سُوْرَۃُ الحَشْر
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(1)هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِﳳ-مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاۗ-وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَۗ-فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور وہی بہت عزت والا، بڑا حکمت والا ہے۔وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے ان کے پہلے حشر کے وقت نکالا۔ تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے تو اللہ کا حکم ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں رُعب ڈال دیا وہ اپنے گھروں کواپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ویران کرتے ہیں تو اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ: اللّٰہ کی پاکی بیان کی ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر چیز زبانِ قال یا حال سے اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے جسے ہم نہیں سمجھتے، مگر ان کی تسبیح کی تاثیر جداگانہ ہے جیسے سبزے کی تسبیح سے عذابِ قبر دور ہوتا ہے۔
{هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو نکالا۔ } شانِ نزول: مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ سورت بنو نَضِیْر کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ یہودی تھے، جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو اُنہوں نے حضورسے اس شرط پر صلح کی کہ نہ آپ کے ساتھ ہو کر کسی سے لڑیں گے اور نہ آپ سے جنگ کریں گے۔ جب جنگ ِبدر میں اسلام کی فتح ہوئی تو بنونضیر نے کہا: یہ وہی نبی ہیں جن کی صفت تَورات میں ہے، پھر جب اُحد میں مسلمانوں کو ہزیمت کی صورت پیش آئی تو یہ شک میں پڑے اور انہوں نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے نیاز مندوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کیا اورجو معاہدہ کیا تھا وہ توڑ دیا اور ان کا ایک سردار کعب بن اشرف یہودی چالیس یہودی سواروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ پہنچا اور کعبہ معظمہ کے پردے تھام کر قریش کے سرداروں سے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف معاہدہ کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے علم دینے سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس حال پر مُطّلع تھے اور بنو نضیر سے ایک خیانت اور بھی واقع ہوچکی تھی کہ انہوں نے قلعہ کے اوپر سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فاسد ارادے سے ایک پتھر گرانے کا قصد کیا،اللّٰہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبردار کردیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے آپ محفوظ رہے۔ غرض جب بنو نَضِیْر کے یہودیوں نے خیانت کی اور عہد شکنی کی اور کفارِ قریش سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف عہد کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا اور اُنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کردیا، پھر حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لشکر کے ساتھ بنو نَضِیْر کی طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کرلیا ،یہ محاصرہ اکیس روز رہا ،اس درمیان میں منافقین نے یہود یوں سے ہمدردی اور موافقت کے بہت معاہدے کئے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان سب کو ناکام کیا، یہودیوں کے دلوں میں رعب ڈالا اور آخر کار انہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے جلا وطن ہونا پڑا اور وہ شام ، اریحا اور خیبر کی طرف چلے گئے۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ وہی ہے جس نے بنو نضیرکے یہودیوں کو مدینہ منورہ میں موجود ان کے گھروں سے ان کے پہلے حشر کے وقت نکالا۔یہ جلاوطنی ان کا پہلا حشر ہے اور ان کادوسرا حشر یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں اپنے زمانہ ِخلافت میں خیبر سے شام کی طرف نکالا، یا دوسری تفسیر یہ ہے کہ(یہ جلاوطنی ان کاپہلاحشرہے اور)آخری حشر روزِ قیامت کا حشر ہے کہ آگ سب لوگوں کو سرزمینِ شام کی طرف لے جائے گی اور وہیں اُن پر قیامت قائم ہوگی۔ اس کے بعد اہلِ اسلام سے خطاب فرمایا جاتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ مدینہ منورہ سے نکلیں گے کیونکہ وہ قوت اور لشکر والے تھے، مضبوط قلعے رکھتے تھے ،اُن کی تعداد کثیر تھی، جاگیردار اور صاحب ِمال تھے اور وہ یہودی سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللّٰہ تعالیٰ سے بچالیں گے تو اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ان کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا اور انہیں اس بات کا خطرہ بھی نہ تھا کہ مسلمان اُن پر حملہ آور ہوسکتے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے سردار کعب بن اشرف کے قتل سے ان کے دلوں میں رعب ڈالا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے ویران کرتے اور اُنہیں ڈھاتے ہیں تاکہ جو لکڑی وغیرہ انہیں اچھی معلوم ہو وہ جلاوطن ہوتے وقت اپنے ساتھ لے جائیں جبکہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار کے گھر اس طور پر ویران ہوتے ہیں کہ اُن کے مکانوں کے جو حصے باقی رہ جاتے تھے، انہیں مسلمان گرادیتے تھے تاکہ جنگ کیلئے میدان صاف ہوجائے۔ تو اے آنکھیں رکھنے والو! ان یہودیوں کے طرزِ عمل اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان جیسے افعال کرنے سے بچو۔( خازن،الحشر،تحت الآیۃ:۲، ۴ / ۲۴۴-۲۴۵، جلالین، الحشر، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۵۴، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۱۲۲۲-۱۲۲۳، ملتقطاً)
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمُ الْجَلَآءَ لَعَذَّبَهُمْ فِی الدُّنْیَاؕ-وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ(3)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۚ-وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگریہ بات نہ ہوتی کہ اللہ نے ان پر گھر وں سے اجڑنا لکھ دیا تھا توضرور وہ دنیا ہی میں انہیں عذاب دے دیتا اور ان کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب ہے۔یہ (سزا)اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ سخت سزا دینے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ كَتَبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمُ الْجَلَآءَ: اور اگریہ بات نہ ہوتی کہ اللّٰہ نے ان پر گھر وں سے اجڑنا لکھ دیا تھا ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگریہ بات نہ ہوتی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کا مال اور اولاد کے ساتھ گھروں سے جلا وطن ہونا لکھ دیا تھا تو وہ دنیا ہی میں انہیں عذاب دے دیتا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کی طرح انہیں بھی قتل اور قید میں مبتلا کرتا اور یہ لوگ خواہ جلاوطن کئے جائیں یا قتل کئے جائیں بہر حال ان کے لیے آخرت میں آگ کا عذاب ہے جس سے سخت کوئی عذاب نہیں ،انہیں یہ سزااس لیے دی گئی ہے کہ یہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کرتے رہے اور(قانون یہ ہے کہ ) جو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو بیشک اللّٰہ تعالیٰ اسے سخت سزا دینے والاہے۔( مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۲۳)
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اے مسلمانو!)تم نے جو درخت کاٹے یا ان کی جڑوں پر قائم چھوڑ دئیے تویہ سب اللہ کی اجازت سے تھا اور اس لیے تاکہ اللہ نافرمانوں کو رسوا کرے
تفسیر: صراط الجنان
{مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا: تم نے جو درخت کاٹے یا ان کی جڑوں پر قائم چھوڑ دئیے۔} شانِ نزول :جب بنونَضِیْراپنے قلعوں میں پناہ گزیں ہوئے تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے درخت کاٹ ڈالنے اور اُنہیں جلادینے کا حکم دیا ،اس پر وہ دشمنانِ خدا بہت گھبرائے اور رنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا تمہاری کتاب میں اس کا حکم ہے؟(یہ سن کر) مسلمان اس بارے میں مختلف ہوگئے اوربعض نے کہا :درخت نہ کاٹو یہ غنیمت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی۔ بعض نے کہا :اس سے کفار کو رسوا کرنا اور انہیں غیظ میں ڈالنا منظور ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں بتایاگیا کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ درختوں کو کاٹنا اور باقی چھوڑ دینا یہ دونوں اللّٰہ تعالیٰ کی اجازت سے تھے اور اجازت دینا اس لئے تھا کہ اس کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ یہود یوں کو ذلیل کرے۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۴۶، ملخصاً)
آیت’’مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
ا س آیت سے2 مسئلے معلوم ہوئے :
(1)… قرآن کے علاوہ بھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وحی بھیجی جاتی تھی کیونکہ آیت میں بیان کردہ درختوں کو کاٹنے کا اذنِ الٰہی قرآن میں کہیں مذکور نہیں تو یہ اجازت قرآن کے علاوہ وحی میں ہی دی گئی تھی۔
(2)… جہاد میں کفار کو مغموم کرنے کے لئے ان کا مال برباد کر ناجائز ہے۔
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ نے اپنے رسول کو ان سے جو غنیمت دلائی تو تم نے اس پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ،ہاں اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیدیتا ہے اور اللہ ہر شے پرخوب قادرہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ: اور اللّٰہ نے اپنے رسول کو ان سے جو غنیمت دلائی ۔} بنو نضیر کے یہودیوں کو دی جانے والی سزا بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے اُن اَموال کا حکم بیان کیا جا رہے جو اِن سے حاصل ہوئے ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبنو نضیر کے یہودیوں سے جو غنیمت دلائی تو تم نے ان پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ ،یعنی اس کیلئے تمہیں کوئی مشقت اور کوفت نہیں اٹھانا پڑی ، صرف دو میل کا فاصلہ تھا ،سب لوگ پیدل چلے گئے اور صرف رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سوار ہوئے،ہاں اللّٰہ تعالیٰ اپنے رسولوں عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جس دشمن پر چاہتا ہے غلبہ دے دیتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ مرا دیہ ہے کہ بنو نَضِیْر سے جو مالِ غنیمت حاصل ہوئے اُن کیلئے مسلمانوں کو جنگ نہیں کرنا پڑی بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اُن پر مُسلَّط کردیا تو یہ مال حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی پر مَوقوف ہے،وہ جہاں چاہیں خرچ کریں ۔رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ مال مہاجرین پر تقسیم کردیا اور انصار میں سے صرف تین صاحب ِحاجت لوگوں کو دیا اور وہ تین حضرت ابودجانہ سماک بن خرشہ، حضرت سہل بن حنیف اور حضرت حارث بن صمّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہیں ۔( مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۲۲۴، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۴۶، ملتقطاً)
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ- كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْؕ-وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِﭥ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے جو غنیمت دلائی تووہ اللہ اور رسول کے لیے ہے اور رشتہ داروں کے لیے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان (ہی) گردش کرنے والی نہ ہوجائے اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى: اللّٰہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے جو غنیمت دلائی ۔} بعض مفسرین کے نزدیک پہلی آیت میں غنیمت کا جو حکم مذکور ہوا اس آیت میں اسی کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور بعض مفسرین نے اس قول کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی آیت بنو نضیر کے اَموال سے متعلق نازل ہوئی ،ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول کیلئے خاص کیا اور یہ آیت ہر اس شہر کے اَموالِ غنیمت کے بارے میں ہے جس کو مسلمان اپنی قوت سے حاصل کریں اور یہاں ان اَ موال کے پانچویں حصے کا مَصْرَف بیان کیا گیا ہے ۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہر والوں سے جو غنیمت دلائی وہ اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے اوران کے ساتھ ساتھ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رشتہ داروں ( یعنی بنی ہاشم اوربنی مُطّلِب)کیلئے اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان گھومنے والی چیز نہ ہوجائے اور غریب ،فقیر لوگ نقصان میں رہیں ۔ زمانہ ِ جاہلیّت میں دستور تھا کہ غنیمت میں سے ایک چوتھائی تو سردار لے لیتا اور باقی قوم کیلئے چھوڑ دیتا تھا، اس میں سے مال دار لوگ بہت زیادہ لے لیتے اور غریبوں کیلئے بہت ہی تھوڑا بچتا تھا ،اسی معمول کے مطابق لوگوں نے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ حضورغنیمت میں سے چوتھائی لیں ، باقی ہم باہم تقسیم کرلیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمادیا اور تقسیم کا اختیار نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیا اور اس کا طریقہ ارشاد فرمایا۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۲۴۷، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۲۴، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا: اوررسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں تو تم باز رہو۔ } اس کا ایک معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غنیمت میں سے جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو کیونکہ وہ تمہارے لئے حلال ہے اور جو چیز لینے سے منع کریں اس سے باز رہو اور اس کا مطالبہ نہ کرو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں جو حکم دیں اس کی اِتّباع کرو کیونکہ ہر حکم میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت واجب ہے اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو ۔مزید فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت نہ کرواور ان کے حکم کی تعمیل میں سستی نہ کرو، بیشک اللّٰہ تعالیٰ اسے سخت عذاب دینے والاہے جو رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرے۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ۹ / ۴۲۹، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۲۴، ملتقطاً)
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان فقیر مہاجروں کے لیے جو اپنے گھروں اوراپنے مالوں سے نکالے گئے اس حال میں کہ اللہ کی طرف سے فضل اور رضا چاہتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی لوگ سچے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ: ان فقیر مہاجروں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکالے گئے ۔} یعنی مالِ غنیمت میں جیسا کہ اُوپر ذکر کئے ہوئے لوگوں کا حق ہے ایسا ہی یہ مال ان فقیر مہاجروں کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اور ان کے گھروں اور مالوں پر کفارِ مکہ نے قبضہ کر لیا اور اُن کا حال یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل یعنی آخرت کا ثواب اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اپنے جان و مال سے دین کی حمایت میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ،وہی ایمان اوراخلاص میں سچے ہیں ۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۴۸، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۲۲۵، ملتقطاً)
فقیر مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا حال اور ان کی فضیلت:
حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان مہاجرین نے گھر ، مال اور کنبے اللّٰہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں چھوڑے اور اسلام کو قبول کیا اور ان تمام شدتوں اور سختیوں کو گوارا کیا جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے انہیں پیش آئیں ، ان کی حالتیں یہاں تک پہنچیں کہ بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھتے تھے اورسردیوں میں کپڑا نہ ہونے کے باعث گڑھوں اور غاروں میں گزارا کرتے تھے۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۲۴۸)
ان صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی فضیلت کے بارے میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ فقراء مہاجرین مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۹۱، الحدیث: ۳۷(۲۹۷۹))
دوسری حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے تنگدست مہاجرین کے گروہ!تمہیں بشارت ہو،قیامت کے دن تم مکمل نور کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور یہ نصف دن پانچ سو برس کے برابر ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی القصص، ۳ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۶۶۶)
نوٹ: یاد رہے کہ فقراء مہاجرین بعض مالداروں سے40برس پہلے جنت میں جائیں گے اور بعض سے 500 برس پہلے جنت میں جائیں گے، لہٰذا پہلے والی حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں جیسا کہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پہلی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :خیال رہے کہ یہ فقراء بعض امیروں سے چالیس سال پہلے اور بعض امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے لہٰذا یہ حدیث پانچ سو برس والی حدیث کے خلاف نہیں ۔( مراٰۃ المناجیح، باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الفصل الاول، ۷ / ۶۶، تحت الحدیث: ۵۰۰۲)
آیت ’’لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے چار مسئلے معلوم ہوئے،
(1)… اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان مہاجر مسلمانوں کو فقراء فرمایاجو اپنے اَموال وغیرہ مکہ معظمہ میں چھوڑ کر آئے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کفار مسلمانوں کے مال پر قبضہ کر لیں تو وہ اس کے مالک ہو جائیں گے۔
(2)…مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد کے لئے آئے تھے اور اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری مدد کے لئے آئے،اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مددکرنا اللّٰہ تعالیٰ کی مددکرناہے یعنی حقیقت میں اللّٰہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنا ہے ۔
(3)… اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد لینا شرک نہیں ۔
(4)… خلفاء ِراشدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی خلافت بر حق ہے، کیونکہ ان خلافتوں کو سارے مہاجرین و انصار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے حق کہا اور وہ سب سچے ہیں ۔
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوروہ جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان کو دیا گیا اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ: اور وہ جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے اس شہر کواور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔} اس آیت میں انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی انتہائی مدح وثنا کی گئی ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنہوں نے مہاجرین سے پہلے یا ان کی ہجرت سے پہلے بلکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے اس شہرمدینہ کو اپنا وطن اور ایمان کو اپناٹھکانہ بنالیا، اسلام لائے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے دوسال پہلے مسجد یں بنائیں ،ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں (اور اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ) اپنے گھروں میں اُنہیں ٹھہراتے اور اپنے مالوں میں نصف کا انہیں شریک کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اُس مال کے بارے میں کوئی خواہش اور طلب نہیں پاتے جو ان مہاجرین کو دیا گیا اور وہ اپنے اَموال اور گھر ایثار کر کے مہاجرین کواپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود مال کی حاجت ہو اور جس کے نفس کو لالچ سے پاک کیا گیا تو وہی کامیاب ہیں ۔
نوٹ:بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت کا تعلق پچھلی آیات کے ساتھ ہے اوراس میں انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بھی اس مال کا حصہ بیان کیا گیا ہے جو بنو نضیر کے یہودیوں سے حاصل ہوا۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۴۳۲، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۴۸، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۲۲۵، ملتقطاً)
انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا بے مثل ایثار:
انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ جس اَخُوَّت،محبت اور ایثار کا مظاہرہ کیا تاریخ میں ا س کی مثال ملنا انتہائی مشکل ہے ،یہاں ان کے ایثار کے تین واقعات ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں انصار نے عرض کی :ہمارے اور ہمارے (مہاجر )بھائیوں کے درمیان کھجور کے درخت تقسیم فرما دیجئے ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار فرما دیا،انصار نے مہاجرین سے کہا:آپ محنت کی ذمہ داری لے لیں اور ہم آپ کو پھلوں میں شریک کر لیتے ہیں ،مہاجرین نے کہا:ہمیں آپ کی بات منظور ہے۔( بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی المعاملۃ، ۲ / ۲۲۰، الحدیث: ۲۷۱۹)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بحرَیْن میں جاگیریں بخشنے کے لئے انصار کو بلایا تو انہوں نے عرض کی :اگر آپ نے یہی کرنا ہے تو ہمارے قریشی بھائیوں کے لئے لکھ دیجئے حالانکہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس نہ تھے ۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب کتابۃ القطائع، ۲ / ۱۰۲، الحدیث: ۲۳۷۷)
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک لگی ہوئی ہے ۔آپ نے ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللّٰہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ۔انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حاضرہوں ۔چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان آیا ہے ، لہٰذا تم نے اس سے کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی ۔ انہوں نے عرض کی :ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔
( بخاری، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۴۸، الحدیث: ۴۸۸۹)
نفس کے لالچ سے پاک کئے جانے والے کامیاب ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر اللّٰہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے ۔یہ عادت کس قدر نقصان دِہ ہے ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث ِپاک سے لگایا جا سکتا ہے ، چنانچہ
حضر ت جابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ظلم کرنے سے ڈروکیونکہ ظلم قیامت کااندھیراہے اورشُح ( یعنی نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شُح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۶(۲۵۷۸))
اور اس سے بچنا کس قدر فائدہ مند ہے اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ
مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیتُ اللّٰہ شریف کاطواف کررہے اور یہ دعامانگ رہے تھے:اے اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ ،مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ نہیں کہتے تھے ،جب ان سے اس کے بارے میں اِستفسارکیاگیاتوانہوں نے فرمایا:جب مجھے میرے نفس کی حرص سے محفوظ رکھاگیاتونہ میں چوری کروں گا،نہ زناکروں گااورنہ ہی میں نے اس قسم کاکوئی کام کیاہے ۔( تفسیر طبری، الحشر، تحت الآیۃ: ۹، ۱۲ / ۴۲)
اللّٰہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے حرص اور لالچ سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
آیت ’’وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کرنااللّٰہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
(2)…انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی تعریف میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وہ مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے محبت کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ تمام مہاجرصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے محبت کرنا کمالِ ایمان کی نشانی ہے۔
(3)…سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت نے انصار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے دل ایسے پاک کردیئے کہ وہ مہاجر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے حسد نہیں کرتے اور ان کے ساتھ محبت و اِیثار کا سلوک کرتے ہیں ۔
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: اوران کے بعد آنے والے۔} یعنی مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، رحمت والا ہے اور تو اپنی مہربانی اور رحم کے صدقے ہماری ا س دعا کو قبول فرما۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۹ / ۴۳۶-۴۳۷)
یاد رہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد آنے والوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان داخل ہیں اور ان سے پہلے ایمان لانے والوں میں تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ داخل ہیں ۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بغض رکھنے والے ایمان والوں کی اَقسام سے خارج ہیں ـ:
اس سے معلوم ہو اکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے دل میں کینہ نہ رکھناایمان کی علامت اور ان کے بارے میں بغض سے بچنے کی دعا کرنا مسلمانوں کا طریقہ ہے ۔ صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ـ:جس کے دِل میں کسی صحابی کی طرف سے بغض یا کدورت ہو اور وہ اُن کے لیے دعائے رحمت و اِستغفار نہ کرے، وہ مؤمنین کی اَقسام سے خارج ہے کیونکہ یہاں مومنین کی تین قسمیں فرمائی گئیں ۔ مہاجرین، انصاراور ان کے بعد والے جواُن کے تابع ہوں اور ان کی طرف سے دل میں کوئی کدورت نہ رکھیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں تو جو صحابہ سے کدورت رکھے رافضی ہو یا خارجی وہ مسلمانوں کی ان تینوں قسموں سے خارج ہے۔( خزائن العرفان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۱۱)
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بغض رکھنے کا نتیجہ:
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت اختیار کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور ان کی عظمت و شان کو قرآنِ مجید میں بیان فرمایا،لیکن افسوس! کچھ لوگ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اوران کے سینے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں ،انہیں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے اِستغفار کرنے کاحکم دیا گیا لیکن یہ انہیں گالیاں دیتے ہیں جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا : لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کیلئے اِستغفار کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔( مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۱۱، الحدیث: ۱۵(۳۰۲۲))
ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیث ِپاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ
حضرت عبد اللّٰہ بن مغفل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میرے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے متعلق اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو ،میرے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللّٰہ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللّٰہ اسے پکڑے۔( ترمذی ، ابواب المناقب ، باب فیمن سبّ اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ۵ / ۳۰۲ ، الحدیث : ۳۸۶۴ ، دار ابن کثیر، بیروت)
اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ان کے دلوں کو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان سے معمور فرمائے،اٰمین ۔
مسلمانوں سے بغض نہ رکھنے کے سبب جنت کی بشارت ملی:
آیت ِپاک میں مذکور دعا سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہمیں اپنے دل میں کسی بھی مسلمان کے بارے میں بغض اور کینہ نہیں رکھناچاہیے ، یہاں اسی سے متعلق ایک حدیث ِپاک ملاحظہ ہو ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارہم سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرتھے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:ابھی اہلِ جنت میں سے ایک آدمی تمہارے سامنے آئے گا،تو انصارمیں سے ایک شخص آیا جس کی داڑھی سے وضوکاپانی ٹپک رہاتھااوروہ بائیں ہاتھ میں اپناجوتالٹکائے ہواتھا۔پھرجب دوسرادن ہواتو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ابھی تمہارے سامنے اہل ِجنت میں سے ایک آدمی آئے گا،چنانچہ وہی آدمی اپنی پہلے دن والی کَیفِیّت کے مطابق آیا۔پھرجب تیسرادن آیاتوحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھراسی طرح ارشاد فرمایا اور پھروہی آدمی آیا۔ جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے توحضرت عبداللّٰہ بن عمروبن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آدمی کے پیچھے گئے اورفرمایا:میرااپنے والد سے جھگڑاہوگیاہے اورمیں نے یہ قسم کھائی ہے کہ میں تین راتیں ان کے پاس نہیں جاؤں گا،لہٰذا اگرآپ مناسب خیال کریں تو میری قسم کا وقت ختم ہونے تک مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دیں ۔اس نے کہا:ٹھیک ہے ۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے بتایا کہ انہوں نے تین راتیں ا س کے ساتھ گزاریں ،اس دوران انہوں نے رات میں کسی بھی وقت اس آدمی کو اٹھتے نہیں دیکھا،البتہ اس کا حال یہ تھاکہ جب وہ اپنے بسترپرکروٹ بدلتاتواللّٰہ تعالیٰ کاذکرکرتااوراس کی عظمت وکِبریائی بیان کرتا،یہاں تک کہ وہ صبح کی نمازکے لئے اٹھااورخوب اچھی طرح وضوکیا اورمیں نے اسے کلمہ ٔ خیرکہنے کے علاوہ کچھ کہتے نہیں سنا۔ جب تین راتیں گزر گئیں اورقریب تھاکہ میں اس کے عمل کوکم گمان کرتا تومیں نے کہا:اے اللّٰہ کے بندے !بے شک میرے اورمیرے والد کے درمیان کوئی جھگڑااورناراضی نہیں ہے اورنہ ہی کوئی فراق اورجدائی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوتمہارے بارے میں تین مجالس میں تین باریہ فرماتے سناہے کہ ابھی تمہارے سامنے اہلِ جنت میں سے ایک آدمی داخل ہوگااورتینوں بارتم ہی آئے،چنانچہ میں نے ارادہ کیاکہ تمہارے پاس ٹھہرکر تمہارے عمل کودیکھوں ۔میں نے تمہیں کوئی بڑ اعمل کرتے نہیں پایا تو وہ کو نسا عمل ہے جس کی وجہ سے تم نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس سے یہ فضیلت پائی ۔اس نے کہا :میرا عمل وہی ہے جو آ پ نے دیکھا۔یہ بات سن کر میں واپس جانے کے لئے پلٹاتواس نے مجھے بلایااورکہا:عمل تووہی ہے جوآپ نے دیکھ لیاہے البتہ میں اپنے دل میں کبھی مسلمان کے بارے میں کوئی کینہ نہیں رکھتااورجو خیروبرکت اللّٰہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہے اس پرکبھی حسد نہیں کرتا۔یہ سن کرحضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس سے فرمایا:یہی وہعمل ہے جس نے تجھے جنت میں پہنچادیاہے اوریہی وہ عمل ہے جس کی ہم طاقت اوراِستطاعت نہیں رکھتے ۔( سنن الکبری للنسائی، کتاب عمل الیوم واللیلۃ، ما یقول اذا انتبہ من منامہ، ۶ / ۲۱۵، الحدیث: ۱۰۶۹۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بغض اور کینہ رکھنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
آیت ’’وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)…ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف اپنے لئے دعا نہ کرے بلکہ اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعا کیا کرے ۔
(2)… بزرگانِ دین خصوصاً صحابہ ٔکرام اور اہل ِبیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے عرس، ختم ،نیاز اور فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لئے دعا ہے۔
(3)… مومن کی پہچان یہ ہے کہ تمام صحابہ ٔکرام اور اہل ِبیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے اچھی عقیدت رکھے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِیْعُ فِیْكُمْ اَحَدًا اَبَدًاۙ-وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا کہ اپنے اہلِ کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ قسم ہے اگر تم نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور ہرگز تمہارے بارے میں کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا: کیا تم نے منافقوں کو نہ دیکھا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،کیا آپ نے عبد اللّٰہ بن اُبی سلول منافق اور اس کے ساتھیوں کو نہ دیکھاکہ اپنے اہل ِکتاب کافر بھائیوں بنو قریظہ اور بنو نضیر سے کہتے ہیں کہ اگر تم مدینہ منورہ سے نکالے گئے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ جائیں گے اور ہرگز تمہارے خلاف کسی کا کہا نہ مانیں گے نہ مسلمانوں کا نہ رسولِ اکرم کا ،اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے اور تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے ۔ اللّٰہ تعالیٰ گواہ ہے کہ یہودیوں سے منافقین کے یہ سب وعدے جھوٹے ہیں ۔( روح البیان،الحشر،تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۴۳۸، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۲۵۰، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۲۶، ملتقطاً)
آیت ’’ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نَافَقُوْا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… منافق کفار کے بھائی ہیں مومنوں کے بھائی نہیں ، اگرچہ وہ بظاہر کلمہ پڑھتے ہیں لیکن وقت پر کفار ہی کا ساتھ دیتے ہیں ۔
(2)… کفار کو بھائی سمجھنا اور بھائی کہنا منافقوں کا کام ہے۔
(3)… منافق در حقیقت کسی کا ساتھی نہیں اور نہ ہی اس کے وعدوں کا کوئی اعتبار ہے، نہ کفار کو اس پر اعتبار آتا ہے اور نہ مسلمانوں کو۔
(4)…اللّٰہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے خفیہ رازوں پر اطلاع دیتا ہے کیونکہ منافقوں کی یہ گفتگو نہایت راز داری کے ساتھ تنہائی میں ہوئی تھی۔
لَىٕنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْۚ-وَ لَىٕنْ قُوْتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَهُمْۚ-وَ لَىٕنْ نَّصَرُوْهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ۫-ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
قسم ہے اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور قسم ہے اگراُن سے لڑائی کی گئی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے اور قسم ہے اگر یہ اُن کی مدد کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے پھر ان کی مدد نہ کی جائے گی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَىٕنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ: قسم ہے اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ نکلیں گے۔} اس آیت میں منافقین کے حال کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر وہ یہودی مدینے سے نکالے گئے تو یہ منافق ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگران یہودیوں سے لڑائی کی گئی تو یہ منافق ان کی مدد نہ کریں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیاگیا اور منافقین ان کے ساتھ نہ نکلے اور یہودیوں سے لڑائی ہوئی لیکن منافقوں نے یہود یوں کی مدد نہ کی۔ مزید ارشاد فرمایا کہ اگر بالفرض منافق یہودیوں کی مدد کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر جب یہ مدد گار بھاگ نکلیں گے تو منافقوں کی مدد نہ کی جائے گی ،اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہلاک فرما دے گا اور ان کا کفر ظاہر ہونے کے بعد ان کا نفاق انہیں نفع نہ دے گا۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۲۵۰، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۲۲۶، ملتقطاً)
لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ تمہارا ڈر ہے یہ اس لیے کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ: بیشک ان کے دلوں میں اللّٰہ سے زیادہ تمہارا ڈر ہے۔} یعنی اے مسلمانو! بیشک ان منافقوں کے دلوں میں اللّٰہ تعالیٰ سے زیادہ تمہارا ڈر ہے کہ تمہارے سامنے تو کفر کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللّٰہ تعالیٰ دلوں کی چھپی باتیں جانتا ہے دل میں کفر رکھتے ہیں ۔ ان کایہ ڈراس لیے ہے کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کو نہیں جانتے ورنہ جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ویسا اس سے ڈرتے۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۲۵۰، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۲۶، ملتقطاً)
لَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍؕ- بَاْسُهُمْ بَیْنَهُمْ شَدِیْدٌؕ-تَحْسَبُهُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰىؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ سب (مل کر بھی) تم سے نہ لڑیں گے مگر قلعہ بند شہروں میں یا دیواروں کے پیچھے سے ،ان کی آپس میں لڑائی بہت سخت ہے۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں ، یہ اس لیے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِیْعًا: یہ سب (مل کر بھی) تم سے نہ لڑیں گے ۔} یعنی اے مسلمانو!سب یہودی مل کر بھی اعلانیہ تم سے نہ لڑیں گے بلکہ قلعہ بند شہروں میں یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر لڑیں گے۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۴۴۰-۴۴۱)چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مدینہ منورہ کے اہلِ کتاب نے کبھی کھلم کھلا مسلمانوں کے مقابلے کی ہمت نہ کی، بلکہ غزوۂ خندق کے بعد جب مسلمانوں نے ان کی بد عہدی کی بنا پر ان سے مقابلہ کیا تو وہ اپنے کوچہ بند محلوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے ،پھر مجبوراً نکلے تو بنوقریظہ قتل اور بنو نضیر جلا وطن کر دئیے گئے،یوں اللّٰہ تعالیٰ نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا ۔ خیال رہے کہ یہاں صرف مدینہ منورہ کے کتابیوں کا ذکر ہے، لہٰذا اس آیت پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں مشرکین اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے اور ان سے بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں ۔
{بَاْسُهُمْ بَیْنَهُمْ شَدِیْدٌ: ان کی آپس میں لڑائی بہت سخت ہے۔} یعنی جب وہ یہودی آپس میں لڑتے ہیں تو بہت شدت اور سختی سے لڑتے ہیں لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں بزدل اور نامرد ثابت ہوتے ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیاہے ۔
{تَحْسَبُهُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْبُهُمْ شَتّٰى: تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں ۔} یعنی اے سننے والے تم انہیں ایک متحد ،متفق اور ایک دوسرے سے اُلفت رکھنے والی جماعت سمجھتے ہوحالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے کوئی الفت نہیں رکھتے اور ان کے دلوں کا الگ الگ ہونا اس لیے ہے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں ، نہ حق کو پہچانتے ہیں اور نہ اس کی پیروی کرتے ہیں ۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۴، ۹ / ۴۴۱)
مسلمان کافروں پر کسی صورت اعتماد نہ کریں :
اس آیت سے معلو م ہواکہ کفار مسلمانوں کے مقابلے میں کسی مصلحت کی وجہ سے ایک ہوجاتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں باہمی اتفاق اور اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کے شدید دشمن ہیں اور اپنی دشمنی نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان والے ایک دوسرے کے خیرخواہ اورباہم محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اَجسام جدا جدا ہوں اورفاجرلوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ اورخیانت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور بدن اکھٹے ہوں ۔( الفردوس بماثورالخطاب، باب المیم، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۶۵۸۴)
فی زمانہ بھی ا س کے نظارے دیکھے جا رہے ہیں ،لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار پر کسی صورت اعتماد نہ کریں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں پر اعتماد کریں اور مسلمانوں کوبھی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے اعتماد پر پورا اُتریں ۔
كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(ان کی مثال)ان لوگوں کی مثال جیسی ہے جو ابھی قریب زمانے میں ان سے پہلے ہوئے ہیں انہوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَثَلِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِیْبًا: (ان کی مثال)ان لوگوں کی مثال جیسی ہے جو ابھی قریب زمانے میں ان سے پہلے ہوئے ہیں ۔ } اس آیت میں یہودیوں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا حال مشرکین جیسا ہے جنہوں نے جنگ ِ بدر میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عداوت رکھنے کااور کفر کرنے کا وبال چکھا اور ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کئے گئے اوراس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے آخرت میں جہنم کا دردناک عذاب ہے (تو دنیا و آخرت میں جو حشر ان مشرکوں کا ہوا وہی ان یہودیوں کا ہو گا)۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۲۵۱، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۲۲۷، ملتقطاً)
كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ-فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
جیسے شیطان کی مثال جب اس نے آدمی سے کہا: ’’ کفر کر‘‘ پھر جب اس نے کفر کرلیا تو کہا:بیشک میں تجھ سے بیزار ہوں ، بیشک میں اس اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ: جیسے شیطان کی مثال۔} اس آیت میں منافقوں اور یہودیوں کی ایک مثال بیان کی جا رہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ منافقوں کا بنو نضیر کے یہودیوں کے ساتھ سلوک ایسا ہے جیسے شیطان کی مثال کہ اس نے اپنے مکر و فریب سے آدمی کو کفر کرنے کا کہا اور جب اس نے کفر کرلیا تو اس سے براء ت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں اوربیشک میں اس اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا رب ہے۔ایسے ہی منافقوں نے بنو نضیر کے یہود یوں کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارا، جنگ پر آمادہ کیا ،اُن سے مدد کے وعدے کئے اور جب اُن کے کہنے سے یہودیوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تو منافق اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور یہودیوں کا ساتھ نہ دیا۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۵۱، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۱۲۲۷، ملتقطاً)
مسلمانوں کو کفر میں مبتلا کرنے کیلئے شیطان کا ایک خطرناک طریقہ :
یاد رہے کہ انسانوں کو کفر ، گمراہی اور گناہ میں مبتلا کرنے کے لئے شیطان مختلف راستے اختیار کرتا اور طرح طرح کے طریقے آزماتاہے ،ان میں سے ایک راستہ یہ ہے کہ شیطان کسی کام کو بندے کے سامنے نیک بنا کر پیش کرتا ہے اور بندہ نیک عمل سمجھتے ہوئے وہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے ،پھر شیطان اسے رفتہ رفتہ گناہ کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کے بندہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے ،پھر ا س گناہ سے ہونے والی رسوائی سے بندے کو خوفزدہ کرکے دوسرے گناہ پر مجبور کرتا ہے ،یوں اس سے گناہ در گناہ کرواتا رہتا ہے اور آخر کار بندے کو کفر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور جب بندہ کفر کر لیتا ہے تو شیطان اسے کفر کی اندھیری وادی میں تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ بندہ کفر کی حالت میں موت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیثِ پاک ملاحظہ ہو،چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بنی اسرائیل میں ایک راہب تھا، شیطان نے ایک لونڈی کا گلادبایا اور اس کے مالکوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس کا علاج (فلاں )راہب کے پاس ہے۔ چنانچہ وہ اسے لے کر راہب کے پاس آئے تو اس نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا،وہ مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ راہب علاج کرنے پر آمادہ ہو گیا،وہ لونڈی(علاج کے لئے)اس کے پاس موجود تھی کہ اس دوران شیطان راہب کے پاس آیا اور ا س کے دل میں لونڈی کے ساتھ صحبت کرنے کا وسوسہ ڈالا،وہ مسلسل وسوسے ڈالتا رہا یہاں تک کہ راہب نے اس لونڈی کے ساتھ صحبت کر لی اور وہ اس سے حاملہ ہو گئی ،اب شیطان نے راہب کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ جب اس کے گھر والے آئیں گے (اور انہیں یہ بات پتا چلے گی)تو تو رُسوا ہو جائے گا،لہٰذا تو اسے قتل کر دے اور جب ا س کے گھر والے آئیں تو ان سے کہہ دیناکہ اس کا انتقال ہو گیا ہے ،چنانچہ راہب نے اس لونڈی کو قتل کر کے دفن کر دیا۔اس کے بعد شیطان لونڈی کے مالکوں کے پاس گیااور انہیں وسوسے ڈالنے لگااور ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ راہب نے لونڈی کو حاملہ کر دیا،پھر اسے قتل کر کے دفن کردیا ہے،چنانچہ ا س کے مالک راہب کے پاس آئے اور اس سے لونڈی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:وہ تو مر گئی ہے۔یہ سن کر مالکوں نے اسے پکڑ لیا(جب وہ اسے قتل کرنے لگے )توشیطان راہب کے پاس آیااور کہنے لگا:میں نے ہی اس لونڈی کا گلا دبایا تھا اور میں نے ہی ان لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی تھی کہ وہ اسے تمہارے پاس لائیں ، اب اگر تم میری بات مان لوتو نجات پاجاؤ گے اور میں تمہیں ان لوگوں سے چھڑا لوں گا۔اس نے پوچھا :کیسے ؟شیطان نے کہا :مجھے دو سجدے کر دو۔جب ا س نے دو سجدے کر لئے تو شیطان نے کہا :میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ۔یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
’’كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ-فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: جیسے شیطان کی مثال جب اس نےآدمی سے کہا: ’’ کفر کر‘‘ پھر جب اس نے کفر کرلیا تو کہا: بیشک میں تجھ سے بیزار ہوں، بیشک میں اس اللّٰہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا رب ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا، مکائد الشیطان، الباب الثانی، ۴ / ۵۴۶، الحدیث: ۶۱)
یہ حدیث ِپاک امام محمدغزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے احیاء العلوم میں بھی ذکر فرمائی ہے ،اسے لکھنے کے بعد آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :دیکھو کہ شیطان نے کیسے کیسے حیلے بہانوں سے راہب کو ان کبیرہ گناہوں کی طرف مجبور کیااوراس کی بنیاد صرف یہ بنی کہ اس نے(نیک کام سمجھ کر ) لونڈی کا علاج کرنا قبول کر لیا ۔بعض اوقات آدمی سمجھتا ہے کہ یہ ایک نیکی اور بھلائی کا کام ہے اور شیطان اس کے دل میں خفیہ طریقے سے یہ بات ڈالتا ہے کہ اسے یہ اچھا کام کرنا چاہئے ،پھر وہ نیکی میں رغبت رکھنے والے آدمی کی طرح اس کام کو کرتا ہے یہاں تک کہ معاملہ ا س کے اختیار سے نکل جاتا ہے (اور وہ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے ) ،پھر ایک بات دوسری بات کی طرف لے جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے لئے چھٹکارے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔( احیاء علوم الدین،کتاب شرح عجائب القلب،بیان تسلّط الشیطان علی القلب بالوسواس وسبب غلبتہا،۳ / ۳۸-۳۹)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ شیطان کے اس خطرناک طریقے سے ہوشیار رہے اوربطورِ خاص کسی عورت کے ساتھ اچھائی کرنے سے پہلے اس بات پر خوب غور کر لے کہ یہ چیزآگے چل کر اسے گناہ میں مبتلا تو نہ کر دے گی ،اگر اس کا ذرا سا بھی اندیشہ نظر آئے تو ہر گز ہرگز اپنے نفس پر اعتماد کرتے ہو ئے بظاہر اچھا نظر آنے والا وہ کام نہ کرے کہ اسی میں اس کے دین کی سلامتی اور ایمان کی حفاظت کا سامان ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں شیطان کے مکرو فریب سے بچائے،اٰمین۔
فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَاۤ اَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْهَاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ وہ دونوں آگ میں ہوں گے ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا: تو ان دونوں کا انجام یہ ہوا۔} یعنی شیطان اور کفر کرنے والے اس انسان کا اُخروی انجام یہ ہوا کہ وہ دونوں جہنم کی آگ میں ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں ۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۷، ۹ / ۴۴۳-۴۴۴)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ: اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو۔} گزشتہ آیات میں یہودیوں کی عہدشکنی اور منافقین کے مکروفریب کوبیان کیاگیا اوراب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!تم جو کام کرتے ہو اور جو چھوڑتے ہو ہر ایک میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے قیامت کے دن کے لئے کیا اعمال کیے اورتمہیں مزید تاکید کی جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں سرگرم رہو، بیشک اللّٰہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے(لہٰذا جب گناہ کرنے لگوتو سوچ لو کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے اس گناہ کو دیکھ رہا ہے ، وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا اور اس کی سزا دے گا) ۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۸، ۹ / ۴۴۷-۴۴۸)
مُراقبہ کی اصل:
اس آیت سے معلو م ہواکہ ایک گھڑی غورو فکر کرنا بہت سے ذکر کرنے سے بہتر ہے۔ اپنے اعمال کے بارے میں سوچنا بہت افضل عمل ہے اور یہی مراقبہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(آخرت کے معاملے میں )گھڑی بھر غورو فکر کرنا60سال کی عبادت سے بہتر ہے۔( کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، التفکّر، الجزء الثالث، ۲ / ۴۸، الحدیث: ۵۷۰۷) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے اُخروی معاملات کے بارے میں مراقبہ اور غور و فکرکرتا رہے ۔ مراقبہ کا معنی اور اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مراقبہ کا معنی ہے نگہبانی کرنا،جس طرح اپنا مال شریک کے حوالے کرکے شرط رکھی جاتی ہے اور عہدوپیمان کے بعد بھی بے خبر ہو کر نہیں بیٹھ رہتے اسی طرح ہر وقت نفس کی خبر گیری کرتے رہنابھی ضروری ہے کیونکہ اگر تم اس سے غافل ہوگئے تو وہ کاہلی اور خواہشات کو پورا کرنے کے سبب پھر سے سرکش ہوجائے گا۔مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ہر فعل اور ہر خیال سے واقف ہے اور ا س سے کسی بات کا کوئی پہلو پو شیدہ نہیں ہے ،لوگ اگرصرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ظاہر و باطن دونوں کو دیکھتا ہے۔ جس نے یہ بات سمجھ لی اور یہ آگہی اس کے دل پر غالب آگئی تو اس کا ظاہر و باطن زیورِ ادب سے آراستہ ہوجائے گا۔ انسان اگر اس بات پر یقین کرے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے ظاہر و باطن سے واقف نہیں ہے تو وہ کافر ہے اور اگر اس پر ایمان لایا ،پھر اس کی مخالفت کی تو وہ بڑا دلیر اور بے شرم ہے ۔( کیمیاء سعادت، رکن چہارم، اصل ششم در محاسبت ومراقبت، ۲ / ۸۸۵-۸۸۶)
ترغیب کے لئے یہاں بزرگانِ دین کے مُراقبہِ فکر ِآخرت سے متعلق تین واقعات بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں ایک باغ میں گیا تو وہاں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آواز سنی،ہم دونوں کے درمیان ایک دیوار حائل تھی اور وہ کہہ رہے تھے:عمر ،خطاب کا بیٹااور امیر المومنین کا منصب! واہ کیا خوب!اے عمر!اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ورنہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں سخت عذاب دے گا۔( تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، فصل فی نبذ من سیرتہ، ص۱۰۲)
(2)…حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی قبر پر تشریف لے جاتے تو اس قدر روتے کہ ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔آپ کی خدمت میں عرض کی گئی :جنت اور دوزخ کے تذکرے پر آپ اتنا نہیں روتے جتنا قبر پر روتے ہیں ،(اس کی حکمت کیا ہے؟)آپ نے فرمایا:میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے ،اگر قبر والے نے اس سے نجات پا لی تو بعد(یعنی قیامت)کا معاملہ آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو بعد کا معاملہ زیادہ سخت ہے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں نے قبر سے زیادہ ہَولناک منظر کوئی نہیں دیکھا۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۵-باب، ۴ / ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۵)
(3)…حضرت ضرار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو کئی مرتبہ دیکھا کہ رات کی تاریکی میں آپ اپنے محراب میں لرزاں و ترساں اپنی داڑھی مبارک تھامے ہوئے ایسے بے چین بیٹھے ہوتے کہ گویا زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو ۔ آپ غم کے ماروں کی طرح روتے اور بے اختیار ہوکر ’’اے میرے رب ! اے میرے رب ! ‘‘پکارتے ، پھر دنیا سے مخاطَب ہو کر فرماتے ،’’تو مجھے دھوکے میں ڈالنے کے لئے آئی ہے ؟ میرے لئے بن سنور کر آئی ہے ؟ دور ہوجا! کسی اور کو دھوکا دینا ، میں تجھے تین طلاق دے چکاہوں ، تیری عمر کم ہے اور تیری محفل حقیرجبکہ تیرے مصائب جھیلنا آسان ہیں ، آہ صد آہ!زادِ راہ کی کمی ہے اور سفرطویل ہے جبکہ راستہ وحشت سے بھر پور ہے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، علی بن ابی طالب، ۱ / ۱۲۶، روایت نمبر: ۲۶۱)
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ان کی جانیں بھلا دیں ، وہی نافرمان ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ: اور ان لوگوں کی طرح نہ بنوجنہوں نے اللّٰہ کو بھلا دیا۔ } یعنی اے ایمان والو! ان یہودیوں اور منافقوں کی طرح نہ ہوناجنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق کو بھلا دیا اورجیسی ا س کی قدر کرنے کا حق تھا ویسی قدر نہ کی اور ا س کے احکامات و ممنوعات کی ان کے حق کے مطابق رعایت نہ کی، تو اس کے سبب اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جانوں کو بھول جانے والا بنا دیا(جس کا نتیجہ یہ ہوا )کہ وہ اس چیز کو نہیں سنتے جو انہیں نفع دے اور وہ کام نہیں کرتے جو انہیں نجات دے اوریہ بھول جانے والے ہی کامل فاسق ہیں ۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۹ / ۴۴۹-۴۵۰)
آیت’’وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…جن لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق یاد نہ رہے جیسے یہودی اور عیسائی وغیرہ ،ان جیسا ہونے سے منع فرمایاگیاہے۔
(2)… اسلام کے سوا کسی اور دین میں رہ کر اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرنا قابلِ قبول نہیں ، کیونکہ وہ کفار اپنے عقیدے کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرتے تھے،لیکن ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کو بھلا دیا۔
(3)…اللّٰہ تعالیٰ سے غافل ہونے کا اثر یہ ہو تا ہے کہ بندے کو اس بات کی کبھی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دنیا میں کیوں آیا اور اسے کیا کرنا چاہیے۔
(4)… آخرت کی فکر نہ ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔
لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِؕ-اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں ، جنت والے ہی کامیاب ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ: دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں ۔} یعنی جہنم والے جن کے لئے دائمی عذاب ہے اور جنت والے جن کیلئے ہمیشہ کا عیش اور سَرمَدی راحت ہے،یہ دونوں برابر نہیں بلکہ جنت والے ہی کامیاب ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی رضا میں گزاری اور آخرت میں اس کی نعمتوں کے مستحق ہوئے جبکہ کفار دونوں جگہ نقصان میں رہے۔
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے۔} یعنی قرآنِ مجید کی عظمت و شان ایسی ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتارتے اور اُس کو انسان کی سی تمیز عطا کرتے تو انتہائی سخت اور مضبوط ہونے کے باوجود تم اسے ضرورجھکا ہوا اور اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے ،ہم یہ اور اس جیسی دیگر مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (اور خیال کریں کہ جب ہم اشرف المخلوقات ہیں تو چاہیے کہ ہمارے اعمال بھی اشرف و اعلیٰ ہوں۔) (مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۱۲۲۸، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۲۵۳، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ یہاں آیت میں قرآن سے مراد اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اتارنے سے مراد اس کلام کو اس کی عظمت کے ظہور کے ساتھ اتارنا مراد ہے یعنی اگر ہم قرآنِ مجید کو اس کی عظمت ظاہر کرتے ہوئے پہاڑ پر اُتار دیتے تو وہ اس کی تاب نہ لاتا اور پھٹ جاتا۔
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلب شریف پہاڑسے زیادہ قو ی اور مضبوط ہے کیونکہ آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کا خوف اور اَسرارِ الٰہی سے واقفیت کامل طریقے سے حاصل ہونے کے باوجود آپ اپنے مقام پر قائم ہیں ۔
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والاہے، وہی نہایت مہربان، بہت رحمت والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: وہی اللّٰہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں قرآنِ مجید کی عظمت و شان بیان کی گئی اور اس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ اپنی عظمت و شان بیان فرما رہاہے کہ وہی اللّٰہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ا س کی شان یہ ہے کہ وہ ظاہر اور پوشیدہ نیز موجود و معدوم سب کو جانتا ہے اور وہی بڑا مہربان رحمت والاہے۔
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،بادشاہ ، نہایت پاک ،سلامتی دینے والا، امن بخشنے والا، حفاظت فرمانے والا، بہت عزت والا، بے حد عظمت والا ،اپنی بڑائی بیان فرمانے والا ہے، اللہ ان مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ: وہی اللّٰہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے دس اوصاف بیان فرمائے ہیں :
(1)…اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
(2)… ملک و حکومت کا حقیقی مالک ہے کہ تمام موجودات اس کے ملک اور حکومت کے تحت ہیں اور اس کامالک ہونا اوراس کی سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں ۔
(3)…ہر عیب سے اور تمام برائیوں سے نہایت پاک ہے۔
(4)…اپنی مخلو ق کو آفتوں اور نقصانات سے سلامتی دینے والا ہے۔
(5)… اپنے فرمانبردار بندوں کو اپنے عذاب سے امن بخشنے والا ہے۔
(6)… ہر چیز پر نگہبان اور ا س کی حفاظت فرمانے والا ہے۔
(7)… ایسی عزت والا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی اورایسے غلبے والا ہے کہ اس پر کوئی بھی غالب نہیں آ سکتا۔
(8، 9)…اپنی ذات اور تمام صفات میں عظمت اور بڑائی والا ہے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنا اسی کے شایاں اور لائق ہے کیونکہ اس کا ہر کمال عظیم ہے اور ہر صفت عالی ہے جبکہ مخلوق میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تکبُّر یعنی اپنی بڑائی کا اظہار کرے بلکہ بندے کیلئے شایاں یہ ہے کہ وہ عاجزی اور اِنکساری کااظہار کرے ۔
(10)… اللّٰہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔( خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۲۵۴، مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۱۲۲۸، ملتقطاً)
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىؕ-یُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی اللہ بنانے والا، پیدا کرنے والا، ہر ایک کو صورت دینے والا ہے، سب اچھے نام اسی کے ہیں ۔ آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز اسی کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی بہت عزت والا،بڑا حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ: وہی اللّٰہ بنانے والا۔} یعنی وہی اللّٰہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ وہ بنانے والا،عدم سے وجود میں لانے والا اور ہر ایک کو جیسی چاہے ویسی صورت دینے والا ہے، سب اچھے نام اسی کے ہیں جو کہ اس کی بلند صفات پر دلالت کرتے ہیں ،آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز تمام عیوب ونقائص سے اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی حقیقی طور پر عزت والا، حکمت والا ہے۔( مدارک، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۲۲۸-۱۲۲۹، خازن، الحشر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۲۵۴-۲۵۵، ملتقطاً)
سورہِ حشر کی آخری تین آیات کی فضیلت:
سورہِ حشر کی آخری تین آیات کی بڑی فضیلت ہے ،حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس نے صبح کے وقت تین مرتبہ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ‘‘ کہا اور سورۂ حشر کی آخری تین آیات کی تلاوت کی تو اللّٰہ تعالیٰ 70,000 فرشتے مقرر کر دیتا ہے جوشام تک اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اگر اسی دن انتقال کر جائے تو شہید کی موت مرے گا اور جو شخص شام کے وقت اُسے پڑھے تو اس کا بھی یہی مرتبہ ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۲-باب، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۲۹۳۱)
اس کی دوسری فضیلت ملاحظہ ہو،
حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے رات یادن میں سورہِ حشرکی آخری(تین) آیتیں پڑھیں اوراسی رات یادن میں ا س کا انتقال ہو گیا تو اس نے جنت کو واجب کر لیا۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۹۲، الحدیث: ۲۵۰۱)