سُوْرَۃُ الإِنْشِقَاق
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ(1)وَ اَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْ(2)وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ(3)وَ اَلْقَتْ مَا فِیْهَا وَ تَخَلَّتْ(4)وَ اَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْﭤ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
جب آسمان پھٹ جائے گا ۔اور وہ اپنے رب کا حکم سنے گااور اسے یہی لائق ہے۔اور جب زمین کو دراز کر دیا جائے گا۔اور جو کچھ اس میں ہے زمین اسے (باہر) ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی۔اور وہ اپنے رب کا حکم سنے گی اور اسے یہی لائق ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ: جب آسمان پھٹ جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت قائم ہونے کے وقت جب آسمان پھٹ جائے گااور وہ اپنے پھٹنے کے بارے میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا حکم سنے گا اورا س کی اطاعت کرے گا اور اسے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا حکم سنے اوراس کی اطاعت کرے اور جب زمین کوبرابر کرکے دراز کر دیا جائے گا اور اس پر کوئی عمارت اور کوئی پہاڑ باقی نہ رہے گا اور زمین اپنے اندر موجود سب خزانے اورمردے باہرڈال دے گی اور خزانوں اور مُردوں سے خالی ہوجائے گی اور وہ اپنے اندر کی چیزیں باہر پھینک دینے کے بارے میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا حکم سنے گی اور اس کی اطاعت کرے گی اور اسے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا حکم سنے اور اس کی اطاعت کرے تو اس وقت انسان اپنے عمل کا نتیجہ ثواب اور عذاب کی صورت میں دیکھ لے گا۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱-۵، ۴ / ۳۶۳)
یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے انسان!بیشک تو اپنے رب کی طرف دوڑنے والا ہے پھر اس سے ملنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ: اے انسان!} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے انسان !تو اپنی موت آنے تک اچھے یا برے عمل کرنے میں محنت و مشقت کر تارہتاہے،پھر مرنے کے بعد تجھے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے) ضرور حاضر ہونا ہے اور تو نے دنیا میں جیسے عمل کئے ہوں گے انہی کے مطابق تمہیں اس کی بارگاہ سے جزا ملے گی۔
اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے عمل کریں اور ناراض کرنے والے اعمال سے بچیں :
ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اس آیت میں غور کرے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اورموت آنے سے پہلے پہلے ایسے عمل کر لے جن کے ذریعے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی سے نجات پا جائے اور اسے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور ایسے عمل کر نے سے خود کو بچا لے جن کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جائے اور وہ ہلاکت میں پڑجائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو ا س میں اسی کا بھلا اور فائدہ ہے ،اور نہیں کرے گا تو سراسر نقصان بھی اسی کا ہے جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ مَنْ كَفَرَ فَعَلَیْهِ كُفْرُهٗۚ-وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ یَمْهَدُوْنَ‘‘(روم:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پرہے اور جو اچھا کام کریں وہ اپنے ہی کے لئے تیاری کر رہے ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(عنکبوت:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کوشش کرے تو اپنے ہی فائدےکے لئے کوشش کرتا ہے،بیشک اللّٰہ سارے جہان سےبے پرواہ ہے۔
اورجنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے عمل کئے ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : ’’فَكَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ(۲۷) ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَاۤ اَسْخَطَ اللّٰهَ وَ كَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ‘‘(سورہ محمد:۲۷،۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ان کاکیسا حال ہوگا جب فرشتے ان کے منہ اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں مارتے ہوئے ان کی روح قبض کریں گے۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللّٰہ کو ناراض کرنے والی بات کی پیروی کی اور انہوں نے اللّٰہ کی خوشنودی کو پسند نہ کیا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کردئیے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی اور ناراض کر دینے والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ(7)فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا(8)وَّ یَنْقَلِبُ اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاﭤ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
توبہر حال جسے اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ: تو بہر حال جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جسے اس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ حساب کے بعد اپنے جنتی گھر والوں کی طرف اپنی اس کامیابی پرخوشی خوشی پلٹے گا۔ (خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۷-۹، ۴ / ۳۶۳)
قیامت کے دن ایمان والوں کے حساب کی صورتیں :
یاد رہے کہ قیامت کے دن بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں گے کہ جنہیں اعمال نامہ دیا ہی نہیں جائے گا اور وہ بغیر حساب کتاب کے سیدھے جنت میں چلے جائیں گے اور بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں گے کہ جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے توان سے تحقیق اور جَرح والا حساب نہیں ہو گا بلکہ صرف ان کے اعمال ان پر پیش کئے جائیں گے، وہ اپنی نیکیوں اورگناہوں کو پہچانیں گے، پھر انہیں نیکیوں پر ثواب دیا جائے گااوران کے گناہوں سے درگزرکیا جائے گا۔ یہ وہ آسان حساب ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے کہ نہ شدید اعتراضات کر کے اعمال کی تنقیح ہو، نہ یہ کہا جائے کہ ایسا کیوں کیا، نہ عذر طلب کیا جائے، نہ اس پر حجت قائم کی جائے کیونکہ جس سے مطالبہ کیا گیا تو اسے کوئی عذر ہاتھ آئے گا اور نہ وہ کوئی حجت پائے گا اس طرح وہ رسوا ہو جائے گا،اور بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں گے کہ جب وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو ان کے ہر عمل کی پوچھ گچھ ہوگی،ان کاکوئی گناہ نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور انہیں برے اعمال کی سزا کاٹنے کے لئے ایک مخصوص مدت تک جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قیامت کے دن آسان حساب لئے جانے کی دعا مانگا کرے۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ، میں نے ایک مرتبہ نماز کے بعدنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کویہ دعا مانگتے ہوئے سنا ’’اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا‘‘ اے اللّٰہ ! مجھ سے آسان حساب لے۔جب نماز سے فارغ ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ واپس ہوئے تو میں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا’’اس سے مراد یہ ہے کہ بس بندے کے اعمال نامے کو دیکھا جائے اور ا س کے گناہوں کو نظر اندازکر دیا جائے۔ اے عائشہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا، قیامت کے دن جس سے اعمال کے حساب کے معاملے میں جَرح کی گئی تو وہ ہلاک (یعنی عذاب میں گرفتار) ہو جائے گا۔ (مسند امام احمد، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا، ۹ / ۳۰۳، الحدیث: ۲۴۲۷۰)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اور ان کے ہی الفاظ میں ہم بھی اسی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امت میں بنایا انہیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیاء کا کہ نہ لیمجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ ظَهْرِهٖ(10)فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا(11)وَّ یَصْلٰى سَعِیْرًاﭤ(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اوررہا وہ جسے اس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت مانگے گا۔اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ وَرَآءَ ظَهْرِهٖ: اور رہا وہ جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 2آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کا دایاں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ ملا کر طَوق میں باندھ دیا جائے گا اور بایاں ہاتھ پسِ پشت کردیا جائے گا اور اس میں اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا، اس حال کو دیکھ کر وہ جان لے گا کہ وہ جہنم میں جانے والوں میں سے ہے تو ا س وقت و ہ موت کی دعا مانگے گا اور یَا ثُبُوْرَاہْ یعنی ہائے موت کہے گا تاکہ موت کے ذریعے عذاب سے چھٹکارا پاجائے ،لیکن اسے موت نہ آئے گی اوراسے بھڑکتی ا ٓگ میں داخل کر دیا جائے گا۔ (خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴ / ۳۶۳)
بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے والوں کا حال:
بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’ وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ ﳔ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ(۲۵) وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْۚ(۲۶) یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَۚ(۲۷) مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْۚ(۲۸) هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْۚ(۲۹) خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُۙ(۳۰) ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُۙ(۳۱) ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ‘‘(حاقہ:۲۵۔۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رہا وہ جسے اس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کر دینے والی ہوجاتی۔ میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔میرا سب زور جاتا رہا۔(فرشتوں کو حکم ہوگا) اسے پکڑوپھر اسے طوق ڈالو۔پھر اسے بھڑکتی آگ میں داخل کرو۔ پھر ایسی زنجیر میں جکڑ دو جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے۔
اورکفار جہنم میں بھی موت کی دعا مانگیں گے،جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ(۱۳) لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا‘‘(فرقان:۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔(فرمایا جائے گا) آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ایمان پر ہی خاتمہ نصیب فرمائے اور قیامت کی ہَولْناکیوں اور جہنم کے عذابات کی شدّتوں سے ہمیں نجات عطا فرمائے،اٰمین۔
اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاﭤ(13)اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ(14)بَلٰۤىۚۛ-اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًاﭤ(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک وہ اپنے گھر والوں میں خوش تھا۔بیشک اس نے سمجھا کہ وہ ہرگز واپس نہیں لوٹے گا۔ہاں ، کیوں نہیں ! بیشک اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا: بیشک وہ اپنے گھر والوں میں خوش تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کا یہ حال اس لئے ہو گا کہ وہ دنیا کے اندراپنے گھر میں اپنی خواہشوں ، شہوتوں ،تکبر اور غرور میں خوش تھا،اس نے یہ سمجھ رکھا تھاکہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف نہیں لوٹے گااور وہ مرنے کے بعد اُٹھایا نہ جائے گا اور جیسا اس نے گمان کیا تھا درحقیقت ویسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ ضرور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹے گااور مرنے کے بعد اسے اُٹھایاجائے گا اور اس کے اعمال کا حساب کیا جائے گا،بیشک اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اس کے کفر اور تمام گناہوں کودیکھ رہا ہے اور اس کا کوئی عمل اللّٰہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں لہٰذا وہ بہر حال اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لوٹے گا اور اپنے اعمال کی جزا پائے گا۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ۴ / ۳۶۳، مدارک، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ص۱۳۳۴، ملتقطاً)
آخرت سے غفلت اور بے فکری انتہائی نقصان دِہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا کی رنگینیوں میں مشغول ہو کر اپنی آخرت سے غافل اور بے فکرہو جائے اور اس کی بہتری کے لئے کوشش نہ کرے تو وہ آخرت میں بہت نقصان اٹھا ئے گا اور ایسا شخص دنیا میں بھی نقصان ہی اٹھاتا ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جسے آخرت کی فکر ہو اللّٰہ تعالیٰ ا س کا دل غنی کر دیتا ہے اور ا س کے بکھرے ہوئے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل لونڈی بن کر آتی ہے اور جسے دنیا کی فکر ہو، اللّٰہ تعالیٰ محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے، اس کے جمع شدہ کاموں کو مُنتشر کر دیتا ہے اور دنیا (کے مال) سے بھی اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۳)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دنیا کے عیش و عشرت میں کھو کر اپنی آخرت سے غافل اور بے فکر ہونے سے بچائے اور اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ(16)وَ الَّیْلِ وَ مَا وَسَقَ(17)وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
تو مجھے شام کے اجالے کی قسم ہے۔اور رات کی اور ان چیزوں کی جنہیں رات جمع کر دے۔اور چاند کی جب اس کا نورپورا ہوجائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَاۤ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ: تو مجھے شام کے اجالے کی قسم ہے۔} اس آیت سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چند چیزوں کی قسم ارشاد فرمائی ہے تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوں ۔
شَفق سے کیا مراد ہے؟
امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک شفق سے مراد وہ اجالا ہے جو مغرب کی جانب سرخی ختم ہونے کے بعد شمال اور جنوب کی طرف نمودار ہوتا ہے اوراس اجالے کے غائب ہونے پر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک مغرب کی نماز کا وقت ختم ہوتا اورعشاء کی نمازکا وقت شروع ہوتا ہے اور یہی کثیر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَکابر تابعین اور تبعِ تابعین کا قول ہے اور بعض علماء شَفق سے وہی سرخی مراد لیتے ہیں جو سورج غروب ہونے کے بعد اُفق میں نمودار ہوتی ہے۔
{وَ الَّیْلِ وَ مَا وَسَقَ: اور رات کی اور ان چیزوں کی جنہیں رات جمع کردے۔} یعنی رات کی قسم اور ان چیزوں کی قسم، جنہیں رات جمع کر دیتی ہے۔ ان چیزوں سے مراد یا توجانور ہیں جو کہ دن میں مُنتشر ہوتے ہیں اور رات میں اپنے آشیانوں اور ٹھکانوں کی طرف چلے آتے ہیں یا ان سے مراد وہ اعمال ہیں جو رات میں کئے جاتے ہیں جیسے تہجد کی نماز کہ یہ رات میں ادا کی جاتی ہے یا ان سے مراد تاریکی اور ستارے ہیں کہ یہ رات میں جمع ہوتے ہیں ۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۳۶۴، مدارک، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۳۳۴، ملتقطاً)
{وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ: اور چاند کی جب اس کا نور پورا ہوجائے۔} یعنی چاند کی قسم! جب وہ پورا ہوجائے اور اس کا نور کامل ہوجائے۔ چاند کا نور اَیّامِ بِیض یعنی قَمری مہینے کی تیرھویں،چودھویں اورپندرھویں تاریخ میں کامل ہوتا ہے۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۶۴، ملخصاً)
لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍﭤ(19)فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
ضرور تم ایک حالت کے بعد دوسری حالت کی طرف چڑھو گے۔توانہیں کیا ہواکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ: ضرور تم ایک حالت کے بعد دوسری حالت کی طرف چڑھو گے۔} یہ اس سے اوپر آیات میں مذکور قَسموں کا جواب ہے ۔بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں عام انسانوں سے خطاب ہے اور ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھنے سے مراد یہ ہے کہ اے لوگو! تمہیں ایک حال کے بعد دوسرا حال پیش آئے گا۔ان احوال کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ پہلے موت کی سختیوں اورہَولْناکیوں میں مبتلا ہونا، پھر مرنے کے بعد اُٹھنا اور پھرحساب کی جگہ میں پیش ہونا مراد ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے حالات میں مختلف درجے ہیں کہ ایک وقت وہ دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے، پھراس کا دودھ چھوٹتا ہے، پھراس کے لڑکپن کا زمانہ آتا ہے ،پھر وہ جوان ہوتا ہے، پھراس کی جوانی ڈھلتی ہے اور پھر وہ بوڑھا ہوجاتا ہے۔
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں خاص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے خطاب ہے اور ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھنے سے مراد یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف چڑھیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ ایسا کیا کہ آپ معراج کی رات ایک آسمان پر تشریف لے گئے ،پھر دوسرے آسمان پر اسی طرح درجہ بدرجہ اور مرتبہ بمرتبہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی مَنازل میں پہنچے ۔
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کاحا ل بیان فرمایا گیا ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ آپ کفار کی سرکشی اور ان کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہوں، آپ کو مشرکین پر فتح اور کامیابی حاصل ہوگی اور آپ کا انجام بہت بہتر ہوگا۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۶۴)
{فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ: توانہیں کیا ہواکہ وہ ایمان نہیں لاتے۔} یعنی اس سے پہلی آیات میں جن چیزوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی یہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ کر کسی عقلمند انسان کے لئے اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو اب کفار کے پاس اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں کیا عذر باقی رہ گیا ہے اور وہ دلائل ظاہر ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ پر کیوں ایمان نہیں لاتے۔( جلالین مع صاوی، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۲۰، ۶ / ۲۳۳۶-۲۳۳۷)
وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَﭤ(21)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے توسجدہ نہیں کرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَ: اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے توسجدہ نہیں کرتے۔} شانِ نزول: جب ’’سورۂ اِقْرَاْ‘‘ میں آیت ’’وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ‘‘ ([1])نازل ہوئی تورسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ آیت پڑھ کر سجدہ کیا، مؤمنین نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا البتہ کفارِ قریش نے سجدہ نہ کیا تواُن کے اس فعل کی برائی میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب کفار کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدئہ تلاوت نہیں کرتے۔( تفسیر احمدی، سورۃ انشقت، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۷۳۸)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’کفار چونکہ انتہائی فصیح و بلیغ تھے ا س لئے قرآن سننے کے بعد ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ قرآن کو اپنی مثل لانے سے عاجز کر دینے والا مان لیں اور جب انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی نبوت درست ہونے اور اَحکامات اور ممنوعات میں ان کی اطاعت واجب ہو نے کو جان لیا تو (ان پر لازم تھا کہ وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر ایمان لائیں اور ان کی اطاعت کریں ،اور چونکہ کفار نے ا یسا نہیں کیا اس لئے) قرآن سن کر سجدہ نہ کرنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا ان کی مذمت کرنا حق ہے۔( تفسیرکبیر، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱ / ۱۰۴)
سجدۂ تلاوت سے متعلق8شرعی مسائلـ:
یہاں آیت کی مناسبت سے سجدۂ تلاوت سے متعلق 8 شرعی مسائل ملاحظہ ہوں ۔
(1)… اس آیت سے ثابت ہواکہ سجدئہ تلاوت کی آیت سننے والے پر سجدہ ٔتلاوت کرنا واجب ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ وہ آیت پڑھنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدۂ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔
(2)… قرآنِ کریم میں کل چودہ آیتیں ایسی ہیں جنہیں پڑھنے یا سننے سے سجدہ ٔ تلاوت واجب ہوجاتا ہے خواہ سننے والے نے سننے کا ارادہ کیا ہو یا نہ کیاہو۔
(3)…آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے البتہ پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز سے پڑھا ہو کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو خود سن سکے۔
(4)…اگر اتنی آواز سے آیتِ سجدہ پڑھی کہ وہ خود سن سکتا تھا مگر شور و غل یا بہرے ہونے کی وجہ سے نہ سنی تو سجدہ واجب ہوگیا اور اگر محض ہونٹ ہلے آواز پیدا نہ ہوئی تو واجب نہ ہوا۔
(5)… سجدۂ تلاوت کے لئے بھی وہی شرطیں ہیں جو نماز کے لئے ہیں جیسے طہارت، قبلہ رو ہونا اور ستر عورت وغیرہ ۔
(6)…اگر امام نے نماز میں آیتِ سجدہ پڑھی تو اس پر اور مقتدیوں پر اور جو شخص نماز میں تو نہ ہو لیکن اس آیت کو سن لے تو اس پر سجدہ ٔ تلاوت کرناواجب ہے۔ (اس مسئلے کاخیال بطورِ خاص ان لوگوں کو رکھنا چاہئے جو تروایح پڑھنے کے لئے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں یا گھروں میں بیٹھے مرد یا عورتیں امام کی تلاوت کو سن رہے ہوتے ہیں ، البتہ آیتِ سجدہ سننے سے عورت پر سجدۂ تلاوت اس صورت میں واجب ہوگا کہ وہ اس وقت جنابت، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو۔)
(7)… سجدہ کی جتنی آیتیں پڑھی جائیں گی اتنے ہی سجدے واجب ہوں گے اور اگر ایک ہی آیت ایک مجلس میں بار بار پڑھی گئی تو ایک ہی سجدہ واجب ہوگا۔
(8)…سجدہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، پھر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتاہوا کھڑا ہو جائے، سجدۂ تلاوت کے شروع اور آخر میں دونوں بار اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہنا سنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور سجدہ کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام مستحب ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، ۱ / ۷۲۸-۷۳۱، تفسیر احمدی، سورۃ انشقت، ص۷۳۹، ملتقطاً)
بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُكَذِّبُوْنَ(22)وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ(23)فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(24)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
بلکہ کافر جھٹلا رہے ہیں ۔اور اللہ اسے خوب جانتا ہے جو وہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ۔تو تم انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنادو۔مگر جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے اعمال کئے ان کے لیے وہ ثواب ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{بَلِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُكَذِّبُوْنَ: بلکہ کافر جھٹلا رہے ہیں ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جن دلائل کی وجہ سے ایمان لانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا وہ اگرچہ ظاہر ہیں لیکن کفار قرآن کی آیات کواور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو اپنے باپ دادا کی پیروی کی وجہ سے یا حسد کی وجہ سے یا اس خوف کی وجہ سے جھٹلا رہے ہیں کہ اگر انہوں نے ایمان قبول کر لیا تو ان کا دُنْیَوی مَنصب اور دنیا کے فوائد ختم ہو جائیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے جو کفروشرک اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو جھٹلانا وہ اپنے دلوں میں محفوظ رکھتے ہیں ، تو اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، تم انہیں ان کے کفر اور عناد پر دردناک عذاب کی بشارت سنادو مگر ان میں سے جو لوگ کفر سے توبہ کر کے سچے دل سے ایمان لے آئے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے توان کے لیے آخرت میں وہ ثواب ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ رہے گا۔( تفسیرکبیر ، الانشقاق ، تحت الآیۃ : ۲۲-۲۵ ، ۱۱ / ۱۰۴-۱۰۵، خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۵، ۴ / ۳۶۴، ملتقطاً)
کفار کی حالت سامنے رکھتے ہوئے مسلمان بھی اپنے حال پر غور کریں
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے ایمان قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہیں اپنے دُنْیَوی منصب چھن جانے اور دنیا کے وہ فوائد ختم ہو جانے کا خوف تھا جو انہیں حاصل تھے۔کفار کے اسی خوف کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسلمانوں کو بھی اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے جو دنیا کی عزت،وجاہت،دولت اور مرتبے ختم ہونے کے خوف سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے خود بھی دور بھاگتے ہیں اور اپنی اولادوں کو بھی دور رکھتے ہیں اور فقط کبھی کبھار نماز پڑھ لینا یا تھوڑا بہت اللّٰہ اللّٰہ کر لینا اپنی اُخروی نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں