سُوْرَۃُ البَقَرَة
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الٓمّٓ(1)ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)
ترجمہ:
الم۔ وہ بلند رتبہ کتاب جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ۔اس میں ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{الٓمّٓ:}قرآن پاک کی 29سورتوں کے شروع میں اس طرح کے حروف ہیں ، انہیں ’’حروفِ مُقَطَّعَات‘‘کہتے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے قوی قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے راز ہیں اور متشابہات میں سے ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ جانتاہے اور ہم ان کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۲۰، الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثالث والاربعون، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)
حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے یانہیں :
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حروف مقطعات کا علم عطا فرمایا ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قاضی بیضاوی(رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ’’اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ‘‘ میں سورتوں کے ابتدائیہ یعنی حروف مقطعات کے بارے میں فرماتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ یہ ایک راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔تقریبا ًایسی ہی روایات خلفاء اربعہ اور دیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بھی(منقول) ہیں اور ممکن ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے یہ مراد لیا ہو کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے درمیان راز و نیاز ہیں اور یہ ایسے اسرار و رموز ہیں جنہیں دوسرے کو سمجھانامقصود نہیں۔اگر یہ راز حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ ہو ں تو پھر غیر مفید کلام سے خطاب کرنا لازم آئے گا اور یہ بعید ہے۔(تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۹۳)
امام خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ کے)بعض نسخوں میں ’’اِسْتَأْثَرَہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ‘‘ ہے اور(اِسْتَأْثَرَہُ کی) ضمیر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے ہے اور ’’با‘‘ مقصور پر داخل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنے علم سے (خاص کرکے)معزز و مکرم فرمایایعنی مقطعات کاعلم صرف اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حاصل ہے۔اس معنی کو اکثر سلف اور محققین نے پسند فرمایا ہے۔(عنایۃ القاضی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۷۸، مختصراً، انباء الحی، مطلب المتشابہات معلومۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، ص۵۲-۵۳)
علامہ محمود آلوسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’ غالب گمان یہ ہے کہ حروف مقطعات مخفی علم اور سربستہ راز ہیں جن کے ادراک سے علماء عاجز ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا، اور خیالات اس تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہر کتاب کے راز ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے راز سورتوں کی ابتداء میں آنے والے حروف ہیں۔اورامام شعبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ حروف اللہ تعالیٰ کے اسرار ہیں تو ان کاکھوج نہ لگاؤ کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد ان کی معرفت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے وارث اولیاء کرام کو ہے،انہیں اسی بارگاہ سے (ان اسرار کی) معرفت حاصل ہوتی ہے اور کبھی یہ حروف خود انہیں اپنا معنی بتا دیتے ہیں جیسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ہاتھوں میں کنکریوں نے تسبیح کے ذریعے کلام کیا اور گوہ اور ہرن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہم کلام ہوئے جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد یعنی اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے یہ بات (حروف ِ مقطعات کا علم ہونا) صحت سے ثابت ہے بلکہ جب کوئی بندہ قرب ِ نوافل کے درخت کا پھل چنتا ہے تو وہ ان حروف کو اور اس کے علاوہ کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے ذریعے جان لیتا ہے۔اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر ان کا کوئی مفہوم نہ ہو تو ان کے ساتھ خطاب مہمل خطاب کی طرح ہو گا۔‘‘یہ بات ہی مہمل ہے اگرچہ اسے کہنے والاکوئی بھی ہو کیونکہ اگر تمام لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو تو یہ ہم تسلیم نہیں کرتے اور اگر صرف ان حروف کے مخاطب کو سمجھانا مقصود ہو اور وہ یہاں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں تو اس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا (کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کا معنیٰ جانتے ہیں )اور اگر اس سے بعض لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے تو اربابِ ذوق کو ان کی معرفت حاصل ہے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ امتِ محمدیہ میں کثیر ہیں اور ہم جیسوں کا ان کی مراد نہ جاننا نقصان دہ نہیں کیونکہ ہم تو ان بہت سے افعال کی حکمت بھی نہیں جانتے جن کے ہم مکلف ہیں جیسے جمرات کی رمی کرنا صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا،رمل اور اضطباع وغیرہ اور ان جیسے احکام میں اطاعت کرنا سرِ تسلیم خم کرنے کی انتہا پر دلالت کرتا ہے۔(روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۳۶-۱۳۷)
{لَا رَیْبَ: کوئی شک نہیں۔}آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک وصف بیان کیاگیا کہ یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شک اس چیز میں ہوتا ہے جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جبکہ قرآن پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحب ِ انصاف اورعقلمند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہ کتاب حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،تو جیسے کسی اندھے کے انکار سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہوسکتی۔
{هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ :ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔} آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نہیں ڈرتے ، انہیں قرآن پاک سے ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ قرآن پاک کی ہدایت و رہنمائی اگرچہ مومن اور کافر ہر شخص کے لیے عام ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’هُدًى لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی قرآن مجید تمام لوگوں کیلئے ہدایت ہے۔لیکن چونکہ قرآن مجید سے حقیقی نفع صرف متقی لوگ حاصل کرتے ہیں اس لیے یہاں ’’هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ یعنی ’’ متقین کیلئے ہدایت‘‘ فرمایا گیا۔( ابو سعود، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۳۲)
تقویٰ کا معنی:
تقویٰ کا معنی ہے:’’ نفس کو خوف کی چیز سے بچانا۔‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو جیسے کفر وشرک،کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا،حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اوربزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۹، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۲۲، ملتقطاً)
تقویٰ کے فضائل:
قرآن مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے اور متقی بننے کی ترغیب اور فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۰۲)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(احزاب: ۷۰-۷۱)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
حضرت عطیہ سعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’کوئی بندہ اُس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہو گا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔(یعنی کسی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے۔ )(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۱۹-باب ، ۴ / ۲۰۴-۲۰۵، الحدیث: ۲۴۵۹)
حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کوعجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔(معجم الاوسط، ۳ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۷۴۹)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رَب عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:اس بات کا مستحق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (دارمی، کتاب الرقاق، باب فی تقوی اللہ، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۲۷۲۴)
تقویٰ کے مراتب:
علماء نے ’’تقویٰ ‘‘کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں جیسے عام لوگوں کا تقویٰ ’’ایمان لا کر کفر سے بچنا‘‘ہے، متوسط لوگوں کا تقویٰ ’’احکامات کی پیروی کرنا‘‘ اور’’ ممنوعات سے رکنا ‘‘ہے اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرے۔‘‘( جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۱۷)
اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں : (۱) کفر سے بچنا۔ (۲) بدمذہبی سے بچنا۔ (۳) کبیرہ گناہ سے بچنا۔ (۴) صغیرہ گناہ سے بچنا۔(۵) شبہات سے پرہیز کرنا۔ (۶) نفسانی خواہشات سے بچنا۔ (۷) اللہ تعالیٰ سے دورلے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا، اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔(خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴، ملخصاً) اللہ تعالیٰ ہمیں متقی اور پرہیز گار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(3)
ترجمہ:
وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ:وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا،قیامت کا قائم ہونا،اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۴، ملتقطاً)
ایمان اور غیب سے متعلق چند اہم باتیں :
اس آیت میں ’’ایمان‘‘ اور’’ غیب‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس لئے ان سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھیں !
(1)…’’ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین (میں داخل) ہیں اور کسی ایک ضرورت ِدینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔(بہارِ شریعت، ۱ / ۱۷۲)
(2)…’’ عمل‘‘ ایمان میں داخل نہیں ہوتے اسی لیے قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عمل کا جداگانہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے اس آیت میں بھی ایمان کے بعدنماز و صدقہ کا ذکرعلیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔
(3)…’’غیب ‘‘وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اورہم اپنے حواس جیسے دیکھنے، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں۔
(4)…غیب کی دو قسمیں ہیں : (۱) جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو۔یہ علم غیب ذاتی ہے اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں غیرُاللہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔(۲) جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ،گزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی غیرُاللہ کیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے۔(تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۲۶، ملخصاً)
(5)…اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کیلئے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے۔
(6)… اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم پر ’’غیب ‘‘کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے۔ اس موضوع پرمزید کلام سورہ ٔ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 179 کی تفسیر میں مذکور ہے ۔
{وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ:اور نماز قائم کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۵-۱۱۷، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۸، ملتقطاً)
نماز قائم کرنے کے فضائل اور نہ کرنے کی وعیدیں :
قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورہ ٔ مومنون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۱-۲)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔
اسی سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ
’’ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
اور ان اوصاف کے حامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۱۰-۱۱)
ترجمۂ کنز العرفان: یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(النساء: ۱۴۲)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا‘‘(مریم: ۵۹-۶۰)
ترجمۂ کنزالعرفان:تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔
حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میرے اِس وضو کی طرح وُضو کیا پھر اس طرح دورکعت نماز پڑھی کہ ان میں خیالات نہ آنے دے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔(بخاری، کتاب الوضو ء، باب الوضو ء ثلاثًا ثلاثًا، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۵۹)
حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جوبھی مسلمان اچھے طریقے سے وُضو کرتا ہے ،پھرکھڑے ہو کراس طرح دو رکعت نمازپڑھتا ہے کہ اپنے دل اور چہرے سے متوجہ ہوکر یہ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحبّ عقب الوضو ء، ص۱۴۴، الحدیث: ۱۷(۲۳۴))
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔(مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ۲ / ۵۷۴، الحدیث: ۶۵۸۷)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کرنماز چھوڑی تو جہنم کے اُس دروازے پر اِس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔(حلیۃ الاولیاء، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰)
{وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ: اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یااس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اورمساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔
مال خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لیا جائے:
آیت میں فرمایا گیا کہ جو ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہئے ۔اس چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا‘‘(بنی اسرآئیل: ۲۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔
اورکامل ایمان والوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‘‘(فرقان: ۶۷)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَﭤ(4)
ترجمہ:اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا ۔ }اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مومنین مراد ہیں جو اپنی کتاب پر اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں پراور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ‘‘ سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:
یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر’’فرض‘‘ ہے اسی طرح پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جوگزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھالہٰذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لیے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ، یہ حکم منسوخ ہوچکا۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل فرمایا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا ’’فرض عین‘‘ ہے یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا سب حق ہے۔ قرآن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس جو موجود ہے اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برحق ہے بقیہ تفصیلاً جاننا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں جب کہ علماء موجود ہوں جنہوں نے یہ علم حاصل کرلیا ہو۔
{وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ:اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔} یعنی متقی لوگ قیامت پر اور جو کچھ اس میں جزاوحساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں کیونکہ ان میں سے ہرایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگاجیسا کہ سورہ بقرہ آیت 111میں ہے اور خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگرجہنم میں گئے تو چند دن کیلئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 80 میں ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۱ / ۱۹، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۲۱، ملتقطاً)
اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔
اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(5)
ترجمہ:
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: وہی فلاح پانے والے ہیں۔} یعنی جن لوگوں میں بیان کی گئی صفات پائی جاتی ہیں وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ جہنم سے نجات پاکر اور جنت میں داخل ہو کر کامل کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۱ / ۲۵)
اصل کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے:
یاد رہے کہ اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(6)
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ:بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے ۔}چونکہ ٹھنڈک کی پہچان گرمی سے ، دن کی پہچان رات سے اور اچھائی کی پہچان برائی سے ہوتی ہے اسی لئے اہل ایمان کے بعدکافروں اور منافقوں کے افعال اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ ان کی پہچان بھی واضح ہوجائے اور آدمی کے سامنے تمام راہیں نمایاں ہوجائیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ کفار،ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت کرنے کے عذاب سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم ہیں۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱ / ۲۰-۲۱)
کفر کی تعریف اورازلی کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم دینے کی وجہ:
یہاں دو باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)… ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار یا تحقیر و استہزاء کرنا کفر ہے اورضروریاتِ دین ، اسلام کے وہ احکام ہیں ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت، نماز، روزے ، حج، جنت،دوزخ ، قیامت میں اُٹھایا جانا وغیرہا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو علماء کے طبقہ میں شمار نہ کئے جاتے ہوں مگر علماء کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعلمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں ،اس سے وہ لوگ مراد نہیں جو دور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اِس دینی ضروری کو غیرضروری نہ کردے گا، البتہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین کاانکار کرنے والے نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے اور ان سب پر اجمالاً ایمان لائے ہوں۔(بہارِ شریعت، ۱ / ۱۷۲-۱۷۳، ملخصاً)
(2)… ایمان سے محروم کفار کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود انہیں تبلیغ کرنے کاحکم اس لئے دیاگیا تاکہ ان پر حجت پوری ہو جائے اور قیامت کے دن ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء: ۱۶۵)
ترجمۂ کنزالعرفان:(ہم نے )رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے (بھیجے)تاکہ رسولوں (کو بھیجنے) کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر (باقی )نہ رہے اور اللہ زبردست ہے،حکمت والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى‘‘ (طہ: ۱۳۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟
نیز انہیں تبلیغ کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہواکہ وہ اگرچہ ایمان نہیں لائے لیکن حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو انہیں تبلیغ کرنے کا ثواب ضرور ملے گا اور یہ بات ہر مبلغ کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا کام تبلیغ کرنااور رضائے الہٰی پانا ہے، لوگوں کو سیدھی راہ پر لاکر ہی چھوڑنا نہیں لہٰذا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا رہے اور نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے اور لوگوں کے نیکی کی دعوت قبول نہ کرنے سے مایوس ہونے کی بجائے ا س ثواب پر نظر رکھے جو نیکی کی دعوت دینے کی صورت میں اسے آخرت میں ملنے والاہے۔
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(7)
ترجمہ: اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{خَتَمَ اللّٰهُ: اللہ نے مہر لگادی۔} ارشاد فرمایا کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کاسبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بناء پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۶)
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَﭥ(8)
ترجمہ:
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ:اورکچھ لوگ کہتے ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں مخلص ایمان والوں کا ذکر کیاگیا جن کا ظاہر و باطن درست اور سلامت تھا،پھر ان کافروں کا ذکر کیا گیا جو سرکشی اور عناد پر قائم تھے اور اب یہاں سے لے کرآیت نمبر20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۱ / ۵۱)
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…جب تک دل میں تصدیق نہ ہو اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لیے کافی نہیں۔
(2)… جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب منافقین ہیں۔
(3)… یہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔
{وَ مِنَ النَّاسِ:اورکچھ لوگ۔}منافقوں کو ’’کچھ لوگ‘‘کہنے میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتابلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔ اسی لئے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو محض انسان یا صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنے میں ان کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔اگرآپ قرآن پاک مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کاطریقہ ہے جبکہ مسلمان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ عظمت و شان سے کرتے ہیں۔
بعض کافرایمان سے محروم کیوں رہے؟
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جو کافر ایمان سے محروم رہے ان پر ہدایت کی راہیں شروع سے بند نہ تھیں ورنہ تو وہ اس بات کا بہانہ بناسکتے تھے بلکہ اصل یہ ہے کہ ان کے کفرو عناد ، سرکشی و بے دینی ، حق کی مخالفت اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت کے انجام کے طور پر ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگی اور آنکھوں پر پردے پڑگئے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص طبیب کی مخالفت کرے اور زہر ِقاتل کھا لے اور اس کے لیے دوا فائدہ مند نہ رہے اور طبیب کہہ دے کہ اب یہ تندرست نہیں ہوسکتا تو حقیقت میں اس حال تک پہنچانے میں اس آدمی کی اپنی کرتوتوں کا ہاتھ ہے نہ کہ طبیب کے کہنے کا لہٰذا وہ خود ہی ملامت کا مستحق ہے طبیب پر اعتراض نہیں کرسکتا۔
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَﭤ(9)
ترجمہ:
یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ : وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔}اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالٰی کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکہ دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں اِن بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پراور نہ مومنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں ا س چیز کا شعور ہی نہیں۔
ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے۔ یہ منافقت ایمان کے اندر ہوتو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہو تو ایمان میں منافقت سے تو کم تر ہے لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہوگا۔ ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جاسکتی ہے۔
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(10)
ترجمہ: ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ:ان کے دلوں میں بیماری ہے۔}اس آیت میں قلبی مرض سے مراد منافقوں کی منافقت اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بغض کی بیماری ہے ۔ معلوم ہوا کہ بدعقیدگی روحانی زندگی کے لیے تباہ کن ہے نیز حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان سے جلنے والا مریض القلب یعنی دل کا بیمار ہے۔
روحانی زندگی کے خطرناک امراض:
جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح کچھ باطنی امراض بھی ہوتے ہیں ، جسمانی امراض ظاہری صحت و تندرستی کے لئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور باطنی امراض ایمان اور روحانی زندگی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ان باطنی امراض میں سب سے بدتر تو عقیدے کی خرابی کا مرض ہے اور اس کے علاوہ تکبر، حسد، کینہ اور ریاکاری وغیرہ بھی انتہائی برے مرض ہیں۔ہر مسلمان کوچاہئے کہ باطنی امراض سے متعلق معلومات حاصل کر کے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے بطور خاص امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور کتاب احیاء العلوم کی تیسری جلد کامطالعہ بہت مفید ہے۔
{فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا: تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا۔} مفسرین نے اس اضافے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں ،ان میں سے 3صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… ریاست چھن جانے کی وجہ سے منافقوں کو بہت قلبی رنج پہنچا اور وہ دن بہ دن حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ثابت قدمی اور غلبہ دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے توجتنا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غلبہ ہوتا گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے رنج و غم میں اضافہ کر دیا ۔
(2)…منافقوں کے دل کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
(3)…جیسے جیسے شرعی احکام اور نزول وحی میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کی مدد و نصرت بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کاکفر بڑھتا گیا بلکہ ان کا حال تو یہ تھا کہ کلمہ شہادت پڑھنا ان پر بہت دشوار تھا اور اوپر سے عبادات میں اضافہ ہو گیا اورجرموں کی سزائیں بھی نازل ہو گئیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بہت بے چین ہو گئے تھے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱ / ۵۵)
{وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ: اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔}
یعنی اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی وجہ سے ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۲۶)
جھوٹ بولنے کی وعید اور نہ بولنے کا ثواب:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پردردناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’سچائی کو(اپنے اوپر) لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔ الخ، باب قبح الکذب۔۔۔ الخ، ص۱۴۰۵، الحدیث: ۱۰۵(۲۶۰۷))
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۰)
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(11)اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰـكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(12)
ترجمہ: اورجب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم توصرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔ سن لو:بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا)شعور نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ:زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب ایمان والوں کی طرف سے ان منافقوں کو کہا جائے کہ باطن میں کفر رکھ کر اور صحیح ایمان لانے میں پس و پیش کر کے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں ا س طرح نہ کہو کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اصلاح کرناہے ۔ اے ایمان والو! تم جان لو کہ اپنی اُسی روش پر قائم رہنے کی وجہ سے یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں اس بات کاشعور نہیں کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کوپہچان سکیں۔
منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلاح کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر بے حیائی، فن کے نام پر حرام افعال، انسانیت کے نام پر اسلام کو مٹانا اورتہذیب و تَمَدُّن کا نام لے کر اسلام پر اعتراض کرنا، توحید کا نام لے کر شانِ رسالت کا انکار کرنا، قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرنا وغیرہاسب فساد کی صورتیں ہیں۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰـكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(13)ترجمہ: کنزالعرفاناور جب ان سے کہا جائے کہ تم اسی طرح ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے توکہتے ہیں :کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ سن لو: بیشک یہی لوگ بیوقوف ہیں مگر یہ جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ: جیسے اور لوگ ایمان لائے۔} یہاں ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد ان کی کامل اتباع کرنے والے مراد ہیں۔
نجات والے کون لوگ ہیں ؟:
اس آیت میں بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ و ائمہ اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر؟نیز علماء و صلحاء اور دیندارلوگوں کوچاہئے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے۔نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں۔
صحابہ کرام کی بارگاہ الہٰی میں مقبولیت:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو گالی گلوچ نہ کرو ،(ان کا مقام یہ ہے کہ )اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا(اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار)بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذا خلیلاً، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)
اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں۔
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّاۚۖ-وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْۙ-اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ(14)
ترجمہ: اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں :ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم توصرف ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں۔}منافقین کا مسلمانوں کو بے وقوف کہنااور کفار سےاظہارِ یکجہتی کرنااپنی نجی محفلوں میں تھا جبکہ مسلمانوں سے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم مخلص مومن ہیں ،اسی طرح آج کل کے گمراہ لوگ مسلمانوں سے اپنے فاسدخیالات کو چھپاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی کتابوں اور تحریروں سے ان کے راز فاش کر دیتا ہے۔
بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیاررہا جائے:
یاد رہے کہ اس آیت سے مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ وہ بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ-وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ- قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۱۱۸)هٰۤاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖۚ- وَ اِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا ﳒ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِؕ-قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۱۹)اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ٘-وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَاؕ-وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْــٴًـاؕ- اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۸-۱۲۰)
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا)بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔ خبردار: یہ تم ہی ہو جو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ اے حبیب! تم فرما دو ،اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بیشک اللہ دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے۔اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبرکرو اورتقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکروفریب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بیشک اللّٰہ ان کے تمام کاموں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کروکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الروایۃ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ ورسول سے زیادہ کوئی ہماری بھلائی چاہنے والا نہیں ، (اور اللہ و رسول)جَلَّ وَعَلَا وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جس بات کی طرف بلائیں یقینا ہمارے دونوں جہان کا اس میں بھلاہے، اور جس بات سے منع فرمائیں بلا شبہ سراسر ضرروبلاہے۔ مسلمان صورت میں ظاہرہوکر جواِن کے حکم کے خلاف کی طرف بلائے یقین جان لو کہ یہ ڈاکو ہے،اس کی تاویلوں پر ہر گز کان نہ رکھو، رہزن جو جماعت سے باہر نکال کر کسی کو لے جانا چاہتا ہے ضرور چکنی چکنی باتیں کرے گا اور جب یہ دھوکے میں آیا اور ساتھ ہولیا تو گردن مارے گا، مال لوٹے گا، شامت اس بکری کی کہ اپنے راعی(یعنی چرانے والے) کا ارشاد نہ سنے اور بھیڑیا جو کسی بھیڑ کی اون پہن کر آیا اس کے ساتھ ہولے، ارے! مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمہیں منع فرماتے ہیں وہ تمہاری جان سے بڑھ کر تمہارے خیر خواہ ہیں :’’حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ‘‘ تمہارا مشقت میں پڑنا ان کے قلبِ اقدس پر گراں ہے: ’’عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ‘‘ واللہ وہ تم پر اس سے زیادہ مہربان ہیں جیسے نہایت چہیتی ماں اکلوتے بیٹے پر: ’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘۔ ارے! ان کی سنو، ان کا دامن تھام لو، ان کے قدموں سے لپٹ جاؤ۔(فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۰۵)
{وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ:اور جب اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں۔}یہاں شیاطین سے کفار کے وہ سردار مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ منافق جب اُن سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے ملنا محض استہزاء کے طور پر ہے اور ہم ان سے اس لیے ملتے ہیں تا کہ ان کے راز معلوم ہوں اور ان میں فساد انگیزی کے مواقع ملیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح جِنّات میں شیاطین ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں۔
{اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ: ہم توصرف ہنسی مذاق کرتے ہیں۔} منافقین صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سامنے ان کی تعریفیں کرتے اور بعد میں ان کا مذاق اڑاتے تھے، اسی بات کو بیان کرنے کیلئے یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی ۔
صحابہ کرام اور علماء دین کا مذاق اڑانے کا حکم:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور پیشوایانِ دین کامذاق اڑانامنافقوں کا کام ہے۔ آج کل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی مجلسوں اور مخصوص لوگوں میں ’’علماء و صلحاء‘‘ اور’’ دینداروں ‘‘ کا مذاق اُڑاتے اوران پر پھبتیاں کستے ہیں اور جب ان کے سامنے آتے ہیں تو منافقت سے بھرپور ہوکر خوشامداور چاپلوسی کرتے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ،یونہی ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہیں مذہب اور مذہبی نام سے نفرت ہے اور مذہبی حلیہ اور وضع قطع دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دین کا مذاق اڑانا کفر ہے،یونہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بے ادبی گمراہی ہے ،اسی طرح علم کی وجہ سے علماء دین کا مذاق اڑانا کفر ہے ورنہ حرام ہے۔
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(15)
ترجمہ:
اللہ ان کی ہنسی مذاق کا انہیں بدلہ دے گا اور (ابھی)وہ انہیں مہلت دے رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ:اللہ ان کی ہنسی مذاق کا انہیں بدلہ دے گا۔}اللہ تعالیٰ استہزاء اور تمام عیوب سے پاک ہے یہاں جو اللہ تعالیٰ کی طرف استہزاء کی نسبت ہے اس سے مرادمنافقوں کے استہزاء کا بدلہ دینا ہے اور بدلے کے وقت عربی (اور اردو) میں اسی طرح کا لفظ دہرا دیا جاتا ہے جیسے کہا جائے کہ برائی کا بدلہ برائی ہی ہوتا ہے حالانکہ برائی کا بدلہ تو عدل و انصاف اور آدمی کا حق ہوتا ہے۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، الجزء الاول، ۱ / ۱۸۳)
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى۪-فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(16)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی تو ان کی تجارت نے کوئی نفع نہ دیا اوریہ لوگ راہ جانتے ہی نہیں تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى:یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی۔} ہدایت کے بدلےگمراہی خریدنا یعنی’’ ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنا‘‘ نہایت خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ آیت یا توان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے یا یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جوپہلے تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھتے تھے مگر جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی تو منکر ہو گئے، یا یہ آیت تمام کفار کے بارے میں نازل ہوئی اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فطرت سلیمہ عطا فرمائی، حق کے دلائل واضح کئے، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی تو وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تاجر ہیں کہ انہوں نے نفع ہی نہیں بلکہ اصل سرمایہ بھی تباہ کرلیا۔
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(17)صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(18)
ترجمہ::ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔}یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔
19-20
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(19)یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(20)
ترجمہ:
یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ (حالت یہ کہ)جب کچھ روشنی ہوئی تو اس میں چلنے لگے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو کھڑے رہ گئے اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ ہر شے پر قادرہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ:یا جیسے آسمان سے بارش۔} ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے ،مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورۂ نور آیت نمبر48اور49میں بھی بیان کی گئی ہے۔
{عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ : اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔}شے اسی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ چاہے اور جو مشیت یعنی چاہنے کے تحت آسکے۔ ہر ممکن چیز شے میں داخل ہے اور ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے اورجو ممکن نہیں بلکہ واجب یامحال ہے اس سے اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور قدرت کا تعلق ہی نہیں ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات واجب ہیں اس لیے قدرت کے تحت داخل نہیں مثلاً یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنا علم ختم کرکے بے علم ہوجائے یا معاذاللہ جھوٹ بولے۔ یاد رہے کہ ان چیزوں کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت نہ آنا اس کی قدرت میں نقص و کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان چیزوں کا نقص ہے کہ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق ہوسکیں۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(21)
ترجمہ:
اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ یہ امید کرتے ہوئے(عبادت کرو) کہ تمہیں پرہیزگاری مل جائے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو! ۔} سورۂ بقرہ کے شروع میں بتایا گیا کہ یہ کتاب متقین کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی، پھر متقین کے اوصاف ذکر فرمائے ، اس کے بعد اس سے منحرف ہونے والے فرقوں کا اور ان کے احوال کا ذکر فرمایا تاکہ سعادت مند انسان ہدایت و تقویٰ کی طرف راغب ہو اور نافرمانی و بغاوت سے بچے، اب تقویٰ حاصل کرنے کا طریقہ بتایا جارہا ہے اور وہ طریقہ عبادت اور اطاعتِ الٰہی ہے۔ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ‘‘ کے ذریعے تمام انسانوں سے خطاب ہے اور اس بات کااشارہ ہے کہ انسانی شرافت اسی میں ہے کہ آدمی تقویٰ حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ بنے ۔
عبادت کی تعریف:
عبادت اُس انتہائی تعظیم کا نام ہے جو بندہ اپنی عبدیت یعنی بندہ ہونے اور معبودکی اُلوہیت یعنی معبود ہونے کے اعتقاد اور اعتراف کے ساتھ بجالائے۔یہاں عبادت توحید اور اس کے علاوہ اپنی تمام قسموں کو شامل ہے۔کافروں کو عبادت کا حکم اس معنیٰ میں ہے کہ وہ سب سے بنیادی عبادت یعنی ایمان لائیں اور اس کے بعد دیگر اعمال بجالائیں۔
{لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔} اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو ۔
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً۪-وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(22)
ترجمہ: جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور اس نے آسمان سے پانی اتاراپھر اس پانی کے ذریعے تمہارے کھانے کے لئے کئی پھل پیدا کئے تو تم جان بوجھ کر اللہ کے شریک نہ بناؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً:جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔}اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کو بیان فرمایا ہے:
(1)…مخلوق کو عدم سے وجود میں لانا۔
(2)…آسمان و زمین کو پیدا کرنا۔
(3)…آسمان و زمین سے مخلوق کے رزق کا مہیا کرنا۔
(4)…آسمان سے بارش اتارنااور زمین سے نباتات اُگانا۔
جب آدمی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے تو اُس مالک ِ حقیقی کو چھوڑ کر کسی اورکا عبادت گزاربننا کس قدر ناشکری ہے؟ یونہی ایسے کریم خدا کی یاد سے غفلت بھی کتنی بڑی ناشکری ہے۔
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(23)
ترجمہ:
اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت کا بیان ہوا اور یہاں سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کریم کے اللہ تعالیٰ کی بے مثل کتاب ہونے کی وہ قاہر دلیل بیان فرمائی جارہی ہے جو طالب ِصادق کو اطمینان بخشے اور منکروں کو عاجز کردے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل قرآن ہے لہٰذا اس رکوع میں ترتیب سے ان سب کو بیان کیا گیا ہے۔
{عَلٰى عَبْدِنَا: اپنے خاص بندے پر ۔}اس آیت میں خاص بندے سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۵) یہاں اس اندازِ تعبیر میں نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبیت کی طرف بھی اشارہ ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خَلق کا آقا کہوں تجھے
{فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ: تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ ۔}آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں قرآن کے بے مثل ہونے پر دو ٹوک الفاظ میں ایک کھلی دلیل دی جارہی ہے کہ اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرنے والوں کو چیلنج ہےکہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں بلکہ کسی انسان کی تصنیف سمجھتے ہو تو چونکہ تم بھی انسان ہو لہٰذا اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ جو فصاحت و بلاغت ،حسنِ ترتیب ، غیب کی خبریں دینے اور دیگر امور میں قرآن پاک کی مثل ہواور اگرایسی کوئی سورت بلکہ آیت تک نہ بنا سکو تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انکار کرنے والوں کا انجام دوزخ ہے جو بطورِ خاص کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
نوٹ: یہ چیلنج قیامت تک تمام انسانوں کیلئے ہے، آج بھی قرآن کو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تصنیف کہنے والے کفار تو بہت ہیں مگر قرآن کی مثل ایک آیت بنانے والا آج تک کوئی سامنے نہیں آیا اور جس نے اس کا دعویٰ کیا ، اس کا پول خود ہی چند دنوں میں کھل گیا۔
اعجاز ِقرآن کی وجوہات:
قرآن مجید وہ بے مثل کتا ب ہے کہ لوگ اپنے تمام تر کمالات کے باوجود قرآن پاک جیساکلام بنانے سے عاجز ہیں اورجن و انس مل کر بھی اس کی آیات جیسی ایک آیت بھی نہیں بنا سکتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق میں کسی کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی مثل کلام بنا سکے اور یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک کوئی بھی قرآن مجید کے دئیے ہوئے چیلنج کا جواب نہیں دے سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی دے سکے گا۔قرآن پاک کے بے مثل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جنہیں علماء و مفسرین نے اپنی کتابوں میں بہت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ہم یہاں پر ان میں سے صرف تین وجوہات بیان کرتے ہیں۔ تفصیل کیلئے بڑی تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔
(1)…فصاحت و بلاغت:
عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت کے میدان کے شہسوار تھے اور ان کی صفوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو کہ بلاغت کے فن میں اعلیٰ ترین منصب رکھنے والے،عمدہ الفاظ بولنے والے،چھوٹے اور بڑے جملوں کو بڑی فصاحت سے تیار کرنے والے تھے اور تھوڑے کلام میں بہترین تصرف کرلیتے تھے، اپنی مراد کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کرتے، کلام میں فصاحت و بلاغت کے تمام فنون کی رعایت کرتے اور ایسے ماہر تھے کہ فصاحت و بلاغت کے جس دروازے سے چاہتے داخل ہو جاتے تھے،الغرض دنیا میں ہر طرف ان کی فصاحت و بلاغت کا ڈنکا بجتا تھا اور لوگ فصاحت و بلاغت میں ان کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔
ان اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کے میدا ن میں اگر کسی نے عاجز کیا ہے تو وہ کلام قرآن مجید ہے ،اس مقدس کتاب کی فصاحت و بلاغت نے اہل عرب کی عقلوں کو حیران کردیا اور اپنی مثل لانے سے عاجز کردیا۔
(2)…تلاوتِ قرآن کی تاثیر:
قرآن مجید کے بے مثل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے اور سننے والا کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اکتاتا ہے بلکہ وہ اس کی جتنی زیادہ تلاوت کرتا ہے اتنی ہی زیادہ شیرینی اور لذت پاتا ہے اور بار بار اس کی تلاوت کرنے سے اس کی محبت دل میں راسخ ہوتی جاتی ہے اور ا س کے علاوہ کوئی اور کلام اگرچہ وہ کتنی ہی خوبی والا اورکتنا ہی فصیح و بلیغ کیوں نہ ہو اسے بار بار پڑھنے سے دل اکتا جاتا ہے اور جب اسے دوبارہ پڑھا جائے تو طبیعت بیزار ہو جاتی ہے ۔ قرآن مجید کی اس شان کے بارے میں حضرت حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس سے دوسری زبانیں مشتبہ نہیں ہوتی، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے،یہ بار بار دہرائے جانے سے پرانا نہیں ہوتا اور ا س کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴-۴۱۵، الحدیث: ۲۹۱۵)
نیزقرآن مجید کی آیات میں رعب ، قوت اور جلال ہے کہ جب کوئی ان کی تلاوت کرتا ہے یا انہیں کسی سے سنتا ہے تو اس کے دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے حتّٰی کہ جسے قرآن پاک کی آیات کے معانی سمجھ میں نہ آ رہے ہوں اور وہ آیات کی تفسیر بھی نہ جانتا ہو، اس پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے علاوہ اور کسی کتاب میں یہ وصف نہیں پایا جاتا اگرچہ وہ کیسے ہی انداز میں کیوں نہ لکھی گئی ہو۔
(3)… غیب کی خبریں :
قرآن پاک میں مستقبل کے متعلق جو خبریں دی گئیں وہ تمام کی تمام پوری ہوئیں مثلاً زمانہ نبوی میں رومیوں کے ایرانیوں پر غالب آنے کی خبر دی گئی اور وہ سوفیصد پوری ہوئی۔
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(24)
ترجمہ:پھر اگر تم یہ نہ کرسکواور تم ہر گز نہ کرسکو گے تو اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔ وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ :اس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔}اس آیت میں آدمی سے کافر اور پتھر سے وہ بت مراد ہیں جنہیں کفار پوجتے ہیں اور ان کی محبت میں قرآنِ پاک اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاانکار کرتے ہیں۔ پتھروں کا جہنم میں جانا اُن پتھروں کی سزا نہیں بلکہ اُن کے پجاریوں کی سزا کے لئے ہوگا یعنی پجاریوں کو ان پتھروں کے ساتھ سزا دی جائے گی۔
{اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ:وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔} اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ پیدا ہوچکی ہے کیونکہ یہاں ماضی کے الفاظ ہیں نیز ’’کافروں کیلئے‘‘ فرمانے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جہنم میں ہمیشہ داخلے سے محفوظ رہیں گے کیونکہ جہنم بطورِ خاص کافروں کے لئے پیدا کی گئی ہے۔
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ-قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُۙ-وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗۙ-وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(25)
ترجمہ:
اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے دیا گیاتھا حالانکہ انہیں ملتا جلتا پھل (پہلے )دیا گیا تھا اور ان (جنتیوں )کے لئے ان باغوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے ۔} اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ترہیب یعنی ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے، اسی لیے کفار اور ان کے اعمال و عذاب کے ذکر کے بعد مومنین اور ان کے اعمال و ثواب کا ذکر فرمایا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ صالحات یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں جو شرعاً اچھے ہوں ،ان میں فرائض و نوافل سب داخل ہیں۔ یہاں بھی ایمان اور عمل کو جدا جدا بیان کیا جس سے معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہیں۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۸)
{وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا:اور انہیں ملتاجلتا پھل دیا گیا۔} جنت کے پھل رنگت میں آپس میں ملتے جلتے ہوں گے مگر ذائقے میں جدا جدا ہوں گے، اس لیے ایک دفعہ ملنے کے بعد جب دوبارہ پھل ملیں گے توجنتی کہیں گے کہ یہ پھل تو ہمیں پہلے بھی مل چکا ہے مگرجب وہ کھائیں گے تو اس سے نئی لذت پائیں گے اور ان کا لطف بہت زیادہ ہوجائے گا۔اس کا یہ بھی معنیٰ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیوی پھلوں سے ملتے جلتے پھل دئیے جائیں گے تاکہ وہ ان پھلوں سے مانوس رہیں لیکن جنتی پھل ذائقے میں دنیوی پھلوں سے بہت اعلیٰ ہوں گے۔
{اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ:پاکیزہ بیویاں۔}جنتی بیویاں خواہ حوریں ہوں یا اور سب کی سب تمام ناپاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہوں گی، نہ جسم پر میل ہوگا نہ کوئی اور گندگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بدمزاجی اور بدخلقی سے بھی پاک ہوں گی۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۹)
{وَ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ:وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔} جنتی نہ کبھی فنا ہوں گے اورنہ جنت سے نکالے جائیں گے۔ لہٰذا جنت اور اہلِ جنت کے لیے فنا نہیں۔
هَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ(26)
ترجمہ:
بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کے لئے کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر۔ بہرحال ایمان والے تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے کافر تو وہ کہتے ہیں ، اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖ:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا۔} جب اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ (کے دوسرے رکوع ) میں منافقوں کی دو مثالیں بیان فرمائیں تو منافقوں نے یہ اعتراض کیاکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بلند تر ہے کہ ایسی مثالیں بیان فرمائے اور بعض علماء نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کفار کے معبودوں کی کمزوری کو مکڑی کے جالوں وغیرہ کی مثالوں سے بیان فرمایا تو کافروں نے اس پر اعتراض کیا ۔اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۱، طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۱۳-۲۱۴، ملتقطاً)
چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتاہے اورماہرینِ کلام کا یہ طریقہ ہے اس لیے مثال بیان کرنے پر اعتراض غلط ہے۔
{ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا:اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔} ان الفاظ سے کافروں کو جواب دیا گیا کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصو دہے نیز مومنوں اور کافروں کے مقولے اس کی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتاہے اور جن کی عادت صرف ضد، مقابلہ بازی، انکار اور مخالفت ہوتی ہے اور کلام کے بالکل معقول ، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجودوہ اس کا انکار کرتے ہیں اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے، جو جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیم المرتبہ چیز کی مثال کسی قدر وقیمت والی چیز سے اور حقیر چیز کی مثال کسی ادنیٰ شے سے دی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیت نمبر17 میں حق کی مثال نور سے اور باطل کی مثال تاریکی سے دی گئی ہے۔ نزولِ قرآن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن کو سن کر گمراہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اس اعتبار سے فرمایا کہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔
{ وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ:اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔} شریعت میں ’’فاسق ‘‘اس نافرمان کو کہتے ہیں جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔ فسق کے تین درجے ہیں ایک تَغَابِی وہ یہ کہ آدمی اتفاقیہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کو برا ہی جانتا رہا۔دوسرا اِنْہِمَاک کہ کبیرہ گناہوں کا عادی ہوگیا اور اس سے بچنے کی پروا نہیں کرتا۔ تیسرا جُحُوْد کہ حرام کو اچھا جان کر ارتکاب کرے اس درجہ والا ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ پہلے دو درجوں میں جب تک سب سے بڑے کبیرہ گناہ یعنی کفر و شرک کا ارتکاب نہ کرے وہ مومن و مسلمان ہے۔مذکورہ آیت میں فاسقین سے وہی نافرمان مراد ہیں جو ایمان سے خارج ہوگئے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۸۸)
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(27)
ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کے وعدے کو پختہ ہونے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اوراس چیز کو کاٹتے ہیں جس کے جوڑنے کااللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ :وہ جو اللہ کا عہد توڑتے ہیں۔} اس سے وہ عہد مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آسمانی کتابوں میں حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق فرمایا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ عہد تین ہیں :
پہلا عہد وہ جو اللہ تعالیٰ نے تمام اولادِ آدم سے لیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار کریں ،اس کا بیان سورہ اعراف، آیت 172 میں ہے۔ دوسرا عہد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مخصوص ہے کہ رسالت کی تبلیغ فرمائیں اور دین قائم کریں ، اس کا بیان سورہ احزاب آیت 7 میں ہے۔ تیسرا عہد علماء کے ساتھ خاص ہے کہ حق کو نہ چھپائیں ، اس کا بیان سورہ آل عمران آیت 187 میں ہے۔
{مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖ:جس چیزکااللہ نے حکم دیا ۔} جن چیزوں کے ملانے کا حکم دیا گیا وہ یہ ہیں : (۱)رشتے داروں سے تعلقات جوڑنا،(۲)مسلمانوں کے ساتھ دوستی و محبت کرنا، (۳) تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ماننا، (۴)تمام کتابوں کی تصدیق کرنا اورحق پر جمع ہونا۔ ان کو قطع کرنے کا معنیٰ ہے رشتے داروں سے تعلق توڑنا، انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ ماننا اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی تصدیق نہ کرنا۔(تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۱ / ۲۶۶)
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(28)
ترجمہ: تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ: تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو۔}توحید و نبوت کے دلائل اور کفر و ایمان کی جزا و سزا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص وعام نعمتوں کا اور قدرت کی عجیب نشانیوں کا ذکر فرمایا اورکفر کی خرابی اور برائی کو کافروں کے دلوں میں بٹھانے کیلئے انہیں خطاب کیا کہ تم کس طرح خدا کے منکر ہوتے ہو حالانکہ تمہارا اپنا حال اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کاتقاضا کرتا ہے کیونکہ تم بدن میں روح ڈالے جانے سے پہلے تمام مراحل میں مردہ تھے یعنی کچھ نہ تھے یا بے جان جسم تھے پھر اس نے تم میں روح ڈال کر تمہیں زندگی دی پھر زندگی کی مدت پوری ہونے پر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا ،اس سے یا توقبر کی زندگی مراد ہے جو سوال کے لیے ہوگی یا قیامت کی، پھر تم حساب کتاب اور جزا کے لیے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو اپنے اس حال کو جان کر تمہارا کفر کرنا نہایت عجیب ہے ۔اس آیت میں غور کریں تو ہم مسلمانوں کیلئے بھی نصیحت ہے کہ ہم بھی کچھ نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی عطا کی اور زندگی گزارنے کے لوازمات اور نعمتوں سے نوازا تو اس کی عطاؤں سے فائدہ اٹھا کر اس کی یاد سے غافل ہونا اور ناشکری اور غفلت کی زندگی گزارنا کسی طرح ہمارے شایانِ شان نہیں ہے
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍؕ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(29)
ترجمہ:
وہی ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا پھر اس نے آسمان کے بنانے کاقصد فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے اوروہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ:وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا۔} تمام انسانوں کو فرمایا گیا کہ زمین میں جو کچھ دریا، پہاڑ، کانیں ، کھیتی، سمندر وغیرہ ہیں سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دینی و دنیاوی فائدہ کے لیے بنایا ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ زمین کے عجائبات دیکھ کرتمہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کی معرفت نصیب ہو اور دنیاوی فائدہ یہ کہ دنیا کی چیزوں کو کھاؤ پیواور اپنے کاموں میں لاؤ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ممانعت نہ ہو ۔تو ان نعمتوں کے باوجود تم کس طرح اللہ تعالیٰ کا انکار کرسکتے ہو؟
ایک اہم قاعدہ:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا وہ ہمارے لئے مُباح و حلال ہے۔(تفسیر روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۱ / ۲۹۱)
{وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ:اوروہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔} کائنات کی تخلیق اور اسے وجود میں لانا اللہ تعالیٰ کے کامل علم کی دلیل ہے کیونکہ ایسی حکمت سے بھری مخلوق کا پیدا کرنا ایک ایک شے کا علم رکھے بغیر ممکن اور متصور نہیں۔کافرمرنے کے بعد زندہ ہونے کوناممکن سمجھتے تھے، ان آیتوں میں کافروں کے اس عقیدے کے غلط و باطل ہونے پر ایک عظیم دلیل قائم کی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قدرت و علم والا ہے اور جسم حیات کی صلاحیت بھی رکھتاہے تو موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا کیسے ناممکن ہوسکتا ہے؟
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(30)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا : کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ۔ فرمایا:بیشک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ:اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔}حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کے واقعات پر ضمنی تبصرے سے پہلے ایک مرتبہ آیات کی روشنی میں واقعہ ذہن نشین کرلیں۔واقعے کا خلاصہ: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق سے پہلے فرشتوں سے فرمایاکہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اس پر فرشتوں نے عرض کی : اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! کیا تو زمین میں اس کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم ہر وقت تیری تسبیح و تحمید کرتے ہیں (یعنی تیری خلافت کے مستحق ہم ہیں۔ )اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو مجھے معلوم ہے وہ تمہیں معلوم نہیں پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کے بعد انہیں تمام چیزوں کے نام سکھادیے اورپھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ تم ہی خلافت کے مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے یہ سن کر عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھادیا،ساری علم و حکمت تو تیرے پاس ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: اے آدم!تم انہیں اِن تمام اشیاء کے نام بتادو ۔ جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے تواللہ تعالیٰ نے فرمایا :اے فرشتو!کیا میں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی چیزیں جانتا ہوں اور میں تمہاری ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں۔
{اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً :میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔} خلیفہ اُسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اصل کا نائب ہوتا ہے ۔اگرچہ تمام انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں لیکن یہاں خلیفہ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد ہیں اور فرشتوں کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خلافت کی خبر اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کریں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے پہلے ہی خلیفہ کا لقب عطا کردیا گیا ہے اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔
فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام کرنے کاسبب:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے انداز میں دی گئی ۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ ‘‘اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(اٰل عمران: ۱۵۹)
اور انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ‘‘ اور ان کا کام ان کے باہمی مشورے سے (ہوتا) ہے۔(شورٰی: ۳۸)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوگااور جس نے مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہوگا اور جس نے میانہ روی کی وہ کنگال نہیں ہوگا۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵ / ۷۷، الحدیث: ۶۶۲۷)
{ اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا:کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا ۔}اس کلام سے فرشتوں کا مقصد اعتراض کرنا نہ تھا بلکہ ا س سے اپنے تعجب کا اظہار اور خلیفہ بنانے کی حکمت دریافت کرنا تھا اور انسانوں کی طرف فسادپھیلانے کی جو انہوں نے نسبت کی تو اس فساد کا علم انہیں یا توصراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا یا انہوں نے لوح محفوظ سے پڑھا تھا اوریا انہوں نے جِنّات پر قیاس کیا تھا کیونکہ وہ زمین پر آباد تھے اور وہاں فسادات کرتے تھے ۔ (بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱ / ۲۸۲، ملتقطاً)
فرشتے کیا ہیں ؟
فرشتے نوری مخلوق ہیں ،گناہوں سے معصوم ہیں ، اللہ تعالیٰ کے معززومکرم بندے ہیں ، کھانے پینے اور مرد یا عورت ہونے سے پاک ہیں۔ فرشتوں کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے بہار شریعت جلدنمبر 1 کے صفحہ90سے ’’ملائکہ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
{ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ:بیشک میں زیادہ جانتاہوں۔} فرشتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے کیونکہ خلیفہ بنانے میں میری حکمتیں تم پر ظاہر نہیں۔ بات یہ ہے کہ انہی انسانوں میں انبیاء بھی ہوں گے، اولیاء بھی اور علماء بھی اوریہ حضرات علمی و عملی دونوں فضیلتوں کے جامع ہوں گے۔
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـٴُـوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(31)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا:اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۸۵-۲۸۶)
{اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ: مجھے ان کے نام بتاؤ۔ }تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کرکے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی مخلوق نہیں اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا، کاموں کی تدبیر کرنااور عدل و انصاف کرناہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اسے اختیار دیا گیاہے اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے۔
علم کے فضائل:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب’’ علم‘‘ ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا’’اے ابو ذر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، ۱ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۱۹)
حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں ) ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ علی، ۳ / ۹۲، الحدیث:۳۹۶۰)
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں :
واقعہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں ، اور یہ عقیدہ کئی دلائل سے ثابت ہے،ان میں سے 6 دلائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔
(2)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(زمر: ۹)
ترجمۂ کنزالعرفان:تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
(3)…اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔
(4)…اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۳۳)’
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(32)
ترجمہ:
۔(فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ !)تو پاک ہے ۔ ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا: ہمیں صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھادیا۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الہٰی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اور اب انہیں اِنسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام مخلوقات پر چن لیا اور چونکہ مخلوقات میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے اِن پر بھی اُن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چنا گیا لہٰذا وہ فرشتوں سے افضل ہوئے۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰۷)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
اور چونکہ عالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اِن کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں کے لئے رحمت ِ مطلق ہیں تو یقینا ان سے افضل بھی ہیں۔
(6)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے دو وزیر آسمانوں میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ، ۲ / ۶۵۳-۶۵۴، الحدیث: ۳۱۰۰-۳۱۰۱)
اس حدیث ِپاک سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں سے افضل ہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱ / ۴۴۵)
قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ-قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۙ-وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(33)
ترجمہ: ۔(پھر اللہ نے)فرمایا: اے آدم!تم انہیں ان اشیاء کے نام بتادو۔ تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے تو(اللہ نے)فرمایا :(اے فرشتو!)کیا میں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی چیزیں جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ:میں تمہاری ظاہری و پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں۔} فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا اورجو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم و فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱ / ۲۹۰-۲۹۱)
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(34)
ترجمہ: اوریاد کروجب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ۔اس نے انکار کیا اور تکبرکیا اور کافر ہوگیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ: آدم کو سجدہ کرو۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالَم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایاتو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیْهَا‘‘ کی معذرت بھی ہے۔ بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیااور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے اوراس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے ۔ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔
سجدہ سے متعلق چند شرعی احکام:
اس آیت میں سجدے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں سجدے سے متعلق چند احکام بیان کئے جاتے ہیں :
(1)… سجدے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عبادت کا سجدہ(۲) تعظیم کا سجدہ۔ ’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود(یعنی جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔
(2)…یہ قطعی عقیدہ ہے کہ’’ سجدۂ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔
(3)… فرشتوں نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا۔
(4)… تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک و کافر کہنا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ نے غیرُاللہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ایک عظیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ(غیرُ اللہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان)‘‘یہ کتاب فتاویٰ رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہے۔
تکبر کی مذمت:
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۱، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرے۔(ابن عساکر، حرف القاف، ذکر من اسمہ قابیل، ۴۹ / ۴۰)
حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا ہے،پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، ۳ / ۴۰۳، الحدیث: ۲۰۰۷)
قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(35)فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(36)
ترجمہ:
اور ہم نے فرمایا: اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو اوربغیر روک ٹوک کے جہاں تمہارا جی چاہے کھاؤ البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔توشیطان نے ان دونوں کو جنت سے لغزش دی پس انہیں وہاں سے نکلوا دیا جہاں وہ رہتے تھے اور ہم نے فرمایا :تم نیچے اترجاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن بنو گے اور تمہارے لئے ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھکانہ اور (زندگی گزارنے کا)سامان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ:اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو۔} یہاں سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کے واقعے کا خلاصہ:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا توانہوں نے بھی کھالیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا ۔یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔ اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام ایک عرصے تک اپنی لغزش کی معافی مانگتے رہے حتیّٰ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے چند کلمات سکھائے گئے،پھر جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کلمات کے ساتھ توبہ و معافی کی درخواست کی تو وہ قبول ہوئی۔
ایک اہم مسئلہ:
یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ آج کل بیباکی کا دور ہے اور جس کا جو جی چاہتا ہے بول دیتا ہے یہاں تک کہ مذہبی معاملات میں اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں ، اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلے میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غیرِتِلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمۂ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علماءے کرام نے اسے کفر بتایا (ہے)۔ (فتاوی رضویہ، ۱ / ۸۲۳)لہٰذااپنے ایمان اور قبرو آخرت پر ترس کھاتے ہوئے اِن معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھیں۔
{وَ لَا تَقْرَبَا: اور قریب نہ جانا۔} آیت میں اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی ہے لیکن اس کیلئے فرمایا کہ قریب نہ جانا۔ اس طرزِ خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہیے جیسے بچے کے سیڑھیوں سے گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے صرف سیڑھیوں پر کھڑا ہونے سے منع نہیں کرتے بلکہ سیڑھیوں کے قریب بھی نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح بیسیوں کاموں میں علماء کرام اسی اندیشے سے منع فرماتے ہیں کہ کوئی فعل بذاتِ خود منع نہیں ہوتا لیکن اگر لوگ اس کے قریب جائیں گے تو ممنوع کا ارتکاب کربیٹھیں گے جیسے عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کرنے میں یہی حکمت ہے۔ اسی سے پیر اور مشائخ کے فعل کا استدلال ہوسکتا ہے کہ وہ مریدوں کی تربیت کیلئے بعض اوقات کسی جائز کام سے بھی روک دیتے ہیں کیونکہ وہ جائز کام کسی برائی تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
{فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:ورنہ تم زیادتی کرنے والوں سے ہوجاؤ گے۔}’’ظلم ‘‘کا معنیٰ ہے’’ کسی شے کواس کی اپنی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ رکھنا‘‘ اور یہاں آیت میں ظلم خلافِ اَولیٰ کے معنی میں ہے۔
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو ظالم کہنے والے کا حکم :
یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہنا گستاخی اورتوہین ہے اورجو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہے وہ کافر ہے ۔ اللہ تعالیٰ مالک اور مولیٰ ہے، وہ اپنے مقبول بندوں کے بارے میں جو چاہے فرمائے ،کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے متعلق کوئی خلافِ ادب کلمہ زبان پر لائے اور اللہ تعالیٰ کے اس طرح کے خطابات کو اپنی جرأت و بیباکی کی دلیل بنائے۔اس بات کویوں سمجھیں کہ بادشاہ کے ماں باپ بادشاہ کو ڈانٹیں اور یہ دیکھ کر شاہی محل کا جمعدار بھی بادشاہ کو انہی الفاظ میں ڈانٹنے لگے تو اس احمق کا کیا انجام ہوگا؟ ہمیں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور محبوبانِ خدا کی تعظیم و توقیر اور ادب و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہم پر یہی لازم ہے۔
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کی عصمت کا بیان:
یہ بھی یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہوتے ہیں اوران سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا،ان کے معصوم ہونے پربیسیوں دلائل ہیں۔ یہاں پر صرف 3 دلائل درج کئے جاتے ہیں۔
(1)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے اور مخلص بندے ہیں ،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا:
اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ(ص: ۴۶)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔
اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(یوسف: ۲۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے ۔
اور جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا، جیسا کہ اس کا یہ اعتراف خود قرآن مجید میں موجود ہے:
’’ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(ص: ۸۲-۸۳)
ترجمۂ کنزالعرفان:اس نے کہا: تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر شیطان کا داؤ نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔
(2)…گناہ کرنے والا مذمت کئے جانے کے لائق ہے ،جبکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ارشاد فرما دیاکہ
’’وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘(ص: ۴۷)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔
(3)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر نہ ہوکیونکہ اگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(37)
ترجمہ:
پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لئے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی۔ بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا بڑامہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ: پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لئے۔ }حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تُو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
اور اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے جوحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد )انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب!عَزَّوَجَلَّ، مجھے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے میں معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السلام بحق محمدصلی اللہ علیہ وسلم،۳ / ۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،۵ / ۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۸۹)
بارگاہِ الہٰی کے مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے:
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے ،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مقبولوں کو اپنے فضل و کرم سے حق دیتا ہے اور اسی فضل و کرم والے حق کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے ۔ اس طرح کا حق صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسے بخاری میں ہے ’’مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّاعَلَی اﷲِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ‘‘جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔(بخاری،کتاب الجھادوالسیر، باب درجات المجاھدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
توبہ کا مفہوم اور اس کے ارکان:
آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کیلئے آئے تو اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کے ساتھ بندے پر رجوع کرنا ہے یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے اور یہ لفظ جب بندے کیلئے آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے ۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ امام نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں : (۱) گناہ سے رک جانا ،(۲) گناہ پر شرمندہ ہونا، (۳) گناہ کو چھوڑ دینے کا پختہ ارادہ کرنا۔ اگر گناہ کی تلافی اور تدارک ہو سکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین، باب التوبۃ، ص۵)
جیسے اگر کسی نے نماز یں چھوڑی ہوں تواس کی توبہ کیلئے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ یونہی کسی نے دوسرے کا مال چوری یا غصب یا رشوت کے طور پر لیا ہے تو توبہ کیلئے مال واپس کرنا بھی ضروری ہے۔
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًاۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(38)وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(39)
ترجمہ:ہم نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اور وہ جو کفر کریں گے اور میری آیتوں کوجھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہوں گے،وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ:توجو میری ہدایت کی پیروی کریں۔}ہدایت ِ الہٰی کے پیروکاروں کیلئے بشارت ہے کہ انہیں نہ تو قیامت کی بڑی گھبراہٹ کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے بلکہ بے غم جنت میں داخل ہوں گے۔ یہاں جمع کے صیغے کے ساتھ سب کو اترنے کا فرمایا ، اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ساتھ ان کی اولاد بھی مراد ہے جوابھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت میں تھی۔
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ-وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(40)
ترجمہ:
اے یعقوب کی اولاد! یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میراعہد پورا کرو میں تمہاراعہد پورا کروں گا اورصرف مجھ سے ڈرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل۔} ’’اسراء‘‘ کا معنیٰ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ اور ’’اِیل ‘‘سے مراد ’’اللہ‘‘ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا ’’عبداللہ‘‘یعنی اللہ کا بندہ ۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸)
عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ:
یہاں آیت نمبر 40سے لے کرآیت نمبر150تک کی اکثر آیات میں بنی اسرائیل کے عروج وزوال، عزت و ذلت، اِقبال و اِدبار، جزا و سزااورقومی و اجتماعی اچھے برے کردار کا تذکرہ ہے۔ پھر اسی بیان کو قرآن پاک میں باربار دہرایا گیا ہے۔ اس باربار کے تکرار میں ایک بڑی حکمت قوموں کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ سمجھانااور مسلمانوں کو اس سے عبرت دلانا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد ہونے، جلیل القدر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی امت ہونے اور تورات جیسی کتاب رکھنے کے باوجود اپنے اعتقادوعمل کے بگاڑ پر ذلیل و رسوا اور مغلوب و مقہور ہوئی جبکہ توبہ و رجوع اور نبی و کتاب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی صورت میں معزز و غالب ہوئی اسی طرح امت ِ مسلمہ بھی اپنے عروج و زوال کے اسباب کو اِسی آئینے میں دیکھ سکتی ہے۔ آج سب پوچھتے ہیں کہ مسلمان مغلوبیت، ذلت اور پستی کا شکار کیوں ہیں ؟ قرآن میں بیان کردہ بنی اسرائیل کا قومی اور اجتماعی کردار اور موجودہ دور کے مسلمانوں کا قومی اور اجتماعی کردار سامنے رکھ کر موازنہ کرلیں۔ خود ہی سمجھ آجائے گا کہ اگر بنی اسرائیل کو کانٹے بونے پر کانٹے ملتے تھے تو ہمیں کانٹے بونے کے بدلے آم کیوں ملیں گے؟
{ اُذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ : میرا احسان یاد کرو۔}اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودیوں کو مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا : اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تمہارے آباؤ اجداد پر کئے جیسے انہیں فرعون سے نجات دی، ان کیلئے دریا میں گزرگاہ بنادی، بادل کو ان پرسائبان بنادیا، کھانے کیلئے ان پر مَن و سَلْویٰ اتارا،ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے،انہیں طاقتور قوموں پر فتح عطا فرمائی اور توریت جیسی عظیم کتاب انہیں عطا فرمائی اور میرا وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیا کہ تمہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زمانہ عطا کیا جن کی آمد کی بشارت تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔(جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الایۃ:۴۰،۱ / ۵۶-۵۷، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸، ملتقطاً)
خیال رہے کہ یہاں یاد کرنے سے مرادصرف زبان سے تذکرہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے ان نعمتوں کا شکر بجالائیں کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا اس کو بھلادینے کے مترادف ہے۔
{ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ:اور میرا عہد پورا کرو۔} یعنی اے بنی اسرائیل!تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاکر وہ عہد پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا اور میں اس کے ثواب کے طور پر تمہیں جنت میں داخل کر کے تمہارے ساتھ کیا ہوا عہد پور اکروں گا اور اپنے عہد کو پورا کرنے کے معاملے میں کسی اور سے ڈرنے کی بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘
اس آیت میں جس عہد کاذکر ہے ا س کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جوسورہ مائدہ میں یوں مذکور ہے:
’’وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ-وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ-وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘‘(مائدہ، آیت: ۱۲)
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیااور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تم سے تمہارے گناہ مٹا دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس (عہد) کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱ / ۴۸،ملتقطاً)
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘-وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(41)
ترجمہ: اور ایمان لاؤ اس (کتاب )پر جو میں نے اتاری ہے وہ تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت نہ وصول کرواور مجھ ہی سے ڈرو۔
کنزالعرفان
تفسی: صراط الجنانر
{وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ:اور اس پرایمان لاؤ جسے میں نے نازل کیا ۔} یعنی اے بنی اسرائیل کے علماء! اس قرآن پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے اور وہ تمہارے پاس موجود کتاب تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور تم اہل کتاب میں سے قرآن مجید اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سب سے اَوّلین منکر نہ بنو ورنہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگ کر کفر اختیار کریں گے تو ان کا وبال بھی تم پر ہوگا۔
نیکی اور برائی کی ابتداء کرنے والے کے بارے میں ایک اصول:
یاد رہے کہ نیکی اور بدی کے ہرکام میں یہی اصول نافذ ہے کہ اس کی ابتداء کرنے والوں کو پیروی کرنے والوں کے عمل کا ثواب یا عذاب بھی ملے گا۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو ا س کے لئے ا س طریقے کو ایجاد کرنے کا ثواب ہو گا اور ا س کے بعد جو لوگ اُ س طریقے پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی اس( ایجاد کرنے والے)کو ملے گا اور ان (عمل کرنے والوں ) کے اپنے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے اسلام میں برا طریقہ ایجاد کیا تو اُس پر اِس کا گناہ ہو گا اور اِس کے بعد جو لوگ اُس پر عمل کریں گے اُن کا گناہ بھی اِسے ہو گا اور اِن(عمل کرنے والوں ) کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۰۱۷))
{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کرو۔} اس آیت میں دنیاکے حقیر و ذلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیات بیچنے سے منع کیا گیا ہے اوریہاں اُن آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و علامات کا بیان ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات ان یہودیوں کے متعلق نازل ہوئیں جنہیں اپنی قوم سے نذرانے اور وظائف ملتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اگر قوم کو معلوم ہوگیا کہ تورات میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں تو وہ ان سرداروں کو چھوڑکر محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے اور یوں ان کے نذرانے بند ہوجائیں گے۔ اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کے قلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیتیں بیچتے ہیں۔
عظمت ِمصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چھپانے والے غور کریں:
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء اپنے باطل مفادات، نفسانی خواہشات اور جاہلانہ تَوَہُّمات کی بنا پر اپنی کتابوں میں موجود ان آیات کو چھپاتے تھے جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کئے گئے اور اگر کبھی کوئی آیت بیان بھی کی تو اس کے ساتھ بعض باطل باتیں ملا کر بیان کرتے تھے حالانکہ علماء کا منصب توحق بات کا اعلان کرنا، حق اور باطل کو جدا کرنا، مالی و ذاتی مفادات کو دین پر قربان کرنااور دین کا محافظ بننا ہے۔ یہودیوں کے بیان کردہ طرزِ عمل اور علماء کے منصب کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی حالت پر غور کرنے کی حاجت ہے جن کا حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان بیان کرنے کے معاملے میں سلسلہ کہیں اور ہی جاکر ملتا ہے ۔
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(42)
ترجمہ:
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اورجان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ۔} یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اس طرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جن کے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹)
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)
ترجمہ:
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم رکھو۔}اس سے پہلی آیات میں یہودیوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا،پھر انہیں حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل چھپانے سے منع کیا گیا ،اب ان کے سامنے وہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد ان پر لازم ہیں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اورشرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دواور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرو۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۳، ۱ / ۴۸۵، روح البیان، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۴۳،۱ / ۱۲۱، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹، ملتقطاً)
باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت اور فضائل:
اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،۱ / ۲۳۲، الحدیث: ۶۴۵)
حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت حمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘(شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۷۲۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا، ۱ / ۲۳۴، الحدیث: ۵۶۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص۳۲۷، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))
بزرگانِ دین کے نزدیک باجماعت نماز اداء کرنے کی اہمیت کس قدر تھی اس کا اندازہ ان دو حکایات سے لگایا جا سکتا ہے:
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے ،یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا اور ارشاد فرمایا :’’میری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے تاکہ یہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر، باب صلاۃ الجماعۃ، الکبیرۃ الخامسۃوالثمانون،۱ / ۳۱۱)
(2)…حضرت حاتم اَصم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میری با جماعت نماز فوت ہو گئی تو حضرت ابو اسحاق بخاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ کسی نے میری تعزیت نہ کی اور اگر میرا بچہ فوت ہو جاتا تودس ہزار ( 10,000) سے زیادہ افراد مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دینی نقصان دنیوی نقصان سے کم تر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۰۳)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(44)
ترجمہ:
کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ:کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟}یہ آیت مبارکہ ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا دین حق اور کلام سچا ہے ۔ یاان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۵۰)یاد رہے کہ اس آیت کا شانِ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے اور ہر نیکی کا حکم دینے والے کیلئے اس میں تازیانہ عبرت ہے ۔
قول و فعل کے تضاد کا نقصان:
یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کوتو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے ،دنیا میں تو یہ اس قدر نقصان دہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی کے متعلق یہ تضاد ثابت ہوجائے تو لوگ زندگی بھر اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسوں کے عمل کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگ ہمیشہ کیلئے دین ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں ،اور آخرت میں ا س کا نقصان کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس روایت اور حکایت سے خود ہی لگا لیجئے ،چنانچہ
حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، اس کے محلات اور ا س میں اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب عَزَّوَجَلَّ! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے(اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے،تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵-۱۳۶، الحدیث: ۵۴۷۸)
اورحضرت ابراہیم تیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں موت اور( مرنے کے بعد ہڈیوں کی ) بوسیدگی کو یادکرنے کے لئے کثرت سے قبرستان میں آتا جاتاتھا، ایک رات میں قبرستان میں تھا کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گیا تو میں نے خواب میں ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کر کے اس کی شرمگاہ سے نکالو۔ تو وہ مردہ کہنے لگا: ’’یا رب عَزَّوَجَلَّ! کیا میں نے قرآن نہیں پڑھا ؟ کیا میں نے تیرے حرمت والے گھر کاحج نہیں کیا؟ پھر وہ اسی طرح ایک کے بعد دوسری نیکی گنوانے لگا تو میں نے سنا ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیاکرتا تھا لیکن جب توتنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے مقابلہ کرتا اور تم نے میرا کچھ خیال نہ کیا۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، خاتمۃ فی التحذیر من جملۃ المعاصی۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱ )
بے عمل بھی نیکی کی دعوت دے:
یاد رہے کہ اس آیت کی مراد وعظ و نصیحت کرنے والوں کو تقویٰ و پرہیزگاری پر ابھارنا ہے ، بے عمل کو وعظ سے منع کرنا مقصود نہیں ، یعنی یہ فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے ۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے۔ (بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۳۱۶)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اس وقت تک (دوسروں کو) نیک اعمال کرنے کی دعوت نہ دیں جب تک ہم خود تمام نیک اعمال نہ کرنے لگ جائیں اور ہم اس وقت تک(لوگوں کو)برے کاموں سے منع نہ کریں جب تک ہم خود تمام برے کاموں سے رک نہ جائیں ؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(ایسا نہ کرو) بلکہ تم نیک اعمال کرنے کاحکم دو اگرچہ تم خود تمام نیک اعمال نہیں کرتے اور برے اعمال کرنے سے منع کرو اگرچہ تم تمام برے اعمال سے باز نہیں آئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد،۵ / ۷۷، الحدیث: ۶۶۲۸)
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ(45)الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(46)
ترجمہ: اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرواور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں ۔جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کوسید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے ،ان کی شریعت پر عمل کرنے ،سرداری ترک کرنے اور منصب و مال کی محبت دل سے نکال دینے کا حکم دیا گیا اور ا س آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے نفس کو لذتوں سے روکنے کے لئے صبر سے مدد چاہو اور اگر صبر کے ساتھ ساتھ نماز سے بھی مدد حاصل کرو تو سرداری اورمنصب و مال کی محبت دل سے نکالنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا، بیشک نماز ضرور بھاری ہے البتہ ان لوگوں پر بھاری نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم رضائے الٰہی کے حصول اور اپنی حاجتوں کی تکمیل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
سبحان اللہ! کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ صبر کی وجہ سے قلبی قوت میں اضافہ ہے اور نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں پریشانیوں کو برداشت کرنے اور انہیں دور کرنے میں سب سے بڑی معاون ہیں۔
{اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ: بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ گناہوں اور خواہشات سے بھرے ہوئے دلوں پر نماز بہت بوجھل ہوتی ہے اور عشق و محبت ِ الہٰی سے لبریز اور خوفِ خدا سے جھکے ہوئے دلوں پر نماز بوجھ نہیں بلکہ نماز ان کیلئے لذت و سرور اور روحانی و قلبی معراج کا سبب بنتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور اُس مولیٰ کریم کے دیدار کی تڑپ رکھتے ہیں۔
اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی،نیزاللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی طرف رجوع میں ترغیب و ترہیب دونوں ہیں اور ان دونوں کو پیشِ نظر رکھنا نماز میں خشوع پیدا ہونے کا ذریعہ ہے، گویا نماز میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کا حکم بھی دیا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا۔
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(47)
ترجمہ: اے یعقوب کی اولاد!یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں اس سارے زمانے پر فضیلت عطا فرمائی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ:اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کرو۔}یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
یاد رہے کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خطاب کیاجا رہا ہے جو سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :
(1)…تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری،(2)…دریامیں راستہ بن جانا،(3)…فرعون سے نجات، (4) … تورات کا عطا ہونا، (5)…بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا، (6)…ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، (7)…بادلوں سے سایہ ملنا، (8)…مَن و سَلویٰ نازل ہونا، (9)…پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا، (10)…زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ، یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر امت ِ محمدیہ پر ہونے والے انعامات کو شمار کریں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کا تقاضا ہم سے کس قدر مطلوب ہے۔
{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔}اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی گئی ،اور جب حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو یہ فضیلت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو سب امتوں سے افضل بنا دیاجیسا کہ ارشاد فرمایا:
’’كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت )کے لئے ظاہر کی گئی۔
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(47)
ترجمہ:
اے یعقوب کی اولاد!یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں اس سارے زمانے پر فضیلت عطا فرمائی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ:اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کرو۔}یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
یاد رہے کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خطاب کیاجا رہا ہے جو سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :
(1)…تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری،(2)…دریامیں راستہ بن جانا،(3)…فرعون سے نجات، (4) … تورات کا عطا ہونا، (5)…بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا، (6)…ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، (7)…بادلوں سے سایہ ملنا، (8)…مَن و سَلویٰ نازل ہونا، (9)…پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا، (10)…زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ، یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر امت ِ محمدیہ پر ہونے والے انعامات کو شمار کریں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کا تقاضا ہم سے کس قدر مطلوب ہے۔
{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔}اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی گئی ،اور جب حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو یہ فضیلت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو سب امتوں سے افضل بنا دیاجیسا کہ ارشاد فرمایا:
’’كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت )کے لئے ظاہر کی گئی۔
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(48)
ترجمہ:
اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا:کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی۔}یعنی اے بنی اسرائیل ! قیامت کے اس دن سے ڈرو جس دن کوئی بھی شخص کسی کافر کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کافر کے بارے میں کسی کی کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس کافرسے جہنم کے عذاب سے نجات کے بدلے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کفارسے اللہ تعالیٰ کا عذاب دور کر کے ان کی مددکی جائے گی۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱ / ۱۲۶-۱۲۷)
شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا کیسا ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کافر کو نہ کوئی کافر نفع پہنچا سکے گا اور نہ کوئی مسلمان،اس دن شفاعت صرف مسلمان کیلئے ہوگی جیسا کہ دیگر آیات میں بیان ہوا البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچھے ڈاکٹر کے مل جانے کی امید پر کوئی زہر کھالے یا ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر کے ملنے کی امید پرگا ڑی کے نیچے آکر سارے بدن کی ہڈیاں تڑوالے۔
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(49)
ترجمہ:
اور (یاد کرو)جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: اورجب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی۔} اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل پر کی گئی نعمتوں کا اجمالی طور پر ذکر ہوا اور اب یہاں سے ان نعمتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون کی پیروی کرنے والوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بے دردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کر رکھے تھے، پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں اورگردنیں زخمی ہوگئی تھیں ، غریبوں پر ٹیکس مقرر کئے ہوئے تھے جو غروب آفتاب سے قبل جبراًوصول کئے جاتے تھے اورجوٹیکس نہ دے پاتا اسے سخت سزائیں ملتی تھیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)
اس فرعونیت کا کچھ نمونہ ان مسلمان ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کفار نے پنجے گاڑ کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور مسلمانوں کیلئے عقو بت خانے اورخصوصی جیلیں بنارکھی ہیں۔
فرعون کا مختصر تعارف:
جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا اسی طرح قِبطِی اور عَمالِقہ قوم سے تعلق رکھنے والے، مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوتا تھا۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے فرعون کا نام ولید بن مُصْعَبْ بن رَیان تھا اور اس آیت میں اُسی کا ذکر ہے۔اس کی عمر چار سو سال سے زیادہ ہوئی ،نیز اس آیت میں آلِ فرعون سے اس کے پیروکار مراد ہیں۔
{یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ:وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے۔} فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اوراس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا جبکہ بنی اسرائیل کوکوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس خواب سے اسے بڑی وحشت ہوئی، کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت اور تیری سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو،اُسے قتل کردیا جائے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۱۲۹)
یوں ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل کئے گئے۔ قدرتِ الہٰی سے اس قوم کے بوڑھے جلد مرنے لگے تو قبطی سرداروں نے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ ایک طرف بنی اسرائیل میں موت کی کثرت ہوگئی ہے اور دوسری طرف ان کے بچے بھی قتل کئے جا رہے ہیں ،اگر یہی صورت حال رہی تو ہمیں خدمتگار کہاں سے ملیں گے؟اس پر فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑدئیے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی۔یہ واقعہ سورۂ قصص کے پہلے رکوع میں کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
{وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ:اور اس میں آزمائش تھی۔} ’’بلا ‘‘امتحان و آزمائش کو کہتے ہیں اور آزمائش نعمت سے بھی ہوتی ہے اور شدت و محنت سے بھی۔ نعمت سے بندے کی شکر گزاری اور محنت ومشقت سے اس کے صبر کا حال ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت میں اگر ’’ذٰلِكُمْ‘‘ کا اشارہ فرعون کے مظالم کی طرف ہو تو ’’بلا ‘‘سے محنت و مصیبت مراد ہوگی اور اگر ان مظالم سے نجات دینے کی طرف اشارہ ہو تو ’’بلا‘‘سے نعمت مراد ہوگی۔
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(50)
ترجمہ: اور(یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے دریا کوپھاڑ دیا تو ہم نے تمہیں بچالیا اور فرعونیوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے غرق کردیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ:اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا۔ }یہ دوسری نعمت کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر فرمائی کہ انہیں فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون کو اس کی قوم سمیت ان کے سامنے غرق کردیاجس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکمِ الٰہی پررات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کرمصر سے روانہ ہوئے۔ صبح کو فرعون ان کی جستجو میں ایک بھاری لشکر لے کر نکلا اور انہیں دریا کے کنارے پرپالیا، بنی اسرائیل نے فرعون کے لشکر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فریاد کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریاپر اپنا عصا مارا۔اس کی برکت سے عین دریا میں بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور پانی دیواروں کی طرح کھڑا ہوگیااور ان آبی دیواروں میں جالی کی مثل روشندان بن گئے۔ بنی اسرائیل کی ہر جماعت ان راستوں میں ایک دوسری کو دیکھتی اور باہم باتیں کرتی گزر گئی ۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت ان دریائی راستوں میں داخل ہوگیالیکن جب اس کا تمام لشکر دریا کے اندر آگیا تو دریا اپنی اصلی حالت پر آیا اور تمام فرعونی اس میں غرق ہوگئے اوربنی اسرائیل دریاکے کنارے فرعونیوں کے غرق کا منظر دیکھ رہے تھے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۱۸-۳۱۹، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۲۲، ملتقطاً)
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ہونے والے انعام کی یادگار قائم کرنا سنت ہے:
فرعونیوں کا غرق ہونا محرم کی دسویں تاریخ کو ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن شکر کا روزہ رکھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:یہ کیا ہے؟یہودیوں نے عرض کی :یہ نیک دن ہے،یہ وہ دن ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تمہاری نسبت موسیٰ سے میرا تعلق زیادہ ہے،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء،۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴، مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ص۵۷۲، الحدیث: ۱۲۸(۱۱۳۰))
البتہ صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، عاشوراء کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مسند امام احمد، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)
اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرجوانعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لاناسنت ہے اگرچہ کفار بھی اس یادگار کو قائم کرتے ہوں۔
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(51)ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(52)
ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم واقعی ظالم تھے۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی عطا فرمائی تاکہ تم شکر ادا کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً:اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں بنی اسرائیل پر کی گئی جو نعمت بیان ہوئی ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کو لے کر مصر کی طرف لوٹے تو ان کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے تورات عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا اور اس کیلئے تیس دن اور پھر دس دن کا اضافہ کرکے چالیس دن کی مدت مقرر ہوئی جیسا کہ سورۂ اعراف آیت 142میں ہے۔ان چالیس دنوں میں ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے شامل تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنانائب بنا کر تورات حاصل کرنے کوہ طور پر تشریف لے گئے، چالیس دن رات وہاں ٹھہرے اور اس عرصہ میں کسی سے بات چیت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تختیوں پر تحریری صورت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطافرمائی ۔
دوسری طرف سامری نے جواہرات سے مزین سونے کا ایک بچھڑا بنا کر قوم سے کہا کہ یہ تمہارا معبود ہے۔ وہ لوگ ایک مہینے تک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انتظار کرنے کے بعدسامری کے بہکانے سے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے،ان پوجا کرنے والوں میں تمام بنی اسرائیل شامل تھے، صرف حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کے بارہ ہزارساتھی اِس شرک سے دور و نفور رہے ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام واپس تشریف لائے تو قوم کی حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہ کا کفارہ بتایا،چنانچہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ۔ ان مُرتَد ہونے والوں کی توبہ کا بیان آیت نمبر53کے بعد آرہا ہے۔
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(53)
ترجمہ: اوریاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرناتاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْفُرْقَانَ: فرق کرنا۔} فرقان کے کئی معانی کئے گئے ہیں : (1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔ (2)کفر وایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور ید ِبیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۲)
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِ ىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىٕكُمْؕ- فَتَابَ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(54)
ترجمہ:
اور یاد کروجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم تم نے بچھڑے (کو معبود)بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیالہٰذا(اب) اپنے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں توبہ کرو(یوں )کہ تم اپنے لوگوں کو قتل کرو۔ یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:کہ تم اپنے لوگوں کو قتل کرو۔}بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے کے گناہ سے یوں معافی ملی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تمہاری توبہ کی صورت یہ ہے کہ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی ہے وہ پوجا کرنے والوں کو قتل کریں اور مجرم راضی خوشی سکون کے ساتھ قتل ہوجائیں۔وہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اورصبح سے شام تک ستر ہزار قتل ہوگئے، تب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑاتے ہوئے بارگاہِ حق میں ان کی معافی کی التجاء کی۔ اس پر وحی آئی کہ جو قتل ہوچکے وہ شہید ہوئے اور باقی بخش دئیے گئے، قاتل و مقتول سب جنتی ہیں۔(تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۵۴،۱ / ۴۳۹-۴۴۲، ملخصاً)
مرتد کی سزا قتل کیوں ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک کرنے سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر رہا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا باغی ہو اسے قتل کر دینا ہی حکمت اور مصلحت کے عین مطابق ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ جو ا س ملک کے بادشاہ سے بغاوت کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ اس قانون کو انسانیت کے تمام علمبردار تسلیم کرتے ہیں اور اس کے خلاف کسی طرح کی کوئی آواز بلند نہیں کرتے ،جب دنیوی بادشاہ کے باغی کو قتل کر دینا انسانیت پر ظلم نہیں تو جو سب بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالیٰ کا باغی ہو جائے اسے قتل کر دیاجانا کس طرح ظلم ہو سکتا ہے۔
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا فضل:
بچھڑا بنا کر پوجنے میں بنی اسرائیل کے کئی جرم تھے:
(1) …مجسمہ سازی جو حرام ہے۔
(2)…حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی۔
(3)…بچھڑے کی پوجا کرکے مشرک ہوجانا ۔
یہ ظلم آلِ فرعون کے مظالم سے بھی زیادہ شدید ہیں کیونکہ یہ افعال ان سے بعد ِ ایمان سرزد ہوئے، اس وجہ سے وہ مستحق تو اس کے تھے کہ عذابِ الہٰی انہیں مہلت نہ دے اور فی الفور ہلاک کرکے کفر پر ان کا خاتمہ کردے لیکن حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طفیل انہیں توبہ کا موقع دیا گیا، یہ اللہ تعالیٰ کابڑا فضل ہے اور یہ قتل ان کے لیے کفارہ تھا۔
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(55)ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(56)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے جب تک اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے تمہیں کڑک نے پکڑ لیا۔پھر تمہاری موت کے بعد ہم نے تمہیں زندہ کیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ:ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے۔ }جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارے میں اپنی جانیں بھی دیدیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں اِس گناہ کی معذرت پیش کرنے کیلئے حاضر کریں چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے طور پر لے گئے، وہاں جاکر وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں ، اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ سب مر گئے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الہٰی میں عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ستر افراد کوزندہ فرمادیا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۸۰، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۵۱۹، ملتقطاً)
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت:
اس واقعہ سے شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ظاہر ہوئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ’’ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے ‘‘ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کئے گئے اور اسی سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں ترکِ ادب غضب الٰہی کا باعث ہوتا ہے لہٰذا اس سے ڈرتے رہیں۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبولانِ بارگاہ کی دعا سے مردے بھی زندہ فرمادیتا ہے
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(57)
ترجمہ:
اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارے او پر من اور سلویٰ اتارا (کہ)ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ:اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا ۔} فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حکمِ الہٰی سنایا کہ ملک ِشام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کا مدفن ہے اوراسی میں بیت المقدس ہے، اُسے عمالِقہ قبیلے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔ مصر کا چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ شروع میں تو انہوں نے ٹال مٹول کی لیکن جب مجبور ہوکر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت میں روانہ ہونا ہی پڑا توراستے میں جو کوئی سختی اور دشواری پیش آتی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شکایتیں کرتے۔ جب اُس صحرا میں پہنچے جہاں نہ سبزہ تھا، نہ سایہ اور نہ غلہ ،تو وہاں پہنچ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دھوپ کی، گرمی اور بھوک کی شکایت کرنے لگے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اُس دعا کی برکت سے ایک سفید بادل کو ان پر سائبان بنادیا جو رات دن ان کے ساتھ چلتا اوران پر ایک نوری ستون نازل فرمایا جو کہ آسمان کی جانب سے ان کے قریب ہو گیا اور ان کے ساتھ چلتا اورجب رات کے وقت چاند کی روشنی نہ ہوتی تووہ ان کے لئے چاند کی طرح روشن ہوتا۔ ان کے کپڑے میلے اور پرانے نہ ہوتے، ناخن اور بال نہ بڑھتے۔(تفسیر جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۸۱، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۱-۱۴۲)
{وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى :اور تم پر من اور سلویٰ اتارا ۔} اُس صحرا میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے ان کے کھانے کا انتظام یوں ہوا کہ انہیں مَن و سَلْویٰ ملنا شروع ہوگیا۔من و سلویٰ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں : ’’من‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ترنجبین کی طرح ایک میٹھی چیز تھی جو روزانہ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہر شخص کے لیے ایک صاع(یعنی تقریباً چار کلو) کی بقدر اترتی اور لوگ اس کو چادروں میں لے کر دن بھر کھاتے رہتے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ’’من ‘‘ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کسی مشقت اور کاشتکاری کے بغیر عطا کر کے ان پر احسان فرمایا۔’’سلویٰ‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا پرندہ تھا، اور اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ پرندہ بھنا ہو ابنی اسرائیل کے پاس آتا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ جنوبی ہوا اس پرندے کو لاتی اور بنی اسرائیل اس کا شکار کر کے کھاتے۔ یہ دونوں چیزیں ہفتے کوبالکل نہ آتیں ،باقی ہر روز پہنچتیں ، جمعہ کودگنی آتیں اور حکم یہ تھا کہ جمعہ کو ہفتے کے لیے بھی جمع کرلو مگر ایک دن سے زیادہ کا جمع نہ کرو۔ بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی ناشکری کی اورذخیرے جمع کیے، وہ سڑ گئے اور ان کی آمد بند کردی گئی۔ یہ انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا کہ دنیا میں نعمت سے محروم ہوئے اور آخرت میں سزاکے مستحق ہوئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷،۱ / ۵۶، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۱ / ۱۴۲)
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(58)
ترجمہ: اور جب ہم نے انہیں کہا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہونااور کہتے رہنا، ہمارے گناہ معاف ہوں ، ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور عنقریب ہم نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ:اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہوجاؤ۔ }اس شہر سے ’’بیتُ المقدس‘‘ مراد ہے یااَرِیحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور وہ اسے خالی کر گئے تھے ،وہاں غلے میوے بکثرت تھے ۔اس بستی کے دروازے میں داخل ہونے کا فرمایا گیا اور یہ دروازہ ان کے لیے کعبہ کی طرح تھا اور اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا گناہوں کی معافی کا سبب تھا ۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ’’حِطَّةٌ‘‘ کہتے جائیں (یہ کلمہ استغفار تھا۔) انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی اورسجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور توبہ و استغفار کا کلمہ پڑھنے کی بجائے مذاق کے طور پر’’حَبَّۃٌ فِی شَعْرۃٍ ‘‘ کہنے لگے جس کا معنیٰ تھا: بال میں دانہ۔ اس مذاق اور نافرمانی کی سزا میں ان پر طاعون مسلط کیا گیا جس سے ہزاروں اسرائیلی ہلاک ہو گئے ۔(تفسیرخازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸،۱ / ۵۶، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۵۳، تفسیر عزیزی (مترجم)،۱ / ۴۵۶-۴۵۷، ملتقطاً)
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(59)
ترجمہ:
پھر ان ظالموں نے جو اُن سے کہا گیا تھا اسے ایک دوسری بات سے بدل دیاتو ہم نے آسمان سے ان ظالموں پر عذاب نازل کردیاکیونکہ یہ نافرمانی کرتے رہے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ:تو ہم نے آسمان سے ان ظالموں پر عذاب نازل کردیا۔ }بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب مسلط کیا گیا اور اس کی وجہ سے ایک ساعت میں ان کے70,000افراد ہلاک ہو گئے تھے اور دوسرے قول کے مطابق 24،000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۹،۱ / ۵۶)
طاعون کے بارے میں 3احادیث:
یہاں طاعون کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے طاعون سے متعلق 3احادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک یہ طاعون ایک عذاب ہے جسے تم سے پہلے لوگوں پر مسلط کیا گیا تھا لہٰذا جب کسی جگہ طاعون ہو(اور تم وہاں موجود ہو) تو تم طاعون سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی جگہ طاعون ہو تو تم وہاں نہ جاؤ۔(مسلم، کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوہا، ص۱۲۱۶، الحدیث: ۹۴-۹۵(۲۲۱۸))
(2)…ایک اور روایت میں ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’طاعون پچھلی امتوں کے عذاب کابقیہ ہے جب تمہارے شہر میں طاعون واقع ہو تو وہاں سے نہ بھاگو اوردوسرے شہر میں واقع ہو تو وہاں نہ جاؤ ۔(مسلم، کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوہا، ص۱۲۱۷، الحدیث: ۹۷(۲۲۱۸))
(3)…ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے طاعون کے بارے میں عرض کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ طاعون ایک عذاب ہے ،اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے یہ عذاب بھیج دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اہل ایمان کے لئے رحمت بنایا ہے،کوئی مومن ایسا نہیں جو طاعون میں پھنس جائے لیکن اپنے شہر ہی میں صبر سے ٹھہرا رہے اور یہ سمجھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے اس کے سوا کوئی تکلیف مجھے نہیں پہنچ سکتی ،تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء،۵۶ باب،۲ / ۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۴)
وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(60)
ترجمہ: اور یاد کرو،جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو ، تو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے (اور)ہر گروہ نے اپنے پانی پینے کی جگہ کو پہچان لیا (اور ہم نے فرمایاکہ)اللہ کا رزق کھاؤ اور پیواور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ:اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا ۔}جب میدانِ تِیَہ میں بنی اسرائیل نے پانی نہ پایا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں فریاد کی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عصا مارا تو ا س پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے اور بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر:
یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ پتھر سے چشمہ جاری کرنا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عظیم معجزہ تھا جبکہ ہمارے آقا، حضور سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری فرمائے اور یہ اس سے بھی بڑھ کر معجزہ تھا۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ معجزہ کہ وہ پتھر سے پانی رواں فرما دیتے اور پتھر سے چشمہ برآمد کرتے تو ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی انگشت ہائے مبارک سے چشمہ جاری فرما دیا۔پتھر تو زمین ہی کی جنس سے ہے اور اس سے چشمے بہا کرتے ہیں لیکن اس کے برخلاف گوشت پوست سے پانی کا چشمہ جاری کرنا حد درجہ عظیم ہے۔(مدارج النبوۃ، باب پنجم درذکر فضائل وی صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۱۰)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کیاخوب فرماتے ہیں:
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنج آب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مدد طلب کرنے کا ثبوت:
اس آیت میں لوگوں کا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں استعانت کرنے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان کی مشکل کشائی فرمانے کا ثبوت بھی ہے۔تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت مبارکہ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر لوگوں نے اپنی مشکلات عرض کیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی مشکل کشائی فرمائی ،ان میں سے دو واقعات درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں (میرے والد) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وفات پا گئے اور ان پر قرض تھا ’’ فَاسْتَعَنْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی غُرَمَائِہٖ اَنْ یَضَعُوْا مِنْ دَیْنِہٖ‘‘تو میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ان کے قرض خواہوں سے متعلق مدد طلب کی کہ وہ ان کاقرضہ کچھ کم کر دیں۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا س بارے میں ان سے بات کی تو انہوں نے ایسا نہ کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں بنا ؤ اور پھر مجھے پیغام بھیج دینا۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں : میں نے ڈھیریاں بنادیں اور بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں پیغام بھیج دیا ،آپ ان ڈھیریوں کے پاس تشریف فرما ہو گئے اور ارشادفرمایا:تم ماپ کر لوگوں کو دیتے جاؤ۔میں نے کھجوریں ماپ کر لوگوں کو دینا شروع کر دیں یہاں تک کہ سب کا قرضہ اتر گیا اور میری کھجوریں ایسے لگ رہی تھیں جیسے ان میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔(بخاری،کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی،۲ / ۲۶، الحدیث: ۲۱۲۷)
(2)… حضرت سالم بن ابی جعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سامنے چمڑے کا ایک تھیلا تھا جس (میں موجود پانی) سے وضو فرما رہے تھے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گرد حلقہ ڈال کر کھڑے ہو گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’کیا بات ہے؟صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس پانی نہیں ہے جس سے ہم وضو کریں اور اسے پی سکیں ،صرف وہی پانی ہے جو آپ کے سامنے موجود ہے۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دست مبارک اس تھیلے میں رکھ دیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح جوش مارنے لگا،پھر ہم نے پانی پیا اور وضو بھی کیا۔ حضرت سالم بن ابی جعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا:آپ اس وقت کل کتنے آدمی تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کفایت کر جاتا لیکن ہم اس وقت صرف 1500 تھے۔(بخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۳-۴۹۴، الحدیث: ۳۵۷۶)
انسانوں کے علاوہ حیوانات نے بھی اپنی تکالیف عرض کیں تو حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی تکالیف دور فرمائیں اور جمادات نے بھی اپنی مرادیں عرض کیں توسرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی مرادیں بھی پوری فرمائیں جیساکہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد، ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
ہاں اِسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں
{ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا:کھاؤ اور پیو۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم سے فرمایا گیا کہ آسمانی طعام مَن و سَلْوٰی کھاؤاور اس پتھر کے چشموں کا پانی پیو جو تمہیں فضل الہٰی سے بغیر محنت کے میسر ہے اوراس بات کا خیال رکھو کہ فتنہ و فساد سے بچو اور گناہوں میں نہ پڑو۔ ہر امت کو یہی حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ لیکن فساد نہ پھیلاؤ۔ یعنی رزق کے استعمال سے منع نہیں فرمایا بلکہ حرام کمانے، حرام کھانے، کھاکر خدا کی ناشکری و نافرمانی سے منع کیا گیا ہے۔
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِ جْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآىٕهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَاؕ-قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌؕ-اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْؕ-وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُۗ-وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِؕ- ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(61)
ترجمہ:
اور جب تم نے کہا :اے موسیٰ! ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کرسکتے۔ لہٰذا آپ اپنے رب سے دعاکیجئے کہ ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے جیسے ساگ اور ککڑی اور گندم اور مسور کی دال اور پیاز۔ فرمایا: کیا تم بہتر چیز کے بدلے میں گھٹیا چیزیں مانگتے ہو۔ (اچھا پھر ) ملک ِمصریا کسی شہر میں قیام کرو، وہاں تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم نے مانگا ہے اور ان پر ذلت اور غربت مسلط کردی گئی اوروہ خدا کے غضب کے مستحق ہوگئے۔ یہ ذلت و غربت اس وجہ سے تھی کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے تھے۔ (اور)یہ اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ مسلسل سرکشی کررہے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ:ہم ایک کھانے پر ہرگز صبر نہیں کریں گے۔} بعض لوگوں کی طبیعت میں کم ہمتی، نالائقی اور نیچ پن ہوتا ہے ۔ آپ انہیں پکڑ کر بھی اوپر کرنا چاہیں تو وہ کم تر اور نیچے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما زندگی کی لذتوں اور نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ بلند ہمت اور بہتر سے بہتر کے طالب ہی خالق و مخلوق کے ہاں پسندیدہ ہوتے ہیں۔بنی اسرائیل پر نعمتوں کے ذکر کے بعد یہاں سے ان کی کم ہمتی اور نالائقی ونافرمانی کے کچھ واقعات بیان فرمائے جاتے ہیں۔ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے: بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، آپ دعا کریں کہ ہمیں زمین کی ترکاریاں اور دالیں وغیرہ ملیں۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں سمجھایا کہ تمہیں اتنا اچھا کھانا بغیر محنت کے مل رہا ہے ، کیا اس کی جگہ ادنیٰ قسم کا کھانا لینا چاہتے ہو؟ لیکن جب وہ نہ مانے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ اِس پر حکم ہوا کہ اے بنی اسرائیل!اگر تمہارایہی مطالبہ ہے تو پھر مصرجاؤ وہاں تمہیں وہ چیزیں ملیں گی جن کا تم مطالبہ کررہے ہو۔ مصر سے مراد یا توملک ِمصر یا مطلقا کوئی بھی شہرہے۔
بڑوں سے نسبت رکھنے والے کو کیا کرنا چاہئے:
یہاں اس بات کا خیال رکھیں کہ ساگ ککڑی وغیرہ جو چیزیں بنی اسرائیل نے مانگیں ان کا مطالبہ گناہ نہ تھا لیکن ’’ مَن وسلوٰی‘‘ جیسی نعمت بے محنت چھوڑ کر ان کی طرف مائل ہونا پست خیالی ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کا میلانِ طبع پستی ہی کی طرف رہا اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایسے جلیل القدر، بلند ہمت انبیاء کے بعد توبنی اسرائیل کے نیچ پن اور کم حوصلگی کا پورا ظہور ہوا۔ جب بڑوں سے نسبت ہو تو دل و دماغ اور سوچ بھی بڑی بنانی چاہئے اور مسلمانوں کو تو بنی اسرائیل سے زیادہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی نسبت سب سے بڑی ہے۔
{ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ:ان پر ذلت و غربت مسلط کردی گئی۔} یعنی یہودیوں پر ان کے گھٹیا کردار کی وجہ سے ذلت و غربت مسلط کردی گئی۔ ان پر غضب ِ الٰہی کی صورت یہ ہوئی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صلحاء کی بدولت جورتبے انہیں حاصل ہوئے تھے وہ ان سے محروم ہوگئے، اس غضب کا باعث صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے آسمانی غذاؤں کے بدلے زمینی پیداوار کی خواہش کی یا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں اُسی طرح کی اور خطائیں کیں بلکہ عہدِ نبوت سے دور ہونے اور زمانہ دراز گزرنے سے ان کی دینی صلاحیتیں باطل ہوگئیں ، اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کا راستہ اختیار کیا، انہوں نے حضرت زکریا، حضرت یحیٰ اور حضرت شعیاعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا اور ایسا ناحق قتل کیا کہ اس کی وجہ خود یہ قاتل بھی نہیں بتاسکتے، انہوں نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ الغرض ان کے عظیم جرائم اور قبیح ترین افعال کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی، ان پر ذلت و غربت مسلط کی گئی اور وہ غضب ِ الٰہی کے مستحق ہوئے۔
بنی اسرائیل کی ذلت و غربت سے مسلمان بھی نصیحت حاصل کریں :
بنی اسرائیل بلند مراتب پر فائز ہونے کے بعد جن وجوہات کی بنا پر ذلت و غربت کی گہری کھائی میں گرے، کاش ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے عبرت اور نصیحت کے لئے ایک مرتبہ مسلمان بھی اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لے لیں اور اپنے ماضی و حال کا مشاہدہ کریں کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے احکامات کی پیروی کو اپنا سب سے اہم مقصد بنائے رکھا اور ا س راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو جڑ سے اکھاڑ کر چھوڑا تب تک دنیا کے کونے کونے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا اور جب سے انہوں نے اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکامات سے نافرمانی اور سرکشی والا راستہ اختیار کیا تب سے دنیا بھر میں جو ذلت و رسوائی مسلمانوں کی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِـٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(62)وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ایمان والوں نیزیہودیوں اورعیسائیوں اور ستاروں کی پوجا کرنے والوں میں سے جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہار ے سروں پر طورپہاڑ کو معلق کردیا(اور کہا کہ) مضبوطی سے تھامو اس (کتاب) کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے یاد کرواس امید پر کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا۔}اس آیت میں یہودیوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ توریت کومانیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن پھر انہوں نے اس کے احکام کوبوجھ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیاحالانکہ انہوں نے خود بڑی التجاء کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی آسمانی کتاب کی درخواست کی تھی جس میں قوانینِ شریعت اور آئینِ عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا اور جب وہ کتاب عطا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عہد پورا نہ کیا ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق کردیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم یاتو عہد قبول کرلو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔‘‘ اس میں صورۃً عہد پورا کرنے پر مجبور کرنا پایا جارہا ہے لیکن درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی قوی دلیل ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔
یاد رہے کہ دین قبول کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا البتہ دین قبول کرنے کے بعد اس کے احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی کو اپنے ملک میں آنے پر حکومت مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی ملک میں آجائے تو حکومت اسے قانون پر عمل کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔
احکامِ قرآن پر عمل کی ترغیب:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بِالتَّرتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو وہ اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق محل تعمیر نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے ،تو جب بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے بادشاہ کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۱۵۵، ملخصاً)
یہی بات امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی متعدد جگہ ارشاد فرمائی ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِـٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(62)وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(63)
ترجمہ:
بیشک ایمان والوں نیزیہودیوں اورعیسائیوں اور ستاروں کی پوجا کرنے والوں میں سے جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہار ے سروں پر طورپہاڑ کو معلق کردیا(اور کہا کہ) مضبوطی سے تھامو اس (کتاب) کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے اسے یاد کرواس امید پر کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کروجب ہم نے تم سے عہد لیا۔}اس آیت میں یہودیوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ وہ توریت کومانیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن پھر انہوں نے اس کے احکام کوبوجھ سمجھ کر قبول کرنے سے انکار کردیاحالانکہ انہوں نے خود بڑی التجاء کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی آسمانی کتاب کی درخواست کی تھی جس میں قوانینِ شریعت اور آئینِ عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا اور جب وہ کتاب عطا ہوئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عہد پورا نہ کیا ۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑا تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلق کردیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا :تم یاتو عہد قبول کرلو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔‘‘ اس میں صورۃً عہد پورا کرنے پر مجبور کرنا پایا جارہا ہے لیکن درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی قوی دلیل ہے جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔
یاد رہے کہ دین قبول کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا البتہ دین قبول کرنے کے بعد اس کے احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی کو اپنے ملک میں آنے پر حکومت مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی ملک میں آجائے تو حکومت اسے قانون پر عمل کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔
احکامِ قرآن پر عمل کی ترغیب:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ کی کتابوں سے مقصود ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا ہے نہ فقط زبان سے بِالتَّرتیب ان کی تلاوت کرنا۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کے کسی حکمران کی طرف کوئی خط بھیجے اور اس میں حکم دے کہ فلاں فلاں شہر میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کر دیا جائے اور جب وہ خط اس حکمران تک پہنچے تو وہ اس میں دئیے گئے حکم کے مطابق محل تعمیر نہ کرے البتہ اس خط کو روزانہ پڑھتا رہے ،تو جب بادشاہ وہاں پہنچے گا اور محل نہ پائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ حکمران عتاب بلکہ سزا کا مستحق ہو گا کیونکہ اس نے بادشاہ کا حکم پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا تو قرآن بھی اسی خط کی طرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ دین کے ارکان جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی تعمیر کریں اور بندے فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کریں تو ان کا فقط قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۱۵۵، ملخصاً)
یہی بات امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی متعدد جگہ ارشاد فرمائی ہے۔
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَۚ-فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کے بعد پھر تم نے روگردانی اختیار کی تو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَضْلُ اللّٰهِ: اللہ کا فضل۔}یہاں فضل و رحمت سے یا تو توبہ کی توفیق مراد ہے کہ انہیں توبہ کی توفیق مل گئی اور یا عذاب کومؤخر کرنا مراد ہے یعنی بنی اسرائیل پر عذاب نازل نہ ہوا بلکہ انہیں مزید مہلت دی گئی۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۵۶)
ایک قول یہ ہے کہ فضل ِ الٰہی اور رحمت ِحق سے حضور سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ذات پاک مراد ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں خاتم المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجود کی دولت نہ ملتی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہدایت نصیب نہ ہوتی تو تمہارا انجام ہلاک و خسران ہوتا۔(بیضاوی، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۳۳۶، روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۱ / ۳۸۲، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہیں اور رحمت بھی ہیں۔
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـٕیْنَ(65)
ترجمہ:
اور یقیناً تمہیں معلوم ہیں وہ لوگ جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں سرکشی کی۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ اعْتَدَوْا:جنہوں نے سرکشی کی۔} شہر اَیْلَہ میں بنی اسرائیل آباد تھے انہیں حکم تھا کہ ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کردیں اوراس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کردیں۔ ان کے ایک گروہ نے یہ چال چلی کہ وہ جمعہ کے دن شام کے وقت دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودتے اور ہفتہ کے دن ان گڑھوں تک نالیاں بناتے جن کے ذریعہ پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہوجاتیں اور اتوار کے دن انہیں نکالتے اور کہتے کہ ہم مچھلی کو پانی سے ہفتے کے دن تو نہیں نکالتے، یہ کہہ کر وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتے۔ چالیس یا ستر سال تک ان کا یہی عمل رہا اور جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کازمانہ آیا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں اس سے منع کیااور فرمایا کہ قید کرنا ہی شکار ہے جو تم ہفتے ہی کو کر رہے ہو۔ جب وہ باز نہ آئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان پر لعنت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کردیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ نوجوان بندروں کی شکل میں اور بوڑھے خنزیروں کی شکل میں مسخ ہوگئے، ان کی عقل اور حواس تو باقی رہے مگر قوت گویائی زائل ہوگئی اور بدنوں سے بدبو نکلنے لگی، وہ اپنے اس حال پر روتے رہے یہاں تک کہ تین دن میں سب ہلاک ہوگئے، ان کی نسل باقی نہ رہی اور یہ لوگ ستر ہزار کے قریب تھے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۱ / ۱۵۶-۱۵۷، تفسیر عزیزی (مترجم)، ۲ / ۴۹۲-۴۹۴، ملتقطاً)
اس واقعہ کی مزید تفصیل سورۂ اعراف کی آیت 163تا 166 میں آئے گی۔
حیلہ کرنے کا حکم:
یاد رہے کہ حکم ِشرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا اور حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ(66)
ترجمہ:
تو ہم نے یہ واقعہ اس وقت کے لوگوں اور ان کے بعد والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت بنادیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{نَكَالًا: عبرت۔ }اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں عذاب کے واقعات ہماری عبرت و نصیحت کیلئے بیان کئے گئے ہیں لہٰذا قرآن پاک کے حقوق میں سے ہے کہ اس طرح کے واقعات و آیات پڑھ کر اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کی جائے۔
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًاؕ-قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(67)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌؕ-عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ-فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ(68)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُۙ-فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ(69)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَۙ-اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَاؕ-وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ(70)
ترجمہ:
اوریاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ نے فرمایا، ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ توبوڑھی ہے اور نہ بالکل کم عمربلکہ ان دونوں کے درمیان درمیان ہو۔ تو وہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے، اس گائے کا رنگ کیا ہے؟ فرمایاکہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ پیلے رنگ کی گائے ہے جس کا رنگ بہت گہرا ہے۔ وہ گائے دیکھنے والوں کو خوشی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے واضح طور پر بیان کردے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کیونکہ بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگراللہ چاہے گا تو یقینا ہم راہ پالیں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى: اور جب موسیٰ نے فرمایا۔}ان آیات میں یہودیوں کو جو واقعہ یاد دلایا جا رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص عامیل کو اس کے عزیز نے خفیہ طور پر قتل کر کے دوسرے محلہ میں ڈال دیا تا کہ اس کی میراث بھی لے اور خون بہا بھی اور پھر دعویٰ کر دیا کہ مجھے خون بہا دلوایا جائے۔ قاتل کا پتہ نہ چلتا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت حال ظاہر فرمائے، اس پر حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کا کوئی حصہ مقتول کے ماریں ، وہ زندہ ہو کر قاتل کے بارے میں بتادے گا۔ لوگوں نے حیرانی سے کہا کہ کیا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہم سے مذاق کررہے ہیں کیونکہ مقتول کا حال معلوم ہونے اور گائے کے ذبح کرنے میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا، ’’میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں مذاق کر کے جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔ جب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ گائے کا ذبح کرنا مذاق نہیں بلکہ باقاعدہ حکم ہے تو انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کے اوصاف دریافت کیے اور بار بار سوال کرکے وہ لوگ قیدیں بڑھاتے گئے اور بالآخر یہ حکم ہوا کہ ایسی گائے ذبح کرو جو نہ بوڑھی ہو اور نہ بہت کم عمر بلکہ درمیانی عمر کی ہو، بدن پر کوئی داغ نہ ہو، ایک ہی رنگ کی ہو، رنگ آنکھوں کو بھانے والا ہو، اس گائے نے کبھی کھیتی باڑی کی ہو نہ کبھی کھیتی کو پانی دیا ہو۔ آخری سوال میں انہوں نے کہا کہ اب ہم ان شآء اللہ راہ پالیں گے۔ بہر حال جب سب کچھ طے ہوگیا تو ان کی تسلی ہوگئی پھر انہوں نے گائے کی تلاش شروع کر دی۔
ان کے اطراف میں ایسی صرف ایک گائے تھی، اس کا حال یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح شخص تھے ان کا ایک چھوٹا بچہ تھا اور ان کے پاس ایک گائے کے بچے کے علاوہ اور کچھ نہ رہا تھا، انہوں نے اس کی گردن پر مہر لگا کر اللہ تعالیٰ کے نام پر چھوڑ دیا اور بارگاہِ حق میں عرض کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ میں اس بچھیا کو اس فرزند کے لیے تیرے پاس ودیعت رکھتا ہوں تاکہ جب یہ فرزند بڑا ہو تویہ اس کے کام آئے۔ اس نیک شخص کا تو انتقال ہوگیا لیکن وہ بچھیا جنگل میں اللہ تعالیٰ کی حفا ظت میں پرورش پاتی رہی، یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو صالح ومتقی بنا اور ماں کا فرمانبردار تھا۔ ایک دن اس کی والدہ نے کہا: اے نورِ نظر! تیرے باپ نے تیرے لئے فلاں جنگل میں خدا کے نام ایک بچھیا چھوڑی تھی وہ اب جوان ہوگئی ہوگی، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تجھے عطا فرمائے اورتو اسے جنگل سے لے آ۔ لڑکا جنگل میں گیا اور اس نے گائے کو جنگل میں دیکھا اوروالدہ کی بتائی ہوئی علامتیں اس میں پائیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر بلایا تووہ حاضر ہوگئی۔ وہ جوان اس گائے کو والدہ کی خدمت میں لایا۔ والدہ نے بازار میں لے جا کر تین دینار پر فروخت کرنےکا حکم دیا اور یہ شرط کی کہ سودا ہونے پر پھر اس کی اجازت حاصل کی جائے، اس زمانہ میں گائے کی قیمت ان اطراف میں تین دینار ہی تھی۔ جوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگادی مگر یہ شرط رکھی کہ جوان اپنی والدہ سے اجازت نہیں لے گا۔ جوان نے یہ منظور نہ کیا اور والدہ سے تمام قصہ کہا، اس کی والدہ نے چھ دینار قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر بیچنے میں پھر دوبارہ اپنی مرضی دریافت کرنے کی شرط لگادی۔ جوان پھر بازار میں آیا، اس مرتبہ فرشتہ نے بارہ دینار قیمت لگائی اور کہا کہ والدہ کی اجازت پر موقوف نہ رکھو۔ جو ان نے نہ مانا اور والدہ کو اطلاع دی وہ صاحب فراست عورت سمجھ گئی کہ یہ خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لیے آتا ہے۔ بیٹے سے کہا کہ اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ آپ ہمیں اس گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں ؟ لڑکے نے یہی کہا توفرشتے نے جواب دیا کہ ابھی اس کو روکے رہو، جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا کہ اس کی کھال میں سونا بھر دیا جائے۔ جوان گائے کو گھر لایا اور جب بنی اسرائیل جستجو کرتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے تو یہی قیمت طے کی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کی۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱ / ۶۰-۶۱)
گائے ذبح کرنے والے واقعہ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس واقعہ سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :
(1)… نبی کے فرمان پر بغیر ہچکچاہٹ عمل کرنا چاہیے اور عمل کرنے کی بجائے عقلی ڈھکوسلے بنانا بے ادبوں کا کام ہے۔
(2)… پیغمبر جھوٹ، دل لگی اورکسی کا مذاق اڑانا وغیرہ عیبوں سے پاک ہیں البتہ خوش طبعی ایک محمود صفت ہے یہ ان میں پائی جا سکتی ہے۔
(3)… شرعی احکامات سے متعلق بے جا بحث مشقت کا سبب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل بحث نہ نکالتے تو جو گائے ذبح کردیتے وہی کافی ہوجاتی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۱ / ۱۸۹)
(4)…اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی بہت برکت ہے۔ حضورپرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر بنی اسرائیل وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے۔ (کشف الخفاء، حرف الشین المعجمۃ، ۲ / ۷، رقم: ۱۵۲۸)
(5)… جو اپنے عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے اللہ تعالیٰ اس کی عمدہ پرورش فرماتا ہے۔
(6)… جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کی امانت میں دے اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے۔
(7)… والدین کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
(8)… ماں باپ کی خدمت و اطاعت کرنے والوں کو دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔
قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَۚ-مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَاؕ-قَالُوا الْــٴٰـنَ جِئْتَ بِالْحَقِّؕ-فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ(71)
ترجمہ:
۔(موسٰی نے) فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جس سے یہ خدمت نہیں لی جاتی کہ وہ زمین میں ہل چلائے اور نہ وہ کھیتی کو پانی دیتی ہے۔ بالکل بے عیب ہے، اس میں کوئی داغ نہیں۔ (یہ سن کر) انہوں نے کہا: اب آپ بالکل صحیح بات لائے ہیں۔ پھر انہوں نے اس گائے کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَ: اور وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔} بنی اسرائیل کے مسلسل سوالات اور اپنی رسوائی کے اندیشہ اور گائے کی گرانی قیمت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ذبح کرنے کا قصد نہیں رکھتے مگر جب ان کے سوالات شافی جوابوں سے ختم کردیئے گئے تو انہیں ذبح کرنا ہی پڑا۔
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَاؕ-وَ اللّٰهُ مُخْرِ جٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(72)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا پھر اس کا الزام کسی دوسرے پر ڈالنے لگے حالانکہ اللہ ظاہر کرنے والا تھااس کو جسے تم چھپا رہے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَتَلْتُمْ: اورجب تم نے قتل کیا۔} یہاں اسی پہلے قتل کا بیان ہے جس کا اوپر واقعہ
گزرا۔
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَاؕ-كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰىۙ-وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(73)
ترجمہ:
تو ہم نے فرمایا (کہ) اس مقتول کو اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو۔ اسی طرح اللہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَقُلْنَا: تو ہم نے فرمایا۔ } بنی اسرائیل نے گائے ذبح کرکے اس کے کسی عضو سے مردہ کو مارا وہ بحکمِ الہٰی زندہ ہوگیا، اس کے حلق سے خون کا فوارہ جاری تھا، اس نے اپنے چچازاد بھائی کے بارے میں بتایا کہ اس نے مجھے قتل کیا اب اس کو بھی اقرار کرنا پڑا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس پر قصاص کا حکم فرمایا۔ اس آیت ِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مردے کو زندہ کرنے کے اس واقعے سے قیامت کے دن اٹھائے جانے پر دلیل قائم کی کہ تم سمجھ لو کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اس مردے کو زندہ کیا اسی طرح وہ قیامت کے دن بھی مردوں کو زندہ فرمائے گا کیونکہ وہ مردے زندہ کرنے پر قادر ہے اور روز ِجزا مردوں کو زندہ کرنا اور حساب لینا حق ہے۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةًؕ-وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُ جُ مِنْهُ الْمَآءُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(74)
ترجمہ: پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ جب پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے ہرگز بے خبر نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ: پھر تمہارے دل سخت ہوگئے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اپنے آباؤ اجداد کے عبرت انگیز واقعات سننے کے بعد تمہارے دل حق بات کو قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوگئے اور وہ شدت و سختی میں پتھروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ پتھر بھی اثر قبول کرتے ہیں کہ کچھ پتھروں سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ جب پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اوپر سے نیچے گر پڑتے ہیں جبکہ تمہارے دل اطاعت کے لئے جھکتے ہیں نہ نرم ہوتے ہیں ، نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی وہ کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے ہرگز بے خبر نہیں بلکہ وہ تمہیں ایک خاص وقت تک کے لئے مہلت دے رہا ہے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۱ / ۱۶۳-۱۶۴، جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۱۲، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ مراد ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں موجود تھے، ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ بڑی بڑی نشانیاں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر بھی انہوں نے عبرت حاصل نہ کی، ان کے دل پتھروں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھر بھی اثر قبول کرتے ہیں کہ ان میں کسی سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں ، کوئی پتھرپھٹ جاتا ہے تو اس سے پانی بہتا ہے اور کوئی خوف ِ الہٰی سے گرجاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے لیکن انسان جسے بے پناہ اِدراک و شعور دیا گیا ہے، حواس قوی ہیں ، عقل کامل ہے، دلائل ظاہر ہیں ، عبرت و نصیحت کے مواقع موجود ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کی طرف نہیں آتا۔
دل کی سختی کا انجام:
اس سے معلوم ہو اکہ دل کی سختی بہت خطرناک ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
’’اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘(زمر: ۲۲)
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)
ترجمہ:
تو اے مسلمانو!کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ تمہاری وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا کہ وہ اللہ کا کلام سنتے تھے اور پھراسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَتَطْمَعُوْنَ: کیا تمہیں یہ امید ہے۔} انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت بدل ڈالی، توایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳-۴، الجزء الثانی، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
عالم کابگڑنا زیادہ تباہ کن ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیداہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ائمہ دین فرماتے ہیں :’’ اے گروہ علماء! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے( تو) عوام مکروہات پرگریں گے، اگرتم مکروہ کروگے( تو) عوام حرام میں پڑیں گے، اگرتم حرام کے مرتکب ہوگے(تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’بھائیو! لِلّٰہِ اپنے اوپررحم کرو، اپنے اوپررحم نہ کرو( تو) اُمت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررحم کرو، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو۔(فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۱۳۲-۱۳۳)
ترجمۂ کنزالعرفان: تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے) تو خرابی ہے ان کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل سخت ہو۔(ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)
دل کی سختی سے متعلق مزید کلام سورۂ حدید کی آیت نمبر16،17کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)
ترجمہ:
تو اے مسلمانو!کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ تمہاری وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا کہ وہ اللہ کا کلام سنتے تھے اور پھراسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَتَطْمَعُوْنَ: کیا تمہیں یہ امید ہے۔} انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت بدل ڈالی، توایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳-۴، الجزء الثانی، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
عالم کابگڑنا زیادہ تباہ کن ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیداہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ائمہ دین فرماتے ہیں :’’ اے گروہ علماء! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے( تو) عوام مکروہات پرگریں گے، اگرتم مکروہ کروگے( تو) عوام حرام میں پڑیں گے، اگرتم حرام کے مرتکب ہوگے(تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’بھائیو! لِلّٰہِ اپنے اوپررحم کرو، اپنے اوپررحم نہ کرو( تو) اُمت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررحم کرو، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو۔(فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۱۳۲-۱۳۳)
اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا ۚۖ-وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(76)اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(77)
ترجمہ:
اور جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب آپس میں اکیلے ہوتے ہیں توکہتے ہیں : کیا ان کے سامنے وہ علم بیان کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے او پر کھولا ہے؟ تاکہ اس کے ذریعے یہ تمہارے رب کی بارگاہ میں تمہارے اوپر حجت قائم کریں ۔کیا تمہیں عقل نہیں ؟۔ کیا یہ اتنی بات نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا لَقُوْا: اور جب وہ ملتے ہیں۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :یہودی منافق جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملتے تو ان سے کہتے کہ جس پر تم ایمان لائے اس پر ہم بھی ایمان لائے، تم حق پر ہو اور تمہارے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سچے ہیں ، ان کا قول حق ہے، ہم ان کی نعت و صفت اپنی کتاب توریت میں پاتے ہیں۔ جب یہ اپنے سرداروں کے پاس جاتے تو وہ ان منافقوں کو ملامت کرتے ہوئے کہتے:کیا تم مسلمانوں کے سامنے ان کے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری کتاب میں بیان فرمائی ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت میں تمہارے اوپر حجت قائم کر دیں کہ جب ہمارے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا نبی برحق ہونا تمہاری کتابوں میں موجود ہے تو تم نے ان کی پیروی کیوں نہ کی؟ کیا تمہیں عقل نہیں کہ تمہیں یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۱ / ۶۵)
اس سے معلوم ہوا کہ حق پوشی اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف کو چھپانا اوران کے کمالات کا انکار کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے۔
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(78)
ترجمہ:
اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اوریہ صرف خیال و گمان میں پڑے ہوئے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اُمِّیُّوْنَ: ان پڑھ۔} یہاں سے یہودیوں کے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے، فرمایا گیا کہ اب یہودیوں کے دوسرے گروہ کی سنئے کہ ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں جو کتاب یعنی تورات کو خو د تو نہیں جانتے بلکہ اپنے مفاد پرست سرداروں کے بیانات پر ہی الٹے سیدھے خیال و گمان میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کی تو بخشش ہو ہی جائے گی۔ یہ انہی من گھڑت خیالات میں خوش ہیں۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْۗ-ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ(79)
ترجمہ:
تو بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں : یہ خداکی طرف سے ہے کہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں توان لوگوں کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے کی وجہ سے ہلاکت ہے اور ان کے لئے ان کی کمائی کی وجہ سے تباہی و بربادی ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَیْلٌ: تو بربادی ہے۔ }جب سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو علماء توریت اورسردارانِ یہود کو قوی اندیشہ ہوگیا کہ ان کی روزی جاتی رہے گی اور سرداری مٹ جائے گی کیونکہ توریت میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حلیہ اور اوصاف مذکور ہیں ، جب لوگ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے مطابق پائیں گے توفوراً ایمان لے آئیں گے اور اپنے علماء اور سرداروں کو چھوڑ دیں گے، اس اندیشہ سے انہوں نے توریت میں تحریف و تغییر کر ڈالی اور حلیہ شریف بدل دیا۔ مثلاً توریت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف یہ لکھے تھے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خوب صورت ہیں ، بال خوب صورت، آنکھیں سرمگیں ، قد درمیانہ ہے۔ اس کو مٹا کر انہوں نے یہ بتایا کہ وہ بہت دراز قد ہیں ، آنکھیں کُنجی نیلی، بال الجھے ہوئے ہیں۔ یہی عوام کو سناتے یہی کتاب الٰہی کا مضمون بتاتے اور سمجھتے کہ لوگ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس کے خلاف پائیں گے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ ہمارے گرویدہ رہیں گے اور ہماری کمائی میں فرق نہ آئے گا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۱۰۳-۱۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۱ / ۶۶)
اس پر فرمایا گیا کہ بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے تورات میں من گھڑت باتیں لکھتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ یہ بھی خداعَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تحریف صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیں۔ توان لوگوں کے لئے ان کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے کی وجہ سے اور ان کی کمائی کی وجہ سے تباہی و بربادی ہے۔
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةًؕ-قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(80)
ترجمہ:
اور بولے: ہمیں تو آگ ہرگز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چنددن۔ اے حبیب! تم فرمادو: کیا تم نے خدا سے کوئی وعدہ لیا ہوا ہے؟(اگر ایسا ہے، پھر) تو اللہ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ پر وہ بات کہہ رہے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ: ہمیں تو ہرگز آگ نہ چھوئے گی۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہ ہوں گے مگر صرف اتنی مدت کے لیے جتنے عرصے ان کے آباؤ اجداد نے بچھڑے کو پوجا تھا (اس کے بعد وہ عذاب سے چھوٹ جائیں گے) اور وہ مدت چالیس دن ہیں۔ بعض یہودیوں کے نزدیک سات دن ہیں۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۱۰، الجزء الثانی، ابو سعود، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۱ / ۱۴۵، ملتقطاً)
اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، تم ان سے فرمادو کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لیا ہوا ہے کہ وہ تمہیں چند دن کیلئے ہی جہنم میں ڈالے گا؟ اگر ایسا کوئی عہد ہے، پھر تو اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرے گا لیکن ایسا کچھ ہے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہے ہو اور اللہ تعالیٰ تم سے ایسا وعدہ کیوں کرے گا کہ تم جہنم میں زیادہ عرصے کیلئے نہیں رہو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اور اس کے گناہ نے اسے ہر طرح سے گھیر لیا یعنی وہ کفر میں جاپڑا تو وہ جہنم میں جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(81)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(82)
ترجمہ:
کیوں نہیں ، جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کرلیا تو وہی لوگ جہنمی ہیں ، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ: کیوں نہیں ،جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔} اس آیت میں گناہ سے شرک و کفر مراد ہے اور احاطہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ نجات کی تمام راہیں بند ہوجائیں اور کفر و شرک ہی پر اس کو موت آئے کیونکہ مومن خواہ کیسا بھی گنہگار ہو گناہوں سے گھرا نہیں ہوتا اس لیے کہ ایمان جو سب سے بڑی نیکی ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(81)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(82)
ترجمہ:
کیوں نہیں ، جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کرلیا تو وہی لوگ جہنمی ہیں ، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓــٴَـتُهٗ: کیوں نہیں ،جس نے گناہ کمایا اور اس کی خطا نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔} اس آیت میں گناہ سے شرک و کفر مراد ہے اور احاطہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ نجات کی تمام راہیں بند ہوجائیں اور کفر و شرک ہی پر اس کو موت آئے کیونکہ مومن خواہ کیسا بھی گنہگار ہو گناہوں سے گھرا نہیں ہوتا اس لیے کہ ایمان جو سب سے بڑی نیکی ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(83)
ترجمہ: اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو (لیکن)پھر تم میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب پھر گئے اور تم (ویسے ہی اللہ کے احکام سے)منہ موڑنے والے ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا۔} یعنی اے یہودیو!وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے تورات میں یہ عہدلیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو لیکن اسے قبول کرنے کے بعدان میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب ا س عہد سے پھر گئے اور تم بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ موڑنے والے ہو۔(جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۱ / ۸۱-۸۲، ملخصاً)
اس سے معلوم ہو اکہ بنی اسرائیل کی عادت ہی اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کرنا اور اس کے عہد سے پھر جاناہے۔
{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔}اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اُن کیلئے باعث ِ تکلیف ہو اور اپنے بدن اور مال سے ان کی خوب خدمت کرے، ان سے محبت کرے، ان کے پاس اٹھنے بیٹھنے، ان سے گفتگو کرنے اور دیگر تمام کاموں میں ان کا ادب کرے، ان کی خدمت کیلئے اپنا مال انہیں خوش دلی سے پیش کرے، اور جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کیلئے ایصالِ ثواب کرے، ان کی جائز وصیتوں کو پورا کرے، ان کے اچھے تعلقات کو قائم رکھے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور صحیح عقائد کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہے۔(تفسیر خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۱ / ۶۶، تفسیر عزیزی (مترجم)، ۲ / ۵۵۷-۵۵۸، ملتقطاً)
حقوقِ والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 24 ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کا رسالہ ’’اَلْحُقُوقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ(والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق)‘‘ کامطالعہ فرمائیں۔[1]
{وَ ذِی الْقُرْبٰى: اور رشتے داروں سے۔}حقوق العباد میں سب سے مقدم ماں باپ کا حق ہے پھر دوسرے رشتے داروں کا اورپھر غیروں کا۔ غیروں میں بے کس یتیم سب سے مقدم ہے پھر دوسرے مساکین۔
اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت:
اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوقُ اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا تم جانتے ہو کہ مُفلِس کون ہے؟صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازو سامان نہ ہو۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور ا س کا حال یہ ہو کہ ا س نے(دنیا میں ) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو اِن میں سے ہر ایک کو اُس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اُن کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر ا س کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو اُن کے گناہ اِس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔[2](مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹ (۲۵۸۱))
{وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا: اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔} اچھی بات سے مراد نیکی کی دعوت اور برائیوں سے روکنا ہے۔ نیکی کی دعوت میں اس کے تمام طریقے داخل ہیں ، جیسے بیان کرنا، درس دینا، وعظ و نصیحت کرناوغیرہ ۔ نیز اچھی بات کہنے میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان، اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مقام ومرتبہ کا بیان اور نیکیوں اور برائیوں کے متعلق سمجھانا سب شامل ہیں۔ [3]
{اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ: مگر تم میں سے تھوڑے۔}بنی اسرائیل کی اکثریت اللہ تعالیٰ سے عہدو پیمان کرنے کے بعد اپنے عہد سے پھر گئی اور گناہوں کے راستے پر چل پڑی، البتہ کچھ لوگ صحیح راستے پر ثابت قدم رہے اور اسی گروہ والے ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا زمانہ پا کر ایمان لے آئے۔
بنی اسرائیل کی بد عہدی کو سامنے رکھ کرمسلمان بھی اپنی حالت پر غور کریں :
اس آیت میں بنی اسرائیل کی جو حالت بیان کی گئی افسوس کہ فی زمانہ مسلمانوں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کاش کہ ہم بھی غور کریں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کلمہ پڑھ کر ہم نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، اطاعت ِ الہٰی، اطاعت ِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، حقوقُ اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی پابندی کا جو عہد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا ہے کیا ہم بھی اسے پورا کرتے ہیں یا نہیں ؟
[1] ۔۔نیز امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ،، سمندری گنبد،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پڑھنا بھی بہت مفید ہے۔
[2] ۔۔امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم الْعَالیہ کا اس موضوع پر رسالہ،، ظلم کا انجام،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
[3]۔۔نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے ،، دعوتِ اسلامی،، کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ(84)ترجمہ: کنزالعرفاناور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کسی کا خون نہ بہانا اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار بھی کرلیا اور تم (خوداس کے) گواہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا۔} یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے آباؤ اجداد سے تورات میں یہ عہد لیا کہ تم آپس میں کسی کا خون نہ بہانا اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا ،پھر انہوں نے ا س عہدکا اقرار کرلیا اور تم خود بھی اپنے آباؤاجداد کے اس اقرارکے گواہ ہو۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱ / ۱۷۴)
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ(84)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کسی کا خون نہ بہانا اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا پھر تم نے اقرار بھی کرلیا اور تم (خوداس کے) گواہ ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا۔} یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے آباؤ اجداد سے تورات میں یہ عہد لیا کہ تم آپس میں کسی کا خون نہ بہانا اور اپنے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالنا ،پھر انہوں نے ا س عہدکا اقرار کرلیا اور تم خود بھی اپنے آباؤاجداد کے اس اقرارکے گواہ ہو۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۱ / ۱۷۴)
ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ تُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْكُمْ مِّنْ دِیَارِهِمْ٘-تَظٰهَرُوْنَ عَلَیْهِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِؕ-وَ اِنْ یَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْهُمْ وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْكُمْ اِخْرَاجُهُمْؕ-اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(85)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ٘-فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(86)
ترجمہ: پھر یہ تم ہی ہو جو اپنے لوگوں کو قتل (بھی) کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے (بھی) نکالنے لگے، تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے کاموں میں مدد (بھی) کرتے ہواور اگر وہی قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو تم معاوضہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو حالانکہ تمہارے اوپر تو ان کا نکالنا ہی حرام ہے۔ تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لی تو ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ:پھر یہ جو تم ہو۔}اس آیت میں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود یہودیوں کے عجیب و غریب طرزِ عمل کا بیان ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ تورات میں بنی اسرائیل کو تین حکم دیئے گئے تھے: (۱)ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔ (۲)ایک دوسرے کو جلا وطن نہ کرنا۔ (۳)اگر وہ اپنی قوم کے کسی مرد یا عورت کو اس حال میں پائیں کہ اسے غلام یا لونڈی بنا لیا گیا ہے تو ا سے خرید کر آزاد کر دیں۔ نسل در نسل یہ عہد چلتا رہا یہاں تک کہ مدینہ منورہ کے گردو نواح میں آباد یہودیوں کے دو قبائل بنی قُرَیْظَہ اور بنی نَضِیْر میں منتقل ہوا، اس وقت مدینہ شریف میں مشرکوں کے دو قبیلے اَوْس اور خَزْرَج ْرہتے تھے، بنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کے حلیف تھے اور بنی نَضِیْر خزرج قبیلے کے حلیف تھے اور ہر ایک قبیلہ نے اپنے حلیف کے ساتھ قسم اٹھارکھی تھی کہ اگر ہم میں سے کسی پر کوئی حملہ آور ہو تو دوسرا اس کی مدد کرے گا۔جب اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوتی تو بنی قُرَیْظَہ اوس کی اوربنی نَضِیْر خزرج کی مدد کے لیے آتے تھے اور اپنے حلیف کے ساتھ ہو کر آپس میں ایک دوسرے پر تلوار چلاتے اور بنی قُرَیْظَہ بنی نَضِیْر کو اور وہ بنی قُرَیْظَہ کو قتل کرتے، ان کے گھر ویران کردیتے اور انہیں ان کی رہائش گاہوں سے نکال دیتے تھے، لیکن جب ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے حلیف قید کرلیتے تو وہ ان کو مال دے کر چھڑالیتے تھے، مثلا ً اگر بنی نَضِیْر کا کوئی شخص اوس قبیلے کے ہاتھ میں گرفتار ہوتا توبنی قُرَیْظَہ اوس قبیلے کو مالی معاوضہ دے کر اس کو چھڑا لیتے حالانکہ اگر وہی شخص لڑائی کے وقت ان کے ہاتھ آجاتا تو اسے قتل کرنے میں ہر گز دریغ نہ کرتے تھے۔لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بھی عجیب لوگ ہو کہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو اور فدیہ دے کر چھڑا بھی لیتے ہو۔یہودیوں نے کہا : ہمیں تورات میں یہ حکم دیاگیاہے کہ ہم اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑ الیں ، اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر تم ایک دوسرے کو قتل کیوں کرتےہو حالانکہ تورات میں تمہیں اس چیز سے بھی تو منع کیاگیا ہے۔ یہودیوں نے کہا : جنگ کے دوران ایک دوسرے کو قتل کرنے سے اگرچہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا عہد ٹوٹ جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات سے شرم آتی ہے کہ ہمارے حلیف ذلیل ہوں کیونکہ اگر ہم نے ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن نہ کیا تو اس میں ہمارے حلیفوں کی ذلت ہے اور چونکہ فدیہ دے کر چھڑا لینے میں ان کی ذلت نہیں ہے اس لئے ہم اس عہد کو پورا کر دیتے ہیں۔ یہودیوں کی اس حرکت پر انہیں اس آیت میں ملامت کی جارہی ہے کہ جب تم نے اپنوں کی خونریزی نہ کرنے، ان کو بستیوں سے نہ نکالنے اور ان کے اسیروں کو چھڑانے کا عہد کیا تھا تویہ کیا دو رنگی ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل اور جلاوطن کرنے میں تو ہرگز دریغ نہیں کرتے اور جب کوئی گرفتار ہوجائے تو اسے فدیہ دے کر چھڑالیتے ہو اورجن باتوں کا تم نے عہد کیا تھا ان میں سے کچھ باتوں کو ماننا اور کچھ کو نہ ماننا کیامعنی رکھتا ہے ! جب تم ایک دوسرے کو قتل اور جلا وطن کرنے سے باز نہ رہے تو تم نے عہد شکنی کی اور حرام کے مرتکب ہوئے۔
{اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ: کیا کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو۔} بنی اسرائیل کا عملی ایمان ناقص تھا کہ کچھ حصے پر عمل کرتے تھے اور کچھ پر نہیں اور اس پر فرمایا گیا کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہواور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شریعت کے تمام احکام پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تمام ضروری احکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔کوئی شخص کسی وقت بھی شریعت کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا اورخود کو طریقت کا نام لے کر یا کسی بھی طریقے سے شریعت سے آزاد کہنے والے کافر ہیں۔ اس کی تفصیل جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’مَقَالُ الْعُرَفَاءُ بِاِعْزَازِ شَرْعٍ وَعلماء(علماء اور شریعت کی عظمت پر اہل ِمعرفت کا کلام)‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔یاد رہے کہ عظمت ِ توحیدکو ماننا لیکن عظمت ِ رسالت سے انکار کرنا بھی اسی زُمرے میں آتا ہے کہ کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو۔
{خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا: دنیا کی زندگی میں رسوائی۔} بنی اسرائیل کی دنیا میں تو یہ رسوائی ہوئی کہ بنی قُرَیظَہ 3 ہجری میں مارے گئے اور بنی نَضِیر اس سے پہلے ہی جلا وطن کردیئے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرفداری میں دین کی مخالفت کرنا اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوتاہے۔ دنیا کے بڑے بڑے معاملات کو اِس آیت کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی گناہوں کی شامت سے دنیاوی آفات بھی آجاتی ہیں۔
{وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ: اور اللہ غافل نہیں۔}اس طرح کی آیات جن میں یہ مفہوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ان میں نافرمانوں کے لئے شدید وعیدہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے افعال سے بے خبر نہیں ہے ،تمہاری نافر مانیوں پر شدیدعذاب دے گا۔ یونہی ایسی آیات میں مؤمنین و صالحین کے لئے خوشخبری ہوتی ہے کہ انہیں اعمال حسنہ کی بہترین جزاء ملے گی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۵۹۴، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۱ / ۱۷۵-۱۷۶، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ٘-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ-فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ٘-وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی تو (اے بنی اسرائیل!) کیا (تمہارا یہ معمول نہیں ہے؟ کہ) جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے احکام لے کر تشریف لایا جنہیں تمہارے دل پسند نہیں کرتے تھے تو تم تکبر کرتے تھے پھر ان (انبیاء میں سے) ایک گروہ کو تم جھٹلاتے تھے اور ایک گروہ کو شہید کردیتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: ہم نے موسٰی کو کتاب دی۔}یہاں سے بنی اسرائیل کو دی گئی مزید نعمتیں بیان کی جا رہی ہیں ، اس آیت میں کتاب سے توریت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام عہد مذکور تھے ۔ان میں سب سے اہم عہد یہ تھے کہ ہر زمانہ کے پیغمبروں کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم وتوقیر کرنا جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 21میں مذکور ہے۔
{وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ: اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک متواتر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آتے رہے، ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے، یہ سب حضرات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے محافظ اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے اور چونکہ ہمارے آقا، خاتَمُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد نبوت کسی کو نہیں مل سکتی اس لیے شریعت ِمحمدیہ کی حفاظت و اشاعت کی خدمت علماء ربانی اور مجددین کو عطا ہوئی۔
{وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ: عیسیٰ بن مریم کو ہم نے نشانیاں دیں۔}ان نشانیوں سے مراد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ہیں جیسے مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں اور برص والوں کوصحت دینا، پرندوں کی صورتوں میں جان ڈال دینا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ جیسا کہ سورہ آلِ عمران آیت 49میں ہے۔
{ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: اور پاک روح کے ذریعے ا س کی مدد کی۔}روح القدس سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کہ وہ روحانی ہیں اور ایسی وحی لاتے ہیں جس سے دلوں کو حیات یعنی زندگی ملتی ہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ رہنے کا حکم تھا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر اٹھائے جانے تک حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سفر وحضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے اور حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کی تائید حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعض امتیوں کو بھی روح القدس کی تائید میسر ہوئی چنانچہ بخاری ، ابوداؤد اور معجم کبیر کی حدیث ہے کہ حضرت حسان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے منبر بچھایا جاتا اوروہ نعت شریف پڑھتے۔حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کے لیے دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُس‘‘اے اللہ! روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الشعر فی المسجد، ۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۴۵۳، ابو داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الشعر، ۴ / ۳۹۴-۳۹۵، الحدیث: ۵۰۱۵، معجم الکبیر، ۴ / ۳۷، الحدیث: ۳۵۸۰، واللفظ للمعجم)
غیر خدا کا مدد کرنا شرک نہیں :
اس تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کی مدد شرک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعہ فرمائی اور جب حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مدد کر سکتے ہیں تو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی طاقت و قدرت سے یقینا مدد فرما سکتے ہیں ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں مدد فرمانے کا تو کثیر احادیث میں ذکر ہے، البتہ ہم یہاں 2 ایسے واقعات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وصالِ ظاہری کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر ہو کر فریاد کرنے والوں کی مدد فرمائی۔
(1)… مشہور محدثین امام ابو بکر بن مقری، ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی اور امام ابو شیخ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر بھوک کی فریاد کی تو رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ایک عَلوی کے ذریعے انہیں کھانا بھجوایا اور اس علوی نے کہا:آپ لوگوں نے بارگاہ رسالت میں فریاد کی تھی تو مجھے خواب میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اورحضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں تک کھانا پہنچا دوں۔(وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۸۰، الجزء الرابع)
(2)…ابو قاسم ثابت بن احمد بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر اقدس مدینہ منورہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور کے قریب صبح کی اذان دی اور جب اس نے ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ‘‘ کہا تو یہ سن کر مسجد نبوی کے خادموں میں سے ایک خادم آیا اور اِس نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ وہ شخص رونے لگا اور اس نے فریاد کی: یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی موجودگی میں ا س شخص نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔ (اس کی فریاد جیسے ہی ختم ہوئی ) تو اس خادم پر فالج گرا اور لوگ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے، تین دن بعد وہ خادم مر گیا۔(ابن عساکر، حرف الثاء، ذکر من اسمہ ثابت، ۱۱ / ۱۰۴)
یاد رہے کہ علامہ نور الدین علی بن احمد سمہودی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور کتاب ’’وَفَاء الْوَفَاء بِاَخْبَارِ دَارِ الْمُصْطَفٰی‘‘ کے چوتھے حصے میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا ور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ایسے کئی واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور پر حاضر ہو کر اپنی حاجت بیان کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی حاجت پوری فرما دی اور امام محمد بن موسیٰ بن نعمان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تو اس موضوع پر ’’مِصْبَاحُ الظَّلَامْ فِی الْمُسْتَغِیْثِیْنَ بِخَیْرِ الْاَنَامْ‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
{لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمْ: تمہارے دل پسند نہیں کرتے۔}یہودی لوگ، پیغمبروں کے احکام اپنی خواہشوں کے خلاف پا کر انہیں جھٹلاتے اور موقع پاتے توان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر ڈالتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا، حتّٰی کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھی دَرپے رہے، کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جادو کیا، کبھی زہر دیا اور ان کے علاوہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کیلئے طرح طرح کے فریب کرتے رہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ احکامِ الہٰی پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینا یہودیوں جبکہ حکمِ الہٰی کے سامنے اپنے نفس کو کچل دینا کامل الایمان لوگوں کی نشانی ہے۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ٘-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ-فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ٘-وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ(87)
ترجمہ: اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی تو (اے بنی اسرائیل!) کیا (تمہارا یہ معمول نہیں ہے؟ کہ) جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے احکام لے کر تشریف لایا جنہیں تمہارے دل پسند نہیں کرتے تھے تو تم تکبر کرتے تھے پھر ان (انبیاء میں سے) ایک گروہ کو تم جھٹلاتے تھے اور ایک گروہ کو شہید کردیتے تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: ہم نے موسٰی کو کتاب دی۔}یہاں سے بنی اسرائیل کو دی گئی مزید نعمتیں بیان کی جا رہی ہیں ، اس آیت میں کتاب سے توریت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام عہد مذکور تھے ۔ان میں سب سے اہم عہد یہ تھے کہ ہر زمانہ کے پیغمبروں کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم وتوقیر کرنا جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 21میں مذکور ہے۔
{وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ: اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک متواتر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آتے رہے، ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے، یہ سب حضرات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے محافظ اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے اور چونکہ ہمارے آقا، خاتَمُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد نبوت کسی کو نہیں مل سکتی اس لیے شریعت ِمحمدیہ کی حفاظت و اشاعت کی خدمت علماء ربانی اور مجددین کو عطا ہوئی۔
{وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ: عیسیٰ بن مریم کو ہم نے نشانیاں دیں۔}ان نشانیوں سے مراد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ہیں جیسے مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں اور برص والوں کوصحت دینا، پرندوں کی صورتوں میں جان ڈال دینا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ جیسا کہ سورہ آلِ عمران آیت 49میں ہے۔
{ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: اور پاک روح کے ذریعے ا س کی مدد کی۔}روح القدس سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کہ وہ روحانی ہیں اور ایسی وحی لاتے ہیں جس سے دلوں کو حیات یعنی زندگی ملتی ہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ رہنے کا حکم تھا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر اٹھائے جانے تک حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سفر وحضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے اور حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کی تائید حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعض امتیوں کو بھی روح القدس کی تائید میسر ہوئی چنانچہ بخاری ، ابوداؤد اور معجم کبیر کی حدیث ہے کہ حضرت حسان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے منبر بچھایا جاتا اوروہ نعت شریف پڑھتے۔حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کے لیے دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُس‘‘اے اللہ! روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الشعر فی المسجد، ۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۴۵۳، ابو داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الشعر، ۴ / ۳۹۴-۳۹۵، الحدیث: ۵۰۱۵، معجم الکبیر، ۴ / ۳۷، الحدیث: ۳۵۸۰، واللفظ للمعجم)
غیر خدا کا مدد کرنا شرک نہیں :
اس تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کی مدد شرک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعہ فرمائی اور جب حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مدد کر سکتے ہیں تو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی طاقت و قدرت سے یقینا مدد فرما سکتے ہیں ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں مدد فرمانے کا تو کثیر احادیث میں ذکر ہے، البتہ ہم یہاں 2 ایسے واقعات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وصالِ ظاہری کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر ہو کر فریاد کرنے والوں کی مدد فرمائی۔
(1)… مشہور محدثین امام ابو بکر بن مقری، ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی اور امام ابو شیخ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر بھوک کی فریاد کی تو رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ایک عَلوی کے ذریعے انہیں کھانا بھجوایا اور اس علوی نے کہا:آپ لوگوں نے بارگاہ رسالت میں فریاد کی تھی تو مجھے خواب میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اورحضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں تک کھانا پہنچا دوں۔(وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۸۰، الجزء الرابع)
(2)…ابو قاسم ثابت بن احمد بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر اقدس مدینہ منورہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور کے قریب صبح کی اذان دی اور جب اس نے ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ‘‘ کہا تو یہ سن کر مسجد نبوی کے خادموں میں سے ایک خادم آیا اور اِس نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ وہ شخص رونے لگا اور اس نے فریاد کی: یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی موجودگی میں ا س شخص نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔ (اس کی فریاد جیسے ہی ختم ہوئی ) تو اس خادم پر فالج گرا اور لوگ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے، تین دن بعد وہ خادم مر گیا۔(ابن عساکر، حرف الثاء، ذکر من اسمہ ثابت، ۱۱ / ۱۰۴)
یاد رہے کہ علامہ نور الدین علی بن احمد سمہودی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور کتاب ’’وَفَاء الْوَفَاء بِاَخْبَارِ دَارِ الْمُصْطَفٰی‘‘ کے چوتھے حصے میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا ور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ایسے کئی واقعات بیان فرمائے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور پر حاضر ہو کر اپنی حاجت بیان کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی حاجت پوری فرما دی اور امام محمد بن موسیٰ بن نعمان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تو اس موضوع پر ’’مِصْبَاحُ الظَّلَامْ فِی الْمُسْتَغِیْثِیْنَ بِخَیْرِ الْاَنَامْ‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
{لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمْ: تمہارے دل پسند نہیں کرتے۔}یہودی لوگ، پیغمبروں کے احکام اپنی خواہشوں کے خلاف پا کر انہیں جھٹلاتے اور موقع پاتے توان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر ڈالتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا، حتّٰی کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھی دَرپے رہے، کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جادو کیا، کبھی زہر دیا اور ان کے علاوہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کیلئے طرح طرح کے فریب کرتے رہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ احکامِ الہٰی پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینا یہودیوں جبکہ حکمِ الہٰی کے سامنے اپنے نفس کو کچل دینا کامل الایمان لوگوں کی نشانی ہے۔
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌؕ-بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ(88)
ترجمہ: اور یہودیوں نے کہا: ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی ہے تو ان میں سے تھوڑے لوگ ہی ایمان لاتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ: ہمارے دلوں پر پردے ہیں۔} یہودیوں نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ہدایت ان کے دلوں تک نہیں پہنچتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ یہ جھوٹے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے دلوں کوفطرت پر پیدا فرمایااور ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ یہودیوں کا ایمان نہ لانا ان کے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پہچان لینے کے بعد انکار کیا تواللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی ،اس کا یہ اثر ہے کہ وہ قبولِ حق کی نعمت سے محروم ہوگئے۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۱ / ۱۱۴-۱۱۵)
آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جن کے دلوں پرعظمت ِ رسالت سمجھنے سے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْۙ-وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ٘-فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(89)
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب آئی جو ان کے پاس ( موجود) کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس سے پہلے یہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں کے خلاف فتح مانگتے تھے تو جب ان کے پاس وہ جانا پہچانا نبی تشریف لے آیا تواس کے منکر ہوگئے تو اللہ کی لعنت ہو انکار کرنے والوں پر۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مُصَدِّقٌ: تصدیق کرنے والی۔} قرآن پاک گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے کہ وہ کتابیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ نیز ان کتابوں نے قرآن کے نازل ہونے کی خبر دی تھی، قرآن کے آنے سے وہ خبریں سچی ہوگئیں۔
{مَا عَرَفُوْا: جانا پہچانا نبی۔} شانِ نزول: امام الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور قرآن کریم کے نزول سے پہلے یہودی اپنی حاجات کے لیے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نامِ پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کامیاب ہوتے تھے اور اس طرح دعا کیا کرتے تھے۔’’اَللّٰھُمَّ افْتَحْ عَلَیْنَا وَانْصُرْنَا بِالنَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ یارب! ہمیں نبی امی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما۔ اس آیت میں یہودیوں کو وہ واقعات یاد دلائے جارہے ہیں کہ پہلے تم ان کے نام کے طفیل دعائیں مانگتے تھے، اب جب وہ نبی تشریف لے آئے تو تم ان کے منکر ہوگئے۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۵۹۸-۵۹۹، جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۸۹، ۱ / ۱۱۵، ملتقطاً)
مخلوق کی حاجت روائی کاوسیلہ:
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توسل سے دعائیں مانگی جاتی تھیں اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے پہلے ہی مخلوق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔یہ سلسلہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی جاری رہا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے دعائیں مانگتے تھے بلکہ اپنے وسیلے سے دعا مانگنے کی تعلیم خود حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دی، اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کایہ معمول رہا اورسلف و صالحین کایہ طریقہ تب سے اب تک جاری ہے اور ان شآء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ؎
ئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۚ-فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(90)
ترجمہ:
انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا برا سودا کیا کہ اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کا انکار کررہے ہیں اس حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ: انہوں نے اپنی جانوں کاکتنا برا سودا کیا۔} یہودیوں نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیا اور ایمان کی جگہ کفر خریدنا خسارے کا سوداہے۔ اسی سے ہر آدمی نصیحت حاصل کرے کہ ایمان کی جگہ کفر، نیکیوں کی جگہ گناہ، اطاعت کی جگہ نافرمانی، رضائے الٰہی کی جگہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا سودا بہت خسارے کا سودا ہے۔
{بَغْیًا:حسد کی وجہ سے۔} یہودیوں کی خواہش تھی ختمِ نبوت کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس منصب سے محروم رہے اوربنی اسماعیل کو یہ منصب مل گیا تو وہ حسد کی وجہ سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے منکر ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ منصب و مرتبے کی طلب انسان کے دل میں حسد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد ایسا خبیث مرض ہے جو انسان کو کفر تک بھی لے جا سکتا ہے۔
حسد ایمان کے لئے تباہ کن ہے:
حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو ملنے والی نعمت چھن جانے کی آرزو کی جائے، اور ایسی آرزو کی برائی محتاج بیان نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۶۱۰)
حضرت معاویہ بن حیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔(جامع صغیر، حرف الحاء، ص۲۳۲، الحدیث: ۳۸۱۹)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور کتاب ’’احیاء العلوم ‘‘ کی تیسری جلد میں موجود حسد سے متعلق بیان مطالعہ فرمائیں۔
[فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ: تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے۔] حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : یہودی تورات کو ضائع کرنے اور ا س کے احکامات کو تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے دوسرے غضب کے حقدار ٹھہرے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرنے کی وجہ سے یہودی پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن مجید کا انکار کرکے دوسرے غضب کےمستحق ہو گئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱ / ۶۹)
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗۗ-وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْؕ-قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(91)
ترجمہ:
اور جب ان سے کہا جائے کہ اس پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں : ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے اوپر نازل کیا گیا اور وہ تورات کے علاوہ دیگر کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ(قرآن) بھی حق ہے ان کے پاس موجود(کتاب) کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اے محبوب! تم فرما دو کہ (اے یہودیو! )اگر تم ایمان والے تھے تو پھر پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں شہید کرتے تھے؟۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے کہا جائے ۔}اس آیت میں یہودیوں کا ایک اور قبیح فعل بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تمام کتابوں پر ایمان لاؤ تو ا س کے جواب میں وہ کہتے ہیں : ہم صرف تورات پر ایمان لائیں گے جو کہ ہم پر نازل ہوئی ہے۔ اِس سے ان کا مقصد دیگر آسمانی کتابوں اور قرآن مجید کا انکار کرنا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن بھی حق ہے اور یہ ان یہودیوں کے پاس موجودتورات کی تصدیق کرنے والا ہے اور جب تورات میں حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بارے میں خبریں موجود ہیں اور تم تورات پر ایمان لانے کے دعویدار ہو تو پھر محمدِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اوران پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید کا انکار کیوں کرتے ہو اور اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان یہودیوں سے فرمائیں کہ اگر تم تورات پر ایمان لانے کے اتنے ہی بڑے دعویدار ہو تو یہ بتاؤ کہ پہلے تم انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کیوں شہید کرتے تھے حالانکہ تورات میں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنے سے منع کیا گیا تھا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۰۲-۶۰۴، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۱ / ۶۹-۷۰، ملتقطاً)
آیت’’وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ‘‘سے معلوم ہونے والے احکام:
(1)… اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام آسمانی کتابوں پر اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمانوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کفر ہے، یونہی تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔
(2)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم ایمان کا رکنِ اعلیٰ ہے اور ان کی توہین کرنا کفر ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا کفر ہے۔
لَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(92)
ترجمہ: اور بیشک تمہارے پاس موسیٰ روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو معبود بنالیا اور تم ظالم تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ اِتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ: بچھڑے کو معبود بنالیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے پاس روشن معجزات لے کر تشریف لائے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے بہکانے سے گائے کو معبود بنالیا اور گائے کی پوجا کر کے انہوں نے کفر کیا۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روشن نشانیاں دیکھ کر بنی اسرائیل بچھڑے کی پوجا میں مبتلاء ہو گئے تو ان یہودیوں کا سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنا ان کے لئے کونسی بڑی بات ہے؟(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۱۱۸، ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ گائے کی عبادت قدیم عرصے سے چلتی آرہی ہے۔ مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ہے، اس کی تعظیم کی اجازت نہیں کہ اس میں کافروں سے مشابہت ہے اور کافروں سے مشابہت ممنوع ہے۔نیز یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت نمبر51میں اس واقعے کا اجمالی ذکر گزر چکا ہے اور یہاں دوبارہ اجمالی طور پر ا س لئے ذکر کیاگیا تاکہ یہودیوں پر قائم کی گئی حجت مؤکد ہو جائے۔ سورۂ طٰہٰ کی آیت 85تا98 میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے۔
(4)…کفر سے راضی ہونا بھی کفر ہے کیونکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے بنی اسرائیل نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید نہ کیا تھا مگر چونکہ وہ قاتلوں کی اِس حرکت سے راضی تھے اور ان کواپنا بڑا مانتے تھے اور انہیں عظمت سے یاد کرتے تھے اس لئے انہیں بھی قاتلوں میں شامل کیا گیا۔آج کل بھی اگر کوئی بذاتِ خود گستاخی نہ بھی کرے لیکن گستاخوں کو اچھا سمجھے، انہیں اپنا بڑا مانے تو وہ انہیں میں شامل ہے اور وہ بھی گستاخ ہی ہے۔ حضرت عُرس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب زمین میں گناہ کیا جائے تو جو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے،وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَؕ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْاؕ-قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَاۗ-وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْؕ-قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(93)
ترجمہ:
اور (یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیا او ر کوہِ طور کو تمہارے سروں پر بلند کردیا(اور فرمایا)مضبوطی سے تھام لو اس کو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور سنو۔ انہوں نے کہا: ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں توبچھڑا رچا ہوا تھا۔ اے محبوب! تم فرمادو: اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ: اور جب ہم نے تم سے عہد لیا۔ }یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا لیکن انہوں نے حسب ِ عادت نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کوہِ طور کو ہوا میں بلند کردیا اور ان سے فرمایا کہ چلو اب مضبوطی سے اس تورات کو تھام لو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ہمارے احکام دھیان سے سنو ۔بنی اسرائیل نے ڈر کے مارے دوبارہ اطاعت کا اقرار توکرلیا لیکن ان کے دل کی حالت پہلے جیسی ہی رہی اور شریعت کا حکم چونکہ ظاہر پر ہوتاہے دل پر نہیں ، اس لئے بنی اسرائیل کے زبانی اقرار کرنے پر ان سے کوہِ طورکو ہٹا لیا گیا اگرچہ ان کے دل میں وہی انکار تھا اور درحقیقت ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں توبچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرمائیں کہ اے یہودیو!تم اپنے اسلاف کی اس حرکت کو جانتے ہو لیکن تم نہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہو اورنہ ہی اس سے اپنی براء ت ظاہر کرتے ہو تو خود بتاؤ کہ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہ تقاضے ہیں ؟اگر اس کے یہی تقاضے ہیں تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔
قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا مطلب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ ا س کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کاجو دعویٰ کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں۔ ذرا غور کریں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے،رمضان کے روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت نمازوں سے دور ہے، فرض روزے نہ رکھنے کے مختلف حیلے بہانے تراش رہی ہے اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ان پر بہت بھاری ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو باطل اور ناجائز طریقے سے کسی مسلمان کا مال کھانے سے منع کیا گیا، لیکن آج مال بٹورنے کا کونسا ایسا ناجائز طریقہ ہے جو مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح رائج نہیں۔ قرآن حکیم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع کیا لیکن آج مسلمانوں میں ناحق قتل و غارت گری ایسی عام ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ میں نے کیوں مارا۔ قرآن شریف میں مسلمان عورتوں کو گھروں میں رہنے اور پردہ کرنے کا حکم دیاگیا لیکن آج ہمارے معاشرے کا وہ کونسا طبقہ ہے جس میں مسلمان عورت سج سنور کر اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آرہی بلکہ آج مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ عورت کے پردہ کرنے کو دقیانوسی سوچ اور تنگ ذہنی قرار دے رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنے زبانی ایمان و محبت کے دعووں اور بے عملی و بدعملی کے درمیان کا تضاد اور فرق سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں اور ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا نصیب ہو جائے کہ ہمارے جیسے اعمال ہیں کیا ہمارا ایمان ہمیں ان اعمال کا حکم دیتا ہے یا ہمارے ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں ؟
ایمانی قوت معلوم کرنے کا طریقہ:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک دل میں برائی کی لذت و حلاوت موجود رہتی ہے تب تک ایمان اور نیک اعمال کی شیرینی اس میں داخل نہیں ہوسکتی اور گناہوں پر اصرار ایمان کی مٹھاس اور عبادت کی لذت محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یاد رہے کہ نیکوں اورنیکیوں سے محبت ایمان کی علامت ہے جبکہ بروں اور برائیوں سے محبت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ایمانی قوت کو اپنے قلبی میلان سے معلوم کرے کیونکہ جن دلوں میں فلموں ، ڈراموں ، بے حیائیوں اور گانوں کی محبت ہو ان دلوں میں نماز، ذکر، درود اور تلاوت کی محبت نہیں سما سکتی۔
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(94)
ترجمہ:
اے محبوب!تم فرمادو: اگر دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر آخرت کا گھر اللہ کے نزدیک خالص تمہارے ہی لئے ہے تو اگر تم سچے ہوتو موت کی تمنا تو کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{ خَالِصَةً: خالص تمہارے لئے ۔} یہودیوں کا ایک باطل دعویٰ یہ تھا کہ جنت میں صرف وہی جائیں گے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت 111میں یہ دعویٰ مذکور ہے۔ اس کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے گمان میں جنت تمہارے لیے خاص ہے اور آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے، اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو، موت کی تمنا کرو تاکہ عیش و آرام والی جنت میں پہنچ جاؤ اور اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو یہ تمہارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے۔(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴-۹۵، ۱ / ۴۷۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔ (تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۱ / ۶۰)
{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ: تو موت کی تمنا کرو۔} موت کی محبت اوراللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ( ہر نماز کے بعد) دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ‘‘یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے وفات نصیب فرما۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)
عمومی طور پر تمام اکابرصحابہ او ربالخصوص شہدائے بدر واحد واصحابِ بیعت رضوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم راہِ خدا میں موت سے محبت رکھتے تھے، حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایران والوں کوجو خط بھیجا اس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْقَتْلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَا یُحِبُّ الْفَارَسُ الْخَمْرَ‘‘ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جانے کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا ایرانی لوگ شراب سے محبت رکھتے ہیں۔(معجم الکبیر، باب من اسمہ خالد، ۴ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۸۰۶)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس طرح کا خط حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایرانی لشکر کےسپہ سالار رستم بن فرخ زاد کے پاس بھیجا تھا اوراس میں تحریر فرمایا تھا: ’’اِنَّ مَعِیَ قوْمًا یُّحِبُّوْنَ الْمَوْتَ کَمَا یُحِبُّ الَْفارَسُ الْخَمْرَ‘‘ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو موت کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا عجمی شراب کو مرغوب رکھتے ہیں۔ (تفسیر عزیزی (مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۰۳)
اس میں لطیف اشارہ تھا کہ شراب کی ناقص مستی کو محبتِ دنیا کے دیوانے پسند کرتے ہیں اور اللہ والے موت کو محبوب حقیقی کے وصال کا ذریعہ سمجھ کر محبوب جانتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اہلِ ایمان آخرت کی رغبت رکھتے ہیں اور اگرلمبی عمر کی تمنا بھی کریں تو وہ اس لیے ہوتی ہے کہ نیکیاں کرنے کے لیے کچھ اور عرصہ مل جائے جس سے آخرت کے لیے ذخیرۂ سعادت زیادہ کرسکیں اوراگر گزشتہ زندگی میں گناہ ہوئے ہیں تو ان سے توبہ و استغفار کرلیں البتہ دنیوی مصائب سے تنگ آکر وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کوئی دنیوی مصیبت سے پریشان ہو کر موت کی تمنا نہ کرے اور اگر موت کی تمنا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے کہ اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، جب تک زندہ رہنا میرے لئے بہتر ہے اس وقت تک مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے وفات بہتر ہو اس وقت مجھے وفات دیدے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)اور درحقیقت دنیوی پریشانیوں سے تنگ آکر موت کی دعا کرنا صبر و رضاو تسلیم و توکل کے خلاف ہے اورناجائز ہے۔
وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(95)
ترجمہ:
اوراپنی بداعمالیوں کی وجہ سے یہ ہرگز کبھی موت کی تمنا نہ کریں گے اور اللہ ظالموں کوخوب جانتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ: اورہرگز موت کی تمنا نہ کریں گے۔ }یہ غیب کی خبر اور معجزہ ہے کہ یہود ی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اسلام کی شدید مخالفت کے باوجود بھی موت کی تمنا کا لفظ زبان پر نہ لاسکے۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(96)
ترجمہ:
اور بیشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں اور مشرکوں میں سے ایک (گروہ)تمنا کرتاہے کہ کاش اسے ہزار سال کی زندگی دیدی جائے حالانکہ اتنی عمر کا دیا جانابھی اسے عذاب سے دور نہ کرسکے گا اور اللہ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ: لوگوں میں سب سے زیادہ جینے کی ہوس۔} مشرکین کا ایک گروہ مجوسی ہے آپس میں سلام کے موقع پر کہتے ہیں ’’زِہ ہزار سال ‘‘ یعنی ہزار برس جیو ۔ان کے اس قول کے پیشِ نظر آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجوسی مشرک ہزار برس جینے کی تمنا رکھتے ہیں اوریہودی ان سے بھی بڑھ گئے کہ انہیں جینے کی ہوس سب سے زیادہ ہے حالانکہ اتنی عمر کا دیا جانابھی اسے جہنم کے عذاب سے دور نہ کرسکے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کا کوئی حال اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱ / ۷۱)
دنیوی زندگی کے حریص کون؟
یاد رہے کہ کفار دنیاوی زندگی پر حریص ہوتے ہیں اور موت سے بہت بھاگتے ہیں جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اگر زندگی چاہتا ہے تو صرف اس لئے کہ زیادہ نیکیاں کرے، آخرت کا توشہ جمع کرے اور آخرت کا زادِ راہ جمع کرنے کے لئے زندگی چاہنا اچھا ہے کہ یہ زندگی کی ہوس نہیں بلکہ آخرت کی تیاری ہے۔نیز لمبی عمر اور زیادہ مال اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت نہیں بلکہ یہ تو بعض اوقات وبال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،لوگوں میں سب سے بہترین کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو۔ اس شخص نے پھر عرض کی:لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ ارشاد فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو۔ (ترمذی، کتاب الزہد عن رسول اللہ، باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(97)
ترجمہ:
اے محبوب!تم فرمادو :جو کوئی جبرئیل کا دشمن ہو(توہو)پس بیشک اس نے توتمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ اتارا ہے، جو اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ عَدُوًّا: جو دشمن ہو۔} شانِ نزول: یہودیوں کے ایک گروہ نے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا: آپ کے پاس آسمان سے کون فرشتہ آتا ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے پاس حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آتے ہیں۔ابنِ صوریا یہودی پیشوا نے کہا: وہ ہمارا دشمن ہے، عذاب، شدت اور زمین میں دھنسانا وہی اتارتا ہے اور پہلے بھی کئی مرتبہ ہم سے دشمنی کر چکا ہے اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس حضرت میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام آتے تو ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آتے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۲۸، الجزء الثانی، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱ / ۷۱)
یہودیوں کی یہ بات سراسر جہالت تھی کیونکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام تو جو چیز بھی لائے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھی تو حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ سے دشمنی تھی، بلکہ اگر یہودی انصاف کرتے تو حضرت جبر یل امین عَلَیْہِ السَّلَام سے محبت کرتے اور ان کے شکر گزار ہوتے کہ وہ ایسی کتاب لائے جس سے ان کی کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ(98)
ترجمہ:
جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اورجبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ کافروں کا دشمن ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ عَدُوًّا: جو کوئی دشمن ہو۔} اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں سے دشمنی کفر اور غضبِ الہٰی کا سبب ہے اور محبوبانِ حق سے دشمنی خداعَزَّوَجَلَّ سے دشمنی کرنا ہے۔حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خادم ہیں ،ان کا دشمن رب تعالیٰ کا دشمن ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک فرشتے سے عداوت سارے فرشتوں سے عداوت ہے۔ یہی حال انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے عداوت رکھنے کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍۚ-وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ(99)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کیں اور ان کا انکار صرف نافرمان ہی کرتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ:اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں نازل کیں۔} ابن صوریا نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آئے جسے ہم پہچانتے ہوں اور آپ پر ایسی کوئی روشن آیت نازل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہم آپ کی پیروی کریں۔اللہ تعالیٰ نے اس کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں نازل فرمائی ہیں جن میں حلال،حرام اور حدود وغیرہ کے احکام واضح اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور ان آیتوں کا انکار وہی کرتا ہے جو ہمارے احکامات کی اطاعت نہیں کرتا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۱ / ۷۲)
100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(100)
ترجمہ: اور جب کبھی انہوں نے کوئی عہدکیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر مانتے ہی نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{عٰهَدُوْا عَهْدًا: انہوں نے عہد کیا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کے وہ عہد یاد دلائے جو حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق تھے تو مالک بن صیف نے کہا:خدا کی قسم !آپ کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا۔ا س کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہودیوں نے جب کبھی کوئی عہدکیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو ویسے ہی پیٹھ پیچھے پھینک دیا بلکہ ان میں سے اکثر یہودیوں کو تورات پر ایمان ہی نہیں اسی لئے وہ عہد توڑنے کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۷۲، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۱۸۹، ملتقطاً)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہودیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظہور ہو گا تو ہم ان پر ضرور ایمان لائیں گے اور عرب کے مشرکوں کے خلاف ہم ضرور ان کے ساتھ ہوں گے، لیکن جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی بجائے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۱ / ۳۱، الجزء الثانی)
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَۗۙ-كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(101)
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول تشریف لایاجو ان کی کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے تواہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے یوں پھینک دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ: ان کے پاس رسول آیا۔} یہاں رسول سے مراد سرکارِ دوعالم، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور چونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ توریت، زبور وغیرہ کی تصدیق فرماتے تھے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و احوال کا بیان تھا اس لیے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا وجود مبارک ہی ان کتابوں کی تصدیق ہے ،لہٰذااس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد پر اہل کتاب کا ایمان اپنی کتابوں کے ساتھ اور زیادہ پختہ ہوتا مگر اس کے برعکس انہوں نے اپنی کتابوں کے ساتھ بھی کفر کیا۔ مشہور مفسرسُدِی کا قول ہے کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی تو یہودیوں نے توریت اور قرآن کا تقابل کیا اور جب دونوں کوایک دوسرے کے مطابق پایا تو انہوں نے توریت کو بھی چھوڑ دیا۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۱ / ۲۳۳)
{ وَ رَآءَ ظُهُوْرِهِمْ: اپنی پشتوں کے پیچھے۔} پیٹھ پیچھے پھینکنے سے مراد ہے اس کتاب کی طرف بے التفاتی کرنا۔ حضرت سفیان بن عُیَینَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کافرمان ہے کہ یہودیوں نے توریت کو ریشمی غلافوں میں سونے چاندی کے ساتھ مزین کرکے رکھ لیا اور اس کے احکام کو نہ مانا۔(تفسیر جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۱ / ۱۲۷)
قرآن مجید سے متعلق مسلمانوں کی حالت زار:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنا اسے پیٹھ پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے اگرچہ اسے روز پڑھے اور اچھے کپڑوں میں لپیٹ کر رکھے جیسے یہودی توریت کی بہت تعظیم کرتے تھے مگر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے تو اس پر عمل نہ کیا گیا گویا اسے پسِ پشت ڈال دیا۔ آج کے مسلمانوں کا حال بھی اس سے بہت مشابہ ہے کہ قرآن پاک کے عمدہ سے عمدہ اورنفیس نسخے گھروں اورمسجدوں میں الماریوں کی زینت تو ہیں ، ریشمی غلاف بھی ان پر موجود ہیں لیکن پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی حالت یہ ہے کہ ان الماریوں اور ریشمی غلافوں پر گرد کی تہہ جم چکی ہے اور حقیقتا وہ گرد ان غلافوں پر نہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں پر جمی ہوئی ہے۔آج کہاں ہیں وہ مسلمان جنہیں قرآن کے حلال وحرام کا علم ہو؟جنہیں اسلامی اخلاق کا پتہ ہو؟ جن کے دل اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر ڈر جاتے ہوں اور ان کے اعضا اللہ تعالیٰ کے خوف سے کانپ اٹھتے ہوں ؟ جن کے دل و دماغ پر قرآن کے انوار چھائے ہوئے ہوں۔ افسوس!
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ قرآن شریف کی طرف پیٹھ نہیں کرنی چاہیے کہ یہ بے رخی اور بے تَوَجُّہی کی علامت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بے عمل آدمی جاہل کی طرح ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَۚ-وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰـكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَۗ-وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَؕ-وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْؕ-فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖؕ-وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْؕ-وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﳴ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(102)
ترجمہ: اور یہ سلیمان کے عہدِ حکومت میں اس جادو کے پیچھے پڑگئے جو شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے کفر نہ کیابلکہ شیطان کافر ہوئے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (یہ تو اس جادو کے پیچھے بھی پڑگئے تھے)جو بابل شہر میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو صرف(لوگوں کا) امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم ) اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔وہ لوگ ان فرشتوں سے ایسا جادوسیکھتے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں حالانکہ وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان دے اور انہیں نفع نہ دے اور یقینا انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا ہے آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا برا سودا کیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ جانتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اتَّبَعُوْا: وہ جادو کے پیچھے پڑ گئے۔} شان نزول: حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکال کر لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں اور علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جاہل لوگ جادو کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم مان کر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ملامت شروع کی۔ہمارے آقا محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے تک یہی حال رہا اور اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جادو سے براء ت کا اظہار فرمایا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۳)
{وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ: اور سلیمان نے کفر نہ کیا۔}اس آیت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں سے دشمنوں کے الزام دور کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جیسا کہ لوگوں نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر جادو گری کی تہمت لگائی اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس تہمت کو دور فرمایا۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جادو کرنا کبھی کفر بھی ہوتا ہے جبکہ اس میں کفریہ الفاظ ہوں۔
{هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ: ہاروت اور ماروت۔}ہاروت، ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی آزمائش کیلئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ ان کے بارے میں غلط قصے بہت مشہور ہیں اور وہ سب باطل ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۱ / ۷۵)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ہاروت اور ماروت کے بارے میں جو کلام فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ہاروت اور ماروت کا واقعہ جس طرح عوام میں مشہور ہے آئمہ کرام اس کا شدید اور سخت انکار کرتے ہیں ، اس کی تفصیل شفاء شریف اور اس کی شروحات میں موجود ہے، یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ہاروت اور ماروت کے بارے میں یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اور ان کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ہیں۔ اور راجح یہی ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی آزمائش کے لئے مقرر فرمایا کہ جو جادو سیکھنا چاہے اسے نصیحت کریں کہ ’’اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ‘‘ ہم توآزمائش ہی کے لئے مقررہوئے ہیں توکفرنہ کر۔ اور جو ان کی بات نہ مانے وہ اپنے پاؤں پہ چل کے خودجہنم میں جائے،یہ فرشتے اگر اسے جادو سکھاتے ہیں تو وہ فرمانبرداری کر رہے ہیں نہ کہ نافرمانی کر رہے ہیں۔(الشفاء، فصل فی القول فی عصمۃ الملائکۃ، ص۱۷۵-۱۷۶، الجزء الثانی، فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، ۲۶ / ۳۹۷)
فرشتوں کی عصمت کا بیان:
فرشتوں کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ یہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(تحریم: ۶)
ترجمۂ کنزالعرفان:وہ (فرشتے)اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(۴۹)یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۠۩(۵۰)‘‘(نحل: ۴۹-۵۰)
ترجمۂ کنزالعرفان:اورفرشتے غرور نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتاہے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ فرشتے تمام گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ غرور نہیں کرتے ا س بات کی دلیل ہے کہ فرشتے اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے اطاعت گزار ہیں اور وہ کسی بات اور کسی کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتے۔(تفسیر کبیر، النحل، تحت الآیۃ: ۵۰، ۷ / ۲۱۷۔۲۱۸)
{فَلَا تَكْفُرْ: تو کفر نہ کر۔} ہاروت و ماروت کے پاس جو شخص جادو سیکھنے آتا تو یہ سکھانے سے پہلے ا سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے کہ جادو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے اور اس کوجائز و حلال سمجھ کر اپنا ایمان ضائع نہ کر۔اگر وہ ان کی بات نہ مانتا تو یہ اسے جادو سکھا دیتے۔
جادو کی تعریف اور اس کی مذمت:
علماءِ کرام نے جادو کی کئی تعریفیں بیان کی ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی شریر اور بدکار شخص کا مخصوص عمل کےذریعے عام عادت کے خلاف کوئی کا م کرناجادو کہلاتا ہے۔(شرح المقاصد، المقصد السادس، الفصل الاول فی النبوۃ، ۵ / ۷۹)
جادو فرمانبردار اور نافرمان لوگوں کے درمیان امتیاز کرنے اور لوگوں کی آزمائش کے لیے نازل ہوا ہے،جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہوجائے گابشرطیکہ اُس جادو میں ایمان کے خلاف کلمات اور افعال ہوں اوراگر کفریہ کلمات و افعال نہ ہوں تو کفر کا حکم نہیں ہے۔
یہاں مزید تین مسئلے یاد رکھیں :
(1)…جو جادو کفر ہے اس کا عامل اگر مردہوتو اسے قتل کردیا جائے گا۔
(2) …جو جادو کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں تو اس کا عامل ڈاکو کے حکم میں ہے مردہو یا عورت۔ یعنی اس کی سزا بھی قتل ہے۔
(3)…اگر جادو گر توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص ۶۹)
احادیث میں جادو کی بہت مذمت کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان بن ابی عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے سنا: ’’اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رات کی ایک گھڑی اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے اور ارشاد فرماتے:’’اے آلِ داؤد! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ اس گھڑی اللہ تعالیٰ جادو گر اور (ناحق) ٹیکس لینے والے کے علاوہ ہرایک کی دُعا قبول فرماتا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث عثمان بن ابی العاص الثقفی، ۵ / ۴۹۲، الحدیث: ۱۶۲۸۱)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’شراب کا عادی، جادو پریقین رکھنے والا اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الکھانۃ والسحر، ۷ / ۶۴۸، الحدیث: ۶۱۰۴)
یاد رہے کہ یہاں جادو گر کے بارے میں جو سزائیں بیان کی گئیں یہ سزائیں دینا صرف اِسلامی حکومت کا کام ہے، عوامُ النَّاس کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ، البتہ ہر ایک کو چاہئے کہ جادو کرنے والوں سے دور رہے۔ نیزجادو سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے کتاب ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کی دوسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔
{وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ: اور وہ نقصان پہنچانے والے نہیں۔}اس آیت سے چند مسائل معلوم ہوئے:
(1)… مؤثرِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اسباب کی تاثیر اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت یعنی چاہنے کے تحت ہے۔ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو ہی کوئی شے اثر کرسکتی ہے،اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو آگ جلا نہ سکے، پانی پیاس نہ بجھا سکے اوردوا شِفا نہ دے سکے۔
(2)… جادو میں اثر ہے اگرچہ اس میں کفریہ کلمے ہوں۔
(3)… جب جادو میں نقصان کی تاثیر ہے تو قرآنی آیات میں ضرور شفا کی تاثیر ہے۔یونہی جب کفار جادو سے نقصان پہنچا سکتے ہیں تو خدا کے بندے بھی کرامت کے ذریعہ نفع پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیماروں ، اندھوں اورکوڑھیوں کو شفا بخشنا خود قرآن مجید میں موجود ہے
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌؕ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(103)
ترجمہ: اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیارکرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے،اگر یہ جانتے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا: اگر وہ ایمان لاتے۔} فرمایا گیا کہ اگر یہودی حضور، سید ِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآنِ پاک پرایمان لاتے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کا ثواب ان کیلئے بہت اچھا ہوتا کیونکہ آخرت کی تھوڑی سی نعمت دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے اعلیٰ ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(104)
ترجمہ: اے ایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا: راعنا نہ کہو۔ }شان نزول: جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رَاعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۴۴-۴۵، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۶۳۴، تفسیر عزیزی(مترجم)۲ / ۶۶۹، ملتقطاً)
آیت’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔
{وَ اسْمَعُوْا: اور غور سے سنو۔} یعنی حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے۔
{وَ لِلْكٰفِرِیْنَ: اور کافروں کیلئے۔} یعنی جو یہودی سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کر رہے ہیں اور ان کے بارے میں بے ادبی والے الفاظ استعمال کر رہے ہیں ان یہودیوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱ / ۹۷)
یاد رہے کہ اس آیت میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(105)
ترجمہ:
۔(اے مسلمانو!)نہ تو اہلِ کتاب کے کافر چاہتے ہیں اور نہ ہی مشرک کہ تمہارے او پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی اتاری جائے حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرمالیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَا یَوَدُّ : کافر نہیں چاہتے ۔}شانِ نزول :یہودیوں کی ایک جماعت مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور خیر خواہی کا اظہار کرتی تھی ان کی تکذیب میں یہ آیت نازل ہوئی اورمسلمانوں کو بتایا گیا کہ یہ کفار خیر خواہی کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَاؕ-اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(106)
ترجمہ:
جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا لوگوں کو بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور آیت لے آتے ہیں ۔(اے مخاطب!)کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَا نَنْسَخْ: ہم جو منسوخ فرمائیں۔} نسخ کا معنیٰ ہے: سابقہ حکم کو کسی بعد والی دلیلِ شرعی سے اٹھا دینا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۷۷) اور یہ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کی انتہاء کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ قرآن کریم نے گزشتہ شریعتوں اور کتابوں کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بڑی وحشت ہوئی اور انہوں نے اس پر اعتراضات کئے، اس پر یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ناسِخْ بھی، دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ آسان اور نفع بخش ہوتا ہے لہٰذا قدرت ِالہٰی پر یقین رکھنے والے کو اس میں تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔ کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دن سے رات کو، گرما سے سرما کو ،جوانی سے بچپن کو، بیماری سے تندرستی کو ،بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب ؟ نسخ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لیے تھا اور اب وہ مدت پوری ہوگئی۔ صرف یہ تھا کہ ہمیں وہ مدت معلوم نہ تھی اور ناسخ کے آنے سے معلوم ہوگئی۔ کفار کا اعتراض تو جہالت و ناسمجھی کی وجہ سے تھا لیکن اہلِ کتاب کو تو کسی بھی صورت یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے بہت سے احکام تو وہ بھی منسوخ مانتے ہیں جیسے بہن بھائی کا آپس میں نکاح، یونہی یہودیوں سے پہلے ہفتہ کے دن دنیوی کام حرام نہ تھے ،ان پر حرام ہوئے، نیز توریت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امت کے لئے تمام جانور حلال تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے حرام کردیئے گئے۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے۔
نسخ کے چند احکام:
(1)…جس طرح کوئی آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث ِمتواتر سے بھی آیت منسوخ ہوتی ہے۔
(2)… کبھی صرف تلاوت منسوخ ہوتی ہے اورکبھی صرف حکم منسوخ ہوتاہے اور کبھی تلاوت و حکم دونوں منسوخ ہوتے ہیں۔بیہقی شریف میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رات کو تہجد کے لیے اٹھے اور سورۂ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے ۔صبح کو دوسرے ا صحاب سے اس کا ذکر کیا توان حضرات نے فرمایا :ہمارا بھی یہی حال ہے، وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی۔ سب نے بارگاہِ رسالت میں واقعہ عرض کیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: آج رات وہ سورت اٹھالی گئی۔ اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔(دلائل النبوہ للبیہقی، باب ما جاء فی تألیف القرآن۔۔۔ الخ، ۷ / ۱۵۷، ملخصاً)
{نَاْتِ بِخَیْرٍ: ہم بہتر لے آئیں گے۔} فرمایا کہ ہم کسی آیت کو منسوخ فرمادیں یا بھلادیں تو اس کی جگہ زیادہ آساناور زیادہ ثواب والا یا کم از کم پہلے والے حکم کے برابر حکم لے آئیں گے۔پہلے سے زیادہ سہولت والے کی مثال ہے جیسے پہلے دس گنا تک کے لشکر سے جہاد کا حکم تھا پھر صرف دو گنا تک کے لشکر سے جہاد میں ڈٹے رہنے کا حکم نازل ہوا۔ زیادہ ثواب کی مثال ہے جیسے پہلے ایک قول کے مطابق روزے کی طاقت رکھنے والے کو بھی فدیہ دینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں اس پر روزے کا حکم ہی متعین کردیا جو فدیہ سے زیادہ ثواب والا حکم ہے۔ سہولت میں برابر کے حکم کی مثال ہے جیسے بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا حالانکہ دونوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں برابر درجے کی سہولت ہے۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَاؕ-اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(106)
ترجمہ:
جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا لوگوں کو بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور آیت لے آتے ہیں ۔(اے مخاطب!)کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{مَا نَنْسَخْ: ہم جو منسوخ فرمائیں۔} نسخ کا معنیٰ ہے: سابقہ حکم کو کسی بعد والی دلیلِ شرعی سے اٹھا دینا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۷۷) اور یہ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کی انتہاء کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ قرآن کریم نے گزشتہ شریعتوں اور کتابوں کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بڑی وحشت ہوئی اور انہوں نے اس پر اعتراضات کئے، اس پر یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ناسِخْ بھی، دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ آسان اور نفع بخش ہوتا ہے لہٰذا قدرت ِالہٰی پر یقین رکھنے والے کو اس میں تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔ کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دن سے رات کو، گرما سے سرما کو ،جوانی سے بچپن کو، بیماری سے تندرستی کو ،بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب ؟ نسخ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لیے تھا اور اب وہ مدت پوری ہوگئی۔ صرف یہ تھا کہ ہمیں وہ مدت معلوم نہ تھی اور ناسخ کے آنے سے معلوم ہوگئی۔ کفار کا اعتراض تو جہالت و ناسمجھی کی وجہ سے تھا لیکن اہلِ کتاب کو تو کسی بھی صورت یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے بہت سے احکام تو وہ بھی منسوخ مانتے ہیں جیسے بہن بھائی کا آپس میں نکاح، یونہی یہودیوں سے پہلے ہفتہ کے دن دنیوی کام حرام نہ تھے ،ان پر حرام ہوئے، نیز توریت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امت کے لئے تمام جانور حلال تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے حرام کردیئے گئے۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے۔
نسخ کے چند احکام:
(1)…جس طرح کوئی آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث ِمتواتر سے بھی آیت منسوخ ہوتی ہے۔
(2)… کبھی صرف تلاوت منسوخ ہوتی ہے اورکبھی صرف حکم منسوخ ہوتاہے اور کبھی تلاوت و حکم دونوں منسوخ ہوتے ہیں۔بیہقی شریف میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رات کو تہجد کے لیے اٹھے اور سورۂ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے ۔صبح کو دوسرے ا صحاب سے اس کا ذکر کیا توان حضرات نے فرمایا :ہمارا بھی یہی حال ہے، وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی۔ سب نے بارگاہِ رسالت میں واقعہ عرض کیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: آج رات وہ سورت اٹھالی گئی۔ اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔(دلائل النبوہ للبیہقی، باب ما جاء فی تألیف القرآن۔۔۔ الخ، ۷ / ۱۵۷، ملخصاً)
{نَاْتِ بِخَیْرٍ: ہم بہتر لے آئیں گے۔} فرمایا کہ ہم کسی آیت کو منسوخ فرمادیں یا بھلادیں تو اس کی جگہ زیادہ آساناور زیادہ ثواب والا یا کم از کم پہلے والے حکم کے برابر حکم لے آئیں گے۔پہلے سے زیادہ سہولت والے کی مثال ہے جیسے پہلے دس گنا تک کے لشکر سے جہاد کا حکم تھا پھر صرف دو گنا تک کے لشکر سے جہاد میں ڈٹے رہنے کا حکم نازل ہوا۔ زیادہ ثواب کی مثال ہے جیسے پہلے ایک قول کے مطابق روزے کی طاقت رکھنے والے کو بھی فدیہ دینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں اس پر روزے کا حکم ہی متعین کردیا جو فدیہ سے زیادہ ثواب والا حکم ہے۔ سہولت میں برابر کے حکم کی مثال ہے جیسے بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا حالانکہ دونوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں برابر درجے کی سہولت ہے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(107)
ترجمہ:
کیا تجھے معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے مقابلے میں تمہارا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ ہی مددگار۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَهٗ مُلْكُ: اسی کی بادشاہی ہے۔}اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ اپنے ملک میں جو چاہے جب چاہے قانون جاری کرے، جب کائنات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، دن جاتا ہے رات آتی ہے اور سارے جہان میں ہر طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے توشرعی قانون میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے اوریہ تبدیلی مخلوق کی مصلحت کی وجہ سے ہے۔
{مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اللہ کے مقابلے میں۔}اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اختیار دینے سے مدد ہوسکتی ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جیسے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیماروں ، کوڑھیوں اور نابیناؤں کی مدد کرتے تھے۔ فرشتوں نے غزوہ بدر اور غزوہ حُنَین میں مسلمانوں کی مدد کی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وزیر نے تخت ِ بلقیس لا کر مدد کی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سینکڑوں مرتبہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی کھانے، پینے، بیماریوں اور پریشانیوں میں مدد کی۔ حضور غوث ِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اولیاء کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کامدد کرنا لاکھوں لوگوں کے تجربات اور تواتر سے ثابت ہے۔
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْــٴَـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ(108)
ترجمہ:
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم اپنے رسول سے ویسے ہی سوال کرو جیسے اس سے پہلے موسیٰ سے کئے گئے اور جو ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَا سُىٕلَ مُوْسٰى: جیسے موسیٰ سے سوال کیا گیا۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کیا:جس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تورات لے کر آئے تھے اسی طرح آپ بھی ہمارے پاس ایک ہی مرتبہ سارا قرآن لے آئیں۔بعض نے یوں کہا کہ ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہیں لے آتے۔ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا: کیاتم یہ چاہتے ہو کہ تم اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ویسے ہی سوال کر و جیسے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے گئے تھے۔اے یہودیو!جب میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا درست ہونا دلائل اور معجزات سے ثابت ہو چکا تو پھر ایسے لا یعنی سوال کیوں کر رہے ہو اور اے ایمان والو! بے شک یہودی دھوکے باز اور تم سے حسد کرنے والے ہیں اور ان کی تمنا یہ ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا ہوں لہٰذا ان کی کوئی ایسی بات قبول نہ کرو جو بظاہر نصیحت لگ رہی ہو اور یاد رکھو کہ جو ایمان کے بدلے کفر اختیار کر کے اپنے دین سے پھر گیا تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۷۹)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ کفار مکہ نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ سارا قرآن ایک ہی مرتبہ لے آئیں ، کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ( اور فرشتے )ہمارے سامنے اعلانیہ آجائیں ،کسی نے کہا کہ کوہِ صفا کو سونے کا بنادیں۔ ان کے سوالات کے جواب میں ان سے فرمایا گیا کہ تم بھی اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسی طرح فضول سوال کر رہے ہو جس طرح ان سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ خدا دکھا دو، حالانکہ آیاتِ قرآنیہ کے نزول کے بعد دوسری نشانیوں کا مطالبہ کرنا سیدھے راہ سے بھٹکنا ہے۔(طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۵۳۰، در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۲۶۰-۲۶۱، جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۱ / ۹۹-۱۰۰، ملتقطاً)
صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا منع ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح مقصد کے بغیر سوال کرنا ممنوع ہے نیز فضول سوال کرنا بھی ممنوع ہے۔ لہٰذا عوام الناس کو چاہئے کہ اس بات کو پیش نظررکھیں کہ علماء اور مفتیانِ کرام سے وہی سوال کئے جائیں جن کی حاجت ہو، زمین پر بیٹھ کر خواہ مخواہ چاندپر رہائش کے سوال نہ کئے جائیں۔بعض لوگ علماء کو پریشان کرنے یا ان کا امتحان لینے یا ان کی لاعلمی ظاہر کرنے کیلئے سوال کرتے ہیں ،یہ سب ناجائز ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے رک جاؤ اور جس کام کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق کرو، تم سے پہلے لوگوں کو محض ان کے سوالات کی کثرت اوراپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اختلاف کرنے نے ہلاک کیا۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ص ۱۲۸۲، الحدیث: ۱۳۰ (۱۳۳۷))
من پسند حکم کا مطالبہ کرنایہودیوں کا طریقہ ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسئلہ معلوم کرکے عمل کرنے کی بجائے خواہ مخواہ بال کی کھال اتارتے رہنا اور اپنے من پسند حکم کا مطالبہ کرنا یہودیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاملات یا عبادات میں جو صورت انہیں درپیش ہے اس میں فتویٰ ان کی مرضی اور پسند کے عین مطابق ملے اور اگر انہیں کہیں سے کوئی ایک ایسی دلیل مل جاتی ہے جو ان کے مقصد و مفادکو پورا کر رہی ہوتی ہے تو وہ اسی پر اڑ جاتے ہیں اگرچہ اس کے خلاف ہزار دلائل موجود ہوں لیکن وہ چونکہ ان کی مراد کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ-حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ-فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(109)
ترجمہ:
اہل کتاب میں سے بہت سے لوگو ں نے اس کے بعد کہ ان پر حق خوب ظاہر ہوچکا ہے اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ چاہا کہ کاش وہ تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں ۔ تو تم (انہیں )چھوڑدو اور (ان سے) درگزر کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: بہت سے اہلِ کتاب نے چاہا۔}جنگ ِاحد کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو معاذاللہ مرتد ہونے کی دعوت دی۔ ان بزرگوں نے سختی سے رد کردیا اور پھر حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی خبر دی۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹)
{حَسَدًا: حسد کی وجہ سے۔} اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہودیوں کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنااور یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہو جائیں حسدکی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہو اکہ حسد بہت بڑا عیب ہے اور ا س کی وجہ سے انسان نہ صرف خود بھلائی سے رک جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’حسد سے دور رہو کیونکہ حسدنیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘یافرمایا: ’’گھاس کوکھاجاتی ہے۔‘‘(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، ۴ / ۳۶۱، الحدیث: ۴۹۰۳)
حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :حسد سے بچو،کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی ۔(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ تعالی عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص۱۸۸)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر ووجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹-۸۰)
{فَاعْفُوْا: تو تم معاف کرو۔} کفار کے ساتھ جنگ کے ذریعے بدلے لینے کی بجائے نرمی کی تمام آیات کا یہ حکم ہے کہ وہ جہاد کی آیتوں سے منسوخ ہیں جیسااس حکم کے آخر میں خود فرمادیا ’’یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے‘‘ اور وہ حکم جہاد وقتال کا ہے۔
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(110)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اپنی جانوں کے لئے جو بھلائی تم آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے بیشک اللہ تمہارے سب کام دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم کرو۔} یہاں مسلمانوں کو اپنی اصلاحِ نفس کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کسی بھی دینی یا دنیوی اہم کام میں مصروف ہواسے اپنے نفس کی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ عین حالت ِ جہاد میں بھی نمازِ خوف کا حکم موجود ہے۔ طلاق کے مسائل بیان کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے نماز اور تقویٰ کے احکام بیان فرمائے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی نیکی کی دعوت میں یا علمِ دین کے حصول یا کسی دوسرے اہم دینی کام میں مشغول ہے تو اسے اپنی اصلاح سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰىؕ-تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(111)
ترجمہ: اور اہل کتاب نے کہا: ہرگز جنت میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو یہودی ہو یاعیسائی۔ یہ ان کی من گھڑت تمنائیں ہیں ۔ تم فرمادو: اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل لاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ: ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گے۔}یہودی مسلمانوں سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے اور عیسائی کہتے تھے کہ صرف وہی جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ گفتگو مسلمانوں کو بہکانے کے لئے تھی، ان کی تردید میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی، جس میں فرمایا گیا کہ ان کی یہ بات ان کی اپنی رائے سے ہے، توریت و انجیل میں ایسا کچھ نہیں فرمایا گیا،اگر وہ سچے ہیں تو اپنی اس بات پر کوئی دلیل لائیں۔
{اَمَانِیُّهُمْ: ان کی من گھڑت تمنائیں۔}بغیر کسی بنیاد کے جنت میں داخلے کے زبانی دعوے کرنا جہالت و حماقت ہے۔ ایک امید ہے جسے عربی میں ’’رَجا‘‘ کہتے ہیں اور ایک خام خیالی ہے جسے عربی میں ’’اُمْنِیَّہْ‘‘ کہتے ہیں۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس موضوع پر بڑا پیاراکلام ارشاد فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : رجاء یعنی امیددل کی اس راحت کا نام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ محبوب جس کی توقع کی جا رہی ہے ا س کا کوئی سبب ہونا چاہئے لہٰذا اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اسے ’’رجا‘‘ یعنی امید کہتے ہیں اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یا اضطراب کے ساتھ ہوں تو اسے امید نہیں بلکہ دھوکہ اور بیوقوفی کہا جائے گا اور اگر اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس انتظار کو’’تمنا‘‘ کہتے ہیں۔ اہلِ دل حضرات جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے ،ایمان اس میں بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادت زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے اور نہر یں کھودنے اور ان زمینوں میں پانی جاری کرنے کی طرح ہیں اور دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج کوئی پھل نہیں لاتااور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کاٹے گا جو اس نے بویا ہو گا اور کھیتی کا بڑھنا ایمان کے بیج کے بغیر ناممکن ہے اور جب دل میں خباثت اور برے اخلاق ہوں تو ایمان بہت کم نفع دیتا ہے جیسے بنجر زمین میں بیج سے فصل پیدا نہیں ہوتی تو مناسب یہی ہے کہ آدمی کے مغفرت کی امید رکھنے کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے یعنی جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ توخراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ ضروریات سے مراد وقت پر پانیدینا،زمین کو کانٹوں اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں سے پاک کرنا جو بیج کو بڑھنے سے روکتی ہیں یا خراب کر دیتی ہیں۔ تو جو یہ سب کام کرے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو کر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر آفات سے بچائے گا یہاں تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کورجا یعنی امید کہتے ہیں اور اگر سخت زمین میں بیج ڈالے جو شور زیادہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں پہنچ سکتا اور بیج کی پروا بھی نہ کرے اورپھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں امید نہیں کہتے اور اگر اچھی زمین میں بیج ڈالالیکن اس میں پانی نہیں ہے اب وہ بارش کے انتظار میں ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں عام طور پر بارش نہیں برستی تو اس انتظار کو تمنا کہتے ہیں ’’رجا‘‘ نہیں کہتے تو گویا رجاکا لفظ کسی ایسی پسندیدہ چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لئے وہ تمام اسباب تیار کر دئیے گئے ہوں جو بندے کے اختیار میں ہیں ، صرف وہی اسبا ب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دہ اور فاسدکرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہو جاتے ہیں پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اورا س کو عبادات کا پانی پلاتا ہے ،دل کو بد اخلاقی کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا مرتے دم تک منتظر رہتا ہے، مغفرت تک پہنچانے والے اچھے خاتمے کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی رجا (امید ) ہے یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اوراگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیا جائے یا دل کو برے اخلاق سے ملوث چھوڑدیا جائے اور دنیاوی لذت میں منہمک ہو جائے اورپھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں مبتلاشخص کا انتظار ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اَلْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاھَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللہِ الْاَمَانِیَّ‘‘ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لاتا ہے اور(اس کے باوجود) اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرتا ہے(کہ وہ بڑا کریم اور غفور و رحیم ہے،اس سے اور اس کے اعمال سے بے پرواہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے کوئی سزا نہیں دے گا بلکہ جنت میں داخل کر دے گا اور وہ اس کی من چاہی چیزیں اسے دے گا)۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۴۴۵، تحت الحدیث: ۲۰۲۵، احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۵)
بَلٰىۗ-مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۪-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(112)
ترجمہ:
ہاں کیوں نہیں ؟ جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہو تو اس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{بَلٰى : کیوں نہیں۔}جنت میں داخلے کا حقیقی معیار ایمانِ صحیح اور عملِ صالح ہے اور کسی بھی زمانے اور کسی بھی نسل و قوم کا آدمی اگر صحیح ایمان و عمل رکھتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ کی نبوت نہ ماننے والے کا ایمان قطعاً صحیح نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی عمل ایمان کے بغیر صالح نہیں ہوسکتا،گویا جو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان رکھے اور عملِ صالح کرے وہ جنت کا مستحق ہے۔
چونکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا تھا کہ ان کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا تو اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں کیوں داخل نہیں ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو بھی ایمان صحیح اور عمل صالح لے کر آئے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ ۪-وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍۙ-وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْۚ-فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(113)
ترجمہ:
اور یہودیوں نے کہا: عیسائی کسی شے پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا : یہودی کسی شے پر نہیں حالانکہ یہ کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح جاہلوں نے ان (پہلوں )جیسی بات کہی تو اللہ قیامت کے دن ان میں اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتِ الْیَهُوْدُ: یہودی بولے۔} ایک بار نجران کے عیسائیوں اور( مدینہ منورہ )کے یہودیوں کے علماء کی بارگاہ مصطفوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آپس میں بحث ہوگئی۔ بحث کے دوران دونوں نے خوب شور مچایا۔ یہودی کہتے تھے کہ عیسائیوں کا دین کچھ نہیں اور عیسائی کہتے تھے کہ یہودیوں کا دین کچھ نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۹)
{یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ: وہ کتاب پڑھتے ہیں۔} یعنی علم ہونے کے باوجود یہودو نصاریٰ نے ایسی جاہلانہ گفتگو کی حالانکہ انجیل شریف جس کو نصاریٰ مانتے ہیں اس میں توریت شریف اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی تصدیق ہے اور توریت جس کو یہودی مانتے ہیں اس میں حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ان تمام احکام کی تصدیق ہے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے۔
قرآن پڑھ کر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں کو تنبیہ:
یہودیوں اور عیسائیوں کی اس روش کے بیان میں سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کے ان مسلمانوں کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس میں بیان کئے گئے احکام سے آگاہ بھی ہیں اورا س کے باو جود ان احکام پر عمل نہیں کرتے اور اگر عمل کرتے بھی ہیں تو فقط ان احکام پر جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں اور جو احکام ان کی خواہش کے موافق نہیں اُن پر عمل نہیں کرتے۔
حضرت زیاد بن لبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کسی بات کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا ’’یہ اس وقت ہو گا جب کہ علم اٹھ جائے گا۔میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، علم کیسے اٹھ جائے گا حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور وہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے، اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے زیاد!تیری ماں تجھے گم پائے،میں تمہیں مدینہ کے فہیم لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس پر عمل نہیں کرتا۔(اسی طرح مسلمان قرآن تو پڑھیں گے لیکن ا س پر عمل نہیں کریں گے اور جو اپنے علم پر عمل نہ کرے وہ اور جاہل دونوں برابر ہیں )(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب ذہاب القرآن والعلم، ۴ / ۳۸۳، الحدیث: ۴۰۴۸) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو قرآن مجید کی تلاوت کرنے، اسے سمجھنے اور اس کے احکام و تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔
{كَذٰلِكَ قَالَ: اسی طرح کہا۔} اہلِ کتاب کے علماء کی طرح جاہل بت پرستوں اور آتش پرستوں نے ہر دین کوجھٹلانا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ دین کچھ نہیں۔ انہیں جاہلوں میں سے مشرکین عرب بھی ہیں جنہوں نے نبی کر یم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اورآپ کے دین کے بارے ایسے ہی کلمات کہے۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(114)
ترجمہ:
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللہ کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔انہیں مسجدوں میں داخل ہونا مناسب نہ تھا مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون۔} یہ آیت بیت المقدس کی بے حرمتی کے متعلق نازل ہوئی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ روم کے عیسائیوں نے یہودیوں پر حملہ کرکے ان کے جنگجوؤں کو قتل کردیا، ان کے بیوی بچوں کو قید کرلیا، توریت کو جلادیا، بیت المقدس کو ویران کردیا، اس میں نجاستیں ڈالیں ، خنزیر ذبح کیے، یوں بیت المقدس خلافت ِفاروقی تک اسی ویرانی میں رہا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد مبارک میں مسلمانوں نے اسے بنایا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کو کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکا تھا اور صلح حدیبیہ کے وقت اس میں نماز و حج سے منع کیا تھا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۱ / ۸۱)
{اَنْ یُّذْكَرَ: کہ ذکر کیا جائے۔} ذکر میں نماز، خطبہ، تسبیح ،وعظ، نعت شریف اور صالحین کے حالات کا بیان سب داخل ہیں۔ ذکر اللہ کو منع کرنا ہر جگہ ہی برا ہے لیکن مسجدوں میں خصوصاً زیادہ برا ہے کہ وہ تو اسی کام کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مسجد کو کسی بھی طرح ویران کرنے والا ظالم ہے۔ بلاوجہ لوگوں کو مسجد میں آنے یا مسجد کی تعمیر سے روکنے والا، مسجد یا اس کے کسی حصے پرقبضہ کرنے والا، مسجد کو ذاتی استعمال میں لے لینے والا، مسجد کے کسی حصے کو مسجد سے خارج کرنے والا یہ سب لوگ اس آیت کی وعید میں داخل ہیں۔ تفصیل کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف کے کتاب الوقف کا مطالعہ کریں۔البتہ یہ یاد رہے کہ جنبی (یعنی جس پر غسل فرض ہو)، منہ کی بدبو والے ، لہسن پیازوغیرہ بدبودار چیزوں کی بو جس کے منہ سے آرہی ہو اسے روکنااس میں داخل نہیں کہ یہ حقیقت میں مسجد سے تکلیف دہ یا نامناسب چیزوں کو دور کرنے کے حکم میں آتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد کے نزدیک دوسری مسجد اس نیت سے بنانا کہ پہلی مسجد ویران ہو جائے حرام ہے کہ یہ بھی مسجد کی ویرانی میں کوشش کرنا ہے البتہ اگر کوئی مسجد بنائے تو اس کی نیت پر ہم حکم نہیں لگا سکتے ہیں کہ اس نے بری نیت سے ہی مسجد بنائی ہے۔
{اِلَّا خَآىٕفِیْنَ: مگر ڈرتے ہوئے۔} مسجد میں ادب و تعظیم اور خوف ِ خدا کے ساتھ داخل ہونا چاہیے، نڈر و بیباک ہو کر اور آداب ِ مسجد کو پامال کرتے ہوئے داخل ہونا مسلمان کا کام نہیں۔
{فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ: دنیا میں رسوائی۔} بیت المقدس ویران کرنے والوں کو دنیا میں یہ رسوائی پہنچی کہ قتل کئے گئے، گرفتار ہوئے، جلا وطن کئے گئے۔ خلافت فاروقی و عثمانی میں ملک ِشام ان کے قبضہ سے نکل گیا اور بیت المقدس سے ذلت کے ساتھ نکالے گئے۔ مسجدوں اور مسجدوں سے تعلق رکھنے والوں سے نفرت کرنے والوں کویہ وعید اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہیے۔
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُۗ-فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(115)
ترجمہ: اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر ہی اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے۔ بیشک اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
کنزالعرفان
{وَ لِلّٰهِ : اور اللہ ہی کیلئے ہے۔}اس آیت کے بہت سے شانِ نزول بیان کئے گئے ہیں۔
(1)…ایک مرتبہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تاریک رات میں سفر میں تھے،قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکی، ہر شخص نےجس طرف اس کا دل جما، نماز پڑھ لی، صبح کو بارگاہِ رسالت میں حال عرض کیا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴ / ۴۴۵، الحدیث: ۲۹۶۸)
(2) … حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں یہ اس مسافر کے حق میں نازل ہوئی جو سواری پر نفل ادا کرے، اس کی سواری جس طرف متوجہ ہو جائے (اس طرف اس کی نماز درست ہے)۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۸۲)
(3)… جب خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہود یوں نے مسلمانوں پراعتراضات کئے ۔ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ مشرق ومغرب سب اللہ تعالیٰ کا ہے جس طرف چاہے قبلہ معین فرمائے کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۸۲)
(4)…جب آیتِ دعا اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(پ۲۴، المؤمن: ۶۰) نازل ہوئی توحضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا گیا کہ کس طرف منہ کر کے دعا کی جائے؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔(الطبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۱ / ۵۵۳، رقم: ۱۸۴۹)
شانِ نزول کے متعلق ان کے علاوہ اور بھی کئی اقوال ہیں۔
{فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا: تو تم جدھر منہ پھیرو۔} معلوم ہوا کہ قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکے تو جس طرف دل جمے کہ خانہ کعبہ اسی سمت ہوگا تو اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھے۔اس بارے میں تفصیلی احکام جاننے کیلئے بہارِ شریعت حصہ 3کا مطالعہ فرمائیں۔ یہ یاد رہے کہ خانہ کعبہ ہی قبلہ ہے، یہاں جو اجازت ہے وہ مخصوص صورتوں میں ہے۔
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۙ-سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ(116)
ترجمہ: اور مشرکوں نے کہا: اللہ نے اپنے لئے اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ذات ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کی ملکیت میں ہے۔ سب اس کے حضور گردن جھکائے ہوئے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{سُبْحٰنَهٗ: اللہ پاک ہے۔} یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا ماناجبکہ مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیاجیسا کہ تینوں چیزیں قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ ان سب کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔
{لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ: اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے۔} کسی کی اولاد اس کی ملکیت نہیں ہوسکتی اور جب آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے تو اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ نیزاولاد حقیقت میں ماں باپ کا جز ہوتی ہے اور آدمی اپنے جز کا مالک نہیں ہوتا۔
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(117)
ترجمہ: ۔(وہ)بغیر کسی سابقہ مثال کے آسمانوں اور زمین کونیا پیدا کرنے والا ہے اور جب وہ کسی کام (کو وجود میں لانے) کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس سے صرف یہ فرماتا ہے کہ’’ ہو جا‘‘ تووہ فوراً ہوجاتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{بَدِیْعُ: بغیر مثال کے بنانے والا۔} بدیع کا معنیٰ ہے کسی چیز کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نئے طور پربنانے والا۔ اللہ تعالیٰ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے نہ کوئی آسمان تھا اور نہ زمین تو اللہ تعالیٰ نئے طور پر اسے عدم سے وجود میں لایا۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہی بدیع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو خود ہی وجود بخشا ہے، پہلے کسی شے کی مثال موجود نہ تھی۔
{وَ اِذَا قَضٰى: اور جب فیصلہ فرماتا ہے۔} فیصلہ فرمانے سے مراد ارادہ کرنا ہے جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ‘‘( یس: ۸۲)
ترجمۂ کنزالعرفان:اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے، ’’ ہوجا‘‘ تو وہ فوراً ہوجاتی ہے۔
اوراس آیت سے اصل مراد یہ ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شے کا ارادہ فرمائے اور وہ نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ قطعی طور پر نافذ ہوتا ہے اورکسی شے کو وجود میں لانے کیلئے اللہ تعالیٰ کو انسانو ں کی طرح محنت و مشقت کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اس چیز کے وجود کا ارادہ فرمالینا ہی کافی ہے۔یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی کام میں کسی کا محتاج نہیں اور اللہ تعالیٰ کا مختلف کاموں کیلئے فرشتوں کو مقرر کرنا حکمت ہے حاجت نہیں۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا یُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْؕ-تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ(118)
ترجمہ: اور جاہلوں نے کہا: اللہ ہم سے کیوں نہیں کلام کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آجاتی۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی تو اِن کے دل آپس میں ایک جیسے ہوگئے۔ بیشک ہم نے یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کردیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ:جو نہیں جانتے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ یہودیوں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اگر آپ اپنے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ سے فرمایئے کہ وہ ہم سے کلام کرے تاکہ ہم خود ا س کا فرمان سن لیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پہلے یہودیوں نے بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ایسی ہی بات کہی تھی۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح فرشتوں اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرماتا ہے اس طرح خود ان سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے متعلق کیوں کلام نہیں فرماتا تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ آپ نبی ہیں اور ہم آپ پر ایمان لے آئیں یاہمارے پاس کوئی ایسی نشانی کیوں نہیں آجاتی جس سے ہمیں آپ کی صداقت معلوم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مشرکوں سے پہلے کفار نے بھی اپنے رسولوں سے ایسی ہی بات کہی تھی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۲۷۱، روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۲۱۵، قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱ / ۷۱، الجزء الثانی، ملتقطاً)
یہ ان کا کمال تکبر اور نہایت سرکشی تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ملائکہ کے برابر سمجھا۔
{تَشَابَهَتْ قُلُوْبُهُمْ:ان کے دل آپس میں مل گئے۔} یہودونصاریٰ اور مشرکین کے اقوال کا گزشتہ منکرین کے اقوال کے مطابق ہونا ان کے دلوں کی سختی اور کفر کے ایک دوسرے سے مشابہ ہونے کی علامت ہے۔ اس میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی کہ آپ جاہلوں کی سرکشی اور معاندانہ انکار سے رنجیدہ نہ ہوں۔ پچھلے کفار بھی اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے ،جیسے یہودیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا تھا کہ ہم آپ کی بات نہ مانیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کوا علانیہ نہ دیکھ لیں۔یاد رہے کہ کفار سے معاشرت، لباس اور وضع قطع میں بھی مشابہت کرنا منع ہے کہ ظاہر باطن کی علامت ہوتا ہے اور ظاہر کا باطن پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا کفار کے طور طریقے سے بالکل دوری اختیار کی جائے تاکہ ان کا ظاہر مسلمان کے باطن کو متاثر نہ کرے.
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(119)
ترجمہ:
اے حبیب!بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والا بنا کربھیجا اور آپ سے جہنمیوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَرْسَلْنٰكَ: ہم نے آپ کو بھیجا۔} حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جنت کی خوشخبری دینے والے اور دوزخ سے ڈرانے کی خبریں دینے والے ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تبلیغ کے باوجود اگر کوئی جہنم کی راہ جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال نہ ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہ لایا ، اس لیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا فرضِ تبلیغ پورے طور پر ادا فرمادیا۔
وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِـعَ مِلَّتَهُمْؕ-قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰىؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(120)
ترجمہ:
اور یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں ۔ تم فرمادو: اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور (اے مخاطب!)اگر تیرے پاس علم آجانے کے بعد بھی تو ان کی خواہشات کی پیروی کرے گا تو تجھے اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا او ر نہ کوئی مددگارہوگا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَنْ تَرْضٰى: اور ہرگز راضی نہ ہوں گے۔}فرمایا جارہا ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہودی اور عیسائی ہرگز آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرلیں اور یقینا یہ بات ناممکن ہے کہ آپ ان کے دین کی پیروی کریں کیونکہ وہ باطل ہیں۔ ان کے مقابلے میں آپ جواب دیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے جو اس نے مجھے عطا فرما رکھی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ کفار بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں سے کبھی راضی نہیں ہوسکتے اگرچہ ظاہری طور پر کبھی حالات مختلف ہوجائیں۔ افسوس کہ ہزاروں تجربات کے بعد بھی مسلمان سبق نہیں سیکھتے۔
{وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ: اور اگر تم نے پیروی کی۔} یہ خطاب امت محمدیہ کو ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمہارے پاس حق و ہدایت لائے تو تم ہر گز کفار کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اگر ایسا کیا تو تمہیں کوئی عذاب ِالٰہی سے بچانے والا نہیں۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۱ / ۸۴)
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(121)
ترجمہ:
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے تووہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کا انکار کریں تو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَتْلُوْنَهٗ: وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے فرمایا :یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جوحضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تھے ،ان کی تعداد چالیس تھی، بتیس اہلِ حبشہ اور آٹھ شامی راہب تھے، ان میں بحیر اراہب بھی تھے جنہوں نے بچپن میں سفرِ شام میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہچانا تھا۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱ / ۸۴-۸۵)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں توریت شریف پر ایمان لانے والے وہی ہیں جو اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور بغیر تحریف و تبدیل کئے پڑھتے ہیں اور اس کے معنی کو سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھ کر آپ پر ایمان لاتے ہیں اورجو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر ہوتے ہیں وہ توریت پر ایمان نہیں رکھتے۔
قرآن مجید کے حقوق:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کے بہت سے حقوق بھی ہیں۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، اس سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے، اسے سمجھا جائے، اس پر ایمان رکھا جائے، اس پر عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ ترغیب کے لئے یہاں ہم تلاوت قرآن کے چند ظاہری اور باطنی آداب ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان قرآن عظیم کی اس طرح تلاوت کریں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے۔
تلاوت ِ قرآن کے ظاہری آداب:
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو درجِ ذیل 6ظاہری چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
(1)… با وضو ہو کر،قبلہ رو ہو کر ،مؤدب ہو کر اور عجز و انکساری کے ساتھ بیٹھے۔
(2)…آہستہ پڑھے اور ا س کے معانی میں غورو فکر کرے ،تلاوت قرآن کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔
(3)…دوران تلاوت رونا بھی چاہئے اور اگر رونا نہ آئے رونے جیسی شکل بنا لے ۔
(4)…ہر آیت کی تلاوت کا حق بجالائے ۔
(5)…اگر قراء ت سے ریاکاری کا اندیشہ ہو یا کسی کی نماز میں خلل پڑتا ہو تو آہستہ آہستہ تلاوت کرے۔
(6)…جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھے۔
تلاوت ِ قرآن کے باطنی آداب:
قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے کو درجِ ذیل 6باطنی چیزوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
(1)…قرآنِ مجید کی عظمت دل میں بٹھائے ۔
(2)…قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں بٹھائے اور خیال کرے کہ یہ کس عظیم ذات کا کلام ہے اور میں کس بھاری کام کے لئے بیٹھا ہوں۔
(3)…قرآنِ کریم کے تلاوت کرتے وقت دل کو حاضر رکھے ،اِدھر اُدھر خیال نہ کرے ،برے خیالات سے دل کو آلودہ نہ کرے اور جو بے خیالی میں پڑھ چکا اسے از سرِ نو توجہ سے پڑھے۔
(4)…ہر حکم کے معنی میں غورو فکر کرے، اگر سمجھ میں نہ آئے تو اسے بار بار پڑھے اور اگر کسی آیت کے پڑھنے سے لذت محسوس ہو تو اسے پھر پڑھے کہ یہ دوبارہ پڑھنا زیادہ تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔
(5)…جس طرح آیات کا مضمون تبدیل ہوتا رہے اسی طرح مضمون کے مطابق دل کی کیفیت بھی بدلتی رہے اور قرآن کے رنگ میں رنگتی جائے۔
(6)…قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرے کہ گویا یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے سن رہا ہے اور خیال کرے کہ ابھی اس ذات کی جانب سے سن رہا ہوں۔(کیمیاء سعادت،کتاب ارکانِ مسلمانی، اصل ہشتم قرآن خواندن، آدابِ تلاوت، ۲۴۱-۲۴۷، ملخصاً)
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(122)
ترجمہ: اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا او ر وہ جو میں نے اس زمانہ کے سب لوگوں پر تمہیں فضیلت عطا فرمائی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل۔} یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائی جا رہی ہیں تاکہ ان پر قائم کی گئی حجت مزید مضبوط ہو جائے۔ اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:
(1)…نبی کی اولاد ہونا باعث عزت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
(2)… اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا چرچا کرنا، ذکر کرنا شکر کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کا تذکرہ کرنا یا اس کی محفل کرنا اسی قسم میں داخل ہے۔
{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ: بیشک میں نے تمہیں فضیلت دی۔} بنی اسرائیل اپنے زمانے میں تمام لوگوں سے افضل تھے کیونکہ یہ نبیوں کی اولاد تھے اور ان میں صالحین بہت تھے ،اب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا انکار کر کے اور سرکشی کر کے ذلیل ہو گئے۔ ا س سے معلوم ہوا کہ عزت حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قدم سے وابستہ ہے، جو اِن کا ہو گیا عزت پا گیا اورجواِن سے پھر گیا ذلیل ہوگیا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں.
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(123)
ترجمہ:
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی طرف سے کوئی بدلہ نہ دے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کافر کو سفارش نفع دے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ :نہ کافر کو سفارش نفع دے گی۔} یہاں بنیادی طور پر ان یہودیوں کارد ہے جو کہتے تھے ہمارے باپ دادا بڑے بزرگ تھے وہ ہمیں شفاعت کرکے چھڑا لیں گے۔ انہیں فرمایا جارہا ہے کہ شفاعت کافر کے لیے نہیں ہے۔ گویایہاں کافر کا بیان ہے کہ کافر کی طرف سے کوئی بدلہ نہ بنے گا اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لے کر اسے چھوڑا جائے اور نہ کوئی اس کی شفاعت کرے گا اور بالفرض اگر کوئی کرے تو کافر کے حق میں شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ کافروں کی مدد کی جائےگی۔کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی شفاعت بھی ہوگی جیسے قرآن میں بیسیوں جگہ ہے اور مسلمانوں کی مدد بھی ہوگی جیسے بخاری و مسلم کی حدیثوں میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت میں جگہ جگہ اپنے امتیوں کی مدد فرمائیں گے۔
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ-قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْؕ-قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ(124)
ترجمہ:
اور یاد کروجب ابراہیم کو اس کے رب نے چندباتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ (ابراہیم نے) عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی ۔فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذِ ابْتَلٰى: اور جب آزمایا۔} یہود و نصاریٰ اور مشرکینِ عرب سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فضل وشرف کے معترف اور آپ کی نسل میں ہونے پر فخر کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وہ حالات بیان فرمائے ہیں جن سے سب پر اسلام کا قبو ل کرنا لازم ہوجاتا ہے کیونکہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر واجب کیں وہ اسلام کی خصوصیات میں سے ہیں۔ابتلاء آزمائش کو کہتے ہیں ،خدائی آزمائش یہ ہے کہ بندے پر کوئی پابندی لازم فرما کر دوسروں پر اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا اظہار کردیا جائے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آزمائش میں بہت سے شرعی احکام بھی تھے اور راہِ خدا میں آپ کی ہجرت، بیوی بچوں کا بیابان میں تنہا چھوڑنا، فرزند کی قربانی وغیرہ سب شامل ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۱ / ۸۵-۸۶)
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام امتحانوں میں پورا اترے اور اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو لوگوں کا پیشوا بنادیا،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خلیلُ اللہ قرار پائے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ ہوئے، تمام دینوں میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہوا، سب کے نزدیک محبوب ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام اور تکالیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور جو اِن آزمائشوں میں پورا اترتا ہے وہ دنیا و آخرت کے انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔
{لِلنَّاسِ اِمَامًا: لوگوں کیلئے پیشوا۔}یہاں امامت سے مراد نبوت نہیں۔ کیونکہ نبوت تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ تب ہی تو آپ کا امتحان لیا گیا بلکہ اس امامت سے مراددینی پیشوائی ہے جیسا کہ جلالین میں اس کی تفسیر’’قُدْوَۃً فِی الدِّینْ یعنی دین میں پیشوائی ‘‘سے کی گئی ہے۔(جلالین مع جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۱ / ۱۵۳)
{وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ: اور میری اولاد میں سے۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو امامت کا مقام عطا فرمایا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کیلئے بھی عرض کیا۔ اس پر فرمایا گیا کہ آپ کی اولاد میں جو ظالم ہوں گے وہ امامت کا منصب نہ پائیں گے۔ کافر ہوئے تو دینی پیشوائی نہ ملے گی اور فاسق ہوئے تو نبوت نہ ملے گی اور قابل ہوئے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے جسے جو چاہے گا عطا فرمائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر مسلمانوں کا پیشوا نہیں ہوسکتا اور مسلمانوں کو اس کی اتباع جائز نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے لئے دعاء خیر کرنا سنت ِ انبیاء ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا فرمائے تو اولاد کیلئے بھی اس کی خواہش کرنی چاہیے۔
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(125)
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور (اے مسلمانو!)تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف رکھو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ: اور جب ہم نے اس گھر کو بنایا۔} بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل ہے۔ ’’مَثَابَةً‘‘ سے مراد بار بار لوٹنے کی جگہ ہے۔ یہاں مسلمان بار بار لوٹ کر حج و عمرہ وزیارت کیلئے جاتے ہیں اور جو نہ جاسکے وہ اس کی تمنا ضرور کرتے ہیں اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہو کر عذاب سے مامون ہوجاتا ہے۔ حرم کو حرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، ظلم اور شکار حرام و ممنوع ہے، اگر کوئی مجرم بھی داخل ہوجائے تو وہاں اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۱ / ۸۷، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ص۷۷، ملتقطاً)
{وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى: اورتم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔} مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی اور اس میں آپ کے قدم مبارک کا نشان تھا، اسے نماز کا مقام بنانا مستحب ہے ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نماز سے طواف کے بعد پڑھی جانے والی دو واجب رکعتیں مراد ہیں۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۱ / ۳۹۸-۳۹۹)
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت کی برکت:
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر کو نبی کی قدم بوسی حاصل ہو جائے وہ عظمت والا ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم توحید کے منافی نہیں کیونکہ مقام ابراہیم کا احترام تو عین نماز میں ہوتا ہے، لہٰذا عین نماز میں حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم نماز کو ناقص نہ کرے گی بلکہ کامل بنائے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پتھر نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدم لگنے سے عظمت والا ہو گیا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت اورصحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت کا کیا کہنا۔ اس سے تبرکات کی تعظیم کا بھی ثبوت ملتا ہے۔بزرگانِ دین کے آثار و تبرکات کی تعظیم اور ان کی زیارت کے سلسلے میں تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود رسالہ ’’بَدْرُ الْاَنْوَارْ فِیْ آدَابِ الآثَارْ(تبرکات کے بارے میں مفید رسالہ)‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
{اَنْ طَهِّرَا: کہ پاک صاف رکھو۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیتُ اللہ شریف کو پاک و صاف رکھنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور مسجد ِحرام شریف کو حاجیوں ، عمرہ کرنے والوں ، طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کیلئے پاک وصاف رکھا جائے، یہی حکم مسجدوں کو پاک و صاف رکھنے کا ہے، وہاں گندگی اور بدبودار چیز نہ لائی جائے، یہ سنت ِانبیاء ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ اعتکاف عبادت ہے اور گزشتہ امتوں میں رائج تھا نیز پچھلی امتوں کی نمازوں میں رکوع سجود دونوں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں کا متولی ہونا چاہیے اور متولی صالح انسان اور مسجد کی صحیح خدمت کرنے والاہو۔
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(126)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب اس شہر کو امن والا بنا دے اور اس میں رہنے والے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں انہیں مختلف پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (اللہ نے) فرمایا: اور جو کافر ہوتو میں اسے بھی تھوڑی سی مدت کے لئے نفع اٹھانے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف مجبور کردوں گا اور وہ پلٹنے کی بہت بری جگہ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ: اور جب ابراہیم نے کہا۔}حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تعمیرِکعبہ کے بعد متعدد دعائیں مانگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیکی کر کے قبولیت کی دعا کرنا سنَّتِ خلیل ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اولاد کیلئے امامت مانگی تھی تو فرمایا گیا کہ ظالموں کو نہیں ملے گی اس لیے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بعد میں جب یہ دعا کی تو اس میں مومنین کو خاص فرمایاکہ مومنوں کو رزق دے اور یہی ادب کا تقاضا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رزق سب کو دیا جائے گا مومن کو بھی اور کافر کو بھی لیکن کافر کا رزق تھوڑا ہے یعنی صرف دنیوی زندگی میں اسے ملے گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خانہ کعبہ کیلئے رزق کی فراوانی کی دعا مانگی تھی، اُس دعا کی قبولیت ہرشخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں بکثرت ملتے ہیں۔
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(127)
ترجمہ:
اور جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں بلند کررہے تھے(یہ دعا کرتے ہوئے) اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ یَرْفَعُ: اور جب بلند کررہے تھے۔} پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے رکھی اور طوفانِ نوح کے بعد پھر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمایا۔ یہ تعمیر خاص آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستِ مبارک سے ہوئی، اس کے لیے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میسر ہوئی، دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یارب !عَزَّوَجَلَّ،ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بخاری کی شرح میں تحریر فرمایا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیردس مرتبہ کی گئی۔(ارشاد الساری، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانھا۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۳، تحت الحدیث: ۱۵۸۲)
اسے نقل کرنے کے بعد علامہ سلیمان جمل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ۱۰۳۹ ہجری کے بعد بھی بعض بادشاہوں نے تعمیرِکعبہ کی جیساکہ اسے بعض تاریخ دانوں نے نقل کیا ہے ۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۱ / ۱۶۰)
مسجد تعمیر کرنا اعلیٰ عبادت ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجدوں کی تعمیر نہایت اعلیٰ عبادت اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مسجد ِ نبوی شریف کی تعمیر میں بذاتِ خود حصہ لیا تھا۔(بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ، ۲ / ۵۹۵، الحدیث: ۳۹۰۶)
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(128)
ترجمہ:
اے ہمارے رب:اورہم دونوں کو اپنا فرمانبردار رکھ اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت بنا جو تیری فرمانبردار ہو اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ: اور ہمیں فرمانبردار رکھ۔} سبحان اللہ ،وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،آپ کی طرف سے توبہ تواضع یعنی عاجزی ہے اور اللہ والوں کے لیے تعلیم ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کا قرب قبولیت کا مقام ہے ،یہاں دعا اور توبہ کرناسنت ِابراہیمی ہے۔
{وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا: اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا۔} معلوم ہوا کہ عبادت کے طریقے سیکھنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔اس کیلئے دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی۔ بغیر طریقہ سیکھے عبادت کرنا اکثر عبادت کو ضائع کرتا ہے۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ہر مسلمان پر علم سیکھنا فرض ہے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴) فرض عبادت کا طریقہ و مسائل سیکھنا بھی اسی میں داخل ہے۔
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(129)
ترجمہ:
اے ہمارے رب! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا وَ ابْعَثْ: اے ہمارے رب !اوربھیج۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی کہ یارب!عَزَّوَجَلَّ، اپنے حبیب ،نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں بزرگوں کی نسل میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھاحالانکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خمیر تیارہورہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں ،میں دعائے ابراہیم ہوں ،بشارت عیسیٰ ہوں ، اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لیے ایک بلند نورظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان اور محلات ان کے لیے روشن ہوگئے۔(شرح السنۃ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۱۳، الحدیث: ۳۵۲۰)
اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سید الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۱) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ
{وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے ۔} آیت میں کتاب سے مراد قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔اور حکمت میں سنت، احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومن جماعت میں ، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے، صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا فرمائی، ان کے نفسوں کا تزکیہ کیا، اسرارِ الہٰی پر مطلع کیا ۔
آیت’’وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بھی شان معلوم ہوئی کہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جن کو کتاب وحکمت سکھائی اور جنہیں پاک و صاف کیا ان کے اولین مصداق صحابہ ہی تو تھے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پورا قرآن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لئے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ بھیجے جاتے۔ جو کہے کہ قرآن سمجھنا بہت آسان ہے اسے کسی بڑے عالم کے پاس لے جائیں ، پندرہ منٹ میں حال ظاہر ہوجائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث کی بھی ضرورت ہے۔ ’’اَلْحِكْمَةَ‘‘ کا ایک معنیٰ سنت بھی کیا گیاہے جیسا کہ مشہور مفسرحضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حکمت سنت ہی ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۲)
{وَ یُزَكِّیْهِمْ: اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔} ستھرا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ نفس کو گناہوں کی آلودگیوں ، شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف کرکے آئینہ دل کو تجلیات و انوارِ الہٰیہ دیکھنے کے قابل کردیں تاکہ اسرارِ الہٰی اور انوارِ باری تعالیٰ اس میں جلوہ گر ہوسکیں۔ تمام غوث، قطب، ابدال،اولیاء ، اصفیاء، صوفیاء، فقہاء و علماء کا تزکیہ اِسی مقدس بارگاہ سے ہوتا ہے۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں.
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗؕ-وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(130)
ترجمہ:
اور ابراہیم کے دین سے وہی منہ پھیرے گا جس نے خود کواحمق بنا رکھا ہو اور بیشک ہم نے اسے دنیا میں چن لیا اور بیشک وہ آخرت میں ہمارا خاص قرب پانے والوں میں سے ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّرْغَبُ: اور جو منہ پھیرے۔} علماء یہود میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام لانے کے بعد اپنے دو بھتیجوں مہاجر و سلمہ کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ میں اولادِ اسمٰعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا جن کا نام احمد ہوگا ،جو اُن پر ایمان لائے گا وہ کامیاب ہے اور جو ایمان نہ لائے گا وہ ملعون ہے۔یہ سن کر سلمہ ایمان لے آئے اور مہاجر نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ظاہر کردیا کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خود اس رسول معظم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی دعا فرمائی تو جواُن کے دین سے پھرے وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے پھرا۔ اس میں یہود و نصاریٰ اور مشرکینِ عرب پر اشارۃً کلام ہے جو اپنے آپ کوفخر کے طور پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب کرتے تھے کہ جب یہ لوگ دین ابراہیمی سے پھر گئے تو پھر ان کی عظمت و شرافت کہاں رہی۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۱ / ۱۶۱-۱۶۲)
یہ بھی معلوم ہوا کہ سچے دین کی پہچان یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کا دین ہو، یہ حضرات ہدایت کی دلیل ہیں ، اللہ تعالیٰ نے حقانیت اسلام کی دلیل یہاں دی کہ وہ ملت ابراہیمی ہے۔
{اِصْطَفَیْنٰهُ: ہم نے اسے چن لیا۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رسالت و خُلت کیلئے چن لیا یعنی آپ کواپنا رسول اور خلیل بنایا۔
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْۙ-قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(131)وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ-یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَﭤ(132)
ترجمہ:
یاد کروجب اس کے رب نے اسے فرمایا:فرمانبرداری کر، تو اس نے عرض کی: میں نے فرمانبرداری کی اس کی جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اورابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اسی دین کی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو!بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیاہے توتم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَصّٰى: اور وصیت کی۔} حضرت ابراہیم اورحضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اولاد کو دینِ حق پر ثابت قدمی کی وصیت فرمائی۔
اولاد کو صحیح عقائد اور نیک اعمال کی وصیت کرنی چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ والدین کوصرف مال کے متعلق ہی وصیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اولاد کو عقائد ِ صحیحہ، اعمالِ صالحہ، دین کی عظمت، دین پر استقامت، نیکیوں پر مداومت اور گناہوں سے دور رہنے کی وصیت بھی کرنی چاہیے۔ اولاد کو دین سکھانا اور ان کی صحیح تربیت کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جیساکہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں اچھے ادب سکھانے کی کوشش کرو۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بر الوالد والاحسان الی البنات، ۴ / ۱۸۹-۱۹۰، الحدیث: ۳۶۷۱)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک شخص سے فرمایا:’’اپنے بچے کی اچھی تربیت کرو کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کی کیسی تربیت کی اور تم نے اسے کیا سکھایا۔(شعب الایمان، الستون من شعب الایمان وہو باب فی حقوق الاولاد والاھلین، ۶ / ۴۰۰، الحدیث: ۸۶۶۲)
حضرت ایوب بن موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے اور وہ اپنے داد اسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، ۳ / ۳۸۳، الحدیث: ۱۹۵۹)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار،متقی،پرہیزگار بنانا ہے۔اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے ۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں انہیں دیندار بنا کر جائیں جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الفصل الثانی، ۶ / ۴۲۰، تحت الحدیث: ۴۷۵۶)
نیزوفات کے وقت اپنی اولاد کو صحیح عقائد اور نیک اعمال کی وصیت کرنا ہمارے بزرگان دین کاطریقہ رہا ہے، چنانچہ حضرت عطا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں صحابی رسول حضرت ولید بن عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ملا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے والد نے وصال کے وقت کیا وصیت فرمائی؟حضرت ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:
’’(میرے والد نے) مجھے بلا کر فرمایا:’’اے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یہ بات جان لے کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اس وقت تک ڈرنے والا نہیں بنے گا جب تک اللہ تعالیٰ پر اور ہر خیر و شر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہونے پر ایمان نہ لائے گا اگر تو اس کے خلاف پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا۔میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اورپھر فرمایا:’’لکھ۔قلم نے عرض کی: کیا لکھوں ؟ارشاد فرمایا:’’تقدیر کو لکھ جو ہو چکا اورجو ابد تک ہو گا۔(ترمذی، کتاب القدر، ۱۷- باب، ۴ / ۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)
جب حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :مجھے کچھ وصیت کیجئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، زیادہ وقت اپنے گھر میں رہو، اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔(شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان وہو باب فی الخوف من اللہ تعالی، ۱ / ۵۰۳، الحدیث: ۸۴۴)
حضرت علقمہ عطاردی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے بیٹے! جب تمہیں لوگوں کی مجلس اختیار کرنا پڑے تو ایسے آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو ا س کی خدمت کرے تو وہ تیری حفاظت کرے،اگر تو ا س کی مجلس اختیار کرے تو وہ تجھے زینت دے،اگر تجھے کوئی مشقت پیش آئے تو وہ برداشت کرے، اس آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو بھلائی کے ساتھ اپناہاتھ پھیلائے تو وہ بھی اسے پھیلائے،اگر وہ تم میں کوئی اچھائی دیکھے تو اسے شمار کرے اور اگر برائی دیکھے تو اسے روکے۔اس آدمی سے دوستی اختیار کر کہ جب تو ا س سے مانگے تو وہ تجھے دے اور اگر خاموش رہے تو خود بخود دے،اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو وہ غمخواری کرے۔اُس آدمی کی صحبت اختیار کرو کہ جب تم بات کہو تو وہ تمہاری بات کی تصدیق کرے ،اگر تم کسی کام کا ارادہ کرو تو وہ اچھا مشورہ دے اور اگر تم دونوں میں اختلاف ہو جائے تو وہ تمہاری بات کو ترجیح دے۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۱۴)
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُۙ-اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْؕ-قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖ-ۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(133)
ترجمہ:
۔(اے یہودیو!)کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے وصال کا وقت آیا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا: (اے بیٹو!) میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ: کیا تم موجود تھے؟} یہ آیت یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی، انہوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی وفات کے روز اپنی اولاد کو یہودی رہنے کی وصیت کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہتان کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۱ / ۹۳)
آیت کے معنی یہ ہیں کہ اے بنی اسرائیل !کیا تمہارے پہلے لوگ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آخری وقت ان کے پاس موجود تھے جس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر ان سے اسلام و توحید کا اقرا رلیا تھا اور یہ اقرار لیا تھا جو آیت میں مذکور ہے۔
{وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ: اور تمہارے باپ دادا کے معبود۔} حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء یعنی باپوں میں داخل کیا حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد نہ تھے۔ یہ اس لیے ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے ذکر فرمانا دووجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے چودہ سال بڑے ہیں دوسرا اس لیے کہ آپ سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباء میں سے ہیں۔
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ-وَ لَا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(134)
ترجمہ
وہ ایک امت ہے جو گزرچکی ہے ۔ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور تم سے اُن کے کاموں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{تِلْكَ اُمَّةٌ: وہ ایک امت ہے۔} جب یہودی دلائل میں عاجز ہو جاتے تو آخر کار کہہ دیتے تھے کہ اگر ہمارے عقائد و اعمال غلط بھی ہوئے تو ہمارے باپ داداؤں کے اعمال ہمارے کام آجائیں گے اور ان سے ہماری نجات ہو جائے گی، ان کی تردید میں یہ آیت آئی کہ وہ سب گزرچکے ۔ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ تمہیں ان کے اعمال کام نہ آئیں گے۔اس سے معلوم ہوا کہ آخرت میں اپنے اعمال کام آئیں گے اور اگر عقیدہ خراب ہو تو کسی کو دوسرے کے عمل سے فائدہ نہ ہوگا۔
وَ قَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْاؕ-قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(135)
ترجمہ:
اور اہلِ کتاب نے کہا: یہودی یا نصرانی ہوجاؤہدایت پاجاؤگے۔ تم فرماؤ:(ہرگز نہیں ) بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین اختیار کرتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{كُوْنُوْا: ہوجاؤ۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا کہ یہ آیت مدینہ کے یہودی سرداروں اور نجران کے عیسائیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔ یہودیوں نے تو مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سب سے افضل ہیں اور توریت تمام کتابوں سے افضل ہے اور یہودی دین تمام ادیان سے اعلیٰ ہے، اس کے ساتھ انہوں نے حضرت سید ِکائنات محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انجیل شریف اور قرآن شریف کے ساتھ کفر کرکے مسلمانوں سے کہا تھا کہ یہودی بن جاؤ اسی طرح نصرانیوں نے بھی اپنے ہی دین کو حق بتا کر مسلمانوں سےنصرانی ہونے کو کہا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۵۳۵-۵۳۶)
{بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ: بلکہ ابراہیم کا دین۔}ارشاد فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ یہودیوں اور عیسائیوں کو جواب دے دیں کہ جب کسی کی پیروی ضروری ہے تو ہم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کی پیروی کرتے ہیں جو کہ تمام فضائل کا جامع ہے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔اس میں اشارۃً یہودیوں ،عیسائیوں اور ان تمام لوگوں کا رد کر دیا گیا جو مشرک ہونے کے باوجود ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیمی بھی کہتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں حالانکہ ابراہیمی وہ ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر ہو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مشرک نہ تھے جبکہ تم مشرک ہو تو ابراہیمی کیسے ہو گئے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱ / ۹۴، ملخصاً)
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو رب تعالیٰ نے وہ مقبولیت عامہ بخشی ہے کہ ہر دین والا ان کی نسبت پر فخر کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ صرف بڑوں کی اولاد ہونا کافی نہیں جب تک بڑوں کے سے کام نہ کرے۔
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(136)
ترجمہ:
۔(اے مسلمانو!) تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسٰی اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہوئے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قُوْلُوْا: تم کہو۔}یہاں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے متعلق چند باتیں یاد رکھیں :
(1)…تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، جو کسی ایک نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا ایک کتاب کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے، البتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعداد مقرر نہ کی جائے کیونکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعداد کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں۔
(2)… انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درجوں میں فرق ہے جیسا کہ تیسرے پارے کے شروع میں ہے مگر ان کی نبوت میں فرق نہیں۔
(3)…انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔
(4)… یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے نبی نبوت میں یکساں ہیں ،کوئی عارضی، ظلی یا بروزی نبی نہیں جیسے قادیانی کہتے ہیں بلکہ سب اصلی نبی ہیں۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ-فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُﭤ(137)
ترجمہ: پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ صرف مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ تو اے حبیب!عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کافی ہوگا اور وہی سننے والا جاننے والاہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ: تمہارے ایمان کی طرح۔} یہودیوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایمان بارگاہِ الہٰی میں معتبر اور دوسروں کیلئے مثال ہے۔
{فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ: تو عنقریب اللہ تمہیں ان کی طرف سے کفایت فرمائے گا۔} یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ ہے کہ وہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غلبہ عطا فرمائے گا اور اس میں غیب کی خبربھی ہے کہ آئندہ حاصل ہونے والی فتوحات کا پہلے سے اظہار فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ذمہ پورا ہوا اور یہ غیبی خبر صادق ہو کر رہی، کفار کے حسد و دشمنی اور ان کی مکاریوں سے حضورپر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کوئی ضرر نہ پہنچا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فتح نصیب ہوئی، بنی قُرَیْظَہ قتل ہوئے جبکہ بنی نَضِیْر جلا وطن کئے گئے اوریہود ونصاریٰ پر جزیہ مقرر ہوا۔
صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ(138)
ترجمہ:
ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھالیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{صِبْغَةَ اللّٰهِ: اللہ کا رنگ۔}جس طرح رنگ کپڑے کے ظاہر وباطن میں سرایت کرجاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے سچے عقائد ہمارے رگ و پے میں سما گئے ہیں ،ہمارا ظاہر و باطن اس کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ہمارا رنگ ظاہری رنگ نہیں جو کچھ فائدہ نہ دے بلکہ یہ نفوس کو پاک کرتا ہے۔ ظاہر میں اس کے آثار ہمارے اعمال سے نمو دار ہوتے ہیں۔ عیسائیوں کا طریقہ تھا کہ جب اپنے دین میں کسی کو داخل کرتے یا ان کے یہا ں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں زرد رنگ ڈال کر اس میں اس شخص یا بچہ کو غوطہ دیتے اور کہتے کہ اب یہ سچا عیسائی ہوگیا ۔اس کا اس آیت میں رد فرمایا کہ یہ ظاہری رنگ کسی کام کا نہیں۔
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْۚ-وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْۚ-وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ(139)
ترجمہ:
تم فرماؤ:کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی اور ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور ہم خالص اسی کے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَتُحَآجُّوْنَنَا: کیا تم ہم سے جھگڑتے ہو۔} یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم پہلی کتاب والے ہیں ، ہمارا قبلہ پرانا ہے، ہمارا دین قدیم ہے، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہم میں سے ہوئے ہیں لہٰذا اگر محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی ہوتے تو ہم میں سے ہی ہوتے ۔اس پر یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی، (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۱ / ۹۶، روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۳۹، ۱ / ۵۴۲، ملتقطاً)
اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے ان سے فرمایا گیا کہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب اللہ تعالیٰ ہے ،اسے اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نبی بنائے، عرب میں سے ہو یا دوسروں میں سے۔
{وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ: اور ہم خالص اسی کے ہیں۔}یعنی ہم کسی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں کرتے اور عبادت و طاعت خالص اسی کے لئے کرتے ہیں تو عزت کے مستحق ہیں۔نیز خالص اللہ تعالیٰ کا وہی ہوتا ہے جو اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہو جائے اورجو رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ہو گیا وہ اللہ تعالیٰ کا ہو گیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ(النساء: ۸۰)
ترجمۂ کنزالعرفان: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
جو کہ اس در کا ہواخلقِ خدا اس کی ہوئی
جو کہ اس در سے پھرا اللہ ہی سے پھر گیا
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطَ كَانُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰىؕ-قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُؕ-وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(140)
ترجمہ:
۔(اے اہلِ کتاب!)کیاتم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے۔ تم فرماؤ: کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جس کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ تَقُوْلُوْنَ: کیا تم کہتے ہو۔} یہودی کہتے تھے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہودی تھے اورعیسائی کہتے تھے کہ عیسائی تھے ان کی تردید میں یہ آیت اتری کہ یہودیت و عیسائیت تو ان کے بعد دنیا میں آئیں وہ کیسے اس دین پر ہوئے؟
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟}اللہ تعالیٰ کی گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے اور یہ یہودیوں کا حال ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی شہادتیں چھپائیں جو توریت شریف میں مذکور تھیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے نبی ہیں اور ان کے یہ اوصاف ہیں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسلمان ہیں اورد ینِ مقبول اسلام ہے نہ کہ یہودیت و نصرانیت۔ اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں لیکن حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کی آیتوں کو چھپاتے ہیں ، اور انہیں عوام کے سامنے بیان نہیں کرتے۔
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ-وَ لَا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(141)
ترجمہ:
ایک امت ہے جو گزرچکی ہے ۔ان کے اعمال ان کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں اور تم سے اُن کے کاموں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
کنزالعرفانوہ
تفسیر: صراط الجنان
{تِلْكَ اُمَّةٌ:وہ ایک امت ہے۔}اس آیت میں یہودیوں کو ایک بار پھر تنبیہ کی گئی کہ تم اپنے اسلاف کی فضیلت پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ ہر ایک سے اسی کے اعمال کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۱ / ۹۶)
اس میں ان مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو اپنے ماں باپ یا پیرو مرشد وغیرہ کے نیک اعمال پر بھروسہ کر کے خود نیکیوں سے دور اور گناہوں میں مصروف ہیں۔
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَاؕ-قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُؕ-یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(142)
ترجمہ: اب بیوقوف لوگ کہیں گے ،اِن مسلمانوں کو اِن کے اُس قبلے سے کس نے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے ؟تم فرمادو: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:اب بیوقوف لوگ کہیں گے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو اس پر انہوں نے اعتراض کیا کیونکہ یہ تبدیلی انہیں ناگوار تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مکہ کے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب قبلہ تبدیل ہوا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنے دین کے بارے میں تَرَدُّد کا شکار ہیں اور ابھی تک ان کے دل میں اپنی ولادت گاہ یعنی مکہ مکرمہ کا اشتیاق موجود ہے ،لہٰذاجب انہوں نے تمہارے شہر کی طرف توجہ کر لی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے دین کی طرف بھی لوٹ آئیں۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کیا تھا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین ، منافقین اور یہودی تینوں کے بارے میں ہوسکتی ہے کیونکہ قبلہ کی تبدیلی پر طعن و تشنیع کرنے میں سب شریک تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۱ / ۹۶)
اس آیت ِ مبارکہ میں غیب کی خبر بھی ہے کہ پہلے سے فرمادیا گیا کہ بیوقوف و جاہل لوگ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کریں گے ،چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا کہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔
{اَلسُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ:بیوقوف لوگ ۔}قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو بے وقوف اس لیے کہا گیا کہ وہ ایک واضح بات پراعتراض کررہے تھے کیونکہ سابقہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خصائص میں آپ کا لقب’’ ذُوالْقِبْلَتَیْنْ‘‘ یعنی دو قبلوں والا ہونا بھی ذکر فرمایا تھا اور قبلہ کی تبدیلی تو اس بات کی دلیل تھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی پہلے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خبر دیتے آئے ہیں تو صداقت کی دلیل کو تسلیم کرنے کی بجائے اسی پر اعتراض کرنا حماقت ہے اس لئے انہیں بے وقوف کہاگیا ،جیسے کوئی دھوپ کے روشن ہونے کو سورج کے طلوع ہونے کی دلیل بنانے کی بجائے ، طلوع نہ ہونے کی دلیل بنائے تو اسے بیوقوف کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
دینی مسائل پر بے جا اعتراضات کرنے والے بیوقوف ہیں :
اس آیت میں بیت المقدس کے بعد خانہ کعبہ کو قبلہ بنائے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو بیوقوف کہا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دینی مسائل کی حکمتیں نہ سمجھ سکے اور ان پر بے جا اعتراض کرے وہ احمق اور بیوقوف ہے اگرچہ دنیوی کاموں میں وہ کتنا ہی چالاک ہو۔ آج کل بھی ایسے بیوقوفوں کی کمی نہیں ہے چنانچہ موجودہ دور میں بھی مسلمان کہلا کر شراب، سود، پردے، حیا ، اسلامی نظامِ وراثت اور حدود ِ اسلام پر اعتراضات کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ایسے افراد قرآن مجید کے حکم کے مطابق بیوقوف ہیں۔
{مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا:اِن مسلمانوں کو اِن کے اُس قبلے سے کس نے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟}قبلہ اس جہت کو کہتے ہیں جس کی طرف انسان منہ کرتا ہے اور چونکہ مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کاحکم دیا گیا ہے اس لئے خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے۔
خانہ کعبہ اور بیت المقدس کن زمانوں میں قبلہ بنے:
یاد رہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک کعبہ ہی قبلہ رہا، پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریباً سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجد ِقِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا۔ نیزیہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے، بیت المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا ۔
{قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ: تم فرمادو: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔} قبلہ پر اعتراض کرنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی جواب دیا کہ انہیں کہہ دو :مشرق و مغرب سب اللہ تعالیٰ کاہے، اسے اختیار ہے جسے چاہے قبلہ بنائے، کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ بندے کا کام فرمانبرداری کرناہے ۔ گویا فرمایا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دو : ہم مشرق و مغرب کے پجاری نہیں کہ سمتوں پر اڑے رہیں بلکہ ہم تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے والے ہیں ، وہ جدھر منہ کرنے کا ہمیں حکم فرمائے ہم ادھر ہی منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے۔
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(143)
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں اور اے حبیب! تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بیشک وہ لوگ جنہیں اللہ نے ہدایت دی تھی ان کے علاوہ (لوگوں ) پریہ بہت بھاری تھی اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے بیشک اللہ لوگوں پر بہت مہربان، رحم والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ۔} یعنی اے مسلمانو! جس طرح ہم نے تمہیں ہدایت دی اور خانہ کعبہ کو تمہارا قبلہ بنایا اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت زمانہ کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے آگے یعنی افضل ہے۔ افضل کیلئے یہاں ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی میں ’’ بہترین ‘‘کیلئے بھی ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
{لِتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ: تاکہ تم گواہ ہوجاؤ۔} مسلمان دنیا و آخرت میں گواہ ہیں ،دنیا میں تو اس طرح کہ مسلمان کی گواہی مومن و کافر سب کے بارے میں شرعاً معتبر ہے اور کافر کی گواہی مسلمان کے خلاف معتبر نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے مُردوں کے حق میں بھی اس امت کی گواہی معتبر ہے اوررحمت و عذاب کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ واجب ہوگئی ۔پھر دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس کی برائی بیان کی۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’واجب ہوگئی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا چیز واجب ہو گئی ؟ارشاد فرمایا: پہلے جنازے کی تم نے تعریف کی ،اُس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی بیان کی، اُس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت، ۱ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۷)
اورآخرت میں اس امت کی گواہی یہ ہے کہ جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے او راحکام پہنچانے والے نہیں آئے؟ تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ کوئی نہیں آیا۔ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا جائے گا تووہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ، ہم نے انہیں تبلیغ کی ہے ۔ اس بات پر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کافروں پرحجت قائم کرنے کیلئے دلیل طلب کی جائے گی، وہ عرض کریں گے کہ امت ِمحمدِیَّہ ہماری گواہ ہے۔ چنانچہ یہ امت پیغمبروں کے حق میں گواہی دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی۔ اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے، امت محمدیہ کو کیا معلوم؟ یہ توہم سے بعدمیں آئے تھے۔ چنانچہ امت محمدیہ سے دریافت فرمایا جائے گاکہ’’ تم کیسے جانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے، یارب! عَزَّوَجَلَّ،تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھیجا ،قرآن پاک نازل فرمایا، ان کے ذریعے سے ہم قطعی ویقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضراتِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کامل طریقے سے فرضِ تبلیغ ادا کیا، پھر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آپ کی امت کے متعلق دریافت فرمایا جائے گا توحضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی تصدیق فرمائیں گے۔(بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۳۸)
زبان کی احتیاط نہ کرنے کا نقصان:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام گواہیاں امت کے صالحین اور اہلِ صدق حضرات کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لیے زبان کی نگہداشت شرط ہے ،جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بے جا خلاف ِشرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحیح حدیثوں کے مطابق روزِ قیامت نہ وہ شفاعت کریں گے اور نہ وہ گواہ ہوں گے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغیرہا، ص ۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
{وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا: رسول تم پر گواہ ہوں گے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کے گناہ معلوم ہیں ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان کی حقیقت،اعمال، نیکیاں ، برائیاں ،اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۲۴۸)
ایسا ہی کلام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تفسیر ’’فَتْحُ الْعَزِیْز‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
یاد رہے کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے:
یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی سب سے بڑی دلیل حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ،لہٰذا حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً: صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا بعدوالوں کے لیے جیسے حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے۔
{لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ : تاکہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کی ایک یہ حکمت ارشاد ہوئی کہ اس سے مومن و کافر میں فرق و امتیاز ہوجائے گا کہ کون حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم پر قبلہ تبدیل کرتا ہے اور کون آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرتا ہے۔ چنانچہ قبلہ کی تبدیلی پر بہت سے کمزور ایمان والے اسلام سے پھر گئے، منافقین نے اسلام پر اعتراض شروع کر دئیے جبکہ پختہ ایمان والے اسلام پر قائم رہے۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۹۰)
{وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً : اگرچہ یہ تبدیلی بڑی گراں ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کو کاملُ الایمان لوگوں نے تو بڑی خوشدلی سے قبول کیا لیکن منافقوں پر یہ تبدیلی بڑی گراں گزری۔
منافقت کی علامت:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہونے کے بعد قبول کرنے سے دل میں تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ مرض بڑی شدت اختیار کئے ہوئے ہے اور اسی مرض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ان کے لئے بہت دشوار ہو چکا ہے حالانکہ کامل مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم معلوم ہو جائے تو وہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اوراپنے نفس سے اٹھنے والی وہ آواز وہیں دبا دے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے معاملے میں اسے روک رہی ہو یا ا س کے دل میں تنگی پیدا کر رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔
{وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے ۔} قبلہ کی تبدیلی یہودیوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی اور یہ طرح طرح سے مسلمانوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہے تھے،چنانچہ کچھ یہودیوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں مسلمانوں کے سامنے چند اعتراضات کئے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وفات پائی ان کی نمازوں کے درست ہونے پر مسلمانوں سے دلیل مانگی تو ان کے رشتہ داروں نے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا کہ وہ نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراِنہیں اطمینان دلایا گیا کہ ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں ، ان پر انہیں ثواب ملے گا۔یاد رہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایمان سے مراد نماز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۹۸، ملخصاً)
اصل الاصول چیز نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ہے:
قبلہ کی تبدیلی سے پہلے مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جتنی نمازیں پڑھی تھیں انہیں صحیح قرار دیا گیا، کیونکہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ بھی اتباعِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہی تھیں اور اب جوخانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں یہ بھی اطاعت ِ رسول میں پڑھتے ہیں لہٰذا ان سب کی نمازیں درست ہیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ بھی مردود ہے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھے وہ بھی مردود ہے کہ اصلُ الاصول چیز تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع ہے۔ اسی کو فرمایا:
لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تاکہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ثابت ہو اکہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
نماز کی اہمیت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کی بہت اہمیت ہے کہ قرآن میں اسے ایمان فرمایا گیا ہے کیونکہ اسے اداکرنا اور باجماعت پڑھنا کامل ایمان کی دلیل ہے۔حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کفرا ور ایمان کے درمیان فرق نما زکا چھوڑنا ہے۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۲۷)
حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد نماز ہی ہے،جس نے اسے چھوڑا تو ا س نے کفر کیا۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۳۰)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کی نشانی نماز ہے،تو جس نے نماز کے لئے دل کو فارغ کیا اور نماز کے تمام ارکان و شرائط،اس کے وقت اور اس کی سنتوں کے ساتھ اس پر مداومت کی تو وہ(کامل) مؤمن ہے۔(کنز العمال، حرف الصاد، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الاول، ۴ / ۱۱۳، الجزء السابع، الحدیث: ۱۸۸۶۶)
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ(144)
ترجمہ:
ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف باربار اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے تو ابھی اپناچہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو اور بیشک وہ لوگ جنہیں کتاب عطا کی گئی ہے وہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے اعمال سے بے خبر نہیں۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ: بیشک ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف باربار اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔} جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں۔ البتہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیاجائے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایاجانا حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوناپسند تھا بلکہ ا س کی ایک وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے علاوہ کثیر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاقبلہ تھا اور ایک وجہ یہ تھی بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے یہودی فخر و غرور میں مبتلاء ہو گئے اور یوں کہنے لگے تھے کہ مسلمان ہمارے دین کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس امید میں باربار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے، اس پر نماز کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خواہش اور خوشی کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے، مسلمانوں نے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا اورظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئیں۔
خدا چاہتا ہے رضائے محمد:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا بہت پسند ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضاکو پورا فرماتا ہے۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وجہ سے قبلہ تبدیل فرما یا اور اس آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں میری رضا ہے بلکہ یوں ارشاد فرمایا:
فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے۔
توگویا کہ ارشاد فرمایا: ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہر کوئی میری رضا کا طلبگار ہے اور میں دونوں جہاں میں تیری رضا چاہتا ہوں۔ (تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۸۲)
اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بلاشبہہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہیں اور بلاشبہہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوئی بات اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہیں فرماتے اور بلاشبہہ اللہ تعالیٰ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضاچاہتا ہے۔ (جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو) اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تابع فرمان تھے اور یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھی مگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا قلب اقدس یہ چاہتا تھا کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی مبارک کے لئے اپنا وہ حکم منسوخ فرمادیا اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جو چاہتے تھے قیامت تک کے لئے وہ ہی قبلہ مقرر فر مادیا، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضاجوئی ہے، ان میں سے جس کا انکار ہو گا تو وہ قرآن عظیم کا انکار ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کرتی ہیں ’’مَا اُرٰی رَبَّکَ اِلَّا یُسَارِعُ فِی ہَوَاکَ‘‘ میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھتی ہوں کہ وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب ترجی من تشاء منہن۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۳، الحدیث: ۴۷۸۸)
حدیثِ روز محشر میں ہے ،رب عَزَّ وَجَلَّ اولین وآخرین کو جمع کرکے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے فرمائے گا:’’کُلُّھُمْ یَطْلُبُوْنَ رِضَائِیْ وَاَنَااَطْلُبُ رِضَاکَ یَامُحَمَّدْ‘‘یہ سب میری رضاچاہتے ہیں اور اے محبوب! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔( فتاوی رضویہ،۱۴ / ۲۷۵-۲۷۶، ملخصاً)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
نیز جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے تا قیامت کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا،اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے آپ کی امت پر پچاس نمازوں کو کم کرکے پانچ فرض کی گئیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے بدر و حنین میں فرشتے اترے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے معراج کی سیر کرائی گئی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے امتیوں کے گناہ معاف ہوں گے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حوضِ کوثر عطا ہوا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خوشی کے لئے امتیوں کی نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے، پل صراط سے سلامتی سے گزریں گے اور جنت میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى (الضحی:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
تو جو چاہے تو ابھی میل میرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
اور فرماتے ہیں :
رضاؔ پل سے اب وجد کرتے گزریے
کہ ہے رَبِّ سَلِّمْ صَدائے محمد
{وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔}یعنی اے مسلمانو! تم زمین کے جس حصے میں بھی ہواور وہاں نماز پڑھنے لگو تو اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر لو۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۴)
استقبالِ قبلہ سے متعلق چند ضروری مسائل:
اس آیت میں مسلمانوں کو قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیاگیا، اس لئے یہاں نماز میں استقبالِ قبلہ سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جاتے ہیں :
(1) … نما زمیں کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا شرط ہے۔
(2)…جو شخص عین کعبہ کی سمت ِ خاص معلوم کر سکتا ہے،اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو جیسے مکہ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ مثلاً چھت پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں تو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے، جہت(کی طرف منہ کرنا) کافی نہیں اور جو شخص عین کعبہ کی سمت ِخاص معلوم نہیں کر سکتا اگرچہ وہ خاص مکہ معظمہ میں ہو اس کے لئے کعبہ کی جہت کی طرف منہ کرنا کافی ہے۔
(3) …کعبہ کی جہت کی طرف منہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ منہ کی سطح کا کوئی جز کعبہ کی سمت میں واقع ہو ۔
(4)…اگر کسی شخص کو کسی جگہ قبلہ کی شناخت نہ ہو ،نہ کوئی ایسا مسلمان ہو جو بتا دے،نہ وہاں مسجدیں محرابیں ہیں ،نہ چاند ، سورج، ستارے نکلے ہوں یا نکلے تو ہوں مگر اس کو اتنا علم نہیں کہ ان سے قبلہ کی سمت معلوم کر سکے،تو ایسے کے لئے حکم ہے کہ وہ سوچے اور جدھر قبلہ ہونا دل پر جمے ادھر ہی منہ کرے،اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔ (بہار شریعت، نماز کی شرطوں کا بیان، ۱ / ۴۸۷-۴۸۹)
مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت کے تیسرے حصے کا مطالعہ کریں۔
{لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ: وہ ضرور جانتے ہیں کہ یہ تبدیلی ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔} یعنی قبلہ کی اس تبدیلی کے بارے میں اہلِ کتاب جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کے سلسلہ میں یہ بھی مذکور تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھریں گے اور ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بشارتوں کے ساتھ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانی بتائی تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس اور کعبہ دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔
وَ لَىٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰیَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِـعٍ قِبْلَتَهُمْۚ-وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِـعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍؕ-وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِۙ-اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَﭥ(145)
ترجمہ:
اور اگر تم ان کتابیوں کے پاس ہر نشانی لے آ ؤ تو بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرو اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے تابع نہیں ہیں اور (اے سننے والے!) اگر تیرے پاس علم آجانے کے بعد تو ان کی خواہشوں پر چلا تو اس وقت تو ضرورزیادتی کرنے والاہوگا
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ اَتَیْتَ:اور اگر تم لے آؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جن اہل کتاب کے دلوں میں عناد اور سرکشی ہے ،آپ ان کے پاس قبلہ کی تبدیلی کے معاملے میں اپنی سچائی پر دلالت کرنے والی ہر نشانی لے آئیں تو بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے کیونکہ ان کا آپ کی پیروی نہ کرنا کسی شبہے کی وجہ سے نہیں جسے دلیل بیان کر کے زائل کیا جا سکے بلکہ وہ آپ سے عناد رکھنے اور حسد کرنے کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں حالانکہ وہ اپنی کتابوں میں موجود آپ کی یہ شان جانتے ہیں کہ (قبلہ کی تبدیلی کے معاملے میں ) آپ حق پر ہیں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۱ / ۲۵۱-۲۵۲، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۸۵، ملتقطاً)
حسد انسان کو حق سے اندھا کر دیتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ حسد بڑی خبیث شے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے آدمی حق سے اندھا ہوجاتا ہے اور جس کے سینہ میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا کینہ ہے وہ اس کے ہوتے ہوئے تو کبھی مرکر بھی ہدایت نہیں پاسکتا، ایسے شخص کوقرآن وحدیث ،معجزات اورعقلی و نقلی دلائل کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ دل کا دروازہ کھلتا ہی تب ہے جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بارے میں دل صاف ہو اور جس کا دل ہی ا س چیز سے صاف نہ ہو تو اسے ہدایت کس طرح مل سکتی ہے۔
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِـعٍ قِبْلَتَهُمْ: اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرو۔}اس آیت میں یہودیوں کے قبلے کی پیروی سے منع کیا گیا ،اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اب قبلہ منسوخ نہ ہوگا لہٰذا اہل کتاب کو اب یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان میں سے کسی کے قبلہ کی طرف رخ کریں گے۔
{وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِـعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ:اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے تابع نہیں ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اہل کتاب آپ کی مخالفت کرنے میں تو متفق ہیں لیکن قبلہ کے معاملے میں یہ خود بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جس طرح ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ آپ سے متفق ہو جائیں اسی طرح ان کے آپس میں متفق ہونے کی بھی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ص۸۵)
یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں مگر یہودی صَخرہ کو اور عیسائی اس کے مشرقی مکان کو قبلہ مانتے ہیں۔(تفسیر عزیزی (مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۸۶۱-۸۶۲)
{وَ لَىٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ: اور اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا۔} یہ امت کو خطاب ہے کہ خانہ کعبہ کے قبلہ ہونے کے بعد اگر کسی نے بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو وہ ظالم ہے ۔
عالم کا گناہ زیادہ خطرناک ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں بطورِ خاص علم کے بعد نافرمانی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ حضرت زیاد بن حُدَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’ کیا جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز ڈھاتی (یعنی اسلام کی عزت لوگوں کے دل سے دور کرتی) ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’ اسلام کو عالم کی لغزش، منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت تباہ کرے گی۔(دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۸۲، الحدیث: ۲۱۴)
اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جب علماء آرام طلبی کی بنا پر کوتاہیاں شروع کردیں ، مسائل کی تحقیق میں کوشش نہ کریں اور غلط مسئلے بیان کریں ،بے دین علماء کی شکل میں نمودار ہو جائیں ، بدعتوں کو سنتیں قرار دیں ،قرآن کریم کو اپنی رائے کے مطابق بنائیں اور گمراہ لوگوں کے حاکم بنیں اور لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کریں تب اسلام کی ہیبت دلوں سے نکل جائے گی جیسا کہ آج ہورہا ہے۔ بعض نے فرمایا کہ عالم کی لغزش سے مراد ان کا فسق و فجور میں مبتلا ہوجانا ہے ۔(مراٰ ۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثالث، ۱ / ۲۱۱، تحت الحدیث: ۲۵۰)
عالم کا جاہلوں کی خوشامد کرنا تباہی کا باعث ہے؟
نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ عالم کا جاہلوں کی خوشامد کرنا اور ان کا تابع بن جانا تباہی کا باعث ہے ۔ علماء کو امراء سے دور ہی رہنا چاہیے تاکہ ان کی خوشامد نہ کرنی پڑے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ’’ میری امت کے کچھ لوگ دین سیکھیں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس جائیں گے اوران کی دنیا لے آئیں گے البتہ اپنا دین بچالیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکے گا جیسے ببول کے درخت سے کانٹے ہی چنے جاتے ہیں ایسے ہی امیروں کے قرب سے نقصان ہی ہوگا ۔(ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۵۵)
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْؕ-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(146)
ترجمہ:
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ: وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔} مراد یہ ہےکہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں نبی آخر الزماں ، حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کیے گئے ہیں جن سے علماء اہل کتاب کو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خاتَم الانبیاء ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا اور وہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اس منصب ِعالی کو کامل یقین کے ساتھ جانتے ہیں۔ یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مشرف باسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے دریافت کیا کہ اس آیت میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھا تو بغیر کسی شک و شبہ کے فوراً پہچان لیا اور میرا حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچاننا اپنے بیٹوں کو پہچاننے سے زیادہ کامل و مکمل تھا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، وہ کیسے؟ انہوں نے کہا کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف توہماری کتاب توریت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں جبکہ بیٹے کو بیٹا سمجھنا تو صرف عورتوں کے کہنے سے ہے۔ (یعنی حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پہچان تو اللہ تعالیٰ نے کرائی لہٰذا وہ تو قطعی و یقینی ہے جبکہ اولاد کی پہچان تو عورتوں کے کہنے سے ہوتی ہے۔) حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر ان کا سر چوم لیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۱ / ۱۰۰)
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ محلِ شہوت میں دینی محبت سے پیشانی چومنا جائز ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صرف پہچان ایمان نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ماننا ایمان ہے۔جیسے یہودی پہچانتے توتھے لیکن مانتے نہ تھے اس لئے کافر ہی رہے۔
{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ:اور بیشک ان میں ایک گروہ حق چھپاتے ہیں۔} اہلِ کتاب علماء کا ایک گروہ توریت و انجیل میں مذکورحضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت کو اپنے بغض و حسد کی وجہ سے جان بوجھ کر چھپاتا تھا، یہاں انہی کابیان ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حق کو چھپانا معصیت و گناہ ہے اورحضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو چھپانا یہودیوں کا طریقہ ہے۔
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(147)
ترجمہ:
۔ (اے سننے والے!) حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہو۔ پس توہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ: حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہو۔} قبلہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہٰذا حق ہے تو اس میں شک نہ کیا جائے۔ یونہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ہر حکم حق ہے اگرچہ اس کی حکمت ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن حق وہی ہوگا اور مسلمان کا کام اسے ماننا اور اس پر عمل کرناہے، کسی بھی طرح کے حالا ت میں اس میں شک کرنے کی گنجائش نہیں۔]
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِﳳ-اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(148)
ترجمہ:
اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے توتم نیکیوں میں آگے نکل جاؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا۔ بیشک اللہ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ: اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے ۔} اس آیت میں تبدیلی قبلہ کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے کہ ہر امت کیلئے ایک قبلہ مقرر کیا گیا تو جب امت ِ محمدِیَّہ ایک امت ہے اور سب سے افضل امت ہے تو ان کے خصوصی امتیاز کیلئے ان کا قبلہ دوسروں سے جداگانہ بنایا گیااوراس میں خصوصیت یہ ہے کہ ان کایہ قبلہ ہمیشہ کے لئے رہے گا کبھی تبدیل نہ ہو گا۔
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں میں آگے نکل جاؤ۔} یعنی قبلہ کا موضوع طے ہوگیا لہٰذا اب صرف اسی بحث میں نہ رہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت اور دین کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔
مقابلہ کس چیز میں کرنا چاہئے:
یہاں آیت ِ مبارکہ میں ایک بڑی ہی پیاری بات سمجھائی گئی ہے کہ مال و دولت، عہدہ و منصب ، شہرت و مقبولیت اور دنیاداری ایسی چیز نہیں کہ اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جائے بلکہ یہ سب تو آزمائش اور محض دنیاوی زندگی کی زینت، دھوکے کا سامان اور فنا ہونے والی کمائی ہے، جبکہ باقی رہنے والی اور مقابلے کے قابل چیز تو اللہ تعالیٰ کی عبادت،اس کی اطاعت، جنت اور اس کی رضاہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے بار بار بلایا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت میں نیکیوں میں مقابلے اور سبقت لے جانے کے بکثرت نظارے دیکھے جا سکتے ہیں جیسے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوہ تَبوک میں گھر کا آدھا مال خیرات کرنے کیلئے لائے تو حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھر کا سارا سامان لے آئے۔(شرح الزرقانی، کتاب المغازی، ثم غزوۃ تبوک، ۴ / ۶۹)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں باپ بیٹے میں جہاد میں شرکت کیلئے بحث ہوتی، ہر کوئی کہتا کہ میں شرکت کروں گا تم گھر پر رہو، حتی کہ معذور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی راہِ خدا میں شہادت کیلئے بے قرار رہتے۔(مدار ج النبوہ، کارزارہائے صحابہ در جنگ احد، الجزء الثانی، ص۱۲۴)
غربت و بے کسی کی وجہ سے راہِ خدا میں سفر نہ کرسکنے والے روتے تھے۔( توبہ: ۹۲)ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اگر آدھی رات عبادت کرتا تو دوسرا پوری رات، ایک اگرتہائی قرآن کی تلاوت کرتا تو دوسرا آدھے قرآن کی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ [1]
{اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا:تم جہاں کہیں بھی ہوگے۔} یعنی اے مسلمانو اور اہل کتاب !تم جہاں کہیں بھی ہو گے ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا اور وہ اطاعت گزار بندوں کو ثواب دے گا اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے تو وہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے ،اطاعت گزاروں کو ثواب دینے اور سزا کے مستحق افراد کو عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۱۰۱
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ اِنَّهٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(149)
ترجمہ:
اور (اے حبیب!) تم جہاں سے آؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور بیشک یہ یقینا تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ: اور تم جہاں سے آؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ خواہ کسی شہر سے سفر کے لیے نکلیں بہرحال نماز میں اپنا منہ مسجد حرام ( یعنی کعبہ) کی طرف کریں ، کیونکہ جس طرح حالت اقامت میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کاحکم ہے اسی طرح سفرمیں بھی یہی حکم ہے اور بے شک کعبہ کو قبلہ بنایا جانا ضرور آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حق اور حکمت کے عین موافق ہے اور اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ، اس لئے وہ تمہیں اس عمل کی بہترین جزا دے گا۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۱ / ۲۵۴)
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗۙ-لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌۗۙ-اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْۗ-فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْۗ-وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(150)
ترجمہ:
اور اے حبیب! تم جہاں سے آ ؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو تاکہ لوگوں کو تم پر کوئی حجت نہ رہے مگر جو اُن میں سے ناانصافی کریں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اورتاکہ میں اپنی نعمت تم پر مکمل کردوں اورتاکہ تم ہدایت پاؤ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ: اور تم جہاں سے آؤ۔}اس رکوع میں تین مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کو مسجد حرام یعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ،اس سے بظاہر ایسالگتا ہے کہ یہ تکرا ر ہے لیکن در حقیقت یہ تکرار نہیں کیونکہ ہر بار کے حکم کی علت جدا ہے ، پہلی بار جب نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا جوئی کے لئے مسجد حرام کو قبلہ بنایا اورنماز میں ا س کی طرف منہ کرنے کاحکم دیا۔دوسری مرتبہ جب مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہرامت کا الگ الگ قبلہ بنایا ہے جس کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اور جب امت ِمحمدِیَّہ بھی ایک امت ہے تو ان کا قبلہ مسجد حرام کو بنایا اور اس کی طرف منہ کر کے انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیاگیا۔تیسری مرتبہ جب یہ حکم دیاگیا تو اس کی یہ علت بیان فرمائی کہ قبلہ کے معاملے میں یہودی مسلمانوں کے خلاف حجت قائم نہ کر سکیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۱۹، ملخصاً)
{وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو ۔} اس آیت میں مجموعی طور لوگوں سے فرما دیا گیا کہ تم حالت ِ سفر میں ہو یا حالت ِ اقامت میں ، جنگل و بیابان میں ہو یا شہر میں ، ہر جگہ ہر حالت میں اور ہر وقت تم سب نے نماز میں خانہ کعبہ ہی کی طرف منہ کرنا ہے تاکہ یہودیوں کو اس اعتراض کا حق نہ رہے کہ ان کی کتابوں میں تو قبلہ کی تبدیلی کالکھا ہوا تھا لیکن اِس نبی نے تو ایسا کیا ہی نہیں ،یا وہ یہ اعتراض نہ کرسکیں کہ یہ نبی ہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں لیکن قبلہ ہمارے والا ہی مانتے ہیں اور مشرکین کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قریش کی مخالفت میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ بھی چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی عظمت و بزرگی مانتے بھی ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۱۰۱)
{ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ: مگر جو ان میں ناانصافی کریں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توحجت پوری ہوچکی، اب بھی اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو وہ خود ظالم ہے۔ یاد رہے کہ دین کی راہ میں طعنے سننا انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت رہی ہے۔
{فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ: تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔}اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیاجا رہا ہے کہ تم کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی وجہ سے کفار کی طرف سے ہونے والے اعتراضات سے نہ ڈرو،ان کے طعنے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور تم میرے حکم کو پورا کرنے کے معاملے میں مجھ سے ڈرو اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، بے شک میں تمہارا مددگار ہوں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۲۵۵)
اللہ تعالیٰ کا عذاب ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب پیش نظر رکھنا چاہئے اور کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے سے پہلے ا س بات پر غور ضرور کر لینا چاہئے کہ یہ کام کرنے یا نہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہو گی یا اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔مروی ہے کہ جب حضرت معاذبن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس چیز نے رُلایا ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں نہ تو موت کی گھبراہٹ سے رو رہاہوں اور نہ ہی دنیا سے رخصتی کے غم میں آنسو بہا رہا ہوں ،بلکہ میں تو اس لئے روتا ہوں کہ میں نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا کہ دو مٹھیاں ہیں ، ایک جہنم میں جائے گی اور دوسری جنت میں۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ میں کون سی مٹھی میں ہوں گا۔(شعب الایمان، الحادی عشرمن شعب الایمان وہو باب فی الخوف من اللہ تعالٰی، ۱ / ۵۰۲، الحدیث: ۸۴۱)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’قیامت کے دن ان لوگوں کا حساب آسان ہوگا جو آج دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا مُحاسبہ کرتے ہیں ، وہ اس طرح کہ انہیں جب بھی کوئی کام درپیش ہو تو پہلے اس پر غور کرتے ہیں ،پھر اگر وہ کام اللہ تعالٰی کی رضاکے لئے ہوتواسے کرگزرتے ہیں اور اگر اس کے برخلاف نظر آئے تو اس سے رک جاتے ہیں۔پھر فرمایا: ’’اور بروزِ قیامت ان لوگوں کا حساب کٹھن ہوگا جو آج دنیا میں عمل کرتے وقت غوروفکر نہیں کرتے اور کسی قسم کا محاسبہ کئے بغیر وہ کام کر ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ دیکھیں گے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل شمار کر رکھا ہے ۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا (کہف:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے۔(ذم الہوی، الباب الثالث فی ذکر مجاہدۃ النفس ومحاسبتہا وتوبیخہا، ص۵۱، رقم: ۱۲۲-۱۲۳)
{وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ: اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمہارا رسول بنایاجو کہ تمہارے سامنے حق کی طرف ہدایت دینے والی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں ،رشد و ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدر ت پر قطعی دلائل قائم کرتے ہیں ،تمہیں بت پرستی کی نجاست سے پاک کرتے ہیں اورتمہیں وہ چیز سکھاتے ہیں جن سے تم اپنے نفسوں کو پہچان سکو اور ان کا تَزکِیہ کر سکو، اسی طرح مستقل طور پر تمہارے لئے بیتُ اللہ کو قبلہ بنا دیا تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔(تفسیر منیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱ / ۳۳، الجزء الثانی)
گویا جیسے مسلمانوں کا نبی جداگانہ تھا ایسے ہی ان کا قبلہ بھی جداگانہ ہو گیا۔
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ(151)
ترجمہ:
جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجاجو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا۔} خانہ کعبہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی اب اس سے بڑی نعمت یعنی حضور سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان ہے۔ جیسے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے ایسے ہی ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے۔ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر کا نتیجہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ا س تعمیر کے بعد کی دعا کا ثمرہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت:
یاد رہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ خود اپنا احسان قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا(ال عمران: ۱۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا۔
اور وہ رسول بھی کیسے ہیں ؟ قرآن ، علمِ قرآن، فہمِ قرآن، اسرارِ قرآن، حکمت ، طہارتِ نفس، تزکیہ قلب، اصلاحِ ظاہر و باطن اور دنیاو آخرت کی ساری بھلائیاں دینے والے ہیں۔ اسی تطہیر و تزکیہ کو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا۔(التوبہ:۱۰۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
{وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔} قرآن اور احکامِ الٰہیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں سکھاتے ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں:
اور حقیقت یہ ہے کہ صرف ظاہری مضامینِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے احکام ہی نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اولین و آخرین کے علوم کے جامع ہیں۔ قصیدہ بُردہ میں امام بُوصیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَّ فِیْ خُلُقٍ
وَلَمْ یُدَانُوْہٗ فِیْ عِلْمٍ وَّلَا کَرَمٖ
یعنی آپ حسن و جمال اور اخلاق میں تمام نبیوں پر فائق ہیں اور علم و کرم میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔
بخاری شریف میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہم کو(مخلوق کی) ابتداء ِپیدائش کی خبریں دینے لگے حتیّٰ کہ یہاں تک بیان کیا کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں میں ،جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (یعنی تمام کائنات کی خبریں ارشاد فرمادیں۔)(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۲۹۲)
حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر قول و فعل میں وہ علم و حکمت ہے کہ دنیا آج تک وہ تمام علم و حکمت معلوم نہیں کرسکی۔
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ(152)
ترجمہ: تو تم مجھے یاد کرو ،میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{فَاذْكُرُوْنِیْ: تو تم میری یاد کرو۔} کائنات کی سب سے بڑی نعمت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر کرنے کے بعد اب ذکر ِ الہٰی اور نعمت الہٰی پر شکر کرنے کا فرمایا جارہا ہے۔
ذکر کی ا قسام:
ذکر تین طرح کا ہوتا ہے: (۱)زبانی ۔(۲)قلبی۔(۳) اعضاء ِبدن کے ساتھ ۔زبانی ذکر میں تسبیح و تقدیس، حمدوثناء،توبہ واستغفار، خطبہ و دعا اور نیکی کی دعوت وغیرہ شامل ہیں۔قلبی ذکر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی عظیم قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے نیز علماء کاشرعی مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔ اعضاء ِبدن کے ذکر سے مراد ہے کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ اعضاء کو اطاعتِ الہٰی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱ / ۱۲۸)
ذکر کے فضائل:
بکثر ت احادیث میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 10 احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(1)…اللہ کا ذکرایمانِ کامل کی نشانی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸ / ۲۶۶، الحدیث: ۲۲۱۹۱)
(2)…ذکراللہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی پانے کا ذریعہ ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب القصد فی العمل، الفصل الثانی، ۱ / ۲۴۵، الحدیث: ۱۲۵۰)
(3)…ذکرِ الہٰی عذابِ الہٰی سے نجات دلانے والا ہے۔(مؤطا امام مالک، کتاب القرآن، باب ما جاء فی ذکر اللہ تبارک وتعالٰی، ۱ / ۲۰۰، الحدیث: ۵۰۱)
(4)…ذکر کرنے والے قیامت کے دن بلند درجے میں ہوں گے۔(شرح السنّہ، کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجلّ ومجالس الذکر، ۳ / ۶۷، الحدیث: ۱۲۳۹)
(5)…ذکر کے حلقے جنت کی کیاریاں ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵ / ۳۰۴، الحدیث: ۳۵۲۱)
(6)…ذکر کرنے والوں کوفرشتے گھیر لیتے اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی القوم یجلسون۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۹)
(7)… شب قدر میں اللہ کا ذکر کرنے والے کو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام دعائیں دیتے ہیں۔( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون، فی لیلۃ العید ویومہما، ۳ / ۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)
(8)…ذکر کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۷۴۲۸)
(9)… اللہ کا ذکر کرنے سے شیطان دل سے ہٹ جاتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل اعوذ برب الناس، ۳ / ۳۹۵)
(10)…اللہ کے ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزوجل والقرب الیہ، الفصل الثالث، ۱ / ۴۲۷، الحدیث: ۲۲۸۶)
{اَذْكُرْكُمْ: میں تمہیں یاد کروں گا۔} اللہ تعالیٰ اطاعت سے یاد کرنے والوں کو اپنی مغفرت کے ساتھ، شکر کے ساتھ یاد کرنے والوں کو اپنی نعمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ یاد کرنے والوں کواپنے قرب کے ساتھ یاد فرماتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو مجھ سے رکھے اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر بندہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اکیلا ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں ا سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں گز بھراس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھو ں کے پھیلاؤ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں (یعنی جیسے اللہ کی شایانِ شان ہے یا مراد یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ ہوتی ہے۔)(بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
{وَ اشْكُرُوْا لِیْ: اور میرا شکر کرو۔} جب کفرکا لفظ شکر کے مقابلے میں آئے تو اس کا معنی نا شکری اور جب اسلام یا ایمان کے مقابل ہو تو اس کا معنی بے ایمانی ہوتا ہے۔ یہاں آیت میں کفرسے مراد ناشکری ہے۔
شکر کی تعریف :
شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، الشطر الثانی، بیان طریق کشف الغطاء ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۰۵)
شکر کے فضائل اور ناشکری کی مذمت:
قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم: ۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ‘‘ تو یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، جماع الفصول منہ فی معانی شتی۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۴۸، الحدیث: ۹۵۴)
حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳ / ۵۵۵، رقم: ۹۳)
شکر سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر7کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(153)
ترجمہ:
اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو۔} اس سے پہلی آیات میں ذکر اور شکر کا بیان ہوا اور اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ، ذکراللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کامل ہوتی ہے ۔اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نمازہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۲۵۷، ملخصاً)
حضورسید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی نماز سے مدد چاہتے تھے جیساکہ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو جب کوئی سخت مہم پیش آتی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نماز میں مشغول ہوجاتے ۔( ابو داؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۹)
اسی طرح نماز اِستِسقا اور نمازِحاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔
{اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔} حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور کر کے آسانی فرمائے گا۔(تفسیر سمرقندی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱ / ۱۶۹)
صبر کی تعریف :
اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا ،صبر کا معنی ہے نفس کو ا س چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو ا