سُوْرَۃ هُود
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
:ترجمہ
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓرٰ- كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍ(1)
:ترجمہ
کنزالعرفان
’’الر‘‘، یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھرانہیں حکمت والے، خبردار کی طرف سے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{ الٓرٰ}یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ:یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں۔} جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا
’’تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ‘‘(یونس :۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اُحْكِمَتْ کے معنی یہ ہیں کہ ان کی عبارت مستحکم اور پائیدار ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اس میں کوئی نَقص اور خَلَل راہ نہیں پاسکتا جیسے کوئی مضبوط اور پختہ عمارت ہو۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۹)
اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا: (اس کا معنی یہ ہے کہ) کوئی کتاب ان آیات کی ناسخ نہیں جیسا کہ یہ آیتیں دوسری کتابوں اور شریعتوں کی ناسخ ہیں۔ (بغوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۳۱۴)
{ثُمَّ فُصِّلَتْ:پھرانہیں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔}یعنی سورت سورت اور آیت آیت جدا جدا ذکر کی گئیں یا علیحدہ علیحدہ نازل ہوئیں یا عقائد و اَحکام ، مَواعِظ ، واقعات اور غیبی خبریں ان میں بہ تفصیل بیان فرمائی گئیں۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۹)
اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنَّنِیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ(2)
:ترجمہ
کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو۔ بیشک میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی کی خبریں دینے والا ہوں ۔
کنزالعرفان
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ:کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں ، پھرا نہیں حکمت والے اور خبردار اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا چھوڑ دو۔ اس سے ثابت ہو اکہ قرآنِ مجید کو نازل کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کی تو وہ ناکام و نامراد ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی آیتیں حکمت بھری ہیں تاکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں اور لوگوں سے یہ فرما دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں کفر اور غیرُاللہ کی عبادت کرنے پر قائم رہنے کی صورت میں اس کے عذاب سے ڈرانے اور ایمان لانے کی صورت میں ا س کے اجر و ثواب کی خوشخبری دینے والا ہوں۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۳۱۴، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۹۱)
وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ(3)اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کروتو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضیلت والے کو اپنا فضل عطا فرمائے گا اور اگر تم منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں ۔اللہ ہی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے اور وہ ہر شے پر قادرہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ گناہ کرنے سے توبہ کرو تو جس نے اپنے گناہوں سے پکی توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ رب تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کثیررزق اور وسعت عیش عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ امن وراحت کی حالت میں زندگی گزارے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا، اگر دنیا میں اسے کسی مشقت کا سامنا بھی ہوا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا حاصل ہونے کی وجہ سے یہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہو گی اور جو توبہ نہ کرے ،کفر اور گناہوں پر قائم رہے تو وہ خوف اور مرض میں مبتلارہے گا اور اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی کا سامنا بھی ہو گا اگرچہ دنیا کی لذتیں اس پر وسیع ہو جائیں کیونکہ اس عیش میں کوئی بھلائی نہیں جس کے بعد جہنم نصیب ہو۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۳۹-۳۴۰، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۸۹۹، ملتقطاً)
توبہ اور اِستغفار میں فرق اور وسعتِ رزق کے لئے بہتر عمل:
توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کیلئے بہتر عمل ہے۔
{وَ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ:اور ہر فضیلت والے کو اپنا فضل عطا فرمائے گا ۔} یعنی جس نے دنیا میں نیک عمل کئے ہوں آخرت میں اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ حضرت ابو عالیہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ،آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کی دنیا میں نیکیاں زیادہ ہوں گی اس کی نیکیوں کا ثواب اور جنت میں درجات بھی زیادہ ہوں گے کیونکہ اعمال کے مطابق جنت کے درجات ملیں گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا :اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لئے اسے نیک عمل اورا طاعت کی توفیق عطا فرمائے گا۔(بغوی، ہود، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵)
ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق کا ذریعہ بنتی ہے
آیت کے تیسرے معنی کے اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک نیکی اگلی نیکی کی توفیق کا ذریعہ بنتی ہے ، اس لئے نیکی کی ابتداء بہت عمدہ شے ہے،جیسے فرائض کی ادائیگی کرتے رہیں گے تو نوافل کی طرف بھی دل مائل ہوہی جائیں گے ، یونہی زبان سے ذکر کرتے رہیں گے تو دل بھی ذاکر ہوہی جائے گا۔
یہاں ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ جتنی مستحب چیزوں پر عمل کی تاکید کرتے ہیں ا تنی فرائض پر عمل کی تاکید نہیں کرتے اور جب انہیں فرائض پر عمل کی تاکید کا کہا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ مستحب پر عمل کرنا شروع ہو جائیں گے تو فرائض کے خود ہی پابند بن جائیں گے ،جبکہ ان کی مستحب پر عمل کی مسلسل تاکید کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے فرائض کے مقابلے میں مستحبات پرزیادہ عمل کرنا شروع کر دیا اور فرائض پر عمل میں کوتاہی کرنے لگ گئے ،اس لئے ہونا یہ چاہئے فرائض پر عمل کی ترغیب دینا اَوّلین تَرجیح ہو اور اس کے لئے کوشش بھی زیادہ ہو تاکہ لوگوں کی نظر میں فرائض کی اہمیت میں اضافہ ہو اور وہ فرائض کی بجا آوری کی طرف زیادہ مائل ہوں البتہ اس کے ساتھ مستحب پر عمل کا بھی ذہن دیا جائے تاکہ لوگوں میں زیادہ نیکیاں کرنے کاجذبہ پیدا ہو۔
{اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ:اللہ ہی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے۔}یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف آخرت میں تمہارالوٹنا ہے، وہاں نیکیوں اور بدیوں کی جزا و سزا ملے گی اور وہ ہر شے پر جیسے دنیا میں تمہیں روزی دینے پر ،موت دینے پر ،موت کے بعد زندہ کرنے اور ثواب و عذاب سب پرقادرہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۳۴۰، ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۵، ملتقطاً)
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُؕ-اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْۙ-یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَۚ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
سن لو! بیشک وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں ۔سن لو! جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے ،بیشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ: سن لو! بیشک وہ لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف شانِ نزول بیان کئے ہیں ،ان میں سے 3 شان نزولِ درج ذیل ہیں
(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: یہ آیت اخنس بن شریق کے حق میں نازل ہوئی ،یہ بہت شیریں گفتار شخص تھا، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے آتا تو بہت خوشامد کی باتیں کرتا اور دل میں بغض و عداوت چھپائے رکھتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے سینوں میں عداوت چھپائے رکھتے ہیں جیسے کپڑے کی تہ میں کوئی چیز چھپائی جاتی ہے۔
(2)… ایک قول یہ ہے کہ بعض منافقین کی عادت تھی کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سامنا ہوتا تو سینہ اور پیٹھ جھکاتے ، سر نیچا کرتے اور چہرہ چھپالیتے تاکہ انہیں رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیکھ نہ پائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵، ۲ / ۳۴۰)
(3)…صحیح بخاری میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’کچھ لوگ تنہائی میں بھی کھلے آسمان کے نیچے قضائے حاجت سے شرماتے اور اپنی بیویوں سے حقِ زَوجِیَّت ادا کرتے ہوئے شرماتے تھے جس کے باعث آسمان کی طرف سے جھک کر پردہ کر لیتے تھے۔ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ہود، ۱-باب الا انّہم یثنون صدورہم۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۴، الحدیث: ۴۶۸۱)کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بندے کا کوئی حال چھپا ہی نہیں ہے لہٰذا چاہیے کہ وہ شریعت کی اجازتوں پر عامل رہے۔
تنہائی میں ننگا ہونا منع ہے
خیال رہے کہ تنہائی میں بھی ننگا ہونا منع ہے لیکن اس لئے نہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ سے چھپا جائے بلکہ اس لئے کہ اس میں شرم و حیا کااِ ظہار ہے اور یہ رب تعالیٰ کا حکم ہے اور ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس حکم پر عمل پیرا ہو۔یہاں حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شرم و حیا کی جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شرم وحیا کایہ عالَم تھا کہ مکان میں تنہا ہونے اور دروازہ بند ہونے کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے پانی بہانے کے لئے بدن سے کپڑا نہ ہٹاتے اور ان کی شرم و حیا کی شدت کی وجہ سے فرشتے بھی ان سے اس طرح حیاء کرتے تھے جس طرح وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے حیاء کرتے تھے ، نیزحضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ان سے حیا فرمایا کرتے تھے۔
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔ سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ:اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں۔}’’دَآبَّةٍ‘‘ کا معنی ہے ہر وہ جانور جو زمین پر رینگ کر چلتا ہو، عُرف میں چوپائے کو ’’دَآبَّةٍ ‘‘ کہتے ہیں جبکہ آیت میں اس سے مُطْلَقًاجاندار مراد ہے لہٰذا انسان اور تمام حیوانات اس میں داخل ہیں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰)
کسی جاندار کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ جانداروں کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب ہو بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم فرما لیا ہے اور ( یہ اس کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ) وہ اس کے خلاف نہیں فرماتا۔ رزق کی ذمہ داری لینے کو ’’عَلَى‘‘ کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا تاکہ بندے کا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر توکل مضبوط ہو اور اگر وہ (رزق حاصل کرنے کے) اَسباب اختیار کرے تو ان پر بھروسہ نہ کر بیٹھے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی پر اپنا اعتماد اور بھروسہ رکھے ، اسباب صرف اس لئے اختیار کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فارغ رہنے والے بندے کو پسند نہیں فرماتا۔ زمین کے جانداروں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی غذاؤں کے محتاج ہیں جبکہ آسمانی جاندار جیسے فرشتے اور حورِ عِین، یہ اس رزق کے محتاج نہیں بلکہ ان کی غذا تسبیح و تہلیل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۹۰۰، ۹۰۱)
{وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا:اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بندہ دن یا رات گزارتا ہے اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد دفن کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد ماؤں کے رحم اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں موت آئے گی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ مُسْتَقَرْ سے مراد جنت یا دوزخ ہے اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد قبر ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰-۳۴۱)
{كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ:سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔} یعنی اس آیت میں جو جانداروں ، ان کے رزق، ان کے ٹھہرنے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کا ذکر ہوا یہ سب بیان کرنے والی کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ لوحِ محفوظ میں سب جانداروں کے رزق ، ان کی جگہوں ،ان کے زمانے اور اَحوال کی تفصیل مذکور ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۹۰۱)
ہر چیزکو لوحِ محفوظ میں لکھنے کی حکمت:
خیال رہے کہ ہر چیز کا لوحِ محفوظ میں لکھا جانا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بھول جانے کا خطرہ تھا لہٰذا لکھ لیا، کیونکہ بھول جانا اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے، بلکہ اس لئے لکھاہے تاکہ لوحِ محفوظ دیکھنے والے بندے اس پر اطلاع پائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوحِ محفوظ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بھی ہر ایک کے مُسْتَقَرْ اور مُسْتَوْدَع کی خبر ہے کیونکہ یہ سب لوحِ محفوظ میں تحریر ہے اور لوحِ محفوظ ان کے علم میں ہے۔ لوحِ محفوظ کو مُبِینْ اس لئے فرمایا گیا کہ و ہ خاص بندوں پر عُلومِ غَیْبِیَّہ بیان کردیتی ہے۔
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ لَىٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا (تمہیں پیدا کیا ) تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور اگر تم کہو: (اے لوگو!) تمہیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ (قرآن) تو کھلا جادو ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ:اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا۔} آسمان بھی سات ہیں اور زمین بھی سات، لیکن آسمانو ں کی حقیقتیں مختلف ہیں ، جیسے کوئی لوہے کا،کوئی تانبے کا، کوئی چاندی کا اور کوئی سونے کا ہے اور تمام زمینوں کی حقیقت صرف مٹی ہے، نیز آسمانوں میں فاصلہ ہے اور زمین کے طبقات میں فاصلہ نہیں ، یہ ایک دوسرے سے ایسی چمٹی ہیں جیسے پیاز کے چھلکے کہ دیکھنے میں ایک معلوم ہوتی ہے، اس لئے آسمان جمع فرمایا جاتا ہے اور زمین واحد بولی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ آسمانوں کی پیدائش دو دن میں ، زمین کی پیدائش دو دن میں اور حیوانات، درخت وغیرہ کی پیدائش دو دن میں ہوئی اور دن سے مراد اتنا وقت ہے، ورنہ اس وقت دن نہ تھا کیونکہ دن تو سورج سے ہوتا ہے اور اس وقت سورج نہ تھا۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۹۷-۹۸، ملخصاً) قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آسمان و زمین کو چھ دن میں بنانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چھ دنوں سے مراد چھ اَدوار ہیں۔
{ وَ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ:اور اس کا عرش پانی پر تھا۔} یعنی عرش کے نیچے پانی کے سوا اور کوئی مخلوق نہ تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عرش اور پانی آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پہلے پیدا فرمائے گئے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۹۰)
عرش پانی کے اوپر ہونے کے معنی
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ عرش کے پانی کے اوپر ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی عرش اور پانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی بلکہ عرش اسی مقام میں تھا جہاں اب ہے یعنی ساتویں آسمان کے اوپر اور پانی اسی جگہ تھا جہاں اب ہے یعنی ساتویں زمین کے نیچے (اگرچہ اس وقت سات آسمان اور سات زمینیں نہ تھیں ) (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۹۰۱)
قدرت ِالٰہی کے دلائل
اما م فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کئی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت اور کمال پر دلالت کرتی ہے۔
(1)… عرش کے زمین و آسمان سے بڑا ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ا سے پانی پر قائم فرمایا لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کسی ستون کے بغیر وزنی چیز کو رکھنے پر قادر نہ ہوتا تو عرش پانی پر نہ ہوتا۔
(2)…پانی کو بھی بغیر کسی سہارے کے قائم کیا۔
(3)…عرش جو کہ تمام مخلوقات سے بڑا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر قائم کیا ہوا ہے، اس کے نیچے کوئی ستون ہے نہ اوپر کوئی اور علاقہ۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۳۱۹-۳۲۰)
{لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا:تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے ۔} یعنی آسمان و زمین اور ان میں تمہارے جو مَنافع اور مَصالح ہیں ، انہیں پیدا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان نعمتوں کی وجہ سے نیک وبد میں اِمتیاز ہو جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کو ن (ان نعمتوں کے باوجود) فرمانبردار ہے تاکہ آخرت میں اسے اس کی اطاعت گزاری کا ثواب دیا جائے اور کون (ان نعمتوں کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل ہوتا ہے اور) گناہگار بنتا ہے تاکہ آخرت میں اسے اس کے گناہوں کی سزا دی جائے۔(جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۹۰۱)
نعمتیں پیدا کئے جانے میں بھی ہماری آزمائش مقصود ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جو نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اِن کے ذریعے بھی اُنہیں آزمایا اور اُن کا امتحان لیا جا رہاہے کہ وہ ان نعمتوں کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور اس کی شکر گزاری کرتے ہیں یا غفلت کا شکار ہو کر اس کی نافرمانی و ناشکری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اب ہر عقلمند انسان اپنی حالت پر خود ہی غور کر لے کہ وہ اس آزمائش و امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ حضرت حاتم اَصَم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرو اور صبح اس حال میں کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے اوپر فراوانی کے ساتھ دیکھو تو اس سے بچو کیونکہ یہ آہستہ آہستہ عذاب کی طرف جانا ہے۔(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل من اخلاق السلف الصالح، ومن اخلاقہم رضی اللہ عنہم کثرۃ خوفہم من اللہ تعالی فی حال بدایتہم۔۔۔ الخ، ص۴۹)
{ وَ لَىٕنْ قُلْتَ:اور اگر تم کہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر آپ اپنی قوم کے کفار سے فرمائیں کہ اے لوگو! تمہیں مرنے کے بعد حساب اور جزاء کیلئے اٹھایا جائے گا تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ قرآن شریف جس میں مرنے کے بعد اُٹھائے جانے کا بیان ہے یہتو کھلا جادو یعنی باطل اور دھوکا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۹۰، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً(
وَ لَىٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗؕ-اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم ان سے کچھ گنتی کی مدت تک کے لئے عذاب میں دیر کردیں تو ضرور کہیں گے : کس چیز نے روکا ہوا ہے؟ خبردار! جس دن وہ عذاب ان پر آئے گا تو ان سے پھیرا نہیں جائے گا اور جس (عذاب) کا وہ مذاق اڑاتے تھے وہی ان کو گھیرے ہوئے ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ:اور اگر ہم ان سے کچھ گنتی کی مدت تک کے لئے عذاب میں دیر کر دیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ یہ قرآن کو کھلا جادو کہہ کر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلاتے ہیں اور ا س آیت میں ان کفار کی ایک اور باطل گفتگو ذکر فرمائی، وہ یہ کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو جس عذاب کا وعدہ دیا تھا وہ جب ان سے مُؤخَّر ہوا تو کفار تکذیب اور اِستہزاء کے طور پر کہنے لگے کہ کس وجہ سے ہم سے عذاب روک دیاگیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ جب وہ وقت آجائے گا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لئے متعین فرمایا ہے تو ہم وہ عذاب ان پر ناز ل کر دیں گے جس کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اور وہ عذاب ان سے پھیرا نہ جائے گا بلکہ ان سب کوگھیر لے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸، ۶ / ۳۲۱)
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوفی ہلاکت کا سبب ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونا ہلاکت کا سبب ہے، اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ڈرتا رہے اور اس کے عذاب سے کبھی بے خوف نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میری عزت کی قسم! میں اپنے کسی بندے پر نہ دو خوف جمع کرو ں گا اور نہ دو اَمن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرے گا تو میں قیامت کے دن اسے امن دوں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے امن میں رہے گا تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الافعال، الباب الاول فی الاخلاق المحمودۃ، الفصل الثانی، الخوف والرجاء، ۲ / ۲۸۳، الحدیث: ۸۵۲۵، الجزء الثالث)
ہمارے اَسلاف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے انتہائی دور اور اس کی اطاعت و فرمانبرادری میں بے حد مصروف رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بہت ڈرا کرتے تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ ’’مجھے مقربین پر اس لئے رشک نہیں آتا کہ یہ سب قیامت اور اس کی ہَولناکیوں کا مُشاہدہ کریں گے البتہ مجھے صرف اس پر رشک آتا ہے جو پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ وہ قیامت کے اَحوال اور ا س کی سختیاں نہیں دیکھے گا، اور حضرت سری سقطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’ میری خواہش ہے کہ میں بغداد کے علاوہ کسی اور جگہ انتقال کروں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میری قبر نے مجھے قبول نہ کیا تو کہیں میں لوگوں کے سامنے رسوا نہ ہو جاؤں۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۰۱)اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے بے خوف ہونے سے بچائے اور ہمارے دلوں میں اس کا ڈر پیدا فرمائے ،اٰمین۔
وَ لَىٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُۚ-اِنَّهٗ لَیَـٴُـوْسٌ كَفُوْرٌ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں پھر وہ رحمت اس سے چھین لیں توبیشک وہ بڑا مایوس اور ناشکرا (ہوجاتا) ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً:اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ’’اَلْاِنْسَانَ‘‘ سے مراد مُطلق انسان ہے پھر (آیت نمبر 11میں ) اس سے صبر کرنے والے اور نیک مسلمانوں کا اِستثنا ء فرمایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت میں مذکور ’’ اَلْاِنْسَانَ‘‘ میں مومن اور کافر دونوں داخل ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ’’اَلْاِنْسَانَ‘‘ سے کافر انسان مراد ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ۶ / ۳۲۱-۳۲۲) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم انسان کو اپنی کسی رحمت کا مزہ چکھائیں اور صحت، امن، وسعتِ رزق اور دولت عطا کریں پھر یہ سب اس سے چھین لیں اور اسے مَصائب میں مبتلا کردیں تو بیشک وہ دوبارہ اس نعمت کے پانے سے مایوس ہوجاتا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے اپنی اُمید ختم کرلیتا ہے اور صبر و رضا پر ثابت قدم نہیں رہتا اور گزشتہ نعمت کی ناشکری کرتا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ص۴۹۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً)
وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَیَقُوْلَنَّ ذَهَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْؕ-اِنَّهٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی ہو اسے نعمت کا مزہ دیں تو ضرور کہے گا کہ برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں بیشک وہ (اس وقت) بہت خوش ہونے والا، فخر و تکبر کرنے والا ہوجاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ:اور اگر ہم کسی مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی ہو اسے نعمت کا مزہ دیں۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم انسان کو اس مصیبت کے بعد جو اسے پہنچی ہو نعمت کا مزہ چکھائیں اور بیماری کے بعد صحت، تنگی کے بعد آسانی اور فقیری کے بعد مال و دولت کی وسعت عطا کریں تو ایسا بندہ یہ تو کہتا ہے کہ جو مصیبتیں مجھے پہنچیں وہ اب مجھ سے دور ہو گئیں لیکن اس وقت شکر گزار ہونے اور حقِ نعمت ادا کرنے کے بجائے وہ خوشی میں پھولتا پھرتا ہے اور ان نعمتوں کے ملنے کی وجہ سے فخر و تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔(ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۱، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۹۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۳۴۲، ملتقطاً)یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مصیبت دور ہونے اور نعمت ملنے کے بعد ناشکری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ مزید اطاعت کے لئے سر جھکا دینا چاہیے۔
شیخی کی خوشی منع اورشکریہ کی خوشی عبادت ہے
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیخی کی خوشی منع ہے جبکہ شکریہ کی خوشی عبادت ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘( یونس:۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔
مذکورہ بالا دونوں خوشیوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ شیخی کی خوشی میں نظر اپنی ذات پر ہوتی ہے اور شکریہ میں توجہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہوتی ہے، نیز شیخی غفلت پید اکرتی ہے اور شکریہ کی خوشی جذبہِ اطاعت پیدا کرتی ہے۔
اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے ’’لیکن وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کئے تو وہ ان کی طرح نہیں ہیں کیونکہ انہیں جب کوئی مصیبت پہنچی تو انہوں نے صبر سے کام لیا اور کوئی نعمت ملی تو اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کیا، جو ایسے اَوصاف کے حامل ہیں ان کے لئے گناہوں سے بخشش اور بڑا ثواب یعنی جنت ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۳۴۲)
مومن کی شان:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نعمت چھن جانے پر صبر کرنا اور راحت ملنے پر شکر کرنا اور بہر صورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنا مومن کی شان ہے، لیکن افسوس! یہاں جو طرزِ عمل کفار کا بیان کیا گیا ہے وہ آج مسلمانوں میں بھی نظر آ رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے اپنی دی ہوئی نعمت واپس لے لیتا ہے تو یہ اس قدر اَفْسُردہ اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ ان کی زبانیں کفر تک بکنا شروع کر دیتی ہیں اور جب ان میں سے کسی پر آئی ہوئی مصیبت اللہ تعالیٰ دور کر دیتا ہے تو وہ لوگوں پر فخرو غرور کا اِظہار شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔
مصیبت پر صبر کرنے اور رضائے الٰہی پر راضی رہنے کے 6فضائل:
موضوع کی مناسبت سے یہاں ہم مصیبت پر صبر و شکر کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کے فضائل اور نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی برکات ذکر کرتے ہیں تاکہ ان سے مسلمانوں کو صبر و شکر کرنے کی ترغیب ملے اور وہ کفار کے طرزِ عمل سے بچنے کی کوشش کریں۔
(1)… حضرت ابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ جو صبر کرنا چا ہے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے صبر کی توفیق عطا فرما دے گا اور صبر سے بہتر اور وسعت والی عطا کسی پر نہیں کی گئی۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر، ص۵۲۴، الحدیث: ۱۲۴(۱۰۵۳))
(2)…حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’صبر نصف ایمان ہے اور یقین پورا ایمان ہے۔ (معجم الکبیر، خطبۃ ابن مسعود ومن کلامہ، ۹ / ۱۰۴، الحدیث: ۸۵۴۴)
(3)… حضرت صہیب رومی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا معا ملہ بھلائی پرمشتمل ہے اور یہ صرف اُسی مومن کے لئے ہے جسے خو شحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے کیونکہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے اور اگر تنگدستی پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے ۔(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
(4)…حضرت عبد اللہ بن عبا س رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)
(5)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرور ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’مسلمان کو پہنچنے والا کوئی دکھ،تکلیف،غم،ملال، اَذِیَّت اور درد ایسا نہیں ،خواہ اس کے پیر میں کانٹا ہی چبھے مگر اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، ۴ / ۳، الحدیث: ۵۶۴۱-۵۶۴۲)
(6)…حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تودنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق اور عافیت عطا فرمائے اور اگر کوئی مصیبت آ جائے تو اس پر صبر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔
نعمت ملنے پر شکر کرنے کی برکات:
نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی بہت برکتیں ہیں ، ان میں سے دو برکتیں درج ذیل ہیں :
(1)… نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی صورت میں بندہ عذاب سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا‘‘(النساء:۱۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
اور اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ای
مان لاؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اور اللہ قدر کرنے والا، جاننے والاہے۔
(2)…نعمت کا شکر ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ نعمتوں میں مزید اضافہ فرما دیتا ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ وَ ضَآىٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِیْرٌؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌﭤ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا تمہاری طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے تم اس میں سے کچھ چھوڑ دو گے اور اس پرتمہارا دل اس وجہ سے تنگ ہوجائے گا کہ وہ کہتے ہیں : ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترتا یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آتا؟ تم تو ڈر سنانے والے ہو ، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا یُوْحٰۤى اِلَیْكَ:تو کیا تمہاری طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے تم اس میں سے کچھ چھوڑ دو گے۔} اس آیت کی تفسیر میں علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسالت کی ادائیگی میں کمی کرنے والے نہیں اور اُس نے اُن کو اس سے معصوم فرمایا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں تبلیغِ رسالت کی تاکید فرمائی اور اس تاکید میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر بھی ہے اور کفار کی مایوسی بھی کہ اُن کا مذاق اڑانا تبلیغ کے کام میں مُخِل نہیں ہو سکتا۔ شانِ نزول : عبداللہ بن اُمیہ مخزومی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں اور آپ کا خدا ہر چیز پر قادر ہے تو اُس نے آپ پر خزانہ کیوں نہیں اُتارا یا آپ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جو آپ کی رسالت کی گواہی دیتا، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۳۴۳، ملخصاً)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وحی میں خیانت کرنا ناممکن ہے
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اس پر اِجماع اور اتفاق ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاوحی اور تنزیل میں خیانت کرنا اور وحی کی بعض چیزوں کو ترک کر دینا ممکن نہیں ، کیونکہ اگر یہ بات ممکن مانیں تو اس طرح ساری شریعت ہی مشکوک ہو جائے گی اور نبوت میں طعن لازم آئے گا، نیز رسالت سے اصل مقصود ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام بندوں تک پہنچا دیئے جائیں اور جب ایسا نہ ہو تو رسالت سے جو فائدہ مطلوب تھا وہ حاصل ہی نہ ہو گا، اس لئے اس آیت کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس آیت سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری وحی کی تبلیغ کریں گے تو کفار کی طرف سے طعن و تشنیع اور مذاق اڑانے کا خدشہ ہے اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بتوں کی مذمت والی آیات نہ بیان کریں گے تو کفار آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مذاق تو نہ اُڑائیں گے لیکن اس طرح وحی میں خیانت لازم آئے گی اور جب دو خرابیوں میں سے ایک خرابی لازم ہو تو اس وقت بڑی خرابی کو ترک کر کے چھوٹی خرابی کو برداشت کر لینا چاہئے اور چونکہ وحی میں خیانت کرنے کے مقابلے میں کفار کے طعن و تشنیع کو برداشت کرلینا زیادہ آسان ہے اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وحی میں خیانت کی خرابی سے دور رہتے ہوئے کفار کے طعن و تشنیع کی خرابی کو برداشت کرلیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲، ۶ / ۳۲۳-۳۲۴)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا یہ کہتے ہیں : یہ قرآن نبی نے خود ہی بنالیا ہے۔ تم فرماؤ: (اگر یہ بات ہے ) تو تم (بھی) ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اگر تم سچے ہو تو اللہ کے سوا جو مل سکیں سب کو بلالو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا یہ کہتے ہیں۔} یعنی کیا کفارِمکہ قرآنِ کریم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ ’’اگر یہ بات ہے تو تم بھی ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ کیونکہ انسان اگر ایسا کلام بناسکتا ہے تو اس کے مثل بنانا تمہاری طاقت سے باہر نہ ہوگا، تم بھی عربی ہو، فصیح و بلیغ ہو، کوشش کرو ۔ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ کلام انسان کا بنایا ہوا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو مل سکیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلالو۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۳۴۳-۳۴۴)
قرآنِ مجید کا اپنی مثل بنا کر دکھانے کے چیلنج:
قرآنِ مجید نے اپنی مثل کلام بنا کر پیش کرنے کا چیلنج 4 طرح سے دیا ہے۔
(1)…پورے قرآن کے مثل لانے کا چیلنج دیا چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں ہے
’’قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
(2)…د س سورتوں کی مثل لانے کا چیلنج دیا ، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔
(3)… ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج دیا ،چنانچہ سورہ ٔبقرہ میں ہے
’’وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (بقرہ:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
اور سورۂ یونس میں ہے
’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (یونس: ۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اسے خود ہی بنالیا ہے ؟ تم فرماؤ: تو تم (بھی) اس جیسی کوئی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا جو تمہیں مل سکیں سب کو بلا لاؤاگر تم سچے ہو۔
(4)… آخری چیلنج یہ دیا کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا لائیں ،چنانچہ سورہ ٔطور میں ہے
’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗۚ-بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَۚ(۳۳) فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ‘‘ (طور: ۳۳، ۳۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس نبی نے یہ قرآن خود ہی بنالیا ہے بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔اگریہ سچے ہیں تو اس جیسی ایک بات تو لے آئیں۔
فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰهِ وَ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے علم ہی سے اتارا گیا ہے اور (جان لو) کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو کیااب تم مانو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ:تو اے مسلمانو! اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! اگر کفار تمہارے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکیں اور دس سورتوں کی مثل پیش کرنے سے عاجز رہیں تو تم اپنے اس علم پر ثابت قدم رہو کہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ہی کلام ہے اور جان لو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں ،تو کیا اب تم مانو گے اور یقین رکھو گے کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے ،مطلب یہ کہ اعجازِ قرآن دیکھ لینے کے بعد ایمان و اسلام پر ثابت رہو۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار سے فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جو مل سکیں سب کو اپنی مدد کے لئیبلالو اور ا س آیت میں فرمایا کہ اے کافرو! اگر تمہارے مددگار تمہیں کوئی جواب نہ دے سکیں اور تمہاری کوئی مدد نہ کرسکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علم ہی سے اتارا گیا ہے ،کسی نے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ نہیں باندھا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اسے نازل فرمایا ہے اور جان لو کہ جس اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآن نازل فرمایا ہے وہی عبادت کے لائق ہے اور جن بتوں کو تم پوجتے ہو وہ عبادت کے لائق ہر گز نہیں تو کیا تم اسلام قبول کرو گے اور اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو گے؟(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۳۴۴)
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا:جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے نیک اعمال سے دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو اور اپنی کم ہمتی سے آخرت پر نظر نہ رکھتا ہو توہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور جو اعمال اُنہوں نے طلبِ دُنیا کے لئے کئے ہیں ان کا اجر صحت و دولت ، وسعتِ رزق اورکثرتِ اولاد وغیرہ سے دنیا ہی میں پورا کردیں گے اور طلبِ دنیا کے لئے کئے ہوئے اعمال کے اجر میں کمی نہ کریں گے بلکہ ان اعمال کا پورا اور کامل اجر دیں گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۳۴۴)
نیک اعمال کے ذریعے دنیا طلب کرنے والوں کا انجام
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دنیا کی طلب اور اس کی زیب و زینت اور آرائش پانے کی خاطر نیک اعمال کرتے ہیں انہیں ان اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی مختلف انداز سے دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔اسی بات کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل۱۸، ۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہو کر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِیْ حَرْثِهٖۚ-وَ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِیْبٍ‘‘(شوری:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے توہم اسے اس میں سے کچھ دیدیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔
نیز ترمذی شریف میں ہے کہ جب حضرت شُفَیَّا اصبحی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: میں فلاں فلاں کے حق سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیں جسے آپ نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا، سمجھا اور جان لیا ہو، تو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: اچھا میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جسے میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سنا، سمجھا اور جانا ہے، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ، میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور جب آپ کو کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور ا س وقت ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا آدمی یہاں نہ تھا۔ پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش آیا تو منہ صاف کر کے فرمایا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مقام پر مجھ سے بیان فرمایا اور اس وقت یہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا، پھر آپ سسکیاں لینے لگے یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر منہ کے بل جھک گئے۔ میں نے کافی دیر تک آپ کو سہارا دیا اور جب ہوش آیاتو فرمایا: رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف متوجہ ہو گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے، اس وقت تمام امتیں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوں گی اور سب سے پہلے 3 آدمیوں کو بلایا جائے گا۔ (1) جس نے قرآن یاد کیا ہو گا۔ (2) جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا گیا ہو گا۔ (3) زیادہ مالدار شخص۔ اللہ تعالیٰ اس قاری سے فرمائے گا ’’کیا میں نے تمہیں وہ کلام نہ سکھایا جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں رات دن ا س کی تلاوت کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (تلاوتِ قرآن سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں قاری ہے، تووہ تجھے کہہ دیا گیا (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں )۔ پھر دولت مند کو لایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا میں نے تجھے(مال میں ) اتنی وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں یا رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میری دی ہوئی دولت سے تو نے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں (اس کے ذریعے) قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا اور خیرات کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو (صلہ رحمی اور خیرات سے یہ) چاہتا تھا کہ کہا جائے: فلاں بڑا سخی ہے تو ایسا کہا جا چکا ہے (اب تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔پھر شہید کو لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تو کس لئے قتل ہوا؟ وہ عرض کرے گا: تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کرنے کا حکم دیا تو میں نے لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’تو جھوٹا ہے اور فرشتے بھی کہیں گے کہ تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’تیری جہاد کرنے سے نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں : فلاں بڑا بہادر ہے۔ تو یہ بات کہہ دی گئی (تو چلا جا!آج کے دن ہمارے پاس تیرے لئے کوئی شے نہیں ) ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرے زانو پر اپنا دستِ اقدس مارتے ہوئے فرمایا ’’اے ابو ہریرہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے انہی تین آدمیوں کے ذریعے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔‘‘
یہی حدیث جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا ’’ان تینوں کا یہ حشر ہے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا، پھر آپ بہت روئے یہاں تک کہ لوگوں نے خیال کیا کہ آپ جان دے دیں گے، پھر جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہوش آیا تو آپ نے چہرہ پونچھ کر کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سچ فرمایا
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ، ۴ / ۱۶۹، الحدیث: ۲۳۸۹، ابن عساکر، ذکر من اسمہ العلاء، العلاء بن الحارث بن عبد الوارث۔۔۔ الخ، ۴۷ / ۲۱۴)
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ:یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں۔} شانِ نزول : امام ضحاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہے کہ وہ اگر صلہ رحمی کریں یا محتاجوں کو دیں یا کسی پریشان حال کی مددکریں یا اس طرح کی کوئی اور نیکی کریں تو اللہ تعالیٰ وسعتِ رزق وغیرہ سے اُن کے عمل کی جزا دنیا ہی میں دے دیتا ہے اور آخرت میں اُن کے لئے کوئی حصہ نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ، منافقین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جہادوں میں مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لئے شامل ہوتے تھے کیونکہ وہ آخرت کے ثواب کا یقین نہ رکھتے تھے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۴۴-۳۴۵)
اعمال قبول ہونے کے لئے ایمان شرط ہے
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی رب تعالیٰ کے نزدیک قبول نہیں ،جیسے نماز کے لئے وضو شرطِ جواز ہے ایسے ہی اعمال کے لئے ایمان شرطِ قبول ہے۔
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةًؕ-اُولٰٓىٕكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖؕ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗۚ-فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُۗ-اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اللہ کی طرف سے اس پر ایک گواہ آئے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہوجو پیشوا اور رحمت ہے ۔ وہ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور تمام گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرے توآگ اس کا وعدہ ہے۔ تو اے سننے والے!تجھے اس کے بارے میں کوئی شک نہ ہو۔بیشک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ:تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو۔} اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا کہ جو اپنے اعمال کے بدلے دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتے ہیں اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے کہ جو اپنے اعمال کے بدلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۵) بعض مفسرین کے نزدیک روشن دلیل سے وہ دلیلِ عقلی مراد ہے جو اسلام کی حقانیت پر دلالت کرے اور اس شخص سے جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہووہ یہود ی مراد ہیں جو اسلام سے مشرف ہوئے، جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور گواہ سے مراد قر آنِ پاک ہے۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۹۲، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۳۲۹) اور بعض مفسرین کے نزدیک روشن دلیل سے مراد قرآن پاک اور’’اس شخص سے جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو‘‘ سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا اہلِ ایمان اور گواہ سے مراد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ (جلالین، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۸۱) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس روشن دلیل پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک گواہ بھی آئے اور اِس کی صحت کی گواہی دے کیا وہ اُس کی طرح ہو سکتا ہے جو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہو،ایسا نہیں ، ان دونوں میں عظیم فرق ہے۔ اور اس سے پہلے یعنی قرآن نازل ہونے اور رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمائے جانے سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب تورات ان کے لئے پیشوا اور رحمت تھی کہ وہ لوگ دینی اور شرعی معاملات میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے نیز تورات گمراہوں کوہدایت کی راہ دکھاتی تھی ، اور ان اَوصاف کے حامل افراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور یہودی ، عیسائی، مجوسی، بتوں کے پجاری وغیرہ تمام کفار اور دیگر اَدیان کو ماننے والوں میں سے جو کوئی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور قرآن پر ایمان نہ لائے گا تو آخرت میں آگ اس کا وعدہ ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۶، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۹۲-۴۹۳، ملتقطاً)
حدیث پاک میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا ’’اس کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جان ہے، اس اُمت میں جو کوئی بھی ہے یہودی ہو یا نصرانی جس کو بھی میری خبر پہنچے اور وہ میرے دین پر ایمان لائے بغیر مرجائے تووہ ضرور جہنمی ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبیّنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی جمیع الناس۔۔۔ الخ، ص۹۰، الحدیث: ۲۴۰(۱۵۳))
{فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ:تو اے سننے والے!تجھے اس کے بارے میں کوئی شک نہ ہو۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! اس دین کے صحیح ہونے اور قرآن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے بارے میں شک نہ کر، بیشک یہ تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ا س قرآن کی تصدیق نہیں کرتے ۔اس تفسیر کے مطابق آیت کے اس حصے کا تعلق ماقبل مذکور آیت نمبر 13’’ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ‘‘سے ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! تو اس بات میں شک نہ کر کہ دیگر اَدیان کو ماننے والوں میں سے جو کو ئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے گا تو آخرت میں اس کا وعدہ آگ ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ کفار کے لئے آگ کاوعدہ ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کے اس حصے کا تعلق اسی آیت کے اس حصے’’وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ‘‘ سے ہے۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۳۴۶)
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًاؕ-اُولٰٓىٕكَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ وَ یَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰۤؤُلَآءِ الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْۚ-اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہی دینے والے کہیں گے: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا۔ خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟} اِس آیت اور اِس کے بعد والی 4آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کی مذمت میں تقریباً 14 باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بت اُن کی شفاعت کریں گے اور یہ بت اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں نیز وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد بھی مانتے تھے اور یہ اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ اور اِفتراء تھا، اس لئے ان کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سے اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے؟ اور اس کے لئے شریک و اَولاد بتائے، یہ جھوٹ باندھنے والے لوگ جب قیامت کے دن ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور پیش کیے جائیں گے تو اُن سے اُن کے دنیوی اَعمال دریافت کئے جائیں گے ،انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ملائکہ عَلَیْہِمُ السَّلَام اُن کے خلاف گواہی دیں گے اورکہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ بولا تھا۔ خبردار! ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۳۳۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۴۶، ملتقطاً)
قیامت کے دن کافروں اور منافقوں کی رسوائی
اس سے معلوم ہوا کہ بروزِ قیامت کفار و منافقین کی بڑی رسوائی ہو گی، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت کفار اور منافقین کو تمام مخلوق کے سامنے کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ بولا تھا اور ظالموں پر خدا کی لعنت ہے،(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب قول اللہ تعالی: الا لعنۃ اللہ علی الظالمین، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۱، مسلم، کتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وان کثر قتلہ، ص۱۴۸۱، الحدیث: ۵۲(۲۷۶۷))اس طرح وہ تمام مخلوق کے سامنے رسوا کئے جائیں گے۔
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاؕ-وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرتے ہیں اور وہی لوگ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:وہ جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔} یعنی ان ظالموں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے اور حق کی پیروی کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسلام کے خلاف شکوک و شُبہات ڈالنے، صاف اور واضح دلائل میں ٹیڑھا پن تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۹، ۶ / ۳۳۲)
آیت’’اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ‘ کے مِصداق لوگ:
اس آیت میں وہ کفار و مشرکین بھی شامل ہیں جو ایمان کا سیدھا راستہ چھوڑ کر کفر والا ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں اور وہ مُرْتَدّین بھی شامل ہیں جو قرآن کی مَعنوی تحریف کر کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور عام مسلمانوں کے خلاف راستہ اختیار کرتے ہیں اور آیات کے وہ معنی کرتے ہیں جو متواتِر معانی کے خلاف ہیں اگر انہیں آخرت کا ڈر ہوتا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتے۔
اُولٰٓىٕكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَۘ-یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُؕ-مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہیں اوراللہ کے سوا ان کے کوئی مددگار بھی نہیں ہیں ۔ ان کے لئے عذاب کو کئی گنا بڑھا دیا جائے گا۔ وہ نہ تو سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ:وہ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں ہیں۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر عذاب کرنا چاہے تو وہ زمین میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو عاجز نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اُس کے قبضہ اور اُس کی ملک میں ہیں ،نہ اس سے بھاگ سکتے ہیں نہ بچ سکتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے سوا ان کے کوئی مددگار بھی نہیں ہیں کہ وہ اُن کی مدد کریں اور اُنہیں اس کے عذاب سے بچائیں۔ لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے روکنے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے کی وجہ سے ان کاعذاب کئی گنا بڑھا دیا جائے گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۳۴۷)
{مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ:وہ نہ تو سن سکتے تھے۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ حق سننے سے بہرے ہوگئے تو کوئی بھلائی کی بات سن کر نفع نہیں اُٹھاتے اور نہ وہ آیاتِ قدرت کو دیکھ کر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۰، ۲ / ۳۴۷)
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال دیا اور ان سے ان کے بہتان گم ہوگئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ:یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈال دیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے بدلے بتوں کی عبادت کواختیار کرلیا اور یہ سب سے بڑا خسارہ ہے۔ یہ دین کو دنیا کے بدلے میں بیچ کر خسارے میں پڑ گئے کیونکہ انہوں نے عزت والی چیز دے کر ذلت والی چیز کو اپنا لیا اور یہ دنیا کا خسارہ ہے اور آخرت کا خسارہ یہ ہو گا کہ وہ ذلت والی چیز بھی ہلاک ہو جائے گی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۱، ۶ / ۳۳۴)
لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ لوگ لازمی طور پر آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَا جَرَمَ:لازمی طور پر۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفارِ مکہ لازمی طور پر آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے کیونکہ عزت و رفعت عطا کرنے والا دین یعنی’’ اسلام‘‘ قبول کرنے پرآخرت میں انہیں جنت اور ا س کی دائمی نعمتیں حاصل ہوتیں لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے ذلت کی گہرائیوں میں پھینک دینے والی چیزیعنی ’’ بتوں کی عبادت‘‘ پر راضی ہو کر آخرت میں جنتی مَنازِل اور اس کی نعمتوں کو بیچ دیا اور ان کے عِوض آخرت میں جہنم کی منازل اور اس کے دائمی عذابات کو خرید لیا اس لئے وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے۔
آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا انتہائی نقصان دِہ ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اپنی اُخروی بھلائی اور بہتری کے مقابلے دنیا کی بھلائی اور بہتری کو ترجیح دینا انتہائی خسارے کا باعث ہے ا س لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی دنیا بہتر بنانے کے مقابلے میں اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی زیادہ کوشش کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر، یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کافر اور وہ معمولی سی دنیوی مَنفعت کے بدلے میں اپنا دین بیچ ڈالے گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی المبادرۃ بالاعمال قبل تظاہر الفتن، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۶(۱۱۸))
حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کہ ایک شخص نے عرض کی :یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے بڑا زاہد کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شخص سب سے بڑا زاہد ہے جو اپنی قبر کو اور اپنے فنا ہونے کو نہ بھولے، دنیا کی زیب و زینت کو چھوڑ دے،باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی پر ترجیح دے، اپنے آنے والے دن کو شمار نہ کرے اور خود کو مُردوں میں شمار کرے۔ (شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۰۵۶۵)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْۙ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اورانہوں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا تو یہی لوگ جنتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک جو ایمان لائے ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دنیوی حالات اور اُخروی خسارے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کے دنیوی حالات اور اخروی فوائد بیان فرمائے ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۳۴۷) اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لاتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کی ادائیگی کے وقت ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ’’ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب و عذاب کا جو بھی وعدہ فرمایا ہے اس کی سچائی پر ان کے دل مطمئن ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس بات سے ڈرتے رہے کہ کہیں ان کے اَعمال میں کوئی نَقص یا کمی نہ رہ گئی ہو۔ جن لوگوں میں یہ تین اَوصاف ہوں تو وہ جنتی ہیں اور وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۳۳۵)
اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی ترغیب:
ہمارے اَسلاف کا یہی حال تھا کہ وہ ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے کے باوجود ان میں نقص یا کمی رہ جانے سے ڈرتے تھے بلکہ وہ عظیم المرتبت صحابی جن کے عدل وانصاف اور بہترین حکمرانی پر تاریخِ اسلام کو ناز ہے اور جنہیں دنیا میں ہی مالکِ جنت ،قاسمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اَقدس سے جنت کی بشارت مل گئی یعنی سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وہ بھی اس معاملے میں خوفزدہ رہتے تھے، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور شہادت کا وقت قریب آیا توایک انصاری نوجوان حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہو کہ اسلام میں آپ کا جو مقام ہے وہ آپ جانتے ہیں ، پھر جب آپ خلیفہ بنائے گئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عدل وانصاف کیا اور اس کے بعد شہادت پائی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : اے بھتیجے! کاش مجھے برابری پر چھوڑ دیا جائے کہ نہ عذاب ہو نہ ثواب۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما، ۱ / ۴۶۹، الحدیث: ۱۳۹۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اَعمال کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
دونوں فریقوں کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔کیا ان دونوں کی حالت برابر ہے؟ تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے
تفسیر: صراط الجنان
{مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ:دونوں فریقوں کا حال ۔} اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کافر و مومن دو گروہوں کا ذکر فرمایا اب اس آیت میں ایک مثال بیان فرما کر ان کی مزید وضاحت فرما دی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں یعنی کافر اور مومن کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کافر اس کی مثل ہے جو نہ دیکھے نہ سنے اور یہ ناقص ہے، جبکہ مومن اس کی مثل ہے جو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے اوروہ کامل ہے اور حق و باطل میں امتیاز رکھتا ہے، اس لئے ہر گز ان دونوں کی حالت برابر نہیں۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۴، ۶ / ۳۳۵، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ٘-اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے فرمایا) میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ:اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔}اللہ تعالیٰ کا اپنی کتاب قرآنِ پاک میں یہ طریقہ ہے کہ جب کفار پر دلائل قائم فرمائے، انہیں عذاب سے ڈرائے ور ان کے لئے مثالیں بیان فرمائے تو اس کے بعد گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں کے بعض واقعات بھی بیان فرماتا ہے تاکہ یہ کسی طرح ہدایت حاصل کریں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سات واقعات بیان فرمائے ہیں۔ (1) حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (2) حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (3) حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (4) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرشتوں کے ساتھ واقعہ۔ (5) حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (6) حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (7) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرعون کے ساتھ واقعہ ۔ یہ تمام قصے زمانے کی ترتیب کے مطابق بیان فرمائے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۹۰۸) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم ! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا صریح ڈر سنانے والا ہوں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۴۸)
یاد رہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ سورۂ یونس میں گزر چکا ہے، اس سورت میں اس واقعے کو فوائد کے پیشِ نظر مزید تفصیلات کے ساتھ دوبارہ بیان فرمایا گیا۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۵، ۶ / ۳۳۶)
اَنْ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔بیشک میں تم پر ایک دردناک دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ:بیشک میں تم پر ایک دردناک دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت اوراس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتوں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دردناک دن کا عذاب نہ آ جائے۔ درد ناک دن سے مراد یا تو قیامت کا دن ہے یا طوفان آنے کا دن اور دن کو مجازی طور پر دردناک اس لئے فرمایا گیا کہ دردناک عذاب ا س دن نازل ہو گا۔(تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۲۷، ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۳، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۶ / ۳۳۶، ملتقطاً)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔ اس کے علاوہ عمر شریف کے متعلق اور بھی قول ہیں۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۴۸)
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِۚ-وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِیْنَ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اس کی قوم کے کافر سردار کہنے لگے : ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ہمارے سب سے کمینے لوگوں نے سرسری نظر دیکھ کر بغیر سوچے سمجھے کرلی ہے اور ہم تمہارے لئے اپنے اوپر کوئی فضیلت نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ:تو اس کی قوم کے کافر سردار کہنے لگے ۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی تو انہوں نے تین شُبہات وارد کر کے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں طعن کیا۔
(1)… حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہماری طرح بشر ہیں۔ اس گمراہی میں بہت سی اُمتیں مبتلا ہو کر اسلام سے محروم رہیں ، قرآنِ پاک میں جا بجا ان کے تذکرے ہیں ، اس اُمت میں بھی بہت سے بدنصیب نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے ادبی سے بشر کہتے اور ہمسری کا فاسد خیال رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی سے بچائے۔
(2)… حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی سب سے کمینے لوگوں نے غور وفکر کے بغیر کر لی ۔ کمینوں سے مراد اُن کی وہ لوگ تھے جو اُن کی نظر میں گھٹیا پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کا یہ قول خالصتاً جہالت پر مبنی تھا کیونکہ انسان کا حقیقی مرتبہ دین کی پیروی اور رسول کی فرمانبرداری سے ہے جبکہ مال و منصب اور پیشے کو اس میں دخل نہیں ، دیندار، نیک سیرت، پیشہ ور کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور حقیر جاننا جاہلانہ فعل ہے۔
(3)… ہم تمہارے لئے اپنے اوپر مال اور ریاست میں کوئی فضیلت نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں نبوت کے دعویٰ میں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو اس کی تصدیق میں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ان کا یہ قول بھی جہالت پر مبنی تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بندے کے لئے ایمان و طاعت فضیلت کا سبب ہے نہ کہ مال و ریاست۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ۶ / ۳۳۶، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۳۴۸، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۴۹۴، ملتقطاً)
نوٹ:ان شُبہات کا تفصیلی جواب آیت نمبر31میں مذکور ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہی سابقہ جاہلیت ہمارے زمانے میں بھی پائی جاتی ہے کہ گمراہ یا فاسق لوگ عموماً مالدار ہوتے ہیں جبکہ دیندار لوگ غریب اور پھر یہی فاسق و گمراہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْؕ-اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا: اے میری قوم!بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو پھر تم (خود ہی) اسے دیکھنے سے اندھے رہو تو کیا میں تمہیں اس (کوقبول کرنے) پر مجبور کروں حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!}جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوجھٹلایا تو آپ نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں ا پنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں یعنی حق پر ہوں اور مجھے اپنی حقانیت کا قطعی یقین ہو اور اپنی حقانیت کے دلائل بھی میرے پاس موجود ہوں نیز اللہ نے مجھے اپنے پاس سے نبوت عطا کی ہو جبکہ یہی حقیقت تم پر پوشیدہ ہو تو کیا میں تمہیں اپنی نبوت قبول کرنے اورا س پر ایمان لانے پر مجبور کروں حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اس کا انکار کرتے ہو۔ میں تمہیں قبول کروانے کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ مجھے تو صرف اس بات کی طاقت ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دوں۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۹۰۹)
وَ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًاؕ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ لٰـكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے قوم! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور میں مسلمانوں کو دور نہیں کروں گا بیشک یہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں تم لوگوں کو بالکل جاہل قوم سمجھتا ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ یٰقَوْمِ:اور اے قوم!} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’گویا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’تم میرے ظاہری حالات کی طرف دیکھتے ہو کہ میں مال و دولت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے تمہارا یہ گمان ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا یہ کام اس لئے شروع کیا ہے تاکہ اس پرتم سے مال و دولت حاصل کروں۔ تمہارا یہ گمان غلط ہے ،میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا ،میرا اجر تو اللہ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے، لہٰذا تم اس فاسد گمان کی وجہ سے اپنے آپ کو اُخروی سعادتوں کے حصول سے محروم نہ کرو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۲۹، ۶ / ۳۳۹)
{وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اور میں مسلمانوں کو دور نہیں کروں گا۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ آپ سے کہتے تھے کہ اے نوح! گھٹیا لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ ہمیں آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے شرم نہ آئے۔ اُن کی اس بات کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میں تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور نہیں کروں گا، کیونکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ یہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے والے ہیں اور اس کے قرب سے سرفراز ہوں گے تو میں اُنہیں کیسے نکال دوں ، ہاں اس کے برعکس میں تم لوگوں کو بالکل جاہل سمجھتا ہوں کیونکہ تم ایمانداروں کو گھٹیا کہتے ہو اور اُن کی قدر نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔
مالداروں کو قریب کرنا اور غریبوں کو دور کرنا درست نہیں
اس سے پیر صاحبان، علماء و خطباء کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کہ مالداروں کو اپنے قرب میں جگہ دینا، ان کی فرمائش پر فوراً ان کے گھر حاضر ہوجانا جبکہ غریبوں کو خود سے کچھ فاصلے پر رکھنا اور ان کی بار بار کی فریادوں کے باوجود بھی ان پر شفقت نہ کرنا درست نہیں اور نہ ہی ان حضرات کے شایانِ شان ہے۔ نیز مالداروں کیلئے بھی اس آیت میں عبرت ہے کہ دیندار غریبوں کو حقیر سمجھنا کفار کا طریقہ ہے جیسے غریب علماءِ کرام، طُلباءِ دین، مُبلِّغین وغیرہ کو مالدار، سیٹھ صاحبان دو کوڑی کی عزت دینے کو تیار نہیں ہوتے ، چندہ بھی دینا ہو تو دس چکر لگوا کر دیں گے اور ماتھے پر تیوری چڑھا کر دیں گے اور دینے کے بعد انہیں اپنا نوکر سمجھیں گے۔
وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کردوں تو مجھے اللہ سے کون بچائے گا ؟ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ عقل اور شریعت ا س بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم کرنا جبکہ فاسق و فاجر اور کافر کی توہین کرنا ضروری ہے اور اس کے برخلاف کرنا یعنی فاسق و فاجر اور کافر کو تعظیم کے طور پر قربت سے نوازنا اور نیک ،متقی، پرہیز گار مسلمانوں کو ان کی توہین کے طور پر اپنے آپ سے دور کر دینا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جب ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ جواب دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بفرضِ محال اگر میں شریعت کے حکم کے برخلاف کافر اور فاجر کی تعظیم کر کے اسے اپنی بارگاہ میں قرب سے نوازوں اور متقی مومن کی توہین کر کے اسے اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور اس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حق دار ٹھہروں گا، مجھے بتاؤ! پھر اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچائے گا؟ تو کیا تم اس بات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ایسا کرنا درست نہیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۳۳۹-۳۴۰)
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًاؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْۚۖ-اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں خود ہی غیب جان لیتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں ان غریب مسلمانوں کے بارے میں جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہرگز انہیں کوئی بھلائی نہیں دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے ۔اگر میں ایسی بات کہوں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ:اور میں تم سے نہیں کہتا ۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ کی نبوت میں تین شُبہات وارد کئے تھے۔
ایک شُبہ تو یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ‘‘ ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں ہو، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ‘‘ یعنی میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بالکل بے محل ہے کیونکہ میں نے کبھی مال کی فضیلت جتائی ہے اور نہ دنیوی دولت کی توقع رکھنے کا تمہیں کہا ہے اور اپنی دعوت کو مال کے ساتھ وابستہ بھی نہیں کیا پھر تم یہ کہنے کے کیسے مستحق ہو کہ ہم تم میں کوئی مالی فضیلت نہیں پاتے ،تمہارا یہ اعتراض محض بے ہودہ ہے۔
دوسرا شبہ یہ تھا ’’ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ‘‘ یعنی ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری کسی نے پیروی کی ہو، مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے ۔مطلب یہ تھا کہ وہ بھی صرف ظاہر میں مومن ہیں باطن میں نہیں ، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ میں غیب جانتا ہوں اور میرے اَحکام غیب پر مبنی ہیں تاکہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا، جب میں نے یہ کہا ہی نہیں تو اعتراض بے محل ہے اور شریعت میں ظاہر ہی کا اعتبار ہے لہٰذا تمہارا اعتراض بالکل بے جا ہے ،نیز ’’لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ فرمانے میں قوم پر ایک لطیف اعتراض بھی ہے کہ کسی کے باطن پر حکم کرنا اس کا کام ہے جو غیب کا علم رکھتا ہو جبکہ میں نے اس کا دعویٰ نہیں کیا حالانکہ میں نبی ہوں تو تم کس طرح کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔
تیسرا شبہ اس قوم کا یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا‘‘ یعنی ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں۔اس کے جواب میں فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی میں نے اپنی دعوت کو اپنے فرشتہ ہونے پر موقوف نہیں کیا تھا کہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا کہ دعویٰ تو فرشتہ ہونے کا کیا تھا لیکن نکلے بشر، لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، ملخصاً)
{ وَ لَاۤ اَقُوْلُ: اور میں یہ نہیں کہتا۔} کفار نے چونکہ غریب مسلمانوں کو حقیر سمجھا تھا اس پر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’ میں ان غریب مسلمانوں کے بارے میں جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں یہ حکم نہیں لگاتا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں دنیا و آخرت میں کوئی بھلائی نہ دے گا۔ نیکی یا بدی اِخلاص یا نفاق جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ اگر میں اُن کے ظاہری ایمان کو جھٹلا کر اُن کے باطن پر الزام لگائوں اور انہیں نکال دوں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں گا اوربِحَمْدِاللہ میں ظالموں میں سے ہر گز نہیں ہوں تو ایسا کبھی نہ کروں گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۴۹۵، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کسی دلیل کے بغیر منافق یا کافر کہنے والا ظالم ہے کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہے۔
قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: اے نوح! تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت زیادہ جھگڑا کرلیا ہے تو اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی وعیدیں تم ہمیں دیتے رہتے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا یٰنُوْحُ:انہوں نے کہا: اے نوح!} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کفار کی طرف سے پیش کئے گئے شُبہات کے جوابات ذکر فرمائے اور کفار نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جوابات پر دو اعتراض کئے، ان کا ذکر ا س آیت میں ہے۔
پہلا اعتراض: کفار نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جوابات کو بکثرت بحث اور جھگڑا کرنے سے تعبیر کیا اور کہا کہ اے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت ہی زیادہ جھگڑا کرلیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفارکے ساتھ بہت زیادہ بحث فرمائی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بحث اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اپنی نبوت اور آخرت کو ثابت کرنے کے لئے تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق کو ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کرنا اور شبہات کا اِزالہ کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے جبکہ دلائل کے مقابلے میں اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید کرنا، جہالت اور گمراہی پر اِصرار کرنا کفار کا طریقہ ہے۔
دوسرا اعتراض: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی تھی ، انہوں نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس عذاب کے جلدی نازل ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا ’’اگر تم سچے ہو تو اب وہ عذاب لے آؤ جس کی وعیدیں تم ہمیں دیتے رہتے ہو۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۳۴۱)حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے کفار کے ان اعتراضات کا جواب اگلی آیت میں مذکور ہے۔
قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔( نوح نے) فرمایا: وہ عذاب تمہارے اوپر اللہ ہی لائے گا اگر وہ چاہے گا اور تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکوگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} کفار کے اعتراضات کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’تم پر عذاب نازل کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ،وہ جب چاہے گا ا س عذاب کو تم پر نازل کر دے گا اور جب اس نے عذاب نازل کرنے کا ارادہ فرمالیا تو تم اُس عذاب کو روک سکو گے اورنہ اُس سے بچ سکو گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر یا بد عملی پر عذاب آنا ضروری نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۳، ۶ / ۳۴۱، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴ / ۱۲۰، ملتقطاً)
وَ لَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْؕ-هُوَ رَبُّكُمْ- وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَﭤ(34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر میں تمہاری خیرخواہی کرنا چاہوں تو تب بھی میری نصیحت تمہیں نفع نہیں دے گی اگر اللہ تمہیں گمراہ کرنا چاہتا ہو۔ وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ:اگر میں تمہاری خیرخواہی کرنا چاہوں۔} حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ یُغْوِیَكُمْ‘‘ کا معنی ہے اللہ تمہیں عذاب دینا چاہے ،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوا کہ جس دن تم پر عذاب نازل ہوا اور تم وہ عذاب دیکھ کر ایمان لائے تو اس دن میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی کیونکہ عذاب نازل ہوتے وقت کا ایمان قبول نہیں۔ میری نصیحت تمہیں اس وقت فائدہ دے گی جب تم عذاب کا مُشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لے آؤ۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۴۲) دوسرا معنی مَشِیَّتِ الٰہی کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے جو آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
{هُوَ رَبُّكُمْ- وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ:وہ تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔} یعنی تمہارا خدا وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہاری پرورش کی۔ وہ تمہاری موت سے پہلے اور موت کے بعد دونوں حالتوں میں تمہاری ذات اور صِفات میں تَصَرُّف کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتا ہے اور مرنے کے بعد تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرانے میں انتہائی مفید ہے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۴۳)
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ اس نے خود ہی بنالیا ہے ۔ تم فرماؤ: اگر میں نے بنا (بھی) لیا ہو تو میرا جرم صرف مجھ پر ہے اور میں تمہارے جرم سے بیزار ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا یہ کہتے ہیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو بات حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ انہوں نے اپنے پاس سے ہی بنا لی ہے۔تواے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،تم ان سے فرما دو کہ بالفرض اگر میں نے اپنے پا س سے بنا لی ہے تو مجھے ، میرے گناہ کی سزا ملے گی (لیکن حقیقت یہ ہے کہ) تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔(تفسیر ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۸-۲۹) اس تفسیر کے مطابق اس آیت کا تعلق حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے ساتھ ہی ہے ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کیا کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ قرآن خود ہی بنا لیا اور یہ کہہ کر کفاراسےاللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ماننے اور اس کے اَحکام ماننے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے ہیں اور اُن کی طرف اِفتراء کی نسبت کرتے ہیں جن کی سچائی روشن دلائل اور مضبوط حجتوں سے ثابت ہو چکی ہے،لہٰذا اب اُن سے فرما دو کہ اگر بالفرض میں نے بنا بھی لیا ہو تو میرا جرم صرف مجھ پر ہے، جس کا وبال ضرور آئے گالیکن بِحَمْدِاللہِ میں سچا ہوں تو تم سمجھ لو کہ تمہاری تکذیب کا وبال تم پر پڑے گا اور تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۳۵۰، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۹۶، ملتقطاً)
تفسیرِ جمل میں ہے کہ اس صورت میں یہ آیت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قصے کے دوران ا س لئے ذکر کی گئی ہے تاکہ سننے والوں کا نَشاط برقرار رہے۔ (جمل، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۲۹)
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تمہاری قوم میں سے مسلمان ہوجانے والوں کے علاوہ کوئی اور (اب) مسلمان نہیں ہوگاتو تم اس پر غم نہ کھاؤ جو یہ کررہے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ:اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی۔} اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ خبر دی گئی ہے کہ ان کی قوم کے جو لوگ کفر پر اَڑے ہوئے ہیں ان کا ایمان قبول کرنا محال ہے لہٰذا ان کے ایمان قبول کرنے کی توقع نہ رکھیں۔ آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے جن لوگوں سے ایمان قبول کرنے کی توقع تھی وہ تو ایمان قبول کر چکے ، ان کے علاوہ جو لوگ اپنے کفر پر ہی قائم ہیں وہ اب کسی صورت ایمان قبول نہیں کریں گے لہٰذا اس طویل مدت کے دوران کفار کی طرف سے آپ کو جس تکذیب، اِستہزاء اور اَذِیَّت کا سامنا ہوا اس پر غم نہ کرو ، ان کفارکے کرتوت ختم ہو گئے اور اب ان سے انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔(ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۹) ایمان لانے والے حضرات کی تعداد مفسرین کے بیان کے مطابق تقریباً اسی(80) تھی۔
وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ اور (اب) ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا۔ بیشک انہیں ضرور غرق کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا: اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ۔} جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بتا دیا کہ ان کی قوم میں سے پہلے مسلمان ہوجانے والوں کے علاوہ کوئی اور اب مسلمان نہیں ہوگا تو ا س کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو عذاب دینے والا ہے اور چونکہ عذاب کئی طریقوں سے آ سکتا تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بتا دیا کہ وہ عذاب ڈبو دئیے جانے کی صورت میں ہو گا اور ڈوبنے سے نجات کی صورت صرف کشتی کے ذریعے ممکن تھی ا س لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہماری حفاظت میں اور ہماری تعلیم سے کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے اُن کی شفاعت اور ان سے عذاب دور ہو جانے کی دعا نہ کرنا کیونکہ غرق ہونا اِن کا مقدرہوچکا ہے۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ۶ / ۳۴۴، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۹۶، ملتقطاً)
مروی ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ساج کے درخت بوئے ،بیس سال میں یہ درخت تیار ہوئے، اس عرصہ میں مُطْلَقاً کوئی بچہ پیدا نہ ہوا ، اس سے پہلے جو بچے پیدا ہوچکے تھے وہ بالغ ہوگئے اور اُنہوں نے بھی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی بنانے میں مشغول ہوگئے۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۱۲۳)
وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَﭤ(38)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نوح کشتی بناتے رہے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جب کبھی کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا۔ (نوح نے)فرمایا: اگر تم ہمارے اوپر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم بھی تم پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسے تم ہنستے ہو۔ تو عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و رسوا کردے گا اور کس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب اترتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ:اور نوح کشتی بناتے رہے۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی بناتے رہے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جب کبھی کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو ان کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ اے نوح !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، کیا کررہے ہو؟ آپ فرماتے’’ ایسا مکان بنا رہا ہوں جو پانی پر چلے ۔یہ سن کر وہ ہنستے کیونکہ آپ کشتی جنگل میں بنا رہے تھے جہاں دور دور تک پانی نہ تھا اور وہ لوگ مذاق کے طور پر یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے تو آپ نبی تھے اب بڑھئی ہوگئے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا اگر تم ہمارے او پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم بھی تمہیں ہلاک ہوتا دیکھ کر تم پر ایسے ہی ہنسیں گے جیسے تم کشتی دیکھ کر ہنس رہے ہو۔ مروی ہے کہ یہ کشتی دو سال میں تیار ہوئی اس کی لمبائی تین سو گز چوڑائی پچاس گز اُونچائی تیس گز تھی، اس میں اور بھی اَقوال ہیں۔ اس کشتی میں تین درجے بنائے گئے تھے۔ نیچے والے درجے میں جنگلی جانور ، درندے اور حَشراتُ الارض تھے اور درمیانی درجے میں چوپائے وغیرہ اور اوپر والے درجے میں خود حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کے ساتھی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسد مبارک جوعورتوں اور مَردوں کے درمیان حائل تھا اور کھانے وغیرہ کا سامان تھا، پرندے بھی اُوپر والے درجہ میں ہی تھے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۳۵۱، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۴۹۶، ملتقطاً)
{فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ:تو عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا ۔} اس آیت میں پہلے عذاب سے دنیا میں غرق ہونے کا عذاب مراد ہے اور دوسرے عذاب سے مراد آخرت میں جہنم کا عذاب ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۹، ۲ / ۳۵۱)
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَؕ-وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور اُبلنے لگا تو ہم نے فرمایا: ہر جنس میں سے (نر اور مادہ کا) ایک ایک جوڑا اور جن پر ( عذاب کی ) بات پہلے طے ہوچکی ہے ان کے سوا اپنے گھروالوں کو اور اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا :یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی بنانے میں مصروف رہے یہاں تک کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا ،اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تنور میں سے پانی جوش مارتا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ عذاب نازل ہونے کا وقت آ پہنچا ،چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس علامت کو ملاحظہ فرمایا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گئے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۴۷، ملخصاً) بعض مفسرین کے نزدیک اس تنور سے روئے زمین مراد ہے اورایک قول یہ ہے کہ اس سے یہی تنور مراد ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے ،نیزاس تنور کے بارے میں بھی چند قول ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ وہ تنور پتھر کا تھا اور حضرت حَوّا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے ترکے میں سے آپ کو پہنچا تھا ۔ وہ تنور شام میں موجود تھا یا ہند میں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۳۵۱-۳۵۲، ملخصاً)
{مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ:ہر جنس میں سے (نر اور مادہ کا) ایک ایک جوڑا۔} جب تنور میں سے پانی نے جوش مارا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تین طرح کی چیزیں کشتی میں سوار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
(1)…ہر جنس میں سے نر اور مادہ کا ایک ایک جوڑا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے ساتھ ان تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لیا جو بچے جنتے ہوں یا انڈے دیتے ہوں ، البتہ جو مٹی سے پیدا ہوتے ہیں جیسے مچھر وغیرہ ان میں سے کسی کو سوار نہ کیا۔‘‘ جانور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آتے تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دایاں ہاتھ نرپر اور بایاں مادہ پر پڑتا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سوار کرتے جاتے تھے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ سانپ اور بچھو نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ سوار کر لیں۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: تمہاری وجہ سے ہم کہیں مصیبت کا شکار نہ ہوجائیں ا س لئے میں تمہیں سوار نہیں کروں گا۔ انہوں نے عرض کی: آپ ہمیں سوار کر لیں ،ہم آپ کو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ جو آپ کا ذکر کرے گا ہم اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔لہٰذا جسے سانپ اور بچھو سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو وہ یہ آیت پڑھ لے
’’ سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (الصافات: ۷۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
تمام جہان والوں میں نوح پر سلام ہو۔
اسے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سانپ اور بچھو سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
(2)…حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اہلِ خانہ، یہ کل سات افراد تھے، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ان کے تین بیٹے سام، حام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں۔ جن پر بات پہلے طے ہو چکی، ان سے مراد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی واعلہ ہے جو ایمان نہ لائی تھی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان ہے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی ہلاکت کا بھی فیصلہ فرما دیا۔
(3)…وہ لوگ جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے۔یہ کل 80اَفراد تھے۔ ان کی تعداد کے بارے میں اور بھی اَقوال ہیں ،صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ اُن کی تعداد کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے ۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۹۱۲-۹۱۳، تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ( نوح نے) فرمایا: اس میں سوار ہو جاؤ۔ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام پر ہے۔ بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ ہی کے نام پر۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے جن اَصحاب کو کشتی میں سوار کیا ان سے فرمایا: تم کشتی میں سوار ہو جاؤ، اس کا چلنا اور اس کاٹھہرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے نام پر ہے۔ حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چاہتے تھے کہ کشتی چلے تو بِسْمِ اللہ فرماتے توکشتی چلنے لگتی تھی اور جب چاہتے تھے کہ ٹھہر جائے بِسْمِ اللہ فرماتے تو ٹھہر جاتی تھی۔ اس آیت میں یہ تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے جب کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرے تاکہ اس کام میں برکت ہو اور وہ کامیابی کے حصول کا سبب ہو۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۳۵۳)
کشتی میں سوار ہونے کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ،میری امت میں سے جو شخص کشتی میں سوار ہوتے وقت یہ پڑھ لے تو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گا’’ بِسْمِ اللہِ الْمَلِکِ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﳓ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِهٖؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۶۷)بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۹، الحدیث: ۶۱۳۶)
وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ- وَ نَادٰى نُوْحُ-ﰳابْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے کر چل رہی تھی اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس (کشتی) سے (باہر) ایک کنارے پر تھا : اے میرے بیٹے! تو ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ:اور وہ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لے کر چل رہی تھی۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہو اتوچالیس دن اور رات آسمان سے بارش برستی رہی اور زمین سے پانی اُبلتا رہا ۔ پانی پہاڑوں سے اونچا ہو گیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی اور ہوا اس شدت سے چل رہی تھی کہ اس کی وجہ سے پہاڑوں کی مانند اونچی لہریں بلند ہو رہی تھیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۳۵۳، ملخصاً)
نوٹ:اس واقعے کی مزید تفصیل سورۂ قمر کی آیت نمبر 11تا 15 میں ہے۔
{وَ نَادٰى نُوْحُ ﰳابْنَهٗ:اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا ۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان ا س کشتی سے باہر ایک کنارے پر تھا، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اسے پکارا: اے میرے بیٹے! تو ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور سواری سے محروم رہنے والے کافروں کے ساتھ نہ ہو۔ علماء فرماتے ہیں کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان منافق تھا،اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا اور اپنے کفر کو چھپاتا تھا ،جب طوفان آیا تو اس نے اپنا باطنی کفر ظاہر کر دیا۔ (جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۹۱۴)
قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِؕ-قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَۚ-وَ حَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیٹے نے کہا: میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔ (نوح نے) فرمایا: آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر (وہی بچے گا) جس پر وہ رحم فرمادے اور ان کے درمیان میں لہرحائل ہوگئی تو وہ بھی غرق کئے جانے والوں میں سے ہوگیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ:اس نے کہا:میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں۔} حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پکار سن کر کنعان نے کشتی میں سوار ہونے کی بجائے یہ جواب دیا کہ میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا’’آج کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں لیکن جس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ رحم فرمادے تو وہ ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔پھر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بیٹے کنعان کے درمیان ایک لہرحائل ہوگئی تو کنعان بھی غرق کئے جانے والوں میں سے ہوگیا۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۳۵۳)
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوگیا اور وہ کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہرگئی اور فرما دیا گیا: ظالموں کے لئے دوری ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قِیْلَ:اور حکم فرمایا گیا۔} جب طوفان اپنی اِنتہا پر پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو غرق کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو حکم فرمایاگیا کہ اے زمین!اپنا پانی نگل جا اور آسمان کو حکم فرمایا گیا کہ اے آسمان! تھم جا۔ پھر پانی خشک کردیا گیا اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ہلاکت کا کام پورا ہوگیا۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کشتی چھ مہینے زمین میں گھوم کر جودی پہاڑ پر ٹھہرگئی ، یہ پہاڑ موصل یا شام کی حدود میں واقع ہے، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی میں دسویں رجب کو بیٹھے اور دسویں محرم کو کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے شکر کا روزہ رکھا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۴، ۲ / ۳۵۳-۳۵۴)
عاشورہ کے روزے کی فضیلت
دس محرم یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھنا سنت ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عاشورا کو روزہ خود رکھا اور ا س کے رکھنے کاحکم فرمایا۔(مسلم، کتاب الصیام، باب ایّ یوم یصام فی عاشوراء، ص۵۷۳، الحدیث: ۱۳۳(۱۱۳۴)) اور ا س کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کلّ شہر۔۔۔ الخ، ص۵۸۹، الحدیث: ۱۹۶(۱۱۶۲))
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا تو عرض کی: اے میرے رب! میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ:اور نوح نے اپنے رب کو پکارا۔} جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بیٹے کنعان کے درمیان لہر حائل ہوئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی نجات طلب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تو نے مجھ سے میری اور میرے گھر والوں کی نجات کا وعدہ فرمایا ہے۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور اس وعدے کے پورا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بے شک توسب حاکموں سے بڑھ کر جاننے والا اور سب سے زیادہ عدل فرمانے والا ہے۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۴۵، ۴ / ۱۳۸)
شیخ ابومنصور ماتریدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بیٹا کنعان منافق تھا اور آپ کے سامنے اپنے آپ کو مؤمن ظاہر کرتا تھا اگر وہ اپنا کفر ظاہر کردیتا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ سے اس کی نجات کی دعا نہ کرتے۔ (تاویلات اہل السنہ، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۵۲۹)
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﲦ فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(46)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (اللہ نے) فرمایا: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں ، بیشک اس کا عمل اچھا نہیں ، پس تم مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں ۔ میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جو جانتے نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ:بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں تھا۔} اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والوں میں سے ہر گز نہ تھا یا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ان گھر والوں میں سے نہ تھا جن کی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ نجات کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔
نجات کے لئے صرف نسبی قرابت کا اعتبار نہیں
اس آیت سے ثابت ہو اکہ نجات کیلئے صرف نسبی قرابت کا اعتبار نہیں بلکہ اس کیلئے ایمان شرط ہے جیسے کنعان کو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبی قرابت تو بدرجہ اَولیٰ حاصل تھی لیکن چونکہ دینی قرابت یعنی ایمان حاصل نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قرابت کی نفی فرما دی۔
{اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ:بیشک اس کا عمل اچھا نہیں تھا ۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوال کے بارے میں کلام ہے۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’اے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ نے جو سوال کیا وہ قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کے حق میں شفاعت قبول فرماتا ہے لہٰذا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کرنا درست نہیں۔
تنبیہ: یاد رہے کہ اس سوال سے منصبِ نبوت میں کوئی حَرج واقع نہیں ہوتا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے بیٹے کے اظہار ِاسلام کی وجہ سے اسے مسلمان سمجھتے تھے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ظاہر پر ہی حکم لگاتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کے بارے میں کلا م ہے، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کے عمل اچھے نہ تھے وہ شرک کرتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا تھا۔ دوسرا قول راجح اپنے بیٹے کے اظہار ِاسلام کی وجہ سے اسے مسلمان سمجھتے تھے اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ظاہر پر ہی حکم لگاتے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کے بارے میں کلا م ہے، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے کے عمل اچھے نہ تھے وہ شرک کرتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا تھا۔ دوسرا قول راجح ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۹۱۵، تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۶ / ۳۵۷، ملتقطاً)
{فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ:پس تم مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں۔} یعنی جس بات کے درست یا غلط ہونے کا آپ کو علم نہیں ا س بات کا مجھ سے سوال نہ کرو، میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے نہ ہونا جونہیں جانتے۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے گئے اس کلام میں نرمی و شفقت کا اِظہار ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کا مقام بہت بلند ہے، اس لئے آپ کی شان کے لائق یہ بات ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صرف اسی کی نجات کا مطالبہ اور شفاعت فرمائیں جس کے بارے میں نجات کی امید ہے، وہ لوگ جن کے بارے میں آپ نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی یا نہیں تو ان کی نجات کے بارے میں آپ کا سوال کرنا آپ کے مقام و مرتبہ کے لائق نہیں۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۹۱۶)
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْــٴَـلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌؕ-وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَ تَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
عرض کی: اے میرے رب ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ:عرض کی: اے میرے رب !میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔} جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تربیت ہوئی تو آپ نے عرض کی :اے میرے رب ! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ اسے حاصل کرنا حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں اور اگر تو نے میرے اُس سوال پر میری مغفرت نہ فرمائی اور میری عرض قبول فرما کر میرے اوپر رحم نہ فرمایا تو میرا شمار بھی نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائے گا۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۴ / ۱۳۹-۱۴۰)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں
اس آیت میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ رضا بالقضاء پر فائز ہونے کا بڑا پیارا اِظہار ہے کہ سگا بیٹا نگاہوں کے سامنے ہلاک ہوا اور وعدہ ِ الٰہی کے پیشِ نظر دعا فرمائی لیکن حقیقتِ حال معلوم ہونے اور اللہ تعالیٰ کے تنبیہ فرمانے سے فورا ًعاجزی کے ساتھ اپنی مغفرت اور رحمِ الٰہی کی دعا مانگنا شروع کردی۔ سُبْحَانَ اللہ، سُبْحَانَ اللہ۔ اے اللہ! حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقے ہمیں بھی تیری قضاپر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اُ س چیز کا مطالبہ کر کے جس کے بارے میں وہ جانتے نہ تھے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا کیونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اپنے بیٹے کی نجات کا سوال کیا ا س کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان کے گھر والوں کو نجات عطا فرمائے گا، اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ سمجھا کہ ان کابیٹا بھی چونکہ ان کے گھر والوں میں سے ہے اس لئے یہ بھی ان نجات پانے والوں میں شامل ہے، جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تربیت فرمائی تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے فعل پر دل میں ندامت محسوس ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا سوال کیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا درخت سے کھانے والا معاملہ اوریہ گناہ نہیں بلکہ ان کا تعلق حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقرَّبِیْنَ(نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں )سے ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۹۱۶)
قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَؕ-وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے اس سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ کشتی سے اتر و جو تم پر اور تمہارے ساتھیوں کی جماعتوں پر ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی ہیں جنہیں ہم فائدے دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قِیْلَ:فرمایا گیا۔} آیت میں مذکور سلامتی میں قیامت تک آنے والا ہر مومن مرد اور عورت داخل ہے اور برکتوں سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذُرِّیَّت اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے والوں کی کثرت مراد ہے کہ بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ائمۂ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ آپ کی نسلِ پاک سے ہوئے۔یہاں جو فرمایا گیا کہ ’’ یہ بَرکات جو تم پر اور تمہارے ساتھیوں کی جماعتوں پر ہیں ‘‘ اس کے متعلق حضر ت محمد بن کعب قُرظی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ان جماعتوں میں قیامت تک ہونے والا ہر ایک مومن داخل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۱۶، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۳۵۵، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ص ۵۰۱، ملتقطاً)
{وَ اُمَمٌ:اور کچھ جماعتیں۔} اس سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد پیدا ہونے والے کافر گروہ مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی مقررہ مدتوں تک فراخیِ عیش اور وُسعتِ رزق عطا فرمائے گا پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں دردناک عذاب پہنچے گا۔ اس میں قیامت تک آنے والا ہر کافر مرد اور کافرہ عورت داخل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۱۶-۹۱۷)تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَۚ-مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ﳍ فَاصْبِرْ ﳍ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔ اس سے پہلے نہ تم انہیں جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم جانتی تھی تو تم صبر کرو بیشک اچھا انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
} تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں۔{ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کے جس واقعے کی ہم نے آپ کو خبر دی یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ آپ پر قرآن نازل ہونے سے پہلے آپ اور آپ کی قوم ان غیبی خبروں کو تفصیل سے نہیں جانتی تھی لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جس طرح حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کی اذیتوں پر صبر کیا اسی طرح آپ بھی اپنی قوم کے مشرکین کی اذیتوں پر صبر کریں ، بے شک اچھا انجام یعنی دشمنوں کے خلاف مدد، فتح اور اُخروی سعادتوں کے حصول کے ذریعے کامیابی ایمان والوں کے لئے ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۳۵۶-۳۵۷)
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ(50)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔ فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تم تو صرف بہتان لگانے والے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا:اور عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔} اس سورت میں بیان کئے گئے واقعات میں سے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قومِ عاد کا بھائی فرمایا ، اس سے مراد دینی بھائی نہیں بلکہ نسب کے اعتبار سے بھائی ہونا مراد ہے کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تعلق قبیلہ ِعاد سے تھا، یہ عرب کا قبیلہ تھا اور یمن کے قریب ان کی رہائش تھی۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۶ / ۳۶۲)
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرو اور عبادت کرنے میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، تمہارا معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، یہ بت جن کی تم پوجا کر رہے ہو تمہارے معبود ہر گز نہیں کیونکہ یہ تو پتھر کے ہیں اور کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ تمہارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک ہیں اور تم ان شریکوں کی عبادت کرتے ہو ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۳۵۷، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۹۱۷، ملتقطاً)
یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاؕ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى الَّذِیْ فَطَرَنِیْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میری قوم! میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ۔تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{یٰقَوْمِ:اے میری قوم!۔} یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے اَحکامات کی تبلیغ کرنے سے میرا مقصد یہ نہیں کہ تم میرے اس عمل کی وجہ سے مجھے مال وغیرہ کوئی اجرت دو ،میرا اجرو ثواب تو اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ جو محض بے غرض نصیحت کرتا ہے وہ یقیناً خیر خواہ اور سچا ہے ۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۹۱۷، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۱۴۶، ملتقطاً)
تبلیغ کے کام کسی لالچ کے بغیر کئے جائیں
یاد رہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےکسی لالچ کے بغیر دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی فرمایا کہ تبلیغ سے ان کا مقصد مال یا کوئی منصب حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ صرف اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کی طرف سے ملنے والے اجر و ثواب کے طلبگار ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ خالص نصیحت وہ ہوتی ہے جو کسی لالچ اور غرض کے بغیر ہو اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہو ،اس لئے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ کسی لالچ کے بغیر تبلیغِ دین کا فریضہ ادا کریں اور حتی الامکان کسی اجرت کے بغیر تبلیغ کے کام کریں۔
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو تووہ تم پرموسلا دھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا اور تم مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} جب قومِ عاد نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت قبول نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے کفر کے سبب تین سال تک بارش مَوقوف کردی اور نہایت شدیدقحط نمودار ہوا اور اُن کی عورتوں کوبانجھ کردیا ، جب یہ لوگ بہت پریشان ہوئے تو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وعدہ فرمایا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول کی تصدیق کریں اور اس کے حضور توبہ و اِستغفار کریں تو اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا اور اُن کی زمینوں کو سرسبز و شاداب کرکے تازہ زندگی عطا فرمائے گااور قوت و اَولاد دے گا۔
استغفار کی برکت
حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اولاد دے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ اِستغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے دس بیٹے ہوئے، جب یہ بات حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہاں سے فرمایا۔ دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا ’’ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ‘‘ (اللہ تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا)اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ارشاد نہیں سنا ’’یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ‘‘(اللہ مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا) (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)یعنی کثرتِ رزق اور حصولِ اولاد کے لئے اِستغفار کا بکثرت پڑھنا قرآنی عمل ہے۔
قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر نہیں آئے اور ہم صرف تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی تمہاری بات پر یقین کرنے والے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا یٰهُوْدُ:انہوں نے کہا: اے ہود!} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے مذاق اڑاتے ہوئے اور عناد کے طور پر یہ جواب دیا کہ اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر نہیں آئی جو تمہارے دعوے کی صحت پر دلالت کرتی ۔ یہ بات اُنہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جو معجزات دکھائے تھے وہ ان سب سے مکر گئے تھے۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۲۳۹-۲۴۰)
{وَ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا:اور ہم اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔} کفار اِس بات کا اِعتراف کرتے تھے کہ نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے جبکہ اس کے برعکس بت کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے،اس کے باوجود انہوں نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ کہاکہ ہم آپ کی بات کی وجہ سے اپنے بتوں کی عبادت کرنا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہماری عقل اور ہمارا دل حکم دے گا تو چھوڑیں گے۔ان کی یہ بات اورمزید ان کا یہ کہنا’’ اور نہ ہی تمہاری بات پر یقین کریں گے‘‘ بھی ان کے کفر پر اِصرار،اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید اور حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب پر دلالت کرتا ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۳۶۴)
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(54)مِنْ دُوْنِهٖ فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم توصرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تم پر کوئی برائی پہنچا دی ہے۔ (ہود نے) فرمایا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم سب (بھی) گواہ ہوجاؤ کہ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کے سوا اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ تم سب مل کر میرے اوپر داؤ چلاؤ پھر مجھے مہلت نہ دو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ نَّقُوْلُ:ہم توصرف یہ کہتے ہیں۔} حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے کہا: ’’ بے شک اے ہود! تم جو ہماری مخالفت کر رہے ہو اور ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو اسی وجہ سے ان بتوں نے تم سے اِنتقام لیتے ہوئے تمہیں دیوانہ کردیا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اب جو کچھ کہتے ہو یہ سب دیوانگی کی باتیں ہیں۔( مَعَاذَاللہ) حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جواب دیا: ’’میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں اور تم سب بھی میری اس بات پر گواہ ہو جاؤ کہ میں ان سب بتوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہراتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۳۵۷-۳۵۸)
{فَكِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا:تم سب مل کر میرے اوپر داؤ چلاؤ ۔} یعنی تم اور وہ بت جنہیں تم معبود سمجھتے ہو سب مل کر مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرو ، پھر مجھے مہلت نہ دو مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی اور تمہاری مَکاریوں کی کچھ پروا نہیں اور مجھے تمہاری شوکت و قوت سے کچھ اندیشہ نہیں کیونکہ جنہیں تم معبود کہتے ہو وہ جَمادات اور بے جان ہیں ،نہ کسی کو نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان، اُن کی کیا حقیقت کہ وہ مجھے دیوانہ کرسکیں۔ یہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ ہے کہ آپ نے ایک زبردست ، صاحبِ قوت و شوکت قوم سے جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خون کی پیاسی اور جان کی دشمن تھی اس طرح کے کلمات فرمائے اور اصلًا خوف نہ کیا اور وہ قوم انتہائی عداوت اور دشمنی کے باوجود آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کوئی نقصان پہنچانے سے عاجز رہی۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۳۵۸، مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۵۵، ص۵۰۲، ملتقطاً)
اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْؕ-مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
میں نے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے جو میرا اور تمہارارب ہے ۔ زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اس کے قبضہِ قدرت میں نہ ہو۔ بیشک میرا رب سیدھے راستہ پر ملتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ:میں نے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے۔} یعنی تم اگرچہ ہر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لو لیکن مجھے ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل اور اسی کی حفاظت پر بھروسہ ہے، وہ میرا ور تمہارا دونوں کا مالک ہے، کوئی چیز مجھے پہنچ نہیں سکتی جب تک وہ اسے دور کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی مجھ پر قدرت حاصل کر سکتاہے جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے اسے قدرت حاصل نہ ہو،پھر اس بات کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا وہ مالک اور اس پر قادر نہ ہو، تو اللہ عَزَّوَجَلَّ جیسے چاہتا ہے اس میں تَصَرُّف فرماتا ہے۔ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۴۰-۲۴۱)
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖۤ اِلَیْكُمْؕ-وَ یَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۚ-وَ لَا تَضُرُّوْنَهٗ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تمہیں اُس کی تبلیغ کرچکا ہوں جس کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اور میرا رب تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے بیشک میرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر تم منہ پھیرو۔} یعنی جس دین کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ، اگر تم اس پر ایمان لانے سے اِعراض کرو تو جس دین کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا میں تمہیں اس کی تبلیغ کرچکا ہوں اور اس میں مجھ سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی البتہ اسے قبول نہ کرنے کی بنا پرتم سے خطا سرزد ہوئی ہے، اگر تم نے ایمان لانے سے اعراض کیا اور جو احکام میں تمہاری طرف لایا ہوں اُنہیں قبول نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہلاک کردے گا اور تمہاری بجائے ایک دوسری قوم کو تمہارے شہروں ا ور اَموال کا مالک بنا دے گا جو کہ اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہوں گے اور اسی کی عبادت کریں گے اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے کیونکہ وہ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی نقصان پہنچ سکے، لہٰذا تمہاری روگردانی کا جو نقصان ہے وہ تمہیں کو پہنچے گا۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ ہر شے پر نگہبان ہے،وہی تمہارے شرسے میری حفاظت فرمائے گا اورتم میں سے کسی کا قول یا فعل اس سے چھپا ہوا نہیں اور نہ ہی وہ تمہاری پکڑ سے غافل ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۳۵۸، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۷، ص۵۰۳، ملتقطاً)
آیت’’ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اپنی امت تک سارے شرعی اَحکام اپنی حیات شریف میں پہنچا دیتے ہیں کوئی بات چھپا نہیں رکھتے۔
(2)… اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ اگر کوئی قوم دین کی خدمت نہ کرے ، تو اللہ تعالیٰ اسے برباد کرکے دوسری قوم اس کی جگہ مقرر فرمادیتا ہے،جیسے ابو جہل وغیرہ نے سرکشی کی تو انہیں ہلاک فرما کر مدینہ طیبہ کے اَنصار سے دین کی خدمت لے لی۔ ہم اس خدائے قادِر و قیوم کے حاجت مند ہیں اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّاۚ-وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہمارا حکم آگیا توہم نے اپنی رحمت کے ساتھ ہود اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:اور جب ہمارا حکم آگیا۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۳۵۸، ملخصاً)
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(59)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تِلْكَ عَادٌ:اور یہ عاد ہیں۔} جب حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قصہ ختم ہو اتو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سے خطاب فرمایا ۔ ’’تِلْکَ‘‘ سے قومِ عاد کی قبروں اور آثار کی طرف اشارہ ہے اورمقصد یہ ہے کہ زمین میں چلو، انہیں دیکھو اور ان سے عبرت حاصل کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کاحال بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں یعنی ان معجزات کا انکار کیا جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لے کر آئے اور انہوں نے اس کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کی کیونکہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی تمام رسولوں کی نافرمانی ہے اور ان کے جاہلوں نے ہر بڑے ،سرکش اور ہٹ دھرم سردار کی پیروی کی ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۳۵۸-۳۵۹)
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اِس دنیا میں اور قیامت کے دن ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی۔ سن لو! بیشک عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ۔ سن لو! ہود کی قوم عاد کے لئے دوری ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:اور اس دنیا میں اور قیامت کے دن ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی۔} یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کیا اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰، ۶ / ۳۶۷)
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کوبھیجا۔ فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی میں تمہیں آباد کیا تو اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو ۔ بیشک میرا رب قریب ہے ،دعا سننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا:اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کوبھیجا۔} اس سورت میں مذکور واقعات میں سے یہ تیسرا واقعہ ہے، اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کی طرف ان کے نسبی بھائی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ،صرف وہی عبادت کا مستحق ہے جبکہ تمہارے یہ بت عبادت کے لائق ہی نہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی کمالِ قدرت پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ معبود وہی ہے جس نے تمہارے باپ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین سے پیدا کرکے پھرتمہیں زمین میں بسایا اور زمین کو تم سے آباد کیا تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو پھر شرک سے کنارہ کشی کر کے اسی کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں کے قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ’’اِسْتَعْمَرَكُمْ‘‘ کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ تمہیں طویل عمریں دیں حتّٰی کہ ان کی عمریں تین سو برس سے لے کر ہزار برس تک ہوئیں۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶۱، ۳ / ۲۴۲، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۳۵۹، ملتقطاً)
قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: اے صا لح! اس سے پہلے تم ہمارے درمیان ایسے تھے کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ کیا تم ہمیں اُن کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے اور بیشک جس کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے تو ہم بڑے دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} جب حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کے سامنے پیغامِ توحید پیش کیا تو انہوں نے جواب دیا ’’ اے صا لح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اس تبلیغ سے پہلے تم توہمارے درمیان ایسے تھے کہ ہمیں تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ہم امید کرتے تھے کہ تم ہمارے سردار بنو گے کیونکہ تم کمزوروں کی مدد کرتے اور فقیروں پر سخاوت کرتے تھے، لیکن جب تم نے توحید کی دعوت دی اور بتوں کی برائیاں بیان کیں تو قوم کی اُمیدیں تم سے ختم ہوگئیں۔ ان لوگوں نے مزید یہ کہا کہ کیا تم ہمیں ان بتوں کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے اور بیشک جس توحید کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے تو ہم بڑے دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۲، ۶ / ۳۶۸، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲ / ۳۵۹، ملتقطاً)
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ- فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ(63)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرمایا: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچائے گا ؟ تم نقصان پہنچانے کے سوا میراکچھ اور نہیں بڑھاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!} حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا’’ اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل پر اور منصبِ نبوت پر فائز ہوں ، اس کے باوجود میں بالفرض تمہاری پیروی کروں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کروں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے مجھے کوئی نہیں بچا سکتا اور اس طرح میں نقصان اٹھانے والا اور جو منصب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا میں ا سے ضائع کرنے والا ہو جاؤں گا، کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نے کفر کیا ہو۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳ / ۹۲۱)تمہاری بات ماننا خسارے میں پڑنے کے سوا کچھ نہیں۔
وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے تو اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ قریب کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً:اور اے میری قوم!یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے۔} قومِ ثمود نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزہ طلب کیا تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو پتھر سے بحکمِ الٰہی اونٹنی پیدا ہوئی ، یہ اونٹنی ان کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر نشانی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھی۔ اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق اَحکام ارشاد فرمائے گئے کہ اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب ہوجاؤگے اور مہلت نہ پاؤ گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۳۶۰، ملخصاً)
فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ(65)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہوں نے اس کے پاؤں کی پچھلی جانب کے اوپر والی ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں تو صا لح نے فرمایا: تم اپنے گھرو ں میں تین دن مزید فائدہ اٹھالو۔ یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَعَقَرُوْهَا:تو انہوں نے اس کے پاؤں کے اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔} قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کے اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔ اس کے بعد حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ تک جو کچھ دنیا کا عیش کرنا ہے کرلو، ہفتے کے دن تم پر عذاب آجائے گا اورا س کی علامت یہ ہے کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن یعنی جمعہ کو سیاہ ہو جائیں گے، پھر ہفتے کے دن عذاب نازل ہوگا۔یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا ، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵، ۲ / ۳۶۰، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۵۰۴، ملتقطاً)
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ مِنْ خِزْیِ یَوْمِىٕذٍؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ(66)وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(67)كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ہمارا حکم آیا توہم نے صا لح اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی رحمت کے ذریعے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بچالیا ۔ بیشک تمہارا رب بڑی قوت والا، غلبے والا ہے۔ اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔ گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ سن لو! بیشک ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا۔ خبردار! لعنت ہو ثمود پر۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:پھر جب ہمارا حکم آیا ۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب قومِ ثمود پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کاحکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۶۶، ۷ / ۶۴)
{وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ:اور ظالموں کو چنگھاڑنے پکڑ لیا۔} اس آیت میں قومِ ثمود پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان ہے، سورۂ اَعراف میں اِن پر آنے والے عذاب کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی کہ
’’فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۷۸)
ترجمۂ :کنزُالعِرفان
تو انہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
اور یہاں اس طرح بیان ہوئی کہ ’’اور ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے ۔‘‘ان دونوں کیفیتوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے ہولناک چیخ کی آواز آئی اور اس کے بعد زلزلہ پیدا ہوا ،اس لئے قومِ ثمود کی ہلاکت کو چیخ اور زلزلہ دونوں میں سے کسی کی طرف بھی منسوب کیا جا سکتا ہے۔
{ كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا:گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہ تھے۔} یعنی عذاب نازل ہونے کے بعد ان کا حال یہ ہوا کہ گویا وہ کبھی اپنے شہروں میں بسے ہی نہ تھے اور وہ زندہ تھے ہی نہیں ، اے لوگو! سن لو، قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور ا س کی نشانیوں کا انکار کیا (جس کے نتیجے میں ان کا یہ انجام ہوا تو تمہیں چاہئے کہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان جیسے افعال کرنے سے بچو تاکہ تم ان کی طرح کے عذاب میں مبتلا ہونے سے بچ جاؤ)۔
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى:اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔} یہ اس سورت میں مذکور چوتھا واقعہ ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا، پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱، ملتقطاً)
گائے کا گوشت سنتِ ابراہیمی کی نیت سے کھائیں
اس سے معلوم ہوا کہ گائے کا گوشت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دستر خوان پر زیادہ آتا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کو پسندفرماتے تھے ، گائے کا گوشت کھانے والے اگر سنتِ ابراہیمی ادا کرنے کی نیت کریں تو ثواب پائیں گے۔
آیت’’وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَا ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 4 مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت بہت شاندار ہوتی ہے کہ ان کی بشارتیں پہلے دی جاتی ہیں۔
(2)… فرشتوں کو رب تعالیٰ نے غیب کا علم بخشا ہے جس سے وہ آئندہ کی خبریں دیتے ہیں۔
(3)… ملاقات کے وقت سلام کرنا سنتِ ملائکہ اور سنتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے۔
(4)… سنت یہ ہے کہ آنے والا سلام کرے ۔
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍﭤ(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب دیکھا کہ ان (فرشتوں ) کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو ان سے وحشت ہوئی اور ان کی طرف سے خوف محسوس کیا۔ انہوں نے کہا: آپ نہ ڈریں ۔بیشک ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا رَاٰ:پھر جب دیکھا ۔}یعنی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت کی طرف نہیں بڑھ رہے تو کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان سے وحشت ہوئی اور دل میں ان کی طرف سے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہ کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ فرشتوں نے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر خوف کے آثار دیکھے تو انہوں نے کہا: آپ نہ ڈریں کیونکہ ہم فرشتے ہیں اور حضرت لوط عَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں اور فرشتے ہونے کی وجہ سے ہم کھانا نہیں کھارہے تھے۔( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۳۶۱، بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۲۴۵، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے کھانے سے پاک ہیں۔
وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَۙ-وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ(71)قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاؕ-اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کی بیوی (وہاں ) کھڑی تھی تو وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔ کہا: ہائے تعجب! کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں ۔ بیشک یہ بڑی عجیب بات ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ:اور ان کی بیوی کھڑی تھی۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زوجۂ محترمہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپسِ پردہ کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاہنسنے لگیں۔ مفسرین نے ان کی ہنسی کے مختلف اَسباب بیان کئے ہیں۔
(1)…حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی ہلاکت کی خوشخبری سن کر ہنسنے لگیں۔
(2)… بیٹے کی بشارت سن کر خوشی سے ہنسنے لگیں۔
(3)… بڑھاپے میں اولاد پیدا ہونے کا سن کر تعجب کی وجہ سے ہنسنے لگیں ، ا س کے علاوہ اور بھی اَقوال ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو ان کے بیٹے حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خوشخبری دی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بھی خوشخبری دی۔ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو خوشخبری دینے کی وجہ یہ تھی کہ اولاد کی خوشی عورتوں کو مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، نیز یہ بھی سبب تھا کہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرزند حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام موجود تھے، اس بشارت کے ضمن میں ایک بشارت یہ بھی تھی کہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کی عمر اتنی دراز ہوگی کہ وہ پوتے کو بھی دیکھیں گی۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۹۲۳، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۵۰۵، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۳۶۲، ملتقطاً)
{قَالَتْ یٰوَیْلَتٰى:کہا: ہائے تعجب!} حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے جب عادت کے برخلاف معاملہ ہونے کا سنا تو تعجب کرتے ہوئے کہا: کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا حالانکہ میں تو بوڑھی ہوں اور میری عمر 90 سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور یہ میرے شوہر بھی بہت زیادہ عمر کے ہیں ، ان کی عمر 120سال ہو چکی ہے، اور زیادہ عمر والوں کے ہاں بیٹا پیدا ہونا بڑی عجیب بات ہے۔(جلالین مع صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۲،۳ / ۹۲۳-۹۲۴)
قَالُـوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِؕ-اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ بیشک وہی سب خوبیوں والا، عزت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:فرشتوں نے کہا۔} فرشتوں کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ اے سارہ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا، آپ کے لئے یہ تعجب کا مقام نہیں کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا تعلق ا س گھرانے سے ہے جو معجزات، عادتوں سے ہٹ کر کاموں کے سرانجام ہونے، اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ بنا ہوا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۵۰۶)
ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں
اس آیت سے ثابت ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں کیونکہ حضرت سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو اہلِ بیت کہا گیا ہے، لہٰذا حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا اور دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ (تفسیرقرطبی، ہود تحت الآیۃ: ۷۳، ۵ / ۵۰، الجزء التاسع) نیز صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ان اَحادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہرات آپ کے اہلِ بیت میں داخل ہیں ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا ولیمہ گوشت اور روٹی سے کیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے بھیجا کہ لوگوں کو کھانے کے لئے بلا لاؤں۔ (میں بلانے گیا ) تو میرے ساتھ کچھ حضرات آئے اور وہ کھا کر چلے گئے ، پھر کچھ حضرات آئے اور وہ بھی کھا کر چلے گئے، چنانچہ اسی طرح جنہیں میں بلاتا وہ آتے اور کھا کر چلے جاتے یہاں تک کہ اب مجھے بلانے کے لئے کوئی نہیں مل رہا تھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کھانا اٹھا کر رکھ دو۔ تین آدمی اس وقت بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لے گئے اور حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے حجرے کی طرف جا کر فرمایا ’’اے اہلِ بیت! تم پر سلامتی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو۔ انہوں نے جواب دیا: آپ پر بھی سلامتی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو، آپ نے اپنی زوجۂ مطہرہ کو کیسا پایا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ان میں برکت عطا فرمائے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باری باری تمام ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہی فرماتے رہے جو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا تھا اور وہ بھی اسی طرح جواب عرض کرتی رہیں جس طرح حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے کیا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: لا تدخلوا بیوت النبی الّا ان یؤذن لکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۰۵، الحدیث: ۴۷۹۳)
یہی حدیث چند مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی موجو د ہے اور اُس میں یہ ہے کہ( لوگوں کو کھانا کھلانے کے بعد) سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی ازواجِ مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فرمایا ’’تم پر سلامتی ہو، اے اہلِ بیت !تم کیسے ہو؟ انہوں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم خیریت سے ہیں ،آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ کو کیسا پایا؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بہت اچھا پایا۔(مسلم، کتاب النکاح، باب فضیلۃ اعتاقہ امۃ ثمّ یتزوّجہا، ص۷۴۴، الحدیث: ۸۷(۱۴۲۸))
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ وَ جَآءَتْهُ الْبُشْرٰى یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍﭤ(74)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ابراہیم سے خوف زائل ہوگیا اور اس کے پاس خوشخبری آگئی تو ہم سے قومِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِیْمَ الرَّوْعُ:پھر جب ابراہیم سے خوف زائل ہوگیا۔} فرشتوں کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں جو خوف پیدا ہوا تھا وہ جب بیٹے کی خوشخبری ملنے کی وجہ سے دور ہوا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے بارے میں کلام اور سوال کرنے لگے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘ کا معنی ہے ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے بھیجے ہوئے فرشتوں سے قومِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جھگڑنا یعنی کلام اور سوال یہ تھا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے فرمایا ’’ قومِ لوط کی بستیوں میں اگر پچاس ایماندار ہوں تو بھی انہیں ہلاک کرو گے؟ فرشتوں نے کہا :نہیں۔پھر فرمایا: اگر چالیس ہوں ؟ انہوں نے کہا: جب بھی نہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اگر تیس ہوں ؟ انہوں نے کہا :’’جب بھی نہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ اگر ایک مرد مسلمان موجود ہو تب بھی ہلاک کردو گے؟ انہوں نے کہا ’’نہیں۔ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اس میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ اس پر فرشتوں نے کہا ہمیں معلوم ہے جو وہاں ہیں ، ہم حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والوں کو بچائیں گے سوائے ان کی بیوی کے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقصد یہ تھا کہ آپ عذاب میں تاخیر چاہتے تھے تاکہ اس بستی والوں کو کفر اور گناہوں سے باز آنے کے لئے ایک فرصت اور مل جائے ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۳۶۲-۳۶۳)
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ:بیشک ابراہیم۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت مدح و تعریف کی گئی ہے،جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں تو آپ کو بہت زیادہ رنج ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی صفت میں ارشاد فرمایا کہ بیشک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حَلِیۡم یعنی بڑے تحمل والے اور اَوّٰہٌ یعنی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور اس کے سامنے بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صفت میں ’’ مُّنِیۡبٌ‘‘ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی بنا پراللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اپنے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے کس قدر ڈرنے والا اور اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۷۵، ۶ / ۳۷۷، ملخصاً) سُبْحَانَ اللہ کتنی پیاری صفات ہیں۔
یٰۤـاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ-اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَۚ-وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (ہم نے فرمایا) اے ابراہیم ! اس بات سے کنارہ کشی کرلیجیے ، بیشک تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور بیشک ان پرایسا عذاب آنے والا ہے جو پھیرا نہ جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤـاِبْرٰهِیْمُ:اے ابراہیم !} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرشتوں سے سلام اور کلام کا سلسلہ دراز ہوا تو فرشتوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: اے ابراہیم! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اب اس بحث کو ختم کر دیں کیونکہ آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا اس عذاب کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں۔ (تفسیرطبری، ہود، تحت الآیۃ: ۷۵، ۷ / ۷۹، ملخصاً)
تقدیر مبرم سے متعلق دو مسائل
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے
(1)… تقدیر مبرم کسی صورت میں نہیں ٹل سکتی ۔
(2)… انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں وہ عزت ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ ان کو تقدیر مبرم کے خلاف دعا کرنے سے روک دیتا ہے، تا کہ ان کی زبان خالی نہ جائے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ تقدیر کی تین قسمیں ہیں (۱) مبرمِ حقیقی، کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی شے پر مُعلق نہیں۔ (۲) معلقِ محض، کہ فرشتوں کے صحیفوں میں کسی چیز پر ا س کا معلق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ (۳) معلق شبیہ بَہ مبرم، کہ فرشتوں کے صحیفوں میں اُس کا معلق ہونا مذکور نہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی چیز پر معلق ہے۔ ان کا حکم یہ ہے کہ وہ تقدیر جو مبرمِ حقیقی ہے اس کی تبدیلی ناممکن ہے، اگر اتفاقی طور پراَکابر محبوبانِ خدا اس کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انہیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے، اور وہ تقدیر جس کا معلق ہونا ظاہر ہے اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے اور یہ ان کی دعا سے اور ان کی ہمت سے ٹل جاتی ہے اور وہ تقدیر جو متوسط حالت میں ہے جسے فرشتوں کے صحیفوں کے اعتبار سے مبرم بھی کہہ سکتے ہیں ، اس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ (بہار شریعت،حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۲، ۱۴، ملخصاً)
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے توان کی وجہ سے لوط غمگین ہوئے اور ان کا دل تنگ ہوا اور فرمانے لگے یہ بڑا سخت دن ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا:اور جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس سے ہو کر فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آئے، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب ان کی ہیئت اور حسن وجمال کو دیکھا تو قوم کی خباثت اور بدعملی کا خیال کرکے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان خوبصورت لڑکوں کی وجہ سے غمگین ہوئے اور ان کا دل تنگ ہوا کیونکہ ایک تو وہ مہمان تھے اور دوسرے وہ انتہائی خوبصورت تھے، اس لئے ان کے بارے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم کی طرف سے خوفزدہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ بڑا سختی کا دن ہے۔
مروی ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم یہ تھا کہ وہ قومِ لوط کو اس وقت تک ہلاک نہ کریں جب تک کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود اس قوم کی بدعملی پر چار مرتبہ گواہی نہ دیں ، چنانچہ جب یہ فرشتے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ کیا تمہیں اس بستی والوں کا حال معلوم نہ تھا؟ فرشتوں نے کہا :ان کا کیا حال ہے؟ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ عمل کے اعتبار سے روئے زمین پر یہ بدترین بستی ہے اور یہ بات آپ نے چار مرتبہ فرمائی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی جو کہ کافرہ تھی وہ نکلی اور اس نے اپنی قوم کو جا کر خبر دی کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں ایسے خوبرو اور حسین مہمان آئے ہیں جن کی مثل اب تک کوئی شخص نظر نہیں آیا۔(جلالین، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۱۸۶، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ص۵۰۷، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۷، ۲ / ۳۶۳، ملتقطاً)
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِؕ-وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِؕ-قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْؕ-اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے پاس ان کی قوم دوڑتی ہوئی آئی اور وہ (لوگ) پہلے ہی سے برے کاموں کے عادی تھے۔ لوط نے فرمایا: اے میری قوم! یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی نیک کردار والانہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ:اور ان کے پاس ان کی قوم دوڑتی ہوئی آئی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے مہمانوں کے ساتھ گھر میں ہی تھے کہ آپ کی قوم کے لوگ آپ کے مہمانوں کے ساتھ بے حیائی کا کام کرنے کی غرض سے دوڑتے ہوئے آئے، وہ لوگ اس سے پہلے ہی برے کاموں کے عادی تھے اور شرم و حیا سے بالکل عاری ہو چکے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’ اے میری قوم! یہ جومیری قوم کی بیٹیاں ہیں ، یہ تمہارے لیے نکاح کی صورت میں پاکیزہ ہیں تو اپنی بیویوں سے فائدہ حاصل کرو کہ وہ تمہارے لئے حلال ہے ، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی عورتوں کو جو قوم کی بیٹیاں تھیں بزرگانہ شفقت سے اپنی بیٹیاں فرمایا تاکہ اس حسنِ اخلاق سے وہ فائدہ اٹھائیں اور غیرت و حَمِیَّت سیکھیں۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے کفر و سرکشی سے باز آجاؤ اور میرے مہمانوں سے کوئی برا فعل سر انجام دے کر مجھے ان کے سامنے شرمندہ مت کرو ،کیا تم میں ایک بھی کوئی ایسا نیک آدمی نہیں کہ جس کی بات مان کر تم اس برے فعل سے باز آ جاؤ؟ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۲۴۷-۲۴۸، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۳۶۴، ملتقطاً)
قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِیْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّۚ-وَ اِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کی بیٹیوں میں ہمارے لئے کوئی حاجت نہیں اور تم ضرور جانتے ہو جو ہم چاہتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی اور مہمانوں کے سامنے رسوا کرنے سے روکا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے اس نصیحت سے اعراض کرتے ہوئے کہا ’’آپ جانتے ہیں کہ آپ کی قوم کی بیٹیوں سے نکاح کرنے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں ان کی طرف کوئی رغبت ہے اور جو ہماری خواہش ہے وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ (ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۵۴)
قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍ(80)قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْۤا اِلَیْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَؕ-اِنَّهٗ مُصِیْبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمْؕ-اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُؕ-اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوط نے فرمایا: اے کاش! تمہارے مدِمقابل میرے پاس کوئی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔ فرشتوں نے عرض کی: اے لوط! ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ آپ تک ہر گز نہیں پہنچ سکیں گے تو آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جائیں اور تم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے سوائے تیری بیوی کے۔ بیشک اسے بھی وہی (عذاب) پہنچنا ہے جو ان (کافروں ) کو پہنچے گا بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یقین ہو گیا کہ قوم اپنے ارادے سے باز نہیں آئے گی تو آپ نے افسوس کرتے ہوئے فرمایا ’’اے کاش! مجھے تم سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا میں ایسا قبیلہ رکھتا جو میری مدد کرتا تو میں تم سے مقابلہ اور جنگ کرتا ۔ (ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۵۴، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۶۴، ملتقطاً)
{قَالُوْا:فرشتوں نے عرض کی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے مکان کا دروازہ بند کرلیا تھا اور اندر سے یہ گفتگو فرما رہے تھے ، قوم نے چاہا کہ دیوار توڑ دیں ، فرشتوں نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنج اور بے چینی دیکھی تو عرض کی: اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کا پایہ مضبوط ہے، ہم ان لوگوں کو عذاب کرنے کے لئے آئے ہیں ، آپ ایسا کریں کہ دروازہ کھول دیں ،پھر ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں ، یہ لوگ آپ تک ہر گز نہیں پہنچ سکیں گے اور نہ ہی آپ کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے ۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دروازہ کھول دیا توقوم کے لوگ مکان میں گھس آئے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا بازو ان کے چہروں پر مارا تو وہ سب اندھے ہوگئے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان سے نکل کر بھاگے، انہیں راستہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ یہ کہتے جاتے تھے’’ ہائے! ہائے! لوط کے گھر میں بڑے جادو گر ہیں ، انہوں نے ہم پرجادو کر دیا ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۴-۳۶۵)
{فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ:توآپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جائیں۔} فرشتوں کے اس کلام کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے لیکن آپ کی بیوی پیٹھ پھیر کر دیکھ لے گی کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوط!عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے البتہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جائیں کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۶ / ۳۸۱-۳۸۲)
{اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ: بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے کہا :’’یہ عذاب کب ہوگا؟فرشتوں نے جواب دیا’’ بیشک ان کے عذاب کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں تو اس سے جلدی چاہتا ہوں۔فرشتوں نے عرض کی ’’صبح قریب ہی ہے آپ اسے دور نہ سمجھیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۵)
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ ﳔ مَّنْضُوْدٍ(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ہمارا حکم آیا توہم نے اس بستی کے اوپرکے حصے کو اس کا نیچے کا حصہ کردیا اور اس پر لگاتار کنکر کے پتھر برسائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:پھر جب ہمارا حکم آیا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنی بستی سے نکلے تو انہیں حکم دیا کہ پیچھے مڑ کر کوئی نہ دیکھے،سب نے اس بات پر عمل کیا لیکن آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی نے جب سنا کہ اس کی قوم پر عذاب نازل ہونے والا ہے تو اس نے پیچھے مڑ کر چیخ کر کہا، ہائے میری قوم! تو اسے بھی ایک پتھر لگا اور وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو گئی۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب اس طرح آیا کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے قومِ لوط کے شہر جس طبقۂ زمین میں تھے اس کے نیچے اپنا بازو ڈالا اور ان پانچوں شہروں کو جن میں سب سے بڑا سدوم تھا اور ان میں چار لاکھ آدمی بستے تھے اتنا اونچا اٹھایا کہ وہاں کے کتوں اور مرغوں کی آوازیں آسمان پر پہنچنے لگیں اور اس آہستگی سے اٹھایا کہ کسی برتن کا پانی نہ گرا اور کوئی سونے والا بیدار نہ ہوا، پھر اس بلندی سے اس کو اوندھا کرکے پلٹ دیا اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے وہ جہاں کہیں سفر میں تھے وہیں انہیں لگاتار پتھر برسا کر ہلاک کر دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بستیاں الٹنے کے بعد ان ہی پر لگاتار پتھر برسائے گئے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۳۶۵)
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَؕ-وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ(83)
ترجمہ: کنزالعرفان
جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ پتھر ظالموں سے کچھ دور نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ:جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے۔} ان پتھروں پر ایسا نشان تھا جس سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان پر سرخ خطوط تھے ۔حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مفسر سدی کا قول ہے کہ ان پر مہریں لگی ہوئی تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ جس پتھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی اس کا نام اس پتھر پر لکھا تھا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۶۵)
{وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ:اور وہ پتھر ظالموں سے کچھ دور نہیں۔} امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں کفارِ قریش کو ڈرایا گیا ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ پتھر آپ کی قوم کے ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ حضرت قتادہ اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس امت کے ظالموں سے وہ پتھر کچھ دور نہیں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو ان پتھروں سے نہیں بچائے گا۔ (قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۵۹، الجزء التاسع) امام رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ بستیاں جن میں یہ واقعہ رونما ہوا کفارِ مکہ سے دور نہیں کیونکہ وہ بستیاں ملک شام میں تھیں اور شام مکہ سے قریب ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۶ / ۳۸۴)
لواطت کی مذمت پر دو معروضات
اس رکوع میں چونکہ بدفعلی یعنی لواطت کا بیان ہوا ہے لہٰذا یہاں اس کی مذمت پر کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں۔
(1)…بد فعلی یعنی لواطت کبیرہ گناہوں میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ایسا شخص مستحقِ لعنت ہے اور بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت سے محروم رہے گا ۔ چنانچہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵)وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ ‘‘ (الشعراء :۱۶۵-۱۶۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان
کیاتم لوگوں میں سے مَردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔اوراپنی بیویوں کو چھوڑتے ہو جو تمہارے لیے تمہارے رب نے بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو ۔
اور حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر قومِ لوط کے سے عمل کا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (تین مرتبہ اس طرح) ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا ، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۳۲۲، الحدیث: ۷۳۳۷)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے تم قومِ لوط جیسا عمل کرتے پاؤ تو لواطت کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظررحمت نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں وطی کرے ۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۶۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بد فعلی کا مرتکب اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اسے قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشر: اللواط، ص۶۳)
(2)… شریعتِ مطہرہ میں لواطت یعنی بد فعلی کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادی جا ئے یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرایا جا ئے اور اُس پر پتھر برسائے جائیں یا اُسے قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الحدود، باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ، ۶ / ۴۳-۴۴، ملخصاً)
اس مسئلے کوصدرُ الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفصیل سے اس طرح ذکر فرمایا: ’’اغلام یعنی پیچھے کے مقام میں وطی کی تو اس کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادیں یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرائیں اور اُس پر پتھر برسائیں یا اُسے قید میں رکھیں یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ الغرض یہ فعل نہایت خبیث ہے بلکہ زنا سے بھی بدتر ہے، اسی وجہ سے اس میں حد نہیں کہ بعضوں کے نزدیک حد قائم کرنے سے اُس گناہ سے پاک ہوجاتا ہے اور یہ اتنا برا ہے کہ جب تک توبہ خالصہ نہ ہو اس میں پاکی نہ ہوگی اور اغلام کو حلال جاننے والا کافر ہے یہی مذہبِ جمہور ہے۔ (بہار شریعت، حصہ نہم، حدود کابیان، کہاں حد واجب ہے اور کہاں نہیں، ۲ / ۳۸۰-۳۸۱)
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا :اے میری قوم !اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔} اس سورت میں ذکر کئے گئے واقعات میں سے یہ چھٹا واقعہ ہے، مدین حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایک بیٹے کا نام ہے، بعد میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا ’’اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔ توحید کی دعوت دینے کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جو کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی اہمیت ہو اس کی دعوت دیں۔ کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا ’’ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ اس کے بعد فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جائو، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۴، ۶ / ۳۸۴، مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۴، ص۵۰۸-۵۰۹، ملتقطاً)
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(85)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَقِیَّتُ اللّٰهِ:اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے۔}یعنی حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے وہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے کہ پورا تولنے اور ناپنے کے بعد جو بچے وہ بہتر ہے۔ (مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۶، ص۵۰۹، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۶۶، ملتقطاً)ان کے علاوہ اور معنی بھی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حلال میں برکت ہے اورحرام میں بے برکتی نیزحلال کی تھوڑی روزی حرام کی زیادہ روزی سے بہتر ہے۔
{وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ:اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔} یعنی تم سے صادر ہونے والے ہر معاملے میں میرا تمہارے پاس موجود رہنا ممکن نہیں تاکہ میں ناپ تول میں کمی بیشی پر تمہارا مُؤاخذہ کر سکوں۔(قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۶، ۵ / ۶۱، الجزء التاسع) علماء نے فرمایا ہے کہ بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جنگ کرنے کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ بعض وہ تھے جنہیں جنگ کرنے کا حکم نہ تھا، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں میں سے ہیں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سارا دن وعظ فرماتے اور ساری رات نماز میں گزارتے تھے، قوم آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہتی کہ اس نماز سے آپ کو کیا فائدہ؟ تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ’’نماز خوبیوں کا حکم دیتی ہے اور برائیوں سے منع کرتی ہے تو اس پر وہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۴ / ۱۷۴)
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (قوم نے) کہا: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں ۔ واہ بھئی! تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا یٰشُعَیْبُ:کہا: اے شعیب!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا۔ (1) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ (2) ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ قوم نے ان دونوں باتوں کا جو جواب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ پہلی بات کا انہوں نے یہ جواب دیا ’’اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ‘‘ یعنی کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔ مدین والوں کے اس جواب سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے پاس بت پرستی کرنے پر دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید تھی اسی لئے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا تو انہیں بہت عجیب لگا اور کہنے لگے کہ بتوں کی پوجا کرنے کے جس طریقے کو ہمارے پچھلے لوگوں نے اپنایا ہے ہم اسے کیسے چھوڑ دیں۔ دوسری بات کا مدین والوں نے یہ جواب دیا ’’ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا‘‘ یعنی کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔آیت میں مذکور لفظ’’صَلَاۃْ‘‘ سے مراد یا تو دین و ایمان ہے یا ا س سے مراد نماز ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۳۸۶-۳۸۷، ملخصاً)
{اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ:تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو۔} مدین والے اپنے گمان میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے وقوف اور جاہل سمجھتے تھے ا س لئے طنز کے طور پر انہوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ تم تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہو۔ یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کنجوس آدمی کو آتے دیکھ کر کہے ، جناب حاتم طائی تشریف لارہے ہیں۔امام رازی فرماتے ہیں کہ ا س آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم میں بڑے عقلمند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان میں نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے جاہلانہ طریقے کو چھوڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ آپ تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہیں ، پھر آپ ہمیں کیسے یہ حکم دے رہے ہیں کہ ہم اپنے نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۷، ۶ / ۳۸۷، ملخصاً)
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاؕ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُؕ-اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُؕ-وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
شعیب نے فرمایا: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی ہو(تو میں کیوں نہ تمہیں سمجھاؤں ) اور میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کرتا ہوں خود اس کے خلاف کرنے لگوں ، میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جتنی مجھ سے ہوسکے اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ یٰقَوْمِ:فرمایا: اے میری قوم!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے روشن دلیل یعنی علم ،ہدایت،دین اور نبوت سے سرفراز کیا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے پاس سے بہت زیادہ حلال مال عطا فرمایا ہوا ہو تو پھر کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں ا س کی وحی میں خیانت کروں اور اس کا پیغام تم لوگوں تک نہ پہنچاؤں۔ یہ میرے لئے کس طرح روا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنی کثیر نعمتیں عطا فرمائے اور میں اس کے حکم کی خلاف ورزی کروں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۳۸۷-۳۸۸)
{وَ مَاۤ اُرِیْدُ:اور میں نہیں چاہتا ہوں۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ قوم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حلیم و رشید ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا یہ کلام طنز اور مذاق اڑانے کے طور پرنہ تھا بلکہ اس کلام سے مقصود یہ تھا آپ حلم اور کمالِ عقل کے باوجود ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے سے کیوں منع فرماتے ہیں ؟اس کا جواب جو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تم میرے کمالِ عقل کا اعتراف کر رہے ہو تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں نے اپنے لئے جو بات پسند کی ہے وہ وہی ہوگی جو سب سے بہتر ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور ناپ تول میں خیانت نہ کرنا ہے اورمیں چونکہ اس کا پابندی سے عامل ہوں تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہی طریقہ بہتر ہے۔(تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۳۸۸)
{اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ:میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں۔} یعنی میرا تمہیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے تمہاری اصلاح ہو جائے اور جب میں نے دیکھا کہ تم نے اپنے اعمال درست کر لئے ہیں تو میں تمہیں منع کرنا بھی چھوڑ دوں گا۔ ان تینوں جوابات میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر عقلمند انسا ن کو چاہئے کہ وہ جو کام کر رہا ہے اور جس کام کو چھوڑ رہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، اپنی جان کے حقوق اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے۔( بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۲۵۴)
{وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ:اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے۔} یعنی میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کیونکہ مجھے اسی پر اعتماد اور تمام کاموں میں اسی پربھروسہ ہے ، تمام نیک اعمال اور توبہ کرنے میں ،میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۱۰۲) حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس کلام شریف میں اس جانب اشارہ ہے کہ کوئی شخص رب تعالیٰ کی دستگیری کے بغیر محض اپنی عقل سے ہدایت نہیں پاسکتا۔
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! میری مخالفت تم سے یہ نہ کروا دے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے مزید فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت اور بغض، میرے دین کی مخالفت، تمہارے اللہ تعالیٰ سے کفر پر اِصرار کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے پر قائم رہنے، لوگوں سے ناپ تول میں کمی کرنے کو نہ چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ سے اِعراض کرنے کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے جیسا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر یا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر یا حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر یا حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر نازل ہوا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے لہٰذاان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۸۸، ۷ / ۱۰۲-۱۰۳)
وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(90)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب بڑامہربان ،محبت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ:اور اپنے رب سے معافی چاہو ۔} بہت سے پیغمبروں نے اپنی قوموں کو توبہ و اِستغفار کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ بڑی اہم چیز ہے، یہ بھی خیال رہے کہ ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے ، کفر کی توبہ ایمان لانا ہے، حقوق العباد کی توبہ انہیں ادا کردینا ہے اور عَلانیہ گناہ کی توبہ علانیہ ہے۔
’’وَدُوْدٌ ‘‘ کا معنی و مفہوم:
یہ لفظ ’’وَدٌّ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے خالص محبت اور اللہ تعالیٰ پر اس اسم کا اِطلاق دو طرح سے ہوتا ہے (1) اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار بندوں سے محبت فرماتا ہے کہ وہ ان کے اعمال سے راضی ہوتا ہے اور ان کی اطاعت گزاری کے بدلے ان پر لطف و احسان فرماتا ہے اور اطاعت گزاری کی وجہ سے ان کی تعریف بھی کرتا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ محبوب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندے اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی کثرت کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۶۸)
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(91)
ترجمہ: کنزالعرفان
انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری زیادہ تر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آرہیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھروں سے مارتے اور تم ہمارے نزدیک کوئی معزز آدمی نہیں ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے کہا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سمجھانے کیلئے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے ، صرف اسی کی عبادت کرنے اور ناپ تول میں کمی حرام ہونے کی جو باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں پر جو دلائل دے رہے ہیں یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے نیز بیشک ہم تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادتی و ظلم کریں تو آپ میں دفاع کرنے کی طاقت نہیں۔ اگر آپ کا قبیلہ ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتا تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کر دیتے اور تم ہمارے نزدیک کوئی معزز آدمی نہیں ہو۔ (بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۹۱، ۳ / ۲۵۶-۲۵۷)
ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اسلام کے اَحکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سود کی حرمت ہضم نہیں ہوتی اور کسی کو پردے کی پابندی وبالِ جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادات کی پابندی پر مذاق سوجھتا ہے، ایسے لوگوں کو اپنے اَقوال و اَفعال کوقومِ شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہیے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہے۔
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(92)
ترجمہ: کنزالعرفان
شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} جب مدین والوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر دینے اور اذیت پہنچانے سے ڈرایا اور کہا کہ ہم صرف آپ کے قبیلے کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہہ رہے توآپ نے انہیں جواب دیا ’’اے میری قوم! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ تعالیٰ سے ز یادہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے جبکہ میرے قبیلے کی وجہ سے باز رہے اور تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی کا تو احترام نہ کیا جبکہ قبیلے کا احترام کیا۔ تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے اور اس کے حکم کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔ تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو تو ایسے چھوڑ رکھا ہے جیسے وہ توجہ کے قابل ہی نہیں ،بے شک میرا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے سب حالات جانتا ہے، اس پر تمہاری کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے عملوں کی جز ادے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۳۹۲، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۳۶۸، ملتقطاً)
وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌؕ-سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌؕ-وَ ارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جا ؤ، میں اپنا کام کرتا ہوں ۔ عنقریب تم جان جاؤ گے کہ رسوا کردینے والا عذاب کس پر آتا ہے اور کون جھوٹا ہے اور تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یٰقَوْمِ:اور اے میری قوم!} یعنی جو برے اعمال کرنا اور مجھے شر پہنچانا تمہارے بس میں ہے تم وہ کرتے جاؤ اور جن اعمال کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا کی ہے میں وہ کرتا رہتاہوں ، عنقریب تم جان جاؤ گے کہ رسوا کردینے والا عذاب کس پر آتا ہے اور اپنے دعووں میں کون جھوٹا ہے؟ اورتمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ میں حق پر ہوں یا تم؟ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے شقی کی شقاوت ظاہر ہوجائے گی،بس تم اپنے انجام کا انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۳، ۶ / ۳۹۲، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹۳، ص۵۱۱، ملتقطاً)
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(94)كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ(95)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہمارا حکم آیا توہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔ گویا وہ کبھی وہاں رہتے ہی نہ تھے۔ خبردار! دور ہوں مدین والے جیسے قومِ ثمود دور ہوئی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا:اور جب ہمارا حکم آیا۔} یعنی جب مدین والوں پر عذاب نازل کرنے اور انہیں ہلاک کر دینے کا ہمارا حکم آیا تو ہم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے والوں کو محض اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے اس عذاب سے بچا لیا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو جو بھی نعمت ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ملتی ہے۔ آیت میں مذکور رحمت سے ایمان اور تمام نیک اَعمال بھی مراد ہو سکتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق ہی سے نصیب ہوتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۴، ۶ / ۳۹۲)
{وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ: اور ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا۔} اس میں مدین والوں پر نازل ہونے والے عذاب کی کیفیت کا بیان ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں مدین والوں پر آنے والے عذاب کی کیفیت دو طرح سے بیان کی گئی ہے ۔ سورۂ اَعراف میں یہ کیفیت اس طرح بیان ہوئی
’’فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۹۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو انہیں شدید زلز لے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
اور اس آیت میں اس طرح بیان ہوئی کہ ’’ ظالموں کو خوفناک چیخ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔‘‘ ان دونوں کیفیتوں کے بارے میں تفسیر ابوسعود میں ہے ’’ ممکن ہے کہ زلزلے کی ابتدا اس چیخ سے ہوئی ہو، اس لئے کسی جگہ جیسے سورہ ٔہود میں ہلاکت کی نسبت سببِ قریب یعنی خوفناک چیخ کی طرف کی گئی اور دوسری جگہ جیسے (سورۂ اعراف کی) اس آیت میں سببِ بعید یعنی زلزلے کی طرف کی گئی۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۲۷۶)
{اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ:خبردار! مدین والے دور ہوں جیسے قومِ ثمود دور ہوئی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مدین والوں پر نازل ہونے والے عذاب کو قومِ ثمود کے عذاب سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مدین والوں کو بھی اسی طرح کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا جس طرح کے عذاب سے قومِ ثمود کو ہلاک کیا گیا۔
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(96)اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَۚ-وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ(97)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی آیتوں اور روشن غلبے کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور ا س کے درباریوں کی طرف تو انہوں نے فرعون کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا کام بالکل درست نہ تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سورت میں ذکر کئے گئے واقعات میں سے یہ ساتواں اور آخری واقعہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور آیات سے مراد تورات اور اس کے تمام مسائل و اَحکام ہیں اور’’سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ‘‘ سے مراد معجزات ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مسائل و احکام کے ساتھ بھیجا اور روشن معجزات کے ذریعے ان کی تائید کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آیات سے مراد معجزات ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معجزات کے ساتھ بھیجا، ان میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی صداقت کے لئے روشن دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۶، ۶ / ۳۹۳)
نوٹ: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعات اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف اور سورۂ یونس کی متعدد آیات میں گزر چکے ہیں۔
{اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ:فرعون اور ا س کے درباریوں کی طرف۔} یعنی ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو درباریوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے معجزات کا انکار کرنے میں فرعون کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا کام بالکل درست نہ تھا ،وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھا کیونکہ فرعون بشر ہونے کے باوجود خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور عَلانیہ ایسے ظلم اور ایسی ستم گاریاں کرتا تھا کہ جس کا شیطانی کام ہونا ظاہر اور یقینی ہے ،وہ کہاں اور خدائی کہاں ، جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ہدایت اور سچائی تھی، آپ کی سچائی کی دلیلیں یعنی واضح آیات اور روشن معجزات وہ لوگ دیکھ چکے تھے، پھر بھی انہوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے سے منہ پھیرا اور فرعون جیسے گمراہ شخص کی پیروی کی۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۷، ۶ / ۳۹۴، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۵۱۲)
یَقْدُمُ قَوْمَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَؕ-وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ(98)وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
۔ (فرعون) قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا پھر انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور وہ اترنے کا کیا ہی برا گھاٹ ہے۔ اوراس دنیا میں اور قیامت کے دن ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی ۔ کیا ہی برا انعام ہے جو انہیں ملا۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَقْدُمُ قَوْمَهٗ:اپنی قوم کے آگے ہوگا۔} یعنی جس طرح فرعون دنیا میں اپنی قوم کے آگے تھا اور انہیں دریائے نیل میں لا ڈالا اسی طرح قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے ہوگا پھر انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور وہ جہنم میں اپنی قوم کا امام ہو گا، خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں فرعون کفر اور گمراہی میں اپنی قوم کا پیشوا تھا ایسے ہی جہنم میں بھی ان کا پیشوا اور امام ہوگا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۳۶۹)
{وَ اُتْبِعُوْا:اور ان کے پیچھے لگادی گئی۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کی لعنت دنیا و آخرت دونوں جگہ فرعونیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اورکبھی ان سے جدا نہ ہو گی۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۳۹۴) دنیا میں قیامت تک ہر آنے والی نسل انہیں برائی سے یاد کرے گی، اور آخرت میں تمام اوّلین و آخرین ان پر لعنت کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی رسوائی اور نیک لوگوں کا ہمیشہ کسی پر لعنت کرنا خدا کا عذاب ہے جبکہ ذکرِ خیر اور اچھا چرچا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے۔
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآىٕمٌ وَّ حَصِیْدٌ(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم تمہیں سناتے ہیں ان میں سے کوئی ابھی قائم ہے اور کوئی کاٹ دی گئی۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ گزری ہوئی امتوں کی خبریں ہیں جو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں ا س لئے سناتے ہیں کہ تم اپنی امت کو ان کی خبریں دو تاکہ وہ ان سے عبرت حاصل کریں اور وہ اپنے کفر سے باز آ جائیں یا پھر ان پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو جائے جیسا ان سابقہ قوموں پر نازل ہوا۔ جن قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا ان کی حالت کھیتیوں کی طرح ہے کہ ان میں سے کوئی تو ابھی قائم ہے یعنی اس کے مکانوں کی دیواریں موجود ہیں ،کھنڈر پائے جاتے ہیں اور ان کے نشان ابھی باقی ہیں جیسے کہ عادو ثمود کے شہرا ور کوئی روئے زمین سے کاٹ دی گئی ہے یعنی کٹی ہوئی کھیتی کی طرح بالکل بے نام و نشان ہوگئی اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے شہر۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۳۷۰، روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۴ / ۱۸۴، ملتقطاً)
وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰـكِنْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَؕ-وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تواللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آئے جب تیرے رب کا حکم آیا اور انہوں نے ان کے نقصان میں ہی اضافہ کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ:اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم نے انہیں عذاب اور ہلاکت میں مبتلا کر کے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ کفر اور گناہوں کا اِرتکاب کر کے انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہو تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ظلم نہیں بلکہ عدل اور انصاف ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے قوم کفر اور گناہوں میں مبتلاہو کر اپنی جانوں پر ظلم کرتی ہے پھر ان برے اَعمال کی وجہ سے اپنے اوپر اس عذاب کو لازم کر لیتی ہے ۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۹۶)
{وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ:اور انہوں نے ان کے نقصان میں ہی اضافہ کیا۔} بتوں کے بارے میں کفار کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ بت نفع پہنچانے میں اور نقصان دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب کافروں کو مدد کی ضرورت ہو گی تو اس وقت یہ بت نہ تو انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ کوئی مصیبت ان سے دور کر سکیں گے،چنانچہ جب وہ اپنے عقیدے کوحقیقت کے خلاف پائیں گے تو اس وقت ان کا یہ عقیدہ ختم ہو جائے گا لیکن تب اس عقیدے کو چھوڑنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ،یوں دنیا اور آخرت دونوں ہی جگہ وہ خسارے کا شکار ہوں گے۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۳۹۶)
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(102)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں نے جب اپنے رسولوں کی نافرمانی کی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا ایسا عذاب نازل ہوا جس نے انہیں جڑسے اکھاڑ کررکھ دیا اور چونکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اس لئے دنیا میں ہی ان پر عذاب آیا اور اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ وہ عذاب گزشتہ قوموں کے ساتھ ہی خاص نہیں تھا بلکہ اب بھی جو کوئی ان کی طرح ظلم کرے گا تو اس پر بھی ویسا ہی عذاب نازل ہو گا۔ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۶ / ۳۹۶)
ظالموں کو نصیحت
علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہر ظلم کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اپنے ظلم سے توبہ کرے اور ظلم کرنا چھوڑ دے نیز جس کا جو حق مارا ہووہ اسے لوٹا دے تاکہ وہ اس عظیم وعید میں داخل نہ ہو کیونکہ یہ آیت گزشتہ امتوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر ظالم کو عام ہے، البتہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وجہ سے ایسا عذاب نازل نہ ہو گا کہ جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو جڑسے اکھاڑ کر رکھ دے۔( صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳ / ۹۳۱)
{اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ:بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔} حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
’’وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذلک اخذ ربّک اذا اخذ القری۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِؕ-ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌۙ-لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ(103)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اس میں اُس کیلئے نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے۔ وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن ایسا ہے جس میں ساری مخلوق موجود ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:بیشک اس میں نشانی ہے۔} یعنی گزشتہ امتوں کے عذابات اور ان کی ہلاکت کا جو ذکر ہوا اس میں عبرت اور نصیحت ہے اور ان کی ہلاکت و بربادی سے عبرت اور نصیحت وہی حاصل کرے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرے اور قیامت کے دن ا س کے عذاب سے خوفزدہ ہو کیونکہ جب وہ اس بات میں غورو فکر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کے کفار پر دنیا میں ہی دردناک عذاب نازل فرمایا اور انہیں بڑی سخت سزا دی اور دنیا کا عذاب گویا کہ آخرت میں کفار کیلئے تیار کئے گئے عذاب کا ایک نمونہ ہے تو اس کے دل میں مزید اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف پیدا ہو گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۳۷۰)
{ذٰلِكَ یَوْمٌ: وہ ایسا دن ہے۔} یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھائے گا اور حشر کے میدان میں سب کو حساب و کتاب، ثواب اور عذاب کیلئے جمع فرمائے گا اور اس دن ہر مخلوق حاضر ہوگی، ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہ سکے گا، اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی،اس کے حکم کی مخالفت کی اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی ہوگی۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۷ / ۱۱۲)
وَ مَا نُؤَخِّرُهٗۤ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍﭤ(104)یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖۚ-فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ(105)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم اسے پیچھے نہیں ہٹاتے مگر ایک گنی ہوئی مدت کے لئے۔جب وہ دن آئے گا توکوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر کلام نہ کرسکے گا تو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی خوش نصیب ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا نُؤَخِّرُهٗ:اور ہم اسے پیچھے نہیں ہٹاتے ۔} یعنی ہم قیامت کے دن کو اس لئے مؤخر کر رہے ہیں تا کہ وہ مدت پوری ہو جائے جو ہم نے دنیا باقی رہنے کے لئے مقرر فرمائی ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۵۱۳)
{یَوْمَ یَاْتِ:جب وہ دن آئے گا۔} یعنی جب قیامت کا دن آئے گا توہر مخلوق خاموش ہوگی، اس دن کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہ کر سکے گا۔ یاد رہے کہ قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اوراس میں مختلف حالات ہوں گے بعض حالات میں تو ہیبت کی شدت کی وجہ سے کسی کو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات زبان پر لانے کی قدرت نہ ہوگی اور بعض حالات میں اجازت دی جائے گی کہ لوگ اجازت سے کلام کریں گے اور بعض حالات میں گھبراہٹ ا ور دہشت کم ہوگی تو اُس و قت لوگ اپنے معاملات میں جھگڑیں گے اور اپنے مقدمات پیش کریں گے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۳۷۱، ملخصاً)
{فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ:تو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی خوش نصیب ہوگا۔} قیامت کے دن لوگ دو طرح کے ہوں گے (1) بدبخت۔ یہ وہ لوگ ہوں کے جن پر وعید کے مطابق جہنم واجب ہو گی۔ (2) خوش نصیب۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے لئے وعدے کے مطابق جنت واجب ہو گی۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)
سعادت اور بدبختی کی علامات:
دنیا میں بھی سعادت اور بد بختی کی کئی علامات علماء نے بیان فرمائی ہیں ، ان میں سے سعادت کی پانچ علامتیں یہ ہیں (1) دل کی نرمی۔ (2) کثرت سے آنسو بہانا۔ (3) دنیا سے نفرت۔ (4) امیدوں کا چھوٹا ہونا۔ (5) حیا۔ اور بدبختی کی پانچ علامتیں یہ ہیں۔(1) دل کی سختی۔ (2) آنکھ کی خشکی یعنی آنسونہ بہانا۔ (3) دنیا کی رغبت۔ (4) لمبی امیدیں۔ (5) بے حیائی۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۴ / ۱۸۷، ملخصاً)ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حالت پر غور کرے ،اگر اسے اپنے اندر سعادت کی علامات نظر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان پر قائم رہنے کی بھرپور کوشش کرے اور اگر بدبختی کی علامات نظر آئیں تو اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرے اور ان علامات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کرے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ شَهِیْقٌ(106)خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(107)وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ(108)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو جو بدبخت ہوں گے وہ تو دوزخ میں ہوں گے، وہ اس میں گدھے کی طرح چلائیں گے۔وہ اس میں تب تک رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے بیشک تمہارا رب جو چاہتا ہے وہی کرنے والا ہے۔ اور وہ جو خوش نصیب ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں گے مگر جو تمہارا رب چاہے یہ ایسی بخشش ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا:تو جو بدبخت ہوں گے۔} یعنی جن پر بدبختی غالب آ گئی اور ان کے لئے جہنم کا فیصلہ کر دیا گیا تو وہ جہنم میں رہیں گے اور جہنم میں ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ گدھے کی طرح چلائیں گے۔(روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۴ / ۱۸۸)
{خٰلِدِیْنَ فِیْهَا:وہ اس میں رہیں گے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے جہنم میں قیام کو زمین و آسمان کے قائم رہنے کی مدت پر معلق کیا، لیکن ا س کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح زمین و آسمان کا قائم رہنا ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ وقتی اور عارضی ہے اسی طرح کفار کا جہنم میں رہنا بھی ہمیشہ کے لئے نہ ہو گا کیونکہ قرآنِ پاک کی دیگر کئی آیات سے کفار و مشرکین کی مغفرت نہ ہونا اور ان کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا ثابت ہے ،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘‘(النسا :۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا
’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۶۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ‘‘(البقرہ: ۱۶۱، ۱۶۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پراللہ اور فرشتوں او ر انسانوں کی ،سب کی لعنت ہے۔ وہ ہمیشہ اس (لعنت) میں رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ‘‘ (اعراف:۴۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلے میں تکبر کیا توان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے حتّٰی کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
سورہ ٔنساء میں ارشاد فرمایا
’’اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًاؕ-كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِیْمًا‘‘(النساء:۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے ۔جب کبھی ان کی کھالیں خوب جل جائیں گی توہم ان کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ چکھ لیں۔ بیشک اللہ زبردست ہے ،حکمت والا ہے۔
اسی وجہ سے مفسرین نے اس آیت کی کئی تاویلات بیان کی ہیں ،ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
پہلی تاویل: اس آیت میں زمین و آسمان سے دنیا کے زمین و آسمان نہیں بلکہ جنت و دوزخ کے زمین و آسمان مراد ہیں ، جنت میں زمین کے وجود پر دلیل یہ آیت ہے
’’وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ‘‘(الزمر:۷۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہمیں (جنت کی) زمین کا وارث کیا ، ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں گے۔
اور آخرت کے زمین و آسمان کے دنیوی زمین وآسمان سے مختلف ہونے پر دلیل یہ آیت ہے ۔
’’ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ‘‘(ابراہیم:۴۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن زمین کو دوسری زمین سے اور آسمانوں کو بدل دیا جائے گا۔
نیز جنت و دوزخ چونکہ فضا یا خلا میں نہیں ہیں اس لئے جنت و دوزخ والوں کے لئے کسی ایسی چیز کا ہونا ضروری ہے جس پر وہ بیٹھے یا ٹھہرے ہوئے ہوں اور ان کے لئے کوئی سائبان ہو جس کے سائے میں وہ لوگ ہوں اور وہ چیز زمین و آسمان ہیں۔ جب نقلی اور عقلی دونوں اعتبار سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جنت و دوزخ کے زمین و آسمان ہیں اور وہ اس دنیا کے زمین و آسمان سے مختلف ہیں تو جس طرح جنت و دوزخ ہمیشہ رہیں گے اسی طرح ان کے زمین و آسمان بھی ہمیشہ رہیں گے لہٰذا جنت میں رہنے والے مسلمان اور دوزخ میں رہنے والے کافر بھی ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
دوسری تاویل: اگر اس آیت سے جنت و دوزخ کے زمین و آسمان مراد نہ بھی ہوں تب بھی یہ آیت دوزخیوں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کے منافی نہیں کیونکہ عربوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا دوام یعنی ہمیشگی بیان کرنے کا ارادہ کریں تو یوں کہتے ہیں ’’جب تک آسمان اور زمین قائم رہیں گے تو فلاں چیز رہے گی۔ اور قرآنِ پاک چونکہ عربوں کے اسلوب کے موافق نازل ہواہے اس لئے ’’جب تک زمین و آسمان رہیں گے ‘‘سے مراد دائمی طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۴۰۱، ملخصاً)
{اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ:مگر جو تمہارا رب چاہے۔} چونکہ قرآنِ پاک کی کئی آیات سے کفار کا جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ثابت ہوتا ہے ا س لئے مفسرین نے اس اِستثناء کی مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ،ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
پہلی توجیہ: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اس استثناء میں وہ مسلمان داخل ہیں جنہیں کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گاانہیں جہنم میں رکھے گا پھر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲/۳۷۱-۳۷۲، ملخصاً) اس توجیہ کے درست ہونے پر یہ حدیث پاک بھی دلالت کرتی ہے ، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اہلِ جنت میں سے جسے چاہے گا اپنی رحمت کے صدقے جنت میں داخل کر دے گا اور اہلِ جہنم میں سے جسے چاہے گا جہنم میں داخل کر دے گا ، پھر فرمائے گا: دیکھو جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لو، چنانچہ وہ لوگ جہنم سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ ان کا جسم جل کر کوئلہ ہو چکا ہو گا پھر انہیں آبِ حیات کی نہر میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس نہر میں سے اس طرح ترو تازہ ہو کر نکلنا شروع ہوں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ والی مٹی میں سے زردی مائل ہو کر اُگ پڑتا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار، ص۱۱۵، الحدیث: ۳۰۴(۱۸۴))
دوسری توجیہ: اہلِ جہنم ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے سوائے ان اَوقات کے جب وہ دنیا میں تھے یا برزخ میں تھے یا حشر کے میدان میں حساب کتاب کے لئے کھڑے ہوئے تھے، خلاصہ یہ ہے کہ ان تین اوقات میں انہیں جہنم کا عذاب نہ ہو گا۔
تیسری توجیہ:جہنم میں آگ کا عذاب بھی ہو گا اور زَمہریر کا بھی جس میں بہت سخت ٹھنڈک ہو گی اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جہنمی ہمیشہ کیلئے آگ کے عذاب میں رہیں گے لیکن جس وقت اللہ تعالیٰ چاہے گا انہیں آگ کے عذاب سے نکال کر ٹھنڈک کے عذاب میں ڈال دے گا۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۶ / ۴۰۲-۴۰۳)
{اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ:مگر جو تمہارا رب چاہے۔} اس استثناء میں وہ اہلِ جنت داخل ہیں جو اپنے گناہوں کی وجہ سے کچھ عرصہ جہنم میں رہیں گے پھر انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا کیونکہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو جنت میں داخل ہو گا وہ ا س سے کبھی نہیں نکلے گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۳۷۲) یعنی اس استثناء سے مراد جہنم میں رہنے والا عرصہ ہے۔
فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّمَّا یَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِؕ-مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُؕ-وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں شک میں نہ پڑنا۔ یہ ویسے ہی عبادت کرتے ہیں جیسے پہلے ان کے باپ داداعبادت کیا کرتے تھے اور بیشک ہم انہیں ان کا پورا پوراحصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ:تو اے سننے والے!تم شک میں نہ پڑنا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے سننے والے! ان مشرکین کی بتوں کی عبادت اور ان کے برے انجام کے حوالے سے کسی شک میں نہ پڑنا۔ بے شک یہ بھی اس بت پرستی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوں گے جیسا کہ پہلی امتیں عذاب میں مبتلا ہوئیں۔ جن مشرکین کے واقعات تمہارے سامنے بیان ہوئے جس طرح وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے اسی طرح یہ بھی بتوں کی عبادت کر رہے ہیں اور تمہیں معلوم ہوچکا کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا اور عنقریب انہیں بھی ان کے جیسے انجام کا سامنا ہو گا اور بیشک ہم انہیں ان کے عذاب کا پورا پوراحصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔(تفسیر ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۷۰، صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۹۳۴، ملتقطاً)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ہر اس شخص سے فرما دیں جسے ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں یہ شک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بت پرستی کا حکم دیا ہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر گز بت پرستی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ جس طرح ان کے باپ دادا بتوں کی پوجا کرتے رہے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے بتوں کی پوجا کر رہے ہیں ، بے شک ہم انہیں ان کے عذاب کا پورا پورا حصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ (قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۷۲، الجزء التاسع)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْؕ-وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ(110)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تواس میں اختلاف کیا گیا اوراگر تمہارے رب کی ایک بات پہلے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا اور بیشک وہ لوگ اس کی طرف سے دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،جس طرح آپ کی قوم نے قرآن کے ساتھ کیا کہ بعض اس پر ایمان لائے اور بعض نے اس کا انکار کیا اسی طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے ان پر ہماری نازل کردہ کتاب تورات کے ساتھ کیا تھا کہ ان میں سے بعض نے تورات کی تصدیق کی اور بعض نے کفر کیا۔اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ اپنے کفر اور تکذیب کی بنا پر دنیا میں ہی جس عذاب کے جلدی حقدار تھے وہ عذاب اگر آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن تک کیلئے ان سے مؤخر نہ فرما چکا ہوتا تو دنیا میں ہی ان کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیاجاتا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۲ / ۳۷۳)
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْؕ-اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(111)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ان سب کو تمہارا رب ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ بیشک وہ ان کے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنَّ كُلًّا:اور بیشک ان سب کو۔} یعنی تصدیق کرنے والے ہوں یا تکذیب کرنے والے، ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اَعمال کی پوری پوری جزا دے گا ،تصدیق کرنے والوں کو ان کی تصدیق کی بنا پر جنت ملے گی اور انکار کرنے والوں کو ان کے انکار کی وجہ سے جہنم نصیب ہو گی ،بیشک اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال سے خبردار ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ اس آیت میں نیکیاں کرنے والوں اور تصدیق کرنے والوں کے لئے تو بشارت ہے کہ وہ نیکی کی جزا پائیں گے نیزکافروں اور تکذیب کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ وہ اپنے عمل کی سزا میں گرفتار ہوں گے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۳۷۳)
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْاؕ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(112)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو تم ثابت قدم رہو جیسا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع کرنے والا ہے اور اے لوگو! تم سرکشی نہ کرو بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَقِمْ:تو تم ثابت قدم رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دین پر عمل کرنے اور اس کے دین کی دعوت دینے پر ایسے ثابت قدم رہیں جیسے آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو حکم دیا ہے اور آپ کی امت میں سے جو آپ پر ایمان لایا ہے اسے بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے اَحکام کی بجا آوری پر ثابت قدم رہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۳۷۳)
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی ’’ مجھے دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ اٰمَنْتُ بِاللہِ(میں اللہ پر ایمان لایا)‘‘ کہہ اور ا س پر قائم رہ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰، الحدیث: ۶۲(۳۸))
{وَ لَا تَطْغَوْا:اور اے لوگو!تم سرکشی نہ کرو۔} یعنی اے لوگو! جس کام سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے وہ نہ کرو، تمہارے اچھے برے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور اس سے تمہارا کوئی عمل بھی پوشیدہ نہیں تو اے لوگو! تم اس بات سے ڈرو کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے اعمال جانتا ہے جبکہ حال یہ ہے کہ تم اس کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۷ / ۱۲۳)
دینِ اسلام پر ثابت قدمی کی ترغیب:
ایمان اور احکامِ اسلام پر ثابت قدمی نہایت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(حم السجدۃ:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’ ’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ(۱۳) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘(احقاف۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو نہ ان پر خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ جنت والے ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے ، انہیں ان کے اعمال کابدلہ دیا جائے گا۔
ترغیب کے لئے ہم یہاں چند وہ اَسباب ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے بندہ دینِ اسلام پرثابت قدم رہتا ہے اور چند وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو دینِ اسلام پر ثابت قدمی سے مانع ہیں ، چنانچہ دینِ اسلام پر ثابت قدمی کے چند اسباب یہ ہیں : (1) علمِ دین حاصل کرنا۔ (2) کثرت سے مسجد میں حاضر ہونا۔ (3) زبان کی حفاظت کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں سے بچنا۔ (5) کافروں ، بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں سے تعلقات نہ رکھنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنا۔ (7) مصائب و آلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ (9) لمبی امیدیں نہ رکھنا۔ (10) اور دنیا میں زہد و قناعت اختیار کرنا وغیرہ ،
اس کے برعکس ایمان و عمل پر ثابت قدمی سے رکاوٹ بننے والی چند چیزیں یہ ہیں۔ (1) علمِ دین سے بہرہ ور نہ ہونا۔ (2) مسجد میں حاضر ہونے سے کترانا۔ (3) زبان کی حفاظت نہ کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کرنا۔ (5) کافروں بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی لذت حاصل کرنے کی حرص ہونا۔ (7) مصائب وآلام اور آزمائشوں پر صبر نہ کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (9) لمبی امیدیں رکھنا۔ (10) اور دنیا میں رغبت رکھنا وغیرہ۔
حضرت عبداللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اسلام پر اِستقامت:
حضر ت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کرتے ہیں کہ’’ روم کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ صحابی ٔرسول حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی قید کرلیا گیا۔ رومی سردار نے تمام مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا: نصرانی ہوجائو، ورنہ میں تمہیں تانبے کی دیگ میں ڈال کر جلادوں گا۔ یہ سن کرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا ’’ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، میں کبھی بھی نصرانی نہیں بنوں گا۔ ظالم سردار نے جب یہ سنا تو تانبے کی دیگ منگواکر اس میں تیل ڈلوایا، پھر اس کے نیچے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب گرم ہوکرابلنے لگا تو ایک مسلمان قیدی کو بلاکر کہا: نصرانی ہوجائو، اس مردِ مجاہدنے انکار کیا تو اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا گوشت جل گیا اور ہڈیاں اوپر تیرنے لگیں۔ پھر حضر ت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا گیا: عیسائی ہوجائو، ورنہ اس شخص کی طرح تمہیں بھی اس ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صاف انکار کردیا۔ ظالم سردار نے حکم دیا کہ اسے بھی تیل کی دیگ میں ڈال دو۔ حکم پاتے ہی جلاد وں نے آپ کو پکڑا اور ابلتے ہوئے تیل میں ڈالنے کے لئے لے چلے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اچانک رونا شروع کردیا۔ جلاد ،ظالم سردار کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ قیدی رو رہا ہے ۔سردار بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اسے ہمارے پاس لے آئو۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ موت کے ڈر سے اس کی بات ماننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کے سامنے آئے تو فرمایا ’’کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں موت کےخوف سے رو رہا ہوں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں موت کے خوف سے نہیں بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے جسم میں صرف ایک جان ہے جو میں دینِ اسلام کے لئے قربان کر رہا ہوں ، مجھے تو یہ پسند تھا کہ میرے جسم میں اگر سوجانیں ہوتیں توایک ایک کر کے سب کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر قربان کر دیتا۔ سردار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ ایمان افروز تقریر سن کر بہت متعجب ہوا کہ ان کے اندر اپنے دین کی کتنی محبت ہے اور یہ خوشی سے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔ سردار نے لالچ دیتے ہوئے کہا :اگر تم نصرانی ہوجائو تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور حکومت میں بھی تمہیں حصہ دوں گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی اور صاف انکار کردیا۔ پھر اس نے کہا: اچھا اس طرح کرو کہ تم میرے سرپر بوسہ دو اگر تم یہ کروگے تو میں تمہیں بھی آزاد کر دوں گا اور تمہارے ساتھ تمہارے 80 مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ اگر واقعی تم ایسا کرو گے تو میں تمہارے سر کو بوسہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ سردار نے یقین دہانی کرائی کہ میں اپنی بات ضرور پوری کروں گا ۔ چنانچہ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اس ظالم کے سر کا بوسہ لیا۔ سردار نے حسبِ وعدہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور 80 مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔ جب یہ تمام مجاہدین امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں پہنچے تو امیر المؤمنین آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر کا بوسہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والاربعون بعد المائتین، ص۲۳۶-۲۳۷)
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(113)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں کی طرف نہ جھکو۔} رُکون یعنی جھکنے کا معنی ہے قلبی میلان اور جب اس پر اتنی سخت وعید ہے تو کافروں کے ساتھ تعلقات کی اُن صورتوں میں کیا حال ہو گا جو قلبی میلان سے بڑھ کر ہیں۔یاد رہے کہ طبعی میلان کی غیر اختیاری صورت اس آیت میں بیان کئے گئے حکم میں داخل نہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ ’’مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں ، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کردینا لازم ہے ۔ (میلان کا) آنا بے اختیار تھا اور (اس کا) جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو) رکھنا اختیار موالات ہوا اور یہ حرام قطعی ہے ، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان) کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال) اس نے باختیار پیدا کئے تو اس میں معذورنہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۶)
خدا کے نافرمانوں سے تعلقات کی ممانعت:
اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول ،رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یااس کی تعریف کرتا ہے یااس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار دیتا ہے یاسر ہلا دیتا ہے یااس کے چہرے پر مُسَرَّت ظاہر ہوتی ہے یاوہ اس شخص سے محبت و دوستی ظاہر کرتا ہے ، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، ا س کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں ،اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق اور ظالم کااعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں ،اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو وہ اس تصدیق اور اِعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الحلال والحرام، الباب السادس فیما یحلّ من مخالطۃ السلطان الظلمۃ ویحرم۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)
اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی ان چیزوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۰، الحدیث: ۴۸۸۵)
حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، السادس والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۵۳، روایت نمبر: ۹۴۳۲)
امام اوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵۔)
یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام پر غور کر لیں ، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ظالموں کے اَعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابلِ قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۹۳۶) اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
نوٹ: غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے’’اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘(سورہِ ممتحنہ کی آیت کے بارے میں تفصیلی کلام)کا مطالعہ کریں۔
{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ:اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہیں کہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بچاسکے اور نہ ہی کل قیامت کے دن تمہیں کوئی ایسا ملے گا کہ جو تمہاری مدد کر سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے تمہیں بچا لے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)
ظالموں کے لئے نصیحت:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ حال تو ان کا ہے جو ظالموں سے تعلقات اور میل جول رکھیں ، ان کے اعمال سے راضی ہوں اور ان سے محبت رکھیں اور جو خود ظالم ہو تو اس کا حال ان سے کتنا بدتر ہوگا وہ خود ہی غور کر لے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)
اور امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ایک دن حضرت موفق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے امام کے پیچھے نماز پڑھی اور جب امام نے یہ آیت’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا…الخ‘‘ تلاوت کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر غشی طاری ہو گئی ، جب اِفاقہ ہوا تو ان سے (غشی کی وجہ کے بارے میں ) عرض کی گئی توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’یہ ( سزا کا بیان) اُس شخص کے بارے میں ہے جو ظالم کی طرف جھکے اور جو خود ظالم ہو تو ا س کا کیا حال ہو گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵)
ہم ظلم اور ظالموں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور ہر ظالم کو چاہئے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آ جائے اور جیتے جی ان لوگوں سے معافی مانگ لے جن پر ظلم کیا ورنہ قیامت کے دن جب ظلم کابدلہ دینا پڑا تو انجام بہت دردناک ہوگا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن دینار اور درہم پاس نہیں ہوں گے، اگر ظالم کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل فحلّلہا لہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹)
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَ(114)وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(115)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم رکھو ۔بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ، یہ نصیحت ماننے والوں کیلئے نصیحت ہے۔اور صبر کرو کیونکہ اللہ نیکی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ:اور نماز قائم رکھو۔} اس آیت میں دن کے دو کناروں سے صبح ا ور شام مراد ہیں ، زوال سے پہلے کا وقت صبح میں اور زوال کے بعد کا وقت شام میں داخل ہے ۔ صبح کی نمازتو فجر ہے جبکہ شام کی نمازیں ظہر و عصر ہیں اور رات کے حصوں کی نمازیں مغرب و عشا ہیں۔ نیکیوں سے مراد یا یہی پنج گانہ نمازیں ہیں جو آیت میں ذکر ہوئیں یااس سے مراد مُطلقاً نیک کام ہیں یا اس سے’’ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ‘‘ پڑھنا مراد ہے۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۵۱۶)شانِ نزول: حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس آدمی کا کیا حکم ہے جو ایک اجنبی عورت سے علیحدگی میں جماع کے سوا سب کچھ کرتا ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا یہ اس شخص کے ساتھ خاص ہے یا تمام مومنوں کے لئے ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ یہ تمام مومنوں کے لئے عام ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ہود، ۵ / ۷۹، الحدیث: ۳۱۲۴)
نیکیاں صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہیں
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہیں خواہ وہ نیکیاں نماز ہوں یا صدقہ یا ذکر و اِستغفار یا اور کچھ ۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۳۷۵)اَحادیث میں متعدد ایسے اعمال کا بیان جو صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ بنتے ہیں ، یہاں ان میں سے چند ایک بیان کئے جاتے ہیں۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک یہ سب ان گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوں جب کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچے ۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات لما بینہنّ۔۔۔ الخ، ص۱۴۴، الحدیث: ۱۶(۲۳۳))
(2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اُس سے بچا تو جو پہلے کر چکا ہے اُس کا کفارہ ہوگیا۔(شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فضائل شہر رمضان، ۳ / ۳۱۰، الحدیث: ۳۶۲۳)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عمرہ سے عمرہ تک اُن گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حجِ مَبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(بخاری، کتاب العمرۃ، باب العمرۃ، وجوب العمرۃ وفضلہا، ۱ / ۵۸۶، الحدیث: ۱۷۷۳)
(4)…حضرت سِخْبَرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے علم تلاش کیا تو یہ تلاش اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گی۔(ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم،۴ / ۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۷)
فَلَوْ لَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْهُمْۚ-وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ(116)وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ(117)
ترجمہ: کنزالعرفان
توتم سے پہلی گزری ہوئی قوموں میں سے کچھ ایسے فضیلت والے لوگ کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد کرنے سے منع کرتے البتہ ان میں تھوڑے سے ایسے تھے جنہیں ہم نے نجات دی اور ظالم لوگ اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا اور وہ مجرم تھے۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کوبلا وجہ ہلاک کردے حالانکہ ان کے رہنے والے اچھے لوگ ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَوْ لَا كَانَ:تو کیوں نہ ہوئے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں پر جڑ سے اکھاڑ دینے والے عذابات نازل ہونے کا بیان فرمایا اور ا س آیت میں یہ بیان فرمایا کہ ان عذابات کے نازل ہونے کا سبب دو چیزیں تھیں۔ (1) ان میں کوئی ایسا نہیں تھا جو انہیں فساد سے منع کرتا۔ (2) اپنے برے اعمال یعنی شرک اور کفر وغیرہ سے رجوع نہ کرنا۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳ / ۹۳۷) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت! تم سے پہلی امتوں میں سے جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا تھا وہ کچھ ایسے فضیلت والے نہیں ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکتے اور انہیں گناہوں سے منع کرتے ، اسی لئے ہم نے انہیں ہلاک کردیا البتہ ان سابقہ امتوں میں تھوڑے سے ایسے تھے جنہیں ہم نے نجات دی اور وہ لوگ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے اوران کے اَحکام پر عمل کرتے اور لوگوں کو فساد سے روکتے رہے جبکہ ظالم لوگ اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا اور وہ نعمتوں ،لذتوں ، خواہشات اور شَہوات کے عادی ہوگئے ، کفر اورگناہوں میں ڈوبے رہے اور وہ مجرم تھے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۳۷۵، ملخصاً)
’’ اُولُوْا بَقِیَّةٍ‘‘ سے مراد علماء ِربانی ہیں ،مقصدیہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی عام گمراہی کا باعث یہ ہوا کہ ان میں علماءِ ربانی نہ رہے، اگر وہ رہتے تو اس طرح گمراہی نہ پھیلتی۔ عوام اس لئے مجرم تھے کہ بدکاریاں کرتے تھے اور علماء اس لئے مجرم تھے کہ انہیں منع نہ کرتے تھے۔ اس آیت سے دو باتیں واضح ہوئیں کہ نیکی کی دعوت دینا اور گناہوں سے روکنا علماء کا منصب ہے ، اگر وہ یہ فریضہ سرانجام نہ دیں گے تو وہ بھی مجرم اور مستحقِ عذاب ہوں گے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ شروع سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ زیادہ تر مال و دولت والے ہی غفلت میں پڑتے ہیں ، اس لئے عمومی طورپر مالدار لوگوں میں دینداروں کی کمی ہوتی ہے۔
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ(118)اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَؕ-وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(119)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت بنادیتا اور لوگ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔ البتہ جن پر تمہارے رب نے رحم کیا اور اللہ نے انہیں اسی کے لئے پیدا فرمایا ہے اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ملا کربھر دوں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ:اور اگرتمہارا رب چاہتا ۔} ارشاد فرمایا ’’اگر تمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور یوں سب کا ایک ہی دین ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ایسا نہ چاہا اور سب کو ایک امت نہ بنایا اور لوگ ہمیشہ مختلف دینوں پر عمل پیرا رہیں گے۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہو اکہ اختلاف جس طرح پہلی امتوں میں موجود تھا اُسی طرح اس امت میں بھی رہے گا تو ان میں سے کوئی مومن ہو گا کوئی کافر، کوئی نیک ہو گا اور کوئی گناہگار، اسی لئے حدیث میں ہے کہ یہودی 71 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور عنقریب تم 73 فرقوں میں بٹ جاؤ گے، ان میں سے72 فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ ایک جنتی فرقہ اہلِ سنت وجماعت ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۳ / ۹۳۸)
{ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ:البتہ جن پر تمہارے رب نے رحم کیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ البتہ وہ لوگ جن پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے رحم کیا اور انہیں اختلاف سے بچا لیا تو وہ دینِ حق پر متفق رہیں گے اور اس میں اختلاف نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے لوگ اسی لیے یعنی اختلاف والے اختلاف کے لئے اور رحمت والے اتفاق کے لئے پیدا کئے ہیں اور تمہارے ربعَزَّوَجَلَّ کی بات پوری ہوچکی کہ وہ جہنم کوتمام کافر جنوں اور انسانوں سے بھر دے گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۵۱۷)
وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ-وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَةٌ وَّ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(120)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رسولوں کی خبروں میں سے ہم سب تمہیں سناتے ہیں جس سے تمہا رے دل کو قوت دیں اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کے لئے وعظ و نصیحت (آئی)۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلًّا:اور سب کچھ۔} اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے واقعات اور ان کی طرف سے ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو کچھ پیش آیا وہ بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں رسولوں کی خبریں اور جو کچھ انہیں اپنی امتوں سے پیش آیا سناتے ہیں تاکہ ا س کے ذریعے ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل مضبوط کریں اور ا س طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات اور ان کی امتوں کے سلوک دیکھ کر آپ کو اپنی قوم کی ایذا برداشت کرنا اور اس پر صبر فرمانا آسان ہو۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۳۷۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ والوں کے ذکر سے دل کو چین نصیب ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انسان اپنی زندگی میں رونما ہونے والے طرح طرح کے واقعات اور حادثات کی وجہ سے بسا اوقات انتہائی مایوس ہو جاتا ہے حتّٰی کہ اگر کبھی کوئی خوشی بھی نصیب ہو تو اس سے دل میں خوشی پیدا ہونے یا اس خوشی کو محسوس کرنے کی بجائے اس کی اداسی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں انسان کو ایسی چیز کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہیں جس سے اس کے دل کو قوت حاصل ہو اور حالاتِ زمانہ کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اور دل کی تقویت کا ایک اہم ترین ذریعہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین کے حالات و واقعات کامطالعہ کرنا بھی ہے کیونکہ جب آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مقبولیت اور مقام و مرتبہ دیکھے گا اور دنیا میں انہیں جو حالات پیش آئے اور جن مَصائب و مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا ان پر نظر کرے گا اور ا س کے مقابلے میں ان کے صبر و تحمل اور رضاءِ الہٰی پر راضی رہنے کے بارے میں غوروفکر کرے گا تو اس کے دل کو تسکین حاصل ہو گی اور اسے مَصائب و آلام کا سامنا کرنے میں دلی قوت حاصل ہو گی اور وہ ذہنی طور پر خود کو بہت پُرسکون محسوس کرے گا۔
{وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ:اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا۔} اس آیت میں حق سے مراد توحید و رسالت اور قیامت کے وہ دلائل ہیں جنہیں اس سورت میں بیان کیا گیا۔ اور ’’مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے جس کے ذریعے نصیحت حاصل کی جائے ، یہاں اس سے مراد سابقہ امتوں کی ہلاکت کا بیان ہے جس کا ذکر اس سورت میں ہوا۔ اور ’’ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سابقہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کا سن کر اس سے عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ مسلمانوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سن کر مسلمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۶ / ۴۱۳، قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۵ / ۸۱، الجزء التاسع، ملتقطاً)
وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْؕ-اِنَّا عٰمِلُوْنَ(121)وَ انْتَظِرُوْاۚ-اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ(122)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم ایمان نہ لانے والوں سے فرماؤ : تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ ،ہم اپنا کام کرتے ہیں ۔ اور تم انتظار کرو، بیشک ہم بھی منتظر ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ:اورتم فرماؤ ۔} اس آیت میں وعید اور غضب کا اظہار ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ایمان نہ لانے والوں سے فرما دیں کہ جو کام تم کر رہے ہو وہ کئے جاؤ عنقریب تم ا س کام کا انجام جان جاؤ گے اور ہمیں ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے جس کام کا حکم دیا ہے ہم وہ کرتے ہیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۲ / ۳۷۷)
{وَ انْتَظِرُوْا:اور تم انتظار کرو ۔} یعنی تم ا س کا انتظار کرو جس کا شیطان نے تم سے وعدہ کیا ہے ہم بھی اس کے منتظر ہیں جو تم پر لازم ہو گایعنی دنیا یا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کا عذاب ۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۳۷۷)
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَیْهِؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(123)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور آسمانوں اور زمین کے غیب اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف ہر کام لوٹایا جاتا ہے تو اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ رکھو اور تمہارا رب تمہارے کا موں سے غافل نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِلّٰهِ:اور اللہ ہی کے لیے ہیں۔} یعنی تمام چیزیں چاہے وہ خفیہ ہوں یا ظاہر، موجود ہوں یا معدوم سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں ، الغرض زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور دنیا و آخرت میں مخلوق کا ہر کام اسی کی طرف لوٹتا ہے تو جس کی یہ شان ہے وہی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سواا ور کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ، لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو، اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت میں مشغول نہ ہو اور اپنے تمام معاملات میں اسی پر بھروسہ کرو کیونکہ وہ تمہیں کافی ہے اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ بندوں کے تمام اَعمال سے خبردار ہے،کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں ہے،وہ نیک بندوں کو ان کی نیکیوں کا ثواب اور گنہگاروں کو ان کے گناہوں کی سزا دے گا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۳۷۷)