سُوْرَۃ الحَجّ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،   الباب السابع  فی تلاوۃ  القراٰن  وفضائلہ،  الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷،  الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)

 لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔

{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)

 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:

       علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 (1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ-اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ(1)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔} اس سورۂ  مبارکہ کی پہلی آیت میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا کیونکہ تقویٰ اور خوفِ خدا ہی ایسی چیزیں  ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے اَعمال واَخلاق کی اصلاح کرتا ہے اور معاشرہ میں  ایک اچھا انسان بن کر رہتا ہے۔ اور چونکہ تقویٰ اور خوفِ خداوندی پر سب سے زیادہ ابھارنے والی چیز قیامت ہے لہٰذا اس کاتذکرہ بھی اسی آیت میں  کردیا کہ قیامت کی ہَولناکیاں  ،اس کا حساب وکتاب اور اس کے اَحوال پیش ِنظر ہوں  گے توکوئی بھی انسان کسی دوسرے کی حق تَلفی ،ظلم وستم ، اور کسی قسم کی بھی زیادتی نہیں  کرے گا۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اپنے رب کے عذاب سے ڈرو اور اس کی اطاعت میں  مشغول ہو جاؤ، بیشک قیامت کا زلزلہ جو قیامت کی علامات میں  سے ہے اور قیامت کے قریب سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گابہت بڑی چیز ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۲۹۸، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱، ص۷۳۰، ملتقطاً)

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ۔} اس سے پہلی آیات میں   اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیاں  اور اس کی شدت بیان فرمائی اور لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا اور ا س آیت میں  ان لوگوں  کا ذکر فرما رہا ہے جو قیامت کا انکار کرتے ہیں  ۔ اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں  کو خدا کی بیٹیاں  اور قرآنِ مجید کو گزشتہ لوگوں کے قصے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکر تھا ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ وہ ہیں  جو  اللہ تعالیٰ کی شان کے بارے میں  علم کے بغیر جھگڑتے ہیں  اور اس کی شان میں  باطل باتیں  کہتے ہیں  اور وہ اپنے جھگڑنے اور عمومی اَحوال میں  ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۸ / ۲۰۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۴، ملتقطاً)

علمِ کلام اچھا علم ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں  علم کے بغیر بحث کرنا حرام ہے ۔ صرف علماءِ دین تحقیق کے لئے اس کی ذات و صفات میں  بحث کر سکتے ہیں  بشرطیکہ جھگڑا مقصود نہ ہو بلکہ صرف اعتراضات کا اٹھانا اور حق کی تحقیق کا قصد ہو، لہٰذا علمِ کلام برا نہیں ، اچھا علم ہے۔

{وَ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ:اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔} اس آیت میں  سر کش شیطان کے بارے میں  دو قول ہیں  ، (1)اس سے انسانی شَیاطین مراد ہیں  اور یہ کافروں  کے وہ سردار ہیں  جو دوسروں  کو کفر کی طرف بلاتے ہیں ۔ (2) اس سے ابلیس اور اس کے لشکر مراد ہیں ۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۲۹۹)

شیطان انسانوں  اور جنوں  سے نجات کی صورت:

            یاد رہے کہ شیطان خواہ انسانوں  میں  سے ہوں  یاجنوں  میں  سے ان کی کوئی بھی بات نہ مانی جائے کیونکہ اگر ان کی ایک بات مان لی تو یہ ملعون اسی پر اِکتفا نہ کریں  گے بلکہ اور باتیں  منوانے کی تاک میں  بھی رہیں  گے اور جتنا ان کی بات مانتے چلے جائیں  گے اس کاسلسلہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح ان کے ساتھ جھگڑے اور بحث میں  مصروف نہ ہوا جائے کیونکہ ا س کے ذریعے بھی وہ اپنے ناپاک عَزائم میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  لہٰذاان سے نجات کی صورت یہ ہے کہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہ جائے کیونکہ اگر ان کی بات سنیں  گے تو ممکن ہے کہ کوئی بات دل پر اثر کر جائے اور سننے والا کفر و گمراہی کی دلدل میں  پھنس کر رہ جائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے کلام کا خلاصہ ہے کہ شیطان دو قسم کے ہیں  (1) شَیَاطِیْنُ الْجِنْ۔ ان سے ابلیس لعین اور اس کی ملعون اولاد مراد ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں  اور تمام مسلمانوں  کو ان کے شر اور تمام شیاطین کے شر سے پناہ دے۔ (2) شَیَاطِیْنُ الْاِنْس۔ اس سے کفار اور بدعتی لوگوں  کے داعی اور مُنادی مراد ہیں ۔  اللہ تعالیٰ ان پر لعنت فرمائے اور ان کوہمیشہ بے سہارا رکھے اوران پر ہمیں  دائمی نصرت عطا فرمائے ۔ اے  اللہ !سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہماری یہ دعا قبول فرما۔

            ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے

’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘‘(انعام:۱۱۲)

  یوں  ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیا شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کو کہ آپس میں  ایک دوسرے کے دل میں  بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں  دھوکا دینے کیلئے۔

حدیث میں  ہے ،رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے فرمایا’’ شیطان آدمیوں  اور شیطان جنوں  کے شر سے  اللہ کی پناہ مانگ۔ حضرت ابو ذر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے عرض کی: کیا آدمیوں  میں  بھی شیطان ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں ۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ذر الغفاری رضی  اللہ تعالٰی عنہ، ۸ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۱۶۰۸)

            ائمۂ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔( تفسیر طبری، الناس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۲ / ۷۵۳)

            میں  کہتا ہوں :اس آیت کریمہ میں  ’’شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ‘‘ کومقدم کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔اس حدیث کریم نے کہ’’جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تو جھوٹا ہے‘‘ دونوں  قسم کے شیطانوں  کا علاج فرما د یا، شیطان آدمی ہو خواہ جن اُس کا قابو اسی وقت چلتا ہے جب اس کی سنیں  گے اور جب تنکا توڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں  گے کہ’’ تو جھوٹا ہے‘‘ تو وہ خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۰-۷۸۱)

كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَ یَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(4)

ترجمہ: کنزالعرفان

جس پر یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس سے دوستی کرے گا تووہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُتِبَ عَلَیْهِ:جس پر یہ لکھ دیا گیا ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  جِنّات اور انسانوں  کے ہرسرکش شیطان کے متعلق لکھ دیاگیاہے کہ جو اس کی اطاعت اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا راستہ بتائے گا۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں  اس شخص کے بارے میں  لکھ دیا گیا ہے جو شیطان کی پیروی اور ا س سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے جنت سے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۴-۵، تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴، ۸ / ۲۰۲، ملتقطاً)

بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلقات رکھنے کی ممانعت:

            اس آیت سے معلوم ہواکہ بدمذہبوں  سے دوستی اور تعلق نہیں  رکھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنی چاہئے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں  اور اپنی چکنی چپڑی باتوں  ، ظاہری عبادت و ریاضت اور دکھلاوے کی پرہیز گاری کے ذریعے دوسروں  کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ    رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ   سے روایت ہے، حضور اقدس    صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت کے آخر میں  کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں  گے جو تم سے ایسی باتیں  کریں  گے جنہیں  نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپ دادا نے، تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  (خود سے) دور رکھنا۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۶(۶))

            اسی کتاب کی دوسری روایت میں  ہے ،حضور پُر نور    صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  ارشاد فرمایا ’’آخری زمانے میں  دَجّال اور کذّاب ظاہر ہوں  گے ،وہ تمہارے پاس ایسی باتیں  لے کر آئیں  گے جنہیں  تم اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنا ہو گا تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں  دور رکھنا، کہیں  وہ تمہیں  گمراہ نہ کر دیں  اور تمہیں  فتنے میں  نہ ڈال دیں ۔( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

            بد مذہبوں  سے دور رہنے اور انہیں  خود سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد اَحادیث میں  ان سے زندگی اور موت کے تمام تعلقات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو ، ان سے رشتہ نہ کرو، وہ بیمار پڑیں  تو پوچھنے نہ جاؤ، مر جائیں  تو ان کی میت کے پاس نہ جاؤ، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھواور نہ ہی ان کے ساتھ نماز پڑھو۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الثالث فی ذکر الصحابۃ وفضلہم۔۔۔الخ، الفصل الاول ، ۶ / ۲۴۶ ، الجزء الحادی عشر ، الحدیث : ۳۲۵۲۵ ،  ۳۲۵۲۶ ، تاریخ بغداد ، حرف الواو من آباء الحسینین ، ۴۲۴۰- الحسین بن الولید ۔۔۔ الخ ، ۸ / ۱۳۹، ملتقطاً)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْؕ-وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْۚ-وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْــٴًـاؕ-وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے لوگو! اگر تمہیں قیامت کے دن اُٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہو تو(اس بات پر غور کرلو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی ایک بوند سے پھرجمے ہوئے خون سے پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر فرمائیں اور ہم ماؤں کے پیٹ میں جسے چاہتے ہیں اسے ایک مقرر مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تمہیں بچے کی صورت میں نکالتے ہیں پھر (عمر دیتے ہیں ) تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تاکہ (بالآخر) جاننے کے بعد کچھ نہ جانے اور تو زمین کو مرجھایا ہوا دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ (تر و تازہ ہوکر)لہلہاتی ہے اور بڑھتی ہے اور وہ ہرقسم کا خوبصورت سبزہ اگاتی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو!۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کی پیروی کرنے پر ڈانٹا گیا اور ا س آیت میں  ان لوگوں  پر حجت قائم فرما ئی جا رہی ہے جومرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر ہیں  ،چنانچہ اس کی پہلی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ اے لوگو! اگر تمہیں  قیامت کے دن اٹھنے کے بارے میں  کچھ شک ہو تواس بات پر غور کرلو کہ ہم نے تمہاری نسل کی اصل یعنی تمہارے جَدِّ اعلیٰ ،حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مٹی سے پیدا کیا، پھران کی تمام اولاد کو منی کے قطرے سے، پھر جمے ہوئے خون سے کہ نطفہ گاڑھا خون ہو جاتا ہے ،پھر گوشت کی بوٹی سے جس کی شکل بن چکی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے سے پیدا کیا۔ انسان کی پیدائش کا حال اس لئے بیان فرمایا گیا تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر فرمائیں  اور تم  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے کمال کو جان لو اور اپنی پیدائش کے ابتدائی حالات پر نظر کر کے سمجھ لو کہ جو قادرِ برحق بے جان مٹی میں  اتنے اِنقلاب کر کے جاندار آدمی بنا دیتا ہے وہ مرے ہوئے انسان کو زندہ کردے تو یہ اس کی قدرت سے کیا بعید ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۲۹۹-۳۰۰)

انسانی تخلیق کے مَراحل:

             اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کس طرح فرماتا ہے اور اس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف کس طرح منتقل کرتا ہے ،اس کا کچھ بیان تو اس آیت میں  ہوا اوراس کی مزید تفصیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں  ہے،چنانچہ سرکارِ دو عالَم   صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم لوگوں  کی پیدائش کا مادہ ماں  کے پیٹ میں  چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں  رہتا ہے، پھر اتنی ہی مدت جما ہوا خون ہو جاتا ہے، پھر اتنی ہی مدت گوشت کی بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر  اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کا رزق ،اس کی عمر ، اس کے عمل ، اس کا بدبخت یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے، پھر اس میں  روح پھونک دیتاہے۔( بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم صلوات  اللہ علیہ وذرّیتہ،۲ / ۴۱۳،الحدیث: ۳۳۳۲، مسلم، کتاب القدر، باب کیفیّۃ الخلق الادمیّ فی بطن امّہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۲۱، الحدیث: ۱(۲۶۴۳))

{وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ:اور ہم ماؤں  کے پیٹ میں  جسے چاہتے ہیں  ٹھہرائے رکھتے ہیں ۔} مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایک دلیل قائم کرنے کے بعدپیدائش کے بعد کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم ماؤں  کے پیٹ میں  جسے چاہتے ہیں  اسے ولادت کی مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں  ،پھر تمہیں  بچے کی صورت میں  نکالتے ہیں ،پھر تمہیں  عمر دیتے ہیں  تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تمہاری عقل و قوت کامل ہو اور تم میں  کوئی پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاپا آ جاتا ہے کہ عقل و حواس بجا نہیں  رہتے اوربالآخر ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر کمزور، عقل ناقص اور فہم و سمجھ کم ہو جاتی ہے اور جو باتیں  اسے معلوم ہوتی ہیں  وہ بھول جاتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۶-۷، ملتقطاً)

انتہائی ضعیفی کی عمر میں  عقل و حواس ختم ہونے سے محفوظ لوگ:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  بڑھاپے کے وقت انسان کی جو حالت بیان کی گئی اس سے انبیاءِکرام   عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام محفوظ تھے کیونکہ اگر انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی بڑھاپے میں  اس حال کو پہنچ جایا کرتے تو ان پر تبلیغ فرض نہ رہتی اور نبوت سَلب کر لی جاتی کہ اس صورت میں  تبلیغ میں  غلطی کا احتمال تھا لیکن چونکہ وہ حضرات آخری دم تک صاحبِ وحی نبی رہے اس لئے وہ اس حال سے محفوظ تھے۔ نیز  اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خاص اولیاء ِکرام کو بھی اس حال سے جدا رکھتا ہے اور ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں  جنہیں  انتہائی ضعیفی کے عالم میں  ا س حال سے بچا لیا جاتا ہے ، چنانچہ حضرت عکرمہ   رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ   فرماتے ہیں  ’’جو شخص تلاوتِ قرآن کا عادی ہو گا وہ اس حالت کو نہ پہنچے گا (کہ اس کی عقل اور حواس قائم نہ رہیں )۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۷۸)

            اور علامہ احمد صاوی     رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ علماءِ کرام پر بھی یہ حالت طاری نہیں  ہوتی بلکہ جیسے جیسے ان کی عمر میں  اضافہ ہوتا جاتا ہے ان کی عقل بھی بڑھتی جاتی ہے۔( صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۱۳۲۷)

            نوٹ: انتہائی ضعیفی اور نکمے پن کی عمر سے متعلق کچھ کلام سورۂ نحل کی آیت نمبر 70 کی تفسیر میں  گزر چکا ہے ، اسے وہاں  ملاحظہ فرمائیں ۔

{وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً:اور تو زمین کو مرجھایا ہوا دیکھتا ہے۔} یہاں  سے مرنے کے بعد اٹھنے پر دوسری دلیل قائم کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے انسان! تو زمین کو مرجھایا ہوا اور خشک دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں  تو وہ تر و تازہ ہوکرلہلہاتی ہے اور بڑھتی ہے اور وہ ہرقسم کا خوبصورت سبزہ اگاتی ہے تو جو قادرو برحق رب تعالیٰ مرجھائی ہوئی زمین کو سرسبز و شاداب کر سکتاہے تو وہ ان بندوں  کو بھی زندہ کر سکتا ہے جن کے اجزا موت کے بعد بکھر چکے ہوں۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۰۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵، ۶ / ۸، ملتقطاً)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ یُحْیِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا اور یہ کہ وہ ہرشے پر قادر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ:یہ اس لیے ہے کہ  اللہ ہی حق ہے۔}مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر دو دلیلیں  بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں  ان کا نتیجہ مُرَتَّب فرمایا جارہا ہے کہ آدمی کی پیدائش کے ابتدائی حالات اور مرجھائی ہوئی خشک زمین کو سرسبز و شاداب کر دینے کے بارے ذکر کیا گیا تاکہ تم جان لو کہ  اللہ تعالیٰ موجود ہے اور یہ چیزیں  اس کی حکمت کی دلیلیں  ہیں  اور یہ بھی جان لو کہ جس طرح ا س نے مردہ زمین کو زندہ کیا اسی طرح وہ مردوں  کو زندہ کرے گا اوریہ کہ  اللہ تعالیٰ ہر ممکن چیزپر قادر ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۳۰۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶، ص۷۳۲، ملتقطاً)

وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَاۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ(7)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں اور یہ کہ اللہ انہیں اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ:اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ یہ دلائل ا س لئے ذکر کئے گئے تاکہ تمہیں  معلوم ہو جائے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس کے آنے میں  کچھ شک نہیں اور یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ  ان مردوں  کو اٹھائے گا جو قبروں  میں  ہیں  اور مرنے کے بعد اٹھایا جانا حق ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۳۰۰)

         خیال رہے کہ قبر سے مراد عالَمِ برزخ ہے جو موت اور حشر کے بیچ میں  ہے،نہ کہ محض وہ غار جو مُردوں  کا مَدفن ہو، لہٰذا جلنے والے، ڈوبنے والے وغیرہ سب ہی قیامت کے دن اٹھائے جائیں  گے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ(8)ثَانِیَ عِطْفِهٖ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَهٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ نُذِیْقُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ(9)ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدٰكَ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کوئی آدمی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں بغیر علم اور بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑتا ہے ۔ اس حال میں کہ وہ حق سے اپنی گردن موڑے ہوئے ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دے ،اس کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور (اس لیے) کہ اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ:اورکوئی آدمی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں  بغیرعلم کے جھگڑتا ہے۔} شانِ نزول :یہ آیت ابوجہل وغیرہ کفار کی ایک جماعت کے بارے میں  نازل ہوئی جو  اللہ تعالیٰ کی صفات میں  جھگڑا کرتے تھے اور اس کی طرف ایسے اوصاف منسوب کرتے تھے جو اس کی شان کے لائق نہیں ۔ چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کافروں  میں  کوئی آدمی وہ ہے جو  اللہ تعالیٰ کی شان و صفت کے بارے میں  یوں  جھگڑتا ہے کہ اس کے پاس نہ تو علم ہے، نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی روشن تحریر ہے ، اس کے باوجود اس کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی بات پر اِصرار کئے ہوئے اورتکبر کی بنا پر حق سے اپنی گردن موڑے ہوئے ہے تاکہ وہ لوگوں  کو  اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا دے اور اس کے دین سے مُنحرف کر دے،اس کے لیے دنیا میں  رسوائی ہے اور قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ اسے آگ کا عذاب چکھائے گا اور ا س سے کہا جائے گا کہ یہ اس کفر و تکذیب کا بدلہ ہے جو تو نے دنیا میں  کیا اور  اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ بندوں  پر ظلم نہیں  کرتااور کسی کو جرم کے بغیر پکڑتا ہے اور نہ ہی کسی کے جرم کے بدلے گرفت فرماتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۳ / ۳۰۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۷۳۲، ملتقطاً)

آیت’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ‘‘ سے معلوم ہونے والے اَحکام:

            اس آیت سے دو اَحکام معلوم ہوئے

(1)… آدمی کو کوئی بات علم اور سند و دلیل کے بغیر نہیں  کہنی چاہئے اور خاص طور پر  اللہ تعالیٰ کی شان میں  ہر گز ایسی کوئی بات نہ کرے جو اس کی عظمت و شان کے لائق نہ ہو اور علم ،سند اور دلیل کے بغیر ہو۔

(2)…علم والے کے خلاف جو بات بے علمی سے کہی جائے گی وہ باطل ہوگی ۔

            ہمارے آج کے زمانے کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ہر آدمی اپنی عقل سے جو چاہتا ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں  کہتا ہے اور پھراس پر اِصرار کرتا ہے بلکہ دوسروں  کو مجبور کرتا ہے کہ اُس کی بات مانیں  اگرچہ اس کی بات عقل و نقل سے دور، قرآن و حدیث کے خلاف اور جہالت و حماقت سے بھرپور ہو۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍۚ- فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ ﰳاطْمَاَنَّ بِهٖۚ- وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ-ﰳانْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ۫ۚ -خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَؕ- ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(11)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کوئی آدمی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پرہو کر کرتاہے پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو وہ اس پرمطمئن ہوجاتاہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل پلٹ جاتا ہے۔ ایسا آدمی دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھاتا ہے۔یہی کھلا نقصان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ:اور کوئی آدمی وہ ہے جو  اللہ کی عبادت ایک کنارے پرہو کر کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آ یت دیہات میں رہنے والے عربوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو اَطراف سے آ کر مدینہ میں داخل ہوتے اور اسلام لاتے تھے ، ان کی حالت یہ تھی کہ اگر وہ خوب تندرست رہے اور ان کی دولت بڑھی اور ان کے ہاں بیٹا ہوا تب تو کہتے تھے کہ اسلام اچھا دین ہے، اس میں آ کر ہمیں فائدہ ہوا اور اگر کوئی بات اپنی امید کے خلاف پیش آئی، مثلاً بیمار ہو گئے ،یا ان کے ہاں لڑکی پیداہو گئی، یا مال کی کمی ہوئی تو کہتے تھے :جب سے ہم اس دین میں داخل ہوئے ہیں ہمیں نقصان ہی ہوا اور اس کے بعد دین سے پھر جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں ابھی دین میں ثابت قدمی حاصل ہی نہیں ہوئی اور یہ دین کے معاملے میں اس طرح شک و تَرَدُّد میں رہتے ہیں جس طرح پہاڑ کے کنارے کھڑا ہوا شخص حرکت کی حالت میں ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی آزمائش آجائے اور کسی قسم کی سختی پیش آئے تو مُرتد ہو کر منہ کے بل پلٹ جاتے اور کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھاتے ہیں ۔ دنیا کا نقصان تو یہ ہے کہ جو ان کی امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں اور مرتد ہو جانے کی وجہ سے ان کا خون مباح ہوا اور آخرت کا نقصان ہمیشہ کا عذاب ہے اوریہی کھلا نقصان ہے۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱،  ۳ / ۳۰۰-۳۰۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۷۳۳، ملتقطاً)

دین ِاسلام دُنْیَوی منفعت کی وجہ سے نہیں بلکہ حق سمجھ کر قبول کیا جائے:

اس سے معلوم ہواکہ انسان دین ِاسلام کوحق سمجھ کرقبول کرے اور پھر اس پرڈٹ جائے چاہے نفع ہو یا نقصان، ہرحال میں خوش رہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کاشکرا دا کرتا رہے کہ اس نے اسے اسلام جیسی عظیم لازوال دولت سے نوازا۔ اسی طرح نماز و عبادت وغیرہ کو دُنْیَوی نفع ونقصان کے ساتھ نہ تولا جائے بلکہ عبادت کی حیثیت ہی سے کیا جائے۔

یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهٗ وَ مَا لَا یَنْفَعُهٗؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(12)یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖؕ-لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِیْرُ(13)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ اللہ کے سوا اس (بت) کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچائے اور نہ اسے نفع دے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔ وہ اسے پوجتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے بیشک وہ کیا ہی برا مولیٰ ہے اور بیشک کیا ہی برا ساتھی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهٗ: وہ  اللہ کے سوا اس (بت) کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچائے۔}

ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ مُرتد ہونے کے بعد بت پرستی کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے اس کی عبادت کرتے ہیں  جو نہ انہیں  نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے کیونکہ وہ بے جان ہے ،ایسے خداؤں  کی پوجاانتہا درجے کی گمراہی ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۷۳۳، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۱۲، ملتقطاً)

{ یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ:وہ اس کو پوجتے ہیں  جس کانقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔} اس آیت میں  نقصان سے مراد واقعی نقصان ہے ، یعنی دنیا میں  قتل اور آخر ت میں  دوزخ کا عذاب۔ اور نفع سے مراد ان کا خیالی نفع یعنی بتوں  کی شفاعت وغیرہ ہے یعنی یہ کفار بتوں  سے جس نفع کی امید رکھتے ہیں  وہ تو بہت دور ہے کہ ناممکن ہے جبکہ ان کا حقیقی نقصان عنقریب ضرور دیکھ لیں  گے۔

اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ(14)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ ایمان والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔ بیشک اللہ جوچاہتا ہے کرتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک  اللہ ایمان والوں  کو داخل فرمائے گا ۔}اس سے پہلی آیات میں  ایمان اور اسلام کے متعلق شکوک وشُبہات رکھنے والوں  کا اور مُرتد ہونے کے بعد جن کی وہ پوجا کرتے تھے ان کا حال بیان کیا گیا اور اب یہاں  سے ایمان پرثابت قدم رہنے والوں  کا حال اور ان کے حقیقی معبود کی شان بیان کی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک  اللہ تعالیٰ ایمان والوں  اور نیک اعمال کرنے والوں  کو ان باغوں  میں  داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں  رواں  ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے کرتا ہے اوراسی میں  سے یہ بھی ہے کہ وہ فرمانبرداروں  پر انعام اور نافرمانوں  پر عذاب فرماتا ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۱۴،  ۸ / ۲۱۰، ابوسعود، الحج، تحت الآیۃ: ۱۴، ۴ / ۱۱، ملتقطاً)

مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

جو یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اپنے نبی کی مدد نہیں فرمائے گا تو اسے چاہیے کہ اوپر کی طرف ایک رسی دراز کرلے پھر اپنے آپ کو پھانسی دیدے پھر دیکھے کہ کیا اس کے داؤپیچ نے وہ چیز مٹادی جس پر اسے غصہ آتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ كَانَ یَظُنُّ:جو یہ خیال کرتا ہے۔} اس آیت میں  نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اور آپ کے دین کی مخالفت کرنے اور ان سے دشمنی رکھنے والوں  کی ناکامی اور محرومی کو بیان کیا گیا ہے ،چنانچہ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا میں  اپنے حبیب    صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے دین کو غلبہ عطا فرما کر اور آخرت میں  ان کے درجے بلند فرما کر ان کی مدد نہیں  فرمائے گا،لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوتا ہے اور وہ یوں  غصے میں  آجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ غصہ دلانے والی چیز کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کرلے حتّٰی کہ گھر میں  چھت سے رسی باند ھ کراپنے آپ کو پھانسی دے لے ، پھر اس بات پر غور کرے کہ کیا اس کی کوئی تدبیر  اللہ تعالیٰ کی وہ مدد روک سکتی ہے جس پر اسے غصہ آتا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں  اپنے حبیب   صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے دین کا مدد گار ہے اور ان کے حاسدین اور دشمنوں  میں  سے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں  اپنے حبیب  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اور ان کے دین کی مدد نہیں  فرمائے گا،پھر اپنامطلب پورا نہ ہونے کی وجہ سے وہ جل بھُن گیا تو اسے چاہئے کہ کسی طرح آسمان تک پہنچ کراس مدد کو مَوقوف کروا دے جو ا س کے غیظ و غضب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کوئی کر ہی نہیں  سکتا تو اس کا غضب میں  آنا اور غصہ کرنا بیکار ہے۔( تفسیرکبیر،الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۸ / ۲۱۰-۲۱۱، ابوسعود، الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۱۱، البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۳۳۲، ملتقطاً)

 اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کا مددگار ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ عاجزہر گز نہیں  بلکہ وہ اپنے بندوں  پر غالب ہے اور اپنے محبوب بندوں  کی مدد فرماتا ہے ۔یاد رہے کہ کفار دین ِاسلام کو صفحہ ِ ہستی سے مٹانے اور اس کے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اور ان کے سچے غلاموں  کی مدد فرمائی،کفار کو نیست و نابود کیا اور ان کے لشکروں  کو شکست و ہزیمت سے دوچار کر دیا،اسی طرح آج بھی کفار دین ِاسلام کو ختم کرنے کے ناپاک عَزائم اور ارادے رکھتے ہیں  اور ا س کے لئے ہر طرح کے ذرائع بھی استعمال کر رہے ہیں  لیکن ان کی یہ تمام تر کوششیں  اسلام کو مٹا نہیں  سکتیں  کیونکہ  اللہ تعالیٰ دین ِاسلام اور اپنے حبیب   صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے غلاموں  کا مددگار ہے البتہ مسلمانوں  کو چاہئے کہ جب وہ کفار کی طرف سے کسی مشکل میں  گرفتار ہو جائیں  اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طور پر انہیں  مدد نہ پہنچے تو وہ  اللہ تعالیٰ کی رضاپر راضی رہیں  اور دشمنوں  کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کریں  کیونکہ حق غالب رہے گا کبھی مغلوب نہ ہو گا اور  اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب مسلمانوں  سے یہ مشکلات دور ہو جائیں  گی اور کفار و مشرکین کی راحتیں  ختم ہو کر رہ جائیں  گی۔

وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ(16)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو روشن آیتوں کی صورت میں نازل فرمایااور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں  ایسے دلائل نازل فرمائے جن میں  کچھ اِبہام نہیں  اور جو شخص ان میں  غور کرے اس شخص پرحق واضح ہوجائے ،نیزاس پر عقیدۂ توحید، قیامت اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت واضح ہو جائے، اور دلائل خواہ کتنے ہی واضح اورروشن کیوں  نہ ہوں ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے جس کے لئے  اللہ تعالیٰ چاہتاہے ۔

ہدایت حاصل ہونے کا ایک عظیم ذریعہ:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ قرآنِ عظیم ہدایت ملنے، ہدایت پر ثابت قدمی عطا ہونے اور ہدایت میں  اضافے کا ایک عظیم ترین ذریعہ ہے اور قرآنِ مجید سیکھنے میں  مشغول ہونا اور اس کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ہدایت کی علامات میں  سے ایک علامت ہے ، لہٰذا جسے  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی توفیق دی ہے اسے چاہئے کہ وہ قرآنِ کریم صحیح طریقے سے پڑھنا سیکھے ، اسے سمجھنے کی کوشش کرے ، اس میں  دئیے گئے تمام اَحکامات پر عمل کرے اور جن کاموں  سے منع کیا گیا ان سے باز رہے تاکہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی نصیب ہو اور اس کی ہدایت میں  مزید اضافہ بھی ہو۔

            صحیح مسلم شریف میں  حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے کچھ قوموں  کو سر بلند کرے گا اور کچھ کو گرادے گا۔( مسلم،کتاب صلاۃالمسافرین وقصرہا،باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔۔الخ،ص۴۰۷،الحدیث:۲۶۹(۸۱۷))

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’وہ لوگ جو قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں  نے اس کے تقاضوں  کے مطابق عمل کیا انہیں   اللہ تعالیٰ سر بلند کرے گا اور جنہوں  نے قرآنِ عظیم پر ایمان لانے سے اِعراض کیا اور اس کے احکامات پر عمل نہ کیا انہیں   اللہ تعالیٰ گرا دے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۱۴)

            قرآن مجید کے سلسلے میں  صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا حال یہ تھا کہ وہ قرآنِ کریم کی دس آیتیں  سیکھتے اور اس وقت تک دوسری آیات سیکھنے کی طرف متوجہ نہ ہوتے جب تک ان دس آیتوں  کے تمام تقاضوں  پر عمل نہ کر لیتے ، یونہی وہ انتہائی تنگدستی کے باوجود قرآنِ عظیم سننے سنانے اور اس کی آیات میں  غوروفکر کرنے میں  مصروف رہا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’میں  غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں  جا بیٹھا جو نیم برہنہ ہونے کے باعث ایک دوسرے سے بمشکل اپنا ستر چھپاتے تھے ۔ ہم میں  ایک قاری صاحب قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے کہ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے ، جب رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس کھڑے ہوئے تو قاری صاحب خاموش ہو گئے ۔ آپ نے سلام کیا اور ارشاد فرمایا ’’تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ ہمیں  قرآن سنا رہے ہیں  اور ہم غور سے  اللہ تعالیٰ کی کتاب کو سن رہے ہیں  ۔ حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمام تعریفیں   اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں  جس نے میری امت میں  ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ ٹھہرے رہنے کا مجھے بھی حکم دیاگیا ہے۔( ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی القصص، ۳ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۶۶۶)  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو قرآن مجید کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِـٕیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا ﳓ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک مسلمان اور یہودی اور ستاروں کی پوجا کرنے والے اور عیسائی اور آگ کی پوجا کرنے والے اور مشرک بیشک اللہ ان سب میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا بیشک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک مسلمان۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ لوگ جومسلمان ہیں  اور جو یہودی ہیں  اور جو ستاروں  کی پوجا کرنے والے ہیں  او رجو عیسائی ہیں  اور جو آگ کی پوجا کرنے والے ہیں  اور جو مشرک ہیں ، بیشک  اللہ تعالیٰ ان سب میں  قیامت کے دن فیصلہ کردے گا اور ان میں  جو جنت کا مستحق ہو گا اسے جنت میں  اور جوجہنم کا حق دار ہو گا اسے جہنم میں  داخل کر دے گا۔ بیشک ہر چیز  اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے لہٰذا س فیصلے میں  کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہوگا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۱۵، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۳۰۲، ملتقطاً)

آیت’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں

(1)…آج اگرچہ ہرشخص اپنے آپ کوحق اور ہدایت کاپیروکار کہتا ہے مگراس کاعملی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا جب اہلِ حق کوعزت واحترام کے ساتھ جنت میں  بھیجا جائے گا اور اہلِ باطل کوذلت وخواری کے ساتھ اوندھے منہ دوزخ میں  ڈال دیا جائے گا۔ لیکن یہاں  یاد رہے کہ دین ِاسلام ہی حق ہے اور اسے ماننے والا حق پر ہے اور تمام انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین، اسلام ہی تھا لیکن اب دین ِاسلام سے وہ دین مراد ہے جو حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لے کر آئے ہیں ، لہٰذا اب آپ کے دین کے علاوہ اور کوئی دین  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  معتبر نہیں ، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ‘‘ (اٰل عمران:۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک  اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردینچاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں   نقصان اٹھانے والوں  میں  سے ہوگا۔

(2)…اس آیت میں  ہر ایک کے لئے بہت وعید ہے ، لہٰذا ہر عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ فیصلے اور قضا کے دن کو یاد رکھے اور وہ اعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرے جن سے  اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہوتی ہے تاکہ قیامت کے دن  اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور اپنے فضل و رحمت سے ا س کے حق میں  اچھا فیصلہ فرمائے اور اسے جہنم کے دردناک عذاب سے بچا کر جنت کی ہمیشہ رہنے والی عالی شان نعمتیں  عطا فرمائے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ-وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ-وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُﭤ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اورستارے اور تمام پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی یہ سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ وہ (بھی)ہیں جن پر عذاب مقرر ہوچکا ہے اور جسے اللہ ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ:کیا تم نے نہیں  دیکھا ۔} ارشاد فرمایا ’’اے حبیب ِاکرم! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے نہیں  دیکھا کہ جو آسمانوں  میں  ہیں  اور جو زمین میں  ہیں  اور سورج ، چاند ،ستارے ،تمام پہاڑ ، درخت اور چوپائے یہ سب جیسا  اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ویسا اسے سجدہ کرتے ہیں  اور بہت سے آدمی یعنی مسلمان طاعت و عبادت کا سجدہ بھی کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ ہیں  جن پر ان کے کفر کی وجہ سے عذاب مقرر ہوچکا ہے لیکن ان کے بھی سائے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اور جسے  اللہ تعالیٰ اس کی شقاوت کے سبب ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۷۳۴، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۰۲-۳۰۳، ملتقطاً)

 عزت ونامْوَری کسی کی میراث نہیں  :

            اس سے معلوم ہو اکہ کسی قوم یاکسی فرد کویہ حق حاصل نہیں  کہ وہ عزت ونامْوَری کواپنی میراث سمجھ لے اوراسی فریب میں  مبتلا رہے کہ چاہے ہم جوکچھ کرتے رہیں  کتنے ہی اَعمالِ سیاہ سے اپنااعمال نامہ بھردیں  اور کردار اور سیرت کتنی ہی داغدار نہ کرلیں  ساری زندگی عزت کے ساتھ ہی رہیں  گے، ایسانہیں  ہے بلکہ جواپنے آپ کواس نعمت عظمیٰ کا اہل ثابت کردیتا ہے اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ   اسے عزت دیتا ہے اور جو مسلسل نافرنیوں  میں  مبتلا رہتا ہے وہ ذلت کے عمیق گڑھے میں  گرا دیا جاتا ہے ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ-وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ-وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُﭤ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اورستارے اور تمام پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی یہ سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ وہ (بھی)ہیں جن پر عذاب مقرر ہوچکا ہے اور جسے اللہ ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ:کیا تم نے نہیں  دیکھا ۔} ارشاد فرمایا ’’اے حبیب ِاکرم! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا آپ نے نہیں  دیکھا کہ جو آسمانوں  میں  ہیں  اور جو زمین میں  ہیں  اور سورج ، چاند ،ستارے ،تمام پہاڑ ، درخت اور چوپائے یہ سب جیسا  اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ویسا اسے سجدہ کرتے ہیں  اور بہت سے آدمی یعنی مسلمان طاعت و عبادت کا سجدہ بھی کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ ہیں  جن پر ان کے کفر کی وجہ سے عذاب مقرر ہوچکا ہے لیکن ان کے بھی سائے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ اور جسے  اللہ تعالیٰ اس کی شقاوت کے سبب ذلیل کرے تواسے کوئی عزت دینے والا نہیں ، بیشک  اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۷۳۴، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۰۲-۳۰۳، ملتقطاً)

 عزت ونامْوَری کسی کی میراث نہیں  :

            اس سے معلوم ہو اکہ کسی قوم یاکسی فرد کویہ حق حاصل نہیں  کہ وہ عزت ونامْوَری کواپنی میراث سمجھ لے اوراسی فریب میں  مبتلا رہے کہ چاہے ہم جوکچھ کرتے رہیں  کتنے ہی اَعمالِ سیاہ سے اپنااعمال نامہ بھردیں  اور کردار اور سیرت کتنی ہی داغدار نہ کرلیں  ساری زندگی عزت کے ساتھ ہی رہیں  گے، ایسانہیں  ہے بلکہ جواپنے آپ کواس نعمت عظمیٰ کا اہل ثابت کردیتا ہے اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ   اسے عزت دیتا ہے اور جو مسلسل نافرنیوں  میں  مبتلا رہتا ہے وہ ذلت کے عمیق گڑھے میں  گرا دیا جاتا ہے ۔

هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ٘-فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍؕ-یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُ(19)یُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَ الْجُلُوْدُﭤ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں تو کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے گئے ہیں اور ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے وہ سب اور ان کی کھالیں جل جائیں گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هٰذٰنِ خَصْمٰنِ:یہ دو فریق ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنین اور پانچوں  قسم کے کفار جن کا اوپر ذکر کیا گیا ،یہ دو فریق ہیں  جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دین اور ا س کی ذات و صفات کے بارے میں  جھگڑتے ہیں  تو وہ لوگ جو کافر ہیں  انہیں  ہر طرف سے آگ گھیر لے گی اور ان کے سروں  پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا جس سے جو کچھ ان کے پیٹوں  میں  چربی وغیرہ ہے وہ سب اور ان کی کھالیں  جل جائیں  گی۔(جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ص۲۸۱)

جہنم میں  کفار پر ڈالے جانے والے پانی کی کَیْفِیَّت:

            جہنم میں  کفار پر ڈالے جانے والے پانی کی کچھ کیفیت ان آیات میں  بیان ہوئی اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’انتہائی گرم پانی ان جہنمیوں  کے سر پر ڈالا جائے گا تو وہ سَرایت کرتے کرتے ان کے پیٹ تک پہنچ جائے گا اور جو کچھ پیٹ میں  ہو گا اسے کاٹ کر قدموں  سے نکل جائے گا اور یہ صَہر (یعنی گل جانا) ہے ،پھر انہیں  ویسا ہی کر دیا جائے گا (اور بار بار ان کے ساتھ ایساہی کیا جائے گا۔)( سنن ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۱)

            اور حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا ’’کافروں  پر ڈالا جانے والا پانی ایسا تیز گرم ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا کے پہاڑوں  پر ڈال دیا جائے تو ان کو گلا ڈالے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۷۳۵)

وَ لَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ(21)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَهُمْ:اور ان کے لیے۔} ارشاد فرمایا کہ جہنم میں  کافروں  کو عذاب دینے کے لئے لوہے کے گرز ہیں  جن سے انہیں  مارا جائے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۱۸)

جہنم کے گُرز:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جہنم میں  جن گرزوں  سے مار اجائے گا وہ لوہے کے ہیں ، ان کے بارے میں  حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر وہ لوہے کا گرز زمین پررکھا جائے پھر جنّ واِنس سب جمع ہوجائیں  تواسے زمین سے نہ اٹھاسکیں  گے۔( مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۵۸، الحدیث: ۱۱۲۳۳)

             اور دوسری روایت میں  ہے کہ اگر وہ گرز پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے۔ (گرز لگنے کے بعد) پھر بندے کو پہلی حالت میں  لوٹا دیا جائے گا۔( مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی  اللہ عنہ، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۱۱۷۸۶)

            حضرت حسن بصری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  :حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرمایا کرتے تھے: جہنم کا ذکر کثرت سے کیا کرو کیونکہ اس کی گرمی بہت شدید ہے، اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے اور اس کے گرز لوہے کے ہیں ۔ (یعنی اس یاد سے خوفِ خدا پیدا ہوگا۔)( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۷، الحدیث: ۴۰)

كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَاۗ-وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ(22)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب گھٹن کے سبب اس میں سے نکلنا چاہیں گے توپھر اسی میں لوٹا دیے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ آگ کا عذاب چکھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ:جب گھٹن کے سبب اس میں  سے نکلنا چاہیں  گے۔} ارشاد فرمایا کہ جب وہ کفار گھٹن کے سبب جہنم میں  سے نکلنا چاہیں  گے تو گرزوں  سے مار کرپھر اسی میں  لوٹا دیے جائیں  گے اور انہیں  کہا جائے گا کہ آگ کا عذاب چکھو جس کا جلانا انتہائی شدید ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۲۸۰)

جہنم کو پیدا فرمانے میں  حکمت:

         جہنم  اللہ تعالیٰ کے جلال کا مظہر ہے اور  اللہ تعالیٰ نے جہنم کو ا س لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ مخلوق کو  اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی کبریائی کا اندازہ ہو جائے اور لوگ اس سے ڈرتے رہیں  اور ا س کے خوف کی وجہ سے گناہوں  سے باز رہیں ۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۲۲، ۶ / ۱۹) افسوس! آج لوگوں  کے دل کی سختی کا یہ حال ہے کہ قرآنِ مجید میں  جہنم کے انتہائی دردناک عذابات کے بارے میں  پڑھنے کے باوجود ان سے ڈرتے نہیں  اور بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ گناہوں  میں  مصروف ہیں ۔  اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًاؕ-وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ(23)وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِۚۖ-وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ ایمان والوں کو اور نیک اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور جنتوں میں ان کا لباس ریشم ہوگا۔اور انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت دی گئی اور انہیں تمام تعریفوں کے لائق (اللہ ) کا راستہ دکھایا گیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک اللہ ایمان والوں کو داخل فرمائے گا ۔}اس سے پہلی آیات میں کفار کا عبرتناک انجام بیان کیا گیا اور اب یہاں سے قیامت کے دن ایمان والوں اور نیک اعمال کرنے والوں پر ہونے والے انعامات بیان کئے جا رہے ہیں،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور نیک اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور ایسے موتی پہنائے جائیں گے جن کی چمک مشرق سےمغرب تک روشن کر ڈالے گی اور جنتوں میں ان کا لباس ریشم ہوگا جسے پہننا دنیا میں مَردوں پر حرام ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۳۰۴، ملتقطاً)

آیت میں بیان کی گئی جنتی نعمتوں سے متعلق3 اَحادیث:

اس آیت میں جنت کی جن نعمتوں کے بارے میں بیان ہوا ان سے متعلق 3 اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت حکیم بن معاویہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں پانی کا دریا،شہد کا دریا،دودھ کا دریا اور شراب کا دریا ہے ،پھر ان سے نہریں نکلتی ہیں۔(ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ انہار الجنّۃ، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۵۸۰)

(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کے اَعضا میں وہاں تک زیور پہنایاجائے گاجہاں تک اس کے وضوکوپانی پہنچے گا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوء،ص۱۵۱، الحدیث: ۴۰(۲۵۰))

(3)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جنتیوں کے سر پر تاج ہوں گے اور ان تاجوں کا ادنیٰ موتی مشرق سے مغرب تک کو روشن کر دے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء لادنی اہل الجنّۃ من الکرامۃ، ۴ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۵۷۱)

مَردوں کے لئے ریشم پہننے کی وعیدیں :

اَحادیث میں ریشم پہننے والے مردکے لئے سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں ،ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ  اللہ  تَعَالٰی  وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دائیں ہاتھ  میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا لے کر ارشاد فرمایا ’’بے شک یہ دونوں میری امت کے مَردوں پر حرام ہیں ۔( ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی الحریر للنساء، ۴ / ۷۱، الحدیث: ۴۰۵۷)

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں ریشم نہیں پہنے گا۔( بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للرّجال۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۹،  الحدیث: ۵۸۳۲)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ریشم وہ پہنے گا جس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ۔(مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضّۃ۔۔۔ الخ، ص۱۱۴۵، الحدیث: ۷(۲۰۶۸))

(4)…حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُما فرماتے ہیں کہ ’’جو دنیا میں ریشم پہنے گا وہ جنت میں نہ جائے گا۔(سنن الکبری للنساء، کتاب الزینۃ، لبس الحریر، ۵ / ۴۶۵، الحدیث: ۹۵۸۵)

(5)…حضرت جویریہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ریشم کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کا کپڑا پہنائے گا۔( مسندامام احمد،حدیث جویریۃ بنت الحارث بن ابی ضرار زوج النبی صلی  اللہ علیہ وسلم،۱۰ / ۲۳۱،الحدیث:۲۶۸۱۹)

{وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ:اور انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت دی گئی۔}اس آیت میں پاکیزہ بات سے کلمہ ِتوحید مراد ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے قرآنِ مجید مراد ہے اور صراطِ حمید سے مراد اللہ تعالیٰ کا دین اسلام ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۳۰۴)

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ﰳالْعَاكِفُ فِیْهِ وَ الْبَادِؕ-وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(25)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جنہوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے اور مسجد ِحرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں وہاں کے رہنے والوں اور دور سے آنے والوں کا حق برابر ہے اور جو اس میں ناحق کسی زیادتی کاارادہ کرے گا توہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:بیشک جنہوں  نے کفر کیا۔} شانِ نزول:یہ آیت سفیان بن حرب وغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی جنہوں  نے سرکارِ دو عالَم   صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے سے روکا تھا ، اس پر ارشاد فرمایا کہ ’’بیشک انہیں  درد ناک عذاب دیا جائے گا جنہوں  نے کفر کیا اور وہ  اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت سے اور اس مسجد ِحرام میں  داخل ہونے سے روکتے ہیں  جسے ہم نے لوگوں  کے لیے عبادت گاہ بنایا ہے اور اس میں  وہاں  کے رہنے والوں  اور دور سے آنے والوں  کا حق برابر ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۸)

{وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ:اور مسجد ِحرام۔} مفسرین فرماتے ہیں  کہ اگر یہاں  آیت میں  مسجد ِحرام سے خاص کعبہ معظمہ مراد ہو جیسا کہ امام شافعی   رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا فرمان ہے تواس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ مسجد ِحرام تمام لوگوں  کا قبلہ ہے اوراس کی طرف منہ کرنے میں  وہاں  کے رہنے والے اور پردیسی سب برابر ہیں  ، سب کے لئے اس کی تعظیم و حرمت اور اس میں  حج کے ارکان کی ادائیگی یکساں  ہے اور طواف و نماز کی فضیلت میں  شہری اور پردیسی کے درمیان کوئی فرق نہیں  ۔ اور اگر اس آیت میں  مسجد ِحرام سے مکہ مکرمہ یعنی پورا حرم مراد ہو جیسا کہ امامِ اعظم ابوحنیفہ   رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  کا فرمان ہے تواس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہوں  گے کہ حرم شریف شہری اور پردیسی سب کے لئے برابر ہے ، اس میں  رہنے اور ٹھہرنے کا سب کو حق حاصل ہے جبکہ کوئی کسی کو اس کے گھر سے نکالے نہیں ۔ اسی لئے امامِ اعظم ابوحنیفہ  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ   مکہ مکرمہ کی زمینوں  کو بیچنے اور ان کا کرایہ حاصل کرنے کو منع فرماتے ہیں   جیسا کہ حدیث شریف میں  ہے، نبی اکرم  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا ’’مکہ مکرمہ حرم ہے ،اس کی زمینیں  فروخت نہ کی جائیں ۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۸، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۰۴-۳۰۵، ملتقطاً)

{وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ:اور جو اس میں  ناحق کسی زیادتی کا ارادہ کرے گا۔} مسجد ِحرام میں  ناحق زیادتی سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  مفسرین کے چند اَقوال ہیں  ۔(1) اس سے شرک و بت پرستی مراد ہے ۔ (2) اس سے ہر ممنوع قول اور فعل مراد ہے حتّٰی کہ خادم کو گالی دینا بھی اس میں  داخل ہے ۔ (3) اس سے حرم میں  اِحرام کے بغیر داخل ہونا یا حرم کے مَمنوعات کا اِرتکاب کرنا جیسے شکار مارنا اور درخت کاٹنا وغیرہ مراد ہے۔ (4) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  : اس سے مراد یہ ہے کہ جو تجھے قتل نہ کرے تو اسے قتل کرے یا جو تجھ پر ظلم نہ کرے تو اس پر ظلم کرے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۳۰۵)

            شانِ نزول: حضرت عبد اللہ بن عباس  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا    سے روایت ہے کہ نبی کریم  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےعبد اللہ بن اُنیس (بن خطل) کو دو آدمیوں  کے ساتھ بھیجا تھا جن میں  ایک مہاجر تھا دوسرا انصاری ، ان لوگوں  نے اپنے اپنے نسب کی فخریہ باتیں  بیان کیں  تو عبد اللہ بن اُنیس کو غصہ آیا اور اس نے انصاری کو قتل کر دیا اور خود مُرتَد ہو کر مکہ مکرمہ کی طرف بھاگ گیا ۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔( درمنثور، الحج، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۲۷)

وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــٴًـا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْقَآىٕمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(26)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا صحیح مقام بتا دیا اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کیلئے خوب صاف ستھرا رکھو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ:اور یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو اس گھرکا صحیح مقام بتادیا۔} کعبہ معظمہ کی عمارت پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنائی تھی اور جب حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان آیا تو اس وقت وہ آسمان پر اٹھا لی گئی۔ پھر جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوکعبہ شریف کی عمارت دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تو  اللہ تعالیٰ نے اس کا مقام بتانے کے لئے ایک ہوا مقرر کی جس نے اس کی جگہ کو صاف کر دیا جہاں  پہلے کعبہ معظمہ کی عمارت موجود تھی اور ایک قول یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جو خاص زمین کے اس حصے کے اوپر تھا جہاں  پہلے کعبہ معظمہ کی عمارت تھی، اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کعبہ شریف کی جگہ بتائی گئی اور آپ نے اس کی پرانی بنیاد پر کعبہ شریف کی عمارت تعمیر کی ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)

{ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْــٴًـا:اور حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔} کعبہ شریف کی تعمیر کے وقت  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں  اور نماز پڑھنے والوں  کیلئے شرک سے ، بتوں  سے اور ہر قسم کی نجاستوں  سے خوب صاف ستھرا رکھو۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۳۰۵)

انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شرک سے پاک ہیں :

            یاد رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  ایک آن کے لئے بھی شرک نہیں  کرتے، وہ شرک سے پاک ہیں  اور گناہوں  سے بھی معصوم ہیں  اور اس آیت میں  جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   سے فرمایا   گیا کہ ’’ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘اس سے یہ مراد نہیں  کہ آپ مَعَاذَ اللہ شرک میں  مبتلا تھے اور  اللہ تعالیٰ نے آپ کو ا س سے منع فرمایا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا یا اس سے مراد یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ کوئی دوسری غرض نہ ملانا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۲۱۹)

مسجد تعمیر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے فضائل:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجد تعمیر کرنا، اسے صاف ستھرا رکھنا اور اس کی زینت کرنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں  مسجد تعمیر کرنے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے تین فضائل ملاحظہ ہوں ۔

(1)…حضرت ابو قرصافہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدیں  تعمیر کرو اور ان سے کوڑا کرکٹ نکالو، پس جس نے  اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد بنائی اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  ایک گھر بنائے گا اور اس سے کوڑاکرکٹ نکالنا حورِ عِین کے مہر ہیں ۔( معجم الکبیر، مسند جندرۃ بن خیشنۃ، ۳ / ۱۹، الحدیث: ۲۵۲۱)

(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے مسجد سے اَذِیَّت دینے والی چیز (جیسے مٹی ،کنکر ) نکالی تو  اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں  ایک گھر بنائے گا۔( ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تطہیر المساجد وتطییبہا، ۱ / ۴۱۹، الحدیث: ۷۵۷)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  :ایک عورت مسجد سے تنکے اٹھایا کرتی تھی، اس کا انتقال ہو گیا اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسے دفن کرنے کی اطلاع نہ دی گئی توآپ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم میں  کسی کا انتقال ہو جائے تو مجھے اطلاع دے دیا کرو، پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس عورت پر نماز پڑھی اور فرمایا ’’میں  نے اسے جنت میں  دیکھا ہے کیونکہ وہ مسجد سے تنکے اٹھایا کرتی تھی(معجم الکبیر، عکرمۃ عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۹۰، الحدیث: ۱۱۶۰۷)۔

مسجد کا متولّی کیساہونا چاہئے؟

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد کا متولی نیک آدمی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’متولی بننے کے لائق وہ ہے جو دیانت دار، کام کرنے والا اور ہوشیار ہو۔ اس پر وقف کی حفاظت اور خیر خواہی کے معاملے میں  کافی اطمینان ہو۔ فاسق نہ ہو کہ اس سے نفسانی خواہش یا بے پرواہی یا حفاظت نہ کرنے یا لَہْو ولَعب میں  مشغول ہونے کی وجہ سے وقف کو نقصان پہنچانے یاپہنچنے کا اندیشہ ہو۔ بد عقل ، عاجز یا کاہل نہ ہو کہ اپنی حماقت، نادانی ، کام نہ کر سکنے یا محنت سے بچنے کے باعث وقف کو خراب کردے۔ فاسق اگرچہ کیسا ہی ہوشیار ،کام کرنے والا اور مالدار ہو ہر گز متولی بننے کے لائق نہیں  کہ جب وہ شریعت کی نافرمانی کی پرواہ نہیں  رکھتا تو کسی دینی کام میں  ا س پر کیا اطمینان ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ حکم ہے کہ وقف کرنے والا اگر خود فسق کرے تو واجب ہے کہ وقف اس کے قبضے سے نکال لیا جائے اور کسی امانت دار اور دیانت دار کو سپرد کیا جائے۔( فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۵۵۷،ملخصاً)

 

وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(27)لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ(28)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور لوگوں میں حج کا عام اعلان کردو ، وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پر(سوار ہوکر) آئیں گے جوہر دور کی راہ سے آتی ہیں ۔ تاکہ وہ اپنے فوائد پر حاضر ہوجائیں اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کو یاد کریں اس بات پر کہ اللہ نے انہیں بے زبان مویشیوں سے رزق دیا تو تم ان سے کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ:اور لوگوں  میں  حج کا عام اعلان کردو ۔} کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکم دیا گیا کہ اب لوگوں  کومیرے گھرآنے کی دعوت دو، چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر جہان کے لوگوں  کو ندا کردی کہ بیتُ  اللہ کا حج کرو ۔ جن کی قسمت میں  حج کرنا لکھا تھا انہوں  نے اپنے باپوں  کی پشتوں  اور ماؤں  کے پیٹوں  سے جواب دیا ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ یعنی میں  حاضر ہوں ، اے اللّٰہ! میں  حاضر ہوں ۔ حضرت حسن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا قول ہے کہ اس آیت ’’اَذِّنْ‘‘ میں  رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خطاب ہے ،چنانچہ حجۃ الوداع میں  آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعلان کردیا اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر حج فرض کیا تو حج کرو۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۷۳۶، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵، ملتقطاً)

{یَاْتُوْكَ رِجَالًا:وہ تمہارے پاس پیدل آئیں  گے ۔} یعنی جب آپ لوگوں  میں  حج کا اعلان کریں  گے تو لوگ آپ کے پاس پیدل اور ہر دبلی اونٹنی پرسوار ہوکرآئیں  گے جو دور کی راہ سے آتی ہیں  اور کثیر سفر کرنے کی وجہ سے دبلی ہو جاتی ہیں۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۰۵-۳۰۶)

پیدل حج کرنے کے فضائل:

            اس آیت میں حج کے لئے پیدل آنے والوں  کا پہلے ذکر کیا گیا ،اس سے معلوم ہو اکہ پیدل حج کرنا بہت فضیلت کا باعث ہے ۔اسی مناسبت سے یہاں  مکہ مکرمہ سے پیدل حج کرنے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے مکہ سے پیدل حج شروع کیا حتّٰی کہ (حج مکمل کرکے) مکہ لوٹ آیا تو  اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں  حرم کی نیکیوں  میں  لکھے گا۔ عرض کی گئی : حرم کی نیکیاں  کیا ہیں  ؟ ارشاد فرمایا ’’ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ۔( مستدرک، اول کتاب المناسک، فضیلۃ الحجّ ماشیاً، ۲ / ۱۱۴، الحدیث: ۱۷۳۵)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سوار ہو کر حج کرنے والے کے لئے ہر اس قدم کے بدلے میں  ستر نیکیاں  ہیں  جو ا س کی سواری چلے اور پیدل حج کرنے والے کے لئے ہر قدم کے بدلے حرم کی نیکیوں  میں  سے سات سو نیکیاں  ہیں ۔ کسی نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حرم کی نیکیاں  کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں  کے برابر ہے۔( مسند البزار، مسند ابن عباس رضی  اللہ عنہما، ۱۲ / ۳۱۳، الحدیث: ۵۱۱۹)

{لِیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ:تاکہ وہ اپنے فوائد پر حاضر ہوجائیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  حج کرنے کا حکم دیا گیا اور اب اس حکم کی حکمت بیان کی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں  کو حج کے لئے بلائیں  تاکہ وہ حج کر کے اپنے دینی اور دُنْیَوی دونوں  طرح کے وہ فوائد حاصل کریں  جو اس عباد ت کے ساتھ خاص ہیں  ، دوسری عبادت میں  نہیں  پائے جاتے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ۸ / ۲۲۰، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷)

حج کا دینی اور دُنْیَوی فائدہ:

            حج کرنے والے کو دینی فائدہ تو یہ حاصل ہوتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے اور وہ گناہوں  سے ایسے پاک ہو کر لوٹتا ہے جیسے اُس دن گناہوں  سے پاک تھاجب وہ ماں  کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا، چنانچہ  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا اور (حج کے دوران) کوئی فحش کلام کیا نہ فسق کیا تو وہ گناہوں  سے ایسے پاک ہو کر لوٹے گا جیسے اُس دن تھا جب وہ ماں  کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحجّ المبرور، ۱ / ۵۱۲، الحدیث: ۱۵۲۱)

            اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حج و عمرہ    محتاجی اور گناہوں  کو ایسے دور کرتے ہیں  جیسے بھٹی لوہے ، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے اور حج ِمَبْرُور کا ثواب جنت ہی ہے۔( سنن ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء فی ثواب الحجّ والعمرۃ، ۲ / ۲۱۸، الحدیث: ۸۱۰)

            اور دُنْیَوی فائدہ یہ ہے کہ حج کے دنوں  میں  لوگ تجارت کر کے مالی نفع بھی حاصل کرتے ہیں  ۔

{وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ:اور معلوم دنوں  میں   اللہ کے نام کو یاد کریں ۔}  اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں  کو جوبے زبان مویشیوں  اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ کے ذریعے رزق دیا انہیں  ذبح کرتے وقت وہ ان پر  اللہ تعالیٰ کا نام لیں ۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے حج کرنے والوں  کو جو بے زبان مویشیوں  اونٹ ، گائے ، بکری اور بھیڑ سے رزق دیا اس نعمت پر وہ  اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں  اور اس کی پاکی بیان کریں  ۔ معلوم دنوں  سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  دو قول ہیں:  (1) ان سے ذی الحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کا قول ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کا مذہب ہے ۔ (2) معلوم دنوں  سے قربانی کے دن مراد ہیں ۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا کا قول ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمَا بھی اسی کے قائل ہیں ۔( البحر المحیط، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ۶ / ۲۳۸ ، تفسیرات احمدیہ ، الحج ، تحت الآیۃ : ۲۸ ، ص۵۳۱، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)

{فَكُلُوْا مِنْهَا:تو تم ان سے کھاؤ ۔} دورِ جاہلیّت میں  کفار حج کے موقع پر جو جانور ذبح کرتے تھے ان کا گوشت خود نہیں  کھاتے تھے ، اس آیت میں  ان کا رد کیا گیا اور مسلمانوں  کو حکم دیا گیا کہ تم حج کے دنوں  میں  جو جانور ذبح کرو اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیروں  کو بھی کھلاؤ۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۳۲، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۳۷، ملتقطاً)

حَرم میں  کی جانے والی قربانی سے متعلق4شرعی مسائل:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے حرم میں  کی جانے والی قربانی سے متعلق 4شرعی مسائل ملاحظہ ہوں

(1)…ہَدی اُس جانور کو کہتے ہیں  جو قربانی کے لیے حرم کو لے جایا جائے۔ یہ تین قسم کے جانور ہیں : (۱) بکری۔ اس میں  بھیڑ اور دنبہ بھی داخل ہے۔ (۲) گائے۔ بھینس بھی اسی میں  شمار ہے۔ (۳) اونٹ۔

(2)…قربانی کے جانور میں  جو شرطیں  ہیں  وہ ہدی کے جانور میں  بھی ہیں  مثلاً اونٹ پانچ سال کا، گائے دوسال کی، بکری ایک سال کی مگر بھیڑ اور دُنبہ چھ مہینے کا اگر سا ل بھر والی بکری کی مثل ہو تواس کی قربانی ہو سکتی ہے اور اونٹ گائے میں  یہاں  بھی سات آدمیوں  کی شرکت ہوسکتی ہے۔

(3)…ہَدی یعنی قربانی کے لیے حرم میں  لے جایا جانے والا جانور اگر حجِ قِران یا تَمَتُّع کی قربانی کا ہو تو قربانی کرنے کے بعد اس کے گوشت میں  سے کچھ کھا لینا بہتر ہے، اسی طرح اگر قربانی نفلی ہو اور جانور حرم میں  پہنچ گیا ہو تو اس کا گوشت بھی کھا سکتا ہے البتہ اگر جانور حرم میں  نہ پہنچا تو اس کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا بلکہ اب وہ فُقرا کا حق ہے۔ اگر وہ جانور حج قران ، تمتع اور نفلی قربانی کے علاوہ کسی اور جیسے کَفّارے کی قربانی کے لئے ہو تو ا س کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا اور جس قربانی کا گوشت قربانی کرنے والا خود کھا سکتا ہے وہ مالداروں  کو بھی کھلا سکتا ہے اور جس کا گوشت خود نہیں  کھا سکتا وہ نہ مالداروں  کو کھلا سکتا اور نہ ہی ا س کی کھال وغیرہ سے نفع لے سکتا ہے۔

(4)…ہَدی کا گوشت حرم کے مسکینوں  کو دینا بہتر ہے، اس کی نکیل اور جھول کو خیرات کردیں  اور قصاب کو اس کے گوشت میں  سے کچھ نہ دیں ۔ ہاں  اگر اُسے صدقہ کے طور پر کچھ گوشت دیں  تو ا س میں  حرج نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ ششم، ہدی کا بیان، ۱ / ۱۲۱۳-۱۲۱۴،ملخصاً)

ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھر انہیں چاہیے کہ اپنا میل کچیل اتاریں اور اپنی منتیں پوری کریں اور اس آزاد گھر کا طواف کریں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ:پھر انہیں  چاہیے کہ اپنا میل کچیل اتاریں ۔} ارشاد فرمایا کہ پھر انہیں  چاہیے کہ اپنا میل کچیل اتاریں ، مونچھیں  کتروائیں  ، ناخن تراشیں  ، بغلوں  اور زیرِ ناف کے بال دور کریں  اور جو منتیں  انہوں  نے مانی ہوں  وہ پوری کریں  اور اس آزاد گھر کا طواف کریں ۔ اس سے طوافِ زیارت مراد ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۷۳۷)

خانہ کعبہ کی شان :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بڑی عظمت و شان عطا فرمائی ہے کہ کوئی ظالم و جابر شخص اس گھر پر قبضہ نہیں  کر سکتا، کوئی اس کا مالک ہونے کا دعویٰ نہیں  کرسکتا ،یہ لوگوں  کے قبضے اور ملکیت سے آزاد ہے اور جس نے بھی ا س پر قبضہ کرنے کی کوشش کی  اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ و برباد کر دیا جیساکہ ابرہہ اور ا س کے لشکر نے جب خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو اس کا جو حشر ہوااِس سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو۔

ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(30)

ترجمہ: کنزالعرفان

حکمِ الٰہی یہ ہے اور جو اللہ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کیلئے اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے اور تمہارے لیے بے زبان چوپائے حلال کئے گئے سوائے ان کے جن کا (حرام ہونا) تمہارے سامنے بیان کیا جاتا ہے۔ پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ: اور جو  اللہ کی حرمت والی چیزوں کی تعظیم کرے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کرنے پر ابھارتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو شخص ان چیزوں  کی تعظیم کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے تو یہ تعظیم اُس کے لئے بہتر ہے کہ اِس پر  اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں  ثواب عطا فرمائے گا۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۳۳۹، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۹، ملتقطاً)

          اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کے بارے میں  مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد  اللہ تعالیٰ کے اَحکام ہیں  خواہ وہ حج کے مَناسِک ہوں  یا ان کے علاوہ اور احکام ہوں  اوران کی تعظیم سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنے کا  اللہ تعالیٰ نے حکم دیا وہ کئے جائیں  اورجن کاموں  سے منع کیا انہیں  نہ کیا جائے ۔ دوسراقول یہ ہے کہ یہاں  حرمت والی چیزوں  سے حج کے مناسک مراد ہیں  اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ حج کے مناسک پورے کئے جائیں  اور انہیں  ان کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا جائے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں  جہاں  حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں  جیسے بیت ِحرام ، مَشْعَرِ حرام، بلد ِحرام اور مسجد ِحرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۳۸، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۳۰۷، ملتقطاً)

مکہ مکرمہ کی بے حرمتی کرنے والے کا انجام:

         حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں  گے جب تک وہ مکہ کی تعظیم کاحق ادا کرتے رہیں  گے اور جب وہ اس حق کوضائع کردیں  گے توہلاک ہوجائیں  گے۔( سنن ابن ماجہ، کتاب المناسک، باب فضل مکّۃ، ۳ / ۵۱۹، الحدیث: ۳۱۱۰)

         مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس حدیث پاک کی شرح میں  فرماتے ہیں  ’’تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جس بادشاہ نے کعبہ معظمہ یا حرم شریف کی بے حرمتی کی ، ہلاک و برباد ہوگیا، یزید پلید کے زمانہ میں  جب حرم شریف کی بے حرمتی ہوئی (تو) یزید ہلاک ہوا (اور) اس کی سلطنت ختم ہوگئی۔( مراۃ المناجیح، باب حرم مکہ حرسہا  اللہ تعالٰی، تیسری فصل، ۴ / ۲۴۲-۲۴۳، تحت الحدیث: ۲۶۰۵۔)

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کی جائے:

         اس سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں  اور جن مقامات کو  اللہ تعالیٰ نے عزت و حرمت عطا کی ہے ان کی تعظیم کرنے والا بھلائی پاتا ہے اور ان کی بے حرمتی کرنے والا نقصان اٹھاتا اور تباہ وبرباد ہو جاتا ہے لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں  کی تعظیم کرے اور ان کی بے حرمتی کرنے سے بچے نیز جن ہستیوں  کو  اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں  قرب و شرف عطا فرما کر عزت و عظمت سے نوازا ہے جیسے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ مْوغیرہ،ان کی اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں  کی بھی تعظیم کرے اور کسی طرح ان کی بے ادبی نہ کرے ۔

{وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ:اور تمہارے لیے تمام جانور حلال کئے گئے ۔} آیت کے اس حصے کا معنی یہ ہے کہ قرآن پاک میں  جن جانوروں  کا حرام ہونا تمہارے سامنے بیان کیا جاتاہے ان کے علاوہ تمام جانور تمہارے لئے حلال ہیں  ، تم انہیں  شرعی طریقے سے ذبح کر کے کھا سکتے ہو لہٰذا تم  اللہ تعالیٰ کی حدوں  کی حفاظت کرو اور اس نے جو چیز حلال فرمائی اسے حرام قرار نہ دو جیساکہ بعض لوگ بَحیرہ اور سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے ہیں  ،اسی طرح جس چیز کو  اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اسے حلال قرار نہ دو جیساکہ بعض لوگ دھاری دار چیز کی چوٹ کے بغیر مارے ہوئے اور مردہ جانور کا گوشت کھانے کو حلال کہتے ہیں ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ص۷۳۸)

اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْهِمْ کی طرف منسوب جانوروں  کا شرعی حکم:

         یاد رہے کہ جن جانوروں  کو ذبح کرنے سے پہلے  اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کی طرف منسوب کیا جائے اور انہیں  ذبح شرعی طریقے کے مطابق کیا جائے تو وہ بھی حلال ہیں  اور قرآن و حدیث میں  کہیں  بھی ایسے جانوروں  کا حرام ہونا بیان نہیں  کیا گیا لہٰذا کسی شرعی دلیل کے بغیر انہیں  حرام کہنا اور اس پر شرک کے فتوے لگانا ہر گز درست نہیں  ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۸۷)وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ‘‘(مائدہ:۸۷ ،۸۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!ان پاکیزہ چیزوں  کو حرام نہ قرار دوجنہیں   اللہ نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔ بیشک  اللہ حد سے بڑھنے والوں  کو ناپسند فرماتا ہے۔اور جو کچھ تمہیں   اللہ نے حلال پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں  سے کھاؤ اوراس  اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔

         اور حضرت سلمان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حلال وہ ہے جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جسے  اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں  حرام فرمایا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی تو وہ معاف شدہ چیزوں  میں  سے ہے۔( ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)

{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ:پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہو۔} ارشاد فرمایا کہ پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہوجن کی پوجا کرنا بدترین گندگی سے آلودہ ہونا ہے اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ یہاں  جھوٹی بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں  ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اپنی طرف سے چیزوں  کوحلال اور حرام کہنا ہے۔ دوسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹ اور بہتان ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دورِ جاہلیّت میں  تَلْبِیَہ میں  ایسے الفاظ ذکر کرنا جن میں   اللہ تعالیٰ کے لئے شریک کا ذکر ہو۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۲۲۳)

 جھوٹی گواہی دینے اورجھوٹ بولنے کی مذمت پر4اَحادیث:

         آیت کی مناسبت سے یہاں  جھوٹی گواہی دینے اورجھوٹ بولنے کی مذمت پر مشتمل4اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت خریم بن فاتک اسدی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ  اللہ  صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا ’’جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

’’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس تم بتوں  کی گندگی سے دور رہو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ایک  اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر (اور)اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے ۔( ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، ۳ / ۴۲۷، الحدیث: ۳۵۹۹)

(2)… حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں  گے کہ  اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۲)

(3)…حضرت معاویہ بن حیدہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اس کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں  کو ہنسانے کے لئے جھوٹی بات کرتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء من تکلّم بالکلمۃ لیضحک الناس، ۴ / ۱۴۱، الحدیث: ۲۳۲۲)

(4)… حضرت ابوبکر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہ  فرماتے ہیں  ’’اے لوگو! جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف  ہے۔(مسند امام احمد، مسند ابی بکر الصدیق رضی  اللہ  تعالی عنہ، ۱ / ۲۲، الحدیث: ۱۶)

حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ(31)

ترجمہ: کنزالعرفان

ایک اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر (اور) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے (بتوں سے دور رہو) اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ گویا آسمان سے گرپڑا تو اسے پرندے اچک لے جاتے ہیں یا ہوا اسے کسی دور کی جگہ پھینک دیتی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{حُنَفَآءَ لِلّٰهِ:ایک  اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر۔} یعنی اے لوگو! تم ایک  اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہر باطل سے جدا ہوکر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے بتوں  کی گندگی سے دور رہو۔

{وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ:اور جو  اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ گویا آسمان سے گرپڑا۔} اس آیت میں  ایک انتہائی نفیس تشبیہ سے شرک کا برا انجام سمجھایا گیا ہے ، اس تشبیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص انتہائی بلندی سے زمین پر گر پڑے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ پرندے اس کی بوٹی بوٹی نوچ کر لے جاتے ہیں  یا پھر ہوا اس کے اَعضا کو دور کسی وادی میں  پھینک دیتی ہے اور یہ ہلاکت کی ایک بد ترین صورت ہے۔ اسی طرح جو شخص ایمان ترک کر کے  اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے تو وہ ایمان کی بلندی سے کفر کی وادی میں  گر پڑتا ہے، پھر بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کی طرح نفسانی خواہشات اس کی فکروں  کو مُنتَشر کر دیتی ہیں  یا ہوا کی طرح آنے والے شیطانی وسوسے اسے گمراہی کی وادی میں  پھینک دیتے ہیں  اور یوں  شرک کرنے والا اپنے آپ کو بد ترین ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے۔( ابو سعود، الحج، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۱۸، ملخصاً)

ایمان کی اہمیت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان ایسی عظیم چیز ہے جسے اختیار کرنے والا عزت و عظمت کی بلندیوں  کو چھو لیتا ہے اور ایمان کو ترک کرنے والا اور دین ِاسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین کو اختیار کر لینے والا خود کو بد ترین ہلاکت میں  ڈال دیتا ہے کیونکہ اگر یہ مُرتَد ہونے والا صحیح توبہ کئے بغیر اسی کفر کی حالت میں  مر گیا تو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا، چنانچہ ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ- وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(بقرہ: ۲۱۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں  جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہو جائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں  کے تمام اعمال دنیا و آخرتمیں  برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں  وہ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔

            افسوس! فی زمانہ مسلمانوں  میں  ایمان کی قدر اور اہمیت کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور بعض مسلمان دنیا کا نفع، دنیا کی سہولت و آسائش اور دنیا کا مال ودولت حاصل کرنے کی خاطراپنا ایمان ضائع کر دینے کی پرواہ بھی نہیں  کرتے اور چند ٹکوں  کے لئے ایمان جیسی قیمتی ترین دولت لٹا دیتے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور انہیں  اپنے ایمان کی قدر اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

بات یونہی ہے اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ:اور جو  اللہ کی نشانیوں  کی تعظیم کرے۔} یہاں   اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  سے کیا مراد ہے ، اس کے بارے میں  مفسرین کے تین قول ہیں ، (1)  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  میں  تمام عبادات داخل ہیں ۔ (2) ان سے حج کے مَناسِک مراد ہیں  ۔ (3) ان سے بُدنہ یعنی وہ اونٹ اور گائے مراد ہیں  جنہیں  قربانی کے لئے حرم میں  بھیجا جائے اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ ، خوبصورت اور قیمتی لئے جائیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۲۲۳، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۸۲، ملتقطاً)

حج کے موقع پر کیسے جانور کی قربانی دی جائے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حج کے موقع پر جو جانور قربان کیا جائے وہ عمدہ ، موٹا، خوبصورت اور قیمتی ہو۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ ایک قول یہ ہے کہ ا س آیت میں  تعظیم سے مراد عمدہ اور موٹے جانور کی قربانی دینا ہے ۔ (لہٰذا قربانی کا جانور خریدنے والے کو چاہئے کہ )اس کی خریداری میں  قیمت کم کرنے کے در پے نہ ہو ۔ بزرگانِ دین تین چیزوں  میں  قیمت زیادہ دیتے تھے اور اس میں  کمی کروانے کو پسند نہیں  کرتے تھے (1)حج کے موقع پر خریدا جانے والا قربانی کا جانور۔ (2) عید کی قربانی کا جانور۔ (3) غلام۔ کیونکہ قربانی میں  زیادہ قیمت والا جانور ان کے مالکوں  کے نزدیک زیادہ نفیس ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ (حج کے موقع پر) ایک غیر عربی اونٹ قربانی کے لئے لے گئے ،کسی نے آپ سے وہ اونٹ تین سو دیناروں  کے بدلے میں  طلب کیا،آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ اسے بیچ کر ہلکا جانور خرید لوں  تو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کو روک دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسی کی قربانی کرو۔

            یہ اس لئے فرمایا کہ تھوڑی اور عمدہ چیز زیادہ اور ہلکی چیز سے بہتر ہوتی ہے اور تین سو دیناروں  میں  تیس اونٹ آ سکتے تھے اور ان میں  گوشت بھی زیادہ ہوتا لیکن مقصود گوشت نہیں  تھا بلکہ مقصد تو نفس کو بخل سے پاک کرنا اور  اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے جمال سے مُزَیَّن کرنا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت اور خون نہیں  پہنچیں  گے بلکہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اور یہ مقصد اسی صورت حاصل ہونا ممکن ہے جب قیمت (اور دیگر چیزوں ) میں  عمدگی کا لحاظ رکھا جائے، تعداد کم ہو یا زیادہ۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الحج، الباب الثالث فی الآداب الدقیقۃ والاعمال الباطنۃ، ۱ / ۳۵۳)

            نوٹ: یاد رہے کہ جانور خریدتے وقت قیمت کم نہ کروائی جائے تو بہتر ہے لیکن اس میں  یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ وہ جانور اتنی قیمت کا بنتا بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ جانور دبلا پتلا ہے اور ا س کی قیمت اتنی بتائی جا رہی ہے کہ عام طور پر ایسا جانور اس قیمت پر نہیں  ملتا۔ لہٰذا ایسی صورت میں  قیمت کم کروانا درست ہے۔

{فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ:تو یہ دلوں  کی پرہیزگاری سے ہے ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  کی تعظیم کرنا دلوں  کے پرہیز گار ہونے کی علامت ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۳۲)

پرہیز گاری کا مرکز:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دل پرہیزگاری کا مرکز ہے اور جب دل میں  تقویٰ و پرہیز گاری جم جائے گی تو ا س کا اثر دیگر اَعضا میں  خود ہی ظاہر ہو جائے گا۔ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ شُبہے والی چیزیں  ہیں  جنہیں بہت سے لوگ نہیں  جانتے تو جو شبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی آبرو بچالے گا اور جوشبہات میں  پڑے گا وہ حرام میں  مبتلا ہو جائے گا، جیسے جو چرواہا شاہی چراگاہ کے آس پاس چرائے تو قریب ہے کہ اس چراگاہ میں  جانور چرلیں  ۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور  اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں  ہیں۔ آگاہ رہو کہ جسم میں  ایک گوشت کا ٹکڑاہے ،جب وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، خبردار وہ دل ہے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، ۱ / ۳۳، الحدیث: ۵۲)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :دل بادشاہ کی طرح ہے اور اس کا جو لشکر آنکھ سے دکھائی دیتا ہے وہ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، زبان اور باقی تمام ظاہری و باطنی اَعضاہیں  ، یہ تمام دل کے خادم اور ا س کے قابو میں  ہیں  ،وہی ان سب میں  تَصَرُّف کرتا ہے اور انہیں  ادھر ادھر پھیرتا ہے، وہ تمام اس کی اطاعت پر مجبور ہیں  اور نہ اس سے اختلاف کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ اس سے سر کشی اختیار کر سکتے ہیں  ، جب وہ آنکھ کو کھلنے کا حکم دیتا ہے تو وہ کھل جاتی ہے، جب وہ پاؤں  کو حرکت کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ حرکت کرتا ہے اور جب وہ زبان کو بولنے کا حکم دیتا ہے تو وہ بولتی ہے اور اسی طرح دیگر اَعضا کا معاملہ ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان جنود القلب، ۳ / ۶)

لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ(33)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے لیے ان جانوروں میں ایک مقررہ مدت تک بہت سے فائدے ہیں پھر ان کے ذبح کرنے کی جگہ آزادگھر کے پاس ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ:تمہارے لیے ان جانوروں  میں  بہت سے فائدے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارے لئے ان جانوروں  میں  ان کے ذبح کے وقت تک بہت سے فائدے ہیں  جیسے ضرورت کے وقت ان پر سوار ہو سکتے ہو اور حاجت کے وقت ان کا دودھ پی سکتے ہو، پھر انہیں  حرم شریف تک پہنچنا ہے جہاں  وہ ذبح کئے جائیں  گے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۷۳۹)

وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِؕ-فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْاؕ-وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ(34)الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِۙ-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(35)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی تا کہ وہ اس بات پر اللہ کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں بے زبان چوپایوں سے رزق دیا تو تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے حضور گردن رکھو اور عاجزی کرنے والوں کیلئے خوشخبری سنادو۔ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے توان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور انہیں جو مصیبت پہنچے اس پر صبرکرنے والے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا:اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی۔} یعنی گزشتہ ایماندار اُمتوں  میں  سے ہر امت کے لئے  اللہ تعالیٰ نے ایک قربانی مقرر فرمائی تا کہ وہ جانوروں  کو ذبح کرتے وقت ان پر  اللہ تعالیٰ کا نام لیں ، تو اے لوگو! تمہارا معبود ایک معبود ہے اس لئے ذبح کے وقت صرف اسی کا نام لو اور اسی کے حضور گردن جھکاؤ اور اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرو اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ عاجزی کرنے والوں  کو خوشخبری سنا دیں ۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۳۰۹، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۷۳۹، ملتقطاً)

جانور ذبح کرتے وقت  اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا شرط ہے:

            اس آیت میں  اس بات پر دلیل ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت  اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا شرط ہے اور  اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت کے لئے مقرر فرما دیا تھا کہ وہ اس کے لئے تَقَرُّب کے طور پر قربانی کریں  اور تمام قربانیوں  پر صرف اسی کا نام لیا جائے۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۷۳۹)

{اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ:وہ لوگ ہیں کہ جب  اللہ کا ذکر ہوتا ہے توان کے دل ڈرنے لگتے ہیں ۔} یعنی عاجزی کرنے والے وہ لوگ ہیں  کہ جب ان کے سامنے  اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ا س کی ہیبت و جلال سے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف ان کے اَعضا سے ظاہر ہونے لگتا ہے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں  جو مصیبت و مشقت پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں  اور نماز کو ا س کے اوقات میں  قائم رکھتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں  سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۷۴۰، تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۲۲۵، ملتقطاً)

وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ﳓ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّۚ-فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(36)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور قربانی کے بڑی جسامت والے جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا۔ تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے تو ان پر اللہ کا نام لواس حال میں کہ ان کا ایک پاؤں بندھا ہوا ہو (اور) تین پاؤں پر کھڑے ہوں پھر جب ان کے پہلو گرجائیں تو ان (کے گوشت) سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کو بھی کھلاؤ۔ اِسی طرح ہم نےان جانوروں کو تمہارے قابومیں دے دیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الْبُدْنَ:اور قربانی کے بڑی جسامت والے جانور۔} اَحناف کے نزدیک بُدنہ کا اِطلاق اونٹ اور گائے دونوں  پر ہوتا ہے جبکہ امام شافعی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  کے نزدیک بدنہ کا اطلاق صرف اونٹ پر ہوتا ہے۔( تفسیرات احمدیہ، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۳۷)

{جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:ان جانوروں  کو ہم نے تمہارے لیے  اللہ کی نشانیوں  میں  سے بنایا۔} یعنی  اللہ تعالیٰ نے قربانی کے بڑی جسامت والے جانوروں  کو مسلمانوں  کے لئے اپنے دین کی نشانیوں  میں  سے بنایا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵)

             آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ جس جانور کو عظمت والے مقام سے نسبت ہو جائے، وہ شَعائراللہ بن جاتا ہے۔

{لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ:تمہارے لیے ان میں  بھلائی ہے۔} یعنی قربانی کے ان بڑی جسامت والے جانوروں  میں  تمہارے لیے بھلائی ہے کہ تمہیں  ان سے دنیا میں  کثیر نفع اور آخرت میں  اجر و ثواب ملے گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵)

قربانی کا دُنْیَوی اور اُخروی فائدہ:

            قربانی کا دنیوی فائدہ تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سواری کی جاسکتی ہے اور حاجت کے وقت ان کے دودھ سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے اور اخروی فائدہ ثواب ہے۔

آیت ’’ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا‘‘ پر عمل سے متعلق بزرگانِ دین کے دو واقعات:

            یہاں  اس آیتِ مبارکہ پر عمل کے سلسلے میں  بزرگانِ دین کے دو واقعات ملاحظہ ہوں  

(1)…حضرت مالک بن انس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا اور ان کے ساتھ حضرت ابنِ حرملہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا۔ اس موقع پر حضرت سعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے مینڈھا خریدا اوراس کی قربانی دی جبکہ حضرت ابن ِحرملہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے چھ دینارمیں  ایک اونٹ خریدا اور اسے نَحر کیا۔ حضرت سعید رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے ان سے پوچھا: کیا آپ کو ہمارا طریقہ کافی نہ تھا؟ حضرت ابنِ حرملہرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے کہا:میں  نے  اللہ تعالیٰ کایہ ارشادسناہے ’’وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ‘‘ اس لئے میں  نے پسند کیا کہ میں  اس خیر کو حاصل کروں  جس کی طرف  اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی کی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ ان کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور آپ ان کی طرف سے یہ بات بیان کیا کرتے تھے۔( تفسیرابن ابی حاتم، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۸ / ۲۴۹۴)

(2)… حضرت سفیان بن عُیینہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت صفوان بن سلیم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حج کیا، ان کے پاس سات دینار تھے جس سے انہوں  نے ایک اونٹ خرید لیا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے پاس صرف سات دینار تھے جن کاآپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے اونٹ خرید لیا ہے! انہوں  نے فرمایا: میں  نے  اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے جس میں  وہ (تم سے) فرماتا ہے ’’لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ‘‘ تمہارے لیے ان میں  بھلائی ہے (اورمیں  نے اس بھلائی کو حاصل کرنے کے لئے ایساکیا ہے۔)(حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، صفوان بن سلیم، ۳ / ۱۸۷)

            لہٰذا جس مسلمان پر حج کی قربانی لازم ہو یا وہ حج کے موقع پر نفلی قربانی کرنا چاہتا ہو اور اونٹ یاگائے کی قربانی کرنا اس کے لئے ممکن ہو تو وہ اونٹ یا گائے کی قربانی کرے تاکہ اسے یہ فضیلت حاصل ہو۔

{فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا:تو ان پر  اللہ کا نام لو۔} یہاں  اونٹ َنحر کرنے کا طریقہ بیان فرمایا گیا کہ جب اونٹ کو نحر کرنے لگو تو ا ن کا ایک پاؤں  باند ھ دو اور تین کھڑے رکھو، پھر  اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انہیں  نحر کرو اور اس کے بعد جب وہ زمین پر گر جائیں  اور ان کی حرکت ساکن ہو جائے تو اس وقت تمہارے لئے ان کا گوشت کھانا حلال ہے۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۷۴۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۵، ملتقطاً)

اونٹ نحر کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے اونٹ نحر کرنے سے متعلق دو شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ،

(1)…اونٹ کو نحر کرنا اور گائے بکری وغیرہ کو ذبح کرنا سنت ہے اور اگر اس کا عکس کیا یعنی اونٹ کو ذبح کیا اور گائے وغیرہ کو نحر کیا تو جانور اس صورت میں  بھی حلال ہو جائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے کہ سنت کے خلاف ہے۔

(2)…عوام میں  یہ مشہور ہے کہ اونٹ کو تین جگہ ( سے) ذبح کیا جاتا ہے ، (یہ) غلط ہے اور یوں  کرنا مکروہ ہے کہ بلا فائدہ اِیذا دینا ہے۔( بہار شریعت، حصہ پانزدہم، ذبح کابیان، ۳ / ۳۱۲)

            جانور ذبح کرنے سے متعلق شرعی مسائل کی تفصیل جاننے کے لئے بہار شریعت، جلد 3 حصہ 15 سے ’’ذبح کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔

{فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ:  تو ان میں  سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ۔} اس آیت میں  قربانی کے گوشت سے متعلق فرمایا گیا کہ اس میں  سے خود کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور بھیک مانگنے والے کو بھی کھلاؤ۔ قناعت کرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو کسی سے سوال نہ کرتا ہو اور بن مانگے اسے جو مل جائے اس پر اور اپنے پاس موجود مال پر راضی ہو۔

{ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ:اس طرح ہم نے ان جانوروں  کو تمہارے قابو میں  دے دیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان جانوروں  کو انتہائی طاقتور ہونے کے باجود ذبح کرنے اور سواری کرنے کے لئے تمہارے قابو میں  دے دیا تاکہ تم اپنے اوپر  اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا شکر ادا کرو۔(جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۸۲، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۳۶، ملتقطاً)

لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا: اللہ کے ہاں  ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون۔}شانِ نزول: دورِجاہلیّت کے کفار اپنی قربانیوں  کے خون سے کعبہ معظمہ کی دیواروں  کو آلودہ کرتے تھے اور اسے قرب کا سبب جانتے تھے،جب مسلمانوں  نے حج کیا اور یہی کام کرنے کا ارادہ کیا تواس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہرگز نہ ان کی قربانیوں  کے گوشت پہنچتے ہیں  اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے اور قربانی کرنے والے صرف نیت کے اِخلاص اور تقویٰ کی شرائط کی رعایت کر کے  اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں ۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۴۰)

اچھی نیت اور اِخلاص کے بغیر نیک عمل مقبول نہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو نیک عمل اچھی نیت اور ا خلاص کے بغیر کیا جائے وہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  مقبول نہیں۔ نیت و اِخلاص کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اہلِ دل لوگوں  پر ایمانی بصیرت اور انوارِ قرآن کی وجہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اَبدی سعادت تک رسائی کے لئے علم اور عبادت ضروری ہے،چنانچہ علم والوں  کے علاوہ تمام لوگ ہلاک ہونے والے ہیں  اور عمل کرنے والوں  کے علاوہ تمام علماء ہلاک ہونے والے ہیں  اور مخلص لوگوں  کے علاوہ تما م عمل کرنے والے بھی ہلاک ہونے والے ہیں  جبکہ مخلص لوگوں  کو بھی بڑا خطرہ ہے(کیونکہ انہیں  اپنے خاتمے اور اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کا علم نہیں ) اورنیت کے بغیر عمل محض مشقت اور اخلاص کے بغیر نیت ریاکاری ہے اور یہ منافقت کے لئے کافی اور گناہ کے برابر ہے جبکہ صداقت کے بغیر اخلاص گرد و غبار کے ذرّات ہیں  کیونکہ ہر وہ عمل جو  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے ارادے سے کیا جائے اور اس میں  نیت خالص نہ ہو تواس کے بارے میںاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘(فرقان:۲۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہوں  نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں  کی طرح (بے وقعت) بنادیں  گے جو روشندان کی دھوپ میں  نظر آتے ہیں ۔

تو جو شخص نیت کی حقیقت سے واقف نہ ہو ا س کی نیت کیسے صحیح ہو گی؟ یا جس کی نیت درست ہو وہ اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہوئے بغیر مخلص کیسے ہو گا؟ یا وہ شخص جو صداقت کے مفہوم سے آگاہی نہ رکھتا ہو وہ اپنے نفس سے صداقت کا مطالبہ کیسے کرے گا؟ لہٰذا جو شخص  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ارادہ رکھتا ہو اس کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیت کا علم حاصل کرے تاکہ اسے نیت کی معرفت حاصل ہو ،پھر صداقت اور اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہو کر عمل کے ذریعے نیت کو صحیح کرے کیونکہ بندے کی نجات اور چھٹکارے کا وسیلہ یہی دو باتیں (صداقت اور اخلاص) ہیں ۔(احیاء علوم الدین، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، ۵ / ۸۶)

نیت ،اخلاص اور صداقت کے بارے میں  تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ کی تصنیف ’’احیاء العلوم ‘( کی چوتھی جلد سے ان ابواب کا مطالعہ کریں  تاکہ ان کی معرفت حاصل ہو۔

{كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ:اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے۔}ارشاد فرمایا کہ اسی طرح ہم نے یہ جانور تمہارے قابو میں  دیدئیے تا کہ اس سے تمہیں   اللہ تعالیٰ کی عظمت معلوم ہو کہ اس نے ان جانوروں  کو تمہارے قابو میں  دیدیا جنہیں  لوگوں  کے قابو میں  دینے پر ا س کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں  اور اس بات پر تم  اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں  ان جانوروں  کو مُسَخَّر کرنے اور ان کے ذریعے تقرب حاصل کرنے کے طریقے کی ہدایت دی اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں  کو اعمال مقبول ہونے کی خوشخبری اور جنت کی بشارت دے دیں  جو نیک کام کرنے میں  مخلص ہیں۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶)

حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ اور ایک حاجی:

یہاں  حج سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں  مکہ مکرمہ کی طرف نکلا تو راستے میں  ایک نوجوان کو دیکھا ،جس کا معمول یہ تھا کہ رات کے وقت اپنے چہرے کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا:اے وہ ذات ! جو نیکیوں  سے راضی ہو تی ہے اور بندوں  کے گناہ اسے کوئی نقصان نہیں  دیتے ،مجھے ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو جائے اور میرے ان اعمال کو بخش دے جن سے تیرا کوئی نقصان نہیں  ہوتا۔ پھر جب لوگوں  نے اِحرام باندھا اور تَلْبِیَہ پڑھا تو میں  نے ا س نوجوان سے کہا:تم تلبیہ کیوں  نہیں  پڑھتے؟اس نے عرض کی: یا شیخ!پچھلے گناہوں  اور لکھ دئیے گئے جرموں  کے مقابلے میں تلبیہ کافی نہیں  ، میں  اس بات سے ڈرتا ہوں  کہ میں  لبیک کہوں  اور مجھ سے یہ کہہ دیا جائے کہ تیری حاضری قبول نہیں ، تیرے لئے کوئی سعادت نہیں  ،میں  نہ تیرا کلام سنوں  گا اور نہ تیری طرف نظر ِرحمت فرماؤں  گا۔پھر وہ نوجوان چلا گیا اور اس کے بعد میں  نے اسے مِنیٰ میں  ہی دیکھا اور اس وقت وہ کہہ رہاتھا:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے بخش دے ،بے شک لوگوں  نے قربانیاں  کر لیں  اور تیری بارگاہ میں  نذرانہ پیش کر دیا اور میرے پاس میری جان کے علاوہ اورکوئی چیز نہیں  جسے میں  تیری بارگاہ میں  نذر کروں  تو تُو میری طرف سے میری جان قبول فرما لے۔پھر اس نوجوان نے ایک چیخ ماری اور اس کی روح قَفسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۶-۳۷)

اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ(38)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ مسلمانوں سے بلائیں دور کرتا ہے ۔ بیشک اللہ ہر بڑے بددیانت ، ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اِنَّ اللّٰهَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک اللہ مسلمانوں سے بلائیں دور کرتا ہے ۔} مشرکوں نے حُدَیْبیہ کے سال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو حج کرنے سے روک دیاتھا اور جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ مکہ مکرمہ میں موجود تھے انہیں وہ طرح طرح کی اَذِیَّتیں اور تکلیفیں دیا کرتے تھے، چنانچہ حج کے لَوازمات اور مَناسِک بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں  اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ بشارت دی کہ بیشک اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر آنے والی بلائیں ان سے دور کردے گا اور مشرکوں کے خلاف ان کی مدد فرمائے گا۔(البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۳۴۶)

عزت ونصرت بالآخر مسلمانوں کے لئے ہے:

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ  اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب اگرچہ خاص ہے لیکن اعتبار الفاظ کے عموم کا ہے ،اس لئے مسلمان اگرچہ بلاؤں اور مصیبتوں وغیرہ سے آزمائے جائیں بالآخر عزت،نصرت اور بڑی کامیابی مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ مصیبتیں ان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔(صاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۴ / ۱۳۴۰-۱۳۴۱) خیال رہے کہ نیک اعمال کی برکت سے یا محبوب بندوں کے طفیل اور بارہامحض اپنے کرم سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی مسلمانوں سے بلائیں ٹالتا ہے اور آخرت میں بھی ٹالے گا،جیسا کہ قرآنی آیات اور صحیح اَحادیث سے ثابت ہے۔

{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ:بیشک اللہ ہر بڑے بددیانت، ناشکرے کو پسند نہیں فرماتا۔}یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار کو پسند نہیں فرماتا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کر کے ان کی خیانت اور خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اس عمل پر سزا دے گا۔(جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۲۸۲، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۳۱۰، ملتقطاً)

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُﰳ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

جن سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اُذِنَ:اجازت دیدی گئی ہے۔} شانِ نزول: کفار ِمکہ صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو ہاتھ اور زبان سے شدید اِیذائیں  دیتے اور تکلیفیں  پہنچاتے رہتے تھے اورصحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اس حال میں  پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے ،کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے اورکسی کا پاؤں  بندھا ہوا ہے۔ روزانہ اس قسم کی شکایتیں  بارگاہِ اقدس میں  پہنچتی تھیں  اورصحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ حضور انور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں  کفار کے ظلم و ستم کی فریادیں  کیا کرتے اور آپ یہ فرما دیا کرتے کہ’’ صبر کرو، مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں  دیا گیا ہے۔ جب حضور اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ،تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں  کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کی طرف سے جن مسلمانوں  سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں  مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک  اللہ تعالیٰ اِن مسلمانوں  کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۳۸)

الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(40)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور عبادت گاہوں اور گرجوں اور کلیساؤں اور مسجدوں کو گرادیا جاتاجن میں اللہ کاکثرت سے ذکر کیا جاتا ہے اور بیشک اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا، بیشک اللہ ضرورقوت والا، غلبے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ: وہ جنہیں  ان کے گھروں  سے ناحق نکال دیا گیا۔} یعنی ان لوگوں  کو جہاد کی اجازت دے دی گئی جنہیں  ان کے گھروں  سے صرف اتنی بات پرناحق نکال دیا گیا اور بے وطن کیا گیا کہ انہوں  نے کہا ’’ہمارا رب صرف  اللہ ہے‘‘ حالانکہ یہ کلام حق ہے اور حق پر گھروں  سے نکالنا اور بے وطن کرنا قطعی طور پر ناحق ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۲۸۳، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۹، ملتقطاً)

{وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ:اور اگر  اللہ آدمیوں  میں  ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا۔}آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر  اللہ تعالیٰ جہاد کی اجازت دے کر اور حدود قائم فرما کر آدمیوں  میں  ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مشرکین غالب آجاتے اور کوئی دین و ملت والا ان کی سر کشی سے نہ بچ پاتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  یہودیوں  کے کلیساؤں  ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں  راہبوں  کی عبادت گاہوں ، عیسائیوں  کے گرجوں  اور حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں  مسلمانوں  کی ان مسجدوں  کو گرا دیا جاتا جن میں   اللہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۷۴۱، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۳۱۰-۳۱۱، ملتقطاً)

 جہاد کی برکت:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر گزشتہ زمانہ میں  جہاد نہ ہوئے ہوتے تو نہ یہودیوں  کے عبادت خانے محفوظ رہتے اور نہ عیسائیوں  کے گرجے۔ ہرزمانے میں  جہاد کی ایک برکت یہ ہوئی کہ لوگوں  کی عبادت گاہیں  محفوظ ہوگئیں ، لیکن یہاں  یہ یاد رہے کہ اب ہمارے زمانے میں  گرجوں  وغیرہ غیر مسلموں  کی عبادت گاہوں  کا اس اعتبار سے کوئی احترام نہیں  کہ وہ کوئی مقدس جگہیں  ہیں  ، صرف یہ ہے کہ اسلامی ملک میں  غیرمسلموں  کو اپنی عبادت گاہیں  بنانے کی اجازت ہے اور ہم انہیں  اس معاملے میں  چھیڑیں  گے نہیں  اور نہ ہی مسلمانوں  کو حق ہوگا کہ بلاوجہ دوسروں  کے عبادت خانے گرائیں ۔ہمیں  ہماری شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہم کافروں  کو اور ان کے دین کو ان کے حال پر چھوڑ دیں  اور اسلام کا پیغام ان کی عبادت گاہیں  گرا کر نہیں  بلکہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے دیں ۔

{وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ:اور بیشک  اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا۔} ارشاد فرمایاکہ جو  اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرے گا  اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرمائے گا،چنانچہ  اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور مہاجرین و اَنصار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو عرب کے سرکش کافر سرداروں  پر غلبہ عطا فرمایا ،پھر ایران کے کسریٰ اور روم کے قیصر پر غلبہ عنایت کیا اور ان کی سر زمین اور شہروں  کا مسلمانوں  کو وارث بنا دیا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۰)

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(41)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو نما زقائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے قبضے میں سب کاموں کا انجام ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ: وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں  زمین میں  اقتدار دیں ۔} ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہیں  ان کے گھروں  سے ناحق نکالا گیا ، اگر ہم انہیں  زمین میں  اقتدار دیں  اور ان کے دشمنوں  کے مقابلے میں  ان کی مدد فرمائیں  تو ان کی سیرت ایسی پاکیزہ ہو گی کہ وہ میری تعظیم کے لئے نما زقائم رکھیں  گے ، زکوٰۃ دیں  گے ، بھلائی کا حکم کریں  گے اور برائی سے روکیں  گے۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۴۱)

            امام عبد اللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’اس آیت میں  خبر دی گئی ہے کہ آئندہ مہاجرین کو زمین میں  تَصَرُّف عطا فرمانے کے بعد (بھی)ان کی سیرتیں  بڑی پاکیزہ رہیں  گی اور وہ دین کے کاموں  میں  اخلاص کے ساتھ مشغول رہیں  گے۔ اس میں  خلفاء ِ راشدین کے عدل و انصاف اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کی دلیل ہے جنہیں   اللہ تعالیٰ نے اِقتدار اور حکومت عطا فرمائی اور عادلانہ سیرت عطا کی۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۷۴۲)

خلفاءِ راشدین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی پاکیزہ سیرت کی جھلک:

            حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں  چار صحابۂ کرام ،حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  دیگر صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کے مقابلے میں  خاص قرب اور مقام حاصل تھا اور یہ چار صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ سیرت وعمل اور پاکیزہ کردار کے لحاظ سے بقیہ صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ پر فوقیت رکھتے تھے اور ان کی عبادت و ریاضت،تقویٰ و پرہیزگاری اورعدل و انصاف بے مثل حیثیت رکھتے تھے،پھر جب سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظاہری وصال ہوا تو بِالتَّرتیب ان چار صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ نے مسلمانوں  کی امامت و خلافت کی ذمہ داری کو سنبھالا، ان کی خلافت کو خلافت ِراشدہ کہا جاتا ہے۔ ان کے دورِ خلافت میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو زمین پر غلبہ و اِقتدار عطا فرمایا اور مسلمانوں  نے  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مدد و نصرت سے روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو قدموں  تلے روند کر رکھ دیا،عراق اور مصر پر قبضہ کر لیا اور افریقی ممالک میں  بھی دین ِاسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے۔اتنا عظیم اِقتدار اور اتنی بڑی سلطنت رکھنے کے باوجود ان صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی سیرت پہلے کی طرح پاکیزہ رہی بلکہ اس کی پاکیزگی اور طہارت میں  مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ خلافت ملنے کے بعد بھی انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کے فرائض کو پابندی سے ادا کیا، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے باقاعدہ نظام بنائے ، لوگوں  کو نیک کام کرنے کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے اہم ترین فریضے کو بڑی خوبی سے ادا کیا،الغرض ان کی پاکیزہ سیرت کاحال یہ ہے کہ ان کے تقویٰ و پرہیز گاری،دنیا سے بے رغبتی، اللہ تعالیٰ کے خوف سے گریہ و زاری،عاجزی واِنکساری،حِلم و بُردباری، شفقت ورحم دلی،جرأت و بہادری،امت کی خیر خواہی،غیرت ِ ایمانی اور عدل و انصاف کے اتنے واقعات ہیں  جنہیں  جمع کیا جائے تو ہزاروں  صفحات بھر جائیں ۔  اللہ تعالیٰ ان عظیم ہستیوں  کے صدقے آج کے مسلم حکمرانوں  کو بھی عقلِ سلیم عطا فرمائے اور انہیں  اسلام کے زریں  اصولوں  کے مطابق حکومت کانظام چلانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کی دین ِاسلام پر اِستقامت:

            اس آیت میں  دی گئی خبر سے معلوم ہو اکہ جب ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ کو زمین میں  اقتدار ملے گا تو ا س کے بعد بھی وہ اسی دین پر قائم ہوں  گے جسے انہوں  نے حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لا کر اختیار کیا تھا،لہٰذا قرآن مجید کی ا س سچی خبر کے مطابق حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ مسلمانوں  کے خلیفہ بنے تو اس وقت صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ مَعَاذَ اللہ مُرتَد نہیں  ہوئے تھے بلکہ وہ دین ِاسلام پر ہی مضبوطی سے قائم تھے اور انہوں  نے اسلام کے اصول و قوانین پر ہی عمل کیا اور ہر جگہ انہی اصولوں  کو نافذ کیا،اس سے ان لوگوں  کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو یہ کہتے ہیں  کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کی بیعت کر کے مَعَاذَ اللہ سب صحابہ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ مُرتَد ہو گئے تھے۔  اللہ تعالیٰ انہیں  عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔

وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُ(42)وَ قَوْمُ اِبْرٰهِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍ(43)وَّ اَصْحٰبُ مَدْیَنَۚ-وَ كُذِّبَ مُوْسٰى فَاَمْلَیْتُ لِلْكٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْۚ-فَكَیْفَ كَانَ نَكِیْرِ(44)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر یہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو بیشک ان سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود تکذیب کرچکے ہیں ۔ اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم۔ اور مدین والے اور موسیٰ کی تکذیب کی گئی تو میں نے کافرو ں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو میرا عذاب کیسا ہوا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ: اوراگر یہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں ۔}اس آیت ا ور ا س کے بعد والی دو آیات میں  پچھلی کافر قوموں  کا اپنے اپنے رسولوں  کے ساتھ طرزِ عمل بیان کر کے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس دل کو تسلی دی گئی ہے، چنانچہ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر یہ کفار آپ کو جھٹلاتے ہیں  تو آپ تسلی رکھیں  اور ان کی طرف سے آنے والی اَذِیَّتوں  پر صبر کریں ،کفار کا یہ پرانا طریقہ ہے اور پچھلے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ بھی ان کا یہی دستور رہا ہے ،چنانچہ کفار ِمکہ سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم یعنی عاد، حضرت صالح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم یعنی ثمود، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ،حضرت لوط عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اورحضرت شعیب عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اپنے اپنے انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرچکے ہیں  اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی جھٹلایا گیا ہے،تو میں  نے ان کافرو ں  کو ڈھیل دی اور ان کے عذاب میں  تاخیر کی اور انہیں  مہلت دی ، پھر میں  نے انہیں  پکڑا اور مختلف عذابوں  سے ان کے کفر و سرکشی کی سزا دی تو ان پر میرا عذاب کیسا ہَولْناک اور دردناک ہوا!۔اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی تکذیب کرنے والوں  کو چاہیے کہ اپنے انجام کے بارے میں سوچیں  اور پچھلوں  کے انجام سے عبرت حاصل کریں ،اگر یہ اپنی حرکتوں  سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی بہت خوفناک ہو گا۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ص۷۴۲، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۲-۴۴، ۶ / ۴۲، ملتقطاً)

{وَ كُذِّبَ مُوْسٰى: اور موسیٰ کی تکذیب کی گئی۔} یہاں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام کے بارے میں  یہ نہیں  فرمایا گیاکہ آپ کی قوم نے آپ کی تکذیب کی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام کی قوم بنی اسرائیل نے آپ کی تکذیب نہ کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبطیوں  نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ  السَّلَام کی تکذیب کی تھی۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۷۴۲)

فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ(45)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور وہ ظالم تھیں تو اب وہ اپنی چھتوں کے بل پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں بیکار پڑے ہوئے اور کتنے بلندو بالامضبوط محل (ہم نے برباد کردئیے)۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا: اور کتنی ہی بستیوں  کو ہم نے ہلاک کردیا۔} ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی بستیوں  کو ہم نے برباد کر دیا اور ان میں  رہنے والے لوگوں  کوہلاک کردیا کیونکہ ان بستیوں  میں  رہنے والے کافر تھے ،تو اب وہ بستیاں  اپنی چھتوں  کے بل پر گری پڑی ہیں  اورکتنے کنویں  بیکار پڑے ہیں  کہ ان سے کوئی پانی بھرنے والا نہیں  اور کتنے بلندو بالامحل خالی اور ویران پڑے ہیں  کیونکہ ان میں  رہنے والے مر چکے ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۷۴۲، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۲۸۳، ملتقطاً)

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَاۚ-فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰـكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ(46)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو کیا یہ لوگ زمین میں نہ چلے کہ ان کے دل ہوں جن سے یہ سمجھیں یا کان ہوں جن سے سنیں پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینو ں میں ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ: تو کیا یہ لوگ زمین میں  نہ چلے۔} اس آیت میں  کفارِ مکہ کو زمین میں  سفر کرنے پر ابھارا گیا تاکہ وہ کفر کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں  کے مقامات دیکھیں  اور ان کے آثار کا مشاہدہ کر کے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا کفارِ مکہ نے زمین میں  سفر نہیں  کیا تاکہ وہ سابقہ قوموں  کے حالات کا مشاہدہ کریں  اور ان کے پاس ایسے دل ہوں  جن سے یہ سمجھ سکیں  کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے اُن قوموں  کا کیا انجام ہوا اور اس سے عبرت حاصل کریں  یا ان کے پاس ایسے کان ہوں  جن سے پچھلی امتوں  کے حالات ، ان کا ہلاک ہونا اور ان کی بستیوں  کی ویرانی کے بارے میں  سنیں  تاکہ اس سے عبرت حاصل ہو۔ پس بیشک کفار کی ظاہری حِس باطل نہیں  ہوئی اور وہ ان آنکھوں  سے دیکھنے کی چیزیں  دیکھتے ہیں  بلکہ وہ ان دلوں  کے اندھے ہیں  جو سینو ں  میں  ہیں  اور دلوں  ہی کا اندھا ہونا غضب ہے اور اسی وجہ سے آدمی دین کی راہ پانے سے محروم رہتا ہے۔(مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۴۲-۷۴۳، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۳۱۱-۳۱۲، تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۸ / ۲۳۳-۲۳۴، ملتقطاً)

عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے فائدہ مند دو چیزیں :

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان مقامات کو دیکھنا جہاں   اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا ہے اوران قوموں  کے بارے میں  سننا جن پر  اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل فرمایا ہے،عبرت اورنصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت فائدہ مند ہے اور اس دیکھنے اور سننے سے فائدہ اسی صورت میں  اٹھایا جا سکتا ہے جب دل سے غورو فکر کرتے ہوئے ان چیزوں  کو دیکھا اور ان کے بارے میں  سنا جائے اور جو شخص عذاب والی جگہوں  کا مشاہدہ توکرے اور عذاب یافتہ قوموں  کے بارے میں  سنے، پھر ان کے حالات وانجام میں  غورو فکر نہ کرے تو وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں  کر پاتا،لہٰذا جب بھی کسی ایسی جگہ سے گزر ہو جہاں   اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا یا عذاب میں  مبتلا ہونے والی قوم کے واقعات سنیں  تو اس وقت دل سے ان پر غور و فکر ضرور کریں  تاکہ دل میں   اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف اور ڈر پیدا ہو اور  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے اور اس کی اطاعت گزاری کرنے میں  مدد ملے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ‘‘(ق:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اس میں  نصیحت ہے اس کے لیے جو دِل رکھتا ہو یا کان لگائے اوروہ حاضر ہو۔

            اورایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ نصیحت کے ساتھ اپنے دل کوزندہ رکھو ،غوروفکرکے ساتھ دل کومنورکرو، زُہد اوردنیاسے بے رغبتی کے ساتھ نفس کومارو،یقین کے ساتھ اس کو مضبوط کرو،موت کی یادسے دل کوذلیل کرو،فنا ہونے کے یقین سے اس کوصبر کرنے والابناؤ، زمانے کی مصیبتیں  دکھاکراس کوخوفزدہ کرو،دن اوررات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے سے اس کوبیداررکھو،گزشتہ لوگوں  کے واقعات سے اسے عبرت دلاؤ،پہلے لوگوں  کے قصے سناکراسے ڈراؤ ،ان کے شہروں  اوران کے حالات میں  اس کوغوروفکرکرنے کاعادی بناؤاوردیکھوکہ بدکاروں  اورگناہ گاروں  کے ساتھ کیسامعاملہ ہوا اوروہ کس طرح الٹ پلٹ کردئیے گے۔( ابن کثیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۳۸۴-۳۸۵)

دل کے اندھے پن کا نقصان:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ جس کا دل بصیرت کی نظر سے اندھا ہو وہ تمام ظاہری اَسباب ہونے کے باوجود دین کا راستہ پانے اور حق و ہدایت کی راہ چلنے سے محروم رہتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن جراد رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اندھاوہ نہیں  جوظاہری آنکھوں  سے محروم ہے بلکہ اندھاوہ ہے جوبصیرت سے محروم ہے۔( نوادرالاصول، الاصل التاسع والثلاثون، ۱ / ۱۵۷، الحدیث: ۲۴۰)

            اورحضرت سہل رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :جس شخص کا دل بصیرت سے روشن ہو وہ نفسانی خواہشات اور شہوتوں  پر غالب رہتا ہے اور جب وہ دل کی بصیرت سے اندھا ہو جائے تو ا س پر شہوت غالب آ جاتی ہے اور غفلت طاری ہو جاتی ہے ، اس وقت اس کا بدن گناہوں  میں  گم ہو جاتا ہے اور وہ کسی حال میں  بھی حق کے سامنے گردن نہیں  جھکاتا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۴۵)  اللہ تعالیٰ ہمیں  دل کی بصیرت عطا فرمائے اور دل کی بصیرت سے اندھا ہونے سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔

وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗؕ-وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(47)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا اور بیشک تمہارے رب کے ہاں ایک دن ایسا ہے جو تم لوگوں کی گنتی کے ہزار سال کے برابر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ: اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں  جلدی کرتے ہیں ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفارِ مکہ جیسے نضر بن حارث وغیرہ مذاق اڑانے کے طور پر آپ سے جلدی عذاب نازل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں  کرے گااور وعدے کے مطابق ضرور عذاب نازل فرمائے گا چنانچہ یہ وعدہ بدر میں  پورا ہوا اور مذاق اڑانے والے کفار ذلت کی موت مارے گئے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۷، ۶ / ۴۶)

{وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ: بیشک تمہارے رب کے ہاں  ایک دن ایسا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بیشک  اللہ تعالیٰ کے ہاں  آخرت میں  عذاب کا ایک دن ایسا ہے جو تم لوگوں  کی گنتی کے ہزار سال کے برابر ہے، تو یہ کفار کیا سمجھ کر جلدی عذاب نازل کرنے کا تقاضا کرتے ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۷۴۳)

            یاد رہے کہ اس آیت اور سورہِ سجدہ کی آیت نمبر 5میں  یہ بیان ہو اکہ قیامت کا دن لوگوں  کی گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہو گا اور سورہِ معارج کی آیت نمبر4میں  یہ بیان ہو اہے کہ قیامت کے دن کی مقدارپچاس ہزار سال ہے۔ان میں  مطابقت یہ ہے کہ قیامت کے دن کفار کو جن سختیوں  اور ہولناکیوں  کا سامنا ہو گا ان کی وجہ سے بعض کفار کو وہ دن ایک ہزار سال کے برابر لگے گا اور بعض کفار کو پچاس ہزار سال کے برابر لگے گا۔

وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا وَ هِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَاۚ-وَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کے ظالم ہونے کے باوجود میں نے انہیں ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑلیااور میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَمْلَیْتُ لَهَا: اور کتنی ہی بستیاں  ہیں  جنہیں  میں  نے ڈھیل دی۔} ارشاد فرمایا کہ کثیر بستیاں  ایسی ہیں  جن میں  رہنے والے لوگوں  کو ظالم ہونے کے باوجود میں  نے ڈھیل دی اور ان سے عذاب کو مُؤخَّر کیا ،پھر میں  نے مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں  پکڑلیااور دنیا میں  ان پر عذاب نازل کیا،اورآخرت میں  سب کو میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے تو میں  ان کے اَعمال کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کروں  گا۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۴۷)

ظلم  اللہ تعالیٰ کے عذاب کاسبب ہے:

         اس آیت سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ ظالم شخص کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور فوری طور پر اس کی گرفت نہیں  فرماتا حتّٰی کہ وہ یہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہیں  فرمائے گا،پھر  اللہ تعالیٰ اس کی وہاں  سے پکڑ فرماتا ہے جہاں  سے اسے وہم وگمان تک نہیں  ہوتا اور اس وقت اپنے آپ کو ملامت کرنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں  رہتا تو ظالم کی نجات اسی میں  ہے کہ وہ اپنے اوپر  اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے سے پہلے پہلے ظلم سے باز آجائے اور اس کی بارگاہ میں  سچی توبہ کر کے جن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو ضائع کیا ان سے معافی مانگ لے اور ان کے حقوق انہیں  ادا کر دے۔  اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(49)

ترجمہ: کنزالعرفان

تم فرمادو! اے لوگو!میں توصرف تمہارے لیے کھلم کھلاڈر سنانے والا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ: تم فرمادو! اے لوگو!۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  کو  اللہ تعالیٰ کی گرفت اور ا س کے عذاب سے مسلسل ڈراتے رہیں  اور ان کی طرف سے مذاق اڑانے کے طور پر جلدی عذاب نازل کرنے کے مطالبات کی وجہ سے انہیں  ڈرانا مَوقوف نہ فرمائیں  اور ان سے فرما دیں  کہ مجھے واضح طور پر  اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر سنانے کے لئے بھیجا گیا ہے اور تمہارا مذاق اڑانا مجھے ا س سے نہیں  روک سکتا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۴۹، ۸ / ۲۳۴)

مبلغین کے لئے نصیحت:

         اس میں  ان تمام مسلمانوں  کے لئے بھی بڑی نصیحت ہے جواسلام کے احکامات لوگوں  تک پہنچانے کی کوششوں  میں  مصروف ہیں  اور نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کر نے کے اہم ترین فریضے کو انجام دے رہے ہیں ، انہیں  چاہئے کہ ان کاموں  کے دوران دل مضبوط رکھیں  اور لوگوں  کی طرف سے ہونے والی طعن و تشنیع اور طنز ومذاق کو خاطر میں  نہ لائیں  اور ا س وجہ سے یہ کام چھوڑ نہ دیں  بلکہ اپنے پیش ِنظرصرف  اللہ تعالیٰ کی رضا کو رکھتے ہوئے ان کاموں  کو جاری رکھیں،اور ایسے لوگوں  کے لئے  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہدایت کی دعا کرتے رہیں  ، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں  ہدایت مل جائے گی ۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(50)وَ الَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(51)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ اور وہ لوگ جوہماری آیتوں میں ہارجیت کے ارادے سے کوشش کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں

 ۔تفسیر: ‎صراط الجنان

{ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تو جو لوگ ایمان لائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں  نے نیک اعمال کئے ان کے لیے گناہوں  سے بخشش اور جنت میں  عزت کی روزی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گی اور وہ لوگ جو  اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کا رد کرنے اور انہیں  جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں  کہ کبھی ان آیات کو جادو کہتے ہیں  ، کبھی شعر اور کبھی پچھلوں  کے قصے ،اور وہ یہ خیال کرتے ہیں  کہ اسلام کے ساتھ ان کا یہ مکر چل جائے گا ، وہ جہنمی ہیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ۸ / ۲۳۵، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۵۰-۵۱، ص۷۴۳، ملتقطاً)

            اس سے اشارۃًمعلوم ہوا کہ جو ضدی عالم جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے اور سند کے طور پر قرآن مجید کی آیات پیش کرے ، وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح مناظرہ محض اپنی جیت کے لئے کرنا جس میں  حق کو ثابت کرنا اور دین کی خدمت مقصود نہ ہو، کافروں  کا کام ہے جبکہ اظہار ِحق کے لئے مناظرہ کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖۚ-فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول اور نبی بھیجے (ہر ایک کو کبھی نہ کبھی یہ واقعہ پیش آیا کہ) جب اس نے ( اللہ کا کلام) پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملادیا تو اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو مٹا دیتا ہے پھر اللہ اپنی آیتوں کوپکا کردیتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذَا تَمَنّٰى: جب اس نے پڑھا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب ’’سورۂ نجم‘‘ نازل ہوئی تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجد ِحرام میں  آیتوں  کے درمیان وقفہ فرماتے ہوئے بہت آہستہ آہستہ اس کی تلاوت فرمائی تاکہ سننے والے غور بھی کرسکیں  اور یاد کرنے والوں  کو یاد کرنے میں  مدد بھی ملے ،جب آپ نے آیت ’’وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى‘‘ پڑھ کر پہلے کی طرح وقفہ فرمایا تو شیطان نے مشرکین کے کان میں  اس سے ملا کر دو کلمے ایسے کہہ دیئے جن سے بتوں  کی تعریف نکلتی تھی۔حضرت جبریل امین عَلَیْہِ  السَّلَام نے حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کر یہ حال عرض کیا تواس سے حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رنج ہوا ،اس پر  اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۲، ۶ / ۴۹)

لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِیَةِ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ(53)

ترجمہ: کنزالعرفان

تاکہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو ان لوگوں کیلئے فتنہ کردے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بیشک ظالم لوگ دور کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً: تاکہ شیطان کے ڈالے ہوئے کو فتنہ کردے۔} یعنی شیطان کولوگوں  پر اپنی طرف سے کچھ ملادینے پر قدرت دینا ا س لئے ہے تاکہ  اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کلام کو ان لوگوں  کیلئے فتنہ کردے اور اِبتلا و آزمائش بنا دے جن کے دلوں  میں  شک اور نفاق کی بیماری ہے اور جن کے دل حق قبول کرنے سے سخت ہیں  اور یہ مشرکین ہیں  اور بیشک مشرکین و منافقین دونوں  حق کے معاملے میں دور کے جھگڑے میں  پڑے ہوئے ہیں۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۵۰)

وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(54)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور تاکہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ یہ (قرآن)تمہارے رب کے پاس سے حق ہے تو اس پر ایمان لائیں تو اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں اور بیشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ: اور تاکہ جنہیں  علم دیا گیا ہے وہ جان لیں ۔} ارشاد فرمایا : شیطان کو قدرت دینا اس لئے ہے تاکہ جنہیں   اللہ تعالیٰ کے دین کا اور اس کی آیات کا علم دیا گیا ہے وہ جان لیں  کہ اس قرآن شریف کاتمہارے رب کے پاس سے نازل ہونا حق ہے اور شیطان اس میں  کسی طرح کا کوئی تَصَرُّف نہیں  کر سکتا، تو وہ اس پر ایمان لا نے میں  ثابت قدم رہیں  اور اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں  اور بیشک  اللہ تعالیٰ ایمان والوں  کو دینی اُمور میں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۴، ۶ / ۵۰) مراد یہ ہے کہ شیطان کی یہ حرکت مومنوں  کے ایمان کی قوت کا ذریعہ بن جاتی ہے کیونکہ انہیں  معلوم ہے کہ شیطان نے پچھلے پیغمبروں  کے ساتھ بھی یہی برتاوا کیا تھا اور رب عَزَّوَجَلَّ نے اس کے داؤ کو بیکار کردیا تھا۔ یہ حقانیتِ قرآن کی دلیل ہے۔

وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ یَاْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ(55)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور کافر اس سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آجائے یا ان پر ایسے دن کا عذاب آئے جس میں ان کیلئے کوئی خیر نہ ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ: اور کافر اس سے ہمیشہ شک میں  رہیں  گے۔} یعنی کافرقرآن سے یا دینِ اسلام کے بارے میں  ہمیشہ شک میں  رہیں  گے یہاں  تک کے ان پرقیامت آجائے یا انہیں  موت آجائے کیونکہ موت بھی قیامت ِ صغریٰ ہے یا ان پر ایسے دن کا عذاب آئے جس میں  ان کیلئے کوئی خیر نہ ہو۔اس دن سے بدر کا دن مراد ہے جس میں  کافروں  کے لئے کچھ کشادگی اور راحت نہ تھی اور بعض مفسرین کے نزدیک اس سے قیامت کا دن مراد ہے اور ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ سے قیامت آنے سے پہلے کی چیزیں  مراد ہیں ۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۷۴۵)

آیت ’’وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

           اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے

(1)…اَزلی کافر کے لئے کوئی دلیل مفید نہیں  ،وہ ہمیشہ شک میں  گرفتار رہے گا۔

(2)… موت کے وقت، یا قیامت میں  یا  اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھ کر کفار ایمان قبول کر لیتے ہیں  مگر وہ ایمان  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک معتبر نہیں ۔

اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذٍ لِّلّٰهِؕ-یَحْكُمُ بَیْنَهُمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(56)وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(57)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے ۔وہ ان میں فیصلہ کردے گاتو ایمان والے اور اچھے کام کرنے والے نعمتوں کے باغات میں ہوں گے۔اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْمُلْكُ یَوْمَىٕذٍ لِّلّٰهِ: اس دن بادشاہی  اللہ ہی کیلئے ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَعَلِیْمٌ حَلِیْمٌ(59)

ترجمہ: کنزالعرفان

وہ ضرور انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے اور بیشک اللہ علم والا، حلم والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا یَّرْضَوْنَهٗ:وہ ضرور انہیں  ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں  گے۔} اس سے پہلی آیت میں  جن ہستیوں  کے لئے جنت کی روزی کا بیان ہوا یہاں  ان کی رہائش کے بارے میں  بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ ضرور انہیں  ایسی جگہ داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں  گے، وہاں  ان کی ہر مراد پوری ہو گی اورانہیں  کوئی ناگوار بات پیش نہ آئے گی اور بیشک  اللہ تعالیٰ ہر ایک کے احوال کو جاننے والا اور قدرت کے باوجود دشمنوں  کو جلد سزا نہ دے کر حلم فرمانے والا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۳۱۵، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲، ملتقطاً)

راہِ خدا میں  شہید ہونے والا ا س راہ میں  طبعی موت مرنے والے سے افضل ہے:

            ان آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد کرنے کی نیت سے مجاہدین کے ساتھ نکلے،پھر اسے طبعی طور پر موت آ جائے تو اسے اور شہید دونوں  کو جنت میں  اچھا رزق دیاجائے گا، البتہ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ شہید کا مرتبہ طبعی موت مرنے والے سے بڑا ہے۔چنانچہ علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :

’’راہِ خدا میں  شہید ہونے والا اور اس راہ میں  طبعی موت مرنے والا رزق ملنے کا وعدہ کئے جانے میں  برابر ہیں  لیکن وعدے میں  برابری ا س بات پر دلالت نہیں  کرتی کہ جو رزق انہیں  عطا کیا جائے گااس کی مقدار بھی برابر ہو گی،دیگر دلائل اور ظاہر ِشریعت سے یہ ثابت ہے کہ شہید (طبعی موت مرنے والے سے) افضل ہے۔( البحر المحیط، الحج، تحت الآیۃ: ۵۸، ۶ / ۳۵۴، ملخصًا)

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  لکھتے ہیں :ا س آیت میں  شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے، دونوں  کے لئے ایک جیسا وعدہ کیا گیا ہے کیونکہ دونوں   اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  قرب حاصل کرنے اور دین کی مدد کرنے نکلے ہیں  اور بعض مفسرین فرماتے ہیں  ’’ راہِ خدا میں  شہید ہونے والے اور طبعی موت مر جانے والے دونوں  حضرات کو اچھی روزی ملے گی لیکن ا س آیت سے یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ راہِ خدا میں  شہید ہونے والے اور طبعی موت مرنے والے کا اجر ہر اعتبار سے برابر ہے بلکہ ان دونوں  کے حال میں  فرق ہونے کی بنا پر انہیں  ملنے والی اچھی روزی میں  بھی فرق ہو گا کیونکہ راہِ خدا میں  شہید ہونے والے کو طبعی موت مرنے والے پر فضیلت حاصل ہے کہ اسے  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  زخم پہنچے اوراس کا خون بہا (جبکہ طبعی موت مرنے والے کو یہ تکلیفیں  برداشت نہیں  کرنی پڑیں ۔) نیزشہید کے طبعی موت مرنے والے سے افضل ہونے پر کثیر دلائل موجود ہیں  جن میں  سے پانچ درج ذیل ہیں ۔

(1)…نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  عرض کی گئی:کون سا جہاد (یعنی مجاہد) افضل ہے؟ارشاد فرمایا: ’’جس کا خون بہایا جائے اور اس کا گھوڑا زخمی کر دیا جائے۔( ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب القتال فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۳۵۸، الحدیث: ۲۷۹۴)

(2)…راہِ خدا میں  شہید ہونے والاقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ا س کے خون سے مشک کی خوشبو آ رہی ہو گی۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل  اللہ عزّ وجلّ، ۲ / ۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳) جبکہ راہِ خدا میں  طبعی موت مرنے والے کو یہ فضیلت حاصل نہ ہو گی۔

(3)…شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں  لوٹادیا جائے تاکہ اسے دوبارہ  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  شہید کیا جائے۔( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحور العین وصفتہنّ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۲، الحدیث: ۲۷۹۵)  لیکن طبعی موت مرنے والاایسی تمنا نہ کرے گا۔

(4)…راہِ خدا میں  شہید ہونے سے (مخصوص گناہوں  کے علاوہ) تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔( ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی ثواب الشہید، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۱۶۴۸) اور طبعی موت مرنے والے کے لئے ایسی کوئی فضیلت وارد نہیں  ہوئی۔

(5)…راہِ خدا میں  شہید ہونے والے کو غسل نہیں  دیا جاتا جبکہ راہِ خدا میں  طبعی موت مرنے والے کو غسل دیا جاتا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶ / ۵۲-۵۳، ملخصاً)

کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن بادشاہی  اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے جس کا اصلًا کوئی شریک نہیں  اور وہ بادشاہی اس طرح ہے کہ اس دن کوئی شخص سلطنت کا دعویٰ بھی نہ کرے گا اور  اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بادشاہ کا قانون نہ ہوگا ورنہ حقیقی بادشاہت تو آج بھی اس کی ہی ہے۔  اللہ تعالیٰ اس دن مسلمانوں  اور کافروں  کے درمیان فیصلہ کردے گا اوروہ فیصلہ یہ ہے کہ ایمان لانے والے اوراچھے کام کرنے والے مسلمان  اللہ تعالیٰ کے فضل سے نعمتوں  کے باغات میں  ہوں  گے اور جنہوں  نے کفر کیا اور  اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کو جھٹلایا ان کے لیے ان کے کفر کی وجہ سے رسواکردینے والاعذاب ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۷، ۶ / ۵۱، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۵۶-۵۷، ص۲۸۴، ملتقطاً)

ذٰلِكَۚ-وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ(60)

ترجمہ: کنزالعرفان

بات یونہی ہے اور جو کسی کو ویسی ہی سزا دے جیسی اسے تکلیف پہنچائی گئی تھی پھر (بھی)اس پر زیادتی کی جائے تو بیشک اللہ اس کی مدد فرمائے گا،بیشک اللہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ عَاقَبَ: اور جو سزا دے۔} اس سے پہلی آیت میں  ان لوگوں  کااجر و ثواب بیان کیاگیا جنہوں  نے ہجرت کی اور  اللہ تعالیٰ کی راہ میں  شہید ہو گئے یا انہیں  طبعی طور پر موت آ گئی اور اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو مسلمانوں  پر زیادتی کرے گا اس کے خلاف  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کی مدد فرماتا رہے گا،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان کسی ظالم کو ویسی ہی سزا دے جیسی اسے تکلیف پہنچائی گئی تھی اور بدلہ لینے میں  حد سے نہ بڑھے، پھر بھی اس مسلمان پر زیادتی کی جائے تو بیشک  اللہ تعالیٰ ظالم کے خلاف اس کی مدد فرمائے گا،، بیشک  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو معاف کرنے والا اور ان کی بخشش فرمانے والا ہے۔ شانِ نزول:یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں  نازل ہوئی جو محرم کے مہینے کی آخری تاریخوں  میں  مسلمانوں  پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں  نے مبارک مہینے کی حرمت کے خیال سے لڑنا نہ چاہا، مگر مشرک نہ مانے اور انہوں  نے لڑائی شروع کر دی، مسلمان ان کے مقابلے میں  ثابت قدم رہے اور  اللہ تعالیٰ نے مشرکوں  کے خلاف مسلمانوں  کی مدد فرمائی۔( البحر المحیط ، الحج ، تحت الآیۃ : ۶۰، ۶ / ۳۵۴، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۵۳، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۲۱۵، ملتقطاً)

ظلم کے مطابق سزا دیناعدل و انصاف اور معاف کر دینا بہتر ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص جتنا ظلم کرے اسے اتنی ہی سزا دینا عدل و انصاف ہے، لیکن ممکنہ صورت میں  بدلہ لینے کی بجائے ظالم کو معاف کر دینا بہر حال بہتر اور افضل ہے کیونکہ معاف کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر  اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے: ’’فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘(بقرہ:۱۹۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: توجو تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواور  اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ  اللہ ڈرنے والوں  کے ساتھ ہے۔

             اور ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰)وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ مَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْلٍؕ(۴۱) اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ‘‘(شوری:۴۰۔۴۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر  اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں  کوپسند نہیں  کرتا۔اور بے شک جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ان کی پکڑ کی کوئی راہ نہیں ۔ گرفت صرف ان لوگوں  پر ہے جولوگوں  پر ظلم کرتے ہیں  اور زمین میں  ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں ،ان کے لیےدردناک عذاب ہے۔ اور بیشک جس نے صبر کیااورمعاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں  میں  سے ہے۔

             حضرت انس  رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں  گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا:جس کا اجر  اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں  داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر  اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں  داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر  اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ مُنادی کہے گا :ان کا جو لوگوں  (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں ۔پھر تیسری بار مُنادی اعلان کرے گا:جس کا اجر  اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں  داخل ہو جائے۔تو ہزاروں  آدمی کھڑے ہوں  گے اور بلا حساب جنت میں  داخل ہو جائیں  گے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)

بدلہ نہ لینے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

            سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں  کی خطاؤں  سے در گزر فرماتے اور ان کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں  کا بدلہ لینے کی بجائے معاف کر دیاکرتے تھے،چنانچہ حضرت ابو عبد اللہ جدلی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  :میں  نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا سے رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں  پوچھا تو آپ نے فرمایا’’حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طبعی طور پر فحش باتیں  کرنے والے نہ تھے اور نہ ہی تَکَلُّف کے ساتھ فحش کہنے والے تھے اور آپ بازاروں  میں  شور کرنے والے بھی نہ تھے۔آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے بلکہ معاف کر دیتے اور در گزر فرمایاکرتے تھے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی خلق النبی صلی  اللہ علیہ وسلم، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۳)

            حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہَا  فرماتی ہیں  :رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی معاملے میں  اپنی ذات کاکبھی انتقام نہیں  لیا خواہ آپ کو کیسی ہی تکلیف دی گئی ہو،ہاں  جب  اللہ تعالیٰ کی حرمتوں  کو پامال کیا جاتا تو  اللہ تعالیٰ کے لئے (ان کا) انتقام لیا کرتے تھے۔( بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ، باب کم التعزیر والادب، ۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۶۸۵۳)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ(61)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ اس لیے ہے اللہ رات کو دن کے حصے میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات کے حصہ میں داخل کرتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ:یہ اس لیے ہے  اللہ رات کو دن کے حصے میں  داخل کردیتا ہے۔} یعنی مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ جو چاہے اس پر قادر ہے اور اس کی قدرت کی نشانیاں  اس سے ظاہر ہیں  کہ وہ کبھی دن کو بڑھاتا، رات کو کم کر دیتا ہے اور کبھی رات کو بڑھاتا، دن کو کم کر دیتاہے، اس کے سوا کوئی اس پر قدرت نہیں  رکھتاتو جو ایسا قدرت والا ہے وہ جس کی چاہے مدد فرمائے اور جسے چاہے غالب کرے۔نیز مظلوم کی مدد فرمانا اس لئے ہے کہ  اللہ تعالیٰ سب کی باتیں  سننے والا اورسب کے اعمال دیکھنے والاہے،اس سے نہ کسی کی کوئی بات پوشیدہ ہے اور نہ کسی کا کوئی عمل چھپا ہوا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۷۴۶، طبری، الحج، تحت الآیۃ: ۶۱، ۹ / ۱۸۳، ملتقطاً)

کافروں  کے غلبے سے دل تنگ نہیں  ہونا چاہئے :

            اس آیت میں  اشارۃًفرمایاگیا کہ جیسے کبھی دن بڑے کبھی راتیں  ایسے ہی کبھی کفار کا غلبہ ہوتا ہے اور کبھی مومنوں  کا تسلط۔ لہٰذا کافروں  کا غلبہ دیکھ کر مسلمانوں  کو دل تنگ نہیں  ہونا چاہیے بلکہ اپنے اَقوال، اَعمال اور اَفعال کی اصلاح کرنے میں  مشغول ہونا چاہئے تاکہ  اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے مسلمانوں  کو کفار پر غلبہ اور فتح ونصرت عطا فرمائے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ(62)

ترجمہ: کنزالعرفان

یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہی باطل ہے اور اس لیے کہ اللہ ہی بلندی والا،بڑائی والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ: یہ اس لیے ہے کہ  اللہ ہی حق ہے۔} یعنی یہ مدد فرمانا اس لیے بھی ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہی حق والا ہے تو ا س کا دین حق ہے اور ا س کی عبادت کرنا بھی حق ہے اور مسلمانوں  سے چونکہ  اللہ تعالیٰ نے مدد کرنے کا سچا وعدہ فرمایا ہے لہٰذا یہ  اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق ہیں  اورمشرکین جن بتوں  کی عبادت کرتے ہیں  وہی باطل ہیں  اوروہ عبادت کئے جانے کا کوئی حق نہیں  رکھتے اور یہ مدد فرمانا اس لیے بھی ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہی اپنی قدرت سے ہر چیز پر غالب ہے، اس کی کوئی شبیہ نہیں  اورنہ ہی کوئی اس کی مِثل ہے اور وہ کافروں  کی منسوب کردہ ان تمام باتوں  سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں  اور وہی عظمت و جلال اور بڑائی والا ہے۔(تفسیر قرطبی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۶۹-۷۰، الجزء الثانی عشر)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً٘-فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةًؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(63)لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(64)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین سرسبز ہوجاتی ہے بیشک اللہ بڑا مہربان، خبردار ہے۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور بیشک اللہ ہی بے نیاز،تمام تعریفوں کامستحق ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلے  اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی ایک نشانی دن اور رات کو کم زیادہ کرنا ذکر کی گئی اور اب یہاں  سے  اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مزید دلائل ذکر کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا تو نے نہ دیکھا کہ خشک زمین پر جب  اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کا پانی نازل فرماتا ہے تووہ نباتات سے سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے اور یہ  اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔ بیشک  اللہ تعالیٰ پانی کے ذریعے زمین سے نباتات نکال کر اپنے بندوں  پربڑا مہربان ہے اور بارش میں  تاخیر ہونے کی وجہ سے جو کچھ ان کے دلوں  میں  آتا ہے اس سے خبردار ہے۔(تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۳، ۸ / ۲۴۶، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۳، ص۲۸۵، ملتقطاً)

{لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے سب اسی کا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں  میں  ہے اور جو کچھ زمین میں  ہے سب کا حقیقی مالک وہی ہے اور اِ س ملکیت میں  اُس کا کوئی شریک نہیں  اور بیشک  اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز سے بے نیاز اور اپنے اَفعال و صِفات میں تمام تعریفوں  کا مستحق ہے۔( جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۲۸۵، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۴، ۶ / ۵۶، ملتقطاً)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖؕ-وَ یُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(65)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے تمہارے قابومیں کردیا جو کچھ زمین میں ہے اور کشتی کو جو دریا میں اس کے حکم سے چلتی ہے اور وہ آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے حکم سے۔ بیشک اللہ لوگوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا،رحم فرمانے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ: کیا تو نے نہ دیکھا کہ  اللہ نے تمہارے قابومیں  کردیا جو کچھ زمین میں  ہے۔} یہاں  سے  اللہ تعالیٰ اپنے ان احسانات کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے اپنے بندوں  پر فرمائے ہیں ،چنانچہ آیت کے اس حصے میں  ارشاد فرمایا کہ جو کچھ زمین میں  ہے اسے  اللہ تعالیٰ نے تمہارے قابومیں  کر دیا، جیسے پتھر جیسی سخت ترین، لوہے جیسی انتہائی وزنی اور آگ جیسی انتہائی گرم چیز کو تمہارے اختیار میں  دے دیا اور جانوروں  کو بھی تمہارے لئے مُسَخَّر کر دیا تاکہ تم ان کا گوشت کھا سکو،ان پر سامان وغیرہ لاد سکو، ان پر سواری کر سکو اور ان سے دیگر کام لے سکو۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۷)

            ان سب چیزوں  کاعملی مشاہدہ ہم اپنی روزمَرہ زندگی میں  کرتے رہتے ہیں  کہ چھوٹے چھوٹے بچے اونٹ جیسے قوی ہیکل اور گائے جیسے طاقتورجانورکواس طرح لے کرجارہے ہوتے ہیں  جیسے وہ بچوں  کاکوئی کھلوناہو۔

{وَ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ: اور کشتی کو جو دریا میں  اس کے حکم سے چلتی ہے۔} آیت کے اس حصے میں  دوسرے احسان کے بارے میں  ارشاد فرمایا کہ وہ کشتی جو دریا میں   اللہ تعالیٰ کے حکم سے چلتی ہے اسے  اللہ تعالیٰ نے تمہارے قابو میں  دے دیا اور تمہاری خاطر کشتی چلانے کے لئے ہوا اور پانی کو مُسَخَّر کر دیا۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۷)

{وَ یُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ: اور وہ آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں  زمین پر نہ گر پڑے۔} یہاں  تیسرے احسان کا ذکر فرمایاکہ  اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے آسمان کو روکے ہوئے ہے تاکہ وہ زمین پر گر نہ پڑے اور اس نے لوگوں کو جو نعمتیں  عطا فرمائی ہیں  وہ ختم نہ ہو جائیں  البتہ جب قیامت قائم ہو گی تو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمان گر جائے گا۔آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایاکہ بیشک  اللہ تعالیٰ لوگوں  پر بڑی مہربانی فرمانے والا،رحم فرمانے والا ہے کہ اس نے ان کے لئے دین و دنیا کی مَنفعتوں  کے دروازے کھولے اور طرح طرح کے نقصانوں  سے انہیں  محفوظ کیا۔( تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۸ / ۲۴۸، بیضاوی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۱۳۹، خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۳۱۶، ملتقطاً)

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ٘-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ(66)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گابیشک آدمی بڑا ناشکرا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَحْیَاكُمْ: اور وہی ہے جس نے تمہیں  زندگی بخشی۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارا معبود وہی ہے جس نے تمہاری ماؤں  کے رحموں  میں  بے جان نطفے سے پیدا فرما کر تمہیں  زندگی بخشی، پھر تمہاری عمریں  پوری ہونے پر وہ تمہیں  موت دے گا، پھر قیامت کے دن ثواب اور عذاب کے لئے تمہیں  دوبارہ زندہ کرے گا،بیشک آدمی بڑا ناشکرا ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتوں  کے باوجود اس کی عبادت سے منہ پھیرتا ہے اور بے جان مخلوق کی پوجا کرتا ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ:۶۶، ۳ / ۳۱۶، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۷۴۷، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۲۸۵، ملتقطاً)

شکر گزار اور ناشکرا بندہ:

         یہاں  آیت میں  بڑے ناشکرے انسان سے کافر مراد ہے، البتہ عمومی طور پر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ عزت، عظمت اور شان عطا فرمائی ہے کہ پہلے اسے جمادات کے عالَم سے نباتات کے عالَم کی طرف منتقل کیا، پھر اسے جانداروں  کے عالَم کی طرف منتقل کیا،پھر اسے بولنے اور کلام کرنے کی صلاحیت سے نوازا اور اسے ظاہری و معنوی نعمتیں  عطا کیں  اور تمام موجود چیزوں  کو اس کا خادم بنایا، اس لئے ہربندے پر لازم ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کو ا س کی پسند اور رضا کے کاموں  میں  استعمال کر کے اُس کے لطف و کرم اور بے پناہ انعامات کا شکر ادا کرے۔

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَؕ-اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ(67)

ترجمہ: کنزالعرفان

ہر امت کے لیے ہم نے ایک شریعت بنادی جس پر انہیں عمل کرنا ہے تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں اورتم اپنے رب کی طرف بلاؤ بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ: ہر امت کے لیے ہم نے ایک شریعت بنا دی۔} یعنی سابقہ دین و ملت والوں  میں  سے ہر امت کے لیے  اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص شریعت بنائی تاکہ وہ عبادات اور دیگر معاملات میں  اپنے اپنے شرعی قوانین پر عمل کریں ، تو اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کے زمانے میں  موجود دیگر ملتوں  والے ہرگز آپ سے دین کے معاملے میں  یہ گمان کر کے جھگڑا نہ کریں  کہ اِن لوگوں  کی بھی شریعت وہی ہے جواِن کے آباؤ اَجداد کی تھی،وہ شریعتیں  منسوخ ہونے سے پہلے سابقہ لوگوں  کی شریعتیں  تھیں  جبکہ اِس امت کی جداگانہ اور مستقل شریعت ہے اور اب قیامت تک ہر ایک کو اسی شریعت پر عمل کرنا ہے۔ اور اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ تمام لوگوں  کواپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلائیں  اورانہیں  اُس پر ایمان لانے، اس کا دین قبول کرنے اور اس کی عبادت میں  مشغول ہونے کی دعوت دیں ، بیشک آپ سیدھی راہ پر ہیں ۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۷، ۶ / ۵۸)

وَ اِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(68)اَللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(69)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو فرمادو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو تم کررہے ہو۔ اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن اس بات میں فیصلہ کردے گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنْ جٰدَلُوْكَ: اور اگر وہ تم سے جھگڑیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر حق ظاہر ہونے اور حجت لازم ہونے کے بعد بھی وہ آپ سے جھگڑا کریں  تو آپ ان سے وعید کے طور پر فرما دیں  کہ  اللہ تعالیٰ ان باطل کاموں  کو خوب جانتا ہے جو تم کررہے ہو اور وہ تمہیں  یہ کام کرنے کی سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن اس بات میں  فیصلہ کردے گا جس میں  تم اختلاف کررہے ہو، تو اس وقت تمہیں  معلوم ہو جائے گا کہ حق کیا تھا اور باطل کیا ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۶ / ۵۸، تفسیر کبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۶۸-۶۹، ۸ / ۲۴۹، ملتقطاً)

ہر باتونی اورجھگڑالو سے مناظرہ نہیں  کرنا چاہیے:

            اس سے معلوم ہوا کہ ہر باتونی اورجھگڑالو سے مناظرہ نہیں  کرنا چاہیے اور یہ بات اس واقعے سے مزید مضبوط ہو جاتی ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے پر دلائل پیش کئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دلائل کا جواب نہ دیا بلکہ ا س سے فرمایا:

’’فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ‘‘(حجر:۳۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جنت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے۔

            علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  اس آیت میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں  کوبڑاعمدہ ادب سکھایاہے کہ جوشخص محض تَعَصُّب اورجھگڑاکرنے کے شوق میں  تم سے مناظرہ کرناچاہے تواسے کوئی جواب نہ دواورنہ اس کے ساتھ مناظرہ کرو بلکہ اس کی تمام باتوں  کے جواب میں  صرف وہ بات کہہ دو جو  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوسکھائی ہے۔( قرطبی، الحج، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۷۲، الجزء الثانی عشر)

اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ-اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍؕ-اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ(70)

ترجمہ: کنزالعرفان

کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بیشک یہ سب ایک کتاب میں ہے بیشک یہ اللہ پربہت آسان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَعْلَمْ: کیا تجھے معلوم نہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ اے بندے! کیا تجھے معلوم نہیں  کہ آسمانوں  اور زمین میں  کوئی چیز  اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ، وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ان چیزوں  میں  کفار کی باتیں  اور ان کے اعمال بھی داخل ہیں ، بیشک آسمانوں  اور زمین کی ہر چیز ایک کتاب لوحِ محفوظ میں  لکھی ہوئی ہے اور بیشک ان سب چیزوں  کا علم اور تمام موجودات کو لوحِ محفوظ میں  ثَبت فرمانا  اللہ تعالیٰ پربہت آسان ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۰، ۸ / ۲۵۰، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۰، ۶ / ۵۸، ملتقطاً)

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ مَا لَیْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ(71)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور(مشرک) اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری اور جن کاخود انہیں بھی کچھ علم نہیں اورظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ: اور  اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہیں ۔} اس آیت میں  کفار کی جہالت بیان فرمائی جا رہی ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں  کی پوجا کرتے ہیں  اور ان کے پاس اپنے اس فعل کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی بلکہ محض جہالت اور نادانی کی وجہ سے گمراہی میں  پڑے ہوئے ہیں  اور جو کسی طرح بھی پوجے جانے کے مستحق نہیں  اسے پوجتے ہیں ، یہ شدید ظلم ہے اور جوشرک کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اس کا کوئی مددگار نہیں  جو اسے  اللہ تعالیٰ کے اُس عذاب سے بچا سکے جس کا یہ شرک کرنے کی وجہ سے مستحق ہوا۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۷۴۸، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۱، ۶ / ۵۹، ملتقطاً)

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَؕ-یَكَادُوْنَ یَسْطُوْنَ بِالَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاؕ-قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْؕ-اَلنَّارُؕ-وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(72)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور جب ان پر ہماری روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو تم کافروں کے چہروں میں ناپسندیدگی کے آثار دیکھو گے۔ قریب ہے کہ انہیں لپٹ جائیں جو اُن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھتے ہیں ۔ تم فرمادو: کیا میں تمہیں وہ چیز بتادوں جو تمہیں اِس سے زیادہ ناپسند ہے؟ وہ آگ ہے۔ اللہ نے کافروں سے اس کا وعدہ کیا ہے اور وہ کیا ہی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: اور جب ان پر ہماری روشن آیتوں  کی تلاوت کی جاتی ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جہالت کے ساتھ ساتھ کافروں  کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتوں  کی تلاوت کی جاتی ہے اور قرآنِ کریم انہیں  سنایا جاتا ہے جس میں  اَحکام کا بیان اور حلال و حرام کی تفصیل ہے تو تمہیں  کافروں  کے چہروں  میں  ناپسندیدگی کے آثار واضح طور پر نظر آئیں  گے اور غیظ و غضب سے ان کا حال یہ ہو تا ہے کہ جو ان کے سامنے ہماری آیتیں  پڑھتے ہیں ، انہیں  لپٹ جانے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں  سے فرمادیں : کیا میں تمہیں  وہ چیز بتادوں  جو تمہیں  اُس غیظ اور ناگواری سے بھی زیادہ ناپسند ہے جو قرآنِ پاک سن کر تم میں  پیدا ہوتی ہے؟ وہ جہنم کی آگ ہے۔  اللہ تعالیٰ نے کافروں  سے اس کا وعدہ کیا ہے اور وہ کیا ہی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۲، ۸ / ۲۵۰-۲۵۱، روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۵۹-۶۰، ملتقطاً)

دل کا آئینہ اور مومن کی علامت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ چہر ہ دل کا آئینہ ہے کیونکہ دل کے آثار چہر ے پر نمودار ہوتے ہیں ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی حمد اور حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت شریف سن کر چہرے پرخوشی کے آثار نمودار ہونا مومن ہونے کی علامت ہے اور حمد و نعت سن کر منہ بگاڑنا کفار کا طریقہ ہے۔

جنت اور جہنم کی طرف لے جانے والے اعمال:

            یاد رہے کہ تو حید و رسالت کا اقرارکرنا افضل ترین نعمت اور اعلیٰ ترین عمل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بندے کو ابدی سعادت حاصل ہو گی اور بندہ  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ا س کی رحمت سے جنت کی عمدہ ترین نعمتوں  سے لطف اندوز ہو گا جبکہ توحید و رسالت کا انکار کرنا اور کفر و شرک کا اِرتکاب کرنا ایسے بد ترین اعمال ہیں  کہ ان کی وجہ سے بندہ ہمیشہ کے لئے بد بخت بن جاتا ہے اوراسے جہنم کے انتہائی درد ناک عذابات میں  مبتلا ہو نا پڑے گا،لہٰذا ہر عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہ ان تمام اَقوال،اَفعال اوراَعمال سے بچے جو کفر و شرک اور توحید و رسالت کے انکار کی طرف لے جاتے ہیں  اور اسے چاہئے کہ توحید و رسالت کا اقرار کرنے والوں  کی صحبت اختیار کرے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں  سے محبت کرے، اسلام کے دئیے ہوئے احکامات پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں  سے بچے، نیز گمراہوں  اور بد مذہبوں  کی صحبت سے دور بھاگے اور انہیں  خود سے دور رکھے اور  اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ان سے بغض رکھے۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ(73)مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(74)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے تو اسے کان لگا کر سنو، بیشک اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) پیدا نہیں کرسکیں گے اگرچہ سب اس کیلئے جمع ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں گے۔کتنا کمزورہے چاہنے والا اور وہ جسے چاہا گیا۔ انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے، بیشک اللہ قوت والا، غلبے والاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ: اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے۔}گزشتہ آیات میں  بیان کیاگیاکہ بتوں  کی عبادت کرنے پرمشرکین کے پاس کوئی عقلی ونقلی دلیل نہیں  ہے بلکہ یہ محض جہالت اوربیوقوفی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں  اور اس آیت میں  ایک مثال کے ذریعے بتوں  کی عبادت کا باطل ہونا بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو!ایک مثال بیان کی گئی ہے، تو اسے کان لگا کر سنو اور اس میں  خوب غور کرو،وہ مثال یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں  کی تم عبادت کرتے ہو،ان کے عاجز اور بے قدرت ہونے کا یہ حال ہے کہ وہ ہرگز ایک انتہائی چھوٹی سی چیز مکھی بھی پیدا نہیں  کرسکیں  گے اگرچہ سب مکھی پیدا کرنے کے لئے جمع ہوجائیں  تو عقلمند انسان کو یہ زیبا کب دیتا ہے کہ وہ ایسے عاجز اور بے قدرت کو معبود ٹھہرائے، ایسے کو پوجنا اور معبود قرار دینا کتنی انتہا درجے کی جہالت ہے !اور اگر مکھی ان سے وہ شہد و زعفران وغیرہ چھین کرلے جائے جو مشرکین بتوں  کے منہ اور سروں  پر ملتے ہیں  اور ان پر مکھیاں  بیٹھتی ہیں  تو وہ بت مکھی سے شہد و زعفران چھڑا نہ سکیں  گے توایسے بے بس کو خدا بنانا اور معبود ٹھہرانا کتنا عجیب اور عقل سے دور ہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۲۸۶، ملتقطاً)

{ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ: کتنا کمزورہے چاہنے والااور وہ جس کو چاہا گیا۔} آیت کے اس حصے میں  چاہنے والے سے بت پرست اور چاہے ہوئے سے بت مراد ہے، یا چاہنے والے سے مکھی مراد ہے جو بت پر سے شہد و زعفران کی طالب ہے اور مطلوب سے بت مراد ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ طالب سے بت مراد ہے اور مطلوب سے مکھی۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۳۱۷)

 اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کی اجازت سے عاجز اور بے بس نہیں :

یاد رہے کہ اس آیت کا تعلق  اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِمْ سے نہیں  ہے، یہ عاجز اور بے بس نہیں  بلکہ یہ  اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اجازت اور قدرت سے مخلوق کو نفع پہنچانے اور ان سے نقصان دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں  حتّٰی کہ ان میں  سے بعض کو مردوں  کو زندہ کرنے کی قدرت بھی عطا ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمان خود قرآنِ پاک میں  موجود ہے کہ

’’اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں  تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں  پھر اس میں  پھونک ماروں  گا تو وہ  اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں  پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں  کو شفا دیتا ہوں  اور میںاللہ کے حکم سے مردوں  کو زندہ کرتا ہوں ۔

یہ آیت بتوں  کے بارے میں  ہے اور اس میں  ان کا عاجز اور بے بس ہونا بیان کیا گیا ہے اور اسے  اللہ تعالیٰ کے اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِم پر چسپاں  کرنا خارجیوں  اور ان کی پیروی کرنے والوں  کا کام ہے۔ صحیح بخاری شریف میں  ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا خارجیوں  کو  اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں  سے بدتر قرار دیتے تھے اورفرماتے تھے کہ جوآیات کفارکے بارے میں نازل ہوئی ہیں  یہ ان آیات کومومنین پرچسپاں  کردیتے ہیں۔( بخاری،کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالہم،باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجّۃ علیہم، ۴ / ۳۸۰)

{مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ: انہوں  نے  اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے۔} ارشاد فرمایا کہ جنہوں  نے عاجز و بے بس اور مکھی سے بھی کمزور بتوں  کو  اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کا حق ہے اور اس کی عظمت نہ پہچانی، حقیقی معبود وہی ہے جو کامل قدرت رکھے اور بیشک  اللہ تعالیٰ قوت والا اورغلبے والا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۷۴۹)

اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ(75)یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(76)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے رسول چن لیتا ہے، بیشک اللہ سننے والا،دیکھنے والا ہے۔ وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ:  اللہ فرشتوں  میں  سے اور آدمیوں  میں  سے رسول چن لیتا ہے۔} گزشتہ آیات میں  توحید کابیان تھا اوراس آیت میں  رسالت کابیان کیاجارہاہے کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ  فرشتوں  اورانسانوں  میں  سے جسے چاہتا ہے اسے رسالت کا منصب عطا فرما دیتا ہے۔ فرشتوں  میں  مثلاًحضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اورانسانوں  میں  حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔ شانِ نزول: یہ آیت ان کفار کے رد میں  نازل ہوئی جنہوں  نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے ؟ اس پر  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے، وہ انسانوں  میں  سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں  سے بھی جنہیں  چاہے۔( خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۱۷-۳۱۸، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۷۴۹، ملتقطاً)

 سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر رسولوں  کا چناؤ ختم ہو گیا:

            یہاں  ایک اہم بات یاد رہے کہ انسانوں  کی ہدایت کیلئے ان میں  سے ہی بعض کو منصبِ رسالت کے لئے چن لینا  اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت ہے لیکن ا س کا یہ مطلب ہر گز نہیں  کہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد بھی لوگوں  کو رسالت کے عظیم منصب کے لئے چنتا رہے گا، کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کیلئے جنہیں  چننا تھا چن لیا اور جنہیں  چن لیا وہ دائمی نبی اور رسول ہو گئے اور  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نبوت و رسالت کا منصب ختم فرما دیاہے لہٰذا ان کی تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ اختتام پزیر ہو گیا اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں  آئے گا۔تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے بارے میں   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ‘‘(احزاب:۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں  میں  کسی کے باپ نہیں  ہیں لیکن  اللہ کے رسول ہیں  اور سب نبیوں  کے آخر میں  تشریف لانے والے ہیں  اور  اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔

            اور صحیح بخاری شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں  انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی ان کا خلیفہ ہوتا، (لیکن یاد رکھو!) میرے بعد ہر گز کوئی نبی نہیں  ہے،ہاں  عنقریب خلفاء ہوں  گے اور کثرت سے ہوں  گے۔( بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ۲ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۴۵۵)

            اور سنن ترمذی میں  حضرت انس بن مالک رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی نبی۔( ترمذی، کتاب الرؤیا عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ذہبت النبوّۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۱، الحدیث: ۲۲۷۹)

{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ: وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔} یعنی  اللہ تعالیٰ دنیا کے اُمور کو بھی جانتا ہے اور آخرت کے اُمور کو بھی، یااس سے مراد یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ لوگوں  کے گزرے ہوئے اعمال کو بھی جانتا ہے اور آئندہ کے احوال کا بھی علم رکھتا ہے۔( مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۷۴۹)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(77)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرواور اچھے کام کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاجاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا: اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو۔} اس آیت میں   اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو 3اَحکام دئیے ہیں ،

(1)… نمازپڑھو۔ کیونکہ نماز کے سب سے افضل ارکان رکوع اور سجدہ ہیں  اور یہ دونوں  نماز کے ساتھ خاص ہیں  تو ان کا ذکر گویا کہ نماز کا ذکر ہے۔

(2)… اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔اس کاایک مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو اور ا س کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے جو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کاموں  سے منع کیا ہے، ان سب (پر عمل کرنے کی صورت) میں  اپنے رب کی عبادت کرو۔تیسرا مطلب یہ ہے کہ رکوع،سجدہ اور دیگر نیک اعمال کو اپنے رب کی عبادت کے طور پر کرو کیونکہ عبادت کی نیت کے بغیر فقط ان افعال کو کرنا کافی نہیں ۔

(3)…نیک کام کرو۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ان سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اَخلاق ہیں۔

            آیت کے آخر میں  فرمایا کہ تم یہ سب کام اس مید پر کرو کہ تم جنت میں  داخل ہو کر فلاح و کامیابی پاجاؤ اور تمہیں  جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۷۷، ۸ / ۲۵۴، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۷۴۹-۷۵۰، ملتقطاً)

نیک اعمال کس امید پر کرنے چاہئیں ؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ عبادات اور نیک اعمال ضرورکرے کہ یہ  اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لیکن ان عبادات و نیک اعمال کی وجہ سے یہ ذہن نہ بنائے کہ اب ا س کی بخشش و مغفرت یقینی ہے بلکہ اس امید پر اخلاص کے ساتھ اور  اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے نیک کام کرے کہ ان کی برکت سے  اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل و رحمت فرمائے گا اور اپنی رحمت سے جہنم کے عذاب سے چھٹکارا اور جنت میں  داخلہ نصیب فرمائے گا۔

سورۂ حج کی آیت نمبر77سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:

            یاد رہے کہ اَحناف کے نزدیک سورۂ حج کی اس آیت کو پڑھنے یا سننے سے سجدہ ِ تلاوت واجب نہیں  ہوتا کیونکہ اس میں  سجدے سے مراد نماز کا سجدہ ہے، البتہ اگر کسی حنفی نے شافعی مذہب سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتدا کی اور اُس نے اِس موقع پر سجدہ کیا تو اُس کی پیروی میں  مقتدی پر بھی واجب ہے۔( بہارِ شریعت، حصہ چہارم،سجدۂ تلاوت کا بیان، ۱ / ۷۲۹)

وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖؕ-هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ-مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَؕ-هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ﳔ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ هٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ ۚۖ-فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِؕ-هُوَ مَوْلٰىكُمْۚ-فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ(78)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا اس (کی راہ) میں جہاد کرنے کا حق ہے۔اس نے تمہیں منتخب فرمایا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی جیسے تمہارے باپ ابراہیم کے دین (میں کوئی تنگی نہ تھی)۔ اس نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ رسول تم پرنگہبان و گواہ ہو اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ تو نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لو، وہ تمہارا دوست ہے تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگارہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ: اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔} اس آیت میں چند باتیں  ارشاد فرمائی گئیں ۔

(1)…ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو!تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ا س کے دین کے دشمنوں کے ساتھ ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس میں تمہاری نیت سچی اور خالص ہو اور تمہارا یہ عمل دین ِاسلام کی سر بلندی کے لئے ہو۔

(2)… اللہ تعالیٰ نے تمہیں  اپنے دین اور عبادت کیلئے منتخب فرمایاتو اس سے بڑ ارتبہ اور اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے۔

(3)… اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی بلکہ ضرورت کے موقعوں  پر تمہارے لئے سہولت کر دی جیسے کہ سفر میں نماز قَصر کرنے اور روزہ نہ رکھنے کی اجازت دے دی اور پانی نہ پانے یا پانی کے نقصان پہنچانے کی حالت میں غسل اور وضو کی جگہ تیمم کی اجازت دی، تو تم دین کی پیروی کرو۔

(4)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین ایسے آسان ہے جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین آسان تھا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین میں  داخل ہے۔

(5)… اللہ تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں دین ِاسلام کو ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ قیامت کے دن رسول تم پرنگہبان و گواہ ہو کہ انہوں نے تمہارے پاس خدا کا پیام پہنچا دیا اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ کہ انہیں  ان رسولوں   نے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے۔

(6)… اللہ تعالیٰ نے تمہیں  یہ عزت و کرامت عطا فرمائی ہے تو تم پابندی کے ساتھ نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کومضبوطی سے تھام لو اور اس کے دین پر قائم رہو، وہ تمہارامالک و ناصرہے اور تمہارے تمام اُمور کا انتظام فرمانے والا ہے، تو وہ کتنا اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگارہے۔(خازن، الحج، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۳۱۹، مدارک، الحج، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۷۵۰، ملتقطاً)

نفس و شیطان کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب

اس آیت میں   اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمنوں  کے ساتھ ساتھ نفس،خواہشات اور شیطان کے خلاف جہاد کرنا بھی داخل ہے اورشیطان کی انسان دشمنی اور اس کے مقصد سے خبردار کرتے ہوئے  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :        

’’  اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ– اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ‘‘-    (فاطر:۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔

اور نفسانی خواہشات کی پیروی سے رکنے والے کے بارے میں  ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘  –(نازعات: ۴۰ ، ۴۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑےہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔

حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، کچھ لوگ جہاد سے واپسی پر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہو ئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم آگئے، خوش آمدید! اور تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آئے ہو۔انہوں  نے عرض کی:بڑا جہاد کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’بندے کا اپنی خواہشوں  سے جہاد کرنا۔( الزہد الکبیر للبیہقی، فصل فی ترک الدنیا ومخالفۃ النفس، ص۱۶۵، الحدیث: ۳۷۳)

حضرت فضالہ بن عبید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد  فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں  اپنے نفس سے لڑتا ہے۔( مسند امام احمد، مسند فضالۃ بن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ، ۹ / ۲۴۹، الحدیث: ۲۴۰۱۳)

حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : انسان کے دشمن تین ہیں : (1)اس کی دنیا۔ (2) شیطان۔(3)نفس۔ لہٰذا دنیا سے بے رغبتی اختیار کر کے اس سے بچو،شیطان کی مخالفت کر کے ا س سے محفوظ رہو اور خواہشات کو چھوڑ دینے کے ذریعے نفس سے حفاظت میں رہو۔(احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق، بیان شواہد النقل من ارباب البصائر۔۔۔ الخ، ۳ / ۸۱)



Scroll to Top