سُوْرَۃُ الضُّحَىٰ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَ الضُّحٰى(1)وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَالضُّحٰى: چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔} اس سورت کاشانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہ آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو اُن کے رب عَزَّوَجَلَّ نے چھوڑ دیا اورناپسند جانا ہے، اس پر سورۂ وَالضُّحٰی نازل ہوئی۔

بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  ’’ضُحٰی‘‘سے وہ وقت مراد ہے جس وقت سورج بلند ہوتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت کی قَسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ یہ وقت وہی ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے کلام سے مشرف کیا اور اسی وقت جادو گر سجدے میں  گرے، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہاں  ’’ضُحٰی‘‘ سے پورا دن مراد ہے۔( تفسیر بغوی، الضّحی، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۶۵، مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۵۶، ملتقطاً)

چاشت کی نماز کے3 فضائل:

اس آیت میں  چاشت کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں  چاشت کی نماز کے3 فضائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی پر اس کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ ہے (اور کل تین سو ساٹھ جوڑ ہیں ) ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر حمد صدقہ ہے اور لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کہنا صدقہ ہے اور اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات کا حکم کرنا صدقہ ہے اور بری بات سے منع کرنا صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں  کفایت کرتی ہیں ۔( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ الضّحی… الخ، ص۳۶۳، الحدیث: ۸۴(۷۲۰))

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں  پڑھیں  تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں  سونے کا محل بنائے گا۔( ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الضّحی، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۴۷۲)

(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں  پڑھیں  وہ غافل لوگوں  میں  نہیں  لکھا جائے گا اور جو چار رکعت پڑھے گا وہ عبادت گزار لوگوں  میں  لکھا جائے گا اور جو چھ رکعت پڑھے گااس دن (اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے) اُس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ رکعت پڑھے تواللّٰہ تعالیٰ اسے فرمانبردار لوگوں  میں  لکھے گا اور جو بارہ رکعت پڑھے گااللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں  ایک محل بنائے گا اور کوئی دن یا رات ایسا نہیں  جس میں  اللّٰہ تعالیٰ بندوں  پر احسان اور صدقہ نہ کرے اور اس بندے سے بڑھ کر کسی پر(اللّٰہ تعالیٰ نے) احسان نہ کیا جسے اپنا ذکر اِلہام کیا۔( الترغیب والترہیب، کتاب النوافل، الترغیب فی صلاۃ الضّحی، ۱ / ۳۱۸، الحدیث: ۱۰۱۱)

چاشت کی نمازسے متعلق دو شرعی مسائل:

یہاں  چاشت کی نماز سے متعلق دو شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں ،

 (1)… چاشت کی نمازمُستحب ہے اورا س کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں  ہیں ۔

(2)…اس کا وقت سورج بلند ہونے سے زوال یعنی نصفُ النّہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔ (بہار شریعت، حصہ چہارم، ۱ / ۶۷۵-۶۷۶)

{وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى: اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔} یعنی رات کی قسم جب وہ اپنی تاریکی سے ہرچیز کوڈھانپ دے۔ امام جعفر صادق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ چاشت سے مراد وہ چاشت ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرمایا اور رات سے معراج کی رات مراد ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ چاشت سے جمالِ مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نور کی طرف اشارہ ہے اور رات سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے عنبرین گیسو کی طرف اشارہ ہے۔ (روح البیان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۴۵۳)  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

ہے کلامِ الہٰی میں  شمس وضُحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم

قسمِ شبِ تار میں  راز یہ تھا کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰىﭤ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا اور نہ ناپسند کیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى: تمہارے رب نے نہ تمہیں  چھوڑا اور نہ ناپسند کیا۔} اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(کفار کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے) حق جَلَّ وَعَلا نے فرمایا: ’’وَ الضُّحٰىۙ(۱)وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى‘‘ قسم ہے دن چڑھے کی ،اور قسم رات کی جب اندھیری ڈالے، یاقسم اے محبوب! تیرے روئے روشن کی، اور قسم تیری زلف کی جب چمکتے رخساروں  پر بکھر آئے ’’ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى‘‘ نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اورنہ دشمن بنایا۔‘‘اوریہ اَشقیاء (بدبخت) بھی دل میں  خوب سمجھتے ہیں  کہ خدا کی تجھ پر کیسی مِہر (یعنی رحمت) ہے، اس مِہر (یعنی رحمت) ہی کو دیکھ دیکھ کر جلے جاتے ہیں  ، اور حسد وعناد سے یہ طوفان جوڑتے ہیں  اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں  ،مگریہ خبر نہیں  کہ ’’وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى‘‘ بے شک آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے۔‘‘ وہاں  جو نعمتیں  تجھ کو ملیں  گی نہ آنکھوں  نے دیکھیں  ،نہ کانوں  نے سنیں  ،نہ کسی بشر یا مَلک کے خطرے میں  آئیں  ،جن کا اِجمال یہ ہے ’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘ قریب ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا۔‘‘ اس دن دوست دشمن سب پرکھل جائے گا کہ تیرے برابر کوئی محبوب نہ تھا ۔خیر ،اگر آج یہ اندھے آخرت کا یقین نہیں  رکھتے تو (اے پیارے حبیب!) تجھ پر خدا کی عظیم ،جلیل ،کثیر، جزیل نعمتیں  رحمتیں  آج کی تو نہیں  قدیم ہی سے ہیں  ۔کیا تیرے پہلے اَحوال انہوں  نے نہ دیکھے اور ان سے یقین حاصل نہ کیا کہ جو نظرِ عنایت تجھ پر ہے ایسی نہیں  کہ کبھی بدل جائے، ’’اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى۪(۶) وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى۪(۷) وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰىؕ(۸) فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹)وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰)وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ‘‘ کیا اس نے تمہیں  یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔ اور تمہیں  اپنی محبت میں  خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔اور تمہیں  حاجت مند پایا تو غنی کردیا۔تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔اور منگتا کو نہ جھڑکو۔اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۵-۱۶۶، ملخصاً)

کفار کے اعتراض سے معلوم ہوا کہ کفار ا س بات کو جان گئے تھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں  کیونکہ اگر انہیں  یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ اس طرح کا اعتراض نہ کرتے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ مجیدنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اپنی طرف سے بنایا ہو اکلام نہیں  بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل ہوا ہے کیونکہ اگر قرآنِ مجید نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اپنی طرف سے بنایا ہو اکلا م ہو تا تو آپ کا کلام مسلسل جاری رہتا اور اس میں  وقفہ نہ آتا اور اس طرح کفار کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملتا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے چھوڑ دیا اور ناپسند کیا ہے۔

وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىﭤ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تمہارے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى: اور بیشک تمہارے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔} مفسرین نے اس آیت کا ایک معنی یہ بیان کیا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، بے شک تمارے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے کیونکہ وہاں  آپ کے لئے مقامِ محمود ، حوضِ کوثر اوروہ بھلائی ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا تمام اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرمُقدّم ہونا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اُمت کا تمام اُمتوں  پر گواہ ہونا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی شفاعت سے مومنین کے مرتبے اور درجے بلند ہونا اور بے انتہا عزتیں  اور کرامتیں  ہیں  جو بیان میں  نہیں  آسکتیں ۔

             نیز مفسرین نے اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان فرمائے ہیں  کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں  گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں  آپ کے مَراتب ترقیوں  میں رہیں  گے۔( مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۵۶، تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ: ۴، ۱۱ / ۱۹۳، ملتقطاً)

وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَلَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں  اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، بیشک قریب ہے کہ آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ آپ کو دنیا اور آخرت میں  اتنا دے گا کہ آ پ راضی ہو جائیں  گے۔

            اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے یہ وعدۂ کریمہ اُن نعمتوں  کو بھی شامل ہے جو آپ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا میں  عطا فرمائیں  جیسے کمالِ نفس، اَوّلین و آخرین کے علوم ، ظہورِ اَمر ، دین کی سربلندی اور وہ فتوحات جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے عہد مبارک میں  ہوئیں  اور جو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے زمانے میں  ہوئیں  اور تاقیامت مسلمانوں  کو ہوتی رہیں  گی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی دعوت کا عام ہونا ، اسلام کا مشرق و مغرب میں  پھیل جانا ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی اُمت کا تمام امتوں  سے بہترین ہونا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے وہ کرامات و کمالات جن کا علم اللّٰہ تعالیٰ ہی کو ہے، اور یہ وعدہ آخرت کی عزت و تکریم کو بھی شامل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو شفاعت ِعامہ و خاصہ اور مقامِ محمود وغیرہ جلیل نعمتیں  عطا فرمائیں ۔ (روح البیان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۴۵۵، خازن، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۸۶، ملتقطاً)

خدا چاہتا ہے رضائے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ:

            حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے قرآنِ مجید میں  حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا پڑھی: ’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(ابراہیم:۳۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں  نے بہت سے لوگوں  کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔

            اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا پڑھی: ’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘(مائدہ:۱۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو انہیں  عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں  بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا،حکمت والا ہے۔

            تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے دونوں  دستِ مبارک اُٹھا کر اُمت کے حق میں  رو کر دُعا فرمائی اور عرض کیا ’’اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ‘‘ اے اللّٰہ میری امت میری امت۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ تم میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس جاؤ۔تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھوکہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے؟حضرت جبریل نے حکم کے مطابق حاضر ہو کر دریافت کیا توسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ  سَلَّمَ نے انہیں  تمام حال بتایا اور غمِ اُمت کا اظہار کیا ۔حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں  عرض کی کہ اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ یہ فرماتے ہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو حکم دیا کہ جاؤ اور میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہو کہ ہم آپ کو آپ کی اُمت کے بارے میں  عنقریب راضی کریں  گے اور آپ کے قلب مبار ک کو رنجیدہ نہ ہونے دیں  گے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامتہ… الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))

             ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جب تک میرا ایک اُمتی بھی دوزخ میں  رہے گامیں  راضی نہ ہوں  گا۔( مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۵۶)

            مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ آیت ِکریمہ صاف دلالت کرتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ وہی کرے گا جس میں  رسول راضی ہوں  اور اَحادیثِ شفاعت سے ثابت ہے کہ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی رضا اسی میں  ہے کہ سب گنہگارانِ اُمت بخش دیئے جائیں  تو آیت و اَحادیث سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کی شفاعت مقبول اور حسب ِمرضی ٔمبارک گنہگارانِ اُمت بخشے جائیں  گے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ!کیا رتبۂ عُلیا ہے کہ جس پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کے لئے تمام مُقَرّبین تکلیفیں  برداشت کرتے اور محنتیں  اُٹھاتے ہیں  وہ اس حبیب ِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَسَلَّمَ کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا ہے۔( خزائن العرفان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۱۰۹)

            اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

خدا کی رضا چاہتے ہیں  دو عالَم

خدا چاہتا ہے رضائے محمد

اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا اس نے تمہیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى: کیا اس نے تمہیں  یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔} سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بَطن میں  تھے اور حمل شریف دو ماہ کا تھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے والد صاحب نے مدینہ شریف میں  وفات پائی اور نہ کچھ مال چھوڑا نہ کوئی جگہ چھوڑی ،ان کی وفات کے بعدآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت کی ذمہ داری آپ کے دادا عبدالمُطّلب نے سنبھالی ، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عمر شریف چار یا چھ سال کی ہوئی تو والدہ صاحبہ نے بھی وفات پائی اور جب عمر شریف آٹھ سال کی ہوئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دادا عبدالمُطّلب نے بھی وفات پائی، اُنہوں  نے اپنی وفات سے پہلے اپنے فرزند ابوطالب کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت و نگرانی کی وصیت کی جو کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا حقیقی چچا تھا، ابوطالب آپ صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں  سرگرم رہا یہاں  تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے نبوت کا اعلان فرمایا ۔

            اس آیت کی تفسیر میں  مفسرین نے ایک معنی یہ بھی بیان کیاہے کہ یتیم کا مطلب ہے یکتا و بے نظیر ، جیسے کہا جاتا ہے’’ دُرِّیتیم ‘‘اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو عزت و شرافت میں  یکتا و بے نظیر پایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو مقامِ قرب میں  جگہ دی اور اپنی حفاظت میں  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دشمنوں  کے اندر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی پرورش فرمائی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو نبوت و رسالت اور اپنا چنا ہوا بندہ ہونے کے ساتھ مشرف کیا ۔(خازن، الضّحی، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۸۶، جمل، الضّحی، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۳۴۷، روح البیان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۴۵۶-۴۵۷، ملتقطاً)

وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے تمہیں اپنی محبت میں گم پایا تو اپنی طرف راہ دی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى: اور اس نے تمہیں  اپنی محبت میں  گم پایا تو اپنی طرف راہ دی۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی محبت میں  گم پایا تو اپنی طرف راہ دی اور غیب کے اَسرار آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر کھول دیئے ، آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ماکان ومایکون کے علوم عطا کئے اور اپنی ذات و صفات کی معرفت میں  سب سے بلند مرتبہ عنایت کیا ۔مفسرین نے اس آیت کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ایسا وارَفتہ پایا کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنے نفس اور اپنے مراتب کی خبر بھی نہیں  رکھتے تھے توآپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو آپ کی ذات و صفات اور مَراتب و درجات کی معرفت عطا فرمائی ۔

            یہاں  ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سب اَنبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوت سے پہلے بھی اور نبوت سے بعد بھی شرک ،کفر اور تمام گناہوں  سے معصوم ہوتے ہیں  اور اللّٰہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے صفات کی ہمیشہ سے معرفت رکھتے ہیں۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۸۶-۳۸۷، خزائن العرفان، الضحیٰ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۱۰۹)

وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰىﭤ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اس نے تمہیں حاجت مند پایا تو غنی کر دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰى: اور اس نے تمہیں  حاجت مند پایا تو غنی کردیا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو حاجت مند پایا تو حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا کے مال(پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مال،پھر حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے مال ) اور پھر غنیمت کے مال کے ذریعے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو غنی کر دیا ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو حاجت مند پایا تو قناعت کی دولت عطا فرما کر غنی کر دیا۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۳۸۷)

تین خوش نصیب حضرات:

            اس آیت کی پہلی تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضرت خدیجہ ، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُمْ بڑے خوش نصیب ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت کرنے کا موقع عطا فرمایا۔

حقیقی طور پر مالدار کون ہے؟

            آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہو اکہ حقیقی طور پر مالدار وہ ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے قناعت کی دولت سے نوازا ہے۔یہاں  اسی سے متعلق دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مالداری کثرتِ مال سے حاصل نہیں  ہوتی بلکہ حقیقی مالدرای نفس کا بے نیاز ہونا ہے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب الغنی غنی النفس، ۴ / ۲۳۳، الحدیث: ۶۴۴۶)

(2)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اسلام قبول کیا اور جسے ضرورت کے مطابق روزی دی گئی اور جسے اللّٰہ تعالیٰ نے ان چیزوں  پر قناعت کرنے والا بنا دیاجواسے دی گئی ہیں  تو اس نے کامیابی حاصل کر لی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فی الکفاف والقناعۃ، ص۵۲۴، الحدیث: ۱۲۵(۱۰۵۴))

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  بھی قناعت کی عظیم دولت سے مالا مال فرمائے،اٰمین۔

فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْﭤ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْ: تو کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ کرو۔ } دورِ جاہلیّت میں  یتیموں  کے بارے میں  اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان کے مالوں  پر قبضہ کر لیتے ،ان پر دباؤ ڈالتے اور ان کے حقوق کے معاملے میں  ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتے تھے،اس آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ فرمائیے گا۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۳۸۷)

یتیموں  سے متعلق دین ِاسلام کا اعزاز:

            دین ِاسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے یتیموں  کے حقوق واضح کئے،ان کے چھینے ہوئے حق انہیں  واپس دلائے اور عرصۂ دراز سے یتیموں  پر جاری ظلم و ستم کا خاتمہ کیا ۔یتیموں  کے بارے میں  دین ِاسلام نے مسلمانوں  کو کیسی عمدہ تعلیم دی ہے اس کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو۔

(1)…یتیموں  کے مال کے بارے میں  حکم،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ  لَا  تُؤْتُوا  السُّفَهَآءَ  اَمْوَالَكُمُ  الَّتِیْ  جَعَلَ  اللّٰهُ لَكُمْ  قِیٰمًا  وَّ  ارْزُقُوْهُمْ  فِیْهَا  وَ  اكْسُوْهُمْ  وَ  قُوْلُوْا لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا(۵)وَ  ابْتَلُوا  الْیَتٰمٰى  حَتّٰۤى  اِذَا  بَلَغُوا  النِّكَاحَۚ-فَاِنْ  اٰنَسْتُمْ  مِّنْهُمْ  رُشْدًا  فَادْفَعُوْۤا  اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْۚ-وَ  لَا  تَاْكُلُوْهَاۤ  اِسْرَافًا  وَّ  بِدَارًا  اَنْ  یَّكْبَرُوْاؕ-وَ  مَنْ  كَانَ  غَنِیًّا  فَلْیَسْتَعْفِفْۚ-وَ  مَنْ  كَانَ  فَقِیْرًا  فَلْیَاْكُلْ  بِالْمَعْرُوْفِؕ-فَاِذَا  دَفَعْتُمْ  اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْ  فَاَشْهِدُوْا  عَلَیْهِمْؕ-وَ  كَفٰى  بِاللّٰهِ  حَسِیْبًا‘‘(النساء:۵، ۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکم عقلوں  کوان کے وہ مال نہ دوجسیاللّٰہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایاہے اور انہیں اس مال میں  سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔اور یتیموں  (کی سمجھداری)کو آزماتے رہو یہاں  تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں  تو اگر تم ان کی سمجھداری دیکھو تو انکے مال ان کے حوالے کردو اور ان کے مال فضول خرچی سے اور (اس ڈر سے)جلدی جلدی نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہو جائیں گے اور جسے حاجت نہ ہو تو وہ بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدرمناسب کھاسکتا ہے پھر جب تم ان کے مال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ کرلو اور حساب لینے کے لئے اللّٰہ کافی ہے ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ- اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا‘‘(النساء:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یتیموں  کو ان کے مال دیدو اورپاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں  کو اپنے مالوں  میں  ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

اور ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا‘‘(النساء:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں  کا مال کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹ میں  بالکل آگ بھرتےہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں  جائیں  گے۔

(2)…یتیموں  کے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں  حکم:چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مسلمانوں  کے گھروں  میں  وہ بہت اچھا گھر ہے جس میں  یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور وہ بہت برا گھر ہے جس میں  یتیم کے ساتھ بُرابرتاؤ کیا جاتا ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)

(3)… یتیم کی کفالت کرنے کی ترغیب:چنانچہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میں  اور یتیم کو پالنے والا(وہ یتیم خواہ اپنا ہو یا غیر کا) جنت میں  اس طرح ہوں  گے (یہ فرما کر)آپ نے کلمہ کی اوربیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان کے درمیان کچھ کشادگی فرمائی۔(بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)

            سرِ دست یتیموں  کے بارے میں  اسلام کی یہ تین تعلیمات ذکر کی ہیں  اوریتیموں  کے متعلق اسلام کے مزید احکامات جاننے کے لئے سورۂ نساء کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْﭤ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ: اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔ } یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، جب آپ کے درِ دولت پر کوئی سوالی آ کر کچھ مانگے تو اسے کسی بھی صورت جھڑکنا نہیں  بلکہ اسے کچھ دے دیں  یا حسنِ اَخلاق اور نرمی کے ساتھ ا س کے سامنے نہ دینے کاعذر بیان کردیں ۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ:۱۰، ۴ / ۳۸۸، مدارک، الضحی، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۳۵۷، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مومن ہوں  مومنوں  پہ رؤفٌ رحیم ہو

سائل ہوں  سائلوں  کو خوشی لانہر کی ہے

         اور فرماتے ہیں :

مانگیں  گے مانگے جائیں  گے منھ مانگی پائیں  گے

سرکار میں  نہ ’’لا‘‘ ہے نہ حاجت ’’اگر‘‘ کی ہے

منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دَین تھی:

سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی اس شان کی کچھ جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ

(1)…غارِ ثَور میں حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے توتاجدارِ رسالت صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن لگا کر زہر کا اثر دور کر دیا۔

(2)…غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت معوذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا کٹا ہوا بازو لے کے حاضر ہوئے توسیّد المرسَلین  صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے دہنِ اَقدس سے مبارک لعاب لگا کر اسے جوڑ دیا۔

(3)…غزوۂ اُحد میں  تیر لگنے سے حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ نکل گئی اور وہ اپنی نکلی ہوئی آنکھ لے  کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  میں  حاضر ہوگئے تو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے لعاب ِدہن لگا کر ان کی آنکھ کو درست کر دیا۔

(4)… غزوۂ خیبر کے موقع پرحضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے آشوبِ چشم کی شکایت کی تو نبی اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنالعابِ دہن لگا کر ان کی بیماری دور کر دی۔

(5)…اسی غزوہ کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی زخمی پنڈلی لے کر حاضر ہوئے تو رسولِ کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے لعابِ دہن سے اسے درست کر دیا۔

(6)…حضرت عبد اللّٰہ بن عتیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ لے کر بارگاہِ رسالت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں  حاضر ہوئے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنا دستِ اَقدس پھیرکر ان کی ٹانگ کو درست کر دیا۔

(7)…ایک موقع پرصحابہ ٔ کرام رَضِیَ  اللّٰہُ تَعَالیٰٰ عَنْہُمْ نے پانی ختم ہو جانے پر فریاد کی تو انگلیوں  سے پانی کے چشمے بہا دئیے۔

         یہ تو دُنْیَوی عطاؤں  کی چند مثالیں  بیان کی ہیں  اور اب اُخروی عطا کے بارے میں  سنئے،چنانچہ

(8)…حضرت ربیعہ اور حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے جنت مانگی تو اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے انہیں  جنت دے دی۔

(9)…کھجور کے ایک تنے نے عرض کی کہ مجھے جنت میں  بودیا جائے توسرکارعالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اسے جنت میں  بو دیا۔

         اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  صرف انسان ہی فریاد نہیں  کرتے تھے بلکہ جانور بھی اپنی فریادیں  عرض کر کے اپنی داد رَسی کرواتے تھے،چنانچہ

(10)…ایک اونٹ نے کام زیادہ ہونے اور چارہ کم ہونے کی فریاد کی توحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی داد رسی کر دی۔

(11)…ایک شکاری کی قید میں  موجود ہرنی نے بچوں  کو دودھ پلانے کے لئے جانے کی اِلتجاء کی تو حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی التجاء پوری کر دی۔

الغرض دو عالَم کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں  سوال کر کے اپنی منہ مانگی مرادیں  پانے والوں  کی اتنی مثالیں  موجود ہیں  کہ اگر ان سب کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

مالکِ کَونین ہیں  گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دوجہاں  کی نعمتیں  ہیں  ان کے خالی ہاتھ میں

اور فرماتے ہیں :

منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دَین تھی

دوری قبول و عرض میں  بس ہاتھ بھر کی ہے

         بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں  سائل سے طا لبِ علم مراد ہے لہٰذا اس کا اِکرام کرنا چاہیے اور جو اس کی حاجت ہو اسے پورا کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ تُرش روئی اور بدخُلقی سے نہیں  پیش آنا چاہئے۔( خازن، الضحی، تحت الآیۃ:۱۰، ۴ / ۳۸۸)

وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ } یہاں  نعمت سے مراد وہ نعمتیں  ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو عطا فرمائیں  اور وہ نعمتیں  بھی مراد ہیں  جن کا اللّٰہ تعالیٰ نے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے وعدہ فرمایا ہے اور نعمتوں  کا چرچا کرنے کا اس لئے حکم فرمایا کہ نعمت کو بیان کرنا شکر گزاری ہے۔( روح البیان، الضحی، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۵۹)

آیت’’ وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے تین باتیں  معلوم ہوئیں ۔

(1)… مسلمانوں  کو اپنی صورت و سیرت اسلامی رکھنی چاہیے کہ اس میں  اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم نعمت یعنی اسلام کا اظہار ہے۔

(2)… میلاد شریف ، گیارہویں شریف اور بزرگانِ دین کا عرس منانا بہترین اعمال ہیں  کہ یہ حضرات اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت ہیں  اور میلاد و عرس میں  حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ولادت اور اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کا چرچا ہے۔

(3)… حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نعت گوئی بہترین عبادت ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مبارک اوصاف ہمارے لئے بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں  ہیں  کیونکہ حضورِانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی شان کی بلندی سے امت کی شان بھی بلند ہوتی ہے تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے اوصاف وکمالات کا ذکر کرنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  کا چرچا کرنا ہے۔

Scroll to Top