سُوْرَۃُ الغَاشِيَة
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِﭤ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارے پاس چھا جانے والی مصیبت کی خبر آچکی۔
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ اَتٰىكَ: بیشک تمہارے پاس آچکی۔} اس آیتِ مبارکہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے خطاب ہے کہ اے دو عالَم کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کے پاس ایسی مصیبت کی خبر آچکی جو چھا جانے والی ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے جس کی شدّتیں اور ہَولْناکیاں ہر چیز پر چھا جائیں گی۔ (روح البیان ، الغاشیۃ ، تحت الآیۃ : ۱، ۱۰ / ۴۱۲ ، مدارک، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۴۲، خازن، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۷۱) یونہی اس دن کافروں کے دلوں پر غشی اور چہروں پر سیاہی چھا جائے گی جبکہ فرمانبردارمسلمانوں کے دلوں پر خوشی اور چہروں پر روشنی چھا جائے گی۔
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ خَاشِعَةٌ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
بہت سے چہرے اس دن ذلیل و رسواہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وُجُوْهٌ: کتنے ہی منہ۔} قیامت کی خبر کا تذکرہ کرنے کے بعد یہاں ان اَحوال کا بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے دن ظاہر ہوں گے چنانچہ بہت سے چہرے جو دنیا میں اللّٰہ والوں کے رُوبَرُو اکڑتے تھے، وہاں ہر طرح ذلیل ہوں گے، قبروں سے سر کے بل چل کر محشر میں پہنچیں گے، وہاں منہ کالے ، دونوں ہاتھ بندھے ہوئے اورگلے میں طوق ہو گا، ہر دروازے پر بھیک مانگیں گے مگر دھتکارے جائیں گے اورایک دوسرے پر لعنت کررہے ہوں گے۔
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ(3)تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةً(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
کام کرنے والے ، مشقتیں برداشت کرنے والے ۔ بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ: کام کرنے والے ، مشقتیں برداشت کرنے والے۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین ِاسلام پر نہ تھے، بت پرست تھے یا کتابی کافر جیسے راہب اور پجاری کہ اُنہوں نے اپنی طرف سے عبادت و ریاضت کے نام پر محنتیں بھی اُٹھائیں ، مشقتیں بھی جھیلیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ جہنم میں جائیں گے۔(خازن، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۷۱-۳۷۲) یونہی جوگی، سادھو لوگ کہ دنیا چھوڑتے ، لذتوں سے منہ موڑتے اورتکالیف اٹھاتے ہیں مگر آخرت میں کوئی صِلہ نہیں اور یونہی بدمذہبوں کی اپنے باطل عقائد کے تحفُّظ و ترویج میں کوششیں کرنا اور کتابیں لکھنا وغیرہا سب بے فائدہ رہیں گی کیونکہ آخرت میں ثواب اور نجات کا مدار دامن ِمصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے وابستگی پر ہے اور وہ انہیں نصیب نہیں ۔ بغیر روح جسم بے کار اور بغیر ایمان عبادت برباد۔اور اگر آیت میں مشقت سے مراد آخرت کی مشقت ہے تویہ اُس مشقت کو اس لئے اٹھائیں گے کیونکہ انہوں نے کفر کے مقابلے میں ایمان کو اختیار نہیں کیا اور روزہ رمضان ، گرمیوں کے حج اور جہاد کی تپشیں نہ جھیلیں ، لہٰذا اس آگ کی گرمی جھیلنا پڑے گی جو دنیا کی آگ سے ستر گنا تیز ہے۔اور مشقت کی صورت قیامت کے دن اس طرح ہوگی کہ وہ آگ کے پہاڑ پرچڑھیں گے، اتریں گے۔ جس مال سے زکوٰۃ نہ دی ہوگی ،اس سونے چاندی کے پَترے بنا کر ان کی پسلیاں، پیشانیاں، داغی جائیں گی،ان کے جانور ان کے بدن میں سینگ گھونپیں گے اور انہیں پاؤں سے روندیں گے ۔ یہاں مشقت کی چند صورتیں بیان ہوئیں ،ان کے علاوہ نجانے وہ لوگ کیسی کیسی مشقت اٹھائیں گے ۔
تُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍﭤ(5)لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ(6)لَّا یُسْمِنُ وَ لَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْ عٍﭤ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہیں شدید گرم چشمے سے پلایا جائے گا۔ان کے لیے کانٹے دار گھاس کے سواکوئی کھانا نہیں ۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{تُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍ: انہیں شدید گرم چشمے سے پلایا جائے گا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنمیوں کو جب پیاس لگے گی تو انہیں گرم چشموں کا پانی پلایا جائے گا جو ان کے اندرونی حصوں کو جلا کر رکھ دے گا اور کھانے میں انہیں کانٹوں کی خوراک دی جائے گی جو پیٹ میں آگ لگا دے گی۔
یاد رہے کہ قیامت کے دن عذاب مختلف طرح کا ہوگا اور جن لوگوں کوعذاب دیا جائے گا اُن کے بہت سے طبقے ہوں گے ،بعض کو زَقُّوم (تھوہڑ کا درخت) کھانے کو دیا جائے گااور بعض کوغِسْلِیْن یعنی دوزخیوں کی پیپ اور بعض کو آگ کے کانٹے کھانے کو دئیے جائیں گے۔ انہی مختلف اَقسام کی وجہ سے قرآنِ پاک میں مختلف مقامات پر جہنمیوں کے کھانے کیلئے مختلف اَشیاء بیان کی گئی ہیں ۔
نیز آیت نمبر6 میں ضریع کا لفظ ہے۔ضریع عرب میں ایک خاردار زہریلی گھاس ہے، جو جانور کے پیٹ میں آگ سی لگا دیتی ہے، نہایت بد مزہ اورسخت نقصان دِہ ہوتی ہے۔ کفار کے ساتھ اس خوراک کی مناسبت یہ ہے کہ چونکہ کفار دنیا میں سُور، سود، جوئے وغیرہ حرام کمائیوں کی پروا نہ کرتے تھے اورشریعت کی پابندیاں توڑ کر کھاتے تھے،اس لئے انہیں یہ کھانے دئیے جائیں گے۔
{لَا یُسْمِنُ: جو نہ موٹا کرے۔} یعنی اُن سے غذا کا نفع حاصل نہ ہوگا کیونکہ غذا کے دوہی فائدے ہیں ایک یہ کہ بھوک کی تکلیف دورکرے ،دوسرا یہ کہ بدن کو طاقت پہنچائے اورفَربَہ کرے تویہ دونوں وصف جہنمیوں کے کھانے میں نہیں بلکہ وہ کھانا توحقیقت میں شدید عذاب کی ایک قسم ہے۔
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاعِمَةٌ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
بہت سے چہرے اس دن چین سے ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاعِمَةٌ: بہت سے چہرے اس دن چین سے ہوں گے۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کے لئے وعیدیں بیان کی گئیں اور اب یہاں سے ایمان والوں کے اَحوال بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے عیش و خوشی میں اور نعمت و کرامت میں ہوں گے۔مراد یہ ہے کہ قیامت میں پرہیز گار مومنین چین میں ہوں گے، نہ انہیں سورج کی گرمی ستائے گی،نہ زمین کی تپش ، نہ انہیں خوف ہو گانہ غم، نہ رب عَزَّوَجَلَّ کا عتاب ہو، نہ فرشتوں کی لعن طعن، نہ قیامت کی گھبراہٹ ، کیونکہ یہ حضرات دنیا میں خدا عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے بے چین رہے اور دنیا میں خوفِ خدا کی بے چینی قیامت کے چین کا ذریعہ ہے۔
لِّسَعْیِهَا رَاضِیَةٌ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اپنی کوشش پر راضی ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِسَعْیِهَا رَاضِیَةٌ: اپنی کوشش پر راضی ہوں گے۔} یعنی قیامت کے دن جب مسلمان اپنامرتبہ اور ثواب دیکھیں گے تو وہ دنیا میں کئے جانے والے اپنے نیک اعمال پر راضی اور خوش ہوں گے۔( مدارک، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۳۴۳) اور حقیقتاً نیکیوں پر خوش ہونے کا وقت بھی قیامت ہی ہے کیونکہ اپنے انجام کی خبر نہیں ، لہٰذا جب محشرمیں اعمال کی مقبولیت دیکھیں گے تو خوش ہوں گے یونہی مومنوں کے نیک اعمال نہایت اچھی شکلوں میں ان کے ساتھ ہوں گے، جن کو دیکھ کر انہیں دلی شادمانی ہو گی۔
فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍ(10)لَّا تَسْمَعُ فِیْهَا لَاغِیَةًﭤ(11)فِیْهَا عَیْنٌ جَارِیَةٌﭥ(12)فِیْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلند باغ میں ۔ اس میں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے۔اس میں جاری چشمے ہوں گے۔اس میں بلند تخت ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍ: بلند باغ میں ۔} نیک اعمال کرنے والے جنت میں ہوں گے جو کہ شان کے لحاظ سے بھی بلند ہے اور مکان و جگہ کے لحاظ سے بھی اونچی ہے۔ (خازن، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۳۷۲) مومنوں اور بلند جنت میں مناسبت یہ ہے کہ چونکہ مومن دنیا میں عاجز و مسکین بن کر رہے ، تکبر اور غرور سے دور رہے، اس کے عِوَض رب تعالیٰ انہیں بلندی اور شان عطا فرما دے گا۔
{لَا تَسْمَعُ فِیْهَا لَاغِیَةً: اس میں کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے۔} جَنّتی لوگ جنت میں نہ تو ناجائز بات سنیں گے جیسے جھوٹ، غیبت اور نہ ہی تکلیف دِہ باتیں جیسے لعن طعن اور تشنیع۔ یونہی جنتی نہ کوئی بے فائدہ بات سنیں گے اور نہ کوئی بیہودہ بات اورنہ دوزخیوں کی چیخ پکار جس سے ان کے عیش و آرام اور لذّت و راحت میں خَلَل آئے۔اس آیت سے اشارتاً یہ بھی سمجھایا گیا کہ بیہودہ باتوں سے بچنا نیک لوگوں کا شیوہ ہے جیسے یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے اہلِ جنت کی فضیلت کے طور پر اسے بیان فرمایا۔
{فِیْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ: اس میں بلند تخت ہوں گے۔} جنت میں ایسے بلند تخت ہوں گے جن کی بلندی سو گز ہوگی مگر جب جنتی ان پر چڑھنا یا ان سے اترنا چاہیں گے تو وہ تخت خود بخود اوپر یا نیچے آجائیں گے۔ (روح البیان، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۴۱۵، ملتقطاً)
وَّ اَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ(14)وَّ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌ(15)وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَةٌﭤ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رکھے ہوئے گلاس ہوں گے۔اور صف در صف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہوں گے۔اور عمدہ قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ: اور رکھے ہوئے گلاس ہوں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ چشموں کے کناروں پر ترتیب سے گلاس رکھے ہوئے ہوں گے جن کی ترتیب کا حسن اور صفائی دیکھنے سے بھی لذت حاصل ہوگی جیسے اگر کسی کے خوبصورت کچن میں جائیں جہاں ہرچیز نہایت ترتیب اور نفاست سے رکھی ہو تو اس منظر سے ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ جنتی جب اُن گلاسوں سے دودھ، شہد، شراب وغیرہا پینا چاہیں گے تو وہ انہیں خود ہی بھرے ہوئے ملیں گے۔ کوزے تو چشموں کے کنارے چنے ہوئے ہوں گے جبکہ ان کے گھروں کا منظر بھی قابل ِدید ہوگا کہ وہاں قالین بچھے ہوں گے جو بہت آرام دہ اور نہایت ہی خوشنماہوں گے اور صف در صف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہوں گے۔
یہاں جداگانہ عرض ہے کہ گھر کی اَشیاء کا نفاست و صفائی اور ترتیب سے ہونا ایک عمدہ خوبی ہے لہٰذا گھروں میں جو اشیاء موجود ہوں انہیں ترتیب اور ڈھنگ سے رکھنا چاہیے۔
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْﭨ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسا بنایا گیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ: تو کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے۔} اس سورت میں جنت کی نعمتوں کا ذکر سن کر کفار نے تعجب کیا اورانہیں جھٹلایاتو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کارخانہِ قدرت اور عجائبات ِ عالَم میں نظر کرنے کی ہدایت فرمائی کہ وہ دیکھیں ، غور کریں اورسمجھیں کہ جس قادر حکیم نے دنیا میں ایسی عجیب و غریب چیزیں پیدا کی ہیں ،اس کی قدرت سے جنتی نعمتوں کا پیدا فرمانا کس طرح قابلِ تعجب اور لائقِ انکار ہوسکتا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا یہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسا بنایا گیا ہے۔
اونٹ میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات:
اونٹ قدرت کی عجیب صنعت ہے اوراس میں چند چیزیں بہت عجیب ہیں ،
(1)… جانور زینت کے لئے پالے جاتے ہیں ، یا کھیتی باڑی کے لئے، یا بوجھ لادنے، یا سواری کے لئے، یا دودھ یا گوشت کے لئے، اونٹ میں یہ ساری باتیں موجود ہیں ۔
(2)… یہ ریت کا جہاز ہے اور یہ کانٹے اور معمولی چیزوں کو کھا کر گزارہ کر لیتا ہے اوردس پندرہ دن بغیر کھانے پانی کے نکال لیتا ہے۔
(3)… اونٹ میں اطاعت اور عشق کمال درجے کا ہے، چنانچہ ایک بچہ اس کو جہاں چاہے لے جائے اور حُدی کے اَشعار سن کر ایسی مستی میں آتاہے کہ طاقت سے زیادہ بوجھااٹھا کر بہت زیادہ راستہ طے کر لیتا ہے ۔( خازن، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۳۷۳، ملتقطاً)
وَ اِلَى السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْﭨ(18)وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْﭨ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمان کو ، کیسا اونچا کیا گیاہے۔ اور پہاڑوں کو، کیسے قائم کیا گیا ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِلَى السَّمَآءِ: اور آسمان کو۔} یعنی کیا کفارِ مکہ نے آسمان کو اس طور پر نہیں دیکھا جس کا وہ دن رات مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ ستونوں اور کسی سہارے کے بغیر کیسا اونچا کیا گیا ہے ۔( روح البیان، الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۱۰ / ۴۱۷)
{وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْ: اور پہاڑوں کو، کیسے قائم کیا گیا ہے۔} یعنی کیا کافروں نے ان پہاڑوں کو نہیں دیکھا جنہیں زمین میں نَصب کردیا گیا کہ نہ وہ ہوا سے اڑتے ہیں اور نہ زلزلہ سے گرتے ہیں بلکہ زمین کیلئے سہارا اور اس کیلئے میخوں کے قائم مقام ہیں ۔نیز انسانوں کیلئے ہزارہا فوائد پر مشتمل ہیں چنانچہ ان میں سے لعل، ہیرے، مَعدنیات، چشمے دریا وغیرہ ہزار ہا قسم کی چیزیں نکلتی ہیں ۔
روحانی پہاڑ:
صوفیاء ِکرام فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ روحانی پہاڑ ہیں جو کبھی راہِ حق سے نہیں بھٹکتے، اپنے معتقدین کو قائم رکھتے ہیں ، ایمان و عرفان کے سر چشمے ہیں ، اَسرارِ اِلٰہیہ کے خزانے اِن سے برآمد ہوتے ہیں جن کا سلسلہ تا قیامت قائم رہے گا۔
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْﭨ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین کو ، کیسے بچھائی گئی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْ: اور زمین کو، کیسے بچھائی گئی ہے۔} یعنی جس زمین پر کافر چلتے پھرتے ہیں ،کیا اس کی طرف انہوں نے یوں نہیں دیکھا کہ یہ کیسے پانی پر بچھائی گئی ہے ۔اگر یہ انصاف کی نگاہ سے ان شاہکاروں کو دیکھتے تو اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنے کی طرف کوئی راہ نہ پاتے ۔
یاد رہے کہ اگرزمین کی ساخت اور اس کے فوائد و اَسرارلکھنے بیٹھیں تو شاید ہزاروں کتابوں میں بھی نہ سماسکیں ۔ اسی ایک زمین کے متعلق جدید علوم کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے جیسے علمِ جغرافیہ اور علمِ اَرضیات کی مختلف شاخیں ۔ بظاہر ساری زمین یکساں ہے مگر اس میں بے حد تَنَوُّع ہے ۔پاک و ہند کی سرزمین اور طرح کی ہے اور عرب کی سرزمین اور طرح کی ۔ کہیں سے سونا نکلتا ہے، کہیں سے تیل اور کہیں سے دیگر دھاتیں ۔ ایسے ہی انسان بظاہر یکساں ہیں مگر در حقیقت بہت مختلف ہیں ، کسی دل سے گندگی نکلتی ہے اور کسی سے معرفت ِالٰہی کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔
فَذَكِّرْ۫ؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌﭤ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم نصیحت کرو تم تو نصیحت کرنے والے ہی ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَكِّرْ: تو تم نصیحت کرو۔} اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدر ت کے دلائل بیان فرما کر لوگوں کو سمجھاؤ اور نصیحت کرو۔ اِس آیت میں اَوّلین خطاب تو سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو ہے لیکن آپ کے وسیلے سے سب مسلمانوں کو خطاب ہے کہ جو سمجھانے کی صلاحیت رکھتاہو وہ دوسروں کو سمجھائے۔
جدید علوم کو حاصل کرنا نفع بخش ہے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جدید علوم کا حاصل کرنا نہایت نفع بخش ہے کہ مثلاً مذکورہ بالا آیات میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے صرف وہی چار آیتیں دہرا کر تو نہیں سمجھایا جائے بلکہ غور وفکر کے بعد جو مَعارِف و اَسرار اور حکمتیں سمجھ آئیں گی ان کو بیان کرکے سمجھایا جائے گا اور اِن حکمتوں کو سمجھنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ مذکورہ چیزوں کے متعلقہ جدید علوم ہیں تو اگر انہیں سمجھ اور سیکھ لیا جائے تو عام آدمی کی بنسبت زیادہ اچھے طریقے سے قدرتِ الٰہی کا بیان کیا جاسکتا ہے۔
لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم کچھ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍ: تم کچھ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ آپ انہیں مسلمان کرکے ہی چھوڑیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام احسن طریقے سے پہنچا دینا آپ کا کام ہے ۔ اس کے بعد اگر سارے لو گ کافر رہیں تو آپ کا کچھ نہیں بگڑتاجیسے اگرسورج سے کوئی روشنی نہ لے یا بادل سے فیض نہ لے تو اس سے سورج یا بادل کا نقصان نہیں ہے۔ یا آیت کا یہ مطلب ہے کہ آپ انہیں جَبراً مسلمان نہ کریں بلکہ اسلام کی تعلیمات پہنچا کر قبول کرنے یانہ کرنے کا اختیار ان پر چھوڑ دیں ۔
اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَ(23)فَیُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَﭤ(24)اِنَّ اِلَیْنَاۤ اِیَابَهُمْ(25)ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہاں جس نے منہ پھیرا اور کفر کیا۔ تو اسے اللہ بہت بڑا عذاب دے گا۔بیشک ہماری ہی طرف ان کا لوٹناہے۔پھر بیشک ہم پر ہی ان کا حساب (لینا) ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَ: ہاں جس نے منہ پھیرا اور کفر کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، انہیں مسلمان کرکے چھوڑنا یا مجبور کرکے مسلمان بنانا آپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ پیغام پہنچانا آپ کی ذمہ داری تھی تو آپ کے سمجھانے اور نصیحت فرمانے کے بعد جو ایمان لانے سے منہ پھیرے اور کفر کرے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے آخرت میں بڑا عذاب دے گا کہ اسے جہنم میں داخل کرے گا کیونکہ مرنے کے بعد انہیں ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے اور حشر کے میدان میں ان کا حساب بھی ہم نے ہی لینا ہے۔
یاد رہے کہ کفار کے لئے بہت سے عذاب ہیں : نَزع کے وقت، قبرمیں ، محشر میں اور جہنم میں ، ان سب میں بڑا عذاب دوزخ کا ہے، باقی اس کے مقابلے میں چھوٹے ہیں کیونکہ دوزخ کا عذاب دائمی ہے، اس میں سخت رسوائی بھی ہے، اس میں ہر طرح کا عذاب ہے: کھانے، پینے، رہنے سہنے، زہریلے جانور سب کا عذاب ، ان وجوہات سے اسے بڑا عذاب کہا گیا.