سُوْرَۃ الرَّحْمَٰن
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَؕ-یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے ،فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں ، پیدائش میں جو چاہتا ہے بڑھادیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ مثال کے بغیر بنانے والا ہے، ان فرشتوں کو اپنے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف رسول (یعنی قاصد) بنانے والاہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں ۔(جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۱، ص۳۶۴)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ فرشتوں میں پروں کی زیادتی ان کے مراتب کی زیادتی کی بنا پر ہے ورنہ فرشتہ ایک ہی آن میں آسمان و زمین کی مسافت طے کر لیتا ہے۔(روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۳۱۲، ملخصاً)
یاد رہے کہ آیت میں فرشتوں کے پروں کی تعداد کا بیا ن حَصر یا زیادتی کی نفی کے لئے نہیں ہے کیونکہ بعض فرشتے ایسے ہیں کہ جن کے بہت زیادہ پر ہیں ،جیسے صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے چھ سو پر ملاحظہ فرمائے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہی، ص۱۰۷، الحدیث: ۲۸۰(۱۷۴))
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو فرشتے انبیا ء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کے پیغام لاتے ہیں وہ دیگرفرشتوں میں اعلیٰ درجے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ا س آیت میں بطورِ خاص ان کا ذکر فرمایا ہے ۔
{یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ: پیدائش میں جو چاہتا ہے بڑھادیتا ہے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرشتوں کی بناوٹ اور ان کے پروں میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ فرماتا ہے۔(روح المعانی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۴۶۱)
اوردیگر مفسرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے اس آیت میں مذکور زیادتی کی مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ،ان کے اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی جسم کی بناوٹ میں ،یا اس کی آوازکی خوبصورتی میں ،یا اس کی اچھی لکھائی میں ،یا اس کی آنکھوں اور ناک کی مَلاحت میں ،یا ا س کے بالوں کے گھونگر میں ،یا اس کی عقل میں ،یا ا س کے علم میں ،یا اس کے پیشے میں ،یا اس کے نفس کی پاکیزگی میں ، یا گفتگو کی حلاوت میں جس طرح چاہتا ہے اپنی مَشِیّت اور حکمت کے مطابق اضافہ فرما دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا صرف ان میں ہی اضافہ مُنْحَصَر نہیں بلکہ ان چیزوں کا ذکر بطورِ مثال کیا گیا ہے اور یہ آیت تخلیق میں ہر طرح کے اضافے کو شامل ہے چاہے وہ ان چیزوں میں ہو جنہیں ظاہری طور پر حسین شمار کیا جاتا ہے یا ان چیزوں میں ہو جنہیں بظاہر اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔(بحر المحیط، فاطر، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۲۸۶، ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۶۰، ملتقطاً)
آیت کے آخر میں فرمایا کہ ’’بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ لہٰذا اس کی قدرت صرف ان موجودات میں مُنْحَصَر نہیں بلکہ وہ ہمارے خیال اوروہم سے وراء ہے ۔
مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَاۚ-وَ مَا یُمْسِكْۙ-فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ لوگوں کے لیے جو رحمت کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ روک دے تو اس کے روکنے کے بعد اسے کوئی چھوڑنے والا نہیں اور وہی غالب، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا یَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا: اللہ لوگوں کے لیے جو رحمت کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی رحمت کے خزانوں میں سے جو رحمت کھول دے جیسے صحت،امن و سلامتی ، علم و حکمت، بارش اور رزق وغیرہ،تو اسے روکنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتااور جس چیز کو روک دے تو اس کے روکنے کے بعد اسے چھوڑنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا اور اللہ تعالیٰ ہی کھولنے ،روکنے اور اپنی مَشِیّت کے لحاظ سے ہر چیز پرغالب ہے اور اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سب حکمت اور مصلحت کے مطابق ہے ۔( تفسیر ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۳۶۰، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۵۲۹، ملتقطاً)
فرض نماز کے بعد پڑھا جانے والا وظیفہ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے: ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ا س کا کوئی شریک نہیں ،اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے پر دولت نفع نہ دے گی۔(بخاری، کتاب الاذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، ۱ / ۲۹۴، الحدیث: ۸۴۴، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ، ص۲۹۸، الحدیث: ۱۳۷(۵۹۳))
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﳲ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے لوگو!اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں روزی دیتا ہے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اے لوگو!اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو۔} اس آیت میں اِجمالی طور پر اپنی نعمتیں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا احسان یاد کرو کہ اس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، آسمان کو بغیر کسی ستون کے قائم کیا، اپنی راہ بتانے اور حق کی دعوت دینے کے لئے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا اور تم پررزق کے دروازے کھولے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے جو آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے طرح طرح کے نباتات پیدا کرکے تمہیں روزی دیتا ہے ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہواور یہ جانتے ہوئے کہ وہی خالق اوررازق ہے ایمان اورتوحید سے کیوں پھرتے ہو؟( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۵۲۹، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۷۱، ملتقطاً)
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو بیشک تم سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے اور سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ: اور اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار پر حجتیں قائم کر دینے کے باوجود بھی اگر یہ تمہیں جھٹلاتے ہیں اور تمہاری نبوت و رسالت کو نہیں مانتے اور توحید ،مرنے کے بعد اٹھائے جانے، حساب اور عذاب کا انکار کرتے ہیں تو آپ تسلی رکھیں اوران کے جھٹلانے پر غم نہ کریں ،بیشک آپ سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے، تو جس طرح انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر فرمائیے کیونکہ کفار کا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ شروع سے یہی دستور چلا آرہا ہے۔ اور سب کام بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں تو وہ آخرت میں جھٹلانے والوں کو سزا دے گا اور رسولوں کی مدد فرمائے گا۔( ابوسعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۶۱، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۴، ص۳۶۴، روح البیان،فاطر، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۳۱۷-۳۱۸، ملتقطاً)
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے لوگو!بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں اللہ کے بارے میں فریب نہ دے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: اے لوگو!بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے،قیامت ضرور آنی ہے ،مرنے کے بعد ضرو راُٹھنا ہے، اعمال کا حساب یقیناً ہوگا اورہر ایک کو اس کے کئے کی جزاء بے شک ملے گی،تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے کہ اس کی لذّتوں میں مشغول ہو کر تم آخرت کو بھول جاؤ۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۵۲۹-۵۳۰، ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۶۲، ملتقطاً)
دنیا کی زندگی سے دھوکا نہ کھائیں
دنیا کی زندگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اور زینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے۔ (دنیا کی زندگی ایسی ہے) جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کو اچھا لگتا ہے پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب (بھی) ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی) اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(اٰل عمران:۱۸۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
اوردنیا کی زندگی سے دھوکہ نہ کھانے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والا ہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ دنیا کی رنگینیوں اور اس کی لذّتوں میں کھونے کی بجائے اپنی آخرت کی تیاری میں مصروف رہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا’’ دنیا میں یوں رہو گویا تم مسافر ہو یا راہ چلتے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ جب تم شام پالو تو صبح کے مُنتظِر نہ رہو اور جب صبح پالو تو شام کی امید نہ رکھو اور اپنی تندرستی سے بیماری کے لیے اور زندگی سے موت کے لیے کچھ توشہ لے لو ۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کن فی الدنیا۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۳، الحدیث: ۴۶۱۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کی رنگینیوں سے دھوکہ نہ کھانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ: اور ہرگزوہ بڑا فریبی تمہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں فریب نہ دے۔} یعنی گناہوں پر اِصرار کے باوجود شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال کر اللہ تعالیٰ کے عَفْو و کرم کے بارے میں تمہیں ہر گز فریب نہ دے کہ تم جو چاہو عمل کرو ،اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔بے شک گناہگار کی مغفرت ہو جانا ممکن ہے لیکن مغفرت کی امید پر گناہ کرنا ایسے ہے جیسے ناساز طبیعت کے درست ہونے کی امید پر زہر کھانا۔( تفسیر ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۶۲)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’شیطان تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال کر( تمہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہر گزفریب نہ دے)کہ گناہوں سے مزہ اُٹھا لو، اللہ تعالیٰ حِلم فرمانے والا ہے وہ درگُزر کرے گا ۔اللہ تعالیٰ بے شک حلم والا ہے لیکن شیطان کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ بندوں کو اس طرح توبہ وعملِ صالح سے روکتا ہے اور گناہ و مَعْصِیَت پر جَری کرتا ہے، اس کے فریب سے ہوشیار رہو۔(خزائن العرفان، فاطر، تحت الآیۃ: ۵، ص۸۰۸)
گناہوں اورامید سے متعلق مسلمانوں کا حال
فی زمانہ مسلمانوں کی عمومی حالت یہ ہے کہ وہ طرح طرح کے گناہوں میں مصروف ہیں اور قرآنِ پاک کی آیات اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَحادیث سناسنا کر سمجھانے کے باوجود بھی نیک اعمال کی طرف راغب ہوتے ہیں اور نہ ہی گناہوں سے تائب ہوتے ہیں بلکہ بعض بے باک تو گناہ سے باز آنے کی بجائے یہ کہہ گزرتے ہیں کہ ہم گناہ کر رہے تو کیا ہوا، ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں ،اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے وہ ہمیں بخش دے گا اور بعض لوگ یہ سوچ کر گناہ کرتے ہیں کہ ہم بعد میں توبہ کر لیں گے، یونہی بعض مسلمان فرائض کی بجا آوری اور حرام و ممنوع کاموں سے بچنے میں تو انتہائی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں جبکہ مُستحب کاموں کو نجات کا ذریعہ سمجھ کر ان کے انتہائی پابند ہیں حالانکہ فرائض مُقدّم ہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے، اٰمین۔
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِﭤ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا: بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔} ارشاد فرمایا کہ شیطان تمہارا بڑا پرانا دشمن ہے اور ا س کی یہ دشمنی ختم نہ ہو گی لہٰذا تم بھی اپنے عقائد ،افعال اور اعمال کے معاملے میں اسے اپنا دشمن سمجھو اور اس کی اطاعت نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں مشغول رہو،شیطان تو اپنی پیروی کرنے والوں کو کفر کی طرف اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔(ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۶۲، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۶، ص۳۶۴، ملتقطاً)
اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
کافروں کے لیے سخت عذاب ہے اورایمان لانے والوں اور اچھے کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ: کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی پیروی کرنے والوں اور اس کے مخالفین کا حال تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کافروں کے لیے جو شیطان کے گروہ میں سے ہیں ان کے کفر کے سبب سخت عذاب ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کیے اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اور اس کی راہ پر نہ چلے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۵۳۰، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۷، ص۹۷۲، ملتقطاً)
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاؕ-فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا (ہی) سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟) تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے، تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا۔} شیطان کی پیروی اور مخالفت کرنے والوں کا حال بیان کرنے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا ہی سمجھتا ہے،کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ، برے کام کو اچھا سمجھنے والا راہ یاب کی طرح کیا ہوسکتا ہے وہ تو اس بدکار سے بدرجہا بدتر ہے جو اپنے خراب عمل کو برا جانتا ہو اور حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہو۔شانِ نزول: یہ آیت ابوجہل وغیرہ مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے شرک و کفر جیسے قبیح اَفعال کو شیطان کے بہکانے اور اچھا سمجھانے سے اچھا سمجھتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بدعتی اور نفسانی خواہشات پر چلنے والے لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جن میں خوارج وغیرہ داخل ہیں جو اپنی بدمذہبیوں کو اچھا جانتے ہیں ۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ص۹۷۲، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۳۰، ملتقطاً) اور آج کل کے تمام بدمذہب خواہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے گستاخ ہوں یا صحابہ ٔکرام اور اہلبیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے گستاخ یا ِ تقلید کے منکر یا جَری و بے باک نئے مُتَجَدِّدِین جو کہ اپنی بے دینیوں کو دین اور بد عملیوں کو نیکی سمجھ کر ان پر فخر کرتے ہیں سب انہیں کے زمرہ میں داخل ہیں ۔
بُرے اعمال کو اچھا سمجھ کر کرنا ہمارے معاشرے کا بہت بڑا اَلمیہ ہے
ہمارے آج کے معاشرے کا یہ بہت بڑ ااَلمیہ ہے کہ لوگ برے اعمال کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں ،یونہی لوگوں کے سامنے برے اعمال کو اس طرح سجا سنوارکر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے انہیں اچھا سمجھ کر کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جیسے مَردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کو عورت کا حق جانا جاتا ہے،گلیوں اور بازاروں میں عورتوں کے بے پردہ گھومنے کو فیشن خیال کیا جاتا ہے، اجنبی مَردوں سے بے تَکَلُّف ہو کر باتیں کرنے اور ان سے ہاتھ ملانے کو تہذیب کا نام دیا جاتا ہے،مَردوں کے داڑھی منڈانے کو چہرے کا حسن شمار کیا جاتا ہے، موسیقی کو روح کی غذا سمجھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
{فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ: تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے ، لہٰذاغموں کی وجہ سے ان پر آپ کی جان نہ چلی جائے کہ افسوس وہ ایمان نہ لائے اور حق کوقبول کرنے سے محروم رہے ۔مراد یہ کہ آپ اُن کے کفر اورہلاکت کا غم نہ فرمائیں ،بیشک اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کی سز ادے گا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۵۳۰، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۶۴، ملتقطاً)اس طرح کی آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مُبَلِّغ کی تبلیغ کااثر ظاہر نہ ہورہا ہو تو اسے بہت زیادہ غم زدہ نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب پر نظر رکھنی چاہیے۔
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًاؕ-اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ-وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌؕ-وَ مَكْرُ اُولٰٓىٕكَ هُوَ یَبُوْرُ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو عزت کا طلب گار ہو توساری عزت اللہ ہی کے پاس ہے ۔ پاکیزہ کلام اسی کی طرف بلند ہوتا ہے اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے اور وہ لوگ جو برے مکرو فریب کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر وفریب برباد ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا: جو عزت کا طلبگار ہو توساری عزت تو اللہ کے پاس ہے ۔} کفار بتوں سے عزت طلب کیا کرتے تھے اور منافقین کافروں کے پاس عزت ڈھونڈتے تھے ،جیسا کہ سورۂ نسا ء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔
تو یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ دنیا اور آخرت میں صرف وہی عزت کا مالک ہے ،جسے چاہے عزت دے ، لہٰذا جو عزت کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ سے عزت طلب کرے کیو نکہ ہر چیز اس کے مالک ہی سے طلب کی جاتی ہے اوریہ بات قطعی ہے کہ حقیقی عزت طلب کرنے کا ذریعہ ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں ۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۲-۹۷۳)
{اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ: پاکیزہ کلام اسی کی طرف بلند ہوتا ہے۔} یعنی پاکیزہ کلام اس کی قبولیت اور رضا کے محل تک پہنچتا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۳)
پاکیزہ کلمات سے کیا مراد ہے؟
پاکیزہ کلام سے مراد کلمہ توحید ، تسبیح و تحمید اور تکبیر وغیرہ ہیں جیسا کہ امام حاکم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مُستدرک میں اور امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شعب الایمان میں ذکر کردہ روایت میں ہے۔( مستدرک،کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الملائکۃ،۳ / ۲۰۴، الحدیث: ۳۶۴۲، شعب الایمان، العاشر من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، فصل فی ادامۃ ذکر اللّٰہ عزوجل، ۱ / ۴۳۴، الحدیث: ۶۲۵)
اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کلمۂ طیّب کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد ذکر ہے اور بعض مفسرین نے اس سے قرآن اور دعا بھی مراد لی ہے۔(تفسیر طبری، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۳۹۹، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۲۴، ملتقطاً) اور اسی میں نیکی کی دعوت کیلئے ادا کئے جانے والے کلمات بھی داخل ہیں ۔
{وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ: اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے۔} نیک کام سے مراد وہ عمل اورعبادت ہے جو اخلاص سے ہو اور آیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ کلمۂ طیبہ عمل کو بلند کرتا ہے کیونکہ توحید اور ایمان کے بغیر عمل مقبول نہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نیک عمل کو اللہ تعالیٰ رفعتِ قبول عطا فرماتا ہے۔تیسرا معنی یہ ہے کہ نیک عمل عمل کرنے والے کا مرتبہ بلند کرتے ہیں تو جو عزت چاہے اس پر لازم ہے کہ نیک عمل کرے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۳)
عمل کرنے سے پہلے اس پر غور کر لیا جائے
حضرت مالک بن سعد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض پر عمل کرتا ہے جبکہ دیگر فرائض کو ا س نے ضائع کر دیا تو شیطان اسے ا س ایک فرض کے بارے میں لگاتار امیدیں دلاتا رہتا ہے اور ا س کے لئے وہ عمل مُزَیَّن کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں دیکھتا، لہٰذا تم کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے غور کر لو کہ تم ا س عمل کے ذریعے کیا چاہتے ہو،اگر وہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اسے کر لو اور اگر کسی اور کے لئے ہو تو اپنے نفس کو مشقت میں مت ڈالو کہ تمہیں اس سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے لئے کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پاکیزہ کلام اسی کی طرف بلند ہوتا ہے اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے۔
( در منثور، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۹-۱۰)
{وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ: اور وہ لوگ جو برے مکرو فریب کرتے ہیں ۔} اس آیت میں مکر کرنے والوں سے مراد وہ قریش ہیں جنہوں نے دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں قید کرنے ، قتل کرنے اور جلاوطن کرنے کے مشورہ کئے تھے۔اس کا تفصیلی بیان سورۂ اَنفال کی آیت نمبر130 کی تفسیر میں ہوچکا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو برے مکرو فریب کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے اور ان کا مکر وفریب برباد ہوگا اور وہ اپنے فریب میں کامیاب نہ ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے شرسے محفوظ رہے اور اُنہوں نے اپنی مَکاریوں کی سزائیں پائیں کہ بدر میں قید بھی ہوئے، قتل بھی کئے گئے اور مکہ مکرمہ سے نکالے بھی گئے۔( روح البیان،فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۲۶)
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًاؕ-وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖؕ-وَ مَا یُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر پانی کی بوند سے پھر تمہیں جوڑے جوڑے کیا اور کوئی مادہ اللہ کے علم کے بغیر نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ ہی بچہ جنتی ہے اور جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے یہ سب ایک کتاب میں ہے بیشک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ: اور اللہ نے تمہیں مٹی سے بنایا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی قدرت کا بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری اصل حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے بنایا ،پھران کی نسل کو پانی کی بوند سے بنایا، پھر تمہیں مرد و عورت دو جوڑے بنایا۔اس کے بعد کمالِ علم کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحم میں ہر بچے کی تخلیق سے پہلے بلکہ بعد کے بھی تمام حالات سے خبردار ہے۔ پھر اپنے ارادے کے نفاذ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس بڑی عمر والے کو عمر دی جائے یا جس کسی کی عمر کم رکھی جائے ،یہ سب ایک کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں لکھا ہواہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ ہی قادر، عالِم اور ارادے والا ہے اور بتوں میں قدرت،علم اور ارادہ کچھ بھی نہیں تو وہ عبادت کے مستحق کس طرح ہوسکتے ہیں؟(قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۲۴۳، الجزء الرابع عشر، تفسیرکبیر، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۲۲۷، ملتقطاً)
{اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ: بیشک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔} اس اسمِ اشارہ کی تفسیر میں ایک اِحتمال یہ ہے کہ مٹی سے انسان کو بنانا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ،مادہ کے حاملہ ہونے اور بچہ جننے کے حالات سے خبردار ہونا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے ۔تیسرا احتمال یہ ہے کہ کسی کو زیادہ یا کم عمر دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ نیز اس آیت کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ بیشک عمل اورعمر کو لکھ دینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے (اور حقیقتاً ساری ہی چیزیں اللہ تعالیٰ کیلئے آسان ہیں ۔)( تفسیرکبیر، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۲۲۷، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۵۳۱، ملتقطاً)
وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ﳓ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآىٕـغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌؕ-وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ-وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور دونوں سمندر برابر نہیں ، یہ میٹھا خوب میٹھا ہے اس کا پانی خوشگوارہے اور یہ (دوسرا) نمکین بہت کڑوا ہے اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو چیرتے ہوئے دیکھے گا تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ: اور دونوں سمندر برابر نہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی ہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کھاری اور میٹھے سمند ربعض فوائد میں اگرچہ یکساں ہیں لیکن پانی ہونے میں ایک جیسے ہونے کے باوجود دونوں برابر نہیں کیونکہ پانی سے جو اصل مقصودہے اس میں یہ مختلف ہیں ، اسی طرح مومن اور کافرانسان ہونے میں ایک جیسے ہونے کے باوجود برابر نہیں اگرچہ بعض صفات جیسے شجاعت اور سخاوت میں یکساں ہوں کیونکہ یہ دونوں ایک عظیم خاصیت میں مختلف ہیں اور وہ عظیم خاصیت یہ ہے کہ مومن اپنی اصل فطرت یعنی اسلام پر قائم ہے جبکہ کافر اس پر قائم نہیں ۔( بیضاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۴۱۴، ملخصاً)
پانی پیتے وقت کی ایک دعا
حضرت ابو جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب پانی پیتے تو فرماتے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَہٗ عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِہٖ وَ لَمْ یَجْعَلْہُ مَالِحًا اُجَاجًا بِذُنُوْبِنَا‘‘ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اس پانی کو اپنی رحمت سے میٹھا خوب میٹھا بنایا ہے اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے نمکین بہت کڑوا نہیں بنایا۔ (شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۴۴۷۹)(حدیث میں گناہوں کا تذکرہ ہماری تعلیم کیلئے ہے۔)
{وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا: اورہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر سے حاصل ہونے والے فوائد بیان فرمائے ہیں ، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کھاری اور میٹھے دونوں سمندروں میں سے تم مچھلی کا تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ قیمتی موتی نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تم کشتیوں کو دریامیں چلتے ہوئے پانی کو چیرتے ہوئے دیکھوگے اور وہ ایک ہی ہوا میں آتی بھی ہیں ،جاتی بھی ہیں ،تمہارے لئے سمندر کی یہ تسخیر اس لئے ہے تاکہ تم تجارتوں میں نفع حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرو۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۹۷۴، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۵۳۲، ملتقطاً)
یاد رہے کہ زیور اگرچہ عورتیں پہنتی ہیں لیکن چونکہ مَردوں کے لئے پہنتی ہیں ا س لئے اس کے نفع کی نسبت دونوں کی طرف ہے،جبکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ مرد کو موتی وغیرہ پہننا جائز ہے جبکہ عورتوں سے مشابہت نہ ہو اور سونا چاندی پہننا مَردوں کیلئے مُطْلَقاً حرام ہے،البتہ ساڑھے چار ماشے سے کم وزن کی ایک نگینے والی چاندی کی انگوٹھی مرد پہن سکتا ہے۔
یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِۙ-وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ﳲ كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُؕ-وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍﭤ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کورات میں داخل کردیتا ہے اور سورج اور چاند کواس نے کام میں لگادیا ۔ہر ایک مقررہ میعاد تک چلتا ہے یہی اللہ تمہارا رب ہے،اسی کی بادشاہی ہے اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو وہ کھجور کے چھلکے کے (بھی) مالک نہیں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ: وہ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے کچھ حصے کوکسی موسم میں دن میں داخل کردیتا ہے تو دن بڑھ جاتا ہے اور دن کے کچھ حصے کو کسی موسم میں رات میں داخل کردیتا ہے تورات بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ بڑھنے والی رات یا دن کی مقدار پندرہ گھنٹے تک پہنچتی ہے اور گھٹنے والا نو گھنٹے کا رہ جاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا ،ان میں سے ہر ایک مقررہ میعاد یعنی روزِ قیامت تک چلتا رہے گا کہ جب قیامت آجائے گی تو ان کا چلنا مَوقوف ہوجائے گا اور یہ نظام باقی نہ رہے گا ۔یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے جو معبود ہونے،رب اور مالک ہونے کے تمام اَوصاف کا جامع ہے تو تم اسے پہچانو،اس کی وحدانیّت کا اقرار کرو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی بجائے جن بتوں کو تم پوجتے ہو ان کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ وہ کھجور کے چھلکے کی مقدار بھی تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتے ۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۷ / ۳۳۲، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۹۷۴، ملتقطاً)
اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْۚ-وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْؕ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْؕ-وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگرتم ان سے دعا کروتو وہ تمہاری دعا نہیں سنیں گے اور اگربالفرض سن بھی لیں تو تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک سے انکار کردیں گے اور باخبر (خدا) کی طرح تجھے کوئی نہ بتائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ: اگرتم ان سے دعا کرو تو وہ تمہاری دعا نہیں سنیں گے۔} کفار بتوں کا قرب حاصل کرنے ،ان کی طرف دیکھنے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنے کو عزت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس نظریے کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو اگرتم ان سے دعا کرو تو وہ تمہاری دعا سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ بے جان جَمادات ہیں اور اگربالفرض سن بھی لیں تو وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اصلاً قدرت اور اختیار نہیں رکھتے اور قیامت کے دن وہ بت تمہارے شرک سے انکار کردیں گے اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ تم ہمیں نہ پوجتے تھے اور اے بندے! دنیا و آخرت کے احوال اور بت پرستی کے انجام کی جیسی خبر اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور کوئی نہیں دے سکتا۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۳۳۲-۳۳۳، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۷۵، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۳۶۵، ملتقطاً)
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے لوگو!تم سب اللہ کے محتاج ہواور اللہ ہی بے نیاز ، تمام خوبیوں والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ: اے لوگو!تم سب اللہ کے محتاج ہو۔} اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے لیکن اس آیت میں بطورِ خاص انسانوں کو ا س لئے مُخاطَب کیا گیا کہ انسان ہی مالداری کا دعویٰ کرتے اور اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں ۔آیت کا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! مخلوق میں سے تم سب سے زیادہ اپنی جان،اہل و عیال ،مال اورتمام اُمور میں اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کے حاجت مند ہو ،تمہیں پلک جھپکنے بلکہ ا س سے بھی کم مقدار میں اللہ تعالیٰ سے بے نیازی نہیں ہو سکتی، اور اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ ان کا حاجت مندنہیں اور وہی مخلوق پر اپنے احسانات اور انعامات کی وجہ سے تمام تعریفوں کا مستحق ہے ۔( صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۵ / ۱۶۹۲، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۵۳۲، ملتقطاً)
حضرت ذُوالنُّون مصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ مخلوق ہر دم اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے اور کیوں نہ ہوگی کہ ان کی ہستی اور ان کی بقا سب اس کے کرم سے ہی تو ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۷۵)
اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(16)وَ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے۔ اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ: اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اگر تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ چاہے تو تمہیں ہلاک کر دے کیونکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور وہ تم سے بے نیاز ہے اور تمہاری بجائے نئی مخلوق لے آئے جو فرمانبردار ہو ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والی ہواور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان سے رک جانے والی ہو اور (یاد رکھو کہ) تمہیں ہلاک کر کے نئی مخلوق لے آنا اللہ تعالیٰ پر کچھ دشوار نہیں بلکہ یہ اس کے لئے بہت آسان ہے ،تو اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہلاک کر دے۔ (تفسیر طبری، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۱۰ / ۴۰۵)
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىؕ-اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔( اے نبی!)تم انہی لوگوں کوڈراتے ہو جو بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اورجس نے پاکیزگی اختیار کی تو بیشک اس نے اپنی ذات کے لئے ہی پاکیزگی اختیار کی اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى: اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔} آیت کے اس حصے کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اُس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عِوَض نہ پکڑی جائے گی البتہ جو گمراہ کرنے والے ہیں ان کے گمراہ کرنے سے جو لوگ گمراہ ہوئے ان کی تمام گمراہیوں کا بوجھ ان گمراہوں پر بھی ہوگا اور اُن گمراہ کرنے والوں پر بھی، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشا دہوا
’’وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘(عنکبوت:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گےاور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے۔
اور درحقیقت یہ اُن کی اپنی کمائی ہے دوسرے کی نہیں ۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۷۵-۹۷۶، ملخصاً)
حضرت عمرو بن احوص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کولوگوں سے فرماتے ہوئے سنا کہ’’ سن لو! انسان کے جرم کا وبال اسی پر ہے، سن لو! انسان کے جرم کا وبال نہ اس کی اولاد پر ہے اور نہ اس کے باپ پر ہے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء دماؤکم واموالکم علیکم حرام، ۴ / ۶۵، الحدیث: ۲۱۶۶)
{وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا: اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی۔} آیت کے ا س حصے کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن اگرکوئی گناہ گار شخص کسی دوسرے شخص کو بلائے گا تاکہ وہ اس کے گناہوں کا کچھ بوجھ اپنے سر لے لے تو دوسرا شخص اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی اپنے سر نہ لے گا اگرچہ دوسرا شخص بلانے والے کا قریبی رشتہ دار جیسے بیٹا یا باپ ہو۔( صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۱۶۹۳)
قیامت کے دن قریبی رشتہ داروں کا حال
قیامت کے دن قریبی رشتہ داروں کی حالت بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ(۳۴) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ(۳۵) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ(۳۶) لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘(عبس:۳۴۔۳۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) لاپرواہ کردے گی۔
اور ارشاد فرماتاہے
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـا‘‘(لقمان:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والا ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ’’ (قیامت کے دن) ماں باپ بیٹے کو لپٹیں گے اور کہیں گے’’ اے ہمارے بیٹے! ہمارے کچھ گناہ اٹھالے۔تو وہ کہے گا کہ یہ میرے لئے ممکن نہیں ،میرا اپنا بوجھ کیا کم ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۳۳)
جب قریبی ترین رشتہ داروں کا قیامت کے دن یہ حال ہو گا تو ان کی خاطر گناہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا ہونا کس قدر نادانی اور حماقت کا کام ہے۔
{اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ:( اے نبی!)تم انہی لوگوں کوڈراتے ہو جو بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔} یعنی آپ کا (اللہ تعالیٰ کے غضب سے ) ڈرانا صرف ان ہی لوگوں کو فائدہ دیتا ہے جو بغیر دیکھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے ہیں اور اپنے وقت میں نماز قائم رکھتے ہیں اورجس نے پاکیزگی اختیار کی یعنی بدیوں سے بچا اور نیک عمل کئے تو بیشک اس نے اپنی ذات کے لئے ہی پاکیزگی اختیار کی کہ اس نیکی کا نفع وہی پائے گااور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سب کوپھرنا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۵۳۳، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۷۶، صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۱۶۹۴، ملتقطاً)
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ(19)وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُ(20)وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اندھا اور دیکھنے والابرابر نہیں ۔ اور نہ اندھیرے اور اجالا۔ اور نہ سایہ اور تیز دھوپ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَسْتَوِی: اور برابر نہیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کی ذات میں فرق بتایا کہ کافر ایسا ہے جیسے اندھا اور مومن ایسا ہے جیسے دیکھنے والا اوریہ دونوں برابر نہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جاہل اور عالم برابر نہیں ۔ (جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۶۹۴، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۷۶، ملتقطاً)
{وَ لَا الظُّلُمٰتُ: اور نہ اندھیرے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر اور مومن کے اوصاف میں فرق بیان فرمایا کہ کفر ایسے ہیں جیسے اندھیرے اور ایمان ایسا ہے جیسے اجالا،اور یہ دونوں برابر نہیں ۔( جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۱۶۹۴، ملخصاً)
{وَ لَا الظِّلُّ: اور نہ سایہ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کافر اور مومن کے مکان میں فرق بیان فرمایا کہ مومن کا مکان جنت ایسے ہے جیسے سایہ اور کافر کا مکان جہنم ایسے ہے جیسے تیز دھوپ،اور یہ دونوں برابر نہیں ۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ سایہ سے مراد حق اور تیز دھوپ سے مراد باطل ہے۔(جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵ / ۱۶۹۴، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۹۷۶، ملتقطاً)
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِـعُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ(22)اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زندہ اور مردے برابر نہیں ۔ بیشک اللہ سنا تا ہے جسے چاہتا ہے اور تم انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں پڑے ہیں ۔ تم تو یہی ڈر سنانے والے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ: اور زندہ اور مردے برابر نہیں ۔} اس آیت میں زندوں سے مراد مومنین یا علماء ہیں اور مُردوں سے کفار یا جاہل لوگ مراد ہیں ،ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ’’ بیشک اللہ سنا تا ہے جسے چاہتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی ہدایت منظور ہو اسے اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق عطا فرماتا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۵۳۳، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۳۶۶، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ: اور تم انہیں سنانے والے نہیں جوقبروں میں پڑے ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں کفارکو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اُٹھا سکتے اور نصیحت قبول نہیں کر سکتے، بد انجام کفار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
یاد رہے کہ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کفار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سننا ہے جس پر ہدایت کا نفع مُرَتَّب ہو، اور جہاں تک مُردوں کے سننے کا تعلق ہے تو یہ کثیر اَحادیث سے ثابت ہے۔
نوٹ: اس مسئلے کی تفصیل سورۂ نمل کی آیت نمبر80میں گزر چکی ہے ۔
{اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ: تم تو یہی ڈر سنانے والے ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری صرف تبلیغ کر دینا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا دینا ہے ،اب اگر سننے والا آپ کی نصیحتوں پر غور کرے اور قبول کرنے کے لئے سنے تو نفع پائے گا اور اگر وہ کفر پر قائم رہنے والے منکرین میں سے ہو اور آپ کی نصیحت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے تواس میں آپ کا کچھ حَرج نہیں بلکہ وہی محروم ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۹۷۶-۹۷۷، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۳۳۹، ملتقطاً)
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاؕ-وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے بھیجا اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا: اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے بھیجا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اورکافروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو خواہ وہ نبی ہو یا عالِمِ دین جو نبی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے۔(روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۷ / ۳۴۰، ملخصاً)
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْۚ-جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے پہلے لوگ بھی جھٹلاچکے ہیں ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں اور صحیفے اورروشن کردینے والی کتابیں لے کر آئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ: اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر کفارِ مکہ آپ کو جھٹلانے پر ہی قائم ہیں تو آپ ان کی اور ان کے جھٹلانے کی پرواہ نہ کریں ، ان سے پہلی امتوں کے لوگ بھی اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجھٹلاچکے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول اپنے دعویٰ کی صداقت اوراپنی نبوت پر دلالت کرنے والے روشن معجزات ، صحیفے اور حق کوروشن کردینے والی کتابیں توریت ، انجیل اور زبور لے کر آئے تھے۔(تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۲۴۸، الجزء الرابع عشر، ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۳۶۸، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۵، ۷ / ۳۴۱، ملتقطاً)
ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر میں نے کافروں کی گرفت کی تو میراانکار کیسا ہوا؟
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: پھر میں نے کافروں کی گرفت کی۔} یعنی پھر ہم نے ان لوگوں کو طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار کر کے ہلاک کر دیا جنہوں نے ہمارے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی رسالت کو نہ مانا اور ہماری نشانیوں کی حقیقت کا انکار کیا اور اپنے جھٹلانے پر قائم رہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں کہ انہیں میرا عذاب دینا کیساہوا؟( تفسیر طبری، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱۰ / ۴۰۸، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۳۴۱، ملتقطاً)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَاؕ-وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے مختلف رنگوں والے پھل نکالے اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ والے راستے ہیں ، ان کے مختلف رنگ ہیں او رکچھ (پہاڑ) کالے بہت ہی کالے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی دو نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا تم نے ا س بات پر غور نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش نازل فرمائی اور اُس نے اس پانی سے زمین میں درختوں کو سیراب کیا ،پھر اس نے انہی درختوں سے مختلف رنگوں والے بے شمار پھل نکالے ، ان میں سے کسی کا رنگ سبز ہے، کسی کا سرخ ، کسی کا سیاہ اور کسی کا زرد اور جس طرح ان کے رنگ مختلف ہیں اسی طرح ان پھلوں کی اَجناس بھی مختلف ہیں جیسے انار، سیب ،انجیر،انگور اورکھجوروغیرہ اور ان میں سے ہر پھل کی مختلف اَقسام ہیں ،یونہی ان پھلوں کا ذائقہ، مہک، خصوصیات اور اَثرات بھی ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں حالانکہ پانی بھی ایک ہے اور زمین بھی ایک ،اس یکسانیّت کے باوجود یہ نَیرَنگی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی کیسی بڑی نشانی ہے۔اسی طرح پہاڑوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جلوے دکھائی دیتے ہیں کہ سب اگرچہ مٹی یاپتھر کے ہیں لیکن ان میں بھی اِنفرادِیّت ہے ، پہاڑوں میں کہیں سفید اور کہیں سرخ رنگ والے پتھر کے راستے ہیں اور یہ رنگ بھی مختلف ہیں کہ کوئی ہلکااورکوئی گہرا ہے جبکہ کچھ پہاڑ بہت ہی گہرے کالے ہیں ۔
وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَؕ-اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں کے مختلف رنگ ہیں ۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بیشک اللہ عزت والا،بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ: اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں کے مختلف رنگ ہیں ۔} یعنی جس طرح پھلوں اور پہاڑوں کے مختلف رنگ ہیں اسی طرح آدمیوں ، جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں کہ ان میں سے کسی کا رنگ سرخ اور کسی کا سفید اور کسی کا سیاہ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے صانع اور مختار ہونے کی دلیل ہیں ۔( جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۶۶، قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۲۴۹، الجزء الرابع عشر، ملتقطاً)
{ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا: اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔} اس آیت کی ابتداء اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشان اور صَنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذات و صفات پر اِستدلال کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو ا س کا خوف بھی کم ہو گا ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۹۷۷-۹۷۸، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۵۳۴، ملتقطاً)
آیت ’’اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا‘‘ سے حاصل ہونے و الی معلومات
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں
(1)… خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے’’ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔( بخاری، کتاب الادب، باب من لم یواجہ الناس بالعتاب، ۴ / ۱۲۷، الحدیث: ۶۱۰۱، مسلم، کتاب الفضائل، باب علمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باللّٰہ تعالی وشدّۃ خشیتہ، ص۱۲۸۱، الحدیث: ۱۲۷(۲۳۵۶))
(2)…لوگوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں تاکہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہو۔
(3)… علم والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’صحیح معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں جَری نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔( قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۲۵۰، الجزء الرابع عشر)
ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے عرض کی’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے؟۔آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔
اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۵۳۴)
(4)… علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ(29)لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو پابندی کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور اس میں موجود اَحکام وغیرہ کی معلومات حاصل کرتے اور ان پر عمل کرتے ہیں اور نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت یعنی ثواب کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کا ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور اپنی رحمت کے خزانوں سے انہیں اور زیادہ عطا کرے جس کے بارے میں عمل کرتے وقت انہوں نے تَصَوُّر تک نہ کیا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی خطاؤں کو بخشنے والا اور ان کے نیک اعمال کی قدر فرمانے والا ہے۔(خازن،فاطر،تحت الآیۃ:۲۹-۳۰،۳ / ۵۳۴-۵۳۵، روح البیان،فاطر، تحت الآیۃ:۲۹-۳۰،۷ / ۳۴۴-۳۴۵،ملتقطاً)
قیامت کے دن سایہِ عرش میں جگہ پانے والے لوگ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سایہ میں جگہ دے گا جس دن اس کے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔(1)عادل حکمران۔(2)وہ نوجوان جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں پروان چڑھا۔ (3) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔(4)وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ سے محبت کے باعث اکھٹے ہوں اور اسی وجہ سے جدا ہوں ۔(5)وہ آدمی جسے حیثیت اور جمال والی عورت بلائے تو وہ کہہ دے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔ (6)وہ آدمی جو چھپا کر خیرات کرے، یہاں تک کہ ا س کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (7)وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے آنسو جاری ہو جائیں ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)
وَ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ کتاب جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے وہی حق ہے، اپنے سے پہلے موجود کتابوں کی تصدیق فرماتی ہوئی، بیشک اللہ اپنے بندوں سے خبردار ،دیکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ: اور وہ کتاب جو ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ جس کتاب کی ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے یعنی قرآنِ مجید، وہی حق ہے کہ ا س میں جھوٹ اور شک کا کوئی شائبہ تک نہیں اور وہ کتاب اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی عقائد،اصول اور اَحکام میں تصدیق فرماتی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خبردار اور انہیں دیکھنے والا ہے اور اُن کے ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۷ / ۳۴۵-۳۴۶، ملخصاً)
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ-فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖۚ-وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌۚ-وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُﭤ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چُنے ہوئے بندوں کو کیا تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں کوئی درمیانہ راستہ اختیار کرنے والا ہے اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے جانے والا ہے۔ یہ ہی بڑا فضل ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا: پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چُنے ہوئے بندوں کو کیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف قرآنِ مجید کی وحی فرمائی پھر ہم نے اپنے چنے ہوئے بندوں کو اس کتاب کا وارث کیا۔حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : چنے ہوئے بندوں سے مراد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام امتوں پر فضیلت دی اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی و نیاز مندی کی کرامت و شرافت سے مشرف فرمایا ۔ (خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۵۳۵)
{ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ: تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔} آیت کے اس حصے سے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے لوگوں کے تین مَدارِج اور مَراتب بیان کئے گئے ہیں (1)کوئی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے۔(2) کوئی درمیانہ راستہ اختیار کرنے والا ہے ۔(3) کوئی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے جانے والا ہے۔ان تینوں کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے کثیر اَقوال ہیں جو کہ تفاسیر میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ،یہاں اُن میں سے ایک قول درج کیا جاتا ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ سبقت لے جانے والے عہدِ رسالت کے وہ مخلص حضرات ہیں جن کے لئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنت اور رزق کی بشارت دی اور درمیانہ راستہ اختیار کرنے والے وہ اصحاب ہیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طریقہ پر عمل کرتے رہے اور اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہم تم جیسے لوگ ہیں ۔ (المطالب العالیۃ، کتاب التفسیر، ۳۰-سورۃ فاطر، ۸ / ۲۶۳، الحدیث: ۳۷۰۰)
یہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے انتہائی اِنکساری کا اظہار تھا کہ اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے آپ کو تیسرے طبقے میں شمار فرمایا ۔
یہاں ان تین مدارج کے افراد سے متعلق دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ’’ ہمارا سبقت لے جانے والا تو سبقت لے جانے والا ہی ہے اور درمیانہ راستہ اختیار کرنے والے کی نجات ہے جبکہ ظالم کی مغفرت ہے۔( کنز العمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الباب السابع، الفصل الرابع، ۱ / ۶، الجزء الثانی، الحدیث: ۲۹۲۲)
اوردوسری حدیث میں ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’نیکیوں میں سبقت لے جانے والا جنت میں بے حساب داخل ہوگا اور مُقْتَصِدْ سے حساب میں آسانی کی جائے گی اور ظالم مقامِ حساب میں روکا جائے گا ،اس کو پریشانی پیش آئے گی پھر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (بغوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۹۳)
{ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُ: یہ ہی بڑا فضل ہے۔} یعنی نیکیوں میں دوسروں سے آگے بڑھ جانا ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور یہ صرف اسی کی توفیق سے ملتا ہے۔بعض مفسرین نے ا س آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ چنے ہوئے بندوں کو کتاب کا وارث بنانا ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ۔ (ابو سعود، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۳۷۰، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۵۳۶، ملتقطاً)
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاۚ-وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (ان کیلئے) بسنے کے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کالباس ریشمی ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{جَنّٰتُ عَدْنٍ: بسنے کے باغات۔} اس آیت میں ان لوگوں کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تینوں گروہوں کے لئے بسنے کے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، انہیں ان باغوں میں سونے کے ایسے کنگن پہنائے جائیں گے جن پر موتی لگے ہوئے ہوں گے اور وہاں ان کالباس ریشمی ہوگا کیونکہ اس میں لذت اور زینت ہے۔ (خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۵۳۶، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۸۰، ملتقطاً)یاد رہے کہ دنیا میں مسلمان مرد پر سونا اورریشم پہننا حرام ہے ، جنت میں یہ سب حلا ل ہو گا۔
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَؕ-اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُﰳ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ کہیں گے سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہم سے غم دور کردیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا ،قدر فرمانے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوا: اور وہ کہیں گے۔} یعنی جنت میں داخل ہوتے وقت وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرتے ہوئے کہیں گے: سب خوبیاں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے ہمیں جنت میں داخل کر کے ہم سے غم دور کردیا۔اس غم سے مراد یا دوزخ کا غم ہے ،یا موت کا ،یا گناہوں کا ،یا نیکیوں کے غیر مقبول ہونے کا ،یا قیامت کی ہَولْناکیوں کا ،غرض انہیں کوئی غم نہ ہوگا اور وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے اور کہیں گے کہ بیشک ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ بخشنے والا اورقدر فرمانے والا ہے کہ گناہوں کو بخشتا ہے اگرچہ گناہ بہت زیادہ ہوں اور نیکیاں قبول فرماتا ہے اگرچہ نیکیاں کم ہوں ۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ:۳۴، ۷ / ۳۵۲-۳۵۳، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۵۳۶، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۹۸۰، ملتقطاً)
’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ پڑھنے کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ‘‘ پڑھنے والوں پر ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہو گی اور نہ ہی حشر میں ان پر کوئی گھبراہٹ طاری ہو گی اور گویا کہ میں لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ پڑھنے والوں کو دیکھ رہا ہوں ، وہ اپنے سروں سے گَرد جھاڑتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوں گے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: سب خوبیاں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہم سے غم دور کردیا۔( معجم الاوسط، باب الیاء، من اسمہ: یعقوب، ۶ / ۴۸۰، الحدیث: ۹۴۷۸)
الَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖۚ-لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوْبٌ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جس نے ہمیں اپنے فضل سے ہمیشہ ٹھہرنے کے گھر میں اتارا، ہمیں اس میں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اورنہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ چھوئے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ: وہ جس نے ہمیں اپنے فضل سے ہمیشہ ٹھہرنے کے گھر میں اتارا۔} یہاں ان لوگوں کی گفتگو کا مزید حصہ بیان کیا گیا کہ وہ کہیں گے ’’ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں ہمارے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فضل سے ایسے گھر یعنی جنت میں اتارا جس میں ہم ہمیشہ رہیں گے اور اس سے کبھی منتقل نہ ہوں گے، ہمیں اس میں نہ کوئی تکلیف اور مشقت پہنچے گی اورنہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ چھوئے گی۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۵، ۷ / ۳۵۳، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۵۳۶، ملتقطاً)
جنت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملے گی
یاد رہے کہ جنت میں داخلہ محض اعمال کی وجہ سے نہ ہو گا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا جبکہ اعمال اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے کا ذریعہ اور جنت میں درجات کی بلندی کا سبب ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے کسی کو ا س کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگ عرض گزار ہوئے’’ کیا آپ کو بھی نہیں ؟ارشاد فرمایا’’ مجھے بھی نہیں ، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ جنت ملنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے نہ کہ محض اپنے عمل سے ، اس لئے کوئی پرہیز گار اپنے پرہیز گار ہونے پر ناز نہ کرے۔
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَۚ-لَا یُقْضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَاؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر قضا آئے کہ وہ مرجائیں اور نہ ان سے جہنم کا عذاب کچھ ہلکا کیاجائے گا، ہم ہر بڑے ناشکرے کوایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ: اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔} مومنین کے اوصاف بیان کرنے کے بعد اب کفار کے بارے میں بیان کیا جا رہا ہے کہ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر قضا آئے کہ وہ مرجائیں اور مرکر عذاب سے چھوٹ سکیں اور نہ ان سے پلک جھپکنے کی مقدار جہنم کا عذاب کچھ ہلکا کیا جائے گا،جس طرح کی ہم نے انہیں سزا دی ایسی ہی سزاہم ہر بڑے ناشکرے کو دیتے ہیں ۔( جلالین مع صاوی، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۶۹۸)
وَ هُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَاۚ-رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُؕ-اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُؕ-فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ اس میں چیختے چلاتے ہوں گے، اے ہمارے رب!ہمیں نکال دے تاکہ ہم اچھا کام کریں اس کے برخلاف جوہم پہلے کرتے تھے (جواب ملے گا) اور کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی تھی جس میں سمجھنے والا سمجھ لیتا اور تمہارے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا تھا تو اب مزہ چکھو،پس ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا: اور وہ اس میں چیختے چِلّاتے ہوں گے۔} یعنی کفارجہنم میں چیختے اور فریاد کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب!ہمیں جہنم سے نکال دے اور دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم کفر کی بجائے ایمان لائیں اور مَعْصِیَت و نافرمانی کی بجائے تیری اطاعت اور فرمانبرداری کریں ۔ اس پر اُنہیں جواب دیا جائے گا’’ کیا ہم نے تمہیں دنیا میں وہ عمر نہ دی تھی جس میں سمجھنے والا سمجھ لیتا اور تمہارے پاس ڈر سنانے والے یعنی رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تھے لیکن تم نے اس رسولِ محترم کی دعوت قبول نہ کی اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری بجا نہ لائے تو اب عذاب کا مزہ چکھو،پس ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہیں جو ان سے عذاب کو دور کر کے ان کی مدد کر سکے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۵۳۷، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۹۸۰، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۳۶۷، ملتقطاً)
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی بات کوجاننے والا ہے ، بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی بات کوجاننے والا ہے۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں جو چیزیں بندوں سے غائب اور ان سے مخفی ہیں ان تما م چیزوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ، جب اس کی شان یہ ہے تو اس پر کفار کے اَحوال کس طرح مخفی رہ سکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اگر اب بھی انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو وہ کفر ہی کریں گے اوربیشک اللہ تعالیٰ دلوں کی بات جانتا ہے۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۳۵۶، ملخصاً)
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِؕ-فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗؕ-وَ لَا یَزِیْدُ الْكٰفِرِیْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًاۚ-وَ لَا یَزِیْدُ الْكٰفِرِیْنَ كُفْرُهُمْ اِلَّا خَسَارًا(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں (پہلے لوگوں کا) جانشین کیا تو جو کفر کرے تواس کے کفر کا وبال اسی پر ہے اور کافروں کے حق میں ان کا کفر ان کے رب کے پاس غضب ہی کو بڑھاتا ہے اور کافروں کے حق میں ان کا کفران کے نقصان میں ہی اضافہ کرتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِ: وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں جانشین کیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں زمین میں پہلے لوگوں کا جانشین کیا اور ان کی جائداد اوران کے قبضے میں موجود چیزوں کا مالک اور ان میں تَصَرُّف کرنے والا بنایا اور ان کے مَنافع تمہارے لئے مُباح کئے تاکہ تم ایمان و طاعت اختیار کرکے شکر گزاری کرو،تو جو کفر کرے اور ان نعمتوں پر شکر ِالٰہی نہ بجالائے تواپنے کفر کا وبال اسی کو برداشت کرنا پڑے گا اور کافروں کا کفر ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس غضب ہی کو بڑھاتا ہے اورآخرت میں کافروں کا کفران کے نقصان میں ہی اضافہ کرے گا کیونکہ اس کی وجہ سے وہ جنت سے محروم کر دئیے جائیں گے ۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۵۳۷، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۹۸۱، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۳۹، ۷ / ۳۵۷، ملتقطاً)
قُلْ اَرَءَیْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمٰوٰتِۚ-اَمْ اٰتَیْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰى بَیِّنَتٍ مِّنْهُۚ-بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: بھلا اپنے وہ شریک توبتلاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں سے کونسا حصہ بنایا ہے یا آسمانوں میں ان کی کوئی شرکت ہے یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی روشن دلیلوں پر ہیں ؟بلکہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کو دھوکے،فریب کاہی وعدہ دیتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے مشرکین سے فرما دیں کہ جن بتوں کو تم اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہواور اللہ تعالیٰ کے سواان کی پوجا کرتے ہو، مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں سے کون سا حصہ بنایا ہے یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کوئی شرکت ہے جس کی وجہ سے وہ معبود ہونے میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہو گئے ، یا اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین پر آسمان سے کوئی کتاب نازل کی ہے جس نے ان کے سامنے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا شریک بنایا ہے اور مشرکین اپنے شرک کرنے میں اس کی روشن دلیلوں پر عمل پیرا ہیں ؟ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ،بلکہ ظالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو دھوکے،فریب کاہی وعدہ دیتے ہیں کہ ان میں جو بہکانے والے ہیں وہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دھوکا دیتے ہیں اور بتوں کی طرف سے اُنہیں باطل امیدیں دلاتے ہیں کہ بت ان کی شفاعت کریں گے۔( روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۰، ۷ / ۳۵۷-۳۵۸، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۳۶۷، ملتقطاً)
اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ﳛ وَ لَىٕنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں اور قسم ہے کہ اگر وہ ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا انہیں کوئی نہ روک سکے گا۔ بیشک وہ حلم والا، بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا: بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں ۔} بیشک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کریں ورنہ آسمان و زمین کے درمیان شرک جیسی مَعْصِیَت ہو تو آسمان و زمین کیسے قائم رہیں اور قسم ہے کہ اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی اور انہیں روک نہیں سکتا۔ بیشک اللہ تعالیٰ حِلم والا ہے اسی لئے وہ کفار کو جلد سزا نہیں دیتا اور جو اس کی بارگاہ میں توبہ کر لے تواسے بخشنے والا ہے۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۳۵۸، ملتقطاً)
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِۚ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِ لَّا نُفُوْرَاﰳ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے اپنی قسموں میں حد بھر کی کوشش کر کے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈر سنانے والا آیا تو وہ ضرور تمام امتوں میں سے (ہر) ایک امت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں گے (لیکن) پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا تواس نے ان کی نفرت میں ہی اضافہ کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ: اور انہوں نے اپنی قسموں میں حد بھر کی کوشش کر کے اللہ کی قسم کھائی۔} نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت سے پہلے قریش نے یہودیوں اور عیسائیوں کے اپنے رسولو ں کو نہ ماننے اور ان کو جھٹلانے کے بارے میں کہا تھا کہ’’اللہ تعالیٰ اُن پر لعنت کرے کہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آئے اور اُنہوں نے انہیں جھٹلایا اور نہ مانا، خدا کی قسم! اگر ہمارے پاس کوئی رسول آئے تو ہم اُن سے زیادہ راہِ راست پر ہوں گے اور اس رسول کو ماننے میں ان کے بہتر گروہ پر سبقت لے جائیں گے۔لیکن جب ان کے پاس حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رونق افروزی اور جلوہ آرائی ہوئی تو حق و ہدایت سے ان کی نفرت اور دوری میں ہی اضافہ ہوا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۵۳۸، مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۹۸۲، ملتقطاً)
اسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِؕ-وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖؕ-فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَۚ-فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ﳛ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
زمین میں بڑائی چاہنے اور برا مکروفریب کرنے کی وجہ سے (وہ ایمان نہ لائے) اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے ،تو وہ پہلے لوگوں کے دستورہی کا انتظار کررہے ہیں تو تم ہرگز اللہ کے دستور کیلئے تبدیلی نہیں پاؤ گے اور ہرگز اللہ کے قانون کیلئے ٹالنا نہ پاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِسْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ: زمین میں بڑائی چاہنے اور برا مکروفریب کرنے کی وجہ سے (وہ ایمان نہ لائے)۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ زمین میں بڑائی چاہنے اوربرا مکروفریب کرنے کی وجہ سے حق و ہدایت سے کفارِ قریش کی نفرت میں ہی اضافہ ہوا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جب کفار کے پاس تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو حق و ہدایت سے ان کی نفرت،ایمان لانے سے تکبر اور برامکرو فریب کرنے میں ہی اضافہ ہوا۔ برے مکر وفریب کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرک اورکفر ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ ا س سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مکرو فریب کرنا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۵۳۸)
تکبر کیسی بیماری ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبر وغرور ایسی بری بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نبی کی پیروی سے محروم رہتا ہے جبکہ بارگاہِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں عاجزی اور اِنکسار ی ایمان کا ذریعہ ہے ۔ کفارِ مکہ کے کفر کی وجہ یہی ہوئی کہ انہوں نے اپنے کو نبی سے بڑھ کر جانا اور بولے کہ ہم ان سے زیادہ مالد ار ہیں اور اکثر کفار نے نبیوں کو اپنے جیسے بشر کہا۔
{وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔} یعنی برا فریب مَکار پر ہی پڑتا ہے، چنانچہ فریب کاری کرنے والے بدر میں مارے گئے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲)
جو کسی کیلئے گڑھا کھودے تو خود ہی ا س میں گرتا ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت کعب اَحبار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے کہا ’’ تورات میں یہ آیت ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خودا س میں گر جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: ’’قرآن میں بھی ایسی آیت ہے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا:کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ آیت پڑھ لو
’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)
فی زمانہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے اور سازشی لوگوں کی مدد کرنے کا مرض بہت عام ہے، کار و باری اور تاجر حضرات ایک دوسرے کے خلاف،نوکری پیشہ حضرات اپنے ساتھیوں کے خلاف، چھوٹے منصب والے بڑے منصب والوں کے خلاف اورہم منصب اپنے منصب والوں کے ساتھ ،اسی طرح گھریلو اور خاندانی نظامِ زندگی میں ساس بہو ایک دوسرے کے خلاف، بیوی اور شوہر کے خلاف، ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے خلاف، یونہی ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کے خلاف سازشیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب کرے۔کسی کے خلاف سازش کرنے اور سازش کرنے والوں کی مدد کرنے کا انجام بہت برا ہے ۔
حضرت قیس بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سازش کرنے والے اور دھوکہ دینے والے جہنم میں ہیں ۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۲۱۷، الحدیث: ۶۶۵۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی کے خادم کو اس کے خلاف کیا تو وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۳۵۶، الحدیث: ۹۱۶۸)
امام زہری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کسی کے خلاف سازش نہ کرو اور نہ ہی کسی سازش کرنے والے کی مدد کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برا مکروفریب اپنے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔( تفسیر قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۷ / ۲۶۱، الجزء الرابع عشر)
{ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ: تو وہ پہلے لوگوں کے دستورہی کا انتظار کررہے ہیں ۔} یہاں بیان فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کفار آپ کو جھٹلا کر اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ جس طرح ان سے پہلے رسولوں کو جھٹلانے والوں پر عذاب نازل ہوا اسی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہو۔ ا س کے بعد فرمایا کہ رسولوں کو جھٹلانے والے کے بارے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دستور تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے وقت سے ٹلتا ہے بلکہ وہ لازمی طور پر پورا ہوتا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۹۸۲، ملخصاً)
اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعْجِزَهٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے ان سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا اور وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی شے اسے عاجز کرسکے۔ بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: اور کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا۔} یعنی کیا کفار ِمکہ نے شام ،عراق اور یمن کے سفروں میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والو ں کی ہلاکت وبربادی اور ان کے عذاب اور تباہی کے نشانات نہیں دیکھے تاکہ اُن سے عبرت حاصل کرتے حالانکہ وہ تباہ شدہ قومیں ان اہلِ مکہ سے طاقت وقوت میں زیادہ تھیں ، اس کے باوجود ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ وہ عذاب سے بھاگ کر کہیں پناہ لے سکیں ،اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی شے اسے عاجز کرسکے۔ بیشک وہ تمام موجودات کاعلم رکھنے والا اور تمام مُمکنات پر قدرت رکھنے والا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۹۸۲، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۷ / ۳۶۲، ملتقطاً)
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰـكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقرر میعاد تک انہیں ڈھیل دیتا ہے پھر جب ان کی مقررہ مدت آئے گی تو بیشک اللہ اپنے تمام بندوں کو دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا: اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑتا۔} یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ مقرر ہ مدت یعنی قیامت کے دن تک انہیں ڈھیل دیتا ہے پھر جب ان کے عذاب کی مقررہ مدت آئے گی تو یاد رکھو کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کو دیکھ رہا ہے،وہ انہیں اُن کے اعمال کی جزا دے گا اور جو لوگ عذاب کے مستحق ہیں انہیں عذاب فرمائے گا اور جو لائقِ کرم ہیں ان پر رحم و کرم کرے گا۔(خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۵۳۸، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۳۶۸، ملتقطاً)