سُوْرَۃُ الإِسْرَاء
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاذکار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول، الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں ،اس کی بہت برکت ہے۔
{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱ / ۱۵۳)
’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استادسے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سُبْحٰنَ: پاک ہے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ’’سُبْحَانَ اللہ ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ہر بری چیز سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل والتسبیح والذکر، تفسیر سبحان اللہ، ۲ / ۱۷۷، الحدیث: ۱۸۹۱)
سُبْحَانَ اللہ کے3 فضائل:
اس آیت کی ابتدا میں لفظ ’’ سُبْحٰنَ‘‘ کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘کے 3فضائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھا ،تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کی مثل ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۱۹، الحدیث: ۶۴۰۵)
(2)…حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے ’’سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہا تو اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگا دیا جاتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۵۹-باب، ۵ / ۲۸۶، الحدیث: ۳۴۷۵)
(3)…حضرت ابوذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَاللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کون سا کلام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ کلام جسے اللہتعالیٰ نے فرشتوں کے لئے پسند فرما ہے (اور وہ یہ ہے) ’’سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیْ وَبِحَمْدِہٖ‘‘(مستدرک، کتاب الدعاء والتکبیر والتہلیل۔۔۔الخ، احبّ الکلام الی اللہ سبحان ربّی وبحمدہ،۲ / ۱۷۶، الحدیث:۱۸۸۹)
اسمِ الٰہی کی تجلی کا اثر:
یاد رہے کہ ہر اسمِ الٰہی کی تجلی عامل پر پڑتی ہے یعنی جو جس اسمِ الٰہی کا وظیفہ کرتا ہے اُس میں اُسی کا اثر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ جو ’’یَا سُبْحَانُ‘‘کا وظیفہ کرے تواللہ تعالیٰ اسے گناہوں سے پاک فرمائے گا ۔ جو’’یَا غَنِیُّ ‘‘ کا وظیفہ پڑھے تو وہ خود غنی اور مالدار ہوجائے گا، اسی طرح جو یَاعَفُوُّ ، یَا حَلِیْمُ کا وظیفہ کرے تو اس میں یہی صفات پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اسی مناسبت سے یہاں ایک حکایت ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت ابو بکر بن زیَّات رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :حضور! آج صبح ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میں سب سے پہلے آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس یہ خبر لے کر آیا ہوں تاکہ آپ کی برکت سے ہمارے گھرمیں خیر نازل ہو ۔ حضرت معروف کرخی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے حفظ واَمان میں رکھے ۔یہاں بیٹھ جاؤ اورسو مرتبہ یہ الفاظ کہو ’’مَا شَاءَ اللہ کَانَ‘‘یعنی اللہتعالیٰ نے جو چاہا وہی ہوا۔ اس نے سو مرتبہ یہ الفاظ دہرا لئے توآپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’ دوبارہ یہی الفاظ کہو ۔ اس نے سو مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔ آپ نے فرمایا ’’پھر وہی الفاظ دہراؤ۔ اس طرح پانچ مرتبہ اسے (وہ الفاظ دہرانے کا ) حکم دیا ۔ اتنے میں ایک وزیر کی والدہ کاخادم ایک خط اور تھیلی لے کر حاضر ہوا اور کہا:’ ’اے معروف کرخی ! رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ،اُمِّ جعفر آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے یہ تھیلی آپ کی خدمت میں بھجوائی ہے اورکہا ہے کہ آپ غُرباء و مساکین میں یہ رقم تقسیم فرما دیں ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاصد سے فرمایا ’’ رقم کی تھیلی اس شخص کو دے دو، اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ قاصد نے کہا: یہ 500 درہم ہیں ، کیا سب اسے دے دوں ؟آپ نے فرمایا ’’ہاں !ساری رقم اسے دے دو، اس نے پانچ سو مرتبہ ’’مَا شَاءَ اللہ کَانَ‘‘ کہا تھا۔ پھر اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ یہ پانچ سو درہم تمہیں مبارک ہوں ، اگر اس سے زیادہ مرتبہ کہتے تو ہم بھی اتنی ہی مقدار مزید بڑھا دیتے ۔( جاؤ !یہ رقم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو)۔( عیون الحکایات، الحکایۃ التاسعۃ بعد الثلاث مائۃ، ص۲۷۷)
{سُبْحٰنَ الَّذِیْ:پاک ہے وہ ذات۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر کمزوری، عیب اور نقص سے خداوند ِ قدوس کی عظیم ذات پاک ہے جس نے اپنے خاص بندے یعنی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شبِ معراج رات کے کچھ حصے میں مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی حالانکہ مسجد ِ اقصیٰ مکۂ مکرمہ سے تیس دن سے زیادہ کی مسافت پر ہے، وہ مسجد ِاقصیٰ جس کے اردگرد ہم نے دینی و دُنْیَوی برکتیں رکھی ہیں اور سیر کرانے کی حکمت یہ تھی کہ اللہعَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی عظمت اور قدرت کی عظیم نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ روایت ہے کہ جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شب ِمعراج درجاتِ عالیہ اور مَراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تواللہعَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا ، اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کی :اس لئے کہ تو نے مجھے عَبْدِیَّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۳-۱۵۴، ملخصاً)
{اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ: اپنے بندے کو سیر کرائی۔} آیت کے اس حصے میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معراج شریف کا تذکرہ ہے ۔ معراج شریف نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایک جلیل معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ کمالِ قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا کسی کو مُیَسَّر نہیں ۔
معراج شریف سے متعلق 3باتیں :
یہاں معراج شریف سے متعلق تین باتیں قابلِ ذکر ہیں :
(1)…نبوت کے بارہویں سال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ معراج سے نوازے گئے ، البتہ مہینے کے بارے میں اختلاف ہے مگر زیادہ مشہور یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔
(2)… مکۂ مکرمہ سے حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیتُ المقدس تک رات کے چھوٹے سے حصہ میں تشریف لے جانا نصِ قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور مَنازلِ قرب میں پہنچنا اَحادیث ِصحیحہ مُعتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِ تَواتُر کے قریب پہنچ گئی ہیں ، اس کا منکر گمراہ ہے۔
(3)…معراج شریف بحالت ِبیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی، یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثیر جماعتیں اور حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیل القدر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی کے معتقد ہیں ، آیات و اَحادیث سے بھی یہی سمجھ آتا ہے اور جہاں تک بیچارے فلسفیوں کا تعلق ہے جو علّت و مَعلول کے چکر میں پھنس کر عجیب و غریب شکوک و شُبہات کا شکار ہیں تو ان کے فاسد اَوہام مَحض باطل ہیں ، قدرتِ الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں ۔( تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۰۵، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۰۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ:۱،ص۵۲۵، ملتقطاً)
سفر ِمعراج کا خلاصہ:
معراج شریف کے بارے میں سینکڑوں اَحادیث ہیں جن کا ایک مختصر خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ معراج کی رات حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معراج کی خوشخبری سنائی اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقدس سینہ کھول کر اسے آبِ زمزم سے دھویا، پھر اسے حکمت و ایمان سے بھر دیا۔ اس کے بعدتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں براق پیش کی اور انتہائی اِکرام اور احترام کے ساتھ اس پر سوار کرکے مسجد ِاقصیٰ کی طرف لے گئے۔ بیتُ المقدس میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امامت فرمائی ۔پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے باری باری تمام آسمانوں کے دروازے کھلوائے، پہلے آسمان پر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضور ِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے ، انہوں نے حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و تکریم کی اور تشریف آوری کی مبارک بادیں دیں ،حتّٰی کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرماتے اور وہاں کے عجائبات دیکھتے ہوئے تمام مُقَرَّبین کی آخری منزل سِدرۃُ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اس جگہ سے آگے بڑھنے کی چونکہ کسی مقرب فرشتے کو بھی مجال نہیں ہے ا س لئے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آگے ساتھ جانے سے معذرت کرکے وہیں رہ گئے ، پھر مقامِ قربِ خاص میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ترقیاں فرمائیں اور اس قربِ اعلیٰ میں پہنچے کہ جس کے تَصَوُّر تک مخلوق کے اَفکار و خیالات بھی پرواز سے عاجز ہیں ۔ وہاں رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر خاص رحمت و کرم ہوا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انعاماتِ الٰہیہ اور مخصوص نعمتوں سے سرفراز فرمائے گئے، زمین و آسمان کی بادشاہت اور ان سے افضل و برتر علوم پائے ۔ اُمت کے لئے نمازیں فرض ہوئیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض گناہگاروں کی شفاعت فرمائی، جنت و دوزخ کی سیر کی اور پھر دنیا میں اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔ جب سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس واقعے کی خبریں دیں تو کفار نے اس پر بہت واویلا کیا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیتُ المقدس کی عمارت کا حال اور ملک ِشام جانے والے قافلوں کی کَیفِیَّتیں دریافت کرنے لگ گئے ۔حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں سب کچھ بتا دیا اور قافلوں کے جو اَحوال سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائے تھے ، قافلوں کے آنے پر اُن سب کی تصدیق ہوئی۔
معراجِ حبیب اور معراجِ کلیم میں فرق:
اللہتعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو معراج عطا فرمائی اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو معراج عطا فرمائی، یہاں اِن میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی معراج درخت ِدنیا پر ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ‘‘(قصص:۳۰)
برکت والی جگہ میں میدان کے دائیں کنارے سے ایک درخت سے انہیں ندا کی گئی۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی معراج سِدرۃُ المنتہیٰ وفردوسِ اعلیٰ تک بیان فرمائی(چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى(۱۴)عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى‘‘(النجم:۱۴،۱۵)
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔اس کے پاس جنت الماویٰ ہے۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲)
مزید فرماتے ہیں :کلیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم پر حجاب ِنار سے تجلی ہوئی (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا‘‘(نمل:۸)
پھر موسیٰ آگ کے پاس آئے تو (انہیں ) ندا کی گئی کہ اُس (موسیٰ) کو جو اس آگ کی جلوہ گاہ میں ہے اور جو اس (آگ) کے آس پاس(فرشتے)ہیں انہیں برکت دی گئی۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر جلوۂ نور سے تجلی ہوئی اوروہ بھی غایت تفخیم وتعظیم کیلئے بَالفاظِ اِبہام بیان فرمائی گئی (کہ)
’’ اِذْ یَغْشَى السِّدْرَةَ مَا یَغْشٰى‘‘ (نجم:۱۶) جب چھا گیا سدرہ پر جو کچھ چھایا۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۸۲-۱۸۳)
(اللہتعالیٰ نے) کلیمُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالتَّسْلِیْم سے طور پر کلام کیا اور اسے سب پر ظاہر فرما دیا (چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِـعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳)اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ‘‘(طٰہٰ:۱۳،۱۴) الٰی اٰخر الاٰیات۔(آیات کے آخر تک)
اور میں نے تجھے پسند کیا تواب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔بیشک میں ہی اللہہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔(ت)
حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے فوق السَّمٰوٰت مُکالَمہ فرمایا اور سب سے چھپایا(چنانچہ ارشاد فرمایا)
’’فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى‘‘ (النجم:۱۰)
پھر اس نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی۔(ت)( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۹-۱۸۰)
{اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا:مسجد ِاقصیٰ تک ۔} سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرانے میں ایک حکمت یہ ہے کہ تمام اَنبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شرف اور فضیلت ظاہر ہو جائے کیونکہ رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی جگہ میں انہیں امام بن کر نماز پڑھائی اور جسے گھر والوں پر مُقَدّم کیا جائے اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ و ہ سلطان ہوتا ہے کیونکہ سلطان کو اپنے علاوہ لوگوں پر مُطْلَقاً تَقَدُّم حاصل ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ حشر کے دن مخلوق اسی سرزمین میں جمع ہو گی اس لئے یہ جگہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کی برکات سے نہال ہو جائے تاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر محشر میں وُقوف آسان ہو۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۱۰۶) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ پہلی حکمت کے حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں :
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرعیاں ہوں معنی ٔاول آخر کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
{اَلَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ: جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے مسجد ِاقصیٰ کی شان بیان فرمائی کہ اس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی ۔ دینی برکتیں یہ کہ وہ سرزمینِ پاک وحی کے اترنے کی جگہ اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عبادت گاہ اور ان کی قیام گاہ بنی اور ان کی عبادت کا قبلہ تھی۔ دنیوی برکتیں یہ کہ وہاں قرب و جوار میں نہروں اور درختوں کی کثرت تھی جس سے وہ زمین سرسبز و شاداب ہے اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ص۶۱۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۲۵، ملتقطاً)
{لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا: تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔}آیت کے اس حصے میں معراج شریف کی ایک حکمت بیان کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رات کے کچھ حصے میں مسجد ِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کرائی تاکہ ہم انہیں اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :بے شک اس رات نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا، انہیں نماز پڑھائی اور بڑی عظیم نشانیاں دیکھیں ۔ مزید فرماتے ہیں : اس آیت میں ’’مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ ہیں ،جن کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نشانیاں دکھائیں جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں ۔( انعام:۷۵) اس آیت کے ظاہر سے ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فضیلت حاصل ہے ، حالانکہ ایسا نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پراِس اعتبار سے فضیلت کا قائل ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت بھی اللہ تعالیٰ کی (تمام نہیں بلکہ)بعض ہی نشانیاں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی(دوسری) نشانیاں اِس(آسمان و زمین کی بادشاہت) سے کہیں زیادہ اور بڑھ کرہیں اور (اسی اعتبار سے ہم کہتے ہیں کہ)اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نشانیاں و عجائبات دکھائے وہ زمین و آسمان کی بادشاہت سے بڑھ کر ہیں ، اس بیان سے ظاہر ہو گیا کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت حاصل ہے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۵۴ملخصاً)۔
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاﭤ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے اس اکرام کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرمایا اور اس آیت میں وہ اپنے اس اکرام کا ذکر فرما رہا ہے جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فرمایا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتاب تورات عطا فرمائی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا کہ وہ اس کتاب کے ذریعے انہیں جہالت اور کفر کے اندھیروں سے علم اور دین کے نور کی طرف نکالتے ہیں تاکہ اے بنی اسرائیل ! تم میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۲۹۷)
ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(3)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ،وہ یقینابہت شکرگزار بندہ تھا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ذُرِّیَّةَ مَنْ: اے ان لوگوں کی اولاد۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا اور طوفانِ نوح سے محفوظ فرمایا ، تم بھی تمام حالات میں اللّٰہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور شکر گزار بندے بن جاؤ جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے کہ وہ ہر حال میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنے والے تھے۔( جلالین مع صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۱۱۱۳)
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شکر گزاری:
حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب کوئی چیزکھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳، ۳ / ۱۶۱)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شکر گزاری :
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ اقدس میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ وصف انتہائی اعلیٰ طریقے سے پایا جاتا تھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھے، چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کھانا تَناوُل فرماتے اور پانی پیتے، جب بیتُ الخلا سے باہر تشریف لاتے، جب نیا لباس زیبِ تن فرماتے ، جب آئینہ دیکھتے، جب بستر پر تشریف لاتے، جب نیند سے بیدار ہوتے، جب سواری پر سوار ہوتے ، جب کوئی مسلمان ہوتا ،جب کوئی خوشی کی خبر ملتی، جب کوئی پسندیدہ چیز دیکھتے اور جب کسی مصیبت زدہ کو دیکھتے تو خود کو عافیت ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور اس کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ آپ کے مبارک پاؤں سوج جاتے ۔ (ایک دن) حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں !حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے عائشہ!(رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا)،’’اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا‘‘کیا میں(اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔( مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب اکثار الاعمال والاجتہاد فی العبادۃ، ص۱۵۱۵، الحدیث: ۸۱(۲۸۲۰))
حضرت عروہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر ،اپنے شکر اور اپنی عبادت اچھی طرح کرنے پر میری مدد فرما(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، امر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عمر بن الخطاب ان یدعوا بہ، ۷ / ۱۳۴، الحدیث: ۲)۔
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے بنی اسرائیل کی طرف کتاب میں وحی بھیجی کہ ضرور تم زمین میں دومرتبہ فساد کرو گے اور تم ضرور بڑا تکبرکرو گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فِی الْكِتٰبِ: کتاب میں ۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کیا گیا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں تورات میں یہ غیب کی خبر دی تھی کہ تم زمین میں یعنی سرزمینِ شام میں دو مرتبہ فساد کرو گے ۔ یہ غیب کی خبر پوری ہوئی اور جس طرح اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا تھا ویسے ہی وقوع میں آیا کہ بنی اسرائیل نے فساد کیا، ظلم و بغاوت پر اترے اور اس کا انجام دیکھنے کے بعد پھر سنبھلے لیکن پھر دوبارہ فساد میں مبتلا ہوگئے اور ہر مرتبہ فساد کے نتیجے میں ذلیل و رسوا ہوئے ۔
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ان دو مرتبہ میں سے پہلی بار کا وعدہ آیا توہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے جو سخت لڑائی والے تھے تو وہ شہروں کے اندر تمہاری تلاش کیلئے گھس گئے اور یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہونا تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا: ان دو مرتبہ میں سے پہلی بار کا وعدہ۔}ا س آیت میں گزشتہ آیت کی تفصیل بیان کی جارہی ہے کہ جب دو مرتبہ کے فساد میں سے پہلی مرتبہ کے فساد کا وقت آیا تو فساد کی صورت یہ بنی کہ انہوں نے توریت کے احکام کی مخالفت کی اور گناہ کے کاموں میں پڑگئے اور حرام چیزوں کے مُرتکب ہونے لگے حتّٰی کہ انہوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیاء عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ایک قول کے مطابق حضرت ارمیاء عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کیا اور جب بنی اسرائیل نے یہ فساد کیا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر بہت زور وقوت والے لشکروں کو مُسَلَّط کردیا تاکہ وہ انہیں لوٹیں اور انہیں قتل کریں ، قید کریں (اور ذلیل و رسوا کریں ۔) چنانچہ ان مسلط کئے جانے والے لشکروں نے بنی اسرائیل کے علماء کو قتل کیا، توریت کو جلایا، مسجد اقصیٰ کو ویران کیا اور ستر ہزار افراد کو گرفتار کیا۔( بیضاوی، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۴-۵، ۳ / ۴۳۲، خازن، الاسراء، تحت الایۃ: ۵، ۳ / ۱۶۲، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۶۱۶، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵، ص۲۳۰) یہ مسلط کئے جانے والے لشکر کون سے تھے ، اس بارے میں مختلف اَقوال ہیں البتہ ان میں سے جس نے بنی اسرائیل کو بدترین طریقے سے ہزیمت سے دوچار کیا وہ بخت نصر تھا جس نے انہیں تہس نہس کرکے چھوڑا اور یوں وعدہ ِ الٰہی پورا ہوا۔
بدعملی کا دُنْیَوی انجام:
اس سے معلوم ہوا کہ بد عملی کی وجہ سے ظالم بادشاہ مسلط کردئیے جاتے ہیں ، کیونکہ ظالم بادشاہ بھی عذابِ الٰہی ہوتا ہے۔ نیز بد عملی کے مزید دنیوی نقصانات ملاحظہ ہوں چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا ’’اے مہاجرین! جب تم پانچ کاموں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو تمہارا کیا حال ہو گا) اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان کاموں میں مبتلا ہو جاؤ، (1) جب کسی قوم میں بے حیائی کے کام اِعلانیہ ہونے لگ جائیں تو ان میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں ۔ (2) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو ان پر قحط اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور بادشاہ ان پر ظلم کرتے ہیں ۔ (3) جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ بارش کو روک دیتا ہے،اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ (4) جب لوگ اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان پر دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے اوروہ ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لیتے ہیں ۔ (5) جب مسلمان حکمران اللّٰہ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کردوسرا قانون نافذکرتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکام میں سے کچھ پر عمل کرتے اور کچھ کو چھوڑدیتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما دیتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر ہم نے تمہاراغلبہ ان پر اُلٹ دیا اور مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کی اور ہم نے تمہاری تعداد بھی زیادہ کردی۔
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیْهِمْ:پھر ہم نے تمہاراغلبہ ان پر اُلٹ دیا۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کی بربادی کے بعد دوبارہ سنبھلنے کی داستان بیان کی جارہی ہے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے نتیجے میں تباہ و برباد ہونے کے بعد جب تم نے توبہ کی اور تکبر و فساد سے باز آئے توہم نے تمہیں دولت دی اور تمہیں اتنی قوت و طاقت عطا فرمائی کہ تم دوبارہ مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے چنانچہ تمہیں اُن لوگوں پر غلبہ عطا کردیا گیا جو تم پر مسلط ہو چکے تھے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۱۶۲، ملتقطاً)
افرادی اور مالی قوت کی اہمیت:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افرادی اور مالی قوت کی بھی بڑی اہمیت ہے اور طاقت کے میدان میں ان کا بڑا عمل دخل ہے اور اگر ان کا صحیح استعمال ہو تو یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ- وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَاؕ-فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اگر تم بھلائی کرو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے تو تمہاری جانوں کیلئے ہی ہوگا۔ پھر جب دوسری بار کاوعدہ آیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اورتاکہ مسجد میں داخل ہوجائیں جیسے پہلی باراس میں داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ وبرباد کردیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ اَحْسَنْتُمْ: اگر تم بھلائی کرو گے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو غلبہ و طاقت اور اقتدار و اختیار عطا کیا گیا تو ساتھ ہی انہیں یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم بھلائی کرو گے اور اس پر ثابت قدم رہو گے اور اسی بھلائی کے راستے پر چلتے رہو گے تو تم اپنے لئے ہی بہتر کرو گے اور اگر تم برا کرو گے اور دوبارہ پرانی روِش اپناؤ گے اور فتنہ و فساد اور نافرمانی کی زندگی گزارنے لگو گے تواس کا انجام تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا چنانچہ وہی ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق جب دوسری باربنی اسرائیل کے فساد کرنے کاوقت آیا اور انہوں نے دوبارہ وہی پرانی حرکتیں کرنا شروع کردیں اور انہوں نے پھر فساد برپا کیا حتّٰی کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قتل کے درپے ہوئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بچالیا اور اپنی طرف اُٹھالیا اور بنی اسرائیل نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کردیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر اہلِ فارس اور روم کو مسلط کیا تاکہ وہ انہیں قتل کریں ، قید کریں اور اتنا پریشان کریں کہ رنج وپریشانی کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہوں پھر ان مسلط ہونے والے لوگوں نے یہ بھی کیا کہ وہ بیتُ المقدس کی مسجد میں داخل ہوئے اور اسے ویران کردیا اور بنی اسرائیل کے شہروں پر غلبہ پاکر انہیں تباہ و برباد کردیا۔(تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ:۷، ۷ / ۳۰۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۱۶۲، ملتقطاً)
بنی اسرائیل کے دوہرے فساد اور ان کے انجام سے مسلمان نصیحت حاصل کریں :
بنی اسرائیل کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنی تاریخ کو دیکھیں تو پہلی نظر میں ہی مسلمانوں کے عروج و زوال کا سبب واضح ہو جائے گا کہ مسلمان جب تک قرآنِ مجید کے احکامات اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت پر عمل پیرا رہے تو دنیا بھر میں انہیں غلبہ،قوت اور اِقتدار حاصل رہا اور انہیں لاثانی شان و شوکت حاصل رہی اور جب سے انہوں نے قرآن و حدیث کی پیروی میں سستی کرنا شروع کی اور حرام و ناجائز اَفعال میں مبتلا ہوئے تب سے ان کی شوکت اوراِقتدار زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں اسلامی ملکوں اور شہروں کو تباہی وبربادی کے ایسے طوفان کا سامنا کرنا پڑا کہ لاکھوں افراد کی آبادی پر مشتمل شہروں میں کوئی زندہ انسان نظر نہ آتا تھا اوروحشی پرندے اور جانور ان کی لاشوں پر گوشت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ پھر جب مسلمان اپنی بے عملی چھوڑ کر عمل کی طرف مائل ہوئے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو انہوں نے حرز جاں بنایا تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں پھر دنیا میں طاقت اور سلطنت عطا فرما دی اور مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت بحال کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے، لیکن جب پھر مسلمانوں میں بد عملی کا رواج ہوا اور مسلمان شراب ورَباب کی مستی میں گم ہو گئے اور نفسانی لذات کے حصول کو اپنا مشغلہ بنا لیا اور مال و دولت کی حرص و ہَوس کا شکار ہو گئے تو اس کے بعد مسلمانوں کا جو حال ہوا ہے وہ صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں ،اگر اب بھی مسلمان نہ سنبھلے اور انہوں نے اپنی عملی حالت کو نہ سدھارا تو حالات اس سے بھی بدتر ہوجائیں گے۔
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْۚ-وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَاۘ-وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر دوبارہ (شرارت) کرو گے تو ہم دوبارہ ( سزا) دیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنادیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَنْ یَّرْحَمَكُمْ:کہ تم پر رحم فرمائے۔} یعنی اے بنی اسرائیل! دوسری مرتبہ کے بعد بھی اگر تم دوبارہ توبہ کرلو اور گناہوں سے باز آجاؤ تو ہم تم پر پھر اپنا رحم و کرم کریں گے لیکن اگر تم نے تیسری مرتبہ پھر شرارت کی اور فتنہ وفساد کیا توہم پھر تمہیں اس کی سزا دیں گے چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا کہ انہوں نے تیسری مرتبہ بھی وہی حرکات کیں اور زمانۂ مصطفوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کی تو اُن پر ذلت مسلط کردی گئی۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸، ۵ / ۱۳۴-۱۳۵، ملخصاً) اور فرمادیا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے یا لوگوں کی طرف سے کوئی سہارا مل گیا تو ان کی کچھ بچت ہوجائے گی ورنہ ان پر ذلت مسلط کردی گئی ہے، چنانچہ ہمارے زمانے میں یہودیوں کو دیکھ لیں کہ انہیں مغربی ممالک کا سہارا حاصل ہے ، اگر وہ ہٹ جائے تو ایک دن میں اپنی اوقات دیکھ لیں گے۔
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًا(9)وَّ اَنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا ثواب ہے۔ اور یہ کہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ: بیشک یہ قرآن۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی تین خوبیاں بیان فرمائی ہیں (1) قرآن سب سے سیدھا راستہ دکھاتا ہے اوروہ راستہ اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور اُن کی اطاعت کرنا ہے۔ (یہی راستہ سیدھا جنت تک اور خدا تک پہنچانے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں یعنی ولیوں اور ان نیک بندوں کا ہے جن کی پیروی کا قرآنِ پاک میں حکم دیا گیا ہے) ۔ (2) نیک اعمال کرنے والے مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہے۔(3) آخرت کے منکرین کو درناک عذاب کی خبر دیتا ہے۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ۷ / ۳۰۳-۳۰۴، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹-۱۰، ص۶۱۷، ملتقطاً)
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور (کبھی ) آدمی برائی کی دعا کربیٹھتا ہے جیسے وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ: اور آدمی برائی کی دعا کردیتا ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی جس طرح بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے اسی طرح بعض اوقات برائی کی دعا بھی کردیتا ہے جیسے کئی مرتبہ غصے میں آکر اپنے اور اپنے گھر والوں کے اور اپنے مال واولاد کے خلاف دعا کردیتا ہے ،غصہ میں آکر ان سب کو کوستا ہے اور اُن کے لئے بددعائیں کرتا ہے تو یہ انسان کی جلد بازی ہے( اور جلد بازی عموماً نقصان دیتی ہے ۔) اگر اللّٰہ تعالیٰ اس کی یہ بددعا ئیں قبول کرلے تووہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہوجائیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں فرماتا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۳۷، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۱۶۷، ملتقطاً) جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ‘‘(یونس: ۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگر اللّٰہ لوگوں پرعذاب اسی طرح جلدی بھیج دیتا جس طرح وہ بھلائی جلدی طلب کرتے ہیں تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی۔
بد دعا کرنے سے بچیں :
اس سے معلوم ہوا کہ غصے میں اپنے یا کسی مسلمان کیلئے بددعا نہیں کرنی چاہیے اورہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہیے کہ نہ معلوم کونسا وقت قبولیت کا ہو۔ ہمارے معاشرے میں عموماً مائیں بچوں کو طرح طرح کی بددعائیں دیتی رہتی ہیں ، مثلا تیرا بیڑہ غرق ہو، تو تباہ ہوجائے، تو مرجائے، تجھے کیڑے پڑیں وغیرہ، وغیرہ، اس طرح کے جملوں سے احتراز لازم ہے۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں انسان سے کافر مراد ہے اور برائی کی دعا سے اس کا عذاب کی جلدی کرنا مراد ہے ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نضر بن حارث کافر نے کہا، یارب! اگر یہ دین ِاسلام تیرے نزدیک حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا دردناک عذاب بھیج۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کرلی اور اُس کی گردن ماری گئی۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۱۷)
جلد بازی کی مذمت:
اس آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ آدمی بڑا جلد باز ہے۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے توہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک تعداد ایسی نظر آتی ہے جو دینی اور دنیوی دونوں طرح کے کاموں میں نامطلوب جلد بازی سے کام لیتے ہیں ، جیسے وضو کرنے میں ،نماز ادا کرنے میں ، تلاوتِ قرآن کرنے میں ، روزہ افطار کرنے میں ، تراویح ادا کرنے میں ، قربانی کرنے میں ، ذبح کے بعد جانور کی کھال اتارنے میں ، ارکانِ حج ادا کرنے میں ، دعا کی قبولیت میں ، بد دعا کرنے میں ، کسی کو گناہگار قرار دینے میں ، کسی کے خلاف بد گمانی کرنے میں ، دنیا طلب کرنے میں ، نہ ملنے پر شکوہ کرنے میں ، رائے قائم کرنے میں ، کسی سے جھگڑا مول لینے میں ، کسی پرغصہ نافذ کرنے میں ، کسی کے خلاف یا کسی کام سے متعلق فیصلہ کرنے میں ، گاڑی چلانے میں ، گاڑی سے اترنے یا چڑھنے میں اور روڈ پار کرنے وغیرہ بے شمار دینی اور دُنیوی اُمور میں لوگ جلد بازی کرتے ہیں اور ا س کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات لوگوں کی عبادات ہی ضائع ہوجاتی ہیں اور کبھی و ہ دنیوی معاملات میں بھی شدید نقصان سے دوچار ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ ایسے حضرات کو چاہئے کہ وہ درج ذیل دو اَحادیث سے نصیحت حاصل کریں اور جلد بازی کی آفات اور اس کے نقصانات سے خود کو بچانے کی کوشش کریں ۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روا ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بُردباری اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التّأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث:۲۰۱۹)
حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے تَوَقُّف کیا تو اس نے (اپنا مقصد) پا لیا یا قریب ہے کہ وہ( اسے )پالے اور جس نے جلدی کی تو اس نے خطا کی یا قریب ہے کہ وہ خطا کھا جائے۔( معجم الکبیر، ابن لہیعۃ عن ابی عشانۃ، ۱۷ / ۳۱۰، الحدیث: ۸۵۸)
یاد رہے کہ بعض کام ایسے ہیں جن میں جلدی کرنا مذموم نہیں بلکہ ان میں جلدی کرنا شریعت کی طرف سے مطلوب ہے جیسے قضا نمازیں اورنمازِ جنازہ ادا کرنے میں ، قرض کی ادائیگی میں ، زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے میں ، گناہو ں سے توبہ کرنے میں، نیک اعمال کرنے میں ، اولاد جوان ہو جائے تو ان کی شادی کرنے وغیرہ میں جلدی کرنا۔ اچھی اور بری جلدی میں فرق واضح ہے جسے ہر آدمی موقع محل کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹاہو اکیا اور دن کی نشانی کو دیکھنے والی بنایا تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اٰیَتَیْنِ: دونشانیاں ۔} اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی دو عظیم نشانیاں بیان فرمائیں اور وہ دو نشانیاں دن اور رات ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ ہم نے رات کی نشانی کو مٹا ہوا بنایا یعنی رات کو تاریک بنایا کہ اس میں ہر چیز چھپ جاتی ہے اور تاریک بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں آرام کیا جائے جبکہ دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں سب چیزیں نظریں آئیں اور تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل یعنی اپنی روزی آسانی سے کما سکو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۶۱۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۳۱، ملتقطاً)
آیت’’لِتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…بیکار رہنا اورکمائی نہ کرنا بہت نامناسب ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہاتھ پاؤں برتنے کو دئیے ہیں ا س لئے انہیں بیکار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ہاتھ پاؤں اور دیگر جسمانی اَعضا سلامت ہونے اور کمائی کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اپنوں یا پرایوں سے مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ۔
(2)… رزق حقیقت میں اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے، مَحض ہماری کمائی کا نتیجہ نہیں ، اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے ہنر و کمال پر ناز نہ کرے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر نگاہ رکھے۔اپنی محنت کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے فضل پر نگاہ رکھنا ہی تَوکّل ہے۔
{لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ: تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو۔} یعنی رات اور دن کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رات اوردن کے دورے سے تم دنوں کا حساب بناتے ہو، پھر دنوں سے ہفتے اور مہینے اورپھر سال بنتے ہیں تو گویا یہ نظام تمہاری زندگی کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہے اور اسی دن رات کی تبدیلی سے تم دینی و دنیوی کاموں کے اوقات کاحساب لگاتے ہو۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۱۳۹، ملخصاً)
{وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا:اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔} یعنی ہم نے قرآن میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان فرمادیا خواہ اس کی حاجت تمہیں دین میں ہو یا دنیا کے کاموں میں ۔ مقصد یہ ہے کہ ہرایک چیز کی تفصیل بیان فرمادی جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا
’’ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
نیز ایک اور آیت میں ارشاد کیا
’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘(النحل:۸۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۶۸، جمل، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)
غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اَشیاء کا بیان ہے، سُبْحَانَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! کیا کتاب ہے اور کیسی اس کی جامعیت ہے، اس کی کچھ جھلک دیکھنی ہو تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم الشان کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہٗ الْمَصْؤُنُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں جس میں آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انتہائی شاندار انداز میں علومِ قرآن کی وسعت کا بیان فرمایا ہے۔
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(13)اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاﭤ(14)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں لگادی ہے اور ہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔۔( فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ عُنُقِهٖ: اس کی گردن میں ۔} یعنی جو کچھ کسی بھی آدمی کے لئے مقدر کیا گیا ہے، اچھا یا برا، نیک بختی یا بدبختی وہ اس کو اس طرح لازم ہے اور ہر وقت اس طرح اس کے ساتھ رہے گی جیسے گلے کا ہار کہ آدمی جہاں جاتا ہے وہ ساتھ رہتا ہے، کبھی جدا نہیں ہوتا۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۶۸، ملخصاً) امام مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ ہر انسان کے گلے میں اس کی سعادت یا شقاوت کا نَوِشْتہ ڈال دیا جاتا ہے۔(جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۲۳۱) پھر جب قیامت کا دن آئے گا تو آدمی کا نامۂ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور اس کے بعد کا مرحلہ اگلی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اس سے فرمایا جائے گا: اپنا نامۂ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاؕ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے فائدے کیلئے ہی ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا تو اپنے نقصان کوہی گمراہ ہوا اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَنِ اهْتَدٰى: جس نے ہدایت پائی۔} ان آیات کا مَنشا یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہدایت و نیک اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا، یہ نہ ہو گا کہ نیکی تو یہ کرے اور جزا کسی اور کو دے دی جائے اور یہ خود محروم رہے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نیکی سے دوسرے کو بھی فائدہ پہنچ جائے جیسے ایصالِ ثواب یا صدقہ جاریہ وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یونہی آدمی کے بہکنے کا گناہ اور وبال بھی اسی پرہوگا ، یہ نہیں ہوگا کہ ایک آدمی دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھائے، ہاں جہاں تک گناہ کی ترغیب دینے کا یا اس کے اَسباب مُہَیّا کرنے کا تعلق ہے تو اس کا گناہ بہرحال اپنی جگہ ملے گا، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے
’’وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ‘‘(عنکبوت:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بیشک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے۔
اور فرماتا ہے
’’وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ‘‘(نحل:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور کچھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔
بہر حال آیات کا آپس میں تَعارُض نہیں ۔
{وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا:اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔} ارشاد فرمایا کہ ہم جس کو بھی سزا دیتے ہیں اس کی ہدایت کے اسباب مہیا ہونے کے بعد اور پھر اس آدمی کے جان بوجھ کر حق سے انکار کرنے کے بعد ہی سزا دیتے ہیں چنانچہ پہلے ہم رسول بھیجتے ہیں جو اُمت کو اس کے فرائض سے آگا ہ فرماتا ہے اور راہِ حق ان پر واضح کرتا ہے اور حجت قائم فرماتاہے پھر جب لوگ رسول کی نافرمانی کرتے ہیں تو ہم انہیں عذاب دیتے ہیں ۔
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں توہم اس کے خوشحال لوگوں کو احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں تو اس بستی پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَاۤ اَرَدْنَا: اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے گزشتہ اَقوام کا اِجمالی حال اور گمراہ قوموں کا مزاج بیان فرمایا ہے کہ کس طرح وہ مرحلہ وار سزا و عذاب کے مستحق ہوتے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ بغیر کسی رہنمائی اور مہلت کے انہیں عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہم قوم کے سرداروں اور خوشحال لوگوں کو اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے احکام بھیجتے ہیں تاکہ لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی فرمانبرداری کی طرف آئیں اور احکاماتِ الٰہیہ پرعمل پیر اہوں لیکن زیادہ تر یہی ہوا کہ سرداروں اور مالداروں نے رسول کی بارگاہ میں سر جھکانے کی بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں وہ عذاب کے مستحق بنے اور عذابِ الٰہی کا فیصلہ ان پر صادق آیا اور وہ تباہ و برباد ہوئے۔
قوم کے سرداروں کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے:
اس آیت میں سرداروں کا بطورِ خاص ذکر کیا گیا کیونکہ عوام اپنے سرداروں کے ہی پیچھے چلتے ہیں ، جو وہ کرتے ہیں عوام وہی کرتی ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ سردارانِ قوم کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ ان کی غلطی عام آدمی کی غلطی سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں اور تمہارا رب اپنے بندوں کے گناہوں کی کافی خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ: اور کتنی ہی قومیں ہم نے ہلاک کردیں ۔} یعنی حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے بعد کتنی ہی تکذیب کرنے والی اُمتیں جیسے قومِ عاد ، قومِ ثمود اور قومِ لوط وغیرہ ہم نے ہلاک کردیں کیونکہ انہوں نے اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ، لہٰذا مکہ والوں کو عبر ت حاصل کرنی چاہیے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۳ / ۱۶۹، ملخصاً) اور ان کے ساتھ ساری کائنات کے لوگوں کو اس سے خبردار رہنا چاہیے کہ اگر انہوں نے سابقہ امتوں کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والا راستہ اختیار کیا اور اسی پر قائم رہے تو اللّٰہ تعالیٰ ان امتوں کی طرح انہیں بھی کہیں عذاب میں مبتلا نہ کر دے۔
{وَ كَفٰى بِرَبِّكَ:اور تمہارا رب کافی ہے۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’اللّٰہ تعالیٰ تمام معلومات کو جاننے والا، تمام دیکھی جانے والی چیزوں کو دیکھنے والا ہے لہٰذا مخلوق کا کوئی حال بھی اللّٰہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے اور یہ ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمام مُمکِنات پر قادر ہے لہٰذا وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی ویسی جزا دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے جس کا وہ مستحق ہے نیز اللّٰہ تعالیٰ عَبث اور ظلم سے بھی پاک ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی ان تین صفات یعنی مکمل علم، کامل قدرت اور ظلم سے براء ت میں فرمانبرداروں کے لئے عظیم بشارت جبکہ کافروں اور گناہگاروں کے لئے عظیم خوف ہے۔( تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۷، ۷ / ۳۱۶)
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْعَاجِلَةَ: جلدی والی (دنیا)۔} یعنی جوصرف دنیا کا طلب گار ہو تو یہ ضروری نہیں کہ طالب ِدنیا کی ہر خواہش پوری کی جائے اور اُسے دیا ہی جائے اور جو وہ مانگے وہی دیا جائے ایسا نہیں ہے بلکہ ہم ان میں سے جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں اور جوچاہتے ہیں دیتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ محروم کردیتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہت چاہتا ہے اور تھوڑا دیتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عیش چاہتا ہے مگر تکلیف ملتی ہے ۔ ان حالتوں میں کافر دنیا و آخرت دونوں کے خسارے میں رہا اور اگر دنیا میں اس کو اس کی پوری مراد دیدی گئی تو آخرت کی بدنصیبی و شقاوت جب بھی ہے جبکہ مومن کا حال اس سے بالکل جدا ہے کہ جو آخرت کا طلب گار ہے اگر وہ دنیا میں فقر سے بھی زندگی بسر کر گیا تو آخرت کی دائمی نعمتیں اس کے لئے موجود ہیں اور اگر دنیا میں بھی فضلِ الٰہی سے اس کو عیش ملا تو دونوں جہان میں کامیاب ،الغرض مومن ہر حال میں کامیاب ہے اور کافر اگر دنیا میں آرام پا بھی لے تو بھی کیا ؟کیونکہ بالآخر تو اسے ذلیل و رسوا ہوکر جہنم میں ہی جانا ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۶۱۹، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۵۲۹، ملتقطاً)
دنیا کی خاطر آخرت برباد نہ کریں :
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی نصیب میں ہے خواہ اسے فکر سے حاصل کریں یا فراغت سے ، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی دنیا بہتر بنانے کے لئے اپنی آخرت کو برباد نہ کرے، یونہی وہ کسی کی دنیا کی خاطر بھی اپنی آخرت تباہ نہ کرے ۔ حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں بدترین درجے والا وہ بندہ ہے جو دوسروں کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کردے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفہما، ۴ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۹۶۶) یاد رہے کہ مومنِ کامل کا دل دنیا میں رہتا ہے مگر دل میں دنیا نہیں رہتی بلکہ دل میں صرف دین رہتا ہے اور اگر دل میں دین کی بجائے دنیا آ جائے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے جیسے کشتی پانی میں جائے تو تیرے گی لیکن پانی کشتی میں آجائے تو کشتی ڈوب جائے گی۔
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ: اور جو آخرت چاہے۔} اس سے پہلی آیت میں طالب ِ دنیا کا بیان کیا گیا جبکہ اس آیت میں طالب ِ آخرت کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو آخرت کا طلبگار ہے اور اس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے یعنی نیک اعمال بجالاتا ہے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہ وہ آدمی ہے جس کا عمل مقبول ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال کا اچھا صِلہ دیا جائے گا۔
عمل کی مقبولیت کے لئے درکار تین چیزیں :
اس آیت میں مومن ہونے کی شرط کا بیان ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ، نیکیوں کے لئے ایمان ایسا ضروری ہے جیسے نماز کے لئے وضو، یا بہترین غذا کے لئے زہر سے خالی ہونا۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال اس کی شاخیں ۔ صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہاں بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں : ایک تو طالبِ آخرت ہونا یعنی نیت نیک۔ دُوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۵۲۹)
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(20)اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا(21)لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
ہم آپ کے رب کی عطا سے اِن (دنیا کے طلبگاروں ) اور اُن ( آخرت کے طلبگاروں )سب کی مدد کرتے ہیں اور تمہارے رب کی عطا پر کوئی روک نہیں ۔ دیکھو! ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر کیسی بڑائی دی اور بیشک آخرت درجات کے اعتبار سے سب سے بڑی ہے اور فضیلت میں سب سے بڑی ہے۔اے سننے والے! اللہ کے ساتھ دوسرامعبود نہ ٹھہرا ،ورنہ تُو مذموم ، بے یارو مددگار ہو کر بیٹھا رہے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{كُلًّا نُّمِدُّ: ہم سب کی مدد کرتے ہیں ۔} اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ جو دنیا چاہتے ہیں اور جو طالبِ آخرت ہیں ہم سب کی مدد کرتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۱۷۰) چنانچہ دیکھ لیں کہ کفار اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن ہیں لیکن وہ چونکہ دنیا کے طالب ہیں اور اس کیلئے کوشش کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بھی عطا فرمایا ہے بلکہ ہمارے زمانے میں تودُنْیوی ترقی میں وہ مسلمانوں سے بہت آگے ہیں اور یونہی جو مسلمان محنت کرتا ہے وہ بھی اپنی محنت کا صلہ پاتا ہے ۔ الغرض دنیا میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سب کو عطا فرما رہا ہے ، سب کو روزی مل رہی ہے، دنیا میں سب اس سے فیض اُٹھاتے ہیں نیک ہوں یا بد البتہ انجام ہر ایک کا اس کے حسبِ حال ہوگا ،اور اگلی آیت میں فرمایا کہ دیکھو! ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر مال ، عزت، شہرت، کمال میں بڑائی دی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ درجات اور فضیلت کے اعتبار سے آخرت ہی سب سے بڑی چیز ہے ۔
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَضٰى رَبُّكَ: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے تقریباً 25کاموں کا حکم دیا ہے ۔ آیت کے ابتدائی حصے کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّنے حکم فرمایا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں جو کام کرنے کااللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرو اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچو۔ اس میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار، ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنا بھی داخل ہیں کیونکہ اس کا بھی اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘(اٰل عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے حبیب!فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم اللّٰہسے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللّٰہ تم سے محبت فرمائے گا۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۱۲۵)
{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۳۲۱،۳۲۳)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے متعلق12 اَحادیث:
اس آیت میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا، اسی مناسبت سے ترغیب کے لئے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق 12 اَحادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں ۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔( بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)
(2)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔( مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما، ص۱۳۸۲، الحدیث: ۱۳(۲۵۵۲))
(3)… حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔( بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، ۴ / ۹۶، الحدیث: ۵۹۷۸)یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔
(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا :یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔( شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، ۶ / ۴۲۶، الحدیث: ۳۳۱۲)اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔( شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۸۴، الحدیث: ۷۸۵۱)
(5)…حضرت ابو اسید بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، حرف النون، کتاب النکاح، قسم الاقوال، الباب الثامن فی برّ الوالدین، ۸ / ۱۹۲، الحدیث: ۴۵۴۴۱، الجزء السادس عشر)
(6)… اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں (جس کا خلاصہ ہے کہ )’’ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوکر عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ، میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک کرتا تھا ، وہ انتقال کرگئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا ’’انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تواپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لئے روزے رکھے۔‘‘ یعنی جب اپنے ثواب ملنے کے لئے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ انہیں ثواب پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہوگا۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴ / ۳۹۵،ملخصاً)
(7)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، ۳ / ۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷)
(8)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۴۱، الحدیث: ۲۲۵۵)
(9)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص جنت میں نہ جائیں گے (1) ماں باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث ۔(3) مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۴۳، الحدیث: ۲۴۴۳)
(10)… حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔( شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین، ۶ / ۱۹۷، الحدیث: ۷۸۹۰)
(11)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ بات کبیرہ گناہوں میں ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائر واکبرہا، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۶(۹۰))صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صحابۂ کرام( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) جنھوں نے عرب کا زمانہ ٔ جاہلیت دیکھا تھا، ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اپنے ماں باپ کو کوئی کیوں کر گالی دے گا یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے بتایا کہ مراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آیا کہ بعض لوگ خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں کرتے۔( بہار شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۲)
(12)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۱، الحدیث:۹(۲۵۵۱))⁞
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق مزید معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 24 سے رسالہ ’’اَلْحُقُوْقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ‘‘(نافرمانی کو ختم کرنےکے لئے حقوق کی تفصیل کا بیان) اور بہار شریعت حصہ 16 سے ’’سلوک کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا:اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔} یعنی اگر تیرے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے اَعضا میں طاقت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں تیرے پاس ناتواں رہ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا اور حسنِ ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۶۲۰، ملتقطاً)
والدین سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم
یہاں آیت کی مناسبت سے دو باتیں یاد رکھیں ،ایک یہ کہ کوئی شخص ماں باپ کو اُن کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں اُن کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں تو اُن کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے ۔دوسری یہ کہ ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے۔ ان آیات اور اَحادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر واضح ہو جائے گا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے ویسی پوری دنیا میں پائے جانے والے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ فی زمانہ غیر مسلم ممالک میں بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں کہ ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا سہارا بننے کے لئے تیار نہیں ہوتی ،اسی وجہ سے وہاں کی حکومتیں ایسی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہیں جہاں بوڑھے اور بیمار والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں ۔
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاﭤ(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اخْفِضْ لَهُمَا: اور ان کیلئے جھکا کر رکھ۔} اس آیت میں مزید حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نرمی اور عاجزی کے ساتھ پیش آؤ اور ہر حال میں ان کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرو کیونکہ اُنہوں نے تیری مجبوری کے وقت تجھے محبت سے پرورش کیا تھا اور جو چیز اُنہیں درکار ہو وہ اُن پر خرچ کرنے میں دریغ نہ کرو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۷۱، ملخصاً) گویا زبانی کے ساتھ ساتھ عملی طور پربھی ان سے اچھا برتاؤ کرو اوریونہی مالی طور پر بھی ان سے اچھا سلوک کرو کہ ان پر خرچ کرنے میں تأمُّل نہ کرو ۔
{وَ قُلْ: اور کہو۔} حقوقِ والدین کے بیان کے آخر میں فرمایا کہ ان کیلئے دعا کرو ۔ گویا یہ فرمایا گیا کہ دنیا میں بہتر سے بہترین سلوک اور خدمت میں کتنا بھی مبالغہ کرلیا جائے لیکن والدین کے احسان کا حق ادا نہیں ہوتا، اس لئے بندے کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں اُن پر فضل و رحمت فرمانے کی دعا کرے اور عرض کرے کہ یارب! میری خدمتیں اُن کے احسان کی جزا نہیں ہوسکتیں تو اُن پر کرم کرکہ اُن کے احسان کا بدلہ ہو۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۲۰-۶۲۱، ملخصاً)
والدین کے لئے روزانہ دعا کرنی چاہئے
والدین کیلئے دعا کو اپنے روزانہ کے معمولات میں داخل کرلینا چاہیے اور ان کی صحت و تندرستی، ایمان و عافیت کی سلامتی کی دعا کرنی چاہیے اور اگر فوت ہوگئے ہوں تو ان کیلئے قبر میں راحت، قیامت کی پریشانیوں سے نجات ، بے حساب بخشش اور جنت میں داخلے کی دعا کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کافر ہوں تو اُن کے لئے ہدایت و ایمان کی دعا کرنی چاہیے کہ یہی اُن کے حق میں رحمت ہے۔ اور دنیاوی اعتبار سے اچھا سلوک ان کے ساتھ بھی لازم ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْؕ-اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے۔ اگر تم لائق ہوئے تو بیشک وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبُّكُمْ اَعْلَمُ: تمہارا رب خوب جانتا ہے۔} آیت کا مفہوم اپنے اِطلاق پر بھی ہے اور والدین کی خدمت کے حوالے سے لیں تو معنی یہ ہوگا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں والدین کی اطاعت کا کتنا ارادہ ہے اور اُن کی خدمت کا کتنا ذوق ہے۔ ہاں اگر یہ ہوا کہ تمہارے دلوں میں توماں باپ کی خدمت کا شوق تھا لیکن اس کا موقعہ نہیں ملا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس پر پکڑ نہ فرمائے گا کیونکہ وہ ارادوں اور نیتوں کوجانتا ہے اور یونہی تم واقعی نیک تھے اور اس کے باوجود تم سے والدین کی خدمت میں کوئی کمی واقع ہوگئی اور تم نے توبہ کرلی تو اللّٰہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمالے گا کیونکہ وہ بخشنے والا ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۶۲۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۷۱-۱۷۲، ملتقطاً)
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(26)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ:اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔} اس آیت میں والدین کے بعد دیگر لوگوں کے حقوق بیان کئے جا رہے ہیں چنانچہ سب سے پہلے رشتے داروں کا فرمایا کہ انہیں ان کا حق دو یعنی اُن کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ، ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو اور ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ رشتہ داروں کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں سے ہوں اور محتاج ہوجائیں تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)
یاد رہے کہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا قرآنِ پاک میں بکثرت حکم دیا گیا ہے چنانچہ کم از کم 8 مقامات پر اللّٰہ تعالیٰ نے رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ،نیز یہاں رشتے داروں کے بعد مسکینوں اور مسافروں کا حق دینے کا فرمایا کہ اُن کا حق دو۔
{وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا: اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)
اِسرا ف کا حکم اور اس کے معانی:
اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علماءِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ،ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں :
(1)…غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) …اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) …ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو ،اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) …طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) …شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) …غیرِ طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)…دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) …ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) …حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) …لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) …بے فائدہ خرچ کرنا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبداللّٰہ کی تعریف ہے جسے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور جوابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مُورثِ علم ہےرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۶-۶۹۷)
تَبذیر اوراِ سراف میں فرق
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تبذیر اور اسراف میں فرق سے متعلق جو کلام ذکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں علما ءِ کرام کے دو قول ہیں
(1)…تبذیر اور اسراف دونوں کے معنی ناحق صَرف کرنا ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ہے۔
(2)…تبذیر اور اسراف میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔
اس صورت میں اسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عَبث میں صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مُطْلَقاً گناہ نہیں توچونکہ اسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں معصیت ہیں اور اسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۷-۶۹۸، ملخصاً)
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ:شیطان کے بھائی۔}ا س سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اُس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۶۲۱، ملخصاً)
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے ان سے منہ پھیرو تو ان سے آسان بات کہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمْ: اور اگر تم ان سے منہ پھیرو۔} اس سے اوپر والی آیات میں رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کا بیان ہوا تھا ، اور اس آیت میں فرمایا کہ اگر کسی وقت تمہارے پاس فوری دینے کو کچھ نہ ہو تو ان سے آسان بات کہو جیسے اُن کی خوش دلی کے لئے اُن سے وعدہ کرلویا اُن کے حق میں دعا کردو ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت بلال، حضرت صہیب ، حضرت سالم ، حضرت خبّاب (اور ان کے علاوہ چند صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم) وقتاً فوقتاً رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی حاجات و ضروریات کے لئے سوال کرتے رہتے تھے، اگرکسی وقت حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آپ حیاء ً اُن سے اِعراض کرتے اور اِس انتظار میں خاموش ہوجاتے کہ اللّٰہ تعالیٰ کچھ بھیجے تو اُنہیں عطا فرمائیں ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔(جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۲۳۲، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۱۷۲، ملتقطاً)
مستحق کو جھڑکنا حرام اور غیر مستحق کو دینا منع ہے
یاد رہے کہ کسی بھی صورت مجبور رشتے دار، مسکین یا سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے۔ مستحق کو جھڑکنا حرام ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ‘‘(سورہ والضحی:۱۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اورکسی بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔
البتہ جو غیر مستحق ہے اسے نہ دینے کا حکم ہے چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے گدائی تین قسم ہے: ایک غنی مالدار جیسے اکثر جوگی اور سادھو بچّے، انھیں سوال کرنا حرام اور انھیں دینا حرام، اور اُن کے دئیے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوسکتی، فرض سر پر باقی رہے گا۔ دوسرے وہ کہ واقع میں فقیر ہیں ، قدرِ نصاب کے مالک نہیں مگر قوی و تندرست کسب پر قادر ہیں اور سوال کسی ایسی ضرورت کے لیے نہیں جوان کے کسب سے باہر ہو، کوئی حرفت یا مزدوری نہیں کی جاتی مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں انھیں سوال کرنا حرام، اور جو کچھ انھیں اس سے ملے وہ ان کے حق میں خبیث۔ انھیں بھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ اگر نہ دیں تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں ۔ مگر ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی جبکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو کہ فقیر ہیں ۔ تیسرے وہ عاجز نا تواں کہ نہ مال رکھتے ہیں نہ کسب پر قدرت، یا جتنے کی حاجت ہے اتنا کمانے پر قادر نہیں ، انھیں بقدرِ حاجت سوال حلال، اور اس سے جو کچھ ملے ان کے لیے طیّب، اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیں اور انھیں دینا باعث ِاجر ِعظیم، یہی ہیں وہ جنھیں جھڑکنا حرام ہے۔( فتاوی رضویہ، کتاب الزکوۃ، ۱۰ / ۲۵۳-۲۵۴)
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(29)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو۔} اس آیت میں خرچ کرنے میں اِعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرمایا گیا ہے اور اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی نہیں سکتا ، ایسا کرنا تو سبب ِملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں آدمی کو پریشان ہوکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں یہ روایت ہے کہ ایک مسلمان عورت کے سامنے ایک یہودیہ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت کا بیان کیا اور اس میں اس حد تک مُبالغہ کیا کہ حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ترجیح دیدی اور کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت اس اِنتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ اپنی ضروریات کے علاوہ جو کچھ بھی اُن کے پاس ہوتا سائل کو دے دینے سے دریغ نہ فرماتے ،یہ بات مسلمان خاتون کو ناگوار گزری اور اُنہوں نے کہا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب صاحبِ فضل و کمال ہیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جودونَوال میں کچھ شُبہ نہیں لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے اور یہ کہہ کر اُنہوں نے چاہا کہ یہود یہ کو سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جودو کرم کی آزمائش کرا دی جائے چنانچہ انہوں نے اپنی چھوٹی بچی کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں اس لئے بھیجا کہ ان سے قمیص مانگ لائے اُس وقت حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ایک ہی قمیص تھی جو زیب ِتن تھی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہی اُتار کر عطا فرمادی اور اپنے دولت سرائے اقدس میں تشریف رکھی، شرم سے باہر تشریف نہ لائے یہاں تک کہ اذان کا وقت آیا ،اذان ہوئی صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے انتظار کیا ،حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف نہ لائے تو سب کو فکر ہوئی ۔ حال معلوم کرنے کے لئے دولت سرائے اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسم مبارک پر قمیص نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۵۱-۱۵۲، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۵۳۱، ملتقطاً)
اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(30)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق کھول دیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے بیشک وہ اپنے بندوں کی خوب خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ:بیشک تمہارا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق کھول دیتا ہے ۔} یعنی رزق کشادہ کرنا یا تنگ کردینا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت میں ہے، وہی جس کا رزق بڑھانا چاہے بڑھا دیتا ہے اور جس کا تنگ کرنا چاہے تنگ کردیتا ہے ، وہ تمام لوگوں کے حالات اور مصلحتوں کو خوب جانتا ہے ، لہٰذا اس نے جسے امیر بنایا وہ بھی حکمت کے مطابق ہے اور جسے غریب رکھا وہ بھی حکمت کے مطابق ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۱۵۲، ملخصاً)
لوگوں کو امیر و غریب بنائے جانے کی حکمتیں :
اللّٰہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مالی اعتبار سے ایک جیسا نہیں بنایا بلکہ بعض کو امیر بنایا اور بعض کو غریب رکھا اور اِس میں اُس کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں ، جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ بعض لوگوں کے ایمان کی بھلائی اسی میں ہوتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں مال عطا کرے اور اگر وہ غریب ہوں تو ان کا ایمان تباہ ہو جائے گا اس لئے اللّٰہ تعالیٰ انہیں کثیر مال عطا کرتا ہے اور بعض لوگوں کے ایمان کی بھلائی اسی میں ہوتی ہے کہ ان کے پاس مال کم ہو اور اگر ان کے پاس زیادہ مال آجائے تو ان کا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے اللّٰہ تعالیٰ انہیں غریب رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض کو امیر اور بعض کو غریب بنانے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے دُنْیوی معاملات کاانتظام اچھے طریقے سے چل رہا ہے اور ہر انسان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل ہورہی ہے کہ اگر تمام انسانوں کو امیر کر دیاجائے تو اس سے دُنْیوی معاملات کا نظام تباہ ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں کوئی کسی کا نوکر ، خادم یا ملازم بننے کو تیار نہ ہو گا ،یونہی کوئی گلیوں بازاروں ، کچرا کنڈی اور باتھ روموں کی صفائی کرنے پر راضی نہ ہوگا، ایسے ہی کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے پر رضا مند نہ ہو گا جسے امیر لوگ پسند نہیں کرتے جیسے جوتوں کی سلائی صفائی کا کام، حجامت بنانے اور کپڑوں کی سلائی کا کام وغیرہ، یوں شہری اور ملکی نظام کا جو حال ہو گا و ہ ہر عقلمند آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اوراس کی قضا پر راضی رہے اور اگر اس کے رزق میں تنگی ہو تو صبر کرے اور رزق میں وسعت ہو تو اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔
وَ لَا تَقْتُلُـوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(31)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرناکبیرہ گناہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔} اس رکوع میں متعدد کبیرہ گناہوں کے بارے میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ ان سے بچو، چنانچہ یہاں بیان کردہ پہلا گناہ اولاد کو قتل کرنا ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں بہت سے اہلِ عرب اپنی چھوٹی بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، امیر تو اس لئے کہ کوئی ہمارا داماد نہ بنے اور ہم ذلت و عار نہ اٹھائیں جبکہ، غریب و مُفلس اپنی غربت کی وجہ سے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷۳، نور العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۵۴، ملخصاً)دونوں گروہوں کا فعل ہی حرام تھا اور قرآن و حدیث میں دونوں کی مذمت بیان کی گئی ہے البتہ یہاں بطورِ خاص غریبوں کو اس حرکت سے منع کیا گیا ہے۔
بیٹیوں سے متعلق اسلام کا زریں کارنامہ:
یہ آیتِ مبارکہ بھی اسلام کے زریں کارناموں میں سے ایک ہے کہ قتل و بربریت کی اس بدترین صورت کا بھی اسلام نے قَلع قَمع کیا اور بچیوں ، عورتوں کو ان کے حقوق دلائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مکروہ باب کو ختم کیا بلکہ بچیوں کی پرورش کرنے پر عظیم بشارتیں عطا فرمائیں چنانچہ
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسکی پرورش میں دو لڑکیاں بالغ ہونے تک رہیں ، وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ پاس پاس ہوں گے اور حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیاں ملا کر فرمایا: کہ اس طرح۔( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۵، الحدیث: ۱۴۹(۲۶۳۱))
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : ایک عورت اپنی دو لڑکیاں لے کر میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے کچھ مانگا، میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا، میں نے وہی دے دی۔ عورت نے کھجور تقسیم کرکے دونوں لڑکیوں کو دے دی اور خود نہیں کھائی جب وہ چلی گئی اور حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تومیں نے یہ واقعہ بیان کیا، حضورِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جسے خدا نے لڑکیاں دی ہوں ، اگر وہ ان کے ساتھ احسان کرے تو وہ جہنم کی آگ سے اس کے لیے روک ہوجائیں گی۔( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الوالد وتقبیلہ ومعانقتہ، ۴ / ۹۹، الحدیث: ۵۹۹۵، مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۴، الحدیث: ۱۴۷(۲۶۲۹))
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(32)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔} اِس آیت میں دوسرے گناہ کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے،’’زنا‘‘ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیاہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں ، جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جارہا ہے۔ یہ گویا دنیا میں عذاب ِ الٰہی کی ایک صورت ہے۔
زنا کی مذمت پر5اَحادیث:
یہاں آیت کی مناسبت سے زنا کی مذمت پر 5 اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۴ / ۲۹۳، الحدیث: ۴۶۹۰)
(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تین شخصوں سے اللّٰہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (1) بوڑھازانی۔(2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ (3)تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۸، الحدیث: ۱۷۲(۱۰۷))
(3)…حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے ارشاد فرمایا ’’زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ ‘‘ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی اللّٰہ عنہ، ۹ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۳۹۱۵)
(4)…حضرت میمونہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللّٰہ تعالیٰ انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث میمونۃ بنت الحارث الہلالیّۃ زوج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ۱۰ / ۲۴۶، الحدیث: ۲۶۸۹۴)
(5)…صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ایک طویل حدیث ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دوشخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اُس میں آگ جل رہی ہے اور اُس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں ۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ تھے ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶)
زنا کی عادت سے بچنے کے آسان نسخے:
اس بری عادت سے محفوظ رہنے یا نجات پانے کے آسان نسخے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمائے ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک عورت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے کسی حسن و جمال والی عورت کو دیکھا اور وہ اسے پسند آگئی، پھر ا س نے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنی نگاہوں کو اس سے پھیر لیاتو اللّٰہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے گا جس کی لذت اسے حاصل ہوگی۔( جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الہمزۃ، ۳ / ۴۶، الحدیث: ۷۲۰۱)
بدکاری سے بچنے اور اس سے نفرت پیدا کرنے کا ایک طریقہ درج ذیل حدیث میں بھی موجود ہے ،اگر اس حدیث پر غور کرتے ہوئے اپنی ذات پر غور کریں تو دل میں اس گناہ سے ضرور نفرت پیدا ہوگی۔ چنانچہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ایک نوجوان بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا اورا س نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔یہ سن کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے اور کہنے لگے، ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اسے میرے قریب کر دو۔ وہ نوجوان حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب پہنچ کر بیٹھ گیا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ماں کے ساتھ کوئی ایسا فعل کرے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! میں ہر گز یہ پسند نہیں کرتا۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی ماں کے ساتھ ایسی بری حرکت کرے۔پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی یہ کام کرے۔ اس نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللّٰہ کی قسم! میں ہر گز یہ پسند نہیں کرتا۔ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بیٹی کے ساتھ ایساقبیح فعل کرے۔ پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بہن کے ساتھ کوئی یہ حرکت کرے۔ اس نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، خدا کی قسم! میں ہر گز اسے پسند نہیں کرتا۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بہن کے ساتھ ایسے گندے کام میں مشغو ل ہو۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھوپھی اور خالہ کا بھی اسی طرح ذکر کیا اور اس نوجوان نے یونہی جواب دیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے سینے پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر دعا فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہٗ وَطَہِّرْ قَلْبَہٗ وَحَصِّنْ فَرْجَہٗ‘‘ اے اللّٰہ !اس کے گناہ بخش دے،اس کے دل کو پاک فرما دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ فرما دے۔ اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی زنا کی طرف مائل نہ ہوا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، ۸ / ۲۸۵، الحدیث: ۲۲۲۷۴)
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا(33)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو اور جو مظلوم ہوکر مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تووہ وارث قتل کا بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے۔ بیشک اس کی مدد ہونی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْتُلُوا: اور قتل نہ کرو۔} اس آیت میں تیسرے کبیرہ گناہ یعنی قتلِ ناحق کا بیان ہے ۔ اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور اس کی محدود صورتوں کے علاوہ کسی بھی طرح اجازت نہیں ۔ یہاں قتل کی مُمانعت و حُرمت کے ساتھ اس کی اجازت کی ایک صورت بیان فرمائی گئی ہے اور وہ ہے کسی کو قصاص میں قتل کرنا یعنی قتل کے بدلے قتل اور یہ بھی عدالت کے فیصلے کے بعد ہے ، یہ نہیں کہ بغیر کورٹ کے فیصلے کے خود ہی قصاص لیتے پھریں ، اس کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ پھر قصاص میں قتل کی اجازت کے ساتھ اس کی بھی حدود و قُیود بیان فرمائی ہیں کہ قصاص میں قتل کرنے میں بھی مقتول کا وارث حد سے نہ بڑھے جیسے زمانہ ٔ جاہلیت میں ایک مقتول کے عِوض میں کئی کئی لوگوں کو قتل کردیا جاتا تو فرمایا گیا کہ صرف قاتل سے قصاص لیا جائے گا ، کسی اور سے نہیں ۔ آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور ولی میں وہی ترتیب ہے جو عَصبات (رشتے داروں کی ایک خاص قسم) میں ہے اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قصاص حق العبد ہے ، اگر ولی چاہے تو معاف کردے ۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ بیشک اس کی مدد ہونی ہے یعنی ولی کی یا مقتول مظلوم کی یا اُس شخص کی جس کو ولی ناحق قتل کرے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی کس قدر حرمت بیان کی گئی ہے اور آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے، یونہی کہیں زبان کے نام پر تو کہیں فرقہ بندی کے نام پر۔ ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں ۔
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّه۪ٗ-وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (34)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اسی طریقے سے جو سب سے اچھا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی پکی عمر کو پہنچ جائے اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ:اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔} اس آیت میں ایک کبیرہ گناہ سے منع کیا گیا ہے اور ایک اہم چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ کبیرہ گناہ تو یتیم کے مال میں خیانت کرنا ہے اور اہم چیز وعدہ پورا کرنا ہے۔ یتیم کا کل یا بعض مال غصب کرلینا ،اس میں خیانت کرنا، اس کے دینے میں بلاوجہ ٹال مٹول کرنا یہ سب حرام ہے چنانچہ فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر صرف اچھے طریقے سے اور وہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کرو اور اس کو بڑھاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کا ولی یتیم کے مال سے تجارت وغیرہ کر سکتا ہے، جس سے اس کا مال بڑھے کہ یہ احسن میں داخل ہے اور ایسے ہی اس کا روپیہ سود کے بغیر بینک وغیرہ میں اس کے نام پر رکھنا جائز ہے کہ یہ حفاظت کی قسم ہے۔ دوسرا حکم یہاں ارشاد فرمایا کہ یتیموں کا مال ان کے حوالے کردو جب وہ یتیم اپنی پُختہ عمر کو پہنچ جائے اور وہ اٹھارہ سال کی عمر ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیک یہی مختار ہے اور امامِ اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے علامات ظاہر نہ ہونے کی حالت میں انتہائی مدت ِبلوغ اسی آیت سے اِستدلال کرکے اٹھارہ سال قرار دی ہے۔(تفسیرات احمدیہ، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۵۰۸)
{وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ: اور عہد پورا کرو۔} آیت میں عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیاہے خواہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ہو یا بندوں کا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد اس کی بندگی اور اطاعت کرنے کا ہے(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۵ / ۱۵۵، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۴، ۳ / ۱۷۴، ملتقطاً)اور بندوں سے عہد میں ہر جائز عہد داخل ہے۔افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ لیڈر قوم سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(35)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ناپ کرو تو پورا ناپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو ۔یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ: اور پوراناپ کرو۔} دیتے وقت ناپ تول پورا کرنا فرض ہے بلکہ کچھ نیچا تول دینا یعنی بڑھا کر دینا مستحب ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے خود اس کی فضیلت بیان فرمائی کہ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے، آخرت میں تو یقینا اچھا ہی انجام ہے ، دنیا میں بھی اس کا انجام اچھا ہوتا ہے کہ لوگوں میں نیک نامی ہوتی ہے جس سے تجارت چمکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں لوگ ان ممالک سے خریدنے میں دلچسپی لیتے ہیں جہاں سے صحیح مال صحیح وزن سے ملتا ہے اور جہاں سیب کی پیٹیوں کے نیچے آلو پیاز نکلیں یا پہلی تہ اعلیٰ درجے کی نکلنے کے بعد نیچے سڑا ہوا مال نکلے وہاں کا جو انجام ہوتا ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں ۔
خرید و فروخت سے متعلق اسلام کی تعلیمات:
خرید و فروخت سے متعلق اسلام کی چندتعلیمات یہ ہیں :
حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ جو شخص ایسی عیب دار چیز فروخت کردے جس کے عیب پر خبردار نہ کیا ہو تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضی میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔( ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب من باع عیباً فلیبیّنہ، ۳ / ۵۹، الحدیث: ۲۲۴۷)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غلہ کے ایک ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں ڈال دیا، آپ کی انگلیوں نے اس میں تری پائی تو ارشاد فرمایا ’’اے غلہ والے !یہ کیا ہے۔ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ تو گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے، جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔(مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشّنا فلیس منّا، ص۶۵، الحدیث: ۱۰۲)
حضرت معاذبن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمام کمائیوں میں زیادہ پاکیزہ اُن تاجروں کی کمائی ہے کہ جب وہ بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں اور جب اُن کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت نہ کریں اور جب وعدہ کریں تو اُس کا خلاف نہ کریں اور جب کسی چیز کو خریدیں تو اُس کی مذمت (برائی) نہ کریں اور جب اپنی چیز بیچیں تو اُس کی تعریف میں مبالغہ نہ کریں اور ان پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں ڈھیل نہ ڈالیں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۴۸۵۴)
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (36)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ۔} یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۶۲۳) ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں جھوٹی گواہی دینے ،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۷، الجزء العاشر)
جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر اَحادیث:
یہاں جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 3 روایات ملاحظہ ہوں:
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)
(2)… حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللّٰہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللّٰہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام) ’’رَدْغَۃُ الْخَبَالْ‘‘ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،۱۰ / ۳۵۳، الحدیث: ۲۱۰۶۹)
اِس آیت اور دیگر روایات کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل الزام تراشی کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتہ چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں ؟ کوئی معلوم نہیں ۔
{كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا:ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔}آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قرآن وحدیث سننے، علم و حکمت اور وعظ و نصیحت کی اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا غیبت سننے، لَغْو اور بیکار باتیں سننے، جِماع کی باتیں سننے ، بہتان، زنا کی تہمت ، گانے، باجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں ، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یاغلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہی ہوتے تھے۔ اس آیت کی مناسبت سے ایک مسئلہ بھی ہے کہ خیال ہی خیال میں کسی عورت سے بدکاری کرنا بھی حرام ہے اور یہ دل کے زنا میں داخل ہوگا۔
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(37)كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا(38)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔ ان تمام کاموں میں سے جو برے کام ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا:اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل۔} یعنی تکبر و خود نمائی سے نہ چل۔( جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۲۳۳)
اسلام ہماری مُعاشرت اور رہن سہن کے طریقے بھی سکھاتا ہے:
یاد رہے کہ فخر و تکبر کی چال اور متکبرین کی سی بیٹھک وغیرہ سب ممنوع ہیں ، ہمارے چلنے پھرنے بیٹھنے اٹھنے میں تواضع اور اِنکساری ہونی چاہیے، گفتگو نرم ہو اور چلنا آہستگی اور وقار کے ساتھ ہو ۔ متکبرانہ اور اَوباشوں اور لفنگوں والی چال اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام ہمیں صرف عقائد و عبادات ہی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ہماری معاشرت اور رہن سہن کے طریقے بھی ہمیں بتاتا ہے۔ مسلمان کی زندگی کے ہر پہلو سے اسلامی پہلو کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ ان مسلمانوں پر افسوس ہے جنہیں کفار کے طریقوں پر عمل کرنے میں تو فخر محسوس ہوتا ہے اور اسلامی طریقے اپنانے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔ معنی یہ ہیں کہ تکبر و خود نمائی سے کچھ فائدہ نہیں البتہ کئی صورتوں میں گناہ لازم ہو جاتا ہے لہٰذا اترانا چھوڑو اور عاجزی و انکساری قبول کرو۔
چلنے کی چند سنتیں اور آداب
یہاں آیت کی مناسبت سے چلنے کی چند سنتیں اور آداب یاد رکھیں :
(1)…اگر موقع ہو تو راستے کے کنارے کنارے چلیں ۔
(2)…نہ اتنا تیز چلیں کہ لوگوں کی نظریں اٹھیں نہ اتنا آہستہ کہ آپ مریض معلوم ہوں بلکہ درمیانی چال چلیں ۔
(3)…لفنگوں کی طرح گریبان کھول کر ،اکڑتے ہوئے ہر گز نہ چلیں کہ یہ شُرفا کی چال نہیں بلکہ احمقوں اور مغروروں کی چال ہے۔
(4)… چلنے میں یہ بھی احتیاط کریں کہ جوتے کی آواز پیدا نہ ہو ۔
(5)… راہ چلنے میں پریشان نظری یعنی ادھر ادھر دیکھنے سے بچیں ۔
(6)…راستے میں دو عورتیں کھڑی ہوں یا جا رہی ہوں تو ان کے بیچ میں سے نہ گزریں ۔
(7)…پھدکتے ہوئے بازاری انداز میں نہ چلیں بلکہ نظریں نیچی کئے ہوئے پُروقار طریقے پر چلیں ۔
ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِؕ-وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا(39)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہ وحی کی اُن حکمت والی باتوں میں سے ہیں جو تمہارے رب نے تمہاری طرف بھیجی ہیں اور اے سننے والے! تو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرا ،ورنہ تجھے ملامت زدہ ، مردود کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{مِنَ الْحِكْمَةِ: حکمت والی باتوں میں سے۔} ارشاد فرمایا کہ اس (رکوع )میں جو احکام دئیے گئے ہیں وہ حکمت والے احکام ہیں ، حکمت کا کام وہ ہے جس کی صحت پر عقل گواہی دے اور اُس سے نفس کی اصلاح ہو، یہاں آیت میں جو احکام دئیے گئے ہیں وہ سب کے سب پُر اَز حکمت ہیں ۔ ان اَحکام کا خلاصہ یہ ہے: (1) اولاد کا قتل ناجائز و حرام ہے۔ (2) زنا کے قریب نہ جاؤ۔ (3) کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو۔ (4) یتیم کے مال میں خیانت سے بچو اور وقت پر اس کا مال اس کے حوالے کردو۔ (5) وعدہ پورا کرو۔ (6) ناپ تول میں کمی زیادتی نہ کرو۔ (7) بغیر تحقیق کے باتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ (8) آنکھ، کان اور دل کی حفاظت کرو کہ ان کے متعلق سوال ہوگا۔ (9) زمین میں اِترا کرنہ چلو۔ تکبر و خود نُمائی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند اور عاجزی و اِنکساری پسند ہے۔ (10) شرک سے بچو۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اِن آیات کا حاصل توحید اور نیکیوں اور طاعتوں کا حکم دینا اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۱۷۵)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ اٹھارہ آیتیں وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ سے مَدْحُوْرًا تک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تختیوں میں تھیں ، ان کی ابتدا توحید کے حکم سے ہوئی اور انتہا شرک کی ممانعت پر۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹، ص۶۲۴) اس سے معلوم ہوا کہ ہر حکمت کی اصل توحید و ایمان ہے اور کوئی قول و عمل اس کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ اِنَاثًاؕ-اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا(40)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تمہارے رب نے تمہارے لئے بیٹے چن لئے اور اپنے لیے فرشتوں سے بیٹیاں بنالیں ۔ بیشک تم بہت بڑی بات بول رہے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَوْلًا عَظِیْمًا: بڑی بات۔} مشرکینِ عرب فرشتوں کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بیٹیاں کہتے تھے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ بد نصیبو! اپنے لئے لڑکیاں پسند نہیں کرتے ان کی پیدائش پر ناراض ہوتے اور برا مناتے ہو بلکہ انہیں قتل کردیتے ہو اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے لڑکیاں ثابت کرتے ہو کیا خدا نے تمہارے خیال کے مطابق اچھی چیز یعنی لڑکے تمہیں دئیے اور بری چیز اپنے لئے رکھی۔ یقینا تم بہت ہی سخت بات کہہ رہے ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہو جو جسم کے خواص سے ہے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے پھر اس میں بھی اپنی بڑائی رکھتے ہو کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو۔( روح البیان،الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۱۶۰-۱۶۱) یہ تمہاری کتنی بے ادبی اور گستاخی ہے۔
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا(41)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں اور یہ سمجھاناان کے دور ہونے کو ہی بڑھا رہا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ: اس قرآن میں ۔} اس رکوع میں عقائد ِ اسلامیہ میں سے چاروں اہم ترین بنیادی عقائد کو بیان کیا گیا ہے ، پہلے قرآن کے بارے میں پھر توحید ِ باری تعالیٰ کے بارے میں ،پھر رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں اور پھر قیامت کے بارے میں ۔ سب سے پہلے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن میں نصیحت کی باتیں بار بار بیان فرمائیں اور کئی طرح سے بیان فرمائیں جیسے کہیں دلائل سے، تو کہیں مثالوں سے، کہیں حکمتوں سے اور کہیں عبرتوں سے اور ان مختلف اندازوں میں بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی طرح نصیحت و ہدایت کی طرف آئیں اور سمجھیں ۔ یہاں قرآنِ پا ک نے علمِ نَفسیات کے ایک اصول کو بیان فرما دیا کہ لوگوں سے ان کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کلام کیا جائے کیونکہ بعض لوگ دلائل سے مانتے ہیں اور بعض ڈر سے اور کچھ مثالوں سے۔ یونہی بعض اوقات ایک آدمی کی حالت ہی مختلف ہوتی رہتی ہے ، کسی وقت اسے ڈرا کر سمجھانا مفید ہوتا ہے اور کسی وقت نرمی سے ۔ تو قرآنِ پاک نے تمام لوگوں کو ان کے تمام اَحوال کی رعایت کرتے ہوئے سمجھایا ہے۔ لیکن آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس اِصلاح و تفہیم نے کفار کی حق سے نفرت میں ہی اضافہ کیا کیونکہ بارش اگرچہ بابرکت ہوتی ہے لیکن اگر کسی جگہ پر گندگی کا ڈھیر ہو تووہاں بدبو میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا(42)سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِیْرًا(43)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ:جیسا کافر کہہ رہے ہیں اس طرح اگر اللہ کے ساتھ اور معبود ہوتے جب تو وہ عرش کے مالک کی طرف کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ وہ ظالموں کی بات سے پاک اوربہت ہی بلندوبالا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔}اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی توحید کی ایک قطعی مگر نہایت عام فہم دلیل بیان فرمائی ہے کہ بالفرض اگر دو خدا ہوتے تو ان میں ایک کادوسرے سے ٹکراؤ لازمی طور پر ممکن ہوتا جیسے ان میں سے ایک ارادہ کرتا کہ زید حرکت کرے اور دوسرا ارادہ کرتا ہے کہ وہ ساکن رہے ۔اب حرکت اور سکون دونوں چیزیں فی نفسہ ممکن تو ہیں ، اسی طرح دو خداؤں کا حرکت اور سکون میں سے ہر ایک چیز کا ارادہ کرنا بھی ممکن ہے لیکن دونوں کے ارادے کے بعد ہوتا کیا؟ اگر ان کے ارادوں کے مطابق حرکت اور سکون دونوں چیزیں واقع ہوں تو دو مُتَضاد چیزوں کا جمع ہونا لازم آئے گا اور اگر دونوں واقع نہ ہوں تو ان خداؤں کا عاجز ہونا لازم آئے گا اور اگر ایک واقع ہو دوسری نہ ہو تو دونوں میں سے ایک خدا کا عاجز ہونا لازم آئے گا اور جو عاجز ہے وہ خدا نہیں کیونکہ عاجز ہونا محتاجی اور نقص ہے اور وا جبُ الوجود ہونے کے مُنافی ہے تو ثابت ہوا کہ دو خدا ہونا ہی محال ہے ۔
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا(44)
ترجمہ: کنزالعرفان
ساتوں آسمان اور زمین اور جو مخلوق ان میں ہے سب اسی کی پاکی بیان کرتے ہیں اور کوئی بھی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ۔ بیشک وہ حلم والا، بخشنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تُسَبِّحُ لَهُ: اس کی پاکی بیان کرتی ہے۔} اِس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے اور یہ تسبیح دونوں طرح ہے، زبانِ حال سے بھی اور وہ اس طرح کہ تمام مخلوقات کے وجود اپنے صانِع یعنی بنانے والے کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ تسبیح زبانِ قال سے بھی ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۱۶۲، ملخصاً) اور یہ بھی ثابت وصحیح ہے اور اَحادیثِ کثیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں اور سَلف صالحین سے یہی منقول ہے۔
ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے:
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ہر زندہ چیز اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۴، ۳ / ۱۷۶)اور ہر چیز کی زندگی اس کے حسبِ حیثیت ہے۔ مفسرین نے کہا ہے کہ دروازہ کھولنے کی آواز اور چھت کا چٹخنا یہ بھی تسبیح کرنا ہے اور ان سب کی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ہے ۔ یہاں جَمادات کی تسبیح سے متعلق چند اَحادیث ملاحظہ ہوں ، چنانچہ
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انگشت ِ مبارک سے پانی کے چشمے جاری ہوتے میں نے دیکھے اور ہم کھاتے وقت کھانے کی تسبیح سناکرتے تھے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث:۳۵۷۹)
حضرت جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میرے اعلانِ نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔(مسلم،کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتسلیم الحجر علیہ قبل النبوّۃ، ص۱۲۴۹، الحدیث: ۲(۲۲۷۷))
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لکڑی کے ایک ستون سے تکیہ فرما کر خطبہ فرمایا کرتے تھے ،جب منبر بنایا گیا اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ ستون رونے لگا،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر دستِ کرم پھیر ا( شفقت فرمائی اور تسکین دی)۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۶، الحدیث: ۳۵۸۳) ان تمام اَحادیث سے جمادات کا کلام اور تسبیح کرنا ثابت ہوا۔
{وَ لٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ:لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ۔} ارشادفرمایا کہ یہ تو حق ہے کہ تمام اَشیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیونکہ یہ بات خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بتارہا ہے البتہ تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ۔ زبانِ حال کی تسبیح تو وہ لوگ نہیں سمجھتے جو مخلوق میں غور کرکے خالق کی معرفت حاصل نہیں کرتے اور زبانِ قال کی تسبیح عمومی طور پر کوئی نہیں سمجھتا کیونکہ ہر شے کس زبان میں تسبیح کرتی ہے ہم نہیں سمجھتے اور ہر چیز کی تسبیح کا جان لینا ہمارے لئے مشکل ہے۔ البتہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کسی کو ان چیزوں کی تسبیح سمجھنے کی صلاحیت دیدے تو وہ جدا بات ہے۔
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا(45)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب! جب تم نے قرآن پڑھا تو ہم نے تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک چھپا ہوا پردہ کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ:اور اے حبیب! جب تم نے قرآن پڑھا ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب سورۂ تَبَّتْ یَدَا نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی پتھر لے کر آئی ، حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بمع حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے تشریف رکھتے تھے، وہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھ سکی ا ور حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہنے لگی، تمہارے آقا کہاں ہیں ؟ مجھے معلوم ہوا ہے اُنہوں نے میری ہَجْوْ ( مذمت) کی ہے۔ حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ،وہ شعر گوئی نہیں کرتے ہیں ۔ تو وہ یہ کہتی ہوئی واپس ہوئی کہ میں ان کا سر کچلنے کے لئے یہ پتھر لائی تھی۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑے تعجب سے عرض کیا کہ (آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہاں موجود ہونے کے باوجود) اس نے آپ کو دیکھا نہیں ؟ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ حائل رہا ۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۱۷۶)
وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًاؕ-وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا(46)نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا(47)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف ڈال دئیے ہیں تا کہ اس قران کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ڈال دیا اور جب تم قرآن میں اپنے اکیلے رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ کافرنفرت کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں ۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جب وہ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو وہ اسے کیوں سنتے ہیں اور جب وہ آپس میں مشورہ کرتے ہیں جب ظالم کہتے ہیں : تم تو صرف ایک ایسے مرد کی پیروی کررہے ہو جس پر جادو ہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً: اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف ڈال دئیے ہیں ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کفار کی ضد و اَنانِیَّت کے باعث اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں جس سے وہ قرآن کریم کو درست طور پر سمجھ نہیں سکتے اور ان کے کانوں میں بھی بوجھ ڈال دئیے جس کے باعث وہ قرآن شریف سنتے نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی صحیح سمجھ ایمان اور تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے، اس کے بغیر بسا اوقات ذہن الٹا کام کرتا ہے جیسا آجکل دیکھا جا رہا ہے۔ ہر کتا ب روشنی میں پڑھی جاتی ہے، قرآن کو پڑھنے، سمجھنے کیلئے روشنی تقویٰ ہے۔ لہٰذا فہمِ قرآن کیلئے اس روشنی کو حاصل کرنا چاہیے۔
{نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖ:ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ اسے کیوں سنتے ہیں ۔} یعنی کفار سنتے بھی ہیں تو تمسخر اور تکذیب کے لئے، یہ ان کا ایک جرم ہے اور ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ ان میں سے کوئی آپ کو مجنون کہتا ہے اور کوئی جادوگر اور کوئی کاہن اور کوئی شاعر۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۱۷۶-۱۷۷، ملخصاً)
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا(48)
ترجمہ: کنزالعرفان
دیکھو! انہوں نے تمہارے لئے کیسی مثالیں بیان کی ہیں تو یہ گمراہ ہوئے پس یہ راستہ پانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُنْظُرْ: دیکھو!} ارشاد فرمایا کہ یہ کفار حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے کیسی باتیں کہتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ناقص صفات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں جیسے جادوگر، کاہن وغیرہ کے ساتھ۔( بیضاوی، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۴۸،۳ / ۴۵۰، ملخصاً)
حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کسی صفت کو کسی گھٹیا چیز کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یا آپ کی کسی صفت کو کسی گھٹیا چیز کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے، جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ مبارک کومَعَاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کوئی جانوروں کے علم سے تشبیہ دے تو یقینا ایسا شخص تَوہین کا مُرتکب ہے۔
وَ قَالُـوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(49)قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا(50)اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَكْبُرُ فِیْ صُدُوْرِكُمْۚ-فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَاؕ-قُلِ الَّذِیْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۚ-فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْكَ رُءُوْسَهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَؕ-قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَرِیْبًا(51)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے کہا: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے توکیا واقعی ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ تم فرماؤ کہ پتھر بن جاؤیا لوہا ۔یا اور کوئی مخلوق جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہے تو اب کہیں گے :ہمیں دوبارہ کون پیدا کرے گا؟ تم فرماؤ: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تو اب آپ کی طرف تعجب سے اپنے سر ہلاکر کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ تم فرماؤ: ہوسکتا ہے کہ یہ نزدیک ہی ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} یہاں سے آخر رکوع تک قیامت کے بارے میں کفار کے عمومی اعتراض اور اس کے جواب کا بیان ہے چنانچہ کفار نے کہا کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے توکیا واقعی ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ یہ بات اُنہوں نے بہت تعجب سے کہی اور مرنے اور خاک میں مل جانے کے بعد زندہ کئے جانے کو اُنہوں نے بہت بعید سمجھا ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا اس سے بڑی کوئی مخلوق مثلاً آسمان بن جاؤ تب بھی اللّٰہ تعالیٰ تمہیں زندگی دے سکتا ہے ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ زندگی سے دور ہیں اور ان میں کبھی تمہاری طرح روح نہ پھونکی گئی تو اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو ان سب کو بھی زندگی دے سکتا ہے ،چہ جائیکہ ہڈیاں اورجسم کے ذرّے، انہیں زندہ کرنا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے، یہ ہڈیاں اور اَجسام تو پہلے بھی زندہ رہ چکے ہیں ۔ لہٰذا اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی تمہیں زندہ کرے گا اور پہلی حالت کی طرف واپس فرمائے گا۔ اس کے بعد مزید فرمایا کہ یہ کفار اب کہیں گے:ہمیں دوبارہ کون پیدا کرے گا؟ تم فرماؤ کہ تمہیں وہی دوبارہ پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔ یہ سن کر کفار پھر بھی ماننے کی طرف نہیں آئیں گے بلکہ مذاق کے طور پر تعجب کے ساتھ اپنے سر ہلاکر کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ تو سرکارِدو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ تم فرمادو : ہوسکتا ہے کہ یہ نزدیک ہی ہو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۱، ۳ / ۱۷۷، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۴۹-۵۱، ص۶۲۵-۶۲۶، ملتقطاً)
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا(52)
ترجمہ: کنزالعرفان
جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے جواب دو گے اور تم سمجھو گے کہ تم بہت تھوڑا عرصہ رہے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ: جس دن وہ تمہیں بلائے گا۔} یعنی جس دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں قبروں سے میدانِ قیامت کی طرف بلائے گا تو تم سب اپنے سروں سے خاک جھاڑتے چلے آؤ گے اور اس وقت سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ کہتے اور یہ اقرا رکرتے ہوئے آؤ گے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی پیدا کرنے والا اور مرنے کے بعد اُٹھانے والا ہے اور قیامت کے کٹھن اَوقات کی وجہ سے یا اس کے مقابلے میں تم سمجھو گے کہ دنیا میں یا قبروں میں تمہارا قیام بڑا مختصر تھا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۱۷۷، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۶۲۶، ملتقطاً)
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(53)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو ۔ بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے ۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ: اور آپ فرمادیں ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکین مسلمانوں کے ساتھ بدکلامیاں کرتے اور انہیں ایذائیں دیتے تھے، انہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کی شکایت کی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ کفار کی جاہلانہ باتوں کا ویسا ہی جواب نہ دیں بلکہ صبر کریں اور انہیں صرف یہ دعا دیدیا کریں یَہْدِیْکُمُ اللّٰہ (اللّٰہ تمہیں ہدایت دے۔) یہ حکم یعنی بہرحال صرف صبر ہی کرنا ، جہاد کے حکم سے پہلے تھا ، بعد میں منسوخ ہو گیا اور ارشاد فرمایا گیا ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ(اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو)‘‘( توبہ :۷۳)اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی ایک کافر نے اُن کی شان میں بیہودہ کلمہ زبان سے نکالا تھا ، اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے اور معاف فرمانے کا حکم دیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۱۷۷، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۵۳، ملتقطاً)
بہرحال آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ ایمان والوں سے فرمادیں کہ وہ کافروں سے وہ بات کیا کریں جو نرم ہو یا پاکیزہ ہو، ادب اور تہذیب کی ہو، ارشاد و ہدایت کی ہو حتّٰی کہ کفار اگر بے ہودگی کریں تو اُن کا جواب اُنہیں کے انداز میں نہ دیا جائے۔ فی زمانہ جہاد کا حکم موجود ہے لیکن وہ حکومت کے انتظام سے ہوتا ہے، یہ نہیں کہ اب کوئی کافر کسی مسلمان سے بدکلامی کرے تو یہ اس سے جہاد و قتال شروع کردے بلکہ اب اگر ایسا ہو تو بھی قانونی کاروائی ہی کی جاسکتی ہے۔ ہاں کافر قوم مسلمانوں سے عمومی رویہ یہ بنالے اور اب سلطنت جہاد کا فیصلہ کرے تو وہ جدا حکم ہے۔ اور انفرادی طور پر تو کفار کی بداَخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا اب بھی سنت ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ دلیل توقوی دو مگر بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالو ۔ فی زمانہ اس حکم پر عمل کرنے کی سخت حاجت ہے کیونکہ ہمارے ہاں دلیل سے پہلے گولی اور گالی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ آیت کے آخری حصے میں بتادیا کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی شیطان کے ہتھیار ہیں اور ان کے ذریعے وہ تمہیں غصہ دلواتا اور بھڑکاتا ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دو ، جس سے لڑائی فساد کی نوبت آجائے۔ یہ شیطان کی انسان سے دشمنی ہے اور شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْؕ-اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْؕ-وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا(54)وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(55)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اور ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ اور تمہارا رب خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور بیشک ہم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ:تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔}ارشاد فرمایا کہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، وہ چاہے تو اے کافرو! تمہیں توبہ اور ایمان کی توفیق عطا فرماکر تم پر رحم فرمائے اور چاہے تو حالت ِ کفر میں باقی رکھ کر عذاب دے۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا کہ ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ان کے اعمال کے ذمہ دار ہوں بلکہ آپ صرف مُبَلِّغ بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ۳ / ۱۷۸، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۶۲۶، ملتقطاً)
{وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ: اور تمہارا رب خوب جانتا ہے۔} یعنی تمہارا رب آسمان و زمین میں موجود ساری مخلوق کے سب اَحوال کوجانتا ہے اور اس بات کو بھی کہ کون کس لائق ہے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کو دوسروں پر مخصوص فضائل کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خلیل بنانا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلیم اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حبیب بنایا بلکہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار اُمور میں فضیلتِ تامہ عطا فرمائی ۔
{وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا:ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔} زبور کتابِ الٰہی ہے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی ۔ اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں ، سب میں دعا اور اللّٰہ تعالیٰ کی ثنا اور اس کی تَحمید وتَمجید ہے ، نہ اس میں حلال و حرام کا بیان، نہ فرائض نہ حدود و اَحکام۔ اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام لے کر ذکر فرمایا گیا ۔ مفسرین نے اس کی چند وجوہات بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں اللّٰہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی پھر ارشاد کیا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا کی باوجود یہ کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ ملک بھی عطا کیا تھا لیکن اس کا ذکر نہ فرمایا، اس میں تنبیہ ہے کہ آیت میں جس فضیلت کا ذکر ہے وہ فضیلت ِعلم ہے نہ کہ فضیلت ِملک و مال۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے زبور میں فرمایا ہے کہ محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں اور اُن کی اُمت خیر الامم، اسی سبب سے آیت میں حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور زبور کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہود کا گمان تھا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد کوئی نبی نہیں اور توریت کے بعد کوئی کتاب نہیں ،اس آیت میں حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا فرمانے کا ذکر کرکے یہود کی تکذیب کردی گئی اور اُن کے دعوے کا بُطلان ظاہر فرما دیا گیا۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۱۷۸) الغرض یہ آیت سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلتِ کُبریٰ پر دلالت کرتی ہے ۔
فارسی کا ایک قطعہ ہے:
ای و صفِ تو در کتابِ موسیٰ وے نعتِ تو در زبورِ داؤد
مقصود توئی زِ آفرینش باقی بہ طفیلِ تُست موجود
اے وہ ذات جس کی شان موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتاب میں موجود ہے اور جس کی نعت حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبور میں بھی ہے۔ مخلوق کی پیدائش میں اصلِ مقصودآپ کی ذات ہے اور باقی ساری مخلوق آپ کے طفیل ہے۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۵، ۵ / ۱۷۴)
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا(56)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: پکارو انہیں جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو تووہ تم سے تکلیف ہٹانے کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ اسے پھیر دینے کا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب کفار شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتے اور مردار کھا گئے اور بالآخر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں فریاد لے کر آئے اور آپ سے دعا کی اِلتجا کی تواس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جب بتوں کو خدا مانتے ہو تو اس وقت انہیں پکارو اور وہ تمہاری مدد کریں اور جب تم جانتے ہو کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے تو کیوں انہیں معبود بناتے ہو۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۱۷۸)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ بت معبود نہیں ، نہ تو اس پر قادر ہیں کہ تکلیف مٹا دیں اور نہ اس پر کہ تم سے مصیبت منتقل کرکے دوسرے پر ڈال دیں ۔
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِیْلَةَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَهٗؕ-اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا(57)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ مقبول بندے جن کی یہ کافر عبادت کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے ۔وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ: وہ جنہیں یہ پوجتے ہیں ۔} کفارکے بہت سے گروہ تھے۔ کوئی بتوں اور دیوی ، دیوتاؤں کو پوجتا تھا اور کوئی فرشتوں کو، یونہی عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہودیوں کا ایک گروہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ، یونہی بہت سے لوگ ایسے جنوں کو پوجتے تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ تھی تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن لوگوں کوشرم دلائی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے تاکہ جو سب سے زیادہ مقرب ہو اس کو وسیلہ بنائیں تو جب یہ مقربین بھی بارگاہِ الٰہی تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں اور رحمت ِالٰہی کی امید رکھتے ہیں اور عذاب ِ الٰہی سے ڈرتے ہیں تو کافر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۷، ۳ / ۱۷۸، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا جائز ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ آیت میں وسیلہ بنانے کا جوازبیان کیا گیا ہے اور شرک کا رد کیا گیا ہے۔ وسیلہ ماننے اور خدا ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، جو وسیلے کو شرک کہے وہ اس آیت کے مطابق مَعَاذَاللّٰہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شرک کا مُرتکب قرار دیتا ہے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کائنات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے مقرب وہی ہیں تو بقیہ سب انہیں کو وسیلہ بناتے ہیں اور اسی لئے میدانِ قیامت میں سب لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ہی جمع ہوکر حاضری دیں گے اور بارگاہِ الٰہی میں سفارش کروائیں گے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے
وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا(58)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کوئی بستی نہیں مگر یہ کہ ہم اسے روزِ قیامت سے پہلے ختم کردیں گے یا اسے سخت عذاب دیں گے۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ: قیامت کے دن سے پہلے۔} ارشاد فرمایا کہ کوئی بستی نہیں مگر یہ کہ ہم اسے فرمانبردار ہونے کی صورت میں اچھی موت کے ساتھ روزِ قیامت سے پہلے ختم کردیں گے اور اگر گناہگار ہوتو اسے دُنْیوی عذاب کے ساتھ ہلاک کردیں گے اور اگر کسی کافر بستی کو دنیوی عذاب نہ آیا تو آخرت میں شدید عذاب دیں گے اور یہ بات لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا جب کسی بستی میں زنا اور سود کی کثرت ہوتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی ہلاکت کا حکم دیتا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۱۷۹)
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَاؕ-وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(59)
اور ہمیں نشانیاں بھیجنے سے صرف اس چیز نے باز رکھا کہ ان نشانیوں کو پہلے لوگوں نے جھٹلایا اور ہم نے ثمود کواونٹنی واضح نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں ڈرانے کے لئے ہی بھیجتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ:کہ ان نشانیوں کو پہلے لوگوں نے جھٹلایا ۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اہلِ مکہ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ صفا پہاڑ کو سونا کردیں ا ور پہاڑوں کو سرزمین ِمکہ سے ہٹا دیں ۔اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی کی کہ اگر آپ فرمائیں تو آپ کی اُمت کو مہلت دی جائے اور اگر آپ فرمائیں تو جو انہوں نے طلب کیا ہے وہ پورا کیا جائے لیکن اگر پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو اُن کو ہلاک کرکے نیست و نابُود کردیا جائے گا، اس لئے کہ ہماری سنت یہی ہے کہ جب کوئی قوم نشانی طلب کرکے ایمان نہیں لاتی تو ہم اُسے ہلاک کردیتے ہیں اور مہلت نہیں دیتے ۔ایسا ہی ہم نے پہلوں کے ساتھ کیا ہے۔اسی بیان میں یہ آیت نازل ہوئی۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۹، ۷ / ۳۵۹، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۵۹،ص۶۲۸، ملتقطاً) اور فرمایا گیا کہ ہمیں کفار کی مطلوبہ نشانیاں بھیجنے سے صرف اس چیز نے باز رکھا کہ ان نشانیوں کو پہلے لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ہم نے قومِ ثمود کے مطالبے پرحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کونشانی کے طور پر اونٹنی دی تو قوم نے ماننے کی بجائے اس اونٹنی پر ہی ظلم کیا کہ اسے قتل کردیا اور یوں گویا اپنی جانوں پر بھی ظلم کیا اور نتیجے میں وہ ہلاک ہوگئے اور یاد رکھو کہ ہم نشانیاں جلد آنے والے عذاب سے ڈرانے کے لئے ہی بھیجتے ہیں ۔
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ-وَ نُخَوِّفُهُمْۙ-فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا(60)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب ہم نے تم سے فرمایا: بیشک سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے آپ کو جو مشاہدہ کرایا اسے لوگوں کیلئے آزمائش بنادیااور اس درخت کو بھی جس پرقرآن میں لعنت کی گئی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان کی بڑی سرکشی میں اضافہ کردیتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ: اور جب ہم نے تم سے فرمایا۔} یعنی فرمایا گیا کہ سب لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے قبضۂ قدرت میں ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا نگہبان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۷۹-۱۸۰)
اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اِحاطہ کی نسبت سے کیا مراد ہے؟
یاد رکھیں کہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی یہ مذکورہو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ گھیرے ہوئے ہے یا احاطہ کئے ہوئے ہے تو اس سے مرادیہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا علم اور قدرت سب کو گھیر ے ہوئے ہے، نہ کہ خود رب تعالیٰ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات جسمانی اعتبار سے گھیرنے او ر گھرنے سے پاک ہے کہ وہ جسم سے پاک ہے۔
{اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ:مگر لوگوں کیلئے آزمائش۔} ارشاد فرمایا کہ شب ِ معراج بیداری کی حالت میں جو آیات ِ الٰہیہ کا آپ کومعائنہ کروایا گیا تو وہ لوگوں کیلئے ایک آزمائش تھا چنانچہ جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو واقعہ معراج کی خبر دی توکفار نے اس کی تکذیب کی اور بعض مسلمان بھی مُرتد ہوگئے اور کفار مذاق کے طور پر بیتُ المقدس کی عمارت کا نقشہ دریافت کرنے لگے ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سارا نقشہ بتادیا تو اس پر کفار آپ کو جادوگر کہنے لگے۔ اس آیت میں معراجِ جسمانی کا ثبوت ہے کیونکہ مشرکین نے اس کا انکار کیا اور فتنہ اٹھایا، اگر یہ صرف خواب کی معراج ہوتی تو نہ اس کا انکار ہوتا اور نہ فتنہ۔ یہاں دکھانے سے معراج کی رات کی وہ سیر ہے جس کی خبر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکہ والوں کو دی ، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سن کراسے ماننے کی وجہ سے صدیق بن گئے اور کفارِ مکہ سن کر ا س کا انکار کرنے کی وجہ سے زندیق بن گئے ۔ غرضیکہ معراج کو مان کر کوئی صدیق بنا اور کوئی انکار کرکے زندیق ہوا۔
{وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ: اور لعنتی درخت۔} یعنی زقوم کا درخت جو جہنم میں پیدا ہوتا ہے، اس کو سبب ِآزمائش بنادیا یہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو! محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلا دے گی ،پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے۔ آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۸۰، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۱۷۸، ملتقطاً)
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا(61)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ۔اس نے کہا:کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ قُلْنَا:اور جب ہم نے کہا۔} یہاں سے ایک مرتبہ پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی قوم اور ان کے اہلِ زمانہ کی طرف سے پہنچنے والی مشقتوں کا ذکر فرمایا جبکہ اس آیت سے یہ بیان فرمایا کہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ان کے اہلِ زمانہ کی ایسی ہی رَوِش رہی ہے، ان میں سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھ لیں کہ جو اللّٰہ تعالیٰ کے سب سے پہلے مقرب بندے ہیں ،انہیں ابلیس کی طرف سے کیسی شدید مشقت کا سامنا ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوم نے ان سے صرف تکبر اور حسد کی وجہ سے جھگڑا کیا اور ان کے خلاف طرح طرح سے باطل شبہات پیش کئے، تکبر کی بنا پر یہ لوگ ایمان سے محروم رہے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبوت اور بلند درجہملنے پر ان سے حسد کیا۔ اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا ، مخلوق میں تکبر اور حسد بڑا پرانا مرض ہے۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۱، ۷ / ۳۶۵) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حسد اور اپنی ذات کے تکبر کی وجہ سے یہ جواب دیا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے حالانکہ میری پیدائش آگ سے ہے اور میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہوں ۔
قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ٘-لَىٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا(62)
ترجمہ: کنزالعرفان
کہنے لگا: بھلا دیکھ تو جسے تو نے میرے اوپر معزز بنایا ،اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو ضرورمیں تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کو پیس ڈالوں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:کہا۔} شیطان نے مزید کہا کہ جسے تو نے میرے اوپر معزز بنایا اور اس کو مجھ پر فضیلت دی اور اس کو سجدہ کرایا تو میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو میں اس کی اولا دکو پیس ڈالوں گایعنی گمراہ کردوں گا سوائے ان چند لوگوں کے جنہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بچائے اور محفوظ رکھے، اور وہ اس کے مخلص بندے ہیں ۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۲، ۵ / ۱۸۰، ملخصاً)شیطان کے اس کلام پر اللّٰہ تعالیٰ نے اس سے جوفرمایا وہ اگلی آیات میں ہے ۔
قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا(63)وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا:چلا جا تو ان میں جو تیری پیروی کرے گا تو بیشک جہنم تم سب کی بھرپور سزا ہے۔ اور تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے اور مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے وعدے کر تا رہ اور شیطان ان سے دھوکے ہی کے وعدے کرتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَفْزِزْ:اور پھسلا دے۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کے جواب میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تو یہاں میری بارگاہ سے نکل جا اور تجھے قیامت تک کی مہلت دی گئی ہے اور یاد رکھ کہ جو تیری پیروی کرے گا تو اسے جہنم کی بھرپور سزا ملے گی اور اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مزید فرمایا کہ تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے یعنی اپنے تمام مکروفریب کے جال اور اپنے تمام لشکر ان کے خلاف استعمال کرلے اور تجھے مہلت دی جاتی ہے کہ گناہ کروا کر ان کے مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہ۔ شیطان کے پھسلانے کے بارے میں علماء نے فرمایا کہ اس کا پھسلانا وسوسے ڈالنا اور معصیت کی طرف بلانا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے اور لہو و لعب کی آوازیں ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے کہ جو آواز اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴،۵ / ۱۸۰-۱۸۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)مال و اولاد میں شریک ہونے سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں زجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں ہو یا اولاد میں ہو، ابلیس اس میں شریک ہے، مثلاً سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور یونہی فسق و ممنوعات میں خرچ کرنا ، نیز زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی اُمور ہیں جن میں شیطان کی شرکت ہے جبکہ زنا اور ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں شیطان کی شرکت ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۳۰، ملخصاً)
قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا(63)وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(64)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا:چلا جا تو ان میں جو تیری پیروی کرے گا تو بیشک جہنم تم سب کی بھرپور سزا ہے۔ اور تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے اور مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے وعدے کر تا رہ اور شیطان ان سے دھوکے ہی کے وعدے کرتا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اسْتَفْزِزْ:اور پھسلا دے۔} اس سے پہلی آیت میں شیطان کے جواب میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تو یہاں میری بارگاہ سے نکل جا اور تجھے قیامت تک کی مہلت دی گئی ہے اور یاد رکھ کہ جو تیری پیروی کرے گا تو اسے جہنم کی بھرپور سزا ملے گی اور اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مزید فرمایا کہ تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے یعنی اپنے تمام مکروفریب کے جال اور اپنے تمام لشکر ان کے خلاف استعمال کرلے اور تجھے مہلت دی جاتی ہے کہ گناہ کروا کر ان کے مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہ۔ شیطان کے پھسلانے کے بارے میں علماء نے فرمایا کہ اس کا پھسلانا وسوسے ڈالنا اور معصیت کی طرف بلانا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے اور لہو و لعب کی آوازیں ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے کہ جو آواز اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴،۵ / ۱۸۰-۱۸۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)مال و اولاد میں شریک ہونے سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں زجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں ہو یا اولاد میں ہو، ابلیس اس میں شریک ہے، مثلاً سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور یونہی فسق و ممنوعات میں خرچ کرنا ، نیز زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی اُمور ہیں جن میں شیطان کی شرکت ہے جبکہ زنا اور ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں شیطان کی شرکت ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۳۰، ملخصاً)
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(66)وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا(67)
ترجمہ: کنزالعرفان
تمہارا رب وہ ہے کہ تمہارے لیے دریا میں کشتیاں جاری کرتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو، بیشک وہ تم پر مہربان ہے۔ اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں پھر جب تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے توتم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ناشکرا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ:اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے مشرکو! تمہارا حال یہ ہے کہ جب تمہیں سمندری سفر میں مصیبت آتی ہے اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں اور ان جھوٹے معبودوں میں سے کسی کا نام زبان پر نہیں لاتے اور اس وقت اللّٰہ تعالیٰ سے ہی حاجت روائی چاہتے ہو اور اسی کو پکارنے لگتے ہو لیکن پھر جب وہ تمہیں طوفان سے نجات دیدیتا ہے اور تمہیں خشکی کی طرف صحیح سلامت لے آتا ہے توتم پھراس کی توحید سے منہ پھیر لیتے ہو اور دوبارہ انہیں ناکارہ بتوں کی پرستش شروع کردیتے ہو۔ اس ساری صورتِ حال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۷، ۳ / ۱۸۲، ملخصاً)
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا(68)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ اللہ تمہارے ساتھ خشکی کا کنارہ زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر بھیجے پھر تم اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَاَمِنْتُمْ:کیا تم بے خوف ہوگئے۔} یعنی اے لوگو! کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ تمہارے دریا سے نجات پانے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ تمہیں خشکی کے کنارے سمیت زمین میں دھنسا دے جیسا کہ قارون کو زمین میں دھنسا دیا تھا۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ خشکی وتری سب اللّٰہ تعالیٰ کے تحت ِقدرت ہیں جیسا وہ سمندر میں غرق کرنے اور بچانے دونوں پر قادر ہے ایسا ہی خشکی میں بھی زمین کے اندر دھنسا دینے اور محفوظ رکھنے دونوں پر قادر ہے۔ خشکی ہو یا تری ہر کہیں بندہ اس کی رحمت کا محتاج ہے۔ وہ تمہیں زمین میں دھنسانے پر بھی قادر ہے اور یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر پتھروں کی بارش برسا دے جیسے قومِ لوط پر بھیجی تھی اورپھر تم اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پاؤ جو تمہیں بچاسکے۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۱۸۳، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۸۲، ملتقطاً) الغرض ہر حال میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا چاہیے۔
اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْۙ-ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا(69)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاتم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ وہ تمہیں دوبارہ دریا میں لے جائے پھر تم پر جہاز توڑنے والی آندھی بھیج دے تو وہ تمہیں تمہارے کفر کے سبب غرق کردے پھر تم اپنے لئے کوئی ایسا نہ پاؤ جواس پر ہم سے کوئی مطالبہ کر سکے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ اَمِنْتُمْ:یا تم بے خوف ہوگئے۔} مزید فرمایا کہ سمندر کی مشکلات سے نجات پانے کے بعد تم دوبارہ شرک میں پڑجاتے ہو تو کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں دوبارہ دریا میں لے جائے پھر تم پر جہاز توڑنے والی آندھی بھیج دے تو وہ تمہیں تمہارے کفر کے سبب غرق کردے پھر تم اپنے لئے کوئی ایسا نہ پاؤ جو ہم سے کوئی مطالبہ کرسکے اور ہم سے دریافت کرسکے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا کیونکہ ہم( قادر ومختار ہیں ،) جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ، ہمارے کام میں کوئی دخل دینے والا اور دم مارنے والا نہیں ۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۵ / ۱۸۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۶۳۱، ملتقطاً) الغرض کسی بھی حال میں کوئی بھی فرد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے بے خوف نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کی قدرت نے آدمی کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(70)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔} یعنی انسان کوعقل ، علم، قوت ِ گویائی، پاکیزہ صورت، مُعْتَدَل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ، نیز اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا، قوت ِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواؤں بلکہ چاند تک کو تسخیر کرچکا ہے اور مریخ تک کی معلومات حاصل کرچکا ہے، بَحر و بَر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔
{وَ رَزَقْنٰهُمْ:اور انہیں رزق دیا۔} یعنی لطیف اور خوش ذائقہ غذائیں دیں جو گوشت اور نباتات دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور جنہیں لوگ خوب اچھی طرح پکا کر کھاتے ہیں ۔پکی ہوئی غذا کھانا بھی انسان کا خاصہ ہے کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میں پکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۸۳)
{وَ فَضَّلْنٰهُمْ:اور انہیں فضیلت دی۔} آیت میں فرمایا گیا کہ ہم نے اولادِ آدم کو اپنی کثیر مخلوق پر فضیلت دی ۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ کا قول ہے کہ یہاں اکثر سے کل مراد ہے(یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے) اور اکثر کا لفظ کل کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہوا ’’وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ‘‘ اور’’وَ مَا یَتَّبِـعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا‘‘ ان آیات میں اکثر کل ہی کے معنی میں ہے لہٰذا ملائکہ بھی اِس آیت کے عموم میں داخل ہیں اور انسانوں کے خاص افراد یعنی انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامفرشتوں کے خاص افرادسے افضل ہیں اورنیک انسان عام فرشتوں سے افضل ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ۳ / ۱۸۳، ملخصاً)
مومن کی عزت:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: مومن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ عزت رکھتا ہے۔( شعب الایمان، الثالث من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی معرفۃ الملائکۃ، ۱ / ۱۷۴، الحدیث: ۱۵۲)اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی پرمجبور ہیں کیونکہ ان کی فطرت ہی یہ ہے ،ان میں عقل توہے لیکن شہوت نہیں اور جانوروں میں شہوت ہے لیکن عقل نہیں جبکہ آدمی میں شہوت و عقل دونوں ہیں تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ فرشتوں سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ جانوروں سے بدتر ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۶۳۱)
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ-فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(71)وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا(72)
ترجمہ: کنزالعرفان
یاد کروجس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور جو اس زندگی میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور وہ زیادہ گمراہ ہوگا
تفسیر: صراط الجنان
{ یَوْمَ نَدْعُوْا: جس دن ہم بلائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے جس کی وہ دنیا میں پیروی کرتا تھا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس سے مراد وہ پیشوا ہے جس کی دعوت پر دنیا میں لوگ چلے خواہ اس نے حق کی دعوت دی ہو یا باطل کی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۸۳) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر قوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دنیا میں چلتی رہی اور اُنہیں اُسی کے نام سے پکارا جائے گا کہ اے فلاں کے پیروکارو!۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۶۳۲، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں صالحین کو ہی اپنا پیشوا بنانا چاہیے تاکہ قیامت میں انہی کے ساتھ حشر ہو۔
{فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ:تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔} یعنی نیک لوگ جو دنیا میں صاحبِ بصیرت تھے اور راہِ راست پر چلتے رہے، اُن کو اُن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ اس میں اپنی نیکیاں لکھی ہوئی دیکھیں گے تو اس کو ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور جو بدبخت ہیں ، کفار ہیں اُن کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، وہ انہیں دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور دہشت سے پوری طرح پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔ تو نیک لوگوں کے اعمال کے ثواب میں ادنیٰ بھی کمی نہ کی جائے گی اور یونہی کفار کی سزا میں بھی کمی نہ ہوگی،( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ۵ / ۱۸۷-۱۸۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۱، ص۲۳۶، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملتقطاً) ہاں گناہگار مسلمانوں کی سزا میں کمی بھی ہوگی اور بہت بڑی تعداد کی معافی بھی۔
{ اَعْمٰى: اندھا۔} ارشاد فرمایا کہ جودنیا کی زندگی میں ہدایت کا راستہ دیکھنے سے اندھا ہوگا وہ آخرت میں نجات کا راستہ دیکھنے سے بھی اندھا ہوگا بلکہ قیامت میں وہ اور بھی زیادہ گمراہ ہوگا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۱۸۴، ملخصاً)
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ ﳓ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا(73)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کفار تو چاہتے تھے کہ تمہیں اس وحی سے ہٹا دیں جوہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے کہ تم ہمارے اوپر وحی سے ہٹ کر کوئی بات منسوب کر دو اور اس وقت وہ آپ کو گہرا دوست بنالیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{لَیَفْتِنُوْنَكَ: کہ تمہیں ہٹادیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک وفد سرکارِدوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آکر کہنے لگا کہ اگر آپ تین باتیں منظور کرلیں تو ہم آپ کی بیعت کرلیں گے ، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ انہوں نے کہا: یا رسولَ اللّٰہ ! ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں ایسا اعزاز ملے جو دوسروں کو نہ ملا ہو تاکہ ہم فخر کر سکیں اور اس میں اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ عرب کے دوسرے لوگ شکایت کریں گے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے گا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم ہی ایسا تھا یعنی مَعَاذَاللّٰہ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھ دیجئے گا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر سمرقندی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۲ / ۲۷۸، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۳، ۳ / ۱۸۴، ملتقطاً) اور بتا دیا گیا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربیت اور معاملات کی نگہبانی تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرسکیں ۔
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْــٴًـا قَلِیْلًا(74)اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا(75)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ تھوڑا سا مائل ہوجاتے۔ اور اگرایسا ہوتا تو ہم تمہیں دنیوی زندگی میں دگنی سزا اور موت کے بعد دگنی سزا کا مزہ چکھاتے پھر تم ہمارے مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پاتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ:اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں کفار کی بات کا رد اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان اور معصومیت کا بیان فرمایا گیا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہر وقت اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاملِ حال رہتی ہے چنانچہ فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم تمہیں معصوم بنا کرثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ تھوڑا سا مائل ہوجاتے لیکنایسا نہ ہوا بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور اگربالفرض ایسا ہوتا کہ آپ ان کی طرف جھکتے تو ہم تمہیں دنیوی زندگی میں دگنی سزا اور موت کے بعد دگنی سزا کا مزہ چکھاتے کیونکہ حضور پُرنورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ دوسروں سے بلند تر ہے اس لئے آپ سے پاکیزگی اور کردار میں عظمت کا تقاضا بھی دوسروں کی بنسبت زیادہ ہے۔
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا(76)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک قریب تھا کہ وہ تمہیں اس سر زمین سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں اس سے نکال دیں اور اگر ایسا ہوتا تو وہ تمہارے پیچھے تھوڑی ہی مدت ٹھہرتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا: کہ تمہیں اس سے نکال دیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار نے آپس میں اتفاق کرکے چاہا کہ سب مل کر رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سرزمینِ عرب سے باہر نکال دیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا یہ ارادہ پورا نہ ہونے دیا اور اُن کی یہ مراد بر نہ آئی۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۶، ۳ / ۱۸۵)اور فرما دیا گیا کہ ان لوگوں نے آپ کو یہاں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا مگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ایسا نہ ہونے دیا اور اگر بالفرض یہ آپ کو نکال دیتے تو آپ کے بعد یہ بھی جلد ہلاک کردیئے جاتے کیونکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے تشریف لے جانے کے بعد عذابِ الٰہی آجا تا ہے۔
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا(77)
ترجمہ: کنزالعرفان
جیسے ہمارے ان رسولوں کا طریقہ رہا جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا اور تم ہمارے قانون میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{سُنَّةَ: طریقہ۔} گزشتہ آیت میں فرمایا تھا کہ اگر بالفرض یہ آپ کو نکال دیتے تو آپ کے بعد یہ بھی جلد ہلاک کردیئے جاتے کیونکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے تشریف لے جانے کے بعد عذابِ الٰہی آجا تا ہے جیسے ہمارا ان رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں طریقہ رہا جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا کہ جس قوم نے انہیں ان کے وطن سے نکالا( اور وہاں کوئی مسلمان باقی نہ رہا اور ان لوگوں کے ایمان لانے کی بھی کوئی امید نہ رہی) تو ہم نے اس قوم کو ہلاک کردیا اور تم ہمارے اِس قانون میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۷، ۳ / ۱۸۵، ملخصاً) اہلِ مکہ کی بچت کی وجہ یہ رہی کہ وہاں مسلمان بھی باقی رہے اور وہاں خانہ کعبہ تھا اسی لئے اس علاقے کو بہرحال اسلامی حدود میں آنا تھا اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں ایمان کی امید قوی بھی موجود تھی۔
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(78)
ترجمہ: کنزالعرفان
نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور صبح کا قرآن ،بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَقِمِ الصَّلٰوةَ: نماز قائم رکھو۔} اس آیت میں فرمایا کہ نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ۔ اس دورانیے میں چار نمازیں آگئیں : ظہر، عصر، مغرب، عشاء، کیونکہ یہ چاروں نمازیں سورج ڈھلنے سے رات گئے تک پڑھی جاتی ہیں ۔ مزید فرمایا کہ صبح کا قرآن قائم رکھو، اس سے نماز ِفجر مراد ہے اور اس کو قرآن اس لئے فرمایا گیا کہ قرا ء ت ایک رُکن ہے( اور عربی کا ایک عام قاعدہ ہے کہ ایک جز بول کر بعض اوقات پورا کل مراد ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآنِ کریم میں ہی یہ قاعدہ کئی جگہ موجود ہے) جیسے نماز کو رکوع و سجود سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۸، ۳ / ۱۸۵، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۸، ص۶۳۳، ملتقطاً) اِس آیت سے معلوم ہوا کہ قراء ت نماز کارُکن ہے ۔
نمازِ فجر کی فضیلت:
فجر کی نماز کی فضیلت میں فرمایا کہ بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں یعنی نمازِ فجر میں رات کے فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور دن کے فرشتے بھی آجاتے ہیں چنانچہ حدیث ِ مبارک ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’باجماعت نماز کو تمہارے تنہا کی نماز پر پچیس درجے فضیلت حاصل ہے اور فجر کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ اگر تم چاہو تو یہ پڑھ لو
’’ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔( بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الفجر فی جماعۃ، ۱ / ۲۳۳، الحدیث: ۶۴۸، سنن نسائی، کتاب الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، ص۸۷، الحدیث: ۴۸۵)
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے ۔قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ:اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو ۔} نمازِ تہجد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض تھی، جمہور کا یہی قول ہے جبکہ حضورِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۸۵-۱۸۶، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱، ملتقطاً)
تہجد کے فضائل:
اِس آیت میں تہجد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نمازِ تہجد کی فضیلت پر مشتمل5اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہلِ خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔(مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، تودیع المنزل برکعتین، ۱ / ۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’میں نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل:
یہاں نمازِ تہجد کے بارے میں چند شرعی مسائل یاد رکھیں :
(1)…صَلَاۃُ اللَّیْل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2)…تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اُس کو تہجد نہ کہیں گے۔
(3)…کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4)…جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللّٰہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱ / ۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲)
{عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا:قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔} آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۳، الحدیث: ۳۱۴۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر یہ آیت اور مختلف کتب سے اوپر بیان کردہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔ اس دن آدم صفی اللّٰہ سے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللّٰہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے (فرمائیں گے) انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں ، وہ آمن وناہم (یعنی خود امن میں اور امت کے امن کے خواہش مند)، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۰-۱۷۱)
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کی فضیلت:
حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اذان سن کر یہ دعا کرے ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ‘‘یعنی اے اللّٰہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد مصطفٰی کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر کھڑے کرنا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی۔( بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۱ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۱۴)
اور مسلم شریف کی روایت میں اس دعا کے پڑھنے سے پہلے درود پڑھنے کا بھی فرمایا گیا ہے۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثمّ صلّی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ،ص۲۰۳، الحدیث: ۱۱(۳۸۴))
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو اس کی دعا مانگنے کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ اس میں ان کا اپنا عظیم فائدہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے انہیں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہو گی۔
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(79)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے ۔قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ:اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو ۔} نمازِ تہجد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض تھی، جمہور کا یہی قول ہے جبکہ حضورِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۸۵-۱۸۶، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱، ملتقطاً)
تہجد کے فضائل:
اِس آیت میں تہجد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نمازِ تہجد کی فضیلت پر مشتمل5اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہلِ خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔(مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، تودیع المنزل برکعتین، ۱ / ۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’میں نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل:
یہاں نمازِ تہجد کے بارے میں چند شرعی مسائل یاد رکھیں :
(1)…صَلَاۃُ اللَّیْل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2)…تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اُس کو تہجد نہ کہیں گے۔
(3)…کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4)…جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللّٰہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱ / ۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲)
{عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا:قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔} آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۳، الحدیث: ۳۱۴۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر یہ آیت اور مختلف کتب سے اوپر بیان کردہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔ اس دن آدم صفی اللّٰہ سے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللّٰہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے (فرمائیں گے) انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں ، وہ آمن وناہم (یعنی خود امن میں اور امت کے امن کے خواہش مند)، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۰-۱۷۱)
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کی فضیلت:
حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اذان سن کر یہ دعا کرے ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ‘‘یعنی اے اللّٰہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد مصطفٰی کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر کھڑے کرنا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی۔( بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۱ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۱۴)
اور مسلم شریف کی روایت میں اس دعا کے پڑھنے سے پہلے درود پڑھنے کا بھی فرمایا گیا ہے۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثمّ صلّی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ،ص۲۰۳، الحدیث: ۱۱(۳۸۴))
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو اس کی دعا مانگنے کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ اس میں ان کا اپنا عظیم فائدہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے انہیں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہو گی۔
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(80)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اے حبیب! یوں عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے پسندیدہ طریقے سے داخل فرما اور مجھے پسندیدہ طریقے سے نکال دے اور میرے لئے اپنی طرف سے مددگار قوت بنادے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ: اور یوں عرض کرو۔} اس آیت میں ایک دعا سکھائی گئی ہے اور اس کے بہت سے مَطالب و معانی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ بعض مفسرین نے اس کا معنی یہ بیان فرمایا کہ میرا داخل ہونا اور نکلنا پسندیدہ طریقے سے کردے ، جہاں بھی میں داخل ہوں اور جہاں سے بھی میں باہر آؤں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا منصب ہو یا کام۔ بعض مفسرین نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے قبر میں اپنی رضا اور طہارت کے ساتھ داخل کر اور قبر سے اٹھاتے وقت عزت و کرامت کے ساتھ باہر لا۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنی یہ ہیں کہ مجھے اپنی طاعت و بندگی میں صدق کے ساتھ داخل کر اور اپنی نافرمانی کے کاموں سے صدق کے ساتھ خارج فرما دے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مجھے مدینہ طیبہ میں پسندیدہ داخلہ عنایت کر اور مکہ مکرمہ سے میرا نکلنا صدق کے ساتھ کر(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۶۳۴، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۸۸-۱۸۹، ملتقطاً) کہ اس سے میرا دل غمگین نہ ہو۔ مگر یہ آخری تَوجیہ اس صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جب کہ یہ آیت مدنی نہ ہوبلکہ مکی ہو۔
{وَ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا: اور میرے لئے اپنی طرف سے مددگار قوت بنادے۔} یعنی اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے وہ قوت عطا فرما جس سے میں تیرے دشمنوں پر غالب ہوجاؤں اور مجھے وہ حجت دے جس سے میں ہر مخالف پر فتح پاؤں اور وہ واضح و نمایاں غلبہ جس سے میں تیرے دین کو تقویت دوں ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُن کے دین کو غالب کرنے اور انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۱۸۹، ملخصاً)
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(81)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ:اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔}یعنی اسلام آیا اورکفر مٹ گیا اور خلاصہ یہ کہ حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو نور آیا اور اندھیرا گیا، اسلام آیا اور کفر گیا، قرآن آیا اور شیطان گیا ، خیر آئی اور شر گیا، ہدایت آئی اور گمراہی گئی مگر یہ سب کچھ اس دولہا کے دم قدم سے ہوا جس کے دم کی یہ ساری بہار ہے سب کچھ وہ ہی لائے ، ان پر درود اور سلام ہو۔
ہے انھیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالم نہیں
{ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا:بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔} ارشاد فرمایا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا کیونکہ اگرچہ باطل کو کسی وقتمیں قوت وغلبہ حاصل ہو بھی جاتا ہے مگر اس کو پائیداری حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا انجام بربادی و خواری ہی ہوتاہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۱۸۹)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فتح مکہ کے دن جب مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے تو مشرکین نے کعبہ مقدسہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب کئے ہوئے تھے جن کے قدموں کو ابلیس نے مشرکوں کے لئے لوہے اور رانگ سے جوڑ کر مضبوط کر دیا تھا۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست ِمبارک میں ایک لکڑی تھی، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ آیت پڑھ کر اس لکڑی سے جس بت کی طرف اشارہ فرماتے جاتے تھے وہ گرتا جاتا تھا۔( معجم الصغیر، حرف الیاء، من اسمہ: یوسف، ص۱۳۶، الجزء الثانی)
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ:اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔} قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری 0و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۸۹، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۱۹۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۵۴۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے:
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ عرب کے کسی قبیلے میں گئے ،اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ،پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک(ان کے بارے میں )رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو۔( بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴ / ۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کےہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴ / ۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱)البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا(82)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ:اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔} قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری 0و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۳ / ۱۸۹، روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲، ۵ / ۱۹۴، خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۸۲، ص۵۴۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید میں جسمانی امراض کی بھی شفا موجود ہے:
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کی حقیقی شفا تو روحانی امراض سے ہے لیکن جسمانی امراض کی بھی اس میں شفا موجود ہے اور سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَقوال و اَفعال سے ثابت ہے،اس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ عرب کے کسی قبیلے میں گئے ،اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اسی دورا ن قبیلے کے سردار کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا تو وہ لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’تم نے چونکہ ہماری مہمان نوازی نہیں کی اس لئے ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ا س کی اجرت نہ دو گے۔ چنانچہ انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے بکریوں کا ایک ریوڑ مقرر کیا ،پھر (ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنے تھوک کی چھینٹیں اس پر ڈالیں تو وہ تندرست ہو گیا۔ پھر قبیلے کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا ’’ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک(ان کے بارے میں )رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھ نہ لیں ۔ جب صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرائے اور ارشاد فرمایا ’’ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ یہ دم ہے ؟ ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکال لو۔( بخاری، کتاب الطب، باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب، ۴ / ۳۰، الحدیث: ۵۷۳۶)
(2)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں ’’جس مرض میں رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روح قبض کر لی گئی تھی ، اس مرض میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ فلق اور سورۂ والناس پڑھ کر اپنے اوپر دم فرماتے تھے اور جب طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو میں وہ سورتیں پڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دم کیا کرتی اور خود آپ کےہاتھ کو پھیرتی کیونکہ وہ(میرے ہاتھ سے زیادہ) بابرکت ہے۔(بخاری، کتاب الطب، باب فی المرأۃ ترقی الرجل، ۴ / ۳۴، الحدیث: ۵۷۵۱)البتہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ مومنوں کیلئے تو قرآن شفا ہے مگر اس قرآن کے ذریعے ظالموں یعنی کافروں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے کہ کفرو ضد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖؕ-فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا(84)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: سب اپنے اپنے انداز پر کام کرتے ہیں تو تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو زیادہ ہدایت کے راستے پر ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز پر کام کرتا ہے ، جس کی فطرت اور اصل، شریف اور طاہر ہو ، اُس سے اَفعالِ جمیلہ اور اَخلاقِ پاکیزہ صادر ہوتے ہیں اور جس کا نفس خبیث ہے اس سے افعالِ خبیثہ سرزد ہوتے ہیں ۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۴، ۳ / ۱۸۹) اِس آیت کی روشنی میں ہر کوئی اپنے بارے میں غور کرے کہ اس کا تعلق کس گروہ سے ہے اور غور کرنے کے بعد جو شخص اپنے نفس میں بھلائی، اطاعت اور شکر پائے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بجا لائے اور جو اپنے نفس میں شر، فسق ، ناشکری اور مایوسی پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اُس وقت کے آنے سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لے جب معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(85)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ : روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ: اور تم سے پوچھتے ہیں ۔} اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق دو اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں مدینہ منورہ کے غیر آباد حصے میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ (چلتے ہوئے) ایک چھڑی سے ٹیک لگاتے تھے، اس دوران یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزر ہوا توان میں سے بعض افراد نے کہا: ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو اور دوسرے بعض افراد نے کہا: ان سے دریافت نہ کرو کیونکہ ہو سکتاہے کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں پسند نہ آئے۔ بعض افراد نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے، توایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا :اے ابوالقاسم! روح کیا ہے ؟ (حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں 🙂 نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا: آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے، میں کھڑ ارہا اور جب وہ کیفیت ختم ہوئی تو فرمایا
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً، ۱ / ۶۶، الحدیث: ۱۲۵)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیں جسے ہم اس شخص (یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پوچھیں ۔ انہوں نے کہا: ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ قریش نے آپ سے دریافت کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی
’’ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔( ترمذی، کتاب ا لتفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۵، الحدیث: ۳۱۵۱)
بخاری شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس وقت نازل ہوئی ہے جب مدینہ منورہ میں یہودیوں نے روح کے بارے میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا، اور ترمذی شریف کی روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ، ان دونوں احادیث میں ایک تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہو، پہلی بار مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفارِ قریش نے روح کے بارے میں سوال کیا اور دوسری بار مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں نے روح کے بارے میں دریافت کیا۔ دوسری تطبیق یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ اسی آیت کی وحی ہوئی بلکہ صرف نزولِ وحی کی کَیْفِیَّت طاری ہونے کا ذکر ہے ، اس لئے ممکن ہے اس وقت یہ وحی ہوئی ہو کہ یہودیوں کے سوال کے جواب میں وہی آیت تلاوت فرما دیں جو اس سے پہلے آپ پر نازل ہو چکی ہے اور وہ آیت یہ ہے
’’وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ تم فرماؤ: روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
یہ تطبیق علامہ اسماعیل بن عمر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفسیر ابن کثیر میں اسی مقام پر ذکر کی ہے ۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روح کا علم حاصل ہے:
اِس آیت میں بتا دیا گیا کہ روح کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور اس کے بارے میں علمِ حقیقی سب کو حاصل نہیں بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جسے عطا فرمائے وہی اسے جان سکتا ہے جیسا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا علم عطا کیا گیا ، چنانچہ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ایک جماعت نے گمان کیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے روح کا علم مخلوق پر مُبْہَم کر دیا اور اسے اپنی ذات کے لئے خاص کر دیا ہے، حتّٰی کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی روح کے بارے میں علم نہیں رکھتے حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منصب و مقام اس سے بہت عظیم ہے کہ آپ کو بھی روح کا علم نہ ہو حالانکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عالِم بِاللّٰہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر آپ پر احسان فرمایا ہے کہ
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔
ان لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ روح کا علم ان علوم میں سے ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے نہیں سکھائے، کیاانہیں اس بات کی خبر نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے تھے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۸)
اسی طرح علامہ بدر الدین عینی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا منصب بہت بلند ہے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب اور اس کی مخلوق کے سردار ہیں ، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روح کے بارے میں علم نہ ہو حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ ارشاد فرما کر احسان فرمایا ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔( عمدۃ القاری، کتاب العلم، باب قول اللّٰہ تعالی: وما اوتیتم من العلم الاّ قلیلاً، ۲ / ۲۸۴، تحت الحدیث: ۱۲۵)
{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا:اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’علمِ حادث علمِ قدیم کے مقابلے میں تھوڑا ہے کیونکہ بندوں کا علم مُتَناہی (یعنی اس کی ایک انتہا) ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے علم کی کوئی انتہاء نہیں اور متناہی علم غیر متناہی علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے اس عظیم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : اولیا ء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا علم انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم ہمارے نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو تو وہ علم جو بندوں کو دیا گیا ہے فی نَفْسِہٖ اگرچہ کثیر ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تھوڑا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۵، ۵ / ۱۹۷)اللّٰہ تعالیٰ کے علم سے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ اورحضرت خضرعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کشتی میں سوار ہوئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر ایک یا دو چونچیں سمندر میں ماریں ۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’اے موسیٰ !عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، میرا اور آپ کا علم اللّٰہ تعالیٰ کے علم کے سامنے اس طرح ہے جیسے چڑیا کا سمندر میں چونچ مارنا۔( بخاری، کتاب العلم، باب ما یستحبّ للعالم اذا سئل: ایّ الناس اعلم؟۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۲۲) یہ بھی سمجھانے کیلئے بیان کیا گیا ہے ورنہ متناہی اور غیر متناہی میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔
وَ لَىٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًا(86)اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَؕ-اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَیْكَ كَبِیْرًا(87)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر ہم چاہتے توہم جو آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں اسے لے جاتے پھر تم اپنے لئے اس پر ہمارے حضور کوئی وکیل نہ پاتے۔ مگر تمہارے رب کی رحمت ہی ہے۔ بیشک تمہارے او پر اس کا بڑا فضل ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ شِئْنَا: اور اگر ہم چاہتے ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اس قرآن کو جو کہ شفا ء اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور ان تمام علوم کا جامع ہے جو آپ کو عطا کئے گئے، اِسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو فرما دیتے، پھر آپ کوئی وکیل نہ پاتے جو ہماری بارگاہ میں آپ کے لئے ا س قرآن کو لوٹا دینے کی وکالت کرتا لیکن آپ کے رب کی رحمت ہی ہے کہ اس نے قیامت تک اسے باقی رکھا اور ہر طرح کی کمی بیشی اور تبدیلی سے محفوظ فرما دیا۔ اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کا احسان در احسان ہے کہ اس نے پہلے قرآن نازل فرما کر احسانِ عظیم فرمایا اور پھر اسے محفوظ فرما کر اور قیامت تک باقی رکھ کر احسان فرمایا۔ اے حبیب!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک تمہارے او پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا فضل ہے کہ اُس نے آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا ، آپ کو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتَم النَّبِیّین کیا اور مقامِ محمود عطا فرمایا۔( ابوسعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۳۵۰، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ص۶۳۵، جلالین مع صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶-۸۷، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲، ملتقطاً)
قرآنِ مجید کی تلاوت اور اس کے اَحکام پر عمل کی ترغیب:
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کامعنی یہ بیان کیا ہے کہ اے لوگو ! قرآن (کے احکام) پر پابندی سے عمل کرو اور اس میں کمی کرنا چھوڑ دو کیونکہ ہم اسے تمہارے سینوں اور صحیفوں سے لے جانے پر قادر ہیں لیکن قیامت آنے تک اسے باقی رکھنا ہماری تم پر رحمت ہی ہے اور جب قیامت قریب آئے گی تو ہم اسے سینوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیں گے۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۱۱۵۱-۱۱۵۲)
قرآنِ کریم سے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک قرآن جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ نہ جائے ۔ عرش کے گرد قرآن کی ایسی بھنبھناہٹ ہو گی جیسی شہد کی مکھی کی ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ قرآن سے فرمائے گا ’’تیرا کیا حال ہے۔ قرآن عرض کرے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ،میں تیرے پاس سے گیا اور تیری ہی طرف لوٹ آیا ہوں ، میری تلاوت تو کی گئی لیکن میرے احکامات پر عمل نہ کیا گیا۔( مسندالفردوس، باب لام الف، ۵ / ۷۹، الحدیث: ۷۵۱۳)
اورحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’بے شک یہ قرآن جو تمہارے سامنے موجود ہے، عنقریب اسے اٹھا لیا جائے گا۔ ایک شخص نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ ہم نے اسے دلوں میں اور صحیفوں میں محفوظ کر رکھا ہے، ہم اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے بچے اپنی اولاد کو قرآن سکھاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ’’وہ ایک رات میں چلا جائے گا اور صبح کے وقت لوگ اسے نہیں پائیں گے اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ قرآن دلوں اور صحیفوں سے مَحو کر دیا جائے گا۔( ابو سعود، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۶، ۳ / ۳۵۰)
نیزحضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہی فرمایا کہ قرآنِ پاک خوب پڑھو اس سے پہلے کہ قرآن پاک اٹھالیا جائے کیونکہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قرآن پاک نہ اُٹھایا جائے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۵، الحدیث: ۲۰۲۶)اللّٰہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک کی تلاوت کرنے ،اسے سمجھنے اور اس کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا کرے،آمین۔
قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا(88)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اگر تمام جن و اِنس اِس پر متفق ہوجائیں کہ فصاحت و بلاغت ، حسن ِترتیب ، علومِ غَیبِیہ اور معارفِ الٰہیہ وغیرہا میں سے کسی کمال میں قرآن کے برابر کوئی چیز لے آئیں تو وہ ایسا نہ کرسکیں گے۔ مشرکین نے کہا تھا کہ ہم چاہیں تو اس قرآن کی مثل بنالیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اُن کی تکذیب کی کہ خالق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہوہی نہیں سکتا۔اگر وہ سب باہم مل کر کوشش کریں جب بھی ممکن نہیں کہ اِس کلام کے مثل لاسکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا، تمام کفار عاجز ہوئے اور انہیں رسوائی اُٹھانا پڑی اور وہ ایک سطر بھی قرآن کریم کے مقابل بنا کر پیش نہ کرسکے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۱۹۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۸، ص۶۳۵، ملتقطاً)
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ٘-فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(89)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بار بار بیان کی ہے تو اکثر لوگوں نے ناشکری کرنے کے علاوہ نہ مانا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ:اور بیشک ہم نے لوگوں کے لیے بار بار بیان کی ہے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ان آیات سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…قرآنِ کریم اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی عظیم اور جلیل نعمت ہے ا س لئے ہر عالم اور حافظ پر لازم ہے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور اس کے حقوق ادا کرنے پر ہمیشگی اختیار کرے۔
(2)…انسان اور اس کے علاوہ کسی اور مخلوق میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسا کلام پیش کر سکے جو اللّٰہ تعالیٰ کے کلام کی طرح جامع ہو ، اس کی عبارت، الفاظ کی عمدگی اور فصاحت انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، اس کے اشارے باریکی اور کمالِ دانشمندی کی، اس کے نِکات لَطافت اور نَظافت کی اور اس کے حقائق حقیقت اور پاکیزگی کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہوں ۔
(3)…اکثر لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں پہچانتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کی جانے والی تَنبیہات سے تنبیہ حاصل نہیں کرتے اسی لئے ہزار میں سے ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی جہنم میں جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے حق بات سے اور اسے سیکھنے سے اِعراض کیا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۲۰۱-۲۰۲)
قرآن مخلوق نہیں ہے:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ قرآنِ مجید مخلوق نہیں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور غیر مخلوق ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو قرآن کریم کو مخلوق کہے یااس کے بارے میں تَوَقُّف کرے یا اس کے بارے میں شک کرے تواس نے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکیا۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۹، ۵ / ۲۰۲) نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فتاویٰ رضویہ کی 15 ویں جلد میں موجود اپنے رسالے ’’سُبْحٰنَ السُّبُّوْحْ عَنْ عَیْبِ کِذْبٍ مَقْبُوْحْ‘‘(جھوٹ جیسے بد ترین عیب سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پاک ہونے کا بیان)۔ میں قرآن عظیم کے غیر مخلوق ہونے پر ائمۂ اسلام کے 32 ارشادات ذکر کئے ہیں اور ان میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ 9صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ فرماتے تھے کہ جو قرآن کو مخلوق بتائے وہ کافر ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۱۵ / ۳۸۰)
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا(90)اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا(91)اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ قَبِیْلًا(92)اَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِؕ-وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗؕ-قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(93)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور انہوں نے کہا: ہم تم پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ بہا دو ۔ یا تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر تم ان کے درمیان خوب نہریں جاری کردو۔ یا تم ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا تم نے کہا ہے یااللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ۔ یا تمہارے لئے کوئی سونے کا گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جو ہم پڑھیں ۔تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہا۔} آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب قرآنِ کریم کا اِعجاز خوب ظاہر ہوچکا اور واضح معجزات نے حجت قائم کردی اور کفار کے لئے عذر کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو وہ لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے طرح طرح کی نشانیاں طلب کرنے لگے اور اُنہوں نے کہہ دیا کہ ہم ہر گز آپ پر ایمان نہ لائیں گے، چنانچہ مروی ہے کہ کفارِ قریش کے سردار کعبہ معظمہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بلوا یا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آج گفتگو کرکے آپ سے معاملہ طے کرلیں تاکہ ہم پھر آپ کے حق میں (کوئی بھی کاروائی کرنے میں ) معذور سمجھے جائیں ۔عرب میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم پر وہ شدتیں کی ہوں جو آپ نے کردی ہیں ۔ آپ نے ہمارے باپ دادا کو برا کہا، ہمارے دین کو عیب لگائے، ہمارے دانش مندوں کو کم عقل ٹھہرایا ، ہمارے معبودوں کی توہین کی ، ہماری جماعت متفرق کردی اور کوئی برائی اُٹھا نہ رکھی یعنی سب کچھ آپ نے کیا۔ یہ بتاؤ کہ اس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تم مال چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیں کہ ہماری قوم میں تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ اور اگر اعزاز چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنالیں اور اگر ملک و سلطنت چاہتے ہو تو ہم تمہیں بادشاہ تسلیم کرلیں ،یہ سب باتیں کرنے کے لئے ہم تیار ہیں اور اگر تمہیں کوئی دماغی بیماری ہوگئی ہے یا کوئی خَلِش ہوگیا ہے تو ہم تمہارا علاج کریں اور اس میں جس قدر خرچ ہو اُٹھائیں ۔ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ان میں سے کوئی بات نہیں اور میں مال ، سلطنت اور سرداری کسی چیز کا طلب گار نہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور حکم دیا کہ میں تمہیں اس کے ماننے پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور نعمت ِآخرت کی بشارت دوں اور انکار کرنے پر عذابِ الٰہی کا خوف دلاؤں ۔ میں نے تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچایا ہے۔ اگر تم اسے قبول کرو تو یہ تمہارے لئے دنیاو آخرت کی خوش نصیبی ہے اور نہ مانو تو میں صبر کروں گا اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلہ کا انتظار کروں گا ۔اس پر ان لوگوں نے کہا :اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اگر آپ ہمارے معروضات کو قبول نہیں کرتے ہیں تو اِن پہاڑوں کو ہٹا دیجئے اور میدان صاف نکال دیجئے اور نہریں جاری کر دیجئے اور ہمارے مرے ہوئے باپ دادا کو زندہ کر دیجئے۔ ہم ان سے پوچھ دیکھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں کیا وہ سچ ہے؟ اگر وہ کہہ دیں گے تو ہم مان لیں گے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ میں ان باتوں کے لئے نہیں بھیجا گیا اور جو پہنچانے کے لئے میں بھیجاگیا تھا وہ میں نے پہنچا دیا، اگر تم مانو توتمہارا نصیب اور نہ مانو تو میں خدائی فیصلے کا انتظار کروں گا ۔ کفار نے کہا: پھر آپ اپنے رب سے عرض کر کے ایک فرشتہ بلوا لیجئے جو آپ کی تصدیق کرے اور اپنے لئے باغ ، محل اور سو نے چاندی کے خزانے طلب کیجئے۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں اس لئے نہیں بھیجا گیا۔ میں بشیرو نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اس پر وہ لوگ کہنے لگے :تو ہم پرآسمان گروا دیجئے اور ان میں سے بعض یہ بولے کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اور فرشتوں کو ہمارے پاس نہ لایئے ۔ اس پر نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس مجلس سے اٹھ آئے اور عبداللّٰہ بن اُمیہ آپ کے ساتھ اُٹھا اور آپ سے کہنے لگا: خدا کی قسم! میں کبھی ایمان نہ لاؤں گا جب تک آپ سیڑھی لگا آسمان پر نہ چڑھو اور میری نظروں کے سامنے وہاں سے ایک کتاب اور فرشتوں کی ایک جماعت لے کرنہ آؤ اور خدا کی قسم! اگریہ بھی کروتو میں سمجھتا ہوں کہ میں پھر بھی نہ مانوں گا۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس قدر ضد او ر عنا د میں ہیں اور ان کی حق سے دشمنی حد سے گزر گئی ہے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواُن کی حالت پر رنج ہوا اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۰، ۳ / ۱۹۱-۱۹۲)
{قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ: تم فرماؤ، میرا رب پاک ہے۔} کفار کے تمام مطالبات کے جواب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک ہی جواب دینے کا ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا پیغام پہنچا دینا ہے، وہ میں نے پہنچا دیا ہے اور جس قدر معجزات و آیات یقین و اطمینان کے لئے درکار ہیں اُن سے بہت زیادہ میرا پروردگار عَزَّوَجَلَّ ظاہر فرما چکا لہٰذا حجت پوری ہوچکی ہے ۔ اب یہ سمجھ لو کہ رسول کے انکار کرنے اور آیاتِ الٰہیہ سے مکرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُـوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا(94)قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا(95)قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(96)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور لوگوں کو ایمان لانے سے ان کے پاس ہدایت آجانے کے بعد اسی بات نے منع کررکھا ہے کہ وہ کہتے ہیں : کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول بنا کر بھیجا؟ تم فرماؤ: اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو اطمینا ن سے چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتے ۔ تم فرماؤ : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے ،بیشک وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اَنْ یُّؤْمِنُوْا: کہ ایمان لائیں ۔} ارشاد فرمایا ، حالانکہ لوگوں کے پاس ہدایت آچکی ہے مگر انہیں صرف اس بات نے ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے آدمی کو رسول بناکر بھیجا ہے؟ یعنی وہ لوگ رسولوں کو بشر ہی جانتے رہے اور اُن کے منصب ِنبوت اور اللّٰہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے کمالات کے معترف نہ ہوئے، یہی اُن کے کفر کی اصل وجہ تھی اور اسی لئے وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۹۲-۱۹۳، ملخصاً)اسی کا جواب اگلی آیت میں دیا گیا۔
{ لَوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ: اگر زمین میں فرشتے ہوتے۔} کفار کے جواب میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تم ان سے فرما دو کہ اگر انسانوں کی بجائے زمین میں صرف فرشتے رہائش پذیر ہوتے جو یہاں چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتے لیکن جب زمین میں انسان بستے ہیں تو رسول بھی انسان ہی بنایا جاتا ہے۔ فرشتوں کیلئے فرشتہ ہی رسول بھیجا جاتا کیونکہ وہ اُن کی جنس سے ہوتا لیکن جب زمین میں آدمی بستے ہیں تو اُن کا ملائکہ میں سے رسول طلب کرنا نہایت ہی بے جا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۲۰۵، ملخصاً)
{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر اللّٰہ تعالیٰ ہی گواہ کافی ہے کہ جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا وہ میں نے تم تک پہنچا دی اور تم نے (اسے) جھٹلایا اور دشمنی کی، بے شک وہ اپنے بندوں یعنی رسولوں اور جن کی طرف انہیں بھیجا گیا ان کے ظاہری اور باطنی تمام احوال کی خبر رکھنے والا اور انہیں دیکھنے والا ہے تو وہ انہیں اس کی جزا دے گا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۲۰۵)
وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِهٖؕ-وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّاؕ-مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا(97)ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُـوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(98)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جسے اللہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کردے تو تم ہرگز ان کیلئے اس کے سوا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے اور ہم انہیں قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے اس حال میں کہ وہ اندھے اور گونگے اور بہرے ہوں گے۔ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم ان کے لئے اور بھڑکادیں گے۔ یہ ان کی سزا ہے اس سبب سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہنے لگے: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائے گا؟
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ:اور جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے۔}اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جسے اللّٰہ ہدایت دے تو وہی ہدایت پانے والا ہوتا ہے اور جنہیں وہ گمراہ کردے تو تم ہرگز ان کیلئے اس کے سوا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے اور ہم انہیں قیامت کے دن ان کے منہ کے بل اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ جس طرح دنیا میں حق دیکھنے کی بصیرت نہ رکھتے تھے،حق بات بول نہیں سکتے تھے اور حق بات سننے سے بہرے تھے اسی طرح آخرت میں بھی اس چیز کو دیکھنے سے اندھے ہوں گے جو ان کی نگاہوں کو ٹھنڈا کرے، وہ بات بولنے سے گونگے ہوں گے جو ان کی طرف سے قبول کی جائے اوراس بات کو سننے سے بہرے ہوں گے جو ان کے کانوں کو لذت دے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی (اس کی آگ) بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکادیں گے۔(خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۶۳۷، ملتقطاً)
قیامت کے دن کفار منہ کے بل چلیں گے:
اس آیت میں بیان ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو منہ کے بل اٹھا ئے گا، اس سے متعلق بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کافر کو اس کے چہرے کے بل کس طرح اٹھایا جائے گا؟ ارشاد فرمایا ’’وہ رب جس نے اسے دنیا میں دو قدموں پر چلایا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ قیامت کے دن اسے چہرے کے بل چلائے؟ (کیوں نہیں ،وہ اس بات پر ضرور قادر ہے۔)( بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر، ۴ / ۲۵۲، الحدیث: ۶۵۲۳)
اور سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ تین حالتوں میں اٹھائے جائیں گے، بعض لوگ پیدل چلیں گے، بعض سوار اور کچھ لوگ چہروں کے بل چلیں گے۔ عرض کی گئی:یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، چہروں کے بل کیسے چلیں گے؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے انہیں قدموں پر چلایا وہ انہیں منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے، سن لو !وہ اپنے منہ کے ذریعے ہر بلند جگہ اور کانٹے سے بچیں گے۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسراءیل، ۵ / ۹۶، الحدیث: ۳۱۵۳)
{ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ:یہ ان کی سزا ہے۔} اِس سے پہلی آیت میں جو وعید بیان ہوئی اُس سے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب ان کی سزا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائے گا؟( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ۳ / ۱۹۳، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۸، ص۶۳۷، ملتقطاً)
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا(99)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں وہ اس پر قادر ہے کہ ان لوگوں کی مثل اور پیدا کردے اور اس نے ان کے لیے ایک مدت مقرر کررکھی ہے جس میں کچھ شبہ نہیں تو ظالموں نے کفر کے علاوہ کچھ ماننے سے انکار کردیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَوْا:اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللّٰہ جس نے کسی سابقہ مادے کے بغیر آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوق پیدا کر دی ہے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان لوگوں کی مثل اور پیدا کردے کیونکہ زمین و آسمان کے مقابلے میں انسانوں کی مثل پیدا کرنا آسان ہے اور جب وہ انسانوں کی مثل پیدا کرنے پر قادر ہے تو انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے اور اس نے ان ( کے مرنے ، دوبارہ زندہ کئے جانے اور عذاب) کے لیے ایک مدت مقرر کررکھی ہے جس میں کچھ شبہ نہیں اور جب ان کے سامنے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور قیامت کے دن جزا کے لئے دوبارہ زندہ کئے جانے کی بات رکھ دی گئی تو ظالموں نے کفر کے علاوہ کچھ ماننے سے انکار کردیا (یعنی صرف کفر ہی کو اختیار کیا اور ایمان کی طرف نہ آئے۔)( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ۵ / ۲۰۷، البحر المحیط، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۸۰-۸۱، ملتقطاً)
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا(100)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے تم( انہیں ) روک رکھتے اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس سے پہلے آیت نمبر 90 میں کفار کا ایک مطالبہ گزرا کہ ان کے شہر میں نہریں اور چشمے جاری کر دئیے جائیں تاکہ ان کے مال زیادہ ہو جائیں اور ان کی معیشت بہتر ہوجائے تو اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں ’’اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو بھی تم اپنے بخل اور کنجوسی پر قائم رہتے اور خرچ ہوجانے کے ڈر سے ان خزانوں کو روک رکھتے ۔( تفسیر کبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۷ / ۴۱۲)
اس آیتِ مبارکہ میں لوگوں کے خرچ کرنے کا حال بیان ہوا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق پر کتنا خرچ فرمایا ہے اور کتنا خرچ فرما رہا ہے اس کا عالَم ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کا دست ِکرم بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا خرچ کرنا بھی اسے کم نہیں کرتا ،تم ذرا غور تو کرو کہ جب سے اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو بنایا ہے تب سے اس نے کتنا خرچ فرمایا ہے لیکن جو کچھ اس کے دست ِقدرت میں ہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے قبضہ میں میزان ہے جسے وہ بلند و پَست فرماتا ہے۔( بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ تعالی: لما خلقت بیدیّ، ۴ / ۵۴۳، الحدیث: ۷۴۱۱)
{وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا:اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔} یہاں انسان کو اس کی اصل کے اعتبار سے بڑ اکنجوس فرمایا گیا ہے کیونکہ انسان کو محتاج پیدا کیا گیا ہے اور محتاج لازمی طور پر وہ چیز پسند کرتا ہے جس سے محتاجی کا ضَرَر اس سے دور ہو جائے اور اسی لئے وہ اس چیز کو اپنی ذات کے لئے روک لیتا ہے جبکہ اس کی سخاوت خارجی اَسبا ب کی وجہ سے ہوتی ہے جیسے اسے اپنی تعریف پسند ہوتی ہے یا ثواب ملنے کی امید ہوتی ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے بخیل ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۱۹۴)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو، جب وہ موسیٰ ان کے پاس تشریف لائے تو فرعون نے ان سے کہا : اے موسیٰ ! بیشک میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا ہوا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{تِسْعَ اٰیٰتٍ: نو نشانیاں ۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا، (2) ید ِبیضا، (3) بولنے میں دِقَّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دور فرما دیا، (4) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5) طوفان، (6) ٹڈی، (7) گھن، (8) مینڈک، (9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴)ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصَّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔ ان مذکورہ بالا میں سے بعض تو معجزے تھے اور بعض فرعون پر عذاب جو بالواسطہ معجزے تھے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت ہی کی وجہ سے فرعون پر عذاب آئے۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(101)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو، جب وہ موسیٰ ان کے پاس تشریف لائے تو فرعون نے ان سے کہا : اے موسیٰ ! بیشک میں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا ہوا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{تِسْعَ اٰیٰتٍ: نو نشانیاں ۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو نونشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا، (2) ید ِبیضا، (3) بولنے میں دِقَّت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک میں تھی پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دور فرما دیا، (4) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5) طوفان، (6) ٹڈی، (7) گھن، (8) مینڈک، (9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۱۹۴)ان میں سے آخری6 نشانیوں کا مُفَصَّل بیان نویں پارے کے چھٹے رکوع میں گزر چکاہے۔ ان مذکورہ بالا میں سے بعض تو معجزے تھے اور بعض فرعون پر عذاب جو بالواسطہ معجزے تھے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت ہی کی وجہ سے فرعون پر عذاب آئے۔
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕ-وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاﭥ(105)وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا(106)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا اور حق کے ساتھ ہی یہ اترا اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔اور قرآن کوہم نے جدا جدا کرکے نازل کیاتاکہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ: اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا۔} یعنی قرآن شَیاطین کے خَلْط مَلْط سے محفوظ رہا اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہوسکی ۔ لہٰذا قرآن کا ایک ایک جملہ، کلمہ اور حرف برحق ہے۔
ہر بیماری سے شفا کا عمل:
اس آیتِ شریفہ کا یہ جملہ ’’وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ‘‘ ہر ایک بیماری کے لئے عملِ مُجَرَّب ہے ، مرض کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر پڑھ کر دم کردیا جائے تو بِاِذْنِ اللّٰہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔ مشہور بزرگ حضرت محمد بن سماک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بیمار ہوئے تواُن کے مُتَوَسِّلین قارُورہ لے کر ایک نصرانی طبیب کے پاس علاج کی خاطر گئے۔ راستے میں ایک صاحب ملے ،نہایت خوبصورت ا ور خوش لباس، ان کے جسم مبارک سے نہایت پاکیزہ خوشبو آرہی تھی، انہوں نے فرمایا: کہاں جاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ حضرت ابنِ سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قارورہ دکھانے کے لئے فلاں طبیب کے پاس جاتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا، سُبْحَانَ اللّٰہ، اللّٰہ کے ولی کے لئے خدا کے دشمن سے مدد چاہتے ہو ۔ قارورہ پھینکو، واپس جاؤ اور اُن سے کہو کہ مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر پڑھو وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ یہ فرما کر وہ بزرگ غائب ہوگئے ۔ ان صاحبوں نے واپس ہو کر حضرت ابن سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے واقعہ بیان کیا ،اُنہوں نے مقامِ درد پر ہاتھ رکھ کر یہ کلمے پڑھے تو فورا ً آرام ہوگیا اور حضرت ابن سماک رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۶۳۹)
{وَ قُرْاٰنًا: اور قرآن کو۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے قرآن کو تئیس سال کے عرصہ میں جدا جدا کرکے نازل کیا تاکہ اس کے مضامین بآسانی سننے والوں کے ذہن نشین ہوتے رہیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے حالات و واقعات کی ضرورت کے مطابق نازل کیا۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۵ / ۲۱۰، ملخصاً)
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْاؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا(107)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: (اے لوگو!) تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ بیشک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑی کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم ان لوگوں سے فرما دو کہ اے لوگو! تم اس قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ اور اپنے لئے نعمت ِآخرت اختیار کرو یا عذابِ جہنم ، وہ تمہاری مرضی ہے لیکن جن سلیم الفطرت لوگوں کو اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے کسی آسمانی کتاب کاعلم دیا گیا یعنی مومنین اہلِ کتاب جو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعْثَت سے پہلے انتظار و جستجو میں تھے اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بعثت کے بعد شرفِ اسلام سے مشرف ہوئے جیسے کہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل اور حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابو ذر وغیر ہم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، تو جب ان حضرات کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑی کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں ۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۶۳۹، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۱۹۵، ملتقطاً)
وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(108)وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا(109)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کہتے ہیں ہمارا رب پاک ہے ،بیشک ہمارے رب کا وعدہ پوراہونے والا تھا۔ اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں اور یہ قرآن ان کے دلوں کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} گزشتہ آیت میں جن سعادت مندوں کا تذکرہ کیا گیا تھا اگلی آیات میں انہی کے قول و فعل کا ذکر ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی سے بھی پاک ہے توبیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ پورا ہونے والا تھا جو اُس نے اپنی پہلی کتابوں میں فرمایا تھا کہ نبی آخر الزماں محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعو ث فرمائیں گے اور یہ وعدہ پورا ہوچکا۔ یہ تو ان حضرات کا قول و عقیدہ تھا اور ان کا عمل یہ ہے کہ جب یہ قرآن سنتے ہیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور عجز و نیاز سے اور نرم دِلی سے روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں اور یہ قرآن ان کے دلوں کے خشوع و خضوع کو اور ان کے دلوں کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۸-۱۰۹، ۳ / ۱۹۵)
تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے:
قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک یہ قرآن حُزن کے ساتھ اترا ہے، اس لئے جب تم اسے پڑھو تو رؤو اور اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بناؤ۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷) اور یہ رونا اگر اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے روئے۔( ترمذی، کتاب فضاءل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الغبار فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۲۳۶، الحدیث: ۱۶۳۹، نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللّٰہ علی قدمہ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۱۰۵)
تلاوتِ قرآن سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم دل میں نرمی او ر خشوع وخضوع پیدا کرتا ہے ۔ اسی لئے حدیث ِ مبارک میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟ ارشاد فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
{وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ:اور وہ ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں ۔}یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے جنہیں پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَؕ-اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىۚ-وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا(110)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، تم جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں اور اپنی نماز میں نہ آواز زیادہ بلند کرو اور نہ اسے بالکل آہستہ کردواور دونوں کے درمیان کاراستہ تلاش کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرماؤ۔} اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ایک رات سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااَللّٰہُ یارَحْمٰنُ فرماتے رہے۔ ابوجہل نے سنا تو کہنے لگا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو کو پکارتے ہیں ، اللّٰہ کو اور رحمٰن کو (مَعَاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ)۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۳ / ۱۹۵-۱۹۶) اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا اللّٰہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ،اس کے بہت سے نام ہیں اور سب نام اچھے ہیں جیسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ننانوے نام معروف ہیں اور حقیقتاً اس سے بھی زیادہ نام ہیں جن کے معنی بہت پاکیزہ ہیں ۔
{وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا:اور اپنی نماز میں نہ آواز زیادہ بلند کرو اور نہ بالکل آہستہ کردو۔} شانِ نزول: حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکۂ مکرمہ میں جلوہ فرما تھے ۔ آپ جس وقت اپنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کونماز پڑھایا کرتے تو اپنی آواز مبارک قرآن کریم پڑھنے میں بلند فرمایا کرتے تھے ،جب کافر سن لیتے تو قرآن کریم اور اس کے اتارنے والے اور لانے والے کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتے تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا ’’وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ‘‘ یعنی نماز کی قراء ت کو اونچا نہ کرو کہ کافر سن لیں گے تو بیہودہ کلمات بکیں گے۔ ’’وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا‘‘ یعنی اَصحاب سے یوں آہستہ نہ پڑھو کہ وہ سن نہ سکیں ’’وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا‘‘ اور ان دونوں کے بیچ میں راستہ چاہو۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل، باب ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا، ۳ / ۲۶۳، الحدیث: ۴۷۲۲)
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا(111)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور تم کہو: سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے لیے بچہ اختیار نہ فرمایا اور بادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں اور کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مدد گار نہیں اور اس کی اچھی طرح بڑائی بیان کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قُلْ: اور تم کہو۔} آیت میں فرمایا گیا کہ سب خوبیاں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہیں جس نے اپنے لیے بچہ اختیار نہ فرمایا جیسا کہ مشرکین ِعرب اور یہودو نصاریٰ کہتے تھے۔ مشرکین فرشتوں کو رب کی بیٹیاں اور یہودی حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو، اور عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے۔ (اور اے حبیب!) مزید یہ کہو کہ بادشاہی میں اس رب عَزَّوَجَلَّ کا کوئی شریک نہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں نیز کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مدد گار نہیں یعنی وہ کمزور نہیں کہ اس کوکسی حمایتی اور مددگار کی حاجت ہو کہ کمزور کو ہی مددگار کی حاجت ہوتی ہے ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس کی اچھی طرح بڑائی بیان کرو۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۲۱۴، ملخصاً)
اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے3فضائل:
اس آیت کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا فرمایا گیا ، اس مناسبت سے یہاں حمد کے 3فضائل درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن جنت کی طرف سب سے پہلے وہی لوگ بلائے جائیں گے جو ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں ۔( شعب الایمان، الثالث والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۹۰، الحدیث: ۴۳۷۳)
(2)… حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بہترین ذکر’’ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ہے اور بہترین دعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۴)
(3)… حضرت سمرہ بن جند ب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک چار کلمے بہت پیارے ہیں ۔ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر‘‘(مسلم، کتاب الآداب، باب کراہۃ التسمیۃ بالاسماء القبیحۃ وینافع وغیرہ، ص۱۱۸۱، الحدیث: ۱۲(۲۱۳۷))
تکبیر یعنی اللّٰہُ اکبر کہنے کے2 فضائل:
اس آیت کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ کی اچھی طرح بڑائی بیان کرنے کا فرمایا گیا،اس کی مناسبت سے یہاں تکبیر کہنے کے 2فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے ’’اللّٰہُ اکبر‘‘کہا تو اُس کے لئے اِس کے بدلے بیس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اُس کے بیس گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔(مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۱۸۲، الحدیث: ۸۰۹۹)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ (کہنا) آسمان و زمین کے درمیان کی فضا بھر دیتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الدعوات، باب ثواب التسبیح والتحمید۔۔۔الخ، الفصل الثالث، ۱ / ۴۳۴، الحدیث: ۲۳۲۲)
اس کی شرح میں مفتی احمد یا ر خاں نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس (کلمے) کا ثواب اس کی عظمت اُن تمام چیزوں کو بھر دیتی ہے، یہ ہمیں سمجھانے کے لیے ہے کہ ہماری کوتاہ نظریں ان آسمان زمین تک ہی محدود ہیں ،ورنہ رب تعالیٰ کی کبریائی کے مقابل آسمان و زمین کی کیا حقیقت ہے۔(مرآۃ المناجیح، کتاب الدعوات، باب ثواب التسبیح والتحمید۔۔۔ الخ، الفصل الثالث، ۳ / ۳۸۴، تحت الحدیث: ۲۲۱۲)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی حمدو ثنا اور عظمت و بڑائی بیان کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
بچوں کو سکھائی جانے والی آیت:
امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کا نام آیت الْعِزْرکھا ہے اور بنی عبدالمطلب کے بچے جب بولنا شروع کرتے تھے تو ان کو سب سے پہلے یہی آیت ’’قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ‘‘ سکھائی جاتی تھی۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۶۴۰)