سُوْرَۃ قُرَيْش

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِﭤ(1)اَلَمْ یَجْعَلْ كَیْدَهُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ(2)وَّ اَرْسَلَ عَلَیْهِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ(3)تَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ(4)فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا؟کیا اس نے ان کے مکرو فریب کو تباہی میں نہ ڈالا۔اور ان پر فوج در فوج پرندے بھیجے۔جو انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تھے ۔تو انہیں جانوروں کے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ: کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں  کا کیا حال کیا؟}  اس سورت میں  جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن اور حبشہ کے بادشاہ ابرہہ نے جب حج کے موسم میں  لوگوں  کو بیتُ اللّٰہ کا حج کرنے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اِس غرض سے صنعاء میں  ایک کنیسہ (عبادت خانہ) بنایا کہ حج کرنے والے مکہ مکرمہ جانے کی بجائے یہیں  آئیں  اور اسی کنیسہ کا طواف کریں ۔

عرب کے لوگوں  کو یہ بات بہت ناگوار گزری اورقبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے موقع پا کر اس کنیسہ میں  قضائے حاجت کی اور اس کو نجاست سے آلودہ کردیا۔ جب ابرہہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اسے بہت طیش آیا اوراُس نے قسم کھائی کہ وہ کعبۂ مُعَظّمہ کو گرا دے گا،چنانچہ وہ اس ارادے سے اپنا لشکر لے کر چلا۔اس لشکرمیں  بہت سے ہاتھی بھی تھے اور ان کا پیش رَو ایک بڑے جسم والا کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا۔ ابرہہ جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچاتو اس نے اہلِ مکہ کے جانور قید کرلئے اور ان میں  حضرت عبدالمطلب کے دو سو اونٹ بھی تھے ۔حضرت عبدالمطلب ابرہہ کے پاس آئے تو اس نے ان کی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھاکر پوچھا کہ آپ کس مقصد سے یہاں  آئے ہیں  اور آپ کا کیا مطالبہ ہے ۔آپ نے فرمایا :میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے اونٹ مجھے واپس کر دئیے جائیں ۔ ابرہہ نے کہا :مجھے آپ کی بات سن کربہت تعجب ہوا ہے کہ میں  اس خانۂ کعبہ کو ڈھانے کے لئے یہاں  آیا ہوں جو آپ کا اور آپ کے باپ دادا کا مُعَظّم و محترم مقام ہے، آپ اس کے لئے تو کچھ نہیں  کہتے اوراپنے اونٹوں  کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ! آپ نے فرمایا: میں  اونٹوں  ہی کا مالک ہوں  اس لئے انہی کے بارے میں  کہتا ہوں  اور کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا ۔یہ سن کرابرہہ نے آپ کے اونٹ واپس کردیئے،حضرت عبدالمطلب نے واپس آ کر قریش کو صورتِ حال سے آگاہ کیا اور انہیں  مشورہ دیا کہ وہ پہاڑوں  کی گھاٹیوں  اور چوٹیوں  میں  پناہ گزین ہو جائیں ، چنانچہ قریش نے ایسا ہی کیا اور حضرت عبدالمطلب نے کعبہ کے دروازے پر پہنچ کر بارگاہِ الٰہی میں  کعبہ کی حفاظت کی دعا کی اور دعا سے فارغ ہو کر آپ بھی اپنی قوم کی طرف چلے گئے ۔ ابرہہ نے صبح تَڑکے اپنے لشکر کو تیار ی کا حکم دیا تو اس وقت محمود نامی ہاتھی کی حالت یہ تھی کہ جب اسے کسی اور طرف چلاتے توچلتاتھا لیکن جب کعبہ کی طرف اس کا رُخ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر پر سمندر کی جانب سے پرندوں  کی فوجیں  بھیجیں  اور ان میں  سے ہر پرندے کے پاس تین کنکریاں  تھیں  دو دونوں  پاؤں میں  اورایک چونچ میں  تھی ، وہ پرندے آئے اور کنکر کے پتھروں  سے انہیں  مارنے لگے، چنانچہ جس شخص پر وہ پرندہ سنگریزہ چھوڑتا تو وہ سنگریزہ اس کے خود کو توڑ کر سر سے نکلتاہوا، جسم کو چیر کر ہاتھی میں  سے گزرتا ہوا زمین پر پہنچ جاتا اورہر سنگریزے پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھاجس سنگریزے سے اسے ہلاک کیا گیا ،اس طرح ان پرندوں  نے ابرہہ کے لشکریوں  کو جانوروں  کے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔جس سال یہ واقعہ رونما ہوا اسی سال سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی ولادت ہوئی۔ (خازن، الفیل، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۴۰۷۴۱۰، ملخصاً)

Scroll to Top