سُوْرَۃُ الحَدِيد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اللہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں  اور زمین میں  ہے۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین و آسمانوں  میں  ہے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان،سب زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں  یعنی یہ کہ وہ اللہ ذات میں ،صفات میں  ،اَفعال میں  اور اَحکام میں  ہر نقص و عیب سے پاک ہے اوراس کے رب ہونے کا اقرار کرتے اور ا س کی اطاعت کا یقین رکھتے ہیں اور وہی اللہ  عَزَّوَجَلَّ غالب اور کامل قدرت والا اور اپنے تمام افعال میں  حکمت والا ہے۔(تفسیر کبیر ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۱، ۱۰ / ۴۴۱ ، تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۶۶۹، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۲۶، ملتقطاً)

لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(2)

ترجمہ: کنزالعرفان

آسمانوں اور زمین کی سلطنت سب اسی کے لیے ہے ،وہ زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پرقادر ہے

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: آسمانوں  اور زمین کی سلطنت سب اسی کے لیے ہے۔}ارشاد فرمایا کہ آسمانوں  اور زمین اور ان میں موجود تما م چیزوں  پر اللہ تعالیٰ کا مکمل طور پر تَصَرُّف ہے اور ان سب میں  اس کا حکم نافذ ہے،وہ اپنی تمام مخلوق سے بے پرواہ ہے اور سب اسی کےمحتاج ہیں ،اس کی شان یہ ہے کہ وہ مخلوق کو پیدا کر کے انہیں  زندگی دیتا ہے اور قیامت کے دن بھی مُردوں  کو زندہ فرمائے گا اور وہ دنیا میں  زندوں  کو موت دیتا ہے اور وہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے۔ (روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۳۴۶، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۲۶،جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۴۸، ملتقطاً)

هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی اول اور آخر اور ظاہر اورباطن ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الْاَوَّلُ: وہی اول۔}اس آیت میںاللہ تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں ۔

پہلی صفت:وہی اول ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے ہر چیز سے پہلے ہے کہ وہ ا س وقت بھی تھا جب کسی چیز کا وجود نہ تھا،اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں  ۔

دوسری صفت:وہی آخر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ ہر چیز کے ہلاک اور فنا ہونے کے بعد رہنے والا ہے کہ سب فنا ہوجائیں  گے اور وہ ہمیشہ رہے گا، اس کے لئے کوئی انتہا نہیں ۔

تیسری صفت:وہی ظاہر ہے۔ا س سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دلائل وبراہین سے ایسا ظاہر ہے کہ ذرے ذرے میں  اس کے وجود پر دلالت کرنے والے دلائل موجود ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہر ہونے کے معنی یہ ہیں  کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔

چوتھی صفت:وہی باطن ہے۔ ا س سے مراد یہ ہے کہ حواس اللہ تعالیٰ کا اِدراک کرنے سے عاجز ہیں  اور اس کی ذات ایسی پوشیدہ ہے کہ عقل کی اس تک رسائی نہیں  اور یہ پوشیدگی دنیا اور آخرت دونوں  میں ہے۔

پانچویں  صفت:وہی ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہر شے کو ہر طرح سے جانتا ہے۔( روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ۹ / ۳۴۶، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۲۶،جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۴۸-۴۴۹، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اول ،آخر ،ظاہر اور باطن ہیں :

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سیرت کے موضوع پر اپنی مشہور کتاب ’’مدارجُ النُّبوہ‘‘ کے خطبے میں  ذکر کیا ہے کہ یہ پانچوں  صفات حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھی ہیں ۔ان کا ذکر کردہ کلام بعض مقامات پر کچھ تبدیلی کے ساتھ پیش ِخدمت ہے۔

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوّل بھی ہیں ، آخر بھی ہیں ، ظاہر بھی ہیں ، باطن بھی ہیں  اور سب کچھ جانتے بھی ہیں ۔چنانچہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَوّلِیَّت اس بنا پر ہے کہ موجودات کی تخلیق میں  سب سے اول ہیں (جیساکہ )حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے جابر!  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ،’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہ نُوْرِیْ‘‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو وجود بخشا۔

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مرتبۂ نبوت میں  بھی سب سے اول ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن شقیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ،ایک شخص نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا کہ آپ کب سے نبی ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح اور جسم کے درمیان تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، ماجاء فی مبعث النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۸ / ۴۳۸، الحدیث: ۱)

       میثاق کے دن سب جہاں  والوں  سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جواب دیا۔

       قیامت کے دن جب زمین شَق ہو گی تو سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کیلئے زمین شَق ہوگی۔

       شفاعت کا دروازہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے کھلے گا۔

       جنت میں  سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوں  گے۔

اس اَوّلِیَّت کے باوجود بِعثَت و رسالت میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخر ہیں  ۔کتابوں  میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی کتاب قرآنِ کریم اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین سب سے آخری ہے۔

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہر سے مراد یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے اَنوار نے پورے آفاق کو گھیر رکھا ہے جس سے سارا جہان روشن ہے ،مخلوق میں  سے کسی کا ظہور آپ کے ظہور کی مانند اور کسی کا نور آپ کے نور کے ہم پلہ نہیں  اور باطن سے مراد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ اَسرار ہیں  جن کی حقیقت کا اِدراک مخلوق کے لئے ناممکن ہے اور دور ونزدیک کے لوگ آپ کے جمال اور کمال میں  کھو کر رہ گئے۔

اور آخر میں  فرماتے ہیں  کہ ’’وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘  کا ارشاد بلا شبہ حضورِ اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے (بھی) ہے کیونکہ ’’وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ (یعنی اور ہر علم والے سے اوپر علم والا ہے) کی صفات آپ ہی میں  موجود ہیں ۔( مدارج النبوہ، ۱ / ۲، ملتقطاً)

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِؕ-یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَ مَا یَخْرُ جُ مِنْهَا وَ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعْرُجُ فِیْهَاؕ-وَ هُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(4)لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کیے پھر عرش پر استوا فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، وہ جانتا ہے جو کچھ زمین کے اندر جا تا ہے اور جوکچھ اس سے باہر نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جوکچھ اس میں چڑھتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کیلئے ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کاموں کو لوٹایا جاتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ: وہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں  پیدا کیے۔} یہاں  سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم کے بارے میں  بیان فرمایا، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے آسمان اور زمین دنیا کے اَیّام کے حساب سے چھ دن میں  پیدا کئے۔ حضرت حسن  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توپلک جھپکنے میں  زمین و آسمان پیدا کردیتا لیکن اس کی حکمت کا یہی تقاضاہوا کہ چھ دن کو اصل بنائے اور ان پر مدار رکھے۔اور ارشاد فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، جو کچھ زمین کے اندر جا تا ہے خواہ وہ دانہ ہو یا پانی کاقطرہ، خزانہ ہو یا مردہ ،اور جوکچھ اس سے باہر نکلتا ہے خواہ وہ نباتات ہو یا دھات یا اور کوئی چیز اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے جیسے رحمت و عذاب ، فرشتے اور بارش اور جوکچھ آسمان میں  چڑھتا ہے جیسے اَعمال اور دعائیں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ عام طور پراپنے علم وقدرت کے ساتھ اور خاص طور پر اپنے فضل و رحمت کے ساتھ تمہارے ساتھ ہے چاہے تم جہاں  بھی ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھ رہا ہے تو وہ قیامت کے دن تمہیں  تمہارے اعمال کے مطابق جزا دے گا۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۰۷، جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۴۹، ملتقطاً)

            اس آیت میں  غفلت کی نیند سونے والوں  اور گناہوں  میں  مصروف لوگوں  کے لئے بڑی نصیحت ہے ،انہیں  چاہئے کہ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں  اور گناہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے ڈریں  اور اس سے حیا کریں  کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعمال معلوم ہیں  اور وہ ان کا ہر کام دیکھ رہا ہے اور یہ جہاں  بھی چلے جائیں  اور جو حیلہ اور تدبیر اپنا لیں  ، مگرکسی جگہ اور کسی صورت اللہ تعالیٰ سے چھپ نہیں  سکتے اور وہ ان کے اعمال کے مطابق انہیں  جزا اور سزا دینے پر قدرت بھی رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنا خوف نصیب فرمائے اور گناہوں  سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِؕ-وَ هُوَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔



تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ: رات کو دن میں  داخل کرتا ہے۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (کسی موسم میں ) رات کی مقدار کم کر کے اور دن کی مقدار بڑھا کر رات کے کچھ حصے کو دن میں  داخل کرتا ہے اور(کسی موسم میں ) دن کی مقدار کم کر کے اور رات کی مقدار بڑھا کر دن کے کچھ حصے کو رات میں  داخل کرتا ہے اور وہ دِل کے عقیدے اور قلبی اَسرار سب کو جانتا ہے۔( جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۶، ص۴۴۹، ملخصاً)

          نوٹ:رات اور دن میں  کمی زیادتی کا بیان اس سے پہلے سورہ اٰلِ عمران،سورہ حج، سورۂ لقمان اور سورۂ فاطر میں گزر چکا ہے،یہاں  ایک بار پھر ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں  غورو فکر کریں  اوراس کی وحدانیَّت پر ایمان لائیں ۔اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور (اس کی راہ میں ) اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں دوسروں کا جانشین بنایا ہے تو تم میں جو ایمان لائے اورانہوں نے خرچ کیا ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔} اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت پر دلالت کرنے والی مختلف چیزیں  بیان کرنے کے بعد اب بندوں  کو ایمان قبول کرنے،محبت ِدنیا کو چھوڑ دینے اور نیک کاموں  میں  مال خرچ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کر کے اور جن چیزوں  کو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں  اُن میں  اِن کی تصدیق کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو اور جو مال اس وقت تمہارے قبضے میں  ہے، تم وراثت کے طور پر اس میں  دوسروں  کے جانشین بنے ہو اور عنقریب یہ تمہارے بعد والوں  کی طرف منتقل ہو جائے گا لہٰذا تم پہلے لوگوں  سے نصیحت حاصل کرو اور اس مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرنے سے بخل نہ کرو، اور تم میں  سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں  نے اپنا مال اسی طرح خرچ کیا جیسے انہیں  حکم دیا گیا تھا تو ا س بنا پر ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

            دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ اورا س کے رسول پر ایمان لاؤ اور جو مال تمہارے قبضے میں  ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے ہیں  ،اس نے تمہیں  نفع اُٹھانے کے لئے دے دیئے ہیں  ،تم حقیقی طور پر ان کے مالک نہیں  بلکہ نائب اور وکیل کی طرح ہو،ا نہیں  راہِ خدا میں  خرچ کرو اور جس طرح نائب اور وکیل کو مالک کے حکم سے خرچ کرنے میں  کوئی تأمُّل نہیں  ہوتا توتمہیں  بھی کوئی تأمُّل و تَرَدُّدْ نہ ہو۔اور تم میں  سے جو لوگ اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  مال خرچ کیا ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔( صاوی ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۷، ۶ / ۲۱۰۲-۲۱۰۳، تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: ۷، ۱۱ / ۶۷۱-۶۷۲، روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۳۵۳-۳۵۴، ملتقطاً)

وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِۚ-وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَ قَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور(اے لوگو!) تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہ لاؤحالانکہ رسول تمہیں بلارہے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اور بیشک اللہ تم سے عہد لے چکا ہے۔ اگر تم یقین رکھتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ: اور تمہیں  کیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہیں  کیا ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں  لا رہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول تمہیں  بلارہے ہیں  کہ تم اپنے ر ب تعالیٰ کی وحدانیَّت   کا اقرار کر کے اس پر ایمان لاؤ اور وہ تمہارے سامنے (اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور اپنی رسالت کی) دلیلیں  پیش کررہے ہیں  اور اللہ تعالیٰ کی کتاب سنارہے ہیں ، اب تمہیں  ایمان قبول کرنے سے کیا عذر ہوسکتا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ تم سے اس وقت عہد لے چکا ہے جب اس نے تمہیں  حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت سے نکالا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اگر تم اس عہد پریقین رکھتے ہوتو ایمان لے آؤ۔( تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: ۸، ۱۱ / ۶۷۲، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۲۷، ملتقطاً)

هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہی ہے جو اپنے بندہ پر روشن آیتیں اتارتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نورکی طرف لے جائے اور بیشک اللہ تم پر ضرور مہربان رحمت والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ: وہی ہے جو اپنے بندہ پر روشن آیتیں  اتارتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جو حضرت جبریل کے واسطے سے اپنے بندے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حکم اور مُمانَعت، حلال اور حرام کے اَحکام پر مشتمل روشن آیتیں  اتارتا ہے تاکہ اے میرے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت! یہ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں  کفر ،شرک،شک ،جہالت اور مخالفت کے اندھیروں  سے ایمان، توحید ، یقین، علم اور مُوافقت کے نورکی طرف لے جائیں اور بیشک اللہ تعالیٰ تم پر ضرور مہربان اور رحمت والاہے کہ اس نے تمہاری طرف اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجا اور ان پر قرآنِ پاک کی آیات نازل فرمائیں ۔(روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۳۵۵)

یہی مضمون ایک دوسری آیت میں  بیان ہوا ہے

’’ الٓرٰ- كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ﳔ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ‘‘(ابراہیم:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: الٓرٰ، یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں  کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں  سے اجالے کی طرف ،اس (اللہ) کے راستے کی طرف نکالو جو عزت والا، سب خوبیوں  والا ہے۔

وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا وارث اللہ ہی ہے۔ تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں ،وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور تمہیں  کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں  خرچ نہ کرو۔} یعنی تم کس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ نہیں  کر رہے حالانکہ آسمانوں  اور زمین سب کامالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہی ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ تم ہلاک ہوجائو گے اور تمہارے مال اسی کی مِلکِیَّت میں  رہ جائیں  گے اور تمہیں  خرچ نہ کرنے کی صورت میں  ثواب بھی نہ ملے گا ، تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کر دو تاکہ ا س کے بدلے ثواب تو پا سکو۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۲۸)

راہِ خدا میں  خرچ کرنے کی ترغیب:

            قرآن و حدیث میں  بکثرت مقامات پر راہِ خدا میں  خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۷۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم جو اچھی چیز خرچ کرو تو وہ  تمہارے لئے ہی فائدہ مند ہے اورتم اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے ہی خرچ کرو اور جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں  پوراپورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں  کی جائے گی۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ‘‘(فاطر:۲۹،۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں  اور نماز قائم رکھتے ہیں  اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں  سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں  خرچ کرتے ہیں  وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں  جو ہرگز تباہ نہیں  ہوگی ۔تاکہ اللہ انہیں  ان کے ثواب بھرپور دے اوراپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدرفرمانے والا ہے۔

            اورحضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اے ابنِ آدم ! اگر تم اپنا ضرورت سے زائد مال خر چ کردو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اسے رو کے رکھو گے تو یہ تمہارے حق میں  بر اہے اور تمہیں  اتنے مال پر ملا مت نہ کی جائے گی جو تمہیں قناعت کی صورت میں  لوگو ں  کی محتاجی سے محفو ظ رکھے اور اپنے خرچ کی ابتدا اپنے زیرِ کفالت لوگوں  سے کرو اوراوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی… الخ، ص۵۱۵، الحدیث: ۹۷(۱۰۳۶))

            اورحضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ میں  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بارگا ہ میں  حاضر ہوا۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت کعبہ کے سائے میں  تشریف فرما تھے۔ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے دیکھا تو فرمایا،’’ ربِ کعبہ کی قسم! وہی لوگ خسا رے میں  ہیں ۔ میں آپ کی خدمت میں  حاضر ہوکر بیٹھ گیا لیکن ابھی ٹھیک سے بیٹھ نہ پایاتھا کہ اٹھ کھڑا ہوا او رعر ض کی ’’ یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ما ں  باپ آپ پر قربا ن! کو ن سے لوگ خسارے میں  ہیں  ؟ارشاد فرمایا’’ وہ لوگ جو بڑے سرمایہ دار ہیں  البتہ ان میں  سے جو اِدھراُدھر، آگے پیچھے ،دائیں  بائیں  (راہِ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں  (وہ خسارے میں  نہیں ) لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ۔(مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لا یؤدی الزکاۃ، ص۴۹۵، الحدیث: ۳۰(۹۹۰))

{لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ:  تم میں  فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں  ہیں ۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت بیان فرمائی ہے جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں  اپنا مال خرچ کرنے میں  سبقت کی ،چنانچہ ارشاد فرمایا ’’اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ! مکہ کی فتح سے پہلے جب کہ مسلمان کم اور کمزور تھے، اس وقت جنہوں  نے خرچ کیا اور جہاد کیا وہ فضیلت میں  دوسروں  کے برابر نہیں  اوروہ فتح ِمکہ کے بعد خرچ کرنے والوں  اور لڑنے والوں  سے درجے کے اعتبار سے بڑے ہیں  اور فتح سے پہلے خرچ کرنے والوں  سے بھی اور فتح کے بعد خرچ کرنے والوں  سے بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے اچھی چیز یعنی جنت کا وعدہ فرمالیا ہے البتہ جنت میں  ان کے درجات میں  فرق ہے کہ فتح ِمکہ سے پہلے خرچ کرنے والوں  کا درجہ بعد میں  خرچ کرنے والوں  سے اعلیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔

 مہاجرین اور انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا مقام دیگر صحابہ سے بلند ہے:

            آیت کے اس حصے’’اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً‘‘ سے معلوم ہو اکہ مہاجرین اور انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت اور ان کامقام دیگر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بہت بلند ہے۔ انہیں  میں  حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی شامل ہیں  اوران کی عظمت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  دے رہا ہے۔اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ان کی شان میں  زبانِ طعن دراز کرتے اور انہیں  برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں  ۔

             حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بر ابھلا نہ کہو کیونکہ (ان کی شان یہ ہے کہ ) تم میں  سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کر دے تو وہ صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں  سے کسی کے ایک    مُد بلکہ ا س کے نصف (خیرات کرنے) تک نہیں  پہنچ سکتا۔( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم… الخ، ۲ / ۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان :

            یہاں  حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان کے بارے میں  ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ہم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر تھے اور ان کے پاس حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بھی حاضر تھے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھے اور اسے آگے سے باندھا ہوا تھا ۔اس وقت حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلَام نازل ہوئے اورنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کیا بات ہے کہ میں  حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس حال میں  دیکھ رہا ہوں  کہ آپ ایک ایسی عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے ہیں جسے سامنے سے کانٹوں  کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام ،(ان کی یہ حالت اس لئے ہے کہ )انہوں  نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا ۔حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی :آپ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کو اللہ تعالیٰ کی طرف سلام پیش کیجئے اور ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرما رہا ہے کہ تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض۔حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا:اے ابو بکر! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کر رہے ہیں  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے ا س فقر میں  مجھ سے راضی ہو یا ناراض۔(یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں  سے آنسو جا ری ہو گئے اور عرض کرنے لگے :کیا میں  اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہو سکتا ہوں ، میں  اپنے رب سے راضی ہوں  ،میں  اپنے رب سے راضی ہوں ۔( حلیۃ الاولیاء، سفیان الثوری، ۷ / ۱۱۵، الحدیث: ۹۸۴۵)

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

کون ہے جو اللہ کواچھا قرض دے تو اللہ اس کیلئے اس کو کئی گنا بڑھادے گا اور اس کیلئے اچھا اجر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا: کون ہے جو اللہ کواچھا قرض دے۔}  اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ لوگوں  کومسلمانوں  کی حمایت میں ، کفار کے ساتھ جہاد کرنے میں  اور فقیر و محتاج مسلمانوں  کی مدد کرنے میں  اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو خوش دلی کے ساتھ اپنا مال راہِ خدا میں  خرچ کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے خرچ کرنے کا ثواب اسے کئی گُنا تک بڑھا کر دے اور ا س اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے اچھا اجر ہے اور اسے اس کے اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی بارگاہ میں  قبولیت کے ساتھ دیا جائے گا۔

            یہاں  آیت میں  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرنے کو قرض سے اس طور پر تعبیرفرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی راہ میں  خرچ کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔( تفسیر کبیر، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۵۴، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۰۸، جلالین مع صاوی، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۲۱۰۵، ملتقطاً)

راہِ خدا میں  خرچ کرنے کا ثواب:

             راہِ خدا میں  خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اور ا س کا ثواب بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۴۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے تو اللہ اس کے لئے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی دیتا ہے اوروسعت دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘(بقرہ: ۲۶۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ان لوگوں  کی مثال جو اپنے مال اللہ  کی راہ میں  خرچ کرتے ہیں  اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں  اگائیں  ،ہر بالی میں  سو دانے ہیں اور اللہ اس  سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔

            اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرنے کے معاملے میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے جذبے کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں  ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ جب یہ آیت’’ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ نازل ہوئی تو حضرت ابو دحداح انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :  یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم قرض دیں ؟نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہاں  اے ابو دحداح! حضرت ابو دحداح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :  یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنا دست اقدس مجھے دکھائیے، حضرت ابو دحداح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دستِ اقدس تھام کر عرض کی : میں  نے اپنا باغ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  بطورِ قرض پیش کر دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’ان کے باغ میں  600 کھجور کے درخت تھے اور اُمِّ دحداح اور ان کے بچے بھی اسی میں  رہتے تھے، حضرت ابو دحداح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ آئے اور انہوں  نے پکارا :اے اُمِّ دحداح! انہوں  نے عرض کی : لبیک میں  حاضر ہوں ، حضرت ابودحداح رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:آپ اس باغ سے نکل چلیں  کیونکہ میں  نے ا س باغ کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں  بطورِ قرض پیش کر دیا ہے۔(شعب الایمان ، باب الثانی والعشرین من شعب الایمان… الخ، فصل فی الاختیار فی صدقۃ التطوّع… الخ، ۳ / ۲۴۹، الحدیث: ۳۴۵۲)

یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن تم مومن مردوں اورایمان والی عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑرہا ہے (فرمایا جائے گا کہ) آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں تم ان میں ہمیشہ رہو، یہی بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: جس دن تم مومن مردوں  اورایمان والی عورتوں  کو دیکھو گے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  کے بارے میں  خبر دی کہ قیامت کے دن تم مومن مَردوں  اورایمان والی عورتوں  کو پل صراط پر اس حال میں  دیکھو گے کہ ان کے ایمان اور بندگی کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں  جانب دوڑرہا ہے اور وہ نور جنت کی طرف اُن کی رہنمائی کررہا ہے اور( پل صراط سے گزر جانے کے بعد) ان سے فرمایا جائے گا کہ آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں  ہیں  جن کے نیچے نہریں  بہتی ہیں ، تم ان میں  ہمیشہ رہوگے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۰۸-۱۲۰۹، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۲۸-۲۲۹، ملتقطاً)

            اسی نور کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ-یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۚ-نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَاۚ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘(تحریم:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں  تم سے مٹا دے اور تمہیں  ان باغوں  میں  لے جائے جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں  جس دن اللہ نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں  کورسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں  دوڑتا ہوگا، وہ عرض کریں  گے، اے ہمارے رب!ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں  بخش دے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

            اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اللہ تعالیٰ کے ا س فرمان’’یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ ‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  ’’ ایمان والوں  کو ان کے اعمال کے مطابق نور عطا کیاجائے گا (جس کی روشنی میں  وہ پل صراط پار کریں  گے،حتّٰی کہ)ان میں  سے بعض مومن ایسے ہوں  گے جن کا نور پہاڑ کی مانند ہو گا اور بعض مومن ایسے ہوں  گے جن کا نور کھجور کے درخت کی مثل ہو گااور ان میں  سے سب سے کم نور ا س شخص کا ہوگا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہو گا جو کہ کبھی روشن ہو گا اور کبھی بجھ جائے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۱۶۴، الحدیث: ۴۳)

یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ-قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ-فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌؕ-بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُﭤ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم پر نظر کردو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ، کہا جائے گا:تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ تو وہاں نور ڈھونڈو ، جبھی ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندر کی طرف رحمت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں  مسلمانوں  سے کہیں  گے۔} یہاں  سے منافقوں  کے بارے خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن جب مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ جنت کی طرف جا رہے ہوں  گے تو ا س وقت منافق مرد اور منافقہ عورتیں  مسلمانوں  سے کہیں  گے کہ’’ ہم پر بھی ایک نظر کردو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں  اور ا س روشنی میں  ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں ۔مومنوں  کی طرف سے انہیں  کہا جائے گا کہ تم جہاں  سے آئے تھے وہیں  لوٹ جاؤ اور وہاں  نور ڈھونڈو۔اس کے ایک معنی یہ ہیں  کہ تم حساب کی جگہ کی طرف لوٹ جاؤ جہاں  ہمیں  نور دیا گیا ہے اور وہاں  سے نور طلب کرو۔دوسرے معنی یہ ہیں  کہ تم ہمارا نور نہیں  پاسکتے لہٰذانور کی طلب کے لئے پیچھے لوٹ جائو ۔پھر وہ نور کی تلاش میں  واپس ہوں  گے اور کچھ نہ پائیں  گے، دوبارہ مومنین کی طرف پھریں  گے تواس و قت ان مومنین اور منافقین کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی اور اس میں  ایک دروازہ ہوگا جس سے جنتی جنت میں  چلے جائیں  گے ،اس دروازے کے اندر کی طرف جنت اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔ ا س دیوار کے بارے میں  بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہی اَعراف ہے۔( روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۳، ۹ / ۳۶۰-۳۶۲، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۰۹، ملتقطاً)

یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

منافق مسلمانوں کو پکاریں گے :کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں ، مگر تم نے تو اپنی جانوں کو فتنے میں ڈالا اور (مسلمانوں کے نقصان کے) منتظر رہے اور شک میں پڑے رہے اور جھوٹی خواہشات نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اوربڑے فریبی نے تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈالے رکھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُنَادُوْنَهُمْ: وہ مسلمانوں  کو پکاریں  گے۔}ا س آیت میں  منافقین اور مومنین کے درمیان ہونے والے مکالمے کو بیان کیاگیاہے، چنانچہ دیوار کھڑی ہو جانے اور عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعدمنافق مسلمانوں  کو اس دیوار کے پیچھے سے پکاریں  گے اور کہیں  گے کہ کیا دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نماز یں  نہیں  پڑھتے تھے اور تمہارے ساتھ روزے نہیں  رکھتے تھے ؟مومنین کہیں  گے: کیوں  نہیں ،تم ظاہری طور پر ہمارے ساتھ ہی تھے لیکن تم نے تو منافقت اور کفر اختیار کر کے اپنی جانوں  کو فتنے میں  ڈالا اور گناہوں  میں  اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں  لگے رہے اور مسلمانوں  کے نقصان کے منتظر رہے اور دینِ اسلام کی حقّانِیَّت میں  شک کرتے رہے اور جھوٹی خواہشات نے تمہیں  دھوکے میں  ڈالے رکھا اور تم ان باطل امیدوں  میں  رہے کہ مسلمانوں  پر مَصائب آئیں  گے تو وہ تباہ ہوجائیں  گے یہاں  تک کہ موت کی صورت میں  اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا اوربڑے فریبی شیطان نے تمہیں  اللہ تعالیٰ کے بارے میں  دھوکے میں  ڈالے رکھا کہ اللہ  تعالیٰ بڑا حلیم ہے، تم پر عذاب نہ کرے گا اور نہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہے نہ حساب ہوگا، تم اس کے اس فریب میں  آ گئے۔( روح البیان ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۱۳، ۹ / ۳۶۲ ، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۲۲۹، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۰۹، ملتقطاً)

            اس آیت میں  بیان کی گئی منافقین کی صفات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے کہ ان میں  سے کوئی صفت اس میں  تو نہیں  پائی جاتی، اگر پائی جاتی ہو تو فورا ًاس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے تاکہ وہ اُخروی رسوائی سے بچ سکے۔فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-مَاْوٰىكُمُ النَّارُؕ-هِیَ مَوْلٰىكُمْؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو آج نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے گااور نہ ہی کھلے کافروں سے۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہے، وہ آگ ہی تمہاری ساتھی ہے اور کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْیَةٌ: تو آج نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے گا۔} جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ منافقوں  کو مسلمانوں  سے ممتاز کر دے گا تو ارشاد فرمائے گا’’ اے منافقو!آج تم سے کوئی فدیہ نہیں  لیا جائے گا جسے دے کر تم اپنی جان کوعذاب سے بچا سکو اور نہ ہی کھلے کافروں  سے فدیہ لیا جائے گا۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہے اورتم اس کے علاوہ کسی اور ٹھکانے کی طرف کبھی نہیں  لوٹو گے ،وہ آگ ہی تمہاری ساتھی ہے اور وہ آگ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فدیہ نہ لئے جانے کا معنی یہ ہے کہ آج تم سے ایمان قبول کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ قبول کی جائے گی۔( تفسیر طبری ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۱۵، ۱۱ / ۶۸۰ ، روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۵، ۹ / ۳۶۲-۳۶۳، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۲۹، ملتقطاً)

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے اور مسلمان ان جیسے نہ ہوں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: کیا ایمان والوں  کیلئے ابھی وہ وقت نہیں  آیا ۔}اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ( اپنے دولت سرائے اقدس سے) باہرآئے اور مسجد میں  صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے ،وہ لوگ آپس میں ہنس رہے تھے ۔آپ ان کے پاس اس حال میں  آئے کہ آپ کی چادر مبارک گھسٹ رہی تھی اور چہرۂ انور سرخ تھا۔ آپ نے (ان سے) ارشاد فرمایا’’ تم ہنس رہے ہو حالانکہ ابھی تک تمہارے رب کی طرف سے امان نہیں  آئی کہ ا س نے تمہیں  بخش دیا ہے اور تمہارے ہنسنے پر یہ آیت نازل ہوئی ہے’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس ہنسی کا کفارہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا اتنا ہی رونا۔( در منثور، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۷)

            ا س آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ایمان والوں  کے لئے ابھی وہ وقت نہیں  آیا کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور قرآن کی آیتیں  پڑھی جائیں  تو ان کے دل نرم پڑ جائیں ۔

            حضرت نافع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب اس آیت ِمبارکہ ’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘ کی تلاوت کرتے تو آپ کی آنکھوں  سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ بے حال ہو جاتے ۔( ابن عساکر، عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب… الخ، ۳۱ / ۱۲۷)

             اوراسی آیتِ مبارکہ کو سن کر بہت سے لوگ اپنے گناہوں  سے تائب ہوئے اور ولایت کی عظیم منازل پر فائز ہوئے،یہاں  ہم اس کے دو واقعات ذکر کرتے ہیں ۔

 حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی توبہ:

          حضرت فضل بن موسیٰ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (توبہ سے پہلے) ڈاکو تھے اور’’ ابیورد‘‘ اور ’’سرخَس‘‘ کے درمیان ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے،ا ن کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ انہیں  ایک لونڈی سے عشق ہو گیا،ایک مرتبہ وہ ا س کے پاس جانے کے لئے دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اس وقت کسی نے یہ آیت پڑھی ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘جونہی یہ آیت آپ نے سنی تو بے اختیار آپ کے منہ سے نکلا ’’کیوں  نہیں  میرے پروردگار! اب اس کا وقت آگیا ہے ۔ چنانچہ آپ دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سنسان اور بے آباد کھنڈر نما مکان میں  جاکر بیٹھ گئے ۔ وہاں  ایک قافلہ موجود تھا اور شُرکائے قافلہ میں  سے بعض کہہ رہے تھے کہ ہم سفر جاری رکھیں  گے اور بعض نے کہا کہ صبح تک یہیں  رک جاؤ کیونکہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اَطراف میں  رہتا ہے ، کہیں  وہ ہم پر حملہ نہ کر دے۔ آپ نے قافلے والوں  کی باتیں  سنیں  تو غور کرنے لگے اور کہا:(افسوس) میں  رات کے وقت بھی گناہ کرتا ہوں  اور(میرے گناہوں  کی وجہ سے) مسلمانوں  کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں  مجھ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں  حالانکہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے پاس اس حال میں  لایا ہے کہ میں اب اپنے جرم سے رجوع کر چکا ہوں ، اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں  تیری بارگاہ میں  توبہ کرتا ہوں  اور اب میں  (ساری زندگی) کعبۃُ اللہ کی مجاوری میں  گزاروں  گا ۔( شعب الایمان، السابع والاربعون من شعب الایمان… الخ، فصل فی محقرات الذنوب، ۵ / ۴۶۸، الحدیث: ۷۳۱۶)

 حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی توبہ :

             حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (توبہ سے پہلے) نشہ کے عادی تھے، آپ کی توبہ کا سبب یہ بنا کہ آپ اپنی ایک بیٹی سے بہت محبت کیا کرتے تھے، اس کا انتقال ہوا تو آپ نے شعبان کی پندرھویں  رات خواب دیکھا کہ آپ کی قبر سے ایک بہت بڑا اژدھا نکل کر آپ کے پیچھے رینگنے لگا ہے، آپ جب تیز چلنے لگتے تووہ بھی تیز ہو جاتا، پھر آپ ایک کمزور سن رسیدہ شخص کے قریب سے گزرے تو اس سے کہا ’’ مجھے اس اژدھے سے بچائیں ۔ انہوں  نے جواب دیا’’ میں  کمزور ہوں ، رفتار تیز کر لو شاید اس طرح اس سے نجات پا سکو۔ تو آپ مزید تیز چلنے لگے، اژدھا پیچھے ہی تھا یہاں  تک کہ آپ آگ کے ابلتے ہوئے گڑھوں  کے پاس سے گزرے، قریب تھا کہ آپ اس میں  گرجاتے، اتنے میں  ایک آواز آئی:تو میرا اہل نہیں  ہے۔ آپ چلتے رہے حتّٰی کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے، اس پر شامیانے اور سائبان لگے ہوئے تھے، اچانک ایک آواز آئی:اس ناامید کو دشمن کے نرغے میں  جانے سے پہلے ہی گھیر لو۔ تو بہت سے بچوں  نے انہیں  گھیر لیاجن میں  آپ کی وہ بیٹی بھی تھی، وہ آپ کے پاس آئی اور اپنا دایاں  ہاتھ اس اژدھے کو مارا تو وہ بھاگ گیا اور پھر وہ آپ کی گود میں  بیٹھ کر یہ آیت پڑھنے لگی:’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ‘‘آپ فرماتے ہیں  کہ میں  نے اپنی اس بیٹی سے پوچھا ’’کیا تم(فوت ہونے والے) قرآن بھی پڑھتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا :’’جی ہاں ! ہم آپ(یعنی زندہ لوگوں )سے زیادہ اس کی معرفت رکھتے ہیں ۔پھر آپ نے اس سے اس جگہ ٹھہرنے کا مقصد پوچھا تو اس نے بتایا :’’یہ بچے قیا مت تک یہاں  ٹھہر کر اپنے ان والدین کا انتظار کریں  گے جنہوں  نے انہیں  آگے بھیجاہے۔پھر اس اژدھے کے بارے میں  پوچھا تو اس نے بتایا ’’وہ آپ کا برا عمل ہے۔ پھر اس ضعیف العمرشخص کے بارے میں  پوچھا تو اس نے بتایا :’’وہ آپ کا نیک عمل ہے، آپ نے اسے اتنا کمزور کر دیا ہے کہ اس میں  آپ کے برے عمل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ، لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  توبہ کریں  اور ہلاک ہونے سے بچیں ۔ پھر وہ بلندی پر چلی گئی جب آپ بیدار ہوئے تو اسی وقت سچی توبہ کرلی۔( روض الریاحین، الفصل الثانی فی اثبات کرامات الاولیاء، الحکایۃ الحادیۃ والخمسون بعد المئۃ، ص۱۷۳)

{وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ:  اور مسلمان ان جیسے نہ ہوں  جنہیں  پہلے کتاب دی گئی۔}اس  آیت میں  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو ان یہودیوں  اور عیسائیوں  کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا جنہیں  ان سے پہلے کتاب ( تورات اور انجیل )دی گئی، جب ان پر ( ان کے اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان کی) مدت دراز ہو گئی تو(ان کا حال یہ ہوا کہ ) انہوں  نے اپنے ہاتھوں  سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  تبدیلی کر دی اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلی اور اس کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور مختلف نظریات اور عجیب وغریب اَقوال کے درپے ہوئے اور دینِ الٰہی کے اَحکام پر لوگوں  کے کہنے کے مطابق عمل کرنے لگے اور انہوں  نے اپنے علماء اور راہبوں  کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنا رب مان لیا تو اس وقت ان کے دل سخت ہو گئے اور(ا س سختی کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا کہ وہ) کسی نصیحت کو قبول کرتے ہیں  اور نہ ہی جنت کی بشارت اور جہنم کی وعید سن کر ان کے دل نرم ہوتے ہیں  ۔ ان کے دل بھی فاسد اور اعمال بھی باطل ہیں  جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةًۚ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖۙ-وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ‘‘( مائدہ:۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم  نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ وہ اللہ کی باتوں  کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں  اور انہوں  نے ان نصیحتوں  کا بڑا حصہ بھلا دیا جو انہیں  کی گئی تھیں ۔

            یعنی،ان کے دلوں  میں  فساد آ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ سخت ہو گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں  تحریف کرنا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی، انہوں  نے وہ کام کرنے چھوڑ دئیے جن کے کرنے کا انہیں  حکم دیاگیاتھا اور ان کاموں  کو کرنے لگ گئے جنہیں  کرنے سے انہیں  منع کیاگیاتھا ،ا سی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُمورِ اصلیہ اور فرعیہ (یعنی عقائد و اَحکام) میں  سے کسی ایک چیز میں  بھی ان کی مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔( ابن کثیر، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۵۳)

            اللہ تعالیٰ کے ا س حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنی صورت اور سیرت یہودیوں  اور عیسائیوں  جیسی بناتے اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں  اور ان لوگوں  کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلانے کے باوجود مسلمانوں  کو یہودی اور عیسائی نظریات اوران کے طور طریقے اپنانے کی کسی بھی انداز میں  ترغیب دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔

اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

جان لو کہ اللہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے بیشک ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان فرمادیں تاکہ تم سمجھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا: جان لو کہ اللہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ } یعنی اے لوگو! تم جان لو کہ زمین کے خشک ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ بارش برسا کر اور سبزہ اگا کر زمین کو زندہ کرتا ہے اور ایسے ہی دِلوں  کو سخت ہوجانے کے بعد نرم کرتا ہے اور انہیں  علم و حکمت سے زندگی عطا فرماتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ’’یہ ذکر کے دِلوں  میں  اثر کرنے کی ایک مثال ہے کہ جس طرح بارش سے زمین کو زندگی حاصل ہوتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دِل زندہ ہوتے ہیں ۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۳۰، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۲۱۰، ملتقطاً)

دل کی سختی کے اسباب اور ا س کی علامات:

          یاد رہے کہ دل کی نرمی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور دل کی سختی بہت بڑی آفت ہے کیونکہ دل کی سختی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس میں  وعظ و نصیحت اثر نہیں  کرتا،انسان کبھی اپنے سابقہ گناہوں  کو یاد کر کے نہیں  روتا اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں  غورو فکر نہیں  کرتا۔دل کی سختی کے مختلف اَسباب اور علامات ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :

(1)…اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت برتنا۔

(2)…قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرنا۔

(3)… موت کو یاد نہ کرنا۔

(4)…بیکار باتیں  زیادہ کرنا۔

(5)… فحش گوئی کرنا۔

            اب ان سے متعلق 6اَحادیث ملاحظہ ہوں ،

(1)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:’’ اس کی مثال جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرے اور جو نہ کرے زندہ اور مردہ کی سی ہے۔( بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللّٰہ عزوجل ، ۴ / ۲۲۰، الحدیث: ۶۴۰۷ )

(2)… حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس گھر میں  اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور جس گھر میں  اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ… الخ، ص۳۹۳، الحدیث: ۲۱۱(۷۷۹))

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد  فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ باتیں  (یعنی بیکار باتیں )نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں  دل کی سختی ہے اور لوگوں  میں  اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہے۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۶۲-باب منہ، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۹)

(4)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں  جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے ۔ عرض کی گئی:  یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں  کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟ارشاد فرمایا ’’موت کو زیادہ یاد کرنے سے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے سے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان… الخ، فصل فی ادمان تلاوۃ القرآن، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)

(5)… حضرت ربیع بن انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا سے بے رغبت ہونے اور آخرت کی طرف راغب ہونے کے لئے موت کو یاد کرنا کافی ہے۔( شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان… الخ، ۷ / ۳۵۲، الحدیث:۱۰۵۵۴)

(6)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شرم و حیا ایمان سے ہے ا ور ایمان جنت میں  ہے اور فحش گوئی سخت دلی سے ہے اور سخت دلی آگ میں  ہے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الحیائ، ۳ / ۴۰۶، الحدیث: ۲۰۱۶)

            اللہ تعالیٰ ہمیں  دل کی سختی سے محفوظ فرمائے اور دل کی نرمی عطا فرمائے،اٰمین۔

{قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ: بیشک ہم نے تمہارے لیے نشانیاں  بیان فرمادیں ۔}  ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! بیشک ہم نے تمہارے لیے اپنی وحدانیَّت اور قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  بیان فرمادیں  تاکہ تم ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کوسمجھو اور ان نشانیوں  کے تقاضوں  کے مطابق عمل کر کے دنیا و آخرت میں  کامیاب ہو جاؤ۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۲۳۰، ابو سعود، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۷، ۵ / ۶۸۶، ملتقطاً)

اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا ان کیلئے کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لیے عزت کا ثواب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ: بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ۔}  ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ مرد اور عورتیں  جنہوں  نے خوش دلی اور نیک نیت کے ساتھ حق داروں  کو صدقہ دیا اور راہِ خدا میں  خرچ کیا تو ان کیلئے صدقہ کرنے اور راہِ خدا میں  خوش دلی کے ساتھ خرچ کرنے کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لیے عزت کا ثواب ہے اور وہ جنت ہے۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۱۲۱۰، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۲۳۰، ملتقطاً)

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ﳓ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ-لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدّیق اور گواہ ہیں ۔ان کے لیے ان کا ثواب ہے اور ان کا نور ہے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ دوزخی ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں  پر ایمان لائیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں  اور منافقوں  کا حال بیان فرمایا اور اس آیت میں  ایمان والوں  اور کافروں  کا حال بیان فرمایا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے سب رسولوں  پر ایمان لائیں  ،ان کا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مقام یہ ہے کہ وہی کامل سچے اور گزری ہوئی امتوں  میں  سے جھٹلانے والوں  پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں  ۔ان کے لیے ان کے نیک عمل کا وہ ثواب ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور ان کا وہ نور ہے جو حشر میں  ان کے ساتھ ہوگا اور جنہوں  نے کفر کیا اور ہماری قدرت و وحدانیَّت  پر دلالت کرنے والی آیتیں  جھٹلائیں  وہ دوزخی ہیں۔(تفسیرکبیر، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۴۶۲، جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۵۰، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۲۳۰، ملتقطاً)

اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف ۔}   آخرت اور ا س میں  مخلوق کے اَحوال ذکر کرنے کے بعد ا س آیت میں  دنیا کی حقیقت بیان کی جا رہی ہے تاکہ مسلمان ا س کی طرف راغب نہ ہوں  کیونکہ دنیا بہت کم نفع والی اور جلد ختم ہوجانے والی ہے۔اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں  پانچ چیزیں  اور ایک مثال بیان فرمائی ہے۔وہ پانچ چیزیں  یہ ہیں

(1،2)… دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود ہے جو کہ بچوں  کا کام ہے اور صرف اس کے حصول میں  محنت و مشقت کرتے رہنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔

(3)… دنیا کی زندگی زینت و آرائش کا نام ہے جو کہ عورتوں  کا شیوہ ہے۔

(4،5)…دنیا کی زندگی آپس میں  فخرو غرور کرنے اور مال اور اولاد میں  ایک دوسرے پر زیادتی چاہنے کا نام ہے ۔ اور جب دنیا کا یہ حال ہے اور اس میں  ایسی قباحتیں  موجود ہیں  تو ا س میں  دل لگانے اور ا س کے حصول کی کوشش کرتے رہنے کی بجائے ان کاموں  میں  مشغول ہونا چاہئے جن سے اُخروی زندگی سنور سکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دُنْیَوی زندگی کی ایک مثال ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی ایسی ہے جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں  کواچھا لگتا ہے ، پھر وہ سبزہ کسی زمینی یا آسمانی آفت کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے تو تم اس کی سبزی(سبز رنگ) جاتے رہنے کے بعد اسے زرد دیکھتے ہو ،پھر وہ پامال کیا ہوا بے کارہوجاتا ہے۔یہی حال دنیا کی اس زندگی کا ہے جس پر دنیا کا طلبگار بہت خوش ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی امیدیں  رکھتا ہے لیکن وہ انتہائی جلد گزر جاتی ہے ۔ اس دنیا کے مقابلے میں  آخرت ہے جس میں  اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب بھی ہے جو دنیا کے طلبگاروں ، لَہْو و لَعب میں  زندگی گزارنے والوں  اور آخرت سے بے پرواہ لوگوں  کیلئے ہے جو بطورِ خاص کفار ہیں جبکہ دوسری طرف آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور اس کی خوشنودی بھی ہے جو اس آدمی کیلئے ہے جس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دی۔ اورحقیقت یہ ہے کہ دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔ دنیا دھوکے کا سامان اس کے لئے ہے جو دنیا ہی کا ہوجائے اور اس پر بھروسہ کرلے اور آخرت کی فکر نہ کرے اور جو شخص دنیا میں  رہ کر آخرت کا طلبگار ہو اور دُنْیَوی اَسباب سے بھی آخرت ہی کے لئے تعلق رکھے تو اس کے لئے دنیا آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔( صاوی ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۲۰ ، ۶ / ۲۱۰۹- ۲۱۱۰، تفسیر کبیر ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۲۰، ۱۰ / ۴۶۳-۴۶۴، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۲۳۰-۲۳۱، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۲۱۰-۱۲۱۱، ملتقطاً)

دنیا کے بارے میں  اَحادیث اور اَقوال:

            یہاں  دنیا سے متعلق چند اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دنیا ملعون ہے اور اس کی ہر چیز بھی ملعون ہے البتہ دنیا میں  سے جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے وہ ملعون نہیں ۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف الزای الزہد، ۲ / ۷۷، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۰۸۰)

             حضرت عبد اللہ بن مِسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ا س بندے پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق کرتا ہے لیکن وہ دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کوشش کرتا ہے۔( مسند شہاب، الباب الثالث، الجزء الخامس، یا عجبا کل العجب… الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)

            حضرت ذوالنُّون رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ اے مرید ین کے گروہ! دنیا طلب نہ کرو اور اگر طلب کرو تو اس سے محبت نہ کرو، یہاں  سے صرف زادِ راہ لو کیونکہ آرام گاہ تواور ہے(یعنی آخرت ہے۔)( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۱۲۱۰-۱۲۱۱)

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اشعار کی صورت میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،

دنیا کو تو کیا جانے یہ بِس کی گانٹھ ہے حرّافہ            صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے

شہد دکھائے، زہر پلائے، قاتل، ڈائن، شوہر کُش    اس مُردار پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے

            اللہ تعالیٰ ہمیں  دنیا میں  رہ کر اپنی آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

            نوٹ: دنیا کی حقیقت اور ا س کے بارے میں  مزید تفصیل جاننے کے لئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ کی تیسری جلد میں  موجود باب ’’دنیا کی مذمت‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔

سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤجس کی چوڑائی آسمان و زمین کی وسعت جیسی ہے۔ اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے ،یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ: اپنے رب کی بخشش کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ۔}  اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے حقیر ہونے اور آخرت کے عظیم ہونے کو بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کو ان اعمال میں  جلدی کرنے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی ترغیب دی ہے جن کی بنا پر بندہ  اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی بخشش اور جنت کا حق دار قرار پاتا ہے، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! دنیا کی زندگی بہت قلیل ہے، اس  لئے وہ اعمال کرنے میں  جلدی کرو اور ان میں  ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ جن کی وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی بخشش اور ا س جنت کے حق دار ٹھہرو جس کی چوڑائی ایسی ہے کہ ساتوں  آسمان اور ساتوں  زمینوں  کے ٹکڑے ایک دوسرے سے ملا دیئے جائیں  تو جتنے چوڑے وہ ہوں  گے اتنی جنت کی چوڑائی ہے۔ یہ جنت ان لوگوں  کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرتے اور اس کے سب رسولوں  کی تصدیق کرتے اور ان پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہ جنت اللہ تعالیٰ کا وہ فضل ہے جو ا س نے مسلمانوں  پر فرمایا اور اللہ تعالیٰ اپنا فضل اپنی مخلوق میں  سے جسے چاہے دے اور اللہ تعالیٰ لوگوں  پر بڑا فضل فرمانے والا ہے کہ اسی نے دنیا میں  لوگوں  پر رزق وسیع کیا ، انہیں  نعمتیں  عطا فرمائیں  اور انہیں  شکر کے مقامات کی پہچان کرائی پھر اپنی اطاعت وفرمانبرداری کرنے پر آخرت میں  انہیں  وہ جزا عطافرمائی جو اس نے اطاعت گزاروں  کے لئے تیار فرمائی ہے اور ا س کا(کچھ) وصف ابھی بیان ہوا۔( مدارک ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۲۱ ، ص۱۲۱۱ ، خازن ، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۳۱، تفسیر طبری، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۶۸۵، ملتقطاً)

مغفرت کی طرف جلدی کرنے کا فرمایا گیا ہے، اس کا ایک ذریعہ جیسے نیکیوں کی طرف جلدی کرنا ہے اسی طرح دوسرا طریقہ توبہ کرنا اور استغفار کرنا بھی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں چنانچہ

دعائے مغفرت نہایت محبوب شے ہے لہٰذا مسلمان بندے کو اپنی بخشش کی دعا کرتے رہنا چاہیے اور خصوصاً اگر گناہوں سے توبہ کرکے ہو اور نورٌ علیٰ نور یہ کہ بارگاہِ مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر اپنی بخشش کی دعا کی جائے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(مزمل:۲۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللّٰہ سے بخشش مانگو، بیشک اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ‘‘(نساء:۱۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللّٰہ سے مغفرت طلب کرے تو اللّٰہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔

اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے انسان! جب تک تومجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے ا س کے برابر بخش دوں گا۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ، والاستغفار… الخ، ۵/۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)

اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی اس طرح نہ کہے ’’یا اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ،اگر تو چاہے تو مجھے بخش۔یا اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔بلکہ یقین کے ساتھ سوال کرناچاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۷۷-باب، ۵/۲۹۹، الحدیث: ۳۵۰۸)

اور اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘(ال عمران:۱۳۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا  ارتکاب کرلیں  یا اپنی جانوں  پر ظلم کرلیں  تواللہ کو یاد کرکےاپنے گناہوں  کی معافی مانگیں  اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں  کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔

       اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء :۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں  پر ظلم کربیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں  حاضر ہوجاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول(بھی) ان کی مغفرت کی دعافرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ایمان پر قائم رہنے اور گناہوں  سے توبہ و اِستغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی)ہے بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ: زمین میں  اور تمہاری جانوں  میں  جو مصیبت پہنچتی ہے۔} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے اپنی قضاء اور تقدیر کا بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو!زمین میں  قحط کی، بارش رک جانے کی، پیداوار نہ ہونے کی ،پھلوں  کی کمی کی اور کھیتیوں  کے تباہ ہونے کی ،اسی طرح تمہاری جانوں  میں  بیماریوں  کی اور اولاد کے غموں  کی جو مصیبت تمہیں  پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے (یعنی زمین کو یا جانوں  کو یا مصیبت کو)پیدا کرنے سے پہلے ہی ہماری ایک کتاب لوحِ محفوظ میں  لکھی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں  لوحِ محفوظ میں  لکھ دینا ہمارے لئے آسان ہے۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۲۱۱، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۲۳۱، ملتقطاً)

یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی ہر مصیبت ا س کی تقدیر میں  لکھی ہوئی ہے اور ہرمصیبت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(تغابن:۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔

البتہ بعض مصیبتیں  بعض وجوہات کی بنا پر بھی آتی ہیں  اور یہ وجوہات بھی لوحِ محفوظ میں  لکھی ہوئی ہیں ، ان وجوہات میں  سے ایک وجہ گناہ کرنا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ‘‘(شوریٰ:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں  جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے  ہاتھوں  کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو وہ معاف فرمادیتا ہے۔

اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الشوریٰ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۶۳)

اور بسا اوقات مومن کے گناہوں  کو معاف کرنے اور ا س کے درجات کی بلندی کے لئے اسے مصیبت پہنچتی ہے، جیساکہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’مومن کو کانٹا چبھنے یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے توا س کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی ایک خطا مٹادیتا ہے۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، ص۱۳۹۱، الحدیث: ۴۷(۲۵۷۲))

لہٰذا جس شخص پر کوئی مصیبت آئے تواسے چاہئے کہ وہ اس بات پر یقین رکھے کہ یہ مصیبت ا س کے نصیب میں  لکھی ہوئی تھی اور ا س بات پر غور کرے کہ کہیں  اس سے کوئی ایسا گناہ صادر نہ ہو ا ہو جس کے نتیجے میں  ا س پر یہ مصیبت آئی ،نیزاللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھے کہ وہ اس مصیبت کے سبب اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے درجات بلند فرما دے۔ ایسا کرنے سے ذہن کو سکون نصیب ہو گا،دل کو تسلی حاصل ہو گی اور مصیبت پر صبر کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ ﹰ (23)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ تم اس پر غم نہ کھاؤ جو تم سے جاتی رہے اور اس پراتراؤنہیں جو تمہیں اللہ نے دیا ہے اور اللہ ہر متکبر، بڑائی جتانے والے کو ناپسند کرتاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ: تاکہ تم اس پر غم نہ کھاؤ جو تم سے جاتی رہے۔}  یعنی تمہیں  پہنچنے والی مصیبتیں  لوحِ محفوظ میں  لکھ دینے کی حکمت یہ ہے کہ دنیا کا جو ساز و سامان تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے تم ا س پر غم نہ کھاؤ اور دنیا کا جو مال و متاع اللہ تعالیٰ نے تمہیں  دیاہے تم اس پر خوش نہ ہو اور یہ سمجھ لو کہ جو اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا ہے ضرور ہونا ہے ،نہ غم کرنے سے کوئی ضائع شدہ چیز واپس مل سکتی ہے اور نہ فنا ہونے والی چیز اِترانے کے لائق ہے، تو ہونا یہ چاہیے کہ خوشی کی جگہ شکر اورغم کی جگہ صبر اختیا ر کرو ۔

             یہاں غم کی مذمت بیان ہوئی ہے اِس غم سے مراد انسان کی وہ حالت ہے جس میں  صبرنہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پرراضی رہنا نہ پایا جائے اور ثواب کی امید بھی آدمی نہ رکھے جبکہ خوشی سے وہ اِترانا مراد ہے جس میں  مست ہو کر آدمی شکر سے غافل ہوجائے البتہ وہ رنج و غم جس میں  بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور اس کی رضا پر راضی ہو ایسے ہی وہ خوشی جس پر حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو ممنوع نہیں ۔

            حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’ اے فرزند ِآدم! کسی چیز کے فُقدان پر کیوں  غم کرتا ہے؟ یہ اس کو تیرے پاس واپس نہ لائے گا اور کسی موجود چیز پر کیوں  اِتراتا ہے؟ موت اس کو تیرے ہاتھ میں  نہ چھوڑے گی۔( مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۱۲۱۱-۱۲۱۲، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۲۳۱-۲۳۲، ملتقطاً)

الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جو بخل کریں اور لوگوں کو بخل کرنے کا کہیں اور جو منہ پھیرے تو بیشک اللہ ہی بے نیاز ، حمد کے لائق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ: وہ جو بخل کریں  ۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں  کو پسند نہیں  فرماتا جو اپنے پاس مال اور دنیا کا سازو سامان ہونے کے باوجود ا س مال و دولت سے محبت اور اپنے نزدیک اس کی قدر کی وجہ سے اُس مال میں  بخل کرتے ہیں  اور ا س مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  اور نیک کاموں  میں  خرچ نہیں  کرتے اور وہ صرف اپنے بخل کو ہی کافی نہیں  سمجھتے بلکہ لوگوں  کو بھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں  اور اپنا مال روک لینے کی ترغیب دیتے ہیں  ، اور جو واجب صدقات سے منہ پھیرے تو بیشک اللہ تعالیٰ ہی تمام مخلوق سے بے نیاز اورحمد کے لائق ہے۔

          دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ یہودی جو سابقہ کتابوں  میں  لکھے ہوئے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف چھپاتے ہیں  اور ان کے اوصاف بیان کرنے سے خود بھی بخل کرتے ہیں  اور دوسروں  کو بھی اس کا حکم دیتے ہیں  تو ان کے لئے سخت وعید ہے اور جو ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول کی فرمانبرداری کرنے سے منہ پھیرے تو بیشک اللہ تعالیٰ ہی اپنی تمام مخلوق سے بے نیاز اورحمد کے لائق ہے تو ان سے کس طرح بے نیاز نہ ہو گا۔( خازن ، الحدید ، تحت الآیۃ : ۲۴ ، ۴ / ۲۳۲ ، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۲۱۲، جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۴۵۱، ملتقطاً)

راہِ خدا میں  مال خرچ کرنے سے بخل کرنے اورنبی اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے اوصاف چھپانے کی مذمت:

            اللہ تعالیٰ کی راہ میں  خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں  کے بارے میں  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ‘‘(سورہ محمد:۳۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں  ہاں  یہ تم ہو جو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں  خرچ کرو تو تم میں  کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب      محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں  گے۔

            اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف چھپانے والوں  کے بارے میں  ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ ‘‘(بقرہ:۱۵۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں  اور ہدایت کو چھپاتے ہیں حالانکہ ہم نے اسے لوگوں  کے لئے کتاب میں  واضح فرمادیا ہے تو ان پر اللہ لعنت فرماتاہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں ۔

            اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ  اِذْ  اَخَذَ  اللّٰهُ  مِیْثَاقَ  الَّذِیْنَ  اُوْتُوا  الْكِتٰبَ  لَتُبَیِّنُنَّهٗ  لِلنَّاسِ   وَ  لَا  تَكْتُمُوْنَهٗ٘-فَنَبَذُوْهُ  وَرَآءَ  ظُهُوْرِهِمْ  وَ  اشْتَرَوْا  بِهٖ  ثَمَنًا  قَلِیْلًاؕ-فَبِئْسَ   مَا  یَشْتَرُوْنَ(۱۸۷)لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَفْرَحُوْنَ  بِمَاۤ  اَتَوْا  وَّ  یُحِبُّوْنَ  اَنْ  یُّحْمَدُوْا  بِمَا  لَمْ  یَفْعَلُوْا  فَلَا  تَحْسَبَنَّهُمْ  بِمَفَازَةٍ  مِّنَ  الْعَذَابِۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  اَلِیْمٌ‘‘(ال عمران:۱۸۷،۱۸۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں  سے عہد لیا جنہیں  کتاب دی گئی کہ تم ضرور اس کتاب کو لوگوں  سے بیان کرنا اوراسے چھپانا نہیں تو انہوں  نے اس عہد کو اپنی  پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلی تو یہ کتنی بری خریداری ہے۔ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں  کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں  اور پسند کرتے ہیں  کہ ان کی ایسے کاموں  پر تعریف کی جائے جو انہوں  نے کئے ہی نہیں ، انہیں  ہرگز عذاب سے دور نہ سمجھو اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

            ان آیات سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں  مال خرچ کرنے سے بخل کرنا،لوگوں  کو بخل کرنے کی ترغیب دینا، یونہی حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف چھپانا اور ان اوصاف کو چھپانے کی ترغیب دینا انتہائی مذموم اعمال ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں  سے محفوظ رکھے ،اٰمین۔

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِۚ-وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سخت لڑائی (کا سامان )ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ اس شخص کودیکھے جو بغیر دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ قوت والا، غالب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ: بیشک ہم نے اپنے رسولوں  کو روشن دلیلوں  کے ساتھ بھیجا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں  کو ان کی امتوں  کی طرف روشن دلیلوں  کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ ان چیزوں  کو نازل فرمایا۔

(1)…دین کے اَحکام اور مسائل بیان کرنے والی کتاب۔

(2)…ترازو۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں ترازو سے مراد عدل ہے۔اس صورت میں  معنی یہ ہے کہ ہم نے عدل کا حکم دیا، اور ایک قول یہ ہے کہ ترازو سے وزن کرنے کا آلہ ہی مراد ہے، اورترازو نازل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ آپس میں  تول کر چیزیں  لینے دینے کے معاملے میں  انصاف پر قائم ہوں  اور کوئی کسی کی حق تَلَفی نہ کرے۔ مروی ہے کہ حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلَام  حضرت نوح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ترازولائے اور فرمایا کہ اپنی قوم کو حکم دیجئے کہ اس سے وزن کریں ۔

 (3)… لوہا۔مفسرین نے فرمایا کہ یہاں آیت میں ’’ اتارنا‘‘ پیدا کرنے کے معنی میں  ہے اورمراد یہ ہے کہ ہم نے لوہا پیدا کیا اور لوگوں کے لئے مَعادِن سے نکالا اور انہیں  اس کی صنعت کا علم دیا ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے چار بابرکت چیزیں  آسمان سے زمین کی طرف اتاریں ، (1)لوہا۔(2) آگ ۔(3)پانی۔(4)نمک۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۱۷۵، الحدیث: ۶۵۶)

            اور لوہے کافائدہ یہ ہے کہ اس میں  ا نتہائی سخت قوت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بنائے جاتے ہیں  اور اس میں  لوگوں  کیلئے اور بھی فائدے ہیں  کہ لوہا صنعتوں  اور دیگر پیشوں میں  بہت کام آتا ہے۔

            آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ لوہا نازل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کودیکھے جوجہاد میں  لوہے کو استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتا ہے حالانکہ ا س نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں  ہوا، بیشک اللہ تعالیٰ قوت والا، غالب ہے ،اس کو کسی کی مدددرکار نہیں  اور دین کی مدد کرنے کا اس نے جو حکم دیا یہ انہیں  لوگوں  کے فائدے کے لئے ہے۔( خازن، الحدید،تحت الآیۃ: ۲۵، ۴ / ۲۳۲، مدارک، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۱۲۱۲، روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۳۷۹-۳۸۰، جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۵۱، ملتقطاً)

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍۚ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی تو ان میں کوئی ہدایت یافتہ ہے اور ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ: اور بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا ۔ } اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو منصبِ رسالت سے مُشَرّف فرمایا اور نبوت اور کتاب ان دونوں  کی اولاد میں  رکھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعدتمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی اولاد سے ہوئے اور چاروں  کتابیں  یعنی توریت ،انجیل ،زبورا ور قرآنِ پاک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں  سے منصب ِرسالت پر فائز ہونے والوں  پر نازل ہوئیں ۔آخر میں  ارشاد فرمایا کہ ان دونوں  رسولوں  کی اولاد میں  سے کچھ لوگ ہدایت یافتہ ہیں  اور ان میں  بہت زیادہ فاسق ہیں ۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۶، ۴ / ۲۳۲، جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۴۵۱، ملتقطاً)

ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﳔ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةًؕ- وَ رَهْبَانِیَّةَ-ﰳابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ-فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْۚ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(27)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر ہم نے ان کے پیچھے ان کے قدموں کے نشانات پر اپنے (مزید)رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروکاروں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور رہبانیت (دنیا سے قطع تعلقی) کو انہوں نے خود ایجاد کیا، ہم نے ان پر یہ مقرر نہ کیا تھا ہاں اللہ کی رضا طلب کرنے کے لیے (انہوں نے یہ بدعت ایجاد کی) پھر اس کی ویسی رعایت نہ کی جیسی رعایت کرنے کا حق تھا تو ان میں ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں ۔

\تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا: پھر ہم نے ان کے پیچھے ان کے قدموں  کے نشانات پر اپنے (مزید)رسول بھیجے۔}  اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے تک یکے بعد دیگرے اپنے مزید رسول بھیجے اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو بھیجا اور انہیں  انجیل عطا فرمائی اور دین میں  ان کی پیروی کرنے والے آپس میں  ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت رکھتے ہیں  اور راہب بننا یعنی پہاڑوں  ،غاروں  اور تنہا مکانوں  میں  خَلْوَت نشین ہونے، صَومَعَہ بنانے، دنیا والوں  سے میل جول ترک کرنے ،عبادتوں میں  اپنے اوپر زائد مشقتیں  بڑھا لینے ، نکاح نہ کرنے، نہایت موٹے کپڑے پہننے اور ادنیٰ غذا انتہائی کم مقدار میں  کھانے کے عمل کو انہوں  نے خود ایجاد کیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ چیزیں  مقرر نہ کی تھیں ، البتہ یہ بدعت انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرنے کیلئے ایجاد کی لیکن پھران کے بعد والے اس کی ویسی رعایت نہ کر سکے جیسی رعایت کرنے کا حق تھا بلکہ اس کو ضائع کردیا اور تَثلیث و اتحاد(یعنی تین خدا ماننے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  خدائی اور انسانیّت کا اتحاد ماننے) میں  مبتلا ہوئے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے کفر کرکے اپنے بادشاہوں  کے دین میں  داخل ہوگئے اور ان میں  سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر قائم اور ثابت بھی رہے اور جب حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک زمانہ پایا تو حضورِ اقدس  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھی ایمان لائے تو ان میں  سے ایمان والوں  کواللہ تعالیٰ نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں  سے بہت سے لوگ جنہوں  نے رہبانیّت کو ترک کیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے مُنْحَرِف ہوگئے ، وہ نافرمان ہیں ۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۲۳۳)

بدعتِ حَسنہ جائز اور بدعتِ سَیِّئہ ممنوع و ناجائز ہے:

         علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں  ’’اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے رہبانیّت اختیار کرنے پر ان کی مذمت نہیں  فرمائی بلکہ اس پر جیسے عمل کرنے کا حق تھا(بعد والوں  کے ) ویسے عمل نہ کرنے پر ان کی مذمت فرمائی ہے اوران کے ایجاد کئے ہوئے فعل کوبدعت کہا گیا اور ان کے بر خلاف اس امت نے جس نئے کام کو نیکی کے طریقے کے طور پر ایجاد کیا ،ان کی عظمت وشرافت کی وجہ سے اسے سنت(یعنی طریقہ)کہا گیا جیساکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً ‘‘ جس نے اسلام میں  اچھی سنت ( طریقہ) ایجاد کیا۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ… الخ، ص۵۰۸، الحدیث: ۶۹(۱۰۱۷))

         اس حدیث میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  اسلام میں  نیک طریقے نکالنے کی اجازت دی ہے اور اس کا نام سنت رکھا ہے اور ا س طریقے کو نکالنے والوں  اور اس طریقے پر عمل کرنے والوں  کو اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔( روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۳۸۴)

         ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے تو جو اچھی بدعت نکالے اسے چاہئے کہ وہ اس پر ہمیشہ قائم رہے اور ا س کی ضد(یعنی مخالف چیز) کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت(میں  مذکور فسق) کی وعید میں  داخل ہو گا۔ (جبکہ وہ مخالفت شریعت کے برخلاف ہو۔)( تفسیر قرطبی، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۱۹۳، الجزء السابع عشر)

         حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدعت یعنی دین میں  کسی بات کا نکالنا اگر وہ بات نیک ہو اور اس سے رضائے الٰہی مقصود ہو تو بہتر ہے اس پر ثواب ملتا ہے اور اس کو جاری رکھنا چاہیے ،ایسی بدعت کو بدعتِ حَسنہ کہتے ہیں  البتہ دین میں  بری بات نکالنا بدعتِ سَیِّئہ کہلاتا ہے، وہ ممنوع اور ناجائز ہے اور بدعتِ سَیِّئہ حدیث شریف میں  وہ بتائی گئی ہے جو خلافِ سنت ہو، اس کے نکالنے سے کوئی سنت اُٹھ جائے ۔اس سے ہزار ہا مسائل کا فیصلہ ہوجاتا ہے جن میں  آج کل لوگ اختلاف کرتے ہیں  اور اپنی ہوائے نفسانی سے ایسے اُمورِخیر کو بدعت بتا کر منع کرتے ہیں  جن سے دین کی تَقْوِیَت و تائید ہوتی ہے اور مسلمانوں  کو اُخروی فوائد پہنچتے ہیں  اور وہ طاعات و عبادات میں  ذوق و شوق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں  ،ایسے اُمور کو بدعت بتانا قرآنِ مجید کی اس آیت کے صریح خلاف ہے۔(خزائن العرفان، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۹۹)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان لانے والو!اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تووہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور وہ تمہارے لیے ایک ایسا نور کردے گا جس کے ذریعے تم چلو گے اور وہ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ: اے ایمان لانے والو!اللہ سے ڈرو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والو! رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں  دگنا اجر دے گا کیونکہ تم پہلی کتاب اور پہلے نبی پر بھی ایمان لائے او رنبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآنِ پاک پر بھی ایمان لائے اور وہ قیامت کے دن تمہارے لیے پل صراط پر ایک ایسا نور کردے گا جس (کی روشنی) کے ذریعے تم چلو گے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے پہلے کے تمہارے سب گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔( خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۲۳۴)

اہلِ کتاب میں  سے ایمان لانے والوں  کے لئے دُگنا اجر:

         اس آیت کی نظیر یہ آیت ِمبارکہ ہے

’’ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ(۵۲)وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ(۵۳)اُولٰٓىٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا ‘‘(قصص:۵۲-۵۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جن لوگوں  کو ہم نے اس(قرآن) سے پہلے کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ۔اور جب ان پر یہ آیات پڑھی جاتی ہیں  توکہتے ہیں : ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی ہمارے رب کے پا س سے حق ہے۔ ہم اس  (قرآن )سے پہلے ہی فرمانبردار ہو چکے تھے۔ان کو ان کا اجر دُگنا دیا جائے گاکیونکہ انہوں  نے صبر کیا۔

اورحضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تین آدمیوں  کے لئے دگنا اجر ہے۔(1)اہلِ کتاب میں  سے وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر (بھی) ایمان لایا۔(2)وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق بجا لائے اور اپنے مالکوں  کے حقوق (بھی) پورے کرے۔(3)وہ آدمی جس کے پاس لونڈی ہو تو وہ اس سے وطی کرے اوراسے تہذیب و تعلیم کے زیور سے خوب آراستہ کرے ،پھر اسے آزاد کرنے کے بعد ا س کے ساتھ نکاح کر لے تو اس کے لئے دُگنا ثواب ہے۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، الفصل الاول، ۱ / ۲۳، الجزء الاول، الحدیث: ۱۱)

لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ اہل ِکتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے اور یہ کہ سارا فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ: تاکہ اہلِ کتاب جان لیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب اوپر والی آیت نازل ہوئی اور اس میں  اہل ِکتاب میں  سے مومنین کوسرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوپر ایمان لانے پر دگنے اجر کا وعدہ دیا گیا تو اہل ِکتاب میں  سے کفار نے کہا’’ اگر ہم حضورِ اقدس  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں  تو ہمیں  دگنا اجر ملے گا اور اگر ایمان نہ لائیں  تو ہمارے لئے ایک اجر جب بھی رہے گا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اُن کے اس خیال کو رد کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کو آخری نبی پر ایمان لانے کا حکم اس لئے دیا ہے تاکہ اہلِ کتاب جان لیں  کہ محمدمصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے بغیروہ اللہ تعالیٰ کے فضل یعنی دُگنے اجر، نور اور مغفرت میں  سے کچھ نہیں پاسکتے کیونکہ جب وہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں  لائے تو ان کا پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا بھی ان کے لئے مفید نہ ہوگا،اور وہ یہ بھی جان لیں  کہ سارافضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے ،وہ اپنے بندوں  میں  سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے کیونکہ وہ قادر اور مختار ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔(خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۲۳۴)



Scroll to Top