سُوْرَۃ عَبَسَ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى(1)اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰىﭤ(2)وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّكّٰۤى(3)اَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰىﭤ(4)اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰىﭤ(6)وَ مَا عَلَیْكَ اَلَّا یَزَّكّٰىﭤ(7)وَ اَمَّا مَنْ جَآءَكَ یَسْعٰى(8)وَ هُوَ یَخْشٰى(9)فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔اس بات پر کہ ان کے پاس نابینا حاضر ہوا۔اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ ہوجائے۔یا نصیحت حاصل کرے تو نصیحت اسے فائدہ دے۔بہرحال وہ شخص جو بے پروا بنا۔توتم اس کے پیچھے پڑتے ہو۔ اور تم پر اس بات کا کوئی الزام نہیں کہ وہ (کافر) پاکیزہ نہ ہو۔اوررہا وہ جو تمہارے حضور دوڑتا ہوا آیا۔اور وہ ڈررہا ہے ۔تو تم اسے چھوڑ کر (دوسری طرف) مشغول ہوتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَبَسَ وَ تَوَلّٰى: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔} اس سورت کی ابتدائی دس آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت اور اپنی بار گاہ میں  ان کی محبوبیّت کے ایک پہلو کو بیان فرمایا ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے اجتہاد سے ایک کام کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اسے دوسرے کام پر فَوقِیَّت دی اور دوسرے کام کی طرف توجہ نہ فرمائی تواس پر اللّٰہ تعالیٰ نے لطیف انداز میں  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمائی۔ ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں  عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام ، عبا س بن عبدالمطلب ، اُبی بن خلف اور اُمیہ بن خلف کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اسی دوران حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے جو کہ نابینا تھے اوراُنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو بار بار ندا کرکے عرض کی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو آپ کو سکھایا ہے وہ مجھے تعلیم فرمائیے۔ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ نہ سمجھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دوسروں  سے گفتگو فرمارہے ہیں  اور میرے ندا کرنے سے قطعِ کلامی ہوگی۔ یہ بات حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو گراں  گزری اور ناگواری کے آثار چہرۂ اَقدس پر نمایاں ہوئے یہاں  تک کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دولت سرائے اقدس کی طرف واپس تشریف لے آئے ۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں  اور اس آیت اور ا س کے بعد والی 9آیات میں فرمایا گیا کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ  سَلَّمَ نے اس بات پر اپنے ماتھے پر شکن چڑھائی اور منہ پھیرا کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کو کیا معلوم کہ شاید وہ آپ کا ارشاد سن کر پاکیزہ ہوجائے یاآپ کے کلام سے نصیحت حاصل کرے تو وہ نصیحت اسے فائدہ دے۔جبکہ دوسراوہ شخص جو اپنے مال کے تکبر میں  مبتلا ہونے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے اورایمان لانے سے بے پرواہوا تو آپ اس کے پیچھے پڑتے ہیں  اور اس کے ایمان لانے کی امیدمیں  اس پر کوشش کرتے ہیں  (تاکہ دین ِاسلام کی قوت میں  اضافہ ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں ) حالانکہ آپ پر اس بات کا کوئی اِلزام نہیں  کہ وہ کافر ایمان لا کر اور ہدایت پا کر پاکیزہ نہ ہو کیونکہ آپ کے ذمہ دعوت دینا اور اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ابنِ اُمِّ مکتوم ،جو بھلائی کی طلب میں  تمہارے حضور ناز سے دوڑتا ہوا آیا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتاہے تو آپ اسے چھوڑ کر دوسری طرف مشغول ہوتے ہیں ، ایسا کرنا آپ کی شان کے لائق ہرگز نہیں۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱-۱۰،۴ / ۳۵۳، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۱۳۲۱، جلالین، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۴۹۰، ملتقطاً)

             یہاں  یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو طرح کے لوگ تھے ، ایک مالدارکفار جن کے اسلام لانے سے خود اُن کفار کو اور اسلام و مسلمانوں  کو فائدہ تھا جبکہ دوسری طرف نابینا مسلمان صحابی تھا۔ دونوں  کے اعتبار سے یہاں  تین پہلو تھے ،

          پہلا یہ کہ مالدارکفار ، خصوصاً سردار ہر وقت تبلیغ کے لئے مُیَسَّر نہیں  ہوتے تھے اور اُس خاص وقت کے علاوہ دوسرے وقت ان کا ایمان کی بات سننے کیلئے آنا یقینی نہیں  تھاجبکہ صحابی ہر وقت حاضر رہتے اور اُس خاص وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں  ان کا آنا یقینی تھا۔

          دوسر ا پہلو یہ تھا کہ کفار سے بات اِیمانیات کے متعلق ہورہی تھی جبکہ صحابی سے بات ایمان کی تکمیل یا عمل وغیرہ کے متعلق ہونی تھی اور ایمان کا معاملہ اس کی تکمیل اور اعمال سے زیادہ اہم ہے ۔

           تیسرا پہلو یہ تھا کہ کفار کا ایمان لانا یقینی نہیں  تھا جبکہ صحابی کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فرمان پر عمل نسبتاً یقینی تھا۔ ان تینوں  باتوں  کو سامنے رکھتے ہوئے اب آیت اور اس واقعے کا مفہوم سمجھیں  کہ پہلے دو پہلوؤں  کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے بات کرنے کو ترجیح دی جائے جبکہ تیسرے پہلو کا تقاضا تھا کہ صحابی سے بات کرنے کو ترجیح دی جائے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے پہلے دو پہلوؤں  کو کثرتِ فوائد کے پیشِ نظر اپنے اِجتہاد سے ترجیح دی جبکہ حکمِ الٰہی میں  بتادیا گیا کہ تیسرا پہلو جو یقینی تھا اسے پہلے والے دو غیر یقینی پہلوؤں  پر ترجیح دی جانی چاہیے تھی چنانچہ اسی کے حوالے سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمادی گئی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو آپ کی تمام جہانوں  کے لئے رحمت ہونے والی شان کے مطابق انداز اپنانے کا بھی فرمادیا گیا کہ اس طرح کے معاملات میں  چہرے پر تیوری نہ چڑھائی جائے۔

{اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى: اس بات پر کہ ان کے پاس نابینا حاضر ہوا۔} حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نابینا فرما کر ان کی تحقیر نہیں  کی گئی بلکہ ا س میں  ان کی معذوری کی طرف اشارہ ہے کہ ان سے قطعِ کلامی بینائی نہ ہونے کی وجہ سے واقع ہوئی اور ا س وجہ سے وہ مزید نرمی کئے جانے کے مستحق تھے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان:

             ان آیات کے نازل ہونے کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت عزت فرماتے تھے اور خود ان سے ان کی حاجتیں  دریافت فرماتے۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوات کے دوران دو مرتبہ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مدینہ منورہ میں  اپنا نائب بنایا اور حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِقادسیہ میں  شہید ہوئے۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۵۲، روح المعانی، عبس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۵ / ۳۳۸، ملتقطاً)

كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ(11)فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗﭥ(12)فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ(13)مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ(14)بِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ(15)كِرَامٍۭ بَرَرَةٍﭤ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

ایسے نہیں ، بیشک یہ باتیں نصیحت ہیں ۔ تو جو چاہے اسے یا د کرے۔ان عزت والے صحیفوں میں ۔ جو بلندی والے پاکی والے ہیں ۔ان لکھنے والوں کے ہاتھوں سے (لکھے ہوئے)۔جو معزز نیکی والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ باتیں  نصیحت ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بے شک قرآن کی آیات مخلوق کے لئے نصیحت ہیں  تو بندوں  میں  سے جو چاہے ان آیات کو یا د کرکے ان سے نصیحت حاصل کرے اور ان کے تقاضوں  کے مطابق عمل کرے اور جو چاہے ان سے اِعراض کرے اور یہ آیات ان صحیفوں  میں  لکھی ہوئی ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے، بلند قدر والے اور پاکی والے ہیں  کہ انہیں  پاکوں  کے سوا کوئی نہیں  چھوتا اور یہ صحیفے ان لکھنے والوں  کے ہاتھوں  سے لکھے ہوئے ہیں جو کرم والے ،نیکی والے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردارہیں  اور وہ فرشتے ہیں  جو ان کو لوحِ محفوظ سے نقل کرتے ہیں ۔( مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ص۱۳۲۲، جلالین مع صاوی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۶ / ۲۳۱۵، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۴ / ۳۵۳، ملتقطاً)

قرآنِ کریم کی عظمت:

            اس سے معلوم ہوا کہ جن کاغذوں  پر قرآن لکھا جائے، جن قلموں  سے لکھا جائے اور جو لوگ لکھیں  سب حرمت والے ہیں  اوریہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو سب سے اونچا رکھا جائے، ادھر پاؤں  یا پیٹھ نہ کی جائے اورناپاک آدمی اسے نہ چھوئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو حفظ کرنا چاہئے ،اس کی فضیلت کے بارے میں  حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا سے مروی ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی مثال جو قرآنِ کریم کو پڑھتا ہے یہاں  تک کہ اسے ذہن نشین کر لیتا ہے تو وہ بزرگ فرشتوں  کے ساتھ ہو گا اور ا س شخص کی مثال جو قرآن کریم کو پڑھے اورا سے ذہن نشین کرتے ہوئے بڑی دشواری کا سامنا ہو تو ا س کے لئے دُگنا ثواب ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ عبس، ۳ / ۳۷۳، الحدیث: ۴۹۳۷)

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗﭤ(17)مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗﭤ(18)مِنْ نُّطْفَةٍؕ-خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ(19)ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗ(20)ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ(21)ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗﭤ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

آدمی مارا جائے ، کتنا ناشکرا ہے وہ۔اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ہے؟ ایک بوند سے اسے پیدا فرمایا، پھر اسے طرح طرح کی حالتوں میں رکھا۔پھر راستہ آسان کردیا اسے۔پھر اسے موت دی پھر اسے قبر میں رکھوایا۔پھر جب چاہے گا اسے باہر نکالے گا

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ: آدمی مارا جائے ، کتنا ناشکرا ہے وہ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ کافرآدمی مارا جائے ،وہ کتنا ناشکرا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی کثیر نعمتوں  اور بے انتہا احسانات کے باوجود ا س کے ساتھ کفر کرتا ہے،کیا اس نے غور نہیں  کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے کس حقیر چیز سے پیدا کیا ہے،وہ حقیر چیز منی کے پانی کی بوند ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا ہے، تو جس کی اصل اِس جیسی چیز ہے اُس کی یہ اوقات کہاں  ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات ماننے سے تکبر کرے اور اس کے ساتھ کفر کرے۔اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ، ا س کی زندگی کے مَراحل اور اس پر اپنے انعامات بیان فرمائے کہ اس نے انسان کو ماں  کے پیٹ میں  کچھ عرصہ نطفے کی شکل میں  ، کچھ عرصہ جمے ہوئے خون کی صورت میں  اور کچھ عرصہ گوشت کے ٹکڑے کی شان میں  رکھا ،پھر اس کے ہاتھ ،پاؤں  آنکھیں  اور دیگر اَعضاء بنائے یہاں  تک کہ اسے انسانی صورت کا جامہ پہنا دیا۔ پھر اس کیلئے ماں  کے پیٹ سے پیدا ہونے کا راستہ آسان کردیا۔ پھر اسے دُنْیَوی زندگی کی مدت پوری ہونے کے بعد موت دی تاکہ وہ اَبدی زندگی اور دائمی نعمتوں  تک پہنچ سکے، پھر اسے قبر میں  رکھوایاتاکہ وہ موت کے بعد درندوں  کی خوراک بن کے بے عزت نہ ہو۔پھر اس کی موت کے بعد اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے حساب و جزا کے لئے قبر سے باہر نکالے گا،پھر اِس کے بعد اُس کے مومن ہونے کی صورت میں  اپنے فضل سے اسے نعمتوں  ،لذتوں  اور آسائشوں  سے بھرپور دائمی زندگی عطا کرے گا۔ جب عقلمند انسان ان چیزوں  میں  غور کرے گا تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں  کی ناشکری اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی قباحت کو جان لے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  کا شکر کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی طرف مائل ہو گا۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱۷-۲۲،۴ / ۳۵۴، روح البیان،عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰ / ۳۳۴-۳۳۶، تفسیر قرطبی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰ / ۱۵۳-۱۵۴، الجزء التاسع عشر، روح المعانی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۵ / ۳۴۴- ۳۴۷، ملتقطاً)

كَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗﭤ(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

یقینا اس نے اب تک پورا نہ کیا جو اللہ نے اسے حکم دیا تھا ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَلَّا: کوئی نہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ کافر انسان کو تکبر کرنے سے،اس کے کفر سے ،توحید،مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور حشر و نشر کا انکار کرنے پر اِصرار کرنے سے رو کاگیا تھا لیکن اس کافر نے اب تک اللّٰہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ایمان قبول کیا ہے اور نہ ہی وہ اپنے تکبر سے باز آیا ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے یقینا اس کافر انسان نے اب تک ایمان قبول کرنے کاوہ کام پورا نہ کیا جو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا تھا۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۱ / ۵۸، تفسیرصاوی، عبس، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۲۳۱۷، ملتقطاً)

فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖ(24)اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا(25)ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا(26)فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا(27)وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًا(28)وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًا(29)وَّ حَدَآىٕقَ غُلْبًا(30)وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّا(31)مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْﭤ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں کو دیکھے۔کہ ہم نے اچھی طرح پانی ڈالا۔پھر زمین کو خوب چیرا۔تو اس میں اناج اُگایا ۔اور انگور اور چارہ۔اور زیتون اور کھجور۔اور گھنے باغیچے۔اورپھل اور گھاس ۔تمہارے فائدے کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖ: تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں  کو دیکھے۔} اس سے پہلی آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے وہ دلائل بیان کئے گئے جو انسان کی اپنی ذات میں  موجود ہیں  اور اب اس عالَم میں  موجود ان چیزوں  کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل بیان کئے جا رہے ہیں  جو انسان کی ضروریات ِزندگی میں  داخل ہیں  اور انسان اپنی زندگی گزارنے کے لئے ان چیزوں  کا      محتاج ہے۔چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی 8 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی ان چیزوں  کو غور سے دیکھ لے جنہیں  وہ کھاتا ہے اور وہ چیزیں  اس کی زندگی اور حیات کا سبب ہیں  کہ ان میں  بھی اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ظاہر ہے،انسان غور کرے کہ کس طرح وہ کھانے کی چیزیں  اس کے بدن کا حصہ بنتی ہیں  اور کس عجیب نظام سے وہ کام میں  آتی ہیں  اور کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ وہ چیزیں  عطا فرماتا ہے ،کھانے کی یہ چیزیں  ملنے کا قدرتی نظام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بادل سے زمین پر اچھی طرح بارش کا پانی ڈالا کیونکہ پانی کھانے والی چیزوں  کی پیداوار کا ذریعہ ہے، پھر اس نے زمین کو خوب چیرا جس سے دانے کا کمزور پودا نمودار ہوتا ہے، اگر رب تعالیٰ زمین کو چیر نہ دیتا تو کمزور کو نپل باہر کیسے نکلتی، اور تمہارے فائدے کے لئے اس زمین سے اللّٰہ تعالیٰ نے گندم اور جَو وغیرہ اناج اُگایا جن سے غذا حاصل کی جاتی ہے اور زمین سے انگور، چارہ، زیتون ، کھجور ، گھنے باغیچے اورپھل پیدا کئے اور تمہارے چوپایوں  کے فائدے کے لئے گھاس پیدا کی، توغور کرو کہ جس رب تعالیٰ نے اپنے بندوں  پر احسان کرتے ہوئے انہیں  ایسی عظیم نعمتیں  عطا کی ہیں  ا س کی عبادت سے منہ پھیرنا اور اس پر ایمان لانے سے تکبر کرنا کسی عقلمند انسان کے شایانِ شان کس طرح ہو سکتا ہے۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۱ / ۵۹-۶۱، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۴ / ۳۵۴، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ص۱۳۲۲، روح البیان، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۰ / ۳۳۸-۳۳۹، ملتقطاً)

فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ(33)یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ(34)وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ(35)وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِﭤ(36)لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِﭤ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑآئے گی ۔اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا ۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔اوراپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ: پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑآئے گی۔} اب یہاں  سے قیامت کی ہَولْناکیاں  بیان کی جا رہی ہیں  کیونکہ انسان جب ان ہَولْناکیوں  کے بارے میں  سنے گا تو اس کے دل میں خوف پیدا ہو گا اور اسی خوف کی وجہ سے وہ دلائل میں  غورو فکر کرنے ،کفر سے منہ موڑ کر ایمان قبول کرنے، لوگوں  پر تکبر کرنا چھوڑ دینے اور ہر ایک کے ساتھ عاجزی واِنکساری کے ساتھ پیش آنے کی طرف مائل ہو گا۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صور پھونکنے کی کان پھاڑدینے والی آواز آئے گی تو اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں ، اپنے باپ ،اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں  سے بھاگے گا اور ان میں  سے کسی کی طرف توجہ نہیں  کرے گا تاکہ ان میں  کوئی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کر لے اور ان میں  سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے دوسروں  سے لاپرواہ کردے گی۔( تفسیرکبیر، عبس،تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۱۱ / ۶۱-۶۲، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۴ / ۳۵۴-۳۵۵، ملتقطاً)

            حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ شدہ اٹھائے جاؤ گے۔ایک صحابیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیا لوگ ایک دوسرے کے ستر کو بھی دیکھیں  گے؟ارشاد فرمایا: ’’اے فلاں  عورت!

’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکرپڑی ہوگی جو اسے (دوسروں  سے) بے پروا کردے گی۔

( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ عبس، ۵ / ۲۱۹، الحدیث: ۳۳۴۳)

وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌ(38)ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ(39)وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ(40)تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌﭤ(41)اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ہنستے ہوئے خوشیاں مناتے ہوں گے۔اور بہت سے چہروں پر اس دن گرد پڑی ہوگی۔ان پر سیاہی چڑھ رہی ہوگی ۔یہ لوگ وہی کافر بدکارہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌ: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں  گے۔} قیامت کا حال اوراس کی ہَولْناکیاں  بیان فرمانے کے بعد اب اس آیت اور ا س کے بعد والی 4آیات میں مُکَلَّف لوگوں  کی دو قسمیں  بیان کی جا رہی ہیں  ۔ (1)سعادت مند۔(2)بد بخت۔ جو لوگ سعادت مند ہیں  ان کا حال یہ ہو گا کہ قیامت کے دن ان کے چہرے ایمان کے نور سے یا رات کی عبادتوں  سے یا وضو کے آثارسے روشن ہوں  گے اور حساب سے فارغ ہونے کے بعد وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت ،اس کے کرم اور اس کی رضا پر ہنستے ہوئے خوشیاں  منارہے ہوں  گے اور جو لوگ بد بخت ہیں  قیامت کے دن ان کا حال یہ ہو گا کہ (ان کی بد عملیوں  کی وجہ سے) ان کے چہروں  پر گرد پڑی ہوگی اور (ان کے کفر کی وجہ سے) ان پر سیاہی چڑھ رہی ہوگی، یہ وہی کافر بدکارہیں  جن کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔( خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۲، ۴ / ۳۵۵)

 

Scroll to Top