سُوْرَۃُ الأَحْقَاف
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حٰمٓ(1)تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
حم۔ کتاب کا نازل فرمانا اللہ کی طرف سے ہے جو عزت والا، حکمت والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حٰمٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ: کتاب کا نازل فرمانا اللہ کی طرف سے ہے۔} یعنی قرآنِ مجیدکو حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہیں بنایا اور نہ ہی کسی انسان اور جن سے اسے نقل کیا ہے بلکہ یہ قرآن اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اپنی سَلْطَنَت میں عزت اور غلبے والا اور اپنی صَنعَت میں حکمت والا ہے۔(جلالین مع صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۱۹۳۱)
قرآنِ مجید کی چار خوبیاں
اس آیت سے قرآنِ کریم کی چار خوبیاں معلوم ہوئیں ،
(1)…قرآنِ عظیم کسی انسان یا جن کا کلام نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
(2)…قرآنِ مجید حق اور سچ ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِیْلًا‘‘(النساء:۱۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے؟
(3)…قرآنِ کریم اپنی عبارت اور معنی دونوں کے اعتبار سے تمام کتابوں پر غالب ہے کیونکہ اس کتاب کو نازل فرمانے والے کی شان یہ ہے کہ وہ عزت والا اور غلبے والا ہے اور قرآن کلامِ الٰہی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
(4)…قرآنِ حکیم انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت پر مشتمل ہے کیونکہ یہ حکمت والے رب تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو اہے ۔
مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَمَّاۤ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ ہی اور ایک مقررہ مدت تک (کیلئے)بنایا اور کافر اس چیز سے منہ پھیرے ہیں جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ: ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ بنایا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ ہی بنایا تاکہ وہ ہماری قدرت ،وحدانیّت ،کمال کی باقی صفات ،اور ہر نقص و عیب سے پاک ہونے پر دلالت کریں کیونکہ تخلیق کے ذریعے حق کی پہچان ہوتی ہے اور ہر صَنعَت اپنے بنانے والے کے وجود اور اس کے کمال کی صفت کے ساتھ مُتَّصف ہونے پر دلالت کرتی ہے ،نیزانہیں ہمیشہ باقی رہنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ ایک مقررہ مدت تک کیلئے بنایا ہے اوروہ مقررہ مدت قیامت کا دن ہے جس کے آجانے پر آسمان اور زمین فنا ہوجائیں گے اور جس چیز سے کفار کو ڈرایا گیا ہے وہ اس پر ایمان لانے سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔اس چیز سے مراد عذاب ہے، یااس سے قیامت کے دن کی وحشت مراد ہے، یااس سے قرآنِ پاک مراد ہے جو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کا حساب لئے جانے کا خوف دلاتا ہے۔(جلالین مع صاوی، الاحقاف،تحت الآیۃ:۳، ۵ / ۱۹۳۱، خازن،الاحقاف،تحت الآیۃ:۳،۴ / ۱۲۲، مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۱۲۳، ملتقطاً)
آیت ’’وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے 5باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…اس آیت سے ثابت ہوا کہ اس جہان کاایک خدا ہے اور یہ وہ ہے جس کی قدرت کے آثار آسمانوں اور زمین میں کئی طرح سے ظاہر ہیں ۔
(2)…اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو عَبَث ،بے کار اور بے فائدہ نہیں بنایا بلکہ ہر چیز کو کسی نہ کسی حکمت سے بنایا ہے۔
(3)… تمام مخلوقات کو پیدا فرمائے جانے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اور اس کی قدرت و وحدانیّت پر ایمان لائیں ۔
(4)… مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا اور قیامت کا واقع ہونا حق ہے کیونکہ اگر قیامت قائم نہ ہو تو ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا رہ جائے گا اور اطاعت گزار مومنین ثواب کے بغیر اور کافر عذاب کے بغیر رہ جائیں گے اور یہ اس حقیقت کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ ہی بنایا ہے۔
(5)…اس جہان کو اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے بلکہ اسے ایک مخصوص مدت تک مُکَلَّف لوگوں کے لئے عمل کرنے کا مقام بنایا ہے تاکہ وہ یہاں نیک عمل کر کے آخرت میں اس کی اچھی جز اپائیں ، لہٰذا ہر شخص کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اس سے کیا مطلوب ہے اور اسے کس لئے پیدا کیاگیاہے۔( تفسیرکبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۵-۶، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۴۶۱-۴۶۲، ملتقطاً)
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِؕ-اِیْتُوْنِیْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: بھلا بتاؤ تو کہ اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ،مجھے دکھاؤکہ انہوں نے زمین کا کون سا ذرہ بنایاہے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کچھ بچا کھچا علم ہی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا بتاؤ۔} اس آیت میں بتوں وغیرہ کی پوجا کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کافروں سے فرما دیں : اللہ تعالیٰ کی بجائے جن بتوں وغیرہ کی تم عبادت کرتے ہو ، اگر وہ حقیقی معبود ہیں تو اس کی دلیل کے طور پر مجھے دکھاؤکہ انہوں نے زمین کا کون سا ذرہ بنایاہے یا آسمانوں کو پیدا کرنے میں ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شرکت ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ وہم ہوا کہ یہ معبود ہونے کا کوئی حق رکھتے ہیں ؟ اور اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ خدا کا کوئی شریک ہے جس کی عبادت کرنے کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے تو اس کی دلیل کے طور پرمیرے پاس اس قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کوئی کتاب لے آؤ۔اس سے مراد یہ ہے کہ قرآنِ مجید توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کو بیان فرماتا ہے اور اس سے پہلے جو کتاب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی اس میں بھی یہی بیان ہے،تو تم اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب تو ایسی لے آؤجس میں تمہارے دِین یعنی بت پرستی کی شہادت ہو، یااگر تم کتاب نہیں لاسکتے تو کوئی ایسا مُستَنَد مضمون ہی لے آؤ جوپہلے لوگوں سے منقول ہوتا چلا آ رہا ہو اور اس میں ا س بات کی گواہی موجود ہو کہ تمہارے معبود عبادت کے مستحق ہیں اور جب تمہارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے نہ نقلی تو تم کس بنیاد پر بتوں کی عبادت کرتے ہو ۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۴۶۳-۴۶۴، مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۲۳، ملتقطاً)
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىٕهِمْ غٰفِلُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی بجائے ان بتوں کی عبادت کرے جو قیامت تک اس کی نہ سنیں گے اور وہ ان کی پوجا سے بے خبر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی بجائے ان بتوں کی عبادت کرے۔} اس سے پہلی آیت میں بتوں کی عبادت کا باطل ہونا بیان کیا گیا اور ا س کی ایک دلیل یہ بیان کی گئی کہ بتوں کو کسی طرح کی کوئی قدرت حاصل نہیں اور ا س آیت میں بتوں کی عبادت باطل ہونے کی ایک اور دلیل بیان کی جا رہی ہے کہ یہ پکارنے والوں کی پکار نہیں سن سکتے اور محتاجوں کی حاجات سمجھ نہیں سکتے ،چنانچہ فرمایا گیا کہ مشرکین اپنے ہاتھوں سے بتوں کوبناتے ہیں اورپھرانہیں خدامان کر ان کی عبادت شروع کردیتے ہیں حالانکہ ان کی حالت یہ ہے کہ اگریہ مشرکین قیامت تک بتوں کوپکارتے رہیں تووہ ان کی پکار سن نہیں سکتے اورنہ ہی ان کو اپنے پُجاریوں کی پوجا کی خبر ہے کیونکہ یہ جَماد اور بے جان ہیں جس کی وجہ سے نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور اس آدمی سے زیادہ گمراہ اورکوئی نہیں جواللہ تعالیٰ کوچھوڑکر عاجز اور بے بس بتوں کی پوجاکرتاہے اوران سے ایسی چیزیں مانگتاہے جووہ قیامت تک نہیں دے سکتے، نیز جو وہ کہہ رہاہے اس سے بت غافل ہیں ،نہ سنتے ہیں ،نہ دیکھتے ہیں ،نہ پکڑتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھرہیں جوبالکل بہرے اور فہم کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔(تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۵، ۱۰ / ۷-۸ ، خازن ، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۲۲، ابن کثیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۲۵۳، ملتقطاً)
وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءً وَّ كَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب لوگوں کا حشر ہوگاتو وہ بت ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوجائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ: اور جب لوگوں کا حشر ہوگا۔} یعنی دنیا میں تو بتوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے پکارنے والوں کی پکار سننے اورسمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور قیامت کے دن ان کا حال یہ ہو گا کہ اس دن جب قبروں سے نکالنے کے بعد لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ بت ا پنے پُجاریوں کے دشمن ہوں گے اور انہیں نفع کی بجائے نقصان پہنچائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور کہیں گے: ہم نے انہیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی ، درحقیقت یہ اپنی خواہشوں کے پَرَسْتار تھے۔ (یعنی اپنی مرضی سے جس کو چاہا خدا قرار دیدیا اور اس کی پوجا شروع کردی تو یہ حقیقت میں اپنی خواہش کی پوجا ہوئی۔)(مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۱۲۳-۱۱۲۴، صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۶، ۵ / ۱۹۳۲، ملتقطاً)
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْۙ-هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌﭤ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر اپنے پاس آئے ہوئے حق کے بارے میں کہتے ہیں : یہ کھلا جادو ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں توحید کے حق ہونے اور بتوں کی عبادت باطل ہونے کے بارے میں بیان کیاگیا اور اب یہاں سے قرآنِ مجید کے بارے کفار کی گفتگو ذکر کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت میں فرمایا گیا کہ جب اہلِ مکہ کے سامنے قرآنِ مجید کی روشن آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان میں سے کافر لوگ غور وفکر کئے اور اچھی طرح سنے بغیر قرآن شریف کے بارے میں کہتے ہیں :یہ ایسا کھلا جادو ہے جس کے جادو ہونے میں کوئی شُبہ نہیں (ان کی یہ بات باطل ہونے کی صریح دلیل یہ ہے کہ جادو وہ چیز ہے جس کی نظیر ممکن ہے اور قرآنِ مجید کی نظیر ممکن ہی نہیں ، لہٰذا قرآن جادو ہر گز نہیں ہے)۔( جلالین، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۱۶، مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۱۲۴، ملتقطاً)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِیْ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوْنَ فِیْهِؕ-كَفٰى بِهٖ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس(نبی) نے خود ہی قرآن بنالیا ہے ۔ تم فرماؤ: اگر میں نے اسے خود ہی بنایا ہوگا تو تم اللہ کے سامنے میرے لئے کسی چیز کے مالک نہیں ہو ۔وہ خوب جانتا ہے جن باتوں میں تم مشغول ہواور میرے اور تمہارے درمیان وہ کافی گواہ ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ: بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس(نبی) نے خود ہی قرآن بنالیا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کفارِ مکہ کا قرآنِ مجید کو جادو کہنا ایک طرف ،وہ تو اس سے بھی بدتر بات یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی قرآن بنالیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیاہے۔اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اگر بِالفرض میں اپنی طرف سے قرآن بنا کر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتا تو یہ اللہ تعالیٰ پر اِفتراء ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ وہ ایسے اِفتراء کرنے والے کو جلد سزا میں گرفتار کرتا ہے اور تمہیں تو یہ قدرت حاصل ہی نہیں کہ تم کسی کو اس کی سزا سے بچاسکو یا کسی سے اس کے عذاب کو دور کرسکو، تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کرکے خود کواس کے عذاب کے لئے پیش کر دیتا ،(نیز تم جانتے ہو کہ مجھے کسی طرح کی کوئی سز انہیں دی گئی، تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے میں اپنی رسالت کے دعوے میں جھوٹا نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے اپنی طرف سے قرآن بنایا ہے اور جب میں سچا ہوں اور قرآن اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے تو یاد رکھو!)اللہ تعالیٰ ان باتوں کو خوب جانتا ہے جن میں تم مشغول ہواور تم جو کچھ قرآنِ پاک کے بارے کہتے ہو وہ بھی اسے اچھی طرح معلوم ہے تو وہ تمہیں ا س کی سزا دے گا اور یاد رکھو!میرے اور تمہارے درمیان سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے گواہ کے طور پر اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے، (لہٰذا اگر بالفرض میں جھوٹا ہوا تو وہ مجھے فوری عذاب دے گا اور اگر تم جھوٹے ہوئے تو وہ تمہیں فوری یا کچھ عرصے بعد عذاب دے گا۔) پھر انہیں توبہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ ان سب باتوں کے باوجود اگر تم اپنے کفر سے رجوع کر کے توبہ کر لو تو وہ تمہاری توبہ قبول فرما کر تمہیں معاف فرمادے گا، تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم فرمائے گا کیونکہ ا س کی شان یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔( تفسیرکبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۸، خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۲۳، مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۱۲۴، ابن کثیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۲۵۳-۲۵۴، ملتقطاً)
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْؕ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ وَ مَاۤ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیاہوگا؟ میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں تو صرف صاف ڈر سنانے والا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ: تم فرماؤ: میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرنت نئے اعتراضات کرنا کفارِ مکہ کا معمول تھا،چنانچہ کبھی وہ کہتے کہ کوئی بشرکیسے رسول ہوسکتاہے؟ رسول توکسی فرشتے کوہوناچاہیے ،کبھی کہتے کہ آپ توہماری طرح کھاتے پیتے ہیں ،ہماری طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں ،آپ کیسے رسول ہوسکتے ہیں ؟کبھی کہتے: آپ کے پاس نہ مال ودولت ہے اورنہ ہی کوئی اثر ورسوخ ہے ۔ان سب باتوں کاجواب اس آیتِ مبارکہ میں دیاگیاکہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں :میں کوئی انوکھارسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں ، وہ بھی انسان ہی تھے اوروہ بھی کھاتے پیتے تھے اور یہ چیزیں جس طرح ان کی نبوت پر اعتراض کا باعث نہ تھیں اسی طرح میری نبوت پر بھی اعتراض کا باعث نہیں ہیں تو تم ایسے فضول شُبہات کی وجہ سے کیوں نبوت کا انکار کرتے ہو؟
دوسری تفسیر یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کفارِ مکہ عجیب معجزات دکھانے اور عناد کی وجہ سے غیب کی خبریں دینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ میں انسانوں کی طرف پہلا رسول نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول تشریف لاچکے ہیں اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی وحدانیّت اور عبادت کی طرف بلاتے تھے اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بلانے والا نہیں ہوں بلکہ میں بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے اور سچے دل کے ساتھ اس کی عبادت کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور مجھے اَخلاقی اچھائیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجاگیا ہے اور میں بھی اس چیز پر (ذاتی)قدرت نہیں رکھتا جس پر مجھ سے پہلے رسول (ذاتی) قدرت نہیں رکھتے تھے، تو پھر میں تمہیں تمہارا مطلوبہ ہر معجزہ کس طرح دکھا سکتا ہوں اور تمہاری پوچھی گئی ہر غیب کی خبر کس طرح دے سکتا ہوں کیونکہ مجھ سے پہلے رسول وہی معجزات دکھایا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے اور اپنی قوم کو وہی خبریں دیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی تھیں اور جب میں نے پچھلے رسولوں سے کوئی انوکھا طریقہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم میری نبوت کا انکار کیوں کرتے ہو؟( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۹، ۱۰ / ۹ ، خازن ، الاحقاف ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۲۳، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸ / ۴۶۷، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ: اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟} آیت کے اس حصے کے بارے میں مفسرین نے جو کلام فرمایا ہے ا س میں سے چار چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں ،
(1)…یہ آیت منسوخ ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو صورتیں ہیں ،پہلی صورت یہ کہ اگر اس آیت کے یہ معنی ہوں ’’ قیامت میں جو میرے اور تمہارے ساتھ کیا جائے گا وہ مجھے معلوم نہیں ۔‘‘تو یہ آیت سورہِ فتح کی آیت نمبر 2 اور 5 سے منسوخ ہے ،جیسا کہ حضرت عکرمہ اور حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے سورہِ فتح کی اس آیت ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱) لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ۔۔۔الایۃ ‘‘ نے منسوخ کر دیا ہے۔(تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۱۱ / ۲۷۶)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :آیت کریمہ ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ اور ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ۔۔۔الایۃ ‘‘ نازل فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور ایمان والوں کے ساتھ (آخرت میں ) کیا معاملہ فرمائے گا۔( در منثور، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۴۳۵)
اس کی تفصیل ا س حدیثِ پاک میں ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حُدَیْبِیَہ سے واپسی کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ (فتح:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے۔
توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اسی آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو مبارک ہو،اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے تو بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا،اب (یہ معلوم نہیں کہ) ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا،تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(فتح:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور تاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عُزّیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا اور محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا یکساں حال ہے ، انہیں ہم پر کچھ بھی فضیلت نہیں ، اگر یہ قرآن ان کا اپنا بنایا ہوا نہ ہوتا تو ان کو بھیجنے والا انہیں ضرور خبر دیتا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ (فتح:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارےاگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضور کو مبارک ہو، آپ کو تو معلوم ہوگیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا ،اب یہ انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ(فتح:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ وہ ایمان والے مَردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی:
’’ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا‘‘(احزاب:۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اور مومنین کے ساتھ کیا کرے گا۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۲۳)
دوسری صورت یہ ہے کہ آخرت کا حال تو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا بھی معلوم ہے ، مومنین کا بھی اورجھٹلانے والوں کا بھی ،اور اس آیت کے معنی یہ ہیں ’’ دنیا میں کیا کیا جائے گا، یہ معلوم نہیں ‘‘ اگر آیت کے یہ معنی لئے جائیں تو بھی یہ آیت منسوخ ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ بھی بتادیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ‘‘( توبہ:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔
اورارشاد فرمایا:
’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘(انفال:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذابدے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۲۳، خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)
یہاں اس آیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں جو تفصیل بیان کی اسے دوسرے انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمانا ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِكُمْ‘‘ قرآنِ مجید کا نزول مکمل ہونے سے پہلے کی بات ہے ،ا س لئے یہاں فی الحال جاننے کی نفی ہے۔ آئندہ اس کا علم حاصل نہ ہونے کی نفی نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ آیت اسلام کے ابتدائی دور میں ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفارکا انجام بیان کئے جانے سے پہلے نازل ہوئی، ورنہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآنِ مجید میں اِجمالی اور تفصیلی طور پر وہ سب کچھ بتا دیا جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مومنین اور کفار کے ساتھ کیا جائے گا۔( صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۱۹۳۳-۱۹۳۴)
(2)…یہاں ذاتی طور پر جاننے کی نفی کی گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفی دائمی اور اَبدی ہے، لیکن اس سے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہر چیز کے جاننے کی نفی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ علامہ نظام الدّین حسن بن محمد نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :آیت کے اس حصے میں اپنی ذات سے جاننے کی نفی ہے وحی کے ذریعے جاننے کی نفی نہیں ہے۔( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۱۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو حضور کے ساتھ اور حضور کی امت کے ساتھ پیش آنے والے اُمور پر مُطَّلع فرما دیا خواہ وہ دنیا کے ہوں یا آخرت کے اور اگر دِرایَت بَمعنی اِدراک بِالقیاس یعنی عقل سے جاننے کے معنی میں لیا جائے تو مضمون اور بھی زیادہ صاف ہے اور آیت کا اس کے بعد والا جملہ اس کا مُؤیِّد ہے۔( خزائن العرفان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۲۴)
(3)…یہاں تفصیلی دِرایَت کی نفی ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین پر فضل و ثواب کی خِلعَتُوں کی نوازش کرتا رہے گا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں پر ذلت و عذاب کے تازیانے اور کوڑے برساتا رہے گا اور یہ سب کے سب غیر مُتناہی ہیں یعنی ان کی کوئی انتہاء نہیں ، اور غیر مُتناہی کی تفصیلات کا اِحاطہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی کر سکتا ہے ۔
علامہ نیشا پوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں :تفصیلی دِرایَت حاصل نہیں ہے۔( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۱۸)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ـ:ممکن ہے کہ یہاں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تفصیلی دِرایَت ہو،یعنی مجھے اِجمالی طور پر تو معلوم ہے لیکن میں تمام تفصیلات کے ساتھ یہ نہیں جانتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گاکیونکہ مجھے (ذاتی طور پر )غیب کا علم حاصل نہیں ۔
آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُبَلِّغ(یعنی بندوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینے والا )بنا کر بھیجا گیا ہے اور کسی کو ہدایت دے دینا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیبوں کا ذاتی علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جبکہ انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا غیبی خبریں دینا وحی، اِلہام اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے واسطے سے ہے۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۹، ۸ / ۴۶۷-۴۶۸)
(4)…یہاں دِرایَت کی نفی ہے، علم کی نہیں ۔دِرایَت کا معنی قیاس کے ذریعے جاننا ہے یعنی خبر کی بجائے آدمی اپنی عقل سے جانتا ہواور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اُخروی اَحوال کو اپنے عقلی قیاس سے نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔ یہ معنی اوپر دوسری تاویل میں خزائن العرفان کے حوالے سے ضمنی طور پربھی موجود ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے ساتھ اور آپ کی امت کے ساتھ پیش آنے والے امُور پر مُطَّلع فرمادیا ہے خواہ وہ دنیا کے اُمور ہوں یا آخرت کے اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب کا ذاتی علم نہیں رکھتے اور جوکچھ جانتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے جانتے ہیں ۔
نوٹ:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَی اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُونُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ (قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے)میں اسی آیت کو ذکرکر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کی نفی پر بطورِ دلیل یہ آیت پیش کرنے والوں کا رد فرمایا اور اس آیت میں مذکور نفی ’’وَ مَاۤ اَدْرِیْ:میں نہیں جانتا‘‘ کے 10جوابات ارشاد فرمائے ہیں ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ كَفَرْتُمْ بِهٖ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَ اسْتَكْبَرْتُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: بھلا دیکھو اگر وہ قرآن اللہ کے پاس سے ہو اور تم اس کا انکار کرو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکاہے تو وہ ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا۔بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اَرَءَیْتُمْ: تم فرماؤ: بھلا دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرمادیں کہ اے کافرو! میری طرف جس قرآن کی وحی کی جاتی ہے اگر وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تمہارا حال یہ ہو کہ تم اس کا انکار کر رہے ہو جبکہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس پر گواہی دے چکاہو کہ وہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، پھر وہ گواہ تو ایمان لے آیا اور تم نے ایمان لانے سے تکبر کیا تو مجھے بتاؤ کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا ؟کیا ایسی صورت میں تم ظالم نہیں ہو؟ (یقینا اِس صورت میں تم نے ایمان نہ لا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا اور )بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۲۴، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۴۶۹، ملتقطاً)
بنی اسرائیل کے گواہ سے مراد کون ہے؟
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کے گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے کیونکہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ منورہ میں ایمان لائے۔( مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۲۵)
آپ کے ایمان لانے سے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سناکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے ہیں تووہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:میں آپ سے تین ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کروں گاجن کونبی کے سواکوئی نہیں جانتا۔(1)قیامت کی پہلی علامت کیاہے ؟(2)اہلِ جنت کاپہلاکھاناکون سا ہوگا؟ (3)بچہ اپنے باپ یاماں کے کیسے مشابہ ہوتاہے ؟ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جولوگوں کومشرق سے مغرب تک جمع کرے گی اوراہلِ جنت کاپہلاکھانامچھلی کی کلیجی کاٹکڑاہوگااورجب مرد کا پانی عورت کے پانی پرغالب آجائے تووہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتاہے اورجب عورت کاپانی مرد کے پانی پرغالب آجائے تووہ بچہ کی شبیہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن سلام نے (یہ سن کر) کہا: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک یہودی بہت بہتان تراش قوم ہے، اگر ان کومیرے اسلام کاآپ کے اُن سے پوچھنے سے پہلے علم ہوگیا تووہ مجھ پربہتان لگائیں گے ۔ پھر یہودی آئے تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے سوال کیا’’ تم میں عبداللہ کیسے ہیں ؟انہوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں ، ان کے والد بھی ہم میں سب سے بہترتھے،وہ ہمارے سردارہیں اورہمارے سردار کے بیٹے ہیں ۔ارشاد فرمایا: ’’اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہوجائیں تو تم کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کواس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ پھر حضرت عبداللہ بن سلام باہرنکلے اور کہا: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہ‘‘ تو یہود یوں نے کہا:وہ ہم میں سب سے بُرے ہیں ، سب سے بُرے شخص کے بیٹے ہیں اور ان کی برائیاں بیان کیں ۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے اسی چیز کاخدشہ تھا۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: من کان عدوّا لجبریل، ۳ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۴۸۰)
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَاۤ اِلَیْهِؕ-وَ اِذْ لَمْ یَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ هٰذَاۤ اِفْكٌ قَدِیْمٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے مسلمانوں کے متعلق کہا:اگر اس ( اسلام)میں کچھ بھلائی ہو تو یہ مسلمان اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے اور جب ان کہنے والوں کو اس قرآن سے ہدایت نہ ملی تو اب کہیں گے کہ یہ ایک پرانا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں نے کہا۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے والوں میں غریب لوگ سرِ فہرست تھے جیسے حضرت عمار،حضرت صُہیب اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وغیرہ، کفارِ مکہ نے ان کے بارے میں کہا کہ اگر اُس قرآن اور دین میں کچھ بھلائی ہوتی جو محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) لے کر آئے ہیں تو یہ غریب مسلمان ہم سے پہلے اسلام قبول نہ کر لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب یہ بات کہنے والوں کو اِس قرآن سے اُس طرح ہدایت نہ ملی جس طرح ایمان والوں کو ملی ہے تو یہ صرف اسی بات پر اِکتفا نہیں کریں گے بلکہ عناد کی وجہ سے قرآنِ مجید کے بارے میں اب کہیں گے کہ یہ قرآن ایک پرانا گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔(مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۱۲۵، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۸ / ۴۷۰، ملتقطاً)
وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةًؕ-وَ هٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﳓ وَ بُشْرٰى لِلْمُحْسِنِیْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی اور یہ(قرآن) عربی زبان میں ہوتے ہوئے تصدیق کرنے والی ایک کتاب ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوں کیلئے بشارت ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً: اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کا ایک اعتراض ذکر ہوا کہ اگر اس قرآن میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہم غریب لوگوں سے پہلے ایمان لے آتے ،یہاں اس اعتراض کا رد کیا جا رہاہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے حالانکہ قرآنِ مجید سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تورات کا نازل ہونا اور اس کتاب کا اللہ تعالیٰ کے دین کی پیروی کرنے والوں کا پیشوا ہونا اوراس پر ایمان لانے والوں اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے والوں کےلئے رحمت ہونا انہیں خود تسلیم ہے اور یہ قرآن جس کے بارے میں کفارِمکہ ایسی بیہودہ گفتگو کرتے ہیں ،اس کی شان تو یہ ہے کہ یہ عربی زبان میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب اور تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ایک کتاب ہے جو اس لئے نازل ہوئی ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوں کیلئے بشارت کا ذریعہ ہو۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۴۷۱)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(13)اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے تو نہ ان پر خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ جنت والے ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے ، انہیں ان کے اعمال کابدلہ دیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے۔} اس سے پہلی آیات میں توحید اور نبوت کے دلائل بیان ہوئے ،منکروں کے شُبہات ذکر کر کے ان کاجواب دیا گیا اور اب یہاں سے توحید و رسالت پر ایمان لانے اور اس پر ثابت قدم رہنے والوں کی جزابیان کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے ،پھر وہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر آخری دم تک ثابت قدم رہے، توقیامت میں نہ ان پر خوف ہے اور نہ وہ موت کے وقت غمگین ہوں گے اور ان اوصاف کے حامل افراد جنت والے ہیں اور یہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کابدلہ دیا جائے گا۔( تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۱۳-۱۴ ، ۱۰ / ۱۳-۱۴ ، مدارک ، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۱۲۶، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۸ / ۴۷۲، ملتقطاً)
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۙ-قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے آدمی کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے، ا س کی ماں نے اسے پیٹ میں مشقت سے رکھا اور مشقت سے اس کوجنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی کامل قوت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیاتو اس نے عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ، میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًا: اور ہم نے آدمی کو حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔} آیت کے اس حصے میں بندوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حصہ کی تفسیر اور اس سے متعلق تفصیل ،سورۂ عنکبوت آیت نمبر8اورسورۂ لقمان آیت نمبر14کے تحت گزرچکی ہے ،اسے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں ۔
{وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا: اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔} اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ جب دودھ چھڑانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس مہینے ہوئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ‘‘(بقرہ:۲۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔
تو حمل کے لئے چھ ماہ باقی رہے ۔ یہی قول امام ابویوسف اور امام محمدرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کا ہے اور حضرت امام اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک اس آیت سے رضاعت کی مدت ڈھائی سال ثابت ہوتی ہے ۔
نوٹ:اس مسئلے کی تفصیل دلائل کے ساتھ اصول کی کتابوں میں مذکور ہے ،ان کی معلومات حاصل کرنے کے لئے علمائِ کرام ان کی طرف رجوع فرمائیں اور عوامُ النّاس صحیح العقیدہ مفتیانِ کرام کی طرف رجوع فرمائیں ۔
{حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً: یہاں تک کہ جب وہ اپنی کامل قوت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا۔} یعنی جب وہ آدمی اپنی کامل قوت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیاتو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے دین اسلام عطا کر کے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور مجھے وہ کام کرنے کی توفیق دے جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد کو نیک بنا دے اور نیکی ان میں راسخ فرما دے ،میں نے تمام اُمور میں تیری طرف رجوع کیااور میں اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والے مسلمانوں میں سے ہوں ۔(روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۵،۸ / ۴۷۴-۴۷۵، بیضاوی،الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۵،۵ / ۱۸۰-۱۸۱، ملتقطاً)
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ نَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِهِمْ فِیْۤ اَصْحٰبِ الْجَنَّةِؕ-وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہی وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم قبول فرمائیں گے اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائیں گے، یہ لوگ جنت والوں میں سے ہوں گے۔یہ سچا وعدہ ہے جو اِن سے کیا جاتا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا: یہی وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم قبول فرمائیں گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں بیان کئے گئے وصف کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دنیا میں کئے ہوئے اچھے اعمال قبول فرما کرہم ان پر ثواب دیں گے اور ان کی خطاؤں سے درگُزر فرماکر ان سے کوئی مُواخذہ نہیں فرمائیں گے ، یہ لوگ جنت والوں میں سے ہیں ، یہ سچا وعدہ ہے جو دنیا میں ان سے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ مبارک سے کیا جاتا تھا۔(جلالین مع صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۶، ۵ / ۱۹۳۷، تفسیرکبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۶، ۱۰ / ۲۰-۲۱، خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۲۶، ملتقطاً)
وَ الَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیْۤ اَنْ اُخْرَ جَ وَ قَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْۚ-وَ هُمَا یَسْتَغِیْثٰنِ اللّٰهَ وَیْلَكَ اٰمِنْ ﳓ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚۖ-فَیَقُوْلُ مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا: تمہارے لئے اُف( تم سے دل بیزار ہوگیاہے)کیا مجھے ڈراتے ہو کہ میں نکالاجاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے کئی زمانے گزر چکے ہیں اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہیں ، (اور بیٹے سے کہتے ہیں ) تیری خرابی ہو، ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو وہ کہتا ہے یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْهِ: اور وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں وا لدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے بیٹے کا وصف بیان ہوا اور اس آیت میں اپنے والدین کے نافرمان بیٹے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ شخص جسے ا س کے والدین نے ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنے ماں باپ سے کہا: اُف تم سے دل بیزار ہوگیاہے ،کیا تم مجھے یہ وعدہ دیتے ہو کہ میں مرنے کے بعد قبر سے زندہ کر کے نکالاجاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے کئی زمانوں کے لوگ گزر چکے ہیں ، ان میں سے توکوئی مر کر زندہ نہ ہوا ۔ اس کے مقابلے میں ماں باپ کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ وہ ان کے بیٹے کی مدد فرمائے اور اسے ایمان کی توفیق دے اور بیٹے سے کہتے ہیں : اے بیٹے! تیری خرابی ہو،تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان لے آ، بیشک اللہ تعالیٰ نے مُردے زندہ کرنے کا جو وعدہ فرمایا وہ سچا ہے، لیکن بیٹا انہیں جھٹلاتے ہوئے کہتا ہے کہ جسے تم اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہہ رہے ہو اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنہیں کتابوں میں لکھ دیا گیا ہے۔
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِیْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ وہ لوگ ہیں جن پر بات ثابت ہوچکی ہے(یہ)جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں میں (شامل) ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ، بیشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ: یہ وہ لوگ ہیں جن پر بات ثابت ہوچکی ہے۔} یعنی یہ باطل باتیں کہنے والے وہ لوگ ہیں جن پر جہنم میں داخل کئے جانے کی بات ثابت ہو چکی ہے اوریہ اپنے رب کے احکام سے سرکشی کرنے اور رسولوں کو جھٹلانے والے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں میں شامل ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ، بیشک وہ ہدایت کے بدلے گمراہی اور نعمتوں کے بدلے عذاب کو اختیار کر کے نقصان اٹھانے والے تھے۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۴۷۷، تفسیر طبری، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۱ / ۲۸۸، ملتقطاً)
قیامت کے دن کافر اولاد اپنے مومن والدین کے ساتھ نہ ہوگی:
اس آیت سے معلوم ہواکہ قیامت کے دن کافر اولاد اپنے مومن ماں باپ کے ساتھ نہ ہوگی بلکہ کفار کے ساتھ ہوگی، کیونکہ یہاں فرمایا گیا کہ یہ اولاد پچھلے جن و اِنس کفار میں شامل ہوگی۔ قیامت میں ایمانی رشتہ مُعتبر ہو گا نہ کہ محض خونی رشتہ، جیسے کنعان اگرچہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نسبی بیٹا تھا مگر رہا کفار کے ساتھ، انہیں کے ساتھ ہلاک ہوا اور انہیں کے ساتھ جہنم میں جائے گا کیونکہ اس نے ایمان قبول نہیں کیا تھا۔ یاد رہے کہ مومن اولاد اور مومن والدین کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچے گا۔ والدین کے نیک اعمال سے ان کی اولاد کو فائدہ پہنچنے کے بارے میں یہ آیت ملاحظہ ہو ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ‘‘(طور:۲۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملادیں گے اور اُن (والدین) کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔
اولاد کے نیک اعمال سے ان کے والدین کو فائدہ پہنچنے کے بارے میں یہ حدیث ملاحظہ ہو ۔ حضرت معاذ جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو قرآن پڑھے اور اس کے اَحکام پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے اچھی ہوگی جو دنیا میں تمہارے گھروں میں چمکتا ہے ، تو خود اس شخص کے بارے تمہارا کیا خیال ہے جس نے اس پر عمل کیا۔( ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی ثواب قراء ۃ القرآن، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۱۴۵۳)
وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاۚ-وَ لِیُوَفِّیَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سب کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجات ہیں اور تاکہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا: اور سب کے لیے ان کے اعمال کے سبب درجات ہیں ۔} یعنی مومن اور کافر میں سے ہر ایک کے لئے قیامت کے دن مَنازل اور مَراتب ہیں اور یہ ان کے دنیا میں کئے ہوئے اچھے اور برے اعمال کے سبب ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کی فرمانبرداری اور کافروں کو ان کی نافرمانی کی پوری جزا دے کیونکہ قیامت کے دن کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔(جلالین، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۱۷، البحر المحیط، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۸ / ۶۲، ملتقطاً)
وَ یَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِؕ-اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَاۚ-فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن کافر آگ پر پیش کیے جائیں گے (تو کہا جائے گا) تم اپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے تو آج تمہیں ذلت کے عذاب کابدلہ دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور اس لیے کہ تم نافرمانی کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ: اور جس دن کافر آگ پر پیش کیے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ جس دن کافر جہنم کی آگ پر پیش کیے جائیں گے تواس وقت ان سے فرمایا جائے گا:تم لذّتوں میں مشغول ہو کراپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے ،اس لئے یہاں آخرت میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہ رہا جسے تم لے سکو، تو تم جودنیامیں ایمان قبول کرنے سے ناحق تکبر کرتے تھے اوراحکامات کو ترک کر کے اور ممنوعات کا اِرتکاب کر کے نافرمانی کیا کرتے تھے ا س کے بدلے میں آج تمہیں ذلیل اور رسوا کردینے والا عذاب دیا جائے گا۔(صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۹۳۹-۱۹۴۰، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۴۷۹، ملتقطاً)
اُخروی ثواب میں اضافے کی خاطر دُنْیَوی لذتوں کو ترک کر دیناـ:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دُنْیَوی لذتوں اور عیش و عشرت کو اختیارکرنے پر کفار کی مذمت اور انہیں ملامت فرمائی ہے،اسی لئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور امت کے دیگر نیک لوگ دنیا کے عیش و عشرت اور اس کی لذتوں سے کنارہ کَش رہتے تھے اور زہد و قناعت والی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے تاکہ آخرت میں ان کا ثواب زیادہ ہو۔( الوسیط، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۱۰) یہاں اسی سے متعلق دو رِوایات ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے کاشانۂ اَقدس میں دیکھا تو خدا کی قسم! مجھے تین کھالوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا،میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے آپ کی امت پر وسعت فرمائے کیونکہ ا س نے ایران اور روم کے لئے وسعت کر کے انہیں دنیا عطا فرمائی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے ۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابنِ خطاب!کیا تمہیں اس میں شک ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے حصے کی پاک چیزیں دنیا میں ہی جلد دے دی گئی ہیں ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیجئے۔( بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب الغرفۃ والعلیۃ… الخ، ۲ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۴۶۸)
(2)…حضرت سالم بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!ہمیں بھی زندگی کی لذّتیں حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور ہم بھی یہ حکم دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے لئے چھوٹی بکری بھونی جائے ،میدے کی روٹی اور مشکیزے میں نبیذ بنائی جائے، یہاں تک کہ جب گوشت چکور(یعنی تیتر کی مثل پہاڑی پرندے کے گوشت) کی طرح(نرم) ہو جائے تواسے کھائیں اور نبیذ پئیں ،لیکن (ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ) ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ پاکیزہ چیزوں کو آخرت کے لئے بچا لیں کیونکہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن رکھا ہے:
’’اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم اپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے۔( حلیۃ الاولیاء، عمر بن الخطاب، ۱ / ۸۵، الحدیث: ۱۱۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اُخروی ثواب میں اضافے کی خاطر دنیا کی لذّتوں اور اس کے عیش و عشرت کو ترک کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی دنیا سے کنارہ کشی:
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہر چیز کے مالک ہیں اور آپ جیسی چاہتے ویسی شاہانہ زندگی بسر فرما سکتے تھے لیکن آپ نے اس زندگی پر قدرت و اختیار کے باوجود زُہد و قناعت سے بھر پور اور دنیا کے عیش و عشرت سے دور رہتے ہوئے زندگی بسر فرمائی اور آپ کی صحبت سے فیض یافتہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بھی اسی طرح زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی ،یہاں ان کی زاہدانہ زندگی کے مزید6واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ معاملہ پیش فرمایا کہ میرے لیے مکہ کی واد ی سونے کی بنادے ،میں نے عرض کی: اے میرے رب! (عَزَّوَجَلَّ) نہیں ، میں ایک دن پیٹ بھرکرکھائوں گااورایک دن بھوکارہوں گا،پھرجب میں بھوکارہوں گاتوتجھ سے فریاد کروں گااورتجھے یادکروں گااورجب میں سیرہوکرکھائوں گاتومیں تیراشکراداکروں گااورتیری حمد کروں گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الکفاف والصبر علیہ، ۴ / ۱۵۵، الحدیث: ۲۳۵۴)
(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : پورا پور امہینہ گزر جاتا تھا مگرگھر میں آ گ نہ جلتی تھی ، محض چند کھجوروں اورپانی پر گزارہ کیا جاتا تھا ۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ۴ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۴۵۸)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں :ایک مرتبہ حضرت سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے (جَو کی) روٹی کا ایک ٹکڑا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیاتوآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ پہلاکھاناہے جو تین دن کے بعدتمہارے والد کے منہ میں داخل ہواہے ۔( معجم الکبیر، ومما اسند انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱ / ۲۵۸، الحدیث: ۷۵۰)
(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات تک آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت نے کبھی جَو کی روٹی بھی دو دن مُتَواتِر نہ کھائی۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۸، الحدیث: ۲۲(۲۹۷۰))
(5)…حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ہم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھوک کی شکایت کی اوراپنے پیٹ سے کپڑااٹھاکرآپ کوپیٹ پربندھے ہوئے پتھردکھائے تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پیٹ پربندھے ہوئے دوپتھردکھائے ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء فی معیشۃ اصحاب النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۱۶۴، الحدیث: ۲۳۷۸)
(6)…جب حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ملکِ شام میں گئے توان کے لیے ایسالذیذ کھاناتیارکیاگیاکہ اس سے پہلے اتنالذیذ کھانادیکھانہیں گیاتھا،حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:یہ کھاناہمارے لئے ہے توان محتاج مسلمانوں کے لیے کیاتھاجواس حا ل میں فوت ہوگئے کہ انہوں نے جَوکی روٹی بھی پیٹ بھرکرنہیں کھائی؟ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:ان کے لیے جنت ہے ۔یہ سن کرحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے اورآپ نے فرمایا :کاش!ہمارے لیے دنیاکاحصہ چندلکڑیاں ہوتیں ،وہ محتاج مسلمان اپنے حصے میں جنت لے گئے، ہم میں اوران میں بہت فرق ہے ۔( قرطبی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۱۴۶، الجزء السادس عشر)
کائنات کی ان مُقَدّس ہستیوں کے زُہد و قناعت کاصدقہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی زہد و قناعت کی عظیم دولت عطا فرمائے،اٰمین۔
نفس کو نہ کھلی چھٹی دی جائے نہ ہر حال میں اس کی پیروی کی جائے:
امام محمدغزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بزرگانِ دین کے زُہد و قناعت اور دُنْیَوی لذّتوں سے کنارہ کشی کے واقعات ذکر کرنے کے بعدفرما تے ہیں : خلاصہ یہ ہے کہ نفس کو جائز خوا ہشات کے لئے بھی کھلی چھٹی نہیں دینی چاہئے اور نہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ ا س کی ہر حال میں پیروی کی جائے ،بندہ جس قدر خواہشات کو پورا کرتا ہے اسی قدر اسے اس بات کا ڈر بھی ہونا چاہئے کہ کہیں قیامت کے دن ا س سے یہ نہ کہہ دیا جائے:
’’ اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم اپنے حصے کی پاک چیزیں اپنی دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے۔
اور جس قدر بندہ اپنے نفس کو مجاہدات میں ڈالے گا اور خواہش کو چھوڑے گا اسی قدر آخرت میں من پسند چیزوں سے نفع اٹھائے گا۔(احیاء علوم الدین، کتاب کسر الشہوتین، بیان طریق الریاضۃ فی کسر شہوات البطن، ۳ / ۱۱۸)
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ لذیذ چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی مذموم اور غیر مذموم صورتیں :
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی لذیذاورپسندیدہ حلال چیزوں کوحاصل کرنا اور ان سے نفع اٹھاناگناہ نہیں کیونکہ شریعت میں حلال اورطیب چیزکے حصول اوراس سے نفع اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے اور نہ ہی ان چیزوں کا استعمال جائز اور حلال سمجھتے ہوئے انہیں ترک کرنا قابلِ مذمت ہے بلکہ مذموم یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اوران کاشکرادانہ کرے ،یاحرام ذریعے سے حاصل کر کے انہیں استعمال کرے ،یاحلال چیزوں کی بجائے حرام چیزوں سے فائدہ اٹھائے، لہٰذا بعض بزرگانِ دین کا حلال و طیب، لذیذ اور عمدہ چیزوں کو استعمال کرنا مذموم نہیں کیونکہ وہ شریعت کی دی ہوئی اجازت پر عمل کر رہے ہوتے ہیں ،اسی طرح بعض بزرگانِ دین کاان چیزوں کے استعمال سے گریز کرنا بھی مذموم نہیں کیونکہ وہ ان کے ساتھ حرام جیسا سلوک نہیں کرتے بلکہ ان کاا ستعمال جائز و حلال سمجھتے ہوئے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ایسا کرتے ہیں ،البتہ ان لوگوں کا طرزِ عمل ضرور مذموم ہے جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے فائدہ اٹھانا اپنے اوپر حرام قرار دیتے ہوئے ان سے بچتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۶۸،۱۶۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا اور یہ (حکم دے گا) کہ تم اللہ کے بارے میں وہ کچھ کہو جو خود تمہیں معلوم نہیں ۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۷۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤاور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
اور ارشاد فرمایا :
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۸۷) وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ‘‘(مائدہ:۸۷،۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ اور جو کچھ تمہیں اللہ نے حلال پاکیزہ رزق دیا ہےاس میں سے کھاؤ اوراس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ-قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ‘‘(اعراف:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو (کس نے حرام کیا؟) تم فرماؤ: یہ دنیا میں ایمان والوں کے لئے ہے، قیامت میں تو خاص انہی کے لئے ہوگا۔ ہم اسی طرح علم والوں کے لئے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے اَحکام اور مَقاصد کو سمجھنے اور اِعتدال کی راہ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین۔
وَ اذْكُرْ اَخَا عَادٍؕ-اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بِالْاَحْقَافِ وَ قَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖۤ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(21)قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورعاد کے ہم قوم کو یاد کروجب اس نے اپنی قوم کو سرزمینِ احقاف میں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی ڈر سنانے والے گزر چکے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈرہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم اس لیے آئے ہوکہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو، اگر تم سچے ہوتو ہم پر لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرْ اَخَا عَادٍ: اورعاد کے ہم قوم کو یاد کرو۔} اس سے پہلی آیات میں توحید اور نبوت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل بیان کئے گئے اور کفارِ مکہ کا حال یہ تھا کہ وہ دُنْیَوی لذّتوں میں ڈوبے ہوئے اور انہیں حاصل کرنے میں مشغول ہونے کی بنا پر ان دلائل سے منہ پھیرتے اور ان کی طرف کوئی توجہ نہ کیا کرتے تھے ،اس لئے یہاں سے قومِ عاد کے بارے میں بیان کیا گیا کہ وہ مال،قوت اور وجاہت میں کفار ِمکہ سے بڑھ کر تھے اور جب وہ اپنے کفر و سرکشی پر قائم رہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب مُسلَّط کر دیا ۔اس واقعے کو ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ کفارِ مکہ اس سے عبرت پکڑیں اور اپنے غرور و تکبُّر کو چھوڑ کر دین ِاسلام کو قبول کر لیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ بیان کریں جب انہوں نے اَحقاف کی سرزمین میں بسنے والی اپنی قوم کو ایمان نہ لانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا اور یہ ایسی لازمی اور صحیح بات ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے اور ان کے بعد بہت سے عذابِ الٰہی کا ڈر سنانے والے پیغمبر گزر چکے ہیں ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، بیشک مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہارے شرک اور توحید سے اِعراض کرنے کی وجہ سے تم پرایک بڑے دن کا عذاب نہ آجائے۔ (اگر تم اس سے بچنا چاہتے ہوتو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لے آؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو۔)( تفسیرکبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۰ / ۲۴، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۴۸۰-۴۸۱، ملتقطاً)
{قَالُوْا: انہوں نے کہا۔} قوم نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جواب دیا:کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم سے ہمارے بتوں کی پوجا چھڑا کر ہمیں اپنے دین کی طرف پھیر دو،ایسا ہر گز نہیں ہو سکتااورتم نے ہمیں جو عذاب کی وعید سنائی ہے ،اس میں اگر تم سچے ہوتو ہم پر وہ عذاب لے آؤ۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۸ / ۴۸۱)
قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ﳲ وَ اُبَلِّغُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا:علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اورمیں تمہیں اسی چیز کی تبلیغ کرتا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے لیکن میں تمہیں ایک جاہل قوم سمجھتا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ: فرمایا: علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔} حضرت ہود عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کے جواب میں ارشادفرمایا:عذاب نازل ہونے کا وقت مجھے معلوم نہیں کیونکہ اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اورجب عذاب کا مقررہ وقت آئے گا تو وہی اسے نازل فرمائے گااور میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس معاملے میں کوئی دخل دوں بلکہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ مجھے جو احکام دے کر بھیجا گیا ہے وہ تم تک پہنچا دوں ،اس لئے تمہیں تبلیغ کر کے میں تو اپنی ذمہ داری پور ی کر رہا ہوں لیکن تم میرے حساب سے جاہل لوگ ہو کیونکہ تم اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے دائرہِ اختیار میں ہے ہی نہیں (اور یہ بھی تمہاری جہالت ہے کہ ایک طرف توحید کا انکار کر رہے ہو اور دوسری طرف اپنے ہی منہ سے مصیبت و بلا مانگ رہے ہو)۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۸ / ۴۸۱)
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْۙ-قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاؕ-بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖؕ-رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب انہوں نے اسے (یعنی عذاب کو) بادل کی صورت میں پھیلا ہوا اپنی وادیوں کی طرف آتا ہوا دیکھا توکہنے لگے: یہ ہمیں بارش دینے والابادل ہے۔(کہا گیا کہ، نہیں ) بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم نے جلدی مچائی تھی، یہ ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا رَاَوْهُ: پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا۔} جب قومِ عاد نے کسی طرح حق کو قبول نہ کیا تو ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا گیا تھا وہ آگیا،اس کی صورت یہ ہوئی کہ کچھ عرصہ ان کے علاقوں میں بارش نہ ہوئی ،پھراللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک سیاہ بادل چلایا جس میں ان پر آنے والا عذاب تھا اور جب انہوں نے عذاب کو بادل کی طرح آسمان کے کنارے میں پھیلا ہوا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے: یہ ہمیں بارش دینے والابادل ہے۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:یہ برسنے والا بادل نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی مچارہے تھے، اس بادل میں ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔(تفسیرکبیر، الاحقاف،تحت الآیۃ:۲۴،۱۰ / ۲۵، روح البیان،الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۴۸۲، مدارک، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۱۲۸-۱۱۲۹، ملتقطاً)
تُدَمِّرُ كُلَّ شَیْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰۤى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے تو صبح کو ان کی ایسی حالت تھی کہ ان کے خالی مکان ہی نظر آرہے تھے۔ ہم مجرموں کوایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{تُدَمِّرُ كُلَّ شَیْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا: اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے۔} یعنی اس آندھی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے ،چنانچہ اس آندھی کے عذاب نے قومِ عادکے مَردوں ، عورتوں ، چھوٹوں ، بڑوں سب کو ہلاک کردیا ، ان کے اَموال آسمان وز مین کے درمیان اُڑتے پھرتے تھے اور ان کی چیزیں پارہ پارہ ہوگئیں اور صبح کے وقت ایسی حالت تھی کہ وہاں ان کے خالی مکان ہی نظر آرہے تھے۔آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ہم مجرموں کوایسی ہی سزا دیتے ہیں جیسی ہم نے قومِ عاد کو دی،اس لئے کفارِ مکہ کو بھی اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ ان پر بھی قومِ عاد جیسی آندھی بھیج سکتا ہے۔( جلالین، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۱۸، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۵، ۸ / ۴۸۲-۴۸۳، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِیْمَاۤ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِیْهِ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّ اَبْصَارًا وَّ اَفْـٕدَةً ﳲ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَ لَاۤ اَبْصَارُهُمْ وَ لَاۤ اَفْـٕدَتُهُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ كَانُوْا یَجْحَدُوْنَۙ-بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے ان کو ان چیزوں میں قدرت دی تھی جن میں (اے اہلِ مکہ) تمہیں قدرت نہیں دی اور ان کے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے دل ان کے کچھ کام نہ آئے جبکہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اورانہیں اس عذاب نے گھیرلیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِیْمَاۤ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِیْهِ: اور بیشک ہم نے ان کو ان چیزوں میں قدرت دی تھی جن میں تمہیں قدرت نہیں دی۔} کفار ِ مکہ کو عذاب سے ڈرانے کے بعدیہاں سے قومِ عاد کی ان پر برتری بیان کر کے انہیں نصیحت کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایاگیا: اے اہلِ مکہ ! بیشک ہم نے قومِ عاد کو ان چیزوں میں قدرت دی تھی جن میں تمہیں قدرت نہیں دی،جیسے وہ جسمانی قوت ، مال کی کثرت اور عمر لمبی ہونے میں تم سے زیادہ تھے، لیکن اس قوت کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہ پا سکے تو پھر غور کرو کہ تمہارا کیا حال ہو گا؟مزید یہ کہ ہم نے قومِ عاد پر نعمتوں کے دروازے کھولے ، انہیں کان ،آنکھیں اور دل عطا کئے تاکہ وہ ان اَعضا ء کو دین کے کام میں لائیں مگر انہوں نے ان خداداد نعمتوں سے دین کا کام ہی نہیں لیا بلکہ ان کے ذریعے صرف دنیا اور ا س کی لذّتیں طلب کرنے میں لگے رہے، تو ان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں ان کے کچھ کام نہ آئے اور وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس لئے انہیں اس عذاب نے گھیرلیا جس کے جلد نازل ہونے کامطالبہ کر کے وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے،تو اے اہلِ مکہ! جب قومِ عاد نے اپنی دنیا پر غرور کیا اور حجت و دلیل کو قبول کرنے سے اِعراض کیا توان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گیا اور ان کی قوت و کثرت ان کے کچھ کام نہ آئی اور تم تو ان کے مقابلے میں کمزور اور عاجز ہو اس لئے تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔(خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۲۸-۱۲۹، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۴۸۳-۴۸۴، تفسیر کبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱۰ / ۲۶، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَ صَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(27)فَلَوْ لَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةًؕ-بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْۚ-وَ ذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَ مَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور(اے اہلِ مکہ!) بیشک ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کردیا اور بار بار نشانیاں لائے تاکہ وہ باز آجائیں ۔ تو جن بتوں کو قرب حاصل کرنے کیلئے اللہ کے سوامعبود بنارکھا تھا انہوں نے ان کافروں کی مدد کیوں نہیں کی بلکہ وہ ان سے گم گئے اور یہ ان کا بہتان تھا اور جووہ گھڑتے رہتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى: اور بیشک ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کردیا۔} یہاں سے قومِ عاد اور ثمود وغیرہ کی اجڑی ہوئی بستیوں ، ان کی تباہی اور ان میں رہنے والوں کی ہلاکت کے سبب کی طرف اشارہ کر کے کفارِ مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے اہلِ مکہ! تمہارے آس پاس عاد اور ثمود وغیرہ کی اجڑی ہوئی بستیاں موجود ہیں اور جب تم یمن اور شام کا سفر کرتے ہوتو راستے میں ان تباہ شدہ بستیوں کو دیکھتے ہو،کبھی تم نے ان کی تباہی وبربادی کاسبب تلاش کیاہے کہ آخرکس وجہ سے وہ بستیاں تباہ ہو گئیں اور ان میں بسنے والے لوگ تم سے زیادہ طاقتور اورمالدارہونے کے باوجود ہلاک ہو کر عبرت کا نشان بن گئے؟ تو سنو! ان کی تباہی وبربادی اور ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ جب وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو ان لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور ان کی ہٹ دھرمی کا حال یہ تھا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیّت اور اپنی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیاں باربار پیش کیں ، سابقہ امتوں کی بربادی کے عبرت ناک واقعات ان کے سامنے بیان کئے تاکہ وہ اپنے کفر اور مَعصِیَت سے باز آ جائیں ، لیکن وہ کسی صورت ا س سے باز نہ آئے اور کفر و مَعصِیَت ہی کو اختیار کیا تو اس کی وجہ سے ان کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عذاب سے ہلاک کر دیا،تواب تم بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں کو ان کافروں نے اپنا معبود بنا رکھا تھا اور ان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ان بتوں کو پوجنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،اُن بتوں نے اِن کافروں کی مدد کیوں نہیں کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کیوں نہیں بچایا؟ بلکہ اس وقت تو یوں ہوا کہ ان بتوں کا عاجز اور بے بس ہونا پوری طرح ظاہر ہو گیا اور عذاب نازل ہوتے وقت وہ ان کے کچھ کام نہ آئے اور یاد رکھو کہ وہ جو بتوں کو اپنامعبود کہتے اور بت پرستی کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ٹھہراتے تھے ،یہ ان کا بہتان اور اِفتراء تھا، حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہے،لہٰذااب تم بھی اپنے حال پر غورکرلواوراپنے طرزِعمل کودرست کرلوورنہ تمہاراانجام بھی ان کی طرح ہوگا۔
جہالت کی انتہاء:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنا شفیع ،مدد گار اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھناکفر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے مدد گار اورشفیع ماننا اور انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھناعین ایمان ہے ،جیسے بت کی طرف سجدہ کرنا کفر ہے اور کعبہ کی طرف سجدہ کرناایما ن ہے ، لہٰذا اس عظیم فرق کو پسِ پُشت ڈال کر یہ آیت اللہ تعالیٰ کے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام اور ولی پر چسپاں کرنا اور اسے ان کے اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار اور شفیع نہ ہونے کی دلیل بنانا جہالت کی انتہاء ہے۔
وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَۚ-فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْاۚ-فَلَمَّا قُضِیَ وَ لَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ(29)قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ(30)یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(31)وَ مَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور(اے حبیب!یاد کرو) جب ہم نے تمہاری طرف جنوں کی ایک جماعت پھیری جو کان لگا کر قرآن سنتی تھی پھر جب وہ نبی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے: خاموش رہو (اور سنو) پھر جب تلاوت ختم ہوگئی تووہ اپنی قوم کی طرف ڈراتے ہوئے پلٹ گئے۔ کہنے لگے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ہے ، حق اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہوں میں سے بخش دے گااور تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گا۔اور جو اللہ کے بلانے والے کی بات نہ مانے تووہ زمین میں قابو سے نکل کر جانے والا نہیں ہے اور اللہ کے سامنے اس کا کوئی مددگار نہیں ہے۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ: اور جب ہم نے تمہاری طرف جنوں کی ایک جماعت پھیری۔} اس سے پہلی آیات میں کفارِ مکہ کے سامنے سابقہ امتوں کے حالات اور ان کا انجام بیان ہوا اور اب یہاں سے ان کے سامنے جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کر کے انہیں شرم وعار دلائی جا رہی ہے چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کے سامنے اس وقت کا واقعہ بیان کیجئے جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف بھیج دیا جس کا حال یہ تھا کہ وہ غور سے قرآن سنتی تھی، پھر جب وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے توآپس میں کہنے لگے: خاموش رہو تاکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قراء ت اچھی طرح سن لیں ، پھر جب تلاوت ختم ہوگئی تو وہ جنات رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاکرآپ کے حکم سے اپنی قوم کی طرف ایمان کی دعوت دینے گئے اور انہیں ایمان نہ لانے اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت سے ڈرایا ،چنانچہ انہوں نے کہا:اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب قرآن شریف سنی ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد نازل کی گئی ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ پہلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ہے ، حق اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم!اللہ تعالیٰ کے مُنادی حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات مانو اور ان پر ایمان لاؤ، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہارے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گا اور یاد رکھو!جو اللہ تعالیٰ کے بلانے والے کی بات نہ مانے گا تووہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا اور ا س کے عذاب سے بچ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا کوئی مددگار نہیں ہے جو ا سے عذاب سے بچا سکے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مُنادی حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات نہ مانیں وہ کھلی گمراہی میں ہیں کیونکہ جب ان کی صداقت پر مضبوط دلائل قائم ہیں تو ان کی بات نہ ماننا ایسی گمراہی ہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس واقعے کو سن کر کفارِ مکہ کو غور کرنا چاہئے کہ ان کی زبان وہی ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تعلق بھی انسانوں سے ہے جبکہ جِنّات نہ تو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہم زبان ہیں اورنہ آپ کی جنس سے انسان اور بشر ہیں ،جب وہ قرآنِ مجید کی آیات سن کر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے ہیں تو کفار ِمکہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قرآن کریم سن کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور قرآنِ مجید کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے پر ایمان لائیں ۔( روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۲، ۸ / ۴۸۶-۴۹۰، روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۲، ۱۳ / ۲۵۹-۲۶۴، ملتقطاً)
سورہِ اَحقاف کی آیت نمبر29تا32سے متعلق 5باتیں :
مفسرین نے ان آیات کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کے لئے کثیر کلام فرمایا ہے ، یہاں اس میں سے 5 باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…آیت نمبر29میں لفظِ ’’نَفر‘‘ مذکور ہے، مشہور قول کے مطابق اس کا اِطلاق تین سے لے کر دس تک اَفراد پر ہوتا ہے اورجنوں کی جو جماعت حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھیجی گئی اس کی تعداد کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ وہ سات جِنّات پر اور ایک قول یہ ہے کہ وہ نو جِنّات پر مشتمل تھی۔( روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱۳ / ۲۵۹، جلالین مع صاوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۹۴۳- ۱۹۴۴، ملتقطاً)
(2)…ان جِنّات کا تعلق کس علاقے سے تھا ا س کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ ان کا تعلق یمن کے علاقے نَصِیبِین سے تھا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا تعلق نِیْنَویٰ سے تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ جِنّات شَیْصَبان سے تھے۔( روح المعانی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱۳ / ۲۶۰)
(3)… مُحقِّق علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن سب کے سب مُکَلَّف ہیں ۔( خازن، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۳۱)
(4)…آیت نمبر30میں ہے کہ جِنّات نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا،اس کے بارے میں حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: چونکہ وہ جِنّات دین ِیہودِیَّت پر تھے اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب کا نام نہ لیا، اور بعض مفسرین نے کہا : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب کا نام نہ لینے کا باعث یہ ہے کہ اس میں صرف مَواعِظ ہیں ، اَحکام بہت ہی کم ہیں ۔( بغوی، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۱۵۸، ابن کثیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۷ / ۲۸۰، ملتقطاً)
(5)…آیت نمبر31میں بیان ہوا کہ ایمان قبول کرنے کی صورت میںاللہ تعالیٰ گناہ بخش دے گا۔اس میں تفصیل یہ ہے کہ ایمان لانے سے جوگناہ بخشے جائیں گے ان سے مراد وہ گناہ ہیں جن کاتعلق حُقُوقُ اللہ سے ہواورجوگناہ حُقُوقُ الْعِبَاد سے متعلق ہوگئے و ہ (محض ایمان قبول کرنے سے) معاف نہیں ہوں گے(بلکہ ان کی تلافی ضروری ہے)۔( ابوسعود، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۵۸۱)
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یُّحْیَِۧ الْمَوْتٰىؕ-بَلٰۤى اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے نہیں دیکھاکہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین بنائے اور ان کے بنانے میں نہ تھکا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ؟کیوں نہیقادرہے۔ں ، بیشک وہ ہر شے پر
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا: کیا انہوں نے نہیں دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں مختلف انداز سے کفارِمکہ کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی اور اب اس آیت میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں کا دلیل کے ساتھ رد کیا جا رہاہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ نے کسی سابقہ مثال کے بغیر ابتداء سے آسمان اور زمین جیسی عظیم اور بڑی مخلوق بنا دی اور انہیں بنانے میں وہ تھکا نہیں اور جو اللہ تعالیٰ آسمان و زمین بنا سکتا ہے کیا وہ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں جو کہ زمین و آسمان بنانے سے ظاہراً لوگوں کے اعتبار سے کہیں آسان ہے،کیوں نہیں ، وہ ضرور اس پر قادر ہے ۔اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ممکن شے پر قادر ہے، اور روح کا جسم کے ساتھ تعلق قائم ہونے کو دیکھا جائے تو یہ بھی ممکن ہے کیونکہ اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو پہلی بار بھی قائم نہ ہوتا اور جب یہ ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ تمام مُمکِنات پر قادر ہے تو ا س سے ثابت ہوا کہ وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔
وَ یَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِؕ-اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَاؕ-قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس دن کافر آگ پر پیش کیے جائیں گے (توکہا جائے گا) کیا یہ حق نہیں ؟ کہیں گے: کیوں نہیں ، ہمارے رب کی قسم، اللہ فرمائے گا: تو اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ یَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ: اور جس دن کافر آگ پر پیش کیے جائیں گے۔} اس سے پہلی آیت میں یہ ثابت کیا گیا کہ مُردوں کوزندہ کیا جانا حق ہے اور اس آیت میں قیامت کے دن کافروں کے بعض احوال بیان کئے جارہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا: جس دن کافر جہنم کی آگ پر پیش کیے جائیں گے تو اس وقت ان سے فرمایا جائے گا: جوعذاب تم دیکھ رہے ہو کیا یہ حق نہیں ؟وہ کہیں گے: کیوں نہیں ، ہمارے رب کی قسم! بے شک یہ حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: (آج یہ اقرار تمہیں عذاب سے نہیں بچائے گا ا س لئے اب) تم اپنے دنیوی کفر کے بدلے عذاب چکھو۔(تفسیرکبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱۰ / ۳۰، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۴، ۸ / ۴۹۳، ملتقطاً)
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْؕ-كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَۙ-لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍؕ-بَلٰغٌۚ-فَهَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو (اے حبیب!)تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کافروں کے لیے جلدی نہ کرو۔ جس دن وہ دیکھیں گے اسے جس کی وعید انہیں سنائی جاتی ہے (توسمجھیں گے کہ)گویا وہ دنیا میں دن کی صرف ایک گھڑی بھر ٹھہرے تھے۔ یہ ایک تبلیغ ہے تو نافرمان لوگ ہی ہلاک کئے جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ: تو تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔} توحید ،نبوت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو ثابت کرنے کے بعد یہاں سے سیِّدُ المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کی نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب کافروں کا انجام یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا توآپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر ایسے ہی صبر کریں جیسے ہمّت والے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر کیا کیونکہ آپ بھی انہی میں سے ہیں بلکہ ان میں سب سے اعلیٰ ہیں اور ان کافروں کے لیے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کریں کیونکہ فی الحال اگرچہ انہیں مہلت ملی ہوئی ہے لیکن قیامت کے دن ان (میں سے کفر کی حالت میں مرنے والوں ) پر عذاب ضرور نازل ہونے والاہے ، اورجس دن وہ آخرت کے اس عذاب کودیکھیں گے جس کا انہیں دنیا میں وعدہ دیا جاتا ہے تو اس کی درازی اور دَوَام کے سامنے دنیا میں ٹھہرنے کی مدت کو یہ لوگ بہت قلیل سمجھیں گے اور خیال کریں گے کہ گویا وہ دنیا میں دن کی صرف ایک گھڑی بھر ٹھہرے تھے۔ یہ قرآن اور وہ ہدایت اور روشن نشانیاں جو اس قرآن میں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہے تو عقلمند کو چاہئے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اور یاد رکھو کہ وہی نافرمان لوگ ہی ہلاک کئے جاتے ہیں جو ایمان اور طاعت سے خارج ہیں۔(تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۳۵ ، ۱۰ / ۳۰-۳۱، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۰ / ۴۹۴-۴۹۵، ملتقطاً)
ہمّت والے رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام:
یوں تو سبھی انبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمّت والے ہیں اور سبھی نے راہ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر وہمّت کا شاندارمظاہرہ کیا ہے البتہ ان کی مقدس جماعت میں سے پانچ رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر اور مجاہدہ دیگرانبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ ہے اس لئے انہیں بطورِ خاص ’’اُلُوا الْعَزْم رسول‘‘ کہا جاتا ہے اور جب بھی ’’اُلُوا الْعَزْم رسول‘‘ کہا جائے تو ان سے یہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں :
(1)…حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔
(2)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(4)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(5)…حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
قرآنِ مجید میں ان مقدس ہستیوں کاخاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ،جیسا کہ سورہ ِ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا‘‘(احزاب:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (عہد لیا) اور ہم نے ان (سب) سے بڑا مضبوط عہد لیا۔
اور سورہِ شوریٰ میں ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے :
’’شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى‘‘(شوریٰ:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی۔
حضرت علامہ مُلّا علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ پانچوں ہی اُلُوا الْعَزْم رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر مذکورہ (بالا) دونوں آیتوں میں اکٹھا کر دیا ہے ۔( مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعۃ… الخ، الفصل الاول، ۹ / ۳۷۶، تحت الحدیث: ۴۵۷۲)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :صحیح قول کے مطابق یہ پانچوں ہی اُلُوا الْعَزْم رسول ہیں ۔( مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، الفصل الثالث، ۱ / ۳۳۳، تحت الحدیث: ۱۲۲)
صدرُا لشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :نبیوں کے مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں ، حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خَلِیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام، پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا، اِن حضرات کو مُرْسَلِیْنِ اُلُوا الْعَزْم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مُرسَلین ،اِنس و مَلک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ اول، ۱ / ۵۲-۵۴)
سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صبر:
راہِ حق میں تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جتنا ستایا گیا اور جتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں اتنی کسی اور کو نہیں پہنچائی گئیں اور صبر کا جیسا مظاہرہ آپ نے فرمایا ویسا اور کوئی نہ کر سکا، جیسا کہ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ڈرایا گیا اور جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ستایا گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ستایا گیا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ… الخ، ۳۴-باب، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)
حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور ِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، دنیا (کی زیب و زینت اور عیش) محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کی آل کے لئے مناسب نہیں ،اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، بے شک اللہ تعالیٰ اُلُوا الْعَزْم رسولوں سے یہ پسند فرماتا ہے کہ وہ دنیا کی تکلیفوں پر اور دنیا کی پسندیدہ چیزوں سے صبر کریں ، پھر مجھے بھی انہی چیزوں کا مکلف بنانا پسند کیا جن کا انہیں مکلف بنایا ،تو ارشاد فرمایا:
’’فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو (اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا ۔
اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم!میں ضرور صبر کروں گا جس طرح اُلُوا الْعَزْم رسولوں نے صبر کیا اور قوت تو اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے۔( اخلاق النّبی لابی شیخ اصبہانی، ذکر محبتہ للتیامن فی جمع افعالہ، ص۱۵۴، الحدیث: ۸۰۶)
حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :خدا کی قسم!تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے (کسی سے)انتقام نہیں لیا،ہاں جب اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے تھے ۔( بخاری، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود… الخ، ۴ / ۳۳۱، الحدیث: ۶۷۸۶)
صبرکے 15 فضائل:
یہاں آیت میں ہم مسلمانوں کے لئے بھی صبر کرنے کی ترغیب ہے اور ا س کی مزید ترغیب حاصل کرنے کے لئے یہاں صبر کرنے کے 15 فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…صبر ایمان کا نصف حصہ ہے۔( حلیۃ الاولیاء، زبید بن الحارث الایامی، ۵ / ۳۸، الحدیث: ۶۲۳۵)
(2)…صبر ایمان کا ایک ستون ہے۔( شعب الایمان، باب القول فی زیادۃ الایمان ونقصانہ… الخ، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۳۹)
(3)…بندے کو صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہیں دی گئی۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ السجدۃ، ما رزق عبد خیر لہ… الخ، ۳ / ۱۸۷، الحدیث: ۳۶۰۵)
(4)…اگر صبر کسی مرد کی شکل میں ہوتا تو وہ عزت والا مرد ہوتا۔ (حلیۃ الاولیاء، ابو مسعود الموصلی، ۸ / ۳۲۱، الحدیث: ۱۲۳۵۲)
(5)…صبر بہترین سواری ہے ۔( جامع صغیر، حرف الحائ، فصل فی المحلی بأل… الخ، ۱ / ۲۳۵، الحدیث: ۳۸۶۸)
(6)…صبر کرنے سے مدد ملتی ہے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس… الخ، ۱ / ۶۵۹، الحدیث: ۲۸۰۴)
(7)…صبر کے ساتھ آسانی کا انتظار کرنا عبادت ہے۔( شعب الایمان،السبعون من شعب الایمان…الخ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع… الخ، ۷ / ۲۰۴، الحدیث: ۱۰۰۰۳)
(8)…صبر مومن کا ہتھیار ہے۔ (مسند الفردوس، باب النون، ۴ / ۲۶۷، الحدیث: ۶۷۸۷)
(9)…آزمائش پر صبر کرنے والوں کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہیں ۔
(10)…آنکھیں چلی جانے پر صبر کرنے کی جزا ء جنت ہے۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من ذہب بصرہ، ۴ / ۶، الحدیث: ۵۶۵۳)
(11)…صبر افضل ترین عمل ہے۔( شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان… الخ، ۷ / ۱۲۲، الحدیث: ۹۷۱۰)
(12)…فتنے کی شدت پرصبر کرنے والے کو قیامت کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہوگی۔( شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان… الخ، ۷ / ۱۲۴، الحدیث: ۹۷۲۱)
(13)…لوگوں سے میل جول رکھنے والا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرنے والا اُن مسلمانوں سے افضل ہے جو ایسے نہیں ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ… الخ، ۵۵-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۵)
(14)…صبر کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ حساب کے بغیر جنت میں داخل فرما دے گا۔( معجم الکبیر، الحکم بن عمیر الثمالی، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۳۱۸۶)
(15)…صبر بھلائیوں کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا، الصبر، ۴ / ۲۴، الحدیث: ۱۷)
اللہ تعالیٰ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صبر کے صدقے ہمیں بھی مصائب و آلام میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔