سُوْرَۃُ الفَتْح

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَاِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا: بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔} اس آیت میں  صرف نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا ہے اور ا س کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک ہم نے آپ کے لئے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیاہے جو انتہائی عظیم ،روشن اور ظاہر ہے۔

شانِ نزول:حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :جب ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ سے لے کر ’’فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک آیات نازل ہوئیں  ا س وقت حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حدیبیہ سے واپس لوٹ رہے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بہت حزن وملال تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ میں  اونٹ نحر فرما دیا تھا، (جب یہ آیات نازل ہوئیں ) تو ارشاد فرمایا: ’’مجھ پرایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسّیر، باب صلح الحدیبیۃ فی الحدیبیۃ، ص۹۸۷، الحدیث: ۹۷(۱۷۸۶))

ترمذی شریف کی روایت میں  ہے،حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حدیبیہ سے واپسی پرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’ آج مجھ پرایسی آیت نازل ہوئی ہے جومجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں  سے زیادہ محبوب ہے ،پھرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کومبارک ہو،بیشک اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیاکہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے گالیکن (ابھی تک یہ بیان نہیں  فرمایا گیاکہ) ہمارے ساتھ کیاکیاجائے گا؟ پھرحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی:’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(فتح:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ وہ ایمان والے مردوں  اور ایمان والی عورتوں  کو ان باغوں  میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں  رہیں  گے اورتاکہ اللہ  ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں  بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)

صلح حدیبیہ کا مختصر واقعہ:

اس آیت میں  جس فتح کی بشارت دی گئی اس سے کون سی فتح مراد ہے ،اس کے بارے میں  مفسّرین کے مختلف اقوال ہیں ،اکثر مفسّرین کے نزدیک اس سے صلحِ حدیبیہ کی فتح مراد ہے ۔حدیبیہ مکہ ٔمکرمہ کے نزدیک ایک کنواں  ہے اور اس سارے واقعہ کا مختصرخلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ ٔمکرمہ میں  داخل ہوئے،ان میں  سے کوئی حلق کئے ہوئے اور کوئی قصر کئے ہوئے تھا ،نیز آپ کعبۂ معظمہ میں  داخل ہوئے، کعبہ کی چابی لی، طواف فرمایا اورعمرہ کیا۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اس خواب کی خبر دی تو سب خوش ہوئے۔ پھر حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور1400 صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ ذی القعدہ کی پہلی تاریخ،سن 6 ہجری کو روانہ ہوگئے اور ذوالحُلَیْفَہ میں  پہنچ کر وہاں  مسجد میں  دو رکعتیں  پڑھیں ، عمرہ کا احرام باندھا اور حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اکثرصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بھی احرام باندھا۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے جُحْفَہ سے احرام باندھا ۔راستے میں  پانی ختم ہوگیا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: لشکر میں  پانی بالکل باقی نہیں  ہے،صرف حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے برتن میں  تھوڑا ساپانی بچا ہے۔ حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے برتن میں  دستِ مبارک ڈالا تو مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جوش مارنے لگے، پھر سارے لشکر نے پانی پیا اوروضوکیا۔جب مقامِ عُسفان میں  پہنچے تو خبر آئی کہ کفارِ قریش بڑے سازو سامان کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہیں ۔ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو پھر پانی ختم ہوگیا حتی کہ لشکر والوں  کے پاس ایک قطرہ نہ رہا، اوپر سے گرمی بھی بہت شدید تھی۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کنوئیں  میں  کلی فرمائی تو اس کی برکت سے کنواں  پانی سے بھر گیا ،پھر سب نے وہ پانی پیا اور اونٹوں کو پلایا۔

یہاں  کفارِ قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کے لئے کئی شخص بھیجے گئے اور سب نے جا کر یہی بیان کیا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمرہ کے لئے تشریف لائے ہیں  ،جنگ کا ارادہ نہیں  ہے۔ لیکن انہیں  یقین نہ آیا توآخر کار انہوں نے عُرْوَہْ بن مسعود ثَقَفِی کو حقیقت حال جاننے کے لئے بھیجا،یہ طائف کے بڑے سردار اور عرب کے انتہائی مالدار شخص تھے ، اُنہوں  نے آکر دیکھا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  دستِ مبارک دھوتے ہیں  تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ تَبَرُّک کے طور پر غُسالَہ شریف حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔اگر کبھی لعابِ دہن ڈالتے ہیں  تو لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں  اور جس کو وہ حاصل ہوجاتا ہے وہ اپنے چہرے اور بدن پر برکت کے لئے مل لیتا ہے، جسمِ اقدس کا کوئی بال گرنے نہیں  پاتا اگر کبھی جدا ہوا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں  ،جب حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کلام فرماتے ہیں  تو سب خاموش ہوجاتے ہیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص اوپر کی طرف نظر نہیں  اُٹھا سکتا۔ عُروَہ نے قریش سے جا کر یہ سب حال بیان کیا اور کہا: میں  فارس ، روم اور مصر کے بادشاہوں  کے درباروں  میں  گیا ہوں ، میں  نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں  دیکھی جو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُن کے اصحاب میں  ہے ،مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابلے میں  کامیاب نہ ہوسکو گے۔ قریش نے کہا ایسی بات مت کہو، ہم اس سال انہیں  واپس کردیں  گے وہ اگلے سال آئیں ۔ عُروَہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں  کوئی مصیبت پہنچے گی۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہمراہیوں  کے ساتھ طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں  مشرف بہ اسلام کیا۔ اسی مقام پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بیعت لی، اسے ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں ۔ بیعت کی خبر سے کفار خوف زدہ ہوئے اور ان کے رائے دینے والوں  نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کرلیں ، چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور آئندہ سال حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں  کے حق میں  بہت نفع مند ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی، اسی لئے اکثر مفسّرین فتح سے صلحِ حدیبیہ مراد لیتے ہیں  اور بعض مفسّرین وہ تمام اسلامی فتوحات مراد لیتے ہیں جو آئندہ ہونے والی تھیں  جیسے مکہ، خیبر، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔اس صورت میں  یہاں  فتح کوماضی کے صیغہ سے اس لئے بیان کیاگیا کہ ان فتوحات کا وقوع یقینی تھا۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۴۴، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳-۷ جلالین مع صاوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۹۶۵-۱۹۶۶، ملتقطاً)

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا(2)وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارے اپنوں کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور اپنا انعام تم پر تمام کردے اور تمہیں سیدھی راہ دکھادے۔ اور اللہ تمہاری زبردست مدد فرمائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ: تاکہ اللہ  تمہارے صدقے تمہارے اپنوں  کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے۔} اس سے پہلی آیت میں  فرمایا گیا کہ’’ہم نے آپ کے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا‘‘اور اس آیت سے فتح کا فیصلہ فرما دینے کی عِلَّت بیان کی جا رہی ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کے لئے روشن فتح کا فیصلہ فرما دیا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے صدقے آپ کے اپنوں  کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور آپ کی بدولت امت کی مغفرت فرمائے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آیت ِمبارکہ کے اس حصے سے متعلق فتاویٰ رضویہ میں  بہت تفصیل سے کلام فرمایاہے ،اس میں  سے ایک جز کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’سورہِ فتح کی اس آیت ِکریمہ میں  موجود لفظ ’’لَکَ‘‘ میں  لام تعلیل کا ہے اور ’’مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ‘‘ سے مراد’’تمہارے اگلوں  کے گناہ‘‘ ہے اور اگلوں  سے میری مراد سیّدنا عبداللہ اورسیّدتنا آمنہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے لے کر نسب ِکریم کی انتہاء تک تمام آبائے کرام اور اُمّہاتِ طیّبات مراد ہیں،البتہ ان میں  سے جو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  جیسے حضرت آدم ،شیث،نوح،خلیل اور اسماعیل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، وہ اس سے مُستَثنیٰ ہیں ،اور ’’مَا تَاَخَّرَ‘‘ سے مراد’’تمہارے پچھلے‘‘ یعنی ’’قیامت تک تمہارے اہلِ بیت اور امتِ مرحومہ ‘‘مراد ہے،تو آیت ِکریمہ کا حاصل یہ ہوا کہ ہم نے تمہارے لیے فتح ِمبین فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے بخش دے تم سے تعلق رکھنے والے سب اگلوں  پچھلوں  کے گناہ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۱، ملخصاً)

نوٹ:اس آیت ِمبارکہ سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ، جلد29، صفحہ 394 تا 401 کا مطالعہ فرمائیں ۔

{وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ: اور اپنا انعام تم پر تمام کردے۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے فتح کا جو فیصلہ فرمایا اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی دُنْیَوی اور دینی نعمتیں  آپ پر تمام کردے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ کو رسالت کی تبلیغ اور ریاست میں  اصول و قوانین قائم کرنے میں سیدھی راہ دکھادے اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست مدد فرمائے اور دشمنوں  پر کامل غلبہ عطا فرمائے۔(بیضاوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۵ / ۲۰۰، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۱۴۵، ملتقطاً)

هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْؕ-وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں اطمینان اتارا تاکہ ان کے یقین پر یقین میں اضافہ ہو اورآسمانوں اور زمین کے تمام لشکراللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ: وہی ہے جس نے ایمان والوں  کے دلوں  میں  اطمینان اتارا۔} اس سے پہلی آیت میں  مدد فرمانے کا ذکر ہوا اور اس آیت میں  مدد کی صورت بیان کی جارہی ہیں  ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی صلح اور امن کے ذریعے ایمان والوں  کے دلوں  میں  اطمینان اتارا تاکہ ان کے یقین میں  مزید اضافہ ہو جائے اور عقیدہ راسخ ہونے کے باوجود نفس کو اطمینان حاصل ہو اور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے جنگ وغیرہ کے دوران ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یاد رکھو کہ آسمانوں  اور زمین کے تمام لشکر جیسے فرشتے اور ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی مِلک ہیں  اور وہ اس پر قادر ہے کہ جس سے چاہے اپنے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائے لیکن اس نے کسی اور کو مدد کرنے پر مُقرر نہیں  فرمایا بلکہ اے ایمان والو! تمہارے دلوں  میں  اطمینان اتارا تاکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد کرنا اور ان کے دشمنوں  کو ہلاک کرنا تمہارے ہاتھوں  سے ہو اور اس کی وجہ سے تمہیں  ثواب اور دشمنوں  کو عذاب ملے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ آسمانوں  اور زمینوں  کے تمام لشکروں  کا علم رکھنے والا اور ان کا انتظام فرمانے میں  حکمت والا ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۱۴۵-۱۴۶، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۱۴۱، ملتقطاً)

 عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا(5)وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِؕ-عَلَیْهِمْ دَآىٕرَةُ السَّوْءِۚ-وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ وہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ان میں رہیں گے اورتاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔ اور تاکہ وہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ پر براگمان کرتے ہیں بری گردش انہیں پر ہے اور اللہ نے اُن پر غضب فرمایا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار فرمائی اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ: تاکہ وہ ایمان والے مردوں  اور ایمان والی عورتوں  کو باغوں  میں داخل فرمادے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا اور ایمان والوں  کے دلوں  کو تسکین دی،اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ ایمان والے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  پر اس کا شکر ادا کریں  جس پر اللہ تعالیٰ انہیں  ثواب عطا فرمائے اورایمان والے مَردوں  اور عورتوں  کو ان باغوں  میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، وہ ہمیشہ ان میں  رہیں  گے ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ جنت میں  داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایمان والوں  کے ان گناہوں  کو مٹادے جو ان سے سرزَد ہوئے تاکہ وہ گناہوں  سے پاک اور صاف ہو کر جنت میں  داخل ہوں ، اور یہ جنت میں  داخل کیا جانا اور برائیوں  کا مٹا دیا جانا اللہ تعالیٰ کے یہاں  بڑی کامیابی ہے۔تیسری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کے منافق مَردوں  اورمنافقہ عورتوں  کو اور مکہ مکرمہ کے مُشرک مردوں  اور مشرکہ عورتوں  کو ان کے باطنی اور ظاہری کفر کی وجہ سے عذاب دے جو اللہ تعالیٰ پر بُراگمان کرتے ہیں  کہ وہ اپنے رسول، دو عالَم کے سردار محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر ایمان لانے والوں  کی مدد نہ فرمائے گا ۔ان کے بُرے گمان کا وبال عذاب اور ہلاکت کی صورت میں  انہیں  پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن پر غضب فرمایا اور ان پر لعنت کی اور آخرت میں  ان کے لیے جہنم تیار فرمائی اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔( خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۵ – ۶ ، ۴ / ۱۴۶، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۱۱۴۱، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۹ / ۱۴-۱۶، ملتقطاً)

لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا(5)وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِؕ-عَلَیْهِمْ دَآىٕرَةُ السَّوْءِۚ-وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ وہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ان میں رہیں گے اورتاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔ اور تاکہ وہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ پر براگمان کرتے ہیں بری گردش انہیں پر ہے اور اللہ نے اُن پر غضب فرمایا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار فرمائی اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ: تاکہ وہ ایمان والے مردوں  اور ایمان والی عورتوں  کو باغوں  میں داخل فرمادے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا اور ایمان والوں  کے دلوں  کو تسکین دی،اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ ایمان والے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  پر اس کا شکر ادا کریں  جس پر اللہ تعالیٰ انہیں  ثواب عطا فرمائے اورایمان والے مَردوں  اور عورتوں  کو ان باغوں  میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، وہ ہمیشہ ان میں  رہیں  گے ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ جنت میں  داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایمان والوں  کے ان گناہوں  کو مٹادے جو ان سے سرزَد ہوئے تاکہ وہ گناہوں  سے پاک اور صاف ہو کر جنت میں  داخل ہوں ، اور یہ جنت میں  داخل کیا جانا اور برائیوں  کا مٹا دیا جانا اللہ تعالیٰ کے یہاں  بڑی کامیابی ہے۔تیسری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کے منافق مَردوں  اورمنافقہ عورتوں  کو اور مکہ مکرمہ کے مُشرک مردوں  اور مشرکہ عورتوں  کو ان کے باطنی اور ظاہری کفر کی وجہ سے عذاب دے جو اللہ تعالیٰ پر بُراگمان کرتے ہیں  کہ وہ اپنے رسول، دو عالَم کے سردار محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر ایمان لانے والوں  کی مدد نہ فرمائے گا ۔ان کے بُرے گمان کا وبال عذاب اور ہلاکت کی صورت میں  انہیں  پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن پر غضب فرمایا اور ان پر لعنت کی اور آخرت میں  ان کے لیے جہنم تیار فرمائی اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔( خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۵ – ۶ ، ۴ / ۱۴۶، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۵-۶، ص۱۱۴۱، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۹ / ۱۴-۱۶، ملتقطاً)

وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکراللہ ہی کی ملکیت میں ہیں اور اللہ عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور آسمانوں  اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کی مِلکیَّت میں  ہیں ۔} بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ جب صلحِ حدیبیہ ہوگئی تو عبداللہ بن اُبی نے کہا: کیا محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ گمان کرتے ہیں  کہ جب انہوں  نے اہلِ مکہ سے صلح کر لی یا مکہ کوفتح کرلیا توان کاکوئی دشمن باقی نہیں  رہے گا(اگر ایسی بات ہے )تو فارس اورروم کدھرجائیں  گے ؟تب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیت ِمبارکہ نازل فرمائی کہ آسمانوں  اور زمین کے تمام لشکروں  کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ فارس و رُوم کے لشکروں  سے بہت زیادہ ہیں  اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ ان میں  سے جس لشکر کے ذریعے چاہے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان والوں  کے دشمن (اور اس)کی سازش کودور فرما دے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ غالب ہے تو اس کے عذاب کو کوئی دور نہیں  کر سکتا اور وہ اپنی تدبیر میں  حکمت والا ہے۔(قرطبی، الفتح، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۹۱، الجزء السادس عشر، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۱۴۱، ملتقطاً)

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ: بیشک ہم نے تمہیں  بھیجا۔} ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اَعمال اور اَحوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں  اور دنیا میں  ایمان والوں  اور اطاعت گزاروں  کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں ، نافرمانوں  کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کربھیجا ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۴۶)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں :بیشک ہم نے تمھیں  بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتاکہ جو تمھاری تعظیم کرے اُسے فضلِ عظیم کی بشارت دو اور جو مَعَاذَاللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذابِ اَلیم کا ڈر سناؤ، اور جب وہ شاہد وگواہ ہوئے اور شاہد کو مشاہدہ درکار، تو بہت مناسب ہواکہ امت کے تمام افعال واقوال واعمال واحوال اُن کے سامنے ہوں  (اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مرتبہ عطا فرمایاہے جیساکہ) طبرانی کی حدیث میں  حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ہے،  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  فرماتے ہیں : ’’اِنَّ اللہ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَاَنَا اَنْظُرُاِلَیْھَا وَاِلٰی مَاھُوَکَائِنٌ فِیْھَااِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلٰی کَفِّیْ ھٰذِہٖ‘‘بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے دنیا اٹھالی تومیں  دیکھ رہاہوں  اُسے اور جو اس میں  قیامت تک ہونے والا ہے جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہاہوں۔صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،(کنز العمال بحوالہ طبرانی ، کتاب الفضائل ، قسم الافعال ، الباب الاول ، ۶ / ۱۸۹ ، الجزء الحادی عشر ، الحدیث: ۳۱۹۶۸، فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۶۸)

لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شاہد،مُبَشِّر اور نذیر بنا کر بھیجنے کے گویا 3 مَقاصِد بیان فرمائے ہیں  ،پہلا مقصد یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں ،دوسرا مقصد یہ ہے کہ لوگ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر کریں ،تیسرا مقصد یہ ہے کہ لوگ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کریں ۔ پہلا مقصد تو واضح ہے جبکہ دوسرے مقصد کے بارے میں  بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں  کہ یہاں  آیت میں  تعظیم و توقیر کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے یعنی تم اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور توقیر کرو، البتہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر کرنا ہے۔ تیسرے مقصد کے بارے میں  مفسرین فرماتے ہیں  کہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے مراد اِن اوقات میں  ہر نقص و عیب سے اس کی پاکی بیان کرنا ہے، یا صبح کی تسبیح سے مراد نمازِ فجر اور شام کی تسبیح سے باقی چاروں  نمازیں  مراد ہیں ۔(مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۱۴۱، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۱۴۶-۱۴۷، ملتقطاً)

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کرنے والے کامیاب ہیں:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعدآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کرتے ہیں  ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(اعراف:۱۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں  اور اس کی تعظیم کریں  اور اس کی مدد کریں  اور اس نور کی پیروی کریں  جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

قرآن اور تعظیم ِحبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

دنیا کے شہنشاہوں  کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں  سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلا جاتاہے تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں  ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں  ادب واحترام کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں  اور نہ ہی مخلوق میں  سے کسی اور نے بنائے ہیں  بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اوراس کے دربار کے آداب تمام شہنشاہوں  کے شہنشاہ،تما م بادشاہوں  کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے رب تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں  اور بہت سے قوانین ایسے ہیں  جو کسی خاص وقت تک کیلئے نہیں  بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقرر فرمائے ہیں  اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِگرامی ہے ، جن کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور قرآنِ مجید میں  آپ کی تعظیم اور ادب کے باقاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ، یہاں  اس شہنشاہ کے ادب و تعظیم کے اَحکام پر مشتمل قرآنِ مجید کی 9آیات ملاحظہ ہوں  جن میںاللہ تعالیٰ نے متعدد اَحکام دئیے ہیں ،

(1)…حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بھی بلائیں  فورا ًان کی بارگاہ میں  حاضر ہو جاؤ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ‘‘(انفال:۲۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں  حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں  اس چیز کے لئے بلائیں  جو تمہیں  زندگی دیتی ہے۔

(2)…بارگاہِ رسالت میں  کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(مجادلہ:۱۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں  کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تم (اس پر قدرت)نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

         بعد میں  وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا۔

(3)…ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ پکارو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا‘‘(نور:۶۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں  ایسا نہ بنالو جیسے تم میں  سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

(4)…حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کی بارگاہ میں  زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘(حجرات:۲)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں  نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں  تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں  اور تمہیں  خبر نہ ہو۔

(5)…جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ،جیسا کہ لفظِ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘(بقرہ:۱۰۴)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں  اور پہلے ہی سے بغور سنو اور  کافروں  کے لئے دردناک عذاب ہے۔

(6)…کسی قول اور فعل میں  ان سے آگے نہ بڑھو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(حجرات:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

(7)…حُجروں  کے باہر سے پکارنے والوں  کو اللہ تعالیٰ نے بے عقل فرمایا اور انہیں  تعظیم کی تعلیم دی،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(حجرات:۴،  ۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں  کے باہر سے پکارتے ہیں  ان میں  اکثر بے عقل ہیں ۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں  تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھااور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(8)…رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر میں  اجازت کے بغیر نہ جاؤ اور وہاں  زیادہ دیر نہ بیٹھو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ-ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّؕ-وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا‘‘(احزاب:۵۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! نبی کے گھروں  میں  نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں  نہیں  کہ خود ہی اس کے پکنے کاانتظار کرتے رہو۔ ہاں  جب تمہیں  بلایا جائے تو داخل ہوجاؤ پھرجب کھانا کھا لوتو چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ باتوں  سے دل بہلاتے ہوئے بیٹھے رہو۔ بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں  شرماتا نہیں  اور جب تم نبی کی بیویوں  سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہرسے مانگو ۔ تمہارے دلوں اور ان کے دلوں  کیلئے یہ زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور تمہارے لئے ہرگز جائز نہیں  کہ رسولُ اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں  سے نکاح کرو ۔بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔

ان آیات میں  دئیے گئے اَحکام سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں  بھی ارشاد فرمائی ہیں  ،اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں  ہے ،جو لوگ اسے شرک کہتے ہیں  ان کا یہ کہنا مردود ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:

شرک ٹھہرے جس میں  تعظیمِ حبیب

اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجئے

صحابہ ٔکرام ا ور تعظیم ِمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ عظیم ہستیاں ہیں  جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس سے اللہ تعالیٰ کے وہ اَحکام سنے جن میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کرنے کا فرمایاگیا ہے،اسی لئے ان عالی شان ہستیوں  نے اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اور ان کی بابرکت بارگاہ کے اد ب و احترام کی انتہائی شاندار مثالیں  رقم کی ہیں  اور اگرچہ انہیں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت کا فیض بہت زیادہ حاصل تھا، یونہی یہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے انتہائی شدید محبت بھی کرتے تھے اس کے باوجود تعظیم و توقیر میں  کوتا ہی اور تقصیر کے کبھی مُرتکِب نہیں  ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم و توقیر میں  اضافہ ہی کرتے تھے ،جیسے تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بہترین اَلقاب کے ساتھ ، انتہائی عاجزی سے او ر آپ کے مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت کرتے ہوئے خطاب کرتے تھے اور جب کلام کرتے تو اس کی ابتداء میں  سلام کے بعد یوں  کہتے ’’فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے ماں  باپ بھی آپ پر فدا ہوں ،یایوں  کہتے ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘میری جان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نثار ہے۔

حضرت اسامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں  کہ میں  بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہو ا تو دیکھا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گرد اس طرح (ساکِن)بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں  پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔(شفاء، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل فی عادۃ الصحابۃ فی تعظیمہ… الخ، ص۳۸، الجزء الثانی)

یہ تو ان کی اجتماعی تعظیم کا حال تھا اب اِنفرادی تعظیم پر مشتمل دو واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے حدیبیہ کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو طوافِ کعبہ کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ’’مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہٖ رَسُوْلُ اللہصَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ‘‘میں  اس وقت تک طواف نہیں  کرسکتا جب تک کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طواف نہیں  کرتے۔( شفاء، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل فی عادۃ الصحابۃ فی تعظیمہ… الخ، ص۳۹، الجزء الثانی)

(2)…غَزْوَہِ خیبر سے واپسی میں  صہبا کے مقام پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نما زِ عصر پڑھی، اس کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے (کسی وجہ سے ابھی تک) نماز ِعصر نہ پڑھی تھی ،یہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے، مگر اس خیال سے کہ زانو سَرکا تا ہوں  تو کہیں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک نیند میں  خَلل نہ آجائے ، زانو نہ ہٹایا، یہاں  تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چشم ِمبارک کھلی تو حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا۔ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی توسورج پلٹ آیا، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے نمازِ عصر ادا کی، پھر سورج ڈوب گیا۔(شفاء،القسم الاول،الباب الرابع،فصل فی انشقاق القمر،ص۲۸۴،الجزء الاول،شواہدالنبوہ،رکن سادس،ص۲۲۰)

حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم کی خاطر عبادات میں  سے افضل عبادت نماز اور وہ بھی درمیانی نماز یعنی نمازِ عصرقربان کردی ،نیزہجرت کے موقع پر یار ِغار حضرت ابوبکر صدیق ِاکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو جاں  نثاری کی مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے اوران واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

مَولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خَطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں  جان اس پہ دے چکے

اور حفظِ جاں  تو جان فُروضِ غُرَر کی ہے

ہاں  تُو نے اُن کو جان اِنھیں  پھیر دی نماز

پَر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجْوَر کی ہے

الغرض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شاہکار تعظیم اور بے مثال ادب و احترام کیا کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ ان کے ادب و تعظیم کا صدقہ ہمیں  بھی حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

آیت ’’لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

اس آیت سے4 مسئلے معلوم ہوئے ،

(1)… تمام مخلوق پر حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت واجب ہے۔

(2)… ہمارا ایمان حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت و شہادت پر مَوقوف ہے نہ کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایمان۔

(3)… اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :معلوم ہوا کہ دین و ایمان مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کا نام ہے،جو ان کی تعظیم میں  کلام کرے اصلِ رسالت کو باطل وبیکار کیا چاہتا ہے۔(فتاوی رضویہ،۱۵ / ۱۶۸)

(4)… سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہروہ تعظیم جوخلاف ِشرع نہ ہو،کی جائے گی کیونکہ یہاں  تعظیم و توقیر کے لئے کسی قسم کی کوئی قید بیان نہیں  کی گئی،اب وہ چاہے کھڑے ہوکرصلوٰۃ و سلام پڑھناہویاکوئی دوسرا طریقہ۔

مسلمانوں  سے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ایک درخواست:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی ایک مشہور و معروف کتاب’’تمہید ِایمان‘‘ میں سورۂ فتح کی مذکورہ بالا دو آیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مسلمانوں  سے ایک درخواست کی ہے ،اس کی اہمیت کے پیش ِنظر یہاں  ا س کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

پیارے بھائیو!السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،اللہ تعالیٰ آپ سب حضرات کو اور آپ کے صدقے میں  اس ناچیز،کَثِیْرُ السَّیِّئاٰت کو دین ِحق پر قائم رکھے اور اپنے حبیب مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی محبت ،دل میں  سچی عظمت دے اور اسی پر ہم سب کا خاتمہ کرے ۔ اٰمِیْنْ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔

تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا‘‘(فتح: ۸،  ۹)

اے نبی! بے شک ہم نے تمہیں  بھیجا گواہ او رخوشخبری دیتا اور ڈر سناتا، تاکہ اے لوگو!تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو۔

مسلمانو! دیکھو دین ِاسلام بھیجنے ، قرآنِ مجید اتارنے کامقصود ہی تمہارے مولیٰ تبارک و تعالیٰ کاتین باتیں  بتانا ہے:

اول یہ کہ لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائیں  ۔

دوم یہ کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کریں  ۔

سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  رہیں ۔

مسلمانو!ان تینوں  جلیل باتوں  کی جمیل ترتیب تو دیکھو،سب میں  پہلے ایمان کوفرمایا اور سب میں  پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں  اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کو، اس لئے کہ بغیر ایمان، تعظیم بکار آمد نہیں ، بہتیر ے نصاری (یعنی بہت سے عیسائی ایسے) ہیں  کہ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفعِ اعتراضاتِ کافرانِ لئیم (یعنی کمینے کافروں  کے اعتراضات دور کرنے) میں تصنیفیں  کرچکے ،لکچر دے چکے مگر جبکہ ایمان نہ لائے کچھ مفید نہیں  کہ یہ ظاہری تعظیم ہوئی ،دل میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو ر ایمان لاتے، پھر جب تک نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سچی تعظیم نہ ہو عمر بھرعبادتِ الہٰی میں  گزارے سب بیکارو مردود ہے، بہتیرے (یعنی بہت سے) جوگی اور ر اہب ترکِ دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکرو عبادتِ الہٰی میں  عمرکاٹ دیتے ہیں  بلکہ ان میں  بہت وہ ہیں  کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ  کا ذکر سیکھتے اورضربیں  لگاتے ہیں  مگر اَزانجاکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم نہیں ،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل ِقبول بارگاہِ الہٰی نہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسوں  ہی کو فرماتا ہے:

’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)

جوکچھ اعمال انہوں  نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔

ایسوں  ہی کو فرماتا ہے:

’’عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ(۳) تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً‘‘(غاشیہ:۳،  ۴)

عمل کریں ، مشقتیں  بھریں  اوربدلہ کیاہوگایہ کہ بھڑکتی آگ میں  پیٹھیں  گے۔وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔

مسلمانو!کہو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم مدارِ ایمان ، مدارِنجات ،مدارِقبولِ اعمال ہوئی یا نہیں ، کہو ہوئے اور ضرورہوئے۔

         تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘(توبہ:۲۴)

اے نبی !تم فرمادوکہ اے لوگو!اگرتمہارے باپ ، تمھارے بیٹے ،تمھارے بھائی، تمھاری بیبیاں ،تمھارا کنبہ تمھاری کمائی کے مال او ر وہ سوداگری جس کے نقصان کا تمہیں  اندیشہ ہے اور تمھاری پسند کے مکان، ان میں  کوئی چیزبھی اگر تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں  کوشش کرنے سےزیادہ محبوب ہے تو انتظار رکھویہاں  تک کہ اللہ اپناعذاباتارے اور اللہ تعالیٰ بے حکموں  کو راہ نہیں  دیتا۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں  کوئی معزز،کوئی عزیز،کوئی مال،کوئی چیز، اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو وہ بارگاہِ الہٰی سے مردود ہے ، اُسے اللہ اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اُسے عذابِ الہٰی کے انتظار میں  رہنا چاہئے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ تَعَالٰی۔

تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: ’’ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وُلْدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنْ ‘‘ تم میں  کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں  اُسے اس کے ماں  باپ، او لاد اور سب آدمیوں  سے زیادہ پیارانہ ہوں ۔ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں  انس بن مالک انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے۔( بخاری،کتاب الایمان،باب حبّ الرّسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الایمان،۱ / ۱۷،الحدیث: ۱۵، مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب محبّۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)) اِس نے تو یہ بات صاف فرمادی کہ جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زیادہ کسی کو عزیز رکھے، ہرگزمسلمان نہیں ۔

مسلمانوکہو! مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام جہان سے زیادہ محبوب رکھنا مدارِ ایمان و مدارِنجات ہوایانہیں ۔ کہو ہوااور ضرور ہوا۔ یہاں  تک توسارے کلمہ گو خوشی خوشی قبول کرلیں  گے کہ ہاں  ہمارے دل میں  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِٖ وَسَلَّمَ کی عظیم عظمت ہے ۔ ہاں  ہاں  ماں  باپ اولاد سارے جہان سے زیادہ ہمیں  حضو ر کی محبت ہے۔ بھائیو!خدا ایسا ہی کرے مگرذرا کان لگا کر اپنے رب کا ارشادسنو۔

تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’الٓمّٓۚ(۱) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ‘‘(عنکبوت:۱، ۲)

کیا لوگ اس گھمنڈ میں  ہیں  کہ اتناکہہ لینے پر چھوڑدیئے جائیں  گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔

یہ آیت مسلمانوں  کو ہوشیار کررہی ہے کہ دیکھوکلمہ گوئی اور زبانی اِدِّعائے مسلمانی پرتمھارا چھٹکارا نہ ہوگا۔ ہاں  ہاں  سنتے ہو!آزمائے جاؤگے، آزمائش میں  پورے نکلے تو مسلمان ٹھہروگے ۔ہر شے کی آزمائش میں  یہی دیکھا جاتا ہے کہ جو باتیں  اس کے حقیقی واقعی ہونے کو درکار ہیں  وہ ا س میں  ہیں  یانہیں؟ ا بھی قرآن و حدیث ارشاد فرماچکے کہ ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کودوباتیں  ضرورہیں :

(1)… مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم ۔

(2)…اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبت کو تمام جہان پر تقدیم۔

تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں  سے کیسی ہی تعظیم، کتنی ہی عقیدت ، کتنی ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو، جیسے تمھارے باپ ،تمھارے استاد،تمہارے پیر ،تمھارے بھائی ، تمھارے اَحباب، تمھارے اَصحاب،تمھارے مولوی ،تمھارے حافظ،تمھارے مفتی ،تمھارے واعظ وغیر ہ وغیرہ کَسے باشَد ،جب وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شانِ اقدس میں  گستاخی کریں ، اصلاً تمہارے قلب میں  ان کی عظمت ان کی محبت کا نام ونشان نہ رہے فوراً ان سے الگ ہوجاؤ ،دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو، اُن کی صورت اُن کے نام سے نفرت کھاؤ، پھرنہ تم اپنے رشتے، علاقے، دوستی، اُلفت کا پاس کرو، نہ اس کی مَولَوِیَّت،شَیْخِیَّت، بزرگی ، فضیلت کو خطرے میں  لاؤ کہ آخر میں  یہ جو کچھ تھا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہی کی غلامی کی بنا ء پر تھا جب یہ شخص اُنھیں  کی شان میں  گستاخ ہوا پھرہمیں  اس سے کیا علاقہ رہا، اس کے جُبّے عمامے پر کیا جائیں  ، کیا بہتیرے (یعنی بہت سے) یہودی جبے نہیں  پہنتے؟ عمامے نہیں  باندھتے ؟ اس کے نام علم و ظاہری فضل کولے کر کیا کریں ، کیا بہتیر ے پادری ، بکثرت فلسفی بڑے بڑے علوم وفنون نہیں  جانتے اوراگر یہ نہیں  بلکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مقابل تم نے اس کی بات بنانی چاہی، اُس نے حضور سے گستاخی کی اور تم نے اس سے دوستی نباہی، یا اسے ہربرے سے بدتر برانہ جانا، یااسے براکہنے پر برامانا،یا اسی قد ر کہ تم نے اس امر میں  بے پرواہی منائی، یا تمہارے دل میں  اُس کی طرف سے سخت نفرت نہ آئی تو لِلّٰہ! اب تمھیں  انصاف کرلو کہ تم ایمان کے امتحان میں  کہاں  پاس ہوئے ،قرآن و حدیث نے جس پر حصولِ ایمان کا مدار رکھا تھا اس سے کتنی دورنکل گئے۔

مسلمانو!کیا جس کے دل میںمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم ہوگی وہ ان کے بدگو کی وقعت کرسکے گا اگر چہ اُس کا پیر یا استادیا پدرہی کیوں  نہ ہو ، کیا جسے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تمام جہان سے زیادہ پیارے ہوں  وہ ان کے گستاخ سے فوراًسخت شدید نفرت نہ کرے گااگر چہ اس کا دوست ،یابرادر، یا پِسر ہی کیوں  نہ ہو ، لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کرو اپنے رب کی بات سنو، دیکھو وہ کیوں  کر تمہیں  اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے، دیکھو رب عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:

’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(مجادلہ:۲۲)

تُو نہ پائے گا اُنہیں  جو ایمان لاتے ہیں  اللہ اورقیامت پر کہ اُن کے دل میں  ایسوں  کی محبت آنے پائے جنہوں  نے خداو رسول سے مخالفت کی، چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاعزیزہی کیوں  نہ ہوں ، یہ ہیں  وہ لوگ جن کے دلوں  میں  اللہ نے ایمان نقش کردیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مددفرمائی اور انہیں  باغوں  میں  لے جائیگا ،جن کے نیچے نہریں  بہہ رہی ہیں ، ہمیشہ رہیں  گے ان میں ، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہی لوگ اللہ والے ہیں  ۔ سنتا ہے اللہ والے ہی مراد کو پہنچے۔

اس آیت ِکریمہ میں  صاف فرمادیا کہ جو اللہ یا رسول کی جناب میں  گستاخی کرے،مسلمان اُس سے دوستی نہ کرے گا ، جس کا صریح مفاد ہوا کہ جو اس سے دوستی کرے گا وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اس حکم کا قطعاً عام ہونا بِالتَّصریح ارشاد فرمایا کہ باپ ،بیٹے ،بھائی ،عزیز سب کوگِنا یا یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں  مُعَظَّم یا کیسا ہی تمھیں  بِالطَّبع محبوب ہو، ایمان ہے تو گستاخی کے بعد اُس سے محبت نہیں  رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں  مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ مَولٰی سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھامگردیکھو وہ تمہیں  اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں  کا لالچ دلاتا ہے کہ اگر اللہ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا، کسی سے علاقہ نہ رکھا تو تمہیں  کیا کیا فائدے حاصل ہوں  گے۔

(1)…اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں  میں  ایمان نقش کردے گا ،جس میں  اِنْ شَآءَاللہ تَعَالٰی حسن ِخاتمہ کی بشارتِ جلیلہ ہے کہ اللہ کا لکھا نہیں  مٹتا۔

(2)…اللہ تعالیٰ رُوح القدُس سے تمہاری مددفرمائے گا۔

(3)…تمہیں  ہمیشگی کی جنتوں  میں  لے جائے گاجن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں  ۔

(4)…تم خدا کے گروہ کہلاؤگے ، خدا والے ہوجاؤگے۔

(5)…منہ مانگی مرادیں  پاؤگے بلکہ امید و خیال و گمان سے کروڑوں  درجے افزوں ۔

(6)…سب سے زیادہ یہ کہ اللہ  تم سے راضی ہوگا۔

(7)…یہ کہ فرماتاہے’’میں  تم سے راضی تم مجھ سے راضی ‘‘بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا’’اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے راضی ۔

مسلمانو!خدا لگتی کہنا :اگر آدمی کروڑجانیں  رکھتا ہو اور وہ سب کی سب ان عظیم دولتوں  پر نثار کردے تو وَاللہ کہ مفت پائیں ، پھرزیدوعَمْرْوْ سے علاقۂ تعظیم و محبت،یک لَخت قطع کردینا کتنی بڑی بات ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ ان بے بہا نعمتوں  کا وعدہ فرمارہاہے اور اس کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۳۰۷-۳۱۲)

نوٹ:مذکورہ بالا کلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مشہوررسالے ’’تَمْہِیْدِ اِیْمَان بَآیَاتِ قُرْآن‘‘ سے نقل کیا ہے ،یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ کی 30ویں  جلد میں  موجود ہے اور جداگانہ بھی چَھپا ہوا ہے،ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس رسالے کا ضرور مطالعہ کرے ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جولوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے تو جس نے عہد توڑا تو وہ اپنی جان کے خلاف ہی عہد توڑتا ہے اور جس نے اللہ سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو بہت جلد اللہ اسے عظیم ثواب دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ: بیشک جولوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں  وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور ا س کے مَقاصِد بیان ہوئے اور اس آیت میں  یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیعت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کی ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک جولوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں  وہ تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں  کیونکہ رسول سے بیعت کرنا اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرنا ہے جیسے کہ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جن ہاتھوں  سے انہوں  نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیعت کا شرف حاصل کیا ،ان پر اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت ہے تو جس نے عہد توڑا اور بیعت کو پورا نہ کیا وہ اپنی جان کے خلاف ہی عہد توڑتا ہے کیونکہ اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اسے عظیم ثواب دے گا۔( تفسیرکبیر، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۷۳، جلالین، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۲۳-۴۲۴، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۴۲، ملتقطاً)

          نوٹ:اس آیت میں جس بیعت کا ذکر کیا گیا ا س کے بارے میں  مفسرین فرماتے ہیں  کہ اس سے مراد وہ بیعت ہے جوحُدَیْبِیَہ کے مقام پر حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے لی تھی اور یہ بیعت ’’بیعت ِرضوان‘‘ کے نام سے مشہورہے ۔اس بیعت کاواقعہ اسی سورت کی آیت نمبر18کی تفسیر میں  مذکور ہے۔

آیت ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس سے 5 مسئلے معلوم ہوئے

(1)… حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ایسا قرب حاصل ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیعت اللہ تعالیٰ سے بیعت ہے ۔

(2)… بیعت ِرضوان والے تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بڑی ہی شان والے ہیں ۔

(3)… حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بڑی شان والے ہیں  کہ یہ بیعت انہیں  کی وجہ سے ہوئی۔

(4)… بزرگوں  کے ہاتھ پر بیعت کرناصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی سنت ہے ، خواہ بیعت ِاسلام ہو یا بیعتِ تقویٰ، یا بیعت ِتوبہ، یا بیعت ِاعمال وغیرہ۔

(5)… بیعت کے وقت مصافحہ بھی سنت سے ثابت ہے،البتہ عورتوں  کوکلام کے ذریعے بیعت کیاجائے کیونکہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی بیعت کے لیے کسی غیر مَحرم عورت کے ساتھ مصافحہ نہیں  کیا۔

سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَاۚ-یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًاؕ-بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(11)بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ ۚۖ-وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا(12)وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

پیچھے رہ جانے والے دیہاتی اب تم سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھاتو اب آپ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کردیں ، وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ تم فرماؤ اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچاناچاہے یا وہ تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اللہ کے مقابلے میں کون تمہارے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہے؟ بلکہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ بلکہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز کبھی اپنے گھر والوں کی طرف واپس نہ آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں بڑی خوبصورت بنادی گئی تھی اور تم نے (یہ) بہت برا گمان کیاتھا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول پرایمان نہ لائے تو بیشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ: پیچھے رہ جانے والے دیہاتی اب تم سے کہیں  گے۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبِیَہ کے سال عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ فرمایا تو مدینہ منورہ سے قریبی گاؤں  والے اور دیہاتی جن کا تعلق غِفار،مزینہ،جہینہ،اشجع اور اسلم قبیلے سے تھا، کفارِ قریش کے خوف سے آپ کے ساتھ نہ گئے حالانکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے جس سے صاف ظاہر تھا کہ جنگ کا ارادہ نہیں  ہے، پھر بھی بہت سے دیہاتیوں  پر جانا بھاری ہوا اور وہ کام کا بہانہ بنا کر وہیں  رہ گئے اور حقیقت میں  ان کا گمان یہ تھا کہ قریش بہت طاقتور ہیں  ،ا س لئے مسلمان ان سے بچ کر نہ آئیں  گے بلکہ سب وہیں  ہلاک ہوجائیں  گے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ان دیہاتیوں  کے بارے میں  خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی مدد سے معاملہ ان دیہاتیوں  کے خیال کے بالکل خلاف ہوا ہے(اور جب ا س کی خبر پہنچے گی تو) انہیں  آپ کے ساتھ نہ جانے پر افسوس ہو گااورجب آپ واپس جائیں  گے اور پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں  پر عتاب فرمائیں  گے تو وہ معذرت کرتے ہوئے آپ سے کہیں  گے: ہمیں  ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں  نے مشغول رکھا کیونکہ عورتیں  اور بچے اکیلے تھے اور کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ تھا ، اس لئے ہم آپ کے ساتھ جانے سے قاصر رہے، تو اب آپ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کردیں  تاکہ اللہ  تعالیٰ ہمارے اس قصور کو معاف کر دے جو ہم نے آپ کے ساتھ نہ جا کر کیا۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ لوگ عذر پیش کرنے اور مغفرت طلب کرنے میں  جھوٹے ہیں  کیونکہ وہ اپنی زبانوں  سے ایسی بات کہتے ہیں  جو ان کے دلوں  میں  نہیں  ہے اور انہیں  اس بات کی کوئی پرواہ نہیں  کہ آپ ان کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں  یا نہیں  (اور جب یہ لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کریں  تو) ان سے فرما دیں :اگر اللہ تعالیٰ تمہیں  نقصان پہنچاناچاہے یا وہ تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  کون تمہارے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہارے مال و اولاد پر آفت آنے والی ہوتی تو تم یہاں  رہ کر وہ آفت دور نہ کردیتے اور اگر نہ آنے والی ہوتی تو تمہارے جانے سے وہ ہلاک نہ ہوجاتے، پھر تم کیوں  ایسی نعمت ِعُظْمیٰ یعنی بیعت ِرضوان سے محروم رہے (اور تم یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تمہارے ا س جھوٹ کی خبر نہیں ) بلکہ یاد رکھو: اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں  سے خبردار ہے ( اور ا س نے وحی کے ذریعے مجھے یہ بتا دیا ہے کہ تمہاری غیر حاضری کی وجہ وہ نہیں  جو تم بیان کر رہے ہو) بلکہ اے منافقو! اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمان ہرگز کبھی اپنے گھر والوں  کی طرف واپس نہ آئیں  گے اوردشمن ان سب کا وہیں  خاتمہ کردیں  گے اور شیطان کی طرف سے یہ بات تمہارے دلوں  میں  بڑی خوبصورت بنادی گئی تھی یہاں  تک کہ تم نے اس پر یقین کر لیا اور یہ گمان کر لیا کہ کفر غالب آئے گا،اسلام مغلوب ہو جائے گا او راللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہوگا اور اس گمان کی وجہ سے تم ہلاک ہونے والے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق لوگ تھے۔( مدارک،الفتح،تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۱۴۲-۱۱۴۳، بغوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۱۷۳، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۱۴۷-۱۴۸، ملتقطاً)

             آیت نمبر12 سے معلوم ہوا کہ اس سفر میں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جانے والے 1400 حضرات سب کامل مومن ہیں  کہ اللہ  تعالیٰ نے انہیں  ’’مومنون‘‘ فرمایا ہے، اب جو بد بخت ان میں  سے کسی کے ایمان میں  شک کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

{وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اور جو اللہ اور اس کے رسول پرایمان نہ لائے۔} اس آیت میں  یہ بتایا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے اور ان میں  سے کسی ایک کا بھی منکر ہو، وہ کافر ہے اوراپنے کفر کی وجہ سے اس بھڑکتی آگ کا مستحق ہے جو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے تیار کر رکھی ہے۔

وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے ، جس کی چاہے مغفرت فرمائے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور آسمانوں  اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے۔} بیعت کرنے والوں  اوربُرے گمان کرنے والوں  کا حال بیان کرنے کے بعد یہا ں  ارشاد فرمایا جا رہاہے کہ آسمانوں  اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ان میں  جیسے چاہے تَصَرُّف فرمائے اور جس کی یہ شان ہے وہ اپنی مَشِیَّت کے مطابق جس کی چاہے مغفرت فرمائے اور جسے چاہے عذاب دے اور (اس کی مغفرت و رحمت عذاب کے مقابلے میں  زیادہ ہے جیسا کہ آیت کے آخر میں  یہ ارشاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ) اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۱۴۸ملتقطاً)

مغفرت اور عذاب سے متعلق 4 باتیں  :

            یہاں  مغفرت اور عذاب سے متعلق4 باتیں  یاد رکھیں :

(1)… گناہگار مسلمان کی مغفرت فرما دینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اوراسے عذاب دینا اس کا عدل ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عدل پر اعتراض کر کے ا س میں  دخل اندازی کرے ۔

(2)…اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے اور عذاب کے مقابلے میں  مغفرت زیادہ ہے لیکن ا س کی وجہ سے نیک اعمال چھوڑ دینا اور نافرمانیوں  میں  مبتلا ہو جانا بہت بڑی نادانی ہے ۔

(3)… اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر صحیح طریقے سے ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں  کے مطابق عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل ہونے کے اہم ترین ذرائع اور اسباب ہیں  ،انہیں  اختیار کرنے کے بعد اس کے فضل کی امید رکھنی چاہئے اور ا س کے عدل سے ڈرنا چاہئے ۔

(4)…جو لوگ کافر ہیں  اور کسی صورت اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لانے پر تیار نہیں  اور وہ اسی حال میں  مر جاتے ہیں ، یونہی جو شخص زندگی میں  مسلمان رہا لیکن اس کا خاتمہ ایمان پر نہ ہوا ، ان کی مغفرت کی کوئی صورت ہی نہیں  ہے اور یہ لوگ ہمیشہ کے لئے جہنم میں  ہی جائیں  گے۔ لہٰذا کافرتو دین ِاسلام میں  داخل ہو جائیں  اور ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرے۔

سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْۚ-یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِؕ-قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُۚ-فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَاؕ-بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب تم غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف چلو گے توپیچھے رہ جانے والے کہیں گے : ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے دو۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں۔ تم فرماؤ: ہرگز ہمارے پیچھے نہ آؤ۔ اللہ نے پہلے سے اسی طرح فرمادیاہے، تو اب کہیں گے: بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ وہ منافق بہت تھوڑی بات سمجھتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ: پیچھے رہ جانے والے کہیں  گے۔} جب مسلمان حُدَیْبِیَہ کی صلح سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے خیبر کی فتح کا وعدہ فرمایا اور وہاں  سے حاصل ہونے والے غنیمت کے اَموال حدیبیہ میں  حاضر ہونے والوں  کے لئے خاص کر دئیے گئے ، جب خیبر کی طرف روانہ ہونے کا وقت آیا تو مسلمانوں  کو یہ خبر دی گئی کہ جو لوگ حدیبیہ میں  حاضر نہیں  ہوئے وہ غنیمت کے لالچ میں  تمہارے ساتھ جانا چاہیں  گے اور تم سے کہیں  گے :ہم بھی تمہارے ساتھ خیبر چلیں  اور جنگ میں شریک ہوں ۔یہ لوگ چاہتے ہیں  کہ اللہ  تعالیٰ نے حدیبیہ میں  شرکت کرنے والوں  کے ساتھ جو وعدہ فرمایا کہ خیبر کی غنیمت ان کے لئے خاص ہے ،اسے بدل دیں  ۔ آپ ان سے فرما دینا کہ تم ہمارے پیچھے ہر گز نہ آؤ ، اللہ تعالیٰ نے ہمارے مدینہ منورہ آنے سے پہلے یونہی فرمادیاہے کہ غزوۂ خیبر میں  وہی شریک ہوں  گے اور اس کی غنیمتیں  انہیں  ہی ملیں  گی جنہوں  نے حدیبیہ میں  شرکت کی تھی (اور ہم تمہیں  اپنے ساتھ آنے کی اجازت دے کر ا س حکم کی خلاف ورزی نہیں  کر سکتے) یہ جواب سن کر وہ (صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے) کہیں  گے: ایسی بات نہیں  ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ہم سے حسد کرتے ہو اور یہ گوارا نہیں  کرتے کہ ہم تمہارے ساتھ غنیمت کا مال پائیں ۔ (صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  تو حسد کا شائبہ تک نہیں ) بلکہ وہ منافق دین کی بہت تھوڑی بات سمجھتے ہیں  اور ان کا حال یہ ہے کہ محض دنیا کی بات سمجھتے ہیں  ، حتّٰی کہ ان کا زبانی اِقرار بھی دنیا ہی کی غرض سے تھا اور آخرت کے اُمور کو بالکل نہیں  سمجھتے۔( بغوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۷۴، جمل، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۵، ۷ / ۲۱۶-۲۱۷، ملتقطاً)

            یہاں  فتحِ خیبر اور اس سے حاصل ہونے والی غنیمت کی تقسیم سے متعلق مزید دو باتیں  ملاحظہ ہوں :

(1)… صلحِ حدیبیہ 6ہجری میں  ہوئی اور فتحِ خیبر7ہجر ی میں ، خیبر نہایت آسانی سے فتح ہو گیا اور وہاں  مسلمانوں  کو بہت غنیمتیں  ملیں  ۔

(2)…حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  اپنے ساتھیوں  کے ہمراہ جنگ ِخیبر کے موقعہ پر حبشہ سے پہنچے تو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں بھی غنیمت سے حصہ دیا، یہ عطیہ سلطانی تھا ، لہٰذا ا س عطا کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کوئی اعتراض نہیں  کیا جا سکتا۔

قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَۚ-فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًاۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے فرماؤ: عنقریب تمہیں ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلایا جائے گا تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے پھر اگر تم فرمانبرداری کروگے تو اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گاا ور اگر پھر وگے جیسے تم اس سے پہلے پھر گئے تھے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ: پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں  سے فرماؤ۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ حکم دیا کہ وہ حدیبیہ میں  شریک نہ ہونے والے دیہاتیوں  کو جنگِ خیبر میں  اپنے ساتھ آنے سے منع کر دیں  اور ان دیہاتیوں  کا حال یہ تھا کہ ان کا تعلق مختلف قبائل سے تھا اور ان میں  بعض ایسے بھی تھے جن کے تائب ہونے کی امید تھی اور بعض ایسے بھی تھے جو نفاق میں  بہت پختہ اور سخت تھے، اللہ تعالیٰ کو انہیں  آزمائش میں  ڈالنا منظور ہوا تاکہ توبہ کرنے والے اور نہ کرنے والے میں  فرق ہوجائے، اس لئے حکم ہوا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دیہاتیوں  سے فرمادیجئے :عنقریب تمہیں  ایک سخت لڑائی کرنے والی قوم کی طرف بلایا جائے گا تاکہ تم ان سے جنگ کرو یا وہ لوگ مسلمان ہوجائیں  ، پھر اگر تم بلانے والے کی فرمانبرداری کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں  دنیا میں  غنیمت اور آخرت میں  جنت کی صورت میں اچھا اجر دے گاا ور اگر فرمانبرداری کرنے سے پھر وگے جیسے تم اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر پھر گئے تھے تو وہ تمہیں  آخرت میں  درد ناک عذاب دے گا۔

            سخت لڑائی والی قوم سے کون لوگ مراد ہیں  ،ان کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ،ان میں  سے دو قول درج ذیل ہیں :

 (1)… ان سے یمامہ کے رہائشی بنو حنیفہ مراد ہیں  جو کہ مُسیلمہ کذّاب کی قوم کے لوگ ہیں  اور ان سے جنگ کرنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعوت دی۔حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!ہم اس آیت کوپہلے پڑھتے تھے اورہمیں معلوم نہیں  تھاکہ اس جنگجوقوم سے کون سی قوم مراد ہے، حتّٰی کہ حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمیں  بنوحنیفہ کے خلاف جنگ کی دعوت دی، تب ہمیں  پتہ چلاکہ اس جنگجوقوم سے مرادبنوحنیفہ ہیں ۔

(2)… ان سے مراد فارس اور رُوم کے لوگ ہیں  جن سے جنگ کرنے کیلئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعوت دی۔( خازن ، الفتح ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۱۴۹-۱۵۰، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۴۳-۱۱۴۴، قرطبی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۹۵-۱۹۶، الجزء السادس عشر، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۹ / ۳۰-۳۲، ملتقطاً)

 حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافت صحیح ہونے کی دلیل:

            یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خلافت صحیح ہونے کی دلیل ہے ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ (اس آیت کے نزول کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ میں  کسی جہاد کے لئے ان دیہاتیوں  کو دعوت نہیں  دی گئی ،آپ کے وصالِ ظاہری کے بعد) حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے زمانہ میں  مُرتدوں  اور کافروں  کے خلاف جہاد ہوئے اور ان جہادوں  میں  شرکت کی دعوت دی گئی (اس سے معلوم ہوا کہ جنگجو قوم کے خلاف لڑائی کی دعوت دینے والا برحق امام ہے)۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کی اطاعت پر جنت کا اور ان کی مخالفت پر جہنم کا وعدہ دیا گیا (جس سے معلوم ہوا کہ ان کی اطاعت کرنا اور مخالفت نہ کرنا لازم تھا اور یہ حکم بھی برحق امام کیلئے ہے)۔(خازن، الفتح، تحت الآیۃ:۱۶، ۴ / ۱۴۹، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۱۴۳، قرطبی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۹۵-۱۹۶، الجزء السادس عشر، ملتقطاً)

لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِیْمًا(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اندھے پر کوئی تنگی نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی مضائقہ اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تواللہ اسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جو پھرے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ: اندھے پر کوئی تنگی نہیں ۔} شانِ نزول: جب اوپر کی آیت نازل ہوئی تو جو لوگ اپاہج اورمعذور تھے انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا کیا حال ہوگا؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور فرمایاگیا :جہاد سے رہ جانے کی صورت میں اندھے پر کوئی تنگی نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی مضائقہ اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے کہ یہ عذر ظاہر ہے اور ان کے لئے جہاد میں حاضر نہ ہوناجائز ہے کیونکہ نہ یہ لوگ دشمن پر حملہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ، نہ اس کے حملہ سے بچنے اور بھاگنے کی۔

یاد رہے کہ انہیں کے حکم میں وہ بوڑھے اورضعیف افراد بھی داخل ہیں جنہیں نشست و برخاست کی طاقت نہیں ، اسی طرح وہ بیمار بھی داخل ہیں جنہیں دمہ کھانسی ہے، یا جن کی تلّی بہت بڑھ گئی ہے اورانہیں چلنا ، پھرنا دشوار ہے، ظاہر ہے کہ یہ عذر جہاد سے روکنے والے ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی اَعذار ہیں جن کے ہوتے ہوئے جہاد میں شرکت نہ کرنا جائز ہے مثلاً  انتہاء درجہ کی محتاجی اور سفر کے لئے درکار ضروری چیزوں پر قدرت نہ رکھنا ،یا ایسی ضروری مشغولیات جو سفر سے مانع ہوں ، جیسے کسی ایسے مریض کی خدمت میں مصروف ہے جس کی خدمت کرنا اس پر لازم ہے اور اس کے سوا کوئی اس خدمت کو انجام دینے والا نہیں ہے ۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۵۰)

{وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے۔} اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے۔ ارشاد فرمایاکہ جو شخص جہاد اور ا س کے علاوہ دیگر احکام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانے گا تو(اس کی جزا کے طور پر) اللہ تعالیٰ اسے ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جو اطاعت سے اِعراض کرے گا اور کفر و نفاق پر ہی قائم رہے گا تو (اس کی سزا کے طور پر) اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں دردناک عذاب دے گا۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۵۰)

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کررہے تھے تو اللہ کووہ معلوم تھا جو ان کے دلوں میں تھا تو اس نے ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ: بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا۔} حُدَیْبِیَہ میں حاضر ہونے سے پیچھے رہ جانے والوں کے اَحوال بیان کرنے کے بعد یہاں سے دوبارہ حدیبیہ میں شرکت کرنے والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ حدیبیہ کے مقام پر درخت کے نیچے تمہاری بیعت کررہے تھے اور جس چیز پر بیعت کر رہے تھے اس سے متعلق ان کے دلوں میں موجود صدق،اخلاص اور وفا سب اللہ تعالیٰ کومعلوم تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے  والی فتح کا انعام دیا۔اس سے خیبر کی فتح مراد ہے جو کہ حدیبیہ سے واپس آنے کے چھ ماہ بعد حاصل ہوئی۔(تفسیرکبیر، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۰ / ۷۹، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۱۵۰-۱۵۱، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۱۴۴، ملتقطاً)

بیعت ِرضوان اور اس کا سبب :

حُدَیْبِیَہ کے مقام پر جن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بیعت کی انہیں چونکہ رضائے الٰہی کی بشارت دی گئی، اس لئے اس بیعت کو’’ بیعت ِرضوان‘‘ کہتے ہیں ۔ اس بیعت کا ظاہری سبب یہ پیش آیا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ سے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اَشراف ِقریش کے پاس مکہ مکرمہ بھیجا تاکہ انہیں اس بات کی خبر دیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَیْتُ اللہ کی زیارت کے لئے عمرہ کے ارادے سے تشریف لائے ہیں اور آپ کا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں ہے اوراِن سے یہ بھی فرمادیا تھا کہ جو کمزور مسلمان وہاں ہیں اُنہیں اطمینان دلادیں کہ مکہ مکرمہ عنقریب فتح ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب فرمائے گا ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سردارانِ قریش کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں خبر دی۔ قریش اس بات پر مُتّفق رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سال تو تشریف نہ لائیں اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ اگر آپ کعبہ مُعَظَّمہ کا طواف کرنا چاہیں تو کرلیں ۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بغیرطواف کروں ۔اِدھر حدیبیہ میں موجود مسلمانوں نے کہا:حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بڑے خوش نصیب ہیں جو کعبہ مُعَظَّمہ پہنچے اور طواف سے مُشَرّف ہوئے۔ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ وہ ہمارے بغیر طواف نہ کریں گے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق مکہ مکر مہ کے کمزور مسلمانوں کو فتح کی بشارت بھی پہنچائی ،پھر قریش نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو روک لیا اور حدیبیہ میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کردیئے گئے ہیں ۔اس پر مسلمانوں کو بہت جوش آیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کفار کے مقابلے میں جہاد پر ثابت قدم رہنے کی بیعت لی ،یہ بیعت ایک بڑے خار دار درخت کے نیچے ہوئی جسے عرب میں  ’’سَمُرَہ‘‘ کہتے  ہیں۔  حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا بایاں دست ِمبارک دائیں دست ِاَقدس میں لیا اور فرمایا کہ یہ عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیعت ہے اور دعا فرمائی : یا رب! عَزَّوَجَلَّ، عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تیرے اور تیرے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کام میں ہیں ۔

ا س واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نورِ نبوت سے معلوم تھا کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شہید نہیں ہوئے جبھی تو ان کی بیعت لی۔ مشرکین اس بیعت کا حال سن کر خوفزدہ ہوئے اور انہوں نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھیج دیا۔(خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۱۵۰-۱۵۱، خزائن العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۴۳)

بیعت ِرضوان میں شرکت کرنے والے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت:

اس بیعت میں جن صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے شرکت فرمائی ،ا ن کی ایک فضیلت تو اسی آیت ِپاک میں بیان ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر اپنی رضاسے نوازا اور دوسری فضیلت حدیث ِپاک میں  بیان ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی اُن میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہ ہوگا۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل من بایع تحت الشجرۃ، ۵ / ۴۶۲، الحدیث: ۳۸۸۶)

آیت ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

ا س آیت سے 4 مسئلے معلوم ہوئے

(1)… بیعت ِرضوان میں  شرکت کرنے والے سارے ہی مخلص مومن ہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  کسی تخصیص کے بغیرمومن فرمایا۔

(2)…یہ بیعت کرنے والے تمام حضرات سے اللہ تعالیٰ خاص طور پر راضی ہو چکا ہے۔

(3)… اس خصوصی رضا کا سبب یہ بیعت ہے کہ ارشاد ہوا ’’ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ‘‘ جب وہ تمہاری بیعت کررہے تھے۔

(4)…بیعت ایمان کے سوا اعمال وغیرہ پر بھی ہونی چاہیے۔

وَّ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّاْخُذُوْنَهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ لیں گے اور اللہ عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً یَّاْخُذُوْنَهَا: اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ لیں گے۔} یعنی حدیبیہ میں شرکت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دُنْیَوی انعام کے طور پر ’’خیبر کی فتح ‘‘ عطا فرمائے گا اور اس فتح میں  غنیمت کے طور پر خیبر والوں کے بہت سے اَموال بھی عطا فرمائے گا جنہیں وہ لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ ا س کی قدرت و غلبہ کامل ہے اور وہ تمہاری مدد سے بے نیاز ہے اور کامل حکمت والا ہے ، اسی لئے اس نے اپنے دشمنوں کو تمہارے ہاتھوں سے ہلاک کروایا تاکہ تمہیں ثواب ملے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۱۵۱، تفسیرکبیر، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۷۹-۸۰، ملتقطاً)

یاد رہے کہ خیبر کا علاقہ بڑا زرخیز تھا اور یہاں عمدہ کھجوریں بکثرت پیدا ہوتی تھیں اور یہاں کے یہودی مالدار بھی بہت تھے،جب خیبر فتح ہوا تو ان کے اَموال رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں تقسیم فرمائے۔

وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْۚ-وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کاوعدہ کیا ہے جو تم حاصل کرو گے تو تمہیں یہ جلد عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تاکہ ایمان والوں کے لیے نشانی ہو اور تاکہ وہ تمہیں سیدھا راستہ دکھائے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً: اور اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں  کاوعدہ کیا ہے۔} یعنی اے حدیبیہ میں  شرکت کرنے والو!اللہ تعالیٰ نے تم سے خیبر کے علاوہ بھی بہت سے اموالِ غنیمت کاوعدہ کیا ہے جنہیں  تم آئندہ فتوحات کے ذریعے حاصل کرتے رہو گے ، تو سرِ دست تمہیں  یہ خیبر کی غنیمت عطا فرمادی اور لوگوں  کے ہاتھ تم سے روک دئیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خیبر والوں  کے ہاتھ مسلمانوں  سے روک دئیے (کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں  میں  رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ کثیر تعداد اور حربی قوت ہونے کے باوجود مسلمانوں  پر فتح حاصل نہ کر سکے ،)یا یہ مراد ہے کہ مسلمانوں  کے اہل و عیال سے لوگوں  کے ہاتھ روک دئیے کہ وہ خوفزدہ ہو کرانہیں  نقصان نہ پہنچاسکے۔ اس کا واقعہ یہ ہوا کہ جب مسلمان جنگ ِخیبر کے لئے روانہ ہوئے تو خیبر والوں  کے حلیف بنی اسدوغطفان نے چاہا کہ مسلمانوں  کے پیچھے مدینہ طیبہ پر حملہ کرکے ان کے اہل و عیال کو لوٹ لیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں  میں  ایسارعب ڈالا کہ انہیں  ا س کی ہمت ہی نہ ہوئی۔( جلالین مع صاوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۹۷۴-۱۹۷۵، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۵۱، ملتقطاً)

{وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ: اور تاکہ ایمان والوں  کے لیے نشانی ہو۔} یعنی یہ غنیمت دینااور دشمنوں کے ہاتھ روک دینا اس لئے کیا تاکہ یہ ایمان والوں  کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کی نشانی ہو اور وہ اپنی آنکھوں  سے بھی دیکھ لیں  کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  جو غیب کی خبر دی وہ سچی ہے اور تاکہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنے رب پر توکُّل کرنے اور اپنے کام اس کے سپرد کردینے کاسیدھا راستہ دکھائے جس سے بصیرت اور یقین زیادہ ہو۔( روح البیان ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۰ ، ۹ / ۳۶ ، جلالین مع صاوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۹۷۵، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۱۵۱، ملتقطا)

            اس سے معلوم ہوا کہ صلحِ حدیبیہ میں  حاضر ہونے والے مومنین ہدایت پر تھے اور ہدایت پر رہے، ان میں  سے کوئی ہدایت سے نہ ہٹا توجو اس کا انکار کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور دوسری غنیمتوں کا (بھی وعدہ فرمایا ہے) جن پر تمہیں قدرت نہیں ، انہیں اللہ نے گھیر رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهَا: اور دوسری غنیمتوں کا جن پر تمہیں قدرت نہیں ۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک اور علاقے کی فتح اور ا س سے حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت کا تم سے وعدہ فرمایاہے جسے فتح کرنے پر تمہیں قدرت نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے انہیں  گھیر رکھا ہے تاکہ تم ان پر فتح و غنیمت حاصل کرو۔

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: اس علاقے سے فارس اور رُوم مراد ہے، اہلِ عرب ان سے جنگ کرنے پر قادر نہ تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین ِاسلام سے مُشَرّف فرمایا اور اس کی برکت سے عرب والوں کو اہلِ فارس اور رُوم سے جنگ کرنے کی قدرت عطا فرما دی ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں :اس سے خیبر مراد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے پہلے سے وعدہ فرمایا تھا اور مسلمانوں کو کامیابی کی اُمید نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے فتحِ مکہ مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے ہر وہ فتح مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمائی۔(خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۵۴)

وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر کافر تم سے لڑیں گے تو ضرور تمہارے مقابلہ سے پیٹھ پھیردیں گے پھر وہ کوئی حمایتی اور مددگار نہ پائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور اگر کافر تم سے لڑیں گے۔} یعنی اہلِ مکہ اگر صلح کرنے کی بجائے جنگ کرتے یا اہلِ خیبرکے حلیف قبیلہ اسد اورقبیلہ غطفان کے لوگ تم سے جنگ کرنے کی ہمت کریں تویہ لوگ تمہارے مقابلے میں ضرور پیٹھ پھیرکربھاگ جا ئیں گے ،تم ہی ان پر غالب آؤ گے اور انہیں شکست ہو گی،پھر وہ اپناکوئی حمایتی اور مددگارنہ پائیں گے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۵۴، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۱۴۵، ملتقطاً)بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر اب بھی مسلمان صحیح مسلمان ہو کر یعنی صحیح طریقے سے اسلامی احکام پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جنگ کریں تو بدر و حُنَین  کے نظارے نظر آسکتے ہیں ۔

سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۚۖ-وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کا دستور ہے جو پہلے لوگوں میں گزرچکا ہے اور تم ہرگزاللہ کے دستورمیں تبدیلی نہ پاؤ گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ: اللہ کا دستور ہے جو پہلے لوگوں میں گزرچکا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا دستور  ہے کہ وہ ایمان والوں کی مددفرماتا اورکافروں پرقہرفرماتاہے جیسا کہ گزشتہ امتوں کے حالات سے ظاہر ہے اور تم ہرگز اللہ تعالیٰ کے اس دستورمیں تبدیلی نہ پاؤ گے،یعنی یہ کبھی نہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں ایمان والوں کی مدد  بلاوجہ نہ فرمائے، اگر کبھی مسلمان شکست کھا جائیں تو یا ان کی اپنی غلطی ہو گی یا اس میں اللہ تعالیٰ کی خا ص حکمت ہو گی اور  یہ شکست بھی عارضی ہو گی۔اس سے معلوم ہوا کہ بہت دفعہ مسلمانوں کا مغلوب ہو جانا اس آیت کے خلاف نہیں ہے اور کافروں کے غلبے کو بنیاد بنا کر اس آیت پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔

وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے وادیٔ مکہ میں کافروں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے حالانکہ اللہ نے تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ: اور وہی ہے جس نے کافروں  کے ہاتھ تم سے روک دئیے۔} ارشاد فرمایا: اللہ وہی ہے جس نے وادیٔ مکہ میں کافروں کے ہاتھ تم سے( لڑائی کرنے سے) روک دئیے اور تمہارے ہاتھ ان کافروں (کو قتل کرنے )سے روک دئیے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کافروں پر قابو دے دیا تھا( اور تم انہیں آسانی سے قتل کر سکتے تھے،اگر تم انہیں قتل کر دیتے تو دونوں طرف سے لڑائی چھڑ جاتی اور اس لڑائی میں اگرچہ مسلمان ہی غالب آتے لیکن اس موقع پر یہ مسلمانوں کے حق زیادہ مفید نہ ہوتی ،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جنگ کا سبب پیدا ہی نہ ہونے دیا) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھتا ہے۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ معاملہ فتحِ مکہ کے دن ہوا اور اسی سے امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ صلح سے نہیں بلکہ قوت سے فتح ہوا تھا اور بعض مفسرین کے نزدیک صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ایسا ہوا۔( مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۱۴۵)

اور اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اہلِ مکہ میں سے80 ہتھیار بند جوان جبلِ تنعیم سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے ارادہ سے اُترے ،مسلمانوں نے انہیں گرفتار کرکے سرکارِ  دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضرکر دیا حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے معاف فرمایا اور چھوڑ دیا،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( در منثور، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۴، ۷ / ۵۲۷، خزائن العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۹۴۴)

هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْهَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّهٗؕ-وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـطَــٴُـوْهُمْ فَتُصِیْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍۚ-لِیُدْخِلَ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُۚ-لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجدحرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو (روکا) اس حال میں کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ پہنچنے سے رُکے ہوئے تھے اور اگر (مکہ میں) کچھ مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں نہ ہوتے جن کی تمہیں خبر نہیں (اور یہ بات نہ ہوتی) کہ تم انہیں روند ڈالو گے پھر تمہیں ان کی طرف سے لاعلمی میں کوئی ناپسندیدہ بات پہنچے گی(تو ہم تمہیں کفارِ مکہ سے جہاد کی اجازت دیدیتے۔ ان کا یہ بچاؤ) اس لیے ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرتاہے جسے چاہتا ہے۔ اگر مسلمان (وہاں سے)ہٹ جاتے تو ہم ضرور ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب دیتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: وہ وہی لوگ ہیں  جنہوں  نے کفر کیا۔} یعنی کفار ِمکہ وہی لوگ ہیں  جنہوں  نے کفر کیا اور تمہیں  حدیبیہ کے مقام پر مسجدِحرام تک پہنچنے اور کعبہ مُعَظَّمہ کا طواف کرنے سے روکا اور قربانی کے جانوروں  کو حرم میں  موجود اس مقام پر پہنچنے سے روکا جہاں  انہیں  ذبح کیا جانا تھااور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں  مکہ مکرمہ میں  موجود ہیں  جنہیں  تم پہچانتے نہیں  اور کہیں  ایسا نہ ہو کہ اپنے حملے میں تم انہیں  بھی روند ڈالو،پھر تمہیں  اس پر افسوس ہو کہ تم نے اپنے ہاتھوں  اپنے مسلمان بھائیوں  کو شہید کردیا، اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم تمہیں  اہلِ مکہ سے جہاد کی اجازت دیدیتے لیکن مسلمان مَردوں ،عورتوں  کی مکہ میں  موجودگی کی وجہ سے ابھی تک مکہ کے کافروں  کی بھی بچت ہورہی ہے اور ان کا یہ بچاؤ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں  داخل کرتاہے ۔ اگر مسلمان کافروں  سے ممتاز ہو جاتے تو اس وقت ہم ضرور اہلِ مکہ میں  سے کافروں  کو تمہارے ہاتھ سے قتل کراکے اور تمہاری قید میں  لا کر دردناک عذاب دیتے۔( خازن،الفتح،تحت الآیۃ:۲۵،۴ / ۱۵۹-۱۶۰، جلالین مع صاوی،الفتح،تحت الآیۃ: ۲۵، ۵ / ۱۹۷۸-۱۹۷۹، ملتقطاً)

 نیک بندوں  کے طفیل بدکاروں  سے عذاب ٹل جاتا ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک بندوں  کے طفیل بدکاروں  سے عذاب ٹل جاتا ہے جیسے آیت میں  مسلمانوں  کی وجہ سے کافروں  سے عذاب کے مُؤخّر ہونے کا تذکرہ ہے اور یہ معاملہ صرف دنیا میں  نہیں  بلکہ مسلمان گناہگاروں  کے حق میں  قبر و آخرت میں  بھی نیکوں  کے قرب کی برکتیں  ہوتی ہیں ،اسی مناسبت سے یہاں  ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :میں  نے حضرت میاں  صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ، کو فرماتے سنا:ایک جگہ کوئی قبر کھل گئی اور مردہ نظر آنے لگا ۔ دیکھا کہ گلاب کی دو شاخیں  اس کے بد ن سے لپٹی ہیں  اور گلاب کے دو پھول اس کے نتھنوں  پر رکھے ہیں  ۔ اس کے عزیزوں  نے اِس خیال سے کہ یہاں  قبر پانی کے صدمہ سے کھل گئی، دوسری جگہ قبر کھود کر اس میں  رکھیں ، اب جو دیکھیں  تو دو اژدھے اس کے بدن سے لپٹے اپنے پَھنوں  سے اس کا منہ بھموڑ رہے ہیں ، حیران ہوئے ۔ کسی صاحبِ دل سے یہ واقعہ بیان کیا ، انہوں  نے فرمایا : وہاں  بھی یہ اژدھا ہی تھے مگر ایک وَلِیُّ اللہ کے مزار کا قرب تھا اس کی برکت سے وہ عذاب رحمت ہوگیا تھا، وہ اژدھے درخت ِگُل کی شکل ہوگئے تھے اور ان کے پَھن گلاب کے پھول۔ اِس کی خیریت چاہو تو وہیں  لے جاکر دفن کرو ۔ وہیں  لے جاکر رکھا پھر وہی درختِ گل تھے اور وہی گلاب کے پھول ۔( ملفوظات اعلیٰ حضرت،حصہ دوم، ص۲۷۰)

اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

۔ (اے حبیب! یاد کریں )جب کافروں نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت کی ہٹ دھرمی جیسی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں پر اتارا اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم فرمادیا اورمسلمان اس کلمہ کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ: جب کافروں  نے اپنے دلوں  میں  زمانۂ جاہلِیَّت کی ہٹ دھرمی جیسی ہٹ دھرمی رکھی۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ وقت یاد کریں جب کافروں  نے اپنے دلوں  میں  زمانۂ جاہلِیَّت کی ہٹ دھرمی جیسی ضد رکھی کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو مکے میں  داخل ہونے اور کعبہ مُعَظَّمہ کا طواف کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں  پر اتارا جس کی برکت سے اُنہوں نے آئندہ سال آنے پر صلح کی، اگر وہ بھی کفارِ قریش کی طرح ضد کرتے تو ضرور جنگ ہوجاتی اور پرہیزگاری کا کلمہ ایمان والوں  پر لازم فرمادیا اور کافروں  کے مقابلے میں  مسلمان اس کلمہ کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنے دین اور اپنے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت سے مُشَرَّف فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ کافروں  کا حال بھی جانتا ہے اور مسلمانوں  کی بھی کوئی چیز اس سے مَخفی نہیں ۔(روح البیان ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۶ ، ۹ / ۴۹-۵۰ ، جلالین ، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۲۵، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۱۶۰، ملتقطاً)

پرہیز گاری کا کلمہ:

             اس آیت میں  بیان ہواکہ اللہ تعالیٰ نے حُدَیْبِیَہ میں  شریک صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر پرہیزگاری کا کلمہ لازم فرمادیا،اس کلمے سے مراد ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ ہے اور اسے ’’تقویٰ‘‘ کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا کہ یہ تقویٰ و پرہیزگاری حاصل ہونے کا سبب ہے۔( جلالین، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۲۵)

            حضر ت حمران رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، (حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے) فرمایا: میں  نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا’’ بے شک میں  وہ کلمہ جانتاہوں  جسے کوئی بندہ دل سے حق سمجھ کرکہتاہے تواللہ تعالیٰ اسے آگ پرحرام قرار دے دیتا ہے، تو (یہ سن کر) حضرت عمربن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:میں  تمہیں  بتاتاہوں  کہ وہ کون ساہے ،وہ کلمہ اخلاص ہے جواللہ تعالیٰ نے نبی ٔرحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اَصحاب پرلازم کیاہے اوروہی پرہیز گاری کا کلمہ ہے جس کی ترغیب اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچاابوطالب کوموت کے وقت دلائی،اوروہ اس بات کی شہادت دیناہے کہ اللہ  تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں  ۔( درمنثور، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۵۳۶)

آیت ’’فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

 (1)…حدیبیہ میں  شریک تمام حضرات مخلص مومن تھے، کیونکہ آیت میں  مذکور سکینہ سب پر اتر ا،تو اگر وہ بیعت ِ رضوان والے حضرات مومن نہ تھے تو پھر دنیا میں  مومن کون ہے؟

(2)… پرہیز گاری کا کلمہ یعنی ایمان اور اخلاص ان سے جدا ہو ہی نہیں  سکتا، اس میں  ان سب کے حسنِ خاتمہ کی یقینی خبر ہے کہ ان صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے دنیا میں  ،وفات کے وقت ،قبر میں  اور حشر میں  تقویٰ جدا نہ ہو سکے گا۔

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّۚ-لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَۙ-مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَۙ-لَا تَخَافُوْنَؕ-فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ نے اپنے رسول کا سچا خواب سچ کردیا ۔ اگر اللہ چاہے توتم ضرور مسجد حرام میں امن و امان سے داخل ہوگے، کچھ اپنے سروں کے بال منڈاتے ہوئے اور کچھ بال ترشواتے ہوئے ،تمہیں کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔ تو اللہ کو وہ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں تو اس نے مکے میں داخلے سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّ: بیشک اللہ نے اپنے رسول کا سچا خواب سچ کردیا۔} شانِ نزول: رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبِیَہ کا قصد فرمانے سے پہلے مدینہ طیبہ میں  خواب دیکھا تھا کہ آپ اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ مکہ مُعَظَّمہ میں  امن سے داخل ہوئے اور اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  سے بعض نے سر کے بال منڈائے اوربعض نے ترشوائے ۔یہ خواب آپ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بیان فرمایا تو انہیں  خوشی ہوئی اور انہوں نے خیال کیا کہ اسی سال وہ مکہ مکرمہ میں  داخل ہوں  گے۔ جب مسلمان حدیبیہ سے صلح کے بعد واپس ہوئے اور اس سال مکہ مکرمہ میں  ان کا داخلہ نہ ہوا تو منافقین نے مذاق اڑایا، طعنے دئیے اور کہا :اس خواب کا کیا ہوا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس خواب کے مضمون کی تصدیق فرمائی کہ ضرور ایسا ہوگا، چنانچہ اگلے سال ایسا ہی ہوا اور مسلمان اگلے سال بڑی شان و شوکت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں  فاتحانہ داخل ہوئے۔

            آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سچا خواب سچ کردیا، اگر اللہ تعالیٰ چاہے توتم ضرور مسجد ِحرام میں  امن و امان سے داخل ہوگے، کچھ اپنے سروں  کے تمام بال منڈاتے ہوئے اور کچھ تھوڑے سے بال ترشواتے ہوئے ،تمہیں  کسی دشمن کا ڈر نہیں  ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو وہ معلوم ہے جو تمہیں  معلوم نہیں  یعنی یہ کہ تمہارا داخل ہونا اگلے سال ہے اور تم اسی سال سمجھے تھے اور تمہارے لئے تاخیر بہتر تھی کہ اس کے باعث وہاں  کے ضعیف مسلمان پامال ہونے سے بچ گئے تو اس نے مکے میں  داخلے سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی ہے کہ جس فتح کا وعدہ کیا گیا اس کے حاصل ہونے تک مسلمانوں  کے دل اس سے راحت پائیں ۔ نزدیک آنے والی فتح سے مراد خیبر کی فتح ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۱۶۱، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۱۴۶-۱۱۴۷، ملتقطاً)

 آیت ’’ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والے حصے سے دو مسئلے معلوم ہوئے:

(1)… کبھی سارے حرم شریف کو مسجد ِحرام کہہ دیتے ہیں ،یہاں  ایساہی ہے کیونکہ خاص مسجد حرام شریف میں  حاجی بال نہیں  منڈاتے۔

(2)… حج وغیرہ میں  بال منڈانا کتروانے سے افضل ہے کیونکہ یہاں  اللہ تعالیٰ نے پہلے بال منڈانے کا ذکر فرمایا ہے۔

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاﭤ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی (اللہ ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔} جب اگلا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خواب کا جلوہ دکھلایا اور واقعات اس کے مطابق رونُما ہوئے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے :وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں  پر غالب کردے خواہ وہ مشرکین کے دین ہوں  یا اہل ِکتاب کے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا فرمائی اور اسلام کو تمام اَدیان پر غالب فرمادیا۔آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر گواہ کافی ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۱۶۱، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۱۴۷، ملتقطاً)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کی وحدانیَّت کی گواہی دینا رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے اور حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دینا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ، کلمہ طیبہ میں  دونوں  سنتیں  جمع ہیں۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ-ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْــٴَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ-وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں ۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا ،اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں ، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے ۔یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔ (ان کی صفت ایسے ہے) جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی پھر اسے طاقت دی پھر وہ موٹی ہوگئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کسانوں کو اچھی لگتی ہے (اللہ نے مسلمانوں کی یہ شان اس لئے بڑھائی) تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔ اللہ نے ان میں سے ایمان والوں اور اچھے کام کرنے والوں سے بخشش اور بڑے ثواب کاوعدہ فرمایا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ: محمد اللہ کے رسول ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کروائی کہ’’اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ‘‘ اور اس آیت  میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اگرچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفات بہت ہیں ، لیکن رب تعالیٰ نے انہیں  یہاں  رسالت کی صفت سے یاد فرمایا اور کلمہ میں  بھی یہ ہی وصف رکھا،دو وجہ سے ، ایک یہ کہ حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا تعلق رب (عَزَّوَجَلَّ) سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی۔رسول میں  ان دونوں  تعلقوں  کا ذکر ہے یعنی خدا کے بھیجے ہوئے اور مخلوق کی طرف بھیجے ہوئے ۔اگرچہ نبی میں  بھی یہ بات حاصل ہے لیکن نبی میں  صرف خبر لاناہے اور رسول میں  (شریعت و کتاب) خبر،ہدایات اور انعامات سب لانے کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے اس لئے کہ و ہ بچھڑوں  کو ملانے والے رسول ہی ہوتے ہیں ، جیسے ڈاک کا محکمہ کہ اگر یہ نہ ہوں  تو وہ ملک اور وہ شہر کٹ جاویں ، اسی طرح خالق و مخلوق میں  تعلق پیدا کرنے والے رسول ہی ہیں  کہ اگر ان کا واسطہ درمیان میں  نہ ہو تو خالق و مخلوق میں  کوئی تعلق نہ رہے، حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے رسول ہیں  کہ اُس کی نعمتیں  ہم تک پہنچاتے ہیں  اور ہمارے رسول ہیں  کہ ہماری درخواستیں  بارگاہِ رب میں  پیش فرماتے ہیں  اور ہمارے گناہ وہاں  پیش کر کے معاف کراتے ہیں ،جو کہے کہ ہم خود رب (عَزَّوَجَلَّ) تک پہنچ جائیں  گے وہ درپردہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رسالت کا منکر ہے،اگر ہم وہاں  خود پہنچ جاتے تو رسول کی کیا ضرورت تھی، رب (عَزَّوَجَلَّ) غنی ہو کر بغیر واسطہ ہم سے تعلق نہیں  رکھتا تو ہم محتاج اور ضعیف ہو کر (واسطے کے بغیر) رب تعالیٰ سے تعلق کیسے رکھ سکتے ہیں ۔( شان حبیب الرحمٰن، ص ۲۱۸)

{وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ: اور ان کے ساتھ والے کافروں  پر سخت ، آپس میں  نرم دل ہیں ۔} آیت کے اس حصے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اَوصاف بیان فرما کر ان کی پہچان کروائی ہے ،چنانچہ ارشادفرمایا کہ جو لوگ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہیں  وہ کافروں  پر سخت ہیں  اور ایک دوسرے پر مہربان ہیں۔

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی کافروں  پر سختی:

انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دشمنوں  سے نفرت کرتا اور ان پر سختی کرتا ہے اور اس میں  بھی جس کی محبت جتنی زیادہ ہو ا س کی اپنے محبوب کے دشمن سے نفرت اور سختی بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور یہ چیزاس کے عشق و محبت کی علامات میں  سے ایک اہم علامت شمار کی جاتی ہے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں  ہیں  جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عشق و محبت بے مثال اور لا زوال ہے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِگرامی انہیں  اپنے مال ،اولاد ،اہل و عیال حتّٰی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب اور عزیز تھی اور اسی بے انتہاء عشق و محبت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں  یعنی کفار سے سخت نفرت کرتے اور ان پر انتہائی سختی فرمایا کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں  ان کے ایک وصف کے طور پر بیان فرمایاہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ کافروں  پر سخت ہیں  ۔‘‘

عمومی طور پر تما م صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہی کافروں پر سختی فرمایا کرتے تھے البتہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس معاملے میں  سب سے زیادہ مشہور تھے ،حتّٰی کہ شیطان جیسا بدترین کافر بھی آپ کی سختی سے ڈرتا تھا، یہاں  آپ کی اس سیرت سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ ملاحظہ ہو،

(1) …غزوہ ٔبدر کے بعدآپ نے یہ رائے پیش کی کہ سارے کافر قیدی قتل کر دئیے جائیں  اورآپ کی اس رائے کی تائید میں  قرآنِ مجید کی آیات نازل ہوئیں ۔

(2)…بشر نامی منافق نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے قتل کر دیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہ فیصلہ ہے ۔

(3)…جب منافقوں  کا سردار عبداللہ بن اُبی مر گیا تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے یہ تھی اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے اور اس کی قبر پر نہ جایا جائے، اس کی تائید میں  بھی قرآنِ مجید کی آیت نازل ہوئی ۔

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی باہمی نرم دلی:

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں  کے ساتھ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سلوک کا حال بیان ہوا اور اب اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کامل محبت کرنے والوں  کے باہمی سلوک کا حال ملاحظہ ہو،چنانچہ ان کا یہ وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آپس میں  نرم دل ہیں ۔صحابہ ٔکرامرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپس میں  ایسے نرم دل اورایک دوسر ے کے ساتھ ایسے محبت و مہربانی کرنے والے تھے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے اور ان کی یہ ایمانی محبت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جب ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دوسرے کو دیکھتے تو فرطِ محبت سے مصافحہ اورمعانقہ کرتے۔

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی اس سیرت میں  دیگر مسلمانوں  کے لئے بھی نصیحت ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے اور اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئے بلکہ شفقت و نرمی سے پیش آئے اوراس کے ساتھ مہربانی بھرا سلوک کرے ۔حدیثِ پاک میں  ہے کہ تم مسلمانوں  کو آپس کی رحمت ،باہمی محبت اور مہربانی میں  ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب ایک عُضْوْ بیمار ہوجائے تو سارے جسم کے اَعضاء بے خوابی اور بخار کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ النّاس والبہائم، ۴ / ۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱)اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو آپس میں  شفقت و نرمی سے پیش آنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا: تُو انہیں  رکوع کرتے ہوئے ،سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا۔} یعنی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کثرت سے اور پابندی کے ساتھ نمازیں  پڑھتے ہیں  اسی لئے کبھی تم انہیں  رکوع کرتے اور کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے اوراس قدر عبادت سے ان کامقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنا ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۶۲، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۹ / ۵۷، ملتقطاً)

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عبادت کا حال:

صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں  ہیں  جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت سے فیضیاب فرمایا اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی خود تربیت فرمائی جس کی برکت سے یہ حضرات نیک کاموں  میں  مصروف رہتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں  خوب کوشش کیا کرتے تھے، یہاں  بطورِ خاص نماز کے حوالے سے ان کی کوشش،جذبے اور عمل سے متعلق7واقعات ملاحظہ ہوں

(1)…جب نماز کا وقت ہوتا تو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایاکرتے :اے لوگو! اٹھو، (گناہوں  کی) جو آگ تم نے جلا رکھی ہے اسے (نماز ادا کر کے) بجھا دو(کیونکہ نماز گناہوں  کی آگ بجھا دیتی ہے)۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، الباب الاول، فضیلۃ المکتوبۃ، ۱ / ۲۰۱)

(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :اگر تین چیزیں  نہ ہوتیں (یعنی)اگر میں  اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی پیشانی کو(سجدے میں )نہ رکھتا،یاایسی مجلسوں میں  نہ بیٹھتا جن میں  اچھی باتیں  اس طرح چنی جاتی ہیں  جیسے عمدہ کھجوریں چنی جاتی ہیں  یاراہِ خدا میں  سفر نہ کرتا تو میں  ضرور اللہ تعالیٰ سے ملاقات (یعنی وفات پا جانے) کو پسند کرتا۔( حلیۃ الاولیاء، عمر بن الخطاب، ۱ / ۸۷، الحدیث: ۱۳۰)

(3)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (ممنوع اَیّام کے علاوہ) مسلسل روزہ رکھا کرتے اور رات کے ابتدائی حصے میں  کچھ دیر آرام کرتے پھر ساری رات عبادت میں  بسر کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع… الخ، من کان یامر بقیام اللیل، ۲ / ۱۷۳، الحدیث: ۶)

(4)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ فرماتی ہیں :آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ساری رات عبادت کرتے اور (بسا اوقات)ایک رکعت میں  قرآنِ مجید ختم فرمایا کرتے تھے۔( معجم الکبیر، سن عثمان ووفاتہ رضی اللّٰہ عنہ، ۱ / ۸۷، الحدیث:۱۳۰)

(5)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں  مروی ہے کہ جب نماز کا وقت ہوجاتا تو آپ پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا،آپ سے عرض کی گئی:اے امیر المومنین!آپ کو کیا ہو گیا؟ارشاد فرمایا: ’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں  پر پیش کیا تو انہوں  نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسے اٹھانے سے ڈر گئے۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الصلاۃ ومہماتہا، فضیلۃ الخشوع، ۱ / ۲۰۶)

(6)…حضرت نافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  رات میں  نماز پڑھتے، پھر فرماتے :اے نافع!کیا سحری کا وقت ہو گیا؟وہ عرض کرتے:نہیں ،تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ نماز پڑھنا شروع کر دیتے، پھر (جب نماز سے فارغ ہوتے تو) فرماتیـ:اے نافع!کیا سحری کا وقت ہو گیا؟میں  عرض کرتا:جی ہاں ،تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیٹھ کر استغفار اور دعا میں  مصروف ہو جاتے یہاں  تک کہ صبح ہو جاتی۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہما، ۱۲ / ۲۶۰، الحدیث: ۱۳۰۴۳)

(7)…جب قبیلہ بنو حارث کے لوگ حضرت خبیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنے کے لئے مقامِ تنعیم کی طرف لے گئے تواس وقت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا: مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔انہوں  نے اجازت دیدی تو آپ نے نماز ادا کرنے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’اللہ تعالیٰ کی قسم!اگرتم یہ گمان نہ کرتے کہ میں  موت سے ڈر کر لمبی نماز پڑھ رہا ہو ں  تو میں  ضرور نماز کو طویل کردیتا۔ (سیرت نبویہ لابن ہشام، ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث، ص۳۷۱،  ملخصاً)

اللہ تعالیٰ ان عظیم ہستیوں  کی مقبول نمازوں  کے صدقے ہمیں  بھی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

{سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ: ان کی علامت ان کے چہروں  میں سجدوں  کے نشان سے ہے۔} یعنی ان کی عبادت کی علامت ان کے چہروں  میں  سجدوں  کے اثر سے ظاہر ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ علامت وہ نور ہے جو قیامت کے دن اُن کے چہروں  سے تاباں  ہوگا اور اس سے پہچانے جائیں  گے کہ انہوں نے دنیا میں  اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے بہت سجدے کئے ہیں ۔بعض مفسرین فرماتے ہیں  کہ وہ علامت یہ ہے کہ ان کے چہروں  میں  سجدے کا مقام چودھویں  رات کے چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہوگا۔حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ رات کی لمبی نمازوں  سے اُن کے چہروں  پر نور نمایاں  ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے: جو رات میں  کثرت سے نماز پڑھتا ہے تو صبح کو اس کا چہرہ خوب صورت ہوجاتا ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرد کا نشان بھی سجدہ کی علامت ہے۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۶۲، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸، ملتقطا)

{ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ: یہ ان کی صفت توریت میں  ہے اور ان کی صفت انجیل میں  ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ توریت اور انجیل میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بیان کردہ یہ اوصاف مذکور ہیں  اور خاص طور پر وہ مثا ل مذکور ہے جو آگے بیان ہو رہی ہے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہاں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ توریت میں  مذکور ہیں  اور انجیل میں  مذکور ہے کہ ان کی مثال ایسے ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقت دی، پھر وہ موٹی ہوگئی ،پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی اوران چیزوں  کی وجہ سے وہ کسانوں  کو اچھی لگتی ہے۔

مفسرین فرماتے ہیں  کہ یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تنہا اُٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تَقْوِیَت دی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَصحاب کی مثال انجیل میں  یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہوگی،اس کے لوگ نیکیوں  کا حکم کریں  گے اور بدیوں  سے منع کریں  گے۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں  اور اس کی شاخوں  سے مراد صحابہ ٔکرام اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں۔( تفسیرکبیر ، الفتح ، تحت الآیۃ : ۲۹ ، ۱۰ / ۸۹ ، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۱۶۲، مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸، ملتقطاً)

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :صحابہ ٔکرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کو کھیتی سے اس لئے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں  کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ ٔکرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ ٔکرام (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ) اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے۔( نور العرفان، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۸۲۲)

 آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس طرح توریت اور انجیل میں  حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شریف مذکور تھی ایسے ہی حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مَناقِب بھی تھے۔

{لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ: تاکہ ان سے کافروں  کے دل جلیں ۔} یعنی صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو کھیتی سے تشبیہ اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان سے کافروں  کے دل جلیں ۔( مدارک، الفتح، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۱۴۸)اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے جلنا کافروں  کا طریقہ ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی اُلفت و محبت نصیب فرمائے، آمین۔

{وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ:اللہ نے ان میں  سے ایمان والوں اور اچھے کام کرنے والوں  سے وعدہ فرمایا ہے۔} اس آیت کے شروع میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اَوصاف و فضائل بیان کیے گئے اور آخر میں  ان کو مغفرت اوراجر ِعظیم کی بشارت دی جارہی ہے۔یاد رہے کہ تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ صاحبِ ایمان اور نیک اعمال کرنے والے ہیں  اس لئے یہ وعدہ سبھی صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ہے۔

Scroll to Top