سُوْرَۃُ البَلَد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
مجھے اِس شہر کی قسم۔جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو
تفسیر: صراط الجنان
{لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ: مجھے اِس شہر کی قسم۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
مکہ مکرمہ کے فضائل:
یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ ﳛ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا‘‘(ال عمران:۹۶، ۹۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔
اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘‘( بقرہ:۱۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔
اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا:
’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘(بقرہ:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کےکھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔
اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
’’وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا‘‘(ال عمران:۹۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔
اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا‘‘(بقرہ:۱۲۵۔)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔
اورسورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: ۲، ۱۱ / ۱۶۴)
حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علماء فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘ اس میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس مبارک شہر میں نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘ یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، ۱ / ۶۵)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں ،
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم
مدینہ منورہ کے فضائل:
اور جب اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو اس مقام کو کیا کیا عظمتیں حاصل ہوئیں ،ان میں سے 7عظمتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے ا س بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے،لوگ اسے یَثْرِب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ برے لوگوں کو ا س طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ وانّہا تنفی الناس، ۱ / ۶۱۷، الحدیث: ۱۸۷۱)
(2)… حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام ’’طابہ‘‘ رکھا ہے۔( مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص۷۱۷، الحدیث: ۴۹۱(۱۳۸۵))
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیاگیا ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، ۱ / ۶۱۶، الحدیث: ۱۸۶۹)
(4)… حضرت سہل بن حنیف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا’’ بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، ۶ / ۹۲، الحدیث: ۵۶۱۱)
(5)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللّٰہ!، جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں ا س سے دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۱-باب، ۱ / ۶۲۰، الحدیث: ۱۸۸۵)
(6)…حضرت عبداللّٰہ بن زید انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۵)
(7) …حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی (خاص طور پر) شفاعت کروں گا۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے
وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ(3)لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍﭤ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور باپ کی قسم اور اس کی اولاد کی ۔یقینا بیشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ: اور باپ کی قسم اور اس کی اولاد کی۔} اس آیت کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہاں باپ سے مراد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور ان کی اولاد سے مراد حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور چونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بھی بالواسطہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے اولاد کی قسم میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بھی داخل ہیں ۔دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں باپ سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور اولاد سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذُرِّیَّت مراد ہے، اور تیسراقول یہ بھی ہے کہ یہاں والد سے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور اولاد سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت مراد ہے۔( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۴۳۴) اس کی تائید حدیث ِپاک سے بھی ہوتی ہے جیساکہ سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور ِاَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں تمہارے لئے باپ کی طرح ہو ں، میں تمہیں (تمہارے دینی معاملات) سکھاتا ہوں ۔( نسائی، کتاب الطہارۃ، باب النّہی عن الاستطابۃ بالرّوث، ص۱۵، الحدیث:۴۰)
{لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ: یقینا بیشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا۔} اللّٰہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی ،حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی قسم یاد کرکے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا کہ وہ حمل کے دوران ایک تنگ و تاریک مکان میں رہے، ولادت کے وقت تکلیف اُٹھائے، دودھ پینے ،دودھ چھوڑنے ،مَعاش کے حصول اور زندگی و موت کی مشقتوں کو برداشت کرے۔( خازن، البلد، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۸۰)
مَصائب اور تکالیف میں بے شمار حکمتیں ہیں:
یاد رہے کہ ان مَصائب اور تکالیف میں اللّٰہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ،ہمارا نفسِ اَمّارہ مست گھوڑا ہے، اگر اس کے منہ میں ان تکالیف کی لگام نہ ہو تو یہ ہمیں ہلا ک کردے گا کیونکہ ان تکالیف کی لگام کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ ظلم اور قتل و غارت گری انسان نے کی ،چوری ڈکیتی کی وارداتوں کا مُرتکِب انسان ہوا،فحاشی و عُریانی کے سیلاب انسان نے بہائے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ حتّٰی کہ خدائی تک کا دعویٰ انسان نے کیا اور اگر ان تکالیف کی لگام ہٹا لی جائے تو انسان کا جو حال ہو گاوہ تصوُّر سے بالا تر ہے۔
اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْهِ اَحَدٌﭥ(5)یَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًاﭤ(6)اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَهٗۤ اَحَدٌﭤ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہرگز اس پر کوئی قدرت نہیں پائے گا۔کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال ختم کردیا۔کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اسے کسی نے نہ دیکھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْهِ اَحَدٌ: کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہرگز اس پر کوئی قدرت نہیں پائے گا۔} ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوالاشد اُسید بن کَلدہ کے بار ے میں نازل ہوئی، یہ انتہائی مضبوط اورطاقتور شخص تھا اور اس کی طاقت کا یہ عالَم تھا کہ چمڑہ پائوں کے نیچے دبالیتا اور اعلا ن کرتا کہ کون ا س چمڑے کو میرے پاؤں کے نیچے سے نکالے گا ،چنانچہ دس دس آدمی اس چمڑے کو کھینچتے رہتے یہاں تک کہ وہ چمڑہ تو پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا لیکن جتنا اس کے پائوں کے نیچے ہوتا وہ ہر گزنہ نکل سکتا تھا اور ایک یہ قول ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ یہ کافر اپنی قوت پرغرور کرتا اور مسلمانوں کو کمزور سمجھتا ہے ،یہ کس گمان میں پڑا ہوا ہے اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کو نہیں جانتا جو کہ قادر برحق ہے۔( ابو سعود، البلد، تحت الآیۃ: ۵، ۵ / ۸۷۳، مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۴۹، ملتقطاً)
{یَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا: کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال ختم کردیا۔} یہاں سے اس کافر کا قول ذکر کیا گیا، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کافر کہتا ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عداوت اور دشمنی میں (لوگوں کو دیدے کر) ڈھیروں مال ختم کردیا (تاکہ وہ لوگ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو تکلیف پہنچائیں ۔) کیااس کافرکا یہ گمان ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ نے نہیں دیکھا اور اللّٰہ تعالیٰ اس سے سوال نہیں کرے گا کہ اس نے یہ مال کہاں سے حاصل کیا اور کس کام پر خرچ کیا،ایسا ہر گز نہیں ، اللّٰہ تعالیٰ ا س کی خبیث نیت اور باطنی فساد سے باخبر ہے اور وہ اسے اس کی سزا دے گا۔( خازن، البلد، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴ / ۳۸۰، روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰ / ۴۳۵، ملتقطاً)
بُری نیت سے اور بُری جگہ پر مال خرچ کرنے کا انجام:
اس سے معلوم ہو ا کہ بری نیت سے اور بری جگہ پر مال خرچ کرنے کا انجام بہت سخت ہے،اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو رشوت کے ذریعے دنیا کا عہدہ اور منصب حاصل کرنے لئے اور شادی کی ناجائز رسموں کو پورا کرنے کے لئے بے تحاشہ مال خرچ کرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی درس حاصل کریں کہ جو ظاہری طور پر تو نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کر رہے ہیں لیکن ان کی نیت یہ ہے کہ ا س عمل سے لوگ ان کی واہ واہ کریں اورلوگوں میں ان کی نیک نامی مشہور ہو۔ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن انسان اپنے رب کی بارگاہ سے اس وقت تک قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک اس سے ان پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے(1)اس کی زندگی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں گزارا۔ (2)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں صَرف کیا۔(3،4)اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے مال کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔(5) اس کے علم کے بارے میں کہ ا س نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۴)
(2)…حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا تو اس نے شرک کیا،جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی تو اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کاری کرتے ہوئے صدقہ کیا تو اس نے شرک کیا۔( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان… الخ، ۵ / ۳۳۷، الحدیث: ۶۸۴۴)
اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور انہیں اپنی بگڑی عادتیں اور خراب حالات درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِ(8)وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِ(9)وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں ۔اورایک زبان اور دو ہونٹ۔اورہم نے اسے دو راستے دکھائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِ: کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں ۔} یہاں سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی چندنعمتوں کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اس کافرکو عبرت حاصل کرنے کا موقع ملے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کافر کی دو آنکھیں نہ بنائیں جن سے وہ دیکھتا ہے اور کیاہم نے اسے زبان نہ دی جس سے وہ بولتا ہے اور اپنے دِل کی بات بیان میں لاتا ہے اور کیا ہم نے اسے دو ہونٹ نہ دئیے جن سے وہ اپنے منہ کو بند کرتا ہے اور بات کرنے ، کھانے پینے اورپھونکنے میں اُن سے کام لیتا ہے اور کیا ہم نے اسے ماں کے دودھ سے بھرے پستانوں کی راہ نہ بتائی کہ پیدا ہونے کے بعد وہ اُن سے دودھ پیتا اور غذا حاصل کرتا رہا ۔( خازن ، البلد ، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۳۸۰، مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۱۳۵۰، جمل، البلد، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۸ / ۳۲۵-۳۲۶، ملتقطاً)
زبان کی اہمیت اور اس کی حفاظت کی ترغیب:
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو زبان عطا کی اور اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی اور اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ ا س کے ذریعے انسان کلام کرتا اور اپنے دل کی بات بیان کرتا ہے،اس کے ذریعے معاملات سر انجام دیتا اور کھانے والی چیزوں کے ذ ائقے معلوم کرتا ہے اوراگر انسان کی زبان نہ ہوتی یا زبان تو ہوتی لیکن اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کو اپنے معاملات سر انجام دینے کے لئے اشارے اور تحریر کا سہارا لینا پڑتا اور اس سے جو دشواری ہوتی اس کا اندازہ گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے اورا س نعمت پر اللّٰہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اچھی اور نیک باتوں کے علاوہ انسان کم کلام کیا کرے اور فضول و بے فائدہ کلام نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ نے جو زبان کو منہ کے اندر رکھا اور ا س کے آگے دو ایسے ہونٹ بنا دئیے جنہیں کھولے بغیر کلام ممکن نہیں ، اس میں یہی حکمت ہے تاکہ بندہ اپنے ہونٹوں کو بند کر کے ان سے کلام نہ کر سکنے پر مدد حاصل کرے۔( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۴۳۶)
اوربکثرت اَحادیث میں زبان کی حفاظت کرنے کی ترغیب اور خاموش رہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 5اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)… حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض کی: نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطائوں پر رؤ و۔( ترمذی ، کتاب الزہد ، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲، الحدیث: ۲۴۱۴، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثانی، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۴۸۳۷)
(2)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو سارے اَعضاء زبان کی خوشامد کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ’’ ہمارے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈر کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ، تو سیدھی رہے گی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۴۱۵)
(3)… حضرت سفیان بن عبداللّٰہ ثقفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن چیزوں کا آپ مجھ پر خو ف کرتے ہیں ان میں زیادہ خطرناک کیا چیز ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :یہ (یعنی تمہاری زبان سب سے زیادہ خطرناک ہے)۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۸)
(4)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ر وایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو خاموش رہا نجات پاگیا ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۵۵۱، الحدیث: ۶۴۹۱)
(5)… حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کا خاموشی پر ثابت رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشّتم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۹۷، الحدیث: ۴۸۶۵)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں زبان جیسی عظیم نعمت کی اہمیت کو سمجھنے ،اس نعمت کے ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے ،فضول اور بیکار باتوں اور ناجائز کلام سے اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ: اورہم نے اسے دو راستے دکھائے۔} یہاں آیت میں ’’ نَجْدَیْن‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے ماں کی دونوں چھاتیاں مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے اچھا ئی اور برائی کے دو راستے مراد ہیں جو جنت یا جہنم تک پہنچاتے ہیں ۔ (مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۳۵۰)
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ(11)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُﭤ(12)فَكُّ رَقَبَةٍ(13)اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ(14)یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ(15)اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍﭤ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں نہ گھاٹی میں کود پڑا ۔اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔کسی بندے کی گردن چھڑانا۔یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔رشتہ دار یتیم کو۔یا خاک نشین مسکین کو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں نہ گھاٹی میں کود پڑا۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں ظاہر اوروافر ہیں تو ا س پر لازم تھا کہ وہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرے لیکن ا س نے نیک اعمال کر کے ان جلیل اور عظیم نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا۔ یہاں نیک اعمال کرنے کو گھاٹی میں کودنے سے ا س مناسبت کی وجہ سے تعبیر کیا گیا کہ جس طرح گھاٹی میں چلنا اس پر دشوار ہے اسی طرح نیکیوں کے راستے پر چلنا نفس پر دشوار ہے۔( ابوسعود، البلد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۸۷۴، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ: اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے اور اس میں کودنا کیا ہے،وہ گھاٹی اور ا س میں کودنا یہ ہے(1) کسی بندے کی گردن غلامی سے چھڑانا۔ یہ عمل خواہ اس طرح ہو کہ کسی غلام کو آزاد کردے یا اس طرح ہو کہ مُکاتَب غلام کو اتنا مال دیدے جس سے وہ آزادی حاصل کرسکے یا کسی غلام کو آزاد کرانے میں مدد کرے یا کسی قیدی یا قرض دار کو رہا کرانے میں ان کی مدد کرے ۔نیزاس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ نیک اعمال اختیار کرکے اپنی گردن آخرت کے عذاب سے چھڑائے۔(2)قحط اور تنگی کے دن رشتہ دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو کھانا دیناجو کہ انتہائی تنگ دست اور مصیبت زدہ ہو، نہ اس کے پاس اوڑھنے کے لئے کچھ ہو اور نہ بچھانے کے لئے کچھ ہو، کیونکہ قحط کے دنوں میں مال نکالنا نفس پر بہت شاق اور اجر ِعظیم ملنے کاسبب ہوتا ہے۔(روح البیان،البلد،تحت الآیۃ:۱۲-۱۶،۱۰ / ۴۳۷-۴۳۸، خازن،البلد،تحت الآیۃ:۱۲-۱۶،۴ / ۳۸۰-۳۸۱،ملتقطاً)
غلام آزاد کرنے یا آزادی میں ا س کی مدد کرنے کے فضائل:
غلام آزاد کرنے یا آزادی میں ا س کی مدد کرنے کی بہت فضیلت ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کر دیا تو اللّٰہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضْوْ کے بدلے غلام آزاد کرنے والے کا عضْوْ جہنم سے آزاد کر دے گا۔( بخاری، کتاب العتق، باب فی العتق وفضلہ، ۲ / ۱۵۰، الحدیث: ۲۵۱۷)
اورحضرت معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’اے معاذ! کوئی چیز اللّٰہ تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسند یدہ روئے زمین پر پیدا نہیں کی۔( دارقطنی، کتاب الطلاق والخلع والایلاء وغیرہ، ۴ / ۴۰، الحدیث: ۳۹۳۹)
اورحضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل صدقہ یہ ہے کہ گردن چھڑانے میں سفارش کی جائے۔( شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان… الخ، ۶ / ۱۲۴، الحدیث: ۷۶۸۳)
بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کے فضائل:
بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے، اللّٰہ تعالیٰ اُسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کوپانی پلائے گا، اللّٰہ تعالیٰ اُسے رحیقِ مختوم (یعنی جنت کی سر بند شراب) پلائے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۱۸-باب، ۴ / ۲۰۴، الحدیث: ۲۴۵۷)
اورحضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مغفرت لازم کر دینے والی چیزوں میں سے بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا ہے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ البلد، اطعام المسلم السغبان… الخ، ۳ / ۳۷۲، الحدیث: ۳۹۹۰)
یتیم کی کفالت ا ور اس کے ساتھ احسان کرنے کے فضائل:
یتیم کی کفالت کرنے ، ا س کے ساتھ احسان کرنے اور اسے کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ یتیم اسی گھر کا ہو یا غیر کا، میں اور وہ دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔( بخاری ، کتاب الطلاق ، باب اللعان ، ۳ / ۴۹۷ ، الحدیث: ۵۳۰۴ ، مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم، ص۱۵۹۲، الحدیث: ۴۲(۲۹۸۳))
اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ احسان کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے برا وہ گھر ہے، جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ براسلوک کیا جاتاہو۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)
اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص یتیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرے، اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے ضرور جنت واجب کردے گا مگر جبکہ ایسا گناہ کیا ہو جس کی مغفرت نہ ہو ۔( مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الفصل الثانی، ۲ / ۲۱۴، الحدیث: ۴۹۷۵)
مسکین کی مدد کرنے اور ا سے کھانا کھلانے کے فضائل:
مسکین کی مدد کرنے اور ا س کو کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرنے والا جہاد میں سَعی کرنے والے اور بے تھکے مسلسل شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم، ص۱۵۹۲، الحدیث: ۴۱(۲۹۸۲))
اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک لقمہ روٹی اور ایک مُٹھی خرما اور اس کی مثل کوئی اور چیز جس سے مسکین کو نفع پہنچے۔ اُن کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ تین شخصوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے۔ (1)صاحب ِخانہ کوجس نے حکم دیا۔ (2)بیوی کو جو کہ اسے تیار کرتی ہے۔ (3)خادم کو جو کہ مسکین کو دے کر آتا ہے، پھر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: حمد ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے جس نے ہمارے خادموں کو بھی نہ چھوڑا۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِﭤ(17)اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِﭤ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھریہ ان میں سے ہوجو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں صبر کی نصیحتیں کیں اور آپس میں مہربانی کی تاکیدیں کیں ۔یہی لوگ دائیں طرف والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: پھران میں سے ہوجو ایمان لائے۔} یعنی یہ تمام عمل اُس وقت مقبول ہیں اور اُسی صورت یہ اعمال کرنے والے کے بارے کہا جائے گاکہ وہ گھاٹی میں کودا کہ جب یہ اعمال کرنے والا ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں گناہوں سے باز رہنے اور عبادات بجالانے اور ان مشقتوں کو برداشت کرنے پر صبر کی نصیحتیں کیں جن میں مومن مبتلا ہوں اور انہوں نے آپس میں مہربانی کی تاکیدیں کیں کہ مومنین ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و محبت کا برتائو کریں اور اگر وہ ایمان دار نہیں تواس کے لئے کچھ نہیں بلکہ اس کے سب عمل بیکار ہیں ۔( خازن، البلد، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۳۸۱، مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۳۵۰، ملتقطاً)
ایمان کے بغیر نیک جگہ پر مال خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملے گا:
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر اچھی جگہوں پر مال خرچ کرنے کاثواب نہیں ملے گا بلکہ ایمان قبول کرنے کے بعد جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے گا اسی کا ثواب ملے گا۔اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ‘‘( توبہ:۵۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے صدقات قبول کئے جانے سے یہ بات مانع ہے کہ انہوں نے اللّٰہ اور اس کے رسولکے ساتھ کفر کیا۔
لہٰذاجو کافر یہ چاہتا ہو کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے پر ثواب ملے تو اسے چاہئے کہ پہلے توحید و رسالت پر ایمان لائے اور ا س کے بعد مال خرچ کرے اور دیگر نیک اعمال کرے تاکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ثواب حاصل ہو۔
{اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ: یہی لوگ دائیں طرف والے ہیں ۔} یعنی جن میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں یہ دائیں طرف والے ہیں جنہیں ان کے نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عرش کی دائیں جانب سے جنت میں داخل ہوں گے۔( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۰ / ۴۳۹)
ا س سے معلوم ہوا کہ آپس میں صبر کی نصیحتیں اور مہربانی کی تاکیدیں کرنے والے مسلمانوں کا اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام ،رتبہ اور درجہ بہت بلند ہے۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــٴَـمَةِﭤ(19)عَلَیْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا وہی بائیں طرف والے ہیں ۔ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی آگ ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا: اور جنہوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنہوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا وہ بائیں طرف والے ہیں کہ انہیں ان کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عرش کے بائیں جانب سے جہنم میں داخل کئے جائیں گے اور ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی آگ ہوگی کہ نہ اس میں باہر سے ہوا آسکے گی اور نہ اندر سے دھواں باہر جاسکے گا۔( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۱۰ / ۴۳۹-۴۴۰)