سُوْرَۃ غَافِر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حٰمٓ(1)تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
حم۔ کتاب کا نازل فرمانا اللہ کی طرف سے ہے جو عزت والا، علم والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حٰمٓ} ان حروف کا تعلق حروفِ مُقَطَّعات سے ہے اور ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔
{تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ: کتاب کا نازل فرمانا اللہ کی طرف سے ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ یہ وہ کتاب ہے جسے اس اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جس کی شان یہ ہے کہ وہ عزت والا ہے اور تمام معلومات کا علم رکھنے والا ہے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۱۵۰)
یاد رہے کہ قرآنِ کریم وہ عظیم الشّان کتاب ہے جسے نازل فرمانے والا عزت و علم والا، لانے والا بھی عزت و علم والا، جس نبی کی طرف لایا گیا وہ بھی عزت و علم والا ہے اور جو اس قرآن کو پڑھتا، سمجھتا اور عمل کرتا ہے وہ بھی عزت و علم والا ہوجاتا ہے البتہ یہاں یہ فرق ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کاعزت والا اور علم والا ہونا ذاتی ہے کسی کا دیا ہو انہیں ، نیز اللہ تعالیٰ کا علم کسی آلے یا غورو فکر کامحتاج نہیں ،اس کا علم اَزلی اور اَبدی ہے کہ نہ اس کی کسی وقت سے کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہا،اس کے علم کا ہونا ضروری ہے اور نہ ہونا محال ہے،اس کا علم دائمی ہے،اس میں تبدیلی اور تَغَیُّر محال ہے اور اس کا علم انتہائی کامل ہے جبکہ مخلوق کاعزت اور علم والا ہونا اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے اور جواوصاف اللہ تعالیٰ کے علم کے ہیں وہ مخلوق کے علم کے ہر گز نہیں ہیں ۔
غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام والاہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ غَافِرِ الذَّنْۢبِ: گناہ بخشنے والا۔} اس آیت ِمبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مزید6اَوصاف بیان فرمائے ہیں۔
(1)…وہ گناہ بخشنے والا ہے۔جو مسلمان اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے اس کے گناہوں کی بخشش کا تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا البتہ توبہ کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے چاہے گناہ بخش دے، اور یہ اس کا فضل و کرم اور احسان ہے ۔ مفسرین نے ’’غَافِرْ‘‘ کا ایک معنی ساتِر یعنی’’ چھپانے والا‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں اور خطاؤں کو محض اپنے فضل سے دنیا میں چھپانے والا ہے اور قیامت کے دن بھی چھپائے گا ۔
(2)…وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔جو کافر اپنے کفر سے اور جو مومن اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ا س کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگرچہ اس نے موت سے چند لمحے پہلے ہی توبہ کیوں نہ کی ہو۔
(3)… سخت عذاب دینے والا ہے۔اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے کفر کی وجہ سے جہنم میں سخت عذاب دے گا، البتہ یاد رہے کہ بعض گناہگار مسلمان بھی ایسے ہوں گے جن کے گناہوں کی بنا پر انہیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔
(4)…بڑے انعام والاہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بڑے انعام عطا فرمانے والا ہے۔
(5)…اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اس آیت میں فضل و رحمت کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہیں ، اس کے علاوہ اور کسی کی ایسی صفات نہیں ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی ایسے وصف نہیں رکھتا تو اس کے علاوہ کوئی اور معبود بھی نہیں ہے۔
(6)…اسی کی طرف پھرنا ہے ۔جب قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سبھی نے اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے خواہ وہ خوشی سے جائے یا اسے جَبری طور پر لے کرجایا جائے۔
گناہوں سے توبہ کرنے اور عملی حالت سدھارنے کی ترغیب:
جب اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ گناہوں کو بخشنے والا بھی ہے اورکافروں اور گناہگاروں کی توبہ قبول فرمانے والا بھی ہے،سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور انعام و احسان فرمانے والا بھی ہے ،وہی اکیلا معبود ہے اور سبھی کو اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا بھی ہے، تو ہر کافر اور گناہگار مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کفر اور گناہوں سے سچی توبہ کرے ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے، اس کے عذاب سے ڈرتا اور اس سے پناہ مانگتارہے ،اس کے انعام اور احسان کو پانے کی کوشش کرے،صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرے اور آخرت میں ہونے والے حساب کی دنیا میں ہی تیاری کرے۔انہی چیزوں کی ترغیب اور حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۱۳۵،۱۳۶)
ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ (یہ لوگ) ہمیشہ ان (جنتوں ) میں رہیں گے اور نیک اعمال کرنے والوں کا کتنا اچھا بدلہ ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ‘‘(احزاب:۷۰،۷۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
اس آیت کے متعلق ایک واقعہ:
حضرت یزید بن اصم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک آدمی بڑاطاقتورتھااورشام کے لوگوں سے تعلق رکھتا تھا ۔ حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے اپنے پاس نہ پایا تواس کے بارے میں پوچھا۔ عرض کی گئی: وہ تو شراب کے نشے میں دُھت ہے ۔حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کاتب کوبلایا اوراس سے فرمایا:لکھو!عمربن خطاب کی جانب سے فلاں بن فلاں کے نام، تم پرسلام ہو۔میں تمہارے سامنے اس اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرتا ہوں جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ پھر آپ نے دعاکی اورجولوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے آمین کہی۔ انہوں نے اس آدمی کے حق میں یہ دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس پرنظر ِرحمت فرمائے اوراس کی توبہ قبول فرمائے۔ جب وہ خط اس آدمی تک پہنچا تووہ اسے پڑھنے لگا اور ساتھ میں یوں کہتا ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بخشش کاوعدہ کیاہے ۔ ’’وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا۔ ’’ذِی الطَّوْلِ‘‘ بہت زیادہ انعام فرمانے والاہے۔ ’’اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ وہ بار بار اسے اپنے اوپردہراتارہایہاں تک کے رونے لگا،پھراس نے گناہوں سے توبہ کی اوربہترین توبہ کی ۔جب حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تک اس کا معاملہ پہنچاتوآپ نے فرمایا:تم اسی طرح کیاکرو کہ جب تم کسی کو لغزش کی حالت میں دیکھو تو اسے درست ہونے کا موقع دو،نیزاللہ تعالیٰ سے دعاکروکہ وہ توبہ کرلے اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔( درمنثور، غافر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۷۰-۲۷۱)
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کسی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بارے میں جاننے کے بعد اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس سے وہ اپنے گناہوں سے باز آنے کی بجائے اور زیادہ گناہوں پر بے باک ہو جاتا ہے، انہیں چاہئے کہ گناہگار سے نفرت نہ کریں بلکہ اس کے گناہ سے نفرت کریں اور ا سے اس طرح نصیحت کریں جس سے اسے گناہ چھوڑ دینے اور نیک اعمال کرنے کی رغبت ملے ،وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کی طرف مائل ہو اور پرہیزگار انسان بننے کی کوشش شروع کردے،نیز اس کی اصلاح اور توبہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی رہے ،اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے گناہوں سے توبہ اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جائے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہگار مسلمانوں کی احسن انداز میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں ۔} یعنی قرآن مجید کو جھٹلانا،اس کی آیتوں کا انکار کرنا،قرآن کریم پر اعتراض کرنا،اسے جادو،شعر،کہانت اور سابقہ لوگوں کی کہانیاں کہنا کافروں کا ہی کام ہے۔
قرآنِ مجید کے بارے میں جھگڑا کرنے سے متعلق4 اَحادیث:۔
اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کے بارے میں جھگڑاکرنا کسی مومن کا کام نہیں بلکہ کافر کا کام ہے ۔ یہاں قرآنی آیات میں جھگڑا اور اختلاف کرنے سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرورِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب النّہی عن الجدال فی القرآن، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۳)
(2)…حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآنِ مجید میں جھگڑا نہ کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن عبد الرّحمٰن عن زید بن ثابت، ۵ / ۱۵۲، الحدیث: ۴۹۱۶)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ایک دن میں حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے دو شخصوں کی آواز یں سنیں جو کسی آیت میں اختلاف کررہے تھے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ چہرۂ انور میں غصہ معلوم ہوتا تھا،ارشاد فرمایا’’ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوگئے۔ (مسلم، کتاب العلم، باب النّہی عن اتباع متشابہ القرآن… الخ، ص۱۴۳۳، الحدیث: ۲(۲۶۶۶))
(4)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جماعت کو قرآنِ مجید میں جھگڑا کرتے سنا تو ارشاد فرمایا ’’ اس حرکت کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے کتاب کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے مخالف دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تو اس لیے اتری ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرے، لہٰذا تم ایک حصے کو دوسرے حصے سے جھٹلاؤ نہیں بلکہ کتاب میں سے جس قدر جانتے ہو اتنا کہو اور جو نہیں جانتے اسے عالِم کے سپرد کرو۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۶۱۱، الحدیث: ۶۷۵۳)
قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے کی صورتیں :
یادرہے کہ قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے بعض صورتیں ، کفر، بعض کفر کے قریب اور حرام ہیں ،مثلاً قرآنِ پاک کو جادو، شعر ، کہانَت اور سابقہ لوگوں کی داستان کہنا، جیسا کہ کفارِ مکہ کہا کرتے تھے،یہ کفر ہے۔ یونہی قرآنِ عظیم کو اپنی رائے کے مطابق بنانے میں جھگڑنا کہ ہر ایک اپنی رائے اور ایجاد کردہ مذہب کے مطابق اس کا ترجمہ یا تفسیر کرے۔ یہ کفر بھی ہوسکتا ہے اور ضلالت و گمراہی بھی ۔اسی طرح بغیر علم کے قرآن کا مطلب بیان کرنا حرام اور اپنے بیان کردہ مطلب کے درست ہونے پر اِصرار مزید حرام ہے۔
نوٹ:آیت اور اَحادیث میں جو قرآنِ کریم میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے اس سے مذکورہ بالا صورتیں مراد ہیں جبکہ مشکل مقامات کو حل کرنے اور پیچیدہ مسائل کو واضح کرنے کے لئے علمی اور اصولی بحثیں کرنا جیسا کہ ممتاز مفسرین اور مُجتہدین نے کیا، ان کا اس جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بہت بڑی عبادات میں سے ہیں نیز مفسرین اور مجتہدین کا جو اختلاف ہے وہ جھگڑا نہیں بلکہ تحقیق ہے۔
{فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ: تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔} یعنی اے سننے والے! کافروں کا صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنے شہروں میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک تجارتیں کرتے پھرنا اور نفع پانا تمہارے لئے تَرَدُّد کا باعث نہ ہو کہ یہ کفر جیسا عظیم جرم کرنے کے بعد بھی عذاب سے امن میں کیوں ہیں ، کیونکہ ان کا آخری انجام خواری اور عذاب ہے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۶۵-۶۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۵۱، ملتقطاً)
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ۪-وَ هَمَّتْ كُلُّ اُمَّةٍۭ بِرَسُوْلِهِمْ لِیَاْخُذُوْهُ وَ جٰدَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ فَاَخَذْتُهُمْ- فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں نے جھٹلایااور ہر امت نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے رسول کو پکڑ لیں اور باطل کے ذریعے جھگڑتے رہے تا کہ اس سے حق کومٹا دیں تو میں نے انہیں پکڑلیاتو میرا عذاب کیسا ہوا ؟
تفسیر: صراط الجنان
{كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں نے جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیاکہ کافر وں کا انجام ذلت و خواری اور عذاب میں مبتلا ہونا ہے اور اب یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ پہلی امتوں میں بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان کفارِ مکہ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں جیسے عاد،ثمود اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم وغیرہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایااور ان میں سے ہر امت نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پکڑ لیں اور اسے شہید کر دیں اور وہ لوگ باطل کے ساتھ جھگڑا کرتے رہے تا کہ اِس کے ذریعے اُس حق کومٹا دیں جسے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لے کر آئے ہیں ، جب انہوں نے اپنے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو میں نے انہیں پکڑلیا،تو اے لوگو! تم ان کے شہروں سے گزرتے ہوئے دیکھ لو کہ ان پر میرا آنے والا عذاب کیسا ہوا ؟کیا ان میں کوئی اس عذاب سے بچ سکا۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۶۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۰۵۱، ملتقطاً)
سابقہ امتوں کے احوال میں موجودہ زمانے کے کفار کیلئے عبرت ہے:
اس آیت میں سابقہ امتوں کے جو اَحوال اور اپنے رسولوں کے ساتھ ان کا جو طرزِ عمل بیان کیا گیا اور اس بنا پر ان کا جو حال ہوا اس میں اسلام کے ابتدائی زمانے کے کفار اور بعد والے ان تمام لوگوں کے لئے عبرت اور نصیحت ہے جو سابقہ امتوں کی رَوِش پر عمل پیرا ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرما کر اور قرآنِ پاک میں اپنی وحدانیّت، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور اسلام کی حقّانیّت پر روشن اور مضبوط ترین دلائل بیان فرما کر تمام حجتیں پوری کر دیں اور قیامت تک آنے والے کسی بھی فردکے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا،اس کے باوجود بھی اب کوئی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اوراللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار کر کے دینِ اسلام میں داخل نہ ہو بلکہ الٹا باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اسے چاہئے کہ ایسی صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ کے اَزلی قانون کے مطابق عذابِ الٰہی کا انتظار کرے۔
وَ كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ النَّارِﭩ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یونہی تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ: اور یونہی۔} یعنی اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح سابقہ جھٹلانے والی اور اپنے رسولوں کے ساتھ باطل جھگڑا کرنے والی امتوں پر عذاب سے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی قضا جاری ہوئی اسی طرح آپ کو جھٹلانے والے اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے والے کفار پر بھی اللہ تعالیٰ کی بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ جہنمی ہیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶، ۸ / ۱۵۴)یاد رہے کہ اس آیت میں کافروں سے وہ مراد ہیں جن کی موت کفرپرہوگی اوریہ کافرہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ۔
عبرت کا نشان بننے سے پہلے عبرت حاصل کر لیں :
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ کفر اور گناہوں پرقائم رہنا دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کی طرف لے جاتا ہے لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ کفر اور گناہوں پر اِصرار کرنے کی بجائے فوراً ان سے سچی توبہ کرلے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور اس کے نصیحت حاصل کرنے سے پہلے دوسرے لوگ اس سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی اور فوری توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۚ-رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ(7)رَبَّنَا وَ اَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(8)وَ قِهِمُ السَّیِّاٰتِؕ-وَ مَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود (فرشتے) اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بخشش مانگتے ہیں ۔اے ہمارے رب!تیری رحمت اور علم ہر شے سے وسیع ہے تو انہیں بخش دے جوتوبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب!اور انہیں اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے ،بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے۔ اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے اور جسے تونے اس دن گناہوں کی شامت سے بچالیا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایااور یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ: عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود (فرشتے)۔} اس سے پہلی آیات میں بتایا گیاکہ کفار و مشرکین ایمان والوں سے بہت زیادہ عداوت اور دشمنی رکھتے اور انہیں نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اور اس آیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ عرش اٹھانے والے اور اس کے اردگرد موجود فرشتے جو کہ بہت افضل مخلوق ہیں وہ ایمان والوں سے انتہائی محبت اور الفت رکھتے ہیں اور ان کی بھلائی چاہنے میں مشغول رہتے ہیں ، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ عرش اٹھانے والے فرشتے جوبارگاہِ الٰہی میں خاص قرب اور شرف رکھتے ہیں نیزعرش کے ارد گرد موجود وہ فرشتے جو عرش کا طواف کر رہے ہیں ،یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ کہتے ہیں اور یہ فرشتے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے اور اس کی وحدانیّت کی تصدیق کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بخشش مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تیری رحمت اور علم ہرشے سے وسیع ہے، تو انہیں بخش دے جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور تیرے دین اسلام کے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، انہیں ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو بھی ان باغات میں داخل فرما ،بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے،اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے اور گناہوں کا عذاب ان سے دور کر دے اور جسے تونے قیامت کے دن گناہوں کی شامت سے بچالیا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایااور یہ عذاب سے بچالیا جانا ہی بڑی کامیابی ہے۔ لہٰذا اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر یہ مشرکین آپ کی پیروی کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں کیونکہ مخلوق کے بہترین افراد آپ کی پیروی کرنے والوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۹ / ۴۸۷-۴۹۳، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۴ / ۶۶-۶۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷-۹، ص۳۹۱، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۸ / ۱۵۵-۱۶۰، ملتقطاً)
عرش اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد اور ان کی تسبیح:
ایک قول یہ ہے کہ ابھی عرش اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد چار ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی تعداد میں اضافہ فرما کر انہیں آٹھ کر دے گا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌ‘‘(حاقہ:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن آٹھ فرشتے تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائیں گے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اِس وقت وہی آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں جو قیامت کے دن اٹھائیں گے ۔
حضرت شہربن حو شب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ عرش اٹھانے والے فرشتے آٹھ ہیں ،ان میں سے چار کی تسبیح یہ ہے ’’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے،اپنے علم کے بعد اپنے حِلم پر تو ہی حمد کا مستحق ہے۔‘‘اور چار کی تسبیح یہ ہے: ’’سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ‘‘ یعنی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو پاک ہے اور تیری ہی حمد ہے،اپنی قدرت کے بعد اپنے عفو پر تو ہی حمد کا مستحق ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۶۷، تفسیرکبیر، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۰ / ۶۲۶، ابن کثیر، غافر، تحت الآیۃ: ۷، ۷ / ۱۱۹، ملتقطاً)
سورۂِ مومن کی آیت نمبر7،8اور9سے معلوم ہونے والے مسائل:
ان آیات سے 9مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)…ایمان ایک بہت بڑا شرف اور فضیلت ہے کہ یہ فرشتوں جیسی عظیم مخلوق کیلئے بھی باعث ِ شرف ہے ۔
(2)… مومن بڑی عزت والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مُقَرَّب فرشتوں کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ ان کا ذکر بھی ہو رہا ہے اور ان کے لئے دعائیں بھی ہو رہی ہیں ۔
(3)…فرشتوں کی شفاعت برحق ہے کہ وہ مومنوں کے لئے آج بھی دعائے مغفرت کر رہے ہیں ۔
(4)… مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ان فرشتوں کا ذکر خیر سے کیا کریں اور ان کے لئے دعائے خیر کیا کریں کیونکہ نیکی کا بدلہ نیکی ہے۔
(5)… مسلمانوں کے لئے غائبانہ اور کسی غرض کے بغیر دعا کرنا فرشتوں کی سنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے ۔
(6)… مُقَدّس مقامات پر جا کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے ساتھ مسلمان بھائیوں کے لئے دعا مانگنی قبولیت کے زیادہ قریب ہے ، لہٰذا حاجی کو چاہیے کہ کعبہ معظمہ اور سنہری جالیوں پر تمام مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کرے۔
(7)… دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا فرشتوں کی سنت ہے۔
(8)…توبہ کرنے والے شخص کی برکت ا س کے والدین اور بیوی بچوں کو بھی پہنچتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں بھی جنت اور ا س کی نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں ۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب مومن جنت میں داخل ہوگاتوپوچھے گامیراباپ کہاں ہے؟ میری ماں کہاں ہے ؟ میرے بچے کہاں ہیں ؟میری بیوی کہاں ہے؟ اسے بتایاجائے گاکہ انہوں نے تیری طرح نیک اعمال نہیں کیے ،اس لیے وہ یہاں موجود نہیں تووہ جنتی جواب میں کہے گا:میں اپنے لیے اوران کے لیے نیک اعمال کیاکرتاتھا۔پھرکہاجائے گاکہ اُن لوگوں کوبھی جنت میں داخل کردو۔( بغوی، غافر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۸۲)
(9)…حقیقی اور اصل کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن بندے کے گناہ معاف کر دئیے جائیں اور اسے جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِیْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک کافروں کو ندا دی جائے گی کہ یقینا اللہ کی تم سے ناراضی اس سے بڑھ کر ہے جو (آج) تمہیں اپنی جانوں سے ہے کیونکہ جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتاتھا تو تم کفر کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنَادَوْنَ: بیشک کافروں کو ندا دی جائے گی۔} اس سے پہلی آیتوں میں ان کافروں کے احوال بیان کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے تھے اور اب یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنے گناہوں کا اور اپنے اوپر نازل ہونے والے عذاب کے حقدار ہونے کا اعتراف کریں گے اور دنیا کی طرف لوٹا دئیے جانے کا سوال کریں گے تاکہ وہ اپنی کوتاہیوں کا اِزالہ کرلیں ۔چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کافر جہنم میں داخل ہوں گے اور ان کی بَدیاں ان پر پیش کی جائیں گی اور وہ عذاب دیکھیں گے تو اس وقت وہ اپنے آپ پر غصہ کریں گے اور اپنی جانوں سے بیزار ہو جائیں گے ،اس پر فرشتے ان سے کہیں گے: یقینا اللہ تعالیٰ کا تم پر غضب اور ناراضی اس سے کہیں زیادہ ہے جتناآج تمہیں اپنی جانوں پر غصہ آ رہا ہے اور ان سے تم بیزار ہو رہے ہو کیونکہ جب تمہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پرایمان لانے کی طرف بلایا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکیا کرتے تھے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی جس ناراضی کا ذکر ہے اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کافروں پر فرمائے گا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو اللہ تعالیٰ اس وقت فرماتا تھا جب دنیا میں کافر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا انکار کرتے اور اس کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۹ / ۴۹۳- ۴۹۴ ، خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۶۷، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۰، ۸ / ۱۶۰-۱۶۱، ملتقطاً)
قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَ اَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ(11)ذٰلِكُمْ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ كَفَرْتُمْۚ-وَ اِنْ یُّشْرَكْ بِهٖ تُؤْمِنُوْاؕ-فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِیِّ الْكَبِیْرِ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب !تو نے ہمیں دومرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندہ کیا تو اب ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا ہے توکیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ایک اللہ کوپکارا جاتاتھا تو تم کفر کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم مان لیتے تھے توہر حکم اس اللہ کا ہے جو بلند ی والا،بڑائی والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا رَبَّنَا: وہ کہیں گے: اے ہمارے رب!۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم میں فرشتوں کی ندا سن کر کفار کہیں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو نے ہمیں دومرتبہ موت دی اور دومرتبہ زندہ کیا اور اب ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا ہے اور ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرکے جو گناہ کیا کرتے تھے اب ہمیں اس کا اعتراف ہے ، توکیا جہنم سے نکل کر دنیا کی طرف جانے کا کوئی راستہ ہے تاکہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کر لیں اور صرف تیری ہی اطاعت کریں ؟اس کا جواب یہ ہوگا کہ تمہارے جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں اور تم جس حال میں اور جس عذاب میں مبتلا ہو ، اس سے رہائی کی کوئی راہ نہیں پاسکتے ۔ اس عذاب اور اس کے ہمیشہ رہنے کاسبب تمہارا یہ فعل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کا اعلان ہوتا اور لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ کہا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور کفر اختیار کرتے تھے اور اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم مان لیتے اور اس شرک کی تصدیق کرتے تھے، توجان لو کہ حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ایسا بلند ی والا ہے کہ اس سے اور کوئی بلند نہیں اور ایسابڑائی والاہے کہ اس سے اور کوئی بڑا نہیں ۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۱۱-۱۲، ۹ / ۴۹۴-۴۹۶، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۶۷-۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۰۵۳، ملتقطاً)
دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دینے سے کیا مراد ہے؟
آیت نمبر11میں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دئیے جانے کا ذکر ہوا، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ پہلے وہ بے جان نطفہ تھے، اس موت کے بعد انہیں جان دے کر زندہ کیا، پھر عمر پوری ہوجانے پر انہیں موت دی، پھر اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزاپانے کے لئے زندہ کیا۔اس کی دلیل وہ آیتِ مبارکہ ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا:
’’ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ‘‘(بقرہ:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا۔
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًاؕ-وَ مَا یَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ(13)فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے روزی اتارتا ہے اور نصیحت نہیں مانتا مگر وہی جو رجوع کرے۔تو اللہ کی بندگی کرو، خالص اسی کے بندے بن کر ،اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ: وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں مشرکوں کا دردناک انجام بیان ہو ا اور اب یہاں سے وہ چیزیں بیان کی جا رہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت،حکمت اور وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ صرف وہی ہے جو تمہیں اپنی مصنوعات جیسے ہوا،بادل اور بجلی وغیرہ کے عجائبات دکھاتا ہے جو اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں اور تمہارے لیے آسمان کی طرف سے بارش برساتا ہے جو کہ روزی ملنے کا سبب ہے اوران نشانیوں سے وہی نصیحت حاصل کرتا اور نصیحت مانتا ہے جوتمام اُمور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرنے والا اور شرک سے تائب ہو کیونکہ سرکش انسان نہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتا ہے،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ شرک سے کنارہ کشی کر کے اور خالص اللہ تعالیٰ کے بندے بن کرصرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہو ۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ:۱۳-۱۴، ۹ / ۴۹۶-۴۹۷، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ۴ / ۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۴، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
سورۂِ مؤمن کی آیت نمبر13اور 14سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے 3باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… روزی تو سب کے لئے ہے مگر ہدایت سب کے لئے نہیں ۔ افسوس کہ ہمیں اپنی روزی کی تو بہت فکر ہے لیکن ہدایت کی کوئی فکرنہیں ۔
(2)…جو بھی نیک عمل کیا جائے اس میں رِیاکاری اور لوگوں کو دکھانا مقصود نہ ہو بلکہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ رِیا،دکھلاوے وغیرہ سے پاک عمل ہی کو قبول فرماتا ہے ۔
(3)… آیت نمبر14 میں صلحِ کُلیَّت کاذہن رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِۚ-یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(اللہ ) بلند درجات دینے والا، عرش کامالک ہے۔ وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے تا کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ: بلند درجات دینے والا، عرش کامالک ہے۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال والی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ تنہا معبود ہے،اس کی شان یہ ہے کہ وہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء اورعلماء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو جنت میں بلند درجات دینے والا اورعرش جیسی عظیم چیز کامالک ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کا منصب عطا فرماتا ہے اور جس کو نبی بناتا ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو قیامت کے دن کا خوف دلائے، اور قیامت کا دن وہ ہے جس میں آسمان والے، زمین والے اور اوّلین و آخرین ملیں گے ، روحیں جسموں سے اور ہر عمل کرنے والا اپنے عمل سے ملے گا۔
رفیع کا ایک معنی مُرْتَفِعْ بھی ہے،یعنی اللہ تعالیٰ خود بہت شان اوربلنددرجہ والاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جمال اور جلال کی تمام صفات میں اور اپنی وحدانیّت کے اعتبارسے تمام موجودات میں ہرلحاظ سے بلنداوربرترہے اوروہ ہر چیز سے بے پرواہ ہے اورہم سب اس کے محتاج ہیں ۔(تفسیرکبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۱۵، ۹ / ۴۹۷-۴۹۹ ، خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
یَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ ﳛ لَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْهُمْ شَیْءٌؕ-لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ-لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن وہ بالکل ظاہر ہوجائیں گے۔ ان کے حال میں سے کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں ہوگی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ: جس دن وہ بالکل ظاہر ہوجائیں گے۔} یعنی قیامت کا دن وہ ہے جس دن لوگ قبروں سے نکل کر بالکل ظاہر ہوجائیں گے اور کوئی عمارت، پہاڑ ، چھپنے کی جگہ اور آڑ نہ پائیں گے کیونکہ اس دن زمین برابراور چٹیل میدان ہو جائے گی اور مخلوق کی کثرت کے باوجود ان کے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر تمام اعمال،اقوال اور احوال میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی اور وہ ان کے اچھے برے اعمال کے مطابق انہیں جزا اور سزا دے گا۔
یہاں خاص طور پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہونے کاذکر کیا گیا اگرچہ آج بھی لوگوں کا کوئی عمل، قول اور حال اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے،اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا میں کفار یہ خیال کیا کرتے تھے کہ’’ جب ہم کسی آڑ میں چھپ جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں نہیں دیکھتا اور ا س پر ہمارے اعمال پوشیدہ رہتے ہیں ‘‘ ا س پر بتا دیا گیا کہ آج تو وہ یہ خیال کر رہے ہیں ، لیکن قیامت کے دن وہ یہ خیال بھی نہ کر سکیں گے کیونکہ اس دن لوگوں کے لئے کوئی پردہ اور آڑ کی چیز نہ ہوگی جس کے ذریعے سے وہ اپنے خیال میں بھی اپنے حال کو چھپا سکیں اور اس دن انہیں بھی یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۱۶۷، تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۹ / ۴۹۹-۵۰۰، ملتقطاً)
چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ قیامت کے دن لوگوں کے تمام اعمال اور احوال ظاہر ہو جائیں گے خواہ دنیا میں وہ کتنے ہی پوشیدہ ہوں اور وہ دن چھپی ہوئی چیزوں کے ظاہر ہونے کا دن ہے ،اسی چیز کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ(۱) وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ(۲) وَ قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَاۚ(۳) یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ(۴) بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَاؕ(۵) یَوْمَىٕذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ﳔ لِّیُرَوْا اَعْمَالَهُمْؕ(۶) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ‘‘( زلزال:۱۔۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب زمین اپنے زلزلے کے ساتھ تھرتھرا دی جائے گی۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے گی۔ اور آدمی کہے گا: اسے کیا ہوا؟ اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔ اس لیے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔ تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِۙ(۹) وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِۙ(۱۰) اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّخَبِیْرٌ‘‘(عادیات:۹۔۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ نہیں جانتا جب وہ اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں ؟ اور جو سینوں میں ہے وہ کھول دی جائے گی۔ بیشک ان کا رب اس دن ان کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔
ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے چھپ کر گناہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی اپنے اعمال اور احوال پر غور کرنا چاہئے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ قیامت کے دن جب ا ن کے خفیہ اعمال ظاہر کر دئیے جائیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنا خوف نصیب کرے اور اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ: آج کس کی بادشاہی ہے؟۔} آیت کے اس حصے کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج کس کی بادشاہی ہے؟ اب جواب دینے والاکوئی نہ ہوگا ،تو اللہ تعالیٰ خود ہی جواب میں فرمائے گا :ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ قیامت کے دن جب تمام اَوّلین و آخرین حاضر ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا: آج کس کی بادشاہی ہے ؟ تمام مخلوق جواب دے گی:ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔مومن تو یہ جواب بہت لذت کے ساتھ عرض کریں گے کیونکہ وہ دنیا میں یہی اعتقاد رکھتے تھے ، یہی کہتے تھے اور اسی کی بدولت انہیں مرتبے ملے اور کفار ذِلّت و ندامت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے اور دنیا میں اپنے منکر رہنے پر شرمندہ ہوں گے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۶۹، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی ہو گی:
آیت کی مناسبت سے یہاں دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’(قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے دائیں دست ِ قدرت سے زمین کو اپنے ہی قبضے میں لے گا اور آسمان کو لپیٹ لے گا، پھرفرمائے گا:حقیقی بادشاہ میں ہوں ،آج زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟( صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب یقبض اللّٰہ الارض، ۴ / ۲۵۱، الحدیث: ۶۵۱۹)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ دے گا۔ پھر انہیں اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) دائیں ہاتھ میں لے گا، پھر ارشادفرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ، کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر والے لوگ؟ پھر زمینوں کو اپنے (شایانِ شان معنوں میں ) بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھرارشاد فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں ،کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبُّر و غرور کرنے والے لوگ۔( مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنّار، ص۱۴۹۹، الحدیث: ۲۴(۲۷۸۸))
اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ: آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔} یعنی قیامت کے دن ہر نیک اور برے انسان کو اس کی دنیا میں کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور نیک شخص کے ثواب میں کمی کر کے یا برے شخص کے عذاب میں زیادتی کر کے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔بے شک اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۶۸-۱۶۹)
حق داروں کو ان کے حقوق دنیا میں ہی ادا کر دینے کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا میں جیسے اعمال کئے ہوں گے آخرت میں ویسا ہی بدلہ دیاجائے گا اور یاد رہے کہ اس دن ان لوگوں کو بھی ان کے حقوق دلائے جائیں گے جن کے حقوق دنیا میں ضائع کئے گئے ہوں گے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن اُنیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کوننگے بدن،بے ختنہ شدہ اورمال کے بغیر اٹھائے گا۔ہم نے عرض کی:بُہْم کیا ہے ؟ارشاد فرمایا’’جن کے پاس کوئی چیز نہ ہو۔پھر اللہ تعالیٰ لوگوں کو بلند آواز سے ندا فرمائے گا: جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح قریب والے سنتے ہیں(ارشاد فرمائے گا:)میں بادشاہ ہوں ، میں بدلہ لینے والا ہوں ، کوئی جنتی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا ،یونہی کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہیں جا سکتا یہاں تک کہ میں اِس سے اُس حق کا بدلہ نہ لے لوں جو کسی کا اس کے ذمے ہے حتّٰی کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی۔ہم نے عرض کی:یہ کیسے ہو گا جبکہ ہم تو اس وقت ننگے بدن اور کنگال ہوں گے ؟ارشاد فرمایا’’ یہ بدلہ نیکیوں اور برائیوں کے ذریعے ہو گا (یعنی حق داروں کو اس شخص کی نیکیاں دے دی جائیں گی یاحق داروں کے گناہ اس کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے) پھر رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم المؤمن، یحشر الناس غرلا بہما، ۳ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۶۹۰)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ عرب کی سرزمین پر ا س کی پوجا کی جائے لیکن عنقریب وہ اِس سے کم اور حقیر باتوں پر تم سے راضی ہو گا اور وہ ہلاکت خیز باتیں ہیں ،تو جس قدر ممکن ہو ظلم سے بچو کیونکہ بندہ قیامت کے دن نیکیاں لائے گا اور اس کے خیال میں وہ اسے نجات دینے والی ہوں گی لیکن ایک بندہ آ کر کہے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اُس شخص کی نیکیوں میں سے کچھ مٹا دو،اسی طرح لوگ آتے رہیں گے (اور اس کی نیکیاں لے جاتے رہیں گے) حتّٰی کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے مسافر جنگل میں اتریں اور ان کے پاس لکڑیاں نہ ہوں ،اب وہ لوگ بکھر جائیں اور لکڑیاں جمع کر کے لائیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بہت بڑی آگ جلا کر اپنا مقصد حاصل کر لیں تو یہی معاملہ گناہوں کاہے (کہ یہ نیکیوں کو اس طرح ختم کر دیں گے جس طرح آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے لکڑیاں جلا دیں )(مجمع الزوائد، کتاب التوبۃ، باب فیما یحتقر من الذنوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۷۴۶۰)
فکر ِآخرت کی ضرورت:
اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اے مسکین شخص!اس دن کیا صورتِ حال ہوگی، جب تو اپنے نامہ ِاعمال کو نیکیوں سے خالی دیکھے گا حالانکہ تو نے ان کے لیے سخت مشقت اٹھائی ہوگی ،تم کہو گے: میری نیکیاں کہاں ہیں ؟ تو جواب دیا جائے گا: وہ تو ان لوگوں کی طرف منتقل ہوگئیں جن کے حقوق تمہارے ذمہ تھے اور تم دیکھو گے کہ تمہارا نامہ ِاعمال برائیوں سے بھرا ہوا ہے کہ ان سے بچنے کے لیے تم نے بہت زیادہ مشقّت اٹھائی ہوگی اور ان سے رکنے کے سبب تم نے بہت تکلیف برداشت کی ہوگی، تم کہو گے: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے یہ گناہ کبھی نہیں کئے۔ جواب دیا جائے گا: یہ ان لوگوں کے گناہ ہیں جن کی تم نے غیبت کی ،جنہیں گالی دی، جن سے برائی کا ارادہ کیا اور جن سے خرید و فروخت کے اعتبار سے، پڑوسی ہونے کے ناطے سے، گفتگووغیرہ اور درس و تدریس کے اعتبار سے یا باقی معاملات میں تو نے ان پر ظلم کیا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی… الخ، صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۲)
لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اپنے نفس کا مُحاسبہ کر لے اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمے ہیں انہیں فوری طور پر ادا کر دے ۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’اپنے نفس کے حساب (یا مُحاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ہر گناہ سے سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں جائے گا،اور اگر وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو حقدار اس کا گھیراؤ کریں گے کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا اور کوئی اس کی پیشانی کے بال پکڑے گا اور کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے مجھ پر ظلم کیا اور کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی اور کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے ایذا دی۔ کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا۔ کوئی کہے گا: تو نے مجھ سے سودا کیا، تو مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ۔کوئی کہے گا: تو نے اپنے سامان کا نرخ بتاتے ہوئے جھوٹ بولا۔ کوئی کہے گا تو نے مجھے محتاج دیکھا اور تو مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں مظلوم ہوں اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالَحَت کی اور میرا خیال نہ کیا۔تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حقداروں نے تیرے بدن میں ناخن گاڑ رکھے ہوں گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے باعث حیران و پریشان ہوگا، حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں جس سے ایک درہم کا معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام تجھے سنائی دے گا : ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘(مومن:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔
اُس وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے گا،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ‘‘(ابراہیم:۴۲۔۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے سننے والے!) ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جارہے ہوں گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔اور لوگوں کو ڈراؤ۔
آج جب تو لوگوں کی عزتوں کے پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا ۔۔۔۔ اس وقت تو مُفلِس، فقیر ،عاجز اور ذلیل ہوگا نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت کی تجھ سے لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں گے اور یہ ان کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی… الخ، صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے،حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے یا ان سے معاف کرو الینے اور اُخروی حساب کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُﭤ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہیں قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈراؤ،جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے اس حال میں کہ غم میں بھرے ہوں گے ۔ ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ: اور انہیں قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈراؤ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ کو قیامت کے دن سے ڈرائیں جس کی ہَولْناکی کا یہ حال ہے کہ اس دن دل گلوں کے پاس آجائیں گے اور خوف کی شدت کی وجہ سے نہ ہی باہر نکل سکیں گے تاکہ مر کر کچھ راحت پا لیں اور نہ ہی اندر اپنی جگہ واپس جاسکیں گے تاکہ انہیں راحت نصیب ہو اور لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ غم میں بھرے ہوں گے اور اس دن نہ تو کافروں کاکوئی دوست ہوگااورنہ ہی کوئی سفارش کرنے والاکہ جس کی سفارش سے یہ لوگ عذاب سے نجات پاسکیں۔(مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۰۵۵، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۱۶۹-۱۷۰، ملتقطاً)
قیامت کے دن مسلمانوں کے دوست اور شفاعت کرنے والے ہوں گے ـ:
یاد رہے کہ اس آیت میں ظالموں سے کفار مراد ہیں گناہگار مسلمان اس آیت میں بیان کی گئی وعید میں داخل نہیں جیساکہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں آیت میں ظالموں سے مراد کفار ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت ان کافروں کی سرزَنِش کے لئے آئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ آیت کافروں کے ساتھ خاص ہو۔ (تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۵۰۴)
اورعلامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ کافروں کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کیونکہ یہ آیت کافروں کی مذمت میں آئی ہے۔مزید فرماتے ہیں : (اس سے) ثابت ہو اکہ گناہگار مسلمانوں کے لئے قیامت کے دن دوست بھی ہوں گے، شفاعت کرنے والے بھی ہوں گے اور ان کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی اور شفاعت کرنے والے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تمام اَنبیاء اور مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، مُقَرّب اولیا ء ِکرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور تمام فرشتے ہوں گے۔ (روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۸ / ۱۷۰)
یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اوراسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے۔} آنکھوں کی خیانت سے مراد چوری چھپے نا مَحْرَم عورت کو دیکھنا اور ممنوعات پر نظر ڈالنا ہے اور سینوں میں چھپی چیز سے مراد عورت کے حسن و جمال کے بارے میں سوچنا ہے،یہ سب چیزیں اگرچہ دوسرے لوگوں کو معلوم نہ ہوں لیکن انہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۰۵۵)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ایک آدمی لوگوں میں موجود ہوتاہے اورایک عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے ،وہ آدمی دوسرے لوگوں کویہ دکھاتاہے کہ اس عورت کی طرف نہیں دیکھ رہا اورجب لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں تووہ اس عورت کو دیکھ لیتاہے اور جب لوگ اسے دیکھنے لگتے ہیں تو وہ اپنی آنکھیں بندکرلیتاہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کے دل پرمطلع ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ شخص اس عورت کودیکھ رہا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، ما قالو فی الرجل تمر بہ المرأۃ… الخ، ۳ / ۴۱۰، الحدیث: ۱۵)
نظر بچا کر غیر مَحرم عورتوں کو دیکھنے والوں کے لئے نصیحت:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ اَعضا کے اَفعال جانتا ہے کیونکہ اعضا کے افعال میں سب سے خفیہ فعل چوری چھپے دیکھنا ہے اور جب اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو دیگر اعضا کے افعال بدرجہ اَولیٰ اسے معلوم ہوں گے، یونہی اللہ تعالیٰ دلوں کے افعال بھی جانتا ہے اور جب حاکم کے علم کایہ حال ہے تو ہر مجرم کو اس سے بہت زیادہ ڈرنا چاہئے اور بطورِ خاص ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہئے جوچوری چھپے غیر محرم عورتوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے حسن و جمال پر نثار ہوتے ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ایسے معاملات میں کیسا تقویٰ تھا اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ حج کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے ایک رفیق کے ساتھ نکلے۔جب ابواء کے مقام پر پہنچے تو رفیقِ سفر اٹھا اور دستر خوان لے کر کچھ خریدنے بازار چلا گیا جبکہ حضرت سلیمان بن یسار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ خیمے میں بیٹھے رہے،آپ بہت زیادہ خوبصورت اور انتہائی متقی تھے، ایک دیہاتی عورت نے پہاڑ کی چوٹی سے آپ کو دیکھ لیا اور اتر کر آپ کے سامنے کھڑی ہو گئی ،اس نے برقعہ اور دستانے پہنے ہوئے تھے ،جب اس نے چہرے سے پردہ اٹھایا تو (اس کے حسن کا حال یہ تھا کہ) گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہو،اس نے کہا: مجھے کچھ دیجئے۔حضرت سلیمان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سمجھا کہ شاید روٹی مانگ رہی ہے (آپ اسے روٹی دینے لگے تو) وہ کہنے لگی: مجھے روٹی نہیں چاہئے بلکہ میں تو وہ تعلق چاہتی ہوں جو شوہر اور بیوی کے درمیان ہوتا ہے ۔آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:تجھے شیطان نے میرے پاس بھیجا ہے، یہ فرما کر آپ نے سر مبارک اپنے گھٹنوں میں رکھ لیا اور زور زور سے رونے لگ گئے ،،جب عورت نے یہ حالت دیکھی تو اپنا چہرہ ڈھانپ کر واپس چلی گئی ۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ساتھی واپس آیا اور آپ کی یہ حالت دیکھی کہ رونے کی وجہ سے آنکھیں سوج گئیں اور گلا بند ہو گیا ہے تو پوچھا:آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: کوئی بات نہیں ،بس مجھے اپنا بچہ یاد آگیا ہے۔اس نے کہا:اللہ تعالیٰ کی قسم!کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے ورنہ بچے سے جدا ہوئے تو ابھی تین دن ہوئے ہیں ،وہ مسلسل پوچھتا رہا حتّٰی کہ آپ نے اسے دیہاتی عورت کا واقعہ بتا دیا۔اس رفیق نے دستر خوان رکھا اور رونے لگ گیا۔آپ نے فرمایا:تم کیوں رو رہے ہو؟اس نے کہا:مجھے آپ سے زیادہ رونا چاہئے کیونکہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شاید اس سے صبر نہ کر سکتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب کسر الشہوتین، بیان فضیلۃ من یخالف شہوۃ الفرج والعین، ۳ / ۱۳۰)
وَ اللّٰهُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّؕ-وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَقْضُوْنَ بِشَیْءٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ سچا فیصلہ فرماتا ہے، اور اس کے سوا جن کووہ پوجتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرتے بیشک اللہ ہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اللّٰهُ یَقْضِیْ بِالْحَقِّ: اور اللہ سچا فیصلہ فرماتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر نیک اور گناہگار کے حق میں عادلانہ اور سچا فیصلہ فرماتا ہے اور جن بتوں کو یہ مشرکین پوجتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرتے کیونکہ نہ وہ علم رکھتے ہیں ، نہ قدرت ،تو ان بتوں کی عبادت کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا بہت ہی کھلا باطل ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق کے اَقوال کو سننے والا اور ان کے اَفعال اور تمام اَحوال کو دیکھنے والا ہے۔(روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۰، ۸ / ۱۷۲، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۶۹، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۳۹۲، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْؕ -وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ(21)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَكَفَرُوْا فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّهٗ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا تو دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا ؟ وہ پہلے لوگ قوت اور زمین میں چھوڑی ہوئی نشانیوں کے اعتبار سے ان سے بڑھ کر تھے تو اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب پکڑلیا اور ان کیلئے اللہ سے کوئی بچانے والا نہ تھا۔ یہ گرفت اس لیے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) انہوں نے کفر کیا تو اللہ نے انہیں پکڑلیا، بیشک اللہ قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفار ِمکہ تجارت کے لئے یمن اور شام کی طرف سفر کرتے ہیں تو کیا ا س دوران انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا ان کا کیساانجام ہوا؟وہ لوگ قوت اور زمین میں چھوڑی ہوئی نشانیوں مثلاًقلعے ، محل ، نہریں ، حوض اور بڑی بڑی عمارتوں کے اعتبار سے ان کفارِ مکہ سے بڑھ کر تھے،اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب پکڑلیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اِس زمانے کے کافر یہ حالات دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ اور کیوں نہیں سوچتے کہ پچھلی قومیں ان سے زیادہ قوی ، توانا اور ثَروَت و اِقتدار والی ہونے کے باوجود اس عبرت ناک طریقہ سے کیوں تباہ کر دی گئیں ؟ان لوگوں کی یہ گرفت اس لیے ہوئی کہ ان کے پاس ان کے رسول اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور اپنی رسالت کی صداقت پر دلالت کرنے والی واضح نشانیاں اور معجزات لے کر آئے پھر بھی انہوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عذاب سے پکڑ لیا، بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا اور شرک کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔لہٰذااے کافرو !تم عقل مندی کاثبوت دو اور میرے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات مانواورانہیں ایذا مت دوورنہ تمہاراانجام بھی سابقہ لوگوں جیساہوگااورتمہیں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (روح البیان،المؤمن،تحت الآیۃ:۲۱-۲۲،۸ / ۱۷۲-۱۷۳، تفسیرکبیر،المؤمن،تحت الآیۃ:۲۱-۲۲، ۹ / ۵۰۵، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(23)اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو وہ بولے جادو گر ہے ،بڑا جھوٹا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سے پہلی آیات میں ان کافروں کا ذکر کر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی جنہوں نے کفارِ مکہ سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور اس آیت سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کر کے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جب انہیں معجزات اور روشن دلیل کے ساتھ فرعون،ہامان اور قارون کی طرف بھیجا گیا تو ان لوگوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور انہیں جادو گر اور بڑا جھوٹاکہا۔ (تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۹ / ۵۰۶)
یہاں آیت نمبر 24سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون، ہامان اور قارون کے ساتھ ساتھ ان کی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے جبکہ یہاں صرف ان تینو ں کا ذکر ہوا ،ا ن کی قوم کا ذکر نہیں ہوا،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :فرعون بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر اور پوری قوم چونکہ بادشاہ اور وزیر کے تحت ِتَصَرُّف ہوتی ہے اور (اس زمانے میں ) لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوا کرتے تھے اس لئے یہاں (قوم کی بجائے) فرعون اور ہامان کا ذکر کیا گیااور قارون چونکہ اپنے مال اور خزانوں کی کثرت کے اعتبار سے بادشاہ کی طرح تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون اور ہامان کی طرف بھیجنے کے بعد قارون کی طرف بھیجا گیا تھا کیونکہ قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا بیٹا تھا،شروع میں مومن تھا،بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ تورات کا حافظ تھا،پھر مال و دولت کی وجہ سے اس کا حال بدل گیا اور سامری کی طرح منافق ہو گیا تو یہ کفر اور ہلاکت میں فرعون اور ہامان کے ساتھ لاحق ہو گیا ا س لئے یہاں اس کا ذکر فرعون اور ہامان کے ساتھ کیا گیا۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۱۷۳)
(2)…قارون کے ظاہری حال سے یہ نہیں لگتا کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہا ہو کیونکہ اس کا اپنا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان بھی رکھتا تھا،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہنے کی نسبت اس کی طرف کیسے کی گئی؟اس کے جواب میں علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادو گر کہنے کی نسبت قارون کی طرف آخری اَمر کے اعتبار سے ہے۔( صاوی، غافر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۱۸۲۱)یعنی قارون شروع میں تو ایمان لایا جبکہ آخر میں منافق ہو گیاتو یہ بھی گویا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہنے میں فرعون اور ہامان کے ساتھ شریک ہو گیا، ا س لئے یہاں اس قول کی نسبت ان دونوں کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی کی گئی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اعلانیہ طور پر صرف فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہا ہو اور ان کی اس بات کے وقت بھی قارون صرف ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ کرتا ہو اورخفیہ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا ہو ،اس لئے یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اورجادوگر کہنے کی نسبت ان تینوں کی طرف کی گئی ہو۔
فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْۤا اَبْنَآءَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ وَ اسْتَحْیُوْا نِسَآءَهُمْؕ-وَ مَا كَیْدُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لایا تو انہوں نے کہا: اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کے بیٹوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو اور کافروں کا مکروفریب تو گمراہی میں ہی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا: پھر جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لایا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبوت کے منصب پر فائز ہو کر اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے اور کچھ لوگ ان پر ایمان لے آئے تو فرعون اور اس کی قوم کے لوگ کہنے لگے :جولوگ ا س پر ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردوتاکہ ان کی تعداد اور قوت نہ بڑھ جائے جو کہ بعد میں سلطنت کے زوال کا سبب بن سکتی ہے اور چونکہ ان کی عورتوں سے ایسا کوئی اندیشہ نہیں اور گھروں میں کام کاج کے لئے ان کی ضرورت بھی ہے اس لئے انہیں زندہ رکھو اور یوں دوسرے لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے سے بھی باز آ جائیں گے۔ فرعون اور ا س کی قوم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے غلبے کا خطرہ محسوس کر کے اس سے بچنے کی یہ تدبیر کی لیکن یہ کچھ بھی کار آمد ثابت نہ ہوئی اور ان کا داؤ بالکل نکما اور بے کار رہا ۔پہلے بھی فرعونیوں نے فرعون کے حکم سے ہزار ہا قتل کئے مگر اللہ تعالیٰ کی قضا ہو کر رہی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پروردگارِ عالَم نے فرعون کے گھر بار میں پالا ، اسی سے خدمتیں کرائیں اور جیسے فرعونیوں کا وہ داؤ بے کار گیا ایسے ہی اب ایمان والوں کو روکنے کے لئے پھر دوبارہ قتل شروع کرنا بیکار جائے گا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کا رواج اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو اسے کون روک سکتا ہے ۔(تفسیرکبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۲۵ ، ۹ / ۵۰۶ ، خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : ۲۵، ۴ / ۶۹-۷۰، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۱۰۵۶، ملتقطاً)
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَ لْیَدْعُ رَبَّهٗۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فسادظاہر کرے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْۤ اَقْتُلْ مُوْسٰى: اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں ۔} اس آیت میں فرعون کی تین باتیں بیان ہوئیں ،
(1)… فرعون نے اپنے دربار والوں سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر دوں ۔
فرعون جب کبھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کرتا تو اس کی قوم کے لوگ اسے اس چیز سے منع کرتے اور کہتے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا تجھے اندیشہ ہے ،یہ تو ایک معمولی جادوگر ہے ، اس پر ہم اپنے جادو سے غالب آجائیں گے اور اگر اسے قتل کردیا تو عام لوگ شبہ میں پڑ جائیں گے کہ وہ شخص سچا تھا ، حق پر تھا اور تم دلیل سے اس کا مقابلہ کرنے میں عاجز ہوئے اور جواب نہ دے سکے توتم نے اسے قتل کردیا ۔ لیکن حقیقت میں فرعون کا یہ کہنا کہ ’’مجھے چھوڑ دو تاکہ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کروں ‘‘صرف دھمکی ہی تھی ، کیونکہ اسے خود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے برحق نبی ہونے کا یقین تھا اور وہ جانتا تھا کہ جو معجزات آپ لے کر آئے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ا س نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ اس کو ہلاک کرنے میں جلدی فرمائیں گے ، اس سے یہ بہتر ہے کہ طویل بحث میں زیادہ وقت گزار دیا جائے، اگر فرعون اپنے دل میں آپ کو برحق نبی نہ سمجھتا اور یہ نہ جانتا کہ ربّانی تائیدیں جو آپ کے ساتھ ہیں ان کا مقابلہ ناممکن ہے تو وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے میں ہر گز دیر نہ کرتا کیونکہ وہ بڑا خونْخوار ، سَفّاک ، ظالم اوربیدرد تھا اور چھوٹی سی بات پر ہزار ہا خون کر ڈالتا تھا۔
(2)…فرعون نے کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اس رب کو بلالے جس کا وہ اپنے آپ کو رسول بتاتا ہے تاکہ اُس کا رب اسے ہم سے بچائے ۔
فرعون کا یہ مقولہ اس پر شاہد ہے کہ اس کے دل میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اور آپ کی دعاؤں کا خوف تھا اور وہ اپنے دل میں آپ سے ڈرتا تھا اور صرف ظاہری عزت بنی رکھنے کے لئے یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ قوم کے منع کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل نہیں کرتا ۔
(3)… آخر میں فرعون نے یوں کہا کہ بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا اور تم سے فرعون پرستی چھڑادے گایا جھگڑے اور قتل کر کے زمین میں فسادظاہر کرے گا۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۷۰، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۰۵۶، ملتقطاً)
وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور موسیٰ نے کہا: میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ہر اس متکبر سے جو حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ: اور موسیٰ نے کہا: میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔} فرعون کی دھمکیاں سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’میں مُتکبِّروں اور منکرینِ قیامت کے مقابلے میں اس خدا کی پناہ لیتا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک جملوں سے حاصل ہونے والے فوائد:
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کی سختیوں کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی تکبُّر والا کلمہ نہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہی اور اس پر بھروسہ کیا،یہی خدا شَناسوں کا طریقہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ہر ایک بلا سے محفوظ رکھا ۔یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک جملوں سے معلوم ہونے والی چند فائدہ مند باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…لفظ ’’اِنِّیْ‘‘ تاکید پر دلالت کرتا ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ اپنی جان سے آفات اور شُرُور کو دور کرنے کا معتبر اور بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کرنا ہے ۔
(2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:’’میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ تو جس طرح قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے وقت مسلمان جب ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اِخلاص کو شیطان کے وَسْوَسُوں سے بچا لیتا ہے بالکل اسی طرح جب آفتوں کا سامنا ہو اور انسانی شیطانوں (کی طرف سے تکلیف پہنچائے جانے)کا ڈر ہو اور اس وقت مسلمان یہ کہے ’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ اسے ہر آفت اور خوف سے بچا لے گا۔
(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’تمہارے اور اپنے رب کی‘‘ یعنی گویا کہ بندہ یوں کہہ رہا ہے کہ ہر نقص و عیب سے پاک اللہ تعالیٰ ہی وہ ہے جس نے مجھے پالا،بھلائی کے درجات تک مجھے پہنچایا،آفات سے مجھے بچایا اور مجھے اتنی نعمتیں عطا کیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی شمار،تو جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی حقیقی مددگار نہیں تو عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ آفات کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۵۰۷-۵۰۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان مبارک جملوں میں کیسی نفیس ہدایتیں ہیں ، یہ فرمانا کہ’’ میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ اور اس میں (یہ) ہدایت ہے (کہ)رب ایک ہی ہے ، یہ بھی ہدایت ہے کہ جو اس کی پناہ میں آئے اس پر بھروسہ کرے اور وہ اس کی مدد فرمائے(تو) کوئی اس کو ضَرَر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنا شانِ بندگی ہے اور ’’تمہارے رب ‘‘فرمانے میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم اس پر بھروسہ کرو تو تمہیں بھی سعادت نصیب ہو۔( خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۶۸)
دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا:
دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے وہ کلمات بھی مفید ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمائے اور وہ کلمات بھی انتہائی فائدہ مند ہیں جو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمائے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب کسی قوم سے خطرہ ہوتا تو آپ یہ دعاارشادفرماتے تھے ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّانَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے مقابلے میں ہم تجھے لاتے ہیں اوران کے شراورفسادسے تیری پناہ میں آتے ہیں ۔( سنن ابوداؤد، کتاب الوتر، باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۱۵۳۷)
وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ﳓ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَكْتُمُ اِیْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْؕ-وَ اِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗۚ-وَ اِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان مرد نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا: کیاتم ایک مرد کو اس بنا پر قتل کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور بیشک وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانیاں لے کر آیا ہے اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے ہیں تو ان کی غلط گوئی کا وبال ان ہی پرہے اور اگر وہ سچے ہیں تو جس عذاب کی وہ تمہیں وعید سنارہے ہیں اس کا کچھ حصہ تمہیں پہنچ جائے گا۔بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا، بڑا جھوٹا ہو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ﳓ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان مرد نے کہا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کی اور ا س کے فضل و رحمت پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کو سرد کرنے کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حمایت میں ایک اجنبی شخص کو کھڑا کر دیا، چنانچہ فرمایا کہ فرعون والوں میں سے اپنے ایمان کو چھپانے والے ایک مسلمان مرد نے کہا: کیاتم ایک مرد کو کسی دلیل کے بغیر صرف اس وجہ سے قتل کرنا چاہ رہے ہو کہ وہ یوں کہتا ہے’’ میرا رب اللہ ہے اور ا س کا کوئی شریک نہیں ‘‘ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ا س دعوے پرتمہارے پاس تمہارے حقیقی رب کی طرف سے روشن معجزات لے کر آیا ہے جن کا تم مشاہدہ بھی کر چکے ہو اور اِن سے اُن کی صداقت ظاہر اور ان کی نبوت ثابت ہوگئی ہے (اور دلیل موجود ہوتے ہوئے دلیل والے کی مخالفت کرنا اور وہ بھی اتنی کہ انہیں قتل کر دیا جائے کسی صورت بھی درست نہیں ) اور اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوں تو انہیں قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ایسے معاملے میں جھوٹ بول کر وہ اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے بلکہ(خود ہی) ہلاک ہوجائیں گے اور اگر وہ سچے ہیں تو ایمان نہ لانے کی صورت میں جس عذاب سے تمہیں ڈرا رہے ہیں اس میں سے بالفعل کچھ تمہیں پہنچ ہی جائے گا، (تو ایسی صورت میں اگر تم انہیں قتل کر دو گے تواس سے بڑی بلا اپنے سر لو گے ،الغرض، ان کے جھوٹا ہونے کی صورت میں انہیں قتل کرنا فضول ہے اور سچا ہونے کی صورت میں اپنا نقصان ہے) اور ویسے بھی جو حد سے بڑھنے والا ہو اور اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ دے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا (تواس اعتبار سے بھی اگر بالفرض وہ جھوٹے ہوئے تو رسوا ہو جائیں گے، لہٰذا بہر صورت تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ انہیں قتل نہ کرو۔)( روح البیان ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۸ / ۱۷۶-۱۷۸ ، خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۷۰-۷۱، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۰۵۷، ابن کثیر، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۱۲۶-۱۲۸، ملتقطاً)
اٰلِ فرعون کے مومن سے مراد کون ہے؟
اس آیت میں اٰلِ فرعون کے مومن کا ذکر ہوا،اس کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ یہ مومن فرعون کاچچازادبھائی تھالیکن وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرایمان لاچکاتھا اور اپنے ایمان کوفرعون اوراس کی قوم سے چھپا کر رکھتاتھاکیونکہ اسے اپنی جان کاخطرہ تھااوریہی وہ شخص تھاجس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ نجات حاصل کی تھی اورایک قول یہ ہے کہ وہ شخص اسرائیلی تھاوہ اپنے ایمان کوفرعون اورآلِ فرعون سے مَخفی رکھتا تھا۔ امام ابنِ جریرطبری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پہلے قول کوراجح قرار دیا ہے۔( طبری، غافر، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۱ / ۵۴)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اٰ لِ فرعون کے مومن سے بہتر ہیں :
یہاں اٰلِ فرعون کے مومن کا ذکر ہوا،اسی کے ضمن میں حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت ملاحظہ ہو،چنانچہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا:اے لوگو!مجھے ا س شخص کے بارے میں بتاؤ جو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادرہے۔لوگوں نے عرض کی:اے امیر المؤمنین! آپ (سب سے زیادہ بہادر ہیں ) ۔آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:نہیں (میں ایسا نہیں ہوں )۔لوگوں نے پوچھا: پھر وہ کون ہے ؟آپ نے فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ۔ کیونکہ میں نے دیکھاکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قریش نے پکڑ رکھا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے کوابھاررہاتھا اور دوسرا کسی اور کوبھڑکارہاتھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہوجس نے تمام معبودوں کوایک بنا دیاہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !اس وقت ہم میں سے کوئی بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب نہ ہوا مگر حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قریب ہوئے ۔وہ ایک کومارتے ،دوسرے سے مقابلہ کرتے اورکہتے:تم برباد ہو جاؤ،کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتے ہیں ’’میرا رب اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔
پھرحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے وہ چادراٹھائی جوآپ نے زیب ِتن کررکھی تھی اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہوگئی ۔ پھرفرمایا:میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتاہوں ،کیاآلِ فرعون کامومن بہترہے یا حضرت ابوبکرصدیق(رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) قومِ فرعون کے مومن سے بہترہیں ؟(یقینا یہی بہتر ہیں کیونکہ)اٰلِ فرعون کامومن اپنے ایمان کوچھپاتاتھااورحضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایمان کااعلان کرتے تھے۔( مسند البزار،مسند علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ،ومما روی محمد بن عقیل عن علیّ،۳ / ۱۴،الحدیث:۷۶۱،م
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ٘-فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَاؕ-قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میری قوم!زمین میں غلبہ رکھتے ہوئے آج بادشاہی تمہاری ہے تو اللہ کے عذاب سے ہمیں کون بچالے گا اگر ہم پر آئے۔ فرعون بولا میں تو تمہیں وہی سمجھاتا ہوں جو میں خود سمجھتا ہوں اور میں تمہیں وہی بتاتا ہوں جو بھلائی کی راہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰقَوْمِ: اے میری قوم!} اٰلِ فرعون کے مومن نے اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے کہا:اے میری قوم! آج تمہاری بادشاہی ہے اوربنی اسرائیل پرتمہیں غلبہ حاصل ہے اس لئے اپنے ملک مصرمیں توکوئی ایساکام نہ کروجس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اورملک وقوم تباہ وبرباد ہوجائے اوریادرکھوکہ(انہیں قتل کر دینے کی صورت میں) اگراللہ تعالیٰ نے ہم پر عذاب نازل کر دیاتوہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ اس مومن کی نصیحت سن کر فرعون نے کہا:میں تو تمہیں وہی سمجھاتا ہوں جو میں خود سمجھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوقتل ہی کردیاجائے تاکہ یہ معاملہ ہی ختم ہوجائے اور میں ا س رائے کے ذریعے تمہیں وہی بتاتا ہوں جو بھلائی کی راہ ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۱۷۸-۱۷۹)لتقطاً)
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِ(30)مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْؕ-وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ ایمان والا بولا اے میری قوم!مجھے تم پر (گزشتہ)گروہوں کے دن جیساخوف ہے۔ جیسا نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والوں کا طریقہ گزرا ہے اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ: اور وہ ایمان والا بولا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مردِ مومن نے دیکھا کہ نرمی کے ساتھ نصیحت کرنے اور سامنے والے کے خیال کی رعایت کرنے کے باوجود یہ لوگ اپنے ارادے سے باز آتے نظر نہیں آ رہے تو ا س نے انہیں سابقہ قوموں پر آنے والے عذاب سے ڈراتے ہوئے کہا :اے میری قوم! تم جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا رہے ہو اور انہیں شہید کرنے کا ارادہ کئے بیٹھے ہو،اس وجہ سے مجھے خوف ہے کہ تم پر بھی وہی دن نہ آ جائے جو سابقہ قوموں میں سے ان لوگوں پر آیا جنہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا تھا جیسا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ،عاد اور ثمود اور ان کے بعد والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا دستور گزرا ہے کہ وہ لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتے رہے اور ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے ہلاک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں چاہتا اورگناہ کے بغیر ان پر عذاب نہیں فرماتا اور ان پر حجت قائم کئے بغیر ان کو ہلاک نہیں کرتا (اورجب تم حرکتیں ہی عذاب پانے والی کرو گے تو ضرور تمہیں ان کی سزا ملے گی)۔( روح البیان، المؤمن،تحت الآیۃ:۳۰-۳۱، ۸ / ۱۷۹-۱۸۰، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ۴ / ۷۱، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۱، ص۱۰۵۸، ملتقطاً)
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِ(32)یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَۚ-مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! میں تم پر پکارے جانے کے دن کا خوف کرتا ہوں ۔جس دن تم پیٹھ دے کر بھاگو گے۔ اللہ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہیں ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ: اور اے میری قوم!} اس سے پہلی آیات میں ذکر ہو اکہ مردِ مومن نے لوگوں کو دنیا کے عذاب سے ڈرایا اور اب یہاں سے یہ بیان کیاجارہا ہے کہ اس مومن نے دنیا کے عذاب کے بعد آخرت کے عذاب سے ڈرایا،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مردِ مومن نے کہا: اے میری قوم! میں تم پر اس دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں جس دن ہر طرف پکارمچی ہوئی ہوگی اور اس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں بچانے والا اور تمہاری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا اور(جو باتیں میں نے تمہارے سامنے کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے ارادے سے باز آ جاؤ اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آؤ،میں نے تمہیں ہر طریقے سے نصیحت کر دی ہے، اس کے بعد بھی اگر تم ہدایت حاصل نہیں کرتے تو تمہاری قسمت کیونکہ) جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے تو اسے نجات کی راہ دکھانے والا کوئی نہیں ۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ص۱۰۵۸، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۲-۳۳، ۸ / ۱۸۰-۱۸۱، ملتقطاً)
قیامت کے دن کو پکار کا دن کہنے کی وجہ:
قیامت کے دن کو یَوْمُ التَّنَاد یعنی پکار کا دن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی ،جیسے ہر شخص اپنے گروہ کے سردار کے ساتھ اورہر جماعت اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی، جنتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنتیوں کو پکاریں گے ، سعادت اور شقاوت کی ندائیں کی جائیں گی کہ فلاں سعادت مند ہوا اب کبھی بد بخت نہ ہوگا اور فلاں بدبخت ہوگیا اب کبھی سعادت مندنہ ہوگا اور جس وقت موت ذبح کی جائے گی اس وقت ندا کی جائے گی کہ اے جنت والو! اب تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور تمہیں موت نہیں آئے گی اور اے جہنم والو!اب تمہیں یہا ں ہمیشہ رہناہے اور تمہیں موت نہیں آئے گی۔( خازن، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۷۱)
وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُﰳ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم ان کے لائے ہوئے پر شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا توتم نے کہا: اب اللہ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا، اللہ یونہی اسے گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ: اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے۔} اس آیت میں خطاب اگرچہ فرعون اور اس کی قوم سے ہے لیکن مراد ان کے آباؤ اَجداد ہیں ( کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون اور اس کی قوم کے پاس رسول بن کر تشریف نہیں لائے تھے بلکہ ان کے آباؤ اَجداد کے پاس آئے تھے،) چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مصر والو! بیشک حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے تمہارے آباؤ اَجداد کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان کے لائے ہوئے حق دین سے شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا توتمہارے آباؤ اَجداد نے کہا: اب اللہ تعالیٰ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ یہ بے دلیل بات تمہارے پہلے لوگوں نے خود گڑھی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کریں اور انہیں جھٹلائیں، تو وہ کفر پر قائم رہے، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں شک کرتے رہے اور بعد والوں کی نبوت کے انکار کے لئے انہوں نے یہ منصوبہ بنالیا کہ اب اللہ تعالیٰ کوئی رسول ہی نہ بھیجے گا ۔ یاد رکھو کہ جس طرح تمہارے آباؤ اَجداد گمراہ ہوئے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا اور ان چیزوں میں شک کرنے والا ہو جن پر روشن دلیلیں شاہد ہیں ۔(خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : ۳۴، ۴ / ۷۲ ، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۴، ۸ / ۱۸۱، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۳۹۳، ملتقطاً)
الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْؕ-كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جو اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی ایسی دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں جو انہیں ملی ہو، یہ بات اللہ کے نزدیک اور ایمان لانے والوں کے نزدیک کس قدر سخت بیزاری کی ہے۔ اللہ ہرمتکبر سرکش کے دل پراسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ: وہ جو اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی ایسی دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں۔} یعنی حد سے بڑھنے والے اور شک کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلا کر اور ان پر اعتراضات کر کے جھگڑا کرتے ہیں اوران کا یہ جھگڑا کسی ایسی دلیل کے ساتھ نہیں ہوتا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہو بلکہ محض آباؤ اَجداد کی اندھی تقلید اور جاہلانہ شُبہات کی بنا پر ہوتا ہے اور یہ جھگڑا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور ایمان لانے والوں کے نزدیک انتہائی سخت بیزاری کی بات ہے اور جس طرح ان جھگڑا کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہرمتکبر سرکش کے دل پر مہر لگادیتا ہے کہ اس میں ہدایت قبول کرنے کا کوئی محل باقی نہیں رہتا۔( خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : ۳۵ ، ۴ / ۷۲ ، تفسیرکبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۵۱۳-۵۱۴، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۱۸۱-۱۸۲، ملتقطاً)
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ(36)اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًاؕ-وَ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَا كَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور فرعون نے کہا: اے ہامان !میرے لیے اونچا محل بنا شاید میں راستوں تک پہنچ جاؤں ۔ آسمان کے راستوں تک تو موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں اور بیشک میرے گمان میں تو وہ جھوٹا ہے اور یونہی فرعون کی نگاہ میں اس کا برا کام خوبصورت بنادیا گیا اور وہ راستے سے روکا گیا اور فرعون کا داؤ ہلاکت میں ہی تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ: اور فرعون نے کہا:} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون نے جب دیکھا کہ یہ شخص توایسی گفتگوکررہاہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہورہے ہیں اورلوگ اس کی بات کو درست سمجھ رہے ہیں تواس نے موضوع ہی تبدیل کردیااورلوگوں کو مُطمئن کرنے کیلئے مَکّاری اور چالبازی کے طور پر اپنے وزیر ہامان کوکہنے لگاکہ میرے لیے آسمان کے راستوں تک ایک اونچامحل بناؤ، میں اس پر چڑھ کر دیکھوں گا، شاید میں آسمان پر جانے والے راستوں تک پہنچ جاؤں اور وہاں جا کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خداکو جھانک کر دیکھوں، میرے گمان کے مطابق میرے علاوہ کسی اور خداکے وجود کا دعویٰ کرنے میں موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جھوٹے ہیں۔ یہ بات بھی فرعون نے اپنی قوم کو فریب دینے کے لئے کہی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ برحق معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اور فرعون اپنے آپ کو فریب کاری کے لئے معبود ٹھہرارہا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اسی طرح فرعون کی نگاہ میں اس کا برا کام یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور اس کے رسول کو جھٹلانا خوش نُما بنادیا گیا اور شیطانوں نے وَسْوَسے ڈال کر اس کی برائیاں اس کی نظر میں بھلی کر دکھائیں اور وہ ہدایت کے راستے سے روک دیاگیا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نشانیوں کے مقابلے میں فرعون کے مکرو فریب نقصان اورہلاکت کا شکار ہوئے اور وہ اپنے کسی داؤ میں کامیاب نہ ہو سکا۔(خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۴ / ۷۲، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ص۳۹۳، ملتقطاً)
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ایمان والے نے کہا: اے میری قوم!میرے پیچھے چلو میں تمہیں بھلائی کی راہ بتاؤں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ: اور ایمان والے نے کہا۔} جب مردِ مومن نے دیکھا کہ فرعون کوئی معقول جواب نہیں دے سکا تو ا س نے دوبارہ اپنی قوم سے کہا:اے میری قوم ! تم فرعون کی بجائے میری پیروی کرومیں تمہیں بھلائی اورنجات کا راستہ دکھاؤں گا۔
اولیاء کی پیروی میں بھی ہدایت ہے
اس میں اشارہ ہے کہ فرعون اوراس کی قوم جس راستہ پرچل رہی ہے وہ گمراہی کاراستہ ہے اور یہ بھی اشارہ ہے کہ ہدایت انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی پیروی میں رکھی گئی ہے اور جس طرح نبی عَلَیْہِ السَّلَام اپنے امتی کو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں اسی طرح نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے تابع رہتے ہوئے اولیاء و صالحین بھی ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۸، ۸ / ۱۸۵)
یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ٘-وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میری قوم!یہ دنیا کی زندگی تو تھوڑا سا سامان ہی ہے اور بیشک آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰقَوْمِ: اے میری قوم۔} مردِ مومن نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:اے میری قوم!یہ دنیا کی زندگی تھوڑی مدت تک کے لئے صرف ایک ناپائیدار نفع ہے جس کو بقا نہیں اور یہ ایک دن ضرور فنا ہو جائے گا جبکہ آخرت کی زندگی باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور یہ فانی زندگی سے بہتر ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۳۹، ۴ / ۷۲)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زہد:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ سابقہ امتوں کے عقل مند حضرات کے نزدیک بھی دنیا ہمیشہ مذموم ہی رہی اور وہ لوگ دنیا کے پیچھے بھاگنے،اس کا مال و متاع جمع کرنے اور اس سے محبت رکھنے سے بچتے رہے اور لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے رہے ۔ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اپنے عمل مبارک سے اور اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے ہمیں دنیا سے بے رغبت اور آخرت کی طرف راغب رہنے کی ترغیب اور تعلیم دی ہے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کَونَین کے شہنشاہ اور دو عالَم کے تاجدار ہوتے ہوئے ایسی زاہدانہ اور سادہ زندگی بسر فرمائی کہ تاریخِ نبوت میں اس کی مثال نہیں مل سکتی، خوراک ، پوشاک، مکان ، سامان اوررہن سہن الغرض مبارک زندگی کے ہر گوشہ میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زہداور دنیا سے بے رَغبتی کا عالَم اس درجہ نمایاں تھا کہ اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں اور لذّتیں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہ ِنبوت میں ایک مچھر کے پر سے بھی زیادہ ذلیل اور حقیرتھیں، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک چٹائی پرسوگئے ،جب آپ بیدارہوئے توجسمِ اَقدس پرچٹائی کے نشانات تھے ۔ہم نے عرض کی اگرہم آپ کے لیے ایک بستر بنادیں ۔ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:مجھے دنیاسے کیالیناہے میں دنیامیں صرف ایک سوارکی طرح ہوں جوکسی درخت کے نیچے سائے کوطلب کرے پھراس درخت کے سائے کوچھوڑکرروانہ ہوجائے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب مثل الدنیا، ۴ / ۴۲۶، الحدیث: ۴۱۰۹)
حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے منبر پر فرمایا:اللہ کی قسم!میں نے تم لوگوں سے زیادہ کسی کو اس چیز میں رغبت کرتے نہیں دیکھا جس چیز سے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دور رہتے تھے ۔ تم لوگ دنیا میں رغبت رکھتے ہو جبکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں رغبت نہ رکھتے تھے ۔اللہ کی قسم!آپ پر تین دن بھی نہ گزرتے کہ آپ کی آمدنی سے قرض زیادہ ہوتا۔(مستدرک، کتاب الرقاق، اربع اذا کان فیک… الخ، ۵ / ۴۴۸، الحدیث: ۷۹۵۱)
حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے میرے بیٹے!موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو کیونکہ جب تم کثرت سے موت کو یاد کرو گے تو تمہیں دنیا میں رغبت نہ رہے گی اور تم آخرت میں رغبت رکھنے لگو گے ،بے شک آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے اور دنیا ا س کے لئے دھوکے کی جگہ ہے جو اس سے دھوکہ کھا جائے ۔( جامع الاحادیث، مسند انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ، ۱۸ / ۴۸۲، الحدیث: ۱۳۰۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس آدمی پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق تو کرتا ہے لیکن کوشش دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کرتا ہے۔( مسند شہاب، یا عجبا کل العجب… الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵
مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَاۚ-وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْهَا بِغَیْرِ حِسَابٍ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو برا کام کرے تو اسے بدلہ نہ ملے گا مگر اتنا ہی اور جو اچھا کام کرے مرد ہوخواہ عورت اوروہ ہو مسلمان تو وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے وہاں بے حساب رزق پائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً: جو برا کام کرے۔} یہاں سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ مردِ مومن نے اپنی قوم کو نیک اور برے اعمال اور ان کے انجام کے بارے میں بتایا،چنانچہ مردِ مومن نے کہا:جو دنیا میں برا کام کرے تو اسے اس برے کام کے حساب سے آخرت میں بدلہ ملے گااور مرد و عورت میں سے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا والا اچھا کام کرے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمان بھی ہوکیونکہ اعمال کی مقبولیت ایمان پر مَوقوف ہے ،تو انہیں جنت میں داخل کیاجائے گا جہاں وہ بے حساب رزق پائیں گے اور نیک عمل کے مقابلے میں زیادہ ثواب عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۰، ۴ / ۷۲-۷۳، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۱۸۶، ملتقطاً)
جنت میں بے حساب رزق ملے گا:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ جنت کو جنت میں بے حساب رز ق ملے گا،اسی مناسبت سے یہاں جنتی نعمتوں سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ ترمذی شریف میں ہے ، حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی توحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کر دے۔حضرت سعید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے(حیران ہو کر) کہا:کیا جنت میں بازار بھی ہو گا؟حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا :ہاں ! مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خبر دی ہے کہ جنت والے جب جنت میں داخل ہوں گے تو جنت کے درجات میں اپنے اعمال کے مطابق داخل ہوں گے،پھر انہیں دنیا کے دنوں کے حساب سے ایک ہفتہ میں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا عرش ظاہر ہوگا اوراللہ تعالیٰ ان پر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجَلّی فرمائے گاتو ان کے لیے نور کے منبر ،موتیوں کے منبر ،یاقوت اور زَبَرجَد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے ،ان میں سے ادنیٰ درجے والے جنتی حالانکہ ان میں ادنیٰ کوئی نہیں ،مشک اور کافور کے ٹیلہ پر ہوں گے اور وہ یہ تصوُّر نہ کریں گے کہ کرسیوں والے ان سے اعلیٰ جگہ میں ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ ارشادفرمایا ’’ہاں ! کیا تم سورج کو اور چودھویں رات میں چاند کو دیکھنے میں شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کی: نہیں ۔ارشاد فرمایا’’ ایسے ہی تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں شک نہ کرو گے، اس مجلس میں ہر ایک کے سامنے اللہ تعالیٰ بے حجاب موجود ہوگاحتّٰی کہ ان میں سے ایک شخص سے ارشاد فرمائے گاـ: اے فلاں کے بیٹے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تو نے ایسا ایسا کہا تھا ؟اللہ تعالیٰ اسے اس کی بعض دُنْیَوی بدعَہدیاں یاد دلائے گا تو وہ بندہ عرض کرے گا:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا تو نے مجھے بخش نہیں دیا؟اللہ تعالیٰ ارشادفرمائے گا: ہاں ! تو میری وسیع رحمت کی وجہ سے ہی تو اپنے اس درجہ میں پہنچا ۔ وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کے اوپر بادل چھا جائے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا کہ اس جیسی خوشبو کبھی کسی چیز میں نہ پائی ہوگی،اور ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ارشادفرمائے گا: اس اِنعام واِکرام کی طرف جاؤ جو میں نے تمہارے لیے تیار کیا ہوا ہے اور اس میں سے جو چاہو لے لو ۔تب ہم اس بازار میں پہنچیں گے جسے فرشتوں نے گھیرا ہوگا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی اور نہ دلوں پر ان کا خیال گزرا ۔تب ہم جو چاہیں گے وہ ہمیں دیدیا جائے گا، وہاں نہ تو خرید ہوگی نہ فروخت اور اس بازار میں جنتی ایک دوسرے سے ملیں گے اور بلند درجے والا خود آئے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا حالانکہ ان میں نیچا کوئی نہیں تو اس پر جو لباس یہ دیکھے گا وہ اسے پسند آئے گا، ابھی اس کی آخری بات ختم نہ ہوگی کہ اسے اپنے اوپر موجود لباس اس سے اچھا محسوس ہوگا ،یہ اس لیے ہوگا کہ جنت میں کوئی غمگین نہ ہو، پھر ہم اپنے گھروں کی طرف لوٹیں گے تو ہم سے ہماری بیویاں ملیں گی اور کہیں گی: مرحبا، خوش آمدید! جس وقت آپ یہاں سے گئے تھے اس وقت کے مقابلے میں اب آپ کا حسن و جمال بہت زیادہ ہے۔ تب ہم کہیں گے: آج ہمیں اپنے رب تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنا نصیب ہو اتھا،(خدائے) جَبّار کے حضور ہمیں ہم نشینی نصیب ہوئی، ہمارا حق یہ ہی تھا کہ ہم ایسے لوٹیں جیسے اب لوٹے ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء فی سوق الجنۃ، ۴ / ۲۴۶، الحدیث: ۲۵۵۸)
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں بھی جنت میں داخلہ نصیب فرمائے، اٰمین۔
وَ یٰقَوْمِ مَا لِیْۤ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَ تَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَى النَّارِﭤ(41)تَدْعُوْنَنِیْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَ اُشْرِكَ بِهٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ٘-وَّ اَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ(42)لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِ لَیْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَا فِی الْاٰخِرَةِ وَ اَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم مجھے کیا ہوا کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلارہے ہو۔ تم مجھے اس طرف بلاتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور ایسے کو اس کا شریک کروں جو میرے علم میں نہیں ، اور میں تمہیں عزت والے بہت بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں ۔ آپ ہی ثابت ہوا کہ جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو اس کو بلانا کہیں کام کا نہیں، دنیا میں، نہ آخرت میں اور یہ کہ ہمارا پھرنا اللہ کی طرف ہے اور یہ کہ حد سے گزرنے والے ہی دوزخی ہیں۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ: اور اے میری قوم!} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی قوم کو نصیحت کرتے وقت مردِ مومن نے یہ محسوس کیا کہ لوگ میری باتوں پر تعجب کر رہے ہیں اور میری بات ماننے کی بجائے مجھے اپنے باطل دین کی طرف بلانا چاہتے ہیں تو اس نے اپنی قوم کومُخاطَب کرکے کہا: تم عجیب لوگ ہو کہ میں تمہیں ایمان اور طاعت کی تلقین کر کے جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے کفر و شرک کی دعوت دے کر جہنم کی طرف بلا رہے ہو ۔تم مجھے اِس بات کی طرف بلاتے ہو کہ میں اُس اللہ تعالیٰ کا انکار کر دوں جس کا کوئی شریک نہیں اور معبود ہونے میں ایسے کو اس کا شریک کروں جس کے معبود ہونے پر کوئی دلیل ہی نہیں اور میں تمہیں اس اللہ کی طرف بلا رہا ہو ں جو عزت والا ہے اور توبہ کرنے والے کو بہت بخشنے والا ہے،توخود ہی ثابت ہوا کہ تم مجھے جس کی عبادت کی طرف بلا رہے ہو اس کی عبادت کرنا دنیا اور آخرت میں کہیں کام نہ آ ئے گا کیونکہ وہ حقیقی معبود نہیں اور یاد رکھو کہ ہمیں مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہمیں ہمارے اعمال کی جز ادے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ کافر ہی ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائیں گے۔(روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۳، ۸ / ۱۸۶-۱۸۷، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۳، ص۱۰۶۰-۱۰۶۱، ملتقطاً)
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْؕ-وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جلد ہی تم وہ یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں ، اور میں اپنے کام اللہ کو سونپتا ہوں ، بیشک اللہ بندوں کو دیکھتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَسَتَذْكُرُوْنَ مَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ: تو جلد ہی تم وہ یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مردِ مومن نے کہا: میری باتیں ابھی تمہارے دل پر نہیں لگتیں لیکن عنقریب جب تم پر عذاب نازل ہو گا تو اس وقت تم میری نصیحتیں یاد کرو گے مگراس وقت کا یاد کرنا کچھ کام نہ دے گا ۔ یہ سن کر ان لوگوں نے اس مومن کو دھمکی دی کہ اگر تم ہمارے دین کی مخالفت کرو گے تو ہم تمہارے ساتھ برے طریقے سے پیش آئیں گے ۔اس کے جواب میں اس نے کہا: میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کو سونپتا ہوں ، بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کو دیکھتا ہے اور ان کے اعمال اوراحوال کو جانتا ہے (لہٰذا مجھے تمہارا کوئی ڈر نہیں )۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۷۳، ملخصاً)
میرا مالک نہیں ،میرا اللہ تو مجھے دیکھ رہا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی عمل کرتے وقت یہ بات اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ اس کے تمام اَعمال اور اَحوال سے با خبر ہے،یہاں اسی سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بعض لوگوں کے ساتھ صحرا کی طرف نکلے ،وہاں انہوں نے کھانا پکایا ،جب کھانا تیار ہو گیا تو وہاں انہوں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو بکریاں چرا رہا تھا،انہوں نے اسے کھانے کی دعوت دی تو چرواہے نے کہا:آپ کھائیں کیونکہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔لوگوں نے اسے آزمانے کے طور پر کہا:اس جیسے شدید گرم دن میں تم نے کیسے روزہ رکھا ہوا ہے؟اس نے کہا:جہنم کی گرمی اس سے زیادہ شدید ہے۔لوگ اس کی بات سن کر حیران ہوئے اور اس سے کہا:ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ دو،ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور اس کے گوشت میں سے حصہ بھی دیں گے۔اس نے کہا:یہ بکریاں میری نہیں بلکہ میرے سردار اور میرے مالک کی ہیں تو پھر میں اسے کیسے بیچ سکتا ہوں ۔لوگوں نے اس سے کہا:تم اپنے مالک سے یہ کہہ دینا کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہے یا وہ گم ہو گئی ہے ۔اس چرواہے نے کہا:(اگر میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا تو پھر)اللہ تعالیٰ کہاں ہے (یعنی جب وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر میں جھوٹی بات کیسے کہہ سکتا ہوں ) لوگ اس کے کلام سے بہت حیران ہوئے ،پھر جب وہ مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بکریوں سمیت اس چرواہے کو خرید کر آزاد کر دیا اور وہ بکریاں اسے تحفے میں دیدیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۸ / ۱۸۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی خوف نصیب فرمائے اور ہر حال میں اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اللہ نے اسے ان کے مکر کی برائیوں سے بچالیا اور فرعونیوں کو برے عذاب نے آ گھیرا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا: تو اللہ نے اسے بچالیا ان کے مکر کی برائیوں سے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہو اکہ مردِ مومن نے (فرعونیوں کی دھمکی کی پرواہ نہ کی اور) اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیااور یہاں بیان کیا جا ر ہاہے کہ جب فرعون اور اس کے درباریوں نے مرد ِمومن کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے شر سے بچا لیا جبکہ فرعون کی قوم اور فرعون کا انجام یہ ہوا کہ انہیں برے عذاب نے گھیر لیا،دنیا میں وہ فرعون کے ساتھ دریا میں غرق ہوگئے اور قیامت کے دن جہنم میں جائیں گے ۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۹ / ۵۲۱، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۷۳، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہو اکہ جو شخص اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے کفایت فرماتا اور دشمنوں کے مکر و فریب سے بچالیتاہے۔
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاۚ-وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ- اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
آ گ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، (حکم ہوگا) فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا: آ گ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں ۔} یعنی فرعون اور اس کی قومکو دنیا میں غرق کر دیا گیا ،پھر انہیں صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ اس میں جلائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، اس دن فرشتوں کو حکم فرمایا جائے گا کہ فرعون والوں کو جہنم کے سخت تر عذاب میں داخل کردو۔(جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۳۹۴)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے قالب میں ہر روز دو مرتبہ صبح و شام آ گ پر پیش کی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ آ گ تمہارا مقام ہے اور قیامت تک ان کے ساتھ یہی معمول رہے گا ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۷۳)
عذابِ قبر کا ثبوت:
اس آیت سے عذابِ قبر کے ثبوت پر اِستدلال کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پہلے صبح و شام فرعونیوں کو آگ پر پیش کئے جانے کا ذکر ہوا اور اس کے بعد قیامت کے دن سخت تر عذاب میں داخل کئے جانے کا بیان ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت سے پہلے بھی انہیں آگ پر پیش کرکے عذاب دیا جا رہاہے اور یہی قبر کا عذاب ہے۔ کثیر اَحادیث سے بھی قبر کا عذاب بر حق ہونا ثابت ہے، ان میں سے ایک حدیث پاک یہ ہے ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ہر مرنے والے پر اس کا مقام صبح و شام پیش کیا جاتا ہے ،جنتی پر جنت کا اور دوزخی پر دوزخ کا اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس کی طرف اٹھائے ۔( صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیّت یعرض علیہ مقعدہ… الخ، ۱ / ۴۶۵، الحدیث: ۱۳۷۹۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے قبر کے عذاب سے محفوظ فرمائے، اٰمین۔
وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ(47)قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُلٌّ فِیْهَاۤۙ-اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب وہ آگ میں باہم جھگڑیں گے تو کمزور ان سے کہیں گے جو (دنیا میں) بڑے بنتے تھے: ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ کم کرو گے؟ وہ بڑے بننے والے کہیں گے: ہم سب آگ میں ہیں بیشک اللہ بندوں میں فیصلہ فرماچکا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ: اور جب وہ آگ میں باہم جھگڑیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار!آپ اپنی قوم سے جہنم کے اندر کفار کے آپس میں جھگڑنے کا حال ذکر فرمائیے کہ جب وہ لوگ جہنم کی آگ میں ایک دوسرے سے جھگڑاکریں گے اور ان میں سے جو لوگ کمزور تھے وہ اپنے متکبِّر سرداروں سے کہیں گے : ہم دنیا میں تمہارے تابع تھے اور تمہاری وجہ سے ہی کافر بنے تو کیا تم ا س بات پر قادر ہو کہ ہم جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کا کوئی حصہ ہم سے دور کر دو؟کافروں کے سردار جواب دیں گے :ہم سب آگ میں ہیں اور ہر ایک اپنی مصیبت میں گرفتار ہے ، ہم میں سے کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا،اگر ہم کچھ کر سکتے ہوتے تو اپنے لئے نہ کر لیتے۔ اب فیصلہ ہوچکا ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی ،بے شک اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو جنت میں داخل کردیا اور کافروں کو جہنم میں بھیج دیا ، جو ہونا تھا ہوچکا اب اس سے ہٹ کر کچھ نہیں ہو سکتا۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ(49)قَالُوْۤا اَوَ لَمْ تَكُ تَاْتِیْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَیِّنٰتِؕ-قَالُوْا بَلٰىؕ-قَالُوْا فَادْعُوْاۚ-وَ مَا دُعٰٓؤُا الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو آگ میں ہیں وہ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے ، آپ اپنے رب سے دعا کردیں کہ وہ ہم پر ایک دن کچھ عذاب (یا) عذاب کا ایک دن ہلکا کردے۔ داروغہ فرشتے کہیں گے ،کیا تمہارے پاس تمہارے رسول نشانیاں نہ لاتے تھے؟ کافر کہیں گے، کیوں نہیں ، فرشتے کہیں گے، توتم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا نہیں مگر بھٹکتے پھرنے کو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ: اور جو آگ میں ہیں وہ کہیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کافروں میں سے کمزور لوگ اپنے سرداروں سے مایوس ہو جائیں گے تو وہ جہنم پر مامور فرشتوں کی طرف رخ کریں گے اور ان سے کہیں گے:آپ حضرات ہی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کریں کہ دنیا کے ایک دن کی مقدار تک ہمارے عذاب میں تخفیف رہے ۔فرشتے جواب دیں گے :کیا تمہارے پاس تمہارے اللہ تعالیٰ کے رسول نشانیاں نہ لاتے تھے اورکیا انہوں نے واضح معجزات پیش نہ کئے تھے ؟ مراد یہ ہے کہ اب تمہارے لئے عذر کرنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی ۔کافرلوگ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تشریف لانے کو تسلیم کریں گے اور اپنے کفر کرنے کا بھی اقرار کریں گے ۔فرشتے جواب دیں گے :ہم کافروں کے حق میں دعا نہیں کریں گے ، لہٰذاتم خود ہی اپنے رب سے دعا کرکے دیکھ لو کہ وہ تم پر ایک دن کے لئے عذاب ہلکا کر دے لیکن بہرحال تمہارا دعا کرنا بھی بیکار ہی جائے گا کیونکہ وہ قبول نہیں ہو گی۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۹ / ۵۲۲-۵۲۳، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ص۱۰۶۱، ملتقطاً)
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ(51)یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ضرور ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں مدد کریں گے اوراس دن بھی جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔ جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کچھ فائدہ نہ دے گی اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے بُرا گھر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا: بیشک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے۔} اس سے پہلی آیات میں جہنم کے اندر کافروں کے باہمی جھگڑے کا ذکر ہوا اور اب یہاں سے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ دنیا اور آخرت میں ان کی مدد کی جائے گی،چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک ضرور ہم اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران پر ایمان لانے والوں کو غلبہ عطا فرما کر ،مضبوط حجت دے کر اور ان کے دشمنوں سے انتقام لے کر دنیا کی زندگی میں ان کی مدد کریں گے اور قیامت کے اس دن بھی ان کی مدد کریں گے جس دن فرشتے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تبلیغ اور کفار کی تکذیب کی گواہی دیں گے اور اگراس دن کافر اپنے کفر کے متعلق کسی قسم کاعذرپیش کریں گے تووہ مانا نہیں جائے گااوراگرتوبہ کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگی اوراس دن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے دورہوں گے اورجہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۹ / ۵۲۳-۵۲۴، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۴ / ۷۴، بغوی، غافر، تحت الآیۃ: ۵۱-۵۲، ۴ / ۸۹، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْهُدٰى وَ اَوْرَثْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْكِتٰبَ(53)هُدًى وَّ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو رہنمائی عطا فرمائی اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث کیا۔ عقلمندوں کی ہدایت اور نصیحت کیلئے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْهُدٰى: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو رہنمائی عطا فرمائی۔} اس آیت میں لفظ ’’ الْهُدٰى‘‘ سے مراد تورات اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دئیے جانے والے معجزات ہیں جو ان کی قوم کے لئے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ تھے،نیز اس سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا کئے جانے والے وہ کثیر علوم بھی مراد ہو سکتے ہیں جو دنیا اور آخرت میں نفع مند ہیں اور بنی اسرائیل کو جس کتاب کا وارث بنایا گیااس سے مراد تورات ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۸ / ۱۹۵، تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۹ / ۵۲۵، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۳، ۴ / ۷۴، ملتقطاً)
{هُدًى وَّ ذِكْرٰى: ہدایت اور نصیحت کے لئے۔} یعنی یہ کتاب عقلمندوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے ۔یہاں آیت میں بطورِ خاص عقل مندوں کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ اس کتاب کی ہدایت اورنصیحت سے فائدہ یہی لوگ اٹھاتے ہیں۔( روح المعانی، غافر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱۲ / ۴۵۲)
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم صبر کرو، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے صبح اور شام اس کی پاکی بولو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ: توتم صبر کرو۔} اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد فرمائے گا اور اب یہاں سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر صبر کرتے رہیں ،بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس نے جس طرح پہلے رسولوں کی مدد فرمائی اسی طرح وہ آپ کی مدد بھی فرمائے گا، آپ کے دین کو غالب کرے گا اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا نیز آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر ہمیشہ قائم رہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بولنے سے پانچوں نمازیں مراد ہیں ۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۵۵، ۹ / ۵۲۵ ، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۷۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)
{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ: اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو۔} یاد رہے کہ آیت کے اس حصے میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہی خطاب ہونا مُتعَیّن نہیں بلکہ ا س کا احتمال ہے اور اس صورت میں اس کے جو معنی ہوں گے ان میں سے ایک اوپر بیان ہو اکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی امت کے گناہوں کی معافی چاہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر بالفرض کوئی مَعصِیَت واقع ہو تو اس سے استغفار واجب ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :(سورہِ مومن اور سورہِ محمد کی) دونوں آیتِ کریمہ میں صیغۂ اَمر ہے اور امر اِنشا ہے اور اِنشا وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرضِ وقوع استغفار واجب ،نہ یہ کہ مَعَاذَاللہ واقع ہوا،جیسے کسی سے کہنا ’’اَکْرِمْ ضَیْفَکَ‘‘ اپنے مہمان کی عزت کرنا،اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے ،نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی، بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یوں کرنا۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)
اور اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں خطاب ہر سامع سے ہو،جیسا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :سورۂ مومن و سورۂ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آیات ِکریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے کہ خطاب حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ہے، مومن میں تو اتنا ہے ’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ‘‘ اے شخص اپنی خطا کی معافی چاہ۔ کسی کا خاص نام نہیں ، کوئی دلیل تخصیصِ کلام نہیں ،قرآنِ عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لیے اترا نہ صرف اس وقت کے موجودین (کی ہدایت کے لئے) بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ’’ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ‘‘ نماز برپا رکھو۔ یہ خطاب جیسا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تا قیامِ قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی۔۔۔ یونہی دونوں سورہِ کریمہ میں کافِ خطاب ہر سامع کے لیے ہے کہ اے سننے والے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۳۹۸-۳۹۹)
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْۙ-اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِۚ-فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں میں کسی ایسی دلیل کے بغیرجھگڑا کرتے ہیں جو انہیں ملی ہو ،ان کے دلوں میں نہیں مگر ایک بڑائی کی ہوس جس تک یہ پہنچ نہیں پائیں گے تو تم اللہ کی پناہ مانگو بیشک وہی سنتا دیکھتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ: بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں ۔} اس آیت میں جھگڑا کرنے والوں سے مراد کفارِ قریش ہیں ،یہ لوگ تکبر کیا کرتے تھے اور ان کا یہی تکبر ان کے تکذیب و انکار اور کفر کو اختیار کرنے کاسبب بناکیونکہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان سے اونچا ہو، اور یہ فاسد خیال کیا کہ اگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبی مان لیں گے تو ہماری اپنی بڑائی جاتی رہے گی،ہمیں امتی اور چھوٹا بننا پڑے گا حالانکہ ہمیں تو بڑا بننے کی ہوس ہے ،اس لئے انہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :یہ لوگ جس چیز کی ہوس رکھتے ہیں اسے نہ پا سکیں گے اور انہیں بڑائی مُیَسَّر نہ آئے گی، بلکہ حضور ِاَکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت اور انکار، ان لوگوں کے حق میں ذلت اور رسوائی کا سبب ہو گا، تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ حاسدوں کے مکر اور ان کی سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں ، کیونکہ یقینا وہی ان کے اَقوال کو سنتا اور ان کے اَحوال کو دیکھتا ہے تو وہی ان کے خلاف آپ کی مدد کرے گا اور ان کے شر سے آپ کو بچائے گا۔( تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۶، ۹ / ۵۲۶، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۳۹۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)
ضد بازی اور جھگڑنے کی عادت آدمی کے حق قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ جن لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ہر معاملے میں اپنی ہی رائے کو حرف ِ آخر سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی رائے قبول کرنا گوارا نہیں کرتے اور بہرصورت دوسرے کو نیچا ہی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ حق قبول کرنے سے بہت دور ہوتے ہیں ۔
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(57)وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ ﳔ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُؕ-قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ(58)اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔ اور اندھا اوردیکھنے والا برابر نہیں اور نہ وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے اور بدکار(برابر ہیں ) ۔ تم بہت کم نصیحت مانتے ہو۔ بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں لیکن بہت لوگ ایمان نہیں لاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش۔} یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے تھے،اس میں ان پر حجت قائم کی گئی کہ جب تم آسمان و زمین کی اس عظمت اور بڑائی کے باوجود انہیں پیدا کرنے پر اللہ تعالیٰ کو قادر مانتے ہو تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کردینا اس کی قدرت سے کیوں بعید سمجھتے ہو۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۱۰۶۳، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۷۵، ملتقطاً)
{وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔} یہاں بہت لوگوں سے مراد کفار ہیں اور ان کی طرف سے دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکارکرنے کا سبب ان کی بے علمی ہے کہ وہ یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش پر قادر ہے لیکن اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی قادرذات لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے تو یہ لوگ اندھوں کی مثل ہیں جبکہ ان کے مقابل وہ لوگ جو مخلوقات کے وجود سے خالق کی قدرت پر اِستدلال کرتے ہیں وہ آنکھ والے کی مثل ہیں ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۷، ۴ / ۷۵، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۳۹۵، ملتقطاً)
{ وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ: اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ۔} یعنی جاہل اور عالِم یکساں نہیں ،یونہی نیک مومن اور بد کار،یہ دونوں بھی برابر نہیں یہ سب جاننے کے باوجود تم کتنی کم ہدایت اور نصیحت حاصل کرتے ہو۔
{اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ: بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے اور اس کے شواہد اتنے واضح ہیں جن کی وجہ سے قیامت آنے میں کچھ شک نہیں رہتا لیکن اکثر لوگ (دلائل میں غور وفکر نہ کرنے کی وجہ سے) اس پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۹، ۸ / ۱۹۹-۲۰۰، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۹، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی نفع پہنچے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہونا انتہائی اہم کام ہے اور چونکہ عبادات کی اَقسام میں دعا ایک بہترین قِسم ہے ا س لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷)
اس آیت میں لفظ ’’اُدْعُوْنِیْۤ ‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا کرنا ہے۔اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ اے لوگو! تم مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد’’ عبادت کرنا ‘‘ ہے ،اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرومیں تمہیں ثواب دوں گا۔(تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۳۹۵، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)
دعا مانگنے کی ترغیب اور ا س کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنی چاہئے ،کثیر اَحادیث میں بھی دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے،یہاں ان میں سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دعا ان مصیبتوں میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئیں اور جو ابھی نازل نہیں ہوئیں ان میں بھی فائدہ دیتی ہے ،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۳، الحدیث: ۱۸۵۸)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۲-باب منہ، ۵ / ۲۴۴، الحدیث: ۳۳۸۴)
نیز دعا کی مزید ترغیب پانے کے لئے یہاں دعا مانگنے کے15فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیزدعا سے بزرگ تر نہیں ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۱)
(2)…دعا مسلمانوں کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نورہے۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء سلاح المؤمن وعماد الدین، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۵)
(3)…دعا مصیبت وبلا کو اترنے نہیں دیتی۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۶)
(4)…دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے ۔(مسند ابی یعلی، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ، ۲ / ۲۰۱، الحدیث: ۱۸۰۶)
(5)…دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
(6)…اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، باب فضل الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، ص۱۴۴۲، الحدیث: ۱۹(۲۶۷۵))
(7)…جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری ،دعا ان سے نفع دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(8)…دعا عبادت کا مغز ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۲)
(9)…دعا رحمت کی چابی ہے۔( مسند الفردوس، باب الدال، ذکر الفصول من ذوات الالف واللام، ۲ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۰۸۶)
(10)…دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہم، البرّ یزید فی الرزق، ۴ / ۶۰۸، الحدیث: ۶۰۹۲)
(11)…دعا اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: سلم، سلم بن یحی بن عبد الحمید۔۔۔ الخ، ۲۲ / ۱۵۸)
(12)… دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔( کنزالعمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الباب الثامن، الفصل الاوّل، ۱ / ۲۸، الجزء الثانی، الحدیث: ۳۱۱۸)
(13)…جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(14)…جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ فرماتا ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۸۶، الحدیث: ۱۱۲۲)
(15) … دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قدر و منزلت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۸۸، الحدیث: ۸۷۵۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
دعا قبول ہونے کی شرائط:
اس مقام پر مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چندشرائط ذکر فرمائی ہیں ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے،
(1)…دعا مانگنے میں اخلاص ہو۔
(2)… دعا مانگتے وقت دل دعاکے علاوہ کسی اور چیزکی طرف مشغول نہ ہو۔
(3) … جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو۔
(4)… دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔
(5)…اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تووہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔(خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۳، ملخصاً)
جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور یاد رہے کہ جو دعا تمام شرائط و آداب کی جامع ہو تو اس کے قبول ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ اس کی قبولیت کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلاً اُ س دعاکے مطابق گناہ معاف کر دئیے جائیں یا آخرت میں اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے ا س کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دیدی جاتی ہے ،یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا ؟ارشاد فرمایا: ’’اس کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۵-باب، ۵ / ۳۴۷، الحدیث: ۳۶۱۸)
دعا قبول نہ ہونے کے اَسباب:
اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنی رحمت سے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ہماری مانگی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ،اس کے کچھ اَسباب ہوتے ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو تو (تجھے چاہئے کہ) اسے اپنا قصور سمجھے ،خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے (کیوں ) کہ اس کی عطا میں نقصان (یعنی کوئی کمی) نہیں ، تیری دعا میں نقصان (یعنی کمی) ہے۔ اے عزیز!دعا چند سبب سے رد ہوتی ہے:
پہلا سبب:کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا اور یہ تیرا قصور ہے ،اپنی خطا پر نادم نہ ہونا اور خدا کی شکایت کرنا نِری بے حیائی ہے ۔
دوسرا سبب: گناہوں سے تَلَوُّث (یعنی گناہوں میں مبتلا رہنا)۔
تیسرا سبب:اِسْتِغنائے مولیٰ۔وہ حاکم ہے محکوم نہیں ،غالب ہے مغلوب نہیں ،مالک ہے تابع نہیں ،اگر (اس نے) تیری دعا قبول نہ فرمائی (تو) تجھے ناخوشی اور غصے، شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے ،جب خاصوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں ،جب چاہتے منع فرماتے ہیں تو تُو کس شمار میں ہے کہ اپنی مراد (ملنے ہی) پر اِصرار کرتا ہے ۔
چوتھا سبب:حکمت ِ الٰہی ہے کہ کبھی تو براہِ نادانی کوئی چیز اس سے طلب کرتا ہے اور وہ براہِ مہربانی تیری دعا کو اس سبب سے کہ تیرے حق میں مُضِر (یعنی نقصان دِہ) ہے، رد فرماتا ہے (اور اسے قبول نہیں فرماتا)، مثلاً:تو جویائے سِیم و زَر (یعنی مال و دولت کا طلبگار) ہے اور اس میں تیرے ایمان کا خطر (یعنی ایمان ضائع ہوجانے کا ڈر) ہے یا تو خواہانِ تندرستی وعافیت (یعنی ان چیزوں کا سوال کرتا) ہے اور وہ علمِ خدا میں مُوجبِ نقصانِ عاقبت (یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تیرے اُخروی نقصان کا باعث) ہے، ایسا رد ،قبول سے بہتر (یعنی ایسی دعا کو قبول کئے جانے کی بجائے رد کر دیناہی بہتر ہے)۔
پانچواں سبب:کبھی دعا کے بدلے ثوابِ آخرت دینا منظور ہوتا ہے، تو حُطامِ دنیا (یعنی دنیا کاساز وسامان) طلب کرتا ہے اور پروردگار نفائسِ آخرت (یعنی آخرت کی عمدہ اور نفیس چیزیں ) تیرے لیے ذخیرہ فرماتا ہے، یہ جائے شکر (یعنی شکر کا مقام) ہے نہ (کہ) مقامِ شکایت۔( فضائل دعا، فصل ششم، ص۱۵۳-۱۵۹، ملتقطاً)
نوٹ: دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شاندار تصنیف ’’اََحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَاء‘‘(یہ کتاب تسہیل وتخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ سے بھی بنام ’’فضائل دعا‘‘ شائع ہوچکی ہے) اورراقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔} یاد رہے کہ جن آیات و اَحادیث میں دعاترک کرنے پر جہنم میں داخلے یا غضبِ الٰہی وغیرہ کی وعیدیں آئی ہیں ، ان میں وہ لوگ مراد ہیں جو مُطْلَقاً دعا کو ترک کر دیتے ہیں (یعنی کچھ بھی ہوجائے، ہم نے دعا نہیں کرنی) یا مَعَاذَاللہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بے نیاز سمجھ کر دعا ترک کردیتے ہیں ، اور اسی وجہ سے اس کے حضور گریہ و زاری کرنے سے کتراتے اور پرہیز کرتے ہیں اور یہ صورت صریح کفر اور اللہ تعالیٰ کے دائمی غضب کا باعث ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اَحادیثِ سابقہ (جو کہ دوسری فصل، ادب نمبر30 کے تحت ذکر ہوئیں ) جن میں ارشاد ہوا کہ ’’جو دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے‘‘، ترکِ مُطْلَق ہی پر محمول یا مَعَاذَاللہ، اپنے کو بارگاہِ عزت عَزَّوَجَلَّ سے بے نیاز جاننا، اس کے حضور تَضَرُّع و زاری سے پر ہیز رکھنا کہ اب صریح کفر ومُوجبِ غضبِ اَبدی ہے، ولہٰذا ’’اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ‘‘ (مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) کے مُتَّصل ہی ارشاد ہوا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔)( فضائل دعا، فصل دہم، ص۲۳۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا مانگنے میں تکبر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام پاؤ اور دن بنایا آنکھیں کھولتا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل والا ہے لیکن بہت آدمی شکر نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ: اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام پاؤ۔} اس سے پہلی آیت میں دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایاگیا اور دعا میں مشغول ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت ہونا ضروری ہے ، اس لئے یہاں ایک قادر معبود کے موجود ہونے پر دلیل بیان فرمائی گئی ہے ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے فائدے کے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام اور سکون پاؤ ،کیونکہ رات میں ٹھنڈک اور نمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی حرکت کرنے والی قوتیں رات میں قدرے ساکن ہو جاتی ہیں ،نیز رات میں اندھیرا ہوتا ہے جس کی بنا پر انسان کے حواس بھی پوری طرح کام کرنے سے رک جاتے ہیں اور یوں انسان کے اَعصاب اور حواس کو آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے نفع کے لئے دن کو روشن بنایاتاکہ تم اس کی روشنی میں اپنے ضروری کام اطمینان کے ساتھ انجام دے سکو ،بیشک رات اور دن کو پیدا کرکے اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے لیکن بہت سے آدمی اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔( تفسیر کبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۱، ۹ / ۵۲۸، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۱، ۸ / ۲۰۳، ملتقطاً)
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-٘ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی اللہ ہے تمہارا رب، ہر شے کا خالق ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،تو کہاں اوندھے جاتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ: وہی اللہ ہے تمہارا رب۔} یعنی جس نے تمہارے فائدے کے لئے رات اور دن جیسی عظیم چیزوں کو پیدا کیا وہ اللہ ہی تمہارا رب ہے اور وہی معبودہے، تمہارا رب ہے اور تمام اَشیا ء کا خالق ہے اور ان اَوصاف میں اس کا کوئی شریک نہیں ،تو اے کافرو! تم کہاں اوندھے جارہے ہوکہ اس کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو اور اس پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ اس کے معبود ہونے پر قطعی دلائل قائم ہیں ۔( مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۱۰۶۴، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۲، ۴ / ۷۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۳۹۵، ملتقطاً)
كَذٰلِكَ یُؤْفَكُ الَّذِیْنَ كَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
یونہی اوندھے ہوتے ہیں وہ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَذٰلِكَ یُؤْفَكُ: یونہی اوندھے ہوتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح کفارِ قریش حق سے پھر گئے اسی طرح وہ لوگ اوندھے ہوتے اورد لائل قائم ہونے کے باوجود حق سے پھرجاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں اور ا س کے رسول کے معجزات کا انکار کرتے ہیں اور ان میں غورو فکر کر کے حق کو طلب نہیں کرتے (لہٰذ ا اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کے جھٹلانے سے غمزدہ اور افسردہ نہ ہوں )۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۳، ۸ / ۲۰۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۱۰۶۴، ملتقطاً)
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚۖ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کوٹھہرنے کی جگہ بنایا اور آسمان کوچھت اور تمہاری صورتیں بنائیں تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزیں روزی دیں ۔ یہ ہے اللہ تمہارا رب۔ تووہ اللہ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا: اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کوٹھہرنے کی جگہ بنایا۔} یہاں سے اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کی قدرت کے مزید دلائل بیان فرمائے گئے ہیں ،چنانچہ ا س آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ وہی ہے جس نے تمہاری مَصلحت اور ضروریات کے لیے زمین کو ایسا بنایا جس پر ٹھہرنا ممکن ہو اور اس نے آسمان کو گنبد کی طرح بلند فرما کراسے تمہارے اوپر مضبوط چھت بنایا تاکہ تمہیں ایک مستقل چھت مُیَسَّر ہو اوراس نے تمہاری صورتیں بنائیں تو بہت اچھی صورتیں بنائیں کہ تمہیں جانوروں کی طرح اوندھا چلنے والا نہیں بنایا بلکہ تمہیں سیدھے قد والا، خوبصورت اور مُتَناسِب اَعضاء والا بنایااوراس نے تمہیں کھانے پینے کی ستھری اور لذیذچیزیں روزی کے طور پر دیں اور جس کی یہ عظیم قدرت اور شان ہے وہ اللہ ہی تمہارا رب ہے اور وہی تمہاری عبادت کا حق دار ہے، تو وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے اور رب ہونے میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۴، ۹ / ۵۳۰، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۴، ۸ / ۲۰۵-۲۰۶، ملتقطاً)
هُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَؕ-اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس کی عبادت کرو،خالص اسی کے بندے ہوکر،تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الْحَیُّ: وہی زندہ ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہی ذاتی طور پر زندہ ہے جبکہ اسے موت آ نا اور اس کا فنا ہو جانا محال ہے اور ذات ،صفات اور اَفعال میں چونکہ ا س کا کوئی مقابل نہیں اِ س لئے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود ہی نہیں ،لہٰذا اے لوگو!تم اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو اور یوں کہو کہ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو سارے جہاں کا رب ہے۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۵، ۹ / ۵۳۰، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۰۶، ملتقطاً)
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْ٘-وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ، مجھے منع کیا گیا ہے کہ ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے روشن دلیلیں آئی ہیں اور مجھے حکم ہے کہ رب العالمین کے حضور گردن رکھوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ: تم فرماؤ مجھے منع کیا گیا ہے۔} شانِ نزول: کفارِ مکہ نے جہالت اور گمراہی کی بنا پر اپنے باطل دین کی طرف حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دعوت دی تھی اور آپ سے بت پرستی کی درخواست کی تھی، اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ مجھے بتوں کی پوجا کرنے سے منع کیا گیاہے اور بے شک میرے پاس میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اس کی وحدانیّت پر دلالت کرنے والی روشن دلیلیں آ چکی ہیں ا ور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں ربُّ العالَمین کے حضور گردن جھکا کر رکھوں اور اخلاص کے ساتھ اسی کے دین پر قائم رہوں ۔(خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۶، ۴ / ۷۷، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۱۰۶۴، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۶، ۸ / ۲۰۶-۲۰۷، ملتقطاً)
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُیُوْخًاۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَ لِتَبْلُغُوْۤا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھرپانی کی بوند سے پھر خون کی پھٹک سے پھرتمہیں بچے کی صورت میں نکالتا ہے پھر(تمہیں باقی رکھتا ہے) تاکہ اپنی جوانی کو پہنچو پھر اس لیے کہ بوڑھے ہو اور تم میں کوئی پہلے ہی اٹھالیا جاتا ہے اور اس لیے کہ تم ایک مقررہ وعدہ تک پہنچو اور اس لیے کہ سمجھو۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ: وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے بنایا۔} یعنی اے لوگو! اللہ وہی ہے جس نے تمہاری اصل اور تمہارے جدِّ اعلیٰ، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے بنایا پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمہیں نسل در نسل پہلے منی کے قطرے سے ،پھر جمے ہوئے خون سے بنایا، پھرایک مخصوص مدت کے بعد وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ سے بچے کی صورت میں نکالتا ہے، پھرتمہیں باقی رکھتا ہے تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تمہاری قوت کامل ہو، پھر تمہیں باقی رکھتا ہے تاکہ بالآخر تم بڑھاپے کی عمر کو پہنچو اورتمہارا حال یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بڑھاپے یا جوانی کو پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ تمہارے ساتھ یہ اس لئے کیا کہ تم زندگی گزارو اور اس لیے کیا کہ تم زندگی کے محدود وقت تک پہنچو اور اس لیے کیا کہ تم اپنے بدلتے احوال میں موجود اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت کے دلائل کو سمجھو اور ایمان لاؤ۔( خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : ۶۷ ، ۴ / ۷۷-۷۸ ، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۷، ۸ / ۲۰۷-۲۰۸،جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۳۹۵، ملتقطاً)
هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۚ-فَاِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے کہ زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے پھر جب کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہو جا جبھی وہ ہوجاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ: وہی ہے کہ زندگی دیتاہے اور مارتا ہے۔} یعنی اللہ وہی ہے جس کی یہ شان ہے کہ وہی حقیقی طور پر مُردوں کو زندہ کرتا اور زندوں کو موت دیتا ہے اور ا س کی قدرت کے کمال کا یہ حال ہے کہ اسے کسی چیز کو وجود عطا کرنے میں نہ کوئی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ، نہ کسی مشقت کا سامنا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سامان کی حاجت ہوتی ہے بلکہ اَشیاء کا وجود اس کے ارادہ کا تابع ہے کہ جیسے ہی اس نے کسی چیز کا ارادہ فرمایا وہ چیز حکمِ الٰہی کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِؕ-اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ (69)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں کہاں وہ پھیرے جاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ: کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو قرآنِ مجید کی واضح آیات کو باطل کرنے کے لئے ان میں جھگڑا کرتے ہیں حالانکہ وہ آیتیں ایمان قبول کر لینے کا باعث ہیں اور آیتوں میں جھگڑا کرنے سے انتہائی سختی کے ساتھ روکتی ہیں اور اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان کے خراب احوال اور کمزور آراء پر تعجب فرمائیے کہ یہ کس طرح قرآن مجید کی آیات اور ان کی تصدیق کرنے سے انہیں جھٹلانے کی طرف پھر رہے ہیں حالانکہ بے شمار ایسے دلائل موجود ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایمان قبول کر کے قرآنی آیات کے سامنے سر ِتسلیم َخم کر لیں ۔
یاد رہے کہ اس سورت میں 4مقامات پر قرآنِ کریم کی آیات میں جھگڑا کرنے والوں کا ذکر ہوا،اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہر مقام پر جھگڑا کرنے والے مختلف لوگوں کا ذکر ہو اور ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جن آیات میں جھگڑا کیا گیا وہ مختلف ہوں اور ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ (اس معاملے کی اہمیت کی وجہ سے) تاکید کے طور پر اس کا چار بار ذکر کیا گیا ہو،نیز بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں جھگڑا کرنے والوں سے مشرکین مراد ہیں اور بعض کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔(روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۹، ۸ / ۲۱۰، طبری، غافر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱۱ / ۷۶، ملتقطاً)
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَ بِمَاۤ اَرْسَلْنَا بِهٖ رُسُلَنَا ﱡ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جنہوں نے کتاب کو اور اسے جھٹلایاجو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا ،تووہ عنقریب جان جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ: وہ جنہوں نے کتاب کو جھٹلایا۔} یعنی جن کافروں نے قرآنِ کریم کو جھٹلایا اور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھیجا اسے بھی جھٹلایا تو عنقریب وہ اپنے جھٹلانے کا انجام جان جائیں گے۔
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ جو چیز بھیجی ،اس سے مراد یا تو وہ کتابیں ہیں جو پہلے رسول لائے یا وہ حق عقائد ہیں جو تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہنچائے جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا۔(ابو سعود، غافر، تحت الآیۃ: ۷۰، ۴ / ۴۹۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۳۹۵، ملتقطاً)
اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ وَ السَّلٰسِلُؕ-یُسْحَبُوْنَ(71)فِی الْحَمِیْمِ ﳔ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ(72)ثُمَّ قِیْلَ لَهُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ(73)مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْــٴًـاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ(74)ذٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ(75)اُدْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی،وہ گھسیٹے جائیں گے۔ کھولتے پانی میں ، پھر آگ میں دہکائے جائیں گے۔پھر ان سے فرمایا جائے گا کہاں گئے وہ جنہیں تم شریک بناتے تھے۔ اللہ کے مقابل، کہیں گے وہ تو ہم سے گم گئے بلکہ ہم پہلے کچھ پوجتے ہی نہ تھے اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے کافروں کو۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو تم زمین میں باطل پر خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے جو تم اِتراتے تھے۔ جاؤ جہنم کے دروازوں میں ، اس میں ہمیشہ رہنا ہے، تو مغروروں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ: جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جھٹلانے والے کافر اس وقت اپنا انجام جان جائیں گے جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی اور وہ ان زنجیروں سے کھولتے پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھروہ لوگ آگ میں دہکائے جائیں گے اور وہ آ گ باہر سے بھی انہیں گھیرے ہوگی اور ان کے اندر بھی بھری ہوگی، پھر ڈانتے ہوئے ان سے فرمایا جائے گا:وہ بت کہاں گئے جنہیں تم دنیا میں اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے اور اللہ تعالیٰ کی بجائے ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔کفارکہیں گے: وہ تو ہماری نگاہوں سے غائب ہو گئے اور ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتے ،بلکہ ہم پر تو یہ واضح ہو اہے کہ ہم دنیا میں کچھ پوجتے ہی نہ تھے۔کفاربتوں کی پوجا کرنے کا انکار کرجائیں گے ، پھر بت حاضر کئے جائیں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ تم اور تمہارے یہ معبود سب جہنم کا ایندھن ہو ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جہنمیوں کا یہ کہنا کہ ہم پہلے کچھ پوجتے ہی نہ تھے، اس کے یہ معنی ہیں کہ اب ہمیں ظاہر ہوگیا کہ جنہیں ہم پوجتے تھے وہ کچھ نہ تھے کہ کوئی نفع یا نقصان پہنچاسکتے ۔مزید ارشاد فرمایا کہ جس طرح ان کے بت گم ہو گئے اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو حق سے گمراہ کرتا ہے۔ اے کافرو!جس عذاب میں تم مبتلا ہو،یہ اس کا بدلہ ہے جو تم زمین میں شرک،بت پرستی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے پر خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے جو تم نعمتوں پر اِتراتے تھے ۔جاؤ جہنم کے دروازوں میں ! تمہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے، تو جہنم ان لوگوں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جنہوں نے تکبر کیا اور حق کو قبول نہ کیا۔( خازن، حم المؤمن،تحت الآیۃ:۷۱-۷۶، ۴ / ۷۸، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۶، ص۳۹۵-۳۹۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۷۱-۷۶، ص۱۰۶۵، ملتقطاً)
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّۚ-فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تو اگر ہم تمہیں اس (عذاب )کا کچھ حصہ دکھادیں جس کی ہم انہیں وعید سنا رہے ہیں یا تمہیں (پہلے ہی )وفات دیں بہرحال انہیں ہماری ہی طرف پھرنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: تو تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کے جھگڑوں اور دیگر چیزوں سے آپ کو جو اَذِیَّت پہنچی ہے اس پر صبر فرمائیں،بیشک اللہ تعالیٰ نے کفار کوعذاب دینے کا جووعدہ فرمایا وہ سچا ہے، اور اس عذاب کا کچھ حصہ اگر ہم آپ کی وفات سے پہلے دنیا میں ہی آپ کو دکھا دیں تو وہ آپ ملاحظہ فرمائیں اور اگر ہم انہیں عذاب دینے سے پہلے ہی آپ کو وفات دے د یں تو آپ آخرت میں کافروں کے عذاب کو ضرور دیکھ لیں گے کیونکہ قیامت کے دن انہیں بہر حال ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا اور شدید عذاب میں گرفتار ہونا ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۲۱۴، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۳۹۶، ملتقطاً)
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی کافروں کے عذاب کا کچھ حصہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دکھایا جیسا کہ جنگِ بدر کے دن کافر مارے گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَؕ-وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے کہ جن میں کسی کے احوال تم سے بیان فرمائے اور کسی کے احوال تم سے نہ بیان فرمائے اور کسی رسول کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ کے اِذن کے بغیر کوئی نشانی لے آئے پھر جب اللہ کا حکم آئے گاتو سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور باطل والوں کو وہاں خسارہ ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ: اور بیشک ہم نے تم سے پہلے کتنے رسول بھیجے۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ کی بِعثَت سے پہلے بہت سے رسول مختلف امتوں کی طرف بھیجے اور ان میں سے کسی کے احوال آپ سے اس قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان فرمائے اور کسی کے احوال قرآنِ مجید میں تفصیل اور صراحت کے ساتھ بیان نہ فرمائے ۔اِن تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے نشانی اور معجزات عطا فرمائے، اس کے باوجود ان کی قوموں نے ان سے جھگڑا کیا اور انہیں جھٹلایا اور اس پر ان حضرات نے صبر کیا ۔گزشتہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس تذکرہ سے مقصود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا ہے کہ جس طرح کے واقعات قوم کی طرف سے آپ کو پیش آرہے ہیں اور جیسی ایذائیں آپ کوپہنچ رہی ہیں پہلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی یہی حالات گزر چکے ہیں اور جیسے انہوں نے صبر کیا اسی طرح آپ بھی صبر فرمائیں ۔( خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۷۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۱۰۶۶، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۸ / ۲۱۷، ملتقطاً)
{وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ: اور کسی رسول کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ کے اِذن کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔} یعنی کفار کے من مانے معجزے کا ظاہر نہ ہونا ایسی چیز نہیں کہ جس کی وجہ سے نبوت پراعتراض کیا جا سکے کیونکہ کسی رسول کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِذن کے بغیر کوئی نشانی اور معجزہ لے آئے ،لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافروں کے مطالبے کے مطابق آپ کا معجزات نہ دکھاناقابلِ اعتراض نہیں ۔پھر وعید بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب کفار پر عذاب نازل کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گاتو اللہ تعالیٰ کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اورجب اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گا تو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں ناحق جھگڑنے اور من چاہے معجزات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے نبوت پر اعتراض کرنے والوں کو خسارہ ہوگا۔( تفسیرکبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۷۸، ۹ / ۵۳۳ ، ابو سعود، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۴۹۹، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۸، ۴ / ۷۸-۷۹، ملتقطاً)
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ(79)وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ لِتَبْلُغُوْا عَلَیْهَا حَاجَةً فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ عَلَیْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَﭤ(80)وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ ﳓ فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُنْكِرُوْنَ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے کہ کسی پر تم سواری کرواور کسی کا گوشت کھاؤ۔اور تمہارے لیے ان میں کتنے ہی فائدے ہیں اور اس لیے کہ تم ان کی پیٹھ پر اپنے دل کی مرادوں کو پہنچو اور ان پراور کشتیوں پر سوار ہوتے ہو۔ اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تو تم اللہ کی کون سی نشانی کا انکار کرو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ: اللہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے۔} اس سے پہلی آیات میں کافروں کے لئے وعید بیان ہوئی اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیَّت پر دلالت کرنے والی اَشیاء بیان کی جا رہی ہیں ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے تا کہ ان میں سے کسی پر تم سواری کرواور کسی کا گوشت کھاؤاور تمہارے لیے ان چوپایوں میں سواری اور گوشت کھانے کے علاوہ بھی کتنے ہی فائدے ہیں کہ تم ان کا دودھ اور اُون وغیرہ اپنے کام میں لاتے ہو اوران کی نسل سے نفع اٹھاتے ہو اور وہ چوپائے اس لئے بنائے تاکہ تم اپنے سفروں میں اپنے وزنی سامان ان کی پیٹھوں پر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاؤ اور تم خشکی کے سفروں میں ان چوپایوں پراور دریائی سفروں میں کشتیوں پر سوار ہوتے ہواور اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی وہ نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کی قدرت اور وحدانیَّت پر دلالت کرتی ہیں اور وہ نشانیاں ایسی ظاہر و باہِر ہیں کہ ان کے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں تو تم اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیَّت پر دلالت کرنے والی کون سی نشانی کا انکار کرو گے۔(تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۹-۸۱، ۹ / ۵۳۴، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۷۹-۸۱، ۴ / ۷۹، ملتقطاً)
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَ اَشَدَّ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا تو دیکھتے کہ ان سے اگلوں کا کیسا انجام ہوا، وہ ان سے تعداد میں زیادہ اور قوت اور زمین میں نشانیوں کے اعتبار سے زیادہ قوی تھے تو ان کے کیا کام آیا جو انہوں نے کمایا؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا کفار ِقریش نے زمین میں سفر نہ کیا تاکہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا، وہ لوگ ان کفارِ قریش سے تعداد میں بھی کثیر تھے اور ان کی جسمانی طاقت بھی ان سے زیادہ تھی اور زمین میں محل اور عمارتوں کے اعتبار سے بھی وہ ان سے زیادہ قوی تھے تو انہوں نے جو کمایا وہ ان کے کیا کام آیا؟معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ (عاد اور ثمود وغیرہ کی) زمین میں سفر کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ سرکش منکروں کا کیا انجام ہوا اور وہ کس طرح ہلاک و برباد ہوئے اور ان کی تعداد، ان کی طاقت اور ان کے مال کچھ بھی ان کے کام نہ آسکے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۲، ۸ / ۲۱۹-۲۲۰، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۲، ۴ / ۷۹، ملتقطاً)
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لائے، تو وہ اسی پر خوش رہے جو ان کے پاس (دنیا کا) علم تھا اور انہیں پر الٹ پڑا جس کی ہنسی بناتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ: تو جب ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لائے۔} یعنی سابقہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان کے پاس ان کے رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن دلیلیں اور معجزات لے کرآئے، تو وہ اپنے پاس موجود علم پرہی خوش رہے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم کی طرف مائل نہ ہوئے ،اسے حاصل کرنے اور اس سے نفع اٹھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ اس کو حقیر جانا اور اس کی ہنسی بنائی اور اپنے علم کو پسند کرتے رہے۔
یہاں کافروں کے علم سے مراد ان کے دُنْیَوی علوم ہیں جیسے پیشوں ،صنعتوں ،ستارہ شناسی ،منطق اور فلسفہ وغیرہ کا علم،یااس سے مراد ان کے فاسد عقائد اور باطل شُبہات ہیں ،جیسے وہ کہتے تھے کہ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا، قیامت قائم نہیں ہو گی ، اعمال کا حساب ہونے کی کوئی حقیقت نہیں اورہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا وغیرہ اور یہ در حقیقت علم نہیں بلکہ جہالت ہے اور اس پر علم کا اطلاق اس معنی میں ہے کہ کافر اسے اپنے گمان میں علم سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ۔آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیاکہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مذاق اڑانے اوران کے علوم کو حقیر جاننے کی بنا پر کافروں کا انجام یہ ہوا کہ وہ عذاب میں مبتلا کر دئیے گئے۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۳، ۴ / ۷۹، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۳، ۸ / ۲۲۰، ملتقطاً)
دُنْیَوی علوم کے مقابلے میں دینی علوم کو کمتر خیال کرنا کفار کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دُنْیَوی علوم کے مقابلے میں دینی علوم کو کم تر خیال کرنا اور دین کی بجائے دنیا کا علم حاصل ہونے پر نازاں ہونااور اسے اپنے لئے کافی سمجھناکفار کاپسندیدہ لیکن خدا کی بارگاہ میں ناپسندیدہ طریقہ ہے اور سابقہ زمانوں میں بھی اس طرح ہوتا آیا ہے کہ منطق اور فلسفہ میں مہارت کا دعویٰ کرنے والے لوگ اپنے علم کی وجہ سے خود کوانبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم سے بے پرواہ سمجھا کرتے تھے اور کچھ ایسا ہی حال آج کے غیر مسلم یا ان کے اندھے مُقَلِّد سائنس دانوں کا ہے کہ ان کے نزدیک قرآنِ مجید کے بیان کردہ حقائق سے زیادہ سائنسی خیالات سچے لگتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہی انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے ،اٰمین۔
فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ(84)فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَاؕ-سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖۚ-وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا توبولے ،ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور جن چیزوں کو ہم اللہ کا شریک بناتے تھے ان کے منکر ہوئے۔تو ان کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اللہ کا دستور جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور وہاں کافر گھاٹے میں رہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا: پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پھر جب سابقہ جھٹلانے والی امتوں نے دنیا میں ہمارا شدید عذاب دیکھا تو کہنے لگے :ہم ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اوراس ایمان کے ذریعے ان کا انکار کرتے ہیں جنہیں اس کا شریک ٹھہراتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی بجائے جن بتوں کی پوجا کرتے تھے ان سے بیزار ہوئے ، تو جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا اس وقت ان کا ایمان قبول کرنا ان کے کام نہ آیا اور اللہ تعالیٰ کا جو دستور اس کے بندوں میں گزر چکاوہ یہی ہے کہ نزولِ عذاب کے وقت ایمان لانا نفع مند نہیں ہوتا اوراس وقت ایمان قبول نہیں کیا جاتا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے والوں پر عذاب نازل کرتا ہے اور جب کافروں نے عذاب دیکھا تواس وقت ان کا نقصان اور خسارے میں رہنا اچھی طرح ظاہر ہو گیا۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۴-۸۵، ۸ / ۲۲۱، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۸۴-۸۵، ۴ / ۷۹، ملتقطاً)