سُوْرَۃُ الإِنْسَان
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا کہ وہ کوئی ذکر کے قابل چیز نہ تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ: بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا۔} اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ روح پھونکے جانے سے پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر چالیس سال کا وقت ایسا گزرا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھے کیونکہ وہ ایک مٹی کا خمیر تھے،نہ کہیں ان کا ذکر تھا، نہ ان کو کوئی جانتا تھا اورنہ کسی کو ان کی پیدائش کی حکمتیں معلوم تھیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد مراد ہے اوروقت سے اس کے حمل میں رہنے کا زمانہ مراد ہے ، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ بے شک ماں کے پیٹ میں آدمی پر ایک وقت وہ گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا کیونکہ وہ پہلے نطفے کی شکل میں تھا،پھر جما ہوا خون بنا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنااور اس کی جنس کسی کو معلوم نہ تھی یہاں تک کہ وہ لوگوں کے درمیان قابلِ ذکر چیز بن گیا۔( تفسیر کبیر ، الانسان ، تحت الآیۃ : ۱، ۱۰ / ۷۳۹ ، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۰۵، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۳، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۳۷-۳۳۸، ملتقطاً)
نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ان کا کہیں ذکر نہ تھا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے کائنات وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری فرما دیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کوبیان فرما دیا،جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ‘‘(ال عمران:۸۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گاپھر تمہارےپاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللّٰہ نے) فرمایا: (اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی، ’’ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللّٰہ نے) فرمایا، ’’ تو (اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔
اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی پیدائش کے بعد عرش پر نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نامِ پاک لکھا دیکھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کو پہچان گئے،جیساکہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش سرزَد ہوئی تو انہوں نے عرش کی طرف اپنا سر اُٹھایا اور عرض کی (اے اللّٰہ!) میں محمد کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مغفرت فرما دے۔اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کون ہیں ؟ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرا نام برکت والا ہے،جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے سر اُٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رسولُ اللّٰہ‘‘ تو میں نے جان لیا کہ تیری بارگاہ میں اُس شخص سے زیادہ کسی کا مرتبہ اور مقام نہ ہو گا جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اے آدم! یہ تیری اولاد میں سے سب سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت تمہاری اولاد کی امتوں میں سے سب سے آخری امت ہے اور اگر وہ نہ ہوتے تو اے آدم! میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔ (معجم صغیر، باب المیم، من اسمہ: محمد، الجزء الثانی، ص۸۲)
اور دنیا میں تشریف آوری سے صدیوں پہلے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کی آمد کی بشارت دے دی حتّٰی کہ آپ کا نام تک بتا دیا،جیسا کہ سورۂ صف میں ہے:
’’وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ‘‘(صف:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نےفرمایا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللّٰہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(2)اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں توہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنا دیا۔بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، (اب) یا شکرگزار ہے اور یا ناشکری کرنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا۔} آیت کے اس حصے میں اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش سے متعلق اپنے قانون کو بیان فرمایا کہ اس نے آدمی کومردوعورت کی ملی ہوئی منی سے پیدا کیا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت انسان کی پیدائش کے سلسلے میں اس ذریعے کی محتاج نہیں جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کر دیا،حضرت حوا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو بغیر ماں کے پیدا کر دیا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بغیر باپ کے پیدا کر دیا۔
{نَبْتَلِیْهِ: تاکہ ہم اس کا امتحان لیں ۔} یعنی جب ہم نے انسان کو پیدا کیا تو ا س وقت یہ ارادہ کیا کہ ہم اسے مُکَلَّف کر کے اپنے اَحکامات اورمَمنوعات سے اس کا امتحان لیں توہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنا دیا تاکہ وہ دلائل کا مشاہدہ کر سکے اور آیات کو غور سے سن سکے ۔یاد رہے کہ یہاں انسان سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد مراد ہے۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۳۰۵، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۲۶۰، ملتقطاً)
{اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ: بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے ظاہری اور باطنی حَواس عطا کرنے کے بعد انسان کودلائل قائم کرکے، رسول بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ہدایت کا راستہ دکھا دیا، اب چاہے وہ ایمان قبول کر کے شکر گزار بنے یا کفر کر کے ناشکری کرنے والا بنے۔( تفسیر کبیر، الانسان، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۷۴۱)
اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِیْرًا(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ: بیشک ہم نے کافروں کے لیے تیار کر رکھی ہیں ۔} اس سے پہلی آیت میں کافروں اور ایمان والوں کا ذکر کیا اور اس آیت میں وہ چیزیں بیان کی جارہی ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہیں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے آخرت میں کافروں کے لیے زنجیریں تیار کر رکھی ہیں جن سے باندھ کر انہیں دوزخ میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے لئے طَوق تیار کر رکھے ہیں جوان کے گلوں میں ڈالے جائیں گے اور ان کے لئے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے جس میں انہیں جلایا جائے گا۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۳۰۵، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۴، ص۴۸۳، ملتقطاً)
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا(5)عَیْنًا یَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ یُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِیْرًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک نیک لوگ اس جام سے پئیں گے جس میں کافورملاہوا ہوگا۔وہ کافور ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے نہایت خاص بندے پئیں گے،وہ اسے (جہاں چاہیں گے) بہا کر لے جائیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ الْاَبْرَارَ: بیشک نیک لوگ۔} کفّار کا حال بیان کرنے کے بعد اب اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ایمان والوں کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ بیشک نیک لوگ جنت میں اس جام میں سے پئیں گے جس میں کافورملاہوا ہوگا، وہ کافور جنت میں ایک چشمہ ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ کے نہایت خاص بندے پئیں گے اوروہ اپنے مکانات اور محلوں میں اسے آسانی کے ساتھ جہاں چاہیں بہا کر لے جائیں گے ،نیز کافور ملا جام پینے سے انہیں کوئی نقصان نہ ہو گا کیونکہ جنتی لوگ جنت سے جو کچھ کھائیں پئیں گے اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔( روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۱۰ / ۲۶۲-۲۶۳، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۴ / ۳۳۸-۳۳۹، جمل، الانسان، تحت الآیۃ: ۵-۶، ۸ / ۱۸۵-۱۸۶، ملتقطاً)
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہوگی۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ: وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں ۔} اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا ثواب بیان فرمانے کے بعداب ان کے وہ اعمال ذکر فرمائے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں یہ ثواب حاصل ہوا۔
پہلا عمل :اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے طاعت و عبادت اور شریعت کے واجبات پر عمل کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ عبادات جو واجب نہیں لیکن مَنّت مان کر انہیں اپنے اوپر واجب کر لیا توانہیں بھی ادا کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۴ / ۳۳۹، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۳۰۶، ملتقطاً)
مَنَّت کی دو صورتیں :
یاد رہے ،منت کی ایک صورت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے کسی شرط کے ساتھ اپنے اوپر واجب کرلے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسے کام کی شرط لگائی جس کے ہو جانے کی خواہش ہے مثلاً یوں کہا کہ اگر میرا مریض اچھا ہو گیایا میرا مسافر خَیْرِیَّت سے واپس آگیا تو میں راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعت نماز پڑھوں گا یا اتنے روزے رکھوں گا،تو اس صورت میں جب وہ کام ہو گیا تو اتنی مقدار صدقہ کرنا اور اتنی رکعت نماز پڑھنا اور اتنے روزے رکھنا ضروری ہے ،اس میں ایسانہیں ہو سکتا کہ وہ کام نہ کرے اورمَنت کا کَفّارہ دیدے، اور اگر منت میں ایسے کام کی شرط لگائی ہے کہ جس کا ہونا نہیں چاہتا مثلاً یوں کہا کہ اگر میں تم سے بات کروں یا تمہارے گھر آؤں تو مجھ پر اتنے روزے ہیں ،اس صورت میں اگر شرط پائی گئی یعنی اس سے بات کر لی یا اس کے گھر چلاگیا تو اب اسے اختیار ہے کہ جتنے روزے کہے تھے وہ رکھ لے یا کَفّارہ دیدے۔منت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شرط کا ذکر کئے بغیر اپنے اوپر وہ چیز واجب کر لے جو واجب نہیں ہے مثلاً یوں کہے کہ میں نے اتنے روزوں کی منت مانی یا اس طرح کہے میں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنے روزے رکھوں گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ کرنا ضرور ی ہے اس کے بدلے کفارہ نہیں دے سکتا۔( بہار شریعت، حصہ نہم، منت کا بیان، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵، ملخصاً)
نوٹ: مَنَّت کے مسائل کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت، جلد نمبر 2 حصہ 9 سے’’ منت کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
دوسرا عمل:اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی شدت اور سختی پھیلی ہوئی ہوگی۔
حضرت قتادہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس دن کی شدت اس قدر پھیلی ہوئی ہو گی کہ آسمان پھٹ جائیں گے ، ستارے گر پڑیں گے، چاند سورج بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اورزمین پر کوئی عمارت باقی نہ رہے گی۔( جمل، الانسان، تحت الآیۃ: ۷، ۸ / ۱۸۷)
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوکھانا کھلاتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ: اور وہ اللّٰہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں ۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ایسی حالت میں بھی مسکین ،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت اور خواہش ہوتی ہے۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے مسکین ،یتیم اور قیدی کو اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانا کھلاتے ہیں ۔( مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۸، ص۱۳۰۶)
مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت:
یاد رہے کہ مسکین اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس بات کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے اور یتیم اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔مسکین اور یتیم کو کھانا کھلانے کی اہمیت کیا ہے ا س کا اندازہ ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ ‘‘(ماعون:۱۔۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کوجھٹلاتا ہے۔پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَكْرَمَنِؕ(۱۵) وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ﳔ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ(۱۶) كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷) وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ‘‘(فجر:۱۵۔۱۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو بہرحال آدمی کوجب اس کا رب آزمائے کہ اس کوعزت اور نعمت دے تو اس وقت وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی۔اور بہرحال جب (اللّٰہ) بندے کو آزمائے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘ۖ(۱۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُؕ(۱۲) فَكُّ رَقَبَةٍۙ(۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ‘‘(بلد:۱۱۔۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں نہ گھاٹی میں کود پڑا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔
اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(9)اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم تمہیں خاص اللہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔بیشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش، نہایت سخت ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ: ہم تمہیں خاص اللّٰہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں خاص اس غرض سے کھانا کھلاتے ہیں تاکہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں چاہتے اور اس غرض سے کھانا کھلاتے ہیں کہ بیشک ہمیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جس میں کافروں کے چہرے نہایت سخت بگڑے ہوئے ہوں گے لہٰذا ہم اپنے عمل کی جزا یا شکر گزاری تم سے نہیں چاہتے بلکہ ہم نے یہ عمل اس لئے کیا ہے تا کہ ہم اس دن خوف سے امن میں رہیں ۔( تفسیر کبیر، الانسان، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۷۴۸، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۱۳۰۶، ملتقطاً)
کسی کے ساتھ بھلائی کرنے سے مقصود اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہو:
اس سے معلوم ہوا کہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کسی کے ساتھ بھلائی کرنی چاہئے، لوگوں کو دکھانا،اپنی واہ واہ چاہنا اور جس کے ساتھ بھلائی کی اس پر احسان جتانا یا اس کی طرف سے کوئی بدلہ حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ‘‘(بقرہ:۲۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ‘‘(روم:۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورجومال تم (لوگوں کو) دو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھتا رہے تو وہ اللّٰہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم اللّٰہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو وہی لوگ (اپنے مال) بڑھانے والے ہیں ۔
فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًا(11)وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّ حَرِیْرًا(12)مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِۚ-لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًا(13)وَ دَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلٰلُهَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُهَا تَذْلِیْلًا(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو انہیں اللہ اس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیں تروتازگی اور خوشی دے گا ۔اور ان کے صبر کے سبب انہیں جنت اور ریشمی کپڑے بدلے میں دے گا ۔وہ جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے، نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے اورنہ سخت سردی ۔اور اس کے سائے ان پر جھکے ہوں گے اور جنت کے گچھے جھکا کر نیچے کردئیے گئے ہوں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ: تو انہیں اللّٰہ اس دن کے شر سے بچالے گا ۔} ارشاد فرمایا کہ تو ان نیک بندوں کے خوف کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچالے گا جس سے وہ ڈر رہے ہیں اور ان کے چہروں میں تروتازگی اور دلوں میں خوشی دے گا ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۴۰)
{وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا: اور ان کے صبرکے سبب انہیں بدلے میں دے گا۔} اس آیت اورا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو گناہ نہ کرنے،اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور بھوک پر صبر کرنے کے بدلے جنت میں داخل کرے گا اور انہیں ریشمی لباس پہنائے گا اور وہ جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے اور دنیا کی طرح وہا ں انہیں گرمی یا سردی کی کوئی تکلیف نہ ہوگی اور جنتی درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور جنت کے درختوں کے گُچھے جھکا کر نیچے کردئیے گئے ہوں گے تاکہ وہ کھڑے ،بیٹھے ،لیٹے ہر حال میں باآسانی گچھے لے سکیں اور جیسے چاہے کھا سکیں ۔ (خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۲-۱۴، ۴ / ۳۴۰)
وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَؔارِیْرَاۡ(15)قَوَؔارِیْرَاۡ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْهَا تَقْدِیْرًا(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان پر چاندی کے برتنوں اورگلاسوں کے دَور ہوں گے جو شیشے کی طرح ہوں گے۔چاندی کے شفاف شیشے جنہیں پلانے والوں نے پورے اندازہ سے (بھر کر) رکھا ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ: اور ان پر چاندی کے برتنوں اورگلاسوں کے دَور ہوں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان نیک بندوں پر چاندی کے برتنوں اورگلاسوں میں جنتی شراب کے دَور ہوں گے اور وہ برتن چاندی کے رنگ اور اس کے حسن کے ساتھ شیشے کی طرح صاف شفاف ہوں گے اور ان میں جو چیز پی جائے گی وہ باہر سے نظر آئے گی اور ان برتنوں کوپلانے والوں نے پورے اندازے سے بھر کر رکھا ہوگا کہ پینے والوں کی رغبت کی مقدار نہ اس سے کم ہو گی اور نہ زیادہ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ۴ / ۳۴۰، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۵-۱۶، ص۱۳۰۷، ملتقطاً)
وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًا(17)عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰى سَلْسَبِیْلًا(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جنت میں انہیں ایسے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل ملاہوا ہوگا۔( زنجبیل) جنت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل رکھا جاتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا: اور جنت میں انہیں ایسے جام پلائے جائیں گے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جنت میں ان نیک بندوں کو پاکیزہ شراب کے ایسے جام پلائے جائیں گے جن میں زنجبیل یعنی ایسا پانی ملا ہوا ہو گا جو ذائقے میں ادرک کی طرح ہو گا اور اس کے ملنے کی وجہ سے شراب کی لذت اور زیادہ ہوجائے گی اور زنجبیل جنت میں ایک چشمہ ہے جسے جنتی فرشتے سَلسَبیل کہتے ہیں کیونکہ اس کاپانی رواں اور آسانی سے حلق میں اتر جانے والا ہے۔ یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے مُقَرّب بندے خالص اسی چشمے سے پئیں گے جبکہ ان سے کم درجے والے نیک بندوں کی شرابوں میں اس چشمے کا پانی ملایا جائے گا اور یہ چشمہ عرش کے نیچے سے جنّتِ عدن سے ہوتا ہوا تمام جنتوں میں گزرتا ہے۔( روح البیان،الانسان،تحت الآیۃ:۱۷-۱۸،۱۰ / ۲۷۲، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۴ / ۳۴۰-۳۴۱، ملتقطاً)
وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۚ-اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے (خدمت کیلئے) پھریں گے جب تو انہیں دیکھے گا تو تُو انہیں بکھرے ہوئے موتی سمجھے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ: اور ان کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے پھریں گے۔} ارشاد فرمایا کہ اور ان نیک بندوں کے آس پاس ہمیشہ رہنے والے لڑکے خدمت کیلئے پھریں گے ، وہ لڑکے نہ کبھی مریں گے، نہ بوڑھے ہوں گے ،نہ اُن میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ وہ خدمت کرنے سے اُکتائیں گے اور ان کے حُسن کا یہ عالَم ہوگا کہ جب تو انہیں دیکھے گا تو تُوانہیں ایسے سمجھے گا جس طرح صاف شفاف فرش پر چمکیلے موتی بکھرے ہوئے ہوں ۔ اس حسن اورپاکیزگی کے ساتھ جنتی لڑکے خدمت میں مشغول ہوں گے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۴۱، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۱۰ / ۲۷۳، ملتقطاً)
وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب تووہاں دیکھے گا تو نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت دیکھے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ: اور جب تووہاں دیکھے گا۔} یعنی اے جنت میں داخل ہونے والے!جب تو جنت میں نظر اٹھائے گا تو وہاں ایسی نعمتیں دیکھے گا جن کا وصف بیان نہیں کیا جا سکتا اورتو وہاں بہت بڑی سلطنت دیکھے گا جس کی حد اور انتہا نہیں ،نہ اسے زوال آئے گا، نہ جنتی کو وہاں سے منتقل کیاجائے گا اور اس سلطنت کی وُسعت کا یہ عالَم ہے کہ ادنیٰ مرتبے کا جنتی جب اپنے ملک کو دیکھے گا توایک ہزار برس کی راہ تک ایسے ہی دیکھے گا جیسے اپنے قریب کی جگہ دیکھتاہو اور قوت ودبدبے کا یہ حال ہوگا کہ فرشتے بھی اجازت کے بغیر نہیں آئیں گے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۴۱، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۴۸۴، ملتقطاً)
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ٘-وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍۚ-وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
ان پرباریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{عٰلِیَهُمْ: ان پر ہیں ۔} یعنی ان جنتیوں کے بدن پرباریک اور موٹے ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے (بھی) کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں پاکیزہ شراب پلائے گاجو کہ انتہائی پاک صاف ہو گی، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا ہو گا،نہ کسی نے اسے چھوا ہو گا اور نہ وہ پینے کے بعد دنیا کی شراب کی طرح جسم کے اندر سڑ کر پیشاب بنے گی بلکہ اس شراب کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اور جنت میں رہنے والوں کو کھانے کے بعدشراب پیش کی جائے گی، اسے پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو کچھ انہوں نے کھایا ہو گا وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رغبتیں پھرتازہ ہوجائیں گی۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۳۴۱)
اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْیُكُمْ مَّشْكُوْرًا(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
(ان سے فرمایا جائے گا) بیشک یہ تمہارے لیے صلہ ہے اور تمہاری محنت کی قدر کی گئی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً: بیشک یہ تمہارے لیے صلہ ہے۔} جب جنت میں داخل ہونے کے بعد جنتی اس کی نعمتوں کا مُشاہدہ کریں گے تو ان سے فرمایا جائے گا : بیشک یہ نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اطاعت اور فرمانبرداری کا صلہ ہے اور تمہاری محنت کی قدر کی گئی ہے کہ تم سے تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا اور اس نے تمہیں ثواب ِعظیم عطا فرمایا۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴ / ۳۴۱، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۱۳۰۸، ملتقطاً)
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
(اے حبیب!) بیشک ہم نے تم پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن اتارا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلًا: بیشک ہم نے تم پر تھوڑا تھوڑا کرکے قرآن اتارا۔} اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ پر ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں کیا بلکہ آیت آیت کر کے تھوڑا تھوڑا نازل کیا اورا س میں اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں ۔اس سے مقصودحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دل کو تَقْوِیَت دینا ہے ، گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کافر اگرچہ قرآن کو کہانَت اور جادو کہتے ہیں لیکن میں تاکید کے ساتھ فرماتا ہوں کہ یہ قرآن میری طرف سے وحی ہے،حق ہے اورہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے لہٰذا آپ کافروں کی طعنہ زنی سے دِلبرداشتہ نہ ہوں کیونکہ آپ سچے نبی ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۴ / ۳۴۱، روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۲۷۷، ملتقطاً)
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو اپنے رب کے حکم پر ڈٹے رہو اور ان میں کسی گناہگار یا ناشکری کرنے والے کی بات نہ سنو۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: تو اپنے رب کے حکم پر ڈٹے رہو۔} شانِ نزول: عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن مغیرہ یہ دونوں نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ عورتیں اور مال حاصل کرنے کے لئے اپنے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں تو ا س کام سے باز آئیے اور عتبہ نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو میں اپنی بیٹی سے آپ کی شادی کر دوں گا اور مہر کے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر کردوں گا اور ولید نے کہا کہ میں آپ کو اتنا مال دے دوں گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ رسالت کی تبلیغ فرما کر اور اس میں مشقتیں اٹھا کر اور دین کے دشمنوں کی ایذائیں برداشت کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم پر ڈٹے رہیں اور ان میں کسی گنہگار یا ناشکری کرنے والے کی بات نہ سنیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۴۲)
وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(25)وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو۔اور رات کے کچھ حصے میں اسے سجدہ کرو اورلمبی رات میں اس کی پاکی بیان کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا: اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں ذکر سے نماز مراد ہے ،چنانچہ صبح کے ذکر سے نمازِ فجر اور شام کے ذکر سے ظہر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں جبکہ رات کے کچھ حصے میں سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اورباقی لمبی رات میں اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتے رہیں ،یوں اس میں تَہَجُّد کی نماز بھی شامل ہو گئی ،اوربعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد زبان سے ذکر کرنا ہے اور مقصود یہ ہے کہ دن رات کے تمام اَوقات میں دِل اور زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۳۴۲)
وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(25)وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیْلًا(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو۔اور رات کے کچھ حصے میں اسے سجدہ کرو اورلمبی رات میں اس کی پاکی بیان کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا: اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں ذکر سے نماز مراد ہے ،چنانچہ صبح کے ذکر سے نمازِ فجر اور شام کے ذکر سے ظہر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں جبکہ رات کے کچھ حصے میں سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اورباقی لمبی رات میں اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتے رہیں ،یوں اس میں تَہَجُّد کی نماز بھی شامل ہو گئی ،اوربعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد زبان سے ذکر کرنا ہے اور مقصود یہ ہے کہ دن رات کے تمام اَوقات میں دِل اور زبان سے اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۵-۲۶، ۴ / ۳۴۲)
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے آگے ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ: بیشک یہ لوگ جلد جانے والی سے محبت کرتے ہیں ۔} رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُخاطَب ہونے کے بعد اب اللّٰہ تعالیٰ کفّار کے حالات بیان فرما رہا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ان کفارِ مکہ کا حال یہ ہے کہ وہ جلد جانے والی دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اورا سے آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے آگے قیامت کے اس دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں جس کی شدّتیں اور سختیاں کفار پر بھاری ہوں گی،یہ لوگ نہ اس دن پر ایمان لاتے ہیں اور نہ اس دن کے لئے عمل کرتے ہیں ۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)
دنیا سے محبت کب بری اور کب اچھی ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بُری ہے اورکفار کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لئے وسیلہ بنایاجائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ہمارے اَسلاف کا حال یہ تھا کہ وہ دنیا کا مال ملنے پر خوش ہونے کی بجائے غمزدہ ہو جایا کرتے تھے اور دین کی خاطر دنیا کا مال حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ،جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روزے سے تھے، جب (افطار کے وقت) ان کے سامنے کھانا لایا گیا تو فرمایا’’ حضرت مُصْعَب بن عُمَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے،انہیں ایک چادر کا کفن دیا گیا، اگر ان کے سر کو چھپایا جاتا تو قدم کھل جاتے تھے اور قدموں کو چھپایا جاتا تو سرکھل جاتا تھا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کئے گئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔پھر ہمارے لئے دنیا خوب کشادہ کر دی گئی اور ہمیں دنیا کا مال عطا فرما دیا گیا، میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ ہماری نیکیوں کا جلد بدلہ نہ مل رہا ہو،پھر رونے لگے اور کھانا چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا لم یوجد الّا ثوب واحد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۲۷۵)
اورحضرت حماد بن زید رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کپڑے کی تجارت کیاکرتے تھے،ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ اگر پانچ افراد نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا۔کسی نے ان سے کہا :اے ابو محمد! وہ پانچ افراد کون ہیں ؟انہوں نے فرمایا(1)حضرت سفیان ثوری۔(2) حضرت سفیان بن عُیَینہ۔ (3)حضرت فضیل بن عیاض۔(4)حضرت محمد بن سماک۔ اور(5)حضرت ابن عُلَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ خراسان شہر تک تجارت کے لئے جاتے اور تجارت سے جو نفع ہوتا اس میں سے اپنے اہلِ خانہ کا اور حج کا خرچ نکال کر باقی جو کچھ بچتا وہ ان پانچ حضرات کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ اسماعیل، ۳۲۷۷-اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم۔۔۔ الخ، ۶ / ۲۳۴)
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْۚ-وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم نے انہیں پیدا کیا اور ان کے اعضا اور جوڑ مضبوط کئے اور ہم جب چاہیں ان جیسے اور بدل دیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ: ہم نے انہیں پیدا کیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے انہیں منی سے پیدا کیا اور ان کے اَعضاء اور جوڑ مضبوط کئے تاکہ ان کے لئے کھڑے ہونا ، بیٹھنا ،پکڑنا اور حرکت کرنا ممکن ہو جائے اور خالق کا حق یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور ا س کی ناشکری نہ کی جائے اورہم جب چاہیں انہیں ہلاک کردیں اوران کی بجائے تخلیق میں ان جیسے اور لوگ لے آئیں جو کہ اطاعت شِعار ہوں ۔(روح البیان، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۰ / ۲۷۹، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۳۰۸، ملتقطاً)
اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌۚ-فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِیْلًا(29)وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(30)یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-وَ الظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک یہ ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے ۔اورتم کچھ نہیں چاہتے مگریہ کہ اللہ چاہے بیشک اللہ خوب علم والا،بڑا حکمت والا ہے۔وہ اپنی رحمت میں جسے چاہتا ہے داخل فرماتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ ایک نصیحت ہے۔} ارشاد فرمایا کہ بے شک یہ سورت مخلوق کے لئے نصیحت ہے تو جو چاہے دنیا میں اپنی ذات کے لئے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر کے اور اس کے رسول کی پیروی کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف راہ اختیار کرے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)
{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اورتم کچھ نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} ارشاد فرمایا کہ تم کچھ نہیں چاہتے مگر تب ہی کچھ ہوتا ہے جب کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مَشِیَّت سے ہوتاہے ،بیشک وہ اپنی مخلوق کے اَحوال جانتا ہے اور انہیں پیدا کرنے میں حکمت والا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۰، ۴ / ۳۴۲)
آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ،
(1)… انسان پتھر کی طرح بے اختیار نہیں بلکہ اسے اختیاراور ارادہ ملا ہے ۔
(2)… انسان اپنے ارادے میں بالکل مُستقل اور اللّٰہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں بلکہ اس کا ارادہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے ماتحت ہے، لہٰذا انسان مختارِ مُطْلَق نہیں ،اسی عقیدے پر ایمان کا مدار ہے۔
{یُدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖ: وہ اپنی رحمت میں جسے چاہتا ہے داخل فرماتا ہے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل و احسان سے ایمان عطا فرما کر اپنی جنت میں داخل فرماتا ہے اور کافروں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ ظالم اس لئے ہیں کہ انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بتوں وغیرہ کی عبادت کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔( خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ۴ / ۳۴۲، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۱۳۰۹، ملتقطاً)