سُوْرَۃُ العَنْكَبُوت
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓمّٓ(1)اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
الم۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟
تفسیر: صراط الجنان
{الٓمّٓ} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے اور اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{اَحَسِبَ النَّاسُ: کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں شدید تکالیف ،مختلف اَقسام کے مَصائب ،عبادات کے ذوق، شہوات کو ترک کرنے اور جان و مال میں طرح طرح کی مشکلات سے آزمایا نہیں جائے گا؟انہیں ضرور آزمایا جائے گا تاکہ اُن کے ایمان کی حقیقت خوب ظاہر ہوجائے اور مخلص مومن اور منافق میں امتیاز ظاہر ہوجائے۔
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ،ان میں سے تین قول درج ذیل ہیں،
(1)…یہ آیت اُن حضرات کے بارے میں نازل ہوئی جو اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود مکہ مکرمہ میں تھے ،صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اُنہیں لکھاکہ جب تک ہجرت نہ کر لو اس وقت تک محض اقرار کافی نہیں ،اس پر اُن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے، مشرکین اُن کے پیچھے لگ گئے اور اُن سے لڑائی کی ،ان میں سے بعض حضرات شہید ہوگئے اوربعض بچ کر مدینہ منورہ آئے، اُن کے حق میں یہ دو آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے مراد سلمہ بن ہشام ، عیاش بن ابی ربیعہ ، ولید بن ولید اور عمار بن یاسر وغیرہ ہیں جو مکہ مکرمہ میں ایمان لائے۔
(2)…یہ آیتیں حضرت عمار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کفار انہیں سخت ایذائیں پہنچاتے تھے۔
(3)…یہ آیتیں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت مہجع بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں ،یہ بدر میں سب سے پہلے شہید ہوئے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’مہجع شہدا ء کے سردار ہیں اور اس اُمت میں سے جنت کے دروازے کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں گے۔‘‘ ان کے والدین اور اُن کی بیوی کو ان کی شہادت کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ،پھران کی تسلی فرمائی۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ص۸۸۴، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۴۴۴–۴۴۵، ملتقطاً)
ہرمسلمان کواس کی ایمانی قوت کے حساب سے آزمایا جاتا ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کاان کی ایمانی قوت کے مطابق امتحان لینا ، اللہ تعالیٰ کاقانون ہے ۔ بیماری، ناداری، غربت، مصیبت، یہ سب رب تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشیں ہیں جن سے مخلص اور منافق ممتاز ہو جاتے ہیں ۔یہاں آزمائشوں سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑا ثواب ،بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتاہے، پس جو ا س پر راضی ہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لئے ناراضگی ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلائ، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
(2)…حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّب بندوں کی،آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر دین میں کمزور ہو تو اس کے دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ ا س پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۶)
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کوآزمایاتو ضرور ضرور الله انہیں دیکھے گا جو سچے ہیں اور ضرور ضرور جھوٹوں کو (بھی) دیکھے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے اس امت سے پہلے لوگوں کوطرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا لیکن وہ صدق و وفا کے مقام میں ثابت اور قائم رہے ،تو ضرور ضرور اللہ تعالیٰ انہیں دیکھے گا جو اپنے ایمان میں سچے ہیں اور ضرور ضرور ایمان میں جھوٹوں کو بھی دیکھے گا اور ان میں سے ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳، ص۸۸۴–۴۸۵)
مصیبتوں پر صبر کرنے کی ترغیب:
اس سے معلوم ہوا کہ تمام امتوں میں کئی حکمتوں اور مَصلحتوں کے پیش ِنظر اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ جاری رہا ہے کہ وہ ایمان والوں کو آزمائشوں میں مبتلا فرماتا ہے ،لہٰذا اس کے برخلاف ہونے کی توقّع رکھناجائز نہیں اوریاد رہے کہ اس امت سے پہلے لوگوں پر انتہائی سخت آزمائشیں اور مصیبتیں آئی ہیں ،لیکن پہلے لوگوں نے ان مصیبتوں ا ور آزمائشوں پر صبر کیا اور اپنے دین پر اِستقامت کے ساتھ قائم رہے،یونہی ہم پر بھی آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی تو ہمیں بھی چاہئے کہ سابقہ لوگو ں کی طرح صبر و ہمت سے کام لیں اور اپنے دین کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کرتے رہیں ۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ‘‘(بقرہ:۲۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر پہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیایہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اُٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ‘‘
(اٰل عمران:۱۴۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزوری دِکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اورصحیح بخاری شریف میں ہے،حضرت خباب بن الارت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کعبہ شریف کے سائے میں اپنی چادرسے تکیہ لگائے تشریف فرماتھے کہ ہم نے حاضر ِخدمت ہوکرعرض کی، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، (ہم پرمصائب کی حد ہوگئی) ،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے مدد کیوں طلب نہیں فرماتے اور اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے کیوں دعانہیں فرماتے؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(یہ مصیبتیں صرف تم ہی برداشت نہیں کررہے ہو بلکہ) تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی شخص کے لیے گڑھاکھودا جاتا، پھراس گڑھے میں اسے کمرتک گاڑدیتے ،پھرآری لاکراس کے سرپرچلائی جاتی اورکاٹ کراس کے دوحصے کردئیے جاتے، بعض پرلوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں جن سے ان کے گوشت اورہڈیوں کواکھیڑکررکھ دیا جاتا، اس کے باوجودوہ مومن اپنے دین پرثابت قدم رہے، اللہ تعالیٰ کی قسم !یہ دین مکمل ہو کر رہے گا،یہاں تک کہ اگر کوئی سوار صنعا سے حَضْرمَوت تک سفرکرے گاتواسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کاخوف نہ ہوگا اور نہ اپنی بکریوں پر بھیڑیے کا خوف ہو گا،لیکن تم جلد بازی سے کام لیتے ہو۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۲)
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
یا (کیا) بُرے اعمال کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم سے کہیں نکل جائیں گے؟ وہ کیا ہی بُرا فیصلہ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا: یابرے اعمال کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم سے کہیں نکل جائیں گے؟} ارشاد فرمایا :جو لوگ شرک اور گناہوں میں مبتلا ہیں کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ ہم سے بچ کر کہیں نکل جائیں گے اور ہم انہیں ان کے اعمال کی سز انہ دے سکیں گے،ایساہر گز نہ ہو گا اوروہ یہ سمجھ کر کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۴۴۷)
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو الله کی ملاقات کی امید رکھتاہوتو بیشک الله کا مقرر کیا ہوا وعدہ ضرور آنے والا ہے اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ: جو اللہ کی ملاقات کی امید رکھتا ہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جو شخص دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب لئے جانے سے ڈرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ثواب ملنے کی امید رکھتا ہے تو وہ سن لے کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور عذاب کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہونے والا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اس کے لئے تیار رہے اور نیک اعمال کرنے میں جلدی کرے اور اللہ تعالیٰ ہی بندوں کے اقوال کو سننے والا اور ان کے افعال کو جاننے والا ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۴۴۵)
وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو کوشش کرے تو اپنے ہی فائدے کیلئے کوشش کرتا ہے،بیشک الله سارے جہانوں سے بے پرواہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ: اور جو کوشش کرے تو اپنے ہی فائدے کیلئے کوشش کرتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے جنگ کر کے یا نفس و شیطان کی مخالفت کر کے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر صابر اور قائم رہ کراس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا نفع اور ثواب اسے ہی ملے گا،بے شک اللہ تعالیٰ انسانوں ،جنوں اور فرشتوں کے اعمال اور عبادات سے بے پرواہ ہے اور اس کا بندوں کو کوئی حکم دینا اور کسی چیز سے منع فرمانا محض ان پر رحمت و کرم فرمانے کے لئے ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۴۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ص۳۳۵، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶، ص۸۸۵، ملتقطاً)
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے توہم ضرور ان سے ان کی برائیاں مٹا دیں گے اور ضرور انہیں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے۔} اس سے پہلی آیت میں اِجمالی طور پر بیان کیا گیا کہ جو نیک عمل کرے تو اس کافائدہ اسے ہی ہو گا اور اب یہاں سے نیک اعمال کرنے کا ایک فائدہ بیان کیا جارہا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے توہم ضرور نیکیوں کے سبب ان سے ان کی برائیاں مٹا دیں گے اور ضرور انہیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیں گے۔( تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۲۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۷، ص۳۳۵، ملتقطاً)
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے (ہر) انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی اور (اے بندے!) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تُو ان کی بات نہ مان۔میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو میں تمہیں تمہارے اعمال بتادوں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی۔} شانِ نزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان کی آیت نمبر14 اور سورۂ اَحقاف کی آیت نمبر15 حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں اور دوسری روایت کے مطابق حضرت سعد بن مالک زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں حمنہ بنت ِابی سفیان بن امیہ بن عبد ِشمس تھی اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سابقین اَوّلین صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ جب آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسلام قبول کیا تو آپ کی والدہ نے کہا : تو نے یہ کیا نیا کام کیا! خدا کی قسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں اوریوں ہمیشہ کے لئے تیری بدنامی ہو اور تجھے ماں کا قاتل کہا جائے۔ پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک دن رات نہ کھایا، نہ پیا اور نہ سائے میں بیٹھی، اس سے کمزورہوگئی۔ پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی، تب حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اُس کے پاس آئے اور آپ نے اُس سے فرمایا کہ اے ماں! اگر تیری 100جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں ، تو چاہے کھا ،چاہے مت کھا ۔جب وہ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف سے مایوس ہوگئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۴۴۶)
کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام:
اس سے معلوم ہوا کہ بندے کو ماں باپ کا مادری پدری حق ضرور ادا کرنا چاہئے اگرچہ وہ کافر ہوں ۔اسی مناسبت سے یہاں کافر والدین کے حقوق سے متعلق 2شرعی احکام ملاحظہ ہوں۔
(1)…کافر والدین کا نفقہ بھی مسلمان اولاد پر لازم ہے۔
(2)…اگر کافر ماں باپ بت خانے وغیرہ سے گھر تک چھوڑنے کا کہیں تو انہیں گھر تک چھوڑے اور اگر وہ گھر سے بت خانے وغیرہ تک چھوڑنے کا کہیں تو انہیں نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ گھر تک چھوڑنا گنا ہ نہیں اور بت خانے چھوڑنا گناہ ہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۴۵۰)
شرعی احکام کے مقابلے میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرعی احکام کے مقابلے میں کسی رشتہ دار کا کوئی حق نہیں ، لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ شریعت کی طرف سے اجازت کے بغیر صرف ماں باپ کے کہنے پر شرعی احکام مثلاً روزہ وغیرہ رکھنا نہ چھوڑے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اطاعت ِوالدین جائزباتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مُرتکِبِ کبیرہ ہوں ، ان کے کبیرہ کاوبال ان پر ہے مگراس کے سبب یہ اُمورِ جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہرنہیں ہوسکتا، ہاں اگروہ کسی ناجائز بات کاحکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائزنہیں، لَاطَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِاللہ تَعَالٰی ( اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی شخص کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔)( مسند امام احمد، مسند البصریین، بقیۃ حدیث الحکم بن عمرو الغفاری رضی اللّٰہ عنہ، ۷ / ۳۶۳، الحدیث: ۲۰۶۷۹)
ماں باپ اگرگناہ کرتے ہوں ان سے بہ نرمی وادب گزارش کرے، اگرمان لیں بہتر ورنہ سختی نہیں کرسکتا بلکہ ان کے لئے دعا کرے، اوران کا یہ جاہلانہ جواب دینا کہ یہ توضرور کروں گا یا توبہ سے انکارکرنا دوسراسخت کبیرہ ہے مگر مُطْلَقاً کفرنہیں جب تک کہ حرامِ قطعی کوحلال جاننا یاحکمِ شرع کی توہین کے طور پرنہ ہو، اس سے بھی جائز باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے گی ہاں اگر مَعَاذَ اللہ یہ انکاربروجہ ِکفر ہو تووہ مُرتَد ہوجائیں گے، اورمرتد کے لئے مسلمان پرکوئی حق نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ، ۲۵ / ۲۰۴–۲۰۵)
شرعی احکام کے مقابلے میں ماں باپ کی اطاعت کے حوالے سے شرعی حکم اوپر بیان ہوا اور ان کے علاوہ دیگر افراد جیسے سیٹھ،افسر،حاکم وغیرہ سے متعلق بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا کہے تو اس کی بات ہر گز نہیں مانی جائے گی ،یہاں اسی سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)… حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پسندیدہ اور ناپسندیدہ تمام اُمور میں ہرمسلمان آدمی پر(امیر کی) بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا اس وقت تک ضرور ی ہے جب تک وہ گناہ کا حکم نہ دے اور اگر وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنی جائے اور نہ اطاعت کی جائے۔( بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام ما لم تکن معصیۃ، ۴ / ۴۵۵، الحدیث: ۷۱۴۴)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گناہ کے کاموں میں کسی کا حکم نہیں ماناجاتا بلکہ اطاعت تو نیک کاموں میں ہے۔( بخاری، کتاب اخبار الآحاد، باب ما جاء فی اجازۃ خبر الواحد الصدوق۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۷۲۵۷)
(3)…حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ۔( معجم الکبیر، عمران بن حصین یکنی ابا نجید۔۔۔ الخ، ہشام بن حسان عن الحسن عن عمران، ۱۸ / ۱۷۰، الحدیث: ۳۸۱)
افسوس! فی زمانہ اس حوالے سے مسلمانوں کی صورت ِحال انتہائی نازک ہے اوردُنْیَوی مَنفعت کے حصول اور دنیا کے نقصان سے بچنے کی خاطر اپنے سیٹھ،افسر،حاکم اور دیگر لوگوں کی وہ باتیں بے دھڑک مانتے چلے جاتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور ا س کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کا حکم دیاگیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرنے میں مخلوق کی اطاعت کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ: اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں ۔} اس کا معنی یہ ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے ا س لئے علم اور تحقیق کی بنا پر تو کوئی بھی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا شریک ہونامحال ہے اور جہاں تک علم کے بغیر محض کسی کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کا شریک ماننے کا معاملہ ہے تو جس چیز کا علم نہ ہو اسے کسی کے کہنے سے مان لینا تقلید ہے اور توحید کے قطعی دلائل ہوتے ہوئے محض تقلید سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک مان لینا انتہائی مذموم اور قبیح ہے، لہٰذا اس میں کسی کی بھی بات نہیں مانی جائے گی حتّٰی کہ والدین کی بھی ا س معاملے میں ہر گز اطاعت نہیں کی جائے گی۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے تو ضرور ہم انہیں نیک بندوں میں داخل کریں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے۔} ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو ہم انہیں نیک بندوں کے زُمرہ میں داخل کریں گے اور ان کا حشر نیک بندوں کے ساتھ فرمائیں گے ۔یہاں صالحین سے مراد اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوراولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۴۵۲)
قیامت کے دن نیک بندوں کے ساتھ حشر:
اس سے معلوم ہواکہ جوشخص یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن ا س کا حشر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ ہو اوراس دن اسے نیک بندوں کی مَعِیَّت نصیب ہو تواسے چاہئے کہ پہلے توحید و رسالت پر ایمان لائے اور پھرنیک اعمال کرے ،اگر ا س نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے قیامت کے دن نیک بندوں کے گروہ میں داخل فرما دے گا اور ان کے ساتھ ہی ا س کا حشر فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ-وَ لَىٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْؕ-اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورلوگوں میں کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں : ہم الله پر ایمان لائے پھر جب الله (کی راہ) میں انہیں کوئی تکلیف دی جاتی ہے تو لوگوں کے فتنے کواللہ کے عذاب کے برابر سمجھتے ہیں اور اگر تمہارے رب کے پاس سے کوئی مدد آجائے تو ضرور کہیں گے ہم یقیناتمہارے ساتھ تھے۔کیااللہ اسے خوب نہیں جانتا جو تمام جہان والوں کے دلوں میں ہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ: اورلوگوں میں کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں مخلص ایمان والوں اور کھلے کافروں کا ذکر ہوا اور ان کے احوال بیان کئے گئے اور اب یہاں سے ان لوگوں کا حال بیان کیا جا رہاہے جو نہ مخلص ایمان والے ہیں اور نہ کھلے کافر بلکہ منافق ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایاکہ لوگوں میں کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں :ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، پھر جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے جیسے کفار کا ستانا تو وہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے برابر سمجھتے ہیں اور جیسا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے تھا ایسا مخلوق کی ایذا سے ڈرتے ہیں ، حتّٰی کہ اس کی وجہ سے ایمان ترک کر دیتے اور کفر اختیار کر لیتے ہیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے کوئی مدد آجائے مثلاً مسلمانوں کو فتح نصیب ہو یا انہیں دولت ملے تو وہ لوگ ضرور کہیں گے: ہم یقینا ایمان اور اسلام میں تمہارے ساتھ تھے اور تمہاری طرح دین پر ثابت و قائم تھے تو ہمیں بھی اس میں شریک کرو ۔کیا اللہ تعالیٰ اسے خوب نہیں جانتا جو کفر یا ایمان تمام جہان والوں کے دلوں میں ہے؟کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں موجود کفر اور ایمان اچھی طرح معلوم ہے اور وہ ان منافقوں کے نفاق کو بھی جانتا ہے ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۴۴۶، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۸۸۶، ملتقطاً)
وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ضرور الله ایمان والوں کوظاہر کردے گا اور ضرور منافقوں کوظاہر کردے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور ضرور اللہ ایمان والوں کوظاہر کردے گا۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان لوگوں کو ظاہر کر دے گاجو صدق اور اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور آزمائش و مصیبت میں اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت و قائم رہے اور ان لوگوں کو بھی ظاہر کر دے گا جو منافق ہیں اور انہوں نے مصیبت کی وجہ سے اسلام ترک کر دیااور دونوں فریقوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۴۴۶، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۳۳۵، ملتقطاً)
مَصائب و آلام میں ایمان پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب:
اس آیت میں ہر مسلمان کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ وہ دین کی وجہ سے آنے والی اَذِیَّتوں اور تکلیفوں پر صبر کرے اور مصائب و آلام کی وجہ سے سرمایۂ آخرت یعنی ایمان کو ہر گز ضائع نہ کر دے بلکہ اپنے ایمان اور اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی ا س قیمتی ترین دولت کی بھر پور حفاظت کرے۔ایسی حالت میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کائنات کے سردار، دو عالَم کے تاجدار ،حبیب ِپروردگار عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو راہِ خدا میں آنے والی تکلیفوں اور اِن پراُن عظیم ہستیوں کے صبر کرنے کو یاد کرے تاکہ دل کو تسلی ہو،تکلیفوں پر صبر کرنا آسان ہو اور ایما ن و اسلام پر ثابت قدمی نصیب ہو۔ترغیب کے لئے یہاں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے مخلص اور جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کوراہِ خدا میں آنے والی تکالیف کی جھلک اور ان کے صبر کا حال ملاحظہ ہو، چنانچہ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ کفارِ مکہ خاندانِ بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوقتل تونہیں کرسکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رَسانیوں سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے، چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کاہن، جادوگر، شاعر اور مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیاجو راستوں میں آپ پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے ،کا شور مچا مچا کر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفارِ مکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارک جسم پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔ جب حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے یعنی حضر ت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور قرآن کو نازل فرمانے والے یعنی اللہ تعالیٰ کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گالیاں دیتے اور گلی کوچوں میں پہرہ بٹھا دیتے تا کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے اور تالیاں پِیٹ پِیٹ کر اور سیٹیاں بجا بجا کر اس قدر شوروغُل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کہیں کسی عام مجمع میں یا کفار کے میلوں میں قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ِایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چچاابولہب آپ کے پیچھے چِلا چِلاکر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو!یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے،یہ دیوانہ ہو گیا ہے،تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو، (مَعَاذَ اللہ)۔ ایک مرتبہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’ذو المجاز‘‘ کے بازار میں دعوتِ اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو!اس کے فریب میں مت آنا،یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عُزّیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔
حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفارِ مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بِلبِلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفارِ مکہ ان مسلمانوں کو ایک د م قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں کے جوشِ انتقام کا نشہ نہیں اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں ، اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفارِ مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی سزاؤں اور ایذا رَسانیوں کے ساتھ ستاتے تھے اورکفارِ مکہ نے ان غریب مسلمانوں پر بے پناہ مَظالِم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فَرسا اور جاں سوز عذابوں میں مبتلا کیا کہ اگر ان مخلص مسلمانوں کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جب کہ وہاں کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے، اس وقت ان مسلمانوں کی پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کرکے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں ، لوہے کو آگ میں گرم کرکے ان سے ان مسلمانوں کے جسموں کو داغتے، پانی میں اس قدرڈبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ،چٹائیوں میں ان مسلمانوں کو لپیٹ کر ان کی ناکوں میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کَرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔الغرض سنگدل،بے رحم اور درندہ صفت کافروں نے ان غریب و بیکس مسلمانوں پر جبرو اِکراہ اور ظلم و ستم کی کوئی صورت باقی نہیں چھوڑی مگر ایک بھی مخلص مسلمان کے پائے اِستقامت میں ذرہ برابر تَزَلْزُل پیدا نہیں ہوا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْؕ-وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے مسلمانوں سے کہا:ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بوجھ بھی نہ اٹھائیں گے، بیشک وہ جھوٹے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا: اور کافروں نے مسلمانوں سے کہا۔} کفارِ مکہ نے قبیلہ قریش میں سے ایمان لانے والوں سے کہا تھا کہ تم ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا دین اختیار کرو، تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے گی اس کے ہم ذمہ دار ہیں اور تمہارے گناہ ہماری گردن پر یعنی اگر ہمارے طریقہ پر رہنے سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری گرفت فرمائی اور عذاب کیا تو تمہارا عذاب ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی انتہائی نفیس تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ وقت آنے پر وہ لوگ ان کے گناہوں میں سے کچھ بوجھ بھی نہ اٹھائیں گے، بیشک وہ اپنی بات میں جھوٹے ہیں ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۴۴۶)
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ٘-وَ لَیُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے اور ضرور ان سے قیامت کے دن ان کے بہتانوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اُٹھائیں گے۔} ارشاد فرمایاکہ مسلمانوں سے ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کا کہنے والے کفار کا اپنا یہ حال ہو گا کہ وہ قیامت کے دن اپنے گناہوں اور کفر وگمراہی کابوجھ اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں کوانہوں نے گمراہ کیاتھاان کے گناہوں کابوجھ بھی یہی لوگ اٹھائیں گے اورقیامت کے دن ضروران سے ان کے بہتانوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے یہ بہتان کیوں تراشے اور کس دلیل کی وجہ سے انہوں نے بہتان لگائے ۔یاد رہے کہ کافروں کے اعمال اور بہتان سب اللہ تعالیٰ جانتا ہے،اس کے باوجود کافروں سے جو سوال ہو گاوہ معلومات حاصل کرنے کے لئے نہ ہو گا بلکہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کیلئے ہو گا۔
دوسروں کو گمراہ اور گناہوں میں مبتلا کرنے کا انجام:
اس آیت سے معلو م ہوا کہ جو خود گمراہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف بلاتا ہو تواسے اپنی گمراہی کا گناہ اور اس کی سزا تو ملے گی البتہ اس کے ساتھ ان لوگوں کی گمراہی کا گناہ اور سزا بھی اسے ملے گی جنہیں اس نے گمراہ کیا تھا اور گمراہ ہونے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔حضرت جریر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اس کو اس کا ثواب ملے گا اوراس کابھی جواس کے بعد اس پر عمل کریں گے او ران عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی اور جو شخص اسلام میں براطریقہ جاری کرے اس پر اس کا گناہ ہوگا اوران کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں بھی کچھ کمی نہ آئے گی ۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ۔۔۔ الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))
اس سے ان لوگوں کو عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی بڑی ضرورت ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گناہوں میں مبتلا ہونے کے مَواقع فراہم کرتے اور انہیں طرح طرح کے دُنْیَوی مَنافع اور فوائد بتا کر گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر اس قوم کو طوفان نے پکڑ لیا اور وہ ظالم تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ: اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے چند انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے ہیں اور ان سے مقصودحضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان تکلیفوں اور اَذِیَّتوں پر تسلی دینا ہے جو کفارِ مکہ کی طرف سے آپ کو پہنچا کرتی تھیں ،اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا گیا،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر صبر کیا،جب وہ قوم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی اور مسلسل تکذیب کرتی رہی تو اس قوم کو طوفان کے عذاب نے پکڑ لیا اور وہ غرق کر دئیے گئے اور وہ شرک کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے ۔لہٰذاا ے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کچھ غم نہ کریں اور ا س بات کو سامنے رکھیں کہ حضرت نوح نے 950برس تک تبلیغ فرمائی، لیکن اس طویل مدت میں ان کی قوم کے بہت کم لوگ ایمان لائے جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کم مدت کی دعوت سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ایمان سے مشرف ہو چکی ہے۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۱۴۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ہم نے نوح اور کشتی والوں کوبچالیا اور اس کشتی کو سارے جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ: تو ہم نے نوح اور کشتی والوں کوبچالیا۔} ارشاد فرمایاکہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کا عذاب آیا تو ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان لوگوں کو ڈوبنے سے بچا لیا جو کشتی میں آپ کے ساتھ سوار تھے اور اس کشتی کو ہم نے سارے جہاں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی نشانی بنادیا تاکہ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اِستدلال کرسکیں ۔کہا گیا ہے کہ یہ کشتی طویل عرصے تک جودی پہاڑ پر باقی رہی۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۴۵۶، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: الله کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِبْرٰهِیْمَ: اور ابراہیم کو۔} یہاں سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینے کے لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں جنہیں ہم نے آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا تھا،جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے معاملے میں اس سے ڈرو، اگر تم اچھے اور برے میں تمیز کرنا جانتے ہو تو سن لو!یہ عبادت اور ڈرنا تمہارے لئے اس کفر سے بہتر ہے جسے تم اختیار کئے ہوئے ہو اور اپنے گمان میں اسے صحیح سمجھ رہے ہو۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۴۵۷)
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًاؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(17)وَ اِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم تو الله کے سوا بتوں کو پوجتے ہو اور نرا جھوٹ گھڑتے ہو۔بیشک جن کی تم الله کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے لئے روزی کے کچھ مالک نہیں تو تم الله کے پاس رزق ڈھونڈواور اس کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار بنو ، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ اور اگر تم جھٹلاؤگے تو تم سے پہلے کتنے ہی گروہ جھٹلا چکے ہیں اور رسول کے ذمہ توصرف صاف پہنچا دینا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا: تم تو اللہ کے سوا بتوں کو پوجتے ہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’تم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو پوجتے ہو اور بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک کہہ کر نِرا جھوٹ گھڑتے ہو۔بے شک تم اللہ تعالیٰ کی بجائے جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے تو تم اللہ تعالیٰ سے اپنا رزق طلب کرو کیونکہ وہی رزق دینے والا اور ہر ایک تک اس کی روزی پہنچانے کی قدرت رکھنے والا ہے اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں اور اس کے شکرگزار بنو کیونکہ وہی تمہیں رزق عطا فرما کر تم پر احسان فرماتا ہے، اور یاد رکھو کہ آخرت میں اسی کی طرف تم دوبارہ زندہ کر کے لوٹائے جاؤ گے ،ا س لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کر کے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیار ی کرو اور اگر تم مجھے جھٹلاؤگے اور میری بات نہ مانو گے تو اس سے میرا کوئی نقصان نہیں ، میں نے راہ دکھا دی اورمعجزات پیش کر دیئے جس سے میرا فرض ادا ہو گیا ، اس پر بھی اگر تم نہ مانو تو تم سے پہلے کتنے ہی گروہ اپنے اَنبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا چکے ہیں جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور عاد و ثمود وغیرہ، ان کے جھٹلانے کا انجام یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا اور اگر تم بھی اُسی رَوِش پر قائم رہے تو تمہارا انجام بھی اُنہی جیساہو گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷–۱۸، ۳ / ۴۴۷–۴۴۸، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷–۱۸، ص۸۸۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۷–۱۸، ۶ / ۴۵۷، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ الله پیدا کرنے کی ابتداء کیسے کرتا ہے؟پھروہ اسے دوبارہ بنائے گابیشک یہ الله پر بہت آسان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا۔} ممکن ہے کہ اس آیت سے لے کر آیت نمبر23تک کا کلام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کے دوران ان آیات میں کفارِ مکہ کو نصیحت کی گئی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہو۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے کی ابتداء کیسے کرتا ہے کہ پہلے انسان کو نطفہ بناتا ہے،پھر جمے ہوئے خون کی صورت دیتا ہے،پھر گوشت کا ٹکڑا بناتا ہے اس طرح درجہ بدرجہ اس کی تخلیق کو مکمل کرتا ہے، پھر آخرت میں دوبارہ زندہ کئے جانے کے وقت اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ بنائے گابیشک پہلی بار پیدا کرنا اور مرنے کے بعد پھر دوبارہ بنانا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۴۸)
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :زمین میں چل کر دیکھوکہ الله نے پہلے کیسے بنایا؟ پھر الله دوسری مرتبہ پیدا فرمائے گا۔ بیشک الله ہر شے پر قادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تم فرماؤ :زمین میں چل کر دیکھو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یا اے حضرت ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کافروں سے فرما دیں :تم زمین میں چل کر سابقہ قوموں کے شہروں اور آثار کو دیکھوکہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو پہلے کیسے بناتا،پھر موت دیتا ہے تاکہ تم مشاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی فطرت کے عجائبات کی معرفت حاصل کر سکو نیزجب یہ معلوم ہے کہ پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا تو معلوم ہو گیا کہ اس خالق کا مخلوق کو موت دینے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی دشوار نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے تو وہ پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۸۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کیلئے ا س کی قدرت کے نظاروں جیسے دریاؤں ، پہاڑوں اور زمین کے دیگر عجائبات کی سیر کرنا بھی عبادت ہے۔
یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ اِلَیْهِ تُقْلَبُوْنَ(21)وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ٘-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔ اور نہ تم زمین میں (ہمیں ) عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں اور تمہارے لیے الله کے سوا نہ کوئی کام بنانے والاہے اور نہ مددگار۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ: وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی وجہ سے جسے چاہے عذاب دیتا ہے اوراپنے فضل کی بناء پرجسے چاہتاہے بخش دیتا ہے اور اے لوگو!تم قیامت کے دن اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کے حساب سے سزا یا جزا جو چاہے دے گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۴۴۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۴۵۹، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ: اور نہ تم زمین میں (ہمیں ) عاجز کرنے والے ہو۔} اس کاایک معنی یہ ہے کہ اے کافرو! نہ تم زمین میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں ،الغرض اس سے بچنے اور بھاگنے کی کہیں کوئی جگہ نہیں ۔دوسرا معنی یہ ہے کہ نہ زمین والے اللہ تعالیٰ کے حکم اورقضا سے کہیں بھاگ سکتے ہیں اور نہ آسمان والے ایسا کر سکتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۴۴۸، ملتقطاً)
{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ: اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کام بنانے والاہے اور نہ مددگار۔} اس آیت اور اس جیسی دیگر آیتوں میں خطاب کفار سے ہوتا ہے کہ اے کافرو!تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی کام بنانے والا ہے اور نہ کوئی مددگار جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے یاایسی آیات میں یہ مراد ہوتا ہے کہ اے لوگو! تمہارا کوئی ایسا حمایتی یا مدد گار نہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمہاری حمایت اور مدد کر سکے۔ ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے مددگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اجازت اور عطا سے ان کی مدد اور شفاعت فرماتے ہیں ۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىٕهٖۤ اُولٰٓىٕكَ یَىٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جنہوں نے الله کی آیتوں کا اور اس سے ملنے کا انکار کیا وہ وہی لوگ ہیں جو میری رحمت سے مایوس ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىٕهٖ: اور وہ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کا اور اس سے ملنے کا انکار کیا۔} یعنی جو لوگ قرآنِ مجید اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان نہ لائے وہ وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہیں اور وہ اپنے کسی نیک عمل کی جزاء و ثواب کے قائل نہیں کیونکہ جب وہ قیامت اور جنت کے ہی منکر ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جزاء کے قائل کیسے ہوسکتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا دردناک عذاب ہے ۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ابراہیم کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہ انہوں نے کہا: انہیں قتل کردو یا جلادوتو الله نے انہیں آگ سے بچالیا۔بیشک اس میں ایمان والوں کیلئے ضرور نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا: تو ابراہیم کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہ انہوں نے کہا۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلائل قائم کئے اور نصیحتیں فرمائیں تو ا س کے جواب میں ان لوگوں نے کہا:انہیں قتل کردو یا جلادو۔یہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا یا سرداروں نے اپنی پیروی کرنے والوں سے کہا، بہرحال کچھ کہنے والے تھے اورکچھ اس پر راضی ہونے والے اس لئے وہ سب کہنے والوں کے حکم میں ہیں ۔ان سب نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلانے پر اتفاق کر لیا اور جب انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آ گ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اس آ گ کو ٹھنڈا کر کے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے سلامتی والی بنا کر انہیں بچا لیا۔بیشک جو اللہ تعالیٰ نے کیا اس میں ایمان والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی ضرور عجیب عجیب نشانیاں ہیں ، جیسے آ گ کا اس کثرت کے باوجود اثر نہ کرنا اور سرد ہو جانا اوراس جگہ گلشن پیدا ہو جانا اور یہ سب پَل بھر سے بھی کم وقفے میں ہونا وغیرہ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۸۸۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۳۳۷، ملتقطاً)
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًاۙ-مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا٘-وَّ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ابراہیم نے فرمایا: تم نے تو دنیاوی زندگی میں اپنی آپس کی دوستی کی وجہ سے الله کے سوا یہ بت (معبود) بنالئے ہیں پھر قیامت کے دن تم میں ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گااور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ: اور ابراہیم نے فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آئے تو آپ نے کفار سے فرمایا کہ ’’تم نے (کسی دلیل کے بغیر صرف) بتوں سے دوستی کی وجہ سے انہیں اپنا معبود تو بنا لیا لیکن یاد رکھو تمہاری یہ محض نام کی ظاہری دوستی بھی صرف دنیا کی زندگی تک رہے گی، پھر قیامت کے دن تمہارا حال یہ ہو گا کہ تم اپنے معبودوں کا انکار کر دو گے اور تمہارے معبود تمہاری عبادت کا انکار کر دیں گے، تم ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کروگے، بت کہیں گے کہ تم لوگوں نے میری عبادت کر کے مجھے جہنم میں ڈلوادیا اور تم کہو گے کہ ہمیں اپنی عبادت کے ذریعے گمراہ کر کے تم نے ہمیں عذاب میں مبتلا کر دیا،تم لعن طعن کے ذریعے ایک دوسرے کو دور کرنے کی کوشش کرو گے لیکن دور نہ ہو گے بلکہ جس طرح دنیا میں اکھٹے تھے اسی طرح جہنم میں بھی اکھٹے کر دئیے جاؤ گے اور جہنم کی آگ تمہاری آگ کی طرح نہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات دی اور میری مدد فرمائی بلکہ تم جہنم کی آگ میں ہی رہو گے اور اس میں تمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سلامتی کے ساتھ آگ سے باہر تشریف لے آئے تو آپ نے کفار سے فرمایا: ’’میں نے تمہارے سامنے تمہارے مذہب کا باطل ہونا بیان کیا اور تم سے اس کا کوئی جواب بھی نہ بن پڑا ،پھر بھی تمہارا بتوں کی پوجا پر قائم رہنا صرف اندھی تقلید ہے کیونکہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دوستی اور محبت رکھتے ہو اس لئے تم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ وہ سیرت اور طریقے میں اپنے دوست سے جدا ہو یا تمہاری اور تمہارے آباء و اَجدا کے مابین دوستی ہے ، تم ان کے وارث ہوئے ،تم نے ان کے عقیدے کو اختیار کر لیا اور ان کی جہالت و گمراہی کو مضبوطی سے تھام لیا ،لیکن یادرکھوکہ تمہاری یہ دوستی اس فانی دنیاتک ہی محدود رہے گی پھر قیامت کے دن تمہارا حال یہ ہوگا کہ سردار اپنے پیرو کاروں سے کہیں گے کہ ہم تمہیں نہیں پہچانتے اور پیروکار اپنے سرداروں پر لعنت کرنے لگیں گے اور تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہو گا اورتمہارا کوئی مددگار نہ ہو گا کہ وہ تمہیں جہنم سے نکال دے جس طرح مجھے تمہاری بھڑکائی ہوئی آگ سے نکالا گیا۔( تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۴۶، جلالین مع جمل، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۶۸، ملتقطاً)
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌۘ-وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ابراہیم کی تصدیق لوط نے کی اور ابراہیم نے فرمایا: میں اپنے رب کی (سر زمین شام کی) طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، بیشک وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ: تو ابراہیم کی تصدیق لوط نے کی۔} جب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے توآپ کایہ معجزہ دیکھ کرحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی، آپ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہاں ایمان سے رسالت کی تصدیق ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحید کا اعتقاد تو اُن کو ہمیشہ سے حاصل ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں اور کسی حال میں ان سے کفرکا تصور تک نہیں کیا سکتا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۴۴۹)
{وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ: اور ابراہیم نے فرمایا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آگ سے صحیح سلامت تشریف لانے اور اتناعظیم الشّان معجزہ دیکھنے کے باوجو د آپ کی قوم ایمان نہ لائی اورکفروشرک پربضدرہی توآپ نے اس جگہ سے ہجرت کرنے کاارادہ فرمایا۔ چنانچہ آپ نے عراق سے سرزمین ِشام کی طرف ہجرت فرمائی ،اس ہجرت میں آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۴۴۹)
آیت ’’وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… بوقت ِ حاجت ہجرت کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔
(2)… ایسی جگہ چلا جانا جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو، دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک ہے تو ا س کے حق میں یہاں وہاں سب برابر ہے۔
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اسے اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطا فرمائے اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی اور ہم نے دنیا میں اس کا ثواب اسے عطا فرمایااور بیشک وہ آخرت میں (بھی) ہمارے خاص قرب کے لائق بندوں میں ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ: اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ نے مزید وہ انعامات بیان فرمائے جو اس نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوکہ آپ کے بیٹے ہیں اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جو کہ آپ کے پوتے ہیں عطا فرمائے اور ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جتنے حضرات نبوت کے منصب پر فائز ہوئے سب آپ کی نسل سے ہوئے اور کتاب سے توریت ، انجیل ، زبور اور قرآن شریف مراد ہیں ،مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے دنیا میں اس کا ثواب اسے عطا فرمایا کہ انہیں پاکیزہ اولاد عطا فرمائی ، نبوت ان کی نسل میں رکھی ، کتابیں اُن ا نبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا کیں جو اِن کی اولاد میں ہیں اور ان کو مخلوق میں محبوب اور مقبول کیا کہ تمام مِلّتوں اور دینوں والے ان سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت کو فخر جانتے ہیں اور ان کے لئے دنیا کے اختتام تک درود پڑھا جانا مقرر کر دیا ، یہ تو وہ ہے جو دنیا میں عطا فرمایااور بیشک وہ آخرت میں بھی ہمارے خاص قرب کے لائق بندوں میں ہوں گے جن کے درجے بہت بلند ہوں گے ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۹۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۴۹، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۳۳۷، ملتقطاً)
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(28)اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(29)قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوط کو (یاد کرو) جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: تم بیشک بے حیائی کا وہ کام کرتے ہوجو تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا۔ کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کو آتے ہو تو اس کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہا: اگر تم سچے ہوتوہم پر الله کا عذاب لے آؤ۔ ۔ (لوط نے) عرض کی، اے میرے رب!ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لُوْطًا: اور لوط کو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یاد کریں ، جب انہوں نے اپنی قوم کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا: بیشک تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہوجو تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا ۔کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اورراہ گیروں کو قتل کر کے اور ان کے مال لوٹ کر لوگوں کاراستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام اور بری باتیں کرنے کو آتے ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے حتّٰی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا مَوقوف کر دیا تھا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ بد فعلی کے علاوہ ایسے ذلیل افعال اور حرکات کے عادی تھے جو عقلی اور عُرفی دونوں طرح سے قبیح اور ممنوع تھے ، جیسے گالی دینا ، فحش بکنا ، تالی اور سیٹی بجانا ، ایک دوسرے کوکنکریاں مارنا ، راستہ چلنے والوں پر کنکری وغیرہ پھینکنا ، شرا ب پینا ، مذاق اڑانا، گندی باتیں کرنا اورایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس پر انہیں ملامت کی تو ان کی قوم نے مذاق اڑانے کے طور پر یہ کہا : اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ افعال قبیح ہیں اور ایسا کرنے والے پر عذاب نازل ہو گاتوہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔(مدارک،العنکبوت،تحت الآیۃ: ۲۸–۲۹، ص۸۹۱، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۸–۲۹، ۳ / ۴۴۹–۴۵۰، ملتقطاً)
{ قَالَ: عرض کی۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیـ:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، عذاب نازل ہونے کے بارے میں میری بات پوری کر کے ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۴۵۰، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۳۳۷، ملتقطاً)
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰىۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِۚ-اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(31)قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًاؕ-قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا ﱞ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﱪ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تو انہوں نے کہا: ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔ بیشک اس شہر والے ظالم ہیں ۔ فرمایا:اس میں تو لوط (بھی) ہے۔فرشتوں نے کہا: ہمیں خوب معلوم ہے جو کوئی اس میں ہے، ضرور ہم اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دیں گے سوائے اس کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا: اور جب ہمارے فرشتے آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری لے کر آئے تو انہوں نے کہا: ہم ضرورحضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس شہر والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔ بیشک اس شہر والے کفر اور طرح طرح کے گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:اس میں تو حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی موجود ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے مُقَرَّب بندے ہیں ، پھر تم اس شہر والوں کو کیسے ہلاک کرو گے ۔فرشتوں نے کہا: جو کوئی اس شہر میں ہے وہ ہمیں خوب معلوم ہے اور ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حال سے غافل نہیں ،ہم ضرور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں کو نجات دیں گے البتہ ان کی بیوی کو نجات نہیں دیں گے کیونکہ وہ عذاب میں مبتلا ہو جانے والوں میں سے ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱–۳۲، ص۸۹۱، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۱–۳۲، ۶ / ۴۶۶، ملتقطاً)
یہاں فرشتوں نے نجات دینے کی نسبت اپنی طرف کی ،اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے خاص بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں کیونکہ نجات دینا در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کام ہے مگر فرشتوں نے کہا ہم نجات دیں گے،لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دوزخ سے نجات دیتے ہیں ۔ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنت دیتے ہیں اورحضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشکل کشائی کرتے ہیں ۔
وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ- اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(33)اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے توانہیں فرشتوں کا آنا برا لگا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اورفرشتوں نے کہا: آپ نہ ڈریں اور نہ غمگین ہوں، بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ہیں سوائے آپ کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ بیشک ہم اِس شہر والوں پر آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں کیونکہ یہ نافرمانی کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا: اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملاقات کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فرشتے خوب صورت مہمانوں کی شکل میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے توانہیں قوم کے افعال و حرکات اور ان کی نالائقی کا خیال کر کے فرشتوں کا آنا برا لگا اور ان کی حفاظت کی کوئی تدبیر نہ کر سکنے کے سبب غمزدہ ہوئے، اس وقت فرشتوں نے ظاہر کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں اورانہوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تسلی دیتے ہوئے کہا: آپ قوم سے نہ ڈریں اور نہ ہمارے بارے میں یہ سوچ کر غمگین ہوں کہ قوم کے لوگ ہمارے ساتھ کوئی بے ادبی یا گستاخی کریں گے ، ہم فرشتے ہیں اور ہم ان لوگوں کو ہلاک کردیں گے اور بیشک ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو نازل ہونے والے عذاب سے بچانے والے ہیں البتہ آپ کی بیوی کو نہیں بچائیں گے کیونکہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہے اور اسے بھی بقیہ لوگوں کے ساتھ عذاب دیاجائے گا۔بیشک ہم اِس شہر والوں پر آسمان سے عذاب اتارنے والے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے تھے اور اسی پر قائم تھے ۔چنانچہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے اہلِ خانہ میں سے ان پر ایمان لانے والوں اور دیگر مومنوں کو بچا لیا گیا اور باقی لوگوں کو انتہائی دردناک عذاب سے ہلاک کر دیا گیا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۳ / ۴۵۰، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۶ / ۴۶۶-۴۶۷، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۳۳۷-۳۳۸، ملتقطاً)
آیت ’’وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… مہمان کی حفاظت اور توقیر میزبان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
(2)… کبھی نبی عَلَیْہِ السَّلَام فرشتے کو نہیں بھی پہچانتے ،البتہ یاد رہے کہ جب وحی نازل ہونے کے وقت فرشتہ حاضر ہوتا ہے تو اس وقت نبی عَلَیْہِ السَّلَام فرشتے کو ضرور پہچانتے ہیں ،اگر اس وقت بھی نہ پہچانیں تو وحی قطعی نہ رہے گی۔
(3)… اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب بندے اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کو آنے والی مصیبتوں سے بچانے کی قدرت رکھتے ہیں اور بچاتے بھی ہیں۔
وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے عقل والوں کے لیے اس بستی میں روشن نشانی کو باقی رکھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةًۢ بَیِّنَةً: اور بیشک ہم نے اس بستی میں روشن نشانی کو باقی رکھا۔} بیشک ہم نے اس بستی میں ان لوگوں کے لیے روشن نشانی کو باقی رکھا جو اپنی عقل غورو فکر کرنے میں استعمال کرتے ہیں ۔اس نشانی کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :وہ روشن نشانی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے ویران مکان ہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اس قوم کا عجیب و غریب واقعہ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ روشن نشانی سے مراد وہ پتھر ہیں جو ان پر برسے تھے اور ان پتھروں پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے،یہ عرصۂ دراز تک باقی رہے اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے انہیں دیکھا تھا۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۶۷، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۵۰، ملتقطاً)
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ- وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (ہم نے) عاد اور ثمود کو (ہلاک کیا) اور ان کی رہائش کے مقامات تمہارے لئے ظاہرہوچکے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کیلئے خوبصورت بنادئیے اور انہیں ( الله کے) راستے سے روکا حالانکہ وہ سمجھدارتھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ: او رعاد اور ثمود کو۔} ارشاد فرمایاکہ ہم نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کو ہلاک کیا اور اے مکہ والو!ان قوموں کا ہمارے عذاب سے ہلاک ہونا تمہارے لئے اس وقت ظاہر ہوچکا جب تم اپنے سفر وں کے دوران حِجر اور یمن میں موجود ان کی رہائش کے مقامات سے گزرے ہو اور شیطان نے ان قوموں کے کفر اور گناہ ان کیلئے خوبصورت بنادئیے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا حالانکہ وہ لوگ سمجھدار تھے ، عقل رکھتے تھے اور حق و باطل میں تمیز کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور باطل پر ہی قائم رہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۴۶۸، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۸۹۲، ملتقطاً)
وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ ﱎ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (ہم نے) قارون اور فرعون اور ہامان کو (ہلاک کیا) اور بیشک ان کے پاس موسیٰ روشن نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم سے نکل کر جانے والے نہ تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ: اورقارون اور فرعون اور ہامان کو۔} یعنی قارون ، فرعون اور ہامان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایااور بیشک ان کے پاس حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے زمین میں تکبر کیا اور حق قبول کرنے سے انکار کیا اور وہ ہم سے نکل کر جانے والے نہ تھے کہ ہمارے عذاب سے بچ سکتے بلکہ ہمارے عذاب کا حکم ان تک پہنچ کر رہا اور وہ ہلاک کر دئیے گئے۔(خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۴۵۱، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۶۹، ملتقطاً)
آیت ’’وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے،
(1)…یہاں اللہ تعالیٰ نے قارون کو جو صرف زکوٰۃ کا انکار کرتا تھا فرعون اورہامان کے ساتھ ذکر فرمایا جو سارے دینی اُمور یعنی توحید و نبوت وغیرہ کا انکار کرتے تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ ضروریاتِ دین میں سے ایک چیز کا انکار کرنے والا ، ویسا ہی کافر ہے جیسے ساری باتوں کا منکر کافر ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے زکوٰۃ کے منکروں پر جہادکا حکم دے دیا اور مُسَیْلمَہ کذّاب کی قوم پر جہاد فرمایا کیونکہ وہ مسیلمہ کو نبی مان کر مُرتَد ہو گئے تھے ۔
(2)…یہاں قارون کا ذکر پہلے اس لئے فرمایا گیا کہ وہ خاندانی شریف تھا۔ اس سے معلو م ہوا کہ اگر ایمان نہ ہو تو نسبی اور خاندانی عزت و شرافت عذاب سے نہیں بچا سکتی ۔ اس سے کفارِ قریش کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تم ابراہیمی ہونے پر فخر نہ کروبلکہ ایمان لاؤ ورنہ عذاب کے لئے تیار رہو۔
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًاۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاۚ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰـكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ان میں ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی وجہ سے (ہی) پکڑا تو ان میں کسی پر ہم نے پتھراؤ بھیجا اور ان میں کسی کو خوفناک آواز نے پکڑلیا اور ان میں کسی کو زمین میں دھنسادیا اور ان میں کسی کو ڈبو دیا اور الله کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرے ہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ: تو ان میں ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑا۔} اس آیت کی ابتدا میں بیان فرمایا گیا کہ سابقہ قوموں میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کی وجہ سے ہی پکڑا ۔اس کے بعد سابقہ قوموں پر آنے والے مختلف عذابات میں سے چار عذاب بیان کئے گئے ،
(1)… کسی پر اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ بھیجا ۔یہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی جنہیں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ہلاک کیا گیا اور یہ پتھر تیز ہوا سے ان پر لگتے تھے ۔
(2)… کسی کو خوفناک آواز نے پکڑلیا ۔یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود تھی جو ہَولْناک آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی ۔
(3)… کسی کو زمین میں دھنسادیا۔اس عذاب میں مبتلا ہونے والے قارون اور ا س کے ساتھی تھے۔
(4)… کسی کو ڈبو دیا ۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اور فرعون اور ا س کی قوم کے لوگ ا س عذاب کا شکار ہوئے ۔
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ ان لوگوں پر ظلم کرے کیونکہ وہ کسی کو گناہ کے بغیر عذاب میں گرفتار نہیں کرتا، ہاں وہ خود ہی نافرمانیاں کر کے اور کفر و سرکشی کو اختیار کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے اور اسی بنا پر وہ طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کر دئیے گئے ۔(خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۴۵۱، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۸۹۲–۸۹۳، ملتقطاً)
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِۖۚ-اِتَّخَذَتْ بَیْتًاؕ-وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
جنہوں نے الله کے سوا اورمددگاربنارکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی طرح ہے،جس نے گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھرہوتا ہے۔کیا اچھا ہوتا اگر وہ جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ: جنہوں نے اللہ کے سوا اورمددگاربنارکھے ہیں ان کی مثال۔} یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے کی بجائے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اور ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں اور در حقیقت ان بتوں کے عاجز اور بے اختیار ہونے کی مثال مکڑی کی طرح ہے جس نے اپنے رہنے کے لئے جالے سے گھر بنایا جو کہ انتہائی کمزور ہے اور یہ گھر نہ اس سے گرمی دور کر سکتا ہے نہ سردی ، نہ گرد و غبار اور بارش وغیرہ کسی چیز سے اس کی حفاظت کر سکتا ہے، ایسے ہی یہ بت ہیں کہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی دنیا و آخرت میں انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھرہوتا ہے اور ایسے ہی سب دینوں میں کمزور اور نِکَمّا دین بت پرستوں کا دین ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ بت پرست یہ بات جانتے کہ ان کا دین اس قدر نکما ہے ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۵۱، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۸۹۳، ملتقطاً)
مکڑی کے جالے رزق میں تنگی کا سبب ہوتے ہیں :
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو کیونکہ انہیں (گھروں میں لگا ہوا) چھوڑ دینا ناداری کا باعث ہوتا ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۸۹۳)
اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک الله جانتا ہے اس چیز کو جس کی وہ الله کے سوا پوجا کرتے ہیں اور وہی عزت والا حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ: بیشک اللہ جانتا ہے۔} یعنی بت پرست اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جس چیز کی پوجا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور اللہ تعالیٰ ہی عزت والا حکمت والا ہے، تو کسی عقل مند انسان کے شایانِ شان یہ بات کب ہے کہ وہ عزت و حکمت والے ،قادر اورمختار رب تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر بے علم اور بے اختیار پتھروں کی پوجا کرے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۹۳، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۴۵۱، ملتقطاً)
وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں علماء ہی سمجھتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ: اور یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں ۔} کفارِ قریش نے طنز کے طور پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے مذاق اڑایا تھا ۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں جو مثال بیان کئے جانے کی حکمت کو نہیں جانتے ،کیونکہ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال بیان کرنا حکمت کے تقاضے کے عین مطابق ہے اور یہاں چونکہ بت پرستوں کے باطل اور کمزور دین کی کمزوری اوربُطلان بیان کرنا مقصود ہے لہٰذا اس کے اِظہار کے لئے یہ مثال انتہائی نفع مندہے اور ان مثالوں کی خوبی، نفاست،عمدگی ، ان کے نفع اور فوائد اور ان کی حکمت کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطافرمایا ہے جیسا کہ یہاں بیان کی گئی مکڑی کی مثال نے مشرک اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اقرار کرنے والے کا حال خوب اچھی طرح ظاہر کر دیا اور فرق واضح فرما دیا ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۹۳، ملخصاً)
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله نے آسمان اور زمین حق بنائے، بیشک اس میں ایمان والوں کیلئے نشانی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ: اللہ نے آسمان اور زمین حق بنائے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو باطل نہیں بنایا بلکہ حکمت کے تحت بنایا ہے اور بے شک ان دونوں کی تخلیق میں مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اس کی وحدانیّت اور یکتائی پر دلالت کرنے والی نشانی ضرور موجود ہے۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۹۴، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۴۵۲، ملتقطاً)
یاد رہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش پر غور کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف مومن ہی حاصل کرتے ہیں اس لئے یہاں انہیں کا ذکر ہواکہ اس میں مومنوں کیلئے نشانی ہے ورنہ عمومی طور پر یہ سب کے لئے عبرت ہیں ۔
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَؕ-اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کتاب کی تلاوت کروجو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کرو، بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے اور بیشک الله کا ذکر سب سے بڑاہے اور الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ: اس کتاب کی تلاوت کروجس کی تمہاری طرف وحی کی گئی ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی طرف جو قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، اس کی تلاوت کرتے رہیں کیونکہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے ،اس میں لوگوں کے لئے وعظ و نصیحت بھی ہے اور اس میں احکام ، آداب اور اَخلاقی اچھائیوں کی تعلیم بھی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ مکہ والو ں کے کفر پر اَفسُردہ ہیں توآپ اس کتاب کی تلاوت کریں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے تاکہ آپ جان جائیں کہ آپ کی طرح حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نبوت اور رسالت کی ذمہ داری پر فائز تھے ،انہوں نے رسالت کی تبلیغ کی اور (اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت پر) دلائل قائم کرنے میں انتہائی کوشش کی لیکن ان کی قومیں گمراہی اور جہالت سے نہ بچ سکیں ،یوں آپ کے دل کو تسلی حاصل ہو گی۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۳، تفسیرکبیر، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۹ / ۶۰، ملتقطاً)
قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت اور ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ نماز کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے ۔یاد رہے کہ (نماز کےعلاوہ) قرآنِ مجید دیکھ کر پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ یہ پڑھنا بھی ہے ،دیکھنا بھی اور ہاتھ سے اس کا چھونا بھی اور یہ سب چیزیں عبادت ہیں ۔(بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، مسائل قراء ت بیرون نماز، ۱ / ۵۵۰، ملخصاً)
اور اس کی ترغیب کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم اپنی آنکھوں کو اس کی عبادت میں سے حصہ دو۔عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آنکھ کا عبادت میں سے حصہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھنا،اس (کی آیات اور معانی میں ) میں غوروفکر کرنا اور اس میں بیان کئے گئے عجائبات کی تلاوت کرتے وقت عبرت و نصیحت حاصل کرنا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی القراء ۃ من المصحف، ۲ / ۴۰۸، الحدیث: ۲۲۲۲) اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ کر بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور اس کی آیات و معانی میں غورو فکر کرنے اور اس میں ذکر کئے گئے واقعات اور دیگر چیزوں سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم کرو۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نماز قائم کرتے رہیں ، بیشک نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں ۔یاد رہے کہ یہاں نماز قائم کرتے رہنے کا حکم واضح طور پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیا گیا ہے اور ضمنی طور پر یہی حکم آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لئے بھی ہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۴)
نماز بے حیائیوں اور شرعی ممنوعات سے روکتی ہے:
آیت میں بیان ہو اکہ نماز بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکتی ہے، لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اسے اچھی طرح ادا کرتا ہے تو ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ یہاں اسی سے متعلق دو رِوایات ملاحظہ ہوں:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب کرتا تھا، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اس کی نماز کسی دن اسے اِن باتوں سے روک دے گی۔ چنانچہ کچھ ہی عرصےمیں اس نے توبہ کر لی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔(ابو سعود، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۲۶۱)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۴۵۷، الحدیث: ۹۷۸۵)
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آتے اور بری عادتوں سے نہیں رکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس طرح نماز نہیں پڑھتے جیسے نماز پڑھنے کا حق ہے مثلاً نماز کے ارکان و شرائط کو ان کے حقوق کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے ،نماز میں خشوع و خضوع کی کَیفِیَّت ان پر طاری نہیں ہوتی اور نماز کی ادائیگی غفلت سے کرتے ہیں ،یہ ان کی نما زہوتی ہے جو ظاہری نماز تو ہے لیکن حقیقی اور کامل نماز نہیں ۔ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں ۔( درمنثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۶۶)
اورحضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو اس کی نماز بے حیائی اور برائی سے نہ روکے تو اسے اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا (کیونکہ ا س کی نماز ایسی نہیں جس پر ثواب ملے بلکہ وہ نماز اس کے حق میں وبال ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذاب کا حق دار ہے۔)( معجم الکبیر، طاؤس عن ابن عباس، ۱۱ / ۴۶، الحدیث: ۱۱۰۲۵)
لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ بے حیائیوں اور برائیوں سے باز آ جائے تو اس طرح نماز ادا کیا کرے جیسے نماز ادا کرنے کا حق ہے۔ترغیب کے لئے یہاں نماز سے متعلق حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دیگر بزرگانِ دین کے احوال پر مشتمل 4 واقعات ملاحظہ ہوں :
( 1)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو (آپ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں اس قدر مشغول ہو جاتے کہ) گویا آپ ہمیں پہچانتے ہی نہ تھے اور نہ ہم آپ کو پہچان پاتے تھے۔( فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۳ / ۱۱۴، تحت الحدیث: ۲۸۲۱)
(2)…جب نماز کا وقت ہو جاتا تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی اور چہرے کارنگ بدل جاتا۔ایک دن کسی نے پوچھا:اے امیر المؤمنین!آپ کو کیا ہوا؟فرمایا’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کر لی اور اسے اُٹھانے سے ڈر گئے ۔
(3)…حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتا،جب گھر والے پوچھتے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے تو آپ فرماتے ’’کیاتمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں ۔
(4)…حضرت حاتم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا’’جب نما زکا وقت ہو جاتاہے تو میں مکمل وضو کرتا ہوں ، پھر ا س جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے ، یہاں تک کہ میرے اَعضا پُرسکون ہو جاتے ہیں ،پھر میں نماز کے لئے کھڑ اہوتا ہوں ،کعبہ شریف کو آنکھوں کے سامنے ،پل صراط کو قدموں کے نیچے ،جنت کو دائیں اور جہنم کو بائیں طرف اور موت کے فرشتے کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور ا س نماز کو اپنی آخری نماز سمجھتا ہوں ،پھر امید اور خوف کے درمیان جذبات کے ساتھ کھڑ اہوتا ہوں ، حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہوں ،قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں ،رکوع عاجزی کے ساتھ اور سجدہ ڈرتے ہوئے کرتا ہوں ، بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں ،دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑ اکرتا ہوں ، اس کے بعد اخلاص سے کام لیتا ہوں ، پھر مجھے معلوم نہیں کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریقے سے نما زادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نماز کو ہمارے حق میں برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کا ذریعہ بنائے ،آمین۔
تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی کے فوائد وبرکات :
آیت میں تلاوت ونماز دو عبادتوں کا ذکر ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تلاوت ِقرآن اورنمازکی پابندی ایسی عبادتیں ہیں جن کے فوائد وبرکات شمارنہیں کیے جاسکتے اورجب بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپاکیزہ کلام پڑھتاہے تواس پر اَنوار وتَجَلِّیّات کی بارشیں ہوتی ہیں اوربندہ خود اپنے دل میں ایک عجیب لذت محسوس کرتاہے ۔ تلاوتِ قرآن پاک کی کئی حکمتیں ہیں ، اس میں لوگوں کیلئے نصیحتیں بھی ہیں اوراحکام بھی ،اخلاقیات کی تعلیم بھی ہے اور آدابِ زندگی بھی۔ یہ اوَّلین و آخرین کے علوم کا جامع ہے ، اس کے اَسرار ختم نہیں ہوسکتے اور اس کے عجائبات بے شمار ہیں اور یہ چیزیں دل کی پاکیزگی پر مَوقوف ہیں ۔
{وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ: اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے بڑاہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کاذکر سب سے عظیم شے ہے نیز یادِ الٰہی سب سے افضل نیک عمل ہے بلکہ تمام عبادتوں کی اصل ذکر ِالٰہی ہی ہے مثلاً نماز اصل میں یادِ الٰہی کیلئے ہے ،یہی حال بقیہ تمام عبادات کا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے ،نیز اس کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بے حیائی اور بری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۸۹۴، ملتقطاً)
حضرت اُمِّ درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاذکرسب سے بڑاہے ۔اگرتونمازپڑھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے اگرتوروزہ رکھے تویہ بھی اللہ تعالیٰ کاذکرہے ،ہراچھاعمل جوتوکرتاہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور ہر بری چیز سے تمہارا بچنا بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور ان میں سب سے افضل اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے۔( شعب الایمان،العاشر من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی ذکر اخبار وردت فی ذکر اللّٰہ عزوجل،۱ / ۴۵۲،الحدیث:۶۸۶)
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل:
آیت کی مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل پر مشتمل2اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیامیں تم کویہ خبرنہ دوں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک تمہاراکون ساعمل سب سے اچھا،سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والاہے اورجوتمہارے سونے اورچاندی کو صدقہ کرنے سے زیادہ اچھاہے اوراس سے بھی اچھا ہے کہ تمہاراتمہارے دشمنوں سے مقابلہ ہو،تم انہیں قتل کرو اوروہ تمہیں شہید ماریں ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون ساعمل ہے ؟ارشاد فرمایا’’وہ عمل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶-باب منہ، ۵ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۸)
(2)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سے بندے کادرجہ سب سے بلند ہوگا؟ارشاد فرمایا’’جو اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکرکرنے والے ہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنے والوں سے بھی زیادہ بلندہوگا؟ ارشاد فرمایا: ’’اگر وہ اپنی تلوارسے کفار اور مشرکین کو قتل کر دے حتّٰی کہ اس کی تلوارٹوٹ جائے اورخون سے رنگین ہوجائے پھر بھی اللہ تعالیٰ کابکثرت ذکرکرنے والے کادرجہ اس سے افضل ہوگا۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۵-باب منہ، ۵ / ۲۴۵، الحدیث: ۳۳۸۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ: اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔} یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ذکر وغیرہ نیک اعمال کو جانتا ہے، اس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے تو وہ تمہیں ان اعمال پر بہترین جزا دے گا۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶)
ظاہر و باطن تمام احوال میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب:
علمِ الٰہی کے متعلق مذکورہ بالاقسم کی آیات عموماً اس مفہوم کیلئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم اتنا وسیع ہے کہ وہ ہر بندے کے ہر ظاہری باطنی عمل کو جانتا ہے ،لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے بچے اور اپنے ظاہری باطنی تمام اَحوال میں نیک اور اچھے اعمال کرنے میں مصروف رہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمام مقامات اور احوال میں تمہارے عملوں کو جانتا ہے تو جسے اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کا عمل جانتا ہے وہ گناہوں اور برے اعمال سے بچے اور تنہائی میں بھی طاعات ، عبادات اور بطورِ خاص نماز کی طرف متوجہ رہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۵، ۶ / ۴۷۶) اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﳓ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے مسلمانو!اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر بہترین انداز پر سوائے ان میں سے ظالموں کے اور کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا اورتمہارا معبود ایک ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ: اور اے مسلمانو!اہل ِکتاب سے بحث نہ کرو مگر بہترین انداز پر۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تمہاری اہلِ کتاب سے بحث ہو تو بہترین انداز سے بحث کرو جیسے انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سے دعوت دے کر اور حجتوں پر آگاہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ،یونہی بحث کے دوران و ہ سختی سے پیش آئیں تو تم نرمی سے پیش آؤ،وہ غصہ کریں تو تم حِلم اور بُردباری کا مظاہرہ کروالبتہ ان میں سے جو ظالم ہیں کہ زیادتی میں حد سے گزر گئے ، عناد اِختیار کیا ، نصیحت نہ مانی ، نرمی سے نفع نہ اٹھایا تو ان کے ساتھ سختی اختیار کرو۔ دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ کتاب جو ذِمّی ہیں اور جِزیَہ ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ جب تمہاری بحث ہو تو احسن طریقے سے بحث کرو البتہ ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا اور ذمہ سے نکل گئے اور جزیہ دینے سے منع کر دیا اور جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو ان سے جھگڑنا تلوار کے ساتھ ہے ۔( خازن،العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
عیسائیوں اور یہودیوں سے دینی اُمور میں بحث کرنے کا اختیار کس کو ہے؟
امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے کفار کے ساتھ دینی اُمور میں مناظرہ کرنے کا جواز ،اوراسی طرح علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۸۹۵)
یاد رہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں اور دیگر کافروں کے ساتھ دینی اُمور میں بحث اور مناظرہ کرناان علماء کا کام ہے جو ان کے باطل عقائد و نظریات کا بہترین اور مضبوط دلائل کے ساتھ رد کر سکتے ہوں اور ان کی طرف سے دین ِاسلام اور اس کی تعلیمات و اَحکام پر ہونے والے اعتراضات کا انتہائی تسلی بخش جواب دے سکتے ہوں اورمناظرہ کے فن میں بھی خوب مہارت رکھتے ہوں۔جوعالِم ایسی صلاحیت نہ رکھتا ہو اسے اور بطورِ خاص عام لوگ جنہیں عقائد و نظریات کی تفصیلی دلائل سے معلومات ہونا تو دور کی بات ،فرض عبادات سے متعلق شرعی احکام بھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہوتے، انہیں یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کفار سے دینی اُمور میں بحث مباحثہ کرنا حرام ہے اور ان لوگوں کا یہ سوچ کر بحث کرنے کی جرأت کرنا کہ ہم اپنے دین،عقیدے اور نظریات میں انتہائی مضبوط ہیں ،اس لئے یہودیوں ، عیسائیو ں یا کسی اور کافر سے دینی امور میں بحث کرنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا،دین و ایمان کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی خطرناک اِقدام ہے اور ایسا شخص غیر محسوس انداز میں ایمان کے دشمن شیطان کے انتہائی خوفناک وار کا شکار ہے، اگر یہ شخص اپنے دین و ایمان کی سلامتی چاہتا اور قیامت کے دن جہنم کے اَبدی عذاب سے بچنا چاہتاہے تو ان سے ہر گز بحث نہ کرے ورنہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔افسوس!ہمارے معاشرے میں شیطان کے کارندے لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کرنے کے لئے مصروفِ عمل ہیں اور انتہائی مُنَظَّم انداز میں مسلمانوں کے دلوں سے دین ِاسلام کی محبت اور اس دین کی طرف لگاؤ کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن مسلمان اپنے دین و ایمان کو بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اسے بے دھڑک خطرے پر پیش کئے جا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کی فکر کرنے اور ا س کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا: اور کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا۔} یعنی جب اہل ِکتاب تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں تو ان سے کہو:ہم اس پرایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جوتمہاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا اورتمہارا معبود ایک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۵۳، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۷۷، ملتقطاً)
اہل ِکتاب اپنی کتابوں کا مضمون بیان کریں تو سننے والے کو کیا کہناچاہے؟
جب اہل ِکتاب کسی شخص سے اپنی کتابوں میں موجود کوئی مضمون بیان کریں تو اسے سننے والے کو کیا کہنا چاہئے وہ اس آیت میں بیان ہوا اور یہی بات حدیث ِپاک میں ایک اور انداز سے بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت ابونملہ انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرتھے اورایک یہودی شخص بھی وہیں موجودتھا،اس دوران وہاں سے ایک جنازہ گزرا تویہودی نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:کیایہ مردہ باتیں کرتاہے؟رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔ یہودی کہنے لگا:بے شک یہ باتیں کرتاہے ۔یہ سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! جب اہل ِکتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ اُن کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو بلکہ یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پراور اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے، تو (اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ) اگر وہ مضمون اُنہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے۔(سنن ابو داؤد،کتاب العلم، باب روایۃ حدیث اہل الکتاب،۳ / ۴۴۵، الحدیث: ۳۶۴۴، مسند احمد، مسند الشامیین، حدیث ابی نملۃ الانصاری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۶ / ۱۰۲، الحدیث: ۱۷۲۲۵)
یاد رہے کہ ہمارا ایمان قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں پر بھی ہے لیکن عمل صرف قرآن پر ہے نیز دیگر کتابوں پر جو ایمان ہے وہ ان پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں ، موجودہ تحریف شدہ کتابوں پر نہیں بلکہ ان پر یوں ہے کہ اِن کتابوں میں جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَؕ-فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖۚ-وَ مِنْ هٰۤؤُلَآءِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِهٖؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب!یونہی ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی تو وہ جنہیں ہم نے کتا ب عطا فرمائی وہ اِس پر ایمان لاتے ہیں ، اور کچھ اِن دوسروں میں سے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں ، اورکافر ہی ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ: اور اے محبوب! یونہی ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف اسی طرح قرآن مجید نازل فرمایا جیسے اہل ِکتاب کی طرف توریت وغیرہ کتابیں اُتاری تھیں ،تو وہ لوگ جنہیں ہم نے توریت عطا فرمائی جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی،وہ اِس قرآن پر ایمان لاتے ہیں ، اور کچھ اِن مکہ والوں میں سے بھی ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور وہی کافر ہی ہماری آیتوں کاانکار کرتے ہیں جو کفر میں انتہائی سخت ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۹۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۳۳۹، ملتقطاً)
آیت ’’وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ‘‘ سے متعلق دو باتیں :
یہاں اس آیت سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…یہ سورت مکیہ ہے اور حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی مدینہ منورہ میں ایمان لائے، اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے ایمان لانے سے پہلے ان کی خبر دے دی،تو یہ غیبی خبروں میں سے ہے۔( جمل، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۶ / ۷۷)
(2)…جُحُود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو یعنی جان بوجھ کر مکرجانا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ یہودی خوب پہچانتے تھے کہ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے سچّے نبی ہیں اور قرآن حق ہے، یہ سب کچھ جانتے ہوئے انہوں نے عِناد کی وجہ سے انکار کیا ۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۴۵۳)
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لکھتے تھے، (اگر ایسا ہوتا) تو اس وقت باطل والے ضرور شک کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ: اور اس سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس قرآن کے نازِل ہونے سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے ، اگرآپ پڑھتے اور لکھتے ہوتے تو اس وقت اہل ِکتاب ضرور شک کرتے اور یوں کہتے کہ ہماری کتابوں میں آخری زمانے میں تشریف لانے والے نبی کی صفت تویہ مذکور ہے کہ وہ اُمّی ہوں گے،نہ لکھتے ہوں گے اور نہ ہی پڑھتے ہوں گے جبکہ یہ تو لکھتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں ا س لئے یہ آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں ۔مگر انہیں اس شک کا موقع ہی نہ ملا ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۸، ص۸۹۵، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۴۵۳، ملتقطاً)
غیر مسلموں کے ایک مشہور اعتراض کا جواب:
اس آیت ِمبارکہ میں موجودہ زمانے کے غیرمسلموں کے اِس مشہور اعتراض کا بھی جواب ہے کہ مَعَاذَ اللہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے گزشتہ کتابوں کو سامنے رکھ کر قرآن لکھا ہے۔ ان کا یہ اعتراض خلافِ حقیقت ہے کیونکہ قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی کتاب کا مطالعہ کرنے اور لکھنے کی نفی خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اورتاریخی حقائق سے یہی ثابت ہے، لہٰذاغیر مسلموں کا یہ خود ساختہ اعتراض اپنی بنیاد سےہی غلط ہے۔
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ وہ ان لوگوں کے سینوں میں روشن نشانیاں ہیں جنہیں علم دیا گیا اور ہماری آیتوں کا انکار صرف ظالم لوگ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ: بلکہ وہ روشن نشانیاں ہیں ۔} اس آیت میں مذکور ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا اشارہ قرآن مجید کی طرف ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو علماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان کا اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا ہونا ظاہر ہے اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اوراس کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجزہ ہو اور نہ ہی ایسی ہے کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ضمیر ’’هُوَ‘‘ کا مَرجَع سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرار دے کراس آیت کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ سرورِ عالَم،محمد ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان روشن نشانیوں والے ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہل ِکتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت پاتے ہیں ۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۸۹۵، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۴۵۳-۴۵۴، ملتقطاً)
{وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ: اور ہماری آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکارصرف ظالم لوگ کرتے ہیں ،جیسا کہ یہودی جو کہ معجزات ظاہر ہونے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے اور آخری رسول ہونے کو جان اور پہچان چکے لیکن آپ سے عناد کی وجہ سے آپ کے منکر ہوتے ہیں۔
اس آیت ِمبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علماء اور حُفّاظ کا بڑا ہی درجہ ہے کہ ان کے سینے قرآن کریم کے گنجینے ہیں۔ جس کاغذ پر قرآنِ مجیدلکھا جائے وہ عظمت والا ہے تو جس سینے میں قرآنِ پاک ہو وہ بھی عظمت والا ہے۔نیز یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ قرآنِ عظیم میں کبھی تحریف نہیں ہو سکتی کیونکہ تبدیلی اور تحریف کاغذ میں ہوسکتی ہے جبکہ قرآن تو خدا نے سینوں میں محفوظ کردیا ہے۔
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اورکفار نے کہا:اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتریں ؟تم فرماؤ :نشانیاں تو الله ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور کفار نے کہا۔} یہاں سے کفارِ مکہ کا ایک اور اعتراض ذکر کیا جا رہاہے ،چنانچہ کفارِ مکہ نے کہا کہ اس نبی پر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی،حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستر خوان کی طرح نشانیاں کیوں نہیں اُتریں ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے ارشاد فرما دیں : نشانیاں تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں اور وہ حکمت کے مطابق جو نشانی چاہتا ہے نازل فرماتا ہے اور میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں نافرمانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا صاف ڈر سنا دوں اور میں اسی کا پابند ہوں ۔ (خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۴۵۴، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۹۶، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہیں یہ بات کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اُتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں ایمان والوں کے لیے رحمت اور نصیحت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ: اور کیا انہیں یہ بات کافی نہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کے اعتراض کا جواب دیاگیاہے اور ا س کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ کریم معجزہ ہے ، گزشتہ اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات سے زیا دہ کامل ہے اور حق کے طلبگار کو تمام نشانیوں سے بے نیاز کرنے والا ہے کیونکہ جب تک زمانہ ہے قرآنِ کریم باقی اور ثابت رہے گا اور دوسرے معجزات کی طرح ختم نہ ہو گا۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۴۵۴)یعنی دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات قصہ بن کر رہ گئے ہیں مگر یہ قرآن ایسا جیتا جاگتا معجزہ ہے جو ہمیشہ دیکھا جاتا رہے گا،اس پر ایمان نہ لانا انتہائی بد نصیبی ہے۔
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًاۚ-یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا بِاللّٰهِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان الله کافی گواہ ہے، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور باطل پر ایمان لانے والے اور الله کے منکرہی نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًا: تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ کی نبوت کا انکار کرنے والے لوگ قرآنِ پاک کے نازل ہونے کے بعد بھی آپ کی رسالت کوتسلیم نہ کریں تویہ ان کی بدبختی ہے، آپ ان سے فرمادیجئے کہ میرے اورتمہارے درمیان میری رسالت کے سچے ہونے اور تمہارے جھٹلانے پر اللہ تعالیٰ گواہ ہے ، وہ آسمانوں اورزمین کی ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جس کا علم جتنا کامل ہو اُس کی گواہی بھی اتنی ہی کامل ہوتی ہے اوریقینا کامل ترین علم اللہ تعالیٰ کا ہے تو گواہی بھی اسی کی کامل ترین ہے اور یاد رکھو کہ باطل پر ایمان لانے والے اور اللہ تعالیٰ کے منکرہی نقصان پانے والے ہیں۔
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِؕ-وَ لَوْ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُؕ-وَ لَیَاْتِیَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اور اگر ایک مقررہ مدت نہ ہوتی تو ضرور ان پر عذاب آجاتا اور ضرور ان پر اچانک عذاب آئے گا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: اور تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں ۔} شانِ نزول:یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جس نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر آسمان سے پتھروںکی بارش کروادو ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کافر آپ سے جلد عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر عذاب نازل ہونے کی ایک مقررہ مدت نہ ہوتی جو اللہ تعالیٰ نے مُعَیَّن کی ہے اور جو حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے توان کے مطالبہ کرتے ہی ضرور ان پر عذاب آجاتا اور اس میں کوئی تاخیر نہ ہوتی لیکن چونکہ اب ان کیلئے ایک مدت مقرر ہے توجب وہ مدت پوری ہو جائے گی تو ضرور ان پر اچانک عذاب آئے گا اور انہیں ا س کی خبر بھی نہ ہوگی۔ (خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۴۵۴، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۸۹۶، ملتقطاً)
یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(54)یَوْمَ یَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَ یَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کوگھیرنے والی ہے۔ جس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ڈھانپ لے گا اور ( الله) فرمائے گا:اپنے اعمال کا مزہ چکھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: تم سے عذاب کی جلدی مچاتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفار آپ سے جلد عذاب نازل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ جہنم کا عذاب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے اور ان میں سے کوئی بھی جہنم کے عذاب سے نہیں بچے گا! اور جس دن عذاب کافروں کوان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے یعنی ہر طرف سے ڈھانپ لے گااور اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے۔گا کہ اے کافرو!اب تم دنیا میں اپنے کئے ہوئے اعمال کی سزا کا مزہ چکھو تو ا س دن تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھاگ نہیں سکو گے۔( تفسیرکبیر،العنکبوت، تحت الآیۃ:۵۴–۵۵، ۹ / ۶۸، روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۴–۵۵، ۶ / ۴۸۵، جلالین، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۴–۵۵، ص۳۳۹، ملتقطاً)
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میرے مومن بندو! بیشک میری زمین وسیع ہے تو میری ہی بندگی کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اے میرے مومن بندو!} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مومن کو کسی سرزمین میں اپنے دین پر قائم رہنا اور عبادت کرنا دشوار ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرجائے جہاں آسانی سے عبادت کر سکے اور وہاں دین کی پابندی میں دشواریاں درپیش نہ ہوں ۔شانِ نزول:یہ آیت مکہ مکرمہ میں موجود ان کمزور مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی جنہیں وہاں رہ کر اسلام کو ظاہر کرنے میں خطرے اور تکلیفیں تھیں اور وہ انتہائی تنگی میں تھے، انہیں حکم دیا گیا کہ میری بندگی تو ضروری ہے، یہاں رہ کر نہیں کر سکتے تو مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جاؤ،وہ وسیع ہے اور وہاں امن بھی ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۸۹۷، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۴۵۴–۴۵۵، ملتقطاً)
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ- ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے پھر ہماری ہی طرف تم پھیرے جاؤگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ: ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ ہر جان کو موت کا مز ہ چکھنا ہے اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہے ،پھرمرنے کے بعدثواب و عذاب اور اعمال کی جزا کے لئے ہماری ہی طرف تم لوگ پھیرے جاؤگے تو تم پر لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے راستے اختیار کرو۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(58)الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے ضرور ہم انہیں جنت کے بالا خانوں پر جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ہمیشہ ان میں رہیں گے، عمل کرنے والوں کیلئے کیا ہی اچھا اجرہے۔ وہ جنہوں نے صبر کیااور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور بیشک جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے۔} یہاں سے بطورِ خاص ہجرت کرنے والوں اور عمومی طور پر ہر نیک کام کرنے والے مسلمان کی جز ابیان کی جارہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے جن میں یہ ہجرت کرنا بھی داخل ہے تو ضرور ہم انہیں جنت کے ایسے بالا خانوں پر جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،وہ ہمیشہ ان بالا خانوں میں رہیں گے اور اچھے عمل کرنے والوں کیلئے یہ کیا ہی اچھا اجرہے۔
جنّتی بالا خانوں کے اوصاف:
یہاں جنتی بالاخانوں کے اوصاف سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک جنتی لوگ اپنے اوپر بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جس طرح اُفُق میں مشرق یا مغرب کی جانب کسی روشن ستارے کو دیکھتے ہوں کیونکہ ان کے مقامات کے درمیان فرق ہو گا۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی منزلیں ہیں ،دوسرے وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’کیوں نہیں !اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،وہ لوگ پہنچ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کی۔( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ وانّہا مخلوقۃ، ۲ / ۳۹۳، الحدیث: ۳۲۵۶)
(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَاللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے ۔ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکرعرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ بالا خانے کس کے لئے ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ اس کے لئے ہیں جس نے اچھی گفتگو کی ،کھانا کھلایا،ہمیشہ روزہ رکھا اور رات کے وقت جبکہ لوگ سو رہے ہوں ، اللہ تعالیٰ کے لئے نماز پڑھی۔ (ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ غرف الجنّۃ، ۴ / ۲۳۶، الحدیث: ۲۵۳۵)
{اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ: وہ جنہوں نے صبر کیااور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔} یعنی اچھے عمل کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تکلیفوں،مصیبتوں اور سختیوں پرصبرکیا،مشرکین کی ایذائیں برداشت کیں اور ہجرت کرکے دین کی خاطروطن بھی چھوڑدیامگردین ِاسلام کونہ چھوڑااوریہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پرہی بھروسہ رکھتے ہیں۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۴۸۶، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۵، ملتقطاً)
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ﰮ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ ﳲ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں جو اپنی روزی ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے (بلکہ) الله (ہی) انہیں اور تمہیں روزی دیتا ہے اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا: اور زمین پر کتنے ہی چلنے والے ہیں جو اپنی روزی نہیں اٹھائے پھرتے۔} شانِ نزول: مکہ مکرمہ میں ایمان والوں کو مشرکین دن رات طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہتے تھے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو اُن میں سے بعض نے عرض کی : ہم مدینہ شریف کیسے چلے جائیں ، نہ وہاں ہمارا گھر ہے نہ مال،وہاں ہمیں کون کھلائے اور پلائے گا؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اورارشاد فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں جیسا کہ چوپائے اور پرندے ، اللہ تعالیٰ ہی انہیں اور تمہیں روزی دیتا ہے لہٰذاتم جہاں بھی ہو گے وہی تمہیں روزی دے گا تو پھر یہ کیوں پوچھ رہے ہو کہ ہمیں کون کھلائے اور پلائے گا؟ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ،کمزور اور طاقتور، مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے اور وہی تمہارے اقوال کوسننے والا اور تمہارے دلوں کی بات کو جاننے والا ہے۔( خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۵۵، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۹۷–۸۹۸، ملتقطاً)
رزق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی ترغیب:
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے معاملے میں خاصطور پر اپنے رزق کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ ساری مخلوق کو رزق سے نوازنے والے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، وہی حقیقی طور پر رزق دینے والا ہے اور وہ ہر جگہ اپنی مخلوق کو رزق دینے پر قدرت رکھتا ہے۔ حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو جیسا ہونا چاہیے تو وہ تمہیں ایسے روزی دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اُٹھتے ہیں اور شام کوپیٹ بھرکر واپس آتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکّل علی اللّٰہ، ۴ / ۱۵۴، الحدیث: ۲۳۵۱)
ہمارے معاشرے میں یہ صورتِ حال انتہائی افسوسناک ہے کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہوئے دین کے احکام پر عمل کرنا شروع کرتے ہیں تو کچھ لوگ اپنی شفقت و نصیحت کے دریا بہاتے ہوئے انہیں سمجھانا شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹا اگر تم نمازی اور پرہیز گار بن گئے اور داڑھی رکھ لی تو کمائی کس طرح کرو گے اور کماؤ گے نہیں تو اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ کس طرح پالو گے ،اسی طرح اگر تم دُنْیَوی علوم چھوڑ کر دین کا علم سیکھنے لگ جاؤ گے تو بھوکے مرو گے اور تمہیں لوگوں کے دئیے ہوئے صدقات و خیرات پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اے کاش یہ لوگ اتنی بات سمجھ سکتے کہ حقیقی طور پر رزق دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ مخلوق پر اتنا مہربان ہے کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو بھی رزق سے محروم نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی کثیر رزق عطا فرماتا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے رزق کے دروازے کیسے بندکر دے گا،ہاں اگر رزق میں تنگی کر کے ا س کی آزمائش کرنا مقصود ہوا تو یہ دوسری بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت رزق کی بندش کا سبب ہر گز نہیں بلکہ رزق ملنے کا عظیم ذریعہ ہے ۔
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُۚ-فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم ان سے پوچھوکہ آسمان اور زمین کس نے بنائے اورسورج اور چاند کو کس نے کام میں لگایا تو ضرور کہیں گے: ’’ الله نے‘‘ تو کہاں الٹے پھرے جاتے ہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگر تم ان سے پوچھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگرآپ ان کفارِ مکہ سے پوچھیں کہ اتنے بڑے اور اتنے وسیع آسمان اور زمین کس نے بنائے ،سورج اور چاند کو کس نے کام میں لگایا تو اس کے جواب میں وہ ضرور کہیں گے: ’’ اللہ تعالیٰ نے‘‘ تو پھر یہ لوگ کہاں الٹے پھرے جاتے ہیں اور ا س اقرار کے باوجود اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے سے کیوں مُنْحَرِف ہوتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۸۹۸)
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ لَهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
الله اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کیلئے چاہے، بیشک الله سب کچھ جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ: اللہ اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں خواہ وہ مومن ہوں یا کافر، جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کس چیز میں بندےکی بھلائی ہے اور کس میں نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ کون کس وقت امیری کے لائق ہے اور کون کس وقت غریبی کے لائق ہے لہٰذا وہ حکمت اور مَصلحت کے مطابق ہی ہر ایک کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۴۸۹، مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۸۹۸، ملتقطاً)
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُؕ-قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگرتم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی اُتارا پھر اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا؟ ضرور کہیں گے : الله نے۔تم فرماؤ:سب تعریفیں الله کیلئے ہیں ، بلکہ ان میں اکثر نہیں سمجھتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ: اور اگرتم ان سے پوچھو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ عرب کے مشرکوں سے یہ بات پوچھیں کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے خشک زمین سے کھیتی، نباتات اور درخت وغیرہ اُگا کر اسے سرسبز و شاداب کیا؟ تو ا س کے جواب میں وہ ضرور کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے پانی نازل فرمایا اور اسی نے زمین کو سرسبز کیا۔یعنی وہ لوگ اس کا اعتراف اور اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ سب تعریفیں ا س اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے حق کو ایسابنایا کہ باطل پرست اس کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے ، بلکہ ان کافروں میں اکثر بے عقل ہیں کہ اس اقرار اور اعتراف کے باوجود اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے منکر ہیں ۔( روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۳، ۶ / ۴۸۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۴۵۶، ملتقطاً)
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے۔کیا ہی اچھا تھا اگر وہ (یہ) جانتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے ، جیسے بچے گھڑی بھر کھیلتے ہیں ، کھیل میں دل لگاتے ہیں ،پھر اس سب کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے کہ انتہائی تیزی کے ساتھ زائل ہونے والی ہے اور موت یہاں سے ایسے ہی جدا کر دیتی ہے جیسے کھیلنے والے بچے مُنتَشِر ہو جاتے ہیں اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے کہ وہ زندگی پائیدار ہے ، دائمی ہے، اس میں موت نہیں اورزندگانی کہلانے کے لائق بھی وہی ہے،کیا ہی اچھا تھا اگر وہ مشرک دنیا اور آخرت کی حقیقت جانتے، اگر ایسا ہوتا تو وہ فانی دنیا کو آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دیتے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۸۹۸، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۴۵۶، ملتقطاً)
دنیا کی مذمت پر مشتمل 3 اَحادیث:
یاد رہے کہ دنیا کی مذمت کے بارے میں قرآنِ پاک کی بہت سی آیات آئی ہیں اورانبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی تبلیغ کے مَقاصد میں ایک مقصد دنیاکی محبت سے لوگوں کو بچانا بھی تھا، اس لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوموں کے سامنے مختلف انداز میں دنیا کی مذمت بیان فرمائی ، ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کے سامنے کیسے دنیا کی مذمت بیان فرمائی ،اس سے متعلق تین اَحادیث ملاحظہ ہوں:
(1)… حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے اورفرمایاکیاتم جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے گھروالوں کے نزدیک کس قدر حقیر ہے؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:جی ہاں ، (اس حقارت کی وجہ سے ہی انہوں نے اس کو پھینکا ہے) ارشادفرمایا،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے، جس قدریہ بکری اپنے گھروالوں کے نزدیک حقیرہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیااس سے بھی حقیراورہلکی ہے اوراگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی مچھرکے پر برابربھی حیثیت ہوتی تو وہ اس سے کافر کو ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مثل الدنیا، ۴ / ۴۲۷، الحدیث: ۴۱۱۰، مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۶، الحدیث: ۷۹۱۷)
(2)… حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی دنیاسے محبت کرتاہے وہ اپنی آخرت کونقصان پہنچاتاہے اورجوآدمی اپنی آخرت سے محبت کرتاہے وہ اپنی دنیاکونقصان پہنچاتاہے ،پس فناہونے والی پرباقی رہنے والی کوترجیح دو۔(مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری رضی اللّٰہ تعالی عنہ، ۷ / ۱۶۴، الحدیث: ۱۹۷۱۷)
(3)… حضرت ابو جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس آدمی پر انتہائی تعجب ہے جودائمی زندگی والے گھر (یعنی آخرت) کی تصدیق توکرتاہے لیکن کوشش دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لیے کرتاہے ۔(شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۵۳۹)
فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَﳛ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ یُشْرِكُوْنَ(65)لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ ﳐ وَ لِیَتَمَتَّعُوْاٙ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو الله کو پکارتے ہیں اس حال میں کہ اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہیں پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا کرلاتا ہے تواس وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ تاکہ ہماری دی ہوئی نعمت کی ناشکری کریں اور تاکہ وہ فائدہ اٹھالیں تو عنقریب جان لیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا رَكِبُوْا فِی الْفُلْكِ: پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانۂ جاہلِیّت کے لوگ بحری سفر کرتے وقت بتوں کوساتھ لے جاتے تھے ،دورانِ سفرجب ہوا مخالف چلتی اور کشتی ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تو وہ لوگ بتوں کو دریا میں پھینک دیتے اور یاربّ !یاربّ !پکارنے لگتے لیکن امن پانے کے بعد پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاتے ۔ان کی ا س حماقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ جب کافرلوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور سفر کے دوران انہیں ہوا مخالف سمت چلنے کی وجہ سے ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنے شرک اور عناد کے باوجود بتوں کو نہیں پکارتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اس وقت ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت سے صرف اللہ تعالیٰ ہی نجات دے گا ،پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں ڈوبنے سے بچا کر خشکی کی طرف لاتا ہے اور ڈوب جانے کا اندیشہ اور پریشانی جاتی رہتی ہے اور انہیں اطمینان حاصل ہوجاتا ہے تواس وقت دوبارہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر وہ شرک کی صورت میں ہماری دی ہوئی نجات والی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں تو عنقریب وہ اپنے کردار کا نتیجہ جان لیں گے۔( خازن،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵–۶۶،۳ / ۴۵۶، روح البیان،العنکبوت،تحت الآیۃ:۶۵–۶۶،۶ / ۴۹۳–۴۹۴، ملتقطاً)
مصیبت کے وقت مخلص مومن اور کافر کا حال:
یاد رہے کہ مخلص ایمان والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اخلاص کے ساتھ شکر گزار رہتےہیں اور جب کوئی پریشان ُکن صورتِ حال پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے رہائی دیتا ہے تو وہ اس کی اطاعت میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ، مگر کافروں کا حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔ لیکن افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کاحال بھی کافروں کے پیچھے پیچھے ہی چل رہا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ اللہ کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بڑی عاجزی اور گریہ و زاری کے ساتھ اس کی بارگاہ میں ا س مصیبت سے نجات کی دعائیں کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ وہ مصیبت ان سے دور کر دیتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والی اپنی پرانی رَوِش پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْؕ-اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ یَكْفُرُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے حرمت والی زمین، امن و امان والی بنائی اور ان کے آس پاس والے لوگ اچک لیے جاتے ہیں ۔تو کیا وہ باطل پر یقین کرتے ہیں اور الله کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا: اور کیا انہوں نے نہ دیکھا۔} ارشاد فرمایا کہ کیا مکہ والوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے ان کے شہر مکہ مکرمہ کی حرمت والی زمین،ا ن کے لئے امن و امان والی بنائی کہ اس سرزمین میں رہنے والے امن و امان سے رہتے ہیں جبکہ اُن کے آس پاس کے لوگ قتل بھی کئے جاتے اور گرفتاربھی ہوجاتے ہیں ، اِس امن و سکون کی نعمت پر توا نہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ بتوں پر یقین رکھتے ہیں اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور اسلام سے کفر کر کے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۹۹)
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو الله پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب وہ اس کے پاس آئے؟ کیا کافروں کیلئے جہنم میں ٹھکانہ نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور اس کے لئے شریک ٹھہرائے یا جب اس کے پاس حق آئے تو وہ اس کو جھٹلادے اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کو نہ مانے؟ بے شک ایسے ظالموں اور حق کے منکروں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔( مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۸۹۹)
اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی مختلف صورتیں :
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کی بہت سی صورتیں ہیں ،ان میں سے پانچ صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)… کافر کا بت پرستی کرکے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے۔
(2)… نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنااور کہنا کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ہے۔
(3)… کتابُ اللہ میں اپنی طرف سے خَلْط مَلْط کردینا اور کہہ دینا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
(4)… نبی کا انکار کرنا اور کہنا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے نبی نہیں بنایا۔
(5)…جھوٹا مسئلہ بیان کرکے کہنا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وغیر ہ وغیرہ سب اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر جھوٹ برا ہے لیکن اگر جھوٹ کی نسبت کسی بڑی ہستی کی طرف کی جائے تو بڑا گناہ ہے، لہٰذا جھوٹی حدیث گھڑ کر یہ کہہ دینا کہ حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہے، سخت جرم ہے۔
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک الله نیکوں کے ساتھ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا: اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے۔} اس آیت کے معنی بہت وسیع ہیں ، اس لئے مفسرین نے مختلف انداز میں اسے تعبیر کیا ہے ۔ یہاں چار اَقوال بیان کئے جاتے ہیں :
(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،اس کے معنی یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری اطاعت کرنے میں کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے ثواب کے راستے دکھا دیں گے ۔
(2)…حضرت جنید رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ توبہ کرنے میں کوشش کریں گے، ہم ضرور انہیں اخلاص کے راستے دکھا دیں گے۔
(3)… حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ علم حاصل کرنے میں کوشش کریں گے ،ہم ضرور انہیں عمل کی راہیں دکھا دیں گے۔
(4)… حضرت سہل بن عبد اللہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس کے معنی یہ ہیں کہ جو سنت کو قائم کرنے میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنت کے راستے دکھادیں گے۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۸۹۹، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۴۵۷، ملتقطاً)
یہ آیت ِکریمہ شریعت و طریقت کی جامع ہے یعنی جو توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اِخلاص کی، جو طلب ِعلم میں کوشاں ہوں گے انہیں عمل کی، جو اِتِّباعِ سنت میں کوشش کریں گے انہیں جنت کی راہ دکھا دیں گے ۔ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے راستے ہیں جتنے تمام مخلوق کے سانس ہیں ۔
{وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ: اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے ساتھ ہے کہ دنیا میں ان کی مدد و نصرت فرماتا ہے اور آخرت میں انہیں مغفرت اور ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔(مدارک، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۹۰۰)