سُوْرَۃُ الأَنْبِيَاء
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ:لوگوں کا حساب قریب آگیا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو نہیں مانتے تھے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اِس آیت میں اگرچہ اُس وقت کفارِ قریش کی طرف اشارہ کیا گیاہے لیکن لفظ’’اَلنَّاسِ‘‘ میں عموم ہے(اور اس سے تمام لوگ مراد ہیں ۔)نیزیہاں قیامت کے دن کو گزرے ہوئے زمانہ کے اعتبار سے قریب فرمایا گیاکیونکہ جتنے دن گزرتے جاتے ہیں آنے والا دن قریب ہوتا جاتا ہے ۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں نے دنیا میں جو بھی عمل کئے ہیں اور ان کے بدنوں ، ان کے جسموں ، ان کے کھانے پینے کی چیزوں اور ان کے ملبوسات میں اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں جو بھی نعمتیں عطا کی ہیں، ان کے حساب کا وقت(روزِقیامت)قریب آ گیا ہے اوراس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں کے بدلے میں انہوں نے کیا عمل کئے،آیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور ا س کے دئیے ہوئے حکم پر عمل کیا اور جس چیز سے اس نے منع کیا اس سے رک گئے یا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی ،اس سنگین صورتِ حال کے باوجود لوگوں کی غفلت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کئے جانے سے اور قیامت کے دن پیش آنے والی عظیم مصیبتوں اور شدید ہولناکیوں سے بے فکر ہیں اور اس کے لئے تیاری کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہیں اورانہیں اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲۷۰-۲۷۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ص۷۰۹، تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳، ملتقطاً)
اُخروی حساب سے غفلت کے معاملے میں کفار کی روش اور مسلمانوں کا حال
یہاں اگرچہ کفار کی روش کو بیان کیا گیا ہے لیکن افسوس !فی زمانہ مسلمانوں میں بھی قیامت کے دن اپنے اعمال کے حساب سے غفلت بہت عام ہو چکی ہے اور آج انہیں بھی جب نصیحت کی جاتی ہے اورموت کی تکلیف، قبر کی تنگی، قیامت کی ہولناکی، حساب کی سختی اور جہنم کے دردناک عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بجائے منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں، حالانکہ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو کافروں اور مشرکوں کا شیوہ ہو۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھاہے کہ تو دروازے بند کرکے، پردے ٹکا کر اور لوگوں سے چھپ کر فسق وفجور اور گناہوں میں مبتلا ہو گیا! (تو لوگوں کے خبردار ہونے سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ) جب تیرے اَعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے(اور جو کچھ تو لوگوں سے چھپ کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔ اے غافلوں کی جماعت! تمہارے لئے مکمل خرابی ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے پاس سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر روشن کتاب نازل فرمائے(جس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے)اور تمہیں قیامت کے اوصاف کی خبر دے، پھر تمہاری غفلت سے بھی تمہیں آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے کہ : ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء:۱-۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ۔
پھر وہ ہمیں قیامت قریب ہونے کے بارے میں بتاتے ہوئے ارشادفرمائے کہ
’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘(قمر:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
اور ارشادفرمائے کہ
’’ اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ(۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا‘‘(معارج۶،۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہماسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔
اور ارشاد فرمائے کہ
’’ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا‘‘(احزاب:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔
اس کے بعد تمہاری سب سے اچھی حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ تم اس قرآنِ عظیم کے دئیے درس پر عمل کرو، لیکن اس کے برعکس تمہارا حا ل یہ ہے کہ تم اس قرآن کے معانی میں غوروفکر نہیں کرتے اور روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں کو(عبرت کی نگاہ سے) نہیں دیکھتے اور اس دن کی مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ ہم اس غفلت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں (اور دعا کرتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس غفلت کو دور فرمائے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی من کتاب ذکر الموت فی احوال المیت۔۔۔ الخ، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶)اور ہر مسلمان کو اس فانی دنیا سے بے رغبت ہو کر نیک اعمال کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ترغیب کے لئے یہاں دو حکایات ملاحظہ ہوں :
مجھے تمہاری جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں :
حضرت عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک عربی ان کے پاس آیا، آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کانہایت اِکرام کیا اوراس کے متعلق حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا۔ وہ شخص جب دوبارہ حضرت عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا تواس نے کہا کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایک وادی طلب کی ہے جس سے بہتر عرب میں کوئی وادی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے اس میں سے کچھ حصہ علیحدہ کردوں جوتمہارے اورتمہاری اولا دکے کام آئے۔ حضرت عامربن ربیعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے کہا کہ’’ ہمیں تیری جائیداد کی کوئی ضرورت نہیں،کیونکہ آج ایک سورت نازل ہوئی ہے اس نے ہمیں دنیا کی لذتیں بھلا دی ہیں (اوراس میں یہ آیت ہے)’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔(ابن عساکر، حرف العین، ذکر من اسمہ عامر، عامر بن ربیعۃ بن کعب بن مالک۔۔۔ الخ، ۲۵ / ۳۲۷)
جب حساب کا وقت قریب ہے تو یہ دیوار نہیں بنے گی
ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دیوار بنا رہے تھے، جس دن یہ سورت نازل ہوئی ا س دن ان کے پاس سے ایک شخص گزرا تو انہوں نے اس سے پوچھا ’’ آج قرآن پاک میں کیا نازل ہوا ہے ؟اس نے بتایا کہ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘ لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ان صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب یہ سناتواسی وقت دیوار بنانے سے ہاتھ جھاڑ لیے اور کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !جب حساب کاوقت قریب آگیا ہے تو پھر یہ دیوار نہیں بنے گی۔(قرطبی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۱۴۵، الجزء الحادی عشر)
مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ:جب ان کے پاس کوئی نصیحت آتی ہے۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں نصیحت آمیز کوئی ایسی آیت نازل ہوتی ہے جو انہیں اعلیٰ طریقے سے اخروی حساب کی یاد دلائے اوراس سے غفلت کا شکار ہونے پر کامل طریقے سے تنبیہ کرے تو یہ اس میں غورو فکر کر کے عبرت ونصیحت حاصل کرنے اور اپنی غفلت دور کرنے کی بجائے اسے کھیلتے اور مذاق مَسخری کرتے ہوئے ہی سنتے ہیں اور آنے والے وقت کے لئے کچھ تیاری نہیں کرتے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۴۵۲، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۲۷۱، ملتقطاً)
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ﳓ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ﳓ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۚ-اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالموں نے آپس میں خفیہ مشورہ کیا کہ یہ (نبی) تمہارے جیسے ایک آدمی ہی تو ہیں تو کیا تم خود دیکھنے کے باوجود جادو کے پاس جاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ:ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ۔} دل کھیل میں پڑے ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں اور بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جو دل دنیا کے احوال میں مشغول اور آخرت کے احوال سے غافل ہو وہ کھیل میں پڑ اہوا ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۷۱، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۴۵۲، ملتقطاً)
{ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ﳓ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں نے آپس میں خفیہ مشورہ کیا ۔} ارشاد فرمایا کہ کافروں نے آپس میں خفیہ مشورہ کیا اور اسے چھپانے میں بہت مبالغہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا راز فاش کر دیا اور بیان فرما دیا کہ وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یوں کہتے ہیں کہ یہ تمہارے جیسے ایک آدمی ہی تو ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۷۱) یہ کفر کا ایک اصول تھا کہ جب یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کر دی جائے گی کہ وہ تم جیسے بشر ہیں تو پھر کوئی ان پر ایمان نہ لائے گا۔ کفار یہ بات کہتے وقت جانتے تھے کہ ان کی بات کسی کے دل میں جمے گی نہیں کیونکہ لوگ رات دن معجزات دیکھتے ہیں ، وہ کس طرح باور کر سکیں گے کہ حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری طرح بشر ہیں اس لئے انہوں نے معجزات کو جادو بتا دیا اور کہا کہ کیا تم خود دیکھنے اور جاننے کے باوجود جادو کے پاس جاتے ہو؟
قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ٘-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
نبی نے فرمایا: میرا رب آسمان اور زمین میں ہر بات کوجانتا ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قٰلَ:نبی نے فرمایا۔} جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کفار کے اقوال اور احوال کی وحی کی گئی تو اس کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کفار کی خفیہ باتوں کو جاننا تو کچھ بھی نہیں ، میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان تو یہ ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین میں ہونے والی ہر بات کوجانتا ہے خواہ وہ پوشیدہ طور پر کہی گئی ہو یا اعلانیہ کہی گئی ہو اوراس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی خواہ وہ کتنے ہی پردے اور راز میں رکھی گئی ہو اور وہی سننے والا جاننے والا ہے، تو وہی کفار کے اَقوال اور اَفعال کی انہیں سزا دے گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴، ۵ / ۴۵۳)
بَلْ قَالُـوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ ۚۖ-فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ(کافروں نے) کہا: جھوٹے خواب ہیں بلکہ خود اس (نبی) نے اپنی طرف سے بنالیا ہے بلکہ یہ شاعر ہیں (اگر نبی ہیں ) تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں جیسے پہلے رسولوں کو بھیجا گیا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ قَالُـوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ:بلکہ کہا:جھوٹے خواب ہیں ۔} جب کافروں کا راز ظاہر فرما دیا گیا تواس کے بعد انہیں قرآنِ کریم سے سخت پریشانی اور حیرانی لاحق ہوگئی کہ اس کا کس طرح انکار کریں کیونکہ یہ ایک ایسا روشن اور واضح معجزہ ہے جس نے تمام ملک کے مایہ ناز ماہروں کو عاجزوحیرت زدہ کردیا ہے اور وہ اس کی دو چار آیتوں کی مثل کلام بنا کر نہیں لاسکے، اس پریشانی میں اُنہوں نے قرآنِ کریم کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کہیں اور کہنے لگے : بلکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو قرآن لائے ہیں یہ جھوٹے خواب ہیں اور ان کو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی وحی سمجھ گئے ہیں ۔ کفار نے یہ کہہ کر سوچا کہ یہ بات چسپاں نہیں ہو سکے گی تو اب اس کو چھوڑ کر کہنے لگے: بلکہ خود اس نبی نے اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ یہ کہہ کر انہیں خیال ہوا کہ لوگ کہیں گے : اگر یہ کلام حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بنایا ہوا ہے اور تم انہیں اپنے جیسا بشر بھی کہتے ہو تو تم ایسا کلام کیوں نہیں بنا سکتے؟ یہ خیال کر کے اس بات کو بھی چھوڑا اور کہنے لگے : بلکہ یہ شاعر ہیں اور یہ کلام شعر ہے۔ الغرض کفار اسی طرح کی باتیں بناتے رہے اور کسی ایک بات پر قائم نہ رہ سکے ۔ اب کفارنے سمجھا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی چلنے والی نہیں ہے، تو کہنے لگے : اگر یہ نبی ہیں تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائیں جیسے پہلے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔( البحر المحیط، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۲۷۶، قرطبی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۱۴۸، الجزء الحادی عشر، ملتقطاً)
اہلِ باطل اور جھوٹے کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے:
اہلِ باطل اور جھوٹوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے بلکہ ایک کے بعد دوسری اور دو سری کے بعد تیسری بات کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بات کرنے کے بعد خود حیران ہوتے ہیں کہ ہم نے کہہ کیا دیا ہے۔
مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۚ-اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے پہلے جو بستی ایمان نہ لائی ہم نے اسے ہلاک کردیا تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ:ان سے پہلے جو بستی ایمان نہ لائی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی باتوں کا رد فرمایا اور انہیں جواب دیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کفارِ مکہ سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نشانیوں کا مطالبہ کیا اور نشانیاں آنے کی صورت میں ایمان لانے کا عہد کیا اور جب ان کے پاس وہ مطلوبہ نشانیاں آئیں تو وہ ان انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان نہ لائے اوران کی تکذیب کرنے لگے اور اس سبب سے ان کفار کو ہلاک کر دیا گیا تو کیا یہ کفارِ مکہ نشانی دیکھ کر ایمان لے آئیں گے ؟حالانکہ اِن کی سرکشی اُن سے بڑھی ہوئی ہے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶،ص۷۰۹)
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ:اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔} یہاں کفارِ مکہ کے سابقہ کلام کا رد کیا جا رہا ہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بشری صورت میں ظہور فرمانا نبوت کے منافی نہیں کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی طرف فرشتے کو رسول بنا کر نہیں بھیجا بلکہ سابقہ قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ نے جو نبی اور رسول بھیجے وہ سب انسان اور مرد ہی تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں کے ذریعے احکامات وغیرہ کی وحی کی جاتی تھی اور جب اللہ تعالیٰ کا دستور ہی یہ ہے تو پھر سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بشری صورت میں ظہور فرمانے پر کیا اعتراض ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۲۷۲، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۴۵۵، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۲۲، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مرد تھے، کوئی عورت نبی نہ ہوئی۔
{فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ:تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔} آیت کے اس حصے میں کفارِ مکہ سے فرمایا گیا کہ اگر تمہیں گزشتہ زمانوں میں تشریف لانے والے رسولوں کے احوال معلوم نہیں تو تم اہلِ کتاب کے ان علماء سے پوچھ لو جنہیں ان کے احوال کا علم ہے ،وہ تمہیں حقیقت ِ حال کی خبر دیں گے۔( جلالین مع صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۱۲۹۱)
شرعی معلومات نہ ہونے اور نہ لینے کے نقصانات:
اس آیت میں نہ جاننے والے کو جاننے والے سے پوچھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ ناواقف کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ وہ واقف سے دریافت کرے اور جہالت کے مرض کا علاج بھی یہی ہے کہ عالم سے سوال کرے اور اس کے حکم پر عمل کرے اور جو اپنے اس مرض کا علاج نہیں کرتا وہ دنیا و آخرت میں بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ یہاں اس کے چند نقصانات ملاحظہ ہوں
(1)… ایمان ایک ایسی اہم ترین چیز ہے جس پر بندے کی اُخروی نجات کا دارومدار ہے اور ایمان صحیح ہونے کے لئے عقائد کا درست ہونا ضروری ہے، لہٰذا صحیح اسلامی عقائد سے متعلق معلومات ہونا لازمی ہے۔ اب جسے اُن عقائد کی معلومات نہیں جن پر بندے کا ایمان درست ہونے کا مدار ہے تو وہ اپنے گمان میں یہ سمجھ رہا ہو گا کہ میرا ایمان صحیح ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے اور اگر حقیقت بر عکس ہوئی اور حالت ِکفر میں مر گیا تو آخرت میں ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا پڑے گا اور ا س کے انتہائی دردناک عذابات سہنے ہوں گے۔
(2)…فرض و واجب اور دیگر عبادات کو شرعی طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے،اس لئے ان کے شرعی طریقے کی معلومات ہونا بھی ضروری ہے۔ اب جسے عبادات کے شرعی طریقے اوراس سے متعلق دیگر ضروری چیزوں کی معلومات نہیں ہوتیں اور نہ وہ کسی عالم سے معلومات حاصل کرتا ہے تو مشقت اٹھانے کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جیسے نماز کے درست اور قابلِ قبول ہونے کے لئے ’’طہارت‘‘ ایک بنیادی شرط ہے اور جس کی طہارت درست نہ ہو تووہ اگرچہ برسوں تک تہجد کی نما زپڑھتا رہے، پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتا رہے اورساری ساری رات نوافل پڑھنے میں مصروف رہے، اس کی یہ تمام عبادات رائیگاں جائیں گی اور وہ ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔
(3)…کاروباری، معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کے لئے شریعت نے کچھ اصول اور قوانین مقرر کئے ہیں اور انہی اصولوں پر اُن معاملات کے حلال یا حرام ہونے کا مدار ہے اور جسے ان اصول و قوانین کی معلومات نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرے تو حلال کی بجائے حرام میں مبتلا ہونے کا چانس زیادہ ہے اور حرام میں مبتلا ہونا خود کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حقدار ٹھہرانا ہے۔
سرِ دست یہ تین بنیادی اور بڑے نقصانات عرض کئے ہیں ورنہ شرعی معلومات نہ لینے کے نقصانات کی ایک طویل فہرست ہے جسے یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عقائد، عبادات ،معاملات اور زندگی کے ہر شعبے میں شرعی معلومات حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
فرض علوم سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
یہاں میری ایک کتاب ’’علم اور علماء کی اہمیت‘‘ سے فرض علوم کی اہمیت و ضرورت پر ایک مضمون ملاحظہ ہو، چنانچہ اس میں ہے کہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی پر اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہے نمازی پر نماز کے ، روزہ رکھنے والے پر روزے کے ، زکوٰۃ دینے والے پرزکوٰۃ کے ،حاجی پر حج کے، تجارت کرنے والے پر خریدوفروخت کے، قسطوں پر کاروبار کرنے والے کے لئے اس کاروبار کے ، مزدوری پر کام کرنے والے کے لئے اجارے کے ، شرکت پر کام کرنے والے کے لئے شرکت کے ، مُضاربت کرنے والے پر مضاربت کے (مضاربت یہ ہوتی ہے کہ مال ایک کا ہے اور کام دوسرا کرے گا)، طلاق دینے والے پر طلاق کے، میت کے کفن ودفن کرنے والے پر کفن ودفن کے، مساجد ومدارس، یتیم خانوں اور دیگر ویلفیئرز کے مُتَوَلّیوں پر وقف اور چندہ کے مسائل سیکھنا فرض ہے ۔ یونہی پولیس، بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اوردیگر محکموں کے ملازمین نیز جج اور کسی بھی ادارے کے افسر وناظمین پر رشوت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں ۔ اسی طرح عقائد کے مسائل سیکھنا یونہی حسد ، بغض ، کینہ ، تکبر، ریاوغیرہا جملہ اُمور کے متعلق مسائل سیکھنا ہر اس شخص پر لازم ہے جس کا ان چیزوں سے تعلق ہوپھر ان میں فرائض ومُحَرّمات کا علم فرض اور واجبات ومکروہِ تحریمی کا علم سیکھنا واجب ہے اور سنتوں کا علم سیکھنا سنت ہے۔
اس مفہوم کی ایک حدیث حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرکا رِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: علم کا طلب کرنا ہر مومن پر فرض ہے یہ کہ وہ روزہ، نماز اور حرام اور حدود اور احکام کو جانے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۵۷)
اس حدیث کی شرح میں خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ کا معنی یہ ہے کہ ہرشخص پر فرض ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت کے مسائل سیکھے جس پر اس کی لاعلمی کو قدرت نہ ہو۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱)
اسی طرح کا ایک اور قول حضرت حسن بن ربیع رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ کی تفسیر کیا ہے؟آپ نے فرمایا :یہ وہ علم نہیں ہے جس کو تم آج کل حاصل کر رہے ہو بلکہ علم کاطلب کرنا اس صورت میں فرض ہے کہ آدمی کو دین کاکوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ اس مسئلے کے بارے میں کسی عالم سے پوچھے یہا ں تک کہ وہ عالم اسے بتا دے۔( الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۲)
حضرت علی بن حسن بن شفیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا :علم سیکھنے کے اندر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا :وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کام کی طرف قدم نہ اٹھائے جب تک اس کے بارے میں سوال کر کے اس کا حکم سیکھ نہ لے، یہ وہ علم ہے جس کا سیکھنا لوگوں پر واجب ہے ۔ اورپھر اپنے اس کلام کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اگر کسی بندے کے پاس مال نہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ زکوٰۃ کے مسائل سیکھے بلکہ جب اس کے پاس دو سو درہم (ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا) آجا ئے تو اس پر یہ سیکھنا واجب ہوگا کہ وہ کتنی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ اور کب نکالے گا؟ او ر کہاں نکالے گا؟ اور اسی طرح بقیہ تمام چیزوں کے احکام ہیں ۔ (یعنی جب کوئی چیز پیش آئے گی تو اس کی ضرورت کے مسائل سیکھنا ضروری ہو جائے گا)(الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۱، روایت نمبر: ۱۶۳)
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ہر مسلمان پر یہ بات واجب ہے کہ وہ کھانےپینے، پہننے میں او ر پوشیدہ امور کے متعلق ان چیزوں کا علم حاصل کرے جو اس کے لیے حلال ہیں اور جو اس پر حرام ہیں ۔ یونہی خون اور اموال میں جو اس پر حلال ہے یا حرام ہے یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن سے بے خبر (غافل ) رہنا کسی کو بھی جائز نہیں ہے اور ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ ان چیزوں کو سیکھے ۔۔۔۔اور امام یعنی حاکمِ وقت عورتوں کے شوہروں کو اور لونڈیوں کے آقاؤں کو مجبور کرے کہ وہ انہیں وہ چیزیں سکھائیں جن کا ہم نے ذکر کیا اور حاکمِ وقت پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کی اس بارے میں پکڑ کرے اور جاہلوں کو سکھانے کی جماعتیں ترتیب دے اور ان کے لئے بیت المال کے اندر رزق مقرر کرے اور علماء پر واجب ہے کہ وہ جاہلوں کو وہ چیزیں سکھائیں جن سے وہ حق وباطل میں فرق کرلیں ۔(الفقیہ والمتفقہ، وجوب التفقّہ فی الدِّین علی کافۃ المسلمین، ۱ / ۱۷۴)
ان تمام اَقوال سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علمِ دین سیکھنا صرف کسی ایک خاص گروہ کا کام نہیں بلکہ اپنی ضرورت کی بقدر علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت علمِ دین سے دور نظر آتی ہے ۔ نمازیوں کو دیکھیں تو چالیس چالیس سال نماز پڑھنے کے باوجود حال یہ ہے کہ کسی کو وضو کرنا نہیں آتا تو کسی کو غسل کا طریقہ معلوم نہیں ، کوئی نماز کے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا تو کوئی واجبات سے جاہل ہے، کسی کی قرأ ت درست نہیں تو کسی کا سجدہ غلط ہے۔ یہی حال دیگر عبادات کا ہے خصوصاً جن لوگوں نے حج کیا ہو ان کو معلوم ہے کہ حج میں کس قدر غلطیاں کی جاتی ہیں ! ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس حج کے لئے چلے جاؤ جو کچھ لوگ کر رہے ہوں گے وہی ہم بھی کرلیں گے۔ جب عبادات کا یہ حال ہے تو دیگر فرض علوم کا حال کیا ہوگا؟ یونہی حسد، بغض، کینہ، تکبر، غیبت، چغلی، بہتان اورنجانے کتنے ایسے امور ہیں جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو ان کی تعریف کا پتہ تک نہیں بلکہ ان کی فرضیت تک کا علم نہیں ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا گناہ ہونا عموماً لوگوں کو معلوم ہوتا ہے اور وہ چیزیں جن کے بارے میں بالکل بے خبر ہیں جیسے خریدوفروخت، ملازمت، مسجدو مدرسہ اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے کچھ مسائل بھی ہیں ، بس ہر طرف ایک اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ،ایسی صورت میں ہر شخص پر ضروری ہے خود بھی علم سیکھے اور جن پر اس کا بس چلتا ہو انہیں بھی علم سیکھنے کی طرف لائے اور جنہیں خود سکھا سکتا ہے انہیں سکھائے ۔
اگر تمام والدین اپنی اولاد کو اور تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کو اور تمام پیر صاحبان اپنے مریدوں کو اور تمام افسران و صاحب ِ اِقتدار حضرات اپنے ماتحتوں کوعلمِ دین کی طرف لگا دیں تو کچھ ہی عرصے میں ہر طرف دین اور علم کا دَور دورہ ہو جائے گا اور لوگوں کے معاملات خود بخود شریعت کے مطابق ہوتے جائیں گے۔ فی الوقت جو نازک صورتِ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک مرتبہ سناروں کی ایک بڑی تعداد کوایک جگہ جمع کیا گیا جب ان سے تفصیل کے ساتھ ان کا طریقۂ کار معلوم کیا گیا تو واضح ہوا کہ اس وقت سونے چاندی کی تجارت کا جو طریقہ رائج ہے وہ تقریباً اسی فیصد خلافِ شریعت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری دیگر تجارتیں اور ملازمتیں بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں ۔
جب معاملہ اتنا نازک ہے تو ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرسکتا ہے، اس لئے ہر شخص پر ضروری ہے کہ علمِ دین سیکھے اور حتّی الامکان دوسروں کو سکھائے یا اس راہ پر لگائے اور یہ محض ایک مشورہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں پرحاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگو ں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں اور ان(غلام لونڈیوں ) کے بارے میں پوچھا جائے گاجن کا وہ مالک ہے۔( معجم صغیر، باب الدال، من اسمہ: داود، ص۱۶۱)
مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چونکہ سب سے زیادہ ہے اس لئے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ،چنانچہ حضرت عثمان الحاطبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔( شعب الایمان، الستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۰۰، روایت نمبر: ۸۶۶۲)
اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں یہی گرفت میں آئیں گے ،اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں گے ،اسکول کی بھاری فیس بھی دیں گے، کتابیں بھی خرید کر دیں گے اور نجانے کیاکیا کریں گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں کچھ بھی توجہ نہیں دیں گے، بلکہ بعض ایسے بدقسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں جبراً منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا رکھا ہے ۔ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ بالکل غلط جملہ ہے۔ اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے کہ اس میں علمِ دین کی تحقیر ہے۔ دوم اسی پر غور کرلیں کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت، انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبروحشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔آج نہیں تو کل جب حساب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے گااس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے؟ بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ہاں علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں ملیں گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں گے۔ بلکہ خود حدیث پاک میں موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں ایک وہ ہے جس کو دنیا میں علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔(ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن محمد بن جعفر۔۔۔ الخ، ۵۱ / ۱۳۷)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل ِسلیم دے اور انہیں علمِ دین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
سوال کرناعلم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوال کرنا علم حاصل ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’علم خزانے ہیں اور ان خزانوں کی چابی سوال کرناہے تو تم سوال کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، کیونکہ سوال کرنے کی صورت میں چار لوگوں کو اجر دیاجاتا ہے۔ (1) سوال کرنے والے کو۔ (2) سکھانے والے کو۔ (3) سننے والے کو۔ (4) ان سے محبت رکھنے والے کو۔(الفقیہ والمتفقہ، باب فی السؤال والجواب وما یتعلّق بہما۔۔۔ الخ، ۲ / ۶۱، الحدیث: ۶۹۳)
حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا سوال کرنا نصف علم ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۵ / ۱۰۸، الحدیث: ۶۷۴۴)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں در پیش معاملات کے بارے میں اہلِ علم سے سوال کرنے اور اس کے ذریعے دین کے شرعی اَحکام کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ(8)ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے انہیں کوئی ایسے بدن نہ بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے تھے۔ پھر ہم نے اپنا وعدہ انہیں سچا کر دکھایا تو ہم نے انہیں اور جن کو چاہا نجات دی اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا:اور ہم نے انہیں خالی بدن نہ بنایا۔} کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایک اعتراض یہ کیا تھا کہ:
’’مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ‘‘(فرقان:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس رسول کو کیا ہوا؟ کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے۔
اوریہاں اِس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کاطریقہ یہی جاری ہے کہ اس نے گزشتہ زمانوں میں جتنے بھی رسول بھیجے ان کے بدن ایسے نہیں بنائے تھے جو کھانے پینے سے بے نیاز ہوں بلکہ ان کے بدن بھی ایسے ہی بنائے تھے جنہیں کھانے پینے کی حاجت ہو، یونہی وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے والے نہ تھے بلکہ عمر پوری ہو جانے کے بعد ان کی بھی وفات ہوئی، اور جب اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہی یہی ہے تو کفارِ مکہ کا رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کھانے پینے پر اعتراض کرنامحض بے جا اور فضول ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸، ۸ / ۱۲۲، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۴۵۶، ملتقطاً)
{ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ:پھر ہم نے اپنا وعدہ انہیں سچا کر دکھایا۔}ارشاد فرمایا کہ ہم نے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف جو وحی کرنی تھی وہ وحی کی ،پھر ہم نے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونجات دینے اور ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا تو ہم نے انہیں اور ان کی تصدیق کرنے والے مومنوں کو نجات دی اور انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کر کے حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کردیا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۴۵۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۱۰-۷۱۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹، ص۲۷۰، ملتقطاً)
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا:بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی ۔}ارشاد فرمایا کہ اے قریش کے گروہ! ہم نے تمہاری طرف ایک عظیم الشان کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا شرف اور تمہاری عزت ہے کیونکہ وہ تمہاری زبان اور تمہاری لغت کے مطابق ہے توتم ا س کتاب سے کیسے منہ پھیر سکتے ہو حالانکہ غیرت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کتاب کی اور اس نبی کی تعظیم کرو جو اسے لے کر آئے ہیں اور اس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو جاؤ،کیا تم جاہل ہو اور تمہیں عقل نہیں کہ ایمان لا کر اس عزت و کرامت اور سعادت کو حاصل کرو۔( ابوسعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۰۷، صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۱۲۹۲، ملتقطاً)
اس آیت میں مذکور لفظ ’’فِیْهِ ذِكْرُكُمْ‘‘ کے مفسرین نے اور معنی بھی بیان کئے ہیں ،جیسے ایک معنی یہ ہے کہ ’’اس میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ’’ اس میں تمہارے دینی اور دُنْیَوی اُمور اور حاجات کا بیان ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۷۱۱)
قرآنِ مجید کی تعلیمات سے منہ پھیرنے کا انجام:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم پر ایمان لانا اور ا س کے احکامات و تعلیمات پر عمل کرنا عزت و شہرت کا باعث ہے اورتاریخ اس بات پر گواہ ہے جب تک مسلمانوں نے قرآنِ مجید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کی ہدایات و احکامات پر کامل طریقے سے عمل کیا تب تک وہ شہرت و نامْوری اور عزت و کرامت کی بلندیوں پر فائز رہے اورہر میدان میں کفار پر غلبہ و نصرت اور کامیابی حاصل کرتے رہے اور جب سے مسلمان قرآنِ عظیم کی تعلیمات پر عمل سے دور ہونا شروع ہوئے تب سے ان کی عزت،شہرت،ناموری اور دبدبہ ختم ہونا شروع ہو گیا اور رفتہ رفتہ کفار مسلمانوں پر غالب ہونا شروع ہو گئے اور اب مسلمانوں کا حال یہ ہو گیا ہے کہ جہاں بن پڑا وہاں کفار مسلمانوں کی سرزمین پر قابض ہیں اور جہاں نہیں بن پڑا وہاں مسلمانوں کی اِقتصادیات،معاشیات اور در پردہ مسلمانوں کی ذہنیت، سوچ اور کلچر پر قابض ہیں اور مسلم حکمرانوں کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچا رہے ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اور
درسِ قرآں گر ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں جو ظلم کرنے والی تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم پیدا کردی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَةٍ:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں ۔} اس سے پہلی آیات میں کفارکی طرف سے حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پرکئے گے اعتراضات اوران کے جوابات ذکرفرمائے گئے اور یہاں سے اِ س امت کے کفار کو کفر نہ چھوڑنے اور ایمان نہ لانے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایاجا رہا ہے ۔گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے کافرو! تم اپنے مال و دولت کی وسعت سے دھوکہ نہ کھاؤ اور اپنے اموال و اولاد پر غرور نہ کرو کیونکہ ہم نے بہت سی بستیوں کے کفار کو تباہ و برباد کر دیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم پیدا کردی اور جو کچھ ان کافروں کے ساتھ ہوا وہ تمہارے ساتھ بھی ہو سکتاہے۔( صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۲۹۲)
فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَرْكُضُوْنَﭤ(12)لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِیْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْــٴَـلُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب انہوں نے ہمارا عذاب پایا تو اچانک وہ اس سے بھاگنے لگے ۔بھاگو نہیں اوران آسائشوں کی طرف لوٹ آؤجو تمہیں دی گئی تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف (لوٹ آؤ) شاید تم سے سوال کیا جائے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَا:تو جب انہوں نے ہمارا عذاب پایا۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کا عذاب پایا تو اچانک وہ اس سے بھاگنے لگے ۔اس پر فرشتے کے ذریعے ان سے کہا گیا کہ تم بھاگو نہیں اوران آسائشوں کی طرف لوٹ آؤجو تمہیں دی گئی تھیں اور اپنے ان مکانوں کی طرف لوٹ آؤ جن پر تم فخر کیا کرتے تھے ،شاید لوگوں کی عادت کے مطابق تم سے تمہاری دنیا کے بارے میں سوال کیا جائے ۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان آیات میں یمن کی سرزمین میں موجود ایک بستی میں رہنے والے لوگوں کا حال بیان ہوا ہے۔ اس بستی کا نام حصور (یا،حضور) ہے ،وہاں کے رہنے والے عرب تھے ،انہوں نے اپنے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور انہیں شہید کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بُخْت نصر کو مُسَلَّط کر دیا۔ اِس نے اُن کے بعض لوگوں کو قتل کیا اور بعض کو گرفتار کرلیا، اُس کا یہ عمل جاری رہا تو وہ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگے۔ اس پر فرشتوں نے طنز کے طور پر ان سے کہا: تم بھاگو نہیں اوران آسائشوں کی طرف لوٹ آؤجو تمہیں دی گئی تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف لوٹ آؤ، شاید تم سے سوال کیا جائے کہ تم پر کیا گزری اور تمہارے مال و دولت کا کیا ہوا؟ تو تم دریافت کرنے والے کو اپنے علم اور مشاہدے سے جواب دے سکو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۵ / ۴۵۸، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۳ / ۲۷۲، جمل، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳، ۵ / ۱۲۱-۱۲۲، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۳،ص۷۱۱، ملتقطاً)
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(14)فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: ہائے ہماری بربادی! بیشک ہم ظالم تھے۔ تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹے ہوئے ، بجھے ہوئے کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا یٰوَیْلَنَا:انہوں نے کہا: ہائے ہماری بربادی۔}جب وہ بھاگ کر نجات پانے سے مایوس ہو گئے اور انہیں عذاب نازل ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے کہا:ہائے ہماری بربادی! بیشک ہم ظالم تھے۔ یہ ان کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور اس پر ندامت کا اظہار تھا لیکن چونکہ عذاب دیکھنے کے بعد انہوں نے گناہ کا اقرار کیا اوراس پر نادِم ہوئے اس لئے یہ اعتراف انہیں کام نہ آیا۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۰۸)
{فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ:تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی۔}ارشاد فرمایا کہ ان کی یہی چیخ و پکاررہی کہ ہائے ہماری بربادی! ہم ظالم تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں کھیت کی طرح کٹے ہوئے کر دیا کہ تلواروں سے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے اوروہ بجھی ہوئی آ گ کی طرح ہو گئے ۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۷۰)
کون سی توبہ فائدہ مند ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ عذاب آجانے پر توبہ اوراپنے جرم کا اقرار کرنا بے فائد ہ ہے۔ جیسے پھل وہی درخت دیتا ہے جو وقت پر بویا جائے اور بے وقت کی بوئی ہوئی کھیتی پھل نہیں دیتی اسی طرح توبہ وہی فائدہ مند ہے جو عذاب آنے سے پہلے کی جائے اور جو توبہ بے وقت کی جائے وہ عذاب دور نہیں کرتی۔
قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(14)فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: ہائے ہماری بربادی! بیشک ہم ظالم تھے۔ تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹے ہوئے ، بجھے ہوئے کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا یٰوَیْلَنَا:انہوں نے کہا: ہائے ہماری بربادی۔}جب وہ بھاگ کر نجات پانے سے مایوس ہو گئے اور انہیں عذاب نازل ہونے کا یقین ہو گیا تو انہوں نے کہا:ہائے ہماری بربادی! بیشک ہم ظالم تھے۔ یہ ان کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور اس پر ندامت کا اظہار تھا لیکن چونکہ عذاب دیکھنے کے بعد انہوں نے گناہ کا اقرار کیا اوراس پر نادِم ہوئے اس لئے یہ اعتراف انہیں کام نہ آیا۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۵۰۸)
{فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ:تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی۔}ارشاد فرمایا کہ ان کی یہی چیخ و پکاررہی کہ ہائے ہماری بربادی! ہم ظالم تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں کھیت کی طرح کٹے ہوئے کر دیا کہ تلواروں سے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے اوروہ بجھی ہوئی آ گ کی طرح ہو گئے ۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۲۷۰)
کون سی توبہ فائدہ مند ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ عذاب آجانے پر توبہ اوراپنے جرم کا اقرار کرنا بے فائد ہ ہے۔ جیسے پھل وہی درخت دیتا ہے جو وقت پر بویا جائے اور بے وقت کی بوئی ہوئی کھیتی پھل نہیں دیتی اسی طرح توبہ وہی فائدہ مند ہے جو عذاب آنے سے پہلے کی جائے اور جو توبہ بے وقت کی جائے وہ عذاب دور نہیں کرتی۔
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب فضول پیدا نہیں کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب فضول پیدا نہیں کیا۔} اللہ تعالیٰ نے آسمان ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان عجائبات ہیں ،ان سب کو فضول پیدا نہیں کیاکہ ان سے کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ انہیں پیدا کرنے میں اس کی کثیر حکمتیں ہیں اوران بے شمار حکمتوں میں سے چند یہ ہیں کہ ان اَشیاء سے اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی قدرت و حکمت پر اِستدلال کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے اوصاف و کمال کی معرفت حاصل ہو ، حق وباطل میں فرق ہو جائے ،لوگ غوروفکرکریں ، غفلت سے بیدارہوں ،نیک اعمال کریں اور آخرت میں اچھی جزا پائیں اور اس طرح کے خیال کوذہن میں نہ آنے دیں کہ عالَم کا سارانظام ایک کھیل تماشہ ہے اور ہرشخص دنیامیں جوبھی کرتاپھرے اس سے کوئی پوچھنے والانہیں اورنہ ہی آخرت میں اس سے سوال وجواب ہوگا جیسا کہ بطورِ خاص دَہریوں کا عقیدہ ہے اور روز بروز ان لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ ﳓ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(17)بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ-وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر ہم کوئی کھیل ہی اختیار کرنا چاہتے تو اپنے پاس سے ہی اختیار کرلیتے اگر ہمیں کرنا ہوتا۔ بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں تو وہ اس کادماغ توڑ دیتاہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتا ہے اور تمہارے لئے بربادی ہے ان باتوں سے جو تم کرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا:اگر ہم کوئی کھیل ہی اختیار کرنا چاہتے ۔}یعنی اگر ہم آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود اَشیاء کو کسی حکمت کے بغیر بے مقصد بنا کر کسی ایسی چیز کو اختیار کرنا چاہتے جس سے کھیلا جائے تو ہم ان کی بجائے اپنے پاس سے ہی کسی چیز کو اختیار کر لیتے، لیکن یہ اُلوہِیّت کی شان اور حکمت کے منافی ہونے کی وجہ سے ہمارے حق میں محال ہے لہٰذا ہمارا کھیل کے لئے کسی چیز کو اختیار کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے۔
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں کھیل سے مراد بیوی اور بیٹا ہے اور یہ آیت ان عیسائیوں کے رد میں ہے جو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکو مَعَاذَ اللہ، اللہ تعالیٰ کی بیوی اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں ،چنانچہ اس قول کے مطابق آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بیوی اور بیٹا اختیار کرنا چاہتا تو وہ انسانوں میں سے نہ کرتا بلکہ اپنے پاس موجود حورِ عِین اور فرشتوں میں سے کسی کو بیوی اور بیٹا بنا لیتا، یونہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکی طرح انہیں لوگوں کے پاس نہ رکھتا بلکہ اپنے پاس رکھتا کیونکہ بیوی اور بیٹے والے بیوی اوربیٹے اپنے پاس رکھتے ہیں ،لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ بیوی اور اولاد سے پاک ہے، نہ یہ اس کی شان کے لائق ہے اور نہ اس کے حق میں یہ کسی طرح ممکن ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا ہی نہیں ۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۵۰۹، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۲۵، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۲۷۳، ملتقطاً)
{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ:بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینکتے ہیں ۔}یعنی ہماری شان یہ نہیں کہ ہم کھیل کے لئے کوئی چیز اختیار کریں بلکہ ہماری شان تو یہ ہے کہ ہم حق کو باطل پر غالب کر تے ہیں تو وہ باطل کوپورا مٹادیتا ہے اوراسی وقت باطل مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور اے کافرو! تمہارے لئے اُن باتوں کی وجہ سے بربادی ہے جو تم اللہ تعالیٰ کی شان میں کرتے ہو اور اس کے لئے بیوی اور بچہ ٹھہراتے ہو۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۰۹)
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کی ملک ہیں اورجو اللہ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اور جوآسمانوں اور زمین میں ہیں سب اسی کی مِلک ہیں ۔}ارشاد فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور سب اس کی ملک ہیں تو کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ! ملکیت ہونے اور اولاد ہونے میں مُنافات ہے اور مقرب فرشتے جنہیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس کی بارگاہ میں قرب و منزلت کا ایک خاص مقام حاصل ہے وہ اس کی عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی عبادت کرنے سے تھکتے ہیں۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۹،ص۷۱۲)
یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
رات اوردن اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ،وہ سستی نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:رات اوردن اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔}یعنی فرشتے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہتے ہیں اور اس میں وہ کسی طرح کی سستی نہیں کرتے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۲۷۳)
فرشتوں کی تسبیح کی کیفیت:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں کے لئے تسبیح ایسے ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا تو جس طرح ہمارا کھڑ ا ہونا ، بیٹھنا،کلام کرنا اور دیگر کاموں میں مصروف ہونا ہمیں سانس لینے سے مانع نہیں ہوتا اسی طرح فرشتوں کے کام انہیں تسبیح سے مانع نہیں ہوتے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۴۶۲)
اور دلیل کے طور پر آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ روایت ذکر فرمائی کہ حضرت عبد اللہ بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا کہ کیا فرشتے پیغام رسانی میں مصروف نہیں ہوتے؟ کیا وہ دیگر کاموں میں مشغول نہیں ہوتے؟ (اورجب وہ ان چیزوں میں مصروف ہوتے ہیں تو پھر ہر وقت وہ تسبیح کس طرح کرتے ہیں ) حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ فرشتوں کے لیے تسبیح کو ایسے بنایا گیا ہے جیسے تمہارے لیے سانس بنائی گئی ہے ۔کیا آپ کھاتے ،پیتے ،آتے جاتے اور بولتے وقت سانس نہیں لے رہے ہوتے ؟ بالکل یہی کیفیت ان کی تسبیح کی ہے۔(شعب الایمان، الثالث من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی معرفۃ الملائکۃ، ۱ / ۱۷۸، روایت نمبر: ۱۶۱)
قرب و شرف رکھنے والوں کا وصف:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’فرشتوں کے بارے میں یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرنے پر ابھارنا اور کافروں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وعبادت ترک کرنے پر شرم دلانا ہے کیونکہ عبادت اور تسبیح کرنا قرب اور شرف رکھنے والے لوگوں کا وصف ہے اور اسے چھوڑ دینا ( اللہ تعالیٰ کی رحمت سے )دور ہونے والے اور ذلیل لوگوں کا شیوہ ہے۔(تفسیر صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۲۹۴)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں کے طریقے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرنے میں مصروف رہے اور اس سلسلے میں کسی طرح کی شرم وعار محسوس نہ کرے ۔
اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ یُنْشِرُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے زمین میں سے کچھ ایسے معبود بنالئے ہیں جومردوں کو زندہ کرتے ہوں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَمِ اتَّخَذُوْۤا اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ:کیا انہوں نے زمین میں سے کچھ ایسے معبود بنالئے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا کافروں نے زمین کے جواہر اور معدنیات جیسے سونے چاندی اور پتھر وغیرہ سے کچھ ایسے معبود بنالئے ہیں جو مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ؟ایسا تو نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہو سکتا ہے کہ جو خو دبے جان ہو وہ کسی کو جان دے سکے، تو پھر ان چیزوں کو معبود ٹھہرانا اور اِلٰہ قرار دینا کتنا کھلا باطل ہے ۔ معبود وہی ہے جو ہر شے پر قادر ہو اور جو زندگی موت دینے اورنفع نقصان پہنچانے پر ہی قادر نہیں تو اسے معبود بنانے کو کون سی عقل جائز قرار دے سکتی ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۱۲-۷۱۳، تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۱۲۷، ملتقطاً)
لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اورمعبود ہوتے تو ضرور آسمان و زمین تباہ ہوجاتے تولوگوں کی بنائی ہوئی باتوں سے اللہ پاک ہے جوعرش کا مالک ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا:اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور آسمان و زمین تباہ ہوجاتے ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے واحد معبود ہونے کی ایک قطعی دلیل بیان کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آسمانوں یازمین پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو سارے عالَم کانظام درہم برہم ہوجاتا، کیونکہ اگر خدا سے وہ خدا مراد لئے جائیں جن کی خدائی کا بت پرست اعتقاد رکھتے ہیں تو عالَم کے فساد کا لازم ہونا ظاہر ہے کیونکہ بت پرستوں کے خدا جمادات ہیں اوروہ عالَم کا نظام چلانے پر اَصْلاً قدرت نہیں رکھتے ،تو جب قدرت ہی کچھ نہیں تو وہ کائنات کو کیسے چلاتے ؟ اور اگر خدا سے مُطْلَقاً وہ سارے خدا مراد ہوں جنہیں کوئی بھی مانتا ہے تو بھی جہان کی تباہی یقینی ہے ،کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو دو حال سے خالی نہیں ،(1)وہ دونوں کسی شے پرمتفق ہوں گے۔(2)وہ دونوں کسی شے پر مختلف ہوں گے۔ اگر ایک چیز پر متفق ہوئے تواس سے لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں کی قدرت میں ہو اور دونوں کی قدرت سے واقع ہو۔ یہ محال ہے، اور اگر مختلف ہوئے تو ایک چیز کے بارے میں دونوں کے ارادوں کی مختلف صورتیں ہوں گی، (۱) دونوں کے ارادے ایک ساتھ واقع ہوں گے۔اس صورت میں ایک ہی وقت میں وہ چیز موجود اور معدوم دونوں ہوجائے گی ۔ (۲) دونوں کے ارادے واقع نہ ہوں ۔ اس صورت میں وہ چیز نہ موجود ہو گی نہ معدوم۔ (۳) ایک کا ارادہ واقع ہو اور دوسرے کا واقع نہ ہو۔ یہ تمام صورتیں محال ہیں کیونکہ جس کی بات پوری نہ ہوگی وہ خدا نہیں ہوسکتا حالانکہ جو صورت فرض کی گئی ہے وہ خدا فرض کرکے کی گئی ہے، تو ثابت ہوا کہ بہر صورت ایک سے زیادہ خدا ماننے میں نظامِ کائنات کی تباہی اورفساد لازم ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۱، ۸ / ۱۲۷، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق یہ انتہائی مضبوط دلیل ہے اور اسے بیان کرنے کے مختلف انداز بڑی تفصیل کے ساتھ علمِ کلام کے ماہر علماء کی کتابوں میں مذکور ہیں ، عوام کی تفہیم کے لئے اتنا ہی کافی ہے جتنابیان کیا گیا البتہ جو علماءِ کرام اس کی مزید تفصیلات جاننا چاہیں وہ علمِ کلام کے معتبر اور با اعتماد ماہرین کی لکھی ہوئی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں ۔
{فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ:تو اللہ پاک ہے ۔}یعنی عرش کا مالک اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں لوگوں کی بنائی ہوئی ان تمام باتوں سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ،لہٰذا نہ ا س کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے۔
لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ سے اس کام کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا جو وہ کرتا ہے اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ: اللہ سے اس کام کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا جو وہ کرتا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان یہ ہے کہ وہ جو کام کرتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ حقیقی مالک ہے، جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، جسے چاہے سعادت دے اورجسے چاہے بدبخت کرے، وہ سب کا حاکم ہے اور کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۷۱۳، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴، ملتقطاً)
یہاں پوچھنے سے مراد سرزنش اور حساب کا پوچھنا ہے یعنی کسی مخلوق کی جرأت نہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ سے عتاب کی پوچھ گچھ کرے بلکہ رب تعالیٰ ان سے پوچھ گچھ کرے گا۔البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اطمینانِ قلب یاکشف ِحقیقت کے لیے سوال کرسکتے ہیں جیساکہ قرآنِ مجید ،فرقانِ حمید میں ہی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااطمینانِ قلب کے لیے مُردوں کوزندہ کرنے کاسوا ل کرنا منقول ہے یا فرشتوں نے رب تعالیٰ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی حکمت پوچھی تھی۔البتہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سوال اگرچہ حسنِ نیت سے ہولیکن کسی دوسری حکمت کی وجہ سے مُطْلَقاً ہی سوال سے منع کردیا جاتا ہے جیسا کہ اس کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ۔
بد ترین اعتراضات اور ان کا انجام:
یاد رہے کہ سب سے بد ترین اعتراض یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے ،جیسے شیطان نے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اعتراض کیا تواس کی تمام تر عبادت و ریاضت اور مقام و مرتبے کے باوجودبارگاہ ِ الٰہی سے اسے مَردُود و رسوا کر کے نکال دیا گیا، جب اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی مخلوق پر اعتراض کا یہ انجام ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی شان اور ا س کے افعال وصفات پر اعتراض کرنے کی جرأت کرے گا اس کا کیا حال ہو گا۔
اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کرنا بھی بہت بد ترین ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی خواہش سے کچھ کہتے ہیں نہ کرتے ہیں بلکہ جو کہتے اور کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو آپ پر اعتراض کرنا اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے اور اس میں ہلاکت و بربادی ہے،جبکہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور بزرگ علماء پر اعتراض کرنا خیر و بھلائی سے محروم کر دیتا ہے ، ان کی صحبت کی برکت اور علم میں اضافہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو اعتراض کرنے والوں کا دُنْیَوی انجام ہے اور آخرت میں ان کا حال یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا اور ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہو گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۴۶۵-۴۶۶، ملخصاً)
{وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ:اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔}ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے ان کے کاموں کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ کیونکہ سب اس کے بندے اوراس کی ملکیت ہیں اور سب پر اس کی اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴)
اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک اور دلیل بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ ایک ہی چیز مالک اور مملوک نہیں ہو سکتی۔
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةًؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْۚ-هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِیْؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَۙ-الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ(24)ترجمہ: کنزالعرفانکیا انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ؟تم فرماؤ: تم اپنی دلیل لاؤ۔ یہ قرآن میرے ساتھ والوں کا ذکرہے اور مجھ سے پہلوں کا تذکرہ ہے بلکہ اُن کے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے تو وہ منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً:کیا انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ؟} اللہ تعالیٰ نے کفار کو ڈانٹتے ہوئے اِستفہام کے انداز میں فرمایا کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں ؟ اے حبیب !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ تم اپنے اس باطل دعوے پر اپنی دلیل لاؤ اورحجت قائم کرو خواہ عقلی ہو یا نقلی، مگر تم نہ کوئی عقلی دلیل لا سکتے ہو جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے ظاہر ہو چکا اور نہ کوئی نقلی دلیل پیش کر سکتے ہو ،کیونکہ تمام آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہے اور سب میں شرک کوباطل قرار دیا گیا اور ا س کا رد کیا گیا ہے ۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۷۴، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۷۱۳، ملتقطاً)
{هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ:یہ قرآن میرے ساتھ والوں کا ذکرہے۔} ساتھ والوں سے مرادحضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے ، قرآنِ کریم میں اس کا ذکر ہے کہ اس کو طاعت پر کیا ثواب ملے گا اور معصیت پر کیا عذاب کیا جائے گا ۔پہلوں سے مراد یہ ہے کہ پہلے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں کا اور اس کا تذکرہ ہے کہ دنیا میں ان کے ساتھ کیا کیا گیا اور آخرت میں کیا کیا جائے گا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ ساتھ والوں کے ذکر سے مراد قرآنِ مجید ہے اور پہلوں کے ذکر سے مراد تورات اور انجیل ہے ،اور معنی یہ ہے کہ تم قرآن، تورات، انجیل اور تمام (آسمانی) کتابوں کی طرف رجوع کرو، کیا تم ان میں یہ بات پاتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کی یا اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۷۵)
{بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَۙ-الْحَقَّ:بلکہ اُن کے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے ۔} اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے عوام کا حال یہ کہ وہ حق کو جانتے نہیں اور بے شعوری و جہالت کی وجہ سے حق سے منہ پھیرے ہوئے ہیں اور ا س بات پرغور و فکر نہیں کرتے کہ توحید پر ایمان لانا ان کے لئے کتنا ضروری ہے جبکہ ان کے علماء جان بوجھ کر عناد کی وجہ سے حق کے منکر ہیں۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۷۱۳، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۴۶۶-۴۶۷، ملتقطاً)
فساد کی سب سے بڑی جڑ
اس سے معلوم ہوا کہ حق کے بارے میں معلومات نہ ہونا اور حق و باطل میں تمیز نہ کرنا حق سے منہ پھیرنے کا بہت بڑ اسبب اورفساد کی سب سے بڑی جڑ ہے کیونکہ ان ہی دوچیزوں کا یہ نتیجہ ہے کہ کئی لوگ کفر و شرک جیسے عظیم فساد میں مبتلا ہیں ،بعض افراد منافقت کے بد ترین مرض کا شکار ہیں ،بعض مسلمان ریا کاری، نفسانی خواہشات کی پیروی اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں ، بعض پڑھے لکھے جاہل حضرات اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلام کے اَحکام اور ان کی حکمتوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور بطورِ خاص سوشل میڈیا پراسلامی احکام اور اسلامی اقدار پر اعتراضات کرنے اور انہیں انسانیت کے برخلاف ثابت کرنے میں مصروف ہیں ، نیزدینِ اسلام کی تعلیمات سے جہالت کی وجہ سے لوگوں کی ایک تعداد اپنے باہمی اُمور میں شریعت کی رعایت کرنے سے منہ پھیرے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ،حق کا علم ، حق و باطل میں تمیز کرنے ، حق کو اختیار کرنے اور باطل سے منہ پھیر لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا:اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے جس امت کی طرف کوئی رسول اور نبی بھیجا ،ہم اس کی طرف وحی فرماتےرہے کہ زمین و آسمان میں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں جو عبادت کئے جانے کامستحق ہو، تو اخلاص کے ساتھ میری عبادت کرو اور صرف مجھے ہی معبود مانو۔(تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۱۶)
آیت ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہو ئیں
(1)…ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی آتی تھی۔ نبوت کے لئے وحی لازم و ضروری ہے۔
(2)… تمام اَنبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبعوث فرمانے کی بنیادی حکمت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ثابت کرنا اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔
(3)…تمام اَنبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عقائد میں متفق ہیں ،اعمال میں فرق ہے۔کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے دین میں شرک جائز نہیں ہوا ، لہٰذا سجدہِ تعظیمی شرک نہیں کیونکہ بعض انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں یہ ہوا ہے البتہ ہماری شریعت میں حرام ضرور ہے۔
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗؕ-بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ(26)لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے کہا: رحمٰن نے اولاد بنالی ہے۔وہ پاک ہے، بلکہ (فرشتے)عزت والے بندے ہیں۔ وہ کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوا:اور کافروں نے کہا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت خزاعہ قبیلے کے بارے میں نازِل ہوئی جنہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا تھا ۔ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کافر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں بلکہ وہ اس کے برگزیدہ اور مکرم بندے ہیں،وہ کسی بات میں اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں کرتے،صرف وہی بات کرتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ انہیں حکم دیتا ہے اور وہ کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ اس کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۲۷۵)
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَۙ-اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ صرف اسی کی شفاعت کرتے ہیں جسے اللہ پسند فرمائے اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ:وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے۔} اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ جو کچھ فرشتوں نے کیا اور جو کچھ وہ آئندہ کریں گے سب کچھ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ فرشتوں کی تخلیق سے پہلے کیاتھااوران کی تخلیق کے بعد کیاہوگا۔( بغوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۰۴)
{وَ لَا یَشْفَعُوْنَۙ-اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى:اور وہ صرف اسی کی شفاعت کرتے ہیں جسے اللہ پسند فرمائے۔}حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ’’ لِمَنِ ارْتَضٰى‘‘سے وہ لوگ مراد ہیں جو توحید کے قائل ہوں ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو(جن کا مسلمان ہونا بہرحال ضروری ہے۔)(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۷۵)
فرشتے دنیا میں شفاعت کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے:
یاد رہے کہ فرشتے دنیا میں بھی شفا عت کرتے ہیں ،کیونکہ وہ زمین پر رہنے والے ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ہیں ،جیساکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚ-رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ‘‘(مومن: ۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گردموجود (فرشتے) اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔اے ہمارے رب!تیری رحمت اور علم ہرشے سے وسیع ہے تو انہیں بخش دے جوتوبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ‘‘(شوری:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کے لیے معافی مانگتے ہیں ۔
اور آخرت میں بھی فرشتے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ زیرِ تفسیر آیت سے معلوم ہو رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: فرشتوں نے، نبیوں نے اور ایمان والوں نے شفاعت کر لی اور اب اَرحم الرّاحِمین کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا، پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ایک تعداد کو جہنم سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی کوئی نیک عمل نہ کیا ہو گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب معرفۃ طریق الرؤیۃ، ص۱۱۲، الحدیث: ۳۰۲(۱۸۳))
{وَ هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ:اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔} یعنی فرشتے ا س مقام و مرتبے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈر رہے ہیں ۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۲۷۵)
فرشتوں کا خوفِ خدا:
فرشتے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر، اس کی پکڑ اور ا س کے قہر سے کس قدر خوف زدہ رہتے ہیں ، اس سلسلے میں 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں معراج کی رات فرشتوں کے پاس سے گزرا تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس چادر کی طرح تھے جو اونٹ کی پیٹھ پر ڈالی جاتی ہے۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۰۹، الحدیث: ۴۶۷۹)
(2)…ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں روتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم کیوں رو رہے ہو؟ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی :جب سے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے تب سے میری آنکھ ا س خوف کی وجہ سے خشک نہیں ہوئی کہ کہیں مجھ سے اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہو جائے اور میں جہنم میں ڈال دیا جاؤں ۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۵)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے دریافت کیا کہ میں نے کبھی حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: جب سے جہنم کو پیدا کیا گیا ہے تب سے حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام نہیں ہنسے۔( مسند امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ۴ / ۴۴۷، الحدیث: ۱۳۳۴۲)
(4)…نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے پہلو اس کے خوف کی وجہ سے لرزتے رہتے ہیں ، ان کی آنکھ سے گرنے والے ہر آنسو سے ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ،جو کھڑے ہوکر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی پاکی بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۲۱، الحدیث: ۹۱۴)
فرشتے گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے اس قدر ڈرتے ہیں تو ہرنیک اور گناہگار مسلمان کو بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور اس کی پکڑ،گرفت اور قہر سے خوف کھائے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ:اور ان میں جو کوئی کہے۔} بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں در اصل ان مشرکوں کو ڈرایا گیا ہے جو معبود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے شرک سے باز آ جائیں ، اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بفرضِ محال فرشتوں میں سے کوئی یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی دوسرے مجرموں کی طرح جہنم کی سزا دے گا اور اس فرشتے کے اوصاف اور پسندیدہ اَفعال جہنم کی سزا سے اسے بچا نہ سکیں گے اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتا ہے جو اس کے سوا معبود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (اور جب فرشتوں کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے تو اے مشرکو! اس بد ترین عمل سے باز نہ آنے کی صورت میں تمہارا انجام کتنا دردناک ہو گا؟ )
اور بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بات’’ میں اللہ کے سوا معبود ہوں ‘‘ کہنے والا ابلیس ہے جو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے ، فرشتوں میں اور کوئی ایسا نہیں جو یہ کلمہ کہے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۴۶۹، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۲۷۵، ملتقطاً) یاد رہے کہ ابلیس در حقیقت جِنّات میں سے ہے اور چونکہ وہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اس لیے حکمی طور پر ان ہی میں سے شمار ہوتا تھا۔
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت اور شانِ تخلیق کا بیان ہے اور اسی میں عقیدہ ِشرک کی تردید بھی ہے کہ جب ان چیزوں کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کاکوئی شریک نہیں توعبادت میں اس کاکوئی شریک کیسے ہوسکتاہے ؟ چنانچہ ارشاد فرمایاکہ کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا فرمایا تو ان روشن نشانیوں کے باوجود کیا مشرکین ایمان نہیں لائیں گے؟( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۶، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۴۷۰-۴۷۱، ملتقطاً)
آسمان و زمین ملے ہوئے ہونے سے کیا مراد ہے؟
اس آیت میں فرمایا گیا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے،اس سے ایک مراد تویہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں فصل و جدائی پیدا کرکے انہیں کھولا گیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ آسمان اس طور پربند تھا کہ اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین اس طور پربند تھی کہ اس سے نباتات پیدا نہیں ہوتی تھیں ، تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵)
اس معنی کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص حضرت ِعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس آیا اور آسمانوں اور زمین کے بارے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا‘‘کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھ لو، پھر جو وہ جواب دیں مجھے بھی بتانا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں آسمان ملا ہوا تھا اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بھی ملی ہوئی تھی کوئی چیز نہ اگاتی تھی پھر جب اللہ تعالیٰ نے زمین پرمخلوق کو پیدا کیا تو آسمان کو بارش کے ساتھ اور زمین کونباتات کے ساتھ پھاڑ دیا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس واپس آیا اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کاجواب سنایا تو حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ بے شک حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو علم عطا کیا گیا ہے، انہوں نے سچ اور صحیح فرمایا ہے، وہ بالکل اسی طرح تھے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد اللہ بن عباس، ۱ / ۳۹۵، روایت نمبر ۱۱۲۸)
{وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ:اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ۔} ہر جاندار چیز کو پانی سے بنانے سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں : (1) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو جانداروں کی حیات کاسبب بنایاہے ۔ (2) اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا ہوا ہے۔ (3) پانی سے نطفہ مراد ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵-۳۷۶)
{اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ:تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟} اس سے مراد یہ ہے کہ کیا وہ ایسا نہیں کریں گے کہ ان دلائل میں غور و فکر کریں اور اِس کے ذریعے اُس خالق کو جان لیں جس کا کوئی شریک نہیں اور شرک کا طریقہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں ۔( تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۸)
اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے تمام سیکولر اور مُلحد مفکّرین کو چاہئے کہ وہ ان دلائل میں غورو فکر کریں جو خدا کے موجود ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور خدا کے موجود نہ ہونے کا نظریہ چھوڑ کراس خدا پر ایمان لے آئیں جو اس کائنات کو پیدا کرنے والااور اس کے نظام کو چلانے والا ہے۔
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ(31)وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین میں ہم نے مضبوط لنگر ڈال دئیے تاکہ لوگوں کو لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راستہ پالیں ۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ:اور زمین میں ہم نے مضبوط لنگر ڈال دئیے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں مضبوط پہاڑ قائم کر دئیے تاکہ زمین جم جائے ،ٹھہری رہے اور غیر مُتوازن حرکت نہ کرے اورلوگ اس پر آرام وسکون کے ساتھ چل سکیں اور اللہ تعالیٰ نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنے سفروں میں راستہ پالیں اور جن مقامات کا ارادہ کریں وہاں تک پہنچ سکیں ۔
{وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا:اور ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنایا ۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ایک گرنے سے محفوظ چھت بنایا اور کافروں کا حال یہ ہے کہ وہ آسمانی کائنات سورج ، چاند ، ستارے اور اپنے اپنے اَفلاک میں ان کی حرکتوں کی کیفیت اور اپنے اپنے مَطالع سے ان کے طلوع اور غروب اور ان کے احوال کے عجائبات جو عالَم کو بنانے والے کے وجود، اس کی وحدت اور اس کی قدرت و حکمت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں ، ان سب سے اِعراض کرتے ہیں اور ان دلائل سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۲۷۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ریاضی اور فلکیات کا علم اعلیٰ علوم میں سے ہے جبکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بنایا جائے۔ صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ ایک گھڑی کی فکر ہزار سال کے اس ذکر سے افضل ہے جو بغیر فکر کے ہو۔
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ۔ سب ایک گھیرے میں تیر رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ:اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا ۔} ارشاد فرمایا کہ وہی اکیلا معبود ہے جس نے رات کو تاریک بنایا تاکہ لوگ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں معاش وغیرہ کے کام انجام دیں اور سورج کو پیدا کیا تاکہ وہ دن کا چراغ ہو اور چاند کو پیدا کیا تاکہ وہ رات کا چراغ ہو ۔یہ سب ایک گھیرے میں ا یسے تیر رہے ہیں جس طرح تیراک پانی میں تیرتا ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۱۵، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۲۷۶، ملتقطاً)
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَؕ-اَفَاۡىٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے (دنیا میں ) ہمیشہ رہنا نہ بنایا تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ دوسرے لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ:اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے ہمیشہ رہنا نہ بنایا۔} گزشتہ آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے قادرِمُطْلَق ہونے کی نشانیاں بیان فرمائیں اور اسی کے تحت اپنی نعمتوں کابھی بیان فرمایا، اب ان آیات میں بتایا جارہا ہے کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور اس میں ہرچیز کوفنا ہونا ہے لہٰذا اس میں دل نہ لگاؤ اور نہ ہی اس دنیا کے عجائب وغرائب اور اس کی آرائشوں پرجان ودل سے قربان ہوجاؤ بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تویہ چیزیں تمہاری آزمائش کے لیے پیدا کی ہیں لہٰذا اپنی ابدی زندگی پر نظر رکھتے ہوئے اسی کی تیاری کرو۔ شانِ نزول: رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمن اپنی گمراہی اوردشمنی کی وجہ سے کہتے تھے کہ ہم حوادثِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، عنقریب ایسا وقت آنے والاہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وفات ہوجائے گی ۔اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ دشمنانِ رسول کے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کیونکہ ہم نے دنیا میں کسی آدمی کے لئے ہمیشگی نہیں رکھی۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اگر آپ انتقال فرما جائیں تو یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے اور انہیں موت کے پنجے سے رہائی مل جائے گی ؟جب ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کس بات پر خوش ہوتے ہیں ؟ اورحقیقت یہ ہے کہ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۴-۳۵، ۳ / ۲۷۶)
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں خوب آزماتے ہیں اور ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً:اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں خوب آزماتے ہیں ۔} یعنی ہم تمہیں راحت و تکلیف ،تندرستی و بیماری ، دولت مندی و ناداری، نفع اور نقصان کے ذریعے آزماتے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ صبر و شکر میں تمہارا کیا درجہ ہے اور بالآخر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے اورہم تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۷۶)
مصیبت آنے پر صبر اور نعمت ملنے پر شکر کرنے کی ترغیب:
ا س سے معلوم ہو اکہ بعض اوقات مصیبت نازل کر کے یا نعمت عطا کر کے بندے کواس بات میں آزمایا جاتا ہے کہ وہ مصیبت آنے پر کتنا صبر کرتا اور نعمت ملنے پر کتنا شکر کرتا ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ جب وہ محتاجی یا بیماری وغیرہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو شکوہ شکایت نہ کرے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہے اور جب اسے مالداری اور صحت وغیرہ کوئی نعمت ملے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے ۔ ترغیب کے لئے یہاں مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر کرنے سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو صبر کرنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا فرمادے گا اور صبر سے بہتر اور وسعت والی عطا کسی پر نہیں کی گئی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفّف والصبر، ص۵۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۱۰۵۳))
(2)…حضر ت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدار رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)
(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روا یت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے چار چیزیں عطا کی گئیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی گئی :(۱) شکر کرنے والا دل۔ (۲) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والی زبان۔ (۳) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن۔ (۴) اس کے مال اور عزت میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔( معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۳۴، الحدیث: ۱۱۲۷۵)
(4)…حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر کامطالبہ فرماتا ہے، اگر وہ اس کا شکر کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ دینے پر قادر ہے اور اگر وہ ناشکری کریں تووہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنی نعمت کو ان پر عذاب سے بدل دے۔(شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۷، روایت نمبر: ۴۵۳۶)
وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ یَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْۚ-وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں توآپ کو صرف ہنسی مذاق بنالیتے ہیں ۔ کیا یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے خداؤں کو برا کہتا ہے اور وہ (کافر) رحمٰن ہی کی یاد سے منکر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں ۔} گزشتہ آیت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کی باتیں کرنے والوں کوجواب دیا گیا، اب اس آیت میں ان لوگوں کو جواب دیا جا رہا ہے جو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مَسخرہ پن کیا کرتے تھے۔ شانِ نزول:یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازِل ہوئی۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے جارہے تھے تو ابو جہل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھ کر ہنسا اور اپنے ساتھ موجود لوگوں سے کہنے لگا کہ: یہ بنی عبد ِمناف کے نبی ہیں ،پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے : کیا یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے خداؤں کو برا کہتا ہے۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،یہ آپ پر اپنے خداؤں کو برا کہنے کا عیب لگاتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ رحمٰن ہی کی یاد سے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رحمٰن کو جانتے ہی نہیں ۔ اس جہالت اور گمراہی میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہنسی کے قابل توخود ان کا اپنا حال ہے۔(خازن ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۷۷، مدارک ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۷۱۶، روح البیان، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۴۷۹-۴۸۰، ملتقطاً)
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍؕ-سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
آدمی جلد باز بنایا گیا۔ اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا تومجھ سے جلدی نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ:آدمی جلد باز بنایا گیا۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جلد بازی کی زیادتی اور صبر کی کمی کی وجہ سے گویا انسان بنایا ہی جلد بازی سے گیا ہے یعنی جلد بازی انسان کا خمیر ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جلد بازی کو انسان کی فطرت اور اخلاق میں پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں آیت میں انسان سے کون مراد ہے، اس کے بارے میں مفسرین کے تین قول ہیں : (1) اس سے انسان کی جنس مراد ہے ۔ (2) یہاں انسان سے مراد نضر بن حارث ہے ۔ (3) اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔( روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۹ / ۶۴-۶۵)
{سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ:اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا۔} شانِ نزول: جب نضر بن حارث نے جلد عذاب نازل کرنے کامطالبہ کیا تواس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایاگیاکہ اب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے عذاب کے وہ وعدے مراد ہیں جو مشرکین کو دئیے گئے تھے ، ان وعدوں کا وقت قریب آ گیا ہے، لہٰذا انہیں چاہئے کہ وقت سے پہلے ان کا مطالبہ نہ کریں ۔چنانچہ دنیا میں بدر کے دن وہ منظر ان کی نگاہوں کے سامنے آ گیا اور آخرت میں وہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۷۷، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۴۸۰، ملتقطاً)
حضور اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی گستاخی کا انجام:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس مقام پر ’’تاویلات ِنجمیہ‘‘ کے حوالے سے ایک بہت پیارا نکتہ بیان کیا ہے کہ (گویا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا) اے کافرو! تم اپنی جہالت و گمراہی کی وجہ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی مچا رہے ہو، کیونکہ تم نے مذاق اڑا کر اور دشمنی کر کے میرے حبیب اور میرے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تکلیف دی ہے۔
(میرے اولیاء کا میری بارگاہ میں یہ مقام ہے کہ ) جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی تو اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کر دیا اور بے شک اس نے عذاب طلب کرنے میں جلدی کر لی کیونکہ میں اپنے اولیاء کی وجہ سے شدید غضب فرماتا ہوں اور جو بد بخت میرے حبیب اور میرے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کرے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۷، ۵ / ۴۸۱)
اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبر ت ہے جو حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے بے اَدبانہ انداز اپنا کر، آپ کی سیرت اور سنتوں کا مذاق اڑا کر،آپ کے اَعمال کو ہدفِ تنقید بنا کر،آپ کے صحابۂ کرام اور آل اولاد پر انگشت ِاِعتراض اٹھا کر الغرض کسی بھی طریقے سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اَذِیَّت اور تکلیف کاباعث بنتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔
جلد بازی کی مذمت اور مستقل مزاجی کی اہمیت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جلد بازی ایسی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنی ہلاکت و بربادی اور عبرتناک موت تک کا مطالبہ کر بیٹھتا ہے اور یہ جلد بازی کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ کوئی عملی قدم اٹھانے سے پہلے ا س کے اچھے اوربرے پہلوؤں پر غور نہیں کر پاتا اوریوں اکثر وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مستقل مزاج اور سکون و اطمینان سے کام کرنے والاآدمی اپنے مقصد کو پا لیتا ہے اور نقصان سے بھی بچ جاتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب تم نے بردباری سے کام لیا تو اپنے مقصد کو پالیا، یا عنقریب پا لوگے اور جب تم نے جلدبازی کی تو تم خطا کھاجاؤ گے یا ممکن ہے کہ تم سے خطا سرزد ہوجائے۔(السنن الصغری، کتاب آداب القاضی، باب التثبت فی الحکم، ۲ / ۶۱۰، الحدیث: ۴۴۹۹)
حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو جلدی کرتا ہے وہ خطا میں پڑتا ہے۔ (نوادر الاصول، الاصل الحادی والستّون والمائتان، ۲ / ۱۲۶۸، الحدیث: ۱۵۵۹)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جلد بازی سے بچے اور مستقل مزاجی کو اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ خیال رہے کہ چند چیزوں میں جلد ی اچھی ہے، جیسے گناہوں سے توبہ ، نماز کی ادائیگی، جب کُفُومل جائے تو لڑکی کی شادی اور میت کی تجہیز و تکفین کرنے میں جلدی کرنا ۔
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(38)لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(39)بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب ہوگا ؟اگر کافر اس وقت کو جان لیتے جب وہ اپنے چہروں سے اور اپنی پیٹھوں سے آگ کو نہ روک سکیں گے اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔ بلکہ وہ (قیامت)ان پر اچانک آپڑے گی تو انہیں حیران کردے گی پھر نہ وہ اسے رد کرسکیں گے اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ:اور کہتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین نے جلدی مچاتے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا :اے مسلمانوں کے گروہ! اگر تم سچے ہوتو عذاب یا قیامت کا یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر کافر اس وقت کو جان لیتے جب وہ اپنے چہروں سے اور اپنی پیٹھوں سے دوزخ کی آگ کو نہ روک سکیں گے اور نہ ان کی مددکی جائے گی، تو وہ کفر پر قائم نہ رہتے اور عذاب طلب کرنے میں جلد ی نہ کرتے۔ (قرطبی ، الانبیاء ، تحت الآیۃ : ۳۸-۳۹ ، ۶ / ۱۶۱ ، الجزء الحادی عشر ، تفسیر کبیر ، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۸ / ۱۴۵-۱۴۶، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۳ / ۲۷۷، ملتقطاً) نیز کفار کو اپنے عذاب کا حقیقی علم ہوجاتا تو قیامت کا وقت نہ پوچھتے بلکہ اس کیلئے تیاری کرتے۔
{ بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً:بلکہ وہ ان پر اچانک آپڑے گی ۔} کفار کے طلب کردہ عذاب کی شدت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کفار کو اس کے آنے کا وقت معلوم نہیں بلکہ وہ قیامت ان پر اچانک آپڑے گی تو انہیں حیران کردے گی، پھر نہ وہ اسے کسی حیلے سے ردکرسکیں گے اور نہ انہیں توبہ و معذرت کی مہلت دی جائے گی۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۱۴۶)
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تم سے اگلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جس (عذاب ) کا مذاق اڑاتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ:اور بیشک تم سے اگلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مزید تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اسی طرح ان سے پہلے کے کفار بھی اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اڑایا کرتے تھے تو مذاق اڑانے والوں کا مذاق انہیں کو لے بیٹھا اور وہ اپنے مذاق اڑانے اور مسخرہ پن کرنے کے وبال و عذاب میں گرفتار ہوئے۔لہٰذا آپ رنجیدہ نہ ہوں ، آپ کے ساتھ اِستہزاء کرنے والوں کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۱، ۸ / ۱۴۶، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۴۸۷، ملتقطاً)
قُلْ مَنْ یَّكْلَؤُكُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِؕ-بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: رات اور دن میں رحمٰن کے عذاب سے تمہاری کون حفاظت کرے گا؟ بلکہ وہ اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مذاق اڑانے والے مغرور کافروں سے فرما ئیں کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن میں تم پر اپنا عذاب نازل کرے تواس کے عذاب سے تمہاری کون حفاظت کرے گا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ایسا ہے جو تمہیں عذاب سے محفوظ رکھ سکے؟ تو حقیقت میں یہ لوگ سراسر غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَاؕ-لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَ لَا هُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچالیں گے ؟ وہ اپنی ہی جانوں کی مدد نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کی ہماری طرف سے مدد و حفاظت کی جاتی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا:کیا ان کے کچھ خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچالیں گے ؟} ارشاد فرمایا کہ کیا ان کافروں کے خیال میں ہمارے سوا ان کے کچھ خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچاتے ہیں اور ہمارے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ؟ ایسا تو نہیں ہے اور اگر وہ اپنے بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں تو ان بتوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ہی جانوں کی مدد نہیں کرسکتے ،اپنے پوجنے والوں کو کیا بچا سکیں گے اور نہ ہی ان کی ہماری طرف سے مدد و حفاظت کی جاتی ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۲۷۸، تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۳، ۸ / ۱۴۷، ملتقطاً)
بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُؕ-اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَاؕ-اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو فائدہ اٹھانے دیایہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوگئی تو کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں ۔ تو کیا یہ غالب ہوں گے ؟
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ:بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادا کوفائدہ اٹھانے دیا۔} ارشاد فرمایا: بلکہ ہم نے ان کفار کو اور ان کے باپ دادا کو فائدہ اٹھانے دیا اور دنیا میں انہیں نعمت و مہلت دی یہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوگئی اور وہ اس سے اور زیادہ مغرور ہوئے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے تو کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم کفرستان کی زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں اور روز بروز مسلمانوں کو اس پر تَسَلُّط دے رہے ہیں اور ایک شہر کے بعد دوسرا شہر فتح ہوتا چلا آ رہا ہے ، حدودِ اسلام بڑھ رہی ہیں اورکفر کی سرزمین گھٹتی چلی آتی ہے اور مکہ مکرمہ کے قریبی علاقوں پر مسلمانوں کا تسلط ہوتا جارہا ہے ، کیا مشرکین جو عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں اس کو نہیں دیکھتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے ، تو کیا یہ غالب ہوں گے جن کے قبضہ سے زمین دَمْبدم نکلتی جا رہی ہے یا رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے اَصحاب جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فتح پر فتح پا رہے ہیں اور ان کے مقبوضہ علاقے رفتہ رفتہ بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۲۷۸، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۷۱۷، ملتقطاً)
غفلت و عذاب کا عمومی سبب:
اس سے معلوم ہوا کہ لمبی عمر، مال کی زیادتی اور زیادہ آرام عموماً غفلت اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب بن جاتے ہیں اور یہی چیزیں جب نیکیوں میں صَرف ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بن جاتی ہیں ، جیسے شیطان کی لمبی عمر اس کے لئے زیادہ عذاب کا باعث ہے اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دراز عمر شریف عین رحمت ِپروردگار ہے۔
پہلے کافروں اور اب مسلمانوں پر زمین کے کناروں کی کمی:
ابتداءِ اسلام میں مسلمان چونکہ قرآنِ مجید کے احکامات اور ا س کی تعلیمات پر کامل طریقے سے عمل پیرا تھے اور انہوں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت وپیروی کو مضبوطی سے تھاما ہو اتھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ انعام فرمایا کہ کفار کی آبادیوں ،بستیوں ،شہروں اور ملکوں پران کاغلبہ ختم کرکے مسلمانوں کو قبضہ عطا کر دیا اور رفتہ رفتہ روم اور ایران کی طاقتور ترین سلطنتیں مسلمانوں کے تَسَلُّط میں آ گئیں ، عراق اور مصر کی سر زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، افریقی ممالک اور اندلس کے شہر مسلمانوں کے اقتدار میں آ گئے اور دنیا کے ایک تہائی حصے پر دینِ اسلام کا پرچم لہرانے لگا ۔
صدیوں تک مسلمانوں کا یہی حال رہا اور اس عرصے میں مسلمان علمی، فنی، حربی اور تعمیری میدان میں ترقی در ترقی کرتے رہے اور یہ دور مسلمانوں کی خوشحالی اور ترقی کا زریں دور رہا۔ پھر جب مسلمان قرآنِ مجید کے احکامات اور اس کی تعلیمات پر عمل سے دور ہونے لگے اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے رو گردانی شروع کر دی، عیش و عشرت کی بزم گرم کرنے اور رَقْص و سُرور کی محفل سجانے لگ گئے، ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے میں مصروف ہوئے اور اقتدار کے حصول کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو اپنا مددگار بنانے اور ان سے مدد حاصل کرنے لگ گئے تو ا س کا انجام یہ ہوا کہ ان کی ملی وحدت پارہ پارہ ہونا شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کے مفتوحہ علاقے کفار کے قبضے میں آنے لگ گئے ،اسلامی سلطنت کی حدود سمٹنے لگ گئیں اور اب دنیا بھر میں مسلمانوں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر آج بھی مسلمان اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ مسلمانوں کا رہا سہا غلبہ و اقتدار بھی ان سے چھن جائے۔
قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ ﳲ وَ لَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں تم کو صرف وحی کے ذریعے ڈراتا ہوں اور بہرے پکار کو نہیں سنتے جب انہیں ڈرایا جائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ میرا کام یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں میری طرف جو وحی کی جاتی ہے اِس کے ذریعے میں تمہیں اُس عذاب سے ڈراؤں جس کے آنے کی تم جلدی مچا رہے ہو، عذاب کولانا میرا کام نہیں ۔ آیت کے آخر میں کافروں کے متعلق فرمایا کہ جیسے بہروں کو کسی خطرے میں آواز دی جائے تو انہیں یہ آواز فائدہ نہیں دیتی کیونکہ ان میں کسی کی آواز سے نفع اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے اسی طرح کفار کی حالت ہے کہ انہیں عذاب کی وَعِیدیں فائدہ نہیں دیتیں کیونکہ انہوں نے ہدایت کی بات سننے سے خود کو بہرا کیا ہوا ہے۔
آیت’’قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… پیغمبر پر احکام سنا دینا لازم ہے، دل میں اتارنا لازم نہیں کہ یہ خدا کا کام ہے۔
(2)… جو وعظ سے نفع حاصل نہ کرے، وہ بہرا ہے یعنی دل کا بہرا ہے، اگرچہ بظاہر اس میں سننے کی قوت موجود ہو۔
وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر انہیں تمہارے رب کے عذاب کی ہوا چھو جائے تو ضرور کہیں گے: ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم ظالم تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ:اور اگر انہیں چھو جائے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ عذاب آنے کی خبر سن کرکافروں پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہاں فرمایا کہ جب عذاب آ جائے گاتو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ انہیں کتنی جلدی اثر ہوتا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا معمولی حصہ پہنچ جائے تو اس وقت یہ ضرور پکاریں گے کہ ہائے ہم برباد ہو گئے ،ہم ہلاک ہو گئے ،بے شک ہم نبی کی بات پر توجہ نہ دے کر اور ان پر ایمان نہ لا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔( ابوسعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۲۰، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۱۷-۷۱۸، ملتقطاً)
غفلت و بدبختی کا شکار لوگوں کا حال:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غفلت و بدبختی کا شکار لوگ دنیا میں انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تنبیہ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے وعظ سے نصیحت حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ موت کے بعد انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار میں سے کوئی اثر پہنچے، کیونکہ ابھی لوگ سو رہے ہیں اور جب انہیں موت آئے گی تو یہ بیدار ہو جائیں گے ،پھر یہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہائے بربادی، ہائے ہلاکت پکاریں گے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ا س کی ناراضی کے اسباب سے بچے اور رحمت و نجات کے دروازے کی طرف آئے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری کا راستہ اختیار کرے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے سے بچے۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۵)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ:اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)
یاد رہے کہ میزان کا معنی اوراعمال کے وزن کی صورتوں نیز میزان سے متعلق مزید کلام سورہ اَعراف کی آیت نمبر 8 کی تفسیر کے تحت گزر چکا ہے ۔
میزان کے خطرے سے نجات پانے والا شخص:
قیامت کے ہولناک مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ، میرے ساتھ خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں انہیں گالیاں دیتا اور مارتا ہوں ، تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں نے جوتمہاری خیانت کی ، تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں سزا دی، ان سب کا حساب لگایا جائے گا، پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں کے برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے، نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو گا، اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصوروں سے کم ہوگا تو تجھے ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں مار کررونے لگا، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں پڑھا
’’وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازورکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔‘‘
اس شخص نے عرض کی :میں اپنے اوران غلاموں کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا ،میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام، ۵ / ۱۱۱، الحدیث: ۳۱۷۶)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں جائے گا۔ اور اگر وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو (قیامت کے دن) حق دار اس کا گھیراؤ کریں گے، کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا ،کوئی اس کی پیشانی کے بال پکڑے گا، کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے مجھ پر ظلم کیا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی ، کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے اِیذا دی، کوئی کہے گا :تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا، کوئی کہے گا :تو نے مجھ سے سودا کیا تو مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ،کوئی کہے گا: تو نے اپنے سامان کی قیمت بتاتے ہوئے جھوٹ بولا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے محتاج دیکھا اور تو مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا، کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں مظلوم ہوں اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالحت کی اور میرا خیال نہ کیا۔
تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حق داروں نے تیرے بدن میں ناخن گاڑ رکھے ہوں گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے باعث حیران وپریشان ہوگا حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں جس سے ایک درہم کا معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا تیرے کانوں میں پڑے گی :
’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘(مومن:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمالکا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔
اس وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ‘‘(ابراہیم:۴۲-۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے سننے والے!)ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جا رہے ہوں گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ اور لوگوں کو ڈراؤ۔
آج جب تو لوگوں کی عزتوں کے پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اوراس وقت تو مُفلس ،فقیر، عاجز اور ذلیل ہوگا ،نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت کی تجھ سے لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں گے، اور یہ ان کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔ تو دیکھو اس دن تم کس قدر مصیبت میں مبتلا ہوگے کیوں کہ پہلے تو تمہاری نیکیاں ریا کاری اور شیطانی مکر وفریب سے محفوظ نہیں ہوں گی اور اگر طویل مدت کے بعدکوئی ایک نیکی بچ بھی جائے تو اس پر حق دار دوڑیں گے اور اسے لے لیں گے اور شاید تو اپنے نفس کا محاسبہ کرنے ، دن کو روزہ رکھنے اور رات کو قیام کرنے والا ہو، تو تجھے معلوم ہوگا کہ تو دن بھر مسلمانوں کی غیبت کرتا رہا جو تیری تمام نیکیوں کو لے گئی، باقی برائیاں مثلاً حرام اور مشتبہ چیزیں کھانا اور عبادات میں کوتاہی کرنا اپنی جگہ ہے اور جس دن سینگوں والے جانور سے بے سینگ جانور کا حق لیا جائے گا تو اس دن حقوق سے چھٹکارا پانے کی امید کیسے رکھ سکتا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد الظلم، ۵ / ۲۸۱-۲۸۲)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فیصلہ دیا اور روشنی اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت دی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ:اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کوفیصلہ دیا۔} یہاں سے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات بیان کیے جارہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی خدمت کی ، اس راہ میں پیش آنے والی تکلیفیں برداشت کیں اورصبرواِستقامت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تاکہ بعد میں دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہوں اور وہ بھی صبر واِستقامت ،اِیثار واِخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے دین کا کام کریں ۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا گیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوایسی کتاب عطاکی جس کا وصف یہ ہے کہ وہ حق وباطل کوالگ الگ کردینے والی ہے اور وہ ایسی روشنی ہے جس سے نجات کی راہ معلوم ہوتی ہے اور وہ ایسی نصیحت ہے جس سے پرہیز گار تنبیہ و نصیحت اور دینی اُمور کا علم حاصل کرتے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۷۱۸)
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ هُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جو اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں اوروہ قیامت سے ڈرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ:وہ جو اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا: پرہیز گار لوگوں کا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں حالانکہ انہوں نے ا س کے عذاب کا مشاہدہ نہیں کیا اوروہ قیامت کے دن ہونے والے عذاب، حساب ،سوال اور اس کی دیگر ہولناکیوں سے ڈرتے ہیں اور اسی خوف کے سبب وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچتے ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۴۸۸، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۷۱۸، تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۱۵۱، ملتقطاً)
بن دیکھے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کی فضیلت:
وہ لوگ جو بن دیکھے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ،ان کی فضیلت سے متعلق قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙﹰ(۳۳)ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ‘‘(ق: ۳۳،۳۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آتا ہے ۔(ان سے فرمایا جائے گا) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ،یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ‘‘(ملک: ۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے رب سےڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے : میری عزت و جلال اور مخلوق پر میری بلندی کی قسم! نہ تومیں اپنے بندے پردوخوف جمع کروں گااورنہ اس کے لیے دوامن جمع کروں گا،جودنیامیں مجھ سے ڈرتا رہا اسے میں قیامت کے دن امن دوں گا اور جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا اسے میں قیامت کے دن خوف میں مبتلا کر دوں گا۔( ابن عساکر، محمد بن علی بن الحسن بن ابی المضاء۔۔۔ الخ، ۵۴ / ۲۶۷)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پرہیز گار بندوں میں شامل فرمائے ، دنیا میں ہمیں اپنا خوف نصیب کرے اور آخرت میں خوف سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔
وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُؕ-اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے تو کیا تم اس کے منکر ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ:اور یہ برکت والا ذکر ہے۔} یعنی جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تورات نازل فرمائی اسی طرح ہم نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پربرکت والا ذکر قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے،اس کے مَنافع کثیر اور ا س میں بہت وسیع علوم ہیں اور ایمان لانے والوں کے لئے اس میں بڑی برکتیں ہیں ، اور جب یہ ظاہر ہو گیا کہ جس طرح ہم نے تورات نازل فرمائی اسی طرح قرآن مجید بھی نازل فرمایا تواے اہلِ مکہ! کیا یہ سب جاننے کے باوجود تم قرآنِ مجید کے ہماری طرف سے نازل ہونے کا انکار کرتے ہو؟( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۷۹، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۰، ۵ / ۴۸۹، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَ(51)اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے ۔ یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے فرمایا: یہ مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ:اور بیشک ہم نے ابراہیم کو دیدی تھی۔} انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات میں سے یہاں دوسرا واقعہ بیان کیا جارہا ہے اور یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی ابتدائی عمر میں بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کی نیک راہ عطا کر دی تھی اور ہم ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ ہدایت و نبوت کے اہل ہیں ۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۱۵۲، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۷۹، ملتقطاً)
{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ:یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا۔} یعنی وہ وقت یاد کریں جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: درندوں پرندوں اور انسانوں کی صورتوں کے بنے ہوئے یہ مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو اور ان کی عبادت میں مشغول ہو؟( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۷۱۸-۵۱۹)
قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے ہوئے پایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا ۔} جب لوگ مجسموں کی عبادت کرنے پر کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہو گئے تو وہ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ داداکواسی طرح کرتے پایاہے لہٰذا ہم بھی اسی طرح کررہے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۲-۵۳، ص۷۱۹)
باپ دادا کا برا طریقہ عمل کے قابل نہیں:
اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا جو کام شریعت کے خلاف کرتے رہے ہوں ،اُن کاموں کو کرنا اور ان کے کرنے پر اپنے باپ دادا کے عمل کو دلیل بنانا کفار کاطریقہ ہے ،ہمارے معاشرے میں بہت سے مسلمان شادی بیاہ اور دیگر موقعوں پر شریعت کے خلاف رسم و رواج کی پیروی کرنے میں بھی ایسی ہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے بوڑھے برسوں سے اسی طرح کرتے آئے ہیں اور ہم بھی انہی کے طریقے پر چل رہے ہیں حالانکہ جو کام شریعت کے خلاف ہے اور اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں تو ا س کا برسوں سے ہوتا آنا اور آباؤ اَجداد کا اپنی جہالت کی وجہ سے اسے کرتے رہنا اسے شریعت کے مطابق نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں شریعت کے خلاف کام کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا: بے شک تم اور تمہارے باپ دادا سب کھلی گمراہی میں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} قوم کا جواب سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایاکہ تم اورتمہارے باپ دادا جنہوں نے یہ باطل طریقہ ایجادکیاسب کھلی گمراہی میں ہو اور کسی عقل مند پر تمہارے اس طریقے کا گمراہی ہونا مخفی نہیں ہے۔( ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۵۲۳)
دینی معاملے میں کسی کی رعایت نہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ دینی معاملے میں کسی کی رعایت نہیں بلکہ حق بات بہرحال بیان کرنی چاہیے ،ہاں کہاں کس حکمت ِ عملی کے مطابق بات کرنی چاہیے ، سختی سے یا نرمی سے تو یہ بات مبلغ کو معلوم ہونی چاہیے ۔
شریعت کے خلاف کام میں کثرت ِرائے معتبر نہیں :
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلافِ شرع کام میں کثرتِ رائے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ہمیشہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھی قلیل ہوتے اور دشمنانِ اسلام اکثریت میں ہوتے تھے لیکن وہ اکثریت جھوٹی تھی اور انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے تھے۔
قَالُـوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ(55)قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَهُنَّ ﳲ وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
بولے: کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو یا یونہی کھیل رہے ہو؟ فرمایا: بلکہ تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُـوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ:بولے: کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کوچونکہ اپنے طریقے کا گمراہی ہونا بہت ہی بعید معلوم ہوتا تھا اور وہ اس کا انکار کرنا بہت بڑی بات جانتے تھے، اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ کہا کہ کیا آپ یہ بات واقعی طور پر ہمیں بتا رہے ہیں یا یونہی ہنسی مذاق کے طور پر فرما رہے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی رَبُوبِیَّت کا بیان کرکے ظاہر فرما دیا کہ آپ کھیل کے طور پرکلام نہیں کررہے بلکہ حق کا اظہار فرما رہے ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا: تمہاری عبادت کے مستحق یہ بناوٹی مجسمے نہیں بلکہ تمہاری عبادت کا مستحق وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں کسی سابقہ مثال کے بغیرپیدا کیا، تو پھر تم ان چیزوں کی عبادت کیسے کرتے ہو جو مخلوقات میں داخل ہیں اور میں نے تم سے جو بات کہی کہ تمہارا رب صرف وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، میں اسے دلیل کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں ۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ص۷۱۹، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۵-۵۶، ۵ / ۴۹۲، ملتقطاً)
وَ تَاللّٰهِ لَاَ كِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(57)فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ(58)قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(59)قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُﭤ(60)قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ(61)قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُﭤ(62)قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ﳓ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(63)فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ(64)ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْۚ-لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور مجھے اللہ کی قسم ہے! تم پیٹھ پھیر کر جاؤ گے تو اس کے بعد میں تمہارے بتوں کی بری حالت کر دوں گا۔ تو ابراہیم نے ان سب کوٹکڑے ٹکڑے کردیا سوائے ان کے بڑے بت کے کہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔کہنے لگے: کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ بیشک وہ یقینا ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔کہنے لگے: تو اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دیں ۔ انہوں نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ ابراہیم نے فرمایا: بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھ لواگر یہ بولتے ہوں ۔ تو اپنے دلوں کی طرف پلٹے اور کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہو۔پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کردئیے گئے (اور کہنے لگے کہ) تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَاللّٰهِ:اور مجھے اللہ کی قسم ہے!} اس آیت اور اس کے بعد والی 7 آیات میں جو واقعہ بیان کیاگیا ہے ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کاایک سالانہ میلہ لگتا تھا اور وہ اس دن جنگل میں جاتے اور وہاں شام تک لہو و لَعب میں مشغول رہتے تھے ، واپسی کے وقت بت خانے میں آتے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ،اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے ۔ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی ایک جماعت سے بتوں کے بارے میں مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا: کل ہماری عید ہے، آپ وہاں چلیں اور دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں ،چنانچہ جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے میلے میں چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر بیان کر کے رہ گئے اور میلے میں نہ گئے جبکہ وہ لوگ روانہ ہو گئے۔ جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا۔ آپ کی اس بات کو بعض لوگوں نے سن لیا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت خانے کی طرف لوٹے توآپ نے ان سب بتوں کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا، البتہ ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا کہ شاید وہ ا س کی طرف رجوع کریں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس بڑے بت سے پوچھیں کہ ان چھوٹے بتوں کا کیا حال ہے؟ یہ کیوں ٹوٹے ہیں اور کلہاڑا تیری گردن پر کیسے رکھا ہے؟ اور یوں اُن پر اِس بڑے بت کاعاجز ہونا ظاہر ہو اور انہیں ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہو سکتے ۔یا یہ معنی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت کریں اور آپ کو حجت قائم کرنے کا موقع ملے ۔چنانچہ جب قوم کے لو گ شام کو واپس ہوئے اور بت خانے میں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بت ٹوٹے پڑے ہیں تو کہنے لگے: کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ بیشک وہ یقیناظالم ہے۔ کچھ لوگ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہاجاتا ہے، ہمارا گمان یہ ہے کہ اسی نے ایسا کیا ہو گا۔ جب یہ خبر ظالم و جابر نمرود اور اس کے وزیروں تک پہنچی تو وہ کہنے لگے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دیں کہ یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کا فعل ہے یا ان سے بتوں کے بارے میں ایسا کلام سنا گیا ہے ۔اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ گواہی قائم ہو جائے تو وہ آپ کے درپے ہوں ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلائے گئے اور ان لوگوں نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ آپ نے اس بات کا تو کچھ جواب نہ دیا اور مناظرانہ شان سے تعریض کے طور پر ایک عجیب و غریب حجت قائم کی اور فرمایا: ان کے اس بڑے نے اس غصے سے ایسا کیا ہوگا کہ اس کے ہوتے تم اس کے چھوٹوں کو پوجتے ہو ، اس کے کندھے پر کلہاڑا ہونے سے ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے، مجھ سے کیا پوچھتے ہو! تم ان سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہیں تو خود بتائیں کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟اس سے مقصود یہ تھا کہ قوم اس بات پرغور کرے کہ جو بول نہیں سکتا، جو کچھ کر نہیں سکتا وہ خدا نہیں ہو سکتا اور اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے۔ چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا تو وہ غور کرنے لگے اور سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر ہیں اور اپنے آپ سے کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہوجو ایسے مجبوروں اور بے اختیاروں کو پوجتے ہو ،جو اپنے کاندھے سے کلہاڑا نہ ہٹا سکے وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے گا ۔(مگر اتنا سوچ لینا ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک اقرار و اعتراف بھی نہ ہو، اس لئے وہ مشرک ہی رہے۔)( خازن،الانبیاء،تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ۳ / ۲۸۰-۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ص۷۱۹-۷۲۰، ملتقطاً)
{ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ:پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کردئیے گئے ۔} یعنی کلمۂ حق کہنے کے بعد پھر ان کی بدبختی ان کے سروں پر سوار ہوئی اور وہ کفر کی طرف پلٹے اور باطل جھگڑا شروع کر دیا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے :تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں ہیں تو ہم ان سے کیسے پوچھیں اور اے ابراہیم! تم ہمیں ان سے پوچھنے کا کیسے حکم دیتے ہو۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۷۲۰، ملتقطاً)
قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَضُرُّكُمْﭤ(66)اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
ابراہیم نے جواب دیا : تو کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دیتا ہے اور نہ نقصان پہنچاتا ہے۔ تم پر اور اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان پر افسوس ہے ۔تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جواب دیا : تو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جس کا حال یہ ہے کہ اگر تم اسے پوجو تو وہ تمہیں نفع نہیں دیتا اور اگر اسے پوجنا مَوقُوف کر دو تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاتا۔ تم پر اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو ان پر افسوس ہے ،تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنی سی بات بھی سمجھ سکو کہ یہ بت کسی طرح پوجنے کے قابل نہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۶-۶۷، ۳ / ۲۸۱)
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
بولے: ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا حَرِّقُوْهُ:کہا: ان کو جلادو۔} جب حجت تمام ہو گئی اور وہ لوگ جواب سے عاجز آگئے تو کہنے لگے: اگر تم اپنے خداؤں کی کچھ مدد کرنا چاہ رہے ہو تو ان کا انتقام لے کر ان کی مدد کرو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلا دو کیونکہ یہ بڑی ہولناک سزا ہے۔ چنانچہ نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کر دیا اور کوثیٰ بستی میں ایک عمارت بنائی اور ایک مہینہ تک پوری کوشش کر کے ہرقسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آ گ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق ( یعنی پتھر پھینکنے والی مشین) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں رکھااور آگ میں پھینک دیا۔ اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ اللہ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ جبریل ِامین عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ سے عرض کی: کیا کچھ کام ہے ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’تم سے نہیں ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: تو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے سوال کیجئے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کافی ہے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۷۲۱)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ سمجھا تھا کہ امتحان کے وقت دعا کرنی بھی مناسب نہیں کہ کہیں یہ بے صبری میں شمار نہ ہوجائے۔ یہ انہی کامرتبہ تھا، ہمیں بہرحال مصیبت و بلا کے وقت دعا کرنے کا حکم ہے۔
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْنَا:ہم نے فرمایا۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ چنانچہ آگ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی اور اس نے ان رسیوں کے سوا اور کچھ نہ جلایا جن سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو باندھا گیا تھا۔(جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۲۷۴)
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ’’سَلٰمًا‘‘نہ فرماتاتوآگ کی ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتقال فرما جاتے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۲۸۲
وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِیْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے بنادیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا:اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا ۔} ارشاد فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہا تو ہم نے انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے بنادیا کہ ان کی مراد پوری نہ ہوئی اور کوشش ناکام رہی اور اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر مچھر بھیجے جو ان کے گوشت کھا گئے اور خون پی گئے اور ایک مچھر نمرود کے دماغ میں گھس گیا اور اس کی ہلاکت کا سبب ہوا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۸۳)
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ(71)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات عطا فرمائی جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا:اور ہم نے اسے اور لوط کو نجات عطا فرمائی ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نمرود اور ا س کی قوم سے نجات عطا فرمائی اور انہیں عراق سے اس سرزمین کی طرف روانہ کیا جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۲۸۳)
حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:
حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھتیجے تھے ،آپ کے والد کا نام ہاران ہے اوریہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بھائی تھا ۔جب یہ دونو ں حضرات ملک ِشام پہنچے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فلسطین کے مقام پر ٹھہرے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مُؤْتَفِکَہ میں قیام فرمایا اور ان دونوں مقامات میں ایک دن کی مسافت کا فاصلہ ہے۔(جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۷۴)
برکت والی سرزمین:
اس سر زمین سے شام کی زمین مراد ہے اور اس کی برکت یہ ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے اور تمام جہان میں ان کے دینی برکات پہنچے اور سرسبزی و شادابی کے اعتبار سے بھی یہ خطہ دوسرے خطوں پر فائق ہے، یہاں کثرت سے نہریں ہیں ، پانی پاکیزہ اور خوش گوار ہے اور درختوں ، پھلوں کی کثرت ہے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۷۲۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۷۴، ملتقطاً)
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةًؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا فرمایا اور مزید یعقوب (پوتا) اور ہم نے ان سب کو اپنے خاص قرب والے بنایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةً:اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب مزید عطا فرمایا۔} یہاں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرکی گئی مزید نعمتوں کابیان فرمایا گیا کہ ہم نے انہیں حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیٹا اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پوتا عطا فرمائے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بیٹے کے لیے دعا کی تھی مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں بیٹے کے ساتھ ساتھ پوتے کی بھی بشارت دی جوکہ بغیرسوال کے عطا کیا گیا اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص قرب والا بنایا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۷۲۱-۷۲۲)
نیک اولاد کا فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ نیک اولاد اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہے ۔ نیک اولاد وہ اعلیٰ پھل ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کام آتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے جب بھی اولاد کے لئے دعا کریں تو نیک اور صالح اولاد کی ہی دعا کریں ۔
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِۚ-وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے انہیں امام بنایا کہ ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے ہیں اور ہم نے ان کی طرف اچھے کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىٕمَّةً:اور ہم نے انہیں امام بنایا۔} ارشاد فرمایا :ہم نے انہیں امام بنایا کہ بھلائی کے کاموں میں ان کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ ہمارے حکم سے لوگوں کوہمارے دین کی طرف بلاتے ہیں اور ہم نے ان کی طرف اچھے کام کرنے ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی کیونکہ نماز بدنی عبادات میں سب سے افضل ہے اور زکوٰۃ مالی عبادات میں سب سے افضل ہے اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۲۸۳)
انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زکوٰۃ فرض نہیں :
یاد رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو امتیوں پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے مال پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔
چنانچہ علامہ احمد طحطاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ۔انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زکوٰۃ واجب نہیں کیونکہ ان کا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اور جو کچھ ان کے قبضے میں ہے وہ امانت ہے اور یہ اسے خرچ کرنے کے مقامات پر خرچ کرتے ہیں اور غیر محل میں خرچ کرنے سے رکتے ہیں اور ا س لئے کہ زکوٰۃ اس کے لئے پاکی ہے جو گناہوں کی گندگی سے پاک ہونا چاہے جبکہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہونے کی وجہ سے گناہوں کی گندگی سے پاک ہیں ۔( حاشیہ الطحطاوی علی المراقی، کتاب الزکاۃ، ص۷۱۳)
علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ دُرِّ مختار کی اس عبارت’’اس پر اجماع ہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زکوٰۃ واجب نہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ زکوٰۃ اس کے لئے پاکی ہے جو گندگی( یعنی مال کے میل) سے پاک ہونا چاہے جبکہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے بری ہیں ۔ (یعنی ان کے مال ابتدا سے ہی میل سے پاک ہیں ۔)( رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ۳ / ۲۰۲)
لہٰذا جن آیات میں انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زکوٰۃ دینے کا فرمایا گیا ان سے یا تو تزکیۂ نفس یعنی نفس کو ان چیزوں سے پاک رکھنا مراد ہے جو شانِ نبوت کے خلاف ہیں یاان سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی امت کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیں ۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات:
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرطرح طرح کے احسانات فرمائے ، پہلا تو یہ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچپن سے ہی رشد وہدایت سے نوازا۔ دوسرا یہ کہ ظالم وجابر بادشاہ کے مقابلہ میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غلبہ عطا فرمایا۔ تیسرا یہ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے شہر کی طرف ہجرت کروائی ،چوتھا یہ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونیک صالح اولاد عطا کی اور پانچواں یہ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کوبھی نبوت عطاکی ۔
وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىٕثَؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَ(74)وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوط کو ہم نے حکومت اور علم دیا اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی بیشک وہ برے لوگ نافرمان تھے۔ اور ہم نے اسے اپنی رحمت میں داخل فرمایا ،بیشک وہ ہمارے خاص مقربین میں سے تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا:اور لوط کو ہم نے حکومت اور علم دیا ۔} یہاں سے تیسرا واقعہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیان فرمایا گیا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے احسانات کاذکر کرنے کے بعد یہاں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے جانے والے احسانات کا تذکرہ کیا جارہا ہے ، چنانچہ پہلا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حکومت عطا فرمائی ۔بعض مفسرین کے نزدیک یہاں ’’حکم ‘‘سے مراد حکمت یا نبوت ہے۔ اگر حکومت والا معنی مراد ہو تو اس کا مطلب لوگوں کے باہمی جھگڑوں میں حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ دوسرا احسان یہ ہے کہ انہیں ان کی شان کے لائق علم عطا کیا گیا۔تیسرا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بستی سے نجات بخشی جہاں کے رہنے والے لواطت وغیرہ گندے کام کیا کرتے تھے کیونکہ وہ برے لوگ اور نافرمان تھے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۸ / ۱۶۲، بیضاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۱۰۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۷۵، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ برے پڑوس سے نجات مل جانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور ا س کا انتہائی عظیم احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک ساتھی اور پرہیزگار ہم نشین عطا فرمائے اور برے ساتھیوں سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
{وَ اَدْخَلْنٰهُ فِیْ رَحْمَتِنَا:اور ہم نے اسے اپنی رحمت میں داخل فرمایا۔} یہاں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کئے گئے چوتھے احسان کا ذکر فرمایاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا اوربیشک وہ اللہ تعالیٰ کے خاص مقرب بندوں میں سے تھے۔
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِ(76)وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نوح کو (یاد کرو) جب اس سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے غم سے نجات دی۔ اور ہم نے ان لوگوں کے مقابلے میں اس کی مدد کی جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ،بیشک وہ برے لوگ تھے تو ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ:اورنوح کوجب پہلے اس نے ہمیں پکارا۔} یہ اس سورت میں بیان کئے گئے واقعات میں سے چوتھا واقعہ ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کویاد کریں جب انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے ہمیں پکارا اور ہم سے اپنی قوم پر عذاب نازل کرنے کی دعا کی تو ہم نے اس کی دعا قبول فرما لی اور اسے اور کشتی میں موجود اس کے گھر والوں کو طوفان سے اور سرکش لوگوں کے جھٹلانے سے نجات دی اور ہم نے ان لوگوں کے مقابلے میں اس کی مدد کی جنہوں نے ہماری ان آیتوں کی تکذیب کی جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں ،بیشک وہ برے لوگ تھے، تو ہم نے ان سب کو غرق کر دیا کیونکہ جو قوم جھٹلانے پر قائم رہے اور شر، فساد میں ہی مشغول رہے تو اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دیتا ہے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ص۲۷۵، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۶-۷۷، ۵ / ۵۰۳، ملتقطاً)
آیت’’ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ‘‘سے دعا کے بارے میں معلوم ہونے والے دو اَحکام :
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…جب دعا دل کے اخلاص کے ساتھ ہو جیسے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی دعا، تو وہ قبول ہوتی ہے ۔لہٰذا جب بھی دعا مانگیں تو دل کے اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ مانگیں تاکہ اسے قبولیت حاصل ہو۔
(2)…دعا نجات کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اسے اختیار کرنا نجات حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِۚ-وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو جب وہ دونوں کھیتی کے بارے میں فیصلہ کررہے تھے جب رات کو اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں چھوٹ گئیں اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ:اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو۔} یہاں سے پانچواں واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جس میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہے، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ واقعہ یاد کریں جب وہ دونوں کھیتی کے بارے میں فیصلہ کررہے تھے۔ جب رات کے وقت کچھ لوگوں کی بکریاں کھیتی میں چھوٹ گئیں ، ان کے ساتھ کوئی چَرانے والا نہ تھا اور وہ کھیتی کھا گئیں تو یہ مقدمہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش ہوا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تجویز کی کہ بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں کیونکہ بکریوں کی قیمت کھیتی کے نقصان کے برابر ہے اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ہم نے وہ معاملہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سمجھا دیا ۔جب یہ معاملہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ فریقین کے لئے اس سے زیادہ آسانی کی شکل بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر شریف گیارہ سال کی تھی ۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ سے فرمایا کہ وہ صورت بیا ن کریں ، چنانچہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ تجویز پیش کی کہ بکری والا کاشت کرے اور جب تک کھیتی اس حالت کو پہنچے جس حالت میں بکریوں نے کھائی ہے اس وقت تک کھیتی والا بکریوں کے دودھ وغیرہ سے نفع اٹھائے اور کھیتی اس حالت پر پہنچ جانے کے بعد کھیتی والے کو کھیتی دے دی جائے ، بکری والے کو اس کی بکریاں واپس کر دی جائیں ۔ یہ تجویز حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پسند فرمائی ۔
یاد رہے کہ اس معاملہ میں یہ دونوں حکم اجتہادی تھے اور ان کی شریعت کے مطابق تھے ۔ ہماری شریعت میں حکم یہ ہے کہ اگر چَرانے والا ساتھ نہ ہو تو جانور جو نقصانات کرے اس کا ضمان لازم نہیں ۔امام مجاہدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس مسئلہ کا حکم تھا اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو تجویز فرمائی یہ صلح کی صورت تھی۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۷۲۳)
کھیتی والے واقعے سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس واقعے سے6 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… اِجتہاد برحق ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والے کو اجتہاد کرنا چاہیے۔
(2)… نبی عَلَیْہِ السَّلَام بھی اجتہاد کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں حضرات کے یہ حکم اجتہاد سے تھے نہ کہ وحی سے ۔
(3)… نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے اجتہاد میں خطا بھی ہوسکتی ہے تو غیر نبی میں بدرجہ اَولیٰ غلطی کا اِحتمال ہے۔
(4)… خطا ہونے پر اجتہاد کرنے والا گنہگار نہیں ہوگا۔
(5)… ایک اجتہاد وسرے اجتہاد سے ٹوٹ سکتا ہے البتہ نَص اِجتہاد سے نہیں ٹوٹ سکتی۔
(6)… نبی عَلَیْہِ السَّلَام خطاءِ اِجتہادی پر قائم نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ اصلاح فرما دیتا ہے۔
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ-وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا٘-وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ-وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم نے وہ معاملہ سلیمان کو سمجھادیا اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا اور داؤد کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو تابع بنادیا کہ وہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے اور یہ (سب) ہم ہی کرنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا:اور دونوں کو حکومت اور علم عطا کیا۔} یہاں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں پر کیا جانے والا انعام ذکر کیا گیاکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکومت اور اِجتہاد و اَحکام کے طریقوں وغیرہ کا علم عطا کیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴)
مُجتہد کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے:
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں کہ جن علماء کرام کو اجتہاد کرنے کی اہلیت حاصل ہو انہیں ان اُمور میں اجتہاد کرنے کا حق ہے جس میں وہ کتاب و سنت کا حکم نہ پائیں اور اگر ان سے اجتہاد میں خطا ہو جائے تو بھی ان پر کوئی مُواخذہ نہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۴) جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور حدیث ِ پاک میں ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب حکم کرنے والا اجتہاد کے ساتھ حکم کرے اور اس حکم میں درست ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اجتہاد میں خطا واقع ہو جائے تو ا س کے لئے ایک اجر ہے۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصاب او اخطأ، ۴ / ۵۲۱، الحدیث: ۷۳۵۲، مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتہد۔۔۔ الخ، ص۹۴۴، الحدیث: ۱۵(۱۷۱۶))
علمِ دین کے مالداری پر فضائل:
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علم ،مال اور بادشاہی میں (سے ایک کا) اختیار دیا گیا ،حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے علم کو اختیار فرمایا تو انہیں علم کے ساتھ مال اور بادشاہی بھی عطا کر دی گئی۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاوّل فی فضل العلم والتعلیم والتعلّم۔۔۔ الخ، فضیلۃ العلم، ۱ / ۲۳)
اس سے معلوم ہوا کہ دین کے علم کی برکت سے بندے کو دنیا میں عزت، دولت اور منصب مل جاتا ہے حتّٰی کہ بادشاہی اور حکومت تک مل جاتی ہے لہٰذا اس وجہ سے دین کا علم حاصل نہ کرنا اور اپنی اولاد کو دین کا علم نہ سکھانا کہ یہ علم سیکھ کرہم یا ہماری اولاد دنیا کی دولت اور دنیا کا چین و سکون حاصل نہیں کر سکیں گے، انتہائی محرومی کی بات ہے۔ علمِ دین کو دنیا کی دولت پر ترجیح دینے کی ترغیب کے لئے یہاں علمِ دین کے مالداری پر چند دینی اور دُنْیَوی فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…علم انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی میراث ہے اور مال بادشاہوں اور مالداروں کی میراث ہے۔
(2)…مالدار کا جب انتقال ہوتا ہے تو مال اس سے جدا ہو جاتا ہے جبکہ علم عالم کے ساتھ اس کی قبر میں داخل ہوتا ہے۔
(3)…مال مومن ،کافر، نیک، فاسق سب کو حاصل ہوتا ہے جبکہ نفع بخش علم صرف مومن کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
(4)…علم جمع کرنے اور اسے حاصل کرنے سے بندے کو عزت ، شرف اور تزکیۂ نفس کی دولت ملتی ہے جبکہ مال کی وجہ سے تزکیۂ نفس اور باطنی کمال حاصل نہیں ہوتا بلکہ مال جمع کرنے سے نفس لالچ، بخل اور حرص جیسی بری خصلتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(5)…علم عاجزی اور اِنکساری کی دعوت دیتا ہے جبکہ مال فخر و تکبر اور سر کشی کی دعوت دیتا ہے۔
(6)…علم کی محبت اور اس کی طلب ہر نیکی کی اصل ہے جبکہ مال کی محبت اور اس کی طلب ہر برائی کی جڑ ہے۔
(7)…مال کا جوہر بدن کے جوہر کی جنس سے ہے اور علم کا جوہر روح کے جوہر کی جنس سے تو علم اور مال میں ایسے فرق ہے جیسے روح اور جسم کے درمیان فرق ہے۔
(8)…عالم اپنے علم اور اپنے حال سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے جبکہ مال جمع کرنے والا اپنی گفتگو اور اپنے حال سے لوگوں کو دنیا کی طرف بلاتا ہے۔
(9)… بادشاہ اور دیگر لوگ عالم کے حاجت مند ہوتے ہیں ۔
(10)…علم کا اضافہ مال کے اضافے سے بہت بہتر ہے کیونکہ اگر ایک رات میں ہی سارا مال چلاجائے تو صبح تک بندہ فقیر و محتاج بن کررہ جاتا ہے جبکہ علم رکھنے والے کو فقیری کا خوف نہیں ہوتا بلکہ اس کا علم ہمیشہ زیادہ ہی ہوتا رہتا ہے اور یہی حقیقی مالداری ہے۔
(11)…مالدار کی قدرو قیمت اس کے مال کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ عالم کی قدر و قیمت ا س کے علم کی وجہ سے ہوتی ہے، چنانچہ جب مالدار کے پا س مال نہیں رہتا تو اس کی قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے جبکہ عالم کی قدرو قیمت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
(12)…مال کی زیادتی ا س بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مالدار شخص لوگوں پر احسان کرے اور جب مالدار لوگوں پر احسان نہیں کرتا تو لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں جس کی وجہ سے اسے قلبی طور پر رنج پہنچتا ہے اور اگر وہ لوگوں پر احسان کرنا شروع کر دیتا ہے تو لازمی طور پر وہ ہر ایک کے ساتھ احسان نہیں کرپاتا بلکہ بعض کے ساتھ کرتا ہے اور بعض کے ساتھ نہیں کرتا اور یوں وہ محروم رہ جانے والے کی طرف سے دشمنی اورذلالت کا سامنا کرتا ہے جبکہ علم رکھنے والا کسی نقصان کے بغیر ہر ایک پر اپنا علم خرچ کر لیتا ہے۔
(13)…مالدار جب مر جاتے ہیں تو ان کا تذکرہ بھی ختم ہو جاتا ہے جبکہ علماء کا ذکرِ خیر ان کے انتقال کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔( اتحاف السادۃ المتقین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضیلۃ العلم، ۱ / ۱۳۰-۱۳۱، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور علمِ دین کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ:اورہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع بنادیا۔} یہاں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرکیا جانے والا انعام بیان فرمایا گیاکہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو آ پ کا تابع بنادیا کہ پتھر اور پرندے آپ کے ساتھ آپ کی مُوافقت میں تسبیح کرتے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵)
{وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ:اور یہ (سب) ہم ہی کرنے والے تھے۔} یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معاملہ سمجھا دینا، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکومت دینا اور پہاڑوں ،پرندوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاتابع بنا دینا، یہ سب ہمارے ہی کام تھے اگرچہ تمہارے نزدیک یہ کام بہت عجیب و غریب ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۲۸۵، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۷۵، ملتقطاً)
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے ایک خاص لباس کی صنعت سکھا دی تاکہ تمہیں تمہاری جنگ کی آنچ سے بچائے تو کیا تم شکر اداکروگے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ:اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے ایک خاص لباس کی صنعت سکھا دی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے فائدے کے لئے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک لباس یعنی زرہ بنانا سکھا دیا جسے جنگ کے وقت پہنا جائے، تاکہ وہ جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرنے میں تمہارے کام آئے اور جنگ کے دوران تمہارے جسم کو زخمی ہونے سے بچائے، تو اے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والو! تم ہماری اس نعمت پر ہمارا شکر ادا کرو۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۲۸۵، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۷۲۳، ملتقطاً)
انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیشے:
انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مختلف پیشوں کو اختیار فرمایا کرتے اور ہاتھ کی کمائی سے تَناوُل فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلائی کا کام کیا کرتے تھے، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بڑھئی کا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کپڑے کا، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاشتکاری کا، حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بکریاں چرانے کا، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چادر بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔(روح البیان، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۵ / ۵۰۹، ۵۱۰ ، قرطبی، الانبیاء ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۶ / ۱۸۵، الجزء الحادی عشر، ملتقطاً)اور ہمارے آقا دو عالَم کے داتا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اگرچہ بطورِ خاص کوئی پیشہ اختیار نہیں فرمایا لیکن آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بکریاں چرائیں، تجارت فرمائی اور کچھ دیگر کام بھی فرمائے ہیں لہٰذا کسی جائز کام اور پیشے کو گھٹیا نہیں سمجھنا چاہئے۔
حلال رزق حاصل کرنے کیلئے جائز پیشہ اختیار کرنے کے فضائل:
حلال رزق حاصل کرنے کے لئے جو جائز ذریعہ، سبب، پیشہ اور صنعت اختیار کرنا ممکن ہو اسے ضرور اختیار کرنا چاہئے اور ا س مقصد کے حصول کے لئے کسی جائز پیشے یا صنعت کو اختیار کرنے میں شرم و عار محسوس نہیں کرنا چاہئے ، ترغیب کے لئے یہاں حلال رزق حاصل کرنے کیلئے جائز پیشہ اختیار کرنے کے چار فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت مقدام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کسی نے ہر گز اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرّجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۲)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے،پھر کوئی اسے دے یا کوئی منع کر دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرّجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۴)
(3)…حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : کسی نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ ارشاد فرمایا ’’آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اچھی خریدو فروخت (یعنی جس میں خیانت اور دھوکہ وغیرہ نہ ہو)۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۸۱، الحدیث:۲۱۴۰)
(4)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ پیشہ کرنے والے مومن بندے کو محبوب رکھتا ہے۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: مقدام، ۶ / ۳۲۷، الحدیث: ۸۹۳۴)
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تیز ہوا کوسلیمان کے لیے تابع بنادیا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً:اور تیز ہوا کوسلیمان کے لیے تابع بنادیا۔} اس سے پہلے وہ انعامات ذکر کئے گئے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمائے تھے اور اب یہاں سے وہ انعامات بیان کئے جا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمائے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے تیز ہوا کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابع بنادیا اور یہ ہواحضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے شام کی اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے نہروں ،درختوں اور پھلوں کی کثرت سے برکت رکھی تھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۸ / ۱۶۹، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۷۲۳، ملتقطاً)
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بادشاہی اور عاجزی:
اس سے معلوم ہو اکہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سلطنت عام تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں اور جنوں کے ساتھ ساتھ ہو اپر بھی حکومت عطا کی تھی، اتنی عظیم الشّان سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود آپ فخرو تکبر سے انتہائی دور اور عاجزی واِنکساری کے عظیم پیکر تھے۔چنانچہ ایک روایت میں ہے، حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہمراہیوں کے درمیان یوں جارہے تھے کہ پرندوں نے آپ پر سایہ کررکھا تھا اور جن و انسان آپ کی دائیں بائیں جانب تھے ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے ایک عبادت گزار کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اے حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے! آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی بادشاہی عطا فرمائی ہے۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ بات سن کر فرمایا’’ مومن کے نامۂ اعمال میں ایک تسبیح اُس سے بہتر ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کو دیا گیا ہے کیونکہ جو کچھ اسے دیا گیا وہ چلا جائے گا جبکہ تسبیح باقی رہے گی۔(احیاءعلوم الدین، کتاب ذم الدنیا، ۳ / ۲۵۰-۲۵۱)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک دن پر ندوں ، انسانوں ، جنوں اور حیوانات سے فرمایا’’ نکلو !پس آپ دو لاکھ انسانوں اور دولاکھ جنوں میں نکلے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اٹھایا گیا حتّٰی کہ آپ نے آسمانوں میں فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنی، پھر نیچے لایا گیا حتّٰی کہ آپ کے پاؤں مبارک سمندر کو چھونے لگے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک آواز سنی کہ اگر تمہارے آقا (حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی تکبر ہوتا تو انہیں جس قدر بلند کیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ نیچے دھنسا دیا جاتا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الاول، بیان ذمّ الکبر، ۳ / ۴۱۳)
’’فلاں کے حکم سے یہ کام ہوتا ہے‘‘ کہنا شرک نہیں :
اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ کہنا شرک نہیں کہ فلاں کے حکم سے یہ کام ہوتا ہے، جیسے یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے ہوا چلتی تھی۔
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَۚ-وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کچھ جنات کو (سلیمان کے تابع کردیا) جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے اور ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ:اورکچھ جنات کو جو اس کے لیے غوطے لگاتے۔} یہاں حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر کیا جانے والا دوسرا انعام بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ جِنّات کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دیا جو ان کے لیے غوطے لگاتے اور دریا کی گہرائی میں داخل ہو کر سمندر کی تہ سے آپ کے لئے جواہرات نکال کر لاتے اور وہ اس کے علاوہ دوسرے کام جیسے عجیب و غریب مصنوعات تیار کرنا، عمارتیں ، محل ، برتن ، شیشے کی چیزیں ، صابن وغیرہ بنانا بھی کرتے اور ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے تاکہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم سے باہر نہ ہوں اور سرکشی و فساد نہ کریں۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۲۸۶، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۵۱۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہاں آیت میں جنات سے کافر جنات مراد ہیں مسلمان جنات مراد نہیں ، اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہاں ’’شَیاطین‘‘ کا لفظ مذکور ہے (اور یہ لفظ کافر جنات کے لئے استعمال ہوتا ہے)دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’ہم ان جنات کو روکے ہوئے تھے تاکہ وہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم کی خلاف ورزی اور فساد نہ کریں ۔یہ بات کفارکی حالت کے مطابق ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۸ / ۱۷۰، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ا س مقام پر بہت پیارا کلام نقل فرمایا ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے پہاڑوں ،پرندوں ،لوہے اور پتھروں کو مُسَخّر کیا۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے ،ہوا، جن ، شَیاطین،حیوانات، پرندے، معدنیات،نباتات اور سورج کو مسخر کیا جبکہ ہمارے نبی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ہر چیز کو مسخر کر دیا، آپ کے لئے زمین کو لپیٹ دیاگیا حتّٰی کہ آپ نے اس کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا۔آپ کی خاطرپوری زمین کو مسجد اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا،زمین کے خزانوں کی چابیاں آپ کو عطا کر دی گئیں ،آپ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے، درخت آپ پر سلام بھیجتے، درخت آپ کااشارہ پاتے ہی اپنی جگہ سے اکھڑ کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے اور آپ کا اشارہ پا کر اپنی جگہ واپس لوٹ جاتے، جانور آپ کے ساتھ کلام کرتے اور آپ کی نبوت کی گواہی دیتے، آپ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا، ڈوبا ہوا سورج آپ کا اشارہ پا کر پلٹ آیا، براق کو آپ کے لئے مسخر کر دیا گیا، ساتوں آسمانوں ، جنت اور عرش و کرسی کو آپ نے عبور کیا حتّٰی کہ دو ہاتھ یا اس سے بھی کم فاصلے کے مقام پر فائز ہوئے۔ الغرض کائنات میں جتنی مخلوقات موجود ہیں سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسخر کر دیا۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۵۱۱-۵۱۲، ملخصاً)
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَیُّوْبَ: اور ایوب کو (یاد کرو)۔}حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کی والدہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خاندان سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، تمام جسم شریف میں آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۲۸۶-۲۸۸، ملخصاً)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری کےبارے میں علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ مَعَاذَ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں، مگر یاد رکھو کہ یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہرگز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، اس لئے کہ یہ مسئلہ مُتَّفَق علیہ ہے کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تمام اُن بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو عوام کے نزدیک باعث ِنفرت و حقارت ہیں ۔ کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی بیماریوں سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل آئی تھیں جن سے آپ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔( عجائب القرآن مع غرائب القرآن، حضرت ایوب علیہ السلام کا امتحان، ص۱۸۱-۱۸۲) یونہی بعض کتابوں میں جو یہ واقعہ مذکور ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے تھے جو آپ کا جسم شریف کھاتے تھے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ ظاہری جسم میں کیڑوں کا پیدا ہونا بھی عوام کے لئے نفرت و حقارت کا باعث ہے اور لوگ ایسی چیز سے گھن کھاتے ہیں ۔لہٰذا خطباء اور واعظین کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب نہ کریں جن سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور وہ منصبِ نبوت کے تقاضوں کے خلاف ہو۔
آزمائش و امتحان ناراضی کی دلیل نہیں :
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کی آزمائش اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے،اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انہیں آزماتا ہے،پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے(اللہ تعالیٰ کی )رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے معلوم ہونے والے مسائل:
حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جیسے دعا کی اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا بھی دعا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی دعا ہے۔
(2)… دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ۔
(3)… دعا میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کرنی چاہیے جو دعا کے موافق ہو، جیسے رحمت طلب کرتے وقت رحمٰن ورحیم کہہ کر پکارے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا سن لی۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ ا س طرح دور کردی کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’ آپ زمین میں پاؤں ماریئے۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا ،آپ کو حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کیجئے ۔ آپ نے غسل کیا تو ظاہرِ بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں ، پھر آپ چالیس قدم چلے، پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا، آپ نے پھر پاؤ ں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی انتہائی سرد تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پانی کو پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اعلیٰ درجے کی صحت حاصل ہوئی۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱)
{وَ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ:اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔} حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی دوسری روایت میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زوجہ محترمہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے ہاں کثیر اولادیں ہوئیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ عطا اپنی طرف سے ان پررحمت فرمانے اور عبادت گزاروں کو نصیحت کرنے کیلئے فرمائی تاکہ وہ اس واقعہ سے آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور اس صبرکے عظیم ثواب سے باخبر ہوں اور صبر کرکے اجر وثواب پائیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۲۹۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۷۲۴، ملتقطاً)
مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب:
آیت کی مناسبت سے یہاں مصیبت پر صبر کرنے کے ثواب پر مشتمل 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضر ت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مومن مرد اور مومنہ عورت کو اس کی جان، اولاد اور مال کے بارے میں آزمایاجاتارہے گایہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دنیا سے بے رغبتی صرف حلال کو حرام کر دینے اور مال کو ضائع کردینے کا ہی نام نہیں ،بلکہ دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ اس سے زیادہ قابلِ اعتماد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جب تجھے کوئی مصیبت پہنچے تواس کے ثواب (کے حصول) میں زیادہ رغبت رکھے اور یہ تمنا ہو کہ کاش یہ میرے لئے باقی رہتی۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الزہادۃ فی الدنیا، ۴ / ۱۵۲، الحدیث: ۲۳۴۷)
(3)…سنن ابو داؤد میں ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتّٰی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب الامراض المکفّرۃ للذنوب، ۳ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۰۹۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں آفات وبَلِیّات سے محفوظ فرمائے اور ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر وثواب کمانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ(85)وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق لوگوں میں سے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ:اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو)۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت اسماعیل ، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں ، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ظاہر فرمایا۔ حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے درس دینے پر صبر کیا اور حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دن کاروزہ رکھنے ،رات کوقیام کرنے اور اپنے دورِ حکومت میں لوگوں کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پرصبرکیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے ، یونہی جو شخص اپنے مال،اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدارکے مطابق نعمت،رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۵۱۵)
حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے یا نہیں ؟
حضرت ذوالکفل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے ،جمہور علماء کے نزدیک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نبی تھے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۸ / ۱۷۷)
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ذوالنون کو (یاد کرو) جب وہ غضبناک ہوکر چل پڑے تواس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے تو اس نے اندھیروں میں پکاراکہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے پاک ہے ، بیشک مجھ سے بے جا ہوا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ذَا النُّوْنِ:اور ذوالنون کو (یاد کرو)۔} یہاں سے حضرت یونس بن متّٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگوں نے آپ کی دعوت قبول نہ کی اور نہ ہی نصیحت مانی بلکہ وہ اپنے کفر پر ہی قائم رہے تھے، تو حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غضبناک ہو کر اپنی قوم کے علاقے سے تشریف لے گئے اور آپ نے یہ گمان کیا کہ یہ ہجرت آپ کے لئے جائز ہے کیونکہ اس کا سبب صرف کفر اور کافروں کے ساتھ بغض اور اللہ تعالیٰ کے لئے غضب کرنا ہے، لیکن آپ نے اس ہجرت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار نہ کیا تھا جس کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا، وہاں کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جیسے دریا کی تاریکی ، رات کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی ، ان اندھیروں میں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ سے اس طرح دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا کہ میں اپنی قوم سے تیرا اِذن اور اجازت پانے سے پہلے ہی جدا ہو گیا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۷۲۴)
مقبول دعائیہ کلمات:
حضرت سعدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جب دعا مانگی تو یہ کلمات کہے’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کسی مقصد کے لئے دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۱-باب، ۵ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۵۱۶)
حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں خبر نہ دوں کہ جب تم میں سے کسی شخص پر کوئی مصیبت یا دنیا کی بلاؤں میں سے کوئی بلا نازل ہو اور وہ اس کے ذریعے دعا کرے تو ا س کی مصیبت و بلا دور ہوجائے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سےعرض کی گئی :کیوں نہیں !ارشاد فرمایا ’’(وہ چیز) حضرت یونس کی دعا ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ہے۔(مستدرک،کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ،من دعا بدعوۃ ذی النون استجاب اللہ لہ،۲ / ۱۸۳،الحدیث:۱۹۰۷)
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو مسلمان اپنی بیماری کی حالت میں چالیس مرتبہ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کے ساتھ دعا مانگے ، پھر وہ اس مرض میں فوت ہوجائے تواسے شہید کا اجر دیا جائے اور اگر تندرست ہوگیا تو اس کے تمام گناہ بخشے جا چکے ہوں گے۔( مستدرک ، کتاب الدعاء و التکبیر و التہلیل ۔۔۔ الخ ، ایّما مسلم دعا بدعوۃ یونس علیہ السلام ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۱۹۰۸)
{فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ:تواس نے گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ عاجز ہے وہ کافر ہے، اور یہ ایسی بات ہے کہ کسی عام مومن کی طرف بھی اس کی نسبت کرنا جائز نہیں تو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف یہ بات منسوب کرنا کس طرح جائز ہو گا (کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز گمان کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس آیت کا یہ معنی ہر گز نہیں کہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں پکڑنے پر قادر نہیں بلکہ ) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر تنگی نہیں فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۷، ۸ / ۱۸۰)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ دیگر معتبر مفسرین نے بھی اس آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی اسی معنی کو اختیار کیا ہے اور ہم نے بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور دیگر معتبر مفسرین کی پیروی کرتے ہوئے اس آیت میں لفظ ’’لَنْ نَّقْدِرَ‘‘کا ترجمہ’’ ہم تنگی نہ کریں گے‘‘کیا ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗۙ-وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات بخشی اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی پکار سن لی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پکار سن لی اور اسے تنہائی اور وحشت کے غم سے نجات بخشی اور مچھلی کو حکم دیا تو اس نے حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریا کے کنارے پر پہنچا دیا اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی مصیبتوں اور تکلیفوں سے نجات دیتے ہیں جب وہ ہم سے فریاد کریں اور دعا کریں۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۷۲۵، ابو سعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۵۳۳، ملتقطاً)
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعامسلمانوں کے لیے بھی ہے:
حضرت سعد بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کیا میں تمہاری اللہ تعالیٰ کے اس اسمِ اعظم کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کے ساتھ جب بھی دعاکی جائے تو وہ قبول ہوجائے اورجب سوال کیاجائے توعطاہوجائے، وہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ ہے جو انہوں نے اندھیروں میں تین بار کی تھی ۔ایک شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لیے ہے ؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ کیاتم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنہیں سنا’’وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّؕ-وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘اور اسے غم سے نجات بخشی اور ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔(مستدرک ، کتاب الدعاء و التکبیر و التہلیل ۔۔۔ الخ ، ایّما مسلم دعا بدعوۃ یونس علیہ السلام ۔۔۔ الخ ، ۲ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۱۹۰۸) مراد یہ ہے کہ یہ دعا حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے خاص نہیں مسلمانوں کے لیے بھی ہے، جب وہ ان الفاظ کے ساتھ دعامانگیں گے تو ان کی دعا بھی قبول ہو گی۔
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ:اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا۔} یہاں سے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے بے اولاد نہ چھوڑ بلکہ وارث عطا فرما اور تو سب سے بہتر وارث ہے یعنی اللہ تعالیٰ مخلوق کے فنا ہونے کے بعد باقی رہنے والا ہے۔ مُدَّعا یہ ہے کہ اگر تو مجھے وارث نہ دے تو بھی کچھ غم نہیں کیونکہ تو بہتر وارث ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۳ / ۲۹۳، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۸۹، ص۷۲۵، ملتقطاً)
حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے معلوم ہونے والی باتیں :
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… دین کی خدمت کے لئے بیٹے کی دعا اور فرزند کی تمنا کرنی سنت ِنبی ہے۔
(2)… جیسی دعا مانگے، اسی قسم کے نام سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے۔چونکہ ان کافرزند اُن کے کمال کا وارث ہونا تھا، لہٰذا رب عَزَّوَجَلَّ کو وارث کی صفت سے یاد فرمایا۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(90)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔ بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول کی اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عطا فرمایا اورحضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کر کے اسے اولاد پیدا کرنے کے قابل بنا دیا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۲۵)
{اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ:بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے۔} یعنی جن انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کو بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۰، ص۷۲۵)
دعائیں قبول ہونے والا بننے کے لئے تین کام کئے جائیں :
اس سے بخوبی معلوم ہوا کہ جو شخص ایسا ہونا چاہے کہ اس کی ہر دعا مقبول ہو ،اسے چاہئے کہ وہ یہ تین کام کرے (1) نیک کام کرنے میں دیر نہ لگائے۔ (2) امید اور خوف کے درمیان رہتے ہوئے ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔ (3) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کرے۔
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس عورت کو (یاد کرو) جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی خاص روح پھونکی اور اسے اور اس کے بیٹے کو سارے جہان والوں کیلئے نشانی بنادیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا:اور اس عورت کو (یاد کرو) جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی ۔} یہاں سے حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکا واقعہ بیان کیا جا رہاہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس مریم کو یاد کریں جس نے پورے طور پر اپنی پارسائی کی حفاظت کی کہ کسی طرح کوئی بشر اس کی پارسائی کو چھو نہ سکا تو ہم نے اس میں اپنی خاص روح پھونکی اور اس کے پیٹ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یدا کیا اور اسے اور اس کے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سارے جہان والوں کیلئے اپنی قدرت کے کمال کی نشانی بنادیا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاکے پیٹ سے بغیر باپ کے پیدا کیا۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۹۳)
پاک دامنی عورت کے لئے بہترین وصف ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے بہترین وصف یہ ہے کہ وہ پاک دامن رہے اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرے۔ پاک دامن رہنے والی عورت کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے ، اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے ، اپنی پارسائی کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہوجائے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر طوائف من النساک والعباد، الربیع بن الصبیح، ۶ / ۳۳۶، الحدیث: ۸۸۳۰)
اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو عورت اپنے رب سے ڈرے ، اپنی پارسائی کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے اور ا س سے کہا جائے گا کہ تم جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: عبد الرحمٰن، ۳ / ۳۱۹، الحدیث: ۴۷۱۵)
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﳲ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ(92)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک یہ (اسلام) تمہارا دین ہے ،ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو تم میری عبادت کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ:بیشک یہ (اسلام) تمہارا دین ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! بیشک یہ اسلام تمہارا دین ہے اور یہی تمام انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین ہے، اس کے سوا جتنے اَدیان ہیں وہ سب باطل ہیں اور سب کو اسی دین اسلام پر قائم رہنا لازم ہے اور میں تمہارا رب ہوں ، نہ میرے سوا کوئی دوسرا ربّ ہے نہ میرے دین کے سوا اور کوئی دین ہے تو تم صرف میری عبادت کرو۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۷۲۶، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۲۹۴، ملتقطاً)
وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْؕ-كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ سب ہماری طرف لوٹنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ:اور لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔} گزشتہ آیت میں بتایا گیا کہ دین ایک ہی ہے اور سب انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسی کی تبلیغ کی اور یہاں بتایاجا رہاہے کہ لوگوں نے دین میں بھی اختلاف کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کواپنا دین بنالیا ،خود بھی بکھر گئے اور ان کے اعمال بھی جداگانہ ہوگئے۔
خود ساختہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے:
خیال رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دینی اعمال مختلف رہے مگر ان کا یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا جس میں ہزارہا حکمتیں تھیں ، اس لئے یہ اختلاف پکڑ کا باعث نہیں بلکہ لوگوں کا خود ساختہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے، لہٰذاآیت بالکل واضح ہے۔
{كُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ:سب ہماری طرف لوٹنے والے ہیں ۔} یہاں دین کوٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کو خبردار کیاجا رہا ہے کہ دنیامیں تو جو تمہارے جی میں آتا ہے کرلو لیکن یاد رکھو کہ قیامت کادن آنے والا ہے اور اس دن تم سب کوہماری طرف لوٹناہے اس وقت تمہیں ہرچیزکی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖۚ-وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ(94)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جو نیک اعمال کرے اوروہ ایمان والا ہو تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں ہوگی اور ہم اسے لکھنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ:تو جو نیک اعمال کرے ۔} اس آیت میں بندوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو نیک اعمال کرے اور وہ ایمان والا ہو تو اسے اس کے عمل کا ثواب نہ دے کر محروم نہ کیا جائے گا اور ہم اس کے عمل اَعمال ناموں میں لکھ رہے ہیں جن میں کچھ کمی نہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۸ / ۱۸۴، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۵ / ۵۲۲، ملتقطاً)
آیت’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے
(1)… اعمال قبول ہونے کادارو مدار ایمان پر ہے ،اگرایمان ہے تو سب کچھ ہے اور اگر ایمان نہیں توپھر کچھ بھی نہیں ۔
(2)… کوئی شخص چاہے کسی بھی قبیلے اور قوم سے تعلق رکھتا ہو، اس کی رنگت گوری ہو یاکالی ہو ،وہ دولت مند ہو یا مُفلس و غریب ہو، وہ مرد ہو یا عورت، اگر وہ ایمان والا ہے تو اس کے کئے ہوئے نیک اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔
(3)…مومن بندے کے نیک عمل مقبول ہیں ،البتہ ا س میں ایمان کے ساتھ ساتھ دو اور چیزوں کا ہونا بھی ضروری ہے (۱) نیک نیت۔ (۲) عمل کوحکم کے مطابق ادا کرنا، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
(4)…بندے کے اعمال لکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کراماً کاتبین کو مقرر فرمایا ہے اور ان کا لکھنا چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے ا س لئے یہ لکھنا اللہ تعالیٰ کا لکھنا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے بعض کام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں۔
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(95)حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ(96)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر حرام ہے کہ لوٹ کرنہ آئیں ۔ یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا اوروہ ہر بلندی سے تیزی سے اترتے ہوئے آئیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ:اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر حرام ہے کہ لوٹ کرنہ آئیں ۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہے (1) جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کا اپنے اَعمال کی تَلافی اور اپنے اَحوال کے تَدارُک کے لئے دنیا کی طرف واپس آنا ناممکن ہے۔ (2) جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر دیا ان کا شرک اور کفر سے واپس آنا محال ہے۔ (3) جس بستی کے لوگوں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کاقیامت کے دن زندہ ہونے کی طرف نہ لوٹنا ناممکن ہے یعنی وہ قطعاً قیامت کے دن لوٹ کر آئیں گے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۵، ۸ / ۱۸۵، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۷۲۶، ملتقطاً)
{حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ:یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا۔} یاجوج ماجوج دو قبیلوں کے نام ہیں ، جب قیامت آنے کا وقت قریب ہو گا تو یاجوج اور ماجوج کو روک کر رکھنے والی دیوار کو کھول دیا جائے گا اور وہ زمین کی ہر بلندی سے تیزی کے ساتھ لوگوں کی طرف اترتے ہوئے آئیں گے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۲۷۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۷۲۶، ملتقطاً)
وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-یٰوَیْلَنَا قَدْ كُنَّا فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سچا وعدہ قریب آگیا تو جبھی اس وقت کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم ظالم تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ:اور سچا وعدہ قریب آگیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہو گی تواس وقت اس دن کی ہَولناکی اور دہشت سے کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور وہ کہیں گے کہ ہائے ہماری خرابی! بیشک ہم دنیا کے اندر اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم اپنی جانوں پرظلم کرنے والے تھے کہ رسولوں کی بات نہ مانتے تھے اور انہیں جھٹلاتے تھے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۲۹۵، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۷۷، ملتقطاً)
کفار کے انجام میں عبرت و نصیحت:
اس آیت میں کفار کا جو حال بیان کیا گیا اس میں ہر عقلمند انسان کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے تمام لوگوں کو اپنی رحمت و انعام اور اس کے حق داروں کے بارے میں بشارت اور خبر دے دی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی پکڑ، گرفت، عذاب، موت کی سختیوں اور قیامت و جہنم کی ہَولناکیوں کے بارے میں بھی بتا دیا اور ان لوگوں کی بھی خبر دے دی جو ان میں مبتلاہوں گے، اس کے باجود جو انسان غفلت سے کام لے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت نہ کرے تو قیامت کے دن وہ لاکھ حیلے بہانے کر لے اور کتنے ہی عذر پیش کر دے ، ا س کا کوئی حیلہ اور عذر قبول نہ ہو گا۔
حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں تمہارے پاس تمہارے مال طلب کرنے اور تم میں عزت و مرتبہ چاہنے نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجاہے اور مجھ پر ایک عظیم کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہارے لئے( اللہ تعالیٰ کے ثواب کی) خوشخبری دینے والا اور ( اللہ تعالیٰ کے عذاب سے) ڈرانے والا بنوں ،تو میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہیں نصیحت کردی، اب اگر تم اُسے قبول کرو جسے میں تمہارے پاس لایا ہوں تو وہ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں ایک حصہ ہے اور اگر تم اسے رد کر دو تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے صبر کروں گا یہاں تک کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی فیصلہ فرما دے۔( خلق افعال العباد، باب ما جاء فی قول اللّٰہ: بلّغ ما انزل الیک من ربّک، ص۸۱)
ایک بزرگ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ جنازے کے پیچھے میت پر بڑی شفقت کر رہے ہیں ، تو انہوں نے فرمایا ’’اگر تم اپنی جانوں پر رحم کھاؤ (یعنی میت سے زیادہ اپنے اوپر رحم کھاؤ) تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے کیونکہ جس کا جنازہ تم لے کر جا رہے ہو وہ فوت ہو گیا اور تین ہَولناکیوں ، مَلکُ الموت کو دیکھنے، موت کی سختی اور مرنے کے خوف سے نجات پاگیا (جبکہ تمہیں ابھی ان تینوں ہولناکیوں کا سامنا کرنا ہے۔)( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۵ / ۵۲۳)
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَؕ-اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ(98)لَوْ كَانَ هٰۤؤُلَآءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَاؕ-وَ كُلٌّ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ۔ تم اس میں جانے والے ہو۔اگر یہ معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور ان سب کو ہمیشہ اس میں رہناہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔}ارشاد فرمایا کہ اے مشرکو! بیشک تم اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو ،سب جہنم کے ایندھن ہیں اور تم اس میں ہمیشہ کے لئے جانے والے ہو۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۹۸، ۵ / ۵۲۳-۵۲۴)
یاد رہے کہ مشرکین کے بت عذاب پانے کے لئے جہنم میں نہ جائیں گے بلکہ ان مشرکوں کو عذاب دینے کے لئے جائیں گے کیونکہ ان کی پوجا کرنے میں قصور تو مشرکوں کا ہے نہ کہ ان بتوں کا ۔
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
جہنم میں ان کی گدھے جیسی آوازیں ہوں گی اور وہ اس میں کچھ نہ سنیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ:جہنم میں ان کی گدھے جیسی آوازیں ہوں گی۔} ارشاد فرمایا کہ وہ مشرک جہنم میں گدھے جیسی آوازیں نکالیں گے اور عذاب کی شدت سے چیخیں گے اور دھاڑیں گے اور وہ جہنم کے جوش کی شدت کی وجہ سے اس میں کچھ نہ سنیں گے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۷۲۷، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۲۷۷، ملتقطاً)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ جب جہنم میں وہ لوگ رہ جائیں گے جنہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے تو وہ آ گ کے تابوتوں میں بند کر دئیے جائیں گے، وہ تابوت دوسرے تابوتوں میں ، پھر وہ تابوت اور تابوتوں میں بند کر دئیے جائیں گے اور ان تابوتوں پر آ گ کی میخیں لگادی جائیں گی تو وہ کچھ نہ سنیں گے اور نہ کوئی ان میں کسی کو دیکھے گا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۹۶)
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى:بیشک جن کے لیے ہمارا بھلائی کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ۔} شانِ نزول : رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن کعبہ معظمہ میں داخل ہوئے ، اس وقت قریش کے سردار حطیم میں موجود تھے اور کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے ۔ نضر بن حارث سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے آیا اور آپ سے کلام کرنے لگا ۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے جواب دے کرخاموش کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ‘‘(انبیاء:۹۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تم اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ۔
یہ فرما کر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے۔ پھر عبد اللہ بن زبعری سہمی آیا اور اسے ولید بن مغیرہ نے اس گفتگو کی خبر دی تو وہ کہنے لگا: خدا کی قسم !اگر میں ہوتا تو ان سے بحث مباحثہ کرتا۔ اس پر لوگوں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلوا لیا ۔ ابنِ زبعری یہ کہنے لگا : آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تم اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنم کے ایندھن ہیں ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ہاں ۔ وہ کہنے لگا: یہودی تو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں اور بنی ملیح فرشتوں کو پوجتے ہیں (مطلب یہ کہ پھر تو یہ بھی جہنم میں جائیں گے) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بیان فرما دیا کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے وہ ہیں جن کے لئے بھلائی کا وعدہ ہو چکا اور وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ درحقیقت یہودی اور عیسائی وغیرہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں ۔ ان جوابوں کے بعد اسے دم مارنے کی مجال نہ رہی اور وہ بھی خاموش رہ گیا۔ درحقیقت ابنِ زبعری کا اعتراض انتہائی عناد کی وجہ سے تھا کیونکہ جس آیت پر اس نے اعتراض کیا اس میں مَا تَعْبُدُوْنَ کا لفظ ہے اور مَا عربی زبان میں ان کے لئے بولا جاتا ہے جو ذَوِی الْعُقول نہ ہوں ، یہ جاننے کے باوجود اس نے اندھا بن کر اعتراض کیا ۔ یہ اعتراض تو اہلِ زبان کی نگاہوں میں کھلا ہوا باطل تھا مگر مزید بیان کے لئے اس آیت میں وضاحت فرما دی گئی کہ حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ۔
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ تمام مومنین داخل ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی اور سعادت کا وعدہ پہلے سے ہوچکا ہے ،یہ سب جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۲۹۶، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷، ملتقطاً)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان:
تفسیر مدارک میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے یہ آیت ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰى‘‘پڑھ کر فرمایا ’’میں انہیں میں سے ہوں اور حضرت ابوبکر ، عمر، عثمان ،طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی انہیں میں سے ہیں ۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۷۲۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عَزِیْز جَبَّار وَاحِد قَہَّارجَلَّ وَعَلَا نے صحابۂ کرام کو دو قسم کیا، ایک وہ کہ قبلِ فتحِ مکہ جنہوں نے راہِ خدا میں خرچ وقتال کیا، دوسرے وہ جنہوں نے بعد ِفتح ،پھر فرما دیا کہ دونوں فریق سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خوب خبر ہے کہ تم کیا کیا کرنے والے ہو، با اینہمہ اس نے تم سب سے حُسنٰی کا وعدہ فرمایا۔ یہاں قرآنِ عظیم نے ان دریدہ دہنوں ، بیباکوں ، بے ادب، ناپاکوں کے منہ میں پتھر دے دیا جو صحابۂ کرام کے افعال سے اُن پر طعن چاہتے ہیں ، وہ بشرطِ صحت اللہ عَزَّوَجَلَّ کو معلوم تھے ،پھر بھی اُن سب سے حُسنیٰ کا وعدہ فرمایا ، تو اب جومُعترض ہے اللہ واحدقہار پر معترض ہے، جنت ومدارجِ عالیہ اس معترض کے ہاتھ میں نہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاتھ ہیں، معترض اپنا سرکھاتا رہے گا اور اللہ نے جو حُسنیٰ کا وعدہ اُن سے فرمایا ہے ضرور پورا فرمائے گا اور معترض جہنم میں سزاپائے گا، وہ آ یۂ کریمہ یہ ہے:
’’لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘‘(حدید:۱۰)
اے محبوب کے صحابیو!تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ وقتال کیا، وہ رُتبے میں بعد والوں سے بڑے ہیں ، اور دونوں فریق سے اللّٰہ نے حُسنیٰ کا وعدہ کرلیا، اور اللّٰہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو۔
اب جن کے لیے اللّٰہ کا وعدہ حُسنیٰ کا ہولیا اُن کا حال بھی قرآن عظیم سے سنئے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰۱-۱۰۳)
بے شک جن کے لیے ہمارا وعدہ حُسنیٰ کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں ، اس کی بھنک تک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے۔وہ بڑی گھبراہٹ قیامت کی ہلچل انہیں غم نہ دے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔
یہ ہے جمیع صحابۂ کرام سیّدُ الانام عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے قرآن کریم کی شہادت۔ امیرالمومنین ، مولی المسلمین ،علی مرتضیٰ مشکل کشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم قسمِ اول میں ہیں جن کو فرمایا ’’ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً‘‘ اُن کے مرتبے قسمِ دوم والوں سے بڑے ہیں ۔ اور امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قسمِ دوم میں ہیں ، اور حُسنیٰ کا وعدہ اور یہ تمام بشارتیں سب کوشامل۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۲۷۹-۲۸۰)
{ اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ:وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں جہنم کے عذاب اور اس کی اَذِیّت و تکلیف سے دور رکھا جائے گا کیونکہ جب مومنین جہنم کے اوپر سے گزریں گے تو جہنم کی آگ ٹھندی ہونے لگے گی اور وہ کہے گی اے مومن !جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرے نورنے میرے شعلے کو بجھا دیا ہے۔لہٰذا ایمان والوں کا جہنم کے اوپر سے گزرنا اس آیت کے مُنافی نہیں ہے۔( صاوی، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۴ / ۱۳۲۰)
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَ(102)لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(103)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا:وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ جنت کی مَنازل میں آرام فرما ہوں گے تووہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور اس کے جوش کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی ، اور وہ جنت میں اپنی دل پسند نعمتوں اور کرامتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔( جمل، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۵ / ۱۶۴، قرطبی، الانیباء، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۲۰۴، ملتقطاً)
{لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ:انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’سب سے بڑی گھبراہٹ سے مراد دوسری بار صُور میں پھونکا جانا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے وہ وقت مراد ہے جب موت کو ذبح کر کے یہ ندا دی جائے گی کہ اے جہنم والو! تمہیں اب موت کے بغیر جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے۔
مزید فرمایا کہ قبروں سے نکلتے وقت مبارک باد دیتے اور یہ کہتے ہوئے فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ تمہیں ثواب ملنے کا وہ دن ہے جس کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۷۲۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہنے والے لوگ:
اَحادیث میں چند ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہیں گے، ترغیب کے لئے یہاں ان پانچ خوش نصیب افراد کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا ذکر اَحادیث میں ہے،
(1)…شہید۔ چنانچہ حضرت مقدام بن معدی کرب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید کے لئے چھ خصلتیں ہیں ، خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی ا س کی بخشش ہو جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ سب سے بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ اس کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ بڑی آنکھوں والی 72 حوریں ا س کے نکاح میں دی جائیں گی اور ا س کے ستر رشتہ داروں کے حق میں ا س کی شفاعت قبول کی جائے گی۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۵۰، الحدیث: ۱۶۶۹)
(2)…رضائے الٰہی کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ انبیاء ہیں نہ شہداء،ان کے لئے قیامت کے دن نور کے منبر رکھے جائیں گے ،ان کے چہرے بھی نورانی ہوں گے اوروہ قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ ایک شخص نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا’’وہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہوں گے جو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر محبت رکھتے ہوں گے۔( معجم الکبیر،من اسمہ:معاذ، معاذ بن جبل الانصاری۔۔۔الخ، رجال غیر مسمّین عن معاذ،۲۰ / ۱۶۸،الحدیث: ۳۵۸)
(3 ، 4 ، 5)…جس امام سے مقتدی خوش ہوں ، روزانہ اذان دینے والا، اللہ تعالیٰ اور اپنے آقا کا حق ادا کرنے والا غلام۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین افراد ایسے ہیں جنہیں قیامت کے دن سب سے بڑی گھبراہٹ پریشان نہیں کرے گی ، انہیں حساب کی سختی نہ پہنچے گی اور وہ مخلوق کا حساب ختم ہونے تک کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ۔ (۱) وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قرآن پڑھا اور ا س کے ساتھ کسی قوم کی امامت کی اور وہ ا س سے را ضی ہوں ۔ (۲) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے لوگوں کو پانچوں نمازوں کی طرف اذان دے کر بلائے۔ (۳) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کاحق اور اپنے آقاؤں کا حق اچھے طریقے سے ادا کرتا ہے۔( معجم الصغیر، باب الواو، من اسمہ: الولید، ص۱۲۴، الجزء الثانی)
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ(104)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاد کروجس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ نامۂ اعمال کو لپیٹتا ہے۔ہم اسے دوبارہ اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا۔ یہ ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے، بیشک ہم ضرور یہ کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ:یاد کروجس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا انہیں اس دن سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا فرشتے ا س دن ان کا استقبال کریں گے جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یاد کروجس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۸ / ۱۹۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، ملتقطاً)
سِجِلّ کا معنی:
سجل سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ سجل تیسرے آسمان پر موجود اس فرشتے کا نام ہے جس تک بندوں کی موت کے بعد ان کے اعمال نامے پہنچائے جاتے ہیں اور وہ فرشتہ ان اعمال ناموں کو لپیٹ دیتا ہے، چنانچہ ابو حیان محمد اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَااور مفسرین کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سجل ایک فرشتہ ہے ،جب اس تک بندوں کے نامہِ اعمال پہنچائے جاتے ہیں تو وہ انہیں لپیٹ دیتا ہے۔( البحر المحیط، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۳۱۷)
{ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ:ہم اسے دوبارہ اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ۔} یعنی ہم نے جیسے پہلے انسان کو عدم سے بنایا تھا ویسے ہی پھر معدوم کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کردیں گے، یا اس کے یہ معنی ہیں کہ جیسا اسے ماں کے پیٹ سے برہنہ اورغیر ختنہ شدہ پیدا کیا تھا ایسا ہی مرنے کے بعد اُٹھائیں گے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
اَنبیاء، صحابہ اور اولیاء کا حشر لباس میں ہو گا:
اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر ایسے ہو گا کہ ان کے بدن ننگے ہوں گے اور ان کا ختنہ بھی نہیں ہوا ہو گا۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ کئے جمع کئے جاؤ گے۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ، ص۱۵۳۰، الحدیث:۵۸(۲۸۶۰))
البتہ یہاں یہ یاد رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ قیامت کے دن اس حال سے محفوظ ہوں گے اور ان کا حشر لباس میں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :اس فرمانِ عالی میں اِنَّکُمْ فرما کر بتایا گیا کہ تم عوام لوگ اس حالت میں اُٹھو گے : ننگے بدن، ننگے پاؤں ، بے ختنہ، مگر تمام انبیاءِکرام اپنے کفنوں میں اٹھیں گے حتّٰی کہ بعض اولیاء اللہ بھی کفن پہنے اٹھیں گے تاکہ ان کا ستر کسی اور پر ظاہر نہ ہو۔ جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میں قبر انور سے اُٹھوں گا اور فوراً مجھے جنتی جوڑا پہنا دیا جاوے گا ۔ لہٰذا یہاں اس فرمان عالی سے حضور انور صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ بلکہ تمام انبیاء ،بعض اولیاء مُستَثنیٰ ہیں ۔( مراٰۃ المناجیح ، حشر کابیان، پہلی فصل، ۷ / ۲۹۰، تحت الحدیث: ۵۲۹۳)
اور فقیہ اعظم مفتی ابو الخیر نورُ اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ خطاب امت کو ہے جس کاظاہر یہ ہے کہ حضرات انبیاءِکرام سب مُستَثنیٰ ہیں ،اوروہ سب بِفَضْلِہ تعالیٰ لباس میں ہونگے، ہاں تشریفی خِلعتیں بھی علیٰ حسب ِالمدارج ان حضرات کیلئے وارد ہیں (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) بہرحال اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ امتی ننگے ہوں گے۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۵)
دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :آیاتِ مُتَکاثِرہ اور اَحادیثِ مُتَواترہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کا حشر بھی لباس میں ہوگا کہ یہ سب حضرات مُنْعَم عَلَیہم ہیں اور ان کے لئے حضرات ِانبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت ورفاقتِ خاصہ بَحکمِ قرآن کریم صراحۃً ثابت ہے۔ پ 5 ع6 میں ہے ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘اس انعام ومعیت ورفاقت سے ہی واضح ہورہا ہے کہ وہ بھی انبیاءِکرام کی معیت میں لباس میں ہوں گے بالخصوص جبکہ یہ حضرات ہیں ہی صدیقین یاشہدا سے یا صالحین۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۹)
{وَعْدًا عَلَیْنَا:یہ ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے۔} یعنی تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے کی طرح دوبارہ پیدا کرنا ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے اور اسے ہم ضرور پورا کریں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۵ / ۵۲۶)
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(105)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے نصیحت کے بعد زبور میں لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ:اور بیشک ہم نے نصیحت کے بعد زبورمیں لکھ دیا۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں زبور سے وہ تمام کتابیں مراد ہیں جو انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئیں اور ذکر سے مراد لوحِ محفوظ ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں لکھنے کے بعد ہم نے تمام آسمانی کتابوں میں لکھ دیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ زبور سے وہ آسمانی کتاب مراد ہے جوحضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرنازل ہوئی اور ذکر سے مراد تورات ہے، اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تورات میں لکھنے کے بعد زبور میں لکھ دیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۹۷، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۷۲۸، ملتقطاً)
{اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ:کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔} اس زمین سے مراد جنت کی زمین ہے جس کے وارث اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہوں گے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اس سے کفار کی زمینیں مراد ہیں جنہیں مسلمان فتح کریں گے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے شام کی زمین مراد ہے جس کے وارث اللہ تعالیٰ کے وہ نیک بندے ہوں گے جو اس وقت شام میں رہنے والوں کے بعد آئیں گے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۳ / ۲۹۷)
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَﭤ(106)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اس قرآن میں عبادت کرنے والوں کیلئے کافی سامان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا:بیشک اس قرآن میں کافی سامان ہے۔} یعنی قرآن کریم مومن عبادت گزاروں کو ہدایت و رہبری کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اسے صاحب ِقرآن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم و تفہیم کے ماتحت سمجھا جائے، محض عقل سے سمجھنا کافی نہیں اور جو اس کی پیروی کرے اور اس کے مطابق عمل کرے وہ مراد کو پہنچے اور جنت پائے گا۔ عباد ت کرنے والوں سے مراد مومنین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور ایک قول یہ ہے کہ اُمتِ مُحمدیَّہ مراد ہے جو پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں ۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۳ / ۲۹۷)
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۹۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱)
اور فرماتے ہیں’’حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق:
’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔)
تمام عاصیوں کی شفاعت کے لئے تو وہ مقررفرمائے گئے:
’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘(سورۂ محمد:۱۹)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔)( فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۶۷۴-۶۷۵)
آیت’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفٰی :
یہ آیتِ مبارکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں :
(1)…اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ ( اللہ تعالیٰ کے سوا) تمام سے افضل ہوں ۔( تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۳، ۲ / ۵۲۱)
تفسیر روح البیان میں اَکابِر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوتمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق، تام، کامل، عام، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
(2)… اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے گا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و پیروی کرے گا اسے دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے حصہ ملے گا اور وہ دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں آپ کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ پا سکے گا۔ امام فخرالدین رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’لوگ کفر ،جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا جب حق کے طلبگار کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ آ رہی تھی،چنانچہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کوحق کی طرف بلایا اور ان کے سامنے درست راستہ بیان کیااور ان کے لئے حلال و حرام کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق طلب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا (اور وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۸ / ۱۹۳، ملخصاً)
تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت میں فرق:
ویسے تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رحمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ،اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت میں فرق ملاحظہ ہو،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ رَحْمَةً مِّنَّا‘‘(مریم:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں )۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حق میں ارشاد فرمایا
’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔‘‘
ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا،اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کے محتاج ہوں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(108)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے تو کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کے واحد معبود ہونے پرکئی دلائل پیش کئے گئے اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے، اب یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کافروں سے فرما دیں کہ معبود کے معاملے میں میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں لہٰذاتم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لا کر مسلمان ہو جاؤ۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۸ / ۱۹۴، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۳ / ۲۹۷، ملتقطاً)
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍؕ-وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو: میں نے تمہیں برابری کی بنیاد پر خبردار کردیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتاہے وہ قریب ہے یا دور ہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ پھر اگر وہ کفار اسلام قبول کرنے سے منہ پھیریں تو آپ ان سے فرما دیں کہ میں نے تم سے لڑائی کا اعلان کر دیا ہے اور اس سے متعلق جاننے میں ہم اور تم برابر ہیں لیکن میں نہیں جانتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے جنگ کرنے کی اجازت کب ملے گی۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر اگر وہ کفار منہ پھیریں اور اسلام نہ لائیں تو آپ ان سے فرما دیں : اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعلق جس چیز کا مجھے حکم دیا گیا میں نے تمہیں برابری کی بنیاد پر ا س کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور رسالت کی تبلیغ کرنے اور نصیحت کرنے میں تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں جانتا کہ تمہیں عذاب یا قیامت کاجو وعدہ دیا جاتاہے وہ قریب ہے یا دور ہے۔(تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۸ / ۱۹۵، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۵۳۰، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۲۷۸، ملتقطاً)
{وَ اِنْ اَدْرِیْ:اور میں نہیں جانتا ۔} آیت کے اس حصے کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خزائن العرفان میں جو کلام فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں دِرایت کی نفی فرمائی گئی ہے۔ درایت ’’اندازے اور قِیاس سے جاننے ‘‘کو کہتے ہیں جیسا کہ امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مفرداتِ امام راغب میں اور علامہ شامی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ردُّالمحتار میں ذکر کیا ہے، اور قرآن کریم کے اِطلاقات اس پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا:
’’ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ‘‘(شوری:۵۲)
(ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس سے پہلے نہ تم کتاب کوجانتے تھے نہ شریعت کے احکام کی تفصیل کو۔)
اسی لئے اللہ تعالیٰ کے لئے درایت کالفظ استعمال نہیں کیا جاتا ،لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر محض اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ مُطْلق علم کی اور مطلق علم کی نفی کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اسی رکوع کے شروع میں آ چکا ہے ’’وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ‘‘یعنی اور سچا وعدہ قریب آگیا۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وعدے کا قریب اور دور ہونا کسی طرح معلوم نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اپنی عقل اور قیاس سے جاننے کی نفی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جاننے کی نفی ہے۔(خزائن العرفان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۶۱۷)
اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ(110)وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(111)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو ۔ اور میں نہیں جانتا کہ شاید وہ تمہاری آزمائش ہو اور ایک وقت تک کیلئے فائدہ دینا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّهٗ یَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ:بیشک اللہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے۔}یعنی اے کافرو! تم جو بلند آواز سے قرآنِ مجید کی آیات کو جھٹلاتے اور اسلام پر اعتراضات کرتے ہو بے شک اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے جو حسد و عداوت تم چھپاتے ہو اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو وہ تمہیں ا س پر جہنم کی دردناک سزا دے گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۵ / ۵۳۰)
{ وَ اِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ:اور میں نہیں جانتا کہ شایدوہ تمہاری آزمائش ہو ۔} یعنی میں نہیں جانتا کہ شاید دنیا میں عذاب کو مُؤخَّر کرنا تمہاری آزمائش ہو جس سے تمہارا حال ظاہر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے مطابق موت کے وقت تک کیلئے تمہیں فائدہ دینا ہو تاکہ یہ تم پر حجت ہو جائے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۵۳۰)
قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّؕ-وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ(112)
ترجمہ: کنزالعرفان
نبی نے عرض کی: اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور ہمارا رب رحمٰن ہی ہے جس سے ان باتوں کے خلاف مدد طلب کی جاتی ہے جو تم کرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ:نبی نے عرض کی: اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے۔} یہاں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی :اے میرے رب! میرے اور ان کے درمیان جو مجھے جھٹلاتے ہیں اس طرح حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے کہ میری مدد کر اور ان پر عذاب نازِل فرما ۔ چنانچہ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعا قبول ہوئی اور جنگ ِبدر، جنگ ِاَحزاب اور جنگ ِحُنَین وغیرہ میں کفار مبتلائے عذاب ہوئے۔ آیت کے آخر میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیاکہ آپ کافروں کو وعید بیان کرتے ہوئے فرما دیں کہ ’’ ہمارا رب رحمٰن ہی ہے جس سے شرک و کفر اور بے ایمان کی ان باتوں کے خلاف مدد طلب کی جاتی ہے جو تم کرتے ہو۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۳ / ۲۹۸)