سُوْرَۃُ إِبْرَاهِيم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
الٓرٰ- كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ﳔ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
’’الر‘‘، یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے اجالے کی طرف،اس (اللہ ) کے راستے کی طرف نکالو جو عزت والا ،سب خوبیوں والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{كِتٰبٌ:یہ ایک کتاب ہے۔} یعنی قرآنِ پاک ایک کتاب ہے جو اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے، اس کو نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے کفر، گمراہی اور جہالت کے اندھیروں سے ایمان کے اجالے کی طرف اور اس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے یعنی دینِ اسلام کی طرف لاؤ جو عزت والا، سب خوبیوں والاہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۷۳-۷۴، ملخصاً)
دینِ حق کی راہ ایک ہے:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ظُلُمَاتْ کو جمع اور نُوْر کوواحد کے صیغہ سے ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ دینِ حق کی راہ ایک ہے اور کفر و گمراہی کے راستے کثیر ہیں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱، ۷ / ۵۸)
ایمان اور ہدایت کا نور عطا کرنے والے
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے لوگوں کو ظلمت ِکفر سے نکال کرایمان کی روشنی میں داخل کرتے ہیں ، کوئی شخص صرف قرآن سے بغیر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطے ہدایت نہیں پا سکتا ۔نورِ ہدایت کا ذریعہ صرف حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔
الَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرتے ہیں وہ دور کی گمراہی میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا:جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۔} اس آیت میں ان کفار کے چند اوصاف بیان کئے گئے ہیں جنہیں ا س سے پہلی آیت میں آخرت کے شدید عذاب کی وعید سنائی گئی، چنانچہ فرمایا گیا کہ وہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اسے اُخروی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں ، لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے سے روکتے ہیں اور دین میں ٹیڑھا پن تلاش کرتے ہیں ۔
دین میں ٹیڑھا پن تلاش کرنے کی صورتیں
دین میں ٹیڑھا پن تلاش کرنے کی دوصورتیں ہیں ، ایک یہ کہ لوگوں کو سیدھا راستہ اختیار کرنے سے روک دینا ۔ دوسری یہ کہ حق مذہب کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈالنے کی اور جس قدر ہو سکے حیلوں وغیرہ کا سہارا لے کر حق مذہب میں برائیاں ظاہر کرنے کی کوشش کرنا۔(تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۶۰)
علم کا لبادہ اوڑھ کر حق مذہب سے بھٹکانے والے عبرت پکڑیں
اس سے معلوم ہوا کہ جو آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں وہ عملی طور پرگمراہ ہیں اور جو لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے راستے اور دین سے روکتے ہیں وہ گمراہ کرنے والے ہیں ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’جو شخص بھی دنیا کی زیب و زینت اورا س کی رنگینیوں کو آخرت کی نعمتوں پر ترجیح دے اور آخرت کی بجائے دنیا میں ہی رہنے کو پسند کرے اورحضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لائے ہوئے دین سے لوگوں کو روکے تو وہ اس آیت کے عموم میں داخل ہے ، وہ خود گمراہ اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ (قرطبی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳،۵ / ۲۳۹، الجزء التاسع)
اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو علم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو مذہب ِحق سے دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دین میں نئے نئے مذہب نکال کر امت کی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ حضرت زیاد بن حُدَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ تم جانتے ہو کہ اسلام کو کیاچیز تباہ کرے گی؟ میں نے کہا: نہیں ۔ ارشاد فرمایا کہ ’’اسلام کو عالِم کی لغزش ،منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت تباہ کرے گی۔(سنن دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۸۲، الحدیث: ۲۱۴)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف قوم کے ان پیشواؤں اور سربراہوں سے ہے جو گمراہ کرنے والے ہیں ۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ، ص۱۳۳، الحدیث: ۲۱۹۰)
علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نقل کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کی اصلاح پر بہت حریص اور امت کی مستقل بھلائی کی رغبت رکھتے تھے اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت پر قوم کے گمراہ کن سرداروں کی وجہ سے فکرمند رہتے تھے ۔ قوم کے پیشواؤں اور سربراہوں کی گمراہی نظام کو خراب کر دیتی ہے کیونکہ یہ لوگ قوم کے قائدین ہوتے ہیں اور جب یہ گمراہ ہوں گے تو قوم بھی گمراہی میں مبتلا ہو گی، اسی طرح جب علماء میں بھی گمراہیاں ہوں گی تو عوام کا ایک بہت بڑا حصہ گمراہی کا شکار ہو جائے گا۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۵۳۱، تحت الحدیث: ۲۱۹۰)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں’’ائمۂ دین فرماتے ہیں’’اے گروہِ علماء ! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے تو عوام مکروہات پرگریں گے، اگرتم مکروہ کروگے تو عوام حرام میں پڑیں گے، اگرتم حرام کے مرتکب ہوگے توعوام کفرمیں مبتلا ہوں گے۔ یہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں ’’بھائیو! لِلّٰہِ اپنے اوپر رحم کرو، اپنے اوپر رحم نہیں کرنا چاہتے تو اُمتِ مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پررحم کرو۔ چرواہے کہلاتے ہو، بھیڑئیے نہ بنو۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۴ / ۱۳۲-۱۳۳، ملخصاً
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْؕ-فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان کے ساتھ ہی بھیجا تاکہ وہ انہیں واضح کرکے بتادے ، پھر اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ:اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان کے ساتھ ہی بھیجا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ سے پہلے گزشتہ امتوں میں جتنے رسول بھیجے وہ ان لوگوں کی زبان میں ہی کلام کرتے تھے تاکہ انہیں جو اَحکامات دئیے گئے وہ ترجمے کے بغیر ہی آسانی سے اور جلدی سمجھ جائیں اور ان احکامات کے مطابق عمل کر سکیں ۔ (ابو سعود، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۱۷۶)
آیت میں مذکور لفظ ’’رَسُوْلٍ‘‘ میں حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے علاوہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام داخل ہیں ۔ یعنی ہر رسول کواس کی قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث فرمایا۔
قرآنِ مجید کو صرف عربی زبان میں ہی کیوں نازل کیا گیا:
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کے رسول ہیں لیکن قرآن کو ہرزبان میں نازل نہیں کیا گیا کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں زبانیں ہر زمانے میں بولی جاتی رہی ہیں تو قرآن کو ہر زبان میں ناز ل کرنا کئی اور طرح کی پیچیدگیوں کا باعث ہوتا لہٰذا اس وقت کی روئے زمین کی سب سے مرکزی اور مُطلقاً فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ زبان یعنی عربی میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا تاکہ رسولِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآنِ پاک کی اپنے قول و عمل سے بہترین تشریح فرمادیں اور پھرا ٓپ کی امت دنیا بھر کی زبانوں میں ان تعلیمات کو منتقل کردے۔
{فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ:پھراللّٰہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔} یعنی رسول کی ذمہ داری صرف تبلیغ کر دینا اور احکام پہنچا دینا ہے جبکہ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے،وہی غالب ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں ہو سکتا،وہی اپنے کاموں میں حکمت والا ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۷۴)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ﳔ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ اور انہیں اللہ کے دن یا د دلاؤ۔ بیشک اس میں ہر بڑے صبرکرنے والے ،شکر گزار کیلئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کی طرف ا س لئے بھیجا تاکہ آپ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں ۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا جو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کی قوم کو عطا فرمائے تھے اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرما یا کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوموں کی طرف بھیجا تو ان لوگوں نے اپنے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کیسا معاملہ کیا تاکہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیّتوں پر صبر فرمائیں اور انہیں یہ بتا دیا جائے کہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے درمیان کس قسم کا معاملہ ہوا تھا،اسی سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ نے بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے ان میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۴)
یاد رہے کہ آیت میں مذکور نشانیوں سے وہ معجزات مراد ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دے کر بھیجے گئے تھے جیسے عَصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا روشن ہو جانا اوردریا کا پھٹ جانا وغیرہ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۷۴)
{اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ:کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ۔} اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت کا مقصد ایک ہی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے ہدایت اور ایمان کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۴)
{وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ:اور انہیں اللّٰہ کے دن یا د دلاؤ۔} قاموس میں ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دنوں سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتیں مراد ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس، حضرت اُبی بن کعب ،امام مجاہد اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی اَیَّامُ اللّٰہ کی تفسیر ’’اللّٰہ کی نعمتیں ‘‘ فرمائی ہے۔ مقاتل کا قول ہے کہ اَیَّامُ اللّٰہ سے وہ بڑے بڑے واقعات مراد ہیں جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے واقع ہوئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اَیَّامُ اللّٰہ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَن و سَلویٰ اُتارنے کا دن ،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۷۵، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ص۵۶۳، ملتقطاً)بظاہر نعمت ِ الٰہی ملنے کے اَیّام والا معنی زیادہ قوی ہے کہ اگلی آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے عمل سے اسی کو واضح فرمایا ہے۔ اسی سے مسلمانوں کا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کا جشن منانا بھی ثابت ہوتا ہے کہ اَیَّامُ اللّٰہ میں سب سے بڑی نعمت کا دن سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن ہے ، لہٰذا اس کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے اسی طرح اور بزرگوں پر جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں ہوئیں یا جن ایام میں عظیم واقعات پیش آئے ان کی یادگار یں قائم کرنا بھی اللّٰہ تعالیٰ کے دن یاد دلانے میں داخل ہے۔
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ:بیشک اس میں ہر بڑے صبرکرنے والے ،شکر گزار کیلئے نشانیاں ہیں ۔} یعنی بیشک ان اَیَّامُ اللّٰہ میں ہر اس شخص کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور مصیبتوں پر بڑا صبرکرنے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر بڑا شکر گزار ہے ۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۹۸)
مسلمانوں کو صبر و شکر کی نصیحت:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ زندگی میں اگر اس پر ایساوقت آئے جو ا س کی طبیعت کے مطابق اور اس کے ارادے کے موافق ہو تو وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر کرے اور اگر ایساوقت آئے جو اس کی طبیعت کے مطابق نہ ہو تو صبر کرے۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۵) اور حضرت صہیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان مرد پر تعجب ہے کہ اس کے سارے کام خیر ہیں ، یہ بات مومن مرد کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی کہ اگر اسے راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے لہٰذا اس کے لیے راحت خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے لہٰذا صبر اس کے لیے بہتر ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ اَنْجٰىكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ وَ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بری سزا دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ:اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی قوم کو یہ ارشاد فرمانا اللّٰہ تعالیٰ کے دن یاد دلانے کے حکم کی تعمیل ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۷۵)
نوٹ:یاد رہے کہ بنی اسرائیل کی فرعونیوں سے نجات کی تفصیل سورہ ٔبقرہ کی آیت 49 کے تحت گزر چکی ہے۔
آیت’’ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… مسلمانوں پر کافر اور ظالم حکمرانوں کا تَسَلط ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا دنیوی عذاب اور ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہے جبکہ اچھے حکمران رب تعالیٰ کی رحمت اور نیک اعمال کا نتیجہ ہیں ۔
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7)وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔اور موسیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اگر تم اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ناشکرے ہوجاؤتو بیشک اللہ بے پرواہ ،خوبیوں والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم اپنی نجات اور دشمن کی ہلاکت کی نعمت پر میرا شکر ادا کرو گے اور ایمان و عملِ صالح پر ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کروں گا اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعے میری نعمت کی ناشکری کرو گے تو میں تمہیں سخت عذاب دوں گا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۹۹-۴۰۰)
شکر کی حقیقت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں کی طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۷۵-۷۶)
شکر کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت:
آیت کی مناسبت سے یہاں شکر اورناشکری سے متعلق 4 اَحادیث بیان کی جاتی ہیں ۔
(1)… حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۹)
(2)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللّٰہ تعالیٰ کابھی شکر ادا نہیں کرتا اوراللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ۶ / ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹)
(3)…حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰)
(4)…سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ۲ / ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲) اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ، اٰمین۔اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﲣ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ﳍ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُؕ-جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ وَ قَالُوْۤا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَ اِنَّا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے جنہیں اللہ ہی جانتا ہے ۔ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر تشریف لائے تو وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ کی طرف لے گئے اورکہنے لگے : ہم اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے اور بیشک جس راہ کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اس کی طرف سے ہم دھوکے میں ڈالنے والے شک میں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھے۔}اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سابقہ قوموں کی ہلاکت و بربادی کے واقعات سے اپنی امت کو ڈرائیں تاکہ وہ عبرت حاصل کریں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۹، ۷ / ۶۸، ملخصاً)
نوٹ: حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم،قومِ عاد اور ثمود کی ہلاکت و بربادی کے واقعات سورۂ اَعراف اور سورہ ٔ ہود میں گزر چکے ہیں ۔
{وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ:اور جو ان کے بعد ہوئے۔} ان تینوں امتوں کے بعد کچھ امتیں ایسی گزری ہیں جن کی تعداد اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں اصلاً کوئی خبر نہیں پہنچی۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۷۶)
{فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ:تو وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ میں لے گئے۔} حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ غصہ میں آکر اپنے ہاتھ کاٹنے لگے ۔حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ انہوں نے کتابُ اللّٰہ سن کر تعجب سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے۔ غرض یہ کوئی نہ کوئی انکار کی ادا تھی۔(خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۷۶، ملخصاً)
قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِی اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَدْعُوْكُمْ لِیَغْفِرَ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرَكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-قَالُوْۤا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاؕ-تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے رسولوں نے فرمایا: کیااس اللہ کے بارے میں شک ہے جوآسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور ایک مقررہ مدت تک تمہیں مہلت دے۔ انہوں نے کہا: تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو،تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں تو تم کوئی واضح دلیل لے کر آؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ رُسُلُهُمْ:ان کے رسولوں نے فرمایا۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سابقہ قوموں کے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا ’’کیا تم اس اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کے بارے میں شک کر رہے ہو جو زمین و آسمان کا خالق ہے؟ یہ شک کیسے کیا جاسکتا ہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کی عقلی اور نقلی دلیلیں تو انتہائی ظاہر ہیں ۔ وہ تمہیں اپنی اطاعت اور ایمان کی طرف بلاتا ہے تاکہ جب تم ایمان لے آؤ توحقوق العباد کے علاوہ تمہارے سابقہ گناہوں کو بخش دے اور تمہاری مقررہ مدت پوری ہونے تک تمہیں عذاب کے بغیر زندگی کی مہلت دے۔ قوموں نے جواب دیا ’’تم تو ظاہر میں ہمیں اپنی مثل معلوم ہوتے ہو، پھر کیسے مانا جائے کہ ہم تو نبی نہ ہوئے اور تمہیں یہ فضیلت مل گئی۔ تم اپنی باتوں سے یہ چاہتے ہو کہ ہم ان بتوں کی عبادت کرنے سے رک جائیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں ۔ تم کوئی واضح دلیل لے کر آؤ جس سے تمہارے دعوے کی صحت ثابت ہو۔ ان کا یہ کلام عناد اورسرکشی کی وجہ سے تھا اور باوجود یہ کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نشانیاں لاچکے تھے ، معجزات دکھا چکے تھے پھر بھی انہوں نے نئی دلیل مانگی اور پیش کئے ہوئے معجزات کو کالعدم قرار دیا۔( جلالین مع صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۱۰۱۶-۱۰۱۷، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۷۶-۷۷، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۶۵، ملتقطاً)
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے رسولوں نے ان سے فرمایا: ہم تمہارے جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر کوئی دلیل تمہارے پاس لے آئیں اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ:ان کے رسولوں نے ان سے فرمایا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کافروں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ کہا کہ تم تو ہمارے جیسے آدمی ہو، تو رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں جواب دیا ’’ اچھا یہی مانو کہ ہم واقعی تمہارے جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور نبوت و رسالت کے ساتھ اسے برگزیدہ کرتا ہے اور اِس منصبِ عظیم کے ساتھ مشرف فرماتا ہے اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ہم اپنی صداقت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل اورمعجزہ تمہارے پاس لے آئیں اور مسلمانوں کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے، وہی دشمنوں کے شر دور کرتا اور اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۷۷)
وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَاؕ-وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰى مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اس نے تو ہمیں ہماری راہیں دکھائی ہیں اور تم جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّٰهِ:اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللّٰہ پر بھروسہ نہ کریں ۔} یعنی ہم سے ایسا ہو نہیں سکتا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ قضائے الہٰی میں ہے وہی ہوگا ،ہمیں اس پر پورا بھروسہ اور کامل اعتماد ہے۔ اس نے تو ہمیں ہماری سعادت کی راہیں دکھائیں اور رُشد و نجات کے طریقے ہم پر واضح فرمادیئے اور ہم جانتے ہیں کہ تمام اُمور اس کے قدرت و اختیار میں ہیں ۔خدا کی قسم! تم اپنی باتوں اور عملوں سے جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرناچاہیے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۷۷)
توکل کی فضیلت:
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ توکل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘( طلاق:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔
اور ارشادِ ربّانی ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ‘‘ (ال عمران:۱۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اللّٰہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تو وہ مقام کتنا عظیم ہے جس پر فائز شخص کو اللّٰہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو اورا س کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کفایت کی ضَمان بھی حاصل ہو،تو جس شخص کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کفایت فرمائے،اس سے محبت کرے اور اس کی رعایت فرمائے اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی کیونکہ جو محبوب ہوتا ہے اسے نہ تو عذاب ہوتاہے،نہ دوری ہوتی ہے اور نہ ہی وہ پردے میں ہوتا ہے۔
نیز اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ‘‘ (انفال:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللّٰہ پر توکل کرے تو بیشک اللّٰہ غالب، حکمت والا ہے۔
یعنی ایسا غالب اور عزت والا ہے کہ جو کوئی ا س کی پناہ میں آ جائے وہ ذلیل ورسوا نہیں ہوتا۔ جو اس کی بارگاہِ بے کس پناہ میں پناہ لیتا ہے اور اس کی حمایت میں آ جاتا ہے وہ پَستی کاشکار نہیں ہوتا، وہ ایسا حکیم ہے کہ جو کوئی اس کی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے اس کی تدبیر میں کوئی کوتاہی نہیں ہوتی۔(احیاء علوم الدین، کتاب التوحید والتوکّل، بیان فضیلۃ التوکّل، ۴ / ۳۰۰-۳۰۱)
توکل کاایک مفہوم:
حضرت ابوتراب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ توکل بدن کو عبودیت میں ڈالنے،دل کو ربوبیّت کے ساتھ متعلق رکھنے ،عطا پر شکر اور مصیبت پر صبر کرنے کا نام ہے۔(مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۵۶۵)
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاؕ-فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَ(13)وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَ خَافَ وَعِیْدِ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم ضرور تمہیں اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ تو ان رسولوں کی طرف ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔ اور ضرور ہم ان کے بعد تمہیں زمین میں اِقتدار دیں گے ۔یہ اس کیلئے ہے جو میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے خوفزدہ رہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ:اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا۔} یعنی کافروں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ ہم تمہیں اپنے شہروں اور اپنی سرزمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آ جاؤ۔ کافروں کی ان باتوں کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ ان کے کاموں کا انجام ہلاکت و بربادی ہے لہٰذاتم ان کی وجہ سے فکر مند نہ ہو۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۷۷-۷۸)
{وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ:اور ضرور ہم ان کے بعد تمہیں زمین میں اقتدار دیں گے ۔} امام محمد بن جریر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کافروں کے خلاف مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ، جب رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتیں کفر میں حد سے بڑھ گئیں اور انہوں نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اَذِیّتیں پہنچانے کی دھمکیاں دیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ ان کی امتوں میں سے جنہوں نے کفر کیا اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہلاک کر دے گا اور تمہاری مدد فرمائے گا۔ درحقیقت ان آیات میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قوم کے مشرکین کے لئے وعید ہے کہ اگر وہ اپنے کفر اور رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف جرأت کرنے سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی سابقہ امتوں کے کافروں جیساہو گا ، اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ان آیات میں ثابت قدمی کی ترغیب اور ان کی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیّتوں پر صبر کی تلقین ہے کہ جس طرح سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی امتوں کے کفار کی زیادتیوں اور ظلم وستم پر صبر کیا اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی اپنی امت کے کفار کی اذیتوں پر صبر فرمائیں ،انجام کار یہ ہوگا کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کافروں کو ہلاک کر دے گا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو فتح و نصرت عطا فرمائے گا،سابقہ امتوں میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہی طریقِ کار رہا ہے۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۴۲۶)
{ذٰلِكَ لِمَنْ:یہ اس کیلئے ہے جو۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے جویہ وحی فرمائی ہے کہ وہ ظالموں کو ہلاک کرنے کے بعد مومنوں کو ان کی سرزمین میں آباد کر دے گا، یہ بشارت اس کے لئے ثابت ہے جو قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے سے ڈرتا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ نے آخرت میں اپنے عذاب کے بارے میں جو بتایا ہے اس سے خوفزدہ ہو، اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہواور اسے ناراض کرنے والے کاموں سے بچتا ہو۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۷۷، طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۷ / ۴۲۶، ملتقطاً)
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(15)مِّنْ وَّرَآىٕهٖ جَهَنَّمُ وَ یُسْقٰى مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ(16)یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(17)ترجمہ: کنزالعرفاناور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا کام ہوگیا۔ جہنم اس کے پیچھے ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ بڑی مشکل سے اس کے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا اور ایسا لگے گا نہیں کہ اسے گلے سے اتار لے اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور وہ مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَفْتَحُوْا:اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوموں کے ایمان قبول کر لینے کی امید نہ رہی تو انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ سے اپنی قوموں کے خلاف مدد طلب کی اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ان پر عذاب نازل کر دینے کی دعا کی ۔ دوسرا معنی یہ ہے کافروں نے یہ گمان رکھتے ہوئے اپنے اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درمیان اللّٰہ تعالیٰ سے فیصلہ طلب کیا کہ وہ حق پر ہیں اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر نہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۷۸، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۵۶۶، ملتقطاً)
{وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ:اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا کام ہوگیا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد فرمائی گئی اور انہیں فتح دی گئی اور حق کے مخالف سرکش کا فر نامراد ہوئے اور ان کی خلاصی کی کوئی صورت نہ رہی۔ (ابوسعود، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۱۸۴)
{یَتَجَرَّعُهٗ:بڑی مشکل سے اس کے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا۔} یعنی جب حق کے مخالف سرکش کافر کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا تو وہ ا س کی کڑواہٹ کی وجہ سے بڑی مشکل سے تھوڑے تھوڑے گھونٹ لے گا اور ا س کی قباحت و کراہت کی بنا پر ایسا لگے گا نہیں کہ وہ اسے گلے سے اتار لے اور مختلف عذابات کی صورت میں ہر طرف سے موت کے اسباب اس کے پاس آئیں گے لیکن وہ مرے گا نہیں کہ مر کر ہی راحت پا لے اور اسے ہر عذاب کے بعد اس سے زیادہ شدید اور سخت عذاب ہوگا۔ (جلالین مع صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۰۱۸، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۵۶۶، ملتقطاً)
جہنمیوں کے مشروب کی کیفیت:
اس آیت میں جہنمیوں کے جس مشروب کا ذکر ہوا اس کی کیفیت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جہنمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا، جب وہ پانی منہ کے قریب آئے گا تو وہ اس کو بہت ناگوار معلوم ہوگا اور جب اور قریب ہو گاتو اس سے چہرہ بُھن جائے گا اور سر تک کی کھال جل کر گر پڑ ے گی، جب وہ پانی پئے گا تو اس کی آنتیں کٹ کر نکل جائیں گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ سُقُوْا مَآءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَآءَهُمْ‘‘(سورۃ محمد:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہیں کھولتا پانی پلایا جائے گا تووہ ان کی آنتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا؟
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا‘‘ (الکہف۲۹)\
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا ہے ۔ اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ (ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۲۵۹۲)
اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کو کبھی موت نہ آئے گی:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہنم میں شدید ترین عذابات میں مبتلا ہونے کے باوجود جہنمیوں کو موت نہیں آئے گی، موت سے متعلق حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا یہاں تک کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا، پھر اسے ذبح کر دیا جائے گا، اس کے بعد ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ اے اہلِ جنت! تمہیں موت نہیں اور اے اہلِ جہنم! تمہیں موت نہیں۔ چنانچہ اہلِ جنت کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور اہلِ جہنم کے غم کا کوئی اندازہ نہ کر سکے گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۸۔) ’’ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ‘‘ یعنی ہم جہنم کے عذاب اور غضبِ جبار سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں ۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال راکھ کی طرح ہوں گے جس پر آندھی کے دن میں تیز طوفان آجائے تو وہ اپنی کمائیوں میں سے کسی شے پر بھی قادر نہ رہے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ:اپنے رب کا انکار کرنے والوں کے اعمال کا حال۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے آخرت میں کفار کے مختلف عذابات کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کافروں کے تمام اعمال ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں کوئی نفع حاصل نہ کر سکیں گے اور ا س وقت ان کا نقصان مکمل طور پر ظاہر ہو جائے گا کیونکہ دنیا میں ا نہوں نے اپنے گمان میں جو بھی نیک اعمال کئے ہوں گے جیسے محتاجوں کی امداد کرنا،صلہ رحمی کرنا، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، مسافروں کی معاونت کرنا اور بیماروں کی خبر گیری کرنا وغیرہ وہ ایمان نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں باطل ہو جائیں گے اور یہی مکمل نقصان ہے۔ اس آیت میں کفار کے اعمال کی جو مثال بیان کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیز آندھی راکھ کو اڑا کر لے جاتی ہے اور اُس راکھ کے اجزاء اِس طرح مُنتشِر ہوجاتے ہیں کہ ا س کا کوئی اثر، نشان اور خبر باقی نہیں رہتی اسی طرح کافروں کے تمام اعمال کو ان کے کفر نے باطل کر دیا اور ان اعمال کو اس طرح ضائع کر دیا کہ ان کی کوئی خبر اور نشان باقی نہ رہا۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۸، ۷ / ۸۰-۸۱، ملخصاً)
کافر کے نیک اعمال آخرت میں اسے فائدہ نہ دیں گے:ـ
اس آیت سے معلوم ہو اکہ آخرت میں وہی نیک اعمال فائدہ دیں گے جو ایمان لانے کے بعد کئے گئے ہوں گے اور جو نیک اعمال حالتِ کفر میں کئے گئے ہوں گے اور نیک اعمال کرنے والا حالتِ کفرمیں ہی مرا ہو گا تو اسے اِن نیک اعمال کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو گا جیساکہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا‘‘ (فرقان:۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور انہوں نے جو کوئی عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف قصد کرکے باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنادیں گے جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں ۔
اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس مومن کو دنیا میں کوئی نیکی دی جاتی ہے اللّٰہ تعالیٰ اس پر ظلم نہیں کرے گا، اسے آخرت میں بھی جزا دی جائے گی اور رہا کافر تو اس نے دنیا میں جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نیکیاں کی ہیں ان کا اَجر اسے دنیا میں دے دیاجائے گا اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہو گی جس کی اسے جزا دی جائے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار، باب جزاء المؤمن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۸، الحدیث: ۵۶(۲۸۰۸))
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(19)وَّ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے۔وہ اگر چاہے تو اے لوگو! تمہیں لے جائے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ:کیا تو نے نہ دیکھا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو باطل اور بیکار پیدا نہیں فرمایا بلکہ ان کی پیدائش میں بڑی حکمتیں ہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۷۹)
{اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ:وہ اگر چاہے تو اے لوگو!تمہیں لے جائے۔} یعنی جو آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ ایک قوم کو فنا کر دینے کے بعد نئی مخلوق پیدا کر دینے پر بدرجہ اَولیٰ قادر ہے کیونکہ جو کسی سخت اور مشکل چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہو وہ سہل اور آسان چیز پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادر ہوگا اور یہ ظاہری سمجھانے کے اعتبار سے کلام ہے ورنہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے اِبتدا و اِعادہ سب برابر ہے۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت میں کفارِ مکہ سے خطاب ہے کہ اے کافروں کے گروہ! میں تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ اور مخلوق پیدا کر دوں گا جو میری فرمانبردار اور اطاعت گزار ہو گی۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۸۲)
اللّٰہ تعالیٰ اپنی نافرمانی پر فوراًسزا نہیں دیتا:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’یہ آیتِ مبارکہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور صبر کے کمال پر دلالت کرتی ہے کہ وہ گناہگاروں کی جلد پکڑ نہیں فرماتا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ کوئی شخص ایسا نہیں جو اَذِیّت ناک بات سنے اور اللّٰہ تعالیٰ سے زیادہ صابر ہو ۔ اُس کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے اور ا س کے لئے بیٹا ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ا س کے باوجود وہ انہیں مہلت دئیے رکھتا ہے اور انہیں روزی دیتا رہتا ہے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار، باب لا احد اصبر علی اذی من اللّٰہ عزّوجل۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۶، الحدیث: ۴۹ (۲۸۰۴)) پھر عذاب کے مؤخر ہونے میں یہ حکمت بھی ہے کہ گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور ( باطل) دلیل پر اِصرار کرنے والا اسے چھوڑ دے، اس لئے ہر عقلمند کو چاہئے کہ وہ (جلد عذاب نہ ہونے کو غنیمت سمجھتے ہوئے کفر اور گناہوں سے فوراً توبہ کر لے اور) ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کیونکہ وہ قَہر، کبریائی اور جلالت والا ہے۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۴۱۰)
{وَ مَا ذٰلِكَ:اور یہ نہیں۔} ارشاد فرمایا کہ یہ (یعنی نئی مخلوق لانا) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ جو سارے جہان کو فنا کرنے اور ایجاد کرنے پر قادر ہے اس کے لئے مخصوص لوگوں کو فنا کرنا اور پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۸۲)
وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَیْنٰكُمْؕ-سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِیْصٍ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور سب اللہ کے حضور اعلانیہ حاضر ہوں گے تو جو کمزور تھے بڑے لوگوں سے کہیں گے : ہم تمہارے تابع تھے توکیا تم اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم سے دور کرسکتے ہو۔وہ کہیں گے: اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمہیں بھی ہدایت دیدیتے ۔ (اب) ہم پر برابر ہے کہ بے قراری کا اظہار کریں یا صبرکریں ۔ہمارے لئے کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِیْعًا:اور سب اللّٰہ کے حضور اعلانیہ حاضر ہوں گے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کفار کے آپس میں اور شیطان کے ساتھ بحث کرنے کی خبر دی ہے ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن سب اپنی قبروں سے نکل کر اللّٰہ تعالیٰ کے حضور اعلانیہ حاضر ہوں گے تاکہ اللّٰہ تعالیٰ ان سے حساب لے اور ان کے اعمال کے مطابق انہیں جزا دے ،تواس وقت وہ لوگ جو کمزور تھے اور دولت مندوں اور بااثر لوگوں کی پیروی میں انہوں نے کفر اختیار کیا تھا، وہ بڑے لوگوں اور قائدین سے کہیں گے کہ دین اور اعتقاد میں ہم تمہارے تابع تھے توکیا تم اس بات پر قادر ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو عذاب ہمارے لئے مقرر فرمایا اس میں سے کچھ ہم سے دور کرسکو۔ ان کایہ کلام تَوبیخ اور عناد کے طور پر ہوگا کہ دنیا میں تم نے ہمیں گمراہ کیا تھا اور راہِ حق سے روکا تھا اور بڑھ بڑھ کر باتیں کیا کرتے تھے، اب تمہارے وہ دعوے کہاں گئے، اب اس عذاب میں سے ذرا سا توٹال دو ۔ کافروں کے سردار اس کے جواب میں کہیں گے ’’اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں دنیا میں ایمان کی ہدایت دیتا تو ہم تمہیں بھی ہدایت دیدیتے ،جب خود ہی گمراہ ہو رہے تھے تو تمہیں کیا راہ دکھاتے، اب خلاصی کی کوئی صورت نہیں ، نہ کافروں کے لئے شفاعت، آؤ ،روئیں اور فریاد کریں ، چنانچہ پانچ سوبرس فریاد اور گریہ و زاری کرتے رہیں گے ، جب یہ ان کے کچھ نہ کام آئے گی تو کہیں گے ’’اب صبر کر کے دیکھو ،شاید اس سے کچھ کام نکلے،چنانچہ پانچ سو برس صبر کریں گے ،جب وہ بھی ان کے کام نہ آئے گا تو کہیں گے کہ اب ہم پر برابر ہے کہ بے قراری کا اظہار کریں یا صبر کریں ، ہمارے لئے کہیں کوئی پناہ گاہ نہیں ۔ (صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۰۱۹،خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۷۹-۸۰، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۵۶۷، ملتقطاً)
وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْؕ-وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْۚ-فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّؕ-اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُؕ-اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا:بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھاوہ میں نے تم سے جھوٹا کیا اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں تھی مگر یہی کہ میں نے تمہیں بلایا توتم نے میری مان لی تو اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو ۔نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ ہی تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو۔ وہ جو پہلے تم نے مجھے (اللہ کا) شریک بنایاتھا تومیں اس شرک سے سخت بیزار ہوں ۔ بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ:اور شیطان کہے گا ۔} یعنی جب مخلوق کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور حساب کتاب ختم ہوجائے گا، جنتی جنت کا اور جہنمی جہنم کا حکم پا کر جنت و جہنم میں داخل ہوجائیں گے اور جہنمی شیطان پر ملامت کریں گے اور اس کو برا کہیں گے کہ بدنصیب ! تو نے ہمیں گمراہ کرکے اس مصیبت میں گرفتار کیا تووہ جواب دے گا کہ بیشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا ہے اور آخرت میں نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ ملے گا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا تھا اور سچا ثابت ہوا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا تھا کہ نہ مرنے کے بعد اٹھنا ہے نہ جزا ،نہ جنت ہے نہ دوزخ، وہ میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں تھی نہ میں نے تمہیں اپنی پیروی کرنے پر مجبور کیا تھا یا یہ کہ میں نے اپنے وعدے پر تمہارے سامنے کوئی حجت و بُرہان پیش نہیں کی تھی، بس ہوا یہ ہے کہ میں نے تمہیں وسوسے ڈال کر گمراہی کی طرفبلایا توتم نے میری مان لی اور حجت و برہان کے بغیر تم میرے بہکاوے میں آگئے ، حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے تم سے فرما دیا تھا کہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آنا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کی طرف سے دلائل لے کر تمہارے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے حجتیں پیش کی تھیں اور دلائل قائم کئے تھے تو تم پر خود لازم تھا کہ تم ان کی پیروی کرتے اور اُن کے روشن دلائل اورظاہر معجزات سے منہ نہ پھیرتے اور میری بات نہ مانتے اور میری طرف اِلتفات نہ کرتے، مگر تم نے ایسا نہ کیا،تو اب مجھے ملامت نہ کرو کیونکہ میں دشمن ہوں اور میری دشمنی ظاہر ہے اور دشمن سے خیر خواہی کی اُمید رکھنا ہی حماقت ہے ،تم اپنے آپ کو ملامت کرو ، میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکتا ہوں اور نہ ہی تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو اور وہ جو تم نے مجھے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا اس کی عبادت میں شریک بنایاتھا تومیں اس شرک سے سخت بیزار ہوں ۔ بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۸۰-۸۱، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۵۶۸، ملتقطاً)
شیطان کی پیروی کا انجام:
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور لعین شیطان کے بہکاوے میں آ کر کفر ومعصیت میں مبتلا ہو رہے ہیں اور شیطانکی انسان دشمنی روزِ روشن کی طرح واضح ہونے کے باوجود اس سے خیرخواہی کی اَحمقانہ امید رکھے ہوئے ہیں وہ بہت بڑے دھوکے کا شکار ہیں ، انہیں چاہئے کہ اس آیتِ مبارکہ سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے انجام کے بارے میں غورو فکر کریں ۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ‘‘ (بقرہ:۲۰۸،۲۰۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔اور اگر تم اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد بھی لغزش کھاؤ تو جان لو کہ اللّٰہ زبردست حکمت والا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(۵)اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ‘‘(فاطر:۵،۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے لوگو!بیشک اللّٰہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں اللّٰہ کے بارے میں فریب نہ دے ۔بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں ۔
وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْؕ-تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے وہ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ ان میں رہیں گے ، وہاں اُن کی ملاقات کی دعا ،سلام ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:جو ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے کافر اور بدکار لوگوں کے حالات تفصیل سے بیان فرمائے اور اس آیت میں مومن اور نیکوکار لوگوں کے حالات بیان فرما رہا ہے، چنانچہ اس آیت میں بیان فرمایا کہ ایمان قبول کرنے اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے اِذن سے جنت کی دائمی نعمتیں عطا کی جائیں گی اور اللّٰہ تعالیٰ کے اِذن سے انہیں نعمتیں عطا ہونا بھی ان کے حق میں ایک طرح کی تعظیم ہے اور وہ خود بھی ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے،فرشتے بھی ان کی تعظیم کرتے ہوئے انہیں سلام کریں گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بھی انہیں سلام کہا جائے گا۔ جنت میں سلام کا معنی یہ ہے کہ وہ دنیا کی آفتوں ،حسرتوں یا دنیا کی بیماریوں ،دردوں ، غموں اور پریشانیوں سے سلامت ہو گئے اور دنیا کے فانی جسموں سے نکل کر جنت کے دائمی جسموں میں منتقل ہو جانا اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۸۹، ملخصاً)
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ(24)تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے کلمہ پاک کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے ایک پاکیزہ درخت ہو جس کی جڑقائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں ہوں ۔ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سمجھیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَ:کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے مومنین اور کفار کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کے ابتدائی حصے میں مذکور مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں زمین کی گہرائی میں موجود ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے ایسے ہی کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل کی زمین میں ثابت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثَمرات یعنی برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں ۔( خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۸۱-۸۲، ملخصاً)
پاکیزہ بات اور پاکیزہ درخت:
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ (اس آیت میں ) پاکیزہ بات سے ’’لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کہنا مراد ہے اور پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۸۱) پاکیزہ درخت سے متعلق اور بھی اقوال ہیں ۔
مومن مرد کی مثال درخت:
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’ہم سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا ’’مجھے اس درخت کے بارے بتاؤ جو مردِ مومن کی مثل ہے، اس کے پتے نہیں گرتے اور وہ ہروقت پھل دیتا ہے؟حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے یہ دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے صحابہ خاموش ہیں تو مجھے کلام کرنا مناسب نہ لگا، جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے کوئی جواب نہ دیا توحضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔ مجلس برخاست ہونے کے بعد میں نے اپنے والد ماجد حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی ’’ جب حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا تھا تو میرے دل میں آیا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن جب میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم تشریف فرما ہیں اور وہ کوئی جواب نہیں دے رہے تو میں بھی خاموش رہا، حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اگر تم بتادیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ابراہیم، باب کشجرۃ طیّبۃ اصلہا ثابت۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۵۳، الحدیث: ۴۶۹۸)
{وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ:اور اللّٰہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۰۸، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۸۲، ملتقطاً)
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور گندی بات کی مثال اس گندے درخت کی طرح ہے جوزمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ:اور گندی بات کی مثال۔} اس آیت میں مذکور مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ گندی بات یعنی کفریَہ کلام کی مثال اندرائن جیسے کڑوے مزے اور ناگوار بو والے پھل کے درخت کی طرح ہے جوزمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں ثابت و مستحکم نہیں اور نہ ہی اس کی شاخیں بلند ہوتیں ہیں یہی حال کفریہ کلام کا ہے کہ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں اور وہ کوئی دلیل وحجت نہیں رکھتا جس سے اسے استحکام ملے اورنہ اس میں کوئی خیر وبرکت ہے کہ وہ قبولیت کی بلندی پر پہنچ سکے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۸۲، ملخصاً)
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ ﳜ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ثابت رکھتا ہے اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُثَبِّتُ اللّٰهُ:اللّٰہ ثابت رکھتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں کلمۂ ایمان پر ثابت رکھتا ہے کہ وہ آزمائش اور مصیبت کے وقتوں میں بھی صبر کرتے ہیں ، ایمان پر قائم رہتے ہیں اور راہِ حق اور سیدھے دین سے نہیں ہٹتے حتّٰی کہ ان کی زندگی کاخاتمہ ایمان پر ہوتا ہے اور آخرت یعنی قبر میں بھی اللّٰہ تعالیٰ انہیں ثابت رکھتا ہے کیونکہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے۔(روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۴۱۵، ملخصاً) قبر میں مومن کلمۂ ایمان پر کس طرح ثابت رہتا ہے اس کی تفصیل اس حدیثِ پاک میں ہے ،چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مردے کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں ، پھر اس سے کہتے ہیں ’’ تیرا رب کون ؟ وہ کہتا ہے میرا رب اللّٰہ ہے، پھر کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ’’ میرا دین اسلام ہے ، پھر وہ کہتے ہیں ’’ یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ وہ کہتا ہے’’ وہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ۔ فرشتے کہتے ہیں ’’تجھے یہ کیسے معلوم ہوا ؟ وہ کہتا ہے’’ میں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا جانا ۔ یہ ہی اس آیت ’’یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کی تفسیر ہے ۔ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ پھر آسمان سے پکارنے والا پکارتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے لہٰذا اس کے لیے جنت کا بستر بچھاؤ، اسے جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو۔ چنانچہ اس کے لئےجنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس تک جنت کی ہوا اور وہاں کی خوشبو آتی ہے اور تاحدِ نظر قبر میں فراخی کردی جاتی ہے ۔ اس کے بعد رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کافر کی موت کا ذکر فرمایا کہ اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، پھر وہ اسے بٹھاکر اس سے کہتے ہیں ’’ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ پھر اس سے پوچھتے ہیں ’’ تیرا دین کیا ؟ وہ کہتا ہے: ہائے ہائے میں نہیں جانتا ۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ’’ یہ کون صاحب ہیں جو تم میں بھیجے گئے ؟ وہ کہتا ہے :ہائے ہائے میں نہیں جانتا ۔ تب پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے، لہٰذا اس کے لیے آگ کا بستر بچھاؤ ، اسے آگ کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، پھر اس تک وہاں کی گرمی اوربو آتی ہے اور اس پر اس کی قبر تنگ ہوجاتی ہے حتّٰی کہ قبر میں اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں ۔ پھر اس پر اندھے بہرے فرشتے مُسَلط کر دئیے جاتے ہیں جن کے پاس لوہے کے ہتھوڑے ہوتے ہیں ، اگر ان سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ بھی مٹی ہوجائے، اس ہتھوڑے سے اسے ایسی مارمارتے ہیں جسے جن و اِنس کے سوا مشرق و مغرب کی ہرمخلوق سنتی ہے ، اس سے وہ مٹی ہوجاتا ہے، پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)’’اَعَاذَنَااﷲُ تَعَالٰی مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَثَبِّتْنَاعَلَی الْاِیْمَانِ‘‘ یعنی قبر کے عذاب سے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے اور اے اللّٰہ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرما ،اٰمین۔
تین مجاہدین کی اسلام پر ثابت قدمی:
یاد رہے کہ جو دنیا میں دینِ اسلام پر ثابت قدم رہے گا اسے ہی قبر میں اسلام پر ثابت قدمی نصیب ہو گی اور جو دنیا میں اسلام پر ثابت قدم نہ رہا اور مَصائب و مشکلات سے گھبرا کر یا کسی اور وجہ سے دینِ اسلام سے مُنحرف ہو گیا اور اسی حال میں مر گیا تو اسے قبر میں کسی صورت اسلام پر ثابت قدمی نصیب نہ ہو گی۔ ہمارے بزرگانِ دین کا حال یہ تھا کہ وہ دنیا کی سخت ترین تکالیف برداشت کرنا تو گوارا کر لیتے لیکن دینِ اسلام سے مُنحرف ہونا انہیں کسی صورت منظور نہ تھا، اسی سے متعلق علامہ ابنِ جوزی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’عیون الحکایات‘‘ میں تین بہادر بھائیوں کی ایک طویل حکایت ذکر کی ہے، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ تین سگے بھائی روم کے عیسائیوں سے جہاد کی غرض سے جانے والے لشکر میں شامل ہوئے، دورانِ جہاد انہیں گرفتار کر کے روم کے بادشاہ کے دربار میں لے جایا گیا تو اس نے منصب و مرتبے اور عیش و عشرت کا لالچ دے کر انہیں نصرانی ہو جانے کی دعوت دی۔ بادشاہ کی دعوت سن کر انہوں نے جواب دیا ’’ہم اپنے دین کوکبھی بھی نہیں چھوڑ سکتے، اس دین کی خاطر سر کٹانا ہمارے لئے بہت بڑی سعادت ہے۔ تم ہمارے ساتھ جو چاہے کرو، اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے پائے اِستقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آئے گا۔ یہ کہہ کر تینوں بھائی بیک وقت شاہ ِروم کے دربار میں کھڑے ہوکر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ کرتے ہوئے ’’یا محمداہ ! یا محمداہ ! یا محمداہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!‘‘کی صدائیں بلند کرنے لگے ۔
جب بادشاہ نے یہ دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا اور اس نے انہیں دردناک سزا دینے کی دھمکی دے کر دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا، لیکن ان بھائیوں نے اس کی دھمکی کی پرواہ نہ کی تو بادشاہ نے اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ تین بڑی بڑی دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ جلا دو۔ جب تیل خوب گرم ہوجائے اورکھولنے لگے تو مجھے اطلاع کردینا ۔ جلاد حکم پاتے ہی دوڑے اور تین دیگوں میں تیل ڈال کر ان کے نیچے آگ لگادی۔ مسلسل تین دن تک وہ دیگیں آگ پر رکھی رہیں اور ان مجاہدین کو روزانہ نصرانیت کی دعوت دی جاتی اور لالچ دیا جاتا رہا لیکن ان کے قدم بالکل نہ ڈگمگائے ۔ چوتھے دن بادشاہ نے پھر انہیں لالچ اور دھمکی دی لیکن وہ اپنے مذموم ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا تو ا س نے بڑے بھائی کو جلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا، پھر اس سے چھوٹے بھائی کو بھی نصرانیت قبول نہ کرنے پر جلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا ،اب سب سے چھوٹے بھائی کی باری تھی جو کہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے، ایک گورنر نے آگے بڑھ کر بادشاہ سے کہا کہ اسے اسلام سے منحرف کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں ، آپ مجھے چند دن کی مہلت دے دیں ۔ بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے اپنا ناپاک منصوبہ بیان کیا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس مجاہد کو گورنر کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ گورنر نے گھر آکر اپنی خوبصورت بیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنے حسن و شباب کے ذریعے اس نوجوان کو اپنے دامِ فریب میں پھنسانے اور نصرانیت قبول کروانے کی کوشش کرے۔ بیٹی نے اس کی حامی بھر لی اور وہ خوب سج سنور کر اس مجاہد کے پاس گئی اوراسے بہکانے کی خوب کوشش کرنے لگی، لیکن ہوا یوں کہ وہ نوجوان ساری رات نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہا اور دن میں بھی ذکرِ الٰہی کرتا رہا اور اس نے لڑکی کے حسن و شباب کی طرف آنکھ تک اٹھا کر نہ دیکھا۔ کئی دن کی مسلسل کوشش کے باوجود بھی جب وہ مجاہد گورنر کی بیٹی کی طرف مائل نہ ہوا تو اس لڑکی نے اپنے باپ سے کہا: یہ تو ہر وقت گُم سُم رہتا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں اس کے دوبھائیوں کو مار دیا گیا ہے ،یہ ان کی یاد میں غمگین رہتا ہے اور میری طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتا ۔ اگر ایسا ہوجائے کہ ہمیں اس شہر سے کسی دو سرے شہر میں منتقل کردیا جائے اور بادشاہ سے مزید کچھ دنوں کی مہلت لے لی جائے تو نئے شہر میں جانے سے اس نوجوان کا غم کم ہوجائے گا، پھر میں اسے ضرور اپنی طرف مائل کرلوں گی۔ چنانچہ جب گورنر نے بادشاہ سے صورتِ حال بیان کی تو اس نے دونوں باتیں منظور کرلیں اور انہیں دوسرے شہر میں بھیج دیا گیا۔ وہاں وہ لڑکی روزانہ نئے نئے انداز سے بناؤ سنگھار کر کے نوجوان کو مائل کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اس مجاہد کے معمول میں ذرہ برابر فرق نہ آیا، حتّٰی کہ ایک رات یوں ہوا کہ وہ اس نوجوان کے پا س آئی اور کہنے لگی: میں تمہاری عبادت وریاضت اور پاکدامنی سے بہت متاثر ہوئی ہوں اور اب میں تمہارے دین سے محبت کرنے لگی ہوں کہ جس کی تعلیمات میں یہاں تک اچھائی ہے کہ کسی غیر عورت کو نہ دیکھا جائے تو یقینا وہی دین حق ہے۔ میں آج اور ابھی عیسائیت سے توبہ کرکے تمہارے دین میں داخل ہوتی ہوں ۔ مجھے کلمہ پڑھاکر اپنے دین میں داخل کرلیجئے ۔ پھراس لڑکی نے سچے دل سے عیسائیت سے توبہ کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی ۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ التسعون بعد المائۃ، ص۱۹۷-۱۹۸)
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ(28)جَهَنَّمَۚ-یَصْلَوْنَهَاؕ-وَ بِئْسَ الْقَرَارُ(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر اتارڈالا۔ جو دوزخ ہے اس میں داخل ہوں گے اور وہ کیا ہی ٹھہرنے کی بری جگہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اَلَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا:جنہوں نے اللّٰہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا۔} اس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے برے احوال کا ذکر فرمایا ہے ۔(تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۷ / ۹۴) بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جن لوگوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا ان سے مراد کفارِ مکہ ہیں اور وہ نعمت جس کی انہوں نے شکر گزاری نہ کی وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، الحدیث: ۳۹۷۷)آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دو عالَم کے سردار، محمدمصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجود سے کفارِ قریش کو نوازا اور ان کی زیارت سراپا کرامت کی سعادت سے مشرف کیا، ا س لئے ان پرلازم تھا کہ وہ اس نعمت ِجلیلہ کا شکر بجا لاتے اور ان کی پیروی کرکے مزید کرم کے حق دار ہوتے لیکن اس کی بجائے انہوں نے ناشکری کی اور نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کیا اور اپنی قوم کو جو دین میں ان کے موافق تھے ہلاکت کے گھر میں پہنچا دیا۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۸۴)
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖؕ-قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے اللہ کے لیے برابر والے قرار دئیے تاکہ اس کی راہ سے بھٹکا دیں ، تم فرماؤ: فائدہ اٹھالو پھر بیشک تمہیں آگ کی طرف لوٹنا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ تَمَتَّعُوْا:تم فرماؤ: فائدہ اٹھالو ۔} کفار سے فرمایا گیا کہ اگرچہ تم شرک کے مرتکب ہو لیکن چند دن دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھالو پھر اس کے بعد تمہیں جہنم ہی کی طرف جانا ہے۔
سورۂ ابراہیم کی آیت28 تا 30 سے حاصل ہونے والی معلومات:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… جس طرح شکر نعمت میں اضافے کا سبب ہے اسی طرح ناشکری زوالِ نعمت کا سبب ہے (اس لئے ہر ایک کو نا شکری سے بچنا چاہئے)
(2)…برا ساتھی بندے کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے اور اسے تباہی کے گھر میں اتار دیتا ہے اس لئے ہر مخلص مسلمان کو چاہئے کہ وہ کافروں ، منافقوں اور بدمذہبوں کی صحبت سے خود کو بچائے تاکہ اس کی طبیعت ان کے برے عقائد و اعمال کی طرف مائل نہ ہو۔
(3)…جہنم شریر لوگوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے اور اس کی گرمی کی شدت ناقابلِ بیان ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جس جہنمی کو سب سے کم عذاب ہوگا اس کے دونوں قدموں پر دو چنگاریاں رکھی جائیں گی جن کی وجہ سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہو گا جیسے ہانڈی یا دیگچی میں ابال آتا ہے (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۲، الحدیث: ۶۵۶۲)۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۴۱۸-۴۱۹)
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
میرے ان بندوں سے فرماؤ جو ایمان لائے کہ نماز قائم رکھیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کریں اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ کوئی تجارت ہوگی اور نہ دوستی۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ لِّعِبَادِیَ:میرے بندوں سے فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ان بندوں سے فرما دیں جو ایمان لائے کہ فرض نمازیں ان کے تما م اَرکان و شرائط کے ساتھ ادا کریں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کریں جس میں نہ کوئی تجارت ہوگی کہ خرید و فروخت یعنی مالی معاوضے اورفد یے سے ہی کچھ نفع اُٹھایا جاسکے اور نہ دوستی کہ اس سے نفع اٹھایا جائے بلکہ بہت سے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔
قیامت کے دن نفسانی دوستی فائدہ نہ دے گی:
یاد رہے کہ اس آیت میں نفسانی اورطبعی دوستی کی نفی ہے اور ایمانی دوستی جومحبتِ الٰہی کے سبب سے ہو وہ باقی رہے گی جیسا کہ سورۂ زُخرف کی آیت نمبر 67 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (زخرف: ۶۷)
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ ہی جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کہے ھانے کیلئے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کوتمہارے قابو میں دیدیا تا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدئیے
تفسیر: صراط الجنان
{اَللّٰهُ:اللّٰہ ہی ہے۔}اس سے پہلی آیات میں سعادت مندوں اور بدبختوں کے احوال بیان ہوئے اور چونکہ سعادت کے حصول کا اہم ترین ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ہے اور بد بختی کا اہم ترین سبب اس معرفت سے محرومی ہے اس لئے سعادت مندوں اور بدبختوں کے احوال کے بعد وہ دلائل بیان فرمائے گئے ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے موجود ہونےاور اس کے علم و قدرت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں ۔اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں کل دس دلائل بیان ہوئے ہیں (1)آسمانوں کو پیدا کرنا۔(2)زمین کو پیدا کرنا۔(3) آسمان سے پانی اتار کراس کے ذریعے لوگوں کے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالنا۔ (4) کشتیوں کولوگوں کے قابو میں دینا تا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں چلے۔ (5) دریا لوگوں کے قابو میں دینا۔(6،7) سورج اور چاندکو لوگوں کے لئے کام پر لگادینا جو برابر چل رہے ہیں ۔ (8،9) لوگوں کے لیے رات اور دن کومُسخر کردینا۔(10) لوگوں کو بہت کچھ ان کی منہ مانگی چیزیں دینا۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۷ / ۹۶)
{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ:اللّٰہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو بغیر کسی چیز کے پیدا فرمایا اور آسمان سے بارش کا پانی نازل فرمایا جس کے ذریعے درختوں اور کھیتیوں کی نشوونما ہوئی تو ان پر تمہارے کھانے کے لئے پھل اُگے اور کشتیوں کوتمہارے قابو میں دیدیا تا کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے دریا میں چلیں ،تم ان کشتیوں پر سوار ہوتے ہو اوران کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر اپنے سازو سامان کی نقل و حمل کرتے ہو اور دریاؤں کا پانی بھی تمہار ے قابو میں دیدیا ۔خلاصہ یہ ہے کہ اے شرک کرنے والو! عبادت اور اطاعت کا مستحق وہی ہے جس کے یہ اوصاف ہیں ، تمہارے معبود بت جو نہ اپنے آپ کو اورنہ کسی اور کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں وہ ہر گز عبادت کے لائق نہیں ۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۷ / ۴۵۷)
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے لیے سورج اور چاندکو کام پر لگادیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن کومسخر کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ:اور تمہارے لیے سورج اور چاندکو کام پر لگادیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جس نے سور ج اور چاند کو تمہارے لئے کام پر لگا دیا، دن میں سورج طلوع ہو جاتا ہے اور رات میں چاند نکل آتا ہے تاکہ تمہاری جانوں اور معاش کی درستی رہے اورجب سے اللّٰہ تعالیٰ نے سورج اور چاندکو پیدا فرمایا ہے تب سے وہ اپنے اپنے محل میں گردش کر رہے ہیں اور اسی طرح قیامت تک گردش کرتے رہیں گے،اپنی گردش کی وجہ سے نہ کمزور پڑیں گے اور نہ ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے اور تمہارے مَنافع اور اَسباب کی درستی کے لیے رات اور دن کومسخر کردیا ہے،رات جاتی ہے تو دن نکل آتا ہے ،دن ختم ہوتا ہے تو رات آ جاتی ہے،دن میں تم اپنے معاش کے کاموں میں مصروف ہوتے ہو اور رات میں آرام کرتے ہو، یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی تم پر رحمت ہے۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۳، ۷ / ۴۵۷-۳۵۸، صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۲۴-۱۰۲۵، ملتقطاً)
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَﭤ(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت کرنے سے بچا ئے رکھ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ:اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مکہ مکرمہ کو امن والا شہر بنا دے کہ قیامت کے قریب دنیا کے ویران ہونے کے وقت تک یہ شہر ویرانی سے محفوظ رہے یا اس شہر والے امن میں ہوں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۸۶، ملخصاً)
مکہ مکرمہ ویران ہونے سے محفوظ ہے:
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ویران ہونے سے محفوظ فرما دیا اور کوئی بھی اس مقدس شہر کو ویران کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اس شہر کو اللّٰہ تعالیٰ نے حرم بنایا کہ اس میں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے ،نہ کسی پر ظلم کیا جائے، نہ وہاں شکار مارا جائے اور نہ سبزہ کاٹا جائے۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۲۰۹)
{وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ:اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت کرنے سے بچا ئے رکھ۔} یاد رہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت پرستی اور تمام گناہوں سے معصوم ہیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ دعا کرنا بارگاہِ الٰہی میں عاجزی اور محتاجی کے اظہار کے لئے ہے کہ باوجودیہ کہ تو نے اپنے کرم سے معصوم کیا لیکن ہم تیرے فضل و رحمت کی طرف دستِ احتیاج دراز رکھتے ہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۸۶، ملخصاً)
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبِّ:اے میرے رب!}آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک بتوں کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت اور حق کے راستے سے دور ہو گئے حتّٰی کہ لوگ بتوں کو پوجنے لگے اور تیرے ساتھ کفر کرنے لگ گئے تو جو میرے طریقے پر ہو یعنی اطاعت و فرمانبرداری کے طریقے پر ہو تو بیشک وہ میری سنت پر عمل پیرا ہے اور جو میرا نافرمان ہو تو اس کا معاملہ تیرے ہی حوالے ہے ،بے شک تو گناہگاروں کے گناہوں اور ان کی خطاؤں کو اپنے فضل سے بخشنے والا ہے اور اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے ،اور لوگوں میں سے جسے چاہے معاف فرما دے۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۷ / ۴۶۰-۴۶۱)
فکرِامت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امتوں کے انجام کے بارے میں بہت فکر مند ہو اکرتے تھے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فکرِ امت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآن پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:
’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے،جو شخص میری پیروی کرے گا وہ میرے راستہ پر ہے۔
اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کا یہ قول ہے
’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘(المائدہ:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے اللّٰہ ! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔
پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دست ِدعا بلند کر دئیے اور روتے ہوئے عرض کرنے لگے : اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! میری امت ، میری امت ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرئیل! میرے حبیب کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو (حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معلوم کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب عرض کردیا (حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) اللّٰہ تعالیٰ نے جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا:اے جبرئیل! میرے حبیب کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامّتہ وبکائہ شفقۃ علیہم، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲)، سنن الکبری للنسائی، کتاب التفسیر، سورۃ ابراہیم، ۶ / ۳۷۳، الحدیث: ۱۱۲۶۹)
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ(37)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرماتاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا:اے ہمارے رب! } اس آیت میں وادی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں اب مکہ مکرمہ ہے ۔ ذُرِّیَّت سے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد ہیں اور حرمت والے گھر سے بیتُ اللّٰہ مراد ہے جو طوفانِ نوح سے پہلے کعبہ مقدسہ کی جگہ تھا اور طوفان کے وقت آسمان پر اٹھالیا گیا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس دعا کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سرزمینِ شام میں حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی حضرت سارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے ہاں کوئی اولاد نہ تھی، اس وجہ سے ان کے دل میں کچھ جذبات پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ ہاجرہ اور اُن کے بیٹے کو میرے پاس سے جدا کردیجئے۔حکمتِ الٰہی نے یہ ایک سبب پیدا کیا تھا ،چنانچہ وحی آئی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس سرزمین میں لے جائیں جہاں اب مکہ مکرمہ ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان دونوں کو اپنے ساتھ براق پر سوارکرکے شام سے سرزمینِ حرم میں لائے اور کعبہ مقدسہ کے نزدیک اتارا، یہاں اُس وقت نہ کوئی آبادی تھی نہ کوئی چشمہ نہ پانی، ایک توشہ دان میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی انہیں دے کر آپ واپس ہوئے اور مڑ کر اُن کی طرف نہ دیکھا ،حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے عرض کی ’’ آپ کہاں جاتے ہیں اور ہمیں اس وادی میں انیس و رفیق کے بغیر چھوڑے جاتے ہیں ؟لیکن حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اورا س کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے چند مرتبہ یہی عرض کیا اور جواب نہ پایا تو کہا کہ’’ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ ہاں ۔یہ سن کر انہیں اطمینان ہو گیا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے گئے اور انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی جو آیت میں مذکور ہے ۔ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلانے لگیں ،جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاپانی کی جستجو یا آبادی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں ،ایسا سات مرتبہ ہوا یہاں تک کہ فرشتے کے پر مارنے سے یا حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدم مبارک سے اس خشک زمین میں ایک چشمہ (زمزم) نمودار ہوا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ واقعہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہوا، آگ کے واقعہ میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا نہ فرمائی تھی اور اس واقعہ میں دعا کی اور عاجزی کا اظہار کیا ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی کارسازی پر اعتماد کرکے دعا نہ کرنا بھی توکل اور بہتر ہے لیکن مقامِ دعا اس سے بھی افضل ہے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس دوسرے واقعہ میں دعا فرمانا اس لئے ہے کہ آپ مدارجِ کمال میں دَمبدم ترقی پر ہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷-۸۸، ملخصاً)
{رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ:اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں ۔}یعنی اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے اپنی اولاد کو ناقابلِ زراعت وادی میں اس لئے ٹھہرایا تاکہ حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی اولاد اس وادی میں تیرے ذکر اور تیری عبادت میں مشغول ہوں اور تیرے بیتِ حرام کے پاس نماز قائم کریں ۔اے اللّٰہ !عَزَّوَجَلَّ، تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے تاکہ وہ اس وادی کے اَطراف اور دیگر شہروں سے یہاں آئیں اور ان کے دل اس پاکیزہ مکان کی زیارت کے شوق میں کھینچیں۔ اس میں ایماندار وں کے لئے یہ دعا ہے کہ انہیں بیتُ اللّٰہ کا حج مُیَسّر آئے اور اپنے یہاں رہنے والی اولاد کے لئے یہ دعا ہے کہ وہ زیارت کے لئے آنے والوں سے فائدہ حاصل کرتے رہیں ۔ غرض یہ دعا دینی دنیوی دونوں طرح کی برکات پر مشتمل ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول ہوئی اور قبیلہ جُرْہَم نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا !شاید کہیں چشمہ نمودار ہوا ہے، جستجو کی تو دیکھا کہ زمزم شریف میں پانی ہے یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے وہاں بسنے کی اجازت چاہی ،انہوں نے اس شرط سے اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔ وہ لوگ وہاں بسے اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوان ہوئے تو اُن لوگوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو دیکھ کر اپنے خاندان میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شادی کردی،کچھ عرصے بعد حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا وصال ہو گیا۔ اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا پوری ہوئی اور آپ نے دعا میں یہ بھی فرمایا’’ اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اسی دعاکا ثمرہ ہے کہ بہار، خزاں اور گرمی سردی کی مختلف فصلوں کے میوے وہاں بیک وقت موجود ملتے ہیں ۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۷۲، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷-۸۸، روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۴۲۷، ملتقطاً۔(
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَ مَا نُعْلِنُؕ- وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ہمارے رب! تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں اور اللہ پر زمین اور آسمان میں کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا:اے ہمارے رب!} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے ہمارے رب ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہمارے حالات کو،ہماری ضرورتوں اور ہمارے نقصانات کو جانتا ہے اور تو ہم پر ہم سے زیادہ رحم فرماتا ہے، اس لئے تیری بارگاہ میں ہمیں دعا کرنے کی حاجت تو نہیں لیکن ہم تیرے حضور دستِ دعا اس لئے بلند کرتے ہیں تاکہ ہم تیرے آگے اپنی بندگی کا اظہار کریں ، تیری عظمت و جلال سے خوف کھائیں۔(خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۸۸)
{وَ مَا یَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ:اور اللّٰہ پر کوئی بھی شے پوشیدہ نہیں ۔} ایک قول یہ ہے کہ حضر ت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تصدیق کے طور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ کلا م فرمایا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہی کلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جو ہر جگہ میں چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے ا س سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۸، ۷ / ۱۰۵)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دئیے۔ بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ:تمام تعریفیں اللّٰہ کیلئے ہیں ۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایک اور فرزند کی دعا کی تھی اللّٰہ تعالیٰ نے قبول فرمائی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا شکر ادا کیا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ’’تمام تعریفیں اس اللّٰہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دئیے۔ بیشک میرا رب عَزَّوَجَلَّ میری دعا قبول فرمانے والا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر99 برس ہو چکی تھی اور حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمر مبارک 112 برس ہو چکی تھی۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۸۹، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۲۰۹، ملتقطاً)
بیٹیوں کی پرورش کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیٹا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بڑی نعمت ہے خصوصاً جب کہ نیک اور پرہیز گار ہو کیونکہ اس سے دنیا و آخرت دونوں کامل ہو جاتی ہیں ، لیکن بیٹیوں سے گھبرانا مومن کی شان نہیں ۔ ترغیب کے لئے بیٹیوں کی پرورش کے 2 فضائل ملاحظہ ہوں ۔
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس شخص کی بیٹی ہو پھر نہ تو اسے زندہ دفن کیا اور نہ اسے ذلیل کیا اور نہ اس پر اپنے بیٹے کو ترجیح دی تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
(2)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے کہ انہیں ادب سکھائے ،ان پر مہربانی کرے حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں بے نیاز کردے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لیے جنت واجب کردیتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کی’’ یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا دو بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کرنے والے کویہ ثواب ملے گا؟ ارشاد فرمایا’’ہاں ، دو بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کرنے پر بھی یہی ثواب ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں اگر لوگ ایک بیٹی یا بہن کے بارے میں پوچھتے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما دیتے کہ ایک بیٹی کی پرورش پر بھی یہی ثواب ہے۔ (شرح السنہ، کتاب ا لبر والصلۃ، باب ثواب کافل الیتیم، ۶ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۳۵۱، ملخصاً)
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ(40)رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے میرے رب! مجھے اور کچھ میری اولاد کونماز قائم کرنے والا رکھ، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ:اورکچھ میری اولاد کو۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چونکہ بعض افراد کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کافر ہوں گے اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی بعض اولاد کے لئے نمازوں کی پابندی اور محافظت کی دعا کی۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۵۷۲-۵۷۳)
{وَ لِوَالِدَیَّ:اور میرے ماں باپ کو۔} علماء فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ماں باپ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والدین مراد ہیں اور وہ دونوں مومن تھے اسی لئے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے دعا فرمائی، جبکہ سورہ توبہ کی اس آیت ’’وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوعِدَةٍ‘‘ (توبہ:۱۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔
میں باپ سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا آزر مراد ہے ،سگے والد مراد نہیں ۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۴۳۰، ملخصاً)
دعا کے چند آداب:
اس آیت سے دعا کے چند آداب معلوم ہوئے ۔ (1) دعا اپنی ذات سے شروع کرے۔ (2) ماں باپ کو دعا میں شامل رکھا کرے ۔ (3) ہر مسلمان کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (4) آخرت کی دعا ضرور مانگے صرف دنیا کی حاجات پر قناعت نہ کرے۔
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ(42)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (اے سننے والے!)ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا: اور ہرگز اللّٰہ کو بے خبر نہ سمجھنا ۔}اس آیت میں ہر مظلوم کے لئے تسلی اور ہر ظالم کے لئے وعید ہے ،نیز اس آیت میں ایک مشہور مقولے کی تائید بھی ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اے سننے والے !تم یہ نہ سمجھنا کہ اللّٰہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو سزا نہیں دے گا اور نہ ہی ظالموں سے عذاب مؤخر ہونے کی وجہ سے غمزدہ ہونا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں بغیر عذاب کے صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں دہشت کے مارے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ (جلالین مع صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۱۰۲۹-۱۰۳۰)
ظالم کے لئے وعید:
یاد رہے کہ ظالموں کا اُخروی عذاب تو اپنی جگہ ،دنیا میں بھی اللّٰہ تعالیٰ ظالموں کی گرفت فرماتا ہے ،چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ(ہود:۱۰۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے جبکہ وہ بستی والے ظالم ہوں بیشک اس کی پکڑ بڑی شدید دردناک ہے ۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری وہی ظالمۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۷، الحدیث: ۴۶۸۶)
مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌﭤ(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جارہے ہوں گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{مُهْطِعِیْنَ:لوگ بے تحاشا دوڑتے ہوئے جارہے ہوں گے۔} یعنی قیامت کے دن کی دہشت اور ہولناکی سے لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنے سروں کو اٹھائے عَرصۂ محشر کی طرف بلانے والے یعنی حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف بے تحاشا دوڑتے جا رہے ہوں گے اور ان کی پلک تک نہ جھپک رہی ہو گی کہ اپنے آپ کو ہی دیکھ سکیں اور ان کے دل حیرت کی شدت اوردہشت کے مارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے خالی ہوں گے۔حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دل سینوں سے نکل کر گلوں میں آپھنسیں گے ،نہ باہر نکل سکیں گے نہ اپنی جگہ واپس جاسکیں گے اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اُس دن کی دہشت اور ہولناکی کی شدت کا یہ عالَم ہوگا کہ سراوپر اٹھے ہوں گے، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور دل اپنی جگہ پر قرار نہ پاسکیں گے۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۵۷۳، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ص۲۱۰، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۹۰، ملتقطاً)
قیامت کی ہولناکیاں :
اس آیت میں قیامت کی چند ہولناکیاں بیان ہوئیں ،اس کی مزید ہولناکیاں سنئے ،چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’وہ دن جس میں کوئی شک نہیں ،وہ دن جس میں دلوں کے رازوں کا امتحان ہوگا، جس دن کوئی (کافر) نفس کسی نفس کے کام نہیں آئے گا، وہ دن جب آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی، جس دن کوئی ساتھی کسی ساتھی کے کام نہیں آئے گا ،جس دن کوئی کسی دوسرے نفس کے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا، جس دن (کفار کو) جہنم کی طرف بلایا جائے گا، جس دن ان کو چہروں کے بل اوندھا گرایا جائے گا، جس دن ان کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جائے گا، جس دن باپ اولاد کے کام نہ آسکے گا، جس دن آدمی اپنے بھائی، ماں اور باپ سے بھاگتا پھرے گا، جس دن لوگ بات نہیں کرسکیں گے اور نہ ان کو اجازت ہوگی کہ عذر پیش کریں ، جس دن اللّٰہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، جس دن لوگ ظاہر ہوں گے، جس دن وہ جہنم میں عذاب دیئے جائیں گے جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دے گی، جس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی ،ان کے لیے لعنت اور برا گھر ہوگا، جس دن عذر نا منظور ہوں گے اور دلوں کی آزمائش ہوگی، پوشیدہ باتیں ظاہر ہوں گی اور پردے اٹھ جائیں گے ،جس دن آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور آوازیں بند ہوں گی، اس دن توجہ کم ہوگی اور پوشیدہ باتیں ظاہر ہوں گی، گناہ بھی سامنے آجائیں گے جس دن لوگوں کو ان کے گواہوں سمیت چلایا جائے گا، بچے جوان ہوجائیں گے اور بڑے نشے میں ہوں گے، پس اس دن ترازو رکھے جائیں گے اور اعمال نامے کھولے جائیں گے،جہنم ظاہر کی جائے گی اور گرم پانی کو جوش دیا جائے گا،آگ مسلسل جلے گی اور کفار ناامید ہوں گے،آگ بھڑکائی جائے گی اور رنگ بدل جائیں گے، زبان گونگی ہوگی اور انسانی اعضا گفتگو کریں گے۔تو اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں کس نے دھوکے میں ڈالا کہ تو نے دروازے بند کردیئے اورپردے لٹکادیئے اور لوگوں سے چھپ کر فسق و فجور میں مبتلا ہوگیا، پس جب تیرے اعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے تو تو کیا کرے گا۔ اے غافلوں کی جماعت ! ہمارے لئے مکمل خرابی ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے پاس تمام رسولوں کے سردار (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو بھیجے اور آپ پر روشن کتاب نازل فرمائے اور ہمیں قیامت کے ان اوصاف کی خبر دے، پھر ہماری غفلت سے بھی ہمیں آگاہ کرے اور ارشاد فرمائے: ’’اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ(۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ‘‘(انبیاء۱-۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: لوگوں کا حساب قریب آگیااور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں ۔
پھر وہ ہمیں بتائے کہ قیامت قریب ہے،جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے
’’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ‘‘ (قمر:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
اور ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ(۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا‘‘(معارج:۶ ،۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں ۔اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں
اور ارشاد فرماتا ہے
’’وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا‘‘ (احزاب:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔
پھر ہماری سب سے اچھی حالت تو یہ ہے کہ ہم اس قرآن پاک کے سبق پر عمل کریں ، لیکن ہم اس کے معانی میں غور نہیں کرتے اور روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں کو نہیں دیکھتے اور اس کے مَصائب سے نجات کے لیے کوشش نہیں کرتے ۔ہم اس غفلت سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس کا تَدارُک فرمائے۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶)
وَ اَنْذِرِ النَّاسَ یَوْمَ یَاْتِیْهِمُ الْعَذَابُ فَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رَبَّنَاۤ اَخِّرْنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ- نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَ نَتَّبِـعِ الرُّسُلَؕ- اَوَ لَمْ تَكُوْنُوْۤا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّنْ زَوَالٍ(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤجب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم کہیں گے: اے ہمارے رب! تھوڑی دیر تک ہمیں مہلت دیدے تا کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور رسولوں کی غلامی کرلیں ۔(کہا جائے گا ، اے کافرو!) تو کیا تم پہلے قسم نہ کھاچکے تھے کہ تمہیں (تودنیا سے) ہٹنا ہی نہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْذِرِ النَّاسَ:اور لوگوں کو ڈراؤ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرائیں ،اس دن جب ان پر عذاب آئے گا تو شرک اور گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے کہیں گے’’اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ، تھوڑی دیر کیلئے ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے اور ہمیں مہلت دیدے تا کہ ہم سے جو قصور ہوچکے ان کی تلافی کرتے ہوئے تیری توحید کی دعوت کو قبول کر لیں اور تیرے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غلامی کر لیں ۔ اس پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی اور فرمایا جائے گا کیا تم پہلے دنیا میں اس بات کی قسمیں نہ کھاچکے تھے کہ مرنے کے بعد بھی تم اسی حالت میں رہو گے اور آخرت کے گھر کی طرف منتقل نہ ہو گے ؟ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۹۰، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۵۷۳، ملتقطاً)
وَّ سَكَنْتُمْ فِیْ مَسٰكِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ تَبَیَّنَ لَكُمْ كَیْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَ ضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم ان کے گھروں میں رہے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھااور تمہارے لئے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور ہم نے تمہارے لئے مثالیں بیان کیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ سَكَنْتُمْ:اور تم رہے۔} یعنی تم ان لوگوں کے گھروں میں رہے جنہوں نے کفر اور گناہوں کا اِرتِکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا جیسے کہ قومِ نوح ،عاد اور ثمود وغیرہ کہ تم انہی کی بستیوں میں دورانِ سفر ٹھہرتے تھے یا ان کے قرب و جوارسے گزرتے تھے اور تمہارے لئے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور تم نے اپنی آنکھوں سے اُن کے گھروں میں عذاب کے آثار اور نشان دیکھے اور تمہیں اُن کی ہلاکت و بربادی کی خبریں ملیں یہ سب کچھ دیکھ کر اور جان کر تم نے عبرت کیوں نہ حاصل کی اور تم کفر سے کیوں باز نہ آئے ۔ ہم نے تمہیں مثالیں دے کر بتا دیاتاکہ تم تدبیر کرو اور سمجھو ، عذاب اور ہلاکت سے اپنے آپ کو بچاؤ ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۹۱، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۵۷۴، ملتقطاً)
سابقہ قوموں کے انجام سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب:
ان آیات میں مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ونصیحت ہے اور انہیں بھی چاہئے کہ سابقہ عذاب یافتہ قوموں کے اعمال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور ان کے دنیوی انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرنے سے باز آ جائیں ،اگر دنیا میں انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو مرنے کے بعد کوئی نصیحت انہیں فائدہ نہ دے گی۔ حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اے مسلمانو! (غور کرو کہ) اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور مقرب اولیاءِ کرام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کہا ں تشریف لے گئے؟ سابقہ بادشاہ اور جابر و سرکش لوگ کہاں چلے گئے؟ (جب یہ دنیا میں نہ رہے توتم بھی اس دنیا میں نہ رہو گے) تو تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم ان کی طرف نظر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے،اگر تم عقل رکھتے ہو تو نیک اعمال میں خوب کوشش کر لواور اس دن سے ڈروجس میں تم اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپوردی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۴۳۶)
شرعی قیاس حق ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیاسِ شرعی حق ہے کیونکہ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ وہ لوگ کفر کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور کفر تو تم بھی کررہے ہو، لہٰذا تم بھی ہلاک ہونے کے لائق ہو، علت کے اِشتراک سے حکم مشترک ہوتا ہے اور اسی کو فقہ میں قیاس کہتے ہیں ۔
وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَ عِنْدَ اللّٰهِ مَكْرُهُمْؕ- وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ(46)فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗؕ- اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍﭤ(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک انہوں نے اپنی سازش کی اور ان کی سازش اللہ کے قابو میں تھی اور ان کی سازش کوئی ایسی نہیں تھی کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں ۔تو تم ہر گز خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا۔ بیشک اللہ غالب بدلہ لینے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ:اور بیشک انہوں نے اپنی سازش کی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے اسلام کو مٹانے اور کفر کی تائید کرنے کے لئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ سازش کرتے ہوئے یہ ارادہ کیاتھا کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کر دیاجائے یا قید کر لیا جائے یا مکہ مُکرّمہ سے نکال دیا جائے ۔اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ان کی سازش اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے علم میں تھی اور ان کی سازش کوئی ایسی نہیں تھی کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات اور شریعتِ مصطفی کے اَحکام جو اپنی قوت و ثَبات میں مضبوط پہاڑوں کی مانند ہیں ،محال ہے کہ کافروں کے مکر اور اُن کی حیلہ انگیزیوں سے وہ اپنی جگہ سے ٹل سکیں ۔(مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۷۴، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۲۱۰، ملتقطاً)
نوٹ:کفارِ مکہ کی اس سازش کی تفصیل سورہ اَنفال کی آیت نمبر 30کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔
{فَلَا تَحْسَبَنَّ:تو تم ہر گز خیال نہ کرنا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے!تم ہر گز ایسا خیال نہ کرنا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا، یہ تو ممکن ہی نہیں وہ ضرور وعدہ پورا کرے گا اور اپنے رسول کی مدد فرمائے گا، اُن کے دین کو غالب کرے گا اوراُن کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا۔ (صاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۱۰۳۱، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۹۱، ملتقطاً)
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاد کروجس دن زمین کو دوسری زمین سے اور آسمانوں کو بدل دیا جائے گا اور تمام لوگ ایک اللہ کے حضور نکل کھڑے ہوں گے جو سب پر غالب ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ:جس دن زمین بدل دی جائے گی۔} اس دن سے قیامت کا دن مراد ہے اور زمین و آسمان کی تبدیلی کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں ۔ ایک یہ کہ اُن کے اوصاف بدل دیئے جائیں گے مثلاً زمین ایک سطح ہو جائے گی ،نہ اُس پر پہاڑ باقی رہیں گے نہ بلند ٹیلے نہ گہرے غار، نہ درخت نہ عمارت نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان اور آسمان پر کوئی ستارہ نہ رہے گا اور سورج وچاند کی روشنیاں معدوم ہو جائیں گی ۔یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہوگی ،سفید و صاف ہو گی جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو گا نہ گناہ کیا گیا ہو گا اور آسمان سونے کا ہوگا ۔یہ دو قول اگر چہ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ صحیح ہے وہ اس طرح کہ پہلی مرتبہ زمین و آسمان کی صفات تبدیل ہوں گی اور دوسری مرتبہ حساب کے بعد دوسری تبدیلی ہوگی۔ اس میں زمین و آسمان کی ذاتیں ہی بدل جائیں گی۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۹۲)
وَ تَرَى الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ مُّقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ(49)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس دن تم مجرموں کو بیڑیوں میں ایک دوسرے سے بندھا ہوا دیکھو گے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَرَى الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىٕذٍ:اور اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ قیامت کے دن کافروں کو بیڑیوں میں اپنے شیطانوں کے ساتھ بندھا ہو ادیکھیں گے۔ (جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۴۹، ص۲۱۰)
قیامت کے دن مومن و کافر کی پہچان:
اس سے معلوم ہوا کہ محشر میں کفار اور مومن ظاہری علامات سے ہی پہچان لئے جائیں گے کہ کافروں کے منہ کالے ، ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے اور پاؤں بیڑیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے جبکہ مومنوں کا حال اس کے برعکس ہوگا۔
سَرَابِیْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ(50)لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْؕ- اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان کے کرتے تارکول کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آ گ ڈھانپ لے گی۔ تاکہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے، بیشک اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سَرَابِیْلُهُمْ:ان کے کرتے ۔} یعنی قیامت کے دن کافروں کے کرتے سیاہ رنگ اور بدبودار تارکول کے ہوں گے جن سے آگ کے شعلے اور زیادہ تیز ہوجائیں ۔ (مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۷۵، خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۹۳، ملتقطاً)
تفسیر بیضاوی میں ہے کہ ان کے بدنوں پر رال لیپ دی جائے گی تووہ کرتے کی طرح ہوجائے گی، اس کی سوزش اور اس کے رنگ کی وحشت و بدبو سے تکلیف پائیں گے ۔ (بیضاوی، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۳۵۸)
{وَ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ:اور ان کے چہروں کو آ گ ڈھانپ لے گی۔} یعنی کافروں کے جسموں پر لپٹے ہوئے تارکول سے آگ کے شعلے اتنے بلند ہوں گے کہ آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ لے گی۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۰، ۴ / ۴۳۷)
{لِیَجْزِیَ اللّٰهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ:تاکہ اللّٰہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کافروں کو یہ سزا اس لئے دے گا تاکہ وہ ہر مجرم شخص کو ا س کے کئے ہوئے کفر اور گناہوں کا ایسا بدلہ دے جو اس کے جرم کے مطابق ہو۔ بیشک اللّٰہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۴۳۷)
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ لوگوں کیلئے تبلیغ ہے اور اس لیے کہ انہیں اس کے ذریعے ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{هٰذَا:یہ۔} اس آیت میں قرآن پاک کے نزول کی کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں ۔(1) اس قرآن شریف میں لوگوں کے لئے تبلیغ اور نصیحت ہے۔ (2) قرآن میں موجود عبرت انگیز واقعات اور زَجرو توبیخ کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جائے۔ (3) لوگ اس کی آیات سے اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کی دلیلیں پائیں ۔ (4) عقل والے اور سمجھدار لوگ اس قرآن کے ذریعے نصیحت حاصل کریں۔(خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۹۳، ملخصاً)