سُوْرَۃ الرَّحْمَٰن
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓرٰ- -تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
’’الر‘‘، یہ کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔
تفسیر: صراط الجنان
{الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{تِلْكَ:یہ۔} اس آیت میں ’’ تِلْكَ‘‘ سے ا س سورت کی آیتوں کی طرف اشارہ ہے اور کتاب اور قرآن مبین سے وہ کتاب مراد ہے جس (کو نازل کرنے)کا اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ فرمایا ہے۔( تفسیر کبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۱۱۶)
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
کافر بہت آرزوئیں کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کافر بہت آرزوئیں کریں گے ۔}کفار کی ان آرزؤں کے وقت کے بارے میں بعض مفسرین کاقول یہ ہے کہ نَزع کے وقت جب کافر عذاب دیکھے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ گمراہی پر تھا، اس وقت کافر یہ آرزو کرے گا کہ کاش! وہ مسلمان ہوتا، لیکن اس وقت یہ آرزو کافر کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ بعض مفسرین کے نزدیک آخرت میں قیامت کے دن کی سختیاں، ہولناکیاں ،اپنا دردناک انجام اور برا ٹھکانہ دیکھ کر کفار یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ زجاج کا قول ہے کہ کافر جب کبھی اپنے عذاب کے احوال اور مسلمانوں پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت دیکھیں گے توہر مرتبہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے۔ مفسرین کا مشہور قول یہ ہے کہ جب گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکالا جا رہا ہو گا تو اس وقت کفار یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۹۳-۹۴)
اس مشہور قول کی تائید اس حدیثِ پاک سے بھی ہوتی ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب جہنم والے جہنم میں جمع ہوں گے اور ان کے ساتھ وہ مسلمان بھی ہو ں گے جو مَشِیَّت ِ الہٰی سے وہاں ہوں گے تو کفار (مسلمانوں کوعار دلاتے ہوئے) کہیں گے ’’تمہارے اسلام نے تم سے کون سا عذاب دور کر دیا ہے؟تم بھی تو ہمارے ساتھ جہنم میں آ گئے ہو۔ مسلمان کہیں گے ’’ہمارے گناہ تھے جن کی وجہ سے ہماری گرفت کی گئی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی باتیں سن کر حکم فرمائے گا’’جو مسلمان جہنم میں ہیں انہیں جہنم سے نکال لو۔ چنانچہ جب مسلمانوں کو جہنم سے نکالا جا رہا ہوگا تو اس وقت کفار حسرت سے یہ کہیں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے تو جس طرح انہیں جہنم سے نکال لیا گیا ہے اسی طرح ہمیں بھی جہنم سے نکال لیا جاتا۔ اس کے بعد رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں
’’ الٓرٰ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱)رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: الٓرٰ،یہ کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔ کافر بہت آرزوئیں کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تواضعہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ۲ / ۶۲۱، الحدیث: ۳۰۰۸)
قیامت کے دن کافر اور نیک مسلمان کی آرزو:
قیامت کے دن کافر تو اپنے مسلمان ہونے کی آرزو اور نہ ہونے پر حسرت و افسوس کریں گے جبکہ نیک مسلمان کا حال یہ ہو گا کہ اگر بالفرض کوئی شخص پیدا ہوتے ہی عبادات میں ایسے مشغول ہوجائے کہ کبھی کوئی کام نفس کے لیے نہ کرے اور اسی حال میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو وہ یہی کہے گا کہ میں نے کچھ نہ کیا، ا ور موقعہ ملتا تو اور کچھ کرلیتا ، کاش مجھے عبادات اور ریاضات کے لیے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ میرے اجر میں مزید اضافہ ہو جائے ،چنانچہ حضرت محمد بن ابو عمیرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے دن سے اپنے چہرے کے بل گر جائے حتّٰی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو اُس دن اِس عبادت کو حقیر سمجھے گا اور تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹایا جائے تاکہ وہ اجرو ثواب اور زیادہ کرے ۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عتبۃ بن عبد السلمی ابی الولید، ۶ / ۲۰۳، الحدیث: ۱۷۶۶۷) لیکن کافر و مسلمان کی یہاں بیان کردہ تمنا میں فرق یہ ہے کہ کافر کی تمنا پرلے درجے کی حسرت کی وجہ سے ہے جبکہ مومن کی تمنا مزید قرب ِ الہٰی کے حصول کیلئے ہے۔
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم چھوڑ دوانہیں کہ کھائیں اورمزے اڑائیں اورا مید انہیں غفلت میں ڈالے رکھے تو جلد وہ جان لیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذَرْهُمْ:انہیں چھوڑدو۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں ، اس دنیا میں جتنا انہوں نے کھانا ہے کھا لیں اور اس دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کے اس وقت تک مزے اڑا لیں جو میں نے ان کے لئے مقرر کر دیا ہے۔ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کی لمبی امید نے انہیں ایمان، اطاعت ِ الٰہی اور قرب ِ الٰہی تک لے جانے والے اعمال سے غافل کیا ہوا ہے ۔ عنقریب جب وہ قیامت کے دن اپنے کفر وشرک کے عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو خود جان جائیں گے کہ دنیا کی زندگی میں لذتوں اور شہوتوں میں مشغول رہ کروہ کتنے بڑے نقصان اور خسارے کا شکار ہو گئے۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۴۹۲، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۹۴، ملتقطاً)
لمبی امید کی حقیقت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذّاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہوجانا ایماندار کی شان نہیں ۔ یاد رہے کہ لمبی امید کی حقیقت میں یہ دوچیزیں داخل ہیں : (1) دنیا کی حرص اور اس پر اوندھے منہ گر جانا۔ (2) دنیا سے محبت کرنا اور آخرت سے اعراض کرنا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ص۵۷۷، قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۳، ۵ / ۴، الجزء العاشر، ملتقطاً)
لمبی امید رکھنے کی مذمت
کثیر احادیث میں لمبی امیدیں رکھنے اور دنیا کی طلب میں مشغول ہوجانے کی مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4 اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔
(1)… حرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑے بوڑھے کا دل بھی دو باتوں میں ہمیشہ جوان رہتا ہے (1) دنیا کی محبت میں ۔ (2) امیدوں کی درازی میں ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستّین سنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۴۲۰)
(2)… حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ’’ خدا کی قسم! مجھے تمہاری مُفلسی کا کوئی ڈر نہیں ہے بلکہ تمہارے بارے میں ڈر یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم اس کے ساتھ ایسا ہی پیار کرنے لگو جیسا پہلے لوگوں نے اس کے ساتھ کیا اور یوں تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسے پہلے لوگوں کو اس نے ہلاک کر دیا۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۳، الحدیث: ۶(۲۹۶۱))
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر و رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کی وجہ سے نجات پا گئے جبکہ ا س امت کے آخری لوگ بخل اور (لمبی) امید کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۱ الحدیث: ۷۳۸۰، الجزء الثالث)
(4)…حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے اپنی امت پر دو باتوں کا زیادہ خوف ہے ۔ (1) خواہشات کی پیروی کرنا۔(2) لمبی امید رکھنا۔ کیونکہ خواہشات کی پیروی کرنا حق سے روکتا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں ۔ یہ دنیا پیٹھ پھیر کر چلی جانے والی اور آخرت پیش آنے والی ہے،ان دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں ، اگر تمہیں دنیا کے بیٹے نہ بننے کی اِستطاعت ہو تو دنیا کے بیٹے نہ بننا کیونکہ تم آج عمل کرنے کی جگہ میں ہو اور (یہاں ) حساب نہیں لیکن کل تم حساب دینے کی جگہ میں ہو گے اور (وہاں ) عمل نہیں ہو گا۔ (شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۰، الحدیث: ۱۰۶۱۶)وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا وَ لَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ(4)مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا یَسْتَاْخِرُوْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے جو بستی ہلاک کی اس کیلئے ایک مقرر مدت لکھی ہوئی ہے۔ کو ئی گروہ اپنی مدت سے نہ آگے بڑھے گااورنہ پیچھے ہٹے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ:اور ہم نے جو بستی ہلاک کی۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ سے پہلے جن بستیوں کے باشندوں کو ہم نے ہلاک کیا ان کے لئے ایک مُعَیّن وقت لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا تھا، ہم نے انہیں وہ وقت آنے سے پہلے ہلاک نہیں کیا اور جب وہ وقت آ گیا تو ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اسی طرح مکہ کے مشرکوں کو بھی ہم اسی وقت ہلاک کریں گے جب ان کا لکھا ہوا معین وقت آ جائے گا کیونکہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں معین وقت آنے سے پہلے کسی بستی کے باشندوں کو ہلاک نہیں فرماتا۔ (تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۴، ۷ / ۴۹۲، ملخصاً)
{مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا:کو ئی گروہ اپنی مدت سے نہ آگے بڑھے گا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جس گروہ کی ہلاکت کا جو وقت معین کر دیا ہے وہ اسی وقت میں ہلاک ہو گا،اس معین وقت سے کوئی گروہ نہ آگے بڑھ سکے گا نہ پیچھے ہٹ سکے گا۔ (تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۴۹۲)
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌﭤ(6)لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے کہا: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے! بیشک تم مجنون ہو۔ اگر تم سچے ہو توہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا:اور کافروں نے کہا۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا تھااور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے متعلق کفار کے شبہات ذکر کر کے ان کے جوابات دئیے ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶، ۷ / ۱۲۱، ملخصاً)
کفارِ مکہ کے ایک اعتراض کی وجوہات:
مکہ کے مشرکین ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑاتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عموماً لوگ جب کسی سے عجیب و غریب کلام سنتے ہیں جو ان کی عقل میں نہ آئے تو وہ اس قائل کومجنون سمجھتے ہیں ، یہی حال مکہ کے مشرکین کا تھا کیونکہ جب سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت، اپنی رسالت ، قرآن کی حقانیت اور قیامت کے وقوع کی خبر دی تو یہ ان کیلئے نہایت تعجب انگیز تھی ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں یہ تعجب کہ ایک انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے اور قیامت کے بارے میں یہ کہ گلی سڑی ہڈیاں کیسے دوبارہ زندہ ہوسکتی ہیں اور اسی طرح توحید اور قرآن کے بارے میں ان کے شبہات تھے۔ نیز یہ کلام بطورِ تَمَسخُر بھی تھا اور انجان لوگوں کو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دور کرنے کیلئے پروپیگنڈا بھی تھا۔
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پیارے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کفار کا جنون کی نسبت کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ پہلے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی اس طرح ہوتا رہا ہے ، جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں فرعون نے بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مجنون کہا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(الشعراء:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(فرعون نے)کہا: بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے۔
یونہی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مجنون کہا تھا، قرآنِ مجید میں ہے
’’ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ‘‘(القمر:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کوجھڑکا گیا۔
بلکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے رسول تشریف لائے سب کو ان کی قوموں نے جادو گر یا دیوانہ کہا تھا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’ كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ‘‘(الذاریات:۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یونہی جب ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو وہ یہی بولے کہ (یہ)جادوگر ہے یا دیوانہ۔
{لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓىٕكَةِ:ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے؟} کفارِ مکہ نے حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا ’’ اگر آپ اپنی ا س بات میں سچے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر ہماری طرف مبعوث فرمایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتاب نازل فرمائی ہے تو پھر آپ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتے تاکہ وہ آپ کے دعوے کی سچائی پر گواہی دیں کیونکہ جب اللّٰہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے تو آپ کی نبوت کو ثابت کرنے کیلئے فرشتہ بھی بھیج سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے اس شبہ کا جو جواب دیا وہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔
مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَا كَانُـوْۤا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم فرشتوں کو حق فیصلے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور جب وہ اترتے ہیں تو لوگوں کومہلت نہیں دی جاتی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ:ہم فرشتوں کو حق فیصلے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں ۔}ا س آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے معاملے میں قانون یہ ہے کہ وہ فرشتوں کو ان لوگوں پر ظاہر فرماتا ہے جن کی طرف اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہو یا جن پر عذاب نازل کرنا مقصود ہو، اگر ان مشرکین کے مطالبے کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ ان کی طرف حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ نشانی کے طور پر فرشتہ بھیج دیتا اور اس کے بعد بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہتے تو پھر انہیں مہلت ملتی، نہ ان سے عذاب مؤخر کیا جاتا بلکہ سابقہ قوموں کی طرح یہ بھی اسی وقت عذاب میں گرفتار کردیئے جاتے لیکن چونکہ یہ امت قیامت تک باقی رہے گی، اسی میں بہت سے لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اس لئے کفارکایہ مطالبہ منظور نہ کیا گیا۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸، ۳ / ۱۰۳۶، تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۸، ۷ / ۴۹۳، ملتقطاً)
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ:بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے۔} اس آیت میں کفار کے اس قول’’اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم خود تحریف ، تبدیلی ، زیادتی اور کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ۔‘‘
قرآنِ مجید کی حفاظت
یاد رہے کہ تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ قرآنِ کریم میں سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے، دوسری کسی کتاب کو یہ بات مُیَسّر نہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ حفاظت کئی طرح سے ہے
(1)… قرآنِ کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے۔
(2)… اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو۔
(3)… ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۹۵، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۱۲۳، ملتقطاً)
تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی نے قرآن کے نور کوبجھانے ، اس میں کمی زیادتی ،تحریف اور تبدیلی کرنے یا اس کے حروف میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کی بھی تو وہ کامیاب نہ سکا۔ قَرَامِطَہْ کے مُلحد اور گمراہ لوگ سینکڑوں سال تک اپنے تمام تر مکر ،دھوکے اور قوتیں صرف کرنے کے باوجود قرآن کے نور کو تھوڑا سا بھی بجھانے پر قادر نہ ہو سکے ،اس کے کلام میں ذرا سی بھی تبدیلی کر سکے نہ ہی اس کے حروف میں سے کسی ایک حرف کے بارے میں مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال سکے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں اہلِ بیان،علمِ لسان کے ماہرین ، ائمہ بلاغت، کلام کے شہسوار اور کامل اساتذہ موجود رہے، یونہی ہر زمانے میں بکثرت ملحدین اور دین و شریعت کے دشمن ہر وقت قرآنِ عظیم کی مخالفت پر تیار رہے مگر ان میں سے کوئی بھی اس مقدس کلام پر اثر انداز نہ ہو سکا اور کوئی ایک بھی قرآنِ حکیم جیسا کلام نہ لا سکا اور نہ ہی وہ کسی آیتِ قرآنی پر صحیح اِعتراض کر سکا ۔
یہاں قرآنِ مجید کی حفاظت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت یحییٰ بن اَکثَم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس ، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی ۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا، چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی،ا س کے بعدمیں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں نسخے خرید لئے۔پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔ جب میں یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے بھی وہ نسخے خرید لئے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی ۔ جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ا ن نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔اس سے میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا۔ (قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹، ۵ / ۶، الجزء العاشر، ملخصاً)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ(10)وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(11)كَذٰلِكَ نَسْلُكُهٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(12)لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ قَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے گزشتہ امتوں میں رسول بھیجے۔ اور ان کے پاس جو بھی رسول آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ایسے ہی ہم اس ہنسی کو ان مجرموں کے دلوں میں ڈالتے ہیں ۔ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ پہلے لوگوں کا طریقہ گزر چکا ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ:اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کفارِ مکہ نے سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جاہلانہ باتیں کیں اور بے ادبی کرتے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مجنون کہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’آپ سے پہلے سابقہ امتوں میں ہم نے رسول بھیجے اور ان لوگوں کے پاس جو بھی رسول آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ کفار کی اپنے انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ یہ روش سابقہ زمانوں سے چلی آ رہی ہے ،لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ بھی دیگر انبیاء ومرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح اپنی قوم کی اَذِیّتوں پر صبر فرمائیں ۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۹۶)
{كَذٰلِكَ:ایسے ہی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے سابقہ امتوں کے دلوں میں کفر،تکذیب اور اِستہزاء داخل کر دیا تھا ایسے ہی مکہ کے مشرکین کے دلوں میں بھی داخل کر دیا ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۹۶)
{لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ:وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔} یعنی وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا قرآن پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ پہلے لوگوں کا طریقہ گزر چکا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرکے عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوتے رہے ہیں ،یہی حال ان کفارِ مکہ کا ہے تو انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۹۶، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۱۱، ملتقطاً)
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَ(14)لَقَالُـوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے تاکہ دن کے وقت اس میں چڑھ جاتے۔ جب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری نگاہوں کو بند کردیا گیا ہے بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کیا ہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ:اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ کا عناد اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ان کے لئے آسمان میں دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں اس میں چڑھنا مُیَسّر ہو اور دن میں اس سے گزریں اور آنکھوں سے دیکھیں جب بھی نہ مانیں گے اور یہ کہہ دیں گے کہ ہماری نظر بندی کی گئی اور ہم پر جادو ہوا تو جب خود اپنے معائنہ سے انہیں یقین حاصل نہ ہوا تو ملائکہ کے آنے اور گواہی دینے سے جس کو یہ طلب کرتے ہیں انہیں کیا فائدہ ہوگا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۵۷۹، ملخصاً)
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنائے اور اسے دیکھنے والو ں کے لیے آراستہ کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا:اور بیشک ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنائے۔} یہ برج سات سیاروں کی منزلیں ہیں اور ان برجوں کی تعداد بارہ ہے۔ (1) حَمْل۔ (2) ثَوْر۔ (3) جَوْزَاء۔ (4) سَرَطَانْ۔ (5) اَسَد۔ (6) سُنْبُلَہ۔ (7) میزان۔ (8) عَقْرَب۔ (9) قَوس۔ (10) جَدْی ۔ (11) دَلْو۔ (12) حُوْت۔ مِرِّیخْ کے برج حَمْل اور عَقْرَب ہیں ، زُہْرَہ کے ثَوْر اور میزان، عُطَارِدْ کے جَوْزَاء اور سُنْبُلَہ، چاند کا سَرَطَانْ، سورج کا اسد، مشتری کے قوس اور حُوت اور زُحَل کے جَدْی اور دَلْو ہیں ۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۲۱۲)
{وَ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ:اور اسے دیکھنے والو ں کے لیے آراستہ کیا۔} یعنی ہم نے آسمان کو سورج ، چاند اور ستاروں سے آراستہ کیا تاکہ غورو فکر کرنے والے اس سے اللّٰہ تعالیٰ کے واحد اور خالق ہونے پر اِستدلال کریں اور جان لیں کہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور اسے شکل و صورت عطا کرنے والا صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۹۷)
وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(17)اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ۔ البتہ جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ حَفِظْنٰهَا:اور اسے ہم نے محفوظ رکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کو ہر مردود اور لعین شیطان سے محفوظ رکھا ہے لیکن جو شیطان آسمانوں میں ہونے والی گفتگو چوری کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں تو ان کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑ جاتا ہے۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۷ / ۴۹۹)
آسمان میں داخل ہونے سے شیطانوں کو روک دیا گیا
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ’’ شَیاطین آسمانوں میں داخل ہوتے تھے اور وہاں کی خبریں کاہنوں کے پاس لاتے تھے ، جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں سے روک دیئے گئے اور جب سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں سے منع کردیئے گئے۔ اس کے بعد ان میں سے جب کوئی باتیں چوری کرنے کے ارادے سے اوپر چڑھتا تو اسے شِہاب کے ذریعے مارا جاتا۔ شیطانوں نے یہ صورت ِحال ابلیس کے سامنے بیان کی تو ا س نے کہا: ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے۔ پھر ابلیس نے شیطانوں کو معلومات کرنے کے لئے بھیجا تو ایک جگہ انہوں نے دیکھا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر وہ بول اٹھے ’’خدا کی قسم یہی وہ نئی بات ہے۔‘‘ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۹۷)
{فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ:تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔} شہاب اس ستارے کو کہتے ہیں جو شعلے کی طرح روشن ہوتا ہے اور فرشتے اس سے شیاطین کو مارتے ہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۹۷، ملخصاً)
شیطانوں کوشہابِ ثاقب لگنے سے متعلق دو اَحادیث:
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ آسمانی فرشتوں کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ عاجزی کی وجہ سے اپنے پَرمارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر کو صاف پتھر پر مارا جائے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ اس حکم کو نافذ فرما دیتا ہے ۔ جب ان کے دلوں سے کچھ خوف دور ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا ؟وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جو فرمایا وہ حق فرمایا اور وہی بلند و بر تر ہے ۔پھر بات چرانے والے شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں اور چوری چھپے سننے کے لئے شیطان یوں اوپر نیچے رہتے ہیں ، چنانچہ سفیان نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو کھول کر اوپر نیچے کر کے دکھایا۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ سننے والے شیطان کو چنگاری جا لگتی ہے اور وہ جل جاتا ہے ا س سے پہلے کہ وہ یہ بات اپنے ساتھ والے کو بتائے اور بعض اوقات چنگاری لگنے سے پہلے وہ اپنے نزدیک والے شیطان کو جو اس کے نیچے ہوتا ہے، بتا چکا ہوتا ہے اورا س طرح وہ بات زمین تک پہنچا دی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر کے منہ میں ڈالی جاتی ہے ،پھر وہ جادو گر ایک کے ساتھ سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتا ہے، اس پر لوگ اس کی تصدیق کر کے کہنے لگتے ہیں کہ کیا اس نے فلاں روز ہمیں نہیں بتایا تھا کہ فلاں بات یوں ہو گی چنانچہ ہم نے اس کی بات کو درست پایا حالانکہ یہ وہی بات تھی جو آسمان سے چوری چھپے سنی گئی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الحجر، باب الاّ من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین، ۳ / ۲۵۴، الحدیث: ۴۷۰۱)
(2)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں مجھے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بتایا کہ ہم ایک رات رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیٹھے تھے، ایک تارا ٹوٹا، اور روشنی پھیل گئی تو ہم سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب اس جیسا تارا ٹوٹتا تھا تو تم کیا کہتے تھے ؟ہم نے عرض کی ’’ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوب جانتے ہیں ۔ ہم تو یہ کہتے تھے کہ آج رات یا تو کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا یا کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ تارے نہ تو کسی کی موت کے لیے مارے جاتے ہیں نہ کسی کی زندگی کیلئے لیکن ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ کہ اس کا نام مبارک اور بلندہے ، جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو عرش اٹھانے والے تسبیح کرتے ہیں ، پھر آسمان والوں میں سے جو ان کے قریب ہیں وہ تسبیح کرتے ہیں حتّٰی کہ تسبیح کا یہ سلسلہ اس دنیا کے آسمان والے فرشتوں تک پہنچ جاتا ہے ، پھر عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب والے ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں خبر دیتے ہیں ۔ پھر بعض آسمان والے بعض سے خبریں پوچھتے ہیں حتّٰی کہ اس آسمانِ دنیا تک خبر پہنچ جاتی ہے تو جِنّات ان سنی ہوئی باتوں کو اچک لیتے ہیں اور اپنے دوستوں تک پہنچا دیتے ہیں ، (ان میں سے بعض) مار دیئے جاتے ہیں ۔پھر کاہن جو کچھ اس کے مطابق کہتے ہیں وہ تو کچھ درست ہوتا ہے لیکن وہ تو اس میں جھوٹ ملادیتے ہیں اور بڑھا دیتے ہیں ۔ (مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان، ص۱۲۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۲۲۲۹))
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور ہم نے اس میں لنگر ڈال دئیے اور اس میں ہر چیز ایک معین اندازےسے اگائی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا:اور ہم نے زمین کو پھیلایا۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیان میں آسمانی دلائل دئیے گئے اور اب یہاں سے زمینی دلائل دئیے جا رہے ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین کو پھیلایا اور ہم نے اس میں مضبوط پہاڑوں کے لنگر ڈال دئیے تاکہ وہ زمین والوں کے ساتھ حرکت نہ کرے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۱۳۰، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۲۱۲، ملتقطاً)
زمین میں مضبوط لنگر ڈالنے سے متعلق ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِیْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ‘‘(انبیاء:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں ہم نے مضبوط لنگر ڈال دئیے تاکہ لوگوں کو لے کر حرکت نہ کرتی رہے اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راستہ پالیں ۔
اور اسی آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’جب اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کی سطح پر پھیلایا تو یہ اپنے اوپر موجود چیزوں کے ساتھ ایک طرف ایسے جھک گئی جیسے کشتی جھکتی ہے، پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے مضبوط پہاڑوں کے ذریعے ا س طرح ٹھہرا دیا جیسے کشتی کو لنگر ڈال کر ٹھہرایا جاتا ہے۔ (روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۱، ۵ / ۴۷۲)
{وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ:اور اس میں ہر چیز ایک معین اندازے سے اگائی۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے (زمین میں ) ہر چیز لوگوں کی ضروریات کے مطابق اندازے سے پیدا فرمائی کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ وہ مقدار جانتا ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اور وہ ا س سے نفع حاصل کر سکتے ہوں اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے زمین میں اسی مقدار کے مطابق نباتات پیدا فرمائیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ لفظ ’’ مَوْزُوْنٍ‘‘ حسن اور تَناسُب سے کِنایہ ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے زمین میں ہر چیز مناسب اگائی، عقلِ سلیم رکھنے والا ہر شخص اسے بہترین اور مصلحت کے مطابق سمجھتا ہے۔ آیت میں مذکور لفظ’’ مَوْزُوْنٍ‘‘ کی اس کے علاوہ اور تفاسیر بھی ہیں ۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۱۳۱-۱۳۲، ملخصاً)
وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِیْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے اور وہ جاندار بنائے جنہیں تم رزق نہیں دیتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ:اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے۔}ا س آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لئے زمین میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے اور تمہارے لئے وہ جاندار پیدا کئے جنہیں تم رزق نہیں دیتے بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ رزق دیتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اور ان جانداروں کے لئے زمین میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے جنہیں تم رزق نہیں دیتے ۔ یہ دو مفہوموں پر فرق اصل میں عربی گرامر کے اعتبار سے ہے۔ آیت میں ’’زندگی گزارنے کے سامان‘‘ سے کھانے ، پینے اور پہننے کی وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی دنیوی زندگی پوری ہونے تک انسان کو ضرورت ہے۔ اور ’’جنہیں تم رزق نہیں دیتے‘‘ میں اہل و عیال، لونڈی غلام ، خدمت گار ، چوپائے اور حشراتُ الارض داخل ہیں ،ان کے بارے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انہیں رزق دیتے ہیں ، یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہی اِنہیں اور اُنہیں سب کو رزق دیتا ہے۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۵۸۰، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۹۹، ملتقطاً)
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم اسے ایک معلوم اندازے سے ہی اتارتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ:اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں ۔} اس آیت میں شے سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ممکن ہو اور خزانے سے مراد قدرت اور اختیار ہے۔آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تمام مُمکِنات اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت داخل اور اس کی مِلک میں ہیں ، وہ انہیں جیسے چاہے عدم سے وجود میں لے آئے اور ممکنات میں سے جس چیز کو اللّٰہ تعالیٰ وجود عطا فرماتا ہے اسے اپنی حکمت اور مَشِیّت کے تقاضے کے مطابق مُعَیّن مقدار کے ساتھ وجود عطا فرماتا ہے۔ (ابو سعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۲۲۰، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۷ / ۱۳۴، ملتقطاً)
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُۚ-وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ(22)وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ہوائیں بھیجیں جو بادلوں کوپانی سے بھر دیتی ہیں تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے وہ تمہیں پینے کو دیا اور تم اس کے خزانچی نہیں ہو۔ اور بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ:اور ہم نے ہوائیں بھیجیں ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بادلوں میں پانی پیدا کرنے اور ان سے بارش نازل کر کے تمہیں سیراب کرنے پر صرف اللّٰہ تعالیٰ قادر ہے ،اس کے سوا اور کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں ۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور بندوں کے عاجز ہونے پر عظیم دلیل ہے۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۸۰، ملخصاً)
{وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ:اور بیشک ہم ہی زندہ کرتے ہیں ۔} یعنی مخلوق کو زندگی اور موت عطا کرنا صرف ہمارے ہی دستِ قدرت میں ہیں اورتمام مخلوق فنا ہونے والی ہے اور ہم ہی باقی رہنے والے ہیں اور مُلک کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں کی ملکیت ضائع ہوجائے گی اور سب مالکوں کا مالک یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ باقی رہے گا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۰۰)
وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم تم میں سے آگے بڑھنے والوں کو بھی جانتے ہیں اوربیشک ہم پیچھے رہنے والوں کو بھی جانتے ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ عَلِمْنَا:اور بیشک ہم جانتے ہیں ۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیاہے اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں ابھی پیدا نہیں فرمایا۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے مراد سابقہ امتیں ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے سیدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت مراد ہے۔ حسن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت کرنے والے ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ان کاموں میں (سستی کی وجہ سے) پیچھے رہ جانے والے ہیں ۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ اَلْمُسْتَقْدِمِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو صفِ اوّل میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنے والے ہیں اور اَلْمُسْتَاْخِرِیْنَسے وہ لوگ مراد ہیں جو عذر کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے ہیں ۔ شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کی صفِ اول کے فضائل بیان فرمائے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم صفِ اول حاصل کرنے کی بہت کوشش کرنے لگے اور ان کا ازدحام ہونے لگا اور جن حضرات کے مکان مسجد شریف سے دور تھے وہ اپنے مکان بیچ کر مسجد کے قریب مکان خریدنے پر آمادہ ہوگئے تاکہ صفِ اول میں جگہ ملنے سے کبھی محروم نہ ہوں ۔ اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں تسلی دی گئی کہ ثواب نیتوں پر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اگلوں کو بھی جانتا ہے اور جو عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں اُن کوبھی جانتا ہے اور اُن کی نیتوں سے بھی خبردار ہے اور اس پر کچھ مخفی نہیں ۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۰۰، ملخصاً)
پہلی صف میں نماز پڑھنے کے فضائل:
اس آیت کے شانِ نزول سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کا اتنا جذبہ اور شوق رکھتے تھے کہ پہلی صف کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر اپنے مکانات تک بیچنے پر آمادہ ہو گئے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کی پہلی صف کی بہت فضیلت ہے۔ ترغیب کے لئے ہم یہاں پہلی صف میں نماز پڑھنے کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ذکر کرتے ہیں ۔
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں بیٹھنے کا کتنا اجر ہے اور انہیں قرعہ اندازی کرنے کے سوا ان کاموں کا موقع نہ ملے تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں گے۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲ / ۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۹)
(2)…حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ، ۱ / ۲۳۰، الحدیث: ۵۵۴)
(3)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں ۔ لوگوں نے عرض کی :اور دوسری صف پر۔ ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں ۔ لوگوں نے عرض کی :اور دوسری پر۔ ارشاد فرمایا: ’’اور دوسری پر (بھی)۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۲۳۲۶)
(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ہمیشہ صفِ اوّل سے لوگ پیچھے ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں (اپنی رحمت سے )مُؤخّر کرکے نار میں ڈال دے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب صفّ النساء وکراہیۃ التأخّر عن الصف الاول، ۱ / ۲۶۹، الحدیث: ۶۷۹)
وَ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْؕ-اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک تمہارا رب ہی انہیں اٹھائے گا بیشک وہی علم والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ:اور بیشک تمہارا رب ہی انہیں اٹھائے گا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ سب لوگوں پرموت طاری فرمائے گا پھر اوّلین و آخرین سب لوگوں کو قیامت میں اسی حال پر اٹھائے گا جس پر وہ مرے ہوں گے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۰۰۔) حدیث پاک میں بھی یہ چیز بیان کی گئی ہے چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر بندہ اسی حال پر اٹھایا جائے گا جس پر اسے موت آئی ہو گی۔(مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الامر بحسن الظنّ باللّٰہ تعالی عند الموت: ص۱۵۳۸، الحدیث: ۸۳ (۲۸۷۸))
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ:اور بیشک ہم نے انسان بنایا۔} اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی کیفیت کاذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں مختلف اندازسے کیا گیا ہے، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشت خاک لی، پھر اس مٹی کو پانی سے تر کیا، یہاں تک کہ وہ سیاہ گارا ہوگئی اور اُس میں بو پیدا ہوئی، پھر اس سیاہ رنگ اور بو والی مٹی سے انسان کی صورت بنائی، جب وہ سوکھ کر خشک ہوگئی تو جس وقت ہوا اس میں سے گزرتی تو وہ بجتی اور اس میں آواز پیدا ہوتی۔ جب سورج کی تپش سے وہ پختہ ہوگئی تو اس میں روح پھونکی اور وہ انسان بن گیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۰۰-۱۰۱، ملخصاً)
وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اس سے پہلے جن کو بغیر دھویں والی آگ سے پیدا کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْجَآنَّ :اور جن کو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس آیت میں ’’ اَلْجَآنَّ ‘‘ سے ابلیس مراد ہے ۔ یہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے پیدا کیا گیا ،جب ا بلیس کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش ہوئی تو ابلیس نے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنے والے مقام و مرتبہ کی بنا پر ان سے حسد کیا اور کہا میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے ۔ (تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۵۱۳)
نوٹ:یاد رہے کہ ’’ اَلْجَآنَّ‘‘ سے متعلق مفسرین کے اور بھی اَقوال ہیں ۔
{مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ:بغیر دھویں والی آگ سے ۔} یعنی ابلیس کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے اس آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں ہوتا ۔
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک آدمی کوبجتی ہوئی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جو مٹی بدبودار سیاہ گارے کی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔}اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کا ذکر فرمایا اور ان آیات سے اللّٰہ تعالیٰ ان کی پیدائش کاو اقعہ بیان فرما رہا ہے۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ:۲۸، ۷ / ۱۳۹)
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور میں اپنی طرف کی خاص معز ز ر وح اس میں پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ: اور میں اپنی طرف کی خاص معز ز ر وح اس میں پھونک دوں ۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روح کو اپنی طرف ان کی عزت و تکریم کے طور پر منسوب فرمایا، جیسے کہا جاتا ہے: بیتُ اللّٰہ،ناقۃُ اللّٰہ ،عبداللّٰہ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳،۲۹ / ۱۰۱)
نوٹ:روح سے متعلق کلام سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر85میں مذکور ہے۔
{فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ:تو اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا عبادت کا سجدہ نہیں تھا۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۰۱)
سجدہ تعظیمی کو جائز ثابت کرنے والوں کا رد:
یاد رہے کہ یہ آیت اور اس سے اگلی آیت اس امت کے لوگوں کے لئے سجدۂ تعظیمی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، چنانچہ جو لوگ سجدۂ تعظیمی کو حضرت آدم اور حضرت یوسف عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کا حکم بتا کر اس کا جائز ہونا ثابت کرتے ہیں ، ان کا رد کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سرے سے اس کا آدم یایوسف یا کسی نبی عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت ہونے ہی کاثبوت دے ،اور ہر گز نہ دے سکے گا، آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی آفرنیش سے پہلے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہ حکم ملائکہ کو دیا تھا: ’’فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ‘‘’’جب میں اسے ٹھیک بنالوں اوراس میں اپنی طرف کی ر وح پھونک دوں اس وقت تم اس کے لیے سجدہ میں گرنا۔‘‘
تو اس وقت نہ کوئی نبی تشریف لایا تھا نہ کوئی شریعت اتری۔ ملائکہ و بشر کے احکام جدا ہیں ،جو حکم فرشتوں کو دیا گیا وہ شریعت مِنْ قَبْلِنَا نہیں۔ قصۂ یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اتنا ثابت کہ شریعتِ یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سجدۂ تحیت کی ممانعت نہ تھی کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فعلِ ممنوع نہیں کرتے، ممانعت نہ ہونا دونوں طرح ہوتاہے یا تو ان کی شریعت میں اس کے جوازکا حکم ہویہ اباحتِ شرعیہ ہوگی کہ حکمِ شرعی ہے یا ان کی شریعت میں اس کا کچھ ذکر نہ آیا ہو تو جو فعل جب تک شرع منع نہ فرمائے مباح ہے، یہ اباحتِ اصلیہ ہوگی کہ حکمِ شرعی نہیں بلکہ عدمِ حکم ہے۔ اور جب دونوں صورتیں محتمل تو ہر گز ثابت نہیں کہ شریعتِ یعقوبیہ میں اس کی نسبت کوئی حکم تھا تو شریعت مِنْ قَبْلِنَا ہونا کب ثابت، بحمدہٖ تعالیٰ شبہ کا اصل معنی ہی ساقط۔(فتاویٰ رضویہ، ۲۲ / ۵۲۰)
نیز مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں کا یہ سجدہ آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی شریعت کا حکم نہ تھا کیونکہ ابھی آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی شریعت آئی ہی نہ تھی، نیز اَحکامِ شرعیہ انسانوں کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ فرشتوں کے لئے، نیز صرف ایک بار ہی فرشتوں نے یہ سجدہ کیا ہر دفعہ سجدہ نہ ہوا، لہٰذا اس آیت سے سجدۂ تعظیمی کے جواز پر دلیل پکڑنا جائز نہیں۔( نور العرفان، الحجر، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۱۹-۴۲۰)
نوٹ:سجدہ ٔتعظیمی کی حرمت سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 22 ویں جلد میں موجود تحقیقی رسالہ ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ‘‘ (غیرُ اللّٰہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان) کا مطالعہ فرمائیں ،اس رسالے میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قرآنِ کریم کی آیات، 40 اَحادیث، بیسیوں فقہی نصوص اور علماء واولیاء کے اجماع سے سجدۂ تعظیمی حرام ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔
فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ(30)اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرگئے۔سوا ئے ابلیس کے ،اس نے سجدہ والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَسَجَدَ:تو سجدے میں گرگئے۔} یعنی جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق مکمل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان میں روح ڈال دی تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب ایک ساتھ سجدے میں گرگئے۔ (ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۲۴)
فرشتوں نے کسے سجدہ کیا؟
فرشتوں کے اس سجدے سے متعلق بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعزاز کے لئے منہ ان کی طرف تھا جیسے کعبہ کو منہ کرنے میں ہے (کہ سجدہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کیا جاتا ہے اور منہ کعبہ شریف کی طرف ہوتا ہے) اور بعض علماء نے فرمایا کہ یہ سجدہ تعظیم و تکریم کے طور پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی تھا۔(رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، ۹ / ۶۳۲)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس سے متعلق بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’یہ سجدہ درحقیقت اس نور کی تعظیم کے لئے تھا جو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مبارک پیشانی میں چمک رہا تھا اور وہ سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور تھا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۴۶۲)
{ اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ:سوا ئے ابلیس کے۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتے سجدے میں گر گئے لیکن ابلیس نے ان سجدہ کرنے والے فرشتوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۰۱-۱۰۲، ملخصاً)
قَالَ یٰۤـاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(32)قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ توسجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔ اس نے کہا: میرے لائق نہیں کہ میں کسی انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو سیاہ بدبودار گارے سے تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:ابلیس نے کہا۔} اس کلام سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے، کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل مٹی ہے اور ابلیس کی اصل آگ ہے اور( اس کے خیال میں ) آگ چونکہ مٹی سے افضل ہے اس لئے ابلیس نے اپنے گمان میں خود کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل سمجھا لیکن وہ خبیث یہ بات بھول گیا تھا کہ افضل تو وہی ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ فضیلت عطا کرے۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۲)
شیطان کے تین گناہ اور ان کا انجام:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے اور اس کی وجہ بیان کرنے میں شیطان نے تین گناہوں کا اِرتکاب کیا۔ (1) اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی۔ (2) بارگاہِ الٰہی کی مقرب ہستیوں کی جماعت سے جدا راستہ اختیار کیا۔ (3) حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے خود کو افضل بتا کر تکبر کیا۔ ان تین گناہوں کا انجام یہ ہوا کہ ابلیس کی ہزاروں برس کی عبادت و ریاضت برباد ہو گئی، فرشتوں کا استاد ہونے کی عظمت چھن گئی، اسے بارگاہِ الٰہی سے مردود و رسوا کر کے نکال دیا گیا، قیامت تک کے لئے اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا گیا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلنے کی سزا دے دی گئی۔ شیطان کے گناہوں اور اس کے عبرت ناک انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ عمومی طور پر تما م گناہوں اور خاص طور پر ان تین گناہوں سے بچے اور اپنے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے۔ اسی سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کا حال سنئے،چنانچہ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا کہ( ابلیس کے انجام سے عبرت گیر ہو کر) کعبۂ مشرفہ کے پردہ سے لپٹ کر نہایت گریہ وزاری کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کر رہے ہیں ، ’’اِلٰھِیْ لَا تُغَیِّرْ اِسْمِیْ وَلَا تُبَدِّلْ جِسْمِیْ۔ یعنی اے میرے اللّٰہ! کہیں میرا نام نیکوں کی فہرست سے نہ نکال دینا اور کہیں میرا جسم اہلِ عطا کے زُمرہ سے نکال کر اہلِ عتاب کے گروہ میں شامل نہ فرما دینا۔(منہاج العابدین، العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثانی، ص۱۶۰) جب گناہوں سے معصوم اور بارگاہِ الٰہی کے مقرب ترین فرشتے کے خوف کا یہ حال ہے تو گناہوں میں لتھڑے ہوئے مسلمان کو تو کہیں زیادہ ڈرنا اور اپنے انجام کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔
قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ(34)وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(35)قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(36)قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(37)اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان: اللہ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے۔ اور بیشک قیامت تک تجھ پر لعنت ہے ۔ اس نے کہا: اے میرے رب! تو مجھے اس دن تک مہلت دیدے جب لوگ اٹھائے جائیں ۔ اللہ نے فرمایا: پس بیشک تو ان میں سے ہے جن کو معین وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ:اور بیشک تجھ پر لعنت ہے ۔} یعنی قیامت تک آسمان و زمین و الے تجھ پر لعنت کریں گے اور جب قیامت کا دن آئے گا تواس لعنت کے ساتھ ہمیشگی کے عذاب میں گرفتار کیا جائے گا جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۱۰۲)
{قَالَ:اس نے کہا۔} اپنے مردود اور لعنتی ہونے کے بارے میں سن کر شیطان نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے۔ قیامت کے دن تک مہلت مانگنے سے شیطان کا مطلب یہ تھا کہ وہ کبھی نہ مرے کیونکہ قیامت کے بعد کوئی نہ مرے گا اور قیامت تک کی اُس نے مہلت مانگ ہی لی لیکن اس کی اس دعا کو اللّٰہ تعالیٰ نے اس طرح قبول کیا کہ اس سے فرمایا: بیشک تو ان میں سے ہے جن کو اس معین وقت کے دن تک مہلت دی گئی ہے جس میں تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ وقت پہلے نَفْخہ کا ہے تو شیطان کے مردہ رہنے کی مدت پہلے نَفْخہ سے دوسرے نَفْخہ تک چالیس برس ہے اور اس کوا س قدر مہلت دینا اس کے اکرام کے لئے نہیں بلکہ اس کی بلا، شَقاوت اور عذاب کی زیادتی کے لئے ہے۔( خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۶-۳۷، ۳ / ۱۰۲، ملخصاً)
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ(39)اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس نے کہا: اے رب میرے! مجھے اس بات کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرورزمین میں لوگوں کیلئے (نافرمانی) خوشنما بنادوں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا ۔سوائے اُن کے جو اِن میں سے تیرے چنے ہوئے بندے ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:ابلیس نے کہا۔} جب ابلیس کو معلوم ہوا کہ وہ کفر کی حالت میں مرے گا اور ا س کی کبھی بخشش نہ ہو گی تو اس نے مخلوق کو کفر میں مبتلا کر کے گمراہ کر دینے کی حرص کی اور کہا ’’اے میرے رب! مجھے اس بات کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور زمین میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کیلئے دنیا کی محبت اور تیری نافرمانی کوخوشنما بنادوں گا اور میں ضرور ان سب کے دِلوں میں وسوسہ ڈال کرگمراہ کردوں گا ،البتہ تیرے برگزیدہ بندوں پر میرا وسوسہ اور مکرنہ چلے گا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۳ / ۱۰۲، صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۹-۴۰، ۳ / ۱۰۴۳، ملتقطاً)
قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(41)اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(42)وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا: یہ میری طرف آنے والا سیدھا راستہ ہے۔ بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوائے ان گمراہوں کے جو تیرے پیچھے چلیں ۔ اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:اللّٰہ نے فرمایا۔}مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ یہ راستہ اپنے اوپر چلنے والے کو سیدھا چلاتا ہے یہاں تک کہ ا س پر چل کروہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا معنی یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ لوگوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنا ہمارے ذمے ہے۔(قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۵ / ۲۱، الجزء العاشر)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اخلاص مجھ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۷ / ۱۴۵)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کا یہ معنی بیان فرمایا کہ ‘‘چنے ہوئے بندوں کا ابلیس کے بہکاوے سے بچ جانا وہ راستہ ہے جو سیدھا اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۴۶۹)
{اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ:بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں ۔} ابلیس نے جو یہ کہا کہ ’’ میں ضرور زمین میں ان (یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد) کیلئے (دنیا کی محبت اور تیری نافرمانی کو) خوشنما بنادوں گا اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کردوں گا سوائے اُن کے جو اِن میں سے تیرے چنے ہوئے بندے ہیں ‘‘ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ ابلیس انہیں جبری طور پر یا زبردستی اپنا پیروکار بنالے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگ خود اپنے اختیار سے اس کی پیروی کریں گے۔ اسی وجہ سے دوسری آیت میں وضاحت ہے کہ قیامت کے دن ابلیس کہے گا ۔
’’وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ‘‘(ابراہیم:۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں تھی مگر یہی کہ میں نے تمہیں بلایا توتم نے میری مان لی ۔
{وَ اِنَّ جَهَنَّمَ:اور بیشک جہنم۔} یعنی بے شک جہنم ابلیس ، اس کی پیروی کرنے والوں اور اس کے گروہوں ، سب کے عذاب کے وعدے کی جگہ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۱۰۳)
نوٹ:یاد رہے کہ کفار ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جو گناہ گار مومن جہنم میں گئے تووہ عارضی طور پر وہاں رہیں گے۔
لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍؕ-لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اس کے سات دروازے ہیں ، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک ایک حصہ تقسیم کیا ہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍ:اس کے سات دروازے ہیں ۔} جہنم کے سات طبقے ہیں ، ان طبقات کو دَرَکات بھی کہتے ہیں اور ہر طبقے کا ایک دروازہ ہے۔ پہلا طبقہ جہنم، دوسرا طبقہ لَظٰی، تیسرا طبقہ حُطَمَہ، چوتھا طبقہ سعیر ، پانچواں طبقہ سَقَر، چھٹا طبقہ جحیم، ساتواں طبقہ ہاوِیہ ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۰۳)
{لِكُلِّ بَابٍ: ہر دروازے کیلئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ابلیس کی پیروی کرنے والوں کو سات حصوں میں تقسیم فرما دیا ہے، ان میں سے ہر ایک کے لئے جہنم کا ایک طبقہ مُعَیّن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کے مَراتب چونکہ مختلف ہیں اس لئے جہنم میں بھی ان کے مرتبے مختلف ہوں گے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۰۳)
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍﭤ(45)اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ۔ (حکم ہوگا) ان میں سلامتی کے ساتھ امن و امان سے داخل ہو جاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ:بیشک متقی لوگ۔}اس سے وہ لوگ مراد ہیں جوکفر و شرک سے باز رہے اور ایمان لائے اگرچہ گناہگار ہوں ، گناہگار مومنین کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تو انہیں ایک مدت تک عذاب میں مبتلا کر دے، پھر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کے صدقے انہیں معاف فرما دے اور اگر چاہے تو انہیں عذاب ہی نہ دے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۱۰۴۳)
{اُدْخُلُوْهَا:ان میں داخل ہو جاؤ۔} ایک قول یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے جنت کے دروازوں پر پہنچیں گے تو ان سے کہا جائے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ جب جنتی جنت میں ایک جگہ سے دوسری جنت کی طرف متوجہ ہوں گے تو فرشتوں کی زبانی ان سے کہاجائے گا ’’ تم سلامتی اور امن و امان کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ، نہ یہاں سے نکالے جاؤ گے نہ تمہیں یہاں موت آئے گی نہ تم پر کوئی آفت رونما ہو گی ، نہ یہاں کوئی خوف اور پریشانی ہوگی۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۴۷۱، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۸۲، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۱۰۳، ملتقطاً)
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(47)لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم ان کے سینوں میں موجود کینہ کھینچ لیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی ہوں گے، وہ آمنے سامنے تختوں پربیٹھے ہوں گے۔ انہیں جنت میں نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَزَعْنَا:اور ہم کھینچ لیں گے۔} یعنی دنیا میں اگر ان ڈرنے والوں میں سے کسی کے دل میں دوسرے کے بارے میں کچھ کینہ ہو گا تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ اسے ان کے دلوں سے نکال دے گا اور اُن کے نُفوس کو بغض، حسد، عناد اور عداوت وغیرہ مذموم خصلتوں سے پاک کردے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور میل جول رکھنے میں اس طرح ہوں گے جیسے سگے بھائی ہوتے ہیں ۔
{عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ:وہ آمنے سامنے تختوں پربیٹھے ہوں گے۔} اس کا ایک تو واضح مفہوم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے جنت میں تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور مجلس کا لطف اٹھائیں گے اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب جنتی ایک جگہ جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے اور فارغ ہونے کے بعد واپس لوٹنے کا ارادہ کریں گے تو ان میں سے ہر ایک کا تخت ا س طرح گھوم جائے گا کہ ا س پر سوار جنتی کا چہرہ اپنے ساتھی کے چہرے کے سامنے ہو گا اور اس کی پشت اس طرف ہو گی جدھر تخت اسے لے جا رہا ہو گا۔ اس میں اُنسیت اور تعظیم زیادہ ہے۔ (جمل، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۸۶)
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(49)وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنےوالا مہربان ہوں ۔ اور بیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{نَبِّئْ عِبَادِیْ:میرے بندوں کو خبردو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گناہ کرنے سے ڈرایا گیا اور جو گناہ ہو چکے ان سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ میرے بندوں کو بتا دیں کہ جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تو میں ہی ان کے گناہوں پر پردہ ڈال کر ان گناہوں کے سبب ہونے والی رسوائی اور عذاب سے انہیں بچاتا ہوں اور گناہوں سے توبہ کرنے کے بعد انہیں عذاب نہ دے کر ان پر رحم فرماتا ہوں اور میرے بندوں کو یہ بھی بتا دیں کہ میرا عذاب ان کے لئے ہے جواپنے گناہوں پر قائم رہیں اور ان سے توبہ نہ کریں ۔ میرا عذاب اتنا دردناک ہے کہ اس جیسا دردناک کوئی عذاب ہو ہی نہیں سکتا۔(تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۰، ۷ / ۵۲۱-۵۲۲)
امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے:
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے یہ معلوم ہو اکہ بندوں کو امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بے باک ہوں نہ اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہوں ۔ اسی سے متعلق صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس روز اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کئے اور 99 حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ مخلوق کے لئے بھیج دیا۔ اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن یہ جان جائے کہ ا س کے پا س کتنا عذاب ہے تو جہنم سے وہ بھی بے خوف نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الرجاء مع الخوف، ۴ / ۲۳۹، الحدیث: ۶۴۶۹)اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۲۳(۲۷۵۵))
یہاں امید اور خوف کے درمیان رہنے کی ایک بہترین صورت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اگر آسمان سے کوئی اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے کہ’’اے لوگو! تم سب کے سب جنت میں داخل ہو جاؤ گے لیکن ایک شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ تو میں اس بات سے ضرور ڈروں گا کہ کہیں وہ شخص میں ہی نہ ہوں،اور اگر اعلان کرنے والا یہ کہے کہ اے لوگو! تم سب جہنم میں جاؤ گے البتہ ایک شخص جہنم میں نہیں جائے گا۔ تو میں ضرور یہ امید رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عمر بن الخطاب، ۱ / ۸۹، روایت نمبر: ۱۴۲)
سورۂ حجر کی آیت نمبر 49 اور 50 سے حاصل ہو نے والی معلومات:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان آیات کے تحت چند نِکات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(1)… اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میرے بندوں کو خبر دو‘‘ اس میں بندوں کی عزت افزائی ہے اور جس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ ہے تو وہ اس عزت و تعظیم میں داخل ہے۔
(2)…جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر کیا تو اسے بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا اور جب عذاب کا ذکر کیا تو اسے خبر دینے کے انداز میں بیان کیا (نیز اپنی رحمت و مغفرت کا ذکر پہلے اور عذاب کاذکر بعد میں فرمایا)یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اس کے غضب و عذاب پر سبقت رکھتی ہے۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ وہ اس کے بندوں تک میری رحمت و مغفرت اور عذاب کی بات پہنچا دیں تو گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت و مغفرت کا اِلتزام فرمانے میں اپنی ذات پر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنایا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۱۰۴)
یہی نِکات امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی تفسیر کبیر میں بیان فرمائے ہیں ،اسی مقام پر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں کہ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘کا معنی ہے کہ ہر اس شخص کو خبر دے دیں جو میرا بندہ ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔‘‘اس میں جس طرح اطاعت گزار مومن داخل ہے اسی طرح گناہگار مومن بھی اس میں داخل ہے اور یہ سب باتیں اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت (اس کے غضب پر) غالب ہے۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۴۹، ۷ / ۱۴۹)
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے:
اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب ہونے کا ذکر کثیر اَحادیث میں صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی اور ابن ما جہ وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللّٰہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو لوحِ محفوظ میں جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے،لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آ گئی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللّٰہ تعالی: وہو الذی یبدأ الخلق۔۔۔الخ، ۲ / ۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۴)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔(مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۱، الحدیث: ۱۵(۲۷۵۱))دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ اَنَّ عَذَابِیْ:اوربیشک میرا عذاب۔} یاد رہے کہ جو کفر کی حالت میں مرا وہ تو جہنم کے دردناک عذاب میں ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو گا البتہ جو گناہگار مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر انتقال کر گیا تو اس کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اُسے گناہوں کی سزا دے یا چاہے تو اپنی رحمت سے اس کے تمام گناہ بخش دے اور اسے جنت عطا فرما دے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہونے کے اَسباب:
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت حاصل ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللّٰہ تعالیٰ کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے 6 اَسباب یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ، ان اسباب میں کئی جگہ قدرِ مُشترک بھی ہے لیکن اپنے ظاہر کے اعتبار سے جدا جدا ہیں ۔
(1)…کفر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس جو لوگ کافر ہیں تومیں انہیں دنیاو آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کاکوئی مددگار نہ ہوگا۔
(2)…اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَى الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ‘‘(زمر:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور قیامت کے دن تم اللّٰہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیامتکبروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے؟
(3)…منافقت اختیار کرنا۔ چنانچہ منافقوں کے بارے میںاللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ‘‘(بقرہ:۹-۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ لوگ اللّٰہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللّٰہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔
(4)…اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی نافرمانی کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًاۙ-وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا(۸) فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِهَا وَ كَانَ عَاقِبَةُ اَمْرِهَا خُسْرًا(۹)اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاۙ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ ﲬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘(طلاق:۸-۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتنے ہی شہر تھے جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انہیں برا عذاب دیا ۔تو انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے کام کا انجام گھاٹا ہوا۔اللّٰہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے تو اللّٰہ سے ڈرو اے عقل والو جو ایمان لائے ہو۔
(5)…اللّٰہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں تکبر کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(مومن:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
(6)…مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا‘‘(النساء:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللّٰہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَﭥ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کااحوال سناؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَبِّئْهُمْ:اور انہیں احوال سناؤ۔}اس سورت میں سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ نے سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر دلائل دئیے، اس کے بعد توحید پر دلائل ذکر فرمائے، پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق اور اس سے متعلق واقعات بیان فرمائے، پھر سعادت مندوں اور بد بختوں کے احوال بیان کئے اوراس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ نے بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے تاکہ ان واقعات کو سن کر لوگ عبرت حاصل کریں اور ان میں عبادت کا ذوق وشوق پیدا ہو۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا، پھر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ، پھر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ اور آخر میں حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ چاروں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات یہاں اِختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ان واقعات کی تفصیل سورۂ ہود میں موجود ہے۔(صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۰۴۶)
{عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ:ابراہیم کے مہمانوں کا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے بندوں کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمانوں کا احوال سنائیں جنہیں ہم نے اس لئے بھیجا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دیں اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کریں تاکہ میرے بندے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر آنے والے عذاب، اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی اور مجرموں سے لئے گئے انتقام کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور انہیں یقین ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہی سب سے سخت ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۱۰۴، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ۵۸۳، ملتقطاً)یاد رہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان کئی فرشتے تھے اور ان میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بھی تھے۔(جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۱۳)
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب وہ اس کے پاس آئے تو کہنے لگے: ’’سلام ‘‘ابراہیم نے فرمایا:ہم تم سے ڈر رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ:جب وہ اس کے پاس آئے ۔} یعنی فرشتے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے تو انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سلام کیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر کی۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا ’’ہم تم سے ڈر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مہمانوں سے خوف کھانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اجازت کے بغیر اور بے وقت آئے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہمانوں نے ان کا پیش کردہ بھنا ہوا بچھڑا کھانے سے انکارکر دیا تھا اور اس دور میں مہمان کا کھانے سے ا نکار کر دینا دشمنی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ (ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۲۳۰، بیضاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۳۷۴، ملتقطاً)
قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے عرض کیا: آپ نہ ڈریں ، بیشک ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ:بیشک ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔} علم والے لڑکے سے مراد حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۰۴)
فرشتوں کا علم:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے بتانے سے یہ معلوم تھا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور وہ علم والا اور نبی ہو گا۔ معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں میں سے جسے چاہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے۔
اولاد کو علمِ دین سکھائیے:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالِم بیٹا اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ا س میں ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کاعلم بھی سکھائے اور اس علم کو سکھانے میں اُس سے زیادہ توجہ دے جتنی دنیا کا علم سکھانے پر توجہ دیتا ہے۔ افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر اور اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اپنے بیٹوں میں سے جسے ہوشیار و ذہین دیکھتے ہیں اسے دنیا کی تعلیم دلواتے ، اس کے لئے ماہر اساتذہ اور اونچے درجے کے سکول کا انتخاب کرتے ہیں اور دن رات دنیوی علوم و فنون میں اس کی ترقی کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے دلوائی گئی دینی تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسے ان عقائد کا علم نہیں ہوتا جن پر مسلمان کے دین و ایمان اور اُخروی نجات کا دارومدار ہے، مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اسے قرآنِ مجید تک صحیح پڑھنا نہیں آتا، فرض عبادات سے متعلق بنیادی باتیں نہیں جانتا، نماز روزے اورحج زکوٰۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے اکثر دینِ اسلام ہی سے بیزار اور اس کے بنیادی احکام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ تو ہوشیار و ذہین بیٹے کے ساتھ طرزِ عمل ہے جبکہ اس کے برعکس جو بیٹا جسمانی معذوری یا ذہنی کمزوری کا شکار ہو اسے دنیا کی تعلیم دلوانے کی طرف توجہ کرنے اور اس پر اپنا مال خرچ کرنے کو بیکار اور فضول کام سمجھتے ہیں اوراسے کسی دینی مدرسے میں داخل کروا کے اپنے سر سے بوجھ اتار دیتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے،اٰمین۔
قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ(54)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا: کیا تم مجھے بشارت دیتے ہوحالانکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے تو کس چیز کی بشارت دے رہے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} یعنی جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دی تو وہ اپنے اور زوجہ کے بڑھاپے کی وجہ سے حیران ہوئے اور فرشتوں سے فرمایا ’’اتنی بڑی عمر میں اولاد ہونا عجیب وغریب ہے ،ہمارے ہاں کس طرح اولاد ہوگی؟ کیا ہمیں پھر جوان کیا جائے گا یا اِسی حالت میں بیٹا عطا فرمایا جائے گا ؟ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۰۴، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۱۵۱، ملتقطاً)
قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے عرض کیا: ہم نے آپ کو سچی بشارت دی ہے، آپ ناامید نہ ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے عرض کیا۔} فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا ’’ہم نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی سچی بشارت دی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا اور اس کی اولاد بہت پھیلے گی، لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو بیٹے کی ولادت کی امید چھوڑ چکے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۰۵، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۸۳، ملتقطاً)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ تھے:
یاد رہے کہ اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہوچکے تھے۔ فرشتوں کا آپ سے یہ کہنا ’’فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ‘‘ ایسے ہی ہے جیسے حضرت لقمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے فرزند سے فرمایا تھا۔ ’’یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ‘‘ ’’اے میرے بچے! شرک نہ کرنا‘‘ جیسے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فی الحال وہ شرک کر رہا تھا اسی طرح وہاں بھی یہ لازم نہیں آتا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فی الحال نا امید تھے۔
قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(56)قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
ابراہیم نے کہا: گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے؟ فرمایا: اے فرشتو! تو تمہارا (ابھی آنے کا) کام کیاہے؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} یعنی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے فرمایا ’’میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمید نہیں کیونکہ رحمت سے نااُمید کافر ہوتے ہیں ہاں عالَم میں اللّٰہ تعالیٰ کی جو سنت جاری ہے اس سے یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔( مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۵۸۳)
{ قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے فرمایا ’’اے فرشتو! اس بشارت کے سوا اور کیا کام ہے جس کے لئے تم بھیجے گئے ہو۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۰۵)
قَالُـوْۤا اِنَّـاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(58)اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍؕ-اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَ(59)اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَاۤۙ-اِنَّهَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے عرض کیا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔سوائے لوط کے گھر والوں کے (کہ) بیشک ان سب کو ہم بچالیں گے۔سوائے اس کی بیوی کے، ہم طے کرچکے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے عرض کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں نے عرض کی: ہم ایک مجرم قوم یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم انہیں ہلاک کردیں البتہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر والوں کو بچا لیں گے کیونکہ وہ ایماندار ہیں ۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ص۲۱۳)
{اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ:سوائے لوط کے گھر والوں کے۔} اس آیت میں مذکور’’ اٰلَ لُوْطٍ‘‘میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سارے مُتَّبِعین داخل ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں :
اس آیت میں فرشتوں نے جو یہ کہا کہ ’’ اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ اس سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں ،جیسے عذاب سے بچا لینا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، مگر فرشتوں نے کہا ’’ان سب کو ہم بچالیں گے‘‘ لہٰذا مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب سے بچائیں گے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں دوزخ سے بچالیں ۔
{اِلَّا امْرَاَتَهٗ:مگر اس کی بیوی کو۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا نام واہلہ تھا اور یہ چونکہ کافرہ تھی اس لئے یہ بھی عذاب والوں میں سے ہوئی۔
آیت ’’ اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… نیک بختی اور بد بختی کا علم اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو دیا ہے اور فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں کہ کون مومن مرے گا اور کون کافر۔
(2)…اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ سوال و جواب پڑھئے۔ سوال: حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا پیچھے رہ جانے والوں میں طے کرنا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، تو فرشتوں نے اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کرنے کی بجائے اپنی طرف کیوں کی؟ اس کے جواب میں امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں نے طے کرنے کی نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور قرب حاصل ہے جیسے بادشاہ کے خاص آدمی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس طرح تدبیر کی ، ہم نے اس طرح حکم دیا حالانکہ تدبیر کرنے والا اور حکم دینے والا تو بادشاہ ہوتا ہے نہ کہ وہ لوگ ہوتے ہیں اور ا س کلام سے محض اُن کی مراد بادشاہ کے پاس انہیں حاصل مقام و مرتبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے تو اسی طرح یہاں ہے (کہ فرشتوں کے اس کلام سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انہیں حاصل مقام و مرتبہ ظاہر ہو رہا ہے) (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۱۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور قرب حاصل ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کاموں کو اپنی طرف منسوب کر سکتاہے ،قرآنِ مجید میں ہی اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ کسی کو زندہ کرنا اور مریض کو شفا دینا در حقیقت اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس کام کی نسبت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللّٰہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللّٰہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں ۔
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ ﹰالْمُرْسَلُوْنَ (61)قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جب لوط کے گھروالوں کے پاس فرشتے آئے ۔ تو لوط نے فرمایا: تم اجنبی لوگ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
} فَلَمَّا جَآءَ: تو جب فرشتے آئے ۔ {اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیٹے کی بشارت دی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کر دیا تو وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کی طرف آئے۔ جب وہ خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر آئے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اندیشہ ہوا کہ قوم اُن کے پیچھے پڑ جائے گی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے فرمایا ’’تم نہ تو یہاں کے باشندے ہو اورنہ مسافرت کی کوئی علامت تم میں پائی جاتی ہے،تم کیوں آئے ہو ؟(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۱-۶۲، ۳ / ۱۰۵، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۱-۶۲، ص۵۸۴، ملتقطاً)
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ(63)وَ اَتَیْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ (عذاب)لائے ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے تھے۔ اور ہم آپ کے پاس حق کے ساتھ آئے ہیں اور ہم بیشک سچے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کافروں کو کچھ نہیں کہیں گے بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ چیز لائے ہیں جو انہیں تباہ و برباد کردے گی۔ لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ ہم آپ کے مددگار ہیں ، آپ کیلئے باعث ِ پریشانی نہیں ۔
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِـعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ وَّ امْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ(65)وَ قَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ هٰۤؤُلَآءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ(66)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے چلیں اور آپ خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور تم لوگوں میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور سیدھے چلتے رہو جہاں کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔ اور ہم نے اسے اس حکم کا فیصلہ سنادیا کہ صبح کے وقت ان کافروں کی جڑ کٹ جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ:تو آپ اپنے گھر والوں کو لے چلیں ۔} یعنی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے چلیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں تاکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی حالت پر مطلع رہیں اور تم لوگوں میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے کہ قوم پر کیا بلا نازل ہوئی اور وہ کس عذاب میں مبتلا کئے گئے اور سیدھے اس طرف چلتے رہو جہاں جانے کا اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملک ِشام جانے کا حکم ہوا تھا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۵۸۴-۵۸۵، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۰۶، ملتقطاً)
{وَ قَضَیْنَاۤ اِلَیْهِ ذٰلِكَ الْاَمْرَ:اور ہم نے اسے اس حکم کا فیصلہ سنادیا ۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اُس حکم کی وحی کر دی جس کافیصلہ ہم نے اس کی قوم کے بارے میں کیا تھاکہ صبح کے وقت ان کافروں کی جڑ کٹ جائے گی اور پوری قوم عذاب سے ہلاک کردی جائے گی۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۵۸۵، ملتقطاً)
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(67)قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور شہر والے خوشی خوشی آئے۔ لوط نے فرمایا: یہ میرے مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو ۔اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ:اور شہر والے آئے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ شہرِ سدوم میں آباد تھے ، انہوں نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں خوب صورت نوجوانوں کے آنے کی خبرسنی جوکہ فرشتے تھے تو یہ لوگ فاسد ارادے اور ناپاک نیت کے ساتھ خوشی خوشی آئے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۲۱۴، ملخصاً)
{قَالَ:فرمایا۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’ یہ میرے مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام لازم ہوتا ہے تم اُن کی بے حرمتی کا قصد کرکے مجھے شرمندہ نہ کرو کہ مہمان کی رسوائی میزبان کے لئے خَجالت اور شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۵۸۵، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمان نوازی:
اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو ۔ یہاں سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمان نوازی کے 3 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخص حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان بنا ، اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں کہ (میرے پاس مہمان آیا ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔ میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں آسمان میں بھی امین ہوں زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا یا بیچ دیتا تو میں ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری لوہے کی زرہ لے جاؤ (اور اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللّٰہ بن قسیط عن ابی رافع، ۱ / ۳۳۱، الحدیث: ۹۸۹، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع، ۱ / ۲۴۱، الحدیث: ۸۶۵، ملتقطاً)
(2)…مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور بھوک کی شکایت کی تو آپ اپنی (ازواجِ مطہرات کے) گھروں میں تشریف لے گئے ،پھر باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں میں تیرے لئے کوئی چیز نہیں ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسے دیہاتی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا ’’تم کھاؤ۔ اس نے کھایا، پھر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی تکلیف پہنچی تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے مجھے رزق دے دیا، اگر پھر کبھی ایسا ہو اور میں آپ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوں تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ ، فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘اے اللّٰہ!میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں کیونکہ فضل ورحمت کا صرف تو ہی مالک ہے۔‘‘ تو بے شک اللّٰہ تعالیٰ تجھے رزق دینے والا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)
(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں مہمان نوازی فرمانا تو اپنی جگہ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے در پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں چنانچہ حضرت ابو الخیر حماد بن عبداللّٰہ اقطع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر (مدینہ منورہ) میں داخل ہوا اور (اس وقت) میں فاقے کی حالت میں تھا، میں نے پانچ دن قیام کیا اور اتنے دن میں کھانے پینے کی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا، (بالآخر) میں قبرِ انور کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی بارگاہ میں سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آج کی رات آپ کا مہمان ہوں ۔پھر میں اپنی جگہ سے ہٹ کر منبرِ اقدس کے پیچھے سو گیا تو میں نے خواب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے دائیں طرف، حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے بائیں طرف اور حضرت علی بن ابو طالب کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ کے سامنے تھے، حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں ۔ میں کھڑے ہو کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک روٹی عطا فرمائی تو میں نے آدھی روٹی کھا لی،پھر میں خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ دمشق، ابو الخیر الاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱) یہ واقعہ علامہ ابن عساکر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر، علامہ عمر بن علی شافعی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقاتِ اولیا، صفحہ 192-191 پر اور علامہ ابو عبد الرحمٰن محمد بن حسین رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقاتِ صوفیہ صفحہ 281پر بھی ذکر فرمایاہے۔
{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ:اور اللّٰہ سے ڈرو۔} یعنی مہمانوں کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے ساتھ برا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۸۵، ملتقطاً)
مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کے احترام میں میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ،اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ا س کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقار قائم رہے اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیز میزبان کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔
قَالُـوْۤا اَوَ لَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(70)قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَﭤ(71)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: کیا ہم نے تمہیں دوسروں کے معاملے میں دخل دینے سے منع نہ کیا تھا؟ فرمایا: یہ قوم کی عورتیں میری بیٹیاں ہیں (تو ان سے نکاح کرلو) اگر تمہیں کرنا ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے ارادے سے باز نہیں آئیں گے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ ’’یہ قوم کی عورتیں میری بیٹیاں ہیں اگر تمہیں اپنی خواہش پوری کرنی ہے تو ان سے نکاح کر کے پوری کرلو اور حرام سے باز رہو۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں اس لئے فرمایا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام اپنی پوری امت کے لئے باپ کی طرح ہوتے ہیں ۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱،۴ / ۴۷۷، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۰۶، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۱۴، ملتقطاً)
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے حبیب! تمہاری جان کی قسم! بیشک وہ کافر یقینااپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَعَمْرُكَ:اے محبوب! تمہاری جان کی قسم!} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا، حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی جان کی قسم! حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مزید فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی جان بارگاہِ الٰہی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جانِ پاک کی طرح عزت و حرمت نہیں رکھتی اور اللّٰہ تعالیٰ نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر کے سوا کسی کی عمر اور زندگی کی قسم نہیں فرمائی یہ مرتبہ صرف حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا ہے۔ اس قسم کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ بیشک وہ کافر یقینا اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۰۶، ملخصاً)
نوٹ: بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ کلام فرشتوں نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا۔(مدارک، الحجر، تحت الآیۃ:۷۲، ص۵۸۵)
اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اے مسلمان ! یہ مرتبۂ جلیلہ اس جانِ محبوبیت کے سو ا کسے میسر ہوا کہ قرآنِ عظیم نے ان کے شہرکی قسم کھائی ، ان کی باتوں کی قسم کھائی ، ان کے زمانے کی قسم کھائی ،ان کی جان کی قسم کھائی، صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ ہاں اے مسلمان! محبوبیتِ کبریٰ کے یہی معنی ہیں۔ ابنِ مردویہ اپنی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: اللّٰہ تعالیٰ نے کبھی کسی کی زندگی کی قسم یاد نہ فرمائی سوائے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ کے کہ آیۂ لَعَمْرُكَ میں فرمایا :تیری جان کی قسم، اے محمد!
ابو یعلیٰ، ابن جریر، ابن مردویہ ، بیہقی، ابو نعیم، ابن عساکر، بغوی حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے راوی:اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نہ بنایا ،نہ پیدا کیا ،نہ آفرینش فرمایا جو اسے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے زیادہ عزیز ہو ، نہ کبھی ان کی جان کے سوا کسی جان کی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے تیری جان کی قسم وہ کافر اپنی مستی میں بہک رہے ہیں۔
امام حجۃ الاسلام محمد غزالی احیاء العلوم اور امام محمد بن الحاج عبدری مکی مدخل اور امام احمد محمد خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ اور علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض میں ناقل حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک حدیثِ طویل میں حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کرتے ہیں : یارسولَ اللّٰہ! میرے ماں باپ حضور پر قربان،بیشک حضور کی بزرگی خدا تعالیٰ کے نزدیک اس حد کو پہنچی کہ حضور کی زندگی کی قسم یاد فرمائی ،نہ باقی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی۔ اور تحقیق حضور کی فضلیت خدا کے یہاں اس نہایت کی ٹھہری کہ حضور کی خاکِ پاکی قسم یاد فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے: مجھے قسم اس شہر کی۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۱۵۹-۱۶۲)
حدائقِ بخشش میں آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہرو کلام و بقا کی قسم
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِیْنَ(73)فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍﭤ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو دن نکلتے ہی انہیں زوردار چیخ نے آپکڑا۔ تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا اور ان پر کنکر کے پتھر برسائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ:تو انہیں زور دار چیخ نے آپکڑا ۔} یعنی سورج نکلتے وقت حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامکی زور دار چیخ نے آپکڑا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۵۸۵، ملخصاً)
{فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا:تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا۔} یعنی ہم نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستی کا اوپر کا حصہ اس کے نیچے کا حصہ کردیا اس طرح کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام زمین کے اس حصے کو اُٹھا کر آسمان کے قریب لے گئے اور وہاں سے اوندھا کرکے زمین پر ڈال دیا ۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۵۸۵)
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ(75)وَ اِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(76)اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَﭤ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اس میں غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ اور بیشک وہ بستیاں اس راستے پر ہیں جو اب تک قائم ہے۔ بیشک اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ:بیشک اس میں ۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا ان کے مہمانوں کی بے حرمتی کرنے کا قصد کرنے اور ان کی بستیوں کو الٹ دئیے جانے اور ان پر پتھروں کی بارش ہونے میں غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جن کے ذریعے وہ حق کی حقیقت پر اِستدلال کر سکتے ہیں ۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۴۸۰)
{وَ اِنَّهَا:اور بیشک وہ بستیاں ۔} اس آیت میں کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں ملکِ شام کی طرف جانے والی گزرگاہ پر ہیں اور لوگوں کے قافلے وہاں سے گزرتے ہیں اور غضبِ الٰہی کے آثار اُن کے دیکھنے میں آتے ہیں تو کیا وہ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔(جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۲۱۴، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۸۶، ملتقطاً)
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:بیشک اس میں نشانیاں ہیں ۔} یعنی ان بستیوں کے آثار جو کہ وہاں سے گزرنے والوں کے مشاہدے میں آتے ہیں ، ان میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے نشانیاں ہیں کہ وہ انہیں دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ جس عذاب کی وجہ سے ان کے شہر اجڑ گئے وہ ان کے برے کاموں کی وجہ سے ان پر آیا تھا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۷،۴ / ۴۸۰)اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور دین ، عقل اور فراست اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس سے تقویٰ اور طہارت نصیب ہوتی ہے۔ بے عقل ،غافل اور کافر ایسے واقعات کو اتفاقی یا آسمانی تاثیرات سے مانتا ہے جیسا کہ آج بھی دیکھا جا رہا ہے، لیکن عقلمند مومن ان کو مخلوق کی بد عملی کا نتیجہ جان کر دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے۔
وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَ(78)فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْۘ-وَ اِنَّهُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍﭤ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک کثیر درختوں والی جگہ کے رہنے والے ضرور ظالم تھے۔ تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور بیشک وہ دونوں بستیاں صاف راستے پر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ:اور بیشک کثیر درختوں والی جگہ کے رہنے والے۔} اس آیت میں ’’ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ‘‘ سے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم مراد ہے۔ اَیْکَہ جھاڑی کو کہتے ہیں ،ان لوگوں کا شہر چونکہ سرسبز جنگلوں اور مَرغْزاروں کے درمیان تھا اس لئے انہیں جھاڑی والا فرمایا گیا اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان پر رسول بنا کر بھیجا اوران لوگوں نے نافرمانی کی اور حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایاتو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۰۷، ملخصاً)ان کا واقعہ سورۂ شعراء میں بھی مذکور ہے ۔
{فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔} یعنی ہم نے عذاب بھیج کر انہیں ہلاک کر دیااور بیشک قومِ لوط کے اور اصحابِ اَیْکَہ کے شہر صاف راستے پر ہیں جہاں سے آدمی گزرتے اور دیکھتے ہیں تو اے اہلِ مکہ !تم اُنہیں دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۲۱۴، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۰۷، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ(80)وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(81)وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(82)فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَ(83)فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَﭤ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک حجر والو ں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے منہ پھیرے رہے۔اور وہ بے خوف ہو کرپہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے تھے ۔ تو انہیں صبح ہوتے زور دار چیخ نے پکڑ لیا ۔تو ان کی کمائی کچھ ان کے کام نہ آئی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ:اور بیشک حجر والو ں نے جھٹلایا۔} حِجْرمدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک وادی ہے جس میں قومِ ثمود رہتے تھے ، انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور ایک رسول عَلَیْہِ السَّلَام کی تکذیب تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب ہے کیونکہ ہر رسول تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو جس نے کسی ایک رسول عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلایا تو گویا کہ اس نے تمام رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۵۸۶)
نوٹ: قومِ ثمود کے واقعات تفصیل کے ساتھ سورۂ اَعراف اور سورۂ ہود میں گزر چکے ہیں ۔
{وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا:اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں ۔} یعنی ہم نے قومِ ثمود کو اپنی نشانیاں دیں کہ پتھر سے اونٹنی پیدا کی جو بہت سے عجائبات پر مشتمل تھی مثلاً اس کا جسم بڑا ہونا، پیدا ہوتے ہی بچہ جننا اور کثرت سے دودھ دینا کہ پوری قومِ ثمود کو کافی ہو وغیرہ ، یہ سب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات اور قومِ ثمود کے لئے ہماری نشانیاں تھیں تو وہ ان نشانیوں سے اِعراض کرتے رہے اور ایمان نہ لائے ۔(تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ۷ / ۱۵۷، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۵۸۶، ملتقطاً)
{وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ:اور وہ تراشتے تھے ۔} یعنی وہ لوگ بے خوف ہو کرپہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے تھے کیونکہ انہیں اس کے گرنے اور اس میں نقب لگائے جانے کا اندیشہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ گھر تباہ نہیں ہوسکتے ،ان پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔(مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ص۵۸۶)
{فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ:تو انہیں زور دار چیخ نے پکڑ لیا ۔} جب قومِ ثمود نے اونٹنی کی کونچیں کاٹیں تو حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے تین دن گزرنے کے بعد صبح ہوتے ہی قومِ ثمود کو آسمان سے ایک زور دار چیخ سنائی دی اور زمین میں زلزلہ ا ٓگیا، یوں ان سب کو ہلاک کر دیا گیا۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۳، ۳ / ۱۰۵۰، ملخصاً)
{فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ:تو ان کے کچھ کام نہ آئی۔} یعنی وہ لوگ شرک اور جو برے کام کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئے اور اُن کے مال و متا ع اور اُن کے مضبوط مکان انہیں عذاب سے نہ بچاسکے۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۰۷، جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۴، ص۲۱۴، ملتقطاً)
عذاب کی جگہ پر روتے ہوئے داخل ہونا:
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں کے آثار عرب کی سر زمین میں آج بھی موجود ہیں اور وہاں وہ جگہ ’’مداینِ صالح‘‘ کے نام سے معروف ہے ،آج بھی لوگ ان آثارکو دیکھنے جاتے ہیں ، بطورِ خاص ان کی ترغیب کے لئے اور عمومی طور پر سب مسلمانوں کی ترغیب کے لئے یہاں ایک حدیث پاک ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب مقامِ حِجر کے پاس سے گزرے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ظالموں کے مکانات میں روتے ہوئے داخل ہو نا، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا۔ پھر سوار ی پر بیٹھے ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چہرۂ انور پر چادر ڈال لی۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی: والی ثمود اخاہم صالحاً، ۲ / ۴۳۲، الحدیث: ۳۳۸۰)
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب حق کے ساتھ بنایا اور بیشک قیامت آنے والی ہے تو تم اچھی طرح درگزر کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا بِالْحَقِّ:مگر حق کے ساتھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو اللّٰہ تعالیٰ نے بامقصد اور حکمت سے بھرپور بنایا ہے اور بیشک قیامت آنے والی ہے ،اس میں ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا ضرور ملے گی تو اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم سے اچھی طرح درگزر کریں اور اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر و تحمل کریں اور ان کی خطاؤں سے درگزر کریں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم آیتِ قتال سے مَنسوخ ہوگیا اور دوسرا قول یہ ہے کہ منسوخ نہیں ہوا۔ (جلالین مع صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۵۰، خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۵، ۳ / ۱۰۸، ملقتطاً)
اَذِیَّتیں پہنچانے والوں کے ساتھ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سلوک:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں سے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جتنا ڈرایا گیا ہوں اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیا اور میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جتنا ستایا گیا ہوں اتنا کوئی نہیں ستایا گیا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۳۴-باب، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)اوران کی اذیتوں کے مقابلے میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق، بردباری اور عفو و درگزر کا عظیم مظاہرہ ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ علامہ عبد المصطفٰیٰ اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اُس (خطاب )کے بعد ( جو آپ نے فتحِ مکہ کے موقع پر مسلمانوں اور کفار کے مجمع سے فرمایا تھا) شہنشاہِ کونین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اس ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشرافِ قریش کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندانِ مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں اورشرمناک گالیوں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خونِ نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درو دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے وہ ستم گار جنہوں نے شمعِ نبوت کے جاں نثار پروانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر، کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دیئے تھے، سینکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عُدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کوؤں کو کھلا دی جائیں گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملاکر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کرکے تہس نہس کر ڈالیں گی، ان مجرموں کے سینوں میں خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں آگئے تھے اور عالَمِ یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اورناامیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نگاہِ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟‘‘ اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں ۔‘‘ سب کی للچائی ہوئی نظریں جمالِ نبوت کا منہ تک رہی تھیں اور سب کے کان شہنشاہ ِنبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ‘‘آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیرمتوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمانِ رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرطِ ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے نعروں سے حرمِ کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ
جہاں تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
کفار نے مہاجرین کی جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں اور سامانوں کو مکہ کے غاصبوں کے قبضوں سے واگزار کرکے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہِ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کردیں ۔
اللّٰہ اکبر! اے اقوامِ عالم کی تاریخی داستانو! بتاؤ کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتابِ زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق ہے؟ اے دھرتی! خدا کے لئے بتا، اے آسمان! لِلّٰہِ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک کیا ہو؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو! کیا تم نے لاکھوں برس کی گردشِ لیل و نہار میں کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ شاہانِ عالَم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ دیکھے
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارا رب ہی بہت پیدا کرنے والا، جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ رَبَّكَ:بیشک تمہارا رب۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے جس رب نے آپ کو کمال کی انتہا تک پہنچایا وہی آپ کو،ان کفار کو اور تمام موجودات کو پیدا کرنے والا ہے اور وہ آپ کے اور ا ن کفار کے احوال کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ جانتا ہے اور آپ کے اور ان کے درمیان ہونے والے معاملات میں سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے اس لئے آپ تمام امور میں اسی پر توکل کریں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۶، ۴ / ۴۸۵)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے تمہیں سات آیتیں دیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور عظمت والا قرآن(دیا)۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ:اور بیشک ہم نے تمہیں سات آیتیں دیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے صرف اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمائیں کیونکہ انسان جب اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی کثیر نعمتوں کویاد کرتا ہے تو اس کے لئے اذیتیں پہنچانے والوں سے درگزر کرنا اور سختیوں پرصبر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷، ۷ / ۱۵۸)
سَبع مَثانی سے کیا مراد ہے؟
اس آیت میں سات آیتوں سے مراد سورۂ فاتحہ ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی اُس حدیث میں ہے جوحضرت سعید بن معلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،(یعنی سورہ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآنِ عظیم (کے تمام علوم کی جامع) ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الفاتحۃ، باب ما جاء فی فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۱۶۳، الحدیث: ۴۴۷۴)اور سنن ترمذی کی اُس حدیث میں ہے جو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰه (یعنی سورہ فاتحہ) اُمُّ القرآن، اُمُّ الکتاب اور سبع مثانی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجر، ۵ / ۸۶، الحدیث: ۳۱۳۵)
سورۂ فاتحہ کو مثانی کہنے کی وجوہات:
سورۂ فاتحہ کو مثانی یعنی بار بار دہرائے جانے والی کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے ا س لئے اسے مثانی فرمایا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ اللّٰہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تقسیم کی گئی ہے، اس کے پہلے نصف میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے اور دوسرے نصف میں دعا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی، پہلی بار مکہ میں اور دوسری بار مدینہ میں ، اس لئے اسے مثانی یعنی بار بار نازل ہونے والی فرمایا گیا۔ (جلالین مع صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷،۳ / ۱۰۵۰-۱۰۵۱)
شفا اور قوتِ حافظہ کا وظیفہ:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خواص القرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب سورۂ فاتحہ کو پاک برتن میں لکھا جائے اور پاک پانی سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور اس پانی سے مریض کا چہرہ دھویا جائے تو اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اسے شفا مل جائے گی۔ اور جب سورۂ فاتحہ کو شیشے کے برتن میں مشک سے لکھا جائے اور عرقِ گلاب سے اس لکھے ہوئے کو مٹایا جائے اور وہ پانی ایسے کُند ذہن کو سات دن تک پلایا جائے جسے کچھ یاد نہ رہتا ہو تو اس کی کند ذہنی ختم ہو جائے گی اور جو سنے گا وہ اسے یاد ہو جائے گا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۷،۴ / ۴۸۸)
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم اپنی نگاہ اس مال و اسباب کی طرف نہ اٹھاؤ جس کے ذریعے ہم نے کافروں کی کئی قسموں کو فائدہ اٹھانے دیا ہے اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ اور مسلمانوں کیلئے اپنے بازو بچھا دو۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ:تم اپنی نگاہ نہ اٹھاؤ ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے انبیاء کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن کے سامنے دنیا کی نعمتیں حقیر ہیں ، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کے مال و متاع سے مستغنی رہیں جو یہود یوں اور عیسائیوں وغیرہ مختلف قسم کے کافروں کو دیا گیا۔ (مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۵۸۷، ملخصاً)
علامہ محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’دنیا کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظر کفار کے مال و دولت کی طرف تھی( تو اس سے منع کیا گیا بلکہ آپ ہمیشہ سے مالِ کفار سے مُجتنَب تھے تو اسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہنے کا فرمایا گیا ہے) اور اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن دنیا کے مال و متاع کی طرف نظر کرنے کی ممانعت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو ہے کیونکہ جسے قرآن کا علم دیا گیا تو ا س کی نظر دنیا کی رنگینیوں کی طرف نہیں بلکہ قرآن میں غورو فکر کرنے، اس کے معانی سمجھنے اور اس میں دئیے گئے احکامات کی تعمیل کرنے کی طرف ہونی چاہئے۔ (البحر المحیط، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۵ / ۴۵۲)
آیت ’’ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
(1)… مسلمان کو چاہیے کہ کافر اور کافر کے مال و متاع کو کبھی عز ت کی نگا ہ سے نہ دیکھے۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم کسی بدعمل پر کسی نعمت کی وجہ سے رشک نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد وہ کس چیز سے ملے گا، اس کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس اذیت دینے والی ایسی چیز یعنی جہنم کی آگ ہے جو فنا نہ ہو گی۔ (شرح السنۃ، کتاب ا لرقاق، باب النظر الی من ہو اسفل منہ، ۷ / ۳۲۴)
(2)… اہلِ علم حضرات کو چاہئے کہ وہ مالداروں کے ساتھ اس طرح کا تعلق نہ رکھیں کہ جس سے مالداروں کی نظر میں ان کی حیثیت کم ہو اور مالدار انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنا گوارا نہ کریں بلکہ خود کو ان کے مال و دولت سے بے نیاز رکھیں نیز قرآن پڑھ کر بھیک مانگنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر غور کریں ۔
{وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ:اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ا س وجہ سے غمزدہ نہ ہوں کہ وہ ایمان نہیں لائے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل نہیں ہوئے تاکہ ان کے ذریعے کمزور مسلمانوں کو کچھ قوت حاصل ہوتی۔(ابوسعود، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۳۸)
{وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ:اور مسلمانوں کیلئے اپنے بازو بچھا دو۔} یعنی ا ے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مسلمانوں پر رحمت اور شفقت کرتے ہوئے ان کے سامنے تواضع فرمائیں اور ان پر ا س طرح رحم فرمائیں جس طرح پرندہ اپنے بچوں پر اپنے پروں کو بچھا دیتا ہے۔ (صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۰۵۱)
مسلمانوں پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و شفقت:
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت تو ایسی ہے کہ ا س کے بارے میں خود رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
یہ تو قرآنِ مجید سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت کا بیان ہو ا،اب مسلمانوں پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں
(1)…امت کے کمزور، بیمار اور کام کاج کرنے والے لوگوں کی مشقت کے پیشِ نظر عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر نہ فرمایا۔
(2)…کمزور اور بیمار لوگوں اور بچوں کا لحاظ کرتے ہوئے نماز کی قراء ت کو زیادہ لمبا نہ کرنے کا حکم دیا۔
(3)… رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔
(4)…امت کے مشقت میں پڑ جانے کی وجہ سے انہیں صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔
(5)… امت کی مشقت کی وجہ سے ہر سال حج کو فرض نہ فرمایا۔
(6)…مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے طواف کے تین چکروں میں رَمل کا حکم دیا تمام چکروں میں نہیں دیا۔
(7)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پوری پوری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے، یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ(89)كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَ(90)الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم فرماؤ کہ میں ہی صاف ڈر سنانے والاہوں ۔ جیسا ہم نے تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔ جنہوں نے کلامِ الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ:اور تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرما دیں کہ میں ہی عذاب کا صاف ڈر سنانے والا ہوں کہ سرکشی میں تمہاری زیادتی کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا اللّٰہ تعالیٰ نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا۔(تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۸۹-۹۰، ۷ / ۵۴۳)
{اَلَّذِیْنَ:جنہوں نے۔ }تقسیم کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ؟ اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں کہ تقسیم کرنے والوں سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں، کیونکہ انہوں نے قرآنِ پاک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا یعنی قرآنِ کریم کا جو حصہ اُن کی کتابوں کے موافق تھا وہ اس پر ایمان لائے اور باقی کے منکر ہوگئے۔
(2)…حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابن سائب کا قول ہے کہ بانٹنے والوں سے کفارِ قریش مراد ہیں ،ان میں سے بعض کفار قرآن کو جادو، بعض کہانت اور بعض افسانہ کہتے تھے، اس طرح انہوں نے قرآنِ کریم کے بارے میں اپنے اقوال تقسیم کر رکھے تھے ۔
(3)… ایک قول یہ ہے کہ بانٹنے والوں سے وہ بارہ اَشخاص مراد ہیں جنہیں کفار نے مکہ مکرمہ کے راستوں پر مقرر کیا تھا، حج کے زمانے میں ہرہر راستہ پر ان میں سے ایک ایک شخص بیٹھ جاتا تھااور وہ آنے والوں کو بہکانے اور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُنحرف کرنے کے لئے ایک ایک بات مقرر کرلیتا تھا کہ کوئی آنے والوں سے یہ کہتا تھا ’’اُن کی باتوں میں نہ آنا کہ وہ جادو گر ہیں ، کوئی کہتا وہ کذّاب ہیں ، کوئی کہتا وہ مجنون ہیں ، کوئی کہتا وہ کاہن ہیں ، کوئی کہتا وہ شاعر ہیں ۔ یہ سن کر لوگ جب خانہ کعبہ کے دروازے پر آتے تو وہاں ولید بن مغیرہ بیٹھا رہتا، اس سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حال دریافت کرتے اور کہتے کہ ہم نے مکہ مکرمہ آتے ہوئے شہر کے کنارے اُن کی نسبت ایسا سنا۔ وہ کہہ دیتا کہ ٹھیک سنا ۔اس طرح مخلوق کو بہکاتے اور گمراہ کرتے، ان لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۹-۱۱۰، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۵۸۷، خزائن العرفان، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۴۹۸، ملتقطاً)
عذاب کی تشبیہ سے متعلق ایک اعتراض کا جواب:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس مقام پر ایک اعتراض قائم کر کے اس کا جواب دیا ہے ،وہ اعتراض یہ ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے اسے کسی ایسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینی چاہئے کہ جو واقع ہو چکی ہو تاکہ اس کے ذریعے نصیحت حاصل ہو حالانکہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت تک تو تقسیم کرنے والوں پر کوئی عذاب نازل نہیں ہو اتھا ۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں ’’یہاں عذاب کو اس چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کا واقع ہونا یقینی تھاتو یہ گویا کہ ایسے ہے جیسے واقع ہو گیا اور غزوۂ بدر کے دن اس کا وقوع ہو گیاتھا لہٰذا یہاں تقسیم کرنے والوں کے عذاب کے ساتھ ا س عذاب کو تشبیہ دینا درست ہے جس سے ڈرایا گیا ہے۔(صاوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۰۵۱، ملخصاً)
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ(92)عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تمہارے رب کی قسم ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے۔ اُس کے بارے میں جو وہ کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَرَبِّكَ:تو تمہارے رب کی قسم ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم قیامت کے دن مُقْتَسِمِین سے ان کے ا س عمل اور دیگر تمام گناہوں کے بارے میں ضرور پوچھیں گے ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہم قیامت کے دن تما م مُکَلِّفین سے ان کے ایمان ،کفر اور دیگر تمام اعمال کے بارے میں پوچھیں گے۔ (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۲، ۷ / ۱۶۴، ملخصاً)
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(94)
ترجمہ: کنزالعرفان
پس وہ بات اعلانیہ کہہ دو جس کاآپ کو حکم دیا جارہاہے اور مشرکوں سے منہ پھیر لو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ:پس وہ بات اعلانیہ کہہ دو جس کا آپ کو حکم دیا جارہاہے۔} اس آیت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسالت کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے اِظہار کا حکم دیا گیا ۔ عبد اللّٰہ بن عبیدہ کا قول ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تک دعوتِ اسلام اعلان کے ساتھ نہیں کی جاتی تھی۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)
اسلام کی دعوت دینے کے مراحل:
اعلانِ نبوت کے بعد تین برس تک حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتہائی پوشیدہ طور پر اور نہایت راز داری کے ساتھ تبلیغِ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے۔ تین برس کی اس خفیہ دعوتِ اسلام میں مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد اسلام قبول کر کے سیدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہو گئی۔(المواہب،ذکر اوّل من آمن باللّٰہ ورسولہ، ۱ / ۴۵۴-۴۵۵، ۴۶۰-۴۶۱، ملخصاً) اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سورۂ شعراء کی آیت ’’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ نازل فرمائی اور حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرائیے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک دن کوہِ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔ جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقینا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمیشہ سچا (اور امین) ہی پایا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرا رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چچا ابو لہب بھی تھا، سخت ناراض ہو ا اور سب کے سب چلے گئے اور حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اول فول بکنے لگے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الشعراء، باب ولا تخزنی یوم یبعثون، ۳ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۷۷۰) اب وہ وقت آگیا کہ اعلانِ نبوت کے چوتھے سال سورۂ حجر کی آیت’’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘‘ نازل فرمائی اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا کہ اے حبیب! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے اور تمام قریش (بلکہ تمام اہلِ مکہ بلکہ پورا عرب) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کی ایذا رسانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔(المواہب، ذکر اوّل من آمن باللّٰہ ورسولہ، ۱ / ۴۶۱-۴۶۲)
{وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ:اور مشرکوں سے منہ پھیر لو۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنا دین ظاہر کرنے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رسالت کی تبلیغ کرنے پر مشرکوں کی طرف سے ملامت کرنے کی پروا ہ نہ کریں اور اُن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور ان کے اِستہزا کا غم نہ کریں ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۱۰)
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَ(95)الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۚ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(96)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ان ہنسنے والوں کے مقابلے میں ہم تمہیں کافی ہوں گے۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو عنقریب جان جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا كَفَیْنٰكَ:بیشک ہم تمہیں کافی ہوں گے۔} کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسودبن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث بن قیس اور ان سب کا افسر (5) ولید ا بنِ مغیرہ مخزومی ، یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بہت ایذا دیتے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسودبن مُطَّلِب کے خلاف حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اس کو اندھا کردے۔ ایک روز تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شردفع کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہوگئے ،ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں ایک تیر کی نوک چبھ گئی ، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا ۔ عاص بن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مَرا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے قتل کیا، اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی ، کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا، اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے رب عَزَّوَجَلَّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ،وہ اسی میں ہلاک ہوگیا انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۱۱۱، بغوی، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۵، ۳ / ۴۸-۴۹، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(97)فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(98)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ نَعْلَمُ:اور بیشک ہمیں معلوم ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہمیں معلوم ہے کہ آپ کی قوم کے مشرکوں کا آپ کو جھٹلانے ،آپ کا اور قرآن کا مذاق اڑانے کی وجہ سے آپ کو ملال ہوتا ہے، تو آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرنے والوں کے لئے تسبیح اور عبادت میں مشغول ہونا غم کا بہترین علاج ہے۔(تفسیرطبری، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ۷ / ۵۵۳، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۷-۹۸، ص۵۸۸، ملتقطاً)
غم کا بہترین علاج:
اس سے معلوم ہوا کہ غمگین شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے غم دور کرنے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مشغول ہوجائے، اس سے اِنْ شَآءَ اللّٰہ اس کا غم دور ہو جائے گا۔ حدیث شریف میں ہے، حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کوئی اہم واقعہ پیش آتا تو نماز میں مشغول ہوجاتے۔(ابوداؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اللیل، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۱۳۱۹)
اور حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:جس نے صبح اور شام سات مرتبہ یہ کہا’’حَسْبِیَ اللّٰہُ لَا اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم‘‘تو اللّٰہ تعالیٰ اس چیز میں اسے کافی ہو گا جس کا اس نے ارادہ کیا۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا اصبح، ۴ / ۴۱۶، الحدیث: ۵۰۸۱)
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو حتّٰی کہ تمہیں موت آجائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اعْبُدْ رَبَّكَ:اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب تک موت آپ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہو جاتی اس وقت تک آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف رہیں ۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۱۱۲)
کوئی بندہ عبادت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا:
اس سے معلوم ہوا کہ بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ولی بن جائے وہ عبادات سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جب سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو آخری دم تک عبادت کرنے کا حکم دیا گیا، تو ہم کیا چیز ہیں ۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے آپ کو بڑے بلند مقام و مرتبہ پر فائز سمجھ کر عبادات کے معاملے میں خود کو بے نیاز جانتے ہیں ، انہیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کہیں شیطان کے خفیہ اور خطرناک وار کا شکار تو نہیں ہو گئے کیونکہ شیطان نے ایسے واروں کے ذریعے بڑے بڑے مشائخ کو گمراہ کیا ہے اور اسی وار کے ذریعے اس نے ولیوں کے سردار، حضور غوث ِ پاک، شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بھی بہکانے کی کوشش کی ہے ، چنانچہ حضرت شیخ ابو نصرموسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میرے والدنے ارشاد فرمایا: میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا، جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اُس میں سے مجھ پر بارش کے مشابہ ایک چیز گری ، میں اس سے سیراب ہوگیا، پھرمیں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہوگیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی: اے عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں ، تو میں نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ کرکہا ’’اے شیطان لعین !دور ہو جا۔ توروشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی، پھر اس نے مجھ سے کہا: اے عبدالقادر! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بوجھ کے ذریعے نجات پاگئے اور میں نے ایسے 70 مشائخ کو گمراہ کر دیا ۔میں نے کہا ’’یہ صرف میرے رب عَزَّوَجَلَّ کا فضل و احسان ہے ۔شیخ ابو نصرموسیٰ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے دریافت کیا گیا ،آپ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے؟ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ارشاد فرمایا ’’اُس کی اِس بات سے کہ بے شک میں نے تیرے لئے حرام چیزوں کو حلال کر دیا۔‘‘(بہجۃالاسرار، ذکر شیء من اجوبتہ ممّا یدلّ علی قدم راسخ فی علوم الحقائق، ص ۲۲۸)