سُوْرَۃُ الكَافِرُون
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ(1)لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ(2)وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ(3)وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ(4)وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُﭤ(5)لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ(6)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ! اے کافرو!۔میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو۔اور تم اس کی عبادت کرنے والے نہیں جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔اور نہ میں اس کی عبادت کروں گا جسے تم نے پوجا ۔اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ: تم فرماؤ! اے کافرو!۔} شانِ نزول :قریش کی ایک جماعت نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے دین کی پیروی کیجئے ہم آپ کے دین کی پیروی کریں گے۔ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’اس بات سے اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ کہ میں اس کے ساتھ ا س کے غیر کو شریک کروں ۔کفارکہنے لگے: تو آپ ایسا کیجئے کہ ہمارے کسی معبود کو ہاتھ ہی لگادیجئے ہم آپ کی تصدیق کردیں گے اور آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ اس پر یہ سورئہ مبارکہ نازل ہوئی اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ َمسجد ِحرام میں تشریف لے گئے ،وہاں قریش کی وہ جماعت موجود تھی جس نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے یہ گفتگو کی تھی۔ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ سورت انہیں پڑھ کر سنائی تو وہ مایوس ہوگئے اور انہوں نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اَذِیَّتیں پہنچانا شروع کر دیں ۔ یاد رہے کہ اس آیت میں وہ کفار مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں ایمان سے محروم تھے اور کفر پر ہی مرنے والے تھے۔( خازن، قل یا ایّہا الکافرون، ۴ / ۴۱۷-۴۱۸)
سورہِ کافرون کے شانِ نزول سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… کفار سے دینی صلح حرام بلکہ کئی صورتوں میں کفر ہے۔
(2)… کفار کے بتوں اور ان کے مذہبی اَیّام کی قابل ِتعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا کفر ہے۔
(3)… مومن کے دل میں کفار کی ہیبت نہیں ہونی چاہیے۔
(4)…کفار کو شرعی عذر کے بغیر اچھے القاب سے یاد نہ کیا جائے۔
(5)… کافر کو بوقت ِ ضرورت موقع محل کی مناسبت سے کافر کہنا درست بلکہ اسلوب ِ قرآنی کے موافق ہے۔
{وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ: اور نہ میں اس کی عبادت کروں گا جسے تم نے پوجا ۔} اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں : (1) انسان دُنْیَوی معاملات میں نرم ہو، مگر دین میں انتہائی مضبوط ہو،تا کہ کفار اس سے مایوس ہوں ۔(2) حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اپنے مستقبل کی خبر تھی کہ وہ کبھی کفر ،شرک اور فسق نہیں کرسکتے۔(3) مسلمان کو چاہیے کہ اپنے بارے میں کفار کو مایوس کر دے کہ وہ اسے دین سے پھیر سکیں ۔
{وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ: اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔} اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو لوگوں کے اچھے برے خاتمہ کی خبر دی ہے کہ کون کفر پر مرے گا اور کسے ایمان پر موت آئے گی کیونکہ یہاں کلام ان کفار سے ہو رہا ہے جو کفر پر مرنے والے تھے۔
{لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ: تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔} یعنی تمہارے لئے تمہاراکفر اور میرے لئے میری توحید اور میرا اخلاص ہے۔اس کلام سے مقصود کفار کو ڈرانا ہے نہ کہ ان کے کفر سے راضی ہونا ۔( خازن، الکافرون، تحت الآیۃ: ۶، ۴ / ۴۱۸)