سُوْرَۃُ الجُمُعَة
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اس اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو بادشاہ، نہایت پاکی والا، بہت عزت والا، بڑا حکمت والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{یُسَبِّحُ لِلّٰهِ: اللّٰہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔} یعنی آسمانوں اور زمین میں موجود تمام چیزیں اس اللّٰہ تعالیٰ کی ہر نقص و عیب سے پاکی بیا ن کرتی ہیں جس کی شان یہ ہے کہ وہ حقیقی بادشاہ ،انتہائی پاکی والا ،عزت والا اور حکمت والا ہے۔
تسبیح کی تین اَقسام
تسبیح تین طرح کی ہے۔
(1)…خَلقت کی تسبیح۔وہ یہ ہے کہ ہر شے کی ذات اور اس کی پیدائش خالق و قدیر رب تعالیٰ کی قدرت ، حکمت ، اس کی وحدانیّت اورہر نقص و عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
(2)… معرفت کی تسبیح ۔وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مخلوق میں اپنی معرفت پیدا کردے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرے ۔
(3)…ضروری تسبیح ۔ وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر ایک جَوہَر پر اپنی تسبیح جاری فرماتا ہے اور معرفت کے بغیر ہی ہر جَوہَر یہ تسبیح کرتا ہے ۔( مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۳۹، ملخصاً)
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(2)
ترجمہ: کنزالعرفان
وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔} ارشاد فرمایاکہ وہی اللّٰہ ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کے نسب و شرافت کو وہ اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں ،ان کا نامِ پاک محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے،وہ ان کے سامنے قرآنِ مجید کی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں جن میں رسالت، حلال و حرام اور حق و باطل کا بیان ہے ،انہیں باطل عقیدوں ،مذموم اَخلاق، دورِ جاہلیّت کی خباثتوں اور قبیح اَعمال سے پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت(یعنی قرآن ،سنت اور فقہ یا شریعت کے اَحکام اور طریقت کے اَسرار) کا علم عطا فرماتے ہیں اور بیشک لوگ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے کہ شرک ،باطل عقائد، اور خبیث اَعمال میں گرفتار تھے اور انہیں کامل مرشد کی شدید حاجت تھی۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۶۴، مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۳۹، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت’’ نبی اُمّی ‘‘کی3 وجوہات
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک صفت ’’نبی اُمّی ‘‘ہے ،اس کی بہت سی وجوہات ہیں ، یہاں اس کی تین وجوہات ملاحظہ ہوں :
(1)…آپ اُمت ِاُمِیّہ کی طرف معبوث ہوئے ۔کتاب شعیاء میں ہے، اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ میں اُمِیّوں میں ایک اُمّی بھیجوں گا اور اس پر نبوت ختم کردوں گا۔
(2)… آپ کی بِعثَت اُمُّ القُریٰ یعنی مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
(3)…حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لکھتے اور کتاب سے کچھ پڑھتے نہ تھے اور یہ آپ کی فضیلت تھی کہ علم انتہائی یاد ہونے کی وجہ سے اس کی حاجت نہ تھی ۔خط ایک ذہنی صنعت ہے جو کہ جسمانی آلہ سے صادر ہوتی ہے، تو جو ذات ایسی ہو کہ قلمِ اعلیٰ اس کے زیرِ فرمان ہو اُس کو اِس کتابت کی کیا حاجت؟ پھر حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کتابت نہ فرمانا اور(پھر بھی) کتابت کا ماہر ہونا ایک عظیم معجزہ ہے، آپ کاتِبوں کو لکھنے کا علم اور کتابت کے طریقے تعلیم فرماتے ،پیشہ وروں کو پیشوں کی تعلیم دیتے ہیں حتّٰی کہ دنیا و آخرت کے ہر کمال میں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوق سے زیادہ علم والا بنایا ہے۔( خزائن العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۰۲۳، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں
فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بس قسم کھائیے اُمّی تری دانائی کی
آیت’’هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں
(1) … دل کی پاکی حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہِ کرم سے ملتی ہے ، ایمان اور اَعمال پاکی کے اَسباب ہیں ۔
(2)… قرآن وحدیث آسان نہیں کہ ہر کوئی محض اپنی عقل سے سمجھ لے ورنہ ان کی تعلیم کے لئے حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ بھیجے جاتے ۔
(3)… ہدایت کے لئے حدیث کی بھی ضرورت ہے۔
(4)… قرآنِ مجید کومحض اپنی عقل سے نہ سمجھا جائے بلکہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیم سے سمجھا جائے، ورنہ گمراہ ہو جائیں گے۔
(5)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں کسی کے شاگرد نہیں کیونکہ آپ کی تشریف آوری کے وقت عام لوگ جاہل تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں ،
ایسا اُمّی کس لئے منت کَشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں
وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(3)ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(4)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ان سے(بعد والے)دوسرے لوگوں کو( بھی یہ رسول پاک کرتے اور علم دیتے ہیں ) جو ان(موجودہ لوگوں ) سے ابھی نہیں ملے اور وہی بہت عزت والا، بڑا حکمت والا ہے۔یہ اللہ کا فضل ہے وہ اسے جسے چاہے دے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ: اور ان سے(بعد والے) دوسرے لوگوں کو۔} اس آیت کا تعلق پہلے والی آیت کے ساتھ ہے اور اس میں مزید ایسے افراد کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں ۔یاد رہے کہ اُمِّیُوں میں سے دوسرے لوگوں سے مراد یا تو عجمی ہیں یا وہ تمام لوگ مراد ہیں جو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے اور اگلوں سے نہ ملنے سے مراد یہ ہے کہ ان کا زمانہ نہیں پایا بلکہ ان کے بعد آئے ۔( مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۳۹، خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۶۴)
دوسرے لوگوں سے عجمی مراد ہونے پر یہ حدیث ِپاک دلالت کرتی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرسورۂ جمعہ نازل ہو ئی اس وقت ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر تھے، جب آپ نے یہ آیت ’’وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ‘‘ تلاوت فرمائی توایک شخص نے عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جو اگلوں کے ساتھ ابھی نہیں ملے وہ کون لوگ ہیں ؟آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کوئی جواب نہ دیاحتّٰی کہ اس نے دویاتین بارعرض کی،اس وقت ہم میں حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پرہاتھ رکھ کرفرمایا:اس ذات کی قسم جس کے دست ِقدرت میں میری جان ہے ،اگردین ثُرَیّا(ستارے)کے پاس بھی ہوتوفرزندانِ فارس وہاں جائیں گے اور دین کو حاصل کرلیں گے ۔( مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل فارس، ص۱۳۷۸، الحدیث: ۲۳۰-۲۳۱(۲۵۴۶))
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیض صرف صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ تک مَوقوف نہیں بلکہ تا قیامت رہے گا، لوگ ان کی نگاہِ کرم سے پاک و صاف ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے،علم سیکھتے ہیں اور سیکھتے رہیں گے ۔
{ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ: یہ اللّٰہ کا فضل ہے ۔} یعنی رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کی امت کی فضیلت کے بارے میں جو ذکر کیا گیا یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے ، وہ جسے چاہے یہ فضل عطا فرمائے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بڑے فضل والا ہے کہ اُس نے اِن کی ہدایت کیلئے اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا۔( صاوی، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۲۱۶۳، خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۶۵، ملتقطاً)
مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاؕ-بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(5)
ترجمہ: کنزالعرفان
جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا پھر انہوں نے اس کا بوجھ نہ اٹھایاان لوگوں کی مثال گدھے کی مثال جیسی ہے جو کتابیں اٹھائے ہو،ان لوگوں کی کیا ہی بری مثال ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ: ان کی مثال جن پر تورات رکھی گئی تھی ۔} اس سے پہلے والی آیات میں بیان فرمایا گیا کہ حضورِ اقد س صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُمِّیُوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ،یہودیوں نے اس پر یہ شُبہ پیش کیا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف عرب والوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں ہماری طرف مبعوث نہیں ہوئے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہاں ان کی ایک مثال بیان فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن پر توریت کے احکام کی پیروی کرنا لازم کیا گیا،پھر انہوں نے توریت پر عمل نہ کر کے اس ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھایا اوراس میں مذکور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت دیکھنے کے باوجود آپ پر ایمان نہ لائے،ان لوگوں کی مثال گدھے جیسی ہے جو پیٹھ پرکتابیں اٹھائے اور بوجھ کے سوااُن سے کچھ بھی نفع نہ پائے اور جو علوم ان کتابوں میں ہیں ان سے اصلاً واقف نہ ہو، یہی حال ان یہودیوں کا ہے جو توریت اُٹھائے پھرتے ہیں ، اس کے الفاظ رٹتے ہیں لیکن اس سے نفع نہیں اُٹھاتے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ۔اُن لوگوں کی کیا ہی بری مثال ہے جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو اس کے علم میں ظالم ہیں ۔( تفسیرکبیر،الجمعۃ،تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۵۳۹، خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۶۵، مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۲۴۰، ملتقطاً)
یہودیوں کو گدھے سے تشبیہ دینے کی وجوہات:
اس آیت میں یہودیوں کو کسی اور جانور کی بجائے گدھے سے تشبیہ دی گئی ،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گھوڑے اور خچرکی بہ نسبت گدھے پرزیادہ بوجھ لاداجاتاہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ گدھے میں جہالت اورحماقت کامعنی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت زیادہ پایاجاتا ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ عرف میں بھی دوسرے جانوروں کے مقابلے میں گدھے کوحقیرسمجھاجاتاہے ۔( تفسیر کبیر، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۱۰ / ۵۴۰، ملخصاً)
قرآنِ مجید کو نہ سمجھنے اور اس پر عمل نہ کرنے والوں کی مثال:
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت میں توریت پر عمل نہ کرنے والے یہودیوں کی جو مثال بیان کی گئی یہ ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو قرآنِ کریم کے معانی کو نہ سمجھیں اور اس پر عمل نہ کریں اور اس سے اِعراض کریں ۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۲۶۵) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھنے کی کوشش کرے اور ا س کے دئیے ہوئے اَحکام پر عمل کرے تاکہ اس پر یہ مثال صادق نہ آئے۔
علم پر عمل نہ کرنے کی 5وعیدیں :
یہاں علم پر عمل نہ کرنے کی 5وعیدیں بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب پانے والا وہ عالِم ہو گا جسے اس کے علم نے کوئی نفع نہ دیا۔( معجم صغیر، باب الطائ، من اسمہ: طاہر، ص۱۸۲، الجزء الاول)
(2)…حضرت ولید بن عقبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اہل ِجنت میں سے کچھ لوگ اہل ِجہنم کے کچھ لوگوں کو دیکھ کر کہیں گے :تم جہنم میں کیوں داخل ہوئے حالانکہ ہم جنت میں اسی علم کے ذریعے داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے ہی سیکھا تھا؟ وہ کہیں گے :ہم جو کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۱، الحدیث: ۹۹)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا ’’اے عویمر!اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب قیامت کے دن تم سے کہا جائے گا:تو نے علم حاصل کیا تھا یا جاہل رہے؟ اگر تو نے یہ جواب دیا کہ میں نے علم حاصل کیا تھا تو تم سے پوچھا جائے گا:تو نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟اگر تو نے کہا :میں جاہل رہا،تو تم سے کہا جائے گا:جاہل رہنے میں تمہارا عذر کیا تھا ؟تم نے علم کیوں نہ حاصل کیا؟( ابن عساکر، حرف المیم، ۸۷۹۳- ابو محمد الکلبی، ۶۷ / ۱۸۱)
(4)…حضرت حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو علم حاصل نہ کرے اور اس آدمی کے لئے بھی ہلاکت ہے جو علم حاصل کرے پھر ا س پر عمل نہ کرے ۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الثانی، ۵ / ۸۶، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۹۰۳۶)
(5)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے تم پر ہر علم والے منافق کا خوف ہے جو کلام حکمت والا کرے گا اور عمل گناہوں پر کرے گا۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الثانی، ۵ / ۸۶، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۹۰۴۰)
قُلْ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ هَادُوْۤا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِیَآءُ لِلّٰهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ :اے یہودیو!اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ صرف تم اللہ کے دوست ہودوسرے لوگ نہیں ،تو ذرا مرنے کی تمنا کرواگر تم سچے ہو ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ هَادُوْا: تم فرماؤ :اے یہودیو!۔} یہودی کہتے تھے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ، اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک آخرت کا گھر خالص ہمارے لئے ہے اور جنت میں صرف یہودی ہی جائیں گے ۔اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ ان کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے ان سے فرما دیں : اے یہودیو! تمہیں یہ گمان ہے کہ دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف تم اللّٰہ تعالیٰ کے دوست ہو ،اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہوتو مرنے کی آرزو کرو تاکہ موت تمہیں اس تک پہنچا دے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے دوستوں کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے۔(روح البیان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۹ / ۵۱۸، خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۲۶۵، ملتقطاً)
وَ لَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(7)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اُن اعمال کے سبب جو اُن کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ اَبَدًا: اور وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے ۔} یعنی یہودیوں نے جو کفر کیا اور رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا اس کی وجہ سے یہ کبھی موت کی آرزو نہیں کریں گے ۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبر تھی جو سچی ثابت ہوئی کہ آیت میں جن یہودیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے انہوں نے ہرگز موت کی تمنا نہیں کی۔
موت کی تمنا کرنے کا شرعی حکم:
اَحادیث میں موت کی تمنا کرنے سے منع کیا گیا ہے ،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے نیک شخص تو اس لئے کہ شاید وہ مزید نیکیاں کرلے اور گناہگار اس لئے کہ شاید وہ توبہ کرلے۔( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۳)
اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے کوئی نہ موت کی آرزو کرے، نہ اس کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا عمل ختم ہوجائے گا اور مومن کی عمر بھلائی ہی بڑھاتی ہے ۔( مسلم، کتاب الذکر والدعائ۔۔۔ الخ، باب کراہۃ تمنّی الموت لضر نزل بہ، ص۱۴۴۱، الحدیث: ۱۳(۲۶۸۲))
البتہ اگر مجبوری میں موت کی آرزو کرنی ہی پڑے تو حدیث ِپاک میں اس کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے ،چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ تم میں سے کوئی آئی ہوئی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، پھر اگر کرنی ہی پڑ جائے تو یوں کہے:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دے ۔( بخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ حدیث گزشتہ(دونوں ) اَحادیث کی شرح ہے کہ بیماری و آزاری سے گھبراکرموت نہ مانگے اورجس طریقہ سے دعا کی اجازت دی گئی ہے نہایت ہی پیارا طریقہ ہے کیونکہ اس خیروشرمیں دین و دنیا کی خیروشرشامل ہے گویا موت کی تمنا کہہ بھی لی مگر قاعدے سے۔(مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل، ۲ / ۴۲۱، تحت الحدیث: ۱۵۱۳)یعنی مقصد بھی پورا ہوگیا اور ممانعت کے حکم پر بھی عمل ہوگیا۔
مزید فرماتے ہیں :موت کی آرزو اچھی بھی ہے اور بری بھی،اگر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دیدار کے لیے یا دنیاوی فتنوں سے بچنے کے لیے موت کی تمناکرناہے تو اچھاہے اور اگر دُنْیَوی تکالیف سے گھبرا کرتمنائے موت کرے تو برا(ہے)۔( مراٰۃ المناجیح، جنازوں کا باب، باب موت کی آرزو اور اس کا ذکر، پہلی فصل، ۲ / ۴۲۰)
{وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ: اور اللّٰہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔} اس آیت میں ظالم سے مراد کافر ہے یعنی اللّٰہ تعالیٰ کافروں کو خوب جانتا ہے اور وہ انہیں سخت سزا دے گا۔
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِیْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(8)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: بیشک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو پس وہ ضرور تمہیں ملنے والی ہے پھر تم اس کی طرف پھیرے جاؤ گے جو ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال بتادے گا ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ: تم فرماؤ: بیشک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو ۔} یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،آپ ان یہودیوں سے فرما دیں :اپنے کفر کے وبال کی وجہ سے تم جس موت سے بھاگتے ہواس سے کسی طرح نہیں بچ سکتے ،بے شک وہ ضرور تمہیں آنے والی ہے اور یہ بھاگنا تمہیں کوئی نفع نہ دے گا ، پھر مرنے کے بعد تم اس اللّٰہ تعالیٰ کی طرف پھیرے جاؤ گے جو ہر غیب اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور ا س سے تمہارا کوئی حال چھپا ہوانہیں ہے ، پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال بتادے گا (کہ تم نے دنیا میں کیا اعمال کئے تھے اوروہ تمہیں ان اعمال کی سزا دے گا)۔( تفسیر کبیر، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۵۴۱، روح البیان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۹ / ۵۱۹-۵۲۰، ملتقطاً)
قیامت کے دن اعمال بتائے جانے کی3 صورتیں :
یاد رہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو اعمال بتا دئیے جانے کی مختلف صورتیں ہوں گی،ان میں سے تین صورتیں درج ذیل ہیں :
(1)…اعمال نامے دکھا کر اعمال بتا دئیے جائیں گے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا‘‘(کہف:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو( لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈررہےہوں گے اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔
(2)…انسان کے اَعضاء ا س کے اعمال کی گواہی دیں گے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(النور:۲۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘(یس:۶۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔
(3)…زمین لوگوں کے اعمال بیان کر دے گی،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ(۴) بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا‘‘(زلزال:۴،۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔اس لیے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالعرفان
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کیلئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ: اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کیلئے اذان دی جائے ۔} اس آیت سے نمازِجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں ۔یہاں اس آیت سے متعلق تین باتیں ملاحظہ ہوں :
(1)… اس آیت میں اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔
(2)…دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کیلئے تیاری شروع کردو اورذِکْرُ اللّٰہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد ہے۔
(3)… اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیّت،خرید و فروخت وغیرہ دُنْیَوی مَشاغل کی حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا ۔( خزائن العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۲۵، ملخصاً)
جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ :
عربی زبان میں اس دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اورسب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۵)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ َکا پہلا جمعہ:
سیرت بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اَصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۶)
روزِ جمعہ کے4 فضائل :
کثیر اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،یہاں ان میں سے 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸(۸۵۴))
(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
(3)…حضرت ابو لبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں :(1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا۔ (2) اسی میں انہیں زمین پر اُتارا۔ (3) اسی میں انہیں وفات دی۔ (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5)اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین ،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، ۲ / ۸، الحدیث: ۱۰۸۴)
(4)…حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا،اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر، ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۶۲۹)
جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:
جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ خاص طور پر دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث نمبر3 میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اس میں ایک ساعت ہے،جو مسلمان بندہ اسے پائے اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۱ / ۳۲۱، الحدیث: ۹۳۵)
یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں ،ان میں سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، ۱ / ۷۵۴، ملخصاً)
نمازِ جمعہ کے2 فضائل:
اَحادیث میں جمعہ کی نماز کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،یہاں ان میں سے دو فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے لَغْوْ کیا۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص۴۲۷، الحدیث: ۲۷(۸۵۷)) یعنی خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی لَغْوْ میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اُسے ہٹا دے۔
(2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۳ / ۱۹۱، الجزء الرابع، الحدیث: ۲۷۶۰)
جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں
اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ یہاں اس کی دووعیدیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵))
(2)…حضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے وہ منافقین میں لکھ دیاگیا۔( معجم الکبیر، مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۰، الحدیث: ۴۲۲)
نماز ِ جمعہ کی فرضیّت کی شرائط اور دیگر مسائل کیلئے بہارِ شریعت کامطالعہ فرمائیں ۔
نمازِ جمعہ کی فرضیت سے متعلق3 شرعی مسائل:
یہاں نمازِ جمعہ کی فرضیت سے متعلق 3شرعی مسائل ملاحظہ ہوں :
(1)…جمعہ فرضِ عین ہے اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل فقہیہ، ۱ / ۷۶۲)
(2)… جمعہ پڑھنے کے لئے 6شرطیں ہیں ،ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو جمعہ ہو گا ہی نہیں ،(1)جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ شہر یا فنائِ شہر ہو۔ (2)جمعہ پڑھانے والاسلطانِ اسلام ہویا اس کا نائب ہو جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ (3)ظہر کا وقت ہو۔یعنی ظہر کے وقت میں نماز پوری ہو جائے ،لہٰذا اگر نماز کے دوران اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا،اب ظہر کی قضا پڑھیں ۔(4) خطبہ ہونا۔(5)جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مَردوں کا ہونا۔ (6)اذنِ عام،یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے ،کسی کو روک ٹوک نہ ہو ۔
(3)…جمعہ فرض ہونے کے لئے 11شرطیں ہیں ،اگر ان میں سے ایک بھی نہ پائی گئی تو جمعہ فرض نہیں ،لیکن اگر پڑھے گا تو ادا ہو جائے گا۔(1)شہر میں مقیم ہونا،(2)صحت،یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ،مریض سے مراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جا سکتا ہو،یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہو گا۔ (3)آزاد ہونا،(4)مرد ہونا،(5)عاقل ہونا، (6)بالغ ہونا،(7)آنکھوں والا ہونا،یعنی نابینا نہ ہو،(8)چلنے پر قادر ہونا،(9)قید میں نہ ہونا(10)بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا،(11)اس قدر بارش،آندھی،اولے یا سردی نہ ہوناکہ ان سے نقصان کا صحیح خوف ہو۔
نوٹ:جمعہ سے متعلق شرعی مسائل کی مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار شریعت،جلد 1،حصہ4سے ’’جمعہ کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں ۔
{ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ: یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔} یہاں بہتری سے مراد لُغوی بہتری ہے یعنی دنیاوی کاروبار سے نمازِ جمعہ اور خطبہ وغیرہ بہتر ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حاضری واجب نہ ہو، صرف مستحب ہو۔
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(10)
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اوراللہ کا فضل تلاش کرو اوراللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ: پھر جب نماز پوری ہوجائے۔ } یعنی جب نماز پوری ہو جائے تو اب تمہارے لئے جائز ہے کہ معاش کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ یا علم حاصل کرنے ،مریض کی عیادت کرنے ،جنازے میں شرکت کرنے ، علماء کی زیارت کرنے اور ان جیسے دیگر کاموں میں مشغول ہو کر نیکیاں حاصل کرو اور نماز کے علاوہ بھی ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کیا کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۶۸، مدارک، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۴۱، ملتقطاً)
وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَاﰳ انْفَضُّوْۤا اِلَیْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىٕمًاؕ-قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(11)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا تواس کی طرف چل دیئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ گئے تم فرماؤ: جو اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین روزی دینے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوًا: اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا ۔} شانِ نزول:حضرت جابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے دن کھڑے (ہوکرجمعہ کاخطبہ ارشاد فرمارہے) تھے کہ اچانک مدینہ طیبہ میں ایک تجارتی قافلہ آپہنچا (دستور کے مطابق اعلان کیلئے طبل بجایا گیا)تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب اس کی طرف چل دئیے حتّٰی کہ 12 آدمیوں کے سوامسجد میں کوئی بھی باقی نہ بچا۔ میں ، حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اورحضرت عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان بارہ افراد میں شامل تھے ۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔( مسلم،کتاب الجمعۃ،باب فی قولہ تعالی:واذا رأوا تجارۃ او لہونا انفضوا الیہا۔۔۔الخ،ص۴۲۹،الحدیث:۳۸(۸۶۳))
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جب انہوں نے کسی تجارت کے بارے میں جانا یا کھیل کے بارے میں سنا تواس کی طرف چل دیئے اورآپ کو خطبے کی حالت میں منبر پر کھڑا چھوڑ گئے ،آپ ان سے فرمادیں : جونماز کا اجر و ثواب اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر رہنے کی برکت و سعادت ہے جو درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ بہترین روزی دینے والا ہے اس لئے تم اسی کی طرف چلو اور اسی سے رزق طلب کرو۔( روح البیان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۹ / ۵۲۸)
یاد رہے کہ جب یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت بہت تنگی اور مہنگائی کا دورتھا اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اس خیال سے چلے گئے تھے کہ کہیں اَجناس ختم نہ ہو جائیں اور وہ انہیں پانے سے رہ جائیں ،اور ایسے حالات میں اس طرح ہونا ایک فِطری امر ہے نیز اس آیت کے نزول سے پہلے اِس طرح کے فعل سے کہیں منع بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ اِس آیت کے ذریعے حکم نازل کیا گیا تو حکم کے نزول سے پہلے ایسا کرنا کوئی گناہ نہیں تھا ، اسی لئے ا س آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی مذمت نہیں فرمائی بلکہ تربیت فرمائی ہے کہ ایسا کرنا ان کی شان کے لائق نہیں ،لہٰذا ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔