سُوْرَۃُ الإِنْفِطَار

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ(1)وَ اِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ(2)وَ اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ(3)وَ اِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ(4)عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَ اَخَّرَتْﭤ(5)

ترجمہ: کنزالعرفان

جب آسمان پھٹ جائے گا۔اور جب ستارے جھڑ پڑیں گے۔اور جب سمندر بہادیے جائیں گے۔اور جب قبریں کریدی جائیں گی۔ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو اس نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ: جب آسمان پھٹ جائے گا۔} اس آیت اوراس کے بعد والی 4آیات میں  قیامت کے اَحوال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب آسمان فرشتوں  کے نازل ہونے کے لئے پھٹ جائے گا اور جب ستارے اپنی جگہوں  سے اس طرح جھڑ کے گر پڑیں  گے جس طرح پروئے ہوئے موتی ڈوری سے گرتے ہیں  اور جب سمندروں  میں  قائم آڑ دور کرکے انہیں بہادیا جائے گا اور میٹھے اور کھاری سمندر مل کر ایک ہوجائیں  گے اور جب قبریں  کریدی جائیں  گی اور ان کے مردے زندہ کر کے نکال دئیے جائیں  گے تو اس دن ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو اس نے نیک یا برا عمل آگے بھیجا اور جو نیکی بدی پیچھے چھوڑی۔ ایک قول یہ ہے کہ جو آگے بھیجا اس سے صدقات مراد ہیں  اور جو پیچھے چھوڑ ااس سے میراث مراد ہے۔( روح البیان، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱-۵، ۱۰ / ۳۵۵-۳۵۶، خازن، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱-۵، ۴ / ۳۵۸، ملتقطاً)

            اوریہ جاننا اعمال نامے پڑھنے کے ذریعے ہو گا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳) اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا ‘‘(بنی اسرائیل:۱۳،۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: 

اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں  لگادی ہے اورہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں  گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ (فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامہ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ(6)الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ(7)فِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَﭤ(8)كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ(9)

ترجمہ: کنزالعرفان

اے انسان!تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر اعتدال والاکیا ۔جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا۔ ہر گز نہیں ،بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلاتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ: اے انسان!۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اے ا نسان! تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں  دھوکے میں  ڈال دیا کہ تو نے اس کی نعمت اور کرم کے باوجود اس کا حق نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی جو تجھے عدم سے وجود میں  لے کر آیا،پھر اس نے تمہارے اعضاء کو ٹھیک بنایا اور تجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ،چلنے کے لئے پاؤں ،بولنے کے لئے زبان،دیکھنے کے لئے آنکھ اور سننے کے لئے کان عطا کئے، پھر ان اعضاء میں  مناسبت رکھی کہ ایک ہاتھ یا پاؤں  دوسرے ہاتھ یا پاؤں  سے چھوٹایا لمبا نہیں ،پھر تمہیں لمبے قد والایا چھوٹے قدوالا، خوب صورت یا بد صورت،گورا یا کالا ،مرد یا عورت جس صورت میں  چاہا تجھے جوڑدیا ،اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی ان کرم نوازیوں  کودیکھ کر بھی ا س کی نافرمانی سے نہیں  رکے بلکہ تم انصاف کے دن کو جھٹلانے لگے اور اعمال کی جزا ء ملنے کے دن کاانکار کرنے لگ گئے۔(مدارک ، الانفطار ، تحت الآیۃ : ۶-۹، ص۱۳۲۷، روح البیان، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ۱۰ / ۳۵۸-۳۶۰، خازن، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ۴ / ۳۵۸، جلالین، الانفطار، تحت الآیۃ: ۶-۹، ص۴۹۲، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اچھی جزا کی امید رکھنا بیوقوفی کی علامت ہے:

            ان آیات سے معلوم ہو اکہ اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ کرم فرمانے والا ہے لیکن اس کے کرم کو پیش ِنظر رکھ کر اس کی نافرمانی کرنے کی جرأت نہیں  کرنی چاہئے بلکہ اس کی پکڑ اور ا س کے عذاب کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس کی نافرمانی سے ہر دم بچتے رہنا چاہئے۔اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے کہ جو گناہ کر نے کے بعد ا س سے سچی توبہ کرنے کی بجائے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ بڑابخشنے والا ہے ،وہ معاف کردے گا کوئی بات نہیں ۔ان کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں  بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ

(1)… حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سمجھ دار شخص وہ ہے جو (دنیا میں  ہی) اپنا محاسبہ کر لے اور آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرے اور وہ شخص احمق ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اور اللّٰہ تعالیٰ سے آخرت کے انعام کی امید رکھے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔۔۔ الخ، ۲۵-باب، ۴ / ۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۷)

(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کوئی اللّٰہ تعالیٰ کے حِلم اور بُردباری سے دھوکے میں  نہ پڑ جائے ،بے شک جنت اور دوزخ تمہارے جوتے کے تَسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔( الترغیب والترہیب، کتاب التوبۃ والزہد، الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۸، الحدیث: ۴۷۵۷)

            اللّٰہ تعالیٰ ہمیں  اپنی نافرمانی سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ(10)كِرَامًا كَاتِبِیْنَ(11)یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(12)

ترجمہ: کنزالعرفان

اور بیشک تم پر کچھ ضرور نگہبان مقرر ہیں ۔معزز لکھنے والے۔وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ: اور بیشک تم پر کچھ ضرور نگہبان ہیں ۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! بیشک ہماری جانب سے تم پر کچھ فرشتے مقررہیں  جو تمہارے اَعمال اور اَقوال کے نگہبان ہیں ،وہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  معزز ہیں  اور تمہارے اقوال اور اعمال لکھ رہے ہیں  تاکہ تمہیں  ان کی جزا دی جائے، وہ تمہارے ساتھ رہنے کی وجہ سے تمہارا ہر نیک اور برا عمل جانتے ہیں  اوران سے تمہارا کوئی عمل چھپا نہیں ۔( روح البیان ، الانفطار ، تحت الآیۃ : ۱۰-۱۲ ، ۱۰ / ۳۶۰ ، خازن ، الانفطار ، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴ / ۳۵۸، مدارک، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ص۱۳۲۷-۱۳۲۸، ملتقطاً)

محافظ اور نگہبان فرشتے:

            ان فرشتوں  کے بارے میں  ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ(۱۷) مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘(ق:۱۷ ،۱۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب اس سے لینے والے دو فرشتےلیتے ہیں  ،ایک دائیں  جانب اور دوسرا بائیں  جانب  بیٹھا ہوا ہے۔ وہ زبان سے کوئی بات نہیں  نکالتا  مگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

            اوران آیات میں  ہر اس انسان کے لئے نصیحت ہے جو اپنے اعمال کے حوالے سے انتہائی غفلت کا شکار ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جب اس آیت ’’یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ‘‘ کی تلاوت فرماتے تو کہتے: غافل لوگوں  پر اس سے زیادہ سخت کوئی آیت نہیں ۔( مدارک، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۳۲۸)

سورۂ اِنفطار کی آیت نمبر10،11اور12سے معلوم ہونے والی باتیں :

             ان آیات سے 6باتیں  معلوم ہوئیں :

(1)… انسان کی جان اور ا س کے اعمال کی حفاظت کے لئے فرشتے مقرر ہیں ۔

(2)… فرشتے صرف انسانوں  پر مقرر ہیں  دیگر مخلوق پر نہیں ۔

(3)… اللّٰہ تعالیٰ کے کام اس کے بندوں  کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں  کیونکہ حافظ و ناصر رب تعالیٰ ہے مگر ارشاد ہوا کہ فرشتے حفاظت کرتے ہیں ۔

(4)… انسان کو بری جگہ نہیں  جانا چاہیے تا کہ ہماری وجہ سے ان فرشتوں  کو وہاں  نہ جانا پڑے۔

(5) …فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عزت والے کریم ہیں  ۔

(6)… ان پر ہمارے چھپے اورظاہر کوئی عمل پوشیدہ نہیں ، تب ہی تو وہ ہر عمل کو لکھ لیتے ہیں ۔

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ(13)وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ(14)یَّصْلَوْنَهَا یَوْمَ الدِّیْنِ(15)وَ مَا هُمْ عَنْهَا بِغَآىٕبِیْنَﭤ(16)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ(17)ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِﭤ(18)یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْــٴًـاؕ-وَ الْاَمْرُ یَوْمَىٕذٍ لِّلّٰهِ(19)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک نیک لوگ ضرور چین میں (جانے والے) ہیں ۔اور بیشک بدکار ضرور دوزخ میں ہیں ۔انصاف کے دن اس میں جائیں گے۔اور اس سے کہیں چھپ نہ سکیں گے۔اور تجھے کیا معلوم کہ انصاف کا دن کیا ہے؟پھر تجھے کیا معلوم کہ انصاف کا دن کیا ہے؟جس دن کوئی جان کسی جان کے لئے کچھ اختیار نہ رکھے گی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہوگا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ: بیشک نیک لوگ ضرور چین میں  ہیں ۔} اس سے پہلی آیات میں  بندوں  کے اعمال لکھنے والے فرشتوں  کے بارے میں  بیان کیاگیا اور اب یہاں  سے عمل کرنے والوں  کے احوال بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ اس آیت اورا س کے بعد والی 6آیات میں  ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ لوگ جنہوں  نے فرائض کی ادائیگی اور گناہوں  سے بچنے کے ذریعے اپنے ایمان کو سچا کر دکھایا ،یہ ضرور نعمتوں  سے بھرپور جنت میں جانے والے ہیں  اور بیشک کافر لوگ ضرور جلا کر رکھ دینے والی دوزخ میں جانے والے ہیں  اور وہ انصاف کے دن اُس جہنم میں  جائیں  گے جسے وہ دنیا میں  جھٹلاتے رہے، اور اس جہنم سے کہیں  چھپ نہ سکیں  گے اور اے بندے! تجھے کیا معلوم کہ انصاف کا دن کیا ہے؟ پھر تجھے کیا معلوم کہ انصاف کا دن کیا ہے؟ انصاف کا دن وہ ہے جس دن کوئی کافر جان کسی کافر جان کیلئے کچھ اختیار نہ رکھے گی اوراس دن سارا حکم اللّٰہ تعالیٰ کا ہوگا اور وہی ان کے بارے میں  فیصلہ فرمائے گا۔( تفسیرکبیر، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۷۹، خازن، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۹، ۴ / ۳۵۹، مدارک، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۹، ص۱۳۲۸، روح البیان، الانفطار، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۹، ۱۰ / ۳۶۱-۳۶۲، ملتقطاً)

{یَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْــٴًـا: جس دن کوئی جان کسی جان کیلئے کچھ اختیار نہ رکھے گی۔} یعنی قیامت کے دن کوئی کافر کسی کافر کو کچھ نفع پہنچانے کااختیار نہ رکھے گا اور نہ ہی کوئی مسلمان کسی کافر کو فائدہ پہنچا سکے گا۔

قیامت کے دن سے ہر ایک کو ڈرنا چاہئے :

         یاد رہے کہ اس آیت میں  اگرچہ کفار کا حال بیان ہوا ہے کہ انہیں  قیامت کے دن کوئی دوسرا کافر یا مسلمان نفع نہیں  پہنچا سکے گا،البتہ اس دن کی سختیوں  ،ہَولْناکیوں  اور شدّتوں  کے پیش ِنظر مسلمانوں  کو بھی ا س سے ڈرنا چاہئے، چنانچہ ایک مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ‘‘(بقرہ:۴۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: 

اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی جان  کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔

         اور ارشاد فرماتا ہے :

’’وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِۗ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۲۸۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن سے ڈروجس میں  تم اللّٰہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کی کمائی بھرپوردی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں  ہوگا۔

         اور ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(لقمان:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں  کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللّٰہکا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں  دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں  اللّٰہ کے علم پر دھوکے میں  نہ ڈالے۔

امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قیامت کا د ن وہ دن جس میں  کوئی شک نہیں۔یہ وہ دن ہے جس میں  چھپی باتوں  (جیسے عقائد، اعمال اور نیتوں ) کو جانچا جائے گا۔اس دن کوئی (کافر) جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی۔اس دن (کی ہولناکی اور شدت سے) آنکھیں  کھلی کی کھلی رہ جائیں  گی۔اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا ۔اس دن کوئی جان کسی (کافر) جان کے لئے (نفع پہنچانے کا) کچھ اختیار نہ رکھے گی۔اس دن ان (کفار) کو جہنم کی طرف دھکا دے کر دھکیلا جائے گا ۔اس دن وہ (کفار) آگ میں  اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جائیں  گے۔ اس دن ان (کفار) کے چہرے آگ میں  باربارالٹے جائیں  گے۔اس دن کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آسکے۔ اس دن آدمی اپنے بھائی، ماں  اور باپ سے بھاگتا پھرے گا۔اس دن لوگ (دہشت غالب ہونے کی وجہ سے) بات نہیں  کرسکیں  گے اور نہ انہیں  اس بات کی اجازت دی جائے گی کہ وہ کوئی عذر پیش کریں ۔یہ وہ دن ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ۔اس دن لوگ بالکل ظاہر ہوجائیں  گے۔اس دن وہ آگ پر تپائے جائیں  گے۔اس دن نہ مال کام آئے گا اورنہ بیٹے کام آئیں  گے۔اس دن ظالموں  کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں  گے اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔اس دن تمام عذر رد کر دئیے جائیں  گے اورچھپی باتوں  کو جانچا جائے گا۔اس دن پوشیدہ باتیں  ظاہر ہوں  گی اور پردے اٹھ جائیں  گے۔اس دن آنکھیں  جھکی ہوئی ہوں  گی اور آوازیں  بند ہوں  گی۔ اس دن (دائیں  بائیں ) توجہ کم ہوگی، پوشیدہ باتیں  ظاہر ہوں  گی اور گناہ بھی سامنے آجائیں  گے۔اس دن لوگوں  کو ان کے گواہوں  سمیت (اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیشی کے لئے) چلایاجائے گا۔اس دن بچے جوان ہوجائیں  گے اور بڑے نشے میں  ہوں  گے ۔ اس دن (اعمال کا وزن کرنے کے لئے) ترازو رکھے جائیں  گے ، اعمال نامے کھولے جائیں  گے ،جہنم ظاہر کر دی جائے گی،کَھولتا ہواپانی جوش مارے گا،جہنم سانس لے گی،کفار مایوس ہو جائیں  گے ،جہنم کوبھڑکایا جائے گا، رنگ بدل جائیں  گے، زبان گونگی ہوجائے گی اور انسان کے اعضاء گفتگو کریں  گے۔تو اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں  کس چیز نے دھوکے میں  ڈال رکھا ہے کہ تو دروازے بند کرکے،پردے لٹکاکر اور لوگوں  سے چھپ کر فسق و فجور اور گناہوں  میں  مبتلا ہوگیا! (تو لوگوں  کے خبردار ہونے سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں)جب تیرے اعضا تیرے خلاف گواہی دیں  گے (اور جو کچھ تو لوگوں  سے چھپ کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں  گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، صفۃ یوم القیامۃودواہیہ واسامیہ، ۵ / ۲۷۶)

Scroll to Top