سُوْرَۃُ الجِنّ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْۤا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(1)یَّهْدِیْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖؕ-وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے حبیب!تم فرماؤ، میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے(میری تلاوت کو) غور سے سنا تو انہوں نے کہا:بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا۔جو بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہ ٹھہرائیں گے
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے جِنّات کا واقعہ ظاہر فرما دیں اور یہ بات بھی بیان فرما دیں کہ جس طرح وہ انسانوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اسی طرح جِنّات کی طرف بھی مبعوث فرمائے گئے ہیں تاکہ کفارِ قریش کو معلوم ہو جائے کہ جِنّات اپنی سرکشی کے باوجود جب قرآنِ مجید سنتے ہیں تو وہ ا س کے اِعجاز کو پہچان لیتے ہیں اور ا س پر ایمان لے آتے ہیں (جبکہ انسان ہونے کے باوجود ان کی حالت جِنّات سے بھی گئی گزری ہے)، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرمادیں کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ نَصِیْبَینْ کے کچھ جنوں نے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کے مقام پر فجر کی نماز میں میری تلاوت کوغور سے سنا توانہوں نے اپنی قوم میں جا کر کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا جو اپنی فصاحت و بلاغت، مضامین کی خوبی اور معنی کی بلندی میں ایسا نادر ہے کہ مخلوق کا کوئی کلام اس سے کوئی نسبت نہیں رکھتا اور اس کی یہ شان ہے کہ وہ توحید اور ایمان کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس قرآ ن پر ایمان لائے اورآج کے بعد ہم ہرگز کسی کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا شریک نہ کریں گے۔ان جِنّات کی تعداد مفسرین نے 9 تک بیان کی ہے۔( خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴ / ۳۱۶، جلالین، الجن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ص۴۷۶، ملتقطاً)
ان جنوں کا ذکر سورۂ جن کے بعد نازل ہونے والی سورت ’’سورۂ اَحقاف‘‘ میں بھی کیا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَۚ-فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْاۚ-فَلَمَّا قُضِیَ وَ لَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ(۲۹)قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۳۰)یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۳۱)وَ مَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (احقاف:۲۹۔۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے محبوب! یاد کرو) جب ہم نے تمہاری طرف جنوں کی ایک جماعت پھیری جو کان لگا کر قرآن سنتی تھی پھر جب وہ نبی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے توآپس میں کہنے لگے: خاموش رہو (اور سنو) پھر جب تلاوت ختم ہوگئی تووہ اپنی قوم کی طرف ڈراتے ہوئے پلٹ گئے۔ کہنے لگے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہےجو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ہے، حق اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللّٰہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ وہ تمہارے گناہوں میں سے بخش دے گااور تمہیں دردناک عذاب سے بچالے گا۔ اور جو اللّٰہ کے بلانے والے کی بات نہ مانے تووہ زمین میں قابو سے نکل کر جانے والا نہیں ہے اور اللّٰہ کے سامنے اس کا کوئی مددگار نہیں ہے۔وہ کھلی گمراہی میں ہیں ۔
وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا(3)وَّ اَنَّهٗ كَانَ یَقُوْلُ سَفِیْهُنَا عَلَى اللّٰهِ شَطَطًا(4)وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے، اس نے کوئی بیوی اوربچہ نہ بنایا۔اور یہ کہ ہم میں سے کوئی بیوقوف ہی اللہ پر حد سے بڑھ کر بات کہتا تھا۔اور یہ کہ ہم نے یہ خیال کیا تھا کہ آدمی اور جن ہرگز اللہ پر جھوٹ نہ باندھیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا: اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جِنّات نے قرآن سنا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت اور ایمان سے واقف ہوئے تو وہ اس اعتقادی غلطی سے بھی آگاہ ہوگئے جو کافر انسان اور جِنّات اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں کرتے تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کی طرح بیوی اور بچہ مانتے تھے،چنانچہ اِن جِنّات نے قوم کے سامنے کہا کہ ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی شان بہت بلند ہے اور اس نے اپنے لئے کوئی بیوی اوربچہ نہیں بنایا کیونکہ بیوی اور بچے حاجت اور ضرورت کے لئے بنائے جاتے ہیں جبکہ اللّٰہ تعالیٰ تو ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور وہ ایسا بے نیاز ہے کہ اس کے لئے بیوی اور بچے کا تصوُّر تک نہیں کیا جا سکتا اور ہم میں سے کوئی بے وقوف ہی اللّٰہ تعالیٰ پر حد سے بڑھ کرجھوٹی بات کہتا تھا اور اس کیلئے شریک ، اولاد اور بیوی بتاکر بے ادبی کرتا تھا اور ہم نے تو یہ خیال کیا تھا کہ آدمی اور جن ہرگز اللّٰہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھیں گے اور اس پر بہتان نہیں لگائیں گے اس لئے ہم اِن کی اُن تمام باتوں کی تصدیق کرتے تھے جو کچھ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی شان میں کہتے تھے اور ان کی پیروی میں رب تعالیٰ کی طرف بیوی اور بچے کی نسبت کرتے تھے یہاں تک کہ قرآنِ کریم کی ہدایت سے ہم پر ان کا جھوٹ اور بہتان ظاہر ہوگیا۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۳-۵، ۱۰ / ۱۹۰-۱۹۱، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۳-۵، ۴ / ۳۱۶، ملتقطاً)
وَّ اَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ آدمیوں میں سے کچھ مرد جنوں کے کچھ مردوں کی پناہ لیتے تھے تو انہوں نے ان جنوں کی سرکشی کو مزید بڑھا دیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ: اور یہ کہ آدمیوں میں سے کچھ مرد۔} دَورِ جاہلیَّت میں عرب کے لوگ جب سفر کرتے اور کسی چٹیل میدان میں انہیں شام ہو جاتی تو وہ کہتے کہ ہم اس جگہ کے شریر جِنّات سے ان کے سردار کی پناہ چاہتے ہیں ، اس طرح ان کی رات امن سے گزر جاتی ۔انسانوں کے اسی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اِن جِنّات نے اپنی قوم سے کہا کہ آدمیوں میں سے کچھ مرد جنوں کے کچھ مَردوں کی پناہ لیتے تھے اورجب جِنّات نے انسانوں کی یہ حالت دیکھی تووہ سمجھے کہ واقعی ہم میں بہت قدرت ہے کیونکہ مخلوق میں سب سے بہتر یعنی انسان بھی ہمارے حاجت مند ہیں ، انسانوں کے اسی عمل کی وجہ سے جِنّات میں سرکشی بڑھ گئی اور وہ شیطانوں کی پیروی کرنے اور ان کے وسوسے قبول کرنے کی طرف اور زیادہ راغب ہو گئے۔( خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۳۱۶، روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۱۹۱، ملتقطاً)
وَّ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ انہوں نے ویسے ہی گمان کیا جیسا (اے جنو) تم نے گمان کیا کہ اللہ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا(یا،ہر گزکسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہ کرے گا)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ: اور یہ کہ انہوں نے ویسے ہی گمان کیا جیسا (اے جنو) تم نے گمان کیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ ایمان قبول کرنے والے جِنّات نے اپنی قوم کے کافر جِنّات سے کہا کہ اے جنو! انسانوں نے بھی ویسے ہی گمان کیا تھا جیسا کہ تم نے گمان کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ہر گز کوئی رسول نہ بھیجے گا،پھر اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف آخری نبی محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجا تو وہ ان پر ایمان لائے، لہٰذا اے جِنّات کے گروہ ! تم بھی انسانوں کی طرح سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آؤ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے کفارِ قریش! جِنّات بھی تمہاری طرح یہی گمان کرتے تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہرگز کسی کو مرنے کے بعدنہیں اٹھائے گا،پھر جب انہوں نے قرآن سنا تو وہ ہدایت پا گئے اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا اقرار کرنے لگے تو تم جِنّات کی طرح اقرار کیوں نہیں کرتے۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۱۹۲، مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۲۸۸، ملتقطاً)
وَّ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّ شُهُبًا(8)وَّ اَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِؕ-فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا تو اسے پایا کہ سخت پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے بھردیا گیا ہے۔ اور یہ کہ ہم پہلے آسمان میں سننے کے لیے کچھ بیٹھنے کی جگہوں پر بیٹھ جایاکرتے تھے، پھر اب جو کوئی سنے وہ اپنی تاک میں آگ کاشعلہ پائے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ جِنّات نے کہا: ہم نے اپنی عادت کے مطابق آسمان والوں کا کلام سننے کیلئے آسمانِ دنیا پر جانا چاہا تو اسے یوں پایا کہ فرشتوں کے سخت پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے بھردیا گیا ہے تاکہ جِنّات کو آسمان والوں کی باتیں سننے کے لئے آسمان تک پہنچنے سے روکا جائے حالانکہ ہم نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے آسمان میں فرشتوں کی باتیں سننے کے لیے پہرے اور آگ کی چنگاریوں سے خالی کچھ جگہوں پر بیٹھ جایاکرتے تھے، اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے بعد وہ جگہیں بھر دی گئی ہیں لہٰذاب جو کوئی سننے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنی تاک میں ستارے کی صورت میں آگ کاشعلہ پائے گا جس سے اس کومارا جائے۔( تفسیر قرطبی، الجن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۱۰ / ۱۰-۱۱، الجزء التاسع عشر، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۳۱۷، ملتقطاً)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’جن آسمانوں کی طرف چڑھتے اور انتہائی غور سے وحی سنتے اورایک کلمہ سن کر 9کلمے اپنی طرف سے ملالیتے،ایک کلمہ تو حق ہوتا لیکن جو اضافہ کرتے وہ باطل ہوتا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثَت کے بعد انہیں وہاں جانے سے روک دیاگیا،انہوں نے یہ معاملہ ابلیس سے ذکر کیا اور اس سے پہلے انہیں ستاروں سے نہیں مارا جاتا تھا۔ابلیس نے کہا کہ ضرور زمین میں کوئی نیا واقعہ رونماہوا ہے جس کی وجہ سے یہ رکاوٹ آئی ہے ،چنانچہ اس نے اپنا لشکر بھیجا،انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہاڑوں کے درمیان (یا مکہ میں ) نماز پڑھتے ہوئے پایا،پھر ا س لشکر نے ابلیس سے ملاقات کر کے یہ بات اسے بتائی تو ا س نے کہا یہی وہ نئی بات ہے جو زمین میں پیدا ہوئی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الجن، ۵ / ۲۱۵، الحدیث: ۳۳۳۵)
وَّ اَنَّا لَا نَدْرِیْۤ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا زمین میں رہنے والوں سے کسی برائی کا ارادہ فرمایا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اَنَّا لَا نَدْرِیْۤ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ: اور یہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا زمین میں رہنے والوں سے کسی برائی کا ارادہ فرمایا گیا ہے۔} اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ایمان قبول کرنے والے جِنّات کو یہ ڈر ہوا کہ زمین پر رہنے والے بہت سارے لوگ ایمان نہیں لائیں گے،اس پر انہوں نے اپنی قوم سے کہا ’’ہم نہیں جانتے کہ جس قرآن پر ہم ایمان لائے ہیں زمین پر رہنے والے ا س کا انکار کرتے ہیں یا اس پر ایمان لاتے ہیں ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ابلیس نے کہاکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری اس بندش اور روک سے اللّٰہ تعالیٰ نے زمین والوں پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ فرمایا ہے یا ان کی طرف کسی رسول کو بھیجنے کاا رادہ فرمایا ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ جِنّات نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تلاوت سننے سے پہلے آپس میں کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو انسانوں کی طرف بھیج کر ان کے ساتھ برائی کا ارادہ فرمایا گیا ہے یا ان کی بھلائی چاہی گئی ہے کیونکہ اگر لوگ انہیں جھٹلائیں گے تو وہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے سابقہ امتوں کی طرح ہلاک کر دئیے جائیں گے اور اگر ایمان لے آئیں گے تو ہدایت پا جائیں گے۔( تفسیر قرطبی، الجن، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۱۲، الجزء التاسع عشر )
وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَؕ-كُنَّا طَرَآىٕقَ قِدَدًا(11)وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللّٰهَ فِی الْاَرْضِ وَ لَنْ نُّعْجِزَهٗ هَرَبًا(12)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہم میں کچھ نیک ہیں اور کچھ اس کے علاوہ ہیں ، ہم مختلف راہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اور یہ کہ ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم ہر گز زمین میں اللہ کو بے بس نہیں کرسکتے اور نہ (زمین سے) بھاگ کر اسے بے بس کرسکتے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ : اور یہ کہ ہم میں کچھ نیک ہیں ۔} اس آیت کی ایک تفسیریہ ہے کہ ایمان قبول کرنے والے جِنّات نے اپنے ساتھیوں کورسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے بعد ایک دوسرے سے کہا کہ قرآنِ کریم سننے کے بعد ہم میں کچھ مخلص مومن، مُتَّقی اوراَبرار ہیں اور کچھ کامل نیک نہیں ہیں اور ہم مختلف مذاہب کی طرح مختلف اَحوال میں بٹے ہوئے ہیں ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جِنّات نے کہا کہ قرآنِ کریم سننے سے پہلے ہم میں سے کچھ جِنّات طبعی طور پر نیک سیرت ہیں اور دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے میں نیکی اور بھلائی کی طرف مائل ہیں اور کچھ ان کی طرح نیک سیرت نہیں ہیں اور ہم مختلف حالتوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ جِنّات نے کہا کہ قرآنِ کریم سننے سے پہلے ہم میں سے کچھ جِنّات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانے والے اوراللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرنے والے ہیں اور کچھ کافر بھی ہیں اور ہم مختلف دینوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔( تفسیر قرطبی ، الجن ، تحت الآیۃ : ۱۱ ، ۱۰ / ۱۲ ، الجزء التاسع عشر ، جلالین، الجن، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۴۷۶، مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۸۸-۱۲۸۹، ابو سعود، الجن، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۷۷۸، ملتقطاً)
{وَ اَنَّا ظَنَنَّا: اور یہ کہ ہمیں یقین ہوگیا ہے۔} جِنّات نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی آیات میں غورو فکر کرنے کے بعد ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم زمین کے کسی کنارے میں بھی رہ کر اللّٰہ تعالیٰ کو ہمارے بارے میں اپنا ارادہ پورا کرنے سے بے بس نہیں کرسکتے اور نہ زمین سے آسمان کی طرف بھاگ کر اسے بے بس کرسکتے ہیں ۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۱۹۵)
وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدٰۤى اٰمَنَّا بِهٖؕ-فَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّ لَا رَهَقًا(13)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت (قرآن) کو سنا تواس پر ایمان لائے تو جو اپنے رب پر ایمان لائے اسے نہ کسی کمی کا خوف ہو گا اور نہ کسی زیادتی کا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدٰى: اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت (قرآن) کو سنا۔} ایمان قبول کرنے والے جِنّات نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم نے جب اس قرآنِ پاک کوسنا جو سب سے سیدھی راہ دکھاتاہے تو ہم کسی تاخیر اور شک کے بغیر فوراًاس پر اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی تصدیق کر دی تو جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر اور جس قرآن کو اس نے نازل کیا اس پر ایمان لائے تو اسے نیکیوں یا ثواب کی کسی کمی کا خوف ہے اور نہ بدیوں کی کسی زیادتی کا ڈر ہے(تو اے ہمارے ساتھیو! تم بھی ہماری طرح قرآن اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آؤ)۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۱۹۵، قرطبی، الجن، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۰ / ۱۳، الجزء التاسع عشر، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۳، ۴ / ۳۱۷، ملتقطاً)
وَّ اَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَ مِنَّا الْقٰسِطُوْنَؕ-فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓىٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا(14)وَ اَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا(15)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ ہم میں کچھ مسلمان ہیں اور کچھ ظالم تو جو اسلام لائے تو وہی ہیں جنہوں نے ہدایت کا قصد کیا۔اور بہرحال جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کے ایندھن ہوگئے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ: اور یہ کہ ہم میں کچھ مسلمان ہیں ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جِنّات نے کہا: قرآن سننے کے بعد ہم مختلف ہو گئے کہ ہم میں سے کچھ جنوں نے اسلام قبول کر لیا اور کچھ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور راہِ حق سے پھر گئے تو جنہوں نے اسلام قبول کر لیاانہوں نے تو ہدایت کا قصد کیا ، ہدایت اور راہِ حق کو اپنا مقصود ٹھہرایا اوربہرحال جو کافر اور راہِ حق سے پھرنے والے ہیں وہ قیامت کے دن جہنم کے ایندھن ہوں گے اور ان کے ذریعے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔( تفسیرقرطبی،الجن،تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۱۰ / ۱۴، الجزء التاسع عشر، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۴-۱۵، ۴ / ۳۱۷، ملتقطاً)
{ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا: تو وہ جہنم کے ایندھن ہوگئے۔} اِس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر جن جہنم کی آگ کے عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے اور یاد رہے کہ جِنّات اگرچہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ آگ کو آگ کے ذریعے عذاب میں مبتلاء کر دے یا جِنّات کی ہَیئَت تبدیل کر کے انہیں عذاب دے لہٰذا یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب جِنّات آگ سے پیدا کئے گئے ہیں تو انہیں آگ سے عذاب کیسے ہو گا۔( مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۱۲۸۹، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۵، ۴ / ۳۱۷-۳۱۸، ملتقطاً)
وَّ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنٰهُمْ مَّآءً غَدَقًا(16)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ اگر وہ راستے پر سیدھے ہوجاتے تو ضرور ہم انہیں وافرمقدار میں پانی دیتے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِیْقَةِ : اور یہ کہ اگر وہ راستے پر سیدھے ہوجاتے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی امت سے فرمادیں کہ مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر انسان اسلام کے راستے پر سیدھے ہوجاتے اور ایمان لے آتے تو ضرور ہم دنیا میں ان پر رزق وسیع کرتے اور انہیں کثیر پانی اور وُسعتِ عیش عنایت فرماتے۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں ’’ مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ اگر کافر اپنی گمراہی کے راستے پر قائم رہتے تو ہم ان پر اپنا رزق وسیع کر دیتے۔( خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۳۱۸، ابن کثیر، الجن، تحت الآیۃ: ۱۶، ۸ / ۲۵۵، ملتقطاً)
پہلی تفسیر کی نظیر یہ آیاتِ مبارکہ ہیں :
(1)… وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ (مائدہ:۶۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کچھ ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اسے قائم کرلیتے تو انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے قدموں کے نیچے سے رزق ملتا۔
(2)… وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ (اعراف:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اورتقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑ لیا۔
دوسری تفسیر کی نظیر یہ آیاتِ مبارکہ ہیں :
(1)… فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ (انعام:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازےکھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔
(2)… اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ(۵۵) نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِؕ-بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(مؤمنون:۵۵،۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا یہ خیال کررہے ہیں کہ وہ جو ہم مال اور بیٹوں کے ساتھ ان کی مدد کررہے ہیں ۔ تو یہ ہم ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کررہے ہیں ؟ بلکہ انہیں خبر نہیں ۔
لِّنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ مَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ یَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا(17)
ترجمہ: کنزالعرفان
تاکہ اس بارے میں ہم انہیں آزمائیں اور جو اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے تووہ اسے چڑھ جانے والے عذاب میں ڈال دے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِ : تاکہ اس بارے میں ہم انہیں آزمائیں ۔} یعنی ہم ایمان لانے والوں پر رزق ا س لئے وسیع کر دیتے تاکہ اس بارے میں ہم انہیں آزمائیں کہ وہ رزق ملنے پر ہمارا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں اور اس رزق کو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں خرچ کرتے ہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل اور شیطان کی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔( تفسیرکبیر، الجن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۱۰ / ۶۷۲)
وسیع رزق آزمائش بھی ہو سکتا ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو وسیع رزق دیاجانا ان کی آزمائش کے لئے ہے کہ وہ اس رزق کا استعمال کیسا کرتے ہیں لیکن افسوس کہ فی زمانہ اکثرمالدار مسلمان اس آزمائش میں ناکام نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان کی دولت اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں صَرف ہونے کی بجائے اسے ناراض کرنے والے کاموں میں خرچ ہو رہی ہے۔ آخرت کا چَین اور سکون دینے والوں کاموں میں استعمال ہونے کی بجائے ہر طرح کا دُنْیَوی عیش حاصل کرنے میں لگائی جا رہی ہے۔ان کی دولت سے عالیشان مکانات کی تعمیر اور ان میں دنیا کی ہر سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔صرف شوق پورا کرنے کی خاطر دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں اور مسلمان کہلانے والے مالداروں کی طرف سے اپنے نفس کی خواہشات اور شہوت کی تکمیل کے لئے کروڑوں ڈالرلمحوں میں اُڑائے جا رہے ہیں ، ان کی دولت دنیا کی رنگینی سے لطف اندوز ہونے کے لئے دوسرے ممالک کے مہنگے ترین سفر اور دنیا کی حسین ترین عورتوں سے اپنی عیش و نشاط کی بزم سجانے میں صَرف ہو رہی ہے اور یہ لوگ ایک دوسرے پر اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے حرام کاموں میں پانی کی طرح پیسہ بہا دیتے ہیں جبکہ نیک کاموں میں خرچ کرتے وقت انہیں اپنی دولت کم ہونے کا خطرہ رہتا ہے ۔اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:ـ
اَوَ لَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ كَانُوْا مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِی الْاَرْضِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْؕ -وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ (مومن:۲۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا تو دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا؟ وہ پہلے لوگ قوت اور زمین میں چھوڑی ہوئی نشانیوں کے اعتبار سے ان سے بڑھ کر تھے تو اللّٰہ نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب پکڑلیا اور ان کے لئے اللّٰہ سے کوئی بچانے والا نہ تھا۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-هِیَ حَسْبُهُمْۚ-وَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌۙ(۶۸) كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًاؕ-فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْاؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۶۹)اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ‘‘ (توبہ:۶۸۔۷۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ (جہنم) انہیں کافی ہے اور اللّٰہ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ (اے منافقو!) جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے قوت میں زیادہ مضبوط اور مال اور اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنے (دنیا کے) حصے سے لطف اٹھایا تو تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھا لو جیسے تم سے پہلے والوں نے اپنے حصوں سے فائدہ حاصل کیا اور تم اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے جیسے وہ بیہودگی میں پڑے تھے۔ ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں ۔ کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی؟ ان کے پاس بہت سے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللّٰہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔
اے کاش!دولت مند مسلمان اپنی عملی حالت پر غور کرکے اسے سدھارنے کی کوشش کریں اور اللّٰہ تعالیٰ کا دیا ہو امال ا س کی نافرمانی میں خرچ کرنے کی بجائے صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرنے کی طرف راغب ہوجائیں ۔اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فر مائے،اٰمین۔
{وَ مَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ: اور جو اپنے رب کی یاد سے منہ پھیرے۔} یعنی جو قرآنِ پاک سے یا اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرنے سے یا اس کی عبادت کرنے سے منہ پھیرے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے چڑھ جانے والے عذاب میں ڈال دے گا جس کی شدت دم بدم بڑھتی ہی جائے گی۔(مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۱۲۸۹، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۳۱۸، ملتقطاً)
اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ پھیرنے والے کا انجام:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر سے منہ پھیرے ا س کا انجام انتہائی دردناک ہے ،ایسے شخص کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵) قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَاۚ-وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰى‘‘(طہ:۱۲۴۔۱۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھنے والاتھا؟ اللّٰہ فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے چھوڑ دیا جائے گا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْاۚ-فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ‘‘(مائدہ:۹۱،۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: شیطان تویہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض و کینہ ڈال دے اور تمہیں اللّٰہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو؟ اور اللّٰہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانواور ہوشیار رہو پھر اگر تم پھر جاؤ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر تو صرف واضح طور پرتبلیغ فرما دینا لازم ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی یاد میں مصروف رہنے اور اپنا ذکر کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا(18)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ: اور یہ کہ مسجدیں اللّٰہ ہی کی ہیں ۔} یعنی میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو مکان (بطورِ خاص) نماز ادا کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بنائے گئے ہیں ان کا مالک اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا اے مسلمانو! جب تم ان مسجدوں میں جاؤ تو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے گرجاؤں اور عبادت خانوں میں شرک کرتے تھے۔( خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۱۸، ۴ / ۳۱۸، جلالین، الجن، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۷۷، ملتقطاً)اس آیت کو لے کر بعض جاہل لوگ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ پکارنے کو حرام قرار دیتے ہیں حالانکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تو مسجد میں عین حالت ِ نماز میں پکارا جاتا ہے جب اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ کہا جاتا ہے۔آیت میں پکارنے سے مراد معبود بنا کر پکارنا ہے، نہ کہ کسی بھی طرح کسی کو بھی پکارنا منع ہوجائے۔
آیت ’’وَ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)…وقف اور احترام کے احکام میں تمام مسجدیں برابر ہیں اگرچہ بعض مَساجد میں نماز ادا کرنے پر ملنے والے اجرو ثواب میں فرق ہے۔
(2)…مسجد خاص اللّٰہ تعالیٰ کی ہے اور ا س کے علاوہ کسی کی مِلک ہے نہ ہو سکتی ہے ۔
(3)… شرک و بت پرستی ہر جگہ جرم ہے لیکن مسجدمیں زیادہ جرم ہے کہ اس میں مسجد کی بے ادبی ہے ۔
وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ كَادُوْا یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِ لِبَدًا(19)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کرنے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ جن اس پر ہجوم کر دیتے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ: اور یہ کہ جب اللّٰہ کا بندہ اس کی عبادت کرنے کھڑا ہوا۔} یعنی میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کے بندے محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نخلہ کے مقام پر فجر کے وقت میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو قریب تھا کہ وہ جن قرآن سننے کیلئے رش کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر چڑھ جائیں کیونکہ انہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت، تلاوت اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے قیام،رکوع اور سجود میں آپ کی اقتداء انتہائی عجیب اورپسندیدہ معلو م ہوئی،اس سے پہلے انہوں نے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا اور نہ ہی ایسا بے مثل کلام سنا تھا۔( مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۱۲۹۰، جلالین، الجن، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۷۷، ملتقطاً)
قُلْ اِنَّمَاۤ اَدْعُوْا رَبِّیْ وَ لَاۤ اُشْرِكُ بِهٖۤ اَحَدًا(20)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں تو اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اِنَّمَاۤ اَدْعُوْا رَبِّیْ: تم فرماؤ: میں تو اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں ۔} کفارِ مکہ نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ بے شک آپ بہت بڑا حکم لے کر آئے ہیں ،آپ اس سے رجوع کرلیں تو ہم آپ کو بچالیں گے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ میں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا اور یہ کوئی ایسا نیا اور ناپسندیدہ کام نہیں ہے جس کی وجہ سے تم تعجب کر رہے ہو۔( خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۲۰، ۴ / ۳۱۹، ابو سعود، الجن، تحت الآیۃ: ۲۰، ۵ / ۷۸۰، ملتقطاً)
قُلْ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا(21)قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ﳔ وَّ لَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا(22)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ:بیشک میں تمہارے لئے کسی نقصان اورنفع کا مالک نہیں ہوں ۔تم فرماؤ:یقینا ہرگز مجھے اللہ سے کوئی نہ بچائے گا اور ہرگز اس کے سوا کوئی پناہ نہ پاؤں گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ عرب کے ان مشرکین سے فرما دیں جو آپ کی نصیحت آپ کی طرف پھیر رہے ہیں کہ میں تمہارے کسی دینی اور دُنْیَوی نفع نقصان کا مالک نہیں کیونکہ ان چیزوں کا (حقیقی) مالک وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو ہر چیز کا مالک ہے۔( تفسیر طبری، الجن، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۲ / ۲۷۴)
{قُلْ: تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ بالفرض اگر میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤں توہرگز مجھے مخلوق میں سے کوئی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے قہر اور ا س کے عذاب سے نہ بچاسکے گا اور نہ ہی کوئی مددگار میری مدد کرے گااور میں سختیوں کے وقت ہرگز اس کے سوا کوئی پناہ نہ پاؤں گا۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۰ / ۱۹۹، تفسیر طبری، الجن، تحت الآیۃ: ۲۲، ۱۲ / ۲۷۴، ملتقطاً)
حضرت نوح اور حضرت صالح عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اپنی قوموں سے اسی طرح فرمایا تھا، چنانچہ جب حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ جواب دیا:
’’وَ یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ‘‘(ہود:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کردوں تو مجھے اللّٰہ سے کون بچائے گا؟ تو کیاتم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
اورحضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا:
’’یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ‘‘(ہود:۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطا فرمائی ہو تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچائے گا؟
اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِسٰلٰتِهٖؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاﭤ(23)
ترجمہ: کنزالعرفان
مگر (میرا کام) اللہ کی طرف سے تبلیغ اور اس کے پیغامات (پہنچانا ہے) اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم نہ مانے تو بیشک اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِسٰلٰتِهٖ: مگر اللّٰہ کی طرف سے تبلیغ اور اس کے پیغامات پہنچانا ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مشرکین سے فرمادیں کہ میں تمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں البتہ میرا کام یہ ہے کہ میں تمہیں ان چیزوں کی تبلیغ کردوں جن کی تبلیغ کرنے کا مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور تم تک اللّٰہ تعالیٰ کے وہ پیغامات پہنچا دو ں جو ا س نے مجھے دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے اور جہاں تک ہدایت اور گمراہی کا تعلق ہے تو اس کا اختیار مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں بلکہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے ، وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے اور جو توحید کے معاملے میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی یوں نافرمانی کرے گا کہ انہوں نے جس چیز کا حکم دیااور جس چیز کی طرف بلایا اس پر عمل کرنے کی بجائے شرک کرنے لگے تو بیشک ان کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔( تفسیرطبری،الجن،تحت الآیۃ:۲۳، ۱۲ / ۲۷۴-۲۷۵، روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۲۳، ۱۰ / ۱۹۹-۲۰۰، ملتقطاً)
حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّ اَقَلُّ عَدَدًا(24)
ترجمہ: کنزالعرفان
یہاں تک کہ جب وہ اسے دیکھیں گے جس کی انہیں وعید سنائی جاتی تھی توجلدجان جائیں گے کہ کس کا مددگار کمزور ہے اور کس کی تعدادکم ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ: یہاں تک کہ جب وہ اسے دیکھیں گے جس کی انہیں وعید سنائی جاتی تھی۔} یعنی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ جب (قیامت کے دن) اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے تواس وقت جان جائیں گے کہ کافر کے مددگار کمزور ہیں نیز یہ کہ ان کے مددگاروں کی تعدادکم ہے یا مومن کے؟ مراد یہ ہے کہ اس دن کافر کا کوئی مددگار نہ ہوگا اور مومن کی مدد اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے سب فرمائیں گے۔ (مدارک، الجن، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۲۹۰)
قیامت کے دن کافروں اور مسلمانوں کا حال:
قیامت کے دن کفار کا کوئی مددگار ہونے اور کسی کی طرف سے ان کی شفاعت نہ کئے جانے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُ‘‘(مومن:۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔
اوراس دن ایمان والوں کو ملنے والی عزت، کرامت اور کثرت بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے: ’’جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘(رعد:۲۳،۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میںوہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو لائق ہوں گے اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس یہ کہتے آئیں گے۔ تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخر ت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ(۵۵) هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ (۵۶)لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّ لَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَۚۖ(۵۷) سَلٰمٌ- قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ‘‘(یس:۵۵۔۵۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جنت والے آج دل بہلانے والے کاموں میں لطف اندوز (ہو رہے) ہوں گے۔ وہ اور ان کی بیویاں تختوں پر تکیہ لگائے سایوں میں ہوں گے۔ ان کے لیے جنت میں پھل میوہ ہوگا اور ان کے لیے ہر وہ چیز ہوگی جووہ مانگیں گے۔ مہربان رب کی طرف سے فرمایا ہوا سلام ہوگا۔
قُلْ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَهٗ رَبِّیْۤ اَمَدًا(25)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: میں نہیں جانتا کہ جس کی تمہیں وعید سنائی جاتی ہے وہ نزدیک ہے یا میرا رب اس کے لئے ایک وقفہ کرے گا۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} شانِ نزول:جب مشرکین نے اوپر والی آیت میں دئیے گئے وعدے کوسنا تو نضر بن حارث نے کہا کہ جس کا آپ ہمیں وعدہ دے رہے ہیں یہ کب پورا ہوگا؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں کہ (قیامت کے دن) اس عذاب کا واقع ہونا تو یقینی ہے البتہ میں (اللّٰہ تعالیٰ کے بتائے بغیر) یہ نہیں جانتا کہ وہ نزدیک ہے یا میرا رب عَزَّوَجَلَّ اسے نازل کرنے کے لئے ایک وقفہ کرے گا۔( تفسیرکبیر، الجن، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱۰ / ۶۷۸)
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بتانے سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم ہے اور ا س کی دلیل وہ تمام اَحادیث ہیں جن میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قیامت کی علامت اور نشانیاں بیان فرمائیں حتّٰی کہ مہینہ ،دن اور وہ وقت بھی بتا دیا جس میں قیامت قائم ہو گی۔
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا(26)اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا(27)
ترجمہ: کنزالعرفان
غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو اطلاع نہیں دیتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{عٰلِمُ الْغَیْبِ: غیب کا جاننے والا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ’’اللّٰہ تعالیٰ غیب کا جاننے والا ہے تو وہ اپنے اُس غیب پر جس کا علم اس کے ساتھ خاص ہے ،اپنے پسندیدہ رسولوں کے علاوہ کسی کو کامل اطلاع نہیں دیتا جس سے حقیقتِ حال مکمل طور پر مُنکشف ہو جائے اور ا س کے ساتھ یقین کا اعلیٰ درجہ حاصل ہو (اور رسولوں کو) ان میں سے بعض غیوب کا علم، کامل اطلاع اور کشفِ تام کے ساتھ اس لئے دیتا ہے کہ وہ علمِ غیب ان کے لئے معجزہ ہو اور اللّٰہ تعالیٰ ان رسولوں کے آگے پیچھے پہرے دار فرشتے مقرر کر دیتا ہے جو شیطان کے اِختلاط سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔(بیضاوی، الجن، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۵ / ۴۰۲، جمل، الجن، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۸ / ۱۴۰، ملتقطاً)
اولیاء کے لئے غیب کا علم نہ ماننے والوں کا رد:
معتزلہ فرقے کے لوگوں نے اس آیت سے اولیاء کے لئے علم ِغیب ماننے سے انکار کیا ہے ۔علامہ سعد الدین تفتازانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی کتاب’’ شرح مقاصد‘‘ میں باطل فرقے’’معتزلہ‘‘ کی جانب سے اولیاء کی کرامات سے انکار اور ان کے فاسد شُبہات کا ذکر کر کے ان کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ معتزلہ کی پانچویں دلیل خاص علمِ غیب کے بارے میں ہے، وہ گمراہ کہتے ہیں کہ اولیاء کو غیب کا علم نہیں ہوسکتا کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر مسلط نہیں کرتا۔ مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو۔
جب غیب پر اطلاع رسولوں کے ساتھ خاص ہے تو اولیاء کیونکر غیب جان سکتے ہیں ۔ائمہ اہلسنّت نے جواب دیا کہ یہاں غیب عام نہیں جس کے یہ معنی ہوں کہ کوئی غیب رسولوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتا جس سے مُطْلَقاً اولیاء کے علومِ غیب کی نفی ہوسکے، بلکہ یہ تو مُطْلَق ہے (یعنی کچھ غیب ایسے ہیں کہ غیرِ رسول کو نہیں معلوم ہوتے) یا اس سے خاص وقوعِ قیامت کا وقت مراد ہے (کہ خاص اس غیب کی اطلاع رسولوں کے سوا اوروں کو نہیں دیتے) اوراس پر قرینہ یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں غیب ِقیامت ہی کا ذکر ہے۔ (تو آیت سے صرف اتنا مطلب نکلا کہ بعض غیبوں یا خاص قیامت کے وقت کی تعیِین پر اولیاء کو اطلاع نہیں ہوتی نہ یہ کہ اولیاء کوئی غیب نہیں جانتے، اس پر اگر یہ شُبہ قائم ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ تو رسولوں کا اِستثناء فرمارہا ہے کہ وہ ان غیبوں پر مُطّلع ہوتے ہیں جن کو اور لوگ نہیں جانتے اب اگر اس سے قیامت کے وقت کی تعیین مراد لیں تو رسولوں کا بھی اِستثناء نہ رہے گا کہ یہ تو اُن کو بھی نہیں بتایا جاتا۔ اس کا جواب یہ فرمایا کہ) فرشتوں یا انسانوں میں سے بعض رسولوں کو قیامت کے وقت کی تعیین کا علم ملنا کچھ بعید نہیں تو یہاں اللّٰہ تعالیٰ کا اِستثناء فرمانا ضرور صحیح ہے۔( شرح مقاصد،المقصد السادس،الفصل الاول،المبحث الثامن: الولی، ۳ / ۳۲۹،۳۳۰، فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۷۵-۴۷۶)
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی جن کرامات کا تعلق کشف کے ساتھ ہے ان کی نفی پر اس آیت میں کوئی دلیل نہیں البتہ یہ (ضرورثابت ہوتا) ہے کہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غیب پر اطلاع اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی غیب پر اطلاع سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وحی کے ذریعے غیب جانتے ہیں اوروہ ہر نقص سے معصوم ہے جبکہ اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی اطلاع کا یہ مقام نہیں ، اسی لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عصمت واجب ہے اور اولیاء رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عصمت جائز ہے۔( صاوی، الجن، تحت الآیۃ: ۲۶، ۶ / ۲۲۵۶)
علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ اولیاء کو بھی اگرچہ غیوب پر اطلاع دی جاتی ہے مگر انبیاء کا علم باعتبارِ کشف و اِنجلاء (یعنی غیب کی باتوں کو ظاہر کرنے کے اعتبار سے) اولیاء کے علم سے بہت بلند وبالا واَرفع و اعلیٰ ہے اور اولیاء کے علوم انبیاء ہی کے وَساطت اور انہی کے فیض سے ہوتے ہیں ، معتزلہ ایک گمراہ فرقہ ہے وہ اولیاء کیلئے علمِ غیب کا قائل نہیں ،اس کا خیال باطل اور احادیثِ کثیرہ کے خلاف ہے اور اس آیت سے ان کا تَمَسّک (یعنی دلیل پکڑنا) صحیح نہیں ،بیانِ مذکورہ بالا میں اس کا اشارہ کردیا گیا ہے، سیّدُ الرُّسُل خاتَم الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرتضیٰ رسولوں میں سب سے اعلیٰ ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو تمام اَشیاء کے علوم عطا فرمائے جیسا کہ صحاح کی معتبر اَحادیث سے ثابت ہے اور یہ آیت حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے اور تمام مرتضیٰ رسولوں کیلئے غیب کا علم ثابت کرتی ہے۔(خزائن العرفان، الجن، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۱۰۶۲)
لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَیْهِمْ وَ اَحْصٰى كُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا(28)
ترجمہ: کنزالعرفان
تا کہ اللہ دیکھ لے کہ بیشک انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے ہیں اور اللہ نے وہ سب کچھ گھیر رکھا ہے جو ان کے پاس ہے اور اس نے ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھی ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِیَعْلَمَ: تا کہ دیکھ لے۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے پسندیدہ رسولوں کی ہر طر ف فرشتوں کا یہ پہرہ اس لئے لگایا جاتا ہے تا کہ اللّٰہ تعالیٰ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات اِختلاط سے محفوظ رکھ کر پہنچا دئیے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کووہ سب کچھ معلوم ہے جو ان رسولوں اور فرشتوں کے پاس ہے تو ان کے اُمور میں سے کوئی چیز بھی اللّٰہ تعالیٰ سے مخفی نہیں اور اس نے اپنی پیدا کی ہوئی ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھی ہے ۔( روح البیان، الجن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱۰ / ۲۰۲، خازن، الجن، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۲۰، ملتقطاً)