سُوْرَۃُ الأَعْلَىٰ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
اپنے رب کے نام کی پاکی بیان کروجو سب سے بلند ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى: اپنے رب کے نام کی پاکی بیان کروجو سب سے بلند ہے۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ ا س بات کو بیان فرمائیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی ذات میں ،صفات میں ،اَسماء میں ، اَفعال میں اور اَحکام میں ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے اور پاک جگہوں میں عزت و احترام کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا نام لیا جائے۔ (جلالین مع صاوی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۳۴۸)
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔( مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۴۰)
اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب یہ آیت نازل ہوئی توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اسے اپنے سجدے میں داخل کردو۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، ۱ / ۳۳۰، الحدیث: ۸۶۹) یعنی سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہو۔
لَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس نے پیدا کرکے ٹھیک بنایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى: جس نے پیدا کرکے ٹھیک بنایا۔} یعنی اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرو جس نے ہر چیز کی پیدائش ایسی مناسب فرمائی جو پیدا کرنے والے کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے۔( مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۴۰)
آیت ’’اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰى‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…چھوٹی بڑی ہر چیز کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اپنی اس شان کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘(انعام:۱۰۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے اوروہ ہرشے کو جاننے والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا
’’اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ‘‘(رعد:۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ ہر شے کا خالق ہے اور وہ اکیلاسب پر غالب ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا‘‘(فرقان:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اوراس نے ہر چیز کوپیدا فرمایاپھر اسے ٹھیک اندازے پر رکھا۔
(2)… ہر چیز کو پیدا فرمانے میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے۔قرآن پاک میں کئی مقامات پر مختلف چیزوں کو پیدا کرنے کی حکمت بیان کی گئی ہے، جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ‘‘(ذاریات:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے ہر چیز کی دو قسمیں بنائیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اور ارشاد فرمایا
’’اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّؕ-یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ﳔ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا‘‘(طلاق:۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ وہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کے برابر زمینیں ۔ حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللّٰہ ہر شے پر خوب قادرہے اور یہ کہ اللّٰہ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘(ملک:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جس نے موت اور زندگی کو پیداکیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے۔
وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدٰى(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس نے اندازے پر رکھا پھر راہ دکھائی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدٰى: اور جس نے اندازے پر رکھا پھر راہ دکھائی۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اس رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کی پاکی بیان کروجس نے تمام مخلوقات میں سے ہر مخلوق کو اس کی ذات اور صفات میں صحیح اندازے پر رکھا چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانوں،ستاروں ،عَناصر، مَعادن،نباتات ، حیوانات اور انسانوں کو مخصوص جسامت عطا کی اور ان میں سے ہر ایک کے باقی رہنے کی مدت مُعَیَّن اندازے پر رکھی اور ان کی صفات،رنگ،ذائقے،بو، حسن، قباحت، سعادت، بدبختی،ہدایت اور گمراہی کی مقدارخاص اندازے پر رکھی ، اور راہ دکھانے کے بارے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی برائی اور سعادت و بدبختی کے راستے دکھا دئیے۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۳، ۱۱ / ۱۲۹، ملتقطاً)
انسان اچھا یا برا راستہ چننے کا اختیار رکھتا ہے:ـ
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو راستے دکھادئیے ہیں اوران راستوں میں سے کسی ایک کو چن لینے پر اسے ایک طرح کاا ختیار بھی دے دیا ہے اب اس کی مرضی ہے کہ وہ جس راستے کوچاہے اختیار کرے،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۲)اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا‘‘(دہر:۲، ۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں توہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنا دیا۔ بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، (اب) یا شکرگزار ہے اور یا ناشکری کرنے والا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاﭪ(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا‘‘(شمس:۷۔۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔ بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپایا وہ ناکام ہوگیا۔
زیرِ تفسیر آیت کادوسرا معنی یہ ہے کہ اس رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کی پاکی بیان کرو جس نے ہر مخلوق کی غذا اور روزی مقدر کی اور انسانوں کو ان کی غذاؤں ، دواؤں اوران کے دُنْیَوی اُمور کی ان چیزوں کی طرف راہ دی جن میں ان کی مَصلحت ہے اور درندوں ،پرندوں اور حشراتُ الارض کو ان کے مَعاش اور ان کی ضروریات کا راستہ دکھایا۔( جمل، الاعلی، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۲۹۷)
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کو اس کی روزی کا راستہ کس طرح دکھایا ہے اس کا نظارہ اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق کو اپنی مقررہ روزی حاصل کرتے دیکھ کر کیا جا سکتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی اس رہنمائی کے عجائبات ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں ۔حیوانات میں اس موضوع پر تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام دمیری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’حیات الحیوان‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
وَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الْمَرْعٰى(4)فَجَعَلَهٗ غُثَآءً اَحْوٰىﭤ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس نے چارہ نکالا۔پھر اسے خشک سیاہ کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الْمَرْعٰى: اور جس نے چارہ نکالا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت کے ساتھ زمین سے مختلف اَقسام کی نباتات اور طرح طرح کی گھاس پیدا کی جسے جانور چرتے ہیں ،پھر اس کا سرسبز ہونا ختم کر کے اسے خشک سیاہ کردیا۔( روح البیان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۱۰ / ۴۰۵، طبری، الاعلی، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۱۲ / ۵۴۳-۵۴۴، ملتقطاً)
دنیا اور اس کی نعمتوں کا حال:
ان آیات میں سرسبز چارے کا جو حال بیان کیا گیا کہ شروع میں سرسبز اور بعد میں خشک ہوکر سیاہ ، بے کار ہوجاتا ہے یہی حال دنیا اور اس کی نعمتوں کا بھی ہے کہ یہ اگرچہ سبزے کی طرح خوشنما نظر آتی ہیں لیکن یہ بہت جلد فنا ہونے والی ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ دُنْیَوی زندگی کی مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤۙ-اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِؕ-كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ‘‘(یونس:۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہو کر نکلیں جن سے انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی خوبصورتی پکڑلی اور خوب آراستہ ہوگئی اور اس کے مالک سمجھے کہ (اب) وہ اس فصل پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت ہمارا حکم آیا تو ہم نے اسے ایسی کٹی ہوئی کھیتی کردیا گویا وہ کل وہاں پر موجود ہی نہ تھی۔ ہم غور کرنے والوں کیلئے اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں ۔
اور جو لوگ آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی اور ا س کی زیب وزینت کے طلبگار ہیں ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینتچاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور ارشاد فرمایا: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸،۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہمجسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(فاطر:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!بیشک اللّٰہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں اللّٰہ کے بارے میں فریب نہ دے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللّٰہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللّٰہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دنیا کی قلیل زندگی میں کھو جانے اور اس کی فانی نعمتوں میں مست ہوکر اپنی آخرت کو بھول جانے سے محفوظ فرمائے اور ہر مسلمان کو اپنی آخرت بہتر کرنے کی فکر اور سوچ عطا فرمائے اور آخرت سنوارنے کے لئے تیاری کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
(اے حبیب!)اب ہم تمہیں پڑھائیں گے تو تم نہ بھولو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰى: اب ہم تمہیں پڑھائیں گے تو تم نہ بھولو گے۔} جب حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام وحی لے کر نازل ہوتے تو وہ ابھی آیت کا آخری حصہ پڑھ کر فارغ نہیں ہوتے تھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اِس اندیشے سے اُس آیت کا ابتدائی حصہ پڑھنا شروع کر دیتے کہ کہیں بھول نہ جائیں ،اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے تمہیں قرآن پڑھائیں گے تو جو کچھ آپ کے سامنے پڑھا جائے گا آپ اسے نہیں بھولیں گے۔ (خازن، الاعلی، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۷۰)
تفسیر ِجمل میں ہے کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو بشارت ہے کہ آپ کو قرآنِ پاک حفظ کرنے کی نعمت کسی محنت کے بغیرعطا ہوئی ہے اور یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا معجزہ ہے کہ اتنی بڑی اور عظیم کتاب کسی محنت و مشقت اور تکرار کے بغیر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو حفظ ہوگئی۔( جمل، الاعلی، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۲۹۸، ملخصاً)
آیت ’’سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰى‘‘ سے حاصل ہونے والی معلوماتـ:
اس آیت سے 6باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… علم اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
(2)… حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہیں کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے پڑھایا ہے۔
(3)…حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے استاد نہیں بلکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے پیغام اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں پہنچانے پر مامور ہیں ۔
(4)… حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا علم بہت اعلیٰ ہے ۔
(5)…مخلوق میں سے کوئی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے برابر عالِم نہیں ہے ۔
(6)… انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہونے والی بھول بھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں اور اس میں ہزارہا حکمتیں ہوتی ہیں ،جیسے سارے عالَم کا ظہور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایک نِسیان کی برکت سے ہے، لہٰذا ہماری اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بھول میں بڑا فرق ہے۔اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا یَخْفٰىﭤ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
مگر جو اللہ چاہے بیشک وہ ہر کھلی اور چھپی بات کوجانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ: مگر جو اللّٰہ چاہے۔} اس اِستثناء کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے 4 قول درج ذیل ہیں ،
(1)…یہ اِستثناء تَبَرُّ ک کے لئے ہے ، حقیقت میں حاصل نہیں ہوا اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے پڑھا دیا تو اس کے بعد نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کوئی چیز نہیں بھولے ۔
(2)…اس استثناء سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو کوئی چیز بھلانا چاہے تو وہ ا س پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ‘‘(بنی اسرائیل:۸۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم چاہتے توہم جو آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں اسے لے جاتے۔
اور ہمیں یقین ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا۔
(3)…اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ (قرآنِ مجید میں سے) جو کچھ پڑھیں گے اس میں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جس آیت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے گا وہ آپ کو بھلا دے گا اور ا س کی صورت یہ ہو گی کہ اللّٰہ تعالیٰ اس آیت کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ فرما دے گا۔یاد رہے کہ جن آیتوں کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوئے ہیں وہ تمام آیتیں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نہیں بھولے بلکہ ان میں سے جن آیتوں کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا انہیں آپ کے دل سے اٹھا لیا ۔
(4)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھولنے سے معروف معنی مراد ہوں یعنی عارضی طور پر بھول جانا،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ قرآن مجیدمیں سے کچھ نہ بھولیں گے البتہ جو اللّٰہ تعالیٰ خود چاہے وہ بھول جائیں گے ،پھر وہ چیز ہمیشہ کے لئے بھولی نہ رہے گی بلکہ بعد میں یاد آ جائے گی۔ اس معنی کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں حضورِاَ قدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کسی آیت کو بھول جانے کاذکر ہے اور ان سے یہ واضح ہوتا ہے بعض مواقع پر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (عارضی طور پر) کچھ آیات بھولے تھے اور آپ کا یہ بھولنا امت کے بھولنے کی طرح نہیں ہے ۔(تفسیرکبیر،الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱، روح البیان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۴۰۶، روح المعانی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۵ / ۴۴۴-۴۴۵، ملتقطاً)
{اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا یَخْفٰى: بیشک وہ ہر کھلی اور چھپی بات کوجانتا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، جب آپ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اورآپ کے دل میں جو قرآن بھول جانے کا خوف ہے اسے بھی جانتاہے، لہٰذا آپ اسے بھول جانے کا خوف نہ کریں ،یہ ہمارے ذمہ ِکرم پر ہے کہ آپ قرآن نہ بھولیں ۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۱۳۱)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ بندوں کے ظاہری افعال اور ان کے اقوال جانتا ہے اور ان کے پوشیدہ اقوال اور افعال سے بھی خبردارہے۔( تفسیر سمرقندی، الاعلی، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۴۷۰)
ظاہر و باطن دونوں کو درست رکھنا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنا ظاہر بھی ٹھیک کرنا چاہئے اور اپنا باطن بھی درست رکھنا چاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر ظاہری ،باطنی قول اور فعل سے باخبر ہے،جیسا کہ ہمارے ظاہری اور پوشیدہ اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ‘‘(انعام:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ تمہاری ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے اور وہ تمہارے سب کام جانتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ‘‘(انبیاء:۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔
اور ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘(حم السجدہ:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو ،بیشک اللّٰہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اورحضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس نے اپنے اور اللّٰہ تعالیٰ کے مابین معاملے کو اچھا کر لیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کے اور لوگوں کے درمیان معاملے کو کافی ہو گا اور جس نے اپنے باطن کی اصلاح کر لی تو اللّٰہ تعالیٰ ا س کے ظاہر کو درست کر دے گا۔ (جامع صغیر، حرف المیم، ص۵۰۸، الحدیث: ۸۳۳۹)
لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کو سنوارنے کی بھر پور کوشش کرے اور اس کے لئے یہ دعا بھی مانگا کرے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ دعا سکھائی ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّآلِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میر ا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے ۔ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے وہ اچھا گھر بار ، مال اولاد، جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گر ہو مانگتا ہوں جو تو لوگوں کو دیتا ہے۔( ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)
وَ نُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرٰى(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم تمہارے لئے آسانی کا سامان کردیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرٰى: اور ہم تمہارے لیے آسانی کا سامان کردیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم آپ کواس طریقے کی توفیق دیں گے جس سے آپ کے لئے وحی کو یاد کرنا آسان اور سہل ہو جائے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم آپ کو ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا کریں گے جس سے جنت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔تیسرا معنی یہ ہے کہ ہم آپ پر وحی کا نازل ہونا آسان کر دیں گے تاکہ آپ سہولت کے ساتھ وحی یاد کر سکیں ، اسے جان سکیں اور اس پر عمل کر سکیں ۔چوتھا معنی یہ ہے کہ ہم آ پ پر آسان شرعی احکام اور قوانین نازل کریں گے (اور ان پر عمل کرنا لوگوں کے لئے دشوار نہ ہوگا)۔( تفسیرکبیر، الاعلی، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۱۳۲، مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۴۱، ملتقطاً)
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰىﭤ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم نصیحت فرماؤ اگر نصیحت فائدہ دے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى: تو تم نصیحت فرماؤ ،ا گر نصیحت فائدہ دے۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر نصیحت فائدہ دے اور کچھ لوگ اس سے فائدہ حاصل کریں تو آپ اس قرآنِ مجید سے نصیحت فرمائیں ۔
نصیحت فائدہ دے یا نہ دے، بہر حال نصیحت کرنے کا حکم ہے:
یاد رہے کہ یہاں نصیحت کرنے میں جو نصیحت فائدہ دینے کی شرط لگائی گئی ،اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو نصیحت نہ کی جائے بلکہ نصیحت فائدہ دے یا نہ دے دونوں صورتوں میں نصیحت کرنے کا حکم ہے کیونکہ قرآنِ پاک کی آیات میں مفہومِ مخالف کاا عتبار نہیں ہے اور یہ آیت بھی انہیں آیات میں سے ہے اور قرآنِ پاک میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ،جیسے ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘(النساء:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کافروں کی طرف سے اَذِیَّت پہنچنے کا خوف نہ ہو تو نمازوں میں قَصر نہیں کر سکتے بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران چاہے امن ہو یا خوف دونوں صورتوں میں (4 رکعت والی) نمازوں میں قصر کی جائے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا‘‘(نور:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو (خصوصاً) اگر وہ خود (بھی) بچنا چاہتی ہوں ۔
اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ بدکاری سے بچنا نہ چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر مجبور کرو بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ بہر صورت انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔
سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى(10)وَ یَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى(11)الَّذِیْ یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى(12)ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَ لَا یَحْیٰىﭤ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
عنقریب وہ نصیحت مانے گاجو ڈرتا ہے ۔اور نصیحت سے وہ بڑا بدبخت دور رہے گا۔جو سب سے بڑی آگ میں جائے گا۔پھروہ نہ اس میں مرے گا اور نہ جئے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَیَذَّكَّرُ مَنْ یَّخْشٰى: عنقریب وہ نصیحت مانے گاجو ڈرتا ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، عنقریب آپ کی نصیحت وہ مانے گا جو اللّٰہ تعالیٰ سے اور اپنے برے انجام سے ڈرتا ہے اور آپ کی نصیحت سے وہ دور ہو گااور اس نصیحت کو قبول نہیں کرے گا جو آپ کا دشمن بن کر بڑا بدبخت کافر ہے ،جیسے ولید بن مغیرہ اور ابو جہل وغیرہ اور وہ بد بخت کافر جہنم کی سب سے بڑی آگ میں جائے گا ،پھروہ نہ اس میں مرے گا کہ مر کر ہی عذاب سے چھوٹ سکے اور نہ ایسا جینا جئے گا جس سے کچھ بھی آرام پاسکے۔( مدارک،الاعلی،تحت الآیۃ:۱۰-۱۳،ص۱۳۴۱، روح البیان،الاعلی،تحت الآیۃ:۱۰-۱۳،۱۰ / ۴۰۸-۴۰۹،ملتقطاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص نصیحت کو تسلیم کرتا ہے وہ خَشیَت ِ الٰہی کے زیور سے آراستہ ہے ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔} اس آیت میں لفظ ’’تَزَكّٰى‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ اس صورت میں اس آیت سے نماز کے لئے وضو اورغسل کرناثابت ہوتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو پاک کرنا مراد ہے،اس صورت میں یہ آیت زکوٰۃ فرض ہونے پر دلالت کرتی ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الاعلی، ص۷۴۰) لیکن اس آیت کے زکوٰۃ سے متعلق ہونے پر اِشکال ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے جبکہ زکوٰۃ کا حکم مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔
صوفیا ء کے نزدیک تَزکِیَہ کا مطلب:
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر فرمایا ہے کہ صوفیاء کے نزدیک تَزْکِیَہ کا (مطلب) دل (کو) بُرے عقیدے، بُرے خیالات (اور) تصور ِغیر سے پاک کرنا ہے۔ دل کی صفائی یا وہبی ہے یا کسبی یا عطائی۔ وہبی تزکیہ پیدائشی ہوتا ہے، کسبی اپنے اعمال سے (جبکہ) عطائی کسی کی نظر سے ، جیسے بادل اور سورج دور رہتے ہوئے بھی گندی زمین کو پاک کر دیتے ہیں ، ایسے ہی اللّٰہ والوں کی نظر دور سے بھی گندے دلوں کو پاک کردیتی ہے۔( نور العرفان، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۷۷)
وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىﭤ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى: اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔} یعنی اور اس نے نماز شروع کرنے کی تکبیر کہہ کر پانچوں نمازیں پڑھیں ۔ اس آیت سے نماز شروع کرنے کی تکبیر ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ نماز کا حصہ نہیں ہے کیونکہ نماز کا اس پر عطف کیا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہر نام سے نماز شروع کرنا جائز ہے۔ بعض مفسرین نے یہ کہاہے کہ ’’تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنا اور نماز سے نماز عید مراد ہے۔( مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۳۴۱، تفسیرات احمدیہ، الاعلی، ص۷۴۰، ملتقطاً)
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(16)وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىﭤ(17)اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى(18)صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔بیشک یہ بات ضرور اگلے صحیفوں میں ہے۔ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا: بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے اور جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ فانی سے بہتر ہے اور اے لوگو!تمہارا حال یہ ہے کہ تم دنیاکی فانی زندگی کو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی پرترجیح دیتے ہو اسی لئے تم وہ عمل نہیں کرتے جو وہاں کام آئیں گے ۔بیشک پاکی حاصل کرنے والوں کے کامیاب ہونے اور آخرت کے بہتر ہونے کی بات قرآنِ پاک سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والے صحیفوں میں بھی موجود ہے۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بات تمام صحیفوں میں موجود ہے اور انہی میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحیفے بھی ہیں ۔
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’دنیا چونکہ ہمارے سامنے موجود ہے اور ا س کا کھانا، پینا،عورتیں ،دنیا کی لذتیں اور اس کی رنگینیاں ہمیں جلد دیدی گئیں جبکہ آخرت ہماری نظروں سے غائب ہے، اس لئے جو چیز ہمیں جلد مل رہی ہے ہم اسے پسند کرنے لگ گئے اور جو بعدمیں ملے گی اسے ہم نے چھوڑ دیا۔( خازن، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۹، ۴ / ۳۷۱، مدارک، الاعلی، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۹، ص۱۳۴۱، ملتقطاً)
دُنْیَوی زندگی کی لذتوں میں کھو کر آخرت کو نہ بھلا دیا جائے:
اس سے معلوم ہو اکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دُنْیَوی زندگی کی فانی لذتوں ، رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو کر اپنی آخرت کو نہ بھول جائے بلکہ وہ اپنی سانسوں کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے اور آخرت میں جنت کی دائمی نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرے جبکہ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی دنیا بہتر بنانے میں ایسی مصروف ہے کہ اسے اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں ۔دنیا اور آخرت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انعام:۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا: ’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(یوسف:۱۰۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا یہ لوگ زمین پرنہیں چلے تاکہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوااور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ارشاد فرمایا: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸،۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
لہٰذا اے بندے! ’’وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘(قصص:۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو مال تجھے اللّٰہ نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللّٰہنے تجھ پر احسان کیا اور زمینمیں فساد نہ کر، بے شک اللّٰہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی فانی نعمتوں اور بہت جلد ختم ہو جانے والی لذتوں میں کھونے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
{وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى: اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔} آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہتر ہے کہ وہاں کی نعمتیں ہر اعتبار سے دنیا کی نعمتوں سے افضل ہیں اور ان کے حصول میں کوئی تکلیف و مشقت نہ ہوگی اور استعمال میں کوئی بیماری وغیرہ نہ ہوگی اور باقی رہنے والی اس طرح ہیں کہ کبھی فنا نہ ہوں گی۔