ خطا کاروں کو معاف کرتے ہو اور ان پر احسان فرماتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں نہ اٹھائے گا جب تک کہ تمہاری برکت سے غیر مستقیم ملت کو اس طرح راست نہ فرمادے کہ لوگ صدق و یقین کے ساتھ ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیں بینا اور بہرے کان شنوا (سننے والے) اور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہوجائیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ السخب فی السوق، ۲ / ۲۵، الحدیث: ۲۱۲۵)
اور حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفات میں توریت شریف کا یہ مضمون بھی منقول ہے کہ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت میں فرمایا کہ’’میں اُنہیں ہر خوبی کے قابل کروں گا، اور ہر خُلقِ کریم عطا فرماؤں گا، اطمینانِ قلب اور وقار کو اُن کا لباس بناؤں گا اور طاعات وا حسان کو ان کا شعار کروں گا۔ تقویٰ کو ان کا ضمیر، حکمت کو ان کا راز، صدق و وفا کو اُن کی طبیعت ،عفوو کرم کو اُن کی عادت ، عدل کو ان کی سیرت، اظہارِ حق کو اُن کی شریعت، ہدایت کو اُن کا امام اور اسلام کو اُن کی ملت بناؤں گا۔ احمد اُن کا نام ہے، مخلوق کو اُن کے صدقے میں گمراہی کے بعد ہدایت اور جہالت کے بعد علم و معرفت اور گمنامی کے بعد رفعت و منزلت عطا کروں گا۔ اُنہیں کی برکت سے قلت کے بعد کثرت اور فقر کے بعد دولت اور تَفَرُّقے کے بعد محبت عنایت کروں گا، اُنہیں کی بدولت مختلف قبائل، غیر مجتمع خواہشوں اور اختلاف رکھنے والے دلوں میں اُلفت پیدا کروں گا اور اُن کی اُمت کو تمام اُمتوں سے بہتر کروں گا۔(الشفاء، القسم الاول فی تعظیم اللہ تعالی لہ، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ، الفصل الثانی، ص۲۵-۲۶)
ایک اور حدیث میں توریت شریف سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہ اوصاف منقول ہیں ’’میرے بندے احمد مختار، ان کی جائے ولادت مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے،اُن کی اُمت ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کثیر حمد کرنے والی ہے۔ (ابن عساکر، باب ما جاء من انّ الشام یکون ملک اہل الاسلام، ۱ / ۱۸۶-۱۸۷)
حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اہلِ کتاب ہر زمانے میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور اُن کی بڑی کوشِش اس پر مُسلَّط رہی کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر اپنی کتابوں میں نام کو نہ چھوڑیں۔توریت انجیل وغیرہ اُن کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیاں کرنے بعد بھی موجودہ زمانے کی بائیبل میں حضور سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور۱۹۳۱ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے: ’’ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے، اس میں اس کے معنی’’ وکیل یا شفیع‘‘ لکھے ہیں تو اب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہوبجز سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کون ہے ؟پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے:’’ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ کیسی صاف بشارت ہے اور حضرت ِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اُمت کو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا کیسا مُنتظر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دُنیا کا سردار خاص سیّدِ عالم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ ’’ مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کا اظہار، اُس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے۔
پھر اسی کتاب کے باب سولہ کی ساتویں آیت ہے’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘ اس میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں۔آپ کا ظہور جب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرہویں آیت ہے’’لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ اس آیت میں بتایا گیا کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد پر دینِ الہٰی کی تکمیل ہوجائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دینِ حق کو مکمل کردیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اُن کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور یہ کلمے کہ’’اپنی طرف سے نہ کہے گا جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘ خاص ’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘(نجم:۳، ۴) کا ترجمہ ہے اور یہ جملہ کہ’’ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘ اس میں صاف بیان ہے کہ وہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیبی علوم تعلیم فرمائیں گے ،جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا ’’یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۵۱)(تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جوتمہیں معلوم نہیں تھا۔) اور ’’مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (التکویر:۲۴)( یہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔)‘‘(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۲۱)
{وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ:اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔} یعنی جو حلال و طیب چیزیں بنی اسرائیل پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے حرام ہو گئی تھیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں حلال فرما دیں گے اور بہت سی خبیث و گندی چیزوں کو حرام کریں گے۔
{وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ:اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔} بوجھ سے مراد سخت تکلیفیں ہیں جیسا کہ توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنا اور جن اعضاء سے گناہ صادر ہوں ان کو کاٹ ڈالنا اور قید سے مراد مشقت والے احکام ہیں جیسا کہ بدن اور کپڑے کے جس مقام کو نجاست لگے اس کو قینچی سے کاٹ ڈالنا اور غنیمتوں کو جلانا اور گناہوں کا مکانوں کے دروازوں پر ظاہر ہونا وغیرہ۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۹۰)
{وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ:اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اعتقادی، عملی، قولی، فعلی، ظاہری، باطنی ہر طرح لازم ہے بلکہ رکنِ ایمان ہے ۔
{وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ:اور نور کی پیروی کریں۔} اس نور سے قرآن شریف مراد ہے جس سے مومن کا دِل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۸)
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دنیا و آخرت میں بھلائی لکھ دینے کی دعا اپنی امت کے لئے فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شان امتِ محمدی کی ہے ، سُبْحَانَ اللہ اور ساتھ ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل اور امتِ مرحومہ کے مناقب انہیں سنا دئیے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پہلے بھی عالَم میں مشہور تھی مگر اس امت کی نیکیاں شائع کر دی گئی تھیں اور ان کے گناہوں کا ذکر نہ کیا تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی مشہور کر دئیے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘ (الفتح: ۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ ان کی صفت توریت میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(158)
ترجمہ: تم فرماؤ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ،ایسا نہیں کہ بعض کا تو رسول ہوں ا ور بعض کا نہیں۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸)
عمومِ رسالت کی دلیل:
یہ آیت سَرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عمومِ رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام مخلوق کیلئے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی اُمت ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں (1) ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سُرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ (2) میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوئی تھیں۔(3) میرے لئے زمین پاک اور پاک کرنے والی (یعنی تیمم کے قابل) اور مسجد کی گئی جس کسی کو کہیں نماز کا وقت آئے وہیں پڑھ لے۔(4) دشمن پر ایک ماہ کی مسافت تک میرا رعب ڈال کر میری مدد فرمائی گئی۔ (5) اور مجھے شفاعت عنایت کی گئی۔ (بخاری ، کتاب الصلاۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: جعلت لی الارض مسجداً وطہوراً، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۴۳۸، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۵، الحدیث: ۳ (۵۲۱)) اور مسلم شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ’’ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵ (۵۲۳))
{اَلَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔} اس آیت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیاکہ آپ لوگوں سے فرما دیں کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ، اور اب ان کے دعویٰ کے درست ہونے کی دلیل بیان کی جارہی ہے کہ جس خدا کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور وہ ان کی تدبیر فرمانے والا اور ان کے تمام امور کامالک ہے اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے اور مجھے حکم دیاہے کہ میں تم سے کہوں :میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ اپنی مخلوق کو زندہ کرنے اور انہیں موت دینے پر قدرت رکھتا ہے اور جس کی ایسی شان ہو تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرف کسی رسول کو بھیج دے تو تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ جن کی شان یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ،کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اے لوگو!تم ان کی غلامی اختیار کر لو اور وہ تمہیں جس کام کا حکم دیں اسے کرو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آ جاؤ تاکہ تم ان کی پیروی کر کے ہدایت پاجاؤ۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸-۱۴۹)
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ(159)
ترجمہ
اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ وہ ہے جوحق کی راہ بتا تا ہے اور اسی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ:اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ۔} یعنی بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے باوجود اُن میں سے ایک جماعت حق پر بھی قائم رہی۔ حق پر قائم رہنے والے گروہ سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے والوں سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، کیونکہ یہ پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تورات پر ایمان لائے پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن پر بھی ایمان لائے (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۳۸۷)
اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت منسوخ ہونے سے پہلے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا، اس میں کوئی تبدیلی نہ کی اور نہ ہی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۴ / ۴۰۴) ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًاؕ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَۚ-فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(160)
ترجمہ: اور ہم نے انہیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے الگ الگ جماعت بنادیا اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی جب اُس سے اس کی قوم نے پانی ما نگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہوگئے، ہر گروہ نے اپنے پینے کی جگہ کو پہچان لیااور ہم نے ان پربادلوں کا سایہ کیا اور ان پر من و سلویٰ اتارا (اور فرمایا) ہماری دی ہوئی پاک چیزیں کھاؤ اور انہوں نے (ہماری نافرمانی کرکے) ہمارا کچھ نقصان نہ کیا لیکن اپنی ہی جانوں کا نقصان کرتے رہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا:اور ہم نے انہیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے الگ الگ جماعت بنادیا۔} بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا کیونکہ یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے پیدا ہوئے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا تاکہ یہ باہم حسد نہ کریں اور ان میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی نوبت نہ آئے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۵ / ۳۸۸)
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓــٴٰـتِكُمْ ؕ-سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(161)فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ(162)
ترجمہ: اور یاد کرو جب ان سے فرمایا گیا کہ اِس شہر میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو چاہو کھاؤ اور یوں کہو ’’ہماری بخشش ہو‘‘ اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے (اور) نیکی کرنے والوں کو عنقریب اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔ تو ان میں سے ظالموں نے جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے دوسری بات سے بدل دیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا کیونکہ وہ ظلم کرتے تھے ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ: اور یادکرو جب ان سے فرمایا گیا۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر58کے تحت گزر چکی ہے۔
{فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا:تو ان میں سے ظالموں نے بات بدل دی۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر 59 کے تحت گزر چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں حکم تو تھا کہ حِطَّۃُ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں ، حِطَّۃُ توبہ اور اِستغفار کا کلمہ ہے لیکن وہ بجائے اس کے براہ ِتَمَسْخُر حِنْطَۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ اس بنا پر ان پر عذاب نازل ہوا اوروہ عذاب طاعون کی وبا تھی جس سے ایک ساعت میں چوبیس ہزار اسرائیلی فوت ہو گئے۔
وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِۘ-اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَۙ-لَا تَاْتِیْهِمْۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(163)وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(164)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ (165)فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ(166)
ترجمہ: اور ان سے اُس بستی کا حال پوچھو جودریاکے کنارے پرتھی، جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ،جب ہفتے کے دن تومچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے سامنے آتیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا اس دن مچھلیاں نہ آتیں ۔اسی طرح ہم ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کی آزمائش کرتے تھے۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والاہے؟ انہوں نے کہا: تمہارے رب کے حضور عذر پیش کرنے کے لئے اور شاید یہ ڈریں ۔ پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے سبب برے عذاب میں گرفتار کردیا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سْــٴَـلْهُمْ:اور ان سے پوچھو۔} شانِ نزول:سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو ان کے کفر پر سرزنش کرتے اور ان سے فرمایا کرتے کہ تم لوگ اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر ہو کہ انہوں نے ہمیشہ پچھلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ۔ (اور تم میری مخالفت کر رہے ہو۔) اس پر یہودی بولے ’’ہمارے باپ دادا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار اور اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اطاعت گزار تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ واقعی ان کے باپ دادا اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر ان کا خیال تھا کہ ان واقعات کی کسی کو خبر نہیں ، اس لئے اپنے باپ دادوں کی معصومیت کے ڈھنڈورے پیٹتے تھے ۔تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جس میں ان کے پول کھول دئیے گئے اور وہ لوگ حیران رہ گئے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۷۱۹)
اس آیت میں خطاب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے کہ آپ اپنے قریب رہنے والے یہودیوں سے سرزنش کے طور پر اس بستی والوں کا حال دریافت فرمائیں۔اس سوال سے مقصود کفار پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات کا انکار کرنا یہ اُن کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کفر و معصیت تو ان کا پرانا دستور ہے کہ ان کے آباؤ اَجداد بھی کفر پر قائم رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۰)
{عَنِ الْقَرْیَةِ: بستی کا حال۔} اس بستی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ وہ مصر و مدینہ کے درمیان ایک قریہ ہے۔ ایک قول ہے کہ مدین وطور کے درمیان ایک بستی ہے۔ امام زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایاکہ وہ قریہ، طبریۂ شام ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ ہے کہ وہ بستی مَدین ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بستی اِیلہ ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۱، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۶۷، ملتقطاً)
{اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ:جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ۔} اس آیت اور اس سے بعد والی 3 آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس بستی میں رہنے والے بنی اسرائیل کواللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کرنے اور اس دن تمام دنیاوی مشاغل ترک کرنے کا حکم دیا نیز ان پر ہفتے کے دن شکار حرام فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ فرمایا تو ہوا یوں کہ ہفتے کے دن دریا میں خوب مچھلیا ں آتیں اوریہ لوگ پانی کی سطح پر انہیں دیکھتے تھے، جب اتوار کا دن آتا تو مچھلیا ں نہ آتیں۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہیں مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے حوض بنالو اور ہفتے کے دن دریا سے ان حوضوں کی طرف نالیاں نکال لو، یوں ہفتے کو مچھلیاں حوض میں آ جائیں گی اور تم اتوار کے دن انہیں پکڑ لینا، چنانچہ ان کے ایک گروہ نے یہ کیا کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودے اور ہفتے کی صبح کو دریا سے ان گڑھوں تک نالیاں بنائیں جن کے ذریعے پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہو گئیں اور اتوار کے دن انہیں نکال لیا اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے دی کہ ہم نے ہفتے کے دن تو مچھلی پانی سے نہیں نکالی ۔ ایک عرصے تک یہ لوگ اس فعل میں مبتلا رہے ۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے اس بستی میں بسنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
(1)…ان میں ایک تہائی ایسے لوگ تھے جوہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔
(2)… ایک تہائی ایسے افراد تھے جو خودخاموش رہتے اوردوسروں کو منع نہ کرتے تھے جبکہ منع کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ ہلاک کرنے والا یاانہیں سخت عذاب دینے والا ہے ۔
(3)… اورایک گروہ وہ خطاکار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور ہفتے کے دن شکار کیا، اسے کھایا اور بیچا۔
جب مچھلی کا شکار کرنے والے لوگ اس معصیت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے ان سے کہا کہ’’ ہم تمہارے ساتھ میل برتاؤ نہ رکھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں کو تقسیم کرکے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی۔ منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے اور خطا کاروں کا دروازہ جدا تھا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان خطا کاروں پر لعنت کی تو ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطاکاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ہوں گے، چنانچہ اُنہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہوگئے تھے۔ اب یہ لوگ دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے اور ان کے پاس آکر اُن کے کپڑے سونگھتے تھے اور یہ لوگ ان بندر ہوجانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ اِن لوگوں نے بندر ہوجانے والوں سے کہا:’’ کیا ہم لوگوں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اُنہوں نے سرکے اشارے سے کہا: ہاں۔ اس کے تین دن بعد وہ سب ہلاک ہوگئے اور منع کرنے والے سلامت رہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امی ہونے اور پچھلی کتابں پڑھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی اِن واقعات کی خبر دینا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے یہودیوں کے سامنے ان کے آباء واَجداد کے اعمال اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ان کا بندر و خنزیر کی شکلوں میں تبدیل ہو جانا سب بیان فرما دیا۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳ و۱۶۶، ۲ / ۱۵۱-۱۵۲)
شرعی احکام باطل کرنے کے لئے حیلہ کرنے والوں کو نصیحت:
اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے کہ جو شرعی احکام کو باطل کرنے اورا نہیں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کیلئے طرح طرح کے غیر شرعی حیلوں کا سہارا لیتے ہیں ، انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ا س کی پاداش میں ان کی شکلیں بھی نہ بگاڑ دی جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جیسا یہودیوں نے کیا تم ا س طرح نہ کرنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو ۔ (در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۵۹۲)
یاد رہے کہ حکمِ شرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا البتہ حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔ عوامُ الناس کو چاہئے کہ پہلے حیلے سے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کریں اس کے بعد حیلہ کریں تاکہ معلومات میں کمی کی وجہ سے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔
نوٹ: اس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ بقرہ آیت65 میں گزر چکی ہیں۔
{وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا۔} اس آیت میں تیسرے گروہ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے خاموشی اختیار کی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ لوگ مچھلی کے شکار پر بالکل راضی نہ تھے بلکہ ان سے مُتَنَفِّر تھے جبکہ انہیں سمجھاتے اس لئے نہیں تھے کہ ان کے ماننے کی امید نہ تھی۔ اس سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ لوگ بھی نجات پا گئے تھے کیونکہ جب کسی کے ماننے کی امید نہ ہو تو امر بالمعروف کرنا فرض نہیں رہتا ، ہاں افضل ضرور ہوتا ہے نیز امر بالمعروف فرضِ کفایہ ہے لہٰذا جب ایک گروہ یہ کرہی رہا تھا تو ان پر بِعَیْنِہٖ فرض نہ رہا۔
{كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔} حدیث شریف میں ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا بندر اور خنزیر مَسخ شدہ لوگ ہیں ؟ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک کر کے یا کسی قوم کو عذاب دے کر ا س کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور خنزیر تو ان سے پہلے بھی ہوتے تھے۔ (مسلم، کتاب القدر، باب بیان انّ الآجال والارزاق وغیرہا۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۲، الحدیث: ۳۳ (۲۶۶۳)) لہٰذا موجودہ بندر اس قوم کی اولاد میں سے نہیں کیونکہ وہ تو فنا کر دی گئی۔
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِؕ-اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ۚۖ-وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(167)
ترجمہ: اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ ضرور قیامت کے دن تک ان پر ایسوں کو بھیجتا رہے گا جو انہیں برا عذاب دیتے رہیں گے بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ:اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی سرکشی، گناہ پر دیدہ دلیری اورا س کی سزا میں مسخ کر کے بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ قیامت تک یہودیوں کے لئے ذلت اور غلامی مقدر کر دی گئی ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۵ / ۳۹۳)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہودیوں کے آباء واَجداد کو ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے یہ خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک یہودیوں پر ایسے افراد مُسلَّط کرتا رہے گا جو انہیں ذلت اور غلامی کا مزہ چکھاتے رہیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر بخت نصر، سنجاریب، اور رومی عیسائی بادشاہوں کو مسلط فرمایا جو اپنے اپنے زمانوں میں یہودیوں کو سخت ایذائیں پہنچاتے رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۲ / ۱۵۲) پھر مسلمان سَلاطین ان پر مقرر ہوئے، پھر انگریزوں کی غلامی میں رہے،قریب کے دور میں جرمنی میں ہٹلر نے انہیں چن چن کر قتل کیا اور اپنے ملک سے نکال دیا۔ یہودیوں کی حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ کوئی سلطنت انہیں اپنے ملک میں رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی کسی سلطنت نے اجتماعی طور پر انہیں اپنے ملک میں نہ رکھا بلکہ انہیں فلسطین میں آباد کیا اور یہیں سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بڑی تباہی کا آغاز ہوگا۔
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاۚ-مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ٘-وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(168)
ترجمہ: اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا، ان میں کچھ صالحین ہیں اور کچھ اس کے علاوہ ہیں اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا تا کہ وہ لوٹ آئیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا:اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں کی جمعیت کو مُنْتَشِر کر دیا اور ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، موجودہ یہودیوں میں کچھ نیک بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ا یمان لائے اور دین پر ثابت رہے اور ان کے علاوہ کچھ ایسے ہیں کہ جنہوں نے نافرمانی کی ، کفر کیا اور دین کو بدل ڈالا ۔ اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا اس طرح کہ کبھی ان پر اَرزانی ، تندرستی اور دنیوی عزت کے دروازے کھول دئیے اور کبھی ان پر قحط ، بیماریوں ، مصیبتوں اور ذلتوں کو مُسلَّط کر دیا تا کہ وہ اپنی نافرمانیوں سے لوٹ آئیں کیونکہ بعض تو مصیبت میں رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کر تے ہیں اور بعض راحتوں میں۔
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاۚ-وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُؕ-اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِؕ-وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(169)
ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے جو کتاب کے وارث ہوئے وہ اس دنیا کا مال لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری مغفرت کردی جائے گی حالانکہ اگر ویسا ہی مال ان کے پاس مزید آجائے تو اسے (بھی) لے لیں گے۔ کیا کتاب میں ان سے یہ عہد نہیں لیا گیا تھا؟ کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور وہ پڑھ چکے ہیں جو اس کتاب میں ہے اور بیشک آخرت کاگھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے،تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کے ناخلف جانشینوں کے چند عیب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ رشوت لے کر توریت کے احکام بدل دیتے۔
(2)… نافرمانی کے باوجود یہ کہتے کہ ہمارا یہ گناہ بخش دیا جائے گا ا س پر ہماری پکڑ نہ ہو گی۔
(3)… اس جرم پر قائم رہے کہ جب رشوت ملی اسے لے کر شرعی حکم بدل دیا۔
(4)…یہ سارے جرم نادانی میں نہیں بلکہ دیدہ و دانستہ کرتے رہے۔
نافرمانیوں کے باوجود بخشش کی تمنا رکھنا کیسا ہے؟
اس آیت میں یہودیوں کی ایک سرکشی یہ بیان ہوئی کہ ’’ نافرمانیوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اورا س پر ان کی پکڑ نہ ہو گی‘‘ یہودیوں کی ا س سر کشی کی بنیاد یہ تھی کہ یہ لوگ اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں اس لئے ان گناہوں پر ہم سے کچھ مُؤاخذہ نہ ہوگا۔ فی زمانہ بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اپنی بد اعمالیوں کے باوجود خود کوآخرت کے اجرو ثواب کا حق دار سمجھتے ہیں یونہی بعض سمجھدار قسم کے لوگ شیطان کے اس دھوکے میں پھنس کر گناہوں میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم اگرچہ گناہگار ہیں لیکن فلاں کامل پیر صاحب کے مرید ہیں لہٰذا ہم بخشے جائیں گے اور گناہوں پرہماری پکڑ نہ ہو گی۔ ایسے حضرات خود ہی غور کر لیں کہ ان کا یہ طرزِ عمل کن کی عکاسی کر رہا ہے، شائد یہ وہی دور ہے کہ جس کی خبر اس روایت میں دی گئی ہے، حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے، وہ کسی شوق اور لذت کے بغیر قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے، ان کے اعمال صرف طمع اور حرص ہوں گے۔وہ ا