Table of Contents
Toggleسُوْرَۃ الرَّحْمَٰن
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے نبی!اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ سننا۔ بیشک الله علم والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ: اے نبی!} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ خطاب فرمایا جس کے معنی یہ ہیں ’’ ہماری طرف سے خبریں دینے والے ، ہمارے اَسرار کے امین ، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں کو پہنچانے والے ۔ نامِ پاک کے ساتھ یعنی ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کہہ کر خطاب نہ فرمایا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خطاب فرمایا ہے، اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت وتکریم، آپ کا احترام اور آپ کی فضیلت کوظاہر کرنا ہے ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ص۹۳۰)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ کے ساتھ نداکی ہے،نام کے ساتھ ندا کرتے ہوئے ’ ’یَا مُحَمَّدُ‘‘ نہیں فرمایا جس طرح دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ندا کرتے ہوئے فرمایا کہ یاآدم ،یانوح ، یاموسیٰ ، یاعیسیٰ، یازکریا، اور یایحییٰ، عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ اس سے مقصود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت ووجاہت کو ظاہر کرنا ہے اور ’’اَلنَّبِیُّ‘‘ ان اَلقاب میں سے ہے جو نام والے کے شرف اورمرتبے پر دلالت کرتا ہے۔یاد رہے کہ سورہِ فتح میں جو ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ فرمایاہے،اس میں آپ کا نامِ پاک اس لئے ذکر فرمایاتاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ آپاللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور لوگ آپ کے رسول ہونے کاعقیدہ رکھیں اوراس کوعقائد ِحَقّہ میں شمارکریں ۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’قرآنِ عظیم کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے مگر جہاں محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا ہے، حضور کے اَوصافِ جلیلہ و اَلقابِ جمیلہ ہی سے یادکیا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ‘‘(احزاب:۴۵)
اے نبی ہم نے تجھے رسول کیا۔
’’یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ‘‘(مائدہ:۶۷)
اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا ۔
’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱)قُمِ الَّیْلَ‘‘(مزمل:۱، ۲)
اے کپڑا اوڑھے لیٹنے والے، رات میں قیام فرما۔
’’یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(مدثر:۱، ۲)
اے جھرمٹ مارنے والے، کھڑا ہو لوگوں کو ڈر سنا۔
’’ یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲)اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘( یس:۱۔۳)
اے یس، مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بے شک تو مُرسَلوں سے ہے ۔
’’طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘( طہ:۱، ۲)
اے طٰہ،ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑے۔
ہر ذی عقل جانتا ہے کہ جو ان نداؤں اور ان خطابوں کو سنے گا بِالبداہت حضور سیّد المرسَلین و اَنبیائے سابقین کا فرق جان لے گا۔امام عزالدین بن عبد السلام وغیرہ علمائے کرام فرماتے ہیں : بادشاہ جب اپنے تمام اُمراء کو نام لے کر پکارے اور ان میں خاص ایک مُقرب کو یوں ندا فرمایا کرے: اے مقربِ حضرت!اے نائب ِسلطنت !اے صاحب ِ عزت !اے سردارِ مملکت !تو کیا کسی طرح محلِ رَیب وشک باقی رہے گا کہ یہ بندہ بارگاہِ سلطانی میں سب سے زیادہ عزت و وجاہت والا اور سرکارِ سلطانی کو تمام عمائد و اَراکین سے بڑھ کر پیارا ہے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۴–۱۵۵)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کی جانے والی ندا سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس نداء سے تین مسئلے معلوم ہوئے :
(1)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فقط نام شریف سے پکارنا قرآنی طریقے کے خلاف ہے ، لہٰذا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوذاتی نام کی بجائے القاب سے پکارنا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:علماء تصریح فرماتے ہیں ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے۔ اورواقعی محلِ انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تَجاوُز کرے۔( فتاویٰ رضویہ، سیرت وفضائل وخصائص سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۳۰ / ۱۵۷)
(2)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذاتی نام شریف محمد واحمد ہیں جبکہ آپ کے القاب اور صفاتی نام شریف بہت ہیں ۔ نبی بھی آپ کے القاب میں سے ہے۔
(3)… رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت تمام رسولوں سے زیادہ ہے کہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا مگر ہمارے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لقب شریف سے یاد فرمایا۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ: اے نبی!اللہ سے ڈرتے رہنا۔} شانِ نزول: ابوسفیان بن حرب ، عکرمہ بن ابو جہل اور ابو الاعور سُلَّمی جنگ ِاُحد کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے اور منافقین کے سردار عبد اللہ بن اُ بی بن سلول کے یہاں مقیم ہوئے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کے لئے امان حاصل کر کے انہوں نے یہ کہا کہ آپ لات ، عُزّیٰ اور مَنات وغیرہ بتوں کو جنہیں مشرکین اپنا معبود سمجھتے ہیں کچھ نہ فرمائیے اور یہ فرما دیجئے کہ ان کی شفاعت ان کے پجاریوں کے لئے ہے، اس کے بدلے میں ہم لوگ آپ کو اور آپ کے رب کو کچھ نہ کہیں گے، یعنی آئندہ آپ سے لڑائی وغیرہ نہیں کریں گے۔حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی یہ گفتگو بہت ناگوار ہوئی اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قتل کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ میں انہیں امان دے چکا ہوں اس لئے قتل نہ کرو بلکہ مدینہ شریف سے نکال دو۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان لوگوں کو نکال دیا ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا’’اے پیارے نبی!آپ ہمیشہ کی طرح اِستقامت کے ساتھ تقویٰ کی راہ پر گامزن رہئے اور کافروں اور منافقوں کی شریعت کے بر خلاف بات نہ ماننے پر قائم رہئے۔بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خطاب توحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے اور مقصود آپ کی اُمت سے فرمانا ہے کہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امان دیدی تو تم اس کے پابند رہو اور عہد توڑنے کا ارادہ نہ کرو اور کفار و منافقین کی خلافِ شرع بات نہ مانو ۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱،۳ / ۴۸۱، ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:۱، ۴ / ۳۰۶، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۳۱، روح المعانی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۱۹۲–۱۹۳، ملتقطاً)
یہودیوں ،عیسائیوں ،مجوسیوں اور دیگر کفار کی مخالفت کا حکم:
سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود بھی کافروں اور منافقوں کے طریقوں کی مخالفت فرمایا کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی ان کے طریقوں کی مخالفت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک یہودی اور عیسائی (سفید) بالوں کو نہیں رنگتے،سو تم ان کی مخالفت کرو۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۲، الحدیث: ۳۴۶۲)
اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مونچھیں پَست کرو اور داڑھی بڑھاؤ ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص۱۵۴، الحدیث: ۵۵(۲۶۰))
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی ا س طرح مخالفت کرو کہ عاشورا سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر تمام کفار کے طریقوں کی مخالفت کرے اور نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ، اور اَکابر بزرگانِ دین کے طریقوں کی پیروی کرے۔
وَّ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(2)وَّ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس کی پیروی کرتے رہنا جو تمہارے رب کی طرف سے تمہیں وحی کی جاتی ہے۔ بیشک الله تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔اور الله پر بھروسہ رکھو اور الله کافی کام بنانے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّبِـعْ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ: اور اس کی پیروی کرتے رہنا جو تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قرآنِ مجید پر عمل کرتے رہیں اور کافروں کی رائے کو خاطر میں نہ لائیں اور اے لوگو!بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے خبردار ہے اور تمہارے جیسے عمل ہوں گے ویسی تمہیں جزا دے گا اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر جو بھروسہ رکھا ہے ا س پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کافی کام بنانے والاہے۔( روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۱۳۲)
مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖۚ-وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْۚ-وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ بنائے اور اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری حقیقی مائیں نہیں بنادیا جنہیں تم ماں جیسی کہہ دو اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہاراحقیقی بیٹا بنایا، یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے اور الله حق فرماتا ہے اور وہی راہ دکھاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ:اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ بنائے۔} اس آیت کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے،علامہ ابنِ عربی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایک دل میں کفر اور ایمان،ہدایت اور گمراہی، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس سے اِنحراف جمع نہیں ہو سکتے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایک دل میں دو مُتَضاد چیزیں جمع نہیں ہوتیں ۔(احکام القرآن لابن عربی، سورۃ الاحزاب، ۳ / ۵۳۷)اور اگر ظاہری دو دل مراد ہوں یعنی یہ کہ ایک انسان کے اندردو ایک قسم کے دل نہیں ہوسکتے تو یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اگر کسی میں بالفرض یہ نظر آئے کہ اس میں دل کی شکل کے دو گوشت کے لوتھڑے ہیں تو ان میں ایک حقیقی دل ہوگا اور دوسرا محض ایک اضافی گوشت ہوگا یعنی اُس آدمی کا نظامِ بدن صرف ایک حقیقی دل کے ساتھ وابستہ ہوگا۔
{وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ: اور اس نے تمہاری ان بیویوں کو تمہاری حقیقی مائیں نہیں بنا دیا جنہیں تم ماں جیسی کہہ دو۔} زمانۂ جاہلیّت میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ظِہار کرتا تھا تو وہ لوگ اس ظہار کو طلاق کہتے اور اس عورت کو اس کی ماں قرار دیتے تھے اور جب کوئی شخص کسی کو بیٹا کہہ دیتا تھاتو اس کو حقیقی بیٹا قرار دے کر میراث میں شریک ٹھہراتے اور اس کی بیوی کو بیٹا کہنے والے کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام جانتے تھے۔ ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن بیویوں کو تم نے ’’ماں جیسی‘‘کہہ دیا ہے تو ا س سے وہ تمہاری حقیقی مائیں نہیں بن گئیں اور جنہیں تم نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے تو وہ تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن گئے اگرچہ لوگ انہیں تمہارا بیٹا کہتے ہوں ۔ بیوی کو ماں کے مثل کہنا اور لے پالک بچے کو بیٹا کہنا ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ، نہ بیو ی شوہر کی ماں ہو سکتی ہے نہ دوسرے کافر زند اپنا بیٹا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ حق بیان فرماتا ہے اور وہی حق کی سیدھی راہ دکھاتا ہے، لہٰذانہ بیوی کو شوہر کی ماں قرار دو اور نہ لے پالکوں کو ان کے پالنے والوں کا بیٹا ٹھہراؤ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱-۹۳۲، ملتقطاً)
ظہار سے متعلق3 شرعی مسائل:
اس آیت میں عورت سے ظہار کرنے والوں کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں ظہار سے متعلق 3شرعی مسائل ملاحظہ ہوں:
(1)…ظہار کا معنی یہ ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی یا اُس کے کسی جُزو ِشائع (جیسے نصف،چوتھائی یا تیسرے حصے کو) یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو یا اس کے کسی ایسے عُضْوْ سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو، مثلاً یوں کہا :تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے، یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں کی پشت کی مثل ہے۔(درمختار و ردالمحتار، کتاب الظہار،۵ / ۱۲۵-۱۲۹، عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب التاسع فی الظہار، ۱ / ۵۰۵)
(2)…ظہار کا حکم یہ ہے کہ (اس سے نکاح باطل نہیں ہوتا بلکہ عورت بدستور ا س کی بیوی ہی ہوتی ہے البتہ) جب تک شوہر کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اُس عورت سے میاں بیوی والے تعلقات قائم کرناحرام ہوجاتا ہے البتہ شہوت کے بغیر چھونے یا بوسہ لینے میں حرج نہیں مگر لب کا بوسہ شہوت کے بغیر بھی جائز نہیں ۔اگرکفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کرلیا تو توبہ کرے اور اُس کے لیے کو ئی دوسرا کفارہ واجب نہ ہوا مگر خبر دار پھر ایسا نہ کرے اور عورت کو بھی یہ جائز نہیں کہ شوہر کو قُربت کرنے دے۔(جوہرۃ النیرہ، کتاب الظہار، ص۸۲، الجزء الثانی، درمختار وردالمحتار، کتاب الظہار، ۵ / ۱۳۰)
(3)…ظہار کاکفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اور اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینے کے روزے لگاتاررکھے، ان دنوں کے بیچ میں نہ کوئی روزہ چھوٹے نہ دن کو یارات کوکسی وقت عورت سے صحبت کرے ورنہ پھر سرے سے روزے رکھنے پڑیں گے، اور جو ایسا بیمار یا اتنا بوڑھا ہے کہ روزوں کی طاقت نہیں رکھتا وہ ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۶۹)
نوٹ: ظہار سے متعلق شرعی مسائل کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ ،جلد 13سے ’’ظہار کا بیان‘‘اور بہار شریعت،جلد 2 حصہ 8سے ’’ظہار کابیان‘‘ مطالعہ فر مائیں ۔
بیوی کو ماں ، بہن کہنے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’زوجہ کو ماں بہن کہنا (یعنی تشبیہ نہیں دی، بغیر تشبیہ کے ماں ، بہن کہا)، خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے ،یا یوں کہے :تومیری ماں بہن ہے ،سخت گناہ و ناجائز ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی( اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:)
’’ مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْؕ-اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْؕ- وَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا‘‘(مجادلہ :۲)
جورئیں (یعنی بیویاں )ان کی مائیں نہیں ،ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے اُنہیں جنا ہے اور وہ بے شک بری اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔
مگر اس سے نہ نکاح میں خلل آئے ،نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو۔( فتاویٰ رضویہ، باب الظہار، ۱۳ / ۲۸۰)
اس شرعی مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو تنگ آ کر یامذاق مَسخری میں اپنی بیوی سے یوں کہہ دیتے ہیں کہ ’’او میری ماں !بس کر۔جا بہن چلی جا وغیرہ۔انہیں چاہئے کہ پہلے جتنی بار ایسا کہہ چکے اس سے توبہ کریں اور آئندہ خاص طور پر احتیاط سے کام لیں ۔
{ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ: یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے۔} آیت کے اس حصے میں اشارہ بیوی کو ماں کہہ دینے اور کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹاکہہ دینے دونوں کی طرف ہے یا صرف کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ دینے کی طرف ہے کیونکہ سابقہ کلام سے مقصود یہی ہے، یعنی تمہارا کسی کو’’ اے میرے بیٹے‘‘ کہنا تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۰۷، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۱۳۵، ملتقطاً)
مفسرین نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح کیا تو یہود یوں اور منافقوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ (حضرت) محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے بیٹے زید کی بیوی سے شادی کرلی ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بچپن میں اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے سر کارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ہبہ کردیاتھا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں آزاد کردیا، تب بھی وہ اپنے باپ کے پاس نہ گئے بلکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی خدمت میں رہے ۔
حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن پر شفقت و کرم فرماتے تھے، اس لئے لوگ اُنہیں حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرزند کہنے لگے ۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پہلے حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے نکاح میں تھیں اور جب حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں طلاق دے دی تو عدت گزرنے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنی زوجیّت میں آنے کاشرف عطا فرما دیا۔ اس پر یہودیوں اور منافقوں نے اعتراض کیا تویہاں ان کا رد بھی فرما دیا گیا کہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو لوگ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیٹا کہتے ہیں لیکن اس سے وہ حقیقی طور پر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیٹے نہیں ہوگئے ،لہٰذا یہودیوں اور منافقوں کا اعتراض محض غلط ہے اور یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔(جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۳۵۱، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴، ص۹۳۱، ملتقطاً)
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْؕ-وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰـكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے پھر اگر تمہیں ان کے باپ کا علم نہ ہوتو وہ دین میں تمہارے بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو لاعلمی میں غلطی ہوئی لیکن اس میں گناہ ہے جس کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا اور الله بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ: انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔} اس سے پہلی آیت میں لے پالک بچے کو پالنے والوں کا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا اور اس آیت میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم ان بچوں کو ان کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کر کے پکارو، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے ،پھر اگر تمہیں ان کے باپ کا علم نہ ہو اور اس وجہ سے تم انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب نہ کر سکو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور انسانیت کے ناطے تمہارے چچا زاد ہیں ، تو تم انہیں اپنا بھائی یا اے بھائی کہو اور جس کے لے پالک ہیں اس کا بیٹا نہ کہو اور ممانعت کا حکم آنے سے پہلے تم نے جو لا علمی میں لے پالکوں کو ان کے پالنے والوں کا بیٹا کہا اس پر تمہاری گرفت نہ ہو گی البتہ اس صورت میں تم گناہگار ہو گے جب ممانعت کا حکم آ جانے کے بعد تم جان بوجھ کر لے پالک کو اس کے پالنے والے کا بیٹا کہو۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے، اسی لئے وہ غلطی سے ایسا ہو جانے پر گرفت نہیں فرماتا اور جس نے جان بوجھ کر ایساکیاہو ا س کی توبہ قبول فرماتا ہے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۸۲، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵، ص۹۳۲)
گود لئے ہوئے بچے کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال کرنے کا شرعی حکم:
بچہ گود لینا جائز ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گود میں لینے والا عام بول چال میں یاکاغذات وغیرہ میں اس کے حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام استعمال نہیں کر سکتا بلکہ سب جگہ حقیقی باپ کے طور پر اس بچے کے اصلی والد ہی کا نام استعمال کرنا ہوگا اور اگر اصلی باپ کا نام معلوم نہیں تو اس کی معلومات کروا کر باپ کے طورپر حقیقی باپ کا نام لکھنا ہو گا اور اگر کوشش کے باوجود کسی طرح اس کے اصلی باپ کا نام معلوم نہ ہو سکے تو گود لینے والا گفتگو میں حقیقی باپ کے طور پر اپنا نام ہر گز استعمال نہ کرے اور نہ ہی بچہ اسے حقیقی والد کے طور پراپنا باپ کہے ،اسی طرح کاغذات وغیرہ میں سر پرست کے کالم میں اپنا نام لکھے حقیقی والد کے کالم میں ہر گز نہ لکھے،اگر جان بوجھ کر خود کو حقیقی باپ کہے یالکھے گا تو یہ بھی درج ذیل دو وعیدوں میں داخل ہے،چنانچہ
(1)… حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو کسی غیر کی طرف منسوب کرے تو اس پرجنت حرام ہے۔‘‘( بخاری، کتاب الفرائض، باب من ادعی الی غیر ابیہ، ۴ / ۳۲۶، الحدیث: ۶۷۶۶)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے خود کواپنے باپ کے غیرکی طرف منسوب کیایاجس غلام نے اپنے آپ کواپنے مولیٰ کے غیرکی طرف منسوب کیااس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ،فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہو،قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کاکوئی فرض قبول فرمائے گانہ نفل۔‘‘( مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۱، الحدیث: ۴۶۷ (۱۳۷۰))
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو اپنے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یا ویسے ہی کسی دوسرے کی اولاد گود میں لیتے ہیں اور اپنے زیرِ سایہ اس کی پرورش کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ۔ان کا یہ عمل تو جائز ہے لیکن ان کی یہ خواہش اور تمناہر گزدرست نہیں کہ حقیقی باپ کے طور پر پالنے والے کا نام استعمال ہو اور نہ ہی ان کا یہ عمل جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ‘‘ (انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو۔) اور جباللہ تعالیٰ نے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارنے کاحکم فرما دیا اور اَحادیث میں ایسا نہ کرنے پر انتہائی سخت وعیدیں بیان ہو گئیں تو کسی مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اپنی خواہشات کو پروان چڑھائے اور خود کو شدید وعیدوں کا مستحق ٹھہرائے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نوٹ: یاد رہے کہ اَحادیث میں بیان کی گئی وعیدوں کا مِصداق وہ صورت ہے جس میں بچے کا نسب حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے جبکہ شفقت کے طور پر کسی کو بیٹا یابیٹی کہہ کر پکارنا یا کوئی معروف ہی کسی اور کے نام سے ہو تو پہچان کے لئے ا س کابیٹا یا بیٹی کہنا ان وعیدوں میں داخل نہیں ۔
بچہ یا بچی گود لینے سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:
بچہ یا بچی گود میں لینا جائز ہے لیکن جب وہ ا س عمر تک پہنچ جائیں جس میں ان پر نامحرم مرد یا عورت سے پردہ کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس وقت بچے پر پالنے والی عورت سے اور بچی پر پالنے والے مرد سے پردہ کرنا بھی لازم ہوگا کیونکہ وہ اس بچے کے حقیقی یا رضاعی ماں باپ نہیں اِس لئے وہ اُ س بچے اوربچی کے حق میں محرم نہیں ،لہٰذا اگر بچہ گود میں لیا جائے تو عورت اسے اپنا یا اپنی بہن کادودھ پلا دے اور بچی گود میں لی جائے تو مرد اپنی کسی محرم عورت کا دودھ اسے پلوا دے، اس صورت میں ان کے درمیان رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا اور محرم ہو جانے کی وجہ سے پردے کی وہ پابندیاں نہ رہیں گی جو نامحرم سے پردہ کرنے کی ہیں ،البتہ یہاں مزید دو باتیں ذہن نشین ر ہیں ،
پہلی یہ کہ دودھ بچے کی عمر دوسال ہونے سے پہلے پلایا جائے اور اگردو سال سے لے کر ڈھائی سال کے درمیان دود ھ پلایا تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن اس عمر میں دودھ پلانا ناجائز ہے اورڈھائی سال عمر ہو جانے کے بعد پلایا تو رضاعت ثابت نہ ہو گی۔
دوسری یہ کہ عورت نے بچے یا بچی کو اپنی بہن کا دودھ پلوایا تووہ اس کی رضاعی خالہ تو بن جائے گی لیکن اس کا شوہر بچی کا محرم نہ بنے گا ،لہٰذا بہتر صورت وہ ہے جو اوپر ذکر کی کہ بچے کو عورت کی محرم رشتہ دار کا دودھ پلوا لیا جائے اور بچی کو شوہر کی محرم رشتہ دار کا تاکہ پرورش کرنے والے پردے کے مسائل میں مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔البتہ اِن مسائل میں کہیں پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہو تو کسی قابل مفتی کو پوری تفصیل بتا کر عمل کیا جائے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ-وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓىٕكُمْ مَّعْرُوْفًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور مومنوں اور مہاجروں سے زیادہ اللہ کی کتاب میں رشتے دارایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو۔ یہ کتاب میں لکھاہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں ۔} اَولیٰ کے معنی ہیں زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اورآپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اورانہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲، ملتقطاً)
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورلوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی،جب ا س نے اپنے ماحول کوروشن کیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے کیڑے ا س میں گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں ہی گرتے رہے، پس میں کمر سے پکڑ کر تمہیں آگ سے کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے ہی جا رہے ہو۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۳)
امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں ۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲)
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان وجسم سب کو محیط اورجن وبشر سب کوشامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کابھی اصلاً اختیارنہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُرنورمَالِکُ النَّاس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں پرحاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘
نبی زیادہ والی ومالک ومختارہے، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے۔
وَقَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی(اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا:)
’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘(احزاب:۳۶)
نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیاررہے اپنی جانوں کا، اور جوحکم نہ مانے اللہ ورسول کاتو وہ صریح گمراہ ہوا۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے(بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الدَّین،۲ / ۷۷، الحدیث: ۲۲۹۸)۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۷۰۳-۷۰۴)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایمان والوں کے سب سے زیادہ قریبی ہیں :
مسلمانوں پر جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ زیادہ قریب ہیں ، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں ،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘
یہ نبی ایمان والوں سے ان کی جانوں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔
تو جس مسلمان کاانتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ ا س کے عَصبہ (یعنی وارثوں ) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں ۔( بخاری، کتاب فی الاستقراض واداء الدیون۔۔۔ الخ، باب الصلاۃ علی من ترک دَیناً، ۲ / ۱۰۸، الحدیث: ۲۳۹۹)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں جب کسی مومن کا انتقال ہوجاتاتواسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کیاجاتا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے ’’کیااس کے ذمہ کوئی قرض ہے ؟ اگرلوگ کہتے :ہاں ،تونبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دریافت فرماتے’’ کیااس نے مال چھوڑاہے جوا س کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہو؟اگرلوگ بتاتے: جی ہاں ، تونبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی نمازجنازہ پڑھتے تھے اوراگرلوگ یہ بتاتے کہ مال نہیں چھوڑا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے: ’’تم اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔پھرجباللہ تعالیٰ نے ہمیں فتوحات عطافرمائیں تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’میں مومنوں کے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریبی ہوں ۔ جس نے قرض چھوڑاوہ میرے ذمہ ہے اورجس نے مال چھوڑاوہ وارث کے لیے ہے۔( بخاری ، کتاب الکفالۃ ، باب الدَّین ، ۲ / ۷۷ ، الحدیث: ۳۲۹۸، مسند ابو داؤد طیالسی، ما روی ابو سلمۃ عن عبد الرحمٰن عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہم، ص۳۰۷، الحدیث: ۲۳۳۸)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اپنے نفس کی اطاعت پر مقدم ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کے تمام اُمور میں نفس کی اطاعت پرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت مقدم ہے کہ اگر کسی مسلمان کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا حکم دیں اور ا س کی خواہش کوئی اور کام کرنے کی ہو تو ا س پر لازم ہے کہ اپنی خواہش کو پورا نہ کرے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اسے ہی کرے۔ یاد رہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًا‘‘(النساء:۸۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کے لئے نہیں بھیجا۔
اور نفس کے مقابلے میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ا س چیز کی طرف بلاتے ہیں جس میں لوگوں کی نجات ہے اور نفس اس چیز کی طرف بلاتا ہے جس میں لوگوں کی ہلاکت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری اور ا س کی مثال جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے،اُس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہنے لگا:میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک بہت بڑ الشکر دیکھا ہے اور میں واضح طور پر تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ، لہٰذا اپنے آپ کو بچا لو،اپنے آپ کو بچا لو۔پس ایک گروہ نے اس کی بات مانی اور کسی محفوظ مقام کی طرف چلے گئے، یوں انہوں نے نجات پالی اور دوسرے گروہ نے اسے جھٹلایا تو صبح سویرے وہ بڑ الشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور سب کو تہ تیغ کر دیا۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دینی اور دُنْیَوی تمام اُمور میں اپنے نفس کی اطاعت کرنے کی بجائے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے تاکہ ہلاکت سے بچ کر نجات پا جائے۔
{وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ: اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا اُمَّہاتُ المومنین کا تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو سگی ماں کا ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے احکام میں جیسے وراثت اور پردہ وغیرہ، ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا ہے یعنی ان سے پردہ بھی کیا جائے گا اور عام مسلمانوں کی وراثت میں وہ بطورِ ماں شریک نہ ہوں گی،نیز امہات المومنین کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں ، خالہ نہ کہا جائے گا۔( بغوی، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۳۷، ملخصاً)
یہ حکم حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے لئے ہے جنسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح فرمایا، چاہے حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔ یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لئے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائقِ تعظیم و وا جبُ الاحترام ہیں ۔( زرقانی علی المواہب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۵۶–۳۵۷)
{ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ: اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں ۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت کے بعد بعض مہاجرین کو بعض انصار کا بھائی بنا دیا تھا اور اس رشتے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوا کرتے تھے، پھر یہ آیت نازل ہوئی اور فرما دیاگیا کہ میراث رشتہ داروں کاحق ہے اورانہی کوملے گی، ایمان یا ہجرت کے رشتہ سے جومیراث ملتی تھی وہ اب نہیں ملے گی البتہ تم دوستوں پر اس طرح احسان کرسکتے ہوکہ ان میں سے جس کے لئے چاہو کچھ مال کی وصیت کردو تووہ وصیت مال کے تیسرے حصے کی مقدار وراثت پر مُقَدَّم کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، دینی برادری کے ذریعے کوئی اجنبی اب وارث نہیں ہوسکتا۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، تفسیرات احمدیہ، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۶۱۴، ملتقطاً)
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(7)لِّیَسْــٴَـلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِهِمْۚ-وَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (عہد لیا) اور ہم نے ان (سب) سے بڑا مضبوط عہد لیا۔تاکہ الله سچوں سے ان کے سچ کا سوال کرے اور اس نے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ: اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا عہد لیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کرو جب ہم نے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے رسالت کی تبلیغ کرنے اور دین ِحق کی دعو ت دینے کا عہد لیا اور خصوصیت کے ساتھ آپ سے اور حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عہد لیااور ہم نے ان سب سے بڑا مضبوط عہد لیا تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچوں سے ان کے سچ کا سوال کرے۔ایک قول یہ ہے کہ سچوں سے مراد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور ان سے سچ کا سوال کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اور جس کی انہیں تبلیغ کی وہ دریافت فرمائے، یا اس کے یہ معنی ہیں کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی امتوں نے جو جواب دیئے وہ دریافت فرمائے اور اس سوال سے مقصود کفار کوذلیل ورسوا کرنا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ سچوں سے مراد مومنین ہیں اور سچ کا سوال کرنے سے مراد ان کی تصدیق کے بارے میں سوال کر نا ہے۔( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۹۳۳، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۷ / ۱۴۱-۱۴۲، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کا اظہار:
اِس آیت میں بالخصوص پانچ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکرکرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ\ انبیاء اُولُوا الْعزم رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے تھے، اوریہاں نہایت اہم نکتہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کا اس آیت میں ذکر ہوا، ان کا تذکرہ اسی ترتیب سے ہوا جس ترتیب سے وہ دنیا میں تشریف لائے لیکن حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اگرچہ تمام نبیوں کے بعد ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دوسرے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کیا اور یہ انداز تمام نبیوں پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی افضلیت کے اظہار کے لئے ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو!اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور الله تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے ایمان والو!۔} یہاں سے جنگِ اَحزاب کے اَحوال بیان کیے جارہے ہیں جسے غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں اوریہ واقعہ جنگِ اُحد کے ایک سال بعد پیش آیا۔چنانچہ ارشاد فرما یاکہ اے ایمان والو!تم اللہ تعالیٰ کا وہ احسان یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت فرمایا جب تم پر قریش، غطفان، بنو قریظہ اور بنونَضِیرکے لشکر آئے اور انہوں نے تمہارا محاصرہ کر لیا تو ہم نے ان پر آندھی اور فرشتوں کے وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہیں آئے اور تمہارا خندق کھودنا اور میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری میں ثابت قدم رہنا اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، اسی لئے اس نے کافروں کے خلاف تمہاری مدد فرمائی اور ان کے شر سے تمہیں محفوظ رکھا، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان پر ا س کا شکر اد ا کرو۔(خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۴۸۴، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ص۹۳۳-۹۳۴، روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۴۶، ملتقطاً)
غزوۂ احزاب کا مختصر بیان :
غزوۂ احزاب کا مختصر بیان یہ ہے کہ یہ غزوہ سن 4 یا5 ہجری، شوال کے مہینے میں پیش آیا۔اس کا سبب یہ ہوا کہ جب بنی نَضِیر کے یہودیوں کو جلاوطن کیا گیا تو اُن کے سربراہ مکہ مکرمہ میں قریش کے پاس پہنچے اور انہیں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور وعدہ کیا کہ ہم تمہارا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ مسلمان نیست و نابود ہوجائیں۔ ابوسفیان نے اس تحریک کی بہت قدر کی اور کہا کہ ہمیں دنیا میں وہ سب سے پیارا ہے جو محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی دشمنی میں ہمارا ساتھ دے۔ پھر قریش نے ان یہودیوں سے کہا کہ تم پہلی کتاب والے ہو، ہمیں بتاؤ کہ ہم حق پر ہیں یا محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) یہودیوں نے کہا: تم ہی حق پر ہو۔ اس پر کفارِ قریش خوش ہوئے اور اسی واقعے سے متعلق سورہ نساء کی آیت نمبر51 ’’ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ‘‘ نازل ہوئی۔ پھر وہ یہودی دیگر قبائل غطفان، قیس اورغیلان وغیرہ میں گئے، وہاں بھی یہی تحریک چلائی تو وہ سب بھی ان کے موافق ہوگئے۔ اس طرح ان یہودیوں نے جابجا دورے کئے اور عرب کے قبیلہ قبیلہ کو مسلمانوں کے خلاف تیار کرلیا۔ جب سب لوگ تیار ہوگئے تو قبیلہ خزاعہ کے چند لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی ان زبردست تیاریوں کی اطلاع دی۔ یہ اطلاع پاتے ہی حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مشورے سے خندق کھدوانی شروع کردی۔ اس خندق میں مسلمانوں کے ساتھ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی کام کیا۔ مسلمان خندق تیار کرکے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مشرکین بارہ ہزار افرادکا بڑا لشکر لے کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور مدینہ طیبہ کا محاصرہ کرلیا۔خندق مسلمانوں کے اور اُن کے درمیان حائل تھی اور اسے دیکھ کر سب کفارحیران ہوئے اور کہنے لگے کہ’’ یہ ایسی تدبیر ہے جس سے عرب لوگ اب تک واقف نہ تھے۔ اب انہوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی شروع کر دی۔جب اس محاصرے کو 15 یا24 دن گزرے تو مسلمانوں پر خوف غالب ہوا اور وہ بہت گھبرائے اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور کافروں پر تیز ہوا بھیجی، انتہائی سرد اور اندھیری رات میں اُس ہوا نے کافروں کے خیمے گرادیئے، طنابیں توڑدیں ، کھونٹے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں الٹ دیں اور آدمی زمین پر گرنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے جنہوں نے کفار کو لرزا دیا اور اُن کے دلوں میں دہشت ڈال دی مگر اس جنگ میں فرشتوں نے لڑائی نہیں کی۔ پھر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خبر لینے کے لئے بھیجا۔ اس وقت انتہائی سخت سردی تھی اور یہ ہتھیار لگا کر روانہ ہوئے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روانہ ہوتے وقت ان کے چہرے اور بدن پر دستِ مبارک پھیرا جس کی برکت سے ان پر سردی اثر نہ کرسکی اور یہ دشمن کے لشکر میں پہنچ گئے۔ وہاں تیز ہوا چل رہی تھی، سنگریزے اڑ اڑ کر لوگوں کو لگ رہے تھے اور آنکھوں میں گرد پڑرہی تھی،الغرض عجب پریشانی کا عالَم تھا۔ کافروں کے لشکر کے سردار ابوسفیان ہوا کا یہ عالَم دیکھ کر اُٹھے اور انہوں نے قریش کو پکار کر کہا کہ جاسوسوں سے ہوشیار رہنا، ہر شخص اپنے برابر والے کو دیکھ لے۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ہر ایک شخص نے اپنے برابر والے کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دانائی سے اپنے دائیں طرف موجود شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :تو کون ہے؟ اُس نے کہا :میں فلاں بن فلاں ہوں ۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کہا:اے گروہِ قریش! تم یہاں نہیں ٹھہر سکتے، گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوچکے ہیں ،بنی قریظہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ہمیں اُن کی طرف سے اندیشہ ناک خبریں پہنچی ہیں ۔ ہوا نے جو حال کیا ہے وہ تم دیکھ ہی رہے ہو، بس اب یہاں سے کوچ کردو اورمیں کوچ کررہا ہوں ۔ ابوسفیان یہ کہہ کر اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے اور لشکر میں کو چ کوچ کا شور مچ گیا۔ کافروں پر جو ہوا آئی وہ ہر چیز کو الٹ رہی تھی مگر یہ ہوا اس لشکر سے باہر نہ تھی۔ اب یہ لشکر بھاگ نکلا اور سامان کا سواریوں پر لاد کر لے جانا اس کے لئے دشوار ہو گیا،اس لئے کثیر سامان وہیں چھوڑ گیا۔(جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۵۵-۱۵۶، ملخصاً)