سُوْرَۃ الحَاقَّة

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَآقَّةُ(1)مَا الْحَآقَّةُ(2)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحَآقَّةُﭤ(3)

ترجمہ: کنزالعرفان

یقینی طور پر واقع ہونے والی۔یقینی طور پر واقع ہونے والی کیا ہے؟اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ یقینی طور پر واقع ہونے والی کیا ہے؟

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلْحَآقَّةُ: یقینی طور پر واقع ہونے والی۔} اس سے مراد قیامت ہے کیونکہ قیامت کا آنا درست اور ثابت ہے ،اس کے آنے میں  کوئی شک نہیں  بلکہ اس کا واقع ہونا یقینی اورقطعی ہے اور اس میں  وہ چیزیں  ثابت ہو جائیں  گی جن کا دنیا میں  انکار کیا جاتا ہے جیسے مرنے کے بعد اٹھایا جانا، حساب اور جزاء وغیرہ۔( قرطبی، الحاقۃ، تحت الآیۃ:۱-۲، ۹ / ۱۹۱، الجزء الثامن عشر، جلالین مع صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۲۲۴، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۷۳، ملتقطاً)

{مَا الْحَآقَّةُ: یقینی طور پر واقع ہونے والی کیا ہے؟۔} یہ سوال قیامت کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے کے طور پر ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت انتہائی عجیب اور عظیم الشّان ہے۔( مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۷۳، ابو سعود، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۷۶۰، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ: اور تمہیں  کیا معلوم۔} یعنی تم قیامت کی حقیقت کو نہیں  جانتے کیونکہ تم نے ا س کا مشاہدہ نہیں  کیا اور نہ ہی اس میں  موجود ہَولناکیوں  کو دیکھا ہے اور اس کی دہشت،ہَولناکی اور شدّت ایسی ہے کہ انسان کسی طرح ا س کا اندازہ نہیں  لگا سکتا اور نہ ہی کسی کی سوچ اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۰۲، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۷۳، ملتقطاً)

         علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :یہاں  یہ اِحتمال ہے کہ یہ بات دوسروں  کو سنانے کے لئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہی گئی ہو۔( روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۳۱)

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ(4)فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُهْلِكُوْا بِالطَّاغِیَةِ(5)وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍ(6)

ترجمہ: کنزالعرفان

ثمود اور عاد نے دلوں کو دہلادینے والی کو جھٹلایا۔تو قومِ ثمود کے لوگ تو حد سے گزری ہوئی چنگھاڑ سے ہلاک کئے گئے۔اور عادکے لوگ تو وہ نہایت سخت گرجتی آندھی سے ہلاک کیے گئے ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌ: ثمود اور عاد نے جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیات میں  قیامت کی ہَولناکی اور شدّت کو بیان کیا گیا اور یہاں  سے سابقہ امتوں  میں  سے ان لوگوں  کا انجام بیان کیا گیا جنہوں  نے قیامت کو جھٹلایا تاکہ کفارِ مکہ ان سے نصیحت حاصل کریں  اور قیامت کو جھٹلانے والوں  کا انجام دیکھ کر ڈریں ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ثمود نے اور حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد نے طرح طرح کی دہشتوں  اور ہَولناکیوں  سے دلوں  کو دہلادینے والی قیامت کو جھٹلایا تو (دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ اس جرم کی وجہ سے بھی) قومِ ثمود کے لوگ تو شدّت میں  حد سے گزری ہوئی چنگھاڑیعنی سخت ہَولناک آواز سے ہلاک کر دئیے گئے اور عادکے لوگ انتہائی سخت گرجتی آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے اور وہ لوگ اپنی طاقت اور قوت کے باوجود بھی اس آندھی کو روک نہ سکے۔( تفسیر کبیر، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۱۰ / ۶۲۱، روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴-۶، ۱۰ / ۱۳۱-۱۳۲، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴-۶، ص۱۲۷۳، ملتقطاً)

سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ(7)فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ(8)

ترجمہ: کنزالعرفان

اللہ نے وہ آندھی ان پرلگاتارسات راتیں اور آٹھ دن پوری قوت کے ساتھ مسلط کردی تو تم ان لوگوں کو ان دنوں اور راتوں میں یوں پچھاڑے ہوئے دیکھتے گویا کہ وہ گری ہوئی کھجوروں کے سوکھے تنے ہیں ۔تو کیا تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو؟

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًا: اللّٰہ نے وہ آندھی ان پرلگاتارسات راتیں  اور آٹھ دن پوری قوت کے ساتھ مسلط کردی۔} اس آیت اورا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے قومِ عاد پر ماہِ شوال کے آخر میں  اور انتہائی تیز سردی کے موسم میں  ایک بدھ سے دوسرے بدھ تک لگاتارسات راتیں  اور آٹھ دن وہ آندھی پوری قوت کے ساتھ مُسَلَّط کردی ،تو اے مُخاطَب ! اگر تم اس واقعے کے وقت وہاں  موجود ہوتے تو ان لوگوں  کو ان دنوں  اور راتوں میں  پچھاڑے ہوئے دیکھتے اور ہلاک ہونے کے بعد وہ لوگ ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے وہ کھجور کے گرے ہوئے سوکھے تنے ہیں  تو کیا تم ایمان والوں  کے علاوہ ان میں  سے کسی چھوٹے بڑے، مرد یا عورت کو بچا ہوا دیکھتے ہو؟کہا گیا ہے کہ آٹھویں  روز جب صبح کو وہ سب لوگ ہلاک ہوگئے تو ہواؤں  نے اُنہیں  اُڑا کر سمندر میں  پھینک دیا اوران میں  سے ایک بھی باقی نہ رہا۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۳۰۳، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ص۱۲۷۴، روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۱۰ / ۱۳۲-۱۳۴، بیضاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۵ / ۳۷۸-۳۷۹، ملتقطاً)

وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ وَ الْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِ(9)فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّهِمْ فَاَخَذَهُمْ اَخْذَةً رَّابِیَةً(10)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور فرعون اور اس سے پہلے والے اور الٹنے والی بستیوں نے خطاؤں کا ارتکاب کیا ۔تو انہوں نے اپنے رب کے رسول کا حکم نہ مانا تو اللہ نے انہیں زیادہ سخت گرفت سے پکڑلیا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ: اور فرعون اور اس سے پہلے والے لائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور ا س سے بھی پہلی اُمتوں  کے کفار اور نافرمانیوں  کی شامت سے الٹنے والی بستیوں  کے لوگ جیسے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیوں  کے لوگ ،یہ سب قبیح اَفعال، گناہوں  اور شرک کے مُرتکب ہوئے اورہر امت نے منع کئے جانے کے باوجود گناہوں  سے رکنے میں  اپنے اُس رسول کی نافرمانی کی جو اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے اُن کی طرف بھیجے گئے تھے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان میں  سے ہر قوم کی انتہائی سخت گرفت فرمائی۔( روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۱۰ / ۱۳۴-۱۳۵، ملخصاً)

اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِ(11)لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِیَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک جب پانی نے سر اٹھایا تھاتوہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا۔تاکہ اسے تمہارے لیے یادگار بنادیں اور سن کر یاد رکھنے والے کان اس واقعہ کو یاد رکھیں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ: بیشک جب پانی نے سر اٹھایا تھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کفر اور گناہوں  پر قائم رہنے اور قیامت کے احوال کے ساتھ ساتھ دیگر جو احکام حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی کئے جاتے تھے ان میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے طوفانِ نوح کے پانی نے سر اٹھایا اور وہ درختوں ، عمارتوں ، پہاڑوں  اور ہر چیز سے بلند ہوگیا تھا تو اے لوگو! ہم نے تمہیں  ا س وقت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی میں  سوار کیا جب کہ تم اپنے آباء کی پشتوں  میں  تھے تاکہ ہم مومنین کو نجات دینے اور کافروں  کے ہلاک فرمانے کو تمہارے لیے یادگار بنا دیں  کہ یہ واقعہ لوگوں  کے لئے عبرت و نصیحت کا سبب ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے کمال،اس کے قہر کی قوت اور رحمت کی وسعت کی دلیل ہو اور سن کر یاد رکھنے والے لوگ اس واقعہ کی کام کی باتوں  کو یاد رکھیں  تاکہ اُن سے نفع اُٹھا سکیں ۔

            یاد رہے کہ یہاں  آباء سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تین بیٹے سام،حام اور یافث مراد ہیں  اور سابقہ امتوں  کے واقعات بیان کرنے اور ان پر آنے والے عذابات کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ا س امت کے لوگ رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرنے میں  ان لوگوں  کی پیروی کرنے سے ڈریں ۔( ابو سعود، الحاقۃ، تحت الآیۃ:۱۱-۱۲، ۵ / ۷۶۱، قرطبی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۹ / ۱۹۵، الجزء الثامن عشر، جلالین مع صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۶ / ۲۲۲۶-۲۲۲۷، ملتقطاً)

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ(13)وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً(14)فَیَوْمَىٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

پھرجب صور میں (پہلی مرتبہ) ایک پھونک ماری جائے گی۔اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک دم چورا چوراکردئیے جائیں گے۔تو اس دن واقع ہونے والی واقع ہوجائے گی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ: پھرجب صور میں  ایک پھونک ماری جائے گی۔} اس سورت کی ابتدائی آیات میں  قیامت اور اس کی ہَولناکیوں  کا اِجمالی ذکر ہوا اور اب یہاں  سے قیامت کے احوال کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے اورا س کی ابتداء قیامت قائم ہوتے وقت کے واقعات سے کی گئی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  ارشاد فرمایا کہ پھرجب صور میں  پہلی مرتبہ ایک پھونک ماری جائے گی اور زمین اور پہاڑ اپنی جگہوں  سے اٹھا کر ایک دم چورا چوراکردئیے جائیں  گے تو اس دن وہ قیامت قائم ہو جائے گی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔( جمل ، الحاقۃ ، تحت الآیۃ : ۱۳،  ۸ / ۹۳ ، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ۴ / ۳۰۳-۳۰۴، روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ۱۰ / ۱۳۶-۱۳۷، ملتقطاً)

وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَوْمَىٕذٍ وَّاهِیَةٌ(16)وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآىٕهَاؕ-وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌﭤ(17)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور آسمان پھٹ جائے گا تو اس دن وہ بہت کمزورہوگا ۔اور فرشتے اس کے کناروں پر (کھڑے) ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائیں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ: اور آسمان پھٹ جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کی ہَولناکی سے آسمان پھٹ جائے گا تو ابھی اس قدر مضبوط اور مُستحکَم ہونے کے باوجود اس دن آسمان انتہائی ضعیف اور کمزور ہو گا اور جن فرشتوں  کا مَسکَن آسمان ہے وہ اس کے پھٹنے کے بعد اس کے کناروں  پر کھڑے ہوجائیں  گے، پھر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اُتر کر زمین کا اِحاطہ کرلیں  گے اور اس دن آٹھ فرشتے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عرش اپنے سروں  کے اوپر اٹھائیں  گے۔حضرت ابنِ اسحاق رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ،ہمیں  یہ حدیث پہنچی ہے کہ عرش اٹھانے والے فرشتے آج کل چار ہیں  اور قیامت کے دن ان کی تائید کیلئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا تو اس طرح آٹھ ہوجائیں  گے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ آٹھ فرشتوں  سے فرشتوں  کی آٹھ صفیں  مراد ہیں  جن کی تعداد اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔( مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۱۲۷۴، تفسیر طبری، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۲ / ۲۱۶، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۳۰۴، ملتقطاً)

یَوْمَىٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِیَةٌ(18)

ترجمہ: کنزالعرفان

اس دن تم سب اس حال میں پیش کئے جاؤ گے کہ تم میں سے کسی کی کوئی پوشیدہ حالت چھپ نہ سکے گی۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَوْمَىٕذٍ تُعْرَضُوْنَ: اس دن تم سب پیش کئے جاؤ گے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال جانتا ہے ، ا س پر تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں  اور قیامت کے دن تم اسی کی بارگاہ میں  حساب کے لئے پیش کئے جاؤ گے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ دنیا میں تمہاری جو حالت پوشیدہ تھی قیامت کے دن وہ پوشیدہ نہیں  رہے گی کیونکہ وہ مخلوق کے احوال ظاہر کر دے گی تو نیک لوگ اپنی نیکیوں  کی وجہ سے خوش ہوں  گے اور گناہگار اپنے گناہوں  کی وجہ سے غمزدہ ہوں  گے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۰۴)

اپنے اعمال کا محاسبہ اور اُخروی حساب کی تیاری کرنے کی ترغیب:

            اس آیت میں  دنیا میں  ہی اپنے اعمال کا محاسبہ کرلینے اور قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ہونے والے حساب کی تیاری کر لینے کی بھی ترغیب ہے ۔اسی چیز کا حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘(الحشر:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے۔

             اور اپنے حساب کے معاملے میں  لوگوں  کا حال بیان کرتے ارشاد فرماتا ہے:

’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ‘‘(انبیاء:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں  کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں  منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

            اور قیامت کے دن حساب کے معاملات اور لوگوں  کی جزا کے بارے میں  بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:’’وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّاؕ-لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ٘-بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا(۴۸) وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۸،۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور سب تمہارے رب کی بارگاہ میں صفیں  باندھے پیش کئے جائیں  گے، بیشک تم ہمارے پاس ویسے ہی آئے جیسے ہم نے تمہیں  پہلی بارپیدا کیا تھا، بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت نہ رکھیں  گے۔ اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں  کو دیکھو گے کہ اس میں  جو (لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈررہے ہوں  گے اورکہیں  گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں  گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں  کرے گا۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳)اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ(۱۴) مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا‘‘(بنی اسرائیل:۱۳۔۱۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں  لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں  گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ (فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامہ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔ جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے فائدے کیلئے ہی ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا تو اپنے نقصان کو ہی گمراہ ہوا۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰىﳳ-وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهٗ لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ ﳔ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(رعد:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جن لوگوں  نے اپنے رب کا حکم مانا انہیں  کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں  نے اس کا حکم نہ مانا (ان کا حال یہ ہوگا کہ) اگر زمین میں  جو کچھ ہے وہ سب اور اس جیسا اور اِس کے ساتھ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کو دے دیتے۔ ان کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

            اورحضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں  ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!تم حساب لئے جانے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کر لو اور (اعمال کا) وزن کئے جانے سے پہلے اپنے آپ (کے اعمال) کا وزن کر لو اور اس دن کی بڑی پیشی کی تیاری کر لو جس دن تم سب (اللّٰہ کی بارگاہ میں ) اس حال میں  پیش کئے جاؤ گے کہ تم میں  سے کسی کی کوئی پوشیدہ حالت چُھپ نہ سکے گی۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، ۸ / ۱۴۹، الحدیث: ۱۸)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور آخرت میں  ہونے والے حساب کی ابھی سے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

 

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ-فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ(19)اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ(20)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو بہر حال جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: لو میرا نامۂ اعمال پڑھ لو۔بیشک مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو ملنے والا ہوں ۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ: تو بہرحال جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا۔} یہاں  سے پیشی کے وقت لوگوں  کے احوال کی تفصیل بیان کی جارہی ہے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیشی کے وقت اعمال نامے تقسیم ہوں  گے تو جسے اس کا نامۂ اعمال دائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ وہ نجات پانے والوں  میں  سے ہے اور وہ انتہائی فرحت و سُرور کے ساتھ اپنی جماعت ، اپنے اہلِ خانہ اور قرابت داروں  سے کہے گاکہ لو میرے نامۂ اعمال کو پڑھ لو،مجھے دنیا میں  یقین تھا کہ آخرت میں  مجھ سے حساب لیا جائے گا (اسی لئے میں  نے اس کی تیاری کرلی تھی اور حساب دینے سے پہلے اپنا محاسبہ خود کر لیا تھا)۔( صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۶ / ۲۲۲۸، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱۹-۲۰، ۴ / ۳۰۵، ملتقطاً)

فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ(21)فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍ(22)قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ(23)كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ(24)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔بلند باغ میں ۔اس کے پھل قریب ہوں گے۔(کہا جائے گا:) گزرے ہوئے دنوں میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ: تو وہ پسندیدہ زندگی میں  ہوگا۔} یہاں  سے ان لوگوں  کا ثواب بیان کیا گیا ہے جنہیں  اعمال نامے دائیں  ہاتھ میں  ملیں  گے،چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جسے دائیں  ہاتھ میں  اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ عذاب سے محفوظ رہنے اور ثواب ملنے کی وجہ سے بلند باغ میں پسندیدہ زندگی میں  ہوگا ،اس کے پھل کھانے والے کے قریب ہوں  گے کہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں  جیسے چاہے بآسانی لے سکے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں  تم نے جو نیک اعمال آخرت کیلئے کئے ان کے بدلے میں  خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲۱-۲۴، ۴ / ۳۰۵)

نیک سیرت چرواہا:

          حضرت نافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میں  حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ساتھ مدینہ منورہ کی ایک وادی میں  گیا۔ ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ۔انہوں  نے اپنا دستر خوان لگایا اور سب کھانا کھانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے ایک چرواہا گزرا ، حضر ت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس سے فرمایا’’ آیئے !آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناوُل فرمائیے ۔چرواہے نے جواب دیا ’’میرا روزہ ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا:’’ تم اس شدید گرمی کے عالَم میں  سارا دن جنگل میں  بکریاں  چَراتے اوراتنی مشقت کا کام کرتے ہو اور پھر بھی تم نے نفلی روزہ رکھا ہوا ہے؟ کیاتم پر نفلی روزہ رکھنا ضروری ہے؟یہ سن کر وہ چرواہا کہنے لگا ’’حضور! کیا وہ وقت آگیا جس کے بارے میں  قرآنِ پاک میں فرمایا گیا کہ

’’كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ‘‘(الحاقہ:۲۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: (کہا جائے گا:)گزرے ہوئے دنوں  میں جو تم نے آگے بھیجا اس کے بدلے میں  خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔

            حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس چرواہے کی باتیں  سن کر بڑے حیران ہوئے او راس سے فرمانے لگے ’’ تم ہمیں  ایک بکری فروخت کر دو ہم اسے ذبح کریں  گے،تمہیں  اس کا گوشت بھی کھلائیں گے اور بکری کی مناسب قیمت بھی دیں  گے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ بات سن کرو ہ چرواہا عرض گزار ہوا: حضور! یہ بکریاں  میری مِلکِیَّت میں  نہیں  بلکہ یہ میرے آقا کی ہیں ، میں  تو غلام ہوں  میں  انہیں  کیسے فروخت کر سکتاہوں  ؟ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی امانت داری سے بہت مُتأثّر ہوئے اور ہم سے فرمایا ’’یہ بھی تو ممکن تھا کہ یہ چرواہا ہمیں  بکری بیچ دیتا اور جب اس کا آقا پوچھتا تو جھوٹ بول دیتا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا لیکن دیکھو یہ کتنا امین اورمُتّقی چرواہا ہے ۔چرواہے نے بھی یہ بات سن لی، اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے وہاں  سے چلا گیا’’اگر چہ میرا آقا مجھے نہیں  دیکھ رہا لیکن میرا پر وردگار عَزَّوَجَلَّ  تو مجھے دیکھ رہا ہے ،میرا رب عَزَّوَجَلَّ تو میرے ہر ہر فعل سے باخبر ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس چرواہے کی باتوں  اور نیک سیرت سے بہت مُتأثّر ہوئے اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس چرواہے کے مالک کے پاس پہنچے اور اس نیک چرواہے کو خرید کر آزاد کردیا اور ساری بکریاں  بھی خرید کر اس چرواہے کو تحفے میں دے دیں  ۔( عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والسبعون، ص۹۸-۹۹، ملتقطاً)

وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ ﳔ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْ(25)وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْ(26)یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَ(27)مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْ(28)هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْ(29)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوررہا وہ جسے اس کانامہ اعمال ا س کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کردینے والی ہوجاتی۔ میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔میرا سب زور جاتا رہا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ: اور رہا وہ جسے اس کانامہ اعمال اس کے بائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا۔} سعادت مندوں  کا حال بیان کرنے کے بعد اب بد بختوں  کا حال بیان کیاجا رہا ہے ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کانامۂ اعمال بائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا تو وہ جب اپنے نامۂ اعمال کو دیکھے گا اور اس میں  اپنے برے اعمال لکھے ہوئے پائے گا تو شرمندہ و رُسوا ہو کر کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامۂ اعمال نہ دیا جاتا اور میں  نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش کہ دنیا کی موت ہی ہمیشہ کیلئے میری زندگی ختم کردیتی اور مجھے حساب کیلئے نہ اُٹھایا جاتا اور اپنا اعمال نامہ پڑھتے وقت مجھے یہ ذلت و رسوائی پیش نہ آتی ۔ میرا وہ مال جو میں  نے دنیا میں  جمع کیا تھامیرے کچھ کام نہ آیا اور وہ ذراسا بھی میرا عذاب ٹال نہ سکا ۔میرا سب زور جاتا رہا اور میں  ذلیل و        محتاج ہو کر رہ گیا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ  اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اس سے اس کی مراد یہ ہوگی کہ دنیا میں  جو حجتیں  میں  کیا کرتا تھا وہ سب باطل ہوگئیں ۔( صاوی ، الحاقۃ ، تحت الآیۃ : ۲۵-۲۹ ، ۶ / ۲۲۲۹، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۹، ۴ / ۳۰۵، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۹، ص۱۲۷۵، ملتقطاً)

خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ(30)ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُ(31)ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُﭤ(32)

ترجمہ: کنزالعرفان

(فرشتوں کو حکم ہوگا) اسے پکڑو پھر اسے طوق ڈالو۔پھر اسے بھڑکتی آگ میں داخل کرو۔پھر ایسی زنجیر میں جکڑ دو جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ: (فرشتوں  کو حکم ہوگا) اسے پکڑو پھر اسے طوق ڈالو۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ جہنم کے خازنوں کو حکم دے گا کہ تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے اس نافرمان کو پکڑلو ،پھر اس کے ہاتھ اس کی گردن سے ملا کر طوق میں  باندھ دو،پھر اسے بھڑکتی آگ میں  داخل کردو تاکہ ا س کی جزا ا س کے گناہ کے مطابق ہو، پھر ایسی زنجیر کو جس کی لمبائی فرشتوں  کے ہاتھ سے ستر ہاتھ ہے اِس میں  اس طرح داخل کردو جیسے کسی چیز میں  ڈوری داخل کی جاتی ہے۔( روح البیان ، الحاقۃ ، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۲، ۱۰ / ۱۴۵، جلالین مع صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۰-۳۲، ۶ / ۲۲۳۰، ملتقطاً)

اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ(33)وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِﭤ(34)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ كَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ الْعَظِیْمِ: بیشک وہ عظمت والے اللّٰہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اسے یہ شدید عذاب اس لئے دیا جائے گا کہ وہ دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا تھا اوراس کی عظمت و وحدانیَّت کا اعتقادنہ رکھتا تھا اور وہ اپنے کفر کے ساتھ ساتھ نہ اپنے نفس کو ،نہ اپنے اہلِ خانہ کو اور نہ دوسروں  کو مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا تھا۔

            حضرت عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ اس میں  اشارہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا قائل نہ تھا کیونکہ مسکین کو کھانا دینے والا مسکین سے تو کسی بدلہ کی اُمید رکھتا ہی نہیں  بلکہ محض اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی اُمید پر مسکین کو دیتا ہے اور جومرنے کے بعد اٹھائے جانے اور آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو تو اُسے مسکین کو کھلانے کی کیا غرض ہے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۴ / ۳۰۶، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۱۲۷۶، ملتقطاً)

مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب:

            اس سے معلوم ہوا کہ مسکین کو کھانا کھلانے اور ا س کی ترغیب دینے کی بہت اہمیت ہے اور اسے محروم کرنا جرمِ عظیم ہے۔ مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں  تک کہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس کا    محتاج ہے کہ لوگوں  سے سوال کرے اور اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔( عالمگیری، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ۱ / ۱۸۷-۱۸۸)

            مسکین کو کھانا کھلانے کا ثواب بہت زیادہ ہے ، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں  کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا ‘‘(دہر:۸،۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اللّٰہ کی محبت میں  مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تمہیں  خاص اللّٰہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  اور نہ شکریہ۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘ۖ(۱۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُؕ(۱۲) فَكُّ رَقَبَةٍۙ(۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍؕ(۱۶) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِؕ(۱۷) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَةِ‘‘( بلد:۱۱۔۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں  نہ گھاٹی میں کود پڑا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔ پھر یہ ان میں سے ہو جو ایمان لائے اور انہوں  نے آپس میں  صبر کی نصیحتیں  کیں  اور آپس میں  مہربانی کی تاکیدیں  کیں ۔ یہی لوگ دائیں  طرفوالے ہیں ۔

            اورحضر ت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک اللّٰہ تعالیٰ روٹی کے ایک لقمے اور کھجوروں  کے ایک خوشے اوران جیسی مَساکین کے لئے نفع بخش چیزوں  کی وجہ سے تین آدمیوں  کو جنت میں  داخل فرمائے گا (1)گھر کے مالک کو جس نے صدقے کا حکم دیا۔ (2)اس کی زوجہ کو جس نے وہ چیز درست کرکے دی۔ (3)اس خادم کو جس نے مسکین تک وہ صدقہ پہنچایا ۔پھر رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ’’اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد ہے جو ہمارے خادموں  کو بھی نہیں  بھولا۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)

            خیال رہے کہ فی زمانہ ہر بھکاری اور مانگنے والے کو نہیں  دینا چاہئے بلکہ جو واقعی اس حالت کو پہنچ چکا ہو کہ شرعی طور پر ا س کے لئے سوال کرنا جائز ہو جائے اسے مانگنے پر دینا چاہئے۔فتاویٰ رضویہ میں  مذکور مسئلے کا خلاصہ ہے کہ جو تندرست ہو اور کمانے پر قادر ہو تو اسے جانتے بوجھتے بھیک دینا ناجائز ہے اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے اُس کے سوال پر جو کہ ا س کے لئے حرام تھا بھیک دے کر اس کی مدد کرتے ہیں  ،اگر لوگ اسے نہ دیں  تو وہ مجبور ہو جائیں  گے اور کمانے کی کوشش کریں  گے۔( فتاوی رضویہ،رسالہ: بدر الانوار فی اٰداب الاٰثار، ۲۱ / ۴۲۰)

فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ(35)وَّ لَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ(36)لَّا یَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِـــٴُـوْنَ(37)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں ۔اور نہ دوزخیوں کے پیپ کے سوا کچھ کھانے کو ہے۔اسے خطاکار لوگ ہی کھائیں گے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌ: تو آج یہاں  اس کا کوئی دوست نہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن پکڑنے اور طوق ڈالے جانے کی جگہ پر کافر کا کوئی دوست نہیں  جو اسے کچھ نفع پہنچائے یا اس کی شفاعت کرے اور نہ (اس کے لئے) دوزخیوں  کے پیپ کے سوا کچھ کھانے کو ہے اور اس پیپ کو کفار ہی کھائیں  گے جو کہ خطاکار ہیں ۔( روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ۱۰ / ۱۴۷-۱۴۸، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۵-۳۷، ۴ / ۳۰۶، ملتقطاً)

جہنمیوں  کی پیپ کی کیفیت:

             قیامت کے دن کفار کا کوئی دوست نہ ہونے کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ‘‘(مؤمن:۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ظالموں  کا نہ کوئی دوست ہوگا اورنہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔

            اور جہنمیوں  کی پیپ کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اگر جہنمیوں  کی پیپ کا ایک ڈول دنیا میں  انڈیل دیا جائے تو وہ (پوری) دنیا والوں  کو بدبودار کر دے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الحاقۃ، ۳ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۰۴)

فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ(38)وَ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ(39)

ترجمہ: کنزالعرفان

تو مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جنہیں تم دیکھتے ہو۔اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ: تو مجھے ان چیزوں  کی قسم ہے جنہیں  تم دیکھتے ہو۔} قیامت کے واقع ہونے اور سعادت مندوں  اور بد بختوں  کے اَحوال بیان کرنے کے بعد اب یہاں  سے قرآنِ پاک کی عظمت و شان بیان کی جا رہی ہے، چنانچہ اس آ یت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا کہ مشرکین قرآنِ پاک کے بارے میں  جو کہتے ہیں  وہ ہر گز درست نہیں  ، مجھے ان چیزوں  کی قسم ہے جنہیں  تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں  کی قسم ہے جنہیں  تم نہیں  دیکھتے۔

              یہاں  مَا تُبْصِرُوْنَ اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ کی تفسیر میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔

(1)…ان سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی قسم جنہیں  تم دیکھ سکتے ہواور جنہیں  تم نہیں  دیکھ سکتے۔

(2)… مَا تُبْصِرُوْنَ سے دُنیا اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے آخرت مراد ہے۔

(3)… مَا تُبْصِرُوْنَ سے مراد وہ چیزیں  ہیں  جو زمین کے اوپر موجود ہیں  اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے وہ چیزیں  مراد ہیں  جو زمین کے اندر موجود ہیں ۔

(4)… مَا تُبْصِرُوْنَ سے اجسام مراد ہیں  اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے روحیں  مراد ہیں ۔

(5)… مَا تُبْصِرُوْنَ سے ظاہری نعمتیں  مراد ہیں  اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے باطنی نعمتیں مراد ہیں ۔ ان کی تفسیر میں  مفسرین کے اور بھی قول ہیں ۔( تفسیر کبیر ، الحاقۃ ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۱۰ / ۶۳۳، روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۱۰ / ۱۴۸، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳۸-۳۹، ۴ / ۳۰۶، ملتقطاً)

            اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سارے ہی معانی مراد ہوں ۔

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ(40)وَّ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍؕ-قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ(41)وَ لَا بِقَوْلِ كَاهِنٍؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَﭤ(42)تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(43)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک یہ قرآن ضرور ایک معزز رسول سے باتیں ہیں ۔اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے۔تم بہت کم یقین رکھتے ہو۔اور نہ کسی کاہن کی بات ہے ۔ تم بہت کم نصیحت مانتے ہو۔یہ قرآن سارے جہانوں کے رب کی طرف سے اتارا ہواہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍ: بیشک یہ قرآن ضرور ایک کرم والے رسول سے باتیں  ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ  تعالیٰ نے دیکھی جانے والی اور نہ دیکھی جانے والی چیزوں  کی قسم ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ بیشک یہ قرآن ایک کرم والے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وہ باتیں  ہیں  جوان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے فرمائیں  اور قرآن کسی شاعر کی بات نہیں ہے جیسا کہ کفار کہتے ہیں،تم بالکل بے ایمان ہو اور اتنا بھی نہیں  سمجھتے کہ قرآن نہ شعر ہے نہ اس میں  شِعْرِیَّت کی کوئی بات پائی جاتی ہے اور قرآن نہ کسی کاہن کی بات ہے جیسا کہ تم میں  سے بعض کافر اللّٰہ تعالیٰ کی اس کتاب کے بارے میں  کہتے ہیں  ۔ تم بہت کم نصیحت مانتے ہو، نہ اس کتاب کی ہدایات کو دیکھتے ہو نہ اس کی تعلیموں  پر غور کرتے ہو کہ اس میں  کیسی روحانی تعلیم ہے اور نہ اس کی فصاحت و بلاغت اور بے مثال اعجاز پر غور کرتے ہو جو یہ سمجھ سکو کہ یہ کلام سارے جہانوں  کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اتارا ہواہے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۳، ۴ / ۳۰۶، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۳، ص۱۲۷۶، تفسیرکبیر، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۳، ۱۰ / ۶۳۳-۶۳۴، خزائن العرفان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۰-۴۲، ص۱۰۵۱-۱۰۵۲، ملتقطاً)

وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ(44)لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ(45)ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ(46)فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِیْنَ(47)وَ اِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(48)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور اگر وہ ایک بات بھی خود بنا کر ہمارے اوپر لگا دیتے ۔توضرور ہم ان سے قوت کے ساتھ بدلہ لیتے۔پھر ان کی دل کی رگ کاٹ دیتے۔پھر تم میں کوئی ان سے روکنے والا نہ ہوتا۔اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کے لئے ضرور نصیحت ہے۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ: اور اگر وہ ایک بات بھی خود بنا کر ہمارے اوپر لگا دیتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی تین آیات میں  ارشاد فرمایا کہ ساراقرآن اپنی طرف سے بنا لینا تو دور کی بات ہے اگر بالفرض میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بات بھی خود سے بنا کر ہمارے اوپر لگا دیتے جو ہم نے نہ فرمائی ہوتی یا ہم نے وہ بات کہنے کی انہیں  اجازت نہ دی ہوتی تو ضرور ہم ان سے قوت اور قدرت کے ساتھ بدلہ لیتے پھر ان کی دل کی رگ کاٹ دیتے جس کے کاٹتے ہی موت واقع ہوجاتی ہے ،پھر تم میں  سے کوئی ہمیں ان سے بدلہ لینے سے روکنے والا نہ ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہاری وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں  کر سکتے حالانکہ وہ جانتے ہیں  کہ جو ایسا کرے گا اللّٰہ تعالیٰ اسے سزا دے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی سزا دور کرنے پر کوئی بھی قادر نہیں۔(روح البیان، الحاقۃ،تحت الآیۃ:۴۴-۴۷،۱۰ / ۱۵۰-۱۵۱، جلالین مع صاوی،الحاقۃ،تحت الآیۃ:۴۴-۴۷،۶ / ۲۲۳۲، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۴-۴۷، ۴ / ۳۰۷، ملتقطاً)

یہ آیاتِ مبارکہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کمالِ صدق اور بارگاہِ خداوندی میں  نہایت درجے  قابلِ اعتماد ہونے کی دلیل ہیں ۔

{وَ اِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ: اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں  کیلئے ضرور نصیحت ہے۔} یعنی بیشک یہ قرآن ان لوگوں  کے لئے نصیحت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے فرائض کی بجا آوری کر کے اور اس کی نافرمانیاں  چھوڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں  کیونکہ یہی لوگ اس کی نصیحتوں  سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔(تفسیر طبری، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱۲ / ۲۲۴، صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۶ / ۲۲۳۳، ملتقطاً)

وَ اِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِیْنَ(49)وَ اِنَّهٗ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(50)وَ اِنَّهٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(51)فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ(52)

ترجمہ: کنزالعرفان

اوربیشک ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ جھٹلانے والے ہیں ۔اور بیشک وہ کافروں پر ضرور حسرت ہے۔اور بیشک وہ ضروریقینی حق ہے۔تو (اے محبوب!)تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔

 

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّا لَنَعْلَمُ: اور بیشک ضرور ہم جانتے ہیں ۔} یعنی اے لوگو!ضرور ہم جانتے ہیں  کہ تم میں  سے کچھ لوگ قرآن کو جھٹلاتے ہیں  تو ہم انہیں  ان کے جھٹلانے پر سزا دیں  گے۔( روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱۰ / ۱۵۱-۱۵۲)

{وَ اِنَّهٗ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ: اور بیشک وہ کافروں  پر ضرور حسرت ہے۔} یعنی بیشک وہ قرآن کافروں  پر حسرت کا سبب ہوگا کہ جب وہ قیامت کے دن قرآن پر ایمان لانے والوں  کا ثواب اور اس کا انکار کرنے والوں  اور جھٹلانے والوں  کا عذاب دیکھیں  گے تو اپنے ایمان نہ لانے پر افسوس کریں  گے اور حسرت و ندامت میں  گرفتار ہوں  گے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۳۰۷، جلالین، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۴۷۳، ملتقطاً)

{وَ اِنَّهٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ: اور بیشک وہ ضروریقینی حق ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک (قیامت کے دن) کفار کی ندامت یقینی حق ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ بے شک قرآن کا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی حق ہے ۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ بیشک قرآن یقینی حق ہے کہ اس میں  شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔( تفسیر سمرقندی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۴۰۱، خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۳۰۷، ملتقطاً)

{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ: تو (اے محبوب!) تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے عظمت والے رب عَزَّوَجَلَّ کی ہر طرح کے نقص و عیب سے پاکی بیان کریں  اور اس کاشکر ادا کریں  کہ اُس نے تمہاری طرف اپنے اس جلیل کلام کی وحی فرمائی۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۴ / ۳۰۷)

 

Scroll to Top