سُوْرَۃ الفُرْقَان

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاﰳ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ (اللہ ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{تَبٰرَكَ: وہ (اللّٰہ) بڑی برکت والا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ  اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے خاص بندے اور اپنے حبیب، انبیاء کے سردار، محمد ِمصطفٰی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حق اور باطل کے درمیان فرق کر دینے والا قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ ا س کے ذریعے تمام جہان والوں  کو  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر اس کے عذاب کا ڈر سُنانے والے ہوں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۱۸۷-۱۸۸)

{لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا: تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سُنانے والا ہو۔} آیت کے ا س حصے میں  حضورسید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عام ہونے کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے،خواہ جن ہوں  یا بشر، فرشتے ہوں  یا دیگر مخلوقات، سب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمتی ہیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو عالم کہتے ہیں  اور اس میں  یہ سب داخل ہیں ۔

نیز مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘ یعنی میں  تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس کی شرح میں  فرماتے ہیں : ’’یعنی تمام موجودات کی طرف (رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، خواہ) جن ہوں  یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الفضائل ، باب فضائل سیّد المرسلین صلوات  اللہ و سلامہ علیہ ، الفصل الاول ، ۱۰ / ۱۴، تحت الحدیث: ۵۷۴۸)

الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور اس نے نہ اولاد اختیارفرمائی اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا شریک ہے اوراس نے ہر چیز کوپیدا فرمایاپھر اسے ٹھیک اندازے پر رکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْ لَهٗ: وہ جس کے لیے ہے۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں :

(1)… آسمانوں  اور زمین کی بادشاہت خالصتاً  اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔

(2)…  اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار نہ فرمائی۔اس میں  ان یہودیوں اور عیسائیوں  کا رَد ہے جو حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ، مَعَاذَ  اللہ عَزَّوَجَلَّ۔

(3)… اللہ تعالیٰ کی سلطنت میں  کوئی اس کا شریک نہیں  ہے۔اس میں  بت پرستوں کا رَد ہے جو بتوں  کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔

(4)…ہر چیز کو صرف  اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔

 (5)…ہر چیز کو اس کے حال کے مطابق ٹھیک اندازے پر رکھا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۳۶۶، ملخصاً)

وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَیٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور لوگوں نے اس کے سوا بہت سے معبود بنالئے جو کسی شے کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود انہیں بنایا جاتا ہے اور وہ اپنے لئے کسی نقصان اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ وہ (کسی کی) موت اور زندگی کے اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا اختیاررکھتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً: اور لوگوں  نے اس کے سوا بہت سے معبود بنالئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے جو معبود، خالق، مالک اور قادر ہونے میں  یکتا ہے، بت پرست اس کی عبادت کرنے پربتوں  کی عبادت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں  حالانکہ وہ بت ایسے عاجز اور بے قدرت ہیں  کہ کسی شے کو پیدا ہی نہیں  کرسکتے بلکہ خود انہیں  بنایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ سے کوئی ضَرَر دُور کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ ہی خود کو کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں ،کسی کو موت اور زندگی دینے کے مالک ہیں  نہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳، ص۷۹۵)

مسلمان ولیوں  کے مزارات کا احترام کرتے ہیں ، پوجتے ہر گز نہیں :

         یاد رہے کہ مشہور اور مُعْتَبَر تمام مفسرین نے نقصان دُور نہ کر سکنے اور نفع نہ پہنچا سکنے کا وصف بتوں  کے لئے ثابت کیا ہے کسی نے بھی ا س سے  اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے مزارات مراد نہیں  لئے،فی زمانہ بعض لوگ اس آیت سے  اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے مزارات مراد لیتے ہیں  جو کہ انتہائی غلط اور قرآنی آیات کے معنی اپنی رائے سے گھڑنے کے مُتَرَادِف ہے۔ بتوں  کے بارے میں  نازل ہونے والی آیتیں  انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ پر چسپاں  کرنا خارجیوں  کا طریقہ ہے۔مسلمان ولیوں  کے مزارات کا احترام کرتے ہیں  پوجتے ہر گز نہیں ، احترام اور پوجنے میں  بڑا فرق ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ-ﰳافْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَۚۛ-فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافر وں نے کہا: یہ قرآن تو صرف ایک بڑا جھوٹ ہے جو انہوں نے خود بنالیا ہے اور اس پر دوسرے لوگوں نے (بھی) ان کی مدد کی ہے توبیشک وہ (کافر) ظلم اور جھوٹ پر آگئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافر وں  نے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں  کلام کیا گیا اور ا س کے بعد بت پرستوں  کا رَد کیاگیا اور اب یہاں  سے قرآنِ مجید اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر کفار کی طرف سے ہونے والے اعتراضات ذکر کر کے ان کا جواب دیا جا رہاہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں  نے قرآنِ کریم کے بارے میں  کہا کہ یہ قرآن تو صرف ایک بڑا جھوٹ ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بنالیا ہے اور اس پر یہودیوں  اور عداس و یسار وغیرہ اہلِ کتاب نے بھی ان کی مدد کی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے ان کے رَد میں  ارشاد فرما یاکہ وہ یعنی نضر بن حارث وغیرہ مشرکین جو یہ بے ہودہ بات کہہ رہے ہیں ، ظلم اور جھوٹ پر آگئے ہیں  کیونکہ انہوں  نے اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والے کلام کو یہودیوں  کے تعاون سے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور اس مقدس کلام کی طرف وہ بات منسوب کی جو اس کی شان کے لائق ہی نہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۱۸۹-۱۹۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۳۶۶، ملتقطاً)

وَ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِیَ تُمْلٰى عَلَیْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورکافروں نے کہا: (یہ قرآن) پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس (نبی) نے کسی سے لکھوا لی ہیں تو یہی ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوْا: اورکافروں  نے کہا۔} یعنی وہی مشرکین قرآنِ کریم کے بارے میں  یہ بھی کہتے ہیں  کہ یہ قرآن  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں  بلکہ رستم و اسفند یار وغیرہ کے قصوں  کی طرح پہلے لوگوں  کی کہانیاں  ہیں  جو رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی سے لکھوا لی ہیں ، کیونکہ کسی سے پڑھے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے یہ خود لکھ نہیں  سکتے، اس لئے دوسروں  سے لکھوا لی ہیں ،پھریہی کہانیاں  ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں  تاکہ سُن سُن کر انہیں  یاد ہو جائیں  اور جب آپ کو یاد ہو جاتی ہیں  تو وہی کہانیاں ہمیں  سُنا دیتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ یہ  اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔(خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۶۶، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۱۹۰، ملتقطاً)

قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ :اسے تو اُس نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ بات جانتا ہے، بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔}  اللہ تعالیٰ نے کفار کا رَد کرتے ہوئے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کفار سے فرمادیں  کہ اس قرآن کو تو اس  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں  اور زمین کی ہر بات جانتا ہے، یعنی قرآنِ کریم غیبی علوم پر مشتمل ہے اوریہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ قرآنِ پاک غیبوں  کو جاننے والے رب تعالیٰ کی طرف سے ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶، ص۷۹۵)

{اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا: بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔} یعنی اے کافرو!تم نے قرآنِ مجید کے بارے میں  جو بات کہی ا س کی وجہ سے تم  اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہو گئے اور  اللہ تعالیٰ تمہیں  عذاب دینے پر کامل قدرت بھی رکھتا ہے لیکن اس نے تم پر مہربانی کرتے ہوئے فوری عذاب نازل نہیں  فرمایا بلکہ تمہیں  مہلت دی تاکہ تم اپنی بات سے رجوع اور  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کر سکو،اگر تم نے ایسا کر لیا تو وہ تمہیں  بخشنے والا مہربان ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۱۹۰، ملخصاً)

وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِؕ-لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافروں نے کہا: اس رسول کو کیا ہوا؟ کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے،اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ اُتاردیا گیا جو اس کے ساتھ (لوگوں کو) ڈرانے والا ہوتا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالُوْا: اور کافروں  نے کہا۔} اس آیت سے کفار کی جانب سے تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر ہونے والے اِعتراضات کوذکر کیا گیا ہے۔چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ قریش نے کعبہ شریف کے نزدیک جمع ہو کر یہ کہا :اس رسول کو کیا ہوا کہ یہ ہماری طرح کھانا بھی کھاتا ہے اور ہماری طرح رزق کی تلاش میں  بازاروں  میں  بھی چلتاپھرتا ہے۔ اس سے ان کافروں  کی مراد یہ تھی کہ اگر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبی ہوتے تو نہ کھاتے، نہ بازاروں  میں  چلتے اور یہ بھی نہ ہوتا تو ان کی طرف اِن کی تائید کیلئے کوئی فرشتہ کیوں  نہ اُتاردیا گیا جو ان کے ساتھ ہوتا اور لوگوں  کوان کی اطاعت کا کہتا ہے اور نافرمانی سے ڈراتا نیز اِن کی تصدیق کرتا اور ان کی نبوت کی گواہی دیتا۔( صاوی ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۷ ، ۴ / ۱۴۲۵، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۱۹۱، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۷۹۶، ملتقطاً)

اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَاؕ-وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

یا اس کی طرف کوئی (غیبی) خزانہ ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے یہ کھاتا؟ اور ظالموں نے کہا: تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَوْ یُلْقٰى: یا ڈال دیا جاتا۔} اس آیت میں  رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں  کفارِ قریش کی مزید بیہودہ باتیں  بیان کی گئیں  کہ انہوں  نے کہا : ان کی طرف آسمان سے کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا اور یہ معاش کے حصول سے بے نیاز ہو جاتے، اور اگر انہیں  کوئی خزانہ نہیں  ملنا تھا تو کم از کم ان کا کوئی باغ تو ہوتا جس میں  سے یہ مالداروں  کی طرح کھاتے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۱۹۲)

 اللہ تعالیٰ کی عطا سے غیبی خزانے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  ہیں :

            یاد رہے کہ ان سب باتوں  سے کفارکا منشا یہ تھا کہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کھانے پینے سے بے نیاز کیوں  نہ کردیا، یا تو انہیں  کھانا کھانے کی حاجت ہی نہ ہوتی،اگر تھی تو غیبی خزانے ان پر آجاتے جس سے انہیں  کمانے کی ضرورت نہ ہوتی، یہ بھی انہوں  نے ظاہر کے لحاظ سے کہہ دیا، ورنہ  اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قبضہ میں  غیبی خزانے تھے اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جنتی باغوں  پر قابض بھی تھے، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ‘‘ ہم نے آپ کو کوثر بخش دیا۔( کوثر:۱)

             اور حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود فرماتے ہیں : ’’اُعْطِیْتُ  مَفَاتِیْحَ خَزَائِنِ الْاَرْضِ‘‘ مجھے زمینی خزانوں  کی کنجیاں  عطا فرمادی گئیں ۔( بخاری، کتاب الجناءز، باب الصلاۃ علی الشہید، ۱ / ۴۵۲، الحدیث: ۱۳۴۴)

            اور فرماتے ہیں  کہ’’اگر میں  چاہوں  تو میر ے ساتھ سونے کے پہاڑ چلا کریں ۔‘‘( شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب تواضعہ صلی  اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۴۰، الحدیث: ۳۵۷۷)

            اورفرماتے ہیں  کہ میں  نے (دورانِ نمازقبلہ کی دیوار میں )      جنّت دیکھی اوراس سے ایک خوشہ لینا چاہا اور اگر لے لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اس سے کھاتے ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی الامام فی الصلاۃ، ۱ / ۲۶۵، الحدیث: ۷۴۸)

            مگر چونکہ کفار کے سامنے ان چیزوں  کا ظہو ر نہ تھا اس لئے کفار ایسی باتیں  کہا کرتے تھے۔

{وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ: اور ظالموں  نے کہا۔} کفار کے بارے میں  مزید ارشاد فرمایا کہ انہوں نے مسلمانوں  سے کہا: تم ایک ایسے مرد کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو ہے اور مَعَاذَ اللہ ان کی عقل ٹھکانے پر نہیں  ہے۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۸، ص۳۰۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ کفار کو خود اپنی بات پر قرار نہ تھاکبھی حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جادوگر کہتے تھے اور کبھی کہتے کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ کبھی شاعر کہتے، کبھی کاہن، وہ خود اپنے قول سے جھوٹے تھے۔

اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے حبیب ! دیکھو تمہارے لئے کیسی مثالیں بیان کررہے ہیں تو یہ گمراہ ہوگئے ہیں کہ اب انہیں کسی راہ کی طاقت نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ: دیکھو تمہارے لئے کیسی مثالیں  بیان کررہے ہیں ۔} اس سے اوپر والی آیات میں  نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں بیان کی گئی کفار کی بیہودہ باتوں  کے بارے میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں  کہ یہ کفار آپ کے بارے میں  کیسی عجیب و غریب اور عقل سے خارج باتیں  کر رہے ہیں  اور یہ باتیں  عجیب ہونے کی وجہ سے کہاوتوں  کی طرح ہیں  اور انہوں  نے آپ کے لئے کیسے احوال گھڑ لئے ہیں  جن کا واقع ہونا ہی بعید ہے۔ یہ لوگ آپ کی شان سے جاہل اور آپ کے جمال سے غافل ہیں  کہ انہوں  نے جادو کئے ہوئے اور محتاج کے ساتھ آپ کو تشبیہ دے دی حالانکہ جادو کیا ہوا اور محتاج شخص کبھی بھی رسول ہونے کی صلاحیت نہیں  رکھتا، اسی وجہ سے یہ لوگ واضح طور پر حق سے گمراہ ہو گئے اور اب انہیں  ہدایت کی کسی راہ کی طاقت نہیں  اور اپنی گمراہی سے نکلنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۱۹۲، ملخصاً)

تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ (اللہ ) بڑی برکت والا ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لیے اس سے بہتر بنا دے، وہ باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور تمہارے لئے بلندو بالا محلات بنادے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْ شَآءَ: اگر چاہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ ا س بات پر قادِر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارے لیے کافروں  کے ان بیان کردہ خزانوں  اور باغات سے بہتر چیزیں  عطا فرما دے اور دنیا میں  ایسے باغات بنادے جن کے نیچے نہریں  جاری ہوں اور تمہارے لئے بلندو بالا محلات بنادے لیکن  اللہ تعالیٰ چونکہ اپنی مَشِیَّت اور بندوں  کی مَصلحت کے مطابق ان کے معاملات کی تدبیر فرماتا ہے اس لئے ا س کے کام پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۳۰۳، تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۴۳۵، ملتقطاً)

حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دنیا کے مال و دولت پر فقر کو ترجیح دی :

اس آیت سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام اتنا بلند ہے کہ  اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کودنیا کی بڑی سے بڑی نعمتیں  اور اعلیٰ سے اعلیٰ آسائشیں  عطا فرما دے لیکن  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں  کو پسند نہیں  فرمایا اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی دنیا میں  فقر کو ترجیح دی، اسی سلسلے میں 2احادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت اُمِّ سلیم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں:میں  حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک زوجہ محترمہ کے حجرے میں  تھی اور نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اپنی زوجہ محترمہ کے پاس تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ سے حاجت مند ہونے کی شکایت کی۔ آپ نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’تم صبر کرو،خدا کی قسم!محمد (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی آل کے پاس سات دن سے کچھ نہیں  ہے اور (ان کے گھروں  میں ) تین دن سے ہنڈیا کے نیچے آگ نہیں  جلائی گئی،  اللہ کی قسم! اگر میں   اللہ تعالیٰ سے تہامہ کے تمام پہاڑوں  کو سونا بنا دینے کا سوال کروں تو وہ ان سب پہاڑوں  کو ضرور سونا بنا دے گا۔‘‘( مجمع الزواءد، کتاب الزہد، باب فی عیش رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم والسلف، ۱۰ / ۵۸۳، الحدیث: ۱۸۲۸۶)

(2)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں : میں  نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ  اللہ تعالیٰ سے کھانا نہیں  مانگتے کہ وہ آپ کو عطا کرے؟ آپ فرماتی ہیں  کہ میں  رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھوک کو دیکھ کر روپڑی تھی۔حضورِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا، اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں  میری جان ہے، اگر میں   اللہ تعالیٰ سے سوال کروں  کہ وہ دنیا کے پہاڑوں  کو سونے کا بناکر میرے ساتھ چلائے تو میں  زمین میں  جہاں  جاؤں   اللہ تعالیٰ وہیں  پہاڑوں  کو سونا بنا کر میرے ساتھ چلادے گا لیکن میں  نے دنیا کی بھوک کو اس کے سیر ہونے پر، دنیا کے فقر کو اس کی مالداری پر اور اس کے غم کو اس کی خوشی پر ترجیح دی ہے، اے عائشہ! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا، دنیا محمد (صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور اِن کی آل کے لیے مناسب نہیں ۔‘‘( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، الشطر الثانی، فضیلۃ الزہد، ۴ / ۲۷۳)

بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ- وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا(11)اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا(12)وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاﭤ(13)لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

بلکہ انہوں نے قیامت کو جھٹلایا ہے اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جب وہ آگ انہیں دُور کی جگہ سے دیکھے گی تو کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سُنیں گے۔ اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔۔(فرمایا جائے گا) آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ: بلکہ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کافروں  نے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں  گستاخیاں  ہی نہیں  کیں  بلکہ انہوں  نے قیامت کو بھی جھٹلایا ہے اور ہم نے قیامت کو جھٹلانے والوں  کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۹۶، ملخصاً)

{اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ: جب وہ آگ انہیں  دُور کی جگہ سے دیکھے گی۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ بھڑکتی ہوئی آگ انہیں  دُور کی جگہ سے دیکھے گی تو اس قدر جوش مارے گی کہ کافر اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سُنیں  گے۔ دُور کی جگہ سے مراد ایک برس کی راہ ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک سو برس کی راہ مراد ہے اور آگ کا دیکھنا کچھ بعید نہیں ،  اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو حیات، عقل اور دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمادے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ا س سے جہنم میں  مامور فرشتوں  کا دیکھنا مراد ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۳۶۷)

{وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا: اور جب انہیں  ڈالا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کفار کو اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں جوانتہائی کرب و بے چینی پیدا کرنے والی ہو، زنجیروں  میں  جکڑکر اس طرح ڈالا جائے گا کہ اُن کے ہاتھ گردنوں  سے ملا کر باندھ دیئے گئے ہوں  یا اس طرح کہ ہرہر کافر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں  میں  جکڑا ہوا ہو، تو وہ وہاں  موت مانگیں  گے اور ’’وَاثَبُوْرَاہْ، وَاثَبُوْرَاہْ‘‘ یعنی ہائے! اے موت آجا، کا شور مچائیں  گے اور اس وقت ان سے فرمایا جائے گا:آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں  مانگو کیونکہ تم طرح طرح کے عذابوں  میں  مبتلا کئے جاؤ گے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۷۹۶-۷۹۷)

            حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے پہلے جس شخص کو آتشی لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذُرِّیَّت اس کے پیچھے ہوگی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں  گے۔‘‘ ان سے کہا جائے گا: ’’آج ایک موت نہ مانگو بلکہ بہت سی موتیں  مانگو۔‘‘( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۹، الحدیث: ۵۲)

قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: کیا یہ (عذابِ جہنم) بہتر ہے یا وہ ہمیشہ رہنے کا باغ جس کاڈرنے والوں کو وعدہ دیا گیا ہے، وہ باغ ان کے لئے بدلہ اور لوٹنے کی جگہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں  کہ کیا جہنم کا عذاب اور ا س کی ہولناکیاں  جن کا ذکر کیا گیا،یہ بہتر ہیں  یا وہ ہمیشہ رہنے کا باغ جس کا  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے عذاب سے ڈرنے والوں  کو وعدہ دیا گیا ہے، وہ باغ  اللہ تعالیٰ کے علم میں  اور اس کے کرم کے مطابق ان کے لئے اعمال کا بدلہ اور وہ جگہ ہے جس کی طرف یہ لوٹ کر جائیں  گے۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۳۰۳، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۹۵-۱۹۶، ملتقطاً)

لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ خٰلِدِیْنَؕ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـٴُـوْلًا(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

جنتیوں کیلئے جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جو وہ چاہیں گے، وہاں ہمیشہ رہیں گے، یہ تمہارے رب کے ذمہ کرم پر مانگا ہوا وعدہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَهُمْ: ان کے لیے۔} یعنی جنتیوں  کے لئے جنت میں  ان کے مرتبے کے مطابق ہر وہ نعمت اور لذت ہو گی جو وہ چاہیں گے اور وہ جنت میں  ہمیشہ رہیں  گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۱۹۶)

{كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا: یہ تمہارے رب کے ذمہ کرم پر مانگا ہوا وعدہ ہے۔} مانگے ہوئے وعدے سے مراد یہ ہے کہ وہ وعدہ مانگنے کے لائق ہے یا اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو مؤمنین نے دنیا میں  یہ عرض کرکے مانگا: ’’ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً‘‘ یعنی اے ہمارے رب!ہمیں  دنیا میں  بھلائی عطا فرما اور ہمیں  آخرت میں  (بھی) بھلائی عطا فرما۔ یا یہ عرض کر کے مانگا: ’’رَبَّنَا  وَ  اٰتِنَا  مَا  وَعَدْتَّنَا  عَلٰى  رُسُلِكَ ‘‘ یعنی اے ہمارے رب! اور ہمیں  وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں  کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۶۸)

وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَﭤ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جس دن وہ انہیں اور جن (بتوں) کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں ان کو جمع فرمائے گا تو( ان بتوں سے) فرمائے گا: کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی راستے سے بھٹکے تھے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ: اور جس دن انہیں  اکٹھا کرے گا۔} یعنی جس دن  اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور ان کے باطل معبودوں  کو جن کی یہ  اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کیا کرتے تھے، جمع فرمائے گا تو ان معبودوں  سے فرمائے گا: کیا میرے بندوں  کو تم نے گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی ہدایت کے راستے سے بھٹکے تھے؟  اللہ تعالیٰ حقیقتِ حال کا جاننے والا ہے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ، یہ سوال مشرکین کو ذلیل کرنے کے لئے ہے تاکہ اُن کے معبود انھیں  جھٹلائیں  تو اُن کی حسرت و ذلت اور زیادہ ہو۔ باطل معبودوں  سے عام معبودمراد ہیں  چاہے وہ ذَوِی الْعُقُول ہوں  یا غیر ذَوِی الْعُقُول،جبکہ کلبی نے کہا کہ اِن معبودوں  سے بُت مراد ہیں ، انہیں   اللہ تعالیٰ بولنے کی قوت دے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۷۹۷)

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰـكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى نَسُوا الذِّكْرَۚ-وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ عرض کریں گے:(اے اللہ!) تو پاک ہے، ہمارے لئے ہر گز جائز نہیں تھا کہ ہم تیرے سوا کسی اور کومددگاربنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ داداؤں کو فائدہ اُٹھانے دیا یہاں تک کہ انہوں نے (تیری) یاد کو بھلا دیا اور یہ لوگ ہلاک ہونے والے ہی تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَالُوْا: وہ عرض کریں  گے۔} یعنی وہ باطل معبود عرض کریں  گے :اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ا س سے پاک ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو، خودہمارے لئے ہر گز جائز نہیں  تھا کہ ہم تیرے سوا کسی اور کومددگاربنائیں  تو کیا ہم کسی دوسرے کو تیرے غیر کو معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے؟ ہم تیرے بندے ہیں ،لیکن تو نے انہیں  اور ان کے باپ داداؤں  کو دنیاسے فائدہ اُٹھانے کا موقع دیا اور انہیں  اموال، اولاد، لمبی عمر، صحت و سلامتی عنایت کی یہاں  تک کہ یہ غفلت میں  پڑے اورانہوں  نے تیری یاد کو بھلا دیا اور تیری نعمتوں  کو یاد کرنا اور تیری آیتوں  میں  غورو تَدَبُّر کرنا چھوڑ دیا اور انہوں  نے اپنے بُرے اختیار کی وجہ سے ہدایت کے اسباب کو گمراہی اور سرکشی کا ذریعہ بنا لیا اور یہ لوگ تیری اَزَلی قَضَا میں  ہلاک ہونے والے ہی تھے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۶۸-۳۶۹، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷۹۷-۷۹۸، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۹۷، ملتقطاً)

فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَۙ-فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًاۚ-وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو بیشک ان (جھوٹے معبودوں ) نے تمہاری بات کو جھٹلادیا تو اب تم نہ عذاب پھیرنے کی طاقت رکھو گے اور نہ اپنی مدد کرسکو گے اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ: پس بیشک انہوں  نے تمہاری بات کو جھٹلادیا۔} جب کفار کے باطل معبود جواب دے لیں  گے تو  اللہ تعالیٰ مشرکوں  سے فرمائے گا:اے مشرکو! تم نے اپنے معبودوں  کو خداکہا اور انہوں  نے تمہیں  جھوٹا کر دیا اب یہ بت نہ تمہاری مدد کر سکیں  گے، نہ ہم کریں  گے اورنہ تم ایک دوسرے کی مدد کر سکو گے اور تم میں  جو ظالم یعنی کافر اور کافر گر ہے ہم اسے جہنم کا بڑا عذاب چکھائیں  گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۱۹۸، ملخصاً)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِؕ-وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةًؕ-اَتَصْبِرُوْنَۚ-وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب یقیناکھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کیلئے آزمائش بنایا اور( اے لوگو!)کیا تم صبر کرو گے؟ اور( اے محبوب! )تمہارا رب خوب دیکھنے وا لاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ: اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے۔} اس آیت میں  کفار کے اس طعن کا جواب دیا گیاہے جو اُنہوں  نے سید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کیا تھا کہ وہ بازاروں  میں  چلتے ہیں  اور کھانا کھاتے ہیں ، یہاں  بتایا گیا کہ یہ اُمور نبوت کے مُنافی نہیں  بلکہ یہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مستقل عادت تھی لہٰذا یہ اعتراض محض جہالت اور عِناد پر مبنی ہے۔

{وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً: اور ہم نے تمہیں  ایک دوسرے کیلئے آزمائش بنایا۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  تین قول ہیں :

(1)… امیر لوگ جب اسلام لانے کاارادہ کرتے تھے تو وہ غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لاچکے اس لئے انہیں  ہم پر ایک فضیلت رہے گی۔اس خیال سے وہ اسلام قبول کرنے سے باز رہتے اور امیروں  کے لئے غریب صحابہ ٔکرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ آزمائش بن جاتے۔

(2)… یہ آیت ابوجہل، ولید بن عقبہ، عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی، ان لوگوں  نے حضرت ابو ذر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمار بن یاسر، حضرت بلال، حضرت صہیب اور حضرت عامر بن فُہَیرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں  تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں  تو اُنہیں  جیسے ہوجائیں  گے توہم میں  اور ان میں  فرق کیا رہ جائے گا۔

(3)… یہ آیت مسلمان فقراء کی آزمائش میں  نازل ہوئی جن کا کفارِ قریش مذاق اُڑایاکرتے تھے اور کہتے تھے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والے یہ لوگ ہیں  جو ہمارے غلام اور اَرذَل ہیں ۔  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور اُن مؤمنین سے فرمایا: ’’کیا تم اس فقر و شدت پر اور کفار کی اس بدگوئی پرصبر کرو گے اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اس کو خوب دیکھنے والاہے جو صبر کرے اور اس کو بھی جو بے صبری کرے۔‘‘( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۳۶۹)

غربت  اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا کا مال نہ ہونا اور غربت کا شکار ہونا  اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، ایسے موقع پر صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، اس جگہ ہم 3 ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں  کہ اگر غریب اور مَفلوکُ الْحال مسلمان ان پر عمل کر لیں  تو اِنْ شَاءَ  اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں  صبر و قرار نصیب ہو جائے گا۔

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں  سے کوئی شخص ا س کی طرف دیکھتا ہے جس کو اس پر مال اور شکل و صورت میں  فضیلت حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے سے کم درجے والے کی طرف دیکھے جس پر اسے فضیلت حاصل ہے۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۸(۲۹۶۳))

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے سے کم حیثیت والے کی طرف دیکھو اور جو تم سے زیادہ حیثیت کا ہے اس کی طرف نہ دیکھو کیونکہ یہ عمل اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم (اپنے اوپر)  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو حقیر نہ جانو۔‘‘( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۴، الحدیث: ۹(۲۹۶۳))

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو باتیں  ایسی ہیں  جس میں  وہ پائی جائیں  تو  اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے اور جس میں  یہ دونوں  خصلتیں  نہ ہوں  اسے  اللہ تعالیٰ صابر و شاکر نہیں  لکھے گا۔ (۱)جو شخص دینی معاملات میں  اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور اس کی پیروی کرے۔ (۲)دُنیوی اُمور میں  اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھے اور  اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرے کہ اسے اس پر فضیلت دی۔ اور جو آدمی دینی اُمور میں  اپنے سے نیچے والے کی طرف اور دُنیوی اُمور میں  اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے اور ا س پر افسوس کرے جو اسے نہیں  ملا تو  اللہ تعالیٰ اسے صابر و شاکر نہیں  لکھتا۔‘‘( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۵۸-باب، ۴ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۵۲۰)

وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَاؕ-لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اورجو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے انہوں نے کہا: ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے گئے ؟ یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھتے؟ بیشک انہوں نے اپنے دلوں میں تکبر کیا ہے اور انہوں نے بہت بڑی سرکشی کی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا: اورجو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں  رکھتے انہوں  نے کہا۔} اس آیت سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا انکار کرنے والوں  کے مزید اعتراضات ذکر کر کے ا ن کا رد کیا گیا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے ’’کفار جو کہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے اور حشر نشر کو نہیں  مانتے، اسی لئے وہ قیامت کے دن والی ہماری ملاقات کی امید نہیں  رکھتے، وہ کہتے ہیں  کہ ہمارے لئے رسول بنا کر یارسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کے گواہ بنا کر ہم پر فرشتے کیوں  نہ اتارے گئے ؟یا ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو کیوں  نہیں  دیکھتے جو ہمیں  خود بتا دے کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے رسول ہیں  اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ بیشک انہوں  نے اپنے دلوں  میں  تکبر کیا اور اُن کا تکبر انتہا کو پہنچ گیا ہے اور انہوں  نے بہت بڑی سرکشی کی اور وہ سرکشی میں  حد سے گزر گئے ہیں  کہ معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی فرشتوں  کے اپنے اوپر اترنے اور اللہ تعالٰی کو دیکھنے کا سوال کر رہے ہیں۔(ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۲۹، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۱۹۹-۲۰۰، ملتقطاً)

یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَىٕذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

یاد کروجس دن لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے تواس دن مجرموں کے لئے کوئی خوشخبری نہ ہوگی اوروہ کہیں گے: (یا اللہ ! ہمارے درمیان) کوئی روکی ہوئی آڑ کردے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓىٕكَةَ: یاد کروجس دن لوگ فرشتوں  کو دیکھیں  گے۔} یعنی لوگ اپنی موت کے وقت روح نکالنے والے فرشتوں  کو اِس حال میں  دیکھیں  گے یا قیامت کے دن عذاب دینے پر مامور فرشتوں  کو اس حال میں  دیکھیں  گے کہ وہ ان سے کہہ رہے ہوں  گے’’اس دن مجرموں  کیلئے کوئی خوشخبری نہ ہوگی۔( بیضاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۱۳، جلالین مع صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۱۴۳۲، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ اس آیت میں  مجرموں  سے مرادکفار ہیں ، مومنین کو قیامت کے دن جنت کی بشارت سنائی جائے گی،جیساکہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

’’یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘( حدید:۱۲)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان جس دن تم مومن مردوں  اورایمان  والی عورتوں  کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں  جانب دوڑرہا ہے (فرمایا جائے گا کہ) آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں  ہیں  جن کے نیچے نہریں   بہتی ہیں  تم ان میں  ہمیشہ رہو، یہی بڑی کامیابی ہے۔

{وَ یَقُوْلُوْنَ: اوروہ کہیں  گے۔} ا س آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت کے دن کفار جب فرشتوں  کو دیکھیں  گے تو وہ فرشتوں  سے پناہ چاہتے ہوئے کہیں  گے:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے اور ان فرشتوں  کے درمیان کوئی روکی ہوئی آڑ کردے۔(روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۲۰۱) دوسری تفسیر یہ ہے،حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  نے فرمایا: ’’فرشتے (ان کفار سے) کہیں  گے کہ مومن کے سوا کسی کے لئے جنت میں  داخل ہونا حلال نہیں ۔ (تو کافروں  اور جنت کے درمیان روکی ہوئی آڑ ہے۔)( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۳۷۰) اسی لئے وہ دِن کفار کے لئے انتہائی حسرت و ندامت اور رنج وغم کا دن ہوگا۔

وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(23)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا: تو ہم اسے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح بنادیں  گے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار نے کفر کی حالت میں  جو کوئی ظاہری اچھے عمل کیے ہوں  گے جیسے صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور یتیموں  کی پرورش وغیرہ، اللہ تعالٰی ان کی طرف قصد کرکے روشندان کی دھوپ میں  نظر آنے والے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح انہیں  بے وقعت بنادے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کردیئے جائیں  گے، ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہ ہو گاکیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں  مُیَسَّر نہ تھا۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)

قیامت کے دن کچھ مسلمانوں  کے اعمال بے وقعت کر دئیے جائیں  گے:

            اس آیت میں  قیامت کے دن کفار کے اعمال باطل ہونے کا ذکرکیا گیا ہے جبکہ اَحادیث میں  بعض ایسے مومنین کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کے اعمال قیامت کے دن بے وقعت کر دئیے جائیں  گے۔ چنانچہ اس سلسلے میں  یہاں  دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  اپنی امت میں  سے ان لوگوں کو جانتا ہوں  کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں  گے تو ان کی نیکیاں  تہامہ کے پہاڑوں  کی مانند ہوں  گی لیکن اللہ تعالٰی انہیں  روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے سامنے ان لوگوں  کا صاف صاف حال بیان فرما دیجئے تاکہ ہم جانتے ہوئے ان لوگوں  میں  شریک نہ ہو جائیں ۔سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’وہ تمہارے بھائی، تمہارے ہم قوم ہوں  گے، راتوں  کو تمہاری طرح عبادت کیا کریں  گے، لیکن وہ لوگ تنہائی میں  برے اَفعال کے مُرتکب ہوں  گے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب، ۴ / ۴۸۹، الحدیث: ۴۳۴۵)

(2)…حضرت ابو حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے آئیں  گے کہ ان کے پاس تہامہ کے پہاڑوں  کے برابر نیکیاں  ہو ں  گی،یہاں  تک کہ جب انہیں  لایا جائے گا تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال کو روشندان سے نظر آنے والے غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) کر دے گا،پھر انہیں  جہنم میں  ڈال دے گا۔ حضرت سالِم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں  باپ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان ہو جائیں ! ہمیں  ان لوگوں  کا حال بتا دیجئے ؟ارشاد فرمایا:’’وہ لوگ نماز پڑھتے ہوں  گے، روزے رکھتے ہوں  گے، نیند سے بیدار ہو کر راتوں  کو قیام کرتے ہوں  گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی حرام چیز پیش کی جائے تو وہ اس پر کود پڑتے ہوں  گے، تو اللہ تعالٰی ان کے اعمال باطل فرما دے گا۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، سالم مولی ابی حذیفۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۵۷۵)

اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ یَوْمَىٕذٍ خَیْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِیْلًا(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

جنت والے اس دن ٹھکانے کے اعتبار سے بہتر اور آرام کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ: جنت والے۔} اس سے پہلی آیات میں  کفار کے کامل خسارے اور مکمل طور پر ناکامی کا ذکر کیا گیا، اب اس آیت میں  قیامت کے دن اہلِ جنت پر ہونے والے انعامات کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اُخروی کامیابی صرف اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنے میں  ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت والے یعنی مومنین قیامت کے دن ان مغرور، متکبر مشرکوں  کے مقابلے میں  ٹھکانے کے اعتبار سے بہتر اور آرام کے اعتبار سے سب سے اچھے ہوں  گے۔( تفسیرکبیر ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۲۴ ،  ۸ / ۴۵۱ ، خازن ، الفرقان ، تحت الآیۃ : ۲۴، ۳ / ۳۷۰، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۲۰۲، ملتقطاً)

وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىٕكَةُ تَنْزِیْلًا(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جس دن آسمان بادلوں سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے پوری طرح اتارے جائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ: اور جس دن آسمان بادلوں  سمیت پھٹ جائے گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’(جب قیامت قائم ہو گی تو اس دن) پہلے آسمانِ دنیا پھٹے گا اور وہاں  کے رہنے والے فرشتے زمین پر اتریں  گے اور ان کی تعداد زمین کے جن و اِنس سب سے زیادہ ہو گی، پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اوروہا ں  کے رہنے والے فرشتے اتریں  گے، وہ آسمانِ دنیا کے رہنے والوں  سے اور جن واِنس سب سے زیادہ ہیں ، اسی طرح آسمان پھٹتے جائیں  گے اور ہر آسمان والوں  کی تعداد اپنے ماتحتوں  سے زیادہ ہے یہاں  تک کہ ساتواں  آسمان پھٹے گا، پھر کرّوبین (یعنی فرشتوں  کے سردار) اتریں  گے، پھر عرش اٹھانے والے فرشتے اتریں  گے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۷۰)

اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِؕ-وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن سچی بادشاہی رحمٰن کی ہوگی اور کافروں پر وہ بڑا سخت دن ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْمُلْكُ: بادشاہی۔} یعنی قیامت کے دن سچی بادشاہی رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کی ہوگی اور ا س دن اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی بادشاہ نہ ہوگا اور وہ دن کافروں  پر بڑا سخت اور انتہائی شدید ہوگا۔

اللہ تعالٰی کے فضل سے قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان ہو گا:

            علامہ علی بن محمد خازن  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت سے ثابت ہو اکہ اللہ تعالٰی کے فضل سے قیامت کا دن مسلمانو ں  پر آسان ہو گا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۷۱)

            احادیث میں  بھی قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان ہونے کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے،چنانچہ یہاں  اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی گئی کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کی مقدار کے برابر ہو گا تو یہ دن کتنا طویل ہو گا! نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں  میری جان ہے ! قیامت کا دن مسلمانوں  پر آسان کیا جائے گا یہاں  تک کہ وہ اُن کے لئے ایک فرض نماز سے ہلکا ہوگا جو دنیا میں  پڑھی تھی۔( مسند امام حمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴ / ۱۵۱، الحدیث: ۱۱۷۱۷)

(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگ سب جہانوں  کے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اس دن کے نصف تک کھڑے ہوں  گے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، مسلمانوں  کے لئے وہ دن اتنا آسان گزرے گا جتنا وقت سورج کے غروب کی طرف مائل ہونے سے لے کر ا س کے غروب ہونے تک لگتا ہے۔(مسند ابو یعلی، مسند ابی ہریرۃ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۵۹۹۹)

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں  پر کاٹے گا۔} ارشاد فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں  جس دن ظالم حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں  پر کاٹے گا اورکہے گا : اے کاش کہ میں  نے رسول کے ساتھ جنت و نجات کاراستہ اختیار کیا ہوتا، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی ہدایت کو قبول کیا ہوتا۔

            یہ حال اگرچہ کفار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف کا گہرا دوست تھا، حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مُرتَد ہوگیا، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے قتل ہوجانے کی خبر دی، چنانچہ وہ بدر میں  مارا گیا۔ اس کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں  وہ اپنے ہاتھوں  کو کاٹنے لگے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۰۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۷۱، ملتقطاً)

یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(28)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰوَیْلَتٰى: ہائے میری بربادی!} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہے گا: ’’ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں  نے فلاں  کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالٰی کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۳ / ۳۷۱، ملخصاً)

 بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہو اکہ بد مذہبوں  اور برے لوگوں  کی صحبت اختیار کرنا،انہیں  اپنا دوست بنانا اور ان سے محبت کرنادنیا اور آخرت میں  انتہائی نقصان دِہ ہے۔ اَحادیث میں  بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ترغیب کے لئے یہاں  اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔( ابن عساکر ، ذکر من اسمہ الحسین ، حرف الجیم فی آباء من اسمہ الحسین ، الحسین بن جعفر بن محمد ۔۔۔ الخ ، ۱۴ / ۴۶) یعنی جیسے لوگوں  کے پاس آدمی کی نشست وبَرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں ۔

(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خودکو مشقت میں  ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں  پہنچائے گااور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اورجھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں  تک پہنچائے گا اور دوسروں  کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں  بولے گا۔( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ۴۲ / ۵۱۶)

            فی زمانہ بعض نادان لوگ بد مذہبوں  سے تعلقات قائم کرتے اور یہ کہتے سنائی دیتے ہیں  کہ ہمیں  اپنے مسلک سے کوئی ہلا نہیں  سکتا، ہم بہت ہی مضبوط ہیں ،ہم نے ان سے تعلق ا س لئے قائم رکھاہوا ہے تاکہ انہیں  اپنے جیسا بنالیں ، یونہی بعض نادان تسکینِ نفس کی خاطر بد مذہب عورتوں  سے نکاح کرتے اور یوں  کہتے ہیں  کہ ہم نے ان سے نکاح اس لئے کیا ہے تاکہ انہیں  بھی اپنے رنگ میں  رنگ لیں ،اسی طرح کچھ نادان گھرانے ایسے بھی ہیں  جو صرف دنیا کی اچھی تعلیم کی خاطر اپنے نونہالوں  کو بد مذہب استادوں  کے سپرد کردیتے ہیں  اور بالآخر یہی بچے بڑے ہو کر بد مذہبی اختیار کر جاتے ہیں ، ایسے لوگوں  کو چاہئے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :غیر مذہب والیوں  (یا والوں ) کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مردوں  کے مذہب (بھی) اس میں  بگڑ گئے ہیں ۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصہ مشہور ہے، یہ تابعین کے زمانہ میں  ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت (سے شادی کرکے اس) کی صحبت میں  (رہ کر) مَعَاذَاللہ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ (اس سے شادی کر کے) اسے سنی کرنا چاہتا ہے۔ جب صحبت کی یہ حالت (کہ اتنا بڑا محدث گمراہ ہو گیا) تو (بدمذہب کو) استاد بنانا کس درجہ بدتر ہے کہ استاد کا اثر بہت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سپردگی یا شاگردی میں  اپنے بچوں  کو وہی دے گا جو آپ (خودہی) دین سے واسطہ نہیں  رکھتا اور اپنے بچوں  کے بددین ہو جانے کی پرواہ نہیں  رکھتا۔( فتاویٰ رضویہ،علم وتعلیم، ۲۳ / ۶۹۲)

            اللہ تعالٰی ہمیں  بدمذہبوں  اور برے لوگوں  سے دوستی رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے محفوظ فرمائے اور نیک و پرہیز گار لوگوں  سے میل جول رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔یہاں  ایک مسئلہ یاد رکھیں  کہ بے دین اور بدمذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور الفت و احترام ممنوع ہے۔

اچھی صحبت اور دوستی اختیار کرنے کی ترغیب:

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اچھے لوگوں  کی صحبت اختیار کرے اور اپنا دوست بھی اچھے لوگوں  کو ہی بنائے۔ کثیر احادیث میں  اچھی صحبت اختیار کرنے اور اچھے ساتھیوں  کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے یہاں  ان میں  سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل مومن کے علاوہ کسی کو ہم نشین نہ بناؤ اور تمہارا کھانا پرہیز گار ہی کھائے۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب من یؤمر ان یجالس، ۴ / ۳۴۱، الحدیث: ۴۸۳۲)

(2)…حضرت ابو جحیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بڑوں  کے پاس بیٹھا کرو، علما ء سے باتیں  پوچھا کرو اور حکمت والوں  سے میل جول رکھو۔( معجم الکبیر، سلمۃ بن کہیل عن ابی جحیفۃ، ۲۲ / ۱۲۵، الحدیث: ۳۲۴)

(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون سا ساتھی اچھا ہے؟ارشاد فرمایا’’اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے تو وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے۔(رسائل ابن ابی الدنیا ، کتاب الاخوان ، باب من امر بصحبتہ ورغب فی اعتقاد مودتہ ، ۸ / ۱۶۱، الحدیث: ۴۲)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا ہم نشین وہ ہے کہ اسے دیکھنے سے تمہیں  خدایاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں  زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں  آخرت کی یاد دلائے۔( جامع صغیر، حرف الخاء، ص۲۴۷، الحدیث: ۴۰۶۳)

وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور رسول نے عرض کی: اے میرے رب!میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل بنا لیاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الرَّسُوْلُ: اور رسول نے عرض کی۔} جب کفار کے اعتراضات اور طعن و تشنیع حد سے زیادہ ہو گئے تو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  عرض کی: ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم نے اس قرآن کو ایک چھوڑ دینے کے قابل چیز بنا لیاہے کہ کسی نے اس کو جادو کہا، کسی نے شعر اور یہ لوگ قرآن مجید پر ایمان لانے سے محروم رہے۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۴۵۵، ملخصاً)

         اس آیت میں  چھوڑنے سے اصل مراد تواس پر ایمان نہ لانا ہے۔ لیکن چھوڑنے کی اس کے علاوہ بھی صورتیں  ہیں  لہٰذا قرآن مجید کے حوالے سے مسلمان کاحال ایسا نہیں  ہونا چاہئے جس سے یہ لگے کہ اس نے قرآن مجید کو چھوڑ رکھا ہے، بلکہ اسے چاہئے کہ روزانہ تلاوتِ قرآن کرے، قرآن مجید کی آیات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ان میں  غورو تَدَبُّر کیاکرے، نیز اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں  جو احکامات دیئے ہیں  ان پر عمل کرے اور جن کاموں  سے منع کیا ہے ان سے باز رہے تاکہ وہ قرآن مجید کو عملی طور پر چھوڑ رکھنے والے لوگوں  میں  شامل نہ ہو۔

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِیًا وَّ نَصِیْرًا(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے اسی طرح ہر نبی کے لیے مجرم لوگوں کو دشمن بنادیا تھا اورہدایت دینے اور مدد کرنے کے لئے تمہارا رب کافی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَذٰلِكَ: اور اسی طرح۔} اس آیت میں  اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مدد کا وعدہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ غم نہ کریں  کیونکہ اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بدنصیب کافروں کا یہی معمول رہا ہے، تو جس طرح گزشتہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کرتے رہے، اسی طرح آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی صبر فرمائیں  اورآپ کی تسلی کیلئے یہی بات کافی ہے کہ دین ودنیا کی مَصلحتوں  کی طرف ہدایت دینے اور دشمنوں  کے خلاف مدد کرنے کیلئے آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ کافی ہے۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۸ / ۴۵۵-۴۵۶، ملخصاً)

آزمائشیں  مقبول بندوں  کے درجات کی بلندی کا سبب ہیں  :

         اس آیت سے اشارۃمعلوم ہوا کہ ہر نبی اور ولی کا کوئی دشمن ہو تاہے جس کے ذریعے اللہ تعالٰی اِنہیں  آزمائش میں  مبتلا فرماتا ہے اور ان کے شرف ومقام کو ظاہر فرماتا ہے۔ حضرت ابوبکر بن طاہر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دشمنوں  اور مخالفت کرنے والوں  کے ذریعے آزمائش میں  مبتلا کر کے اَنبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۲۰۸)

وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةًۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافروں نے کہا: ان پرسارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں نہیں اتار دیاگیا؟ (ہم نے) یونہی (اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا) تاکہ اس کے ساتھ ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں  نے کہا۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والے کفارِ مکہ نے کہا، اگر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ گمان ہے کہ آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالٰی کے رسول ہیں  تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس سارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں  نہیں  لے کر آئے جیسے تورات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، انجیل حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اور زبور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۴۵۷)

             کفار کا یہ اعتراض بالکل فضول اور مُہمَل ہے کیونکہ قرآن کریم کا عاجز کر دینے والا ہونا ہر حال میں  یکساں  ہے، چاہے وہ ایک ہی مرتبہ نازل ہو یا تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہو۔( بیضاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲،۴ / ۲۱۶) بلکہ قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونے میں  اس کے معجزہ ہونے کی بڑی دلیل ہے کہ اس طرح ہر آیت کا مقابلہ کرنے سے کفار کا عاجز ہونا ظاہر ہو رہا ہے۔

{كَذٰلِكَ: یونہی۔} آیت کے اس حصے میں  اللہ تعالٰی قرآن پاک کو بَتَدریج نازل فرمانے کی حکمت ظاہر کرتے ہوئے ارشادفرمارہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے یونہی اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیاتاکہ اس کے ساتھ ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں اور پیام کا سلسلہ جاری رہنے سے آپ کے قلب مبارک کو تسکین ہوتی رہے اور کفار کو ہر ہر موقع پر جواب ملتے رہیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی فائدہ ہے کہ قرآن پاک کو حفظ کرنا سہل اور آسان ہو۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۸۰۱-۸۰۲، ملخصاً)

{وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا: اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی زبان سے تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس کی مدت میں  پڑھا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے ایک آیت کے بعد دوسری آیت بتدریج نازل فرمائی اور بعض مفسرین نے کہا کہ اس آیت میں  اللہ تعالٰی نے ہمیں  قرا ء ت میں  ترتیل کرنے یعنی ٹھہر ٹھہر کر، اطمینان کے ساتھ پڑھنے اور قرآن شریف کو اچھی طرح ادا کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا:

’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا‘‘

ترجمۂ: کنزُالعِرفان اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔( ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۱۳۵)وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاﭤ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ آپ کے پاس کوئی بھی مثال لے آئیں ، ہم آپ کے پاس حق اور بہتر بیان لے آئیں گے۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ: اور وہ آپ کے پاس کوئی مثال نہ لائیں  گے۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مشرکین آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کے خلاف یا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر جو بھی اعتراض قائم کریں  گے ہم ا س کا انتہائی نفیس جواب دیں  گے۔( صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۴۳۶)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورا قدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بارگاہِ الہٰی میں  وہ قُرب حاصل ہے کہ جب اعتراض حضور نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہو تو ا س کا جواب اللہ تعالٰی دیتا ہے۔

اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَۙ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِیْلًا(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جنہیں ان کے چہروں کے بل جہنم کی طرف ہانکا جائے گا ان کا ٹھکانہ سب سے بدتر اور وہ سب سے زیادہ گم راہ ہیں ۔

‎صراط الجنان:  تفسیر

{اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ: جن لوگوں  کو ان کے چہروں  کے بل ہانکا جائے گا۔} قیامت کے دن چہروں  کے بل ہانکے جانے سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ آدمی روزِ قیامت تین طریقے پر اُٹھائے جائیں  گے ایک گروہ سواریوں  پر، ایک گروہ پیادہ پا اور ایک جماعت منہ کے بل گھسٹتی ہوئی۔ عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ منہ کے بل کیسے چلیں  گے؟ ارشاد فرمایا: ’’جس نے انہیں  پاؤں  پر چلایا ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ انہیں  منہ کے بل چلائے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۶، الحدیث: ۳۱۵۳)

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًا(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔

‎صراط الجنان:  تفسیر

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔} اس رکوع میں  اللہ تعالٰی نے بعض انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات اِجمالی طور پر بیان فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفار کی مخالفت اور سازشوں  کا غم نہ کریں ، جس نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے دشمنی مول لی تو اسے بھی ہلاک و برباد کر دیا جائے گا جیسے آپ سے پہلی امتوں  میں  سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخالفین کوہلاک کر دیا گیا۔ (صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۵، ۴ / ۱۴۳۶، ملخصاً) چنانچہ فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے انہیں  جھٹلایا گیا اور انہیں  جو معجزات عطا کئے ان کا انکار کیا گیا،بے شک ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطا فرمائی اور اس کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے ہم نے ا س کا بازو مضبوط کیا لیکن اس کے باوجود ان کی مخالفت کی گئی۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۴۵۸)

فَقُلْنَا اذْهَبَاۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاؕ-فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِیْرًاﭤ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو ہم نے فرمایا :تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جس نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے تو ہم نے انہیں مکمل طور پر تباہ کردیا۔

صراط الجنان :تفسیر ‎

{فَقُلْنَا: تو ہم نے فرمایا۔} اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا کہ تم دونوں  قومِ فرعون کی طرف جاؤ،ان لوگوں  نے ہماری آیتوں  کو جھٹلایا ہے، چنانچہ وہ دونوں  حضرات ان کی طرف گئے اور انہیں  اللہ تعالٰی کا خوف دلایا اور اپنی رسالت کی تبلیغ کی، لیکن ان بدبختوں  نے ان حضرات کوجھٹلایا اور اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالٰی نے انہیں  مکمل طور پر تباہ کردیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۸۰۳، ملخصاً)

وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةًؕ-وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایاتو ہم نے انہیں غرق کردیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی بنادیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ قَوْمَ نُوْحٍ: اور نوح کی قوم۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو بھی ہلاک کر دیا، جب انہوں  نے رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایاتو ہم نے انہیں  غرق کردیا۔یہاں  رسولوں  سے مراد حضرت نوح، حضرت ادریس اور حضرت شیث عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں  یا یہ بات ہے کہ ایک رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب تمام رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب ہے تو جب انہوں  نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تو گویا سب رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں  لوگوں  کے لیے عبرت کا نشان بنادیاتا کہ بعد والوں  کے لئے عبرت ہوں  اور ہم نے کفر و تکذیب میں  حد سے بڑھنے والے ظالموں  کے لیے دنیاکے عذاب کے علاوہ آخرت میں  دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۸۰۳، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۲۱۱، ملتقطاً)

وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا(38)وَ كُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ٘-وَ كُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیْرًا(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور عاد اور ثمود اور کنویں والے اور ان کے درمیان کی بہت سی قومیں ( ہم نے ہلاک کردیں ۔) اور ہم نے ہر قوم کیلئے مثالیں بیان فرمائیں اور ہم نے سب کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔

‎صراط الجنان:  تفسیر

{وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ: اور عاد اور ثمود۔} یعنی ہم نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد اورحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود کو بھی ہلاک کر دیا اور کنوئیں  والوں  کو ہلاک کر دیا۔یہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم تھی جو کہ بت پرستی کرتے تھے، اللہ تعالٰی نے اُن کی طرف حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُنہیں  اسلام کی دعوت دی توانہوں  نے سرکشی کی، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ایذا دی، اُن لوگوں  کے مکان ایک کنوئیں  کے گرد تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں  ہلاک کیا اور یہ تمام قوم اپنے مکانوں  سمیت اس کنوئیں  کے ساتھ زمین میں  دھنس گئی۔ کنویں  والوں  کے بارے میں  اس کے علاوہ اور اَقوال بھی ہیں۔مزید ارشاد فرمایا کہ قومِ عاد و ثمود اور کنوئیں  والوں  کے درمیان میں  بہت سی امتیں  ہیں  جنہیں  انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرنے کے سبب سے اللہ تعالٰی نے ہلاک کر دیا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۷۳)

{وَ كُلًّا: اور سب سے۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر قوم کو سمجھانے کیلئے مثالیں  بیان فرمائیں ،ان پر حجتیں  قائم کیں  اور ان میں  سے کسی کو ڈر سنائے بغیر ہلاک نہ کیا اورجب انہوں  نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا توہم نے سب کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۳۰۶)

وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِؕ-اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَاۚ-بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوربیشک یہ اس بستی پر ہو آئے ہیں جس پر بری بارش کی گئی تو کیا یہ اس بستی کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ یہ مرنے کے بعد اٹھنے کی امید نہیں رکھتے۔

صراط الجنان: ‎ تفسیر

{وَ لَقَدْ اَتَوْا: اور ضرور یہ ہو آئے ہیں ۔} یعنی کفارِمکہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں  میں  بار بار اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پر پتھروں  کی بری بارش کی گئی تھی توکیا کفارِ مکہ سفر کے دوران اس بستی کو اپنی آنکھوں  سے نہیں  دیکھتے تھے تاکہ ان کے انجام سے عبرت پکڑ تے اور ایمان لاتے، بلکہ ان لوگوں  کا حال یہ ہے کہ یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے قائل ہی نہیں  کہ انہیں  آخرت کے ثواب و عذاب کی کوئی پروا ہ ہوتی،تو پھر ہلاکت کے آثار دیکھ کر یہ کس طرح عبرت حاصل کرتے اور ایمان لاتے۔

         اِس آیت میں  جس بستی پر پتھروں  کی بارش ہونے کا ذکر ہوا اس سے مراد ’’سدوم ‘‘ نامی بستی ہے جو کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی پانچ بستیوں  میں  سب سے بڑی بستی تھی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں  کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ پانچوں  بستیوں  کو ہلاک کر دیاگیا اور ایک قول یہ ہے کہ ان بستیوں  میں  سب سے چھوٹی بستی کے لوگ تو اس خبیث بدکاری کے عامل نہ تھے جس میں  باقی چار بستیوں  کے لوگ مبتلا تھے، اس لئے انہوں  نے تونجات پائی جبکہ بقیہ چار بستیاں  اپنی بدعملی کے باعث آسمان سے پتھر برسا کر ہلاک کردی گئیں ۔ حقیقت میں  چار یا پانچ بستیاں  ہلاک ہوئیں  لیکن یہاں  صرف ایک کا ذکر اس لئے ہے کہ کفارِ مکہ کا تجارتی سفروں  کے درمیان جس بستی سے گزر ہوتا تھا وہ یہی تھی۔

وَ اِذَا رَاَوْكَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًاؕ-اَهٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا(41)اِنْ كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَاؕ-وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(42)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کو ٹھٹھا مذاق بنالیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) کیا یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ ۔ (اور کہتے ہیں کہ) قریب تھا کہ اگر ہم اپنے معبودوں پر ڈٹے نہ رہتے تو یہ (رسول) ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتے اور (اللہ فرماتا ہے کہ) عنقریب یہ جان لیں گے جب عذاب دیکھیں گے کہ کون گمراہ تھا؟

صراط الجنان :تفسیر ‎

{وَ اِذَا رَاَوْكَ: اور جب آپ کو دیکھتے ہیں ۔} ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن مشرکین کے سامنے آپ نے سابقہ قوموں  کے واقعات بیان فرمائے ہیں ، یہ جب آپ کو دیکھتے ہیں  تو آپ کو ٹھٹھا مذاق بنالیتے ہیں  اور کہتے ہیں  کہ کیا یہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق میں  سے ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟( تفسیرطبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۱، ۹ / ۳۹۲)

{اِنْ كَادَ: قریب تھا۔} اس آیت میں  ارشاد فرمایا کہ وہ مشرکین مزید یہ کہتے ہیں  کہ اگر ہم اپنے ان معبودوں پر ڈٹے نہ رہتے اور ان کی عبادت پر ثابت قدم نہ رہتے تو قریب تھا یہ نبی ہمیں  ہمارے معبودوں  سے بہکادیتے۔( تفسیرطبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ۹ / ۳۹۳)

            اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اظہارِ معجزات نے کفار پر اتنا اثر کیا تھا اور دین ِحق کو اس قدر واضح کردیا تھا کہ خود کفار کو اقرار ہے کہ اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر جمے نہ رہتے تو قریب تھا کہ بت پرستی چھوڑ دیں  اور دین ِاسلام اختیار کریں ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین ِاسلام کی حقانیت اُن پر خوب واضح ہوچکی تھی اور شکوک و شُبہات مٹا ڈالے گئے تھے لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ایمان قبول کرنے سے محروم رہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۰۴)

{وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ: اور عنقریب یہ جان لیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ عنقریب جب یہ لوگ آخرت کاعذاب دیکھیں  گے تو اس وقت جان لیں  گے کہ کون گمراہ تھا۔یہ کفار کی اس بات کا جواب ہے جو انہوں  نے کہی تھی کہ قریب ہے کہ یہ ہمیں  ہمارے خداؤں  سے بہکادیں ۔ یہاں  بتایا گیا کہ بہکے ہوئے تم خود ہو اورآخرت میں  یہ تمہیں  خود ہی معلوم ہوجائے گا اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف تم نے جو بہکانے کی نسبت کی ہے وہ محض بے جا ہے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۸۰۴)

اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًا(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے توکیا تم اُس پر نگہبان ہو؟۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{اَرَءَیْتَ: کیا تم نے دیکھا۔} زمانۂ جاہلیت میں  عرب کے مشرکین کا دستور تھا کہ ان میں  سے ہر ایک کسی پتھرکو پوجتا تھا اور جب کہیں  اُسے کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتاتو پہلے کو پھینک دیتااور دوسرے کو پوجنے لگتا۔اس آیت میں  اسی چیز کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اورا پنے نفس کی خواہش کو پوجنے لگا اوراسی کا فرمانبردار ہوگیا، وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا۔ توکیا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس پر نگہبان ہو کہ انہیں  خواہش پرستی سے روک دو؟( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۸۰۴)

عقل خواہشات سے کیسے مغلوب ہوکر چھپ جاتی ہے؟

            یاد رہے کہ بعض اوقات خواہشات کے سامنے بندے کی عقل مغلوب ہو کر چھپ جاتی ہے اور خواہش غالب آکر آدمی کو اپنا غلام بنا لیتی ہے،ایسا کیسے اور کس طرح ہوتا ہے؟ اسے جاننے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’ایک دل وہ ہوتا ہے جو خواہشات سے بھرا ہوا اور بری عادات سے آلودہ ہو اور اس میں  ایسی خباثیتں  ہوتی ہیں  جن میں  شیطا نوں  کے دروازے کھلتے اور فرشتوں  کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ ایسے دل میں  شر کا آغاز یوں  ہوتا ہے کہ اس میں  نفسانی خواہشات کا خیال پیدا ہوتا اور کھٹکتا ہے تو دل حاکم یعنی عقل کی طرف دیکھ کر اس سے حکم پوچھنا چاہتا ہے تاکہ صحیح بات واضح ہو جائے اور چونکہ عقل نفسانی خواہشات کی خدمت سے مانوس ہوتی ہے لہٰذاوہ اس کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتی اور خواہش کو پورا کرنے پر اس کی مدد کرتی ہے۔جب وہ دل کی مدد کرتی ہے تو سینہ خواہش کے ساتھ کھلتا ہے اور اس میں  خواہش کا اندھیرا پھیلتا ہے کیونکہ عقل کے لشکر اس کا مقابلہ کرنے سے رک جاتے ہیں  اور خواہش پھیلنے کی وجہ سے شیطان کی سلطنت مضبوط ہوجاتی ہے اور اس وقت وہ ظاہری زینت، دھوکہ اورجھوٹی تمناؤں  کے ذریعے دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دھوکہ دینے کے لیے من گھڑت باتیں  دل میں  ڈالتا ہے اور یوں  ایمان کی حکومت کمزور پڑجاتی ہے یعنی وعدہ اور وعید پر یقین نہیں  رہتا اور اُخروی خوف کے یقین کانور ٹھنڈا پڑجاتا ہے کیونکہ خواہش سے ایک سیاہ دھواں  دل کی طرف اٹھتا ہے جو اس کے اَطراف کو بھردیتا ہے حتّٰی کہ اس کے انوارمٹ جاتے ہیں  اور اس وقت عقل اس آنکھ کی طرح ہوتی ہے جس کے پپوٹےدھوئیں  سے بھر جائیں  اوراس وجہ سے بندہ دیکھنے پر قدرت نہیں  رکھتا، شہوت کے غلبے سے بھی دل کی یہی حالت ہوتی ہے حتّٰی کہ دل سوچ وبچار کرنے کے قابل نہیں  رہتا اور اس کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے اور اگر کوئی واعظ اسے حق بات بتا اور سنا دے تو وہ سمجھنے سے اندھا اور سننے سے بہرہ ہوجاتا ہے اورجب شہوت میں  ہیجان ہوتا ہے تو شیطان اس پر حملہ کرتا ہے،پھر اَعضاء خواہش کے مطابق حرکت کرتے ہیں  اور یوں  گناہ عالَمِ غیب سے ظاہر کی طرف آتا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کی قضاء و قَدر سے ہوتا ہے۔ اسی قسم کے دل کی طرف اللہ تعالٰی کے اس ارشادِ گرامی میں  اشارہ ہے۔

’’اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُؕ-اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ(۴۳) اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا۠‘‘( فرقان:۴۳،۴۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے توکیا تم اُس پر نگہبان ہو؟یا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان میں  اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں  ؟ یہ تو صرف جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں ۔

            اورارشادِباری تعالٰی ہے:

’’لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۷)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان بیشک ان میں  اکثر پر (اللہ کے عذاب کی) بات ثابت ہوچکی ہے تو وہ ایمان نہ لائیں  گے۔

            اور ارشادِ باری تعالٰی ہے :

’’وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘(یس:۱۰)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان  اور تمہارا اُنہیں  ڈرانا اور نہ ڈرانا ان  پر برابرہے وہ ایمان نہیں  لائیں  گے۔

            اور کئی دل ایسے ہیں  کہ بعض خواہشات کی طرف نسبت کی صورت میں  ان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے کوئی شخص بعض چیزوں  سے پرہیز کرتا ہے لیکن جب وہ کسی حسین چہرے کو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ اور دل اس کے قابو میں  نہیں  رہتے، اس کی عقل چلی جاتی ہے اور دل کا ٹھہراؤ باقی نہیں  رہتا یا وہ شخص جاہ ومرتبے، حکومت اور تکبر کے سلسلے میں  اپنے دل کو قابو میں  نہیں  رکھ سکتا اور جب ان باتوں  کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں  تو ضبط نہیں  کرسکتا یا اس شخص کی طرح ہے جس کے عیب بیان کیے جائیں  یا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ اپنے غصہ پر قابو نہیں  پاسکتا یاوہ شخص جو درہم یا دینار لینے کی طاقت رکھتے وقت اپنے اوپر کنٹرول نہیں  کرسکتا بلکہ وہ اس پر ایک دیوانے کی طرح گرتا ہے اور تقویٰ و مُرَوَّت کو بھی بھول جاتا ہے یہ سب باتیں  اس لیے ہوتی ہیں  کہ خواہش کا دھواں  دل کی طرف چڑھتا ہے حتّٰی کہ وہ تاریک ہوجاتا ہے اور اس سے معرفت کے انوارمٹ جاتے ہیں  اوریوں  حیائ، مروت اور ایمان مٹ جاتا ہے اور وہ شیطانی مراد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتاہے۔( احیاء علوم الدین،کتاب شرح عجائب القلب،بیان سرعۃ تقلب القلب وانقسام القلوب فی التغییر والثبات،۳ / ۵۷-۵۸)

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَؕ-اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

یا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان میں اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ یہ تو صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں ۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{اَمْ تَحْسَبُ: یا یہ سمجھتے ہو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ مشرکین اپنی شدتِ عناد کی وجہ سے نہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات سنتے ہیں ، نہ دلائل و بَراہین کو سمجھتے ہیں  بلکہ یہ بہرے اور نا سمجھ بنے ہوئے ہیں ،یہ تو صرف جانوروں  کی طرح ہیں  بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں  کیونکہ چوپائے بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تسبیح کرتے ہیں  اور جو انہیں  کھانے کو دے اس کے فرمانبردار رہتے ہیں  اور احسان کرنے والے کو پہچانتے اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں ، نفع دینے والی چیز کی طلب کرتے، نقصان دینے والی چیز سے بچتے اور چراگاہوں  کی راہیں  جانتے ہیں ، یہ کفار ان سے بھی بدتر ہیں  کہ نہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کرتے ہیں ، نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں ، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضَرَررسانی کو سمجھتے ہیں ، نہ ثواب جیسی عظیم نفع والی چیز کے طالب ہیں  نہ عذاب جیسی سخت نقصان دہ اور ہلاکت میں  مبتلا کرنے والی چیز سے بچتے ہیں ۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۳۷۴، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۸۰۴، ملتقطاً)

اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَیْفَ مَدَّ الظِّلَّۚ-وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًاۚ-ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْهِ دَلِیْلًا(45)ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے حبیب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا کہ اس نے سائے کو کیسا دراز کیا؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا بنادیتا پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا۔ پھر ہم نے آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف سمیٹ لیا۔

 ‎صراط الجنان :تفسیر

{اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ: اے محبوب!کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو نہ دیکھا کہ اس کی صَنعت و قدرت کیسی عجیب ہے، اس نے سائے کو صبح صادق طلوع ہونے کے بعد سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کیسا دراز کیا کہ اس وقت ساری روئے زمین میں  سایہ ہی سایہ ہوتا ہے نہ دھوپ ہے، نہ اندھیرا ہے، اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو سائے کو ایک ہی حالت پر ٹھہرا ہوا بنادیتا کہ سورج طلوع ہونے سے بھی سایہ زائل نہ ہوتا۔پھر ہم نے سورج کو سائے پر دلیل بنایا کیونکہ اگرسورج نہ ہو تو سائے کا پتہ ہی نہ چلے۔پھر ہم نے آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف سمیٹ لیا کہ طلوع کے بعد سورج جتنا اُونچا ہوتا گیا اتنا ہی سایہ سمٹتا گیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۵-۴۶، ص۸۰۴-۸۰۵)

 اَشیاء کی طبعی تاثیریں  بھی اللہ تعالٰی کی مَشِیَّت کے تابع ہیں :

         اس سے معلوم ہوا کہ اشیاء کی طبعی تاثیریں  بھی اللہ تعالٰی کی مشیت کے تابع ہیں ، آگ کا جلانا، پانی کا پیاس بجھانا، ثقیل بدن کا سایہ بننا، سورج کا سایہ اٹھادینا سب اللہ تعالٰی کی مشیت سے ہے، اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو یہ تاثیریں  ختم ہو جائیں۔

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ اور نیند کو آرام بنایااور دن کو اٹھنے کے لیے بنایا۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ هُوَ الَّذِیْ: اور وہی ہے جس نے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے اپنی تاریکی سے سب کچھ ڈھانپ دینے والاپردہ اور نیند کو تمہارے بدنوں  کے لئے راحت اور کام کاج چھوڑ دینے کا وقت بنایااور دن کو نیند سے اٹھنے کے لیے بنایا تاکہ تم دن میں  روزی تلاش کرو اور کام کاج میں  مشغول ہو۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۳۷۴)

         یہ آیت اللہ تعالٰی کی قدرت پر دلالت کرتی ہے اور اس آیت میں  مخلوق پر اللہ تعالٰی کی نعمتوں  کاا ظہار ہے کیونکہ رات کی تاریکی سے سب کچھ ڈھانپ دینے میں  بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد ہیں ۔اس آیت میں  نیند کوموت سے اور بیداری کو زندگی سے تشبیہ دینے میں  نصیحت حاصل کرنے والوں  کیلئے بڑی نصیحت ہے (اور اس کے ذریعے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔) ایک مرتبہ حضرت لقمان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا: ’’جیسے سوتے ہو پھر اُٹھتے ہو، ایسے ہی مرو گے اور موت کے بعد پھر اُٹھو گے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۸۰۵)

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖۚ-وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا(48)لِّنُحْیِﰯ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے اپنی رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجا جو خوشخبری دینے والی ہوتی ہیں اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا۔تاکہ ہم ا س کے ذریعے کسی مردہ شہر کو زندہ کریں اور وہ پانی اپنی مخلوق میں سے جانوروں اور بہت سے لوگوں کو پلائیں ۔

صراط الجنان : ‎تفسیر

{وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ: اور وہی ہے جس نے ہواؤں  کو بھیجا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ معبود صرف وہی ہے جس نے بارش ہونے سے پہلے ہواؤں  کو بھیجا جو بارش آنے کی خوشخبری دینے والی ہوتی ہیں  اور ہم نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا جو کہ حَدَث و نجاست سے پاک کرنے والا ہے تاکہ ہم ا س پانی کے ذریعے خشکی سے بے جان ہو جانے والی سر زمین کو سرسبز وشاداب کر کے زندہ کردیں  اور وہ پانی اپنی مخلوق میں  سے جانوروں  اور بہت سے لوگوں  کو پلائیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۴۸-۴۹، ۶ / ۲۲۳-۲۲۴)

بارش اللہ تعالٰی کی عظیم نعمت ہے:

         اس سے معلوم ہو اکہ بارش اللہ تعالٰی کی بڑی عظیم نعمت ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں  کہ اس کے ذریعے خشکی کی وجہ سے بے جان کھیتیاں  سرسبز ہوکرزندہ ہوتی ہیں ، لوگوں  کو پاکی حاصل کرنے اور دیگرضروریات کو پورا کرنے کیلئے پانی ملتا ہے اور مخلوقِ خدا سیراب ہوتی ہے۔

وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا ﳲ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(50)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے لوگوں میں بارش کے پھیرے رکھے تاکہ وہ یاد رکھیں تو بہت سے لوگوں نے ناشکری کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا۔

صراط الجنان:تفسیر ‎

{وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ: اور بیشک ہم نے لوگوں  میں  بارش کے پھیرے رکھے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے بادل پیدا کرنے اور بارش نازل کرنے کا ذکر قرآن پاک (کی متعدد سورتوں ) میں  اور سابقہ رسولوں  پر نازل ہونے والی تمام کُتب میں  کیا ن کر اس کا شکر ادا کریں  لیکن بہت سے لوگوں  نے نعمت کی ناشکری کے سواتاکہ لوگ غوروفکر کر کے نصیحت حاصل کریں  اور اللہ تعالٰی کے اس احسان کو پہچا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے لوگوں  میں  بارش کے پھیرے رکھے کہ کبھی کسی شہر میں  بارش ہو کبھی کسی میں ، کبھی کہیں  زیادہ ہو اور کبھی کہیں  حکمت کے تقاضے کے مطابق مختلف طور پر ہو تاکہ لوگ ہمارے اس احسان کویاد رکھیں  اور اللہ تعالٰی کی قدرت و نعمت میں  غور کریں  لیکن بہت سے لوگوں  نے ا س ا حسان کی ناشکری کرنے کے سوا کچھ اور ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ بارش کے نزول کو صرف ظاہری اسباب کی طرف منسوب کرنے لگ گئے اور اللہ تعالٰی کے فضل و رحمت کو یاد نہ کیا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۸۰۶، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۷۵-۳۷۶، ملتقطاً)

اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں  کرنا چاہئے :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی نعمت ملنے کو صرف مادی اسباب کی طرف منسوب نہیں  کرنا چاہئے یوں  کہ اللہ تعالٰی کی طرف اصلاً اس کی نسبت نہ ہو کہ یہ بھی بعض اوقات ایک قسم کی ناشکری ہے اور بطورِ خاص کفار جن چیزوں  کو حقیقی مُؤثِّر مان کر نسبت کرتے ہیں  ان کی طرف تو تنہا نسبت ہرگز نہیں  کرنی چاہیے۔ حضرت زیدبن خالد جہنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ ہمیں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبیہ کے مقام پر صبح کی نماز فجر پڑھائی جس کی رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں  کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: ’’اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے فرمایا: ’’میرے بندوں  نے صبح کی تو کچھ مومن رہے اور کچھ کافر ہو گئے، جس نے کہا ہم پر اللہ تعالٰی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا ہے اور جس نے کہا ہم پر فلاں  ستارے نے بارش برسائی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں  پر یقین رکھا۔( بخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلّم، ۱ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۴۶) حدیث پاک میں  کفر سے مراد حقیقی کفر اس صورت میں  ہے جب ستاروں  کو مُؤثِّرِ  حقیقی اعتقاد کرکے یہ بات کہی گئی ہو۔وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ نَّذِیْرًا(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگرہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیج دیتے۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ لَوْ شِئْنَا: اور اگرہم چاہتے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم چاہتے تو پہلے زمانے کی طرح ہر بستی اور شہر میں  ایک جداجداڈر سنانے والا بھیج دیتے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سے ڈر سنانے کا بوجھ کم کردیتے لیکن ہم نے تمام بستیوں  کو ڈر سنانے کا بوجھ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی پر رکھا تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جہان کے رسول ہو کر سب رسولوں  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلتوں  کے جامع ہوں  اور نبوت آپ پر ختم ہو کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہو۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۲۲۶)

فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو آپ کافروں کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں ۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ: تو آپ کافروں  کی بات ہرگز نہ مانیں ۔} کفارِ قریش حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہتے کہ آپ ہمارے آباء و اَجداد کا دین اختیار کرلیں ،ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیں  گے اور آپ کے لئے ایک عظیم خزانہ جمع کر دیں  گے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافروں  کی بات ہرگز نہ مانیں  تاکہ ان پر اچھی طرح ظاہر ہو جائے کہ ان چیزوں  کی طرف آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی رغبت نہیں  بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رغبت اللہ تعالٰی کی طرف بلانے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دینے میں  ہے۔( البحر المحیط، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۴۶۴)

{ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِیْرًا: اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کے سامنے قرآن پاک میں  موجود وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ پر مشتمل آیات کی تلاوت کر کے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والی سابقہ امتوں  کے حالات بیان کر کے ان کے ساتھ بڑا جہاد کریں ۔ اس طور پر پوری دنیا میں  دین کی دعوت عام کرنا جہادِ کبیر ہے اورکوئی دوسرا جہاد کَمِّیَّت و کیفیت کے اعتبار سے اس کے برابر نہیں  ہوسکتا۔( ابوسعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۱۴۴-۱۴۵، ملخصاً)

وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌۚ-وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملادیا (ان میں ) یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (ایک) کھاری نہایت تلخ ہے اور ان کے بیچ میں اس نے ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی۔

 ‎صراط الجنان: تفسیر

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے دو سمندروں  کو ملادیا،ان میں  سے ایک (کا پانی) میٹھا نہایت شیریں  ہے اور دوسرے کا کھاری نہایت تلخ ہے اور ان دونوں  کے بیچ میں  اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت سے نظر نہ آنے والا ایک پردہ اور روکی ہوئی آڑ بنادی تاکہ ایک کا پانی دوسرے میں  مل نہ سکے یعنی نہ میٹھا کھاری ہو، نہ کھاری میٹھا، نہ کوئی کسی کے ذائقہ کو بدل سکے، جیسے کہ دجلہ دریائے شور میں  میلوں  تک بہتاچلا جاتا ہے اور اس کے ذائقہ میں  کوئی تغیر نہیں  آتا۔ (ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۱۴۵)   عجب شانِ الٰہی ہے۔

وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ-وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے آدمی کوپانی سے بنایا پھر اس کے (نسلی) رشتے اور سسرالی رشتے بنادیے اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے۔

‎صراط الجنان: تفسیر 

{وَ هُوَ: اور وہی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے گوشت، ہڈیوں ،پٹھوں ، رگوں  اور خون سے مرکب، اچھی صورت پر آدمی کوپانی یعنی نطفہ سے بنایا، پھر اس کے نسلی رشتے اور سسرالی رشتے بنادئیے تاکہ اس کی نسل چلے اور تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ بڑی قدرت والا ہے کہ اس نے ایک نطفہ سے مختلف اَعضاء والے،جدا جدا طبیعتوں  والے، طرح طرح کے اَخلاق والے اور مذکر و مؤنث دو قسم کے انسان پیدا کئے، تو جو ایسے انسانوں  اور ان کے علاوہ اور بےشمار چیزوں  کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔( جلالین مع صاوی، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۱۴۴۲-۱۴۴۳)

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَ لَا یَضُرُّهُمْؕ-وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور (مشرک) اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع دیں اور نہ نقصان پہنچائیں اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں (شیطان کا) مددگار ہے۔

 ‎صراط الجنان :تفسیر

{وَ یَعْبُدُوْنَ: اور وہ عبادت کرتے ہیں ۔} توحید کے دلائل بیان فرمانے کے بعد ا س آیت سے اللہ تعالٰی نے بتوں  کی پوجا کرنے میں  مشرکین کی مذمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ مشرک اللہ تعالٰی کے سوا ان بتوں  کی عبادت کرتے ہیں  جو عبادت کرنے کی صورت میں  کوئی نفع نہیں  پہنچا سکتے اور ان کی عبادت کرنا چھوڑ دینے کی صورت میں  کوئی نقصان نہیں  پہنچا سکتے جبکہ وہ لوگ اس رب تعالٰی کی عبادت کو چھوڑے ہوئے ہیں  جس نے انہیں  ایسی نعمتیں  عطا فرمائی ہیں  کہ ان میں  سے چھوٹی سی نعمت بھی اللہ تعالٰی کے سوا کوئی اور عطا نہیں  کر سکتا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۸ / ۴۷۵، تفسیر طبری، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۹ / ۴۰۱، ملتقطاً)

{وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا: اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں  (شیطان کا) مددگار ہے۔} ارشاد فرمایا کہ کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے مقابلے میں  شیطان کا مددگار ہے کیونکہ بت پرستی کرنا شیطان کو مدد دینا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۷۶-۳۷۷)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(56)قُلْ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔تم فرماؤ: میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا لیکن جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرے۔

‎صراط الجنان:  تفسیر

{وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا: اور ہم نے تمہیں  نہ بھیجا مگر۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم نے آپ کو ایمان و طاعت پر جنت کی خوشخبری دینے والا او رکفرو مَعصِیَت پر جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۳۷۷)

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں  سے فرما دیں  کہ میں وحی کی تبلیغ پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا لیکن جو چاہے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راستہ اختیار کرے اور اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرے۔ مراد یہ ہے کہ ایمانداروں  کا ایمان لانا اور ان کاطاعت ِالٰہی میں  مشغول ہونا ہی میرا اجر ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی مجھے اس پر جزا عطا فرمائے گا اس لئے کہ اُمت کے نیک لوگوں  کے ایمان اور اُن کی نیکیوں  کے ثواب اُنہیں  بھی ملتے ہیں  اور اُن کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جن کی ہدایت سے وہ اس رتبہ پر پہنچے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۷، ۶ / ۲۳۳)

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖؕ-وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَاﰳ(58)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوراس زندہ پر بھروسہ کرو جو کبھی نہ مرے گا اور اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو اور اپنے بندوں کے گناہوں کی خبررکھنے کے لئے وہی کافی ہے۔

صراط الجنان :تفسیر ‎

{وَ تَوَكَّلْ: اور بھروسہ کرو۔} اس سے پہلی آیت میں  اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان مشرکوں  سے فرما دیں : ’’میں  وحی کی تبلیغ پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا، اور ا س آیت میں  حکم فرمایا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام اُمور میں  صرف اللہ تعالٰی پر بھروسہ فرمائیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس زندہ پر بھروسہ کریں  جو کبھی نہ مرے گا اوراسی پر بھروسہ کرنا چاہئے، کیونکہ مرنے والے پر بھروسہ کرنا عقلمند کی شان نہیں  اورآپ اس کی حمد کرتے ہوئے پاکی بیان کریں  اور اس کی طاعت اور شکر بجالائیں ۔ اور اپنے بندوں  کے گناہوں  کی خبررکھنے کے لئے وہی کافی ہے، اس سے کسی کا گناہ چھپ سکتا ہے اور نہ کوئی اُس کی گرفت سے اپنے آپ کو بچاسکتا ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۳۷۷، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۸۰۸، ملتقطاً)

الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۚۛ-اَلرَّحْمٰنُ فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنائے پھر اس نے عرش پراستواء فرمایاجیسا اس کی شان کے لائق ہے، وہ نہایت رحم فرمانے والا ہے تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ۔

‎صراط الجنان: تفسیر

{فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ: چھ دن میں ۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں  بنائے۔اس سے مراد یہ ہے کہ چھ دن کی مقدار میں  بنائے، کیونکہ اس وقت رات، دن اور سورج تو تھے ہی نہیں  اور اتنی مقدار میں  پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم دینے کے لئے ہے، ورنہ وہ ایک لمحہ میں  سب کچھ پیدا کردینے پر قادر ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۲۳۴)

            نوٹ: آسمان و زمین کو چھ دن میں  پیدا کرنے کے بارے میں  مزید تفصیلی معلومات کے لئے سورہ ٔاَعراف آیت نمبر54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{اِسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ: عرش پر اِستواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔} علماء فرماتے ہیں  کہ استواء اور اس طرح کی جو چیزیں  قرآن پاک کی آیات میں  ذکر ہوئی ہیں  ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں  اور اس کی کیفیت کے درپَے نہیں  ہوتے، ان کی کیفیت کو اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ بعض مفسرین اِستواء کو بلندی اور برتری کے معنی میں  لیتے ہیں  اور بعض اِستیلا ء کے معنی میں  لیکن پہلا قول ہی زیادہ مضبوط اور سلامتی والاہے یعنی یہ کہ اس کی حقیقی مراد اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔

            نوٹ:اللہ تعالٰی کے عرش پر استواء فرمانے کے بارے میں  مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ اَعراف آیت نمبر 54کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{فَسْــٴَـلْ بِهٖ خَبِیْرًا: تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ۔} اس آیت میں  انسان سے خطاب ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی صفات کسی ایسے شخص سے دریافت کرے جو اللہ تعالٰی کی معرفت رکھتا ہو۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۸۰۸)

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان سے کہا جائے رحمٰن کو سجدہ کرو توکہتے ہیں : اوررحمٰن کیا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کرلیں جس کا تم ہمیں کہہ دو اور اس حکم نے ان کی نفرت کو اور بڑھادیا۔

‎صراط الجنان:تفسیر 

{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اور جب ان سے کہا جائے۔} یعنی جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مشرکین سے فرمائیں  کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں : رحمٰن کیا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کرلیں  جس کا تم ہمیں  کہہ دو۔اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ رحمٰن کو جانتے نہیں  اور عناد کی وجہ سے ان کا یہ کہنا باطل ہے کیونکہ لغتِ عرب کوجاننے والا خوب جانتا ہے کہ رحمٰن کے معنی نہایت رحمت والا ہیں  اور یہ اللہ تعالٰی ہی کی صفت ہے۔ آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ مشرکوں  کوسجدہ کرنے کا حکم دینا اُن کے لئے اور زیادہ ایمان سے دوری کا باعث ہوا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۰۸)

          نوٹ:یاد رہے کہ یہ آیت آیاتِ سجدہ میں  سے ہے، اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور ان میں چراغ اور روشن کرنے والا چاند بنایا۔

صراط الجنان:تفسیر ‎

{بُرُوْجًا: بُرج۔} اس سے پہلی آیت میں  کفار کے بارے میں  بیان کیاگیا کہ سجدے کے حکم نے کافروں  کی نفرت اور ایمان سے دوری میں  اضافہ کیا اور اس آیت سے ان چیزوں  کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں  اگر کافر غور و فکر کریں  تو وہ جان لیں  گے کہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرنا اور اسے سجدہ کرنا ضروری ہے۔چنانچہ اس آیت میں  ارشاد فرمایا کہ وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے آسمان میں  برج بنائے اور ان برجوں  میں  سورج اور روشن کرنے والا چاند بنایا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۴۷۹)

         حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ بروج سے سات سَیّارہ ستاروں  کی منزلیں  مراد ہیں  اور ان برجوں  کی تعدادبارہ ہے۔ (1)حَمْل۔(2)ثَوْر۔(3) جَوْزَاء۔(4) سَرَطَانْ۔(5) اَسَد۔(6) سُنْبُلَہ۔ (7) میزان۔(8) عَقْرَب۔(9) قَوس۔(10) جَدْی۔ (11) دَلْو۔ (12) حُوْت۔ (خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۳۷۸) مِرِّیخْ کے برج حَمْل اور عَقْرَب ہیں ،زُہْرَہ کے ثَوْر اور میزان،عُطَارِدْ کے جَوْزَاء اور سُنْبُلَہ، چاند کا سَرَطَانْ، سورج کا اسد، مشتری کے قَوس اور حُوت اور زُحَل کے جَدْی اور دَلْوہیں ۔( جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۳۰۷-۳۰۸)

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے رات اور دن کوایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا (یہ) اس کیلئے (نشانی) ہے جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے یا جو (اللہ کا) شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً: اور وہی ہے جس نے رات اور دن کوایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ معبود وہی ہے جس نے رات اور دن کوایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا کہ ان میں  سے ایک کے بعد دوسرا آتا اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے تا کہ جس کا عمل رات یا دن میں  سے کسی ایک میں  قضا ہو جائےتو وہ دوسرے میں  ادا کرلے۔ یہ رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا اور قائم مقام ہونا اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کی دلیل ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے رات اور دن میں  ایسانظام قائم فرمایا کہ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور اس نے کوئی دن ایسانہیں  بنایا جس کے لئے رات نہ ہو اور کوئی رات ایسی نہیں  بنائی جس کے لئے دن نہ ہو تاکہ لوگوں  کو سالوں  کی گنتی معلوم رہے اور انہیں  وہ وقت معلوم ہو جس میں  کاروباروغیرہ کے لئے نکلنا ہے اور وہ وقت بھی معلوم ہو جس میں  انہیں  راحت و آرام کرنا ہے اور یہ عظیم الشّان نظام اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کے کمال کی دلیل ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳ / ۳۷۸، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۳۸، ملتقطاً)

{لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ: اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے۔} یعنی رات اور دن کی تبدیلی اور ان کا ایک دوسرے کے قائم مقام ہونے میں  اس شخص کے لئے اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت پر نشانی موجود ہے جو اللہ تعالٰی کی نعمتوں  اور اس کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  غورو فکر کر کے نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے، جب وہ ان میں  غورو فکر کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان چیزوں  کو پیدا کرنے اور ایسے بہترین نظام کو قائم کرنے کے لئے کوئی ایک ایسی ہستی ہونا ضروری ہے جو مکمل قدرت رکھتی ہو،کامل حکمت والی ہو، واجب بِالذّات ہو اوربندوں  پر رحیم و مہربان ہو،اسی طرح ان میں  اس شخص کے لئے بھی اللہ تعالٰی کی قدرت و حکمت کی نشانی موجود ہے جو اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرمانبرداری کر کے رات اور دن میں  موجود اللہ تعالٰی کی نعمتوں  کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۲۳۸)

وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(63)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ: اور رحمٰن کے وہ بندے۔} ا س سے پہلی آیات میں  کفار و منافقین کے احوال اور ان کا انجام ذکر ہوا،اب یہاں  سے کامل مومنین کے تقریباً12اَوصاف بیان کئے گئے ہیں ،ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (1)وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(2) جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘(3) وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں  رات گزارتے ہیں ۔(4)جہنم کا عذاب پھر جانے کی اللہ تعالٰی سے دعائیں  کرتے ہیں ۔ (5) اِعتدا ل سے خرچ کرتے ہیں ،اس میں نہ حد سے بڑھتے ہیں  اور نہ تنگی کرتے ہیں ۔ (6) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں  کرتے۔ (7) جس جان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے، اسے قتل نہیں  کرتے۔(8) بدکاری نہیں  کرتے۔ (9) جھوٹی گواہی نہیں  دیتے۔(10)جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔(11) جب انہیں  ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں  گرتے۔(12) وہ یوں  دعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔

{اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔} اس آیت میں  بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں  کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں  زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں  چلتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۸۰۹، ملخصاً)  کہ یہ متکبرین کی شان ہے اور شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

’’وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں  اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں  پہاڑوں  کو پہنچ جائے گا۔

سکون اور وقار کے ساتھ چلنے کی ترغیب:

         اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومن کو آہستہ،سکون و اطمینان اور وقار کے ساتھ چلنا چاہئے۔ اَحادیث میں  بھی اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ یہاں3اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے لئے سکون (سے چلنا) ضروری ہے کیونکہ دوڑنے میں  کوئی نیکی نہیں  ہے۔( بخاری، کتاب الحج، باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالسکینۃ عند الافاضۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۵۸، الحدیث: ۱۶۷۱)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا ایمان والوں  کی ہیبت ختم کر دیتا ہے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر جماعۃ من العارفین العراقیین، محمد بن یعقوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۵۳۰۹)

(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا چہرے کے حسن کو ختم کر دیتا ہے۔(کنز العمال،کتاب المعیشۃ والآداب،قسم الاقوال، آداب المشی، ۸ / ۱۷۵، الحدیث:۴۱۶۱۴، الجزء الخامس عشر)

            اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں  کو اس طرح چلنے کی توفیق عطا فرما ئے جو شریعت کا پسندیدہ طریقہ ہے اور اس طرح چلنے سے محفوظ فرمائے جس سے شریعت نے منع کیا اور اسے ناپسند فرما یا ہے، اٰمین۔

{وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں ۔} یہاں  یہ بیان ہو اکہ کامل ایمان والے دوسروں  کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں  جو درست ہو اور اس میں  ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔( ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۳، ۴ / ۱۴۸)

جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک:

         اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی معاملے میں  کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنےکی کوشش ہی کرنی چاہئے اور  اس  کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں  اگر کوئی بات کریں  تو وہ ایسی ہو جس میں  گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کاباعث بھی نہ ہو،ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں  ایک واقعہ ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت نعمان بن مقرن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا، اس نے یہ کہنا شروع کر دیا:تم پر سلام ہو۔اس پررسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سنو! تم دونوں  کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو (اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے،جب یہ تمہیں  برا بھلاکہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تم ایسے ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو، اور جب تم اس سے کہتے ہو’’تم پر سلام ہو‘‘ تو فرشتہ کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تمہارے لئے سلامتی ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو۔(مسند امام احمد، حدیث النعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۳۸۰۶)

وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔

صراط الجنان:  تفسیر‎

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ جو۔} اس سے پہلی آیت میں  کامل ایمان والوں  کی مجلسی زندگی اور مخلوق کے ساتھ پاکیزہ معاملے کا بیان ہوا اور اب یہاں  سے اُن کی خَلوَت کی زندگانی اور حق کے ساتھ رابطے کے بارے میں  بیان کیاجارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والوں  کی خلوت و تنہائی کا حال یہ ہے کہ ان کی رات اللہ تعالٰی کے لئے اپنے چہروں  کے بل سجدہ کرتے اور اپنے قدموں  پر قیام کرتے ہوئے گزرتی ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۷۸)

رات میں  عبادت کرنے کی ترغیب:

            ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آرام کرنے کے بعد رات میں  کچھ نہ کچھ نفلی عبادت ضرور کیا کرے تاکہ اس میں کامل ایمان والوں  کے اوصاف پیدا ہوں  اور آخرت کے لئے نیکیوں  کا کچھ ذخیرہ جمع ہو۔ایک اور مقام پر کامل ایمان والوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے :

’’تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘(السجدۃ:۱۶)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان ان کی کروٹیں  ان کی خوابگاہوں  سے جدا رہتی ہیں  اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔

            اور پرہیزگار لوگوں  کی جزا اور ان کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: ’’اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۵) اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ-اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَؕ(۱۶) كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷)وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘(الذاریات:۱۵۔۱۸)

ترجمۂ: کنزُالعِرفان بیشک پرہیزگار لوگ باغوں  اور چشموں  میں  ہوں  گے۔ اپنے رب کی عطائیں  لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں  کرنے والے تھے۔ وہ رات میں  کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری پہروں  میں  بخشش  مانگتے تھے۔

            اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں  کو دن میں  بھی اور رات میں  بھی اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

رات میں  عبادت کرنے کے فوائد:

            یاد رہے کہ جو عبادت جس وقت کرنا فرض ہے اسے اس وقت ہی کیا جائے گا البتہ نفلی عبادت رات میں  کرنا دن کے مقابلے میں  زیادہ فائدہ مند ہے، اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ رات میں  کچھ دیر سونے کے بعد اٹھ کر عبادت کرنا دن کی نماز کے مقابلے میں  زبان اوردل کے درمیان زیادہ موافقت کا سبب ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور سمجھنے میں  زیادہ دل جمعی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس وقت شورو غل نہیں  ہوتا بلکہ سکون اور اطمینان ہو تا ہے جو کہ دل جمعی حاصل ہونے کا بہت بڑ اذریعہ ہے۔تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت عبادت کرنے میں  کامل اخلاص نصیب ہوتا ہے اور عبادت میں  ریا کاری، نمود و نمائش اور دکھلاوا نہیں  ہوتا کیونکہ عام طور پراس وقت لوگ بیدار نہیں  ہوتے جس کی وجہ سے ریاکاری کا موقع نہیں  ہوتا۔یہ تینوں  فوائد قرآن مجید میں  انتہائی جامع انداز میں  بیان کئے گئے ہیں،چنانچہ سورہِ مُزَّمِّل میں  اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا‘‘( المزمل:۶)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان بیشک رات کو قیام کرنا زیادہ موافقت کا سبب ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے۔

اپنی راتیں  عبادت میں  گزارنے والی دو بزرگ خواتین:

            ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتوں  کو اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہوئے گزارا کرتے تھے اور ان کی شب بیداری کے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات ہیں  کہ انہیں  سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہاں  بطورِ خاص دو بزرگ خواتین کے واقعات ملاحظہ ہوں ،

(1)…امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بہن حضرت حفصہ بن سیرین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا بصرہ میں  ایک انتہائی عبادت گزار خاتون تھیں ، آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا ساری رات نماز پڑھتے ہوئے گزار دیتیں  اور نماز میں  آدھا قرآن پاک تلاوت فرماتیں ۔بسا اوقات اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر اتنی دیر نماز میں  کھڑی رہتیں  کہ آپ کا چراغ بجھ جاتا، لیکن آپ کے لئے صبح تک (چراغ کی روشنی کے بغیر) گھر روشن رہتا۔

(2)…حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہا کی اپنی وفات تک یہ عادت رہی کہ آپ ساری رات نماز پڑھتی رہتیں  اور جب فجر کا وقت قریب ہوتا تو تھوڑی دیر کے لئے سو جاتیں ،پھر بیدار ہو کر کہتیں :اے نفس!تم کتنا سوؤ گے اور کتنا جاگو گے، عنقریب تم ایسی نیند سو جاؤ گے کہ اس کے بعد قیامت کی صبح کو ہی بیدار ہو گے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۲۴۲)

            ان واقعات میں  مسلمان خواتین کے لئے بڑی نصیحت ہے، انہیں  چاہئے کہ اپنی راتیں  غفلت کی نیندسو کر اور عبادت سے خالی نہ گزاریں  بلکہ رات میں  اٹھ کر کچھ نہ کچھ عبادت کیا کریں  اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہو کر اپنی، اپنے اہلِ خانہ اور دیگر مسلمانوں  کی بخشش و مغفرت کی دعائیں  مانگاکریں ۔

تھوڑی عبادت کرنے والوں  کو بھی شب بیداری کا ثواب:

            یاد رہے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں  پر بڑا مہربان ہے اور وہ اپنے کرم سے رات میں  تھوڑی عبادت کرنے پر بھی

شب بیداری کا ثواب عطا فرما دیتا ہے، چنانچہ یہاں  تھوڑی عبادت کرنے پر شب بیداری کا ثواب ملنے سے متعلق دو روایات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے عشا ء کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے آدھی رات کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے نمازِفجر بھی باجماعت ادا کی وہ ساری رات عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔(مسلم،کتاب المساجدومواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ،ص۳۲۹،الحدیث:۲۶۰(۶۵۶))

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جس کسی نے عشاء کے بعد دو رکعت یا ا س سے زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والوں  میں  داخل ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۳۷۸)

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا(65)اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے۔

صراط الجنان :تفسیر ‎

{رَبَّنَا: اے ہمارے رب!} کامل ایمان والوں  کی شب بیداری اور عبادت کا ذکر فرمانے کے بعد ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ان کی ایک دعا کا بیان فرمایا کہ وہ اپنی نمازوں  کے بعد اور عام ا وقات میں یوں  عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے جو کہ انتہائی شدید دردناک ہے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا اورکافروں  سے جدا نہ ہونے والا ہے،بیشک جہنم بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ص۸۱۰، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵-۶۶، ۶ / ۲۴۳، ملتقطاً)

آیت ’’ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا‘‘ سے معلوم ہونے والی باتیں :

            اس آیت سے  تین باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)… اپنی عبادت و ریاضت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالٰی کی رحمت اور کرم پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اس کی خفیہ تدبیر سے خوفزدہ رہنا چاہئے کہ یہ کامل ایمان والوں  کا طریقہ ہے۔ چنانچہ امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان کی اس دعا سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وہ کثرتِ عبادت کے باوجود اللہ تعالٰی کا خوف رکھتے ہیں  اور اس کی بارگاہ میں  عاجزی،اِنکساری اور گریہ و زاری کرتے ہیں ۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۸۱۰)

(2)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں  یہ بتایاگیا ہے کہ کامل ایمان والے مخلوق کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے اور اللہ تعالٰی کی عبادت میں  خوب کوشش کرنے کے باوجود اللہ تعالٰی کے عذاب سے بہت ڈرتے ہیں  اور اپنے اوپر سے عذاب پھیر دئیے جانے کی گریہ و زاری کے ساتھ التجائیں  کرتے ہیں ،گویا کہ وہ انتہائی عبادت گزاری اور پرہیزگاری کے باوجود جب اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  دعا کرتے ہیں  تو خود کو گناہگاروں  میں  شمار کرتے ہیں  اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کو شمار نہیں  کرتے اور اپنے احوال پر بھروسہ نہیں  کرتے۔(روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۶، ۶ / ۲۴۳-۲۴۴)

(3)…بطورِ خاص نماز کے بعد دعا کرنی چاہئے، نماز پڑھنے والا تنہا نماز پڑھے یا جماعت کے ساتھ، امام ہو یا مقتدی اور عمومی طور پرجب بھی موقع ملے اللہ تعالٰی سے دعا مانگتے رہنا چاہئے۔

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں ۔

 ‎صراط الجنان :تفسیر

{وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں ۔} یہاں  کامل ایمان والوں  کے خرچ کرنے کا حال ذکرفرمایا جارہا ہے کہ وہ اسراف اور تنگی دونوں  طرح کے مذموم طریقوں  سے بچتے ہیں  اور ان دونوں  کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔

اِسراف اور تنگی کرنے سے کیا مراد ہے؟

اسراف مَعصِیَت میں  خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ اسراف میں  کوئی بھلائی نہیں  تودوسرے بزرگ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: ’’بھلائی کے کام میں  اسراف ہوتاہی نہیں ۔ اور تنگی کرنے کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالٰی کے مقرر کئے ہوئے حقوق ادا کرنے میں  کمی کرے۔ مروی ہے کہ جس نے کسی حق کو منع کیا اُس نے اِقتار یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں  خرچ کیا اس نے اسراف کیا۔

بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں  جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بڑے بڑے صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں  جو لذت اور ناز و نعمت میں  زندگی بسر کرنے کے لئے کھاتے، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے۔ بھوک روکنا، ستر چھپانا، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا بس یہی ان کا مقصد تھا۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۸۱۰، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۳۷۹، ملتقطاً)

ضروریاتِ زندگی میں  صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا زُہد :

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ دنیا سے بے رغبت رہتے اوردنیا سے صرف اتنا ہی لیا کرتے تھے جتنا ان کی اہم ضروریاتِ زندگی کے لئے کافی ہو،نیز وہ عیش و عشرت اور ناز ونعمت میں  زندگی بسر کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارتے اور اپنے نفس کو دنیا کی سختی اورمشقت برداشت کرنے کا عادی بناتے اور دُنْیَوی زندگی کے قیمتی لمحات کو اپنی آخرت کی زندگی بہتر سے بہتر بنانے میں  صَرف کیاکرتے تھے۔حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں  نے ستر بدریصحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو دیکھا، وہ اللہ تعالٰی کی حلال کردہ اَشیاء سے اس قدر اِجتناب کرتے تھے جتنا تم حرام اشیاء سے پرہیز نہیں  کرتے۔دوسری روایت میں  اس طرح ہے کہ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ آزمائشوں  پر خوش ہو اکرتے تھے،اگر تم انہیں  دیکھ لیتے تو کہتے یہ مجنون ہیں ،اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں  کو دیکھتے تو کہتے: ان لوگوں  کا کوئی اخلاق نہیں ،اور اگر وہ تم میں  سے برے لوگوں  کو دیکھتے تو کہتے:ان کا قیامت کے دن پر ایمان نہیں ۔ ان میں  سے ایک کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ نہ لیتا اور کہتا:مجھے اپنے دل کے خراب ہونے کا ڈر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۷)

         یہاں  ان کی زُہد و تقویٰ سے بھر پور زندگی کے4 واقعات ملاحظہ ہوں ،

(1)…حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اہلِ بصرہ کا ایک وفد حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی معیت میں  حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور (کچھ دنوں  میں ) انہوں  نے دیکھا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روزانہ ایک چھوٹی روٹی تناول فرماتے ہیں  اور یہ روٹی کبھی گھی کے ساتھ، کبھی زیتون کے ساتھ اور کبھی دودھ کے ساتھ کھاتے ہیں  اورآپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو کبھی خشک گوشت کے ٹکڑے ملتے جنہیں  کوٹ کر پانی سے تر کیا ہوا ہوتا اور کبھی تھوڑ اسا تازہ گوشت ملتا۔ایک دن آپ نے اہلِ بصرہ سے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  تم سے اچھا کھانا کھا سکتا ہوں ، آسائش والی زندگی گزار سکتا ہوں  اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  سینے کے گوشت،گھی،آگ پر بھنے ہوئے گوشت، چٹنی اور چپاتیوں  سے ناواقف نہیں  ہوں  (لیکن میں  انہیں  اللہ تعالٰی کے خوف کی وجہ سے استعمال نہیں  کرتا) کیونکہ ایسی چیزوں  کو استعمال کرنے پر اللہ تعالٰی نے ایک قوم کو عار دلائی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:

’’اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا‘‘( الاحقاف:۲۰)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان تم اپنے حصے کی پاک چیزیں  اپنی دنیا ہی کی زندگی میں  فنا کرچکے اور ان سے فائدہ اٹھاچکے۔(اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں  قیامت کے دن مجھ سے بھی یہ نہ فرما دیاجائے۔)(الزہد لابن مبارک، باب ما جاء فی الفقر، ص۲۰۴، روایت نمبر: ۵۷۹، الجزء الاوّل)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :قحط سالی کے دنوں  میں  امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے خود کو گھی کھانے سے روک رکھا تھا اور آپ صرف زیتون پر گزارا کیا کرتے تھے۔ایک دن زیتون کھانے کی وجہ سے آپ کے پیٹ میں  تکلیف ہونے لگی تو آپ نے پیٹ پر انگلی مار کر فرمایا: ’’تجھے جتنی تکلیف ہوتی ہے ہوتی رہے، جب تک لوگوں  سے فاقہ کی سختی ختم نہیں  ہو جاتی تیرے لئے میرے پاس یہی کچھ ہے۔(الزہد لابن حنبل، زہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ص۱۴۵، روایت نمبر: ۶۰۸)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنے دورِ خلافت میں  تین درہم کا ایک کپڑ اخریدا اور اسے پہنا، آپ نے ا س کی آستینیں  کلائیوں  سے کاٹ کر فرمایا: ’’تمام تعریفیں  اس اللہ تعالٰی کے لئے ہیں  جس نے مجھے اپنے عمدہ لباس میں  سے یہ لباس پہنایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۸۸)

(4)…جب حمص کے گورنر حضرت عمیر بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: ’’تم کیاکچھ لے کر آئے ہو؟ حضرت عمیر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’میرے پاس میرا تھیلاہے جس میں  اپنازادِراہ رکھتاہوں ، ایک پیالہ ہے جس میں  کھاناکھاتاہوں  اور اسی سے اپناسر اور کپڑے وغیرہ دھوتا ہوں ، ایک پانی کا برتن ہے جس میں  پانی پیتاہوں  اور وضو وغیرہ کرتاہوں  اورایک لاٹھی ہے جس پر ٹیک لگاتاہوں  اور اگر کوئی دشمن آ جائے تو اسی لاٹھی سے اس کامقابلہ کرتاہوں ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم!اس کے علاوہ میرے پاس دُنْیَوی مال و مَتاع نہیں۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الاولی، ص۱۳)

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًا(68)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گاوہ سزا پائے گا۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ جو۔} کامل ایمان والوں  کے بارے میں  ارشاد فرمایاگیا کہ وہ فضیلت والے اعمال سے مُتَّصِف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں  سے بھی بچتے ہیں  جیسے وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں  کرتے، شرک سے بَری اور بیزار ہیں  اور وہ اس جان کو ناحق قتل نہیں  کرتے جسے قتل کرنے کو اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے اورا س کا خون مُباح نہیں  کیا جیسے کہ مومن اور معاہدہ کرنے والا کافر، یونہی وہ بدکاری نہیں  کرتے اورجو شخص بھی ان کاموں  میں  سے کوئی کام کرے گا تو وہ اس کی سزا پائے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۸۱۰-۸۱۱، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۸، ۶ / ۲۴۶-۲۴۷، ملتقطاً)

بڑے بڑے تین گناہ :

            یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا،کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا کرنا بہت بڑے گنا ہ ہیں ،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا’’ کونسا گناہ سب میں  بڑا ہے؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک کرے، حالانکہ تجھے اُس نے پیدا کیا۔ میں  نے عرض کی: پھر اس کے بعد کونسا گناہ؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔میں  نے عرض کی: پھر کونسا؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق میں  یہ آیت ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘‘ نازل فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب قتل الولد خشیۃ ان یأکل معہ، ۴ / ۱۰۰، الحدیث: ۶۰۰۱)

            اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب بیعت لیتے تو بطورِ خاص یہ تین گناہ یعنی شرک،کسی کو ناحق قتل اورزنا نہ کرنے پر بیعت لیا کرتے تھے،چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :ہم نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک مجلس میں  تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں  ٹھہراؤ گے،زنا نہیں  کرو گے،چوری نہیں  کرو گے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں  کروگے جسے قتل کرنا اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے۔تم میں  سے جس شخص نے اس عہد کو پور اکیا ا س کا اجر اللہ تعالٰی کے ذمۂ کرم پر ہے اور جس نے ان حرام کردہ چیزوں  میں  سے کسی کا اِرتکاب کر لیا اور اسے (دنیا میں  ہی اس کی شرعی) سزادے دی گئی تو وہ اس کا  کفارہ ہے اور جس نے ان میں  سے کسی حرام کام کو کیا اور اللہ تعالٰی نے (دنیا میں ) ا س کا پردہ رکھا تو (آخرت میں) اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کے سپرد ہے،اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔( مسلم، کتاب الحدود، باب الحدود کفارات لاہلہا، ص۹۳۹، الحدیث: ۴۱(۱۷۰۹))

یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًا(69)اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس کے لئے قیامت کے دن عذاب بڑھادیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا۔مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

صراط الجنان: تفسیر ‎

{یُضٰعَفْ: بڑھادیا جائے گا۔} یعنی جو شخص شرک کے ساتھ ساتھ ناحق قتل کرنے اور زناکاری وغیرہ گناہوں  کا مُرتکب ہو گا تو وہ قیامت کے دن شرک کے عذاب میں  گرفتار ہوگا اوراس کے ساتھ دیگر گناہوں  کے عذاب میں  بھی مبتلا ہو گا اور یوں  اس کا عذاب بڑھادیاجائے گا اور وہ ہمیشہ اس دگنے عذاب میں  ذلت سے رہے گا۔( تفسیرکبیر، الفرقان، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۴۸۴)

{ اِلَّا مَنْ تَابَ: مگر جو توبہ کرے۔} یعنی جو شخص شرک،ناحق قتل، زنا اور دیگر کبیرہ گناہوں  سے توبہ کرے، اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اورتوبہ کے بعد نیک کام کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں  کو اللہ تعالٰی نیکیوں  سے بدل دے گا اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے اور ا س کی بخشش و مہربانی کے آثار میں  سے یہ ہے کہ وہ گناہوں  سے توبہ کرنے والوں ،ایمان لانے والوں  اور توبہ وایمان کے بعد نیک عمل کرنے والواں  کی برائیاں  نیکیوں  سے بدل دیتا ہے اور نیک اعمال کرنے پر انہیں  ثواب عطافرماتا ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۲۴۷، مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۸۱۱، ملتقطاً)

برائیوں  کو نیکیوں  سے بدل دینے کا معنی :

            مفسرین نے برائیوں  کو نیکیوں  سے بدل دینے کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ،ان میں  سے تین معنی درج ذیل ہیں ،

(1)… اس کا معنی یہ ہے کہ برائی کرنے کے بعد اللہ تعالٰی اسے نیکی کرنے کی توفیق دید ے گا۔

(2)…اس کا یہ معنی ہے کہ برائیوں  کو توبہ سے مٹا دے گااور ان کی جگہ ایمان و طاعت وغیرہ نیکیاں  ثَبت فرمائے گا۔

(3)…اس کا یہ معنی ہے کہ آیت میں  بیان گئے اوصاف سے مُتَّصِف لوگوں  سے حالت ِاسلام میں  جو گناہ ہوئے ہوں  گے انہیں  قیامت کے دن اللہ تعالٰی نیکیوں  سے بدل دے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۸۱۱، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۳۸۰، ملتقطاً)

 اللہ تعالٰی کی بندہ نوازی اور شانِ کرم:

            صحیح مسلم میں  حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں  یقینا جانتا ہوں  سب کے بعد جنت میں  کون داخل ہو گا اور سب سے آخر میں  جہنم سے کون نکلے گا۔ ایک شخص ایسا ہو گا جسے قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  پیش کیا جائے گا،اللہ تعالٰی فرشتوں  سے فرمائے گا ’’اس شخص کے صغیرہ گناہ ا س پر پیش کرو چنانچہ اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں  گے اور اس سے کہا جائے گا’’تو نے فلاں  دن فلاں  فلاں  کام کیا تھا؟وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا’’میں  اپنے اندر ان کاموں  سے انکار کی سَکت نہیں  پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں  سے ڈر رہا ہو گا کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے۔ اس شخص سے کہا جائے گا:جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے۔حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ بیان فرماتے ہوئے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو (اللہ تعالٰی کی بندہ نوازی اور اس کی شانِ کرم پر) خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسُّم کے آثار نمایاں  ہوئے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنّۃ منزلۃ فیہا، ص۱۱۹، الحدیث: ۳۱۴(۱۹۰))

وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف ایسا ہی رجوع کرتا ہے جیسا کرنا چاہیے تھا۔

‎صراط الجنان:  تفسیر

{وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا: اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے۔} یعنی جو شخص اپنے گناہوں  سے توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ تعالٰی کی طرف ایسا ہی رجوع کرتا ہے جیسا کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایسا رجوع اللہ تعالٰی کا پسندیدہ ہے،گناہوں  کو مٹانے والاہے اور ثواب حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۲۴۸-۲۴۹)

گناہوں  سے سچی توبہ کرنے کی ترغیب:

            یاد رہے کہ حقیقی اور سچی توبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  اپنے گناہ کا اقرار کرتے، اس پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے اورآئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرتے ہوئے اللہ تعالٰی سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرے۔ ایسی توبہ ہی اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  مقبول اور پسندیدہ ہے اور ایسی توبہ ہی حقیقی طور پر فائدہ مند اور گناہوں  کو مٹانے والی ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ‘‘( التحریم:۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری بُرائیاں  تم سے مٹا دے اور تمہیں  ان باغوں  میں  لے جائے جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتاہے: ’’ اِنَّمَا  التَّوْبَةُ  عَلَى  اللّٰهِ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السُّوْٓءَ  بِجَهَالَةٍ  ثُمَّ  یَتُوْبُوْنَ  مِنْ  قَرِیْبٍ  فَاُولٰٓىٕكَ  یَتُوْبُ  اللّٰهُ  عَلَیْهِمْؕ-وَ  كَانَ  اللّٰهُ  عَلِیْمًا  حَكِیْمًا(۱۷)وَ  لَیْسَتِ  التَّوْبَةُ  لِلَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ  السَّیِّاٰتِۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  حَضَرَ  اَحَدَهُمُ  الْمَوْتُ  قَالَ  اِنِّیْ  تُبْتُ  الْـٰٔنَ  وَ  لَا  الَّذِیْنَ  یَمُوْتُوْنَ  وَ  هُمْ  كُفَّارٌؕ-اُولٰٓىٕكَ  اَعْتَدْنَا  لَهُمْ  عَذَابًا  اَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۷،۱۸)

ترجمۂ :کنزُالعِرفان وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کرلیا ہے وہ انہیں  کی ہے جو نادانی سے بُرائی کر بیٹھیں  پھر تھوڑی دیر میں  توبہ کرلیں  ایسوں  پر اللہ اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ اور ان لوگوں  کی توبہ نہیں  جو گناہوں  میں  لگے رہتے ہیں  یہاں  تک کہ جب ان میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں   نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں  کی (کوئی توبہ ہے) جو کفر کی حالت میں  مریں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

            آیت میں  بوقت ِ موت توبہ قبول نہ ہونے سے مراد وہ وقت ہے جب موت کے بعد کے احوال نظر آنا شروع ہوجائیں ۔

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ گناہوں  سے ایسی توبہ کرے جیسی توبہ کرنے کا حق ہے اور اللہ تعالٰی سے ویسی توبہ کرنے کی توفیق بھی مانگتا رہے جیسی توبہ اس کی بارگاہ میں  مقبول اور پسندیدہ ہے۔

وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ-وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔

صراط الجنان:تفسیر ‎

{وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ: اور جو جھوٹی گواہی نہیں  دیتے۔} یعنی کامل ایمان والے گواہی دیتے ہوئے جھوٹ نہیں  بولتے اور وہ جھوٹ بولنے والوں  کی مجلس سے علیحدہ رہتے ہیں ، اُن کے ساتھ میل جول نہیں  رکھتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۸۱۱)

جھوٹی گواہی دینے کی مذمت پر 4اَحادیث:

            اس سے معلوم ہو اکہ جھوٹی گواہی نہ دینا اور جھوٹ بولنے سے تعلق نہ رکھنا کامل ایمان والوں  کاوصف ہے۔ یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا انتہائی مذموم عادت ہے اور کثیر اَحادیث میں  اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، یہاں  ان میں  سے 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں :

 (1)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبیٔ  اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ شریک کرنا۔ ماں  باپ کی نافرمانی کرنا۔ کسی کو ناحق قتل کرنا۔ اور جھوٹی گواہی دینا۔( بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی: ومن احیاہا، ۴ / ۳۵۸، الحدیث: ۶۸۷۱)

(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ اللہ تعالٰی اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔( ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)

(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان مردکا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے، اس نے (اپنے اوپر) جہنم (کا عذاب) واجب کر لیا۔( معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۱۱۵۴۱)

(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص لوگوں  کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے حالانکہ یہ گواہ نہیں  وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں  ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمہ کی پیروی کرے وہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی میں  ہے جب تک اس سے جدا نہ ہو جائے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الوکالۃ، باب اثم من خاصم او اعان فی خصومۃ بباطل، ۶ / ۱۳۶، الحدیث: ۱۱۴۴۴)

{وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ: اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں ۔} یعنی جب وہ کسی لغو اور باطل کام میں  مصروف لوگوں  کے پاس سے گزرتے ہیں  تواپنی عزت سنبھالتے ہوئے وہاں  سے گزر جاتے ہیں ۔ اپنے آپ کو لہو و باطل سے مُلَوَّث نہیں  ہونے دیتے اور ایسی مجالس سے اِعراض کرتے ہیں ۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۸۱۱)

وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا(73)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے۔

 ‎صراط الجنان:تفسیر

{وَ الَّذِیْنَ: اور وہ لوگ۔} یعنی جب کامل ایمان والوں  کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں  کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر غفلت کے ساتھ بہرے اور اندھے ہوکر نہیں  گرتے کہ نہ سوچیں  نہ سمجھیں  بلکہ ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنتے ہیں  اورچشمِ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں  اور اس نصیحت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ،نفع اٹھاتے ہیں  اور ان آیتوں  میں  دئیے گئے احکام پر عمل کرتے ہیں ۔( روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۳، ۶ / ۲۵۲، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۸۰، ملتقطاً)

قرآن مجید کی آیات کے ذریعے کی جانے والی نصیحت کیسے سننی چاہئے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب قرآن مجید کی آیات کے ذریعے اللہ تعالٰی کی نعمتیں  یاد دلائی جائیں ، اللہ تعالٰی کی طاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی رضا حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے اور اس کی نافرمانی کرنے پر اس کے غضب وعذاب سے ڈرایا جائے، یونہی جو کام کرنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے انہیں  کرنے اور جن کاموں  سے بچنے کا فرمایا ہے ان سے رک جانے پر ابھارا جائے تو ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان چیزوں  کو بے توجہی کے ساتھ نہ سنے بلکہ کامل توجہ کے ساتھ اور ہوش وحواس قائم رکھتے ہوئے سنے اور ان آیات کے ذریعے جو نصیحت کی گئی اس پر عمل کرے۔ ایسے لوگوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

’’فَبَشِّرْ عِبَادِۙ(۱۷) الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(الزمر:۱۷ ،۱۸)

ترجمہ کنزُالعِرفان تو میرے ان بندوں  کو خوشخبری سنادو۔ جو کان لگا کر بات سنتے ہیں  پھر اس کی بہتربات کی پیرویکرتے ہیں ۔ یہ ہیں  جنہیں  اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقلمند ہیں ۔

            اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔

 ‎صراط الجنان:تفسیر

{وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ جو عرض کرتے ہیں ۔} یعنی کامل ایمان والے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  یوں  عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں  بیویاں  اور اولاد نیک، صالح، متقی عطا فرما تاکہ ان کے اچھے عمل اور ان کی اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ہماری آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۸۱۲)

 مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک:

            اس سے معلوم ہوا کہ نیک اور پرہیز گار بیوی اوراولاد مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک اور اس کے دل کی خوشی کا باعث ہے۔نیک بیوی کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا مَتاع (یعنی فائدہ اٹھانے کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترمتاع نیک عورت ہے۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، ص۷۷۴، الحدیث: ۵۹(۱۴۶۷))

            اور حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے ڈرنے کے بعد مومن کے لیے نیک بیو ی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر اسے حکم دیتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں  چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں  بھلائی کرے (یعنی اس کی عزت میں  خیانت نہ کرے اور اس کا مال ضائع نہ کرے۔)(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)

            اور نیک اولاد کے بارے میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے عمل مُنقَطع ہو جاتے ہیں ۔(1)صدقہ جاریہ۔(2)وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو۔(3)نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرے۔(مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))

{وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا: اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔} یعنی ہمیں  ایسا پرہیزگار،عبادت گزار اور خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں  کی پیشوائی کے قابل ہوں  اور وہ دینی اُمور میں  ہماری اِقتدا کریں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں  دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت رکھنی اور طلب کرنی چاہئے۔(خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۳۸۱)      لیکن یہ اس صورت میں  ہے کہ جب مقصد اچھا ہو نہ یہ کہ حب ِ دنیا اور حب ِ جاہ کی وجہ سے ہو۔

اُولٰٓىٕكَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّةً وَّ سَلٰمًا(75)خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

انہیں ان کے صبرکے سبب جنت کا سب سے اونچا درجہ انعام میں دیا جائے گا اور اس بلند درجے میں دعائے خیر اورسلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے، کیا ہی اچھی ٹھہرنے اورقیام کرنے کی جگہ ہے۔

صراط الجنان: تفسیر‎

{اُولٰٓىٕكَ: انہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالٰی نے اپنے صالحین بندوں  کے اوصاف ذکر فرمائے، اس کے بعد یہاں  اُن کی جزا ذکر فرمائی جارہی ہے۔ چنانچہ ا س آیت اورا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں  اللہ تعالٰی کی اطاعت پر ڈٹے رہنے،گناہوں  سے بچنے، کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کرنے، اِستقامت کے ساتھ عبادت کرنے اور فقر و فاقہ پر صبر کرتے رہنے کے سبب جنت کا سب سے اونچا درجہ انعام میں  دیا جائے گا اور اس بلند درجے میں  دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔یہ استقبال یوں  ہوگا کہ فرشتے دعائے خیر اورسلام کے ساتھ ان کی تعظیم و تکریم کریں  گے یا یوں  ہو گا کہ اللہ تعالٰی ان کی طرف سلام بھیجے گا۔مزید ارشاد فرمایاکہ وہ ا س بلند درجے میں  ہمیشہ رہیں  گے، وہ کیا ہی اچھی ٹھہرنے اورقیام کرنے کی جگہ ہے۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۸۱۲، خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۵-۷۶، ۳ / ۳۸۱، ملتقطاً)

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْۚ-فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرماؤ: میرا رب تمہاری کوئی قدر نہیں فرمائے گا اگر تم اس کی عبادت نہ کرو تو تم نے تو جھٹلایا تو اب عذاب (تم پر) ہمیشہ رہے گا۔

صراط الجنان: تفسیر‎

{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اہل ِمکہ سے فرمائیں  کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں  اپنی اطاعت اور عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اگر تم نے میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت نہ کی تووہ تمہاری کوئی قدر نہیں  فرمائے گا اور وہ تمہاری قدر کیسے فرمائے گا حالانکہ تم نے ا س کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی کتاب کو جھٹلایا ہے تو اب تم پر دنیا میں  ہلاکت کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہو گا۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۳۸۱، جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۳۰۹، ملتقطاً)



Scroll to Top